8 Apr 2018

شعری اصناف


قسط نمبر (18) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
شعری اصناف
شعر کی تعریف: اصناف سخن کی دوسری صنف شاعری ہے ۔شعر کی مختلف تعریف وتشریح کی گئی ہے، چنانچہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ:
’’شعر وہ کلام ہے ،جو موزوں مقفیٰ وبامعنی ہواور بالقصد کہا گیا ہو‘‘۔
(اردوعروض،ص؍۲وفن شاعری،ص؍۲۳و۲۴) 
کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ بالقصد کی قید کی کوئی ضرورت نہیں ۔
’’صرف انسانی جذبات لطیف کا منظوم ومقفیٰ عبارت میں اظہار کردینا کافی ہے‘‘ ۔ 
(اردو شاعری ، ص؍۲)
ڈاکٹر احمد حسن زیات نے شعر کی تعریف کرتے ہوئے لکھاہے کہ
:’’شعر ایسا کلام ہے ،جس میں وزن اور قافیہ دونوں کا التزام کیا جاتاہے، اور عمدہ خیالات اور بلیغ ومؤثر مضامین بیان کیے جاتے ہیں‘‘ ۔ (تاریخ الادب العربی، ص؍۲۵۔) 
مولانا حالی کی رائے یہ ہے کہ:
شاعری صرف وزن اور قافیے کا نام نہیں ؛ بلکہ اصلی شاعری ان دونوں سے بے نیازبھی ہوسکتی ہے۔ 
مولانا شبلی نعمانی ؒ شعر العجم میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’جو کلام انسانی جذبات کو برانگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے؛ وہ شعر ہے‘‘۔ 
(بحوالہ اصناف سخن ، ص؍۳)
شاعری کے لیے ضروری شرطیں
ہر علم وفن کے سیکھنے کے لیے کچھ شرائط وضوابط ہوتے ہیں، شاعری جیسا مہتم بالشان فن کے حصول کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں؛ جو ذیل کی سطروں میں درج کی جارہی ہیں: 

