16 Nov 2018

Kiyonke Samaj ki tameer abhi jari hi

کیوں کہ ۔۔۔سماج ابھی بھی زیر تعمیر ہے
ملازمین کی تن خواہوں میں اضافے کیے بغیر اصلاح معاشرہ ممکن نہیں ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

ماہر سماجیات انسان کو ایک سوشل جانور کہتے ہیں؛ کیوں کہ سماج اور اجتماعیت سے کٹ کر رہنا اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ انسان کو سماج سے الگ تھلگ کرنا سزا سے کم نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مجرموں کو ’قید تنہائی‘ کی سزا دی جاتی ہے۔ 
انسان اپنے اسی سماجی ذہن کی وجہ سے معاشرہ کی تعمیر و تشکیل اور اسے خوب سے خوب تر بنانے میں روز اول ہی سے کوشاں ہے، جس کا سفر تاہنوز جاری ہے۔ آج ہم جسے مثالی سماج کہتے ہیں ، یہاں تک پہنچنے میں صدیاں زمانے سے محو سفر ہیں۔ صاحب’’ فلسفہ اسلام ‘‘لکھتے ہیں کہ 
’’انسانوں کی سماجی ذہن اور معاشرتی زندگی رفتہ رفتہ ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ آج دنیا تہذیب وتمدن کے اعتبار سے جہاں تک پہنچی ہے، وہاں تک پہنچنے میں صدیوں کے تجربات اور انسان کی تعمیری کھوج شامل ہے۔ گھوڑے گدھے کی سواری سے ہوائی جہازکے سفر تک اچانک یا یک بارگی نہیں پہنچا گیا ہے؛ بلکہ دونوں کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے۔ ؂
کس کا خیال کونسی منزل نظر میں ہے
صدیاں گذر گئیں کہ زمانہ سفر میں ہے
(اقتباس ازعنوان : اشیائے کائنات سے نفع اندوزی کا فطری نظام)
سماجیات کی شروعات بدوی زندگی سے ہوئی ، جو اس کی ابتدائی تصویر تھی جو رفتہ رفتہ شہری معاشرت میں تبدیل ہوئی۔ اس تبدیلی نے تنظیم و ترتیب کا سلیقہ سکھایا تو حکومت کا شعور پیدا ہوا اور پھر عالمی وحدت کی کھوج نے خلافت کبریٰ تک پہنچایا۔ 
سماج کی تعمیرو ترقی میں جہاں خوبیاں پروان چڑھتی ہیں، وہیں ایسے عوامل و عناصر بھی پنپتے رہتے ہیں جو ایک اچھے سماج کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان سماجی حیوان ہونے کے باوجوداسے اصلاحی تحریکیں چلانی پڑتی ہیں،جو ان برائیوں کو ختم کرکے مثالی سماج بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے ایسا اشتہار ضرور دیکھا ہوگاجس کا عنوان ’جلسہ اصلاح معاشرہ‘ وغیرہ ہوتا ہے۔ 
موجودہ دور میں تعلیمی اور سماجی مجبوری کے تحت جولوگ اپنے معاشرے اور سماج سے دور رہتے ہیں ،ان میں دو قسم کی برائیاں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ تعلیمی مجبوری کے تحت نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے سماج سے دور کسی بڑے شہر کی بڑی یونی ورسٹی میں رہتے ہیں ، جہاں کی چکاچوند اور رنگین زندگیوں سے مرعوب ہوکر اپنی زندگی کو بھی فلمی بنانا چاہتے ہیں اور انسانی سماج کو جانوروں کے سماج تک پہنچانے والی تحریکوں سے متاثر ہوکر جانور بننے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور اس طرح سے ’لیونگ ریلیشن شپ ‘ کی زندگی اختیار کرلیتے ہیں ، جو طوائف کی زندگی اور اس زندگی میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ کہنا خلاف واقعہ حکایت نہیں ہوگی کہ جس طرح جانور کوئی سماج نہیں بناتا، وہ صرف (companion) بناتا ہے، اسی طرح اس رشتہ میں اس کے علاوہ اور کیا ہوتا ہے؟۔اورجس طرح جانوروں میں کوئی ماں باپ، حسب نسل اور بھائی بہن نہیں ہوتا، اسی طرح اس رشتہ سے پرورش پانے والی مستقبل کی نسل کا کیا یہی نقشہ نہیں ہوگا؟!!۔ میری گذارش یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نیہم کو انسان بنایا ہے، جس میں ماں کی عظمت، والد کا احترام، بہنوں کا تحفظ، بھائیوں کا بازو اور شریک حیاتبیوی جیسی نعمت بخشی ہے، تو ان رشتوں کے تقدس کو پامال کرنا بالیقین انسان کی انسانیت کے لیے ایک چیلنج اور ایسا معاشرہ ایک صالح معاشرہ کے لیے بدنما دھبہ ہے۔ 
اسی طرح جو لوگ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے اپنی فیملی اور معاشرے سے دور رہتے ہیں ، ان کے اندر محرومی و مایوسی اور جنسی جرائم کے جذبات پنپتے لگتے ہیں۔ وہ جہاں کام کرتے ہیں، وہاں انھیں اتنی تن خواہ نہیں ملتی کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ رکھ سکیں، اور نہ ہی اتنی چھٹی ملتی ہے کہ وہ بار بار اپنی فیملی کے پاس جاسکے، پھر ہوتا یہ ہے کہ جوب ملنے کے بعد فورا شادی ہوجاتی ہے اور جوب ملنے کی وجہ سے فورا ادارہ جوائن کرنا پڑتا ہے، جس کے باعث نئی نویلی دولہن کو وقت نہیں دے پاتا اور اسے چھوڑ کر کمپنی یا جائے معیشت پر جانا پڑتاہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ یہاں کے معاشرے کو برباد کرتا ہے اور بیوی وہاں کے معاشرے کو بدنام کرتی ہے۔
صرف دنیا کمانے والی کمپنیاں اور ادارے اگر ایسا کریں، تو ہمیں کوئی شکوہ نہیں ، کیوں کہ ایسے ادارے اخلاقیات و سماجیات کے کسی اصول کے پابند نہیں ہوتے، یہ ادارے حصول دولت کے لیے قریبی رشتوں کا خونتک کردیتے ہیں اور انھیں کوئی افسوس نہیں ہوتا کیوں کہ ان کے سامنے صرف اور صرف دولت کی جمع بندی کی ہوس ہوتی ہے اور اس میں کامیاب ہونے کے لیے وہ کسی حد تک گرسکتے ہیں؛ لیکن ہم اس وقت شکوہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جب ہم اسلام کی واضح اور روشن تعلیمات سے منور ذہن و فکر کے ساتھ اسلامی ادارے چلاتے ہیں ، جہاں دن رات خدائی قانون اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مقدسہ و مطہرہ کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے مخاطب کو یہ سکھاتے ہیں کہ مزدوروں کو ان کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اجرت دے دو، جہاں ہم ملنے والے معاوضہ کو سیلری کے بجائے ’’ تنخواہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی جتنابدن اور ضروریات زندگی کی طلب ہے، وہ دیتے ہیں، ایسے اداروں میں نوجوان اور پرجوش افراد کو نوکری پر رکھتے ہیں ۔ اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ نوکری ملتے ہی شادی ہوجاتی ہے ، لیکن نوکری میں ملنے والی رقم اتنی ناکافی ہوتی ہے کہ اس سے بیوی بچے توکیا اپنا ذاتی خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا، جس کے باعث وہ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں رکھ پاتا ہے۔ اسی طرح ہم انھیں اتنی چھٹی نہیں دیتے کہ وہ بار باربوقت ضرورت بیوی بچوں سے مل سکے، تو نتیجہ ظاہر ہے کہ معاشرے کاکیا ہوگا اور اس میں چلائی جانے والی اصلاحی تحریکیں کتنی کارگر ہوں گی!!!!۔
شاید انھیں حالات کو دیکھتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کے دینی مرکز دارالعلوم دیوبند نے ۱۵؍ اکتوبر کو منعقد مجلس شوریٰ کے اجلاس میں اساتذہ و دیگر اسٹاف کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کی تجویز منظور کی۔ اور پھر صحیح معنی میں منسلک کچھ مدارس نے اس کی تقلید کرتے ہوئے اپنے استاذوں کے محنتانہ میں اضافہ کیا۔ اس اقدام اور اس کی تقلید کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، کیوں کہ وقت کے شدید تقاضے کے بنیاد پر یہ فیصلہ لیاجانا بہت ضروری تھا۔اور ہر مدرسے اور کسی بھی قسم کے ادارے چلانے والے مسلم حضرات کو اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ 
دارالعلوم دیوبند اور دیگر اسلامی ادارے نے یہ فیصلہ کیا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کیوں کہ یہ عین اسلامی ہدایت پر عمل ہے، لیکن ہمارے سامنے کچھ ایسے لوگوں کی بھی نادر مثال موجود ہے، جو خالص تاجر پیشہ ہے، اس کے باوجود اپنے ملازمین کی قیمت کو سمجھتے ہیں اور ان کی محنت سے زیادہ ان کو عطا کرتے ہیں۔ چنانچہ گجرات کے ہری کرشنا ایکسپورٹ کے مالک ہیرا تاجر ساؤ جی ڈھولکیا ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء سے تقریبا ہرسال دیوالی کے موقع پراپنے یہاں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کو کبھی گھر، کبھی گاڑی ، کبھی زیورات اور دیگر مہنگے مہنگے قیمتی تحفے دیتے رہتے ہیں۔ جذبہ بخش کے حوالے سے این ڈی ٹی وی کے مشہور اینکر رویش کمار کے ایک سوال کے جوابمیں کہا کہ میں جو کچھ بھی ہوں ، انھیں اسٹاف کی بدولت ہوں، اس لیے میں سبھی منافع کو نہیں رکھ سکتا ہوں ، اس میں میرے اسٹاف کا بھی حق ہے۔ 
آپ نام سے ہی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ ایسا شخص ہے، جس کے اعمال کا بدلہ دنیاوی زندگی تک ہی محدود ہے، آخرت میں اس کا کچھ صلہ ملنے والا نہیں ہے، اس کے باوجود اپنے اسٹاف کے ساتھ وہی معاملہ کیا ہے، جو سراسر اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے، تو کیا ہم مسلمان۔ خواہ کسی بھی ادارے، فیکٹری، دکان وغیرہ کے مالک ہیں، جس میں ہمارے ماتحت کام کرنے والے ملازمین ہیں۔ اس اسلامی سبق کو عملی جامہ پہنانے کے زیادہ حق دار نہیں ہیں؟کیا ہم حالات و ضروریات کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے اپنے اسٹاف کے دکھ درد اور غم میں شریک نہیں ہوسکتے؟ 
مثالی معاشرے کی تعمیرو ترقی کے لیے ضروری ہے کہ جن چھوٹے چھوٹے پہلووں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، اس پر خصوصی توجہ دیں اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں درج بالا مثالوں کی طرح ، یا پھر اس سے اعلیٰ درجہ کا اپنا قابل تقلید کردار ادا کریں، کیوں کہ۔۔۔ سماج کی تعمیر ابھی بھی جاری ہے۔۔۔۔ 

