کچھ یادیں سہانے ماضی کی
زمانہ طالب علمی کی کچھ لاشعوری کاوشیں(زمانہ طالب علمی دارالعلوم دیوبند کی ضلعی انجمن :انجمن آئینہ اسلام طلبہ ضلع گڈا جھارکھنڈ کا ماہانہ دیواری پرچہ ’’ پرواز‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری دی گئی تھی، اس مناسبت سے لکھی گئی راقم کی پہلی تحریر پیش خدمت ہے۔ یہ تحریر من و عن پیش کی جارہی ہے، کیوں کہ اس میں کوئی بھی تبدیلی ایسی ہی ہوگی جیسے کہ کسی بڑے شخص کے بچپن کی تصویر میں داڑھی اور مونچھ بنادی جائے)اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑجائیں گی
آج قلم کی روح بے چین ہے، کاغذ کا دل ماتم کناں ہے، خامہ فرسا نمدیدہ ہے ، اس کا چہرہ رنجیدہ، جبیں افسردہ، سر شوریدہ، دل گرفتہ، جاں سوختہ، سوچ و خیال کا سراپا اور غم و اندوہ کا مجسم بنا ہوا ہے، اس کے آئینہ فکرو خیال میں ماضی کی یادوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ؛ لیکن کیوں؟ دلِ ناداں ! تجھے ہوا کیا ہےآخر اس درد کی دوا کیا ہےقلم کی روح کیا اس لیے بے چین ہے کہ وہ افسانۂ ہجرو فراق کی خامہ فرسائی کررہا ہے ؟ دلِ قرطاس کیا اس لیے ماتم آسا ہے کہ حکایت بر ق خرمن کی منظر آرائی سے کرب و کسک محسوس ہورہی ہےَ ۔۔۔ ہاں! وقت نے گیت ہی ایسا گایا ہے کہ قلم اشک افشانی اور قرطاس احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے لمحات کی کسک بیان کرنے پر مجبور و بے بس ہے۔ہم طالبان علوم نبویہ کی یہ فطری تمنا ہوتی ہے کہ ہمارے سفر علم کی آخری منزل ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ ہو؛ بلکہ شروع ہی سے گلشن قاسمیہ میں بلبل بن کر چہکتے رہیں۔ چوں طالباں شنیدند از ہر طرف دویدندباغ و بہار ایں جا، ایں گلشن دوامیچنانچہ ہم اپنی فطری تمنا کی تکمیل کے لیے عازم دیوبند ہوجاتے ہیں اور شوال میں ’’امتحان داخلہ‘‘ دے کر اپنی تقدیر کے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں ، وقت اس عدالت کا منصف اعظم ہوتا ہے ، جو بالکل صحیح فیصلہ کرتا ہے ۔ اگر ہم زندگی کے سابقہ لمحات کی قدر کیے ہوئے ہوتے ہیں ، تو منصف اعظم کا فیصلہ ہوتا ہے کہ تمھاری آرزو پوری ہوگی۔ اور افر سابقہ زندگی کے اوقات کو یوں ہی لاابالی پن اور لایعنی کاموں میں ضائع کیے ہوئے ہوتے ہیں ، تو تقدیر کا شکوہ کرتے ہوئے خائب و خاسر لوٹ جاتے ہیں۔ جب ہماری آرزو پوری ہوجاتی ہے ، تو ہماری خوشیوں کی کوئی انتہا نہیں رہتی اور ہم مسرتوں سے پھولے نہیں سماتے ۔ اس جشن مسرت میں ہم مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور پھر عزم مصمم کرتے ہیں کہ دیگر مدرسوں کی زندگی کو جیسے گزار دیا ، گزار دیا؛ لیکن اب دارالعلوم کی زندگی صرف جدوجہد اور سعی پیہم میں گزاریں گے۔ پھر سب اس وعدے کی تکمیل میں مصروف طلب ہوجاتے ہیں ۔ یہاں تک ہم تمام کی دارالعلوم کی ابتدائی زندگی کی کیفیت یہی ہوتی ہے اور ایسی ہی رہتی ہے ۔لیکن اس موڑ سے آگے صرف میری زندگی تمام ہی طلبا سے الگ راہ اختیار کرلیتی ہے ، ہر ایک کو وسعت طلب کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور ناچیز ادنیٰ طلب سے بھی ناآشنا۔ وہ علم و حکمت کے خزانے لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں ؛ لیکن بندہ ناتواں علم و حکمت کے حصولِ ذرہ سے بھی لاپرواہ۔ وہ شب و روز درس و تدریس کی ہر گھڑی کی قدر کرتے ہیں؛ مگر خاکسار ضیاع اوقات کے احساس سے بھی بے حس۔ وہ میدان علم و معرفت میں سبقت کے لیے کوشاں رہتے ہیں ؛ پر احقر ذوق طلب سے بھی انجان۔ وہ اپنی زندگی سنت و شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ؛ پر ہیچ مداں فکر آراستگی سے ہی بے خبر۔وہ کامیابی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں اور نیاز مند بربادی کی راہ پر رواں دواں۔ چنانچہ چھ سالے کا لمبا عرصہ گزرگیا اور ناچیز بربادی، بے فکری اور بے ذوقی کی راہ پر سرپٹ دوڑتا رہا ۔ اتنے لمبے عرصے میں کبھی بھی فکر طلب و عمل پیدا نہیں ہوئی ۔ دورۂ حدیث میں قدم رکھا، پھر بھی ذوق طلب نہیں پھڑکا اور جب کہ یہ آخری سال بھی اختتام پذیر ہے ، پھر بھی احساس طلب نہیں۔ بس جو کچھ احساس ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ ساحل سمندر پر بھی تشنہ کا تشنہ ہی رہا۔ اب یہاں سے جانا پڑے گا۔ اس چہار دیواری سے باہر قدم رکھنا پڑے گا، جو یہاں کے حالات و ماحول سے یکسر مختلف اور جدا ہے۔ قصہ مختصر وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ ’’بخاری شریف‘‘ مکمل کرادی گئی ۔ شیخ زمن نصیحت فرماچکے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے ، دعائے سری کا دور تھا ۔ ہر طرف سراسیمگی اور سناٹا چھایا ہوا تھا ، دل کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ہوتی گئیں، قبل از وقت جدائی کی کسک محسوس ہورہی تھی۔ ہم دعا کر رہے تھے ، پر ہماری نظریں شیخ صاحب کی طرف تھیں، خموشی کا یہی عالم تھا کہ شیخ صاحب درد بھری آواز اور ماتم سرا لہجہ میں بول اٹھے کہ ’’ یا اللہ! آپ نے ہمیں یہ امانت سپرد کی تھی، لیکن ہم امانت کا حق ادا نہ کرسکے۔ ائے رحیم! تو معاف فرما۔ یا بار الٰہ! یہ امانت اب تیرے حوالے ہے، تو ان کی کفالت فرما‘‘۔ بس کیا تھا : دارالحدیث آہ و بکا کی چیخ سے گونج اٹھا، ہر شخص کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، چہروں کا رنگ فق ہوگیا، آنسووں کا سیل رواں ہوگیا، جو تھمتے نہ تھے، کچھ غم فراق کے آنسو تھے تو کچھ غم احساس کے آنسو تھے۔ایک طرف درد فرقت سے تڑپ رہے تھے تو دوسری طرف احساس تہی دامن سے شرمندہ شرمندہ ، ذہن و دماغ پر بس ایک ہی جملہ رقص کر رہا تھا کہ ’الآن کما کان‘ یعنی آٹھ سال پہلے جس جہالت کی حالت میں گھر سے نکلے تھے ، آج آٹھ سال بعد بھی ہماری وہی کیفیت ہے کہ ہاتھ خالی اور علم سے عاری گھر جارہے ہیں۔ علم و فن کا دریا موجزن تھا ؛ لیکن ہائے ہماری بدبختی کہ ہم نے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا۔ علم و حکمت کا سیل رواں تھا ؛ لیکن آہ ہماری غفلت! ہم اپنے دامن کو بچاتے ہی رہ گئے۔ مسند درس بیٹھنے والے میراث رسول علیہ السلام تقسیم کرتے رہے، لیکن آہ! ہماری شقاوت کہ حصول میراث سے لاپرواہی برتنے رہے۔ مادر علمی کا فیضان عام مسلسل جاری رہا؛ لیکن وائے ہماری نادانی کہ ہم کسب فیض سے باز رہے ۔ دارالعلوم نے اپنی داد و دہش اور عطیہ و بخشش میں کچھ بھی کمی نہ کی؛ لیکن جس کا دست طلب ہی شل ہوگیا ہو اور جو لینا ہی نہ چاہے، تو اس میں دارالعلوم کا کیا قصور؟ آفتاب اپنی شعاعوں سے پوری دنیا کو منور کردیتا ہے ؛ لیکن اگر چمگادڑ کو نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور؟ حسرت سے اس مسافر بے کس پہ روئیےجو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے جدائی کی اس گھڑی میں سب کی روح بے چین ، دل کشیدہ، چہرے غم زدہ، جبیں افسردہ اور آنکھیں نمدیدہ ہیں ۔ تمام ساتھی دو ملی و جلی متضاد کیفیتوں میں کشمکش نظر آرہے ہیں ، خیال فراق میں غم کی تصویر بنیہوئے ہیں، درد و فرقت سے تڑپ رہے ہیں ، احساس جدائی سے مضطرب و بے چین ہیں،کسک فراق سے نالاں وپریشان ہیں، ایک دوسرے کو رخصت کر رہے ہیں، الوداع الوداع کہہ رہے ہیں اور اپنی تقدیر پر شکوہ کناں ہیں کہ آج ہم سے یہ مادر علمی چھوٹ رہا ہے، ہم اپنے اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں سے محروم ہورہے ہیں ، بزم احباب سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہے ہیں، اب ہم اس طرح کبھی جمع نہیں ہوسکیں گے۔ درس و تدریس کے لمحہ لمحہ کی یاد ہمیں ستائے گی ، ہم ان درودیوار کی دیدار کے لیے ترستے رہیں گے ، یہ دارالحدیث کا گنبد بیضا، مسجد رشید کی حسین میناریں،مسجد چھتہ کی روحانیت، مسجد قدیم کی نورانیت، ساقی کوثر کا مے خانہ ، میکدہ قاسم کا جام و سبو، گہوارۂ طیب، چمن نصیری، قلزم مدنی، مینائے مدراسی، صہبائے سعیدی، بزم قمری، بہار حبیبی، درس نعمتی، بئر زمزم کا پرتو، دار جدید کی پرشکوہ عمارتیں، اس چمن میں بیتے ہوئے لمحات، احاطہ مولسری میں گزری ہوئی زندگی کی صبح و شام، یہاں سے وابستہ سنہری یادیں، شب و روز کے مشاغل، تعلیم وتعلم کے معمولات، پند و وعظ کی قیمتی باتیں، تقریر و تکرار میں گزری ہوئی باتیں، اساتذہ کی نصیحتیں، صدائے قال قال کی باز گشت ، دوست و احباب کے میل ملاپ، یاران ہم نوا کے اجتماع و اختلاف باہمی الفت و لگن، آپسی خلش و چپقلش، ایک دوسرے سے روٹھنا منانا، پڑھنا لکھنا، کھیلنا کودنا، رفقا کے ساتھ مستیاں واٹھکھیلیاں، انجمن کی بزم آرائیاں اور احباب کی طرب انگیزیاں ، ان سب کی یادیں ہمیں تڑپائیں گی۔دوستو ! یہ اجتماع و اختلاف، یہ اتحادو اتفاق، یہ وصال و فراق، یہ جمع و تفریق، یہ جدائیو جفائی، یہ بے کسی و بے بسی، یہ ہماری آمدورفت سب قدرت کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ یہاں کسی کو بقا و دوام نہیں۔ خود دنیا کی کیا حقیقت ہے کہ کلی پھول بنی اور مرجھا گئی ، گلاب میں چمک آئی اور ماند پڑگئی، چمبیلی مہکی اور ختم ہوگئی، کنول کھلا اور کمھلا گیا،نرگس شہلا مسکرائی اور خاموش ہوگئی، چمپا میں تازگی آئی اور پژمردگی چھا گئی، بلبل شاخ پر چہکا اور اڑگیا، چاندی آئی اور غائب ہوگئی، سورج طلوع ہوا اور ذوب گیا، دن رخصت ہوا اور رات کی تاریکی چھاگئی، رات کافور ہوئی اور دن آگیا، صبح ہوئی اور شام ہوگئی۔ بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میںثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میںتو جب دنیا ہی کو بقا ودوام نہیں ہے ، تو ہم کب تک اس گلشن میں رہتے ؟ زندگی کا اور کتنا حصہ یہاں بتاتے ہیں ؟ اور کب تک زندگی کی بہار لوٹتے؟ چلے گا بزم میں جام شراب مشک و بو کب تکرہیں گے زینت محفل بتان شعلہ رو کب تککریں گے بزم قاسم میں سکون آرزو کب تکہماری کروفرکب تک رہے گی اور ہم کب تکیقیناًہمیں یہاں سے کسی دن نکلنا ہی پڑتا اورہ ہمیں رخت سفر باندھنا ہی پڑتا، آج وہی رخصت کی گھڑی ہے، تو پھر یہ کیسا شکوہ اور کس کا شکوہ؟ یہ کیسا گلہ اور کس کا گلہ؟ یہ کیسا غم اور کس کا غم ؟ یہ کیسی کسک اور کیسا درد؟ یہ کیسی رنجش اور کیسا رونا؟ اور کیوں کر رونا؟ ارے غم تو غذائے روح ہے اس سے گریز کیاجس کو ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملےلہذا چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے ماضی کی حسین یادوں کو ، جس کو دہراکر ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں، اگرچہیہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیںاوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹانا کھیل نہیںلیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دوجو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاوٌ رہنے دوپس جدائی کی اس جاں سوز گھڑی میں نمناک آنکھوں اور غم ناک چہروں سے نہیں؛ بلکہ انتہائی بہجت و سرور اور ہشاش بشاش چہروں سے ایک دوسرے کو الوداع کہیے اور یہ تسلی دیجیے کہ اگرچہ فی الوقت ہم ایک دوسرے سے بچھڑ رہے ہیں اور جدا ہورہے ہیں اور یہ شعر زبان زد ہے کہ جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی،جہاں نغمے ہی نغمے تھےوہ گلشن اور وہ یاران غزل خواں یاد آئیں گےلیکن زندگی کے ہر موڑ پر ، جہاں بھی موقع ملے گا۔۔۔ان شاء اللہ ملاقات کرتے رہیں گے اور ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے۔شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تکتمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگیاور اگر زندگی نے وفا نہ کی اور قبل از وصال وفات ہوگئے ، تو ان شاء اللہ ایک وقت سایہ عرش میں ضرور ملاقات ہوگی، جس وقت اگرچہ نفسی نفسی کا عالم ہوگا، لیکن ہماری یہ سچی دوستی ضرور کام آئے گی، الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدوا الا المتقین۔علیکم سلام اللہ انی راحلو عینای من خوف التفرق تدمعان نحن عشنا فھو یجمع بینناو ان نحن متنا فالقیامۃ تجمعدل حکایت غم سے لبریز ہے، جی چاہتا ہے کہ یوں ہی ساز غم کو چھیڑتا رہوں اور اشک بہاتا رہوں، لیکن اپنے جذبات کے اس قدر اظہار سے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں جھوٹا نہ سمجھ لیا جاؤں کہ کہیں دوست تم سے نہ ہوجائیں بد ظنجتاؤ نہ حد سے محبت زیادہاس لیے اپنے جذبات کو ضبط کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ان درو دیوار پر حسرت کی نظر کرتے ہیں خوش رہو اہل چمن ہم تو سفر کرتے ہیں۔