(۱)قوت متخیلہ یا فطری ملکہ
شاعری کے لیے سب سے بنیادی شرط قوت متخیلہ ہے ۔یہ قوت شاعر میں جس قدر اعلیٰ درجے کی ہوگی ، اسی قدر شاعری بھی اعلیٰ درجے کی ہوگی ۔اوریہ جس قدر ادنیٰ درجے کی ہوگی، اسی قدرشاعری بھی ادنیٰ درجے کی ہوگی۔ یہ ایک فطری ملکہ ہوتا ہے، جسے شاعر اپنی ماں کے پیٹ سے ہی سیکھ کرآتاہے۔اسے جہدو اکتساب سے حاصل نہیں کیا جاسکتا، اگر شاعر کی ذات میں یہ ملکہ موجود ہے اور باقی شرطوں میں (جو کمال شاعری کے لیے ضروری ہیں) کچھ کمی ہے، تو وہ اس کمی کا تدارک اس ملکہ سے کر سکتاہے ، لیکن اگر یہ ملکۂ فطری کسی میں موجود نہیں ہے، تو اور ضروری شرطوں کا کتنا ہی بڑا مجموعہ اس کے قبضے میں کیوں نہ ہو، وہ ہر گز شاعر کہلانے کا مستحق نہیں ۔اس لیے ہر کس وناکس کو اس کوچے میں قدم نہیں رکھنا چاہیے ، بلکہ صرف اسی کو رکھنا چاہیے، جسے قدرت کی طرف سے یہ فطری ملکہ عطا کیا گیا ہو۔ (مستفاد از مقدمہ شعر و شاعری ، ص؍۴۱و۴۲۔ اور ۹۳)
(۲)کائنات کا مطالعہ
شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لیے دوسری شرط نسخۂ کائنات اوربطور خاص فطرت انسانی کا مطالعہ ضروری ہے جب تک انسان کی مختلف حالتوں اور زندگی میں درپیش مسائلکو تعمق کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا ، شاعری میں کمال حاصل کرنا ناممکن ہوگا۔ (ایضا،ص؍۴۶) 
(۳)تفحص الفاظ
تیسری شرط تفحص الفاظ اور ان کا حسن انتخاب ہے، جن کے ذریعے شاعر اپنی بات او ر اپنا خیال سامعین کے روبرو پیش کرتاہے ۔ شاعری میں کمال پیدا کرنے کے لیے اس شرط کا پایا جانا بھی ضروری ہے ۔ 
(۴)اساتذۂ فن کے کلام کا مطالعہ
فن کے اساتذہ اور اعلیٰ درجے کے شعرا کا کلام یاد ہونا بھی ضروری ہے، تاکہ ان کے اسلوبوں اور ترکیبوں پر اپنے شعر کی بنیاد رکھی جاسکے۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ ایک بار اساتذۂ کرام کے کلام پر تفصیلی نظر ڈالنے کے بعد اس کو صفحۂ خاطر سے محو کردینا چاہیے ؛کیوں کہ اس کا بعینہ ذہن میں محفوظ رہنا، ویسی ترکیبوں اور اسلوبوں کے استعمال سے ہمیشہ مانع ہوگا؛ لیکن جب وہ کلام صفحۂ خاطر سے محو ہوجائے گا، توبہ سبب اس رنگ کے، جو کلام بلغا کی سیر کرنے سے طبیعت پر خود بخود چڑھ گیا ہے، اس میں ایک ایسا ملکہ پیدا ہوگا کہ ویسی ہی ترکیبیں اور اسلوب، جیسے کہ استاذ کے کلام میں واقع ہوئے ہیں ،بناتاچلا جائے گا۔
(مستفاد ازالفراستہ،ص؍۵۔ مقدمہ شعر شاعری،ص؍۵۸) 
(۵)وقت اور جگہ کی تعیین 
شاعری میں درک وبصیرت حاصل کر نے کے لیے شعرلکھنے کا وقت اور جگہ کی تعیین بھی ایک ضروری امر ہے۔ اس سلسلے میں مختلف لوگوں کی مختلف رائیں ہیں۔کچھ لوگوں کا کہناہے کہ کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے، جہاں قدرتی مناظر اورفطری حسین نظارے ہوں، جیسے: آبشا ر اور نہر کے کنارے ،اورجہاں تنہا ئی کا پرسکون ماحول ہو۔ شاعری کا سب سے بہترین وقت صبح کا وقت ہے ،کیوں کہ اس وقت معدہ خالی اور ذہن ودماغ با لکل تروتازہ رہتا ہے، جس سے مضمون کی آمد زیادہ ہوتی ہے۔ ( ماخوذاز : الفراستہ،ص ؍۵)
بعض حضرات کی رائے ہے کہ رات کو سونے سے پہلے کاوقت شاعر ی کے لیے بہت موزوں ہے ۔ مولانا حالی کی رائے یہ ہے کہ فکر شعر کے لیے کوئی موقع اور محل اس سے بہتر نہیں کہ کسی مضمون کا جوش شاعر کے دل میں خود بخود پیدا ہوجائے ۔ ( مقدمہ شعر وشاعری ، ص؍۱۲۰) 
شاعری سیکھنے کے طریقے
مذکورہ بالا ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے شعر بنانے کی مشق اس طرح سے کیجیے کہ کسی بڑے شاعر کی کوئی نظم منتخب کر لیجیے اور اس کے پہلے مصرعے کو چھپا کر دوسرے مصرعے پر غور وفکر کیجیے ۔ اس سے جو مفہوم سمجھ میں آئے، اس کے مطابق پہلا مصرع لگانے کی کوشش کیجیے ۔اسی طرح پوری نظم کے ساتھ یہ عمل کیجیے۔اس سے فراغت کے بعد موازنہ کیجیے اور دیکھیے کہ آپ کے بنائے ہوئے مصرعے بحر پر ٹھیک اترتے ہیں یا نہیں۔اگر نہیں اترتے ہیں، تو الفاظ کو ردو بدل کر کے اسے ٹھیک کیجیے۔ 
جب اس میں خوب مشق کر لیں ، تو کسی قافیے کو منتخب کر کے کسی اچھے خیال کو نظم کیجیے ۔ اور پہلے دوسرا مصرع بنائیے، اس کے بعد پہلا مصرع اس کے ساتھ جوڑ یے ۔ اس لیے کہ اس کے بر عکس کرنے سے دوسرا مصرع لگانا انتہائی دشوار ہوتاہے۔ اور اگربہ مشکل تمام لگا بھی لیا جاتاہے، تو اس میں وہ چستی اور خوبی پیدا نہیں ہو پاتی ، جو پہلی شکل میں ہوتی ہے۔نیز اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ دونوں مصرعے مضمون کے اعتبار سے بالکل ہم آہنگ ہوں، وہ الگ الگ اور بے جوڑ معلوم نہ ہوں۔اس کے لیے مناسب تدبیر یہ ہے کہ اس نظم کو نثر بنا کر دیکھیے ۔ اگر مضمون مربوط رہتاہے تو ٹھیک ہے اور اگر نہیں رہتاہے تو حذف واضافہ اور ردوبد ل کر کے اسے ٹھیک کیجیے ، اگر ان باتوں پر عمل کرتے ہوئے پیہم مشق جاری رکھیں گے، تو عنقریب ایک باکمال شاعر کے روپ میں نظر آنے لگیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (مستفاد از: فن شاعری ص؍۱۸۶ تاص؍ ۱۹۲) 
شاعری سیکھنے کے حوالے سے شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب امروہویؒ لکھتے ہیں کہ: 
’’جب میں نے شاعری سیکھنی شروع کی ، تو میرے ایک استاذ نے مجھے یہ وصیت کی کہ صبح جب تم بیدار ہواکرو ، تو اس وقت ایک ہی قافیہ اور ایک ہی خیال پر مشتمل کم سے کم چالیس اشعار نظم کرو (خواہ وہ فصیح ہوں یا غیر فصیح) جب چالیس اشعار بنالو ، تو انھیں آگ میں جلادو یا پھاڑکر پھینک دو۔ اگر اس طرح پیہم چالیس دن تک کرتے رہوگے، تو تم ایک دن ضرور باکمال شاعر بن جاؤ گے‘‘۔(الفراسہ،ص؍۵) 
اچھے اشعار کی پہچان
ایک اچھے شعر کی خوبیوں کو ملٹن نے مختصر لفظوں میں یوں بیان کیا ہے کہ:
’’سادہ ہو ، جوش سے بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو‘‘۔ (مقدمہ شعر وشاعری ، ص؍۶۰) 
مولانا حالی نے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں ان خوبیوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ سادگی: ہمارے نزدیک کلام کی سادگی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ خیال کیسا ہی بلند اور دقیق ہو؛ مگر پیچیدہ اورناہموار نہ ہو ۔ اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو، تحاور اور روز مرہ کی بول چال کے قریب ہوں۔جس قدر شعر کی ترکیب معمولی بول چال سے بعید ہوگی ، اسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائے گی۔ تحاور اور روزمرہ کی بول چال سے نہ تو عوام الناس اور سوقیوں کی بول چال مراد ہے اور نہ علما وفضلا کی ؛بلکہ وہ الفاظ ومحاورات مراد ہیں، جو خاص وعام دونوں کی بول چال میں عامۃ الورود ہیں‘‘ ۔
(مقدمہ شعر وشاعری ، ص؍۶۰)
