28 Dec 2018

مولانامحمد اسرار الحق قاسمیؒ اور جمعیۃ علماء ہند

مولانامحمد اسرار الحق قاسمیؒ اور جمعیۃ علماء ہند
محمد یاسین قاسمی جہازی
جمعیۃ علماء ہند


بڑی نسبت کے حامل اگر بڑے کہلائیں، تو یہ خاندانی روایت ہوتی ہے اور یہاں پر اس تبصرہ کی گنجائش رہتی ہے کہ ’’بڑے باپ کا بیٹا تھا، تو بڑا بن گیا‘‘۔ لیکن خاندان کو بڑائی کی روایت بخشنا؛ یہ سب سے اعلیٰ درجے کا کمال ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ ایک ایسی ہی شخصیت تھی، جنھوں نے اپنی صلاحیت و صالحیت سے خاندان کو عبقریت، ملت اسلامیہ ہند کو ملی قیادت اور تعلیمی شعور عطا کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ 
جمعیۃ علماء ہند اسلامیان ہند کے لیے حریم و پاسبان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ تاریخی شہادت کی روشنی میں یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ بھارت کا ہر مسلمان پیدائشی طور پر جمعیتی ہے اور جمعیۃ کا ممنون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے ادنیٰ نسبت بھی ایک بھارتی مسلمان کے لیے فخر کی نسبت اور عظمت کا نشان ہوتی ہے؛ لیکن جنھیں اس کی قیادت ؛ اور وہ بھی اعلیٰ قیادت کا شرف مل جائے، تو بالیقین یہ نقارہ خدا ہے، جنھیں بندگان خدا کے غفلت پروردہ دلوں کو متنبہ کرنے کے لیے اور انھیں اپنے فرائض کے تئیں بیدار کرنے کے لیے وہ عہدہ سپرد کیا جاتا ہے۔ 
حضرت ممدوح مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ (۷۔۱۲۔۰۱۸) ایک ایسی ہی شخصیت تھی۔ قاسمی نسبت حاصل کرنے کے بعد بہار کے مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے سے وابستہ ہوئے۔ زبانی روایت کے مطابق غالبا ۱۹۷۵ء میں یہاں ایک پروگرام ہوا، جس میں حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ شریک ہوئے۔ انھوں نے پہلی نگاہ میں ہی مولانا ممدوح کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور مدرسہ کے ذمہ دار سے بات کرکے اپنے ہمراہ دہلی لے آئے اور جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر سے وابستہ کردیا۔ ابتدائی پانچ سالوں تک حضرت فدائے ملتؒ کے زیر سایہ عاطفت تربیت پاتے رہے ، اور جب کندن بن گئے تو اکابرین جمعیۃ نے اپنی صف میں شامل کرتے ہوئے نظامت عمومی کا ذمہ دار عہدہ سپرد کردیا۔ چنانچہمولانا سید احمد ہاشمی ؒ کے بعد ۲۹؍ جنوری ۱۹۸۰ء سے ۹؍ اگست ۱۹۸۱ء تک عارضی ناظم عمومی رہے۔ پھر ۱۰؍ اگست ۱۹۸۱ء کو مستقل طور پر یہ عہدہ آپ کو سپرد کیا گیا، جس پر ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۹۱ء یعنی استعفیٰ پیش کرنے تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ 
اپنی نظامت کے دور میں جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے انھوں نے جوکارہائے نمایاں انجام دیے،ان سب کی رپورٹ کتابچوں کی شکل میں جمعیۃ کی لائبریری میں موجود ہے، ہم طوالت سے بچتے ہوئے یہاں صرف ان کا نام پیش کر رہے ہیں: (۱) میرٹھ فساد کے دل خراش حقائق۔ (۲) ملی کردار۔ (۳) ایران و عراق جنگ۔ (۴) ملی کاوش۔ (۵) آسام سے جائز شہریوں کا غیر قانونی اخراج۔ (۶) آزادی کی لڑائی میں علما کا امتیازی رول۔ (۷) مسلمانوں کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں امتیازی رول۔ (۸) جمعیۃ علماء ہند کا دس نکاتی پروگرام۔ (۹)ریاست آسام کے سیلاب زدہ علاقوں میں جمعیۃ علماء ہند کی امدادی خدمات۔ (۱۰) ملی زندگی کا اہم موڑ۔ (۱۱) لمحات فکر۔ (۱۲) سانحہ حرم۔ (۱۳) فرقہ پرستی کا کھیل خطرناک موڑ پر۔ (۱۴) عازمین حج کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی تجاویز۔ (۱۵) شریعت اسلامی کی بقا و تحفظ اور جمعیۃ علماء ہند کی چھیاسٹھ سال جدوجہد۔ (۱۶) مرادآباد کے فرقہ وارانہ فسادات میں جمعیۃ ریلیف کمیٹی کی امدادی خدمات۔ (۱۷) بابری مسجد اور مسلم خواتین بل۔ (۱۸) امیر الہند اور نائب امیر الہند کا انتخاب۔ (۱۹) تجاویز کل ہند کنونشن برائے علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی۔ (۲۰) آسام کی تاریخ میں سب سے بھیانک سیلاب۔ (۲۱) ملی سفر۔ 
اس فہرست سے آپ مولانا کی خدمات اور کارناموں کا اندازہ لگاسکتے ہیں، جو انھوں نے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے مختلف محاذوں پر انجام دیا۔ مولانا مرحوم جہاں عمل پیہم اور جہد مسلسل کے عنوان تھے، وہیں فکرو قلم کے بھی عظیم سپہ سالار تھے، ایک اندازہ تو درج بالا کتابوں کے نام سے لگاسکتے ہیں، جو سبھی مولانا مرحوم کے قلم کی وجود ہیں، ان کے علاوہ ۱۹۸۴ء میں جب جمعیۃ علماء ہند کا ترجمان روزنامہ الجمعیۃ بند ہوگیا، تو مساوات کے نام سے ایک ہفت روزہ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے اول و آخر ایڈیٹر مولانا محمد اسرارالحق قاسمی بنائے گئے۔ یہ اخبار ۲؍ اکتوبر ۱۹۸۷ء سے اگست ۱۹۸۸ء تک نکلتا رہا۔ پھر جب الجمعیۃ کو روزنامہ کے بجائے ہفت روزہ کی شکل میں نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تو،اس کے ایڈیٹر بھی مولانا ہی رہے ۔جمعیۃ علماء ہند کی لائبریری میں موجود ہفت روزہ الجمعیۃ کے مطابق ۱۹؍ اگست ۱۹۸۸ء کا شمارہ آپ کی ادارت میں شائع ہوا۔ آپ مدیر بھی تھے اور طابع و ناشر بھی۔ اور ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۹۱ء تک مدیر رہے۔ ایک ہزار چار سو تریپن شمارے آپ کی ادارت میں نکلے۔ 
پھر واقعہ یہ ہوا کہ آپ کی جمعیتی زندگی میں ایک انقلابی موڑ آیا، جس نے آپ کو جمعیۃ سے اور جمعیۃ نے آپ کو؛ دونوں نے ایک دوسرے کو، ایک دوسرے سے علاحدہ کردیا۔ حضرت مرحوم کی بعد کی زندگی نے ثابت کردیا کہ جمعیۃ سے استعفیٰ در حقیقت آپ کی ایک نئی زندگی کے آغاز کی تمہید تھی ، چنانچہ آپ نے یہاں سے نکل کرایک نئی تنظیم کی نیو رکھی، جس کا نام آل انڈیا تعلیمی و ملی فاونڈیشن رکھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، مولانا مرحوم نے ملت کی تعلیم و تربیت کے لیے خود کو وقف کردیا اور تا دم واپسیں اس تحریک کی آبیاری فرماتے رہے، اور بعد از مرگ کے لیے ایسی راہ عمل چھوڑ گئے، جس پر چلنے والے ہر فرد مولانا مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ کا سبب بنیں گے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مولانا ؒ کے نقش دم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی مغفرت فرماکر اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت کرے، آمین۔

Think Tank or Fish Tank

تھنک ٹینک۔۔۔یا۔۔۔ فش ٹینک 
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408


میڈی ڈیوڈ (Mady David)کو جب استقرار حمل ہوا، تبھی سے وہ اپنی ذہنی تربیت اور جسمانی صحت کا خیال رکھنے لگی، اس کے لیے وہ روز صبح تین گھنٹے ریاض کرتی اور بادام، دودھ اور دیگر مغزیات استعمال کرتی تھی۔ ذہنی سکون کے لیے میوزک سنتی اور پریشاں کن خیالات سے بچتی تھی۔ اس کے شوہر کا رویہ بھی بالکل مثبت رہتا اور کوئی ایسی بات نہیں کہتا، جس سے ڈپریشن یا معمولی جھگڑے کی نوبت آئے۔ بالآخر ۱۷؍ جنوری ۱۹۹۰ء کو ۸؍ پونڈ وزنی ایک بچہ پیدا ہوا، جس کانام جوسف (Joseph) رکھا گیا۔ روز اول سے ہی بہترین غذا اور اعلیٰ درجہ کی نگہداشت میں اس کی پرورش و پرداخت کی گئی۔ جب اس نے عمر کے تیسرے سال میں قدم رکھا تو نشانہ بازی، تیراندازی اور دوڑ کی جسمانی ٹریننگ دی جانے لگی۔ ذہنی تربیت کا بھی خاص خیال رکھا گیا، حتیٰ کہ اس کے سامنے کوئی اونچی آواز سے بات تک نہیں کرتا تھا۔ حفظان صحت کا بھی پورا خیال رکھاجاتا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک دن بھارتی مہمان اس کے گھر میں آیااور سگریٹ پینے لگا، تو اس کے میزبان باپ نے معذرت کرتے ہوئے سگریٹ پینے سے منع کردیا۔ جوسیف کو چاکلیٹ، چپس اور کول ڈرنک کے بجائے کھجور، پستہ اور بادام دیا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ زندگی میں پہلی اور وہی آخری بار اس نے بارہ سال کی عمر میں جنک فوڈ چکھا تھا، حالاں کہ ان چیزوں کی مصنوعات میں اسرائیل کی اسی پرسینٹ کی شراکت ہے۔ 

