۲۳؍ نومبر۱۹۱۹ مطابق یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ یوم تاسیس جمعیۃ علماء ہند
جمعیۃ علماء ہندکا یوم تاسیس؛ یقیناًملت اسلامیہ ہند کے لیے ایک عظیم تاریخی انقلاب کا دن ہے۔
محمد یاسین قاسمی جہازی
(۲) چنانچہ اس چبھن نے ۲۳، ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۹ کودہلی میں منعقد آل انڈیا خلافت کانفرنس کے موقع پر بھارت کے کونے کونے سے تشریف لائے ہوئے مختلف مسالک کے علمائے کرام کو متحد کرنے پر آمادہ کیا۔
(۳) ۲۲؍ نومبر ۱۹۱۹ اتوار کو مولانا احمد سعید اور مولانا آزاد سبحانی صاحبان نے علما کی قیام گاہوں پر جا کر فردا فردا ملاقات کی اور ایک تنظیم بنانے کی دعوت دی۔
(۴) چوں کہ علما پر انگریزوں کی گہری نظر تھی ، اس لیے ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹، بروز سوموار بعد نماز فجر ، دہلی کے ایک مشہور بزرگ سید حسن رسول نما کے مزار پرحاضر ہوکر سب نے عہد لیا کہ ’’ ہم مسلکی اور فروعی اختلاف سے اوپر اٹھ کر مشترک قومی و ملی مسائل میں متحد و متفق رہیں گے ، ہمارے خلاف انگریزی حکومت کے ہر ظلم و جبر کو برداشت کریں گے اور جماعت کے معاملہ میں پوری رازداری اور امانت سے کام لیں گے‘‘۔
(۵) حلف راز داری کے بعد اسی روز یعنی ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹، بروز سوموار مطابق یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ کو بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں میٹنگ ہوئی، جس میں مختلف مسالک کے ۲۵؍ علمائے کرام نے شرکت کی اور جمعیۃ علماء ہند کی داغ بیل ڈالی۔
(۶) جمعیۃ علماء ہند روز اول سے ہی مسلکی تحفظات سے اوپر اٹھ کر ، قرآن و احادیث کی روشنی میں ملت اسلامیہ ہند کے روشن مستقبل اور بھارت کی تعمیری سیاست کے لیے کوشاں رہی ہے ۔
(۷) ۲۳؍ نومبر ۲۰۱۸ء کو ننانوے سال پورے ہوچکے ہیں، اس طویل سفر کی خدمات کا تفصیلی جائزہ ، سردست ممکن نہیں؛ بلکہ مختصر تذکرے کے بجائے ، محض بڑی بڑی خدمات پربھی نظر ڈالیں تو تقریبا بتیس جلی عنوانات سامنے آتے ہیں:
(۱) ہندستان کی مکمل آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد۔
(۲) تعلیمی اداروں اور مکاتب کا نیٹ ورک پھیلانے کی کوششیں۔
(۳)جمہوری نظام حکومت میں برادران وطن کے ساتھ مل کر کام کرنے کی حکمت عملی اپنانے پر زور۔
(۴) شرعی مسائل میں مداخلت کے خلاف انقلابی کوشش۔
(۵)مساجد، مدارس ، مکاتب، مقابر،خانقاہوں اور دیگر اسلامی اداروں کے تحفظات کے لیے لازوال جدوجہد۔
(۶) اردو کی بقا کے لیے مناسب اقدامات۔
(۷)مسلمانوں کی اصلاح کے لیے اصلاح معاشرہ کے پروگرام۔
(۸)اوقاف کے تحفظ کی کوششیں۔
(۹)فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف سخت جدوجہد۔
(۱۰)مسلمانوں کی ملی شناخت کو مٹانے کی سازشوں کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش۔
(۱۱) دستور میں مسلمانوں کو دینی ، ملی، سیاسی اور تعلیمی حقوق سے محروم کرنے یا نقصان پہچانے کی غرض سے کی جانے والی ترمیموں کے خلاف سخت ایکشن۔
(۱۲) پاکستان کے نام سے مسلمانوں کو ایک الگ ملک دینے کی شدید مخالفت اور اس کے بجائے متحدہ قومیت کی وکالت۔
(۱۳) تقسیم ہند کے نتیجے میں آبادی کی تبدیلی کی ہولناک تباہی اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کی جدوجہد۔
(۱۴) پاکستان جانے والوں کے نام پر مسلمانوں کی جائیدادوں کو درپیش خطرہ اور کسٹوڈین کے من مانی کے خلاف جنگی جدوجہد۔
(۱۵) فرقہ پرستوں اور ایڈمنسٹریشن کا مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت حالات پیدا کردینے کے پیش نظر اہل فکر و نظر کو مل بیٹھ کر غورو فکر کرنے کی دعوت۔
(۱۶) جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی کوشش۔
(۱۷)فلسطین اور پوری دنیا میں انسانیت پرہورہے مظالم کے خلاف سخت احتجاج۔
(۱۸)اکابر کی خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے سیمنار اور پروگراموں کا انعقاد۔
(۱۹)حرمین شریفین کے تحفظ کی کوشش۔
(۲۰) حجاج کرام کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے مناسب اقدامات۔
(۲۱)ارتداتی سرگرمیوں پر روک لگانے کی جدوجہد۔
(۲۲)توہین رسالت کے معاملے پر سخت ایکشن۔
(۲۳) شرعی مسائل کے حل کے لیے مباحث فقہیہ اور امارت شرعیہ کا قیام۔
(۲۴)دہشت گردی مخالف کانفرنسوں کا انعقاد۔
(۲۵) قدرتی آفات اور فرقہ وارانہ فسادات میں اجڑے ہوئے لوگوں کی باز آباکاری۔
(۲۶)جیلوں میں بے قصور بند افراد کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی۔
(۲۷) عالم اسلام کے مسائل پر گہری نظر ۔
(۲۸) مسلمانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ۔
(۲۹) مسلمانوں کی ملی وحدت برقرار رکھنے کی کوشش۔
(۳۰) مسلمانوں اور برادران وطن کی سماجی اور اقتصادی خدمات۔
( ۳۱) علمی و اشاعتی کارنامے۔
(۳۲) حالات اور وقت کے تقاضے کے مد نظر کانفرنسوں اور جلسہ ہائے عام کا انعقاد۔
ان خدمات سے آپ بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے جمعیۃ علماء ہند کا وجود کیا حیثیت رکھتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں جس قسم کی سیاست ہوئی ہے اور حال میں جس قسم کی سیاست ہورہی ہے، اگر جمعیۃ نہ ہوتی، تو بھارتی مسلمانوں کے لیے یہ ملک برما سے بھی زیادہ بدتر ہوتا ۔
موجودہ حالات میں بھی جب کہ ہر طرف خوف و ہراس اور دہشت گردی ناچ رہی ہے، کچھ لوگ بھیڑ کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر انسانیت کے چہرے کو نوچ رہے ہیں، ایسے حالات میں جمہوریت کی فضا کو قائم رکھنا ،اکثریتی سماج میں اقلیت کی حفاظت کو یقینی بنانا ،ظلم و بربریت کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود مایوسی سے بچائے رکھنااور حق داری کے دعویٰ کے ساتھ سر اٹھاکر جینے کاحوصلہ بخشنا ؛ یہ صرف اور صرف جمعیۃ علماء ہند کا کارنامہ ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی قیادت روز اول سے ہی وقت کے نبض شناس اور مومنانہ فراست کے حامل اکابرین کے ہاتھوں میں رہی ہے ۔ اور آج بھی ایسے ہی حضرات کی بصیرت افروز قیادت کے تلے، ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کا فریضہ انجام دینے میں پیہم رواں دواں ہے۔