اصلیت : اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر شعر کا مضمون حقیقتاً نفس الامر ی پر مبنی ہونا چاہیے، بلکہ یہ مراد ہے کہ جس بات پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہ نفس الامر میں یا لوگوں کے عقیدے میں یا محض شاعر کے عند یے میں فی الواقع موجود ہو، یا ایسا معلوم ہوتا ہو کہ اس کے عندیے میں فی الواقع موجود ہے۔ نیز اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ بھی مقصود نہیں ہے کہ بیان میں اصلیت سے سر موتجاوز نہ ہو ؛ بلکہ یہ مطلب ہے کہ زیادہ تر اصلیت ہونی ضروری ہے، اس پر اگر شاعر نے اپنی طرف سے فی الجملہ کمی بیشی کردی تو کچھ مضائقہ نہیں‘‘۔ (ایضاً ، ص؍ ۶۵)
جوش : جوش سے مراد یہ ہے کہ مضمون ایسے بے ساختہ الفاظ اور مؤثر پیراےۂ بیان میں بیان کیا جائے، جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادے سے یہ مضمون نہیں باندھا ؛ بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور کر کے اپنے تئیں اس سے بندھوایا ہے ‘‘۔ (ایضاً ، ص؍ ۶۹) 
چند شعری اصطلاحیں 
شعر: جس میں مقررہ اوزان میں سے کسی وزن اور قافیے کا التزام کیا جاتا ہے۔
مصرع: نصف شعر کومصرع کہا جاتاہے ،خواہ وہ پہلا ہو یا دوسرا۔ 
بیت : جس شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں ، جیسے: ؂ 
کہے ایک جب سن لے انسان دو 
زباں حق نے دی ایک اور کان دو 
فرد: جس شعر کے مصرعے ہم قافیہ نہ ہوں ، جیسے: ؂ 
ہیں سبکدوش سدا قید الم سے آزاد 
کب گرفتار قفس مرغ نظر ہوتا ہے 
ردیف:قافیہ کے بعد مصرع کے آخر میں یکساں طور پربار بار آنے والے لفظ یا الفاظ کو ردیف کہا جاتا ہے ، مثال دیکھیے: ؂
سکوت شام مٹاؤ، بہت اندھیرا ہے 
سخن کی شمع جلاؤ، بہت اندھیرا ہے 
ہر اک چراغ سے تیرگی نہیں مٹتی 
چراغ اشک جلاؤ، بہت اندھیرا ہے 
چمک اٹھیں گی سیہ بختیاں زمانے کی
نوائے دردسناؤ، بہت اندھیرا ہے
ان اشعار کے آخر میں’بہت اند ھیرا ہے ‘کے الفاظ، اس غزل کی ردیف ہیں۔
قافیہ :ردیف سے عین قبل آنے والے لفظ کو قافیہ کہا جاتا ہے ،جیسے مذکورہ بالااشعار میں مٹاؤ جلاؤ اورسناؤقافیہ ہیں۔ 
بحر : وہ چند موزوں کلمے، جن پر شعر کا وزن ٹھیک کرتے ہیں۔ 
وزن: کلام میں دوکلموں کی حرکات وسکنات میں برابر ہونے کا نام ’’وزن‘‘ ہے۔ 
زمین: اس سے مراد قافیہ ، ردیف اور وزن ہیں، جن پر شعر کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ 
مطلع: غزل کے پہلے شعر کو کہا جاتا ہے، جیسے: ڈاکٹر کلیم عاجزؔ کی ایک غزل کا مطلع ہے : ؂ 
زخموں کے نئے پھول کھلانے کے لیے آ 
پھر موسم گل یاد دلانے کے لیے آ 
مقطع: غزل کے آخری شعر کو مقطع کہا جاتاہے، جس میں شاعر اپنا تخلص (قلمی نام) استعمال کرتاہے ،اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے : ؂ 
وہ اٹھا شور ماتم آخری دیدار میت پر 
اٹھااب چاہتی ہے نعش فانیؔ دیکھتے جاؤ 
شعر کی اقسام و اصناف
مغربی مؤرخین نے معنی اور خیال کے اعتبار سے شعر کی تین قسمیں کی ہیں: 
(۱) شعر غنائی یا وجدانی: ایسے شعر کو کہا جاتا ہے، جس میں شاعر اپنے دلی جذبات واحساسات کو بیان کرتاہے ۔ 
(۲) شعر قصصی: ایسے شعرکو کہا جاتاہے، جس میں جنگوں کے حالات اور قومی مفاخر قصے اور کہانیوں کی شکل میں بیان کیے جاتے ہیں ،جیسے کہ: حسن بن اسحاق فردوسی کا شاہ نامہ شعر قصصی پر مشتمل ہے۔ 
(۳)شعر تمثیلی: ایسے شعر کو کہا جاتاہے جس میں شاعر کسی واقعے کا سہارا لیتاہے او رافراد واشخاص کا تصور کے ذریعے کردار کی متحرک شکل دے کر اشعار کی لڑی میں پر و دیتا ہے۔ (تاریخ الادب العربی ، ص؍ ۲۶) 
تقیسم عروضی کے اعتبار سے شعر کی متعدد قسمیں ہیں، جو درج ذیل ہیں: 
غزل 
غزل کے لغوی معنی ہیں: شعر میں عورتوں سے عشق و شیفتگی کی باتیں کرنا اور ان کے حسن وجمال کی تعریف کرنا۔ اور اصطلاح میں غزل ایسی نظم کو کہتے ہیں، جس کا ہر شعر معنوی طور پر مکمل اور دوسرے سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اس لیے غزل پرکوئی عنوان نہیں لگا یا جاتا۔غزل میں عاشقی ومعشوقی کی داستانیں، وصال وفراق کی کہانیاں ، رنج والم کے قصے، جدائی وجفائی کے افسانے اور حسن وعشق ہی کی باتیں بیان نہیں کی جاتیں؛بلکہ مذہب واخلاق ، اصلاح وتصوف اور رندی وسر مستی سے لے کر سیاسی وسماجی خیالات، معاشرتی احوال، فلسفیانہ باتیں، تعریف وتوصیف اور مظاہر فطرت غرض ہر قسم کے مضامین بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک غزل میں کم سے کم پانچ یا سات اشعار ہوتے ہیں۔زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ شکل کے اعتبار سے غزل کے چار اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں: (۱) مطلع (۲)قافیہ (۳) ردیف (۴)مقطع۔ 
مطلع کے دونوں مصرعوں کی ردیف اور قافیہ ایک ہوتاہے، اور مطلع کے بعد صرف دوسرے مصرعے میں ردیف اور قافیے کی پابندی کی جاتی ہے اور پہلے مصرع میں پابند ی نہیں کی جاتی۔بعض غزلوں میں ردیف کی پابندی نہیں کی جاتی، صرف قافیے کی،کی جاتی ہے اور کبھی شاعر مقطع کے بجائے مطلع ہی میں اپنا تخلص استعمال کر لیتاہے ، جیسے: ڈاکٹر کلیم عاجزؔ کی ایک غزل کا مطلع ہے کہ: ؂ 
وہ ستم نہ ڈھائے تو کیا کرے ، اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا ؟ 
تو اسی سے پیار کرے ہے کیوں یہ کلیمؔ تجھ کو ہوا ہے کیا ؟ 
مخدوم محی الدین کی غزل سے ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں : ؂ 
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مسکراتی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر
بانسری کی سریلی سہانی صدا 
یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر
یاد کے چاند دل میں اترتے رہے
چاندنی جگمگا تی رہی رات بھر
کوئی دیوانہ گلیوں میں پھرتا رہا
کوئی آواز آتی رہی رات بھر
قصیدہ 
قصیدہ ایک ایسی نظم ہے،جس میں کسی کی تعریف یا مذمت ، یا وعظ و نصیحت یا شکوہ و شکایت بیان کی جاتی ہے۔
موضوع کے اعتبار سے اس کا دامن بہت وسیع ہے۔ اس میں مدح وستائش اور مذمت وہجو کے علاوہ مذہبی خیالات،موسم کی کیفیات، مناظر فطرت وغیرہ بھی بیان کیے جاتے ہیں۔اس میں غزل کے بر خلاف خیالات ومضامین مسلسل اور مربوط ہوتے ہیں۔ اس لیے اس پر عنوانات بھی لگائے جاتے ہیں۔ غزل کی طرح مطلع کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے صرف دوسرے مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف یا صرف ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ قصیدہ کے اجزائے ترکیبی چار ہیں:(۱) تشبیب (۲)گریز یا مخلص (۳) مدح (۴) مدعا ودعا۔ 
قصیدے کے ابتدائی اشعار کو ’تشبیب‘کہا جاتا ہے، جس میں تمہید کے طورپر محبوب کے تذکرے ، موسم بہار کی منظر کشی اور عشق ومحبت کی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔تشبیب کا مقصد مدح کے لیے فضا ساز گار بنا نا اور ممدوح کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہوتاہے۔ یہ قصیدے کی جان ہوتی ہے، تشبیب کا موضوع جتنا عمدہ اور اچھوتا ہوتاہے، قصیدہ بھی اتناہی دل کش ہوتا ہے۔ ذوق کے قصیدے کی یہ تشبیب دیکھیے: ؂
ہیں مرے آبلۂ دل کے تماشا گوہر

گہر ٹوٹے توہوں کتنے ہی پیدا گوہر
نظر خلق سے چھپ سکتے نہیں اہلِ صفا 

تہِ دریا سے بھی جاڈھونڈ نکالا گوہر
رزق تودر خورِ خواہش ہے پہنچتا سب کو 
مرغ کودانہ ملا، ہنس نے پایا گوہر
تشبیب کے بعد شاعر کسی تقریب سے ممدوح کا ذکر اس طرح چھیڑ دیتا ہے کہ پچھلے مضامین کا جز معلوم ہونے لگتا ہے ،گویا بلا قصد بات میں بات پیدا ہوگئی ہے، اسے،گریز، یامخلص کہتے ہیں۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ حصہ تشبیب اور مدح کے بے ربط اجزمیں ربط پیدا کرتا ہے۔ ذوق کے ایک قصیدے میں گریز کی مثال دیکھیے:
تشبیب کا آخری شعر
ہرروز جامِ بادۂ روشن کو مجھ کو شغل

ہے مثل شغلِ آئینہ وشغلِ آفتاب 
گریز کا شعر:
پرہیز یہ مرا ہے کہ تقویٰ سے ہے گریز 

تقویٰ مرا ہے یہ کہ توبہ سے اجتناب 
لیکن ہے ابرِ رحمتِ باری سے درفشاں 

دامانِ ترمرا روشِ دامنِ سحاب 
گریزکے بعد مدح کی باری آتی ہے اور یہی قصیدے کا اصل موضوع ہے۔ اس میں شاعرممدوح کے کارناموں کی تفصیل اور اوصاف کا اظہار پر شوکت الفاظ اور شان دار انداز میں کرتا ہے اور کبھی کبھی مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتا ہے۔ ذوق کے قصیدے کے یہ مدحیہ اشعار دیکھیے:
اے خدیو داد اگر نامی ببر فرخ صفت 

شاہِ والا، جاِ والا، قدر والا منزلت 
ابر احسان وعطا سر چشمۂ جو دوسخا 

معدنِ علم وحیا کوہِ وقار وتمکنت
آسمانِ فضل ودانش، کوکبِ برجِ شرف 

ماہِ اوجِ منزلت مہر سپہر مکرمت
مدح کے بعد ’دعا ‘اور’ مدعا‘کا نمبر آتا ہے ۔ اس میں شاعر آنے احوال والے کا تذکرہ کرتا ہے اور عرضِ مدعا کے تحت بخشش ونوازش کا خواہش مند ہوتاہے اور آخر میں ممدوح اور اس کے عزیز واقارب کودائمی خوش حالی اور مسرت کی دعائیں دیتا ہے اورمخالفین کے لیے بد دعا کرتا ہے۔اور اسی پر قصیدہ ختم ہوتا ہے۔ ذوق کے قصیدے سے چنداشعارملاحظہ کیجیے:
لکھے گرخامہ ترا وصفِ شمیمِ اخلاق
توہر اک نقطہ ہو اک نافۂ مشک تبت
منتہی ہوں نہ کبھی تیرے صفاتِ نیکو
گربیاں کیجیے تاحشر صفت بعدِ صفت 
ذوقؔ کرتا ہے دعائیہ پہ اب ختم سخن
کہ زباں کوہے نہ یارا، نہ قلم کوطاقت
عید ہرسال مبارک ہو تجھے عالم میں
باشکوہ وحشم وجاہ وبہ عمر وصحت 
خیر خواہوں کے ترے چہرے پہ ہورنگِ نشاط 
اوربد خواہوں کے رخسار پہ اشکِ حسرت
ممدوح کے اعتبار سے قصیدے کی چار قسمیں ہیں : 
(۱)حمدیہ : جس میں خدا تعالیٰ کی تعریف بیان کی جاتی ہے ۔ 
(۲)نعتیہ : جو سرکار دوعالم صلٰی ا للہ علیہ و سلم کی تعریف میں کہا جاتاہے ۔ 
(۳)منقبت : جو بزگارن دین کی شان میں لکھا جاتا ہے ۔ 
(۴)مدحیہ : جس میں بادشاہوں اور رؤساؤں کی تعریف کی جاتی ہے۔ 
موضوع کے اعتبار سے قصیدے کی مختلف قسمیں ہیں، ملاحظہ فرمائیے : 
کسی کی تعریف میں ہو ، تو’مدحیہ‘۔ کسی کی مذمت میں ہو،تو’ہجو یہ‘۔ وعظ ونصیحت کا مضمون ہو، تو’وعظیہ‘۔ بہار وگلزار کا تذکرہ ہو،تو’بہاریہ‘ ۔ حسن وعشق کا بیان ہو، تو’عشقیہ‘ ۔حالات وکیفیات یا شکوہ وشکایات کے مضامین پر مشتمل ہو ، تو’حالیہ‘ ۔ مفاخر بیان کیے گئے ہوں ، تو’فخریہ‘ ۔دنیا کی مذمت اور برائی کی گئی ہو، تو’شہر آشوب‘ یا ’جہاں آشوب‘ ۔ ان کے علاوہ جیسے : خطابیہ ، بیانیہ وغیرہ ۔ 
قصائد کو ردیف یا قافیے کے آخری حرف سے بھی موسوم کیا جاتاہے ، جیسے: اگر آخر میں لام ہو ، تو قصیدہ لامیہ کہا جاتا ہے اور اگر میم ہو، تو قصیدہ میمیہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ 
مثنوی 
مثنوی عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں :دودو۔ مثنوی ایسی نظم کو کہا جاتاہے، جس کے ہر شعرکے دونوں مصرعے ہم وزن اور ہم قافیہ ہوتے ہیں اور مطلع کی طرح قافیہ وردیف یا صرف قافیہ کی پابندی کی جاتی ہے۔ مثنوی کے تمام اشعار ایک ہی بحرمیں ہوتے ہیں اورہر شعر کا قافیہ بقیہ دوسرے اشعار سے مختلف ہوتا ہے مثال دیکھیے: ؂
اقربا میرے ہوگئے آگاہ
تم سے ملنے کی اب نہیں کوئی راہ 
مشورے ہورہے ہیںآپس میں 
بھیجتے ہیں مجھے بنارس میں 
ان دونوں شعروں میں الگ الگ قافیے ہیں اور صرف قافیے کی پابندی کی گئی ہے ۔ 
مثنوی ایک طویل نظم ہوتی ہے،جس میں اخلاقی قصے، مذہبی موضوعات، تصوف کے مسائل،سیاسی وتاریخی واقعات، میدان کا رزار کے ہنگامے،تہذیبی و سماجی زندگی کے نقشے،مناظر فطرت کی کیفیات اور عشقیہ داستانیں ؛غر ض ہر قسم کے خیالات وموضوعات کو بیان کیا جاتاہے ۔ مثنوی کا مضمون مسلسل اور مربوط ہوتاہے ۔ عام طور پر مثنویاں درجِ ذیل عناصر ترکیبی پرمشتمل ہوتی ہیں: حمد۔نعت۔منقبت۔ مناجات۔ بادشاہ یا امرا کی مدح۔ تعریفِ شعر سخن۔ سبب تالیف۔ اصل قصہ۔
مثنوی کی دو قسمیں ہیں: (۱) توضیحی (۲)بیانیہ۔
توضیحی مثنوی میں اگر چہ وضاحت سے کام لیا جاتاہے، تاہم اس میں کوئی قصہ یا واقعہ بیان نہیں کیا جاتا۔ اور بیانیہ میں کوئی واقعہ نظم کیا جاتاہے ۔ موضوع کے اعتبار سے اس کی دو قسمیں ہیں: (۱)بزمیہ (۲)رزمیہ ۔ اول الذکر میں کوئی قصہ نظم کیا جاتاہے جب کہ آخر الذکر میں جنگ وجدال اور جھگڑوں کے حالات قلم بندکیے جاتے ہیں۔ 
مرزا شوق کی آخری مثنوی :زہرِ عشق سے یہ چند اشعار دیکھیں:
ایک قصہ عجیب لکھتا ہوں

داستانِ غریب لکھتاہوں ہوں
تازہ اس طرح کی حکایت ہے

سننے والے کو جس سے حیرت ہے
جس محلے میں تھا ہمارا گھر

وہیں رہتا تھا ایک سودا گر
ایک دختر تھی اس کی ماہ جبیں

شادی اس کی نہیں ہوئی تھی کہیں
ثانی رکھتی نہ تھی وہ صورت میں

غیرتِ حور تھی حقیقت میں
اس سن و سال پر کمالی خلیق

چال ڈھال انتہا کی نستعلیق
مرثیہ 
مرثیہ ایک ایسی نظم ہے، جس میں کسی کی وفات پر حسرت وافسوس کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس میں مرنے والے کے اوصاف وفضائل بیان کیے جاتے ہیں ،اور اس کی جدائی پر اپنے رنج و غم کے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مرثیے کے لیے کسی خاص ہےئت یا شکل کی قید نہیں ۔ اسے غزل ، نظم ، مربع، مخمس، مسدس اور مثنوی ہر شکل میں لکھا جاسکتاہے۔ مرثیے کے درج ذیل عناصر ترکیبی ہوتے ہیں:(۱)چہرہ (۲)سراپا (۳)رخصت (۴)آمد (۵) رجز (۶)جنگ (۷)شہادت (۸)بین ۔
’چہرہ‘مرثیے کا تعارفی و تمہیدی حصہ ہوتا ہے۔اس میں حمد ،نعت ،منقبت، صبح کا منظر، چڑیوں کی چہچہاہٹ، رات کا سماں اور دنیا کی بے ثباتی وغیرہ کے مضامین باندھے جاتے ہیں ۔انیسؔ کے مرثیے کا چہرہ ملاحظہ کیجیے:
وہ دشت ،وہ نسیم کے جھونکے،وہ سبزہ زار

پھولوں پہ جا بہ جاوہ گہر ہائے آب دار
اٹھنا وہ جھوم جھوم کے شاخوں کا بار بار

بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زیب گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
’سراپا‘میں مرثیے کے ہیرو کی شخصیت اور اس کے خدو خال کا تعارف کرایا جاتا ہے۔اور اس کے بدن پرسجے ہوے جنگی ہتھیار کی مرقع کشی کی جاتی ہے۔ سراپا بیان کر تے وقت شاعر تشبیہات و استعارات کا سہارا لیتا ہے اور اپنا زورِ قلم صرف کر دیتا ہے۔دبیرؔ کے یہ اشعار دیکھیے:
آئینہ کہا رخ کو تو کچھ بھی نہ ثنا کی

صنعت وہ سکندر کی، یہ صنعت ہے خدا کی
اگر آنکھ کو نرگس کہوں ،ہے عینِ حقارت

نر گس میں نہ پلکیں ہیں نہ پتلی نہ بصارت
’رخصت‘ میں میدانِ جنگ میں جانے کے لیے ہیرو اپنے عزیز و اقارب سے اجاز ت لیتا ہے اور سر پر کفن باندھ کر میدان کا رخ کر تا ہے۔اس موقعے پرعزیزوں اور رشتے داروں کے جذبا تِ محبت اور قوتِ ایمانی کے مرقعے کھینچے جاتے ہیں۔انیسؔ کے مرثیے کا یہ بند ملاحظہ کیجیے:
تھم کے چلائے کہ اے زینب و کلثوم

تم سے رخصت کو پھر آیا ہے حسین مظلوم
اب مرے قتل کے درپے ہے یہ سب لشکر شوم

ہاں جگا دو اسے غش ہو جو سکینہ معصوم
نہیں ملتا جو زمانے سے گذر جاتا ہے
کہ دو عابد سے کہ مرنے کو پدر جاتا ہے
’آمد‘ میں میدانِ جنگ پہنچنے کا تذکرہ ہوتا ہے۔اس میں منظر زیادہ طویل نہیں ہوتا ۔ اس کے اشعار رخصت اور رجز سے جڑے ہوتے ہیں۔آمدمیں کبھی گھوڑوں کی بھی تعریف کی جاتی ہے۔انیسؔ کے مرثیے سے یہ بند دیکھیے:
کہ کے یہ باگ پھرائی طرفِ لشکر شام 

پڑگیا خیمۂ ناموسِ نبی میں کہرام
رن میں گھوڑے کو اڑاتے ہوے آے جو امام

رعب سے فوج کے دل ہل گئے ،کانپے اندام
سر جھکے ان کے جو کامل تھے زباں دانی میں 
اڑگئے ہوش فصیحوں کے رجز خوانی میں 
’رجز‘ میں میدانِ جنگ میں ؂ہیروں کی زبان سے خود اس کا تعارف ،اپنے حسب و نسب پر فخر،ابا و اجداد کے کار ناموں کا تذکرہ اور جنگی مہارت کا اظہار کیا جاتا ہے۔انیس ؔ کے مرثیے سے ایک بند ملاحظہ ہو:
دنیا ہو ایک طرف تو لڑائی کو سر کروں 

آئے غضب خدا کا اُدھر ،رخ جدھر کروں
بے جبرئیل کا رِ قضا و قدر کروں

انگلی کے اک اشارے میں شق القمر کروں
طاقت اگر دکھاؤں رسالت مآب کی
رکھ دوں زمیں پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی 
’رزم‘ مرثیے کا انتہائی اہم حصہ ہوتا ہے۔اس میں جنگی کیفیات کا نقشہ کھینچتے ہوے جنگ کی تیاری ،لشکر کے ساز وسا مان ،تلواروں کی چمک،سپاہیوں کی بہادری اور جاں توڑ مقابلے کا بیان ہوتا ہے،جن سے جنگ کی ہو بہ ہو تصویر سامنے آجاتی ہے۔یہ اشعار دیکھیے:
نیزے ہلے ،وہ چل گئیں چوٹیاں کہ ا لاماں 

ہر طعن قہر کی تھی قیامت کی ہر تکاں 
چنگاریاں اڑیں جو سناں سے لڑیں سناں

دو اژدھے گتھے تھے نکالے ہوے زباں
پھیلے شرر پرندوں کی جانیں ہوا ہوئیں
شمعوں کی تھیں لویں کہ ملیں اور جدا ہوئیں
’شہادت ‘ کا حصہ بھی بڑا جان دار ہو تا ہے۔اس میں ہیرو کی جرأت و بہادری ،جان بازی سے لڑنے ،زخموں سے چور چور ہوکر بے جان ہونے ،داد شجاعت دینے اور جامِ شہادت نوش کرنے کے احوال لکھے جاتے ہیں۔ مرثیۂ انیسؔ کے اس بند کو دیکھیے:
حضرت یہ کہتے تھے کہ چلا خلق سے پسر

اتنی زبان ہلی کہ خدا حافظ ائے پسر
ہچکی جوآئی ،تھام لیا ہاتھ سے جگر 

انگڑائی لے کے رکھ دیا شہ کے قدم پہ سر
آباد گھر لٹا شہ والا کے سامنے
بیٹے کا دم نکل گیا بابا کے سامنے
’بین‘مرثیہ کا آخری جز ہوتا ہے،اس میں مجاہد کے شہادت پانے پر خواتین کی آہ و بکا اور گریہ و زاری سے متعلق اشعار ہوتے ہیں۔مثلاََ:
زینب نے کہا :ہیں مری قسمت کے یہی کام 

