2 Apr 2018

پو ری دنیا کا دائمی ،عالم گیری اور کامل آئڈیل لائف کو ن اور کیو ں؟

پسِ منظر 
جب دنیاکی تعمیر وتر قی اور انسانیت کی خدمت کی بات آتی ہے، تو دنیا کے بے شمار اور لاتعداد گر وہ یہ دعویٰ لے کر اٹھ کھڑے ہو تے ہیں کہ دنیا کی تعمیر و تر قی اور انسانیت کی خدمت میں سب سے بڑا کر دار اور سب سے بڑا کارنامہ صر ف اسی گروہ نے انجام د یا ہے۔ اس لیے دنیا کی فلاح وبہبود صر ف اسی گروہ کی اتباع میں ہے اور عالم انسانیت کا مکمل آئڈیل لائف او ر کامل نمونہ حیات وہی طبقہ ہے ۔ ہر گروہ کا یہ دعویٰ کس حد تک صحیح ہے ؟ کون سا طبقہ سارے عالم کے لیے دائمی ، عالم گیر ی اور کامل آئڈیل لائف بن سکتاہے ؟ ان تمام باتو ں کا جائزہ ا س مکالمے میں لیا گیا ہے۔
جب راقم نے دارالعلوم دیو بند کی سب سے بڑی اور فعال، بہا ر، جھارکھنڈ ، اڑیسہ و نیپال کی مشتر کہ انجمن ’’بزم سجاد ‘‘ کے افتتاحی اجلاس کے لیے مکالمہ لکھا تھا ، تو اس میں سازشِ صیہونیت کا مکمل تجزیہ کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کی بھر پو رعکاسی کی گئی تھی، جس کی وجہ سے جہاں ہندستان کے مختلف خطوں سے تشر یف لائے بڑے بڑے علمائے کر ام نے داد و تحسین ، حوصلہ افزا کلمات او رنیک دعاؤں سے نوازا تھا ،وہیں کچھ بے تکلف احباب نے مشورہ دیا تھا کہ اس میں ذرا سی ظرافت اور بڑھادی جاتی، تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا، جب کہ موضوع کی نو عیت ظرافت کا نہیں، بلکہ غور و فکر کا متقاضی تھی ۔ بہر کیف احباب کے اس مشورے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسی انجمن میں اسٹیج کیے جانے کے لیے یہ مکالمہ لکھا گیا ۔ پلاٹ کی ترتیب میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ مو ضوع کی نزاکت بھی بر قرار رہ جائے او رظرافت سے بھی لبریز ہو جائے ۔ اسی لیے کر دار میں کچھ ایسے مر دہ نفوس کو روح حیات پھونکی گئی ہے ، جو زندہ ہو کر اپنا کر دار نبھا رہے ہیں ۔ باقی تفصیلات مکالمے سے واضح ہیں ۔

تفصیلات
افراد کر دار 
(۱)عبدالواحد بریلوی 
(۲)منہاج العابدین چائے فروش 
(۳)محمد عابد فلسفی 
(۴)عبدالرحمان اناؤنسر مشاعرہ 
(۵) محمد اظہر مرزاغالب (شاعر) 
(۶) مر شد اکرامی ذوق (شاعر ) 
(۷)دلاور حسین (شاعر)
(۸) جہاں گیر نزاکت خان (شاعر )
(۹)محمدعمران سائنٹسٹ (اول )
(۱۰) محمد فر قان سائنٹسٹ (دوم )
(۱۱) محمد احمد ٹی وی اناونسر 
(۱۲)محمد خلیق امیتابھ بچن 
(۱۳)ابوللیث مولانا قاسمی
(۱۴)محمد فاروق مولانا ندوی 


عبدالواحد (بہ ہیئت بریلوی ): (اپنا سوٹ کیس رکھتے ہو ئے ) اف ! آج اسٹیشن پر خلافِ توقع اتنی بھیڑ کیوں ہے ؟ نہ مسلمانوں کی عید ،نہ ہندووں کا کو ئی تہوار، پھر بھی اتنی بھیڑ ،چلو سفر میں ایسا ہو تا رہتا ہے ، (گھڑی دیکھتے ہوئے ) ٹرین آنے میں ابھی ساڑھے گھپ چالیس منٹ باقی ہیں ، کیسے کٹے گا اتنا سارا وقت ؟ کوئی ٹائم پاس مونگ پھلی والا بھی نظر نہیں آرہا ہے ،کیا کر یں ۔۔۔چلو جب تک کرسی پر بیٹھتے ہیں ۔
منہاج (چائے فر وش ): چائع چائع ،جھارکھنڈ کی سب سے خراب چائع ، الائچی دار ، خوشبو دار یعنی شاندار چائع چائع ۔
عبدالواحد (بریلوی ): ایک چائے دینا بھائی (اسی دوران ایک فلسفی آتاہے )
محمد عابد (فلسفی ): جِن شتابدی نکل گئی کیا ؟ 
عبدالواحد(بریلوی): جِن تو کیا ابھی انسان شتابدی ،بھو ت ایکسپرس ، شیطان پسنجر کوئی نہیں آئی ہے ، میں بھی جِن ہی کے انتظار میں ہوں ۔
اعلان (پردے سے ): یا تری گن کر پیا دھیا ن دیں ! لال ہیڑی سے چل کر نیلا و پیلا ہیڑی ہو تے ہو ئے کا لا ہیڑی کو جانے والی جِن شتابدی تھوڑی ہی دیر میں پلیٹ فارم نمبر ڈھائی اور پو نے تین کے درمیان آرہی ہے ۔
عبدالواحد (بریلوی ):کہاں جاناہے آپ کو ؟ 
محمد عابد (فلسفی ): مجھے سنگم نگر جاناہے ۔
عبدالواحد(بریلوی ):میں بھی سنگم نگر ہی جارہا ہو ں ، پھرساتھ چلتے ہیں، گفتگو کرتے چلیں گے تاکہ سفر بھی آسانی سے کٹ جائے گااور ہم بور بھی نہ ہوں گے۔
محمدعابد(فلسفی ): اس سے بڑی میرے لیے او رکیا سعادت ہو گی کہ ایک عالم کی رفاقت نصیب ہو رہی ہے ۔