جوسیف جب چھٹی کلاس میں پہنچا تو اسکول کی طرف سے ۳؍ ہزار ڈالر تجارت کے لیے دے کر دس ہزار ڈالر کمانے کا ٹارگیٹ دیا، لیکن وہ سات ہزار ہی کماپایا۔ اس ناکامی کو دیکھتے ہوئے اسے کاروباری ریاضی کی خارجی کلاسیں دی گئیں اور پھر ۵؍ ہزار ڈالر دے کر بزنس کرنے کے لیے کہاگیا، چنانچہ اس نے اس سے ۱۶؍ ہزار ڈالر کمائے۔ آگے چل کر اس نے فزکس سے تعلیم مکمل کی اور پھر یہودیوں کی نیویارک میں واقع بلاسود قرض فراہم کرنے والی تنظیم سے قرضہ لے کر ہتھیار بنانے کا کام شروع کیا۔ اور آج کی رپورٹ یہ ہے کہ پوری دنیا ہتھیار کی مارکیٹنگ میں اسرائیل سے لین دین کرنے پر مجبور ہے۔ 
۱۸۹۶ء ؁ میں سوئزر لینڈ کے شہر باسیل (Basel) میں ایک صہیونی رہنما تھیوڈور ہزژل کی صدارت میں ایک خفیہ کانفرنس منعقد ہوئی ، جس میں مخلتف شعبہ ہائے زندگی کے ۳۰۰ صہیونی رہنماؤں اور ۳۰ خفیہ اور عوامی یہودی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پوری دنیا پر اپنی بالادستی مسلط کرنے کے لائحہ عمل پر غور کیا، جس کے لیے Zionist sages protocols کے نام سے ۲۴؍ نکاتی تجاویز منظور کیں۔ اور پھر لونگ ٹرم پالیسی کے تحت نسل در نسل اسے عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ شروع کیا، جو تاہنوز جاری ہے۔ یہودی بچوں کی بنیادی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی پیش رو نسل کے منصوبہ کو لے کر آگے بڑھتی ہے اور آبا و اجداد کی حکمت عملی سے کبھی اختلاف نہیں کرتے۔
اسرائیل سے جڑے ان دو واقعوں کو تحریر کرنے کا مقصد اس راز سے پردہ اٹھانا ہے کہ بالآخر یہودی جو عالمی آبادی کے تناظر میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، اس کے باوجود آج پوری دنیا کے ہر بڑے پلیٹ فارم پر اسی کا قبضہ کیوں ہے؟ آپ بہ خوبی واقف ہیں کہ کسی بھی ملک ، تنظیم یا تحریک کو چلانے کے لیے جتنی منظم حکمت عملی ہوگی، وہ اتنی ہی ترقی کے منازل طے کرتا ہے۔اور حکمت عملی و پالیسی ساز جماعت کو تھنک ٹینک کہاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ترقی یافتہ ممالک کے پاس سب سے زیادہ تھنک ٹینک ہیں، جو تمام شعبہ ہائے حیات کے ماہرین پر مشتمل ہوتے ہیں اور اپنے ملک کی تعمیرو ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ عالمی شماریات پر نظر ڈالی جائے ،تو آج سب سے زیادہ تھنک ٹینک یونائٹیڈ اسٹیٹ کے پاس ہے جس کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو بہتر ہے۔ اس کے بعد علیٰ الترتیب چین اوریوکے کے پاس ہے۔ انڈیا کے پاس سردست دو سو تیرانوے تھنک ٹینک ہیں۔ جو گلوبل کی شماریات کے تناظر میں محض پانچ تھنک ٹینک ہی موثر کردار ادا کر پارہے ہیں۔ 
آج اسلامیان ہند کے مفکرین، دانشوران، روشن خیال اور علما؛ بلکہ عام مسلمان بھی اس بات کا رونا رہے ہیں کہ ہمارے ادارے ۔ خواہ وہ تحریک کی شکل میں ہو یا اداروں کی شکل میں۔یا پھر قیادتیں؛اپنے مقصد میں ناکام ہوچکی ہیں، ان کے پاس نہ تو حال کے لیے کوئی ایکشن پلان ہے اور نہ ہی مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل، جس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ہر کوشش بے سمت ہوچکی ہے ۔ مکاتب سے یہ شکوہ ہے کہ معیار کی تعلیم نہیں ہوتی، مدارس سے گلہ یہ ہے کہ اس کے نصاب عصریات سے اٹیچ نہیں ہیں، اسکول اور کالج ایمان سے ہاتھ دھونے کی فکٹریاں بنتی جارہی ہیں، تحریکوں اور تنظیموں سے بد ظنی یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی گول سیٹ اپ نہیں ہے۔ قیادتوں کے بارے میں تبصرہ کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ ہر ایک شخص ایک دوسرے گروہ سے نالاں اور کردار سے غیر مطمئن ہے۔ 
حالات کا یہ منظر نامہ ہمیں غورو فکر کی دعوت دیتا ہے ، ہمیں سوچنا ہی ہوگا کہ بالآخر ہر چیز میں ناکامی ہی ہماری مقدر کیوں بن چکی ہے اور کیا ہم اس تقدیر کونہیں بدل سکتے ہیں۔۔۔؟ 
راقم کا خیال ہے کہ ہماری ناکامیوں کے کئی اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے۔ مثال کے طور زید ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالتا ہے، جس کا مقصد دینی تعلیم کی اشاعت ہوتا ہے، اس کے لیے وہ ایک شوریٰ بناتا ہے، جو مدرسہ کے ہر فیصلے کے لیے کلی اختیار کا مالک ہے ، لیکن شوریٰ کے ممبران میں ایک ممبر بھی ایسا نہیں ہوتا، جو ماہر تعلیم ہو۔ اس کا ممبر وہی بن سکتا ہے، جو رشتہ دار ہو اور جن سے یہ خطرہ نہ ہو کہ کل کہیں مدرسہ پر قبضہ نہ کرلے اور جو زیادہ سے زیادہ مالی تعاون پیش کرسکے۔ جب ایسے افراد پر مشتمل شوریٰ (جو مدرسہ کا تھنک ٹینک ہے) ہو، تو بھلا وہ مدرسہ اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہوگا، آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ آج ہمارے اکثر اداروں کا یہی حال ہے، ان کے شوریٰ کی فہرست دیکھ لیجیے، اس میں اقربا پروری یا تحفظات فراہم کرنے والے ناموں کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح مسجد کمیٹی کے ممبران کو دیکھ لیجیے ایک بھی ایسا ممبر نہیں ہوگا، جو امام و موذن کی فضیلت و عظمت سے واقف ہو، حتیٰ کہ متولی بھی ایسے شخص کو بنایا جاتا ہے، جو اپنی بیوی کی لڑائی کا غصہ موذن و امام پر نکالنے یا پھر ان میں کیڑے تلاش کرنے کی زیادہ مہارت رکھتا ہے، جب معاملہ ایسا ہے تو امت کی تعمیر وترقی کا کیا حال ہوگا، وہ جگ ظاہر ہے۔ 
اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ امت کے اچھے دن لوٹ کر آئیں، تو اپنی مجلس شوریٰ کو تھنک ٹینک بنائیے۔ آج ہم نے جو بنا رکھا ہے، وہ تھنک ٹینک نہیں؛ بلکہ فش ٹینک ہے ، جس میں چند رنگ برنگی مچھلیاں اس لیے قید کردی جاتی ہیں، تاکہ لوگوں کا دل بہل جائے۔ یاد رکھیے جب تک ہمارا تھنک ٹینک فش ٹینک بنارہے گا، اس سے ہماری تفریح طبع تو ہوسکتی ہے، لیکن۔۔۔لیکن ملت مسلمہ میں نہ تو تعلیمی انقلاب آسکتا ہے، نہ اقتصادی حالات سدھر سکتے ہیں اور نہ ہی قیادتیں ابھر سکتی ہیں!!!!۔

