11 Jan 2019

west or invest

ویسٹ یا انویسٹ
محمد یاسین جہازی
واٹس ایپ: 9871552408
وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں نیند مراد نہیں ہے، کیوں کہ سونا خریدا جاسکتا ہیجب کہ وقت بکاؤ نہیں ہوتا؛ زندگی کا جولمحہ نکل گیا،آپ اس کو کبھی واپس نہیں لاسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کی قدرو قیمت پر جب بھی ہم لیکچر دیتے ہیں یا سنتے ہیں، تو اس قول زریں کا اعادہ ضرور کرتے یا سنتے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت انمول ہے۔ 
اپنی زندگی کو وقت پر تقسیم کریں، تو اس کے تین اہم حصے ہوتے ہیں:
(۱) بچپن: اس کے لمحات میں ہم خود نہیں؛ بلکہ ہمارے بڑے ہمارے لیے ایکٹیو کردار ادا کرتے ہیں، اور اس توقع سے کرتے ہیں کہ یہ بچے ہی ہمارے پیسیو لائف ، یعنی بڑھاپے کے سہارے ہیں۔ بذات خود ہمارے لیے نہ تو ایکٹیو لائف ہوتی ہے اور نہ ہی پیسیو لائف۔
(۲) جوانی: اس میں ہم اپنے لیے بھی، اپنے متعلقین کے لیے بھی اور مستقبل کے لیے بھی زندگی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دراصل ہماری زندگی کا یہی حصہ سب سے محبوب ترین حصہ ہوتا ہے اورحسین مستقبل کے لیے پیش خیمہ بھی یہی موقع ہوتا ہے۔کیوں کہ اسی میں حال و مستقبل کی زندگی کے لیے ایکٹیو اور پیسیو دونوں کردار ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 
ہر ایک شخص کے لیے زندگی اور اس کی لوازمات کے لیے دو کردار ہوتے ہیں: ایک کو ایکٹیو کہا جاتا ہے اور دوسرے کو پے سیو۔ ایکٹیو کا مطلب ہوتا ہے کہ جو وہ خود کر رہا ہے ، یا جس سے خود گزر رہا ہے۔ جب کہ پے سیو کا مفہوم یہ ہے کہ بذات خود آپ نہ کر رہے ہوں، البتہ اس کا فائدہ آپ کو ملتا رہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی جگہ ملازمت کر رہے ہیں، تو یہ آپ کا ایکٹیو ورک ہے۔ اس کی تنخواہ آپ کو اسی وقت تک ملتی رہے گی، جب تک آپ ملازمت کرتے رہیں گے۔ ملازمت ختم ہوتے ہی آپ کی تنخواہ بھی بند ہوجائے گی۔ لیکن آپ بزنس شروع کرتے ہیں، اور آپ کے ماتحت بہت سارے اسٹاف کام کرتے ہیں، تو آپ بذات خود کام کریں یا نہ کریں، اس کا فائدہ آپ کو ملتا رہے گا ، اسے پے سیو ارننگ (جاری کمائی) کہا جاتا ہے۔ 
یہ جو جوانی کا وقت ہے ، یہ ایکٹیو اور پے سیو دونوں کردار کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے؛ اگرآپ جوانی کو ان دونوں کردار کے لیے انویسٹ (سرمایہ کاری) کرتے ہیں، تو بالیقین ہمارے سنہری مستقبل کی ضمانت کا اشاریہ ہوگا، لیکن اس کے بجائے ہم جوانی کو ویسٹ( ضائع) کردیں گے، تو زندگی کے تیسرے اور آخری مرحلہ (بوڑھاپے) میں پریشان رہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ 
(۳) بوڑھاپا: زندگی کا یہ حصہ دراصل اپنے کرموں کا پھل پانے،یا بھگتنے کا دور ہوتا ہے۔ اس دور میں طاقت کم اور ضروریات بڑھ جاتی ہیں، اس لیے ہمارے لیے درس عبرت یہی ہے کہ ہم اپنی سابقہ زندگی میں ایکٹیو اور پے سیو دونوں معاشی نظام سے جڑ کر انویسٹ کا کردار ادا کریں۔ بصورت ویسٹ جرم ضعیفی کی سزامحرومی، مجبوری اورمرگ مفاجات ہی ہوگی۔ 
ایک دوسری حیثیت سے غور کیجیے، تو ہماری تخلیق سے آخری منزل تک بھی تین مراحل ہیں: عالم دنیا، عالم برزخ اور عالم آخرت۔ پہلی منزل میں اگر ہم اپنی زندگی کے لمحات کو نیک کاموں میں انویسٹ کریں گے اور خلاق عالم کی مرضیات کو پانے کے لیے ایکٹیو و پے سیو دونوں کردار ادا کریں گے،تو بالیقین دوسری زندگی میں سکون و راحت ملے گی اور آخرت میں جنت ہمارا مقدر ہوگا۔ لیکن اگر ہم اس کے برخلاف زندگی گذاریں گے، تو ہم دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بڑے خسارے میں رہیں گے؛ کیوں کہ یہی فلسفہ حیات کی آفاقی سچائی ہے۔ بقول شاعر 
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت سے نہ نوری ہے نہ ناری ہے
درج بالا حقیقتوں کی روشنی میں خود کا جائزہ لیتے ہوئے بتائیے کہ آپ کو خود انویسٹ کر رہے ہیں ؟ ۔۔۔ یاویسٹ۔۔۔؟۔ 