عبدالواحد (بریلوی ): عرض ہے کہ ع 
تجدد میں تکلف ہے تکلف میں پر یشانی 
اس لیے ان باتوں کو چھوڑیے اور بلا تکلف چائے نوش فر مائیے ۔
محمد عابد(فلسفی ):بلاتکلف ہی عرض ہے کہ آپ کے پاس صرف ایک چائے ہے ، اگر آپ مجھے پلا دیں گے ، تو آپ کیا پئیں گے؟
عبدالواحد (بریلوی) : آپ بھی کیا بے تکلف نکلے ، آپ ذرا ہاں تو کیجیے ، دوسری چائے فوراً آجائے گی ۔
محمدعابد(فلسفی): لیکن آپ دوسری چائے منگانے کی زحمت نہ اٹھائیں ، کیو ں کہ میں ایک فیلا سوفی ہو ں او رایک کو کئی بنانے کافن جانتا ہو ں ۔
عبدالواحد (بریلوی ):وہ کیسے ؟ (متعجبانے انداز میں )
محمدعابد (فلسفی) :وہ اس طرح کہ ایک پیالی چائے تو یہ خارج میں موجو د ہے ،لہذا یہ ایک چائے ہو گئی، دوسری اسی جیسی چائے اور پیا لی کا تصور آپ کے ذہن میں موجو د ہے ، لہذا یہ دوسری چائے ہو گئی ۔ اسی طرح میرے ذہن میں بھی ایک چائے اور پیالی کا تصور مو جو د ہے ، لہذا یہ تیسری چائے ہوگئی۔ دیکھا آپ نے میں نے ایک چائے کو فوراً کس طرح تین بنادیا ، اور بھی بنا سکتا ہو ں ،لیکن کو ئی پینے والا نہیں نظر آرہا ہے، اس لیے تین ہی پر اکتفا کر تا ہوں، جب ضرورت پڑے گی، تو اوربنالیں گے ۔ اسی لیے تو ہم فلسفیوں کا دعویٰ ہے کہ ، ہم ہی دنیا کے لیے ’’دائمی آئڈیل لائف ‘‘ بن سکتے ہیں ، کیو ں کہ ہم فلسفی تمام انسانوں کی ہر ہر مشکلات کا حل پیش کر سکتے ہیں ، جیسا کہ ابھی آپ نے ایک ادنیٰ سا نمونہ دیکھ لیاکہ میں نے صر ف آپ کی پر یشانی ہی کو دور نہیں کیا،بلکہ آپ کا تین روپیے بھی بچا دیا ۔
عبدالواحد(بر یلوی ): واہ بھائی واہ !واقعی فلسفی پوری دنیا کے لیے ’’آئڈیل ‘‘بنانے کے لائق ہیں ، کیو ں کہ آپ حضرات کے پاس انسانی مسائل کے حل کے لیے بے شمار نسخے مو جود ہیں ، جیسے کہ میرے مسئلے کو آپ نے حل بھی کر دیا اور تین روپیے کی بھی بچت کر ادی ، لہذا میں خارج میں مو جو د اس چائے کو پی لیتا ہو ں اور آپ اپنے بنائے ہو ئے دونوں ذہنی چائے پی لیجیے۔ٹھیک ہے ۔
محمد عابد (فلسفی )اچھاحضور باتیں تو بہت ہو گئیں ، کچھ تعارف بھی ہو جائے ، تو آپ کا نام و پتہ ؟
عبدالواحد(بریلوی ): اس بندہ ناچیز کوحقیر ،فقیر ، دست گیر ، غوثِ اعظم،ننگ اسلاف،امام الشعرا ،الفت علی محبت، عرف پیارے ،اور لوگ پیار سے پیارے میاں کہتے ہیں، اوروالد صاحب کانام رشید آڑ و ، عر ف غنی پکوڑے والے ، ضلع سر گودا ،پھا ٹک موڑ ،گلی لحاف گدوں والی ، آگے آم کا پیڑ،پیچھے گنے کا کھیت ، اوپر مکان ،نیچے دوکان،سامنے ریلوے پھاٹک ،پھاٹک کے پاس پان کاکھوکھا ،کھو کھے کے اندر ایک سگریٹ کے کلینڈر پر میرا پتہ لکھا ہواہے، باقی آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں ، اور آپ کا کچھ تعارف ؟ ۔
محمدعابد(فلسفی ):بھائی میں آپ کی طرح پانچ درجنوں کا معجونِ مر کب نہیں ہو ں ، بلکہ میر ا تو مختصر سانام ہے ، یعنی ماہر فلکیات وارضیات ،جناب ماسڑتصور خیالی اور چوں کہ کوچہ ہیولیٰ میں رہتا ہوں ، اس لیے سب لوگ مجھے فیلاسوفی کہتے ہیں ، اور صر ف کہتے ہی نہیں ، بلکہ میں فیلا سوفی ہو ں بھی ، اور کیا آپ یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں گے کہ آپ سنگم نگر کیوں جارہے ہیں ؟ ۔
عبدالواحد(بریلوی ): جیسا کہ میرے تعارف سے آپ کو معلوم ہی ہو گیا کہ میں اما م الشعرا بھی ہو ں، اس لیے سنگم نگر مشاعرے میں جارہا ہوں ، جس میں جدیدوقدیم شعرا تشریف لارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ٹرین رک گئی سنگم نگر آگیا کیا؟ 
محمدعابد(فلسفی ): جی جناب ! سنگم نگر آگیا ، چلو اتر تے ہیں ۔
(دونوں سوٹ کیس اٹھائے ہوئے اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں ، اور اس کے بعد شاعر حضرات آتے ہیں )
عبدالرحمان(مشاعرہ اناؤنسر) : سامعینِ کرام ! سب سے پہلے میں آپ حضرات کو سنگم نگر کے اس آل انڈیا مشاعرے میں شر کت کر نے پر مبارک باد پیش کر تا ہو ں،جیسا کہ آپ لو گو ں کو مشاعرے کا اشتہار دیکھ کر معلوم ہی ہو گیا ہو گا کہ یہ مشاعرہ جدید وقدیم شعرا کا حسین سنگم ہے ، جو تاریخ میں اس نوعیت کا پہلی مر تبہ ہو رہا ہے ، کیو ں کہ آج کے اس مشاعرے میں آپ جہاں غالب اور مومن جیسے قدیم شعرا کے اشعار سنیں گے وہیں، جدید شعرا کے کلام سے بھی آپ محظوظ ہو ں گے ، اور ایسی ایسی آزاد نظموں اور بہترین غزلوں کو سما عت فرمائیں گے کہ ہنستے ہنستے آپ کے پیٹ میں درد ہونے لگے گا ، اور آپ یہ فیصلہ کر نے پر مجبو ر ہو جائیں گے کہ اگر کو ئی جماعت انسانوں کی زندگی کو خوشیوں سے بھر سکتی ہے ، اوردائمی آئڈیل لائف بن سکتی ہے ؛ تو وہ صر ف شاعروں کی جماعت ہے ۔
تمہیدکو مزید طول نہ دیتے ہو ئے آئیے اب اصل مو ضوع کی طرف لوٹتے ہیں ، اور سب سے پہلے ایک قدیم شاعر ۔ جو عالم آخرت سے تشریف لائے ہیں ۔کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور اپنا کلام سنائیں ، اس سے میری مراد جناب اسداللہ خان غالب ہے ، حضر ت غالب مائک پر ۔
محمد اظہر(غالب ): میں آپ تمام حضرات کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے مجھے عالم آخرت میں دعوت نامہ بھیجااور اس مجلس میں مدعو کیا ، میری مدت سے آرزو تھی کہ کسی ایسے مشاعرے میں شر کت کروں ، جس میں قدیم وجدید شعرا تشریف رکھتے ہو ں ، اور الحمد اللہ آج یہ میری آرزو پو ری ہو گئی ۔
سب سے پہلے میں یہ وضاحت کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ عالم آخرت بھی عجیب جگہ ہے ، جب سے میں وہا ں گیا ہو ں ؛ تب سے تمام فراغت کے باوجود ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکا ہو ں، کیوں کہ آپ لوگ میر ی سوانح کا مطالعہ کرکے جانتے ہی ہیں کہ غالب جب تک مخمور نہیں ہوتااس وقت تک کوئی شعر ہی موزوں نہیں کرپاتااور جنت کی شراب میں نشہ ہی ہے تو غالب کیسے لکھے گا، اس لیے جو کچھ سناؤں گا،وہ پرانے اشعار میں سے ہی سناؤ ں گا ، توتوجہ چاہتاہوں کہ ؂
خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو 
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے 
عبدالرحمان(اناؤنسر ): یہ آپ کیا بے معنی شعر پڑھ رہے ہیں ، کچھ معنی دار اشعار سنائیے کہ سامعین داد دے سکیں ۔
محمد اظہر (غالب ): کیا کہا آپ نے ! بے معنی شعر ؟ 
عبدالرحمان(اناؤنسر ): گستاخی معاف مرزا ! آپ کا یہ شعر بالکل بکواس لگ رہا ہے ، کیوں کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو ، اگر مطلب کچھ نہیں ، تو خط لکھنے کا فائدہ ہی کیا ؟ اور اگر آپ صرف معشوق کے نام ہی کے عاشق ہیں، تو ۵۰؍ پیسے کا کارڈ بر باد کر نے سے کیا فائدہ؟ لہذا آپ بیٹھ جائیے اور سادہ کاغذ پر معشوق کا نام لکھتے رہیے ۔
اب میں غالب صاحب کے بعد عالم آخرت ہی سے تشریف لائے جناب ذوق صاحب کو دعوت دیتا ہو ں کہ وہ آئیں اور اپنا کلام سنائیں ۔جناب مومن رو بر ومائک کے ۔
مرشد(ذوق ): بلا کسی تمہید کے عر ض ہے کہ ؂
اب تو گھبراکے کہتے ہیں مر جائیں گے 
مر کے بھی چین نہ آیا تو کدھر جائیں گے
دلاور حسین(ماجد ): آپ بھی غالب کی طرح بے تکے اشعار کیو ں سنارہے ہیں ؟ کچھ جان داراشعار سنائیے؟ ۔
مرشد (ذوق): کیا یہ شعر آپ کو بے تکا معلوم ہو رہا ہے ؟
دلاورحسین (ماجد) : جی ہاں !بے تکا ہی نہیں معلوم ہو رہا ہے ، بلکہ سراسر بے تکا ہے ، کیو ں کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ’’ اب تو گھبرا کے کہتے ہیں مرجائیں گے ‘‘ اولا تو آپ پہلے ہی مر چکے ہیں اور اس وقت عالم آخرت سے تشریف لا ئیں ہیں ، اس لیے مر نے کے بعد گھبراکر کہنے کا کو ئی مطلب ہی نہیں ہو تا، ثانیاً چلو مان لیتے ہیں کہ آپ گھبرا کر ہی کہہ رہے ہیں ، لیکن مر نے کے بعد کہنا کہ ’’ مر جائیں گے ‘‘ سراسربے تک اور بے معنی ہے ۔
عبدالرحمان(اناؤنسر) : مومن صاحب ! آپ کو بھی غالب کی طرح بے معنی شعر پڑھنے پر بیٹھایا جاتا ہے ، اورجناب ماجد صاحب ہی سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ وہ کچھ سچے اور مبنی بر حقیقت اشعار سنائیں ۔
دلاورحسین(ماجد) : واقعات کی سچی تصویر پر مبنی میر ی ایک غزل ہے ، سماعت فر مائیں کہ ؂
اللہ میرے رزق کی بر کت نہ چلی جائے 
دو دن سے میرے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے 
جہاں گیر(نزاکت خاں) : آہ شاعر صاحب آہ ! 
دلاورحسین(ماجد ):یہ آپ واہ واہ کہنے کے بجائے آہ آہ کیو ں کر رہے ہیں ؟ 
جہاں گیر (نزاکت خاں ): کیا بات کر تے ہیں ، آ پ اپنی مصیبت کا اظہار کریں اور ہم واہ واہ کریں ،یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اردو کا ایک محاورہ ہے کہ ’’مصیبت کے وقت سچا دوست ہی کام آتاہے ‘‘ ہم یہ نہیں چاہتے کہ آپ کے رزق کی بر کت چلی جائے ، اس لیے ہم چند سچے دوست آج سے اس وقت تک آپ کا مہمان بنے رہنا چاہتے ہیں ، جب تک کہ کو ئی دوسرا مہمان نہ آجائے ، کیو ں کہ ہم اگر اس موقعے پر کام نہ آئیں گے ، توپھر کب کام آئیں گے ؟ 
دلاور حسین (ماجد ): ہم آپ کے سچے جذبے کی قدر کر تے ہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ ان دنوں میں کچھ زیادہ ہی مصروف ہوں ، کیوں کہ آج تو اسی مشاعرے میں مو جود ہوں ، کل بھکاریڑی کے مشاعرے میں جانا ہے ، او رپر سوں گہیڑی میں پر وگرام ہے ، وہاں بھی شر کت کر نی ہے ، غر ض ابھی سے دوتین مہینے تک میری کو ئی تاریخ خالی نہیں ہے ، مزید برآں مشغولیا ت بھی زیادہ ہیں ، اس لیے تین مہینے کے بعد دیکھ لیجیے گا اور ہا ں ! آنے سے پہلے فون ضرور کر لیجیے گا ۔
جہاں گیر(نزاکت خان ): واہ بھائی واہ ! کیا مبنی بر حقیقت شعر ہے آپ کا ، واقعی دل کھول کرداد دینے کے بجائے ماردینے کو جی چاہتاہے ۔
عبدالرحمان(اناؤنسر ): اگر ماجد صاحب بھی سچے اشعار سنانے سے عاجز ہیں ، تو کیوں نہ پھر آپ ہی وہ اپنی مشہور آزاد نظم سنادیں ، جس کا عنوان ہے :نزاکت۔ 
جہاں گیر(نزاکت خاں) :اناؤنسر کے حکم کی تکمیل کر تے ہو ئے نزاکت خان انتہائی نزاکت کے ساتھ اپنی آزاد نظم ’’نزاکت ‘‘ کے چند اشعار حاضر خدمت کر رہا ہے۔عرض کیا ہے کہ ؂
مخمل پہ چلنے سے پاؤ ں میں میرے 
کانٹے چبھے جاتے ہیں ،کیل گڑے جا تے ہیں 
اور کھاتا ہو ں جب بھی رس گلا یا رس ملائی 
جی جلے جاتے ہیں ،ہو نٹ چھلے جاتے ہیں اور دانت ہلے جا تے ہیں 
محمد اظہر(غالب ): بھائی یہ کیا مذاق ہے ، یہ مشاعرہ ہو رہا ہے مشاعرہ،یہاں نظم پڑھیے نظم ، نہ کہ کسی اردو کتاب کی عبارت ۔
جہاں گیر(نزاکت خان) : کیا یہ نظم آپ کو نثر معلوم ہو رہی ہے ؟ یہی ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم ؟ حالاں کہ آپ ہی نے کہا ہے کہ ع 
ہم سخن فہم ہیں ، غالبؔ کے طرف دار نہیں 
محمداظہر(غالب ): بہت خوب ، کیا نظم ہے ،نہ ترنم ، نہ قافیہ ، نہ تخیل ، نہ ردیف ۔اور کیا مبنی برحقیقت ہے کہ مخمل پہ چلنے سے پاؤں میں میر ے ، کانٹے چبھے جاتے ہیں ، کمال ہی توکر دیا آپ نے ، اس لیے آپ کی شان میں عر ض ہے کہ ؂
شعر کو چارہ سمجھ کر سب گدھے چرنے لگے 
اردو زباں آتی نہیں اور شاعری کر نے لگے 
عبدالرحمان(اناؤنسر): آپ دونوں اپنی نونک جھونک بند کریں ، آپ کی نو نک جھونک سے ہمارا مشاعر ہ ناکام ہو تا نظر آرہا ہے ۔
سامعینِ کرام! آپ حضرات تسلی رکھیں ، جیسا کہ ابھی آپ جدید و قدیم دونوں قسم کے شعرا کے کلام سے محظوظ ہو رہے تھے ، اور ان حضرات کاکلام سن کر ہنسنے ؛ بلکہ قہقہے لگانے پر مجبور ہو رہے تھے ، اسی لیے تو ہم شاعروں کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر کوئی جماعت انسانوں کی زندگی کو مسرتوں سے لبریز کر سکتی ہے ، اور انسان کسی گروہ کو اپنا آئڈیل لائف بناکر خوش و خرم زندگی گذار سکتا ہے ، تو وہ شاعروں کا گروہ ہے ، بہر کیف غالب قدیم اور نزاکت خاں جدید کی نوک جھوک کے بعد مشاعرے کو جاری رکھنے میں کوئی خیر نہیں سمجھتاہوں ، اس لیے یہ مشاعرہ یہی پر ختم کیا جاتا ہے ، تمام سامعین کا شکریہ ۔
(اس کے بعد ایک سائنٹسٹ آتاہے اور بجلی کا بلب ٹھیک کر نے میں مشغول ہو جاتاہے ، پھر دوسرا سائنٹسٹ ہاتھ میں اخبار لیے آتاہے ، اور کرسی پر بیٹھ جاتاہے )
محمد عمران (سائنٹسٹ اول) : آپ نے آج کے اخبار میں سنگم نگر کے مشاعرے کی خبرپڑھی کیا ؟ 
محمد فر قان(سائنٹسٹ دوم) : کیاخبر ہے اس مشاعرے کے بارے میں ؟ 