30 Nov 2018

kowe se sekhen gunah chupane ka hunar

کوے سے سکیھیں گناہ چھپانے کا ہنر
محمد یاسین قاسمی جہازی 
9871552408



ہمارے سماج میں گناہوں کے تعلق سے مختلف طبقے اور نظریے کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
(۱) ایک طبقہ تو وہ ہے جو گناہ کو گناہ سمجھ کر ظاہری و باطنی ، ہر طرح سے خود بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اہل اللہ اور ولی صفت طبقہ ہے ، جو ہمارے معاشرے میں اتنی ہی تعداد میں رہ گئے ہیں، جتنی کہ آٹے میں نمک کی مقدار ہوتی ہے۔
(۲) دوسرے وہ لوگ ہیں، جو خود تو بچتے ہیں ، لیکن دوسروں کو بچانے کی فکر یا کوشش نہیں کرتے۔ اس کی تعداد پہلے کی تعداد کے ہی برابر ہے، تھوڑی بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔
(۳) تیسرے ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو گناہ سے بچنے کی تلقین تو کرتے ہیں، لیکن خود نہیں بچتے۔ ایسے لوگ موقع اور وقت کی مناسبت سے اپنا طرز عمل بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ظاہری اعتبار سے بھی اور باطنی اعتبار سے بھی تقویٰ کا مجسمہ بن جاتے ہیں، تو کبھی گناہ کی چلتی پھرتی مشین۔ انھیں جب ذکر و فکر کی مجلس نصیب ہوتی ہے تو متقی بن جاتے ہیں اور جہاں ذرا اس سے ہٹتے ہیں تو اپنی سابقہ فطرت کا رنگ دکھانے سے نہیں چونکتے۔ یا پھر ظاہری طور پر طہارت و تقویٰ کا مرجع نظر آتے ہیں، لیکن جب تنہائی میں ہوتے ہیں، تو معاملہ بالکل الٹا ہوجاتا ہے۔
(۴) چوتھا طبقہ وہ ہے، جس کے لیے گناہ اور ثواب کے کاموں میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ یہ طبقہ اگر کنارہ کشی اختیار کرتا ہے ، تو گناہ اور ثواب کی تفریق کیے بغیر دونوں سے منھ موڑ لیتا ہے ، یا پھر جب کرنے پر آتا ہے، تو بھی کوئی فرق نہیں کرتا، البتہ اس طبقے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ گناہ کو گناہ اور ثواب کو ثواب سمجھتا ہے۔ 
ان چاروں طبقوں کو دیکھا جائے تو ان میں جہاں خرابیاں ہیں ، وہیں کچھ نہ کچھ خوبیوں سے بھی لبریز ہیں، اور اسی وجہ سے ان کو ’’بساغنیمت ‘‘ کے خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔ 
(۵)لیکن ان کے علاوہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جس کے لیے ثواب کے کام ، فضول اور بیہودہ کام ہیں ، جب کہ گناہ کے کام عزت، عظمت اور دولت کے لیے سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ثواب سے نفرت اور گناہوں سے محبت ہی ان کی زندگی کا محبوب مشغلہ ہے۔ ایسے لوگ رات کی تاریکی میں جو کچھ کرتے ہیں، اسے دن کے اجالے میں پھیلانا اپنے لیے عزت و افتخار کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ پردہ سیمیں کی حرکتیں اور بادہ رنگیں کے مناظر میں مثالیں آپ ڈھونڈھ سکتے ہیں 
گناہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا؛ بذات خود مہلک اور زہر قاتل ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ستاریت و غفاریت کے پیش نظر ہمارے ساتھ عفو و درگذر کا معاملہ کیا ہوا ہے۔اسلامی تعلیم اور آقا کریم ﷺ کی ہدایت بھی یہی ہے کہ گناہ خواہ کسی کا ہو ؛ اپنا ہو یا کسی اور کا ہو ؛ اسے چھپانا ضروری ہے ۔ اگر دوسروں کا گناہ ہے، تو اسے تو بالکلیہ چھپانا چاہیے ، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ 
عن ابی ھریرۃؓ قال : قال رسول اللّٰہ ﷺ : إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أکْذَبُ الْحَدیثِ وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَکُونُوا عِبَادَ اللّہِ إِخْوَانًا۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما ینھی عن التحاشد والتدابر)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بدگمانی سے بچتے رہو ، کیوں کہ بدگمانی سب سے بڑی جھوٹی بات ہے ۔ اور دوسروں کے عیب تلاش نہ کیا کرو، اور نہ ان کی چھپی باتوں کا کھوج لگایا کرو، اور نہ کسی کو بھڑکا کر کسی برائی پر آمادہ کیا کرو۔ نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ آپس میں بغض رکھا کرو۔نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیر کر چلا کرو۔ سب ایک اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ۔
بلکہ جو کوئی اپنے بھائی کے گناہوں کو چھپاتا ہے تو زبان رسالت سے اس کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ 
من ستر مسلما، سترہ اللّہ یوم القیامۃ۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لایظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ)
جو کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کریں گے۔ 
اور اگر خود کا گناہ ہے، تو اس کے بار ے میں بھی اسلامی تعلیمات یہ ہے کہ اسے چھپانا چاہیے۔ اگر خود کے اس گناہ کو نہیں چھپائے گا، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ستاریت کی وجہ سے چھپا رکھا تھااور خود ہی لوگوں کے سامنے ظاہر کرے گا ، تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے گناہوں کو بالکل معاف نہیں کرے گا۔ 
کُلُّ أُمَّتِي مُعَافًی إِلَّا المُجَاھِرینَ، وَإِنَّ مِنَ المُجَاھَرَۃِ أَنْ یَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّیْلِ عَمَلًا، ثُمَّ یُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَہُ اللّہُ عَلَیْہِ، فَیَقُولَ: یَا فُلاَنُ، عَمِلْتُ البَارِحَۃَ کَذَا وکَذَا، وَقَدْ بَاتَ یَسْتُرُہُ رَبّہُ، وَیُصْبِحُ یَکْشِفُ سِتْرَ اللّہِ عَنْہُ۔ (صحیح بخاری،کتاب الادب، باب ستر المؤمن نفسہ)
آج کے لوگ اپنے گناہ کو بھی اور بالخصوص دوسروں کے گناہ کو چھپانے کے بجائے اس کی تشہیر کرنا اپنااخلاق و کردارکا حصہ سمجھتے ہیں، جو سراسر انسانی سیرت اور انسانیت کے تقاضے کے خلاف ہے۔ گناہ تو ایسا جرم ہے جو جانور بھی نہیں چاہتاکہ اس کی تشہیر ہو؛ بلکہ وہ بھی اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ الدر المنثور میں سورہ مائد کی آیت نمبر ۳۱ کی تفسیر میں ہے کہ شادی کے معاملہ کو لے کر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ روئے زمین پر چوں کہ پہلا قتل اور پہلی میت تھی، اس لیے قابیل کو سمجھ میں نہیں آیاکہ اس کے ساتھ کیا کریں۔ چنانچہ بہت پریشان ہوا۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے یہ منظر دکھایا کہ ایک کوے نے ایک دوسرے کوے سے لڑائی کی اور پھر اسے قتل کردیا۔ کسی کو قتل کرنا گناہ عظیم ہے۔ اس کوے سے جب یہ گناہ عظیم ہوگیا تو اس نے مردہ کوے کی لاش کو دفن کردیا ، تاکہ اس کا یہ گناہ چھپ جائے اور کوئی دوسرا شخص اس کے گناہ سے واقف نہ ہوسکے۔ پرندوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ کوے میں حیا بہت ہوتی ہے، وہ کبھی بھی کھلے میں جنسی تعلقات نہیں بناتا۔ اور جب اس سے کوئی غلط کام ہوجاتا ہے تو اسے فورا چھپاتے ہیں، اس کی تشہیر نہیں کرتے۔ 
ایک پرندہ گناہ کی شناعت و قباحت کو سمجھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کے گناہ سے کوئی واقف نہ ہو؛ لیکن ایک ہم انسان ہیں جو گناہ کی جرات بھی کرتے ہیں، اور پھر جسے اللہ نے اپنی صفت ستاریت سے چھپا دیا تھا، خود ہی اس کی تشہیر کرکے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ 
جب ایک صاحب عقل و شعور رکھنے والے انسان کے لیے انسانی کردار کے نمونے عبرت سے خالی ہوجائیں تو سمجھ لیجیے کہ انسان انسانیت کی سطح سے گرچکا ہے ۔ ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ کم از کم کوے کے ہی کردار سے سبق حاصل کرتے ہوئے یہ سبق لے کہ اپنے گناہ کو کیسے چھپایا جاتا ہے۔ 

23 Nov 2018

جمعیۃ : ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبان

جمعیۃ : ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبان
۲۳؍ نومبر۱۹۱۹ مطابق یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ یوم تاسیس جمعیۃ علماء ہند؛ ملت اسلامیہ ہند کے لیے عظیم تاریخی انقلاب کا دن ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی، شعبہ دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند


چوں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورا عرب ترکوں کے زیر حکومت تھا، اس لییعالم اسلام کی نگاہوں میں ترکی حکومت کو ’حکومت اسلامیہ‘ اور اس کے خلیفہ کو ’خلیفۃ المسلمین‘ کہاجاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم (۲۸؍ جولائی ۱۹۱۴ء ، ۱۱؍ نومبر ۱۹۱۸ء)میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ترکی کے جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کو تشویش ہوئی کہ اگر برطانیہ کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی مسلمانوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی؛ لیکن برطانیہ نے فتح ملنے کے بعد وعدہ خلافی کرتے ہوئے عربوں کو ترکی کے خلاف جنگ پر اکسایا ، جس کے نتیجے میں بہت سے عرب مقبوضات ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے ، جس پر بعد میں انگریزوں نے قبضہ کرلیا اور پھر ترکی کو تقسیم کرکے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کردیا۔ انگریزوں کی اس بد عہدی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو غم و غصہ سے بھر دیا،جس کے نتیجے میں ’تحریک خلافت‘ رونمائی ۔ اسی تحریک کا پہلا اجلاس’’آل انڈیا خلافت کانفرنس‘‘ کے نام سے بروز اتوار، پیر، ۲۳؍ ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۹ء مطابق ۲۹؍ صفر و یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ کوبمقام کرشنا تھیٹر، پتھر والا کنواں دہلی میں ہورہا تھا ، جس میں بھارت کے کونے کونے سے مختلف مسلک و مشرب کے علمائے کرام شریک تھے۔
علمائے کرام کے باہمی مسلکی اختلاف سے امت مسلمہ کی جو نازک حالت بنی ہوئی تھی، اس نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر ہم یوں ہی عقیدہ و فرقہ کا کھیل کھیلتے رہے ، تووہ دن دور نہیں، جب خلافت کی طرح ہمارا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ وقت کی اسی نزاکت و ضرورت کو سمجھتے ہوئے مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محل، یا مفتی اعظم حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نے علماء کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ۲۲؍ نومبر ۱۹۱۹ء بروز سنیچرحضرت مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی ہدایت کے مطابق مولانا احمد سعید اور مولانا آزاد سبحانی صاحبان نے خلافت کانفرنس میں تشریف لائے علمائے کرام کی قیام گاہوں پر جاکر فردا فردا ملاقات کی اور بڑی راز داری کے ساتھ انھیں ایک تنظیم کی نیو رکھنے کی دعوت دی۔ حکومت برطانیہ چوں کہ علماء پر بہت زیادہ نظر رکھے ہوئے تھی ، اس لیے خطرہ تھا کہ اگر کہیں انگریزوں کو بھنک بھی پڑ گئی تو علماء پر حکومت کے قہر و جبر کی قیامت ٹوٹ پڑے گی، اس لیے ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ بروز اتوار بعد نماز فجرپچ کوئیاں روڈ دہلی میں واقع سید حسن رسول نما کے مزار پرحاضر ہوکر سب نے مل کریہ قول و قرار لیا کہ 
’’ہم سب دہلی کے مشہور ومقدس بزرگ کے مزار کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ مشترک قومی و ملی مسائل میں ہم سب آپس میں متحد ومتفق رہیں گے اور فروعی و اختلافی مسائل کی وجہ سے اپنے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں کریں گے، نیز قومی و ملکی جدوجہد کے سلسلے میں گورنمنٹ کی طرف سے جو سختی اور تشدد ہوگا، اس کو صبرو رضا کے ساتھ برداشت کریں گے اور ثابت قدم رہیں گے۔ جماعت کے معاملہ میں پوری پوری رازداری اورامانت سے کام لیں گے۔ (تحریک خلافت، ص؍۴۰: قاضی عدیل عباسی)
جو علمائے کرام فروعی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس قدر دور ہوگئے تھے کہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے نہیں تھکتے تھے اور ایک دوسرے کو سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے تھے؛ حلف راز داری کے بعد اسی روز، یعنی ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ء مطابق یکم ربیع الاول بروز پیر بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں ایک ساتھ ایک دل اور ایک جان ہوکر بیٹھے اور پوری قوت کے ساتھ میدان عمل تیار کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم تشکیل دی، جس کو ایک خوبصورت نام دیا ، یعنی جمعیۃ علماء ہند۔ اس کے عارضی صدر حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب کوعارضی ناظم بنایا گیا۔ اس تاسیسی اجلاس میں مختلف العقائد کے درج ذیل ۲۵؍علمائے کرام شریک تھے: 
(۱) حضرات مولانا عبد الباری ،(۲) مولانا سلامت اللہ، (۳)مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ، (۴) پیر محمد امام سندھی،(۵) مولانا اسد اللہ سندھی،(۶) مولانا سید محمد فاخر، (۷) مولانا محمد انیس، (۸)مولانا خواجہ غلام نظام الدین،(۹) مولانا محمد کفایت اللہ، (۱۰) مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، (۱۱) مولانا احمد سعیددہلوی،(۱۲) مولانا سید کمال الدین،(۱۳) مولانا قدیر بخش، (۱۴)مولانا تاج محمود،(۱۵)مولانا محمد ابراہیم دربھنگوی،(۱۶) مولانا خدا بخش مظفر پوری، (۱۷)مولانا مولا بخش امرتسری،(۱۸) مولانا عبد الحکیم گیاوی،(۱۹) مولانا محمد اکرام،(۲۰) مولانا محمد منیرالزماں،(۲۱) مولانا محمد صادق،(۲۲) مولانا سید محمد داؤد،(۲۳) مولانا سید محمد اسماعیل،(۲۴) مولانا محمد عبداللہ ،(۲۵) مولانا آزاد سبحانی۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ (اسیر مالٹا) کو مستقل صدر، اور حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کو نائب صدراور مولانا احمد سعید صاحب کو مستقل ناظم اعلیٰ بنایاگیا ۔اس میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دسمبر میں چوں کہ خلافت کانفرنس امرتسر میں ہونے والی ہے، اس لیے اسی موقع پر جمعیۃ علماء ہند کا بھی اجلاس کرلیا جائے۔ 
جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس
جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے محض ۳۵؍ دن بعد،۲۸، ۳۱؍ دسمبر۱۹۱۹ء اور یکم جنوری ۱۹۲۰ء کی الگ الگ تاریخوں میں تین نشستوں پر مشتمل اسلامیہ مسلم ہائی اسکول امرتسر میں جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ پہلی نشست میں باون علمائے کرام شریک ہوئے اور جمعیۃ علمائے ہند کے قیام کی ضرورت و اہمیت پر بحث و گفتگو ہوئی۔ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۱۹ کو دوسری نشست ہوئی جس میں تیس علمائے کرام نے شرکت کی۔ اس میں کل تین تجویزیں منظور ہوئیں، جن میں خلافت اسلامیہ کے خلیفہ سلطان عبد الحمید کے نام کا خطبہ پڑھنے، صلح کانفرنس میں بھارتی مسلمانوں کے وفد کے بھیجنے اور اس تجویز کو ملک معظم کی خدمت میں بھیجنے کی تجاویز تھیں۔تیسری نشست یکم جنوری ۱۹۲۰ء کو ہوئی ، جس میں چوبیس علمائے کرام شریک ہوئے ۔اس میں بھی کئی تجاویز پاس ہوکر منظور ہوئیں اور سب سے پہلی مجلس منتظمہ کی تشکیل عمل میں آئی، اور تئیس درج ذیل اراکین منتخب کیے گئے: 
(۱) مفتی محمد کفایت اللہ صاحب دہلوی، (۲) مولانا احمد سعید صاحب دہلوی، (۳)حکیم محمد اجمل خان صاحب دہلوی، (۴) مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی،(۵) مولانا محمد فاخر صاحب الٰہ آبادی، (۶) مولانا محمد سلامت اللہ صاحب، (۷) مولانا حسرت موہانی صاحب، (۸) مولانا مظہر الدین صاحب، (۹) مولانا محمد اکرام خاں صاحب، (۱۰) مولانا منیر الزماں صاحب، (۱۱)مولانا محمد سجاد صاحب، (۱۲) مولانا رکن الدین صاحب دانا، (۱۳) مولانا خدا بخش صاحب، (۱۴) مولوی پیر تراب صاحب، (۱۵) مولانا عبد اللہ صاحب، (۱۶) مولانا محمد صادق صاحب، (۱۷) مولانا ثناء اللہ صاحب، (۱۸) مولانا سید داؤد صاحب، (۱۹) مولانا محمد ابراہیم صاحب، (۲۰) مولانا عبد اللہ صاحب، (۲۱) مولانا عبدالمنعم صاحب، (۲۲) مولانا سیف الدین صاحب، (۲۳) حکیم ابو یوسف اصفہانی صاحب۔
جمعیۃ علماء ہند کے پہلے دن، پہلی میٹنگ، پہلے اجلاس اور پہلی مجلس منتظمہ کی تفیصلات آ پ نے مطالعہ کرلیا، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں، اس کے اب تک کی دو اعلیٰ قیادت صدور و نظما کی فہرست پر:
صدور 
(۱) حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب ؒ (پہلے عارضی صدر۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹)
(۲) شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندؒ (پہلے مستقل صدر۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹، تا ۲۰؍ نومبر ۱۹۲۰)
(۳) حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب ۔ (۷؍ ستمبر ۱۹۲۱، تا ۷؍ جون ۱۹۴۰ء)
(۴) شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ (جون ۱۹۴۰)
