6 Apr 2018

آہ! مولانا ازہر صاحب

محمد یاسین جہازی
آہ! مولانا ازہر صاحب
حضرت مولانا از ہررانچوی صاحب نور اللہ مرقدہ (07-07-1924--13-05-2017) کی وفات پر ایک حکایتی تحریر
۱۳؍ مئی بروز سنیچر دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ ،جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر ،جامعہ حسینیہ کڈرو رانچی جھارکھنڈ کے مہتمم اور خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا ازہر صاحب نور اللہ مرقدہ رانچی میں انتقال فرماگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
موت و حیات کا تسلسل نظام فطرت کا حصہ ہے۔ یہاں ہر آن زندگی وجود میں آتی ہے اور ہر لمحہ فنا گردش کرتی رہتی ہے۔ کائناتی سسٹم کے توازن کے لیے دونوں کا وجود ضروری ہے۔ اگر صرف زندگی ہی زندگی جنم لیتی رہے ، یا صرفہ ہمہ وقت فنا ہی فناکا خوف چھایا رہے، تو کوئی بھی زندگی مسرت خیز نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی فنا باعث رنج و الم ہوگی۔ کچھ زندگیاں دوسری زندگیوں کی بنسبت زیادہ اہم ہوتی ہیں، جس کا لازمی تقاضا ہے کہ ان کی فنا بھی زیادہ تکلیف دہ ہوگی۔ آج ہم ایک اہم زندگی کے فوت ہونے پر زیادہ صدمہ کے دور سے گذر رہے ہیں ۔ اور صدمہ پر تسلی کے سامان بہم پہنچانے کے لیے چند سطور حوالے قلم کی جارہی ہیں۔
حضرت مولانا ازہر صاحب بیک وقت کئی جہت کی مالک شخصیت تھی۔ وہ ایک طرف ہندستان کی سب سے بڑی تعلیم گاہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، تو وہیں دوسری طرف سرمایہ ملت اسلامیہ ہند کی پاسبان و محافظ تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر بھی تھے۔حضرت والا کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ و مجاز تھے۔ اسی طرح تعلیمی خدمات انجام دینے کے لیے رانچی میں واقع جامع حسینیہ کڈرو کے بانی و مہتمم بھی تھے۔ مولانا محترم کے جہاں سینکڑوں نیاز مند ہیں، وہیں ان میں سے ایک یہ ناچیز بھی ہے۔ ہرچند کہ ناچیزکا حضرت بزرگ محترم سے کوئی رسمی و سلسلہ جاتی تعلق نہیں تھا تاہم عقیدت و محبت کا رشتہ قائم تھا۔اور درج ذیل سطور میں اسی کے شواہد پیش کیے جارہے ہیں۔
حضرت والا سے شناسائی کی کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں راقم بعد نماز عصر آسامی منزل سے مطبخ آرہا تھا ۔ جب احاطہ مطبخ کے دروازے کے پاس سے گزر ہوا، تو ساتھ میں آرہے ایک طالب علم نے ایک کمرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ جانتے ہو کہ یہ کس کا کمرہ ہے۔ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ارے تم نہیں جانتے ہو،اس میں مولانا ازہر صاحب کا فرزند رہتے ہیں، ان کا نام اسجد بھائی ہے۔ چوں کہ زندگی میں پہلی مرتبہ یہ نام گوش گزار ہوا تھا ، اس لیے میں نے سوال کیا کہ یہ مولانا ازہر صاحب کون ہیں؟۔ ان کا پھر وہی جواب تھا کہ کیا تم مولانا ازہر صاحب کو بھی نہیں جانتے ، وہ بھی تو جھارکھنڈ کے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ ہیں اور شیخ الاسلام ؒ کے خلیفہ ہیں۔اس پر میرا جواب تھا کہ اچھا۔ چوں کہ اس وقت دارالعلوم دیوبند کا جدید اور مولویت کے تیسرے درجہ کا طالب علم تھا، اس لیے کہ ان کی باتوں کی اہمیت کو سمجھ نہیں پایا۔ پھر انھوں نے کہا کہ چلو ایک دن تمھاری ان سے ملاقات کرائیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ ایک دن بعد نماز مغرب ان کے ہمراہ مولانا اسجد صاحب کے کمرے میں حاضر ہوا۔ وہاں دیکھا کہ نصف درجن طلبہ پہلے سے موجود ہیں اور چائے نوشی کر رہے ہیں۔ پہنچتے ہی انھوں نے دو کپ ہماری طرف بڑھانے کا اشارہ کیا اور ہم دونوں نے بھی ان کی چائے کی ضیافت کا لطف لیا۔ ہر طالب علم اپنے اپنے اعتبار سے جو کچھ بات کرنا تھی ، کر رہے تھے، لیکن میں نہیں سمجھ پارہا تھا کہ مجھے کیا بات کرنی چاہیے۔ چنانچہ محفل برخاست ہونے کے بعد میں بھی لوٹ آیا۔ لیکن اس تاثر کے ساتھ لوٹا کہ اگر اتنے سارے طالب علم ملاقات کے لیے آتے ہیں، تو ان کے والد گرامی یقیناًکوئی بہت بڑی ہستی ہوگی۔
بہر حال وقت گزرتا گیا اور گزرتا زمانہ جوں جوں شعور و ادراک میں اضافہ کرتا رہا، اسی اعتبار سے اکابر کے متعلق جانکاری بھی ہوتی رہی۔لیکن تشخص کے ساتھ تعارف اس وقت ہوا، جب راقم جمعیۃ علماء ہند میں ایک ملازم کی حیثیت سے شریک کار ہوا۔ واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ تھی، حضرت چوں کہ اس کے نائب صدر تھے، اس لیے حضرت تشریف لائے ہوئے تھے، اور ساتھ میں فرزند ارجمند مولانا اسجد صاحب بھی تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ سلیک علیک کے بعد خیر و خیریت پوچھی گئی۔ عشا کے بعد جب میٹنگ سے فارغ ہوگئے، تو ناچیز حضرت کی قیام گاہ پر حاضر ہوا۔ اندر آنے کی اجازت چاہی۔ مولانا اسجد صاحب نے دروازہ کھولا اور حضرت کے سامنے تعارف کرایا کہ یہ گڈا کا ہے اور یہیں ملازم ہے۔یہ سن کر حضرت نے خوشی کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں۔ اور پھر فرمایا کہ رابطے میں رہنا، جسے ناچیز نے اپنے لیے باعث سعادت سمجھا۔ اس کے بعد خیرو خیریت اور دعائیں لینے کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت کے چہرے کی نورانیت دیکھ کر پہلی ہی ملاقات میں ان سے عقیدت ہوگئی اور یہ عقیدت محبت میں تبدیل ہوگئی۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا رہا، اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی کا فون آیا۔ اس وقت میں اپنے مادروطن جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ میں تھا ۔ انھوں نے فرمایا کہ تم رانچی چلے جاو ۔ میں نے تعمیل حکم کے لیے ہاں میں جواب دیا۔ پھر مجھے جمعیۃ علماء ہند کا ایک کام سونپا گیا۔ چنانچہ اس کام کے مقصد سے حضرت کے مدرسے میں حاضری ہوئی اور زندگی میں پہلی مرتبہ حضرت کے مدرسے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ مدرسہ حضرت کی پرخلوص جدو جہد کو بیان کر رہا تھا۔ یقیناًجھارکھنڈ جیسے علاقے میں اتنا بڑا مدرسہ قائم کرنا کسی معمولی جگر والے کا کام نہیں ہوسکتا، اسے تو وہی قائم کرسکتا تھا ، جن کے اندر بطل حریت حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی روح دوڑ رہی ہو۔ المختصر وہاں دیگر اکابرین کے ساتھ مولانا ابوبکر قاسمی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ، جو جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے ناظم اعلیٰ ہیں۔ انھوں نے ناچیز کی پر تکلف ضیافت کی اور رانچی شہر کے دیدار کا بھی بندوبست کیا۔
ایک دن اچانک سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوئی کہ خلیفہ شیخ الاسلام اس دنیا سے چل بسے۔ یہ سن کر دلی صدمہ ہوا اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے چند ذمہ داران مدارس سے دعائے مغفرت کی اپیل کی۔ان کا انتقال رانچی میں ہوا اور وہیں تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔
اولاد واحفاد
حضرت نور اللہ مرقدہ کے تین صاحب زادے تھے، جن کے نام علی ٰ الترتیب مولانا احمد صاحب قاسمی، مولانا محمد صاحب قاسمی اور مولانا اسجد صاحب قاسمی ہیں۔ اور الحمد للہ تینوں صاحبزادگان حافظ قرآن بھی ہیں۔ نیک سیرت اور خوش اخلاقی گویا ان کو وراثت میں ملے ہیں، مہمان نوازی اور نرم گوئی ان حضرات کا خصوصی امتیازات ہیں۔ بڑے صاحب زادے مولانا احمد صاحب قاسمی ابتدا میں مولانا کے سفر و حضر میں ساتھ رہے۔ بعد میں چھوٹے صاحبزادے مولانا اسجد صاحب شریک سفر رہا کرتے تھے۔ اور اہم امور میں مشورے کے لیے انھیں ترجیح دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد صاحب قاسمی، سر دست مدرسہ حسینیہ کے ذمہ دار ہیں۔ انھیں مولانا نور اللہ مرقدہ نے حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ کے مشورے سے نائب مہتمم بنایا تھا۔ مولانا کی صاحب زادیوں کی تعدادآٹھ ہیں، جن میں سے قدرت، نعمت اور بریرت اللہ کو پیاری ہوگئی ہیں، جب کہ رحمت، فرحت، راحت، عشرت اور نصرت باحیات ہیں اور صاحب اولاد و احفاد ہیں۔ ان کے شوہروں کے نام علیٰ الترتیب یہ ہیں: حافظ و قاری حسام الدین شبول مدھوبنی، حافظ ابو نصر کھیروا مدھوبنی، مولانا صفات اللہ اتھوس مدھوبنی، عبدالعلام گڑھیا مدھوبنی اور مولانا ضیاء الدین شبول مدھوبنی۔
مولانا کے خصوصی امتیازات
مولانا کے چھوٹے صاحبزادے مولانا اسجد صاحب قاسمی کے مطابق مولانا وقت کے بہت پابند تھے۔ ملاقات کرنے والوں سے جو وقت طے ہوجاتا تھا، مولانا اس سے پہلے ہی ملاقات کے لیے تیار رہتے تھے۔ اسی طرح اگر کہیں پروگرام کے لیے وقت دیتے تھے تو انتظامیہ کی طرف سے خواہ کوئی انتظام نہ ہو، لیکن مولانا وہاں نہ پہنچنا وعدہ خلافی تصور کرتے تھے اور خود پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔
ان کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ مدرسہ کے تعلق سے حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے فکر کے امین و وارث تھے۔ خاص طور سے مالیات کے تعلق سے مالداروں پر تکیہ نہیں کرتے تھے؛ بلکہ اس کے مقابلے میں غریبوں کے تعاون کو زیادہ سراہتے تھے۔ مولانا اسجد صاحب قاسمی نے اس تعلق سے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ رانچی کے اطراف میں ایک غریب بڑھیا رہتی تھی، جو ہر سال تقریبا چار کلو چاول چندہ دیا کرتی تھی۔ وہ انتہائی غریب تھی، اس کے باوجود وہ روزانہ اپنے گھر میں پکانے والے چاول میں سے ایک مٹھی چاول نکالتی تھی اور اسے مدرسہ کے چندہ کے نام پر اکٹھا کرتی تھی۔ پھر جب سال میں ایک مرتبہ مولانا تشریف لے جاتے تھے تو وہ یہ چندہ دیا کرتی تھی۔ مولانا خصوصی طور پر اسی بوڑھی عورت کا چندہ لینے جایا کرتے تھے ارو بڑی محبت سے اسے ایک چادر میں باندھ کر لاتے اور حفاظت سے رکھتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ ایسے ہی چندوں کی برکت سے مدرسہ چلا کرتا ہے۔ مولانا کا یہ نظریہ تھا کہ جو شخص بھی دے اور جو کچھ بھی دے، اسے محبت اور شکریے کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ بڑے آدمی اور بڑی مقدار پر ہی اپنے خلوص کو مخصوص نہیں رکھنا چاہیے۔ اس سے مدرسے کی حصولیابی میں بے برکتی پیدا ہوتی ہے اور پھر مدرسے پر حالات آنے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ جیسے علاقہ میں آج بھی سب سے بڑا مدرسہ مدرسہ حسینیہ ہی ہے۔ اور اس کی بڑائی کا راز حضرت کا یہ مخلصانہ طرز عمل ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی تعزیتی نشست میں اکابرین کے تاثرات