8 Nov 2018

Maholyat ke tahffoz ke lie Islami Farmole

ماحولیات کے تحفظ کے لیے اسلامی فارمولے

آسماں ہے دھنواں دھنواں اور زمیں مسموم ہے
محمد یاسین جہازی
9871552408

تہوار خوشی منانے، خوشی بانٹنے اور خوشی پھیلانے کے لیے منایا جاتا ہے، لیکن اگر وہ صحت خراب کرنے، سانس اٹکانے اور آگ لگانے کا ذریعہ بن جائے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم تہوار نہیں؛ بلکہ موت کا جشن منا رہے ہیں۔ 

ہر سال کے تجربے کے مد نظر گائڈ لائن جاری کرتے ہوئے ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ دیوالی صرف آٹھ بجے رات سے دس بجے رات تک ہی منائی جائے؛ لیکن کل رات کے منظر نامے نے بتلایا دیا کہ ہم نے سپریم کورٹ کی حکم کی کیا دھجیاں اڑائی ہیں۔ ہم رات بھر کیمکل اور جاں لیوا بارود سے بنے پٹاخے پھوڑتے رہے ، جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے ۔معمول کے مطابق ساڑھے پانچ بجے صبح اٹھ کر کمرے سے باہر آیا ، توآنکھوں میں چبھن محسوس ہوئی، نظر اٹھا کر دیکھا تو چاروں طرف دھنواں کی موٹی پرت چھائی ہوئی تھی، صبح کی صاف شفاف فضا دھندلی اور بارودی بدبو سے متعفن تھی، سانس لینا بھی مشکل اور آنکھ کھولنا بھی تکلیف کا باعث تھا۔موسم اور حالات کی خبروں پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ (P.M.2.5) جس کی نارمل سطح سے ایک سو ایک سے صرف دو سو تک ہے، وہ نوسو نناوے تک پہنچ گیا ہے، جو مشین کے ناپنے کی آخری کیپی سیٹی ہے۔جگہ جگہ آگ اور جلنے کی خبروں سے اسکرین سے شعلہ برس رہے تھے۔ صرف دہلی کی بات کریں تو محکمہ فائر بریگیڈ کو دو سے زائد مقامات پر آگ لگنے کی شکایات موصول ہوئیں ۔ پورے بھارت میں تقریبا ایک ہزار سے زائدجگہوں پر آگ لگی ، جس میں کروڑوں املاک اور درجنوں جانیں ہلاک اورگاڑیاں تباہہوگئیں، گویا یہ تہوار دیپ جلاکر تاریکی مٹانے کے بجائے تاریکی پھیلانے کا سبب بن گیا۔ 
اسلام ایک دین فطرت ہے، اس کے پاس فطرت کے خلاف ہر بغاوت کا علاج موجود ہے۔ آب وہوا کے تحفظ کے لیے اسلام نے ایک ایسی صدی میں واضح پیغامات دے دیے تھے، جس وقت کہ پولیشن کے نام سے بھی دنیا واقف نہیں تھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ ہدایا ت کیا ہیں۔ 
ماحولیات کے ماہرین کے مطابق پولیوشن کی چھ قسمیں ہیں۔ 
(۱) فضائی آلودگیاں۔ (۲) آبی آلودگیاں۔ (۳) صوتی آلودگیاں۔ (۴) زمینی آلودگیاں۔ (۵) شعاعی آلودگیاں۔(۶) روشنی کی آلودگیاں۔
(1) فضائی آلودگیوں سے تحفظ پر اسلامی ہدایت
تہوار کے موقع پر آتش بازی کے علاوہ بڑی بڑی کمپنیوں سے خارج ہونے والے گرین ہاوس گیس، کثیر مقدار میں فضا میں جلے ہوئے ٹھوس اور سیال اجزا جیسے دھول، دھنویں اور اسپرے کی آمیزش بہت ہی خطرناک طریقے سے فضا کی کثافت میں اضافہ کررہی ہے۔جس سے سانس، کینسر، وضع حمل اور سقوط حمل جیسی مہلک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔اس سے بچنے کے لیے اسلامی ہدایات درج ذیل ہیں۔ 
(1) اسلام انسانوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر کوئی انسان مرجائے، تو اسے پہلے غسل دو، پھر کفن بھی دو اور بعد ازاں قبر میں رکھ دو۔ ارشاد خداوندی ہے کہ 
ثُمَّ أَماتہُ فَأَقْبَرہُ (سورہ عبس، آیت 21، پارہ 30)۔
(پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچا دیا۔) انعام و اکرام والی آیتوں کے ضمن میں یہ آیت وارد ہوئی ہے،لہذااس کا جہاں ایک مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی تکریم ہو، اور اس کی لاشوں کو درندے اور پرندے نہ نوچ کھائیں، وہیں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مردہ جسموں سے پیدا ہونے والے تعفن سے فضا مسموم نہ ہو۔
بین ٹلی یونیورسٹی کے پروفیسرسوسن ڈوب سچا کا کہنا ہے کہ جلتی لاش کے دھنویں سے کاربن مونو آکسائیڈ، کالک، سلفر ڈی آکسائیڈ اور خطرناک بدبو ہوا میں تحلیل ہوتی ہے، جس سے فضا مکدر ہوجاتی ہے، اسی طرح اس کی راکھ کو پانی میں ڈالنے سے یہ سب زہریلی اثرات پانی کو متاثر کرتے ہیں اور آبی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے بالمقابل اگر لاش کو زمین میں دفن کردیا جائے، تو زمین لاش کو خود میں جذب کرکے مٹی بنالیتی ہے اور اس سے نیوٹرینٹ حاصل کرتی ہے۔ جس سے اس کی قوت افزائش میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
(2) ہرے بھرے پیڑ پودے اور سرسبز شادابی نہ صرف منظر کو حسین بناتے ہیں؛ بلکہ اس سے فضائی آلودگیاں بھی ختم ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق انسان جب سانس باہر نکالتا ہے، تو مضر کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتا ہے اور سانس لیتے وقت آکسیجن کھینچتا ہے، پیڑ پودے اپنے عمل تنفس میں کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن چھوڑتے ہیں، اس اعتبار سے پیڑے پودے انسانوں کو فریش اور تازہ ہوا مہیا کراتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے مضر کاربن کو ہضم کرکے ہوا میں توازن پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں درخت لگانے کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے۔
اسلام میں شجر کاری کی اہمیت
اسلام نے شجر کاری کی خصوصی ہدایات دی ہیں اور اسے ثواب اور صدقہ جاریہ کا ذریعہ بتایا ہے۔ اور بلاضرورت درخت کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّہِﷺ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ یَزْرَعُ زَرْعًا فَیَأْکُلُ مِنْہُ طَیرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَھِیمَۃٌ إِلَّا کَانَ لَہُ بِہِ صَدَقَۃٌ (صحیح البخاری، کتاب المزارعۃ، بَاب فَضْلِ الزَّرْعِ وَالْغَرْسِ إِذَا أکِلَ مِنْہُ)
مسلمان جو بھی میوہ دار درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس سے پرندے، آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں اس کا ثواب اس کو ملتا ہے۔
درخت لگانے کے ساتھ ساتھ اسلام نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جو کارآمد درخت ہے اسے نہ کاٹا جائے، چنانچہ ارشاد گرامی ہے کہ 
قَالَ ﷺ: مَنْ قَطَعَ سِدْرَۃً صَوَّبَ اللَّہُ رَأْسَہُ فِي النَّارِ۔ (سنن ابی داود، کتاب الادب، باب قطع السدر)
جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔
اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ اگر کوئی زمین بے آب وگیاہ پڑی ہے، اور صاحب زمین خود سے کچھ نہیں کرپاتا، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کو دیدے تاکہ وہ اسے قابل کاشت اور قابل استعمال بنائے۔ 
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: مَنْ کَانَتْ لَہُ أَرْضٌ فَلْیزْرَعْھَا، فَإِنْ لَمْ یَزْرَعْھَا، فَلْیُزْرِعْھَا أَخَاہُ۔ ( مسلم، کتاب البیوع، بَابُ کِرَاءِ الْأَرْضِ)
حوالے اور بھی ہیں، جنھیں اختصار کے پیش نظر ترک کیا جاتا ہے، ان تمام تعلیمات و ارشادات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف شجرکاری کو فروغ دینے کے احکامات جاری کیے ہیں؛ بلکہ اسے صدقہ جاریہ کا ایک بہترین ذریعہ قرار دیا ہے، جس کا فائدہ صرف اس دنیاوی زندگی تک محدود نہیں رہ جاتا؛ بلکہ آخروی زندگی کے لیے بھی مفید تر قرار پاتا ہے۔ اور اسلامی تعلیمات کی یہی معنویت اسے آفاقی، دائمی اور فطری ہونے کا امتیاز بخشتی ہے۔ 
فضائی کثافت سے بچنے کے لیے اسلام کی یہ خوبصورت تجاویزہیں اگر ان پر عمل کرلیا جائے، تو ایک حد تک فضائی آلودگی سے نجات مل سکتی ہے۔
(2) آبی آلودگیوں کا اسلامی تحفظ
نامیاتی اور غیر نامیاتی صنعتی فضلات، فیکٹریوں سے نکلنے والی ردیوں اور گرم پانی، پلاسٹک، ربر، کیمیکل سے بنی چیزیں اورنالیوں کے گندی پانی کو دریاوں اور بڑے بڑے آبی ذخائر میں ڈالنے سے آبی آلودگیاں پیدا ہورہی ہیں۔جن سے نہ صرف انسان؛ بلکہ چرند، پرند؛ حتیٰ کہ نباتات اور سمندری مخلوقات بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ 
اسلامی نظریہ کے مطابق پانی ہر چیز کی روح حیات ہے، اس لیے اسے گندہ کرنے سے ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اور اس کے تحفظ کے لیے کئی اہم طریقے بتلائے گئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(1) اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَۃَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَۃِ الطَّرِیقِ، وَالظِّلِّ (سنن ابی داود، کِتَاب الطَّھَارَۃِ، بَابُ الْمَوَاضِعِ الَّتِي نَھیَ النَّبِيُّ ﷺَ عَنِ الْبَوْلِ فِیھَا)
’’تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو: (۱) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (۲) راستہ میں پاخانہ کرنے سے (۳) سایہ دارجگہوں میں پاخانہ کرنے سے۔ 
ظاہر سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص نہر، نالہ، یا تالاب وغیرہ کے کنارے بول وبراز کرے گا، تو وہ گندگی پانی میں پہنچ جائے گی اور پانی کو آلودہ و ناقابل استعمال بنا دے گی۔
(2) لاَ یَبُولَنَّ أَحَدُکُمْ فِي المَاءِ الدَّاءِمِ الَّذِي لاَ یَجْرِي، ثُمَّ یَغْتَسِلُ فِیہِ۔ (صحیح البخاری،کتاب الوضوء، بَابُ البَوْلِ فِي المَاءِ الدَّاءِمِ)
تم میں سے کوئی اس پانی میں پیشاب نہ کرے جو ٹھہرا ہوا ہو، پھر اس میں غسل کرے۔ 
آبی آلودگی کے تحفظ کے لیے ہر اس طریقہ پر اسلام نے قدغن لگایا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ پانی آلودہ ہوتا ہے؛ بلکہ ناپاک، حتی کہ طبیعت پر اس کے استعمال سے تنفر بھی پیدا ہوتا ہے، چنانچہ بڑے برتن میں منھ لگاکر پانی پینا، پانی کے برتن میں سانس لینا، یا اس میں پھونک مارنا، برتن کو ڈھک کر نہ رکھنا اور حالت جنابت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرنا شامل ہے۔اختصار کے پیش نظر ان کے حوالوں کو ترک کیا جارہا ہے۔
(3) صوتی آلودگی پر کنٹرول کی اسلامی تدابیر 
صوتی آلودگی کے بڑے اسباب میں سے صنعتی و تعمیراتی سرگرمیاں، ہمہ وقت چلنے والی مشینیں، جنریٹر، گاڑی اور گانے بجانے کے آلات ہیں، جوفلک شگاف شورو ہنگامہ کا تسلسل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ 38 ڈسیمل سے زائد شور ہونے پر چڑچڑاپن، غصہ، ذہنی تناو، حرکت قلب، بلڈ پریشراور بہرے پن کی بیماریاں عام ہوتی جارہی ہیں۔
اسلامی عبادات اور تعلیمات میں صوتی آلودگی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اسلا م نقطہ نظر یہ ہے کہ آواز نہ تو بہت زیادہ بلند ہو کہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور نہ ہی اتنی پست ہو کہ جس مقصد کے لیے آواز نکالی جارہی ہے، وہ مقصد بھی پورا نہ ہو۔ اس تعلق سے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
(۱) وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا ( الاسراء، ۱۱۰)
اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آوازسے پڑھیے، نہ بالکل پست آواز سے، بلکہ ان کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کیجیے۔ 
(۲) أَنَّ أَبَا مُوسَی الْأَشْعَرِيَّ، قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِینَۃِ کَبَّرَ النَّاسُ، وَرَفَعُوا أَصْوَاتَھُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا أَیُّھَا النَّاسُ، إِنَّھُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَاءِبًا۔ (سنن ابی داود، باب تفاریع ابواب الوتر، باب الاستغفار)
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے ، جب مدینہ سے قریب ہوئے تو لوگوں نے بلند آواز میں اللہ ہو اکبر کا نعرہ لگایا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے کہا (اپنی آواز دھیمی رکھو) تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔
ان کے علاوہ بھی حوالے موجود ہیں، جن میں صوتی آلودگی کو ناپسند کیا گیا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق موقع و محل کی مناسبت سے بقدر ضرورت آواز استعمال کرکے انسان اپنے مقصد کو پورا کرے، تو صوتی آلودگی کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
(4) زمینی آلودگی سے حفاظت کے لیے اسلام کا فارمولہ
پٹرول کی ریفائنری، صابن سازی کے فضلاتی مادے، نمک، تیزاب، نقصان دہ کمیکل اور صنعتی کوڑا کرکٹ زمینی آلودگیوں کے بڑے اسباب ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے، تو آسمان کا صاف شفاف پانی بھی زمینی آلودگیوں کی کثافت کو دھونے میں ناکام رہتا ہے۔ جس سے زمین بڑی تیزی سے ناقابل استعمال ہوتی جارہی ہے۔
انسان و حیوانات کے ساتھ ساتھ نباتات کی بقا کا دارو مدار اچھی زمین پر ہے، اسی لیے اسلام نے اس کے برباد کرنے کو سختی سے ناپسند کیا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے کہ 
وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِي الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرۃ،۲۰۵)
اور جب وہ آپ کے پاس سے واپس جاتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ زمین کی صلاح و فلاح اوراس کی صلاحیت کو غارت کرنا مذموم حرکت ہے، اس لیے وہ تمام کام، جن سے زمین کی فطری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اسلام ان سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس ہدایت کے پیش نظر اگر قدرتی وسائل کو اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے، اور اس کو نقصان پہنچنے والے عوامل کو نظر انداز نہ کیا جائے، تو زمینی کثافت رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گی۔
(5) شعاعی آلودگی کی روک تھام کے لیے اسلامی اشارات
ذرائع مواصلات: ریڈیو، ٹی وی اور موبائل نیٹ ورکنگ سسٹم میں استعمال ہونے والی برقی لہریں بڑی مقدار میں ریڈیشین خارج کر رہی ہیں، جو حرکت قلب اور سمعی قوتوں کو کمزور کرتی رہتی ہیں۔
اسلامی ہدایات میں یہ کہا گیا ہے کہ انسان ایسی جگہ نہ بیٹھے کہ آدھا جسم تو سایہ میں ہو اور آدھے حصے پر دھوپ پڑ رہی ہو۔ اسی طرح براہ راست سورج کی تپش سے گرم ہونے والے پانی سے بھی وضو اور غسل کرنے کو استحباب کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ
لا تَغْتَسِلُوا بِالْمَاءِ الْمُشَمَّسِ فَإِنَّہُ یُورِثُ الْبَرَصَ۔ (سنن الدار قطنی،کتاب الطھارۃ، باب الماء المسخن)
دھوپ سے گرم ہونے والے پانی سے وضو نہ کرو، کیوں کہ اس سے برص کی بیماری ہوتی ہے۔ یہ ارشاد ہماری رہ نمائی کرتا ہے کہ شعاعیں نقصان دہ ہیں اور ان سے تحفظ کا طریقہ اختیار کرنا ایک انسانی ضرورت ہے، اس لیے جدید سائنسی ایجادات کے نتیجے میں جو نئی نئی شعاعیں اور ریڈیشن وجود میں آئے ہیں، ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے حل ڈھونڈھنا اسلامی مزاج کے منافی نہیں، بلکہ اس کی ہمنوائی ہے۔ 
(۶) روشنی کی آلودگی پر کنٹرول کرنے کے لیے نبوی ارشادات
ضرورت سے زائد روشنیوں سے جہاں انسان کی آنکھیں چندھیاتی اور پرسکون نیند غارت ہوتی ہے، وہیں تاریکی میں پرورش پانے والے چرند پرند اور پیڑ پودے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس پر کنٹرول کرنے کے لیے اسلامی ہدایت یہ ہے کہ ضرورت سے زائد بالکل بھی اجالہ نہ کیا جائے ، کیوں کہ اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہی ہوگا۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ 
خَمِّرُوا الآنِیۃَ، وَأَجِیفُوا الأَبْوَابَ، وَأَطْفِءُوا المَصَابِیحَ، فَإِنَّ الفُویْسِقَۃَ رُبَّمَا جَرَّتِ الفَتِیلَۃَ فَأَحْرَقَتْ أَھْلَ البَیْتِ۔ (صحیح البخاری،کِتَابُ الِاسْتِءْذَانِ ، بَابٌ: لاَ تُتْرَکُ النَّارُ فِي البَیتِ عِنْدَ النَّوْمِ۔
ترجمہ: برتنوں کو ڈھک دو، دروازے کو بند کردو اور چراغ بجھا دو، کیوں کہ کبھی کبھار چوہے فتیلہ لے کر بھاگتا ہے ، جس سے گھر والے جل جاتے ہیں۔ 
یہ حدیث سوتے وقت کی ہدایت پر مشتمل ہے۔ سونے کے بعد چوں کہ روشنی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ہدایت دی جارہی ہے کہ چراغ بھجادو۔ بجھانے کا فائدہ تو یہ ہے کہ بلاضرورت کوئی چیز استعمال نہیں ہوگی، لیکن جلائے رکھنے کا نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ چوہا کہیں چراغ گرادے تو گھر میں آگ لگ جائے گی۔ آج کل گرچہ فتیلہ والے چراغ کے بجائے بلب جلائے جاتے ہیں، جس میں چوہے کی شرارت کی گنجائش نہیں ہے، اس کے باوجود شورٹ سرکٹ سے آگ لگنے کی خبریں آتی رہتی ہیں اور شہروں میں بھیپر کی تیز پیلی روشنی سے نچرل لائف والے پرندے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اس لیے روشنی کے پولیشن سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ غیر ضروری روشنی نہ جلائی جائے۔ 
بہر کیف شجری کاری اور درج بالا اسلامی تعلیمات پر عمل کرلیا جائے، تو ماحولیاتی کثافت پر کنٹرول ہوسکتا ہے۔ اور دنیا پھر قدرتی آب و ہوا میں سانس لینے کی قابل بن سکتی ہے۔

6 Nov 2018

Dunia se Raten Ghaeb Ho rahi hin

دنیا سے راتیں غائب ہورہی ہیں!!
مختلف قسم کی کثافتوں کی وجہ سے عالمی ماحولیات کو درپیش خطرات ایک چیلنج بنتا جارہا ہے 
محمد یاسین جہازی
9871552408

آج دہلی سمیت متعدد بڑے شہر و اطراف زہریلی ہوا کی زد میں ہے۔ ایک طرف آسمان میں (اسموگ)دھنواں کی چادریں تنی ہوئی ہیں،تو وہی دوسری طرف ہمہ وقت دوڑتی پھرتی گاڑیوں اور سامان تعیش فراہم کرنے والے مختلف قسم کے کارخانوں سے خارج ہونے والے مضر مواد اور فضلات نے طبعی آب وہوا، فطری حیاتیاتی نظاموں اور عوامل کو بری طرح متاثر کردیا ہے،گویا زمین اور فضا دونوں خطرناک حد تک پولیوٹیڈ ہوچکے ہیں، جس سے سانس، دمہ اور آنکھ میں جلن جیسی بیماریاں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں، اور گلابی پھیپھڑے دھیرے دھیرے کالے ہوتے جارہے ہیں۔ 
ہوا میں انسان کے ایک بال کے تین فی صد کے برابر(Particulate Matter) یعنی (P.M.2.5) ہوتا ہے، جس کی پیمائش کو (Air quality index) ایر کوالٹی انڈیکس کہاجاتا ہے۔ اگر (P.M.2.5) زیرو سے سو تک ہے ، تو اسے ٹھیک کہاجاتا ہے۔ ایک سو ایک سے دو سو تک نارمل سمجھا جاتا ہے، اس سے زیادہ تین سو تک خراب کے زمرہ میں آتا ہے، چار سو تک پہنچ جائے تو بہت خراب ہوتاہے، لیکن جب چار سوسے اوپر ہوجائے تو وہ خطرناک سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ 
آج کل دہلی و اطراف کے بعض مقامات پر (P.M.2.5) سات سو سے آٹھ سوتک درج کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق زہریلی ہوا کی وجہ سے دہلی گیس چیمبر میں تبدیل ہوچکی ہے، یہاں سانس لینا اتنا ہی نقصان دہ ثابت ہورہا ہے، جتنا ایک دن میں بیس سگریٹ پینے کا نقصان ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں فضائی کثافت کی وجہ سے ایک سال میں دس لاکھ لوگ موت کے منھ میں جارہے ہیں،اس سے آپ بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں کہ دہلی و اطراف کی آب و ہوا کس قدر کثافت سے لبریز ہوچکی ہے۔ یہ عام دنوں کی بات ہے؛ لیکن تصور کیجیے کہ آنے والی اس دیوالی کو دہلی کی فضا کا کیا حال ہوگا، جب کہ ہر گھر میں اور ہر گلی چوراہے پر بارود، پٹاخے اور دھنواں خارج کرنے والے تفریحی سامان جلائے جائیں گے۔ پچھلے سال کا ریکارڈ دیکھیں تو آئی ٹی او پر نصب فضائی کثافت کو ناپنے والی مشین ، پیمائش کی آخری حد پر پہنچ کر جام ہوگئی تھی۔ اور اتفاق سے راقم اسی رات کو دہلی واپس آرہا تھا تو کھلے علاقے کا یہ عالم تھا کہ دھنواں کی وجہ سے کار کے باہر کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی اور سڑک کی کشادگی کے باوجود پندرہ بیس کی رفتار سے ہم آگے نہیں بڑھ پا رہے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو سپریم کورٹ کے جج اے کے سیکری کی صدارت والی بنچ نے پٹاخوں میں مضر کیمیکل کا استعمال نہ کرنے، زیادہ شدت اور زیادہ آلودگی پھیلانے والے پٹاخوں پر پابندی کے ساتھ دیوالی پر صرف دو گھنٹے پٹاخے جلانے اور کرسمس اور نئے سال کیجشن پر 11 بجکر 55 منٹ سے رات 12 بجکر 30،منٹ تک ہی پٹاخے چھوڑے جانے کی اجازت دی ہے۔
فضائی آلودگی کے علاوہ ’’روشنی کی آلودگی ‘‘ بھی گلوبل کے لیے چیلنج بنتی جارہی ہے۔ آج میٹرو لائف کی وجہ سے راتوں میں ضرورت سے زائد روشنی کا اخراج کیا جارہا ہے۔ شہروں میں رات بھر جلتی اسٹریٹ لائٹس، شادی اور دیگر فنکشن کی آرائش و زیبائش میں بے تحاشا قمقموں کا استعمال اور فلک بوس عمارتوں کو جگمگ جگمگ دکھانے کے لیے بڑے بڑے بھیپر کی تیز کرنیں نیچرل لائف کے لیے خطرہ بن رہی ہیں، جس سے نہ صرف انسان؛ بلکہ چرند پرند اور دیگر مخلوقات بھی بری طرح متاثر ہور ہی ہیں۔ اندھیرے میں سکون کی نیند کا محتاج انسان،رات میں زندگی کے لیے جدوجہد کرنے والے چمگادڑ ،تاریکی میں پھلنے پھولنے والے پیڑ پودے اور سمندری مخلوقات بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ کروڑوں ٹن تیز روشنیوں کے بے جا اور غیرضروری استعمال کے باعث دنیا سے راتیں ناپید ہوتی جارہی ہیں ، جس سے دنیا تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
بھارت میں دیوالی کے موقع پر ۔ جو مہابھارت کے مطابق پانڈو ۱۲؍ سال بن باس اور ایک سال اگیات واس سے واپس ہونے پر اظہار خوشی کے لیے دیپ جلائے تھے۔ گھر گھر، کونے کونے اور گلی محلوں میں جگہ جگہ تیل کے دیے اور موم بتیوں کے فلیتے بڑی تعداد میں جلائے جاتے ہیں، جس سے اٹھنے والے دھنواں اور ضرورت سے زائد روشنیاں ماحولیاتی آلودگیوں میں اضافہ کی باعث بنتی ہیں۔ راقم کسی کے مذہب کے خلاف نہیں ہے، بالخصوص تاریکی پر روشنی کی جیت کے طور پر منائے جانے والی اس تہوار’دیوالی‘ کے تو بالکل خلاف نہیں ہے، لیکن ہم اپنے جذبات کے اظہار میں جانے یا انجانے میں ماحولیاتی کثافت پیدا کرنے والی جو حرکتیں کر جاتے ہیں، جس سے نہ صرف انسان؛ بلکہ کائنات کی دیگر مخلوقات بھی تکلیف محسوس کرتی ہیں، اس سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی شدید ضرورت ہے، تاکہ یہ دنیا جان دار اور غیر جان دار دونوں مخلوقوں کے لیے سانس لینے اور زندہ رہنے کی پرامن جگہ رہ سکے۔ 

3 Nov 2018

Najasate Haqeeqia se paki hasil karne ka bayan

نجاست حقیقیہ سے پاکی حاصل کرنے کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط  ( 32) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
نجاست حکمیہ تو صرف پانی سے پاک ہوتی ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی نہ ملنے پر تیمم کا حکم دیا ہے ؛ لیکن نجاست حقیقیہ پانی سے بھی پاک ہوتی ہے اور ان چیزوں سے بھی پاک ہوتی ہے جو بہنے والی نجاست کو دور کرنے والی ہوں، جیسے کہ سرکہ، عرق گلاب، درخت اور پھل پانی وغیرہ۔ تیل، گھی، دودھ سے پاک نہیں ہوتی ہے ، اس لیے کہ وہ بہنے والی تو ہے، مگر نجاست دور کرنے والی نہیں ہے۔ 
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت: ماکانت لاحدانا الا ثوب واحد تحیض فیہ فاذا اصابہ شئی من دم قالت: (ای فعلت) بریقھا فمصعتعہ بظفرھا و یرویٰ فقصعتہ۔ (رواہ البخاری فی باب ھل تصلی المرأۃ فی ثوب حاضت فیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم میں سے بعض عورتیں ایسی ہوتیں ، جس کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہوتا ، جس میں اس کو حیض آتا، پس جب اس کپڑے میں خون لگ جاتا تو اس میں تھوک ڈالتی اور اس کو ناخن سے ملتی اور صاف کرتی ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نجاست تھوک سے بھی پاک ہوتی ہے ، حالاں کہ تھوک پانی نہیں ہے ، اسی لیے فقہا نے فرمایا: ہر بہنے اور نجاست دور کرنے والی چیز سے نجاست حقیقیہ دور ہوسکتی ہے۔ 
اگر نجاست حقیقیہ مرئیہ ہو، یعنی دیکھنے میں آتی ہو، تو اس کو اتنا دھوئے کہ نجاست دور ہوجائے ، خواہ ایک ہی مرتبہ میں دور ہو یا دوچار مرتبہ میں ۔ جب نجاست دور ہوگئی تو وہ چیز پاک ہوگئی ۔ 
اگر نجاست کا داغ لگ جائے تو داغ کا دور کرنا ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خولہ نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر خون کا اثر نہ جائے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کو پانی سے دھو دینا کافی ہے ، اس کا اثر رہ جائے تو اس سے تجھ کو کوئی نقصان نہیں ہے ۔ (ترمذی) 
اگر نجاست غیر مرئیہ ہو یعنی دیکھنے میں نہیں آتی ہو جیسے کہ پیشاب تو اس کے پاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے اور ہر مرتبہ نچوڑے۔ اور اخیر مرتبہ میں پوری طاقت سے نچوڑے۔ اگر ایسی چیز ہو جو نچوڑی نہیں جاسکتی ہے تو دھوکر اس کو چھوڑ دے ، یہاں تک کہ قطرہ ٹپکنا بند ہوجائے ، پھر دھوئے اور چھوڑے اسی طرح تین مرتبہ کرے، وہ چیز پاک ہوجائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اذا استیقظ احدکم من نومہ فلایغمس یدہ فی الاناء حتّٰی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری این باتت یدہ۔ (رواہ مسلم) 
جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوتو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے یہاں تک کہ اس کو تین مرتبہ دھو ڈالے، اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ رات اس کے ہاتھ نے کہاں گذاری۔ 
عرب لوگ عموما پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے صفائی پر اکتفا کرتے تھے اور اسی حالت میں سوتے تھے ، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ممکن ہے کہ بے خبری کی حالت میں رات کو مقعد کھجلایا ہو اور ہاتھ میں نجاست لگ گئی ہو، لہذا پانی میں ہاتھ نہ ڈالے، پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھولے ، تب پانی میں ہاتھ ڈالے، تاکہ پانی نجس نہ ہوجائے۔ معلوم ہوا نجاست کے احتمال کو دور کرنے کے لیے تین مرتبہ کا دھونا کافی ہے ۔ جس برتن میں کتے نے منھ ڈالا، وہ برتن بھی تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے ، چنانچہ حضرت عطا کی روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 
اذا ولغ الکلب فی الاناء فاھرقہ ثم اغسلہ ثلاث مرات۔ (رواہ الدار قطنی موقوفا ، و فی نصب الرایۃ قال الشیخ تقی الدین فی الامام و ھذا سند صحیح) 
یہی ابو ہریرہؓ ہیں جن کی روایت ہے کہ جس برتن میں کتا منھ ڈالے تو اس کو سات مرتبہ دھوئے اور ایک مرتبہ مٹی سے مانجھے اور یہی فرماتے ہیں کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے ۔
معلوم ہوتا ہے کہ سات مرتبہ دھونے کا حکم اس وقت تھا جب کہ کتے کے بارے میں آپ ﷺ کا سخت حکم تھا۔ 
اگر موزہ جوتا وغیرہ چمڑے کی کوئی چیز ہو اور اس پر نجاست دلدارلگ جائے تو اس کو زمین پر رگڑنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اذا وطی احدکم بنعلہ الاذیٰ فان التراب لہ طھور۔ (رواہ ابوداؤد باسناد صحیح)
جب تم میں سے کوئی اپنے جوتے سے گندی چیز کو روندے تو اس کو مٹی پاک کرنے والی ہے ۔ 
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
فان رأی فی نعلہ اذیٰ او قذرا فلیمسہ و لیصل فیھما۔ (ابو داؤد)
پس اگر دیکھے اپنے جوتے میں نجاست تو اس کو پوچھ ڈالے اور ان دونوں جوتوں میں نماز پڑھے۔ 
لیکن اگر نجاست دلدار نہ ہوجیسے پیشاب ، تو پھر جوتے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک نہ ہوں گے؛ بلکہ اس کو دھونا ہوگا، کیوں کہ وہ پوچھنے میں نہیں آئے گا۔
اگر کپڑے وغیرہ میں منی لگ جائے اور وہ اتنی غلیظ ہو کہ سوکھنے پر کھرچنے اور رگڑنے سے دور ہوسکتی ہے تو خشک منی بغیر دھوئے صرف کھرچنے اور رگڑنے سے پاک ہوجائے گی۔ لیکن اگر منی پتلی ہو اور سوکھنے پر کھرچنے سے دور نہیں ہوتی ہو، یا منی تر ہو تو ان دونوں صورتوں میں دھونا پڑے گا۔ بغیر دھوئے کپڑا وغیرہ پاک نہ ہوگا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ 
کنت افرک المنی من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ اذا کان یابسا واغسلہ اذا کان رطبا۔ (رواہ الدار قطنی و البیھقی والطحاوی و ابو عوانۃ فی صحیحہ، و قال النیموی اسنادہ صحیح ) 
میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کو رگڑتی تھی جب کہ خشک ہوتی اور میں دھوتی تھی جب کہ تر ہوتی ۔ 
اگر نجاست ایسی چیز کو لگے جو ٹھوس ہو اورنجاست کا اثر اندر نہ پہنچتا ہو جیسے چھری، چاقو وغیرہ اور کھردری اور منقش نہ ہو، پوچھنے سے صاف ہوتی ہو تو زمین پر رگڑنے یا کپڑے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ 
اگر کھردری یا منقش ہے پوچھنے پر گہری جگہ سے نجاست نہیں نکل سکتی ہے تو اس صورت میں دھونے ہی سے پاک ہوگا۔ 
نجس زمین اور زمین پر لگے ہوئے پودے اور درخت، بچھی ہوئی اینٹیں بغیر دھوئے ہوئے محض سوکھنے اور نجاست کے اثر دور ہوجانے سے پاک ہوجاتی ہیں۔ 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں رات گذارا کرتا تھا اور میں جوان بے شادی شدہ تھا ، کتے مسجد میں پیشاب کرتے اور آتے جاتے تھے اور اس میں سے کوئی چیز دھوئی نہیں جاتی تھی۔ (ابو داؤد) امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ زمین سوکھنے سے پاک ہوجاتی ہے۔ 
کٹی ہوئی گھاس، یا درخت یا پودے، اکھڑی ہوئی اینٹیں وغیرہ بغیر دھوئے پاک نہ ہوں گی، اس کو زمین کا حکم نہیں دیا جاسکتا ، اس لیے کہ یہ زمین سے الگ ہیں۔ 
سور کے سوا باقی تمام مردار جانوروں کی کھال جو دباغت قبول کرتی ہے ، دباغت دینے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
ایما اھاب دبغ فقد طھر۔ (رواہ الاربعۃ) 
جونسی کچی کھال پکائی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے ۔
یعنی ہر قسم کے جانور کی کچی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے۔ کھال سے نجاست دور کرنے کو دباغت کہتے ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
استمتعوا بجلود المیتۃ اذا ھی دبغت ترابا کان او رمادا او ملحا او ماکان بعد ان یظھر صلاحہ۔ (رواہ الدار قطنی)
فائدہ اٹھاؤ مردار کی کھال سے جب کہ وہ دباغت دی جائے مٹی سے یا راکھ سے یا نمک سے یا کسی اور چیز سے ، اس کے بعد اس کا ٹھیک ہونا ظاہر ہوجائے۔
یعنی اس کی بدبو دور ہوجائے اور وہ قابل استعمال ہوجائے ، خواہ صرف دھوپ میں سکھانے سے ہو یا مٹی ڈالنے یا راکھ ڈالنے سے ہو یا نمک سے، یا مسالہ کے ذریعہ سے ہو۔ 
مسلم کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اذا دبغ الاھاب فقد طھر۔ 
جب کچی کھال دباغت دی جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے ۔ 
ابو داؤد میں لکھا ہے کہ نضر بن شمیل نے فرمایا: اھاب اسی وقت تک بولتے ہیں جب تک دباغت نہ دیا گیا ہو۔ جب دباغت دیا جائے تو اس کو اھاب نہیں بولتے ، اس کو شَنَّ اور قِرْبہ بولتے ہیں۔ 
مردار کی کچی کھال اور اس کا پٹھا نجس ہے ، اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے۔ حضرت عبد اللہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ 
ان لا تنتفعوا من المیتۃ باھاب و لاعصب۔ (رواہ الترمذی وابو داؤد والنسائی وابن ماجۃ والطحاوی) 
یعنی مردار کی کچی کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ 
امام بیہقی نے فرمایا کہ اس میں دلیل ہے کہ مردار کی کھال سے دباغت سے پہلے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ ؛ لیکن دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا درست ہے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک باندی کو صدقہ میں ایک بکری ملی ، پس وہ مرگئی، اس طرف سے رسول اللہ ﷺ کا گذر ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
ھلا اخذتم باھابھا فدبغتموہ فانتفعتم بہ، فقالوا انھا میتۃ فقال انما حرم اکلھا۔ (بخاری و مسلم) 
تم نے اس کی کھال کیوں نہ چھڑالی، پھر تم اس کو دباغت دیتے اور اس سے نفع اٹھاتے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : وہ تو مری ہوئی ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: مرے ہوئے جانور کا صرف کھانا حرام ہے۔ 
یعنی گوشت تو نجس اور حرام ہے ، لیکن اس کی کھال دباغت کے بعد استعمال کرنا درست ہے۔ 
نجاست جل کر راکھ ہونے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح حقیقت بدلنے سے پاک ہوجاتی ہے ، جیسے شراب سرکہ بن جائے ، نمک میں گر کر چوہا وغیرہ نمک بن جائے۔

2 Nov 2018

Kia Nikah Mahaz Ek Samaji Moahada hi?

کیا نکاح محض ایک سماجی معاہدہ ہے؟
محمد یاسین جہازی( جہاز قطعہ، گڈا)
واٹس ایپ:9871152408



مغربی تہذیب و ثقافت کے ذہنی و عملی مریض مساوات انسانی کے تصور سے اس قدر خیرہ چشمی میں مبتلا ہیں کہ جنس کے قدرتی اور طبعی فرق کی نزاکت کو ملحوظ رکھے بغیر ہر چیز میں مساوات کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ نظریہ انھیں اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ نکاح سماجیزندگی گذارنے کا صرف آپسی سمجھوتہ ہے، جس کا حقدار تنہا شوہر کو بنانا سماج دشمنی اور عورت کی آزادی کے خلاف ہے۔
حقیقیت یہ ہے کہ اسلام نے مرد و عورت کے درمیان مساوات انسانی اور انسانی عظمت و تکریم کی جس قدر رعایت کی ہے، اس قدر مساوات و توازن نہ تو دوسرے کسی مذاہب میں موجود ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی قانون میں پایا جاتا ہے۔ 
دوسرے مذاہب و معاشرے میں نکاح کا جو بھی تصور ہو ، لیکن اسلام کے نقطہ نظر سے نکاح اور سمجھوتہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ فرق کیا ہے، ذیل کی سطروں میں پیش خدمت ہے: 
(۱) نوعی فرق: سمجھوتہ ایک خالص تمدنی اور معاشرتی معاملہ ہے، جب کہ نکاح ایک خالص دینی معاملہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ 
اذا تزوج العبد فقد کمُل نصف الدین فلیتق اللّٰہ فی نصف الباقی۔ (شعب الایمان، فصل فی الترغیب فی النکاح)
(۲) مقصدی فرق: سمجھوتوں کے بنیادی مقاصد معاشی مفادات ہوتے ہیں، جب کہ نکاح کا مقصد دینی و اخروی مفادات ہیں۔ 
تنکح المرأۃ لاربع: لمالھا و لحسبھا و لجمالھا و لدینھا، فاظفر بذات الدین۔ (بخاری، کتاب النکاح،باب الاکفاء فی الدین)
(۳) سزا کا فرق: سمجھوتوں پر عمل نہ کرنے پر وعید نہیں ہے ، جب کہ بوقت ضرورت نکاح نہ کرنے پر وعید آئی ہے۔ 
النکاح من سنتی، فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی۔ (ابن ماجہ، کتاب النکاح،باب ماجاء فی فضل النکاح)
(۴) اخلاقی فرق: سمجھوتوں پر عمل محض مطلب بر آری اور فریقین اپنا وقار برقرار رکھنے کے لیے ہوتا ہے، جب کہ نکاح مدارات و موانست اور الفت و محبت پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ 
من اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا و الطفھم باھلہ۔ (المستدرک علیٰ الصحیحین، کتاب الایمان، باب من اکمل الایمان۔۔۔)
(۵)طرز عمل کا فرق: سمجھوتوں میں ساری تگ و دو محض مفادات حاصل کرنے لیے ہوتی ہے، جب کہ نکاح کی ساری کوششیں آپس میں عشق و شیفتگی پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں پیار سے ایک لقمہ بھی ڈالتا ہے تو اس کا ثواب ملتا ہے۔ 
و جعل بینکم مودۃ و رحمۃ۔ (الروم، ۲۱)
وانک لن تنفق نفقۃ تبتغی بھا وھہ اللّہ الا اجرت بھا حتیٰ ما تجعل فی فی امرأتک۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب رثاء النبی ﷺ سعد ابن خولۃ)
(۶) مفادات کا فرق: سمجھوتوں میں صرف مادی مفادات پیش نظر ہوتے ہیں، جب کہ نکاح تصفیہ قلب اور اصلاح باطن کے لیے کیا جاتا ہے۔
و من آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنو الیھا۔ (الروم، ۲۱)
(۷)ہیئت کا فرق: سمجھوتوں میں کوئی بھی فیصلہ فریقین کے باہمی رضامندی سے ہی ہوسکتا ہے، جب کہ نکاح میں پورا معاملہ شوہر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ 
بیدہ عقدۃ النکاح۔ (البقرۃ، ۲۳۷)
(۸) اختیار کا فرق: سمجھوتوں کو ختم کرنے کے لیے فریقین کی صلاح و مشورہ ضروری ہے، جب کہ نکاح کو ختم کرنے کے لیے شوہر کو مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ 
و ان عزموا الطلاقَ۔ (البقرۃ، ۲۲۷)
(۹) شرائط کا فرق: سمجھوتوں میں معاملات و حقوق اور شرائط طے کرنے پڑتے ہیں، جب کہ نکاح ایک خدائی اصطلاح ہے، جس کے احکام و مسائل قرآن و احادیث میں طے کردیے گئے ہیں، جن میں کوئی تبدیلی و ترمیم کی نہیں جاسکتی ہے۔ سورہ الطلاق اور دیگر آیات و احادیث میں تفصیلات موجود ہیں۔ 
(۱۰) انداز قبول کا فرق: مترادف الفاظ ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال کرنا غیر موزوں نہیں ہوتا۔ چنانچہ گفتگو کی جگہ بات چیت بولا جاسکتا ہے، لیکن سمجھوتے کے لیے استعمال ہونے والے کسی بھی لفظ کو نکاح کے کسی بھی لفظ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اگر دو ملکوں میں سمجھوتہ ہوتا ہے، تو یہ کبھی نہیں کہاجاتا کہ دو ملکوں میں نکاح ہوگیا ہے۔ اسی طرح سمجھوتہ ختم ہونے پر یہ نہیں بولا جاتا کہ دونوں میں طلاق ہوگئی ہے۔ 
(۱۱) ذمہ داریوں کا فرق: سمجھوتوں میں معاملات کے ذمہ دار دونوں فریق ہوتے ہیں، جب کہ نکاح میں صرف مرد عورت کی ذات کی ملکیت حاصل کرلیتا ہے، کیوں کہ عورت مرد کو اپنی جان حوالے کردی ہے، جس کے عوض نان، نفقہ اور سکنیٰ وغیرہ کی حقدار ہوتی ہے۔ 
(۱۲) غلبہ کا فرق: سمجھوتوں میں دونوں فریق برابر ہوتے ہیں، کسی کو غلبہ و تسلط حاصل نہیں ہوتا، جب کہ نکاح میں مرد کو قوامیت اور غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ 
الرجال قوامون علیٰ النساء۔ (النساء، ۳۴)
(۱۳)تصرفات کا فرق: سمجھوتوں میں فریقین ایک دوسرے کی جان و مال میں تصرف کا حق نہیں رکھتے، جب کہ نکاح میں مرد عورت کے نفس اور بعض اوقات مال میں بھی تصرف کا حق رکھتا ہے۔ 
نساؤکم حرث لکم، فأتوا حرثکم انیٰ شئتم۔ (البقرۃ، ۲۲۳)
(۱۴) قول و قرار کا فرق: سمجھوتوں میں قول و قرار دینا پڑتا ہے اور بسااوقات محض زبانی اقرار سے کام نہیں چلتا؛ بلکہ اس کو حیطہ تحریر میں لانا بھی ضروری ہوتا ہے، جب کہ نکاح میں محض زبانی اقرار و قبول ہی کافی ہوتا ہے؛ بلکہ شرمیلی عورت کا سکوت بھی رضامندی کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ 
(۱۵) انتفاعات کا فرق: سمجھوتوں میں صرف مال و متاع سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، ذات سے نہیں؛ جب کہ نکاح میں مال و متاع کے ساتھ ساتھ ذات و نفس سے بھی انتفاع مقصود ہوتا ہے۔ 
(۱۶) لفظی تاثیرکا فرق: سمجھوتوں کے انعقاد کے لیے فریقین کے درمیان سنجیدہ بحث و گفتگو ضروری ہے، جب کہ نکاح کا معاملہ اس سے برعکس ہے۔ مزاح اور دل دلگی میں بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ 
ثلاث جدھن جد و ھزلھن جد: النکاح والطلاق والرجعۃ۔ (ابوداؤد، کتاب الطلاق، باب فی الطلاق علیٰ الھزل)
(۱۷) احکام کا فرق: سمجھوتوں میں کسی کی ذات حلال وحرام نہیں ہوتی ، لیکن نکاح و طلاق سے حلال حرام اور حرام حلال ہوجاتا ہے ۔ 
حرمت علیکم امھاتکم الاٰیۃ۔ (النساء، ۲۳)
(۱۸) شرکت کی نوعیت میں فرق: سمجھوتوں میں دو سے زائد افراد بھی شرکت کرسکتے ہیں اور برابر کے حق دار ہوسکتے ہیں، جب کہ نکاح محض دو شخصوں کے درمیان ہی ہوسکتا ہے۔ 
(۱۹) صنفی فرق: سمجھوتوں میں مرد و عورت کا ہونا ضروری نہیں ہے؛ سب مرد ہوسکتے ہیں یا سب عورتیں ہوسکتی ہیں، جب کہ نکاح میں ایک مرد اور ایک عورت کا ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ یہی فطرت کا اصول ہے اور جو لوگ اس کے خلاف عملی اقدام کر رہے ہیں، در اصل وہ فطرت سے بغاوت کی انتہا کر رہے ہیں، جو انسان اور انسانیت کی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے۔ 
(۲۰) قرب و قرابت کا فرق: سمجھوتوں سے کوئی حقیقی رشتہ وجود میں نہیں آتا؛ جب کہ نکاح حقیقی رشتہ کی تولید کا تسلسل پیدا کرتا ہے۔بیٹا سے باپ اور پھر دادا وغیرہ وغیرہ۔ 
فجعلہ نسبا و صھراً۔ (الفرقان، ۵۴)
(۲۱) میعاد کا فرق: ہر ایک سمجھوتہ محدود وقت کا پابند ہوتا ہے۔ وقت پورا ہوتے ہی سمجھوتہ بھی ختم ہوجاتا ہے؛ لیکن نکاح ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی مدت گذرنے سے نکاح کی میعاد پوری نہیں ہوتی۔ 
(۲۲) لوازم کا فرق: سمجھوتہ ختم ہوتے ہی کلی طور پر کالعدم ہوجاتا ہے، جب کہ نکاح ٹوٹنے کے بعد بھی علیٰ الفور رشتہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کے بعد عدت گذارنی ہوتی ہے۔ 
(۲۳) نتائج کا فرق: سمجھوتوں سے اشیا کی صنعت کاری مقصود ہوتی ہے، جب کہ نکاح سے نسل انسانی کی افزائش ہوتی ہے۔
درج بالا سطور سے واضح ہوگیا کہ سمجھوتہ الگ چیز ہے، جب کہ نکاح ایک دوسری چیز ہے۔ ان تمام فرقوں کے ساتھ نکاح کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نسل انسانی کی افزائش کے ساتھ سلسلہ نسب کا تحفظ بھی بڑا مقصد ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ ایک عورت صرف ایک ہی مردکے نکاح میں رہے اور صرف اپنے ہی مرد سے جنسی تعلقات بنائے۔ اگربیک وقت ایک سے زائد مرد کے نکاح میں رہے گی یا شوہر کے علاوہ بھی کسی سے جنسی تعلقات بنائے گی، تو ایک طرف جہاں نکاح کے حقیقی مقصد کے خلاف ہوگا، وہیں دوسری طرف جانور کی طرح انسان کا سلسلہ نسب بھی منقطع ہوجائے گا۔ 
مورخہ ۲۷؍ ستمبر۲۰۱۸، جمعرات کوسپریم کورٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 497 (ایڈلٹری) کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس دیپک مشرا کی زیر صدارت پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا کہ غیر ازدواجی تعلقات قائم کرنا اب جرم نہیں ہے۔ ایڈلٹری کو شادی سے الگ ہونے کی بنیاد تو بنائی جا سکتی ہے؛ لیکن اسے جرم نہیں مانا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے فیصلہ پڑھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’جمہوریت کی خوبصورتی ہے میں، تم اور ہم‘‘۔اس فیصلہ کے جواز پر دلیل دیتے ہوئے کہا کہ’’تعزیرات ہند کی دفعہ 497 ؍خواتین کے احترام کے خلاف ہے جبکہ انھیں ہمیشہ مساوی حقوق ملنے چاہییں‘‘۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس تناظر میں تھا کہ ’’ کیا عورت ایک وستو(چیز) ہے؟ جس طرح ایک چیز جس کی ملکیت ہوجاتی ہے، تو اس کے مالک کی اجازت کے بغیر اسے کوئی دوسرا استعمال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر ایک عورت کسی مرد سے شادی کرلے تو کیا وہ عورت اس مرد کے لیے چیز کی طرح ہوجاتی ہے کہ اس کے بعد اسے کوئی دوسرا مرد استعمال نہیں کرسکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے اس کا تصفیہ کرتے ہوئے کہا کہ عورت کوئی وستو نہیں ہے کہ شادی سے صرف شوہر کا قبضہ رہے گا۔سپریم کورٹ کی دلیل ہے کہ ایک لڑکی، خواہ کسی کی بیٹی ہو یا بیوی ،یا پھر ماں ہو یا بہن ، جب تک اس میں ، میں، تم اور ہم سب شرکت نہ کریں ، تب تک جمہوریت کی خوب صورتی کہاں برقرار رہ سکتی ہے۔ اتنا ہی نہیں؛ بلکہ خواتین کے لیے اپنے باپ، بھائی اور شوہر کو تحفظ کا حصار بنانا عورت کی توہین ہے۔آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک خوب صورت عورت صرف ایک ہی مرد کو خوش رکھے! پورے محلے والوں کا بھی تو کچھ حق ہے۔ 
یہ نظریہ کسی جاہل ، ان پڑھ اور گنوار شخص کا نہیں؛ بلکہ بھارت کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے اعلیٰ ذہن و فکر رکھنے والے جج صاحبان کا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایسے اعلیٰ دماغ اس طرح سے فیصلے کرنے لگیں توسمجھ لیجیے کہ وہ نکاح کی حقیقیت و مقاصد سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک نکاح محض ایک سماجی معاہدہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ 
نوٹ: اس مضمون کی ترتیب میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کی کتاب :’ نکاح و طلاق عقل کی روشنی میں ‘ سے خصوصی استفادہ کیا گیا ہے۔ 

1 Nov 2018

Najasae Ghaleeza aur Khafeefa ka Bayan

نجاست غلیظہ اور خفیفہ کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (31) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
نجاست حقیقہ کی دو قسمیں ہیں: غلیظہ اور خفیفہ۔ 
جس کی نجاست آیت یا حدیث وغیرہ سے ثابت ہو اور کوئی دوسری آیت یا حدیث اس کے مخالف نہ ہو،تو اس کو نجاست غلیظہ کہتے ہیں ۔ اور جس چیز کو یہ نجاست لگ جائے وہ نجس غلیظہ کہلاتی ہے ۔ اور جس کے نجاست ہونے میں آیت یا حدیث وغیرہ کا ٹکراؤ ہو ۔ اگر ایک آیت یا حدیث سے اس کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہو، تو دوسری آیت یا حدیث سے اس کا نجس ہونا معلوم ہوتا ہو، لیکن نجاست کا ثبوت راجح ہوتو اس کو نجاست خفیفہ کہتے ہیں۔ (زیلعی)
نجاست غلیظہ میں یہ چیزیں داخل ہیں: شراب انگوری۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس ۔ (المائدہ،۹۰)
بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر؛ یہ سب گندی چیزیں ہیں۔ 
مردار جانور کا گوشت۔ چربی پٹھا اور اس کی کچی کھال۔ سور۔ مچھلی، مچھر، پسو اور کھٹمل کے سوا ہر قسم کے جانوروں کا بہتا ہوا خون۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
الا ان تکون میتۃ او دما مسفوحا او لحم خنزیر فانہ رجس۔ (الانعام،۱۴۵) 
مگر یہ کہ مردار جانور یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت ہو، کیوں کہ وہ بالکل ناپاک ہے۔
معلوم ہوا یہ تینوں چیزیں نجس العین ہیں اور نجاست غلیظہ میں داخل ہیں ، لیکن سور کے علاوہ باقی مردار جانوروں کی ہڈی، بال، سینگ اور کھر پاک ہیں، جب کہ اس میں چکنائی کا اثر نہ ہو۔ یعنی جس کے اندر روح اور خون سرایت نہ کرے، وہ پاک ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ۔ 
عن عبد اللّٰہ بن عباس قال سمعت رسولَ اللّٰہ ﷺ قال: قل لا اجد فیما اوحی الیَّ محرما علیٰ طاعم یطعمہ الا کل شئی من المیتۃ حلال الا ما اکل منھا ، فاما الجلد والقرون والشعر والصوف والسن والعظم فکلہ حلال لانہ یذکی۔ (رواہ الدار قطنی)
آں حضرت ﷺ نے فرمایا: کہہ دیجیے کہ جو کچھ تیری طرف وحی کی گئی ہے ، اس میں نہیں پاتا ہوں کہ کھانے والے پر اس کا کھانا حرام کیا گیا ہو، خبردار ہو! مردے میں سے ہر چیز حلال ہے، مگر سوائے اس چیز کے کہ کھائی جاتی ہے ، پس کھال (دباغت دیا ہوا) اور سینگ اور بال اور اون اور دانت اور ہڈی؛ پس کل کے کل حلال ہیں اس لیے کہ وہ ذبح نہیں کیے جاتے ہیں، یعنی اس میں روح نہیں ہوتی ہے۔ 
اسی طرح جن چوپاؤں کا گوشت کھانا حرام ہے ، ان کا پیشاب اور آدمی کا پیشاب ، خواہ دودھ پیتا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے پیشاب کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
اذا مسکم شئی فاغسلوہ فانی اظن ان منہ عذاب القبر۔ (رواہ البزار و قال فی التلخیص اسنادہ حسن، آثار السنن) 
جب کچھ پیشاب تم کو لگ جائے تو اس کو دھو ڈالو، اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں کہ پیشاب (کے لگنے ) سے عذاب قبر ہوتا ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
استنزھوا من البول فان عامۃ عذاب القبر منہ۔ (رواہ الحاکم و قال صحیح علیٰ شرطھما) 
پیشاب سے بچو، اس لیے کہ عذاب قبر زیادہ تر اسی سے ہوتا ہے۔
ایک صحابی کو دفن کیا، دفن سے فراغت کے بعد عذاب قبر میں مبتلا ہوا، تو ان کی عورت کے پاس آپﷺ تشریف لائے اور ان کے عمل کے بارے میں پوچھا تو بولی کہ وہ بکریاں چرایا کرتے تھے اور ان کے پیشاب سے نہیں بچتے تھے، اس وقت آپ ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ حلال گوشت والے جانور کا پیشاب بھی نجاست میں داخل ہے۔ 
معلوم ہوا پیشاب نجس ہے اور اس نجاست سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب قبر ہوتا ہے، مگر حلال گوشت چوپائے کا پیشاب نجاست غلیظہ میں اس لیے داخل نہیں ہے کہ اس کے بارے میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا ہے : 
لابأس ببول ما یؤکل لحمہ ، (احمد، دار قطنی)
جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ، اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں ہے ۔
اس دلیل کے ٹکراؤ کی وجہ سے اس کا پیشاب نجاست خفیفہ میں داخل ہے۔ مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ اور آدمی کا پاخانہ اور تمام چوپاؤں کا گوبر، لید نجاست غلیظہ میں داخل ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو استنجے کے لیے پتھر لانے کو کہا تو انھوں نے دو پتھر لائے اور تیسرا پتھر نہ ملنے پر ایک لید کا ٹکڑا اٹھالائے۔ آپ ﷺ نے دونوں پتھر کو لیا اور لیدکو پھینک دیا اور فرمایا: 
ھذا رکس ۔ (بخاری)
یہ نجس ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
لاتستنجوا بالروث۔ (نسائی) 
لید سے استنجا نہ کرو۔
معلوم ہوا : گو، گوبر، لید؛ سب نجس ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث بھی نہیں ہے۔ 
جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے، ان چوپاؤں کا گوشت اور لعاب اور پسینہ نجاست غلیظہ میں داخل ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
طھور اناء احدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولھن بالتراب۔ (مسلم)
جب برتن میں کتا منھ ڈالے تو برتن کو اس طرح پاک کرے کہ اس کو سات مربتہ دھوئے اور پہلی مرتبہ اس کو مٹی سے مانجھے۔ 
معلوم ہوا کتا کا لعاب ایسا نجس ہے کہ اس کی نجاست کو دور کرنے کے لیے مٹی سے مانجھنے کی ضرورت ہے ۔ اور کتا حرام ہے، تو باقی حرام گوشت جانور کا یہی حکم ہوگا۔ اور لعاب کی نجاست گوشت کی نجاست اور گوشت کی نجاست پسینہ کی نجاست پر دلالت کرتی ہے، اس لیے ان جانوروں کا پسینہ بھی نجس ہوگا ، مگر گدھے اور خچر کا پسینہ پاک ہے ، چوں کہ وہ سواری کا جانور ہے ، اس لیے دفع حرج کے لیے پاک فرمایا، جس طرح بلی کا جھوٹا دفع حرج کی وجہ سے پاک ہوا۔ 
ہر وہ چیز جو ناقض وضو یا موجب غسل ہو، وہ بھی نجاست غلیظہ میں داخل ہے ، جیسے منھ بھر قے، زخم کا بہتا ہوا خون، پیپ، منی ، مذی وغیرہ۔ مگر ہوا پاک ہے۔
عن عمار بن یاسرقال: اتیٰ علیَّ رسول اللّٰہ ﷺ و انا علیٰ بئر ادلو ماء فی رکوۃ قال: یا عمار! ما تصنع، قلت: یا رسول اللّٰہ ﷺ بابی انت و امی اغسلُ ثوبی من نخامۃ اصابتہ، فقال: یا عمار! انما یغسل الثوب من خمس من الغائط والبول والقئی والدم والمنی، یا عمار ما نخامتک و دموع عینک والماء الذی فی رکوتک الا سواء۔ (رواہ الدار قطنی)
اور یہ چیزیں نجاست خفیفہ میں داخل ہیں: حلال گوشت چوپائے کا پیشاب، گھوڑے کا پیشاب۔ اور حرام گوشت پرندوں کی بیٹ۔ مرغی ، بطخ، مرغابی کے علاوہ باقی حلال گوشت پرندوں کی بیٹ پاک ہے۔ اسی طرح حلال گوشت چوپاؤں کا لعاب اور پسینہ پاک ہے ۔ حضرت عمرو بن خارجہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منی میں خطبہ دیا اور آپ ﷺ اونٹ پر سوار تھے اور اس کا لعاب میرے مونڈھے پر بہتاتھا ۔ (احمد، ترمذی، ترمذی نے اس کی تصحیح کی)
نجاست غلیظہ اگر گاڑھی ہو، تو ساڑھے چار ماشہ وزن تک معاف ہے اور اگر پتلی ہو تو ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار معاف ہے ، یعنی اگر اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھے گا ، تو نماز ہوجائے گی، لیکن مکروہ تحریمی ہوگی، اس لیے اس کا دھونا واجب ہوگا۔ اور اگر اس سے کم ہے تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی، اس لیے اس کا دھونا مسنون ہوگا۔ اور اگر مقدار عضو سے زائد ہو یعنی ساڑھے چار ماشہ وزن سے زائد یا مقدار ہتھیلی سے زائد ہو تو نماز نہیں ہوگی اور اس کا دھونا فرض ہے ۔ (در مختار)۔
اور نجاست خفیفہ اگر کسی عضو پر ہو تو چوتھائی عضو سے کم اور کپڑے پر ہو تو اس کپڑے کی چوتھائی سے کم اور اگر کسی چیز پر ہو تو اس چیز کی چوتھائی سے کم ہو تو معاف ہے ، یعنی اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی۔ چوتھائی اور اس سے زیادہ معاف نہیں ہے ۔ اس کا دھونا فرض ہے۔ نجاست خفیفہ اگر پانی میں پڑجائے تو پانی نجس ہوجائے گا، اگرچہ قلیل پڑے۔ پیشاب کی چھینٹ سوئی کی نوک کے برابر بدن یا کپڑے میں پڑے تو معاف ہے ، اس لیے کہ ایسی چھینٹوں سے بچنا مشکل ہے۔

31 Oct 2018

Mostahaza aur maazooreen ke ahkam

مستحاضہ اور معذورین کے احکام
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (30) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
مستحاضہ سے صحبت کرنا جائز ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: 
لاباس ان یجامعھا زوجھا۔ (عبد الرزاق) 
کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کا شوہر اس سے صحبت کرے۔ 
ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حمنہ بنت جحشؓ مستحاضہ ہوتی اور ان کا شوہر ان سے صحبت کرتا۔ نوویؒ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح، ص۱۵۹)
مستحاضہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ استحاضہ کی حالت میں نماز روزہ معاف نہیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت کا خون بہتا تھا ،تو حضرت ام سلمہ نے نبی کریم ﷺ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: یہ عارضہ جو انھیں پیش آیا ، اس سے پہلے مہینے میں کتنے رات دن ان کو حیض آتا تھا، اس کو دیکھے ، پھر مہینے میں اتنے دن کی نماز چھوڑ دے۔ جب وہ دن گذرجائے تو غسل کرے اور کسی کپڑے کی گدی لگائے ، پھر نماز پڑھے۔ اس کو ابو داؤد وغیرہ نے کئی سندوں کے ساتھ بیان کیا۔ اور امام نوویؒ نے فرمایا کہ ابو داؤد کی سند بخاری مسلم کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے۔ (زجاجۃ المصابیح) اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
تدع الصلاۃ ایام اقواءھا التی کانت تحیض فیھا ثم تغتسل و تتوضأ عند کل صلاۃ و تصوم و تصلی ۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد)
مہینے میں جتنے دن حیض آتا تھا، اتنے دنوں کی نماز چھوڑ دے ، پھر نہائے اور ہر نماز کے وقت وضو کرے اور روزہ رکھے اور نماز پڑھے۔ 
مستحاضہ حیض سے فارغ ہونے کے بعد بس ایک مرتبہ غسل کرے ، پھر ہر نماز کے لیے وقت پر وضو کرے ۔ اور اس وضو سے جس قدر فرض ، واجب، سنت اور نفل چاہے پڑھے۔ جب تک وقت ہے استحاضہ کے خون کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ وضو وقت نکلنے ہی سے ٹوٹے گا، البتہ دوسرے نواقض وضو سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ 
عن عائشۃ قالت: سئل رسول اللّٰہ ﷺ عن المستحاضۃ قال: تدع الصلاۃ ایامھا ثم تغتسل غسلا واحدا ثم تتوضأ عند کل صلاۃ۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ باسناد صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ سے مستحاضہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے ، پھر ایک مرتبہ نہائے ، پھر ہر نماز کے وقت وضو کرے۔ 
بخاری کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: 
ثم توضأ لکل صلاۃ حتیٰ یجئی ذالک الوقت۔ 
پھر وضو کر ہر نماز کے لیے ، یہاں تک کہ یہ وقت گذر جائے ۔ 
یعنی وقت میں صرف ایک وضو کافی ہے ، جب تک وقت ہے وضو باقی ہے۔ 
مستحاضہ پر باقی معذورین کو خیال کرنا چاہیے ، خواہ برابر پیشاب کے قطرے آنے، یا زخم سے خون یا پیپ، ریح، بہنے، یا دست جاری رہنے ، یا ہوا خارج ہونے کا مرض ہو ، یا کوئی دوسری بات ہو جس سے وضو نہیں ٹھہرتا ہے ، کیوں کہ عذر ایک طرح کا ہے ، یعنی وضو کے ساتھ نواقض وضو پیش آجاتا ہے، جس سے وضو صحیح نہیں ہوتا ہے ، یا باقی نہیں رہتا ہے ، مگر شریعت نے مجبوری کی وجہ سے اس کے وضو کو صحیح اور باقی مانا اور اس کو وقت کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دی تو سب معذورین کے لیے اجازت سمجھی جائے گی۔ لہذا معذورین اپنے عذر کی وجہ سے نماز نہ چھوڑے؛ بلکہ وضو کرکے نماز پڑھے ۔ ایک وضو سے پورے وقت میں جس قدر چاہے فرض نفل پڑھ سکتا ہے ۔ دوسرے وقت کے لیے دوسرا وضو کرے۔ 
لیکن معذور اس وقت ہوگا جب کہ ایک نماز کا پورا وقت اس طرح گذرے کہ اس میں باوضو فرض ادا کرنے کا موقع نہ ملے ۔ اس کے بعد اس وقت تک معذور رہے گا جب تک نماز کا کوئی وقت عذر سے خالی نہ گذرے ، یعنی ہر نماز کے پورے وقت میں کم از کم ایک مرتبہ وہ عذر پیش آجائے ، جس میں وہ معذور سمجھا گیا ہے ۔ جب ایک نماز کاپورا وقت اس طرح گذر جائے کہ اس میں ایک مرتبہ بھی وہ عذر پیش نہ آئے تو اب معذور نہ رہے گا اور وہ چیز اس کے حق میں ناقض وضو ٹھہرے گی۔