محمد عمران (سائنٹسٹ اول) : لکھا ہے کہ ۲۹؍جون (نیوز بیورو ) آج قصبہ سنگم نگر میں جدید و قدیم شعرا کاایک حسین سنگم مشاعرہ منعقد کیا گیا ، جس میں قدیم شعرا میں سے جہاں غالب او رذوق جیسے شاعروں نے شرکت کی اور اپنے کلام سے سامعین کو نوازا، وہیں جدید شعرا میں سے عصر حاضر کے معروف و مشہور شاعر جناب ماجد صاحب اور مشہور آزاد نظم گو نزاکت خان نزاکت بھی رونق اسٹیج تھے اور اپنے کلام سے سامعین کو قہقہے پر مجبو ر کر رہے تھے ، اس مشاعرے میں ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ ہر شاعر دوسرے شاعر کے کلام کی صداقت کابھانڈا پھوڑ رہا تھا ، تاریخ میں اس طرح کا پہلی مر تبہ ہونے والا مشاعرہ کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا کہ اچانک دو قدیم و جدید شاعروں میں کچھ اختلاف ہو گیا ، جس کی بنا پر اناؤنسر نے مشاعر ے کو وہیں پر ختم کر دیا ، لیکن مشاعر ہ ختم کر تے ہو ئے اناؤنسر نے اپنی کامیابی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ بہر کیف شعرا کرام کے کلام پر سامعین کا قہقہے لگانے پر مجبور ہو نا یہ ا س بات کی دلیل ہے کہ ہم شاعرہی لو گوں کی زندگیوں کو مسر توں سے لبریز کر سکتے ہیں ، لہذا دنیا کے اصل آئڈیل لائف ہم شاعر ہی ہیں ‘‘۔
محمد فر قان(سائنٹسٹ دوم ): یہ شاعر لو گ کب سے آئیڈیل لائف بننے کا دعوی کر نے لگے ہیں اور کس خوبی کی بنا پر ، اور کس منہ سے وہ یہ دعوی کر رہے ہیں ؟ ۔
محمد عمر ان(سائٹسٹ اول ): جناب ! داڑھی کے اوپر ، ناک کے نیچے اور دونوں ہونٹوں کے درمیان والا منہ سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم شاعر ایسا کلام پیش کر تے ہیں جس سے روح کو بالیدگی ملتی ہے اور زندگی مسرت سے لبریزہوجاتی ہے ، لہذا اصل آئیڈیل لائف دینا کے ہمیں لو گ ہیں ۔
محمدفر قان(سائنٹسٹ دوم ): اگر شاعر چند لمحے لو گوں کو ہنسا کر ’’آئڈیل لائف ‘‘ بننے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ، تو ان سے کہیں زیادہ حق دار ہم سائنٹسٹ ہیں ، کیوں کہ انسانوں پر ہماری خدمات و احسانات اتنے ہیں کہ ہم ذرا سا ان خدمات سے ہاتھ کھینچ لیں ، تو ان کی زندگی اجیرن ہو جائے ، چنانچہ ہم سائنٹسٹ نے انسانوں کو گھوڑوں اور گدھوں سے ہوائی جہاز پر چڑھا دیا ، پسماندگی اور پس گر دی سے تر قی کے بامِ عروج پر پہنچا دیا ، در ندہ صفت انسانوں کو مہذب و متمدن بنادیا ،ٹمٹماتے چراغوں کی تاریکیوں سے نکال کر بجلی کے قمقموں میں لا کھڑا کر دیا ، الغر ض عصر حاضر کے تمام تر انقلابات ، دولتوں کی ریل پیل ، دنیا کی چمک دمک ؛ سب ہماری رہین منت ہیں ، اور ہماری خدمات کے بارِ احسانات سے انسانوں کی گر دنیں خم کھائی ہو ئی ہیں ؛ کیوں کہ دنیا ہمارے ایجادات سے کٹ کر زندگی نہیں گذارسکتی ، لہذا دنیا کے حقیقی نمونۂ عمل اور اصل آئڈیل لائف ہم سائنس داں ہیں ۔
محمدعمران(سائنٹسٹ اول) : آپ کا خیال بالکل در ست ہے ، کیو ں کہ ہماری ایجادکردہ ایک معمولی سی چیز بجلی ہی چند لمحوں کے لیے چلی جاتی ہے ، تو تمام انسان چیخنے اور چلانے لگتے ہیں کہ جیسے ان کے جسم سے روح نکل رہی ہو، اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے ایجادات سے کٹ کر اس زمانے میں کوئی زندہ نہیں رہ سکتا ، لہذا اصل آئڈیل لائف ہم گر وہ سائنٹسٹ ہیں ۔
محمدفر قان (سائنٹسٹ دوم) : آئیڈیل لائف کے بارے میں اور کچھ لکھا ہے ؟
محمدعمران(سائنٹسٹ اول) : دیکھتا ہو ں۔۔۔ہا ں نیچے چھوٹے پر دے کے پر وگرام کے عنوان میں لکھا ہے کہ آج بر وز جمعرات رات ۔۔۔بجے ٹی وی پر ایک پر وگرام آرہا ہے ، جس کا نام ہے ’’ دنیا کا کامل ، دائمی اورعالم گیر ی آئڈیل لائف کو ن اور کیوں ؟ 
محمد فر قان(سائنٹسٹ دوم) : (گھڑی دیکھتے ہو ئے ) پروگرام کا وقت تو ہو اچاہتا ہے، چلو اس پرو گرام کو دیکھتے ہیں کہ اس میں کس کو اور کیوں پوری دنیا کے لیے نمونہۂ عمل بنایا جاتا ہے ؟ 
محمداحمد(ٹی وی اناؤنسر ): یہ نیشنل چینل D D 1کا اردو سیوا ہے ، اب ہم آپ کے لیے وہ پر وگرام لے کر آئے ہیں ، جس کا نام ہے ’’ کو ن اور کیوں؟‘‘ جی ہاں ! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس پروگر ام میں کسی بڑی ہستی سے ہم آپ کی ملاقات کر اتے ہیں، اور کسی خاص مو ضوع پر ان کے تأثرات سے آپ کو آگاہ کر تے ہیں ، تو میرے لِسزو ! آج ہم نے اس پر وگرام میں عصر حاضر کا ایک اہم سلگتا مو ضوع ’’ دنیا کا دائمی آئڈیل لائف کو ن اور کیوں ’’ کے تحت اپنے اسٹو ڈیو میں مدعیانِ آئڈیل لائف کی چند بڑی ہستیو ں کو مدعوکیا ہے ، جن میں سر فہرست ہیں : جناب حضرت مولاناابو اللیث صاحب قاسمی اور مولانا محمد فاروق صاحب ندوی اوربالی وڈ کے سپر اسٹار مسٹرامیتابھ بچن۔
ہم آپ سب کا اپنے اسٹوڈ یو میں سواگت کر تے ہیں ۔