4 Jan 2019

Yasmin bint Md Yasin Jahazi

تثلیث حیات
(4جنوری 2016 یعنی یوم پیدائش یاسیمین بنت محمد یاسین جہازی کے لیے ایک خصوصی تحریر)
محمد ابو یاسمین جہازی

آج مورخہ ۴؍ جنوری ۲۰۱۹ء کو میری بٹیا: یاسمین تین سال کی ہوگئی ہے۔ناچیز کا وطن اصلیضلع گڈا کا ایک مشہور علمی گاوں جہاز قطعہ ہے، لیکن وطن خدمت و معیشت دہلیہے۔ ان دونوں وطنوں میں آمد ورفت کل بھی زندگی کے تسلسل کا حصہتھا اور آج بھی ہے؛ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ کل کی زندگی میں بے شعور زبان جدائی کا احساس نہیں دلاتی تھی ، جب کہ آج ایک ننھی پری، لاشعور عشق اور بے ربط زبان ہمہ وقت تار احساس کو چھیڑتے ہوئے کہتی ہے کہ ابو کہاں ہو۔۔۔، میرے ابو دکھتے کیوں نہیں ہے۔۔۔۔
حالیہ آخری مرتبہ گھر سے آٹو سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تھا، اس معصوم دل و نگاہ نے اس منظر کو کچھ اس طرح قید کرلیا ہے کہ جب بھی کسی گاڑی کی آواز دیکھتی یا سنتی ہے، تو اس لاشعور کے تحت الشعور میں چھپی ہوئی شیفتگی تتلی زبان کی ترجمان بن کر پکار اٹھتی ہے کہ ۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو ۔۔۔ پھر جب وہ آواز اور منظر غائب ہوجاتا ہے تو اس کی آنکھ انتظار کی پتھراہٹ سے چور ہوکرآنسووں سے سکون حاصل کرلیتی ہے۔
اس کی امی کا موبائل کسی کی یاد آوری کا اعلان کرتا ہے، تو اس سادہ ذہن کی پہلی تخلیق یہی ہوتی ہے کہ ۔۔۔ ابو، ۔۔۔ ابو۔ ایک مرتبہ آنگن میں کھیل رہی تھی ، فون کی گھنٹی بجی، تو امی نے آواز دیتے ہوئے کہا کہ آؤ دیکھو ابو آگئے۔ یہ سننا تھا کہ اس کی بے زبان محبت بے قرار ہوگئی اور کھیل چھوڑ کر دروازے پر چلی گئی اور آواز دینے لگی کہ ۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو کہاں ہو، ہر چند کہ اس کی امی نے سمجھایا کہ ابو دروازے پر نہیں، فون میں آئے ہیں، لیکن نادان عشق کسی نصیحت سے متاثر ہوتا ہے کیا۔۔۔؛ بالآخر نہیں ہوا۔ جب جب بار بار سمجھایا گیا کہ ابو موبائل میں ہے، تو اگلا ری ایکشن یہ تھا کہ ’ میں بھی موبائل میں داخل ہوں گی۔۔۔ ۔
راقم نہ تو کسی کی پیدائش منانے کا قائل ہے اور نہ ہی وفات پر جشن چراغاں کا معتقد؛ البتہ جب کوئی بے لوث محبت پکارتی ہے، تو عشق کو مچلنے و تڑپنے سے روکنا فطرت کے خلاف بغاوت ہی ہوگی، اس لیے یہ سطریں سیاہ جملے نہیں؛ فطرت کی آواز ہیں، اور آج کی یہ تاریخ اسی کی صدائے بازگشت۔ اور آخر ایسا کیوں کر نہ ہو۔۔۔کیوں کہ ۔۔۔
اولاد والدین کی روح کی بکھری ہوئی بیتابی ہے۔
اولاد نئی رگوں میں خون کی جولانی کا عنوان ہے۔
اولاد خون رگ فردا کی پیکر حال ہے ۔
اولادشوق خستگی کی تازہ دمی ہے۔
اولادخفی تخلیق کی جلی روح ہے۔
اولادحسن و عشق کا جذبہ خود افزائی کیمعصوم پیکر ہے۔
اولادکی جہد نمو جنگ مسلسل کی تفسیر ہے ۔
اولاد:راحت ہم سفری، ہم قدمی کا مجسمہ ہے
اولاد گرہ رشتہ پیمان وفا ہے۔
اور اس کی نشو نما کا انداز سفر ہمیشہ پیش نظر رہتا ہے
اس سفر کا آغاز4 جنوری 2016 رات کے 11 بج کر 33 منٹ پر ہوا ، اور یاسمین موسوم ہوئی۔آج تاریخ کے اسی لمحہ پر خوشی و شادمانی کا جو احساس ہورہا ہے، اس میں آپ کو بھی شرکت کی دعوت دیتے ہوئے پرویز شاہدی کی نظم تثلیث حیات کے چند منتخب بند اس مہمان کے تین سال پورے ہونے پر اس کی نذر کرتے ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کی پرورش و پرداخت میں ہمیں کمی و کوتاہی سے محفوظ رکھے اور دین کی داعیہ کا کردار ادا کرنے والی بنے۔ اللھم آمین یا رب العالمین۔
(1)
انگلیاں میری ہیں، لب میرے ہیں، آنکھیں میری
میری پیشانی کا ٹکڑا تری پیشانی ہے
ننھی ننھی یہ بھنویں تیری ہیں یا میری ہیں
تیری رگ رگ میں مرے خون کی جولانی ہے
دست و پا میں جو یہ کیفیت سیمابی ہے