(۵)حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ (۱۹۵۷)
(۶) حضرت مولانا سید فخر الدین صاحبؒ (۱۹۵۹)
(۷) حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب ؒ (عبوری صدر)(۱۹۷۲)
(۸) حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ (اگست ۱۹۷۳)
(۹) حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب (۲۰۰۶)
(۱۰) حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب (۶؍ مارچ۲۰۰۸، تا حال)
نظما
(۱) حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ (پہلے عارضی ناظم۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ء)
(۲) حضرت مولانا احمد سعید صاحب ؒ (پہلے مستقل ناظم عمومی، نومبر ۱۹۲۰)
(۳) حضرت مولانا سجاد بہاری صاحبؒ (جولائی ۱۹۴۰ء )
(۴) حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحبؒ (مارچ ۱۹۴۲)
(۵)حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒ (اگست ۱۹۶۲)
(۶) حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ (جون ۱۹۶۳ء)
(۷) حضرت مولانا سید احمد ہاشمی صاحبؒ (اگست ۱۹۷۳ء)
(۸) حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب (۱۹۸۱)
(۹) حضرت مفتی عبد الرزاق صاحب (۱۹۹۱)
(۱۰) حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب (اپریل ۱۹۹۵)
(۱۱) حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب (۲۰۰۲)
(۱۲) حضرت مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب (۹؍ مئی۲۰۰۸)
(۱۳) حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب (۲۰۱۱ء تاحال) 
اس فہرست سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت ہمیشہ وقت کی بزرگ اور معتبر شخصیات کی ہاتھوں میں رہی ہے، جنھوں نے اپنی ایمانی فراست اور سیاسی بصیرت سے ہمیشہ مسلمانوں کے لیے تعمیری اور مثبت کارنامے انجام دیے ہیں ، جو تاریخ عالم پر ثبت ہے۔ 
جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کے جلی عنوانات
آج بتاریخ ۲۳؍ نومبر ۲۰۱۸ء اس جماعت کی تشکیل کو ننانوے سال پورے ہورہے ہیں ، اگر اس قدیم سالہ جماعت کی خدمات کو تفصیلی طورپر شمار کرایا جائے ، تو یہ اب ناممکن ہے ۔ ناممکن اس لیے نہیں ہے کہ کوئی لکھنے والا نہیں ہے؛ بلکہ ماضی میں جمعیۃ کی خدمات کا جتنا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے، اس سے کہیں زیادہ خدمات وہ ہیں جنھیں کبھی لکھا ہی نہیں گیا ہے۔ اور نہ لکھنے کی ایک لمبی کہانی ہے ۔ مختصرا یہ عرض ہے کہ سید الملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کے بقول جمعیۃ علماء ہند پر انگریزجاسوسوں کی گہری نظر رہتی تھی ، اس لیے جو فیصلے اور لائحۂ عمل طے کیے جاتے تھے ، وہ لکھنے کے بجائے زبانی ہوتے تھے اور یہ زبانی فیصلے بھی کوڈ میں ہوا کرتے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ کا بڑا حصہ حیطۂ تحریر میں نہیں لایاجاسکا۔ اب موجودہ وقت میں ان کا ماخذ صرف اس زمانے سے وابستہ جمعیۃ علماء ہند کے خادمین اور مخدومین ہیں اور ان کے پاس بھی جو سرمایہ ملے گا، وہ زبانی روایتیں ہی ہوں گی اورویسے بھی اب ان کو زندوں میں تلاش کریں، تو ان کی تعداد آٹے میں نمککے برابر بھی نہیں ملے گی، اس لیے ہم پوری تفصیلات پیش کرنے سے عاجزی کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے؛تاہم جو خدمات تاریخ کے صفحات میں قید ہیں، اگر ہم ان کے صرف عنوانات کا جائزہ لیتے ہیں، تو وہ کچھ اس طرح ہیں:
(۱) ہندستان کی مکمل آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد۔
(۲) تعلیمی اداروں کا قیام اور تمام مکاتب فکر کو ساتھ لے کر مکاتب کا نیٹ ورک پھیلانے کی کوششیں۔
(۳)جمہوری نظام حکومت میں برادران وطن کے ساتھ مل کر کام کرنے اور ان سے کام لینے کی حکمت عملی اپنانے پر زور۔
(۴)مسلمانوں کے شرعی مسائل میں کسی بھی طرح کی مداخلت کے خلاف انقلابی کوشش۔
(۵)مساجد، مدارس ، مکاتب، مقابر،خانقاہوں اور دیگر اسلامی اداروں کے تحفظات کے لیے لازوال جدوجہد۔
(۶) اردو کی بقا کے لیے مناسب اقدامات۔
(۷)مسلمانوں کی صلاح و اصلاح کے لیے اصلاح معاشرہ کے پروگرام۔
(۸)اوقاف کے تحفظ کی کوششیں۔
(۹)فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف سخت جدوجہد۔
(۱۰)مسلمانوں کی ملی شناخت کو مٹانے کی سازشوں کو ناکام بنانے کی بھرپور جدوجہد۔
(۱۱) دستور میں مسلمانوں کو ان کے دینی ، ملی، سیاسی اور تعلیمی حقوق سے محروم کرنے یا نقصان پہچانے کی غرض سے کی جانے والی ترمیموں کے خلاف سخت ایکشن۔ 
(۱۲) پاکستان کے نام سے مسلمانوں کو ایک الگ ملک دینے کی شدید مخالفت اور اس کے بجائے متحدہ قومیت کی وکالت۔
(۱۳) تقسیم ہند کے نتیجے میں آبادی کی تبدیلی کی ہولناک تباہی و بربادی اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کی انتھک جدوجہد اور مسلمانوں کو اس ملک میں عزت کے ساتھ رہنے کی حوصلہ افزائی۔
(۱۴) انخلاکنندگان کی جائیدادوں کے سلسلے میں جاری مبہم آرڈی ننس کی وجہ سے مسلمانوں کی جائیدادوں کو درپیش خطرہ اور کسٹوڈین کے من مانی کے خلاف جنگی جدوجہد۔
(۱۵) فرقہ پرست تخریبی طاقتیں اور ایڈمنسٹریشن کے ایک مخصوص طبقہ کا مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت حالات پیدا کردینے کے پیش نظر تمام سنجیدہ اور بااثر حضرات سے مل بیٹھ کر غورو فکر کرنے کی دعوت۔
(۱۶) جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی علی گڑھ کے اقلیتی کردار کی بحالی کی کوشش۔
(۱۷)فلسطین اور پوری دنیا میں انسانیت پرہورہے مظالم کے خلاف سخت احتجاج۔
(۱۸)اکابر کی خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے سیمنار اور پروگراموں کا انعقاد۔
(۱۹)حرمین شریفین کے تحفظ کی کوشش۔
(۲۰) حجاج کرام کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش۔
(۲۱)ارتداتی سرگرمیوں پر روک لگانے کے لیے حالات کے تقاضے کے مطابق کمیٹیوں کی تشکیل اور عیسائی مشنریز کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے موثر اقدامات
(۲۲)توہین رسالت کے معاملے پر سخت ایکشن۔
(۲۳) مسلمانوں کے شرعی مسائل کے حل کے لیے مباحث فقہیہ اور امارت شرعیہ کا قیام۔
(۲۴)دہشت گردی مخالف کانفرنسوں کا انعقاد۔
(۲۵) قدرتی آفات اور فرقہ وارانہ فسادات میں اجڑے اور برباد ہوئے لوگوں کے لیے وسیع پیمانے پر ریلیف ورک اور باز آباکاری کی انتھک کوششیں۔
(۲۶)جیلوں میں بے قصور بند افراد کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی۔
(۲۷) عالم اسلام کے مسائل پر گہری نظر ۔
(۲۸) مسلمانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ۔
(۲۹) مسلمانوں کی ملی وحدت برقرار رکھنے کی کوشش۔
(۳۰) مسلمانوں اور برادران وطن کی سماجی اور اقتصادی خدمات۔
( ۳۱) علمی و اشاعتی کارنامے۔
(۳۲) حالات اور وقت کے تقاضے کے مد نظر کانفرنسوں اور جلسہ ہائے عام کا انعقاد۔
یہ وہ جلی عنوانات ہیں ، جن پر جمعیۃ علماء ہند نے اپنی خدمات سے ایک تاریخ رقم کی ہے۔اور جن سے آپ بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے جمعیۃ علماء ہند کا وجود کیا حیثیت رکھتا ہے ۔ تاریخ کی شہادت کی روشنی میں یہ دعویٰ کرنا نہ مبالغہ آرائی ہوگی اور نہ ہی خلاف واقعہ حکایت کہ ماضی میں جس قسم کی سیاست ہوئی ہے اور حال میں جس قسم کی سیاست ہورہی ہے، اگر جمعیۃ نہ ہوتی، تو بھارتی مسلمانوں کے لیے یہ ملک برما سے بھی زیادہ بدتر ہوتا ۔ 
موجودہ حالات میں بھی جب کہ ہر طرف خوف و ہراس اور دہشت گردی ناچ رہی ہے، کچھ لوگ بھیڑ کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر انسانیت کے چہرے کو نوچ رہے ہیں، اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات کو تنگ کرنے کی ہر گھڑی سازشیں ہورہی ہیں، جن سے ہمہ وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ مشترک قومی سماج میں نہ جانے کب ایک پڑوسی دوسرے کے لیے بھیڑیہ بن جائے اور انسان اپنے ہی بھائیوں کے خون کا پیاسا ہوجائے، ایسے حالات میں سیکولرازم اور جمہوریت کی فضا کو قائم رکھنا ،اکثریتی سماج میں اقلیت کی حفاظت کو یقینی بنانا ،ظلم و بربریت کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود مایوسی سے بچائے رکھنااور حق داری کے دعویٰ کے ساتھ سر اٹھاکر جینے کاحوصلہ بخشنا ؛ یہ صرف اور صرف جمعیۃ علماء ہند کا کارنامہ ہے۔سردست حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری صدر جمعیۃ علماء ہند اور قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کی بصیرت افروز قیادت کے تلے جمعیۃ علماء ہند ، ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کا فریضہ انجام دینے میں پیہم رواں دواں ہے۔ 

۲۳؍ نومبر۱۹۱۹ مطابق یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ یوم تاسیس جمعیۃ علماء ہند

۲۳؍ نومبر۱۹۱۹ مطابق یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ یوم تاسیس جمعیۃ علماء ہند

جمعیۃ علماء ہندکا یوم تاسیس؛ یقیناًملت اسلامیہ ہند کے لیے ایک عظیم تاریخی انقلاب کا دن ہے۔
محمد یاسین قاسمی جہازی

(۱) علما کے باہمی مسلکی اختلاف ، عالمی حالات اور خود غلام بھارت کا منظر نامہ بتلارہا تھا کہ اگر علما ایک پلیٹ پر جمع نہیں ہوں گے، تو بھارت سے اسلام اور مسلمانوں کا وجود ختم ہوجائے گا۔ 
(۲) چنانچہ اس چبھن نے ۲۳، ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۹ کودہلی میں منعقد آل انڈیا خلافت کانفرنس کے موقع پر بھارت کے کونے کونے سے تشریف لائے ہوئے مختلف مسالک کے علمائے کرام کو متحد کرنے پر آمادہ کیا۔ 
(۳) ۲۲؍ نومبر ۱۹۱۹ اتوار کو مولانا احمد سعید اور مولانا آزاد سبحانی صاحبان نے علما کی قیام گاہوں پر جا کر فردا فردا ملاقات کی اور ایک تنظیم بنانے کی دعوت دی۔ 
(۴) چوں کہ علما پر انگریزوں کی گہری نظر تھی ، اس لیے ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹، بروز سوموار بعد نماز فجر ، دہلی کے ایک مشہور بزرگ سید حسن رسول نما کے مزار پرحاضر ہوکر سب نے عہد لیا کہ ’’ ہم مسلکی اور فروعی اختلاف سے اوپر اٹھ کر مشترک قومی و ملی مسائل میں متحد و متفق رہیں گے ، ہمارے خلاف انگریزی حکومت کے ہر ظلم و جبر کو برداشت کریں گے اور جماعت کے معاملہ میں پوری رازداری اور امانت سے کام لیں گے‘‘۔ 
(۵) حلف راز داری کے بعد اسی روز یعنی ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹، بروز سوموار مطابق یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ کو بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں میٹنگ ہوئی، جس میں مختلف مسالک کے ۲۵؍ علمائے کرام نے شرکت کی اور جمعیۃ علماء ہند کی داغ بیل ڈالی۔ 
(۶) جمعیۃ علماء ہند روز اول سے ہی مسلکی تحفظات سے اوپر اٹھ کر ، قرآن و احادیث کی روشنی میں ملت اسلامیہ ہند کے روشن مستقبل اور بھارت کی تعمیری سیاست کے لیے کوشاں رہی ہے ۔ 
(۷) ۲۳؍ نومبر ۲۰۱۸ء کو ننانوے سال پورے ہوچکے ہیں، اس طویل سفر کی خدمات کا تفصیلی جائزہ ، سردست ممکن نہیں؛ بلکہ مختصر تذکرے کے بجائے ، محض بڑی بڑی خدمات پربھی نظر ڈالیں تو تقریبا بتیس جلی عنوانات سامنے آتے ہیں: 
(۱) ہندستان کی مکمل آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد۔
(۲) تعلیمی اداروں اور مکاتب کا نیٹ ورک پھیلانے کی کوششیں۔
(۳)جمہوری نظام حکومت میں برادران وطن کے ساتھ مل کر کام کرنے کی حکمت عملی اپنانے پر زور۔
(۴) شرعی مسائل میں مداخلت کے خلاف انقلابی کوشش۔
(۵)مساجد، مدارس ، مکاتب، مقابر،خانقاہوں اور دیگر اسلامی اداروں کے تحفظات کے لیے لازوال جدوجہد۔
(۶) اردو کی بقا کے لیے مناسب اقدامات۔
(۷)مسلمانوں کی اصلاح کے لیے اصلاح معاشرہ کے پروگرام۔
(۸)اوقاف کے تحفظ کی کوششیں۔
(۹)فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف سخت جدوجہد۔
(۱۰)مسلمانوں کی ملی شناخت کو مٹانے کی سازشوں کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش۔
(۱۱) دستور میں مسلمانوں کو دینی ، ملی، سیاسی اور تعلیمی حقوق سے محروم کرنے یا نقصان پہچانے کی غرض سے کی جانے والی ترمیموں کے خلاف سخت ایکشن۔ 
(۱۲) پاکستان کے نام سے مسلمانوں کو ایک الگ ملک دینے کی شدید مخالفت اور اس کے بجائے متحدہ قومیت کی وکالت۔
(۱۳) تقسیم ہند کے نتیجے میں آبادی کی تبدیلی کی ہولناک تباہی اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کی جدوجہد۔
(۱۴) پاکستان جانے والوں کے نام پر مسلمانوں کی جائیدادوں کو درپیش خطرہ اور کسٹوڈین کے من مانی کے خلاف جنگی جدوجہد۔
(۱۵) فرقہ پرستوں اور ایڈمنسٹریشن کا مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت حالات پیدا کردینے کے پیش نظر اہل فکر و نظر کو مل بیٹھ کر غورو فکر کرنے کی دعوت۔
(۱۶) جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی کوشش۔
(۱۷)فلسطین اور پوری دنیا میں انسانیت پرہورہے مظالم کے خلاف سخت احتجاج۔
(۱۸)اکابر کی خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے سیمنار اور پروگراموں کا انعقاد۔
(۱۹)حرمین شریفین کے تحفظ کی کوشش۔
(۲۰) حجاج کرام کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے مناسب اقدامات۔
(۲۱)ارتداتی سرگرمیوں پر روک لگانے کی جدوجہد۔
(۲۲)توہین رسالت کے معاملے پر سخت ایکشن۔
(۲۳) شرعی مسائل کے حل کے لیے مباحث فقہیہ اور امارت شرعیہ کا قیام۔
(۲۴)دہشت گردی مخالف کانفرنسوں کا انعقاد۔
(۲۵) قدرتی آفات اور فرقہ وارانہ فسادات میں اجڑے ہوئے لوگوں کی باز آباکاری۔
(۲۶)جیلوں میں بے قصور بند افراد کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی۔
(۲۷) عالم اسلام کے مسائل پر گہری نظر ۔
(۲۸) مسلمانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ۔
(۲۹) مسلمانوں کی ملی وحدت برقرار رکھنے کی کوشش۔
(۳۰) مسلمانوں اور برادران وطن کی سماجی اور اقتصادی خدمات۔
( ۳۱) علمی و اشاعتی کارنامے۔
(۳۲) حالات اور وقت کے تقاضے کے مد نظر کانفرنسوں اور جلسہ ہائے عام کا انعقاد۔
ان خدمات سے آپ بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے جمعیۃ علماء ہند کا وجود کیا حیثیت رکھتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں جس قسم کی سیاست ہوئی ہے اور حال میں جس قسم کی سیاست ہورہی ہے، اگر جمعیۃ نہ ہوتی، تو بھارتی مسلمانوں کے لیے یہ ملک برما سے بھی زیادہ بدتر ہوتا ۔ 
موجودہ حالات میں بھی جب کہ ہر طرف خوف و ہراس اور دہشت گردی ناچ رہی ہے، کچھ لوگ بھیڑ کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر انسانیت کے چہرے کو نوچ رہے ہیں، ایسے حالات میں جمہوریت کی فضا کو قائم رکھنا ،اکثریتی سماج میں اقلیت کی حفاظت کو یقینی بنانا ،ظلم و بربریت کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود مایوسی سے بچائے رکھنااور حق داری کے دعویٰ کے ساتھ سر اٹھاکر جینے کاحوصلہ بخشنا ؛ یہ صرف اور صرف جمعیۃ علماء ہند کا کارنامہ ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی قیادت روز اول سے ہی وقت کے نبض شناس اور مومنانہ فراست کے حامل اکابرین کے ہاتھوں میں رہی ہے ۔ اور آج بھی ایسے ہی حضرات کی بصیرت افروز قیادت کے تلے، ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کا فریضہ انجام دینے میں پیہم رواں دواں ہے۔ 

जमीयत उलेमा ए हिंद का स्थापना दिवस एक ऐतिहासिक इंकलाब का दिन

जमीयत उलेमा ए हिंद का स्थापना दिवस एक ऐतिहासिक इंकलाब का दिन
लेख: मोहम्मद यासीन कासिमी
9871552408
अनुवाद: अनवर अहमद नूर