مولاناابو اللیث صاحب قاسمی :آپ کا اس ذر ہ نوازی کا بہت بہت شکریہ ، میرے لِسزو! یہ انتہائی اہم پروگرام ہے ،اس لیے کو ئی بھی اپنی ٹی وی بند نہ کیجیے گا ، اب ہم اپنے پر وگرام کا آغاز کر تے ہوئے سب سے پہلے ہم مسٹر بچن سے یہ پو چھنا چاہیں گے کہ یو ں تو شاعر بھی، شہنشاہ بھی ، فلسفی بھی ، سائنٹسٹ بھی ، سبھی یہ دعویٰ کر تے نظر آرہے ہیں کہ دنیا کی تعمیر و ترقی اور انسانیت کی خدمت میں اصل کر دار ہمارا رہا ہے ،اس لیے اصل آئڈیل لائف ہمیں ہیں ، تو اس سلسلے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے ؟ 
محمدخلیق (امیتابھ بچن): جہاں تک شاعر وں ، شہنشاہوں ، فلسفیوں یا سائنٹسٹوں کی بات ہے تو ہم یہ تسلیم کر تے ہیں کہ انھوں نے کچھ ایسے کار نامے انجام دیے ہیں ، جن کی بنا پر دہ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں ، لیکن مکمل آئڈیل لائف ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے اور دائمی نمونۂ عمل بننے کا تو ان کے لیے تذکر ہ بھی فضول ہو گا ۔
محمد احمد(ٹی وی اناؤنسر ): کیا آپ اس بات کی وضاحت کریں گے کہ یہ تمام گروہ مکمل اور دائمی نمونہ کیو ں نہیں بن سکتے ؟ 
محمدخلیق(امیتابھ بچن ): یہ بات تو اظہر من الشمش ہے ؛ کیوں کہ مثال کے طو ر پر سائنٹسٹ کے ایجاد سے ہماری زندگی کی کچھ پر یشانیاں تو ختم ہو جاتی ہیں؛ لیکن ساری پریشانیاں تو ختم نہیں ہوتیں، بلکہ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ زمانہ سائنسی اور ٹکنا لوجی کے اعتبار سے جتنا تر قی کر تا جا رہا ہے ، انسان کی الجھنیں اتنی ہی بڑھتی جارہی ہیں ۔
محمد احمد (ٹی وی اناؤنسر ): یہ تو واقعی آپ نے بالکل سچی بات کہی ، لیکن اب آپ یہ بتائیں کہ اگر مذکورہ کوئی گروہ بھی مکمل او ر دائمی آئڈیل لائف نہیں بن سکتا ،تو پھر وہ کو ن سا گروہ ہے ، جسے آ پ دنیا والوں کے لیے دائمی اور مکمل نمونۂ حیات سمجھتے ہیں؟۔
محمد خلیق(امیتابھ بچن ): ظاہر ہے کہ جب مذکورہ تمام گروہ اپنے دعوے پر کھرے نہیں اترتے، اوران کے علاوہ کو ئی اور گروہ بھی اس معیار کا نظر نہیں آتا ، تو اس کے بعد صر ف ایک ہی گر وہ رہ جاتا ہے ، جو آج دنیا کی ہر چیز میں آئڈیل لائف بنا ہو ا ہے ، حتی کہ دنیا اگرایک سوئی بھی خرید تی ہے ، تو سب سے پہلے یہ دیکھتی ہے کہ اس گر وہ کے کسی فر د کا ایڈ رو ٹائز ہے کہ نہیں ، کپڑے کاانتخاب کر تی ہے ،تو پہلے یہ غور کرتی ہے کہ یہ فیشن چل رہاہے کہ نہیں ، سر پے بال رکھتی ہے، تو بھی ا س گروہ میں پہلے مثال اور نمونہ ڈھونڈھ لیتی ہے ، لہذا اس بنا پر ہم صر ف کہہ ہی نہیں سکتے ، بلکہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ پو ری دنیا کے لیے دائمی و مکمل آئڈیل لائف ہم اسٹار وں کا ،بالی وڈ کے ستاروں کا ، بہ الفاظ دیگر ہم ہیروں اور ہیروئنوں کا گروہ ہے ۔
محمد احمد(ٹی وی اناؤنسر ): اب ہم دوسرے مہمان مولاناابواللیث قاسمی صاحب سے بھی کچھ پو چھنا چاہیں گے کہ آپ اس بارے میں کیا راے رکھتے ہیں ؟ ذرا تفصیل سے بتائیں گے ۔
مولانا ابوللیث صاحب(مولانا قاسمی صاحب): جب دنیا کی تعمیر و تر قی اور انسانیت کے لیے کامل آئڈیل لائف بننے کی بات آتی ہے ، تو مختلف گر وہ ا س دعوے کا مدعی ہوتے ہیں ، اور ہر گروہ صرف اپنے حق میں دعوے کو سچ مانتا ہے ، ہم یہ مانتے ہیں کہ ہر گروہ کو اس دعوے کا حق ہے ، اور ہم یہ بھی تسلیم کر تے ہیں کہ ایک حد تک اس کا دعویٰ بجا ہے ، لیکن ان تمام کے مقابلے میں ایک گر وہ ایسا بھی ہے، جو تمام گر وہو ں پر حاوی اور بھا ری ہے ، اور در حقیقت یہی گروہ مکمل ، دائمی نمونہ حیات بننے کے علم بر دار اور حق دار ہے، اس سے میر ی مراد انبیائے کرام علیہم السلام کا گروہ ہے ، اور ان میں سے بطور خاص خاتم الانبیا سرکار دوجہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے ، کیو ں کہ جب ہم تمام گروہوں کا تجزیہ کر تے ہیں ،تو ہم کو صاف نظر آتاہے کہ حکمااور فلاسفروں نے ہر چند کہ اپنی عقلِ رساسے کو اکب و سیارات کی طلسم کشائی کے حیرت انگیز نظر یے پیش کیے، اور ہر چیز کو کلی و جزئی کی حدوں میں تقسیم کر دیا ؛ لیکن ان کی فلکی مو شگافیوں اور سیاروں کی گذر گاہوں میں بھٹکنے سے سسکتی ودم توڑتی انسانیت کے کون کو ن سے مسئلے حل ہو گئے ہیں ؟ ۔