میری ہی روح کی بکھری ہوئی بیتابی ہے
(02)
تجھ کو اپنے ہی خدوخال تری ماں نے دیے
اپنا شاداب چمکتا ہوا چہرہ بخشا
خلوت بطن میں ہر طرح سنوارا تجھ کو 
پیکر حال کو خون رگ فردا بخشا
تجھ کو بخشی ہے تری ماں نے لطافت اپنی
دیکھتی ہے ترے آئینے میں صورت اپنی
(03)
گرہ رشتہ پیمان وفا تیرا وجود
تجھ سے مضبوط ہوا عہد محبت اپنا
ہاتھ میں ہے مرے دل کے دلِ محبوب کا ہاتھ
کتنا بشاش ہے احساس رفاقت اپنا
خستگی شوق کی اب تازہ دمی تک پہنچی
راحتِ ہم سفری ہم قدمی تک پہنچی
(04)
ماں نے موسم کے بدلتے تیور بھانپے
انگلیوں نے مری، کیں نبضِ ہوا سے باتیں
ایک لمحہ بھی نہ چپکے سے گزرنے پایا
دن تو دن آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹی ہیں راتیں
آج کی طرح تمنا کبھی بیدار نہ تھی
اتنی دلچسپ تو کل وقت کی رفتار نہ تھی
(05)
گرچہ ہے سخت بہت معرکہ نشو و نما
مامتا صرف سپر ہی نہیں، تلوار بھی ہے 
میری شفقت بھی تری جہد بقا میں ہے شریک
دل جری ہی نہیں، کچھ واقف پیکار بھی ہے
ذہن میں سلسلہ شام و سحر رہتا ہے
تیرا اندازِ سفر پیش نظر رہتا ہے
(06)
یہ تضاداتِ مسلسل، یہ ستیزِ پیہم
یہ تصادم، یہ ہم آویزی اضداد حیات
ساز سے یہ رم آواز، یہ ربط آواز
زندگی کا یہ تسلسل، یہ تغیر، یہ ثبات
روح تخلیق خفی کو بھی جلی کرتی ہے
ہے یہ ثابت کہ نفی اپنی نفی کرتی ہے
(07)
نفی و اثبات کے تاروں کا مسلسل ٹکراؤ
زندگی کی جدلی زمزمہ پروازی ہے
کائنات اتنی خوش آہنگ جو آتی ہے نظر
عمل و رد عمل ہی کی نوا سازی ہے
حسن معنی ہے یہی، جلوہ صورت ہے یہی
نغمہ ہی نغمہ ہے، ہر شئی کی حقیقت ہے یہی
(08)
حسن اور عشق کا یہ جذبہ خود افزائی ہی 
اک نئے پیکرِ معصوم میں ڈھل جاتا ہے
اسی پیکر سے ابھرتا ہوا نقشِ تثلیث
اپنی وسعت میں جہاں ساز نظر آتا ہے
محفل حسن و محبت اسی تثلیث میں ہے
جلوہ گر شاہدِ فطرت اسی تثلیث میں ہے
(09)
کتنی دلکش ہے خوش امکانی تثلیث حیات
اس کی فطرت ہے خود افراز و خود آرا ہونا
وسعت جلوہ سے ہے حسن کی تکمیلِ شباب
قسمتِ ذرہ ہے آئینہ صحرا ہونا
زندگی مست و غزل خواں ہے خود آرائی ہے
ہر کلی جانِ گلستاں ہے خود آرائی ہے
(10)
باپ، ماں، بچے کی فطری سہ رخی وحدت سے
کنبے انسانوں کی تثلیث کی صورت پھیلے
کثرت آرائی فطرت کا یہی مقصد ہے
حسن دنیا میں پھلے پھولے، محبت پھیلے
اور ابھی روشنی مہر مبیں پھیلے گی
گود میں لے کے ستاروں کو زمیں پھیلے گی
(11)
تیری معصوم صدا سے مترنم ہے شعور
علم و حکمت کو بھی موسیقی جذبات ملی
دھڑکنیں دل کی خوش آوازی افکار بنیں
ذہن کو بربط احساس کی سوغات ملی
سازِ ادراک میں نغموں کا تلاطم ہے آج
عقلِ بے لحن ترنم ہی ترنم ہے آج
(12)
سرو قد مجھ کو نظر آتے ہیں ننھے پودے
بڑھ رہا ہے مرا دل بھی ترے قامت کے ساتھ
سامنے آنکھوں کے رہتے ہیں کروڑوں نغمے
جیسے ہر پھول کھلے گا تری صورت کے ساتھ
تجھ سے اے جانِ پدر! میں نے نظر پائی ہے
ساری دنیا مرے پہلو میں سمٹ آئی ہے
(13)
تیری سانسوں سے پگھل کر مرے اعصاب کا موم
سختی آہن و فولاد کو شرماتا ہے
جب ترے ننھے سے پیکر کو اٹھالیتا ہوں
بار آلام سبک مجھ کو نظر آتا ہے
ہے کھلونا غمِ دنیا، مجھے معلوم نہ تھا
میرے بازو ہیں توانا، مجھے معلوم نہ تھا
(14)
رخِ امروز پہ کیوں ہو غم فردا کا غبار
حال کو میرے مبارک ترا ماضی ہونا
نیستی میرے تصور میں نہیں آسکتی
تری ہستی کو ہے بڑھ کر مری ہستی ہونا
تو مری روح، مرا جسم، مرا دل ہے
تیرے چہرے سے درخشاں مرا مستقبل ہے
(15)
ائے مرے پیکرِ نو! ائے مری روحِ پیکار!
پرچم عزم مرا اب تجھے لہرانا ہے
میری آواز نہیں میرے لبوں تک محدود
تیرے ہی ہونٹوں سے کل مجھ کو رجز گانا ہے
ہے تری جہدِ نمو جنگِ مسلسل میری
تیری تکمیل میں ہے فتح مکمل میری
آئیے دعا کریں کہ اللہ ہر ایک والدین کے لعل کو لمبی عمر عطا فرمائے، آمین۔

3 Jan 2019

teen talaq se pahle atharah mosalahati farmole

تین طلاق سے پہلے اٹھارہ مصالحتی فارمولے
محمد یاسین جہازی
9871552408


(۱) میاں بیوی کی آپسی مصالحت۔ پہلے دونوں خود اپنا مسئلہ حل کریں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۲)بیوی کو نصیحت۔ شوہر بیوی کو سمجھائے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۳) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۴)بیوی کی ہلکی سرزنش کرے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۵)سرپرست حضرات صلح کرائیں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۶) میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم صلح کرائیں۔
اگر کارگر نہ ہوتو ایک طلاق دے
اگر یہ چھے طریقے بھی کارگر نہ ہوں تو :
بیوی کی اصلاح کے لیے اس پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دے، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر سدھر جائے، تو رجوع کرلے اور محبت بھری زندگی گذارے۔ 
پھر کبھی دس پانچ سال بعد زندگی میں اختلاف ہوجائے، تو اسی طرح کرے، یعنی: 
(۷) پہلے دونوں خود اپنا مسئلہ حل کریں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۸) شوہر بیوی کو سمجھائے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۹) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۰)بیوی کی ہلکی سرزنش کرے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۱)سرپرست حضرات صلح کرائیں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۲) میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم صلح کرائیں۔
اگر کارگر نہ ہوتو دوسری طلاق دے۔
اگر یہ چھے طریقے دوسری بار بھی کارگر نہ ہوں توبیوی کی اصلاح کے لیے اس پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق (نمبر دو) دے، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر سدھر جائے، تو رجوع کرلے اور محبت بھری زندگی گذارے۔ 
اگر دس پانچ سال بعد پھر اختلاف ہوجائے، تو اسی طرح کرے، یعنی: 
(۱۳) پہلے دونوں خود اپنا مسئلہ حل کریں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۴)۔ شوہر بیوی کو سمجھائے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۵) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۶)بیوی کی ہلکی سرزنش کرے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۷)سرپرست حضرات صلح کرائیں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۸) میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم صلح کرائیں۔
اگر کارگر نہ ہوتو
چوں کہ اٹھارہ مرتبہ مصالحتی کوشش کے باوجود اختلاف تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، اس لیے 
پاکی کی حالت میں تیسری طلاق دیدے۔
تین طلاق پورے ہونے کے بعد نہ اب لڑکے کو اختیار رہے گا کہ عدت کے اندر پھر رجوع کرکے عورت کو زندگی کو جہنم بنائے ۔ اور نہ لڑکی کے لیے گنجائش ہے کہ جس مرد نے اس کو دو دو مرتبہ اسے زندگی سے نکالنے کی کوشش کی، پھر تہ بارہ اسی کی زندگی کی زینت بنے ۔ اب لڑکا بھی کسی دوسری عورت سے شادی کرکے اپنی زندگی کی دوسری شروعات کرے اور لڑکی بھی کسی دوسرے شریک سفر کو اپنا ہم سفر بناکر خوشگوار زندگی گذارے۔ 
حلالہ کی حقیقت
تیسری طلاق دینے کے بعد مرد کو تو بالکل اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لائے، کیوں کہ اگر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی ہے، پھرتو مردبالکل نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگرطلاق کے بعد کسی کی زوجیت میں نہیں گئی ہے، تو بھی مرد نکاح نہیں کرسکتا، کیوں جس مرد کو قانون فطرت نے طلاق کے مرحلے سے پہلے پہلے اٹھارہ مرتبہ موقع دیا اور اس کے باوجود بھی اس عورت کی قدر نہیں کی، تو اب تین طلاق دینے کے بعد یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مرد ہی اس عورت کے قابل نہیں ہے۔ 
لیکن اگر عورت ہی کی یہ خواہش ہے کہ چلو جیسا بھی تھا، ہم نے زندگی کی شروعات اس کے ساتھ کی تھی ، تو اختتام بھی اسی کے ساتھ کریں گے، تو صرف عورت کے لیے شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ تم پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرو، پھر اس کے ساتھ بھی زندگی اتنی دوبھر ہوجائے کہ مذکورہ بالااٹھارہ مصالحتی کوششیں ناکام ہوجائیں اور تیسری طلاق تک نوبت آجائے اور تیسری طلاق دیدے، تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہو۔ اسی کو شریعت میں حلالہ کہاجاتا ہے۔ تو گویا حلالہ کوئی نکاح نہیں، بلکہ معاملہ کو سلجھانے کے ایک پروسیس کا نام ہے، جو صرف اور صرف عورت کا حق و اختیار ہے۔ 
اگر معاملہ الٹا ہے
درج بالا تمام طریقوں میں مرد کو مخاطب بنایا گیا ہے جو بیوی سے پریشان ہے، لیکن اگر معاملہ الٹا ہو، یعنی شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن بیوی ہی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو ایسا نہیں ہے کہ عورت مرد کی زندگی سے بالکل بھی آزاد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خلع کی پیشکش کرے، یعنی شوہر سے کچھ مال کے عوض میں طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر منظور کرلے گا، تو بذریعہ خلع طلاق واقع ہوجائے گی۔ 
اب بتائیے اتنے مبنی بر فطرت قانون کے بعد بھی طلا ق پر قانون بنانے کی ضرورت ہے!!!