دینے لگی ماتم کے سیہ جوڑے وہ نا کام
فضہ سے کہا:سوگ کا کرتی ہوں سر انجام

ٹھنڈا ہوا ہے ،ہے علم لشکرِ اسلام 
زہرا کا لباس اپنے لیے چھانٹ رہی ہوں
عباس کا ملبوسِ عزا بانٹ رہی ہوں
رباعی 
رباعی عربی لفظ ’’ربع‘‘سے مشتق ہے۔اس کے معنی چار کے ہیں۔یہ ایسی نظم ہے،جو چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے اور ان چاروں مصرعوں میں فکر ولحاظ کے اعتبار سے ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتاہے ۔ہےئت کے اعتبار سے رباعی کی دوقسمیں ہیں : (۱)خصی رباعی (۲)غیر خصی رباعی ۔ 
خصی رباعی میں پہلا ، دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتاہے اور تیسرے میں قافیہ نہیں ہوتا ۔ ؂ 
گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے 
بلبل کی زباں پہ گفتگو تیری ہے
ہر رنگ میں جلوہ ہے تیری قدرت کا 
جس پھول کو سونگھتاہوں، بو تیری ہے 
اور غیر خصی رباعی میں چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ، جیسے: ؂ 
ہجراں میں کیا سب نے کنارا آخر
اسباب گیا جینے کا سارا آخر 
نہ تاب رہی نہ صبر ویارا آخر 
آخر کو ہوا کام ہمارا آخر 
رباعی کا چوتھامصرع بڑی اہمیت کاحامل ہوتاہے؛کیو ں کہ شاعر رباعی میں جو کچھ کہنا چاہتاہے ، وہ اختصار کے ساتھ چوتھے مصرعے ہی میں کہتاہے، گویا اس میں خیال کا لب لباب موجود ہوتاہے ۔ غزل مختلف بحروں میں کہی جاسکتی ہے ، لیکن رباعی صرف ایک بحر ’بحر ہزج ‘ (مفاعلُن چاربار) میں کہی جاتی ہے ۔ اس میں فلسفیانہ ، حکیمانہ، صوفیانہ ،اخلاقی، عشقیہ ، خمریہ ، بہاریہ ، حمدیہ غرض ہر قسم کے مضامین بیان کیے جاسکتے ہیں ۔ رباعی، ترانہ ، دوبیتی، چہار بیتی ، جفتی اور چہار مصراعی بھی کہلاتی ہے ۔ 
مستزاد
جس نظم میں ہر مصرعے کے بعد اسی وزن کا ایک جز بڑھا دیا جائے، وہ مستزاد کہلاتی ہے۔ مستزاد کی اصل خوبی یہ ہے کہ اصل اشعار کے بجائے خود کسی اضافے کے بغیر وہ مکمل ہوتی ہے ، کبھی مستزاد دو دو، بلکہ اس سے زیادہ بھی بڑھائی جاتی ہے، نمونے کے طور پریہ اشعار ملاحظہ کیجیے : ؂ 
تو ہے تصویر وفا، اے پیکر عز و وقار انتخاب روزگار 
مالک سیف وقلم دلدادۂ نقش و...نگار شہریارنام دار
(احسان بن دانش )
ترجیع بند
ترجیع کے لغوی معنی ہیں: لوٹانا۔ شاعروں کی اصطلاح میں یہ وہ نظم ہے، جس میں چند ہم قافیہ شعروں کے بعد ایک ایسا شعر آتا ہے، جو وزن میں پہلے شعروں کے برابر ہوتا ہے؛ لیکن اس کا قافیہ ان سے مختلف ہو تا ہے، اس شعر کو ’ٹیپ کا شعر‘ کہا جاتاہے ۔یہ شعر ترجیع بند میں باربار آتاہے اور نیچے کے بند کو اوپر کے بند سے ممتاز کرتاہے ۔ کبھی کبھی ٹیپ میں صرف ایک مصرع ہوتا ہے ۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے: ؂ 
گاؤں کے وہ لہلہاتے سبزہ زار 

خوشنما طائر قطار اندر قطار
نالیاں کھیتوں کی مثل آبشار

ہر طرف سرسوں کے پھولوں کی بہار
زندگانی کا فسانہ یاد ہے 
مجھ کو اب بھی وہ زمانہ یاد ہے 
اوس میں بھیگی ہوئی پتوں کی گرد 

طائروں کے چہچہوں میں سوز و درد 
بن کھلی کلیوں کی رنگت زرد زرد 

وہ فضائیں وہ ہوائیں سرد سرد 
زندگانی کا فسانہ یاد ہے 
مجھ کو اب بھی وہ زمانہ یاد ہے 
( ماہر القادری) 
ترکیب بند
ترکیب بند ترجیع بند ہی کی ایک شکل ہے، البتہ دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہِ اس میں ٹیپ کا مصرع بدلتا رہتا ہے،جب کہ اُس میں نہیں بدلتا۔بطور نمونہ طلوع اسلام سے علامہ اقبال کے یہ اشعار دیکھیے: ؂ 
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل 

نوارا تلخ ترمی زن چو ذوق نغمہ کم یابی 
تڑپ صحن چمن میں ، آشیاں میں شاخساروں میں

جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی
وہ چشم پاک بیں کیوں زینت برگستواں دیکھے

نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی 
ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کردے 
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 

بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا 
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے 

کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا 
تیرے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے 
مسلماں سے حدیث سوز وساز زندگی کہہ دے 
مُسَمَّط 
یہ بھی ترجیع بند اور ترکیب بند کی ایک شکل ہے، صرف اتنا سا فرق ہے کہ
(۱)مسمط میں ہر بند کے اشعار کی تعداد لازما پہلے اشعار کے برابر ہوتی ہے ، جب کہ ترجیع بند اور ترکیب بند میں بند کے اشعار میں کمی وبیشی ہو سکتی ہے۔ 
(۲)مسمط کے ٹیپ میں عموماً مصرع آتاہے ، جب کہ ترجیع بند اور ترکیب بند کے ٹیپ میں مصرع اور شعر دونوں آتے ہیں۔
(۳) ترجیع بند اور ترکیب بند میں ٹیپ کا مصرع یا شعر کا قافیہ بدلتا رہتاہے ، لیکن مسمط کے ٹیپ میں ہمیشہ شعر اول کا قافیہ رہتاہے ۔ مصرعوں کی تعداد کے اعتبار سے مسمط کی آٹھ قسمیں ہیں: 
(۱) مُثَلَّث : جس میں دو مصرعوں کا بند ہو تا ہے اور تیسرا مصرع ٹیپ کا ، جیسے: ؂ 
جہان آرزو پہ آج فضل کردگار ہے 
ہوائیں نغمہ ریز ہیں فضاؤں میں خمار ہے 
چمن کے پھول پھول پر مسرت کی بہار ہے 
(احسان بن دانشؔ )
(۲)مربع : چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے، جیسے: ؂
سنبھل قومی اعزاز کے کھونے والے 
زمانے میں تخم حسد بونے والے 
جہالت کے چشمے سے منھ دھونے والے 
خبر دار! او بے خبر سونے والے 
(تر بھون ناتھ ہجرؔ )
(۳) مخمس : جس میں چار مصرعوں کا بند اور پانچواں مصرع ٹیپ کا ہوتا ہے۔ 
گئی نسیم کے ہاتھوں نکل کے باد سموم 
گھٹائیں ابر بہاری کی تل رہی ہیں جھوم 
تمام صحن چمن میں عجب مچی ہے دھوم 
ادھر گلوں کے اوپر بلبلیں کرے ہیں ہجوم 
ادھرسے مست صف گل عذار آپہنچی 
(’’بہار‘‘ نظرؔ اکبر آبادی) 
(۴)مسدس : یہ چھے مصرعوں پر مشتمل ہوتاہے، اس میں پہلے چار مصرعوں میں ایک قافیہ اور ردیف کی پابندی کی جاتی ہے، اور بعد کے دو مصرعے میں قافیہ اور ردیف دونوں مختلف ہوتے ہیں ، جیسے: 
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام 
راہ وفا کی منزل اول ہوئی تمام 
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا اہتمام 
آنکھوں سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام 
اظہار بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی 
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی 
(’’رامائن کا ایک سین ‘‘ چکبستؔ ) 
اسی طرح (۵) مسبع میں سات ۔(۶) مثمن میں آٹھ ۔(۷) متسع میں نو ۔(۸) اور معشر میں دس مصرعے ہوتے ہیں ۔ ان سب کی مثالیں ناپید ہیں۔ 
نظم 
لفظ نظم کبھی نثرکے مقابلے میں استعمال ہوتاہے،جس میں تمام اصناف شعری : غزل ، نظم ، قصیدہ ، مرثیہ اور رباعی وغیرہ شامل ہوجاتے ہیں ۔ اور کبھی اصناف شعری میں سے صرف ایک خاص قسم ’’نظم ‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو غزل کے مقابلے میں ہوتی ہے ۔ یہاں نظم سے یہی خاص قسم مراد ہے۔ نظم کی ہےئت غزل سے مختلف ہوتی ہے،کیوں کہ غزل کے سارے اشعار میں ایک ہی ردیف اور قافیے کی پابندی کی جاتی ہے ، جب کہ نظم کے ہر شعر میں ردیف اور قافیہ دونوں مختلف ہو سکتے ہیں ۔ نیز اس کے تمام اشعار میں مضمون کا تسلسل پایا جاتا ہے۔اسی لیے یہ کسی ایک عنوان اور متعین موضوع پرکہی جاتی ہے۔ اس کے بر خلاف غزل کے اشعار معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مکمل آزاد ہوتے ہیں ، اسی وجہ سے غزل پر کوئی عنوان نہیں لگا یا جاتا ۔ 
ہےئت کے اعتبار سے نظم کی تین قسمیں ہیں: (۱) پابند نظم (۲)معریٰ نظم (۳) آزاد نظم ۔ 
پابند نظم 
پابند نظم ایسی نظم کو کہتے ہیں،جس میں قافیہ اوربحر کے مقررہ اوزان کی پابندی کی جاتی ہے ۔اس کے سارے مصرعے ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں ، اور ان میں قافیہ اور کبھی قافیے کے ساتھ ردیف کی بھی پابند ی کی جاتی ہے ، بطورمثال علامہ اقبال کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے : ؂ 
یہ گنبد مینائی ، یہ عالم تنہائی 
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی 
بھٹکا ہوا راہی میں ، بھٹکا ہوا راہی تو 
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی 
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ وکمر ورنہ 
تو شعلۂ سینائی میں شعلۂ مینائی 
معریٰ نظم 
معریٰ نظم ایسی نظم کو کہتے ہیں ،جس میں وزن بھی ہوتا ہے اور ارکان بحر کی پابندی بھی کی جاتی ہے اور ارکان بحر کہیں ایک، کہیں دو،کہیں تین اور کہیں چھ بار استعمال ہو سکتے ہیں،جس کی وجہ سے مصرعے چھوٹے بڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے سارے مصرعے ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں ، لیکن اس میں ردیف اور قافیے کی پابند ی نہیں کی جاتی ، اسماعیل میرٹھی کی یہ نظم’چڑیا کے بچے‘سے چند اشعار دیکھیے: ؂ 
وہ تین چھوٹے بچے چڑیا کے گھونسلے میں
چپ چاپ لگ رہے ہیں سینے سے اپنی ماں کے 
چڑیا نے مامتا سے پھیلاکے دونوں بازو 
اپنے پروں کے اندر بچوں کوڈھک لیا ہے 
اس طرح روزمرہ کر تی ہے ماں حفاظت 
سردی سے اور ہوا سے رکھتی ہے گرم ان کو 
آزاد نظم 
آزاد نظم ایسی نظم کو کہتے ہیں، جس میں نہ تو ردیف وقافیے کی پابندی کی جاتی ہے اور نہ ہی بحر کی، لیکن یہ ضروری ہوتا ہے کہ ایک مصرعے میں جو بحر استعمال کی جاتی ہے، اس کی پابندی ہر مصرعے میں کی جائے۔ البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مصرع میں بحر کے سارے ارکان استعمال کیے جائیں ؛کیوں کہ آزاد نظم کے مصرعے میں بحر کہیں ایک، کہیں دو، کہیں تین اور کہیں چھ بار استعمال ہو سکتے ہیں، جس کی وجہ سے مصرعے چھوٹے بڑے ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے: ؂ 
موم کی طر ح جلتے رہے ہم شہیدوں کے وطن 
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن 
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن 
تشنگی تھی مگر 
تشنگی میں بھی سرشار تھے 
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے 
منتظر مردوزن 
مستیاں ختم ، مدہوشیاں ختم تھیں ، ختم تھا بانکپن 
رات کے جگمگاتے دہکتے بدن 
’’چاند تاروں کا بن‘‘ (آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ،مخدوم )
مذکورہ بالا مصرعوں میں’’ فاعلن‘‘ کو کمی بیشی کا ساتھ دہرا یا گیا ہے ۔ 
قطعہ 
قطعہ کے لغوی معنی: ٹکڑے کے ہیں ۔اصطلاح شعر میں قطع ایسی نظم کو کہتے ہیں،جس میں ایک خیال یاایک واقعہ دو یااس سے زائد اشعار میں موزوں کیا گیا ہو۔ قطعہ کم سے کم دوشعر کا ہوتا ہے ۔زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔اس کے دوسرے مصرعوں میں قافیے کی پابندی ضروری ہے۔ خیال کے اعتبار سے اس کے تمام اشعار آپس میں مربوط ہوتے ہیں،اور اس میں ہر طرح کا مضمون بیان کیا جاسکتاہے ۔ یہاں میر اور فیض کا ایک ایک قطعہ ملاحظہ کیجیے: ؂ 
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا 
یکسر وہ استخوانِ شکستہ سے چور تھا 
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ، بے خبر! 
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا 