اسی طرح خیالی دنیا کے شہنشاہو ں کے سرُ اور سر گم سے انسانو ں کو کتنا چین ملا ؟ مثلاً ایک شاعر بانسری بجاتا نغمہ سرائی کر رہا ہے ، تو اس کی شیر یں آواز سے انسانوں کی کتنی پر یشانیاں دور ہوجائیں گی ، المختصر جن کی زندگی کی حقیقی تصویر یہ ہو کہ وَالشُّعَرَ آءُ یَتَّبِعُہَمُ الْغَاءُوْنَ،اَلَمْ تَرَاَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ ۔اور ظاہر ہے کہ جو خو د اپنی شیر یں باتوں پر عمل نہ کر تا ہو ، وہ کہا ں سے دوسروں کے لیے نمونۂ عمل بن سکتے ہیں؟۔
نیز آ پ سائنٹسٹوں کے حالات پر غور کیجیے، تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے ایسے ایسے بم ، نیو کلیائی ہتھیار اور میزائیل تیار کیے ،جن کی بدولت انسان کی سوئی ہو ئی سبعیت وبہیمیت جاگ اٹھی اور منٹوں میں عشر ت کدہ کو ماتم کدہ بنادیا ، کیا ایسے خوں خوار کارنامے والے ، دنیا کے آئڈیل لائف بنائے جاسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔
بڑے بڑے شہنشاہو ں اور فر ماں رواؤں کا کیا حال رہا ہے ، جنھوں نے چہاردانگِ عالم کو کشت وخون سے لالہ زار کر دیا ، ایک قوم کو بسا یا ، تو سینکڑوں قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا ، اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْ یَۃً اَفْسَدُوْاھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ أَھْلِہَا اأذِلَّۃً ۔لہذا یہ گروہ بھی آئڈیل لائف بننے کے حق دار نہیں ہے ۔اور اس گروہ کو بھی دیکھ لیجیے، جو اپنے کو ہیر و کہتا ہے، اس نے کیا کارنامہ انجام دیا ، یہی ناکہ ماضی کی اقدار و روایات کا مذاق اڑایا ، آزادی اور مساوات کے نام پر عورتوں کی عزت و آبر ونیلام کر دی، محبت کے پسِ پر دہ نفر ت کی تخم ریزی کی اور فیشن کے نام پر سب کو ننگا کر دیا ، تو کیا اس گر وہ کو آئڈیل لائف بنا کر ہم سب پائے جامے سے باہر آجائیں ؟
ہم نے صنفِ انسانی کے تمام بلند پایہ طبقوں ( جن کی زندگیا ں نو عِ انسانی کے لیے قابل تقلید نمونہ اور آئڈیل لائف بن سکتی تھیں ،) ہر ایک کا جائز ہ لے لیا، لیکن کسی کی زندگی معیارِ تقلید نہ ٹھری، اب تمام گروہو ں کے مقابلے میں انبیا کا گر وہ آتا ہے ، جن کی زندگیا ں تمام انسانو ں کے لیے ایسا نمونۂ اور ایسا آئڈیل لائف ہے، جس سے گریز کر کے انسان کبھی فلاح نہیں پاسکتا اور نہ ہی اپنی پریشانیوں اور بے چینیو ں سے نجات حاصل کر سکتاہے ، اور چو ں کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمام انبیا ئے کر ام کی سیرت و اخلاق کی جامع ہے اور آ پ کا پیغام دائمی ہے ، اس لیے صر ف آ پ ہی کی ذاتِ اقدس دائمی اور مکمل آئڈیل لائف ہے ۔
محمد احمد (ٹی وی اناؤنسر) : خیر آ پ نے یہ تو ثابت کر دیا کہ واقعی اگر کو ئی گروہ قابلِ نمونۂ عمل ہے ، تو وہ انبیائے کرام کا گر وہ اور ان میں بطورِ خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ، لیکن اس میں جو ہندو مذہب کا دعویٰ ہے کہ انسان اسی وقت چین و سکون پاسکتا ہے ، جب کہ وہ ہندو بن جائیں اور قومی دھارے میں آجائیں ،اسی طرح ہر مذہب بھی اپنے تئیں یہی دعویٰ رکھتا ہے، لہذا اس سلسلے میں مولانافاروق ندوی صاحب ! آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ذرا وقت کا لحاظ رکھتے ہو ئے انتہائی اختصار کے ساتھ جواب دیں ۔
مولاناندوی : کسی بھی گر وہ یا مذہب کے دائمی ، کامل اورعالم گیری اسوہ بننے کے لیے تین شرطیں ہیں : (۱) تاریخیت ، یعنی اس گروہ یا مذہب کے بانی کی تعلیم اور پیغام بغیر کسی خر دوبر د کے صحیح سندوں کے ساتھ ہم تک پہنچا ہو ، تاکہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے ۔(۲) جامعیت : یعنی اس کا پیغام اتنا جامع ہو ، جو تمام طبقے ، تمام خطے اور تمام زمانے کے لوگوں کے لیے ہو ، او رجس میں تمام انسانوں کے لیے یکسانیت کا تصور موجود ہو ، کیو ں کہ اگر کسی خاص طبقہ ، خاص خطہ یا خا ص لوگو ں کے لیے وہ پیغام ہو گا ،توعالم گیری ودائمی نہیں ہو سکتا ، اسی طرح اگر اس میں کسی کو اعلیٰ اور کسی کو ادنیٰ تسلیم کیا گیا ہو ، تو لامحالہ مساواتِ انسانی قائم نہیں ہو سکتی ، اور اس کے بغیر آئڈیل لائف کا کوئی معنی ہی باقی نہیں رہ جاتا ۔(۳) عملیت :یعنی اس گروہ یا مذہب کے بانی نے جو کچھ پیغام دیاہے ، پہلے ا س پر خو د عمل کر کے دکھا یا ہو ۔