2 Jan 2019

طلاق:لیگل ریفارم نہیں؛ سوشل ریفارم کی ضرورت ہے
شریعت کے مطابق بارہ مصالحتی مراحل سے گذرنے کے بعد ہی تین طلاق تک معاملہ پہنچتا ہے
محمد یاسین جہازی
9871552408
پارلیمنٹ میں طلاق پر ہوئی حالیہ بحث برائے نتیجہ خیز قانون بنانے کے لیے اس تحریر میں مکمل ہدایت موجود ہے
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاسلام سے پہلے کے نکاح کے طریقے
دین فطرت آنے سے پہلے لوگوں میں پانچ قسم کے نکاح رائج تھے: 
(۱) شرعی اسلامی طریقہ۔ 
(۲) نکاح ’ استبضاع‘ یعنی موجودہ نیوگ ۔ 
(۳) ایک عورت سے گروپ سیکس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچہ کا نسب مقرر کرنے کی مجلس منعقد کرکے۔ 
(۴)موجودہ دورکی طوائف کی طرح (بخاری، کتاب النکاح،باب من قال لا نکاح الا بولی)
(۵) متعہ۔ ( موجودہ دور کی لیونگ ان ریلیشن شپ کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے)
اسلام نے درج بالا تمام شرمناک طریقوں پر پابندی لگادی اور صرف پہلا طریقہ جائز و برقرار رکھا۔(بخاری، کتاب النکاح،باب نھی رسول اللہ ﷺ عن نکاح المتعۃ اخیرا)
اسلام سے پہلے طلاق 
کچھمذاہب میں نکاح اٹوٹ بندھن ہوتا ہے، اس لیے جب ایک لڑکی کو دان میں دے کر اس کا کنیہ دان کردیا جاتا ہے، تو پھر اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔البتہ کچھ لوگوں میں طلاق رائج تھی۔تفسیر عثمانی میں ہے کہ 
’’اسلام سے پہلے دستور تھا کہ دس بیس جتنی بار چاہتے، زوجہ کو طلاق دیتے، مگرعدت کے ختم ہونے سے پہلے رجعت کرلیتے۔ پھر جب چاہتے طلاق دیتے اوررجعت کرلیتے۔ اور اس صورت سے بعض شخص عورتوں کو اسی طرح بہت ستاتے ، اس واسطے یہ آیت اتری ۔۔۔ (البقرۃ،آیت نمبر: ۲۲۹)
اسلامی ہدایت
طلاق و عدت کے بارے میں اصولی ہدایت یہ ہے کہ مرد و عورت کے درمیان جو رشتہ قائم ہوگیا ہے، اسے ہمیشہ برقرار رکھے اور اس رشتہ محبت پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دے۔ لیکن اگر بتقاضائے بشریت ، یہ رشتہ نفرت و تلخی میں بدل جائے تو اس کی اصلاح کے لیے تین پروسیس ہیں:
پہلا پروسیس
(۱) سب سے پہلے ، میاں بیوی خود مل کر اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کریں اور آپس میں کچھ ٹرم اینڈ کنڈیشن طے کرکے رشتہ کو دوبارہ بحال کریں۔
دوسرا پروسیس 
(۲) لیکن اگر یہ نہ ہوپائے اور دونوں کسی مشترک اور متحدہ پوائنٹ پر جمع نہ ہوسکیں، تو پھر لڑکے کے لیے تین صورتیں ہیں: 
(۱) سب سے پہلے عورت کو سمجھائے بجھائے۔ اگر اس سے معاملہ ٹھیک ہوجاتا ہے تو بہت بہتر ہے۔ اگر نہیں ہوتا ہے تو پھر دوسرا طریقہ یہ اختیار کرے کہ 
(۲) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ یہ عورت کے لیے انتہائی دشوار مرحلہ ہوتا ہے اور بالعموم عورتیں نافرمانی سے باز آجاتی ہیں، لیکن اگر معاملہ اس سے بھی زیادہ بگڑ چکا ہے، تو تیسرا طریقہ یہ ہے کہ 
(۳) عورت کی ہلکی سرزنش کرے۔ یہ اصلاح کا آخری حربہ ہے ۔ اگر سرزنش کے خوف سے معاملہ ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے، تو بہت اچھا ہے، لیکن معاملہ یہاں بھی نہیں سدھرتا ہے تو پھر آگے دو صورتیں ہیں: 
(الف) یا تو یہ معاملہ زوجین کے بجائے ان کے سرپرست حضرات حل کریں اور صلح کی مکمل کوشش کریں۔ اگر سرپرستوں سے معاملہ حل ہوجاتا ہے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات استوار ہوجاتے ہیں، تو بہت بہتر ہے۔ لیکن اگر سرپرستوں سے بھی معاملہ حل نہیں ہوتا تو
(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر کردیا جائے۔ اور ان دونوں حکموں کو فیصلہ کا مکمل اختیار دے دیا جائے۔ 
قرآن کا اعلان ہے کہ اگریہ حکم زوجین کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں گے، تو اللہ ان کی پرخلوص نیت اور اچھی کوشش سے ضرور موافقت پیدا کردیں گے۔(النساء، آیت ۳۵) 
تیسرا پروسیس
(۳) اگر بالفرض درج بالا چھ شکلیں(۱۔ زوجین کی آپسی مصالحت۔ ۲۔ عورت کو نصیحت۔ ۳۔عورت کے بستر سے علاحدگی۔ ۴۔ عورت کی ہلکی سرزنش۔ ۵۔ سرپرستوں کی مصالحت۔ ۶۔ حکمین کی مصالحت) بھی کار گر نہیں ہوتی ہیں۔ تو یہاں سے تیسرا پروسیس شروع ہوتا ہے ۔ اس کی دو شکلیں ہیں: 
(الف)ایک شکل تو یہ ہے کہ اگر یہ ساری پریشانی شوہر کے لیے بیوی کی طرف سے ہے، تو شوہر بیوی کی اصلاح حال کے لیے اس وقت ایک طلاق دے جب وہ پاکی کی حالت میں ہو اور اس پاکی کی حالت میں اس سے ہمبستری نہ کی ہو۔ اور تین مہینے کے اندر اندر بیوی کے سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ میری وجہ سے میرا شوہر پریشان ہے ، مجھے اپنی عادتوں سے باز آجانا چاہیے۔ یا شوہر کو یہ احساس ہوجائے کہ شاید غلطی ہماری ہی ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو عدت کے اندر رجوع کرلے اور ایک خوشگوار محبت بھری زندگی گذارے۔ 
پھر کبھی پانچ دس سال گذرنے کے بعد دونوں میں اختلافات ہوتے ہیں ، تو پھراسی طرح درج بالا چھ طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے صلح و مصالحت کی کوشش کی جائے گی ۔ لیکن بالفرض ان سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوتا ہے ، تو پھر شوہر اپنی بیوی کو اس پاکی کی حالت میں ، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے، ایک طلاق دے گا۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے گا۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں دوبارہ مصالحت کرکے محبت آمیز زندگی کی شروعات کرنی چاہیے، تو عدت کے اندر شوہر رجوع کرلے ۔ اور محبت بھری زندگی کی نئی شروعات کرے۔ 
زندگی یوں ہی ہنسی خوشی گذرتے گذرتے بالفرض اگر پھر اختلاف ہوجاتا ہے ، تو اصلاح حال کے لیے پھر درج بالا چھ صورتوں کو اپنایا جائے گا۔ مان لیجیے کہ اگر ان سے بھی مصالحت نہیں ہوپاتی ہے اور مصالحت کے لیے کوئی راہ نہیں بچتی،تو چوں کہ اس سے پہلے دو دو بار یہ سارے طریقے ناکام ہوچکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصالحت کی بارہ کوششیں ناکام ہوچکی ہیں،اس لیے فطری طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ شاید ان دونوں کی زندگی ایک ساتھ نہیں گذر سکتی، اس لییایسی زندگی کو الجھنوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے لڑکا تیسری طلاق دیدے۔ 
تین طلاق پورے ہونے کے بعد نہ اب لڑکے کو اختیار رہے گا کہ عدت کے اندر پھر رجوع کرکے عورت کو زندگی کو جہنم بنائے ۔ اور نہ لڑکی کے لیے گنجائش ہے کہ جس مرد نے اس کو دو دو مرتبہ اسے زندگی سے نکالنے کی کوشش کی، پھر تہ بارہ اسی کی زندگی کی زینت بنے ۔ اب لڑکا بھی کسی دوسری عورت سے شادی کرکے اپنی زندگی کی دوسری شروعات کرے اور لڑکی بھی کسی دوسرے شریک سفر کو اپنا ہم سفر بناکر خوشگوار زندگی گذارے۔ 
(ب)دوسری شکل یہ ہے کہ اگر معاملہ الٹا ہو، یعنی شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن بیوی ہی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو ایسا نہیں ہے کہ عورت مرد کی زندگی سے بالکل بھی آزاد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خلع کی پیشکش کرے، یعنی شوہر سے کچھ مال کے عوض میں طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر منظور کرلے گا، تو بذریعہ خلع طلاق واقع ہوجائے گی۔ (البقرہ، ۲۲۰) 
حلالہ کی حقیقت
تیسری طلاق دینے کے بعد مرد کو تو بالکل اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لائے، کیوں کہ اگر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی ہے، پھرتو مردبالکل نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگرطلاق کے بعد کسی کی زوجیت میں نہیں گئی ہے، تو بھی مرد نکاح نہیں کرسکتا، کیوں جس مرد کو قانون فطرت نے طلاق کے مرحلے سے پہلے پہلے اٹھارہ مرتبہ موقع دیا اور اس کے باوجود بھی اس عورت کی قدر نہیں کی، تو اب تین طلاق دینے کے بعد یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مرد ہی اس عورت کے قابل نہیں ہے۔ 
لیکن اگر عورت ہی کی یہ خواہش ہے کہ چلو جیسا بھی تھا، ہم نے زندگی کی شروعات اس کے ساتھ کی تھی ، تو اختتام بھی اسی کے ساتھ کریں گے، تو صرف عورت کے لیے شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ تم پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرو، پھر اس کے ساتھ زندگی اتنی دوبھر ہوجائے کہ مذکورہ بالا تینوں پروسیس سے گذرنے پر مجبور ہوکر تیسری طلاق تک نوبت آجائے ۔ اور تیسری طلاق دیدے، تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہو۔ اسی کو شریعت میں حلالہ کہاجاتا ہے۔ تو گویا حلالہ کوئی نکاح نہیں، بلکہ معاملہ کو سلجھانے کے ایک پروسیس کا نام ہے، جو صرف اور صرف عورت کا حق و اختیار ہے۔ (البقرہ ۲۳۰) 
صحیح راستہ کیا ہے
آپ نے اسلام سے پہلے اور دیگر مذاہب کے نکاح و طلاق دونوں کا مطالعہ کرلیا۔ اور پھر اسلام نے ان میں کیا کیا اصلاحات کیں، وہ بھی آپ نے پڑھ لیا ، اور یہ بھی آپ نے پڑھ لیا کہ اسلام میں میاں بیوی کے درمیان تفریق تک پہنچنے تک کے لیے تقریبا بارہ مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، پھر تینوں طلاق کی نوبت آتی ہے۔اگر اسلام کے بتائے اس طریقے کے مطابق طلاق دی جائے تو راقم کا عندیہ ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی طلاق واقع ہوگی۔ کیوں کہ ناچیز کی معلومات کے مطابق آج تک کوئی ایک کیس بھی دیکھنے سننے یا پڑھنے کو نہیں ملا کہ جس نے شریعت کے صحیح طریقے کے مطابق طلاق دی ہو اور پھر وہ تفریق کے مرحلے تک پہنچ گیاہو؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ تفریق کا یہ اسلامک لیگل سسٹم اتنا فطری اور انسانی نفسیات سے ہم آہنگ ہے کہ یہاں تک مرد و عورت اسی وقت پہنچ سکتے ہیں کہ جب دونوں کی مشترکہ زندگی ناقابل برداشت ہوجائے۔ برداشت اور مصالحت کی ذرا بھی گنجائش باقی رہے گی تو تینوں طلاق کی نوبت نہیں آسکتی۔ 
لیکن۔۔۔ چوں کہ ہمارا طریقہ شرعی طریقہ سے مختلف ہوگیا ہے، اس لیے آج معاشرہ میں دھڑا دھڑ طلاقیں ہور ہیں اور مرد و عورت دونوں کی زندگیاں جہنم کدہ بن رہی ہیں، ایسی صورت حال میں کسی لیگل ریفارم کی نہیں، کیوں کہ لیگل ریفارم کی جتنی ضرورت تھی، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام کرچکا ہے؛ بلکہ سوشل کی ریفارم کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر زندگی عذاب بن جائے تو اسلام اسے کس طرح حل کرنے کا فارمولہ پیش کرتا ہے ،اس فارمولہ پر عمل کیا جائے، تبھی عورتوں کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا۔ 
لیکن اس کے بجائے اگر لیگل ریفارم کی کوشش کی جائے گی تو یہ فطری قانون سے ٹکرانے کے مترادف ہوگی، جس میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی۔ 

1 Jan 2019

Meri Namze Juma Howa kia?

میری نماز جمعہ ہوئی کیا۔۔۔؟

محمد یاسین جہازی
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِي مَا أَتَی عَلَی بني إسرائیل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّی إِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ أَتَی أُمّہُ عَلاَنِیَۃً لَکَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ، وَإِنَّ بني إسرائیل تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، کُلُّھُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّۃً وَاحِدَۃً، قَالُوا: وَمَنْ ھِيَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیہِ وَأَصْحَابِي۔(سنن الترمذی،ابواب الایمان، باب ماجاء فیمن یموت، وھو یشھد ان لا الٰہ الا اللہ)

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری امت بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلے گی، یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل کے کسی شخص نے اپنی ماں کے ساتھ کچھ غلط کیا ہوگا، تو میری امت میں بھی ایسا ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئی تھی، جب کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ سب جہنمی ہوں گے، سوائے ایک فرقہ کے ، اور یہ وہ فرقہ ہوگا، جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلیں گے۔ 
امت مسلمہ کی حالیہ فکری و عملی صورت حال کا تجزیہ بتلاتا ہے کہ سرکار دوجہاں ﷺ کی یہ پیش قیاسی پورے طور پر عملی صورت اختیار کرچکی ہے۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، ہم ہر شعبہ میں یہودی ذہنیت سے متاثر اور اسرائیلی طرز عمل کو اختیار کرچکے ہیں۔
اس حدیث کے شارحین نے ایک عجیب نکتے کی بات لکھی ہے کہ اس روئے زمین پر جب سے انسان آباد ہوا ہے، اس وقت سے نبوت کے اختتام تک بہتر فی صد امتی ہیں اور ایک فیصد انبیاء و رسل بھیجے گئے ہیں۔ ہر نبی کی امتی میں سے بہتر فیصد نے ایمان کی دعوت قبول نہیں کی، صرف ایک فی صد ہی مسلمان ہوئی ہے۔ختم نبوت کے تاجدار حضرت محمد ﷺ کی دعوت کو بھی صرف تہترویں فیصد افراد نے قبول کیا ہے، بقیہ بہتر فیصد نے اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، ان میں سے بہتر فی صد عوام ہیں، جب کہ خواص اور علماء کی تعداد محض ایک فی صد ہے۔ اس تجزیہ کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہے ، تمام شعبہ ہائے حیات میں یہی تناسب ملے گا۔ فکرو عقیدے کے اعتبار سے تجزیہ کیجیے تو یہاں بھی یہی نظر آئے گا کہ بہتر حصے بد اعتقادی کے شکار ہیں، جب کہ ایک حصہ ہی صحیح الاعتقاد ہے۔ عملی رپورٹ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ عنوان کی مناسبت سے نماز کو ہی لے لیجیے، آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بہتر فی صد پنج وقتہ نمازوں سے کٹے ہوئے ہیں جب کہ ایک ہی فی صد سے مسجد کی رونق باقی ہے۔ اسی طرح ہفت واری نماز جمعہ کو لے لیجیے کہ اس میں بھی امت مسلمہ کا صرف ایک طبقہ شامل نماز ہوتا ہے، جب کہ بہتر فی صد جمعہ کی نماز کا بھی اہتمام نہیں کرتے۔ 
اس تجزیہ کو ایک دوسرے اینگل سے دیکھیے تو تہتر میں جو ایک طبقہ جمعہ کی نماز میں شامل ہوتاہے، اس میں سے بہتر کی نماز ہی صحیح نہیں ہوتی، صرف ایک فی صد کی نماز درست ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق کئی باتوں سے ہوتی ہے: 
(۱) ہمارا نماز سے تعلق چوں کہ ہفت واری ہوتا ہے، اس لیے یہ نماز ہم دل سے نہیں، صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ کہیں تین جمعہ مسلسل چھوٹنے کے بعد ہم ایمان سے خارج نہ ہوجائے، تو نماز جمعہ کو اس کے حقیقی مقصد و نیت سے نہیں ادا کی جاتی ہے، علاوہ ازیں اگر ہم جمعہ کو واقعۃ ضروری سمجھ کر پڑھتے، تو اس سے زیادہ ضروری پنج وقتہ نمازیں ہیں، کیوں کہ وہ فرض ہیں اور جمعہ واجب ہے۔ جب فرض کا اہتمام نہیں کررہے ہیں، تو ہم کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ واجب کو صحیح نیت سے پڑھ رہے ہیں۔ 
(۲) فرائض کی تکمیل کے بغیر وہ چیز ادا ہی نہیں ہوگی۔ اور ہماری شریعت و احکام کی جانکاری کا عالم یہ ہے کہ ہمیں سنن و آداب تو دور ، فرائض کا صحیح علم نہیں ہے، تو بھلا بتائیے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وضو اور نماز میں جو کوتاہی ہوئی ہے، اس میں فرض نہیں چھوٹا ہے۔ اور اگر فرض چھوٹ گیا ہے ، تو بالیقین ہماری نماز نہیں ہوئی۔ 
(۳) عام حالات میں بھی اوربالخصوص نماز میں ستر عورت فرض ہے۔ عورت کے لیے دونوں ہتھیلی، چہرہ اور دونوں ٹخنوں کے علاوہ پورا بدن اور مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک ؛ یہ حصے ڈھانکے رکھنا بہرحال فرض ہے۔ اگر نماز میں مقدار فرض کا کوئی حصہ کھلا رہ گیا تو نماز بالکل نہیں ہوگی۔ ہماری بہنیں، بالخصوص وہ بہنیں، جو اسکول کالج یا آفس کی مجبوریوں کی وجہ سے باہر رہتی ہیں اور نما زکا بھی اہتمام کرتی ہیں، ان کو دیکھا گیا ہے کہ ایک تو عورت و مرد کی نماز میں جو فرق ہے، اس فرق کا لحاظ نہیں کرتیں وہ بھی بالعموم مردوں کی طرح ہی نماز پڑھتی ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ عام حالات میں سر کھلا رکھتی ہیں، لیکن نماز میں دوپٹے سے سرتو ڈھانک لیتی ہیں، لیکن ہاتھ کا فرض والا حصہ کھلا ہی رہ جاتا ہے، جس سے بالکل بھی نماز نہیں ہوتی۔ 
اسی طرح مرد کی بات کریں،تو آج کل کے نواجون لوور پہن کر آتے ہیں، اس میں ہوتا یہ ہے کہ جوں ہی رکوع یا سجدہ میں جاتے ہیں ، تو ان کا فرض والا حصہ کھل جاتا ہے اور پیچھے والے کو ان کی پوری ٹی وی دکھنے لگتی ہے، جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ 
(۴) سجدے میں دونوں پیروں کی انگلیاں زمین سے ٹچ رہنا ضروری ہے۔ اگر بیک وقت دونوں زمین سے اٹھ گئیں،اور پورے سجدہ میں اٹھی ہی رہیں تونماز نہیں ہوگی۔اور یہ ایسی غلطی ہے، جو بالکل عام ہے۔ 
ایسی صورت حال میں ہمیں تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ ہم جو ہفتہ میں ایک ہی بار صحیح، صرف جمعہ کی نماز ہی پڑھتے ہیں ، تو کیا یہ ایک نماز بھی ہم مکمل فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر آپ فرائض پر مکمل دھیان دیتے ہیں ، تو آپ کواللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہونا چاہیے، اور اگر لوور پہن کر پڑھتے ہیں یا فرائض کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کرتے ہیں، تو پھر یہ محاسبہ کرنا ضروری ہے کہ ۔۔۔ میری نماز جمعہ ہوئی کیا۔۔۔ ؟!!!!۔