متاع لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے 
کہ خونِ دل میں ڈبولی ہے انگلیاں میں نے 
زباں پہ مہر بھی کردی تو کیا کہ رکھ دی ہے 
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے 
سلام 
عام طور پر سلام اس نظم کوکہا جاتا ہے، جس میں شہدائے کربلا کے حالات غزل کے پیرایہ میں بیان کیے جاتے ہیں؛ لیکن ابو الاثر حفیظ جالندھری نے آقائے نام دار صلٰی ا للہ علیہ و سلم کی ولادت باسعادت کے سلسلے میں بھی سلام لکھا ہے۔غالب کے ایک سلام سے یہ آخری چند اشعار دیکھیے: ؂ 
علی کے بعد حسن اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے برائی ،بھلا کہیں اس کو
نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض،کیا کہیں اس کو
بھرا ہے غالب دل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اس کو
سہرا
یہ صرف اردو میں رائج ہے۔ اس میں شادی بیاہ کے موقعے پر دلہا کی آرائش وزیبائش کی کیفیات اور اس کی خوبیوں کو بیان کیا جاتا ہے ، اور اس کے متعلقین کو مبارک باد ی دی جاتی ہے ۔ 
غالب کے ایک سہرے سے دو شعر ملاحظہ کیجیے:؂
ہم نشیں تارے ہیں اور چاند شہاب الدین خان 
بزمِ شادی ہے فلک کا بکشاں سہرا 
ان کو لڑیاں نہ کہو، بحر کی موجیں سمجھو
ہے تو کشتی میں ولے بحرِرواں ہے سہرا 
تاریخ
کسی واقعے کو اس طرح بیان کرنا کہ اس نظم کے کسی مصرع یا لفظ یا مجموعۂ الفاظ سے حروف ابجد کے عددوں کے حساب سے سن اور تاریخ نکل آئے ، اسے تاریخ کہتے ہیں۔ تاریخ میں عام طور پر سن ہجری کو مد نظر رکھا جاتاہے۔ مسجد انور دیوبند پر یہ قطعہ تاریخ ملاحظہ فرمائیے:
قطعہ تاریخ مسجد انور 
یہ سجدہ گاہ بندگان ، یہ قدسیوں کی بار گاہ 
بلند ہوگی روز و شب ، یہاں صدائے لا الہ 
سدا ہوں اس پہ رحمتیں ، عطاہوں اس کو برکتیں 
خدا کے فضل سے بنی یہ اہل دل کی خانقاہ 
خدا کی بارگاہ میں خدا کرے قبول ہو 
یہ سعی احمد شاہ کا حریم نو ہوا گواہ 
سید انظر شاہؔ کے خلوص دل کا نقش ہے 
۲۵ 
اساس مسجد معہد انتساب انور شاہ
۱۴ھ 
ریختی ، واسوخت
غزل کی مسخ شدہ صورت ہے ، اس میں عورتوں کی زبان سے ان کے لب ولہجے اور مخصوص محاورات وکنایات میں ان کے جذبات وواقعات بیان کیے جاتے ہیں ۔غزل میں عاشق اپنے محبوب سے اپنی نیاز مندی کا اظہار کرتا اور اس کے آگے پلکیں بچھا تاہے ، لیکن اس کے بر خلاف اس میں اپنے محبوب سے نہ صرف بے التفاتی اور بے پرواہی کا اظہار کرتاہے، بلکہ اسے جلی کٹی بھی سنا تاہے ، مثال دیکھیے: ؂ 
چونٹی کا بوجھ اوہی اٹھائے جو یہ کمر 
بوتا نہیں ہے اتنا بھی مجھ دھان پان میں 
مجھ سے آ آ کے جو لڑتے ہیں میاں کے شاگرد 
یہ تو انچھر ہیں پڑھائے ہوئے استادوں کے 
(کاوش ہنسوی) 
مجھے کہتی ہیں باجی تونے تاکا اپنے دیور کو
نہیں دبنے کی میں بھی گر نہیں تاکا تو اب تاکا
ائے بوا میں نہ ہوئی حضرت شبیر کے ساتھ
زہر دیتی موئے شمر کو کسی تدبیر کے ساتھ
سانیٹ
سانیٹ مغربی شاعری کی ایک قدیم صنفِ سخن ہے۔یہ ایک ایسی نظم ہوتی ہے ،جس میں دو بند ہوتے ہیں ۔ پہلے بند میں آٹھ اور دوسرے بند میں چھ مصرعے ہوتے ہیں۔اس میں کسی بنیادی جذبہ یا ایک ہی خیال کو پیش کیا جاتا ہے۔پہلے بند میں خیال کا پھیلاو ہو تا ہے اور دوسرے میں اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ کہیں کہیں پہلا بند بارہ مصرعوں کا اور دوسرا بند دو مصرعوں کاہوتا ہے؛مگر مصرعوں کی کل تعداد چودہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔سانیٹ میں کسی بحر کی پابندی نہیں کی جاتی۔یہ سانیٹ دیکھیے: 
ٹیگور
سفید ریش مسافر نے گیت گائے تھے
سرائے دہر کے اک پر بہار گوشے میں 
تصورات کے افسوں طراز سائے میں 
بیک نگاہ فسانے کئی سنائے تھے
لرزتے ہاتھ میں مطرابِ شاخِ گل لے کر
وفورِشوق میں سازِ حیات چھیڑا تھا 
حریمِ ناز کا اک ایک راز کھولا تھا 
پردۂ سلک تخیل میں تاب دار گہر
نہ جانے کون سی بستی کو چل دیا راہی 
ابھی بہاروں کے ہونٹوں پہ اس کے نغمے ہیں
کلی کلی کے تبسم میں شوخ جلوے ہیں
سرائے دہر میں ہر ایک سمت گونجیں گے
سفید ریش مسافر کے سرمدی نغمے
ترائیلے
ترائیلے فرانسیسی شاعری کی صنف ادب ہے۔یہ ایک بند کی نظم ہوتی ہے،جو آٹھ مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں صرف دو قافیے ایک خاص ترتیب سے استعمال ہوتے ہیں،وہ ترتیب اس طرح ہوتی ہے: الف، ب، الف،الف،الف،ب،الف،ب۔اس ترتیب کے مطابق ہم قافیہ مصرعوں کی صورت یہ بنتی ہے:پہلا، تیسرا، چوتھا،پانچواں،ساتواں۔دوسرا،چھٹا،آٹھواں۔اس کی ایک مثال دیکھیے۔ ؂
پس و پیش
مجھے گھر لوٹ جانا چاہیے تھا 
(مگر اب لوٹ کر بھی کیا کروں گا )
یہی نا’ آب ودانہ چاہیے تھا 
مجھے گھر لوٹ جانا چاہیے تھا 
تھکن میں کچھ ٹھکانہ چاہیے تھا
کہیں سائے میں رک جایا کروں گا
مجھے گھر لوٹ جانا چاہیے تھا 
(مگر اب لوٹ کر بھی کیا کروں گا )
(رؤف خیر)
ہائیکو
ہائیکوجاپانی شاعری کی صنفِ سخن ہے۔یہ سترہ ارکان پر مشتمل ،تین مصرعوں کی ایک نظم ہوتی ہے۔ارکان کی ترتیب اس طرح ہوتی ہے:پہلے مصرعے میں پانچ۔دوسرے میں سات اور تیسرے میں پانچ۔ہائیکو میں مشاہدۂ فطرت اور مناظرِقدرت کو عنوان بنایاجاتاہے۔مثال کے طور پرعلیم صبا نویدی کے یہ دو ہائیکو کا مطالعہ کیجیے: 
(۱)
روشنی میں سیاہیوں کا سفر
آسمانوں پر لاش سورج کی 
وقت کے ہاتھ میں کھلا خنجر

(۲)
آنگن آنگن خلوص کے چہرے
گھر کی دہلیز تک وفا کی بات
اور بازار میں غلط چہرے
نثری شاعری
نثری شاعری ایک ایسی شاعری ہوتی ہے،جو ردیف ،قافیہ ،وزن،بحر غرض ہر چیز کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔اسی طرح اس میں مصرعوں اور موضوعات کی بھی کوئی قید نہیں؛لیکن ہم آہنگی اور شعریت و غنائیت کا پایاجا نا ضروری ہے۔علی اور خورشیدالاسلام کی علی الترتیب یہ نثری شاعری ملاحظہ کیجیے:
ننگوں
اور بھوکوں کا
یہ انسانی کوڑاکرکٹ
سڑک پر
کس نے بکھیرا ہے؟

اگر 
انسان کی 
آنکھ نہ ہوتی 
تو کائنات اندھی ہوتی