जमीयत उलेमा ए हिंद का स्थापना दिवस वास्तव में मिलते इस्लामिया के लिए एक बड़ा ऐतिहासिक इंकलाब का दिन है
1 उलमा के आपसी मसलकी मतभेद विश्व जगत के हालात और स्वयं गुलाम भारत का दृश्य दिखा रहा था कि अगर उलेमा एक प्लेटफार्म पर जमा नहीं होंगे तो भारत से इस्लाम और मुसलमानों का अस्तित्व समाप्त हो जाएगा
2
इस चुभन ने 23 24 नवंबर 1919 को दिल्ली में आयोजित ऑल इंडिया खिलाफत कान्फ्रेंस के अवसर पर भारत के कोने-कोने से आए हुए विभिन्न मतों के उलमा ए कराम विद्वानों को एकजुट करने पर तैयार किया
3 22
नवंबर 1919 इतवार को मौलाना अहमद सईद साहब और मौलाना आजाद सुभानी साहब ने अलग अलग उलमा हजरत के घरों पर जाकर मुलाकात की और एक संस्था बनाने का निमंत्रण दिया
4
क्योंकि उलेमा पर अंग्रेजों की गहरी नजर थी इसलिए 23 नवंबर 1919 दिन सोमवार बाद नमाज फज्र एवं प्रसिद्ध बुजुर्ग सैयद हसन रसूल नुमा के मजार पर हाजिर होकर सबने प्रण किया कि हम मत संप्रदाय और निजी मतभेदों से ऊपर उठकर संयुक्त कौमी मिलली मसाइल मामलों में एकजुट वह सहमत रहेंगे हमारे खिलाफ अंग्रेज सरकार के हर जुल्म जबर को बर्दाश्त करेंगे और संगठन जमात के मामले में पूरी गोपनीयता और ईमानदारी से काम लेंगे
5
गोपनीयता की शपथ के बाद इसी दिन यानी 23 नवंबर 1919 दिन सोमवार एक रबी उल अव्वल 1338 हिजरी को ईशा की नमाज के बाद मस्जिद दरगाह सैयद हसन रसूल नुमा में मीटिंग हुई जिसमें विभिन्न संप्रदायों के 25 उलमा कराम ने भाग लिया और जमीयत उलेमा ए हिंद की नीव रखी
6
जमीयत उलेमा ए हिंद पहले दिन से ही मत संप्रदाय मतभेदों से ऊपर उठकर कुरान व हदीसो की रोशनी में भारतीयों के उज्जवल भविष्य और राजनीतिक सुधार के लिए ही प्रयासरत रही है
7 23
नवंबर 2018 को 99 साल पूरे हुए इस लंबे सफर के एक एक एक साल की सेवाओं पर एक एक मिनट ही बातचीत की जाए तो 99 मिनट चाहेंगे इसलिए संक्षिप्त चर्चा के बजाय सिर्फ बड़ी-बड़ी सेवाओं पर भी नजर डालें तो लगभग 32 शीर्षक सामने आते हैं
1-
हिंदुस्तान की संपूर्ण आज़ादी के लिए पूरा पूरा संघर्ष
2-
शैक्षिक और दीनी संस्थानों का नेटवर्क फैलाने की कोशिशें
3 -
लोकतांत्रिक व्यवस्था में देशवासियों के साथ मिलकर काम करने की रणनीति अपनाने पर जोर
4
मुसलमानों के शरई दीनी मामलों में हस्तक्षेप के खिलाफ इंकलाबी कोशिश
5
मस्जिदों मदरसों मकतबो मकबरो खान काहो और दूसरे इस्लामी इदारो की सुरक्षा के लिए संघर्ष
6
उर्दू के अस्तित्व के लिए उचित कदम
7
मुसलमानों के सुधार के लिए समाज सुधार के प्रोग्राम
8
वक्फ संपत्तियों की सुरक्षा के प्रयास
9
सांप्रदायिक दंगों के खिलाफ कड़ा संघर्ष 10 मुसलमानों की अपनी पहचान को मिटाने की साजिशों को असफल बनाने की भरपूर कोशिश
11
संविधान में मुसलमानों को उनके दीनी मिलली राजनीतिक और शैक्षिक अधिकारों से वंचित करने या नुकसान पहुंचाने के उद्देश्य से किए जाने वाले परिवर्तनों के खिलाफ सख्त एक्शन
12
पाकिस्तान के नाम से मुसलमानों को एक अलग देश देने का कड़ा विरोध और उसके बजाए एक राष्ट्रवाद की वकालत 13 भारत बंटवारे के परिणाम में आबादी की अदला बदली की भयानक तबाही और सांप्रदायिक दंगों को रोकने के कड़े प्रयास 14 पाकिस्तान जाने वाले मुसलमानों की संपत्तियों को होने वाले खतरे और कस्टोडियन की मनमानी के खिलाफ कड़ा संघर्ष
15
सांप्रदायिकता और प्रशासन का मुसलमानों के लिए असहनीय हालात पैदा कर देने की स्थिति पर मिल बैठकर मनन चिंतन यानी गौर व फिक्र करने का निमंत्रण 16 जामिया मिलिया इस्लामिया और अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी के अल्पसंख्यक चरित्र की बहाली की कोशिश 17 फिलिस्तीन और पूरी दुनिया में मानवता पर हो रहे अत्याचारों के खिलाफ कड़ा विरोध
18
अकाबिर महापुरुषों के ऐतिहासिक कार्यों से नई पीढ़ी को परिचित कराने के लिए सेमिनार और प्रोग्राम का आयोजन 19 हरमैन शरीफैन की सुरक्षा की कोशिश 20 हज यात्रियों की परेशानियों को दूर करने के लिए उचित कदम
21
धर्म विरोधी गतिविधियों पर रोक लगाने के लिए प्रभावी कार्यवाही एवं संघर्ष
22
पैगंबर इस्लाम के अपमान के मामलों पर सख्त एक्शन
23
शरई मामलों के हल के लिए उचित प्रबंध और इमारतें शरिया की स्थापना
24
आतंकवाद विरोधी कॉन्फ्रेंसो का आयोजन
25
प्राकृतिक आपदा और सांप्रदायिक दंगों में बर्बाद हुए लोगों की सहायता एवं पुनर्स्थापना
26
जेलों में कैद निर्दोष लोगों की रिहाई के लिए कानूनी उपचार
27
विश्व इस्लामी जगत की समस्याओं पर दृष्टि और चिंतन
28
मुसलमानों के राजनीतिक हितों की सुरक्षा एवं संरक्षा
29
मुसलमानों की अपनी पहचान व अस्तित्व कायम रखने की कोशिश
30
मुसलमानों और देशवासियों की समाजी और आर्थिक सहायता
31
साहित्यिक शैक्षिक और अदबी प्रकाशन के कार्य
32
समय और आवश्यकता के अनुसार कॉन्फ्रेंसो सम्मेलनों और जनसभाओं का आयोजन
यह वह बड़े शीर्षक हैं जिन पर जमीयत उलेमा ए हिंद ने अपने
कार्यों से एक इतिहास रचा है और जिनसे आप अच्छी तरह अनुमान लगा सकते हैं कि भारतीय मुसलमानों के लिए जमीयत उलेमा हिंद का अस्तित्व क्या महत्व रखता है इतिहास की रोशनी में यह दावा करना अतिशयोक्ति होगी मगर हालात की सच्चाईयां और पूर्व की राजनीति तथा वर्तमान की राजनीति के दृष्टिगत यह सच है कि अगर जमीयत उलेमा ए हिंद न होती तो भारतीय मुसलमानों के लिए यह देश वर्मा से भी अधिक बदतर होता वर्तमान हालात में भी जबकि हर तरफ भय निराशा और आतंकवाद नाच रहा है कुछ लोग भीड़ के धार्मिक उन्माद को भड़का कर मानवता के चेहरे को नोच रहे हैं अब ऐसे हालात में सेक्युलरिज्म और लोकतंत्र के वातावरण को स्थापित रखना बहुसंख्यक समाज में अल्पसंख्यकों की सुरक्षा को विश्वसनीय बनाना अत्याचार बर्बरता के पहाड़ टूटने के बावजूद निराशा से बचाए रखना और पूरी हकदारी के दावे के साथ सिर उठाकर जीने का हौसला बख्शा यह सिर्फ और सिर्फ जमीयत उलेमा ए हिंद का कारनामा है हजरत मौलाना कारी सैयद मोहम्मद उस्मान मंसूरपुरी अध्यक्ष जमीयत उलेमा हिंद हजरत मौलाना सैयद महमूद असद मदनी महासचिव जमीअत उलेमा हिंद के सफल नेतृत्व में जमीयत उलेमा ए हिंद भारतवर्ष में राष्ट्र की मिलली धरोहर के संरक्षण का कर्तव्य निर्वाहन करने में अग्रसर है


16 Nov 2018

Kiyonke Samaj ki tameer abhi jari hi

کیوں کہ ۔۔۔سماج ابھی بھی زیر تعمیر ہے
ملازمین کی تن خواہوں میں اضافے کیے بغیر اصلاح معاشرہ ممکن نہیں ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

ماہر سماجیات انسان کو ایک سوشل جانور کہتے ہیں؛ کیوں کہ سماج اور اجتماعیت سے کٹ کر رہنا اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ انسان کو سماج سے الگ تھلگ کرنا سزا سے کم نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مجرموں کو ’قید تنہائی‘ کی سزا دی جاتی ہے۔ 
انسان اپنے اسی سماجی ذہن کی وجہ سے معاشرہ کی تعمیر و تشکیل اور اسے خوب سے خوب تر بنانے میں روز اول ہی سے کوشاں ہے، جس کا سفر تاہنوز جاری ہے۔ آج ہم جسے مثالی سماج کہتے ہیں ، یہاں تک پہنچنے میں صدیاں زمانے سے محو سفر ہیں۔ صاحب’’ فلسفہ اسلام ‘‘لکھتے ہیں کہ 
’’انسانوں کی سماجی ذہن اور معاشرتی زندگی رفتہ رفتہ ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ آج دنیا تہذیب وتمدن کے اعتبار سے جہاں تک پہنچی ہے، وہاں تک پہنچنے میں صدیوں کے تجربات اور انسان کی تعمیری کھوج شامل ہے۔ گھوڑے گدھے کی سواری سے ہوائی جہازکے سفر تک اچانک یا یک بارگی نہیں پہنچا گیا ہے؛ بلکہ دونوں کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے۔ ؂
کس کا خیال کونسی منزل نظر میں ہے
صدیاں گذر گئیں کہ زمانہ سفر میں ہے
(اقتباس ازعنوان : اشیائے کائنات سے نفع اندوزی کا فطری نظام)
سماجیات کی شروعات بدوی زندگی سے ہوئی ، جو اس کی ابتدائی تصویر تھی جو رفتہ رفتہ شہری معاشرت میں تبدیل ہوئی۔ اس تبدیلی نے تنظیم و ترتیب کا سلیقہ سکھایا تو حکومت کا شعور پیدا ہوا اور پھر عالمی وحدت کی کھوج نے خلافت کبریٰ تک پہنچایا۔ 
سماج کی تعمیرو ترقی میں جہاں خوبیاں پروان چڑھتی ہیں، وہیں ایسے عوامل و عناصر بھی پنپتے رہتے ہیں جو ایک اچھے سماج کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان سماجی حیوان ہونے کے باوجوداسے اصلاحی تحریکیں چلانی پڑتی ہیں،جو ان برائیوں کو ختم کرکے مثالی سماج بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے ایسا اشتہار ضرور دیکھا ہوگاجس کا عنوان ’جلسہ اصلاح معاشرہ‘ وغیرہ ہوتا ہے۔ 
موجودہ دور میں تعلیمی اور سماجی مجبوری کے تحت جولوگ اپنے معاشرے اور سماج سے دور رہتے ہیں ،ان میں دو قسم کی برائیاں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ تعلیمی مجبوری کے تحت نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے سماج سے دور کسی بڑے شہر کی بڑی یونی ورسٹی میں رہتے ہیں ، جہاں کی چکاچوند اور رنگین زندگیوں سے مرعوب ہوکر اپنی زندگی کو بھی فلمی بنانا چاہتے ہیں اور انسانی سماج کو جانوروں کے سماج تک پہنچانے والی تحریکوں سے متاثر ہوکر جانور بننے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور اس طرح سے ’لیونگ ریلیشن شپ ‘ کی زندگی اختیار کرلیتے ہیں ، جو طوائف کی زندگی اور اس زندگی میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ کہنا خلاف واقعہ حکایت نہیں ہوگی کہ جس طرح جانور کوئی سماج نہیں بناتا، وہ صرف (companion) بناتا ہے، اسی طرح اس رشتہ میں اس کے علاوہ اور کیا ہوتا ہے؟۔اورجس طرح جانوروں میں کوئی ماں باپ، حسب نسل اور بھائی بہن نہیں ہوتا، اسی طرح اس رشتہ سے پرورش پانے والی مستقبل کی نسل کا کیا یہی نقشہ نہیں ہوگا؟!!۔ میری گذارش یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نیہم کو انسان بنایا ہے، جس میں ماں کی عظمت، والد کا احترام، بہنوں کا تحفظ، بھائیوں کا بازو اور شریک حیاتبیوی جیسی نعمت بخشی ہے، تو ان رشتوں کے تقدس کو پامال کرنا بالیقین انسان کی انسانیت کے لیے ایک چیلنج اور ایسا معاشرہ ایک صالح معاشرہ کے لیے بدنما دھبہ ہے۔ 
اسی طرح جو لوگ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے اپنی فیملی اور معاشرے سے دور رہتے ہیں ، ان کے اندر محرومی و مایوسی اور جنسی جرائم کے جذبات پنپتے لگتے ہیں۔ وہ جہاں کام کرتے ہیں، وہاں انھیں اتنی تن خواہ نہیں ملتی کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ رکھ سکیں، اور نہ ہی اتنی چھٹی ملتی ہے کہ وہ بار بار اپنی فیملی کے پاس جاسکے، پھر ہوتا یہ ہے کہ جوب ملنے کے بعد فورا شادی ہوجاتی ہے اور جوب ملنے کی وجہ سے فورا ادارہ جوائن کرنا پڑتا ہے، جس کے باعث نئی نویلی دولہن کو وقت نہیں دے پاتا اور اسے چھوڑ کر کمپنی یا جائے معیشت پر جانا پڑتاہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ یہاں کے معاشرے کو برباد کرتا ہے اور بیوی وہاں کے معاشرے کو بدنام کرتی ہے۔
صرف دنیا کمانے والی کمپنیاں اور ادارے اگر ایسا کریں، تو ہمیں کوئی شکوہ نہیں ، کیوں کہ ایسے ادارے اخلاقیات و سماجیات کے کسی اصول کے پابند نہیں ہوتے، یہ ادارے حصول دولت کے لیے قریبی رشتوں کا خونتک کردیتے ہیں اور انھیں کوئی افسوس نہیں ہوتا کیوں کہ ان کے سامنے صرف اور صرف دولت کی جمع بندی کی ہوس ہوتی ہے اور اس میں کامیاب ہونے کے لیے وہ کسی حد تک گرسکتے ہیں؛ لیکن ہم اس وقت شکوہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جب ہم اسلام کی واضح اور روشن تعلیمات سے منور ذہن و فکر کے ساتھ اسلامی ادارے چلاتے ہیں ، جہاں دن رات خدائی قانون اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مقدسہ و مطہرہ کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے مخاطب کو یہ سکھاتے ہیں کہ مزدوروں کو ان کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اجرت دے دو، جہاں ہم ملنے والے معاوضہ کو سیلری کے بجائے ’’ تنخواہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی جتنابدن اور ضروریات زندگی کی طلب ہے، وہ دیتے ہیں، ایسے اداروں میں نوجوان اور پرجوش افراد کو نوکری پر رکھتے ہیں ۔ اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ نوکری ملتے ہی شادی ہوجاتی ہے ، لیکن نوکری میں ملنے والی رقم اتنی ناکافی ہوتی ہے کہ اس سے بیوی بچے توکیا اپنا ذاتی خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا، جس کے باعث وہ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں رکھ پاتا ہے۔ اسی طرح ہم انھیں اتنی چھٹی نہیں دیتے کہ وہ بار باربوقت ضرورت بیوی بچوں سے مل سکے، تو نتیجہ ظاہر ہے کہ معاشرے کاکیا ہوگا اور اس میں چلائی جانے والی اصلاحی تحریکیں کتنی کارگر ہوں گی!!!!۔
شاید انھیں حالات کو دیکھتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کے دینی مرکز دارالعلوم دیوبند نے ۱۵؍ اکتوبر کو منعقد مجلس شوریٰ کے اجلاس میں اساتذہ و دیگر اسٹاف کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کی تجویز منظور کی۔ اور پھر صحیح معنی میں منسلک کچھ مدارس نے اس کی تقلید کرتے ہوئے اپنے استاذوں کے محنتانہ میں اضافہ کیا۔ اس اقدام اور اس کی تقلید کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، کیوں کہ وقت کے شدید تقاضے کے بنیاد پر یہ فیصلہ لیاجانا بہت ضروری تھا۔اور ہر مدرسے اور کسی بھی قسم کے ادارے چلانے والے مسلم حضرات کو اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ 
دارالعلوم دیوبند اور دیگر اسلامی ادارے نے یہ فیصلہ کیا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کیوں کہ یہ عین اسلامی ہدایت پر عمل ہے، لیکن ہمارے سامنے کچھ ایسے لوگوں کی بھی نادر مثال موجود ہے، جو خالص تاجر پیشہ ہے، اس کے باوجود اپنے ملازمین کی قیمت کو سمجھتے ہیں اور ان کی محنت سے زیادہ ان کو عطا کرتے ہیں۔ چنانچہ گجرات کے ہری کرشنا ایکسپورٹ کے مالک ہیرا تاجر ساؤ جی ڈھولکیا ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء سے تقریبا ہرسال دیوالی کے موقع پراپنے یہاں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کو کبھی گھر، کبھی گاڑی ، کبھی زیورات اور دیگر مہنگے مہنگے قیمتی تحفے دیتے رہتے ہیں۔ جذبہ بخش کے حوالے سے این ڈی ٹی وی کے مشہور اینکر رویش کمار کے ایک سوال کے جوابمیں کہا کہ میں جو کچھ بھی ہوں ، انھیں اسٹاف کی بدولت ہوں، اس لیے میں سبھی منافع کو نہیں رکھ سکتا ہوں ، اس میں میرے اسٹاف کا بھی حق ہے۔ 
آپ نام سے ہی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ ایسا شخص ہے، جس کے اعمال کا بدلہ دنیاوی زندگی تک ہی محدود ہے، آخرت میں اس کا کچھ صلہ ملنے والا نہیں ہے، اس کے باوجود اپنے اسٹاف کے ساتھ وہی معاملہ کیا ہے، جو سراسر اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے، تو کیا ہم مسلمان۔ خواہ کسی بھی ادارے، فیکٹری، دکان وغیرہ کے مالک ہیں، جس میں ہمارے ماتحت کام کرنے والے ملازمین ہیں۔ اس اسلامی سبق کو عملی جامہ پہنانے کے زیادہ حق دار نہیں ہیں؟کیا ہم حالات و ضروریات کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے اپنے اسٹاف کے دکھ درد اور غم میں شریک نہیں ہوسکتے؟ 
مثالی معاشرے کی تعمیرو ترقی کے لیے ضروری ہے کہ جن چھوٹے چھوٹے پہلووں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، اس پر خصوصی توجہ دیں اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں درج بالا مثالوں کی طرح ، یا پھر اس سے اعلیٰ درجہ کا اپنا قابل تقلید کردار ادا کریں، کیوں کہ۔۔۔ سماج کی تعمیر ابھی بھی جاری ہے۔۔۔۔