دنیا کے تمام مذہبوں کو تین خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : (۱) یہودیت ونصرانیت۔(۲) ہندو۔(۳) اسلام ۔ ان میں سے جہاں تک یہودیت کی بات ہے ، تو یہودی خود اس بات کے معتر ف ہیں کہ اس کا دین صر ف ایک خاص طبقہ یعنی یہودیو ں کے لیے ہے ۔اور عیسائیوں کا بھی یہی نظر یہ ہے ، جیسا کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کا فر مان ہے کہ ’’ میں اسرائیل کے گھر انے کی کھو ئی ہو ئی بھیڑوں کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں بھیجا گیا ہو ں ‘‘ ۔لہذا ان دونوں مذہبوں میں جامعیت کے شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے عالم گیر ی نہیں ہو سکتے ، اور جہاں تک ہندو مذہب کی بات ہے ، تو اولاً اس کا یہی پتہ نہیں چلتا کہ بانی کو ن ہے ؟ ثانیاً یہ کہ ا س نے اپنے پیر و کارو ں کو نسلی اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے : (۱) شودر (۲) چھتری (۳) ویش(۴) بر ہمن ۔ ان میں سے برہمن کو سب سے اعلیٰ ذات مانا گیا ہے ، پھر علی التر تیب درجے گھٹتے گئے ہیں ، یہاں تک کہ شودر کو اس درجہ گھٹیا قرار دیا گیا ہے کہ ان کی تخلیق صر ف ان ذاتوں کی خدمت کے لیے ہو ئی ہے ، لہذاہندو میں نہ تو جامعیت ہے اور نہ ہی تاریخیت ، اور عملیت کی شر ط تو کسی گر وہ یا مذہب کے بانی میں پا ئی ہی نہیں جاتی ۔اب رہ جاتا ہے مذہبِ اسلام اور شارعِ اسلام ، تو اس میں تاریخیت بھی پا ئی جاتی ہے ، جو قرآن و احادیث کی صورت میں مو جود ہے ، اس میں جامعیت کا بھی پہلو ہے ، جیسا کہ قرآنِ مجید کااعلان ہے کہ یہ تما م انسانیت کے لیے چراغ ہدایت ہے، ھُدَی لِلْنَّاسِ اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبو ت و رسالت تمام انسانیت کے لیے ہے کَا فَّۃً لِّلنَّاسِ اور شارعِ اسلام عملیت کے تو ایسے بے مثال نمونہ ہیں کہ تاریخ ان کی نظیر پیش کر نے سے عاجز ہے ، لہذاثابت ہو گیا کہ پوری انسانیت کے لیے دائمی ، عالم گیر ی اور کامل اسو ہ اور آئڈیل لائف صر ف اور صر ف مذہبِ اسلام ہے اور شارعِ اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ۔
محمد احمد(اناؤنسر) : بے شک آپ نے عقیدت کی زنجیرو ں سے آزاد ہو کر صر ف حقائق کی روشنی میں جو آپ نے یہ ثابت کیاکہ اگر کوئی گروہ یا مذہب دائمی ، عالم گیر ی اور مکمل نمونہ حیات بن سکتا ہے، تو وہ صر ف مذہبِ اسلام اور شارعِ اسلام محمد عر بی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ۔آپ حضرات کا بہت بہت شکر یہ کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت دے کر ہمارے پر وگر ام میں شر کت کی۔
محمد خلیق(امیتابھ بچن) : شکر یہ تو آپ کا ہے سرکہ اب تک ہم گمرا ہی میں پڑ ے ہوئے تھے اوراپنے گر وہ کو دنیا کا آئڈیل لائف سمجھ رہے تھے ؛ لیکن اس پر وگرام میں شرکت کے بعد میر ی یہ خوشی فہمی ؛ بلکہ غلط فہمی دور ہو گئی ۔ اس پر میں آپ کا جتنا بھی شکر یہ ادا کرو ں کم ہے سر ۔
مولاناقاسمی : شکر یہ تو مجھے ادا کر ناچاہیے، اس ٹی وی چینل D.D.iکا،اور اس کے اناؤنسر کا کہ انھو ں نے اس پر وگر ام میں مجھے مدعو کیا اور حق بات لو گوں تک پہنچانے کا مو قع فراہم کیا ۔
محمد احمد(ٹی وی اناؤنسر) : میرے لسنرواورسجنو ! (اس وقت مشاعر ہ اناؤنسر اس کی بات کاٹتے ہو ئے کہتا ہے )
عبدالرحمان(مشاعر ہ اناؤنسر ): اناؤنسر صاحب ! روکیے ذرامجھے ایک بات کہنے دیجیے ،میں کمر ے میں ٹی وی پر آپ کا یہ پر گرام دیکھ رہاتھا، اس پروگرام کے پیش کرنے پر میں آپ کا احسان مند ہو ں کہ آپ نے اس پروگر ام کے ذریعے میر ی یہ غلط فہمی دور کر دی کہ اصلی آئڈیل لائف ہم شاعر ہیں ، اس پر آپ کاشکریہ صاحب شکر یہ ۔
محمد احمد(ٹی وی اناؤنسر) : آپ کا بھی شکریہ ۔ میر ے لسنرو! 
شاعر نے کہا ہے کہ ؂
ہرملاقات کا انجام جدائی کیو ں ہے 
اب تو ہر وقت یہی بات رلاتی ہے مجھے
لیکن دیکھ رہاہو ں کہ رونے کابھی کچھ فائدہ نظر نہیں آ رہا ہے ، کیو ں کہ گھڑی ٹک ٹک کرتی اس مقام پر پہنچ گئی ہے، جہاں مجھے نہ چاہتے ہو ئے بھی آپ سے یہ کہنا پڑے گا کہ الوداع الوداع ؛ لیکن الوداع اور گڈ بائے کہنے سے پہلے یہ کہوں گا کہ کل آپ سے پھر ملاقات ہو گی ،اسی وقت ، اسی پروگرام میں ، اسی چینل پر۔ پر وگرام کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ، آپ رہیے D.D.iکے ساتھ او رمجھے دیجیے،اجازت والسلام ، شب بخیر ،گڈ نائٹ۔