۲۵؍ مئی ۲۰۱۷ ، بروز جمعرات جمعیۃ علماء ہند کے دفتر واقعی آئی ٹی او نئی دہلی میں حضرت والا اور دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری نور اللہ مرقدہ کے لیے ایک تعزیتی اجلاس رکھا گیا، جس میں جمعیۃ علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ نے شرکت کی۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا کی وفات دارالعلوم دیوبند اور جمعےۃ علماء ہند سمیت پوری ملت اسلامیہ کے لیے بڑا خسارہ ہے ۔ تعزیتی اجلاس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے والی شخصیات کی خصوصیات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ ہم ان سے رہ نمائی حاصل کریں۔ موجودہ دور میں ان بزرگوں کے کردار سے روشنی حاصل کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔مولانا مدنی صاحب نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مولانا ازہر صاحب کے تواضع وانکساری کی میں شہادت دیتاہوں ۔ میں مولانا ازہر ؒ کے جنازے میں شریک تھا ، وہاں بہت بڑا مجمع تھا، لوگ مٹی دینے کے لیے ظہر سے مغرب تک قبرستان آتے رہے ۔ مولانا محترم جمعےۃ علماء ہندکے نائب صدر تھے ، آج ہم سے جدا ہوگئے، جس کے لیے ہم ز یادہ تعزیت کے مستحق ہیں ۔
حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ میں مولانا ازہر صاحب رانچی کی تواضع اور للہیت سے کافی متاثر ہوں ،ان سے جب بھی گفتگو ہوتی تو سلام کے بعد پہلا لفظ ’’اللہ ‘‘کا ہوتا تھا، وہ ہمیشہ دعا دیتے ہوئے کہتے تھے کہ بھائی اللہ آپ کو خیریت سے رکھے ۔حضرت مولانا سلمان بجنوری صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مولاناازہر صاحب رانچی بہت ہی سادہ اور نیک دل انسان تھے ۔اس موقع پر مولانا مفتی راشد اعظمی صاحب دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ ان دونوں ہستیوں کے قریب قریب ہی مدت میں رخصت ہوجانے سے گہرا صدمہ پہنچا ہے ۔ انھوں نے اپنے دلی جذبات کاظہار کرتے ہوئے غالب کایہ شعر پیش کیا کہ ’’حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ مولانا متین الحق اسامہ صاحب صدر جمعیۃ علماء صوبہ اتر پردیش نے اپنے خطاب میں اپنی چند یادوں اور ان اکابر کے انداز تربیت پر روشنی ڈالی۔ رانچی سے تشریف لائے جمعۃ علماء جھارکھنڈ کے جنرل سکریٹری مفتی ابوبکر صاحب نے اپنے خطاب میں حضرت کے انداز تربیت کو بیان کرتے ہوئے ، جامعہ حسینیہ کے تعلق سے ان کی بے پناہ جدوجہد کا تذکرہ کیا اور کہاکہ جھارکھنڈ جیسے علاقے میں اتنا بڑا ادارہ قائم کرنا اور اسے بحسن و خوبی چلانا یہ حضرت ہی کی ہمت و حوصلہ کا کام تھا۔ اور آج تک وہاں اس سے بڑا کوئی اور ادارہ نہیں ہے۔اس اجلاس میں مولانا مرحوم کے صاحب زادے مولانا محمد صاحب نے بھی پرسوز خطاب کیا ۔انھوں نے اپنے خطاب میں حضرت مدنی سے تعلق کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ جب بھی بیمار ہوتے تھے ، تو دوران علاج ایک واقعہ سنایا کرتے تھے اور جب بھی وہ واقعہ سنایا کرتے تھے ، تو حضرت والا روبہ صحت ہوجاتے تھے۔ واقعہ یہ تھا کہ حضرت مدنی خواب میں آئے تھے اور میں اب اچھا ہوجاوں گا۔ لیکن اس مرتبہ کوئی ایسا واقعہ سنایا نہیں، جس کے بعد وہ دنیا سے چل بسے۔
جمعیۃ علماء ہندنے اپنے اس تعزیتی اجلاس میں ایک تعزیت نامہ بھی پیش کیا،جسے اس کے سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے پڑھ کر سنایا۔ اس کے متن وہ حصہ جو مولانا مرحوم کے تعلق سے ہے، درج ذیل ہے:
حضرت مولانا ازہر ؒ صاحب
جمعےۃ علماء ہند کا یہ اجلاس حضرت مولانا ازہر نعمانی ؒ صاحب کی جمعےۃ علماء ہندکے تئیں بے لوث خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہے ۔آپ طویل عرصے سے دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری اور جمعےۃ علما ء ہند کے نائب صدراور اس کی مجلس عاملہ کے موقر رکن رہے ۔ ۱۹۹۳ء سے مسلسل جمعےۃ علماء بہار کے صدر رہے ۔ سال ۲۰۰۹ء سے تادم واپسیں جمعےۃ علماء جھارکھنڈ کی صدار ت کی ذمہ داری نبھارہے تھے۔آپ دارالعلوم دیوبند اور جمعےۃ علماء ہند کے تحریکوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ۔آپ تقوی ، نیکی اور دیانت داری میں اسلاف کی روایتوں کے امین تھے۔دور حاضر میں وہ چند گنے چنے افراد میں سے تھے جن کو حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے خاص شاگرد اورخلیفہ مجاز ہونے کا شرف حاصل رہا ۔حضرت شیخ الاسلامؒ کے خادم خاص کی حیثیت سے ، سفر و حضر میں ساتھ رہنے کے موقع کو وہ اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے تھے۔حضرت مدنی ؒ کے وصال کے بعد فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی ؒ کی ماتحتی میں بدستور مدنی منزل دیوبند میں مکتوبات کے جوابات کی ذمہ داری نبھائی،لیکن ۱۹۵۸ء میں مدرسہ حسینہ کے قیام کے بعد رانچی منتقل ہو گئے اور وہیں بودوباش اختیار کرلی ۔
ان دونوں حضرات کے یکے بعد دیگرے چلے جانے سے یقینی طور پر ہم سب یتیمی محسوس کر رہے ہیں، لیکن رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ کو اپنے لیے صبرو سکون بناتے ہوئے ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ
اللھم ارحمھم و اغفر لھم و عافھم و اعف عنھم و اکرم نزلھم و وسع مدخلھم و اغسلھم بالماء و الثلج و البرد و نقھم من الذنوب والخطایا کماینقی الثوب الأبیض من الدنس اللھم جاذھم بالحسنات احساناً و بالسیئات عفوا و غفراناً۔

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں حضرت مولاناریاست علی ظفر بجنوری صاحب نور اللہ مرقدہ (09-03-1940- 20-05-2017) کی وفات پر ایک حکایتی تحریر

محمد یاسین جہازی
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
حضرت مولاناریاست علی ظفر بجنوری صاحب نور اللہ مرقدہ (09-03-1940- 20-05-2017) کی وفات پر ایک حکایتی تحریر
دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوری ۲۰؍ مئی ، بروز سنیچر علیٰ الصباح دیوبند میں انتقال فرماگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اکابرین کے ساتھ تعلق کی نوعیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، راقم کے لیے یہ فخر کی نسبت ہے کہ ان کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ جس کے شواہد پیش خدمت ہیں۔ 
دارالعلوم دیوبند کے طالب علم ہونے کی نسبت سے استاذ ہونے کے علاوہ حضرت مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ سے کچھ اور بھی رشتہ تھا۔ اور اس رشتہ کی روداد یہ ہے کہ جب حضرت مولانا منیر الدین صاحب گڈاوی کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں ہوا، توشروعاتی زمانے میں ان کا قیام حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کے کمرہ میں رہا۔ یہ کمرہ مسجد قدیم کے شمالی حصے سے متصل بالائی منزل پر واقع ہے۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ صرف ایک کمرہ نہیں تھا، بلکہ حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کا ذاتی کتب خانہ بھی تھا، جس میں مختلف علوم و فنون کی ہزاروں کتابیں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں۔ ایک دن ایسا ہوا کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک ساتھی طالب جناب مولوی جہاں گیر صاحب نے ۔جو مولانا کے طعام کے ذمہ دار تھے ۔ایک دن مجھ سے کہا کہ کل جمعہ کی مناسبت سے مولانا کے کمرے کی صفائی کرنی ہے، تو تھوڑا ساتھ دینا پڑے گا، اسی بہانے سے مولانا سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ چنانچہ راقم نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔ اور اگلے دن ان کے ہمراہ مولانا کے کمرے کی صفائی کا فریضہ انجام دینے چلا گیا۔ ناتجربہ کاری دیکھیے کہ صفائی کی دھلائی میں کافی کتابیں اور قدیم اخبارات زد میں آگئے۔ پھر انھیں دھوپ میں ڈالا گیا۔ جب انھیں اپنی جگہ پر رکھنے کا وقت آیا تو کافی بے ترتیبی ہوگئی۔اس پر مولانا نے کہا کہ اگر ترتیب کے مطابق رکھا جاتا تو بہتر ہوتا ، کیوں کہ مولانا نور اللہ مرقدہ نے اپنی ضرورت اور ترتیب کے مطابق انھیں رکھا تھا۔ اس پر راقم نے یہ عندیہ دیا کہ ان شاء اللہ آپ اجازت دیں، تو میں ساری کتابیں فن کے اعتبار سے مرتب کردوں؟ مولانا نے نہ صرف اجازت دی؛ بلکہ دعا دیتے ہوئے کمرے کی ایک چابھی بھی عنایت فرمادی۔ اس کے بعد ہوا ایسا کہ راقم از سر نو کتابیں ترتیب دینے لگا، جب کچھ نایاب کتابوں اور مولانا نور اللہ مرقدہ کے ذاتی مطالعے کی کتابوں پر لکھے ان کے نوٹ پر نظر پڑی، تو مولانا کی سبھی کتابوں کو پڑھنے کا ایسا شوق ہوا کہ پھر ترتیب کم اور مطالعہ زیادہ ہوتا تھا۔ مولانا کے شذرات کے مطالعے سے ان کی عظمت کا سکہ میرے دل پر بیٹھ گیا اور مولانا سے مجھے گہری عقیدت ہوگئی۔
مولانا نور اللہ مرقدہ چوں کہ علیا کے استاذ تھے ، اس لیے نیچے کے درجات میں تو نہیں؛ البتہ دورہ حدیث شریف میں ابن ماجہ شریف پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ مولانا کے درس میں جب اختلاف مذاہب پر کلام ہوتا تھا ، تو حنفیت کی حقانیت اور اس کے اقرب الیٰ النصوص ہونے کا یقین بڑھتا چلا جاتا تھا،جو مولانا مرحوم کے تبحر علمی اور مہارت حدیث کا عملی مظہر تھا۔ بعد ازاں جب دورہ حدیث سے فراغت کے بعد تکمیل ادب عربی کے شعبہ میں داخل ہوا، تو یہاں مولانا نور اللہ مرقدہ سے البلاغۃ الواضحۃ متعلق تھی۔ چنانچہ حضرت وقت کی پابندی کے ساتھ درس میں تشریف لاتے تھے اور عبارت خوانی کے بعد تشریح متن فرماتے ۔ پھر ہر سبق کے تحت دی گئی مشقوں کو حل کرنے کے لیے کہتے ہوئے شیریں دہن سے محبت و شیفتگی سے لبریز یہ جملہ ارشاد فرماتے کہ ’’ بیٹا ! جاری کرنا‘‘۔ پھر روحانی فرزند اپنی اپنی سمجھ کے مطابق قواعد کو منطبق کرنے کی کوشش کرتے۔ اگر کوئی شخص مکمل اجرا کردیتا ، تو دوسرا جملہ اس کے لیے یہ فرماتے کہ ’’شاباش بیٹا!‘‘ پھر کسی دوسرے طالب کی علم کی طرف نظر دوڑاتے۔ پھر اسے کہتے’’ بیٹا ! اب آپ جاری کرنا‘‘۔ پھر وہ اپنی سمجھ کے مطابق کرتا۔ اگر کوئی طالب علم قواعد کا اجرا نہیں کرپاتا، تو ناراض نہیں ہوتے تھے؛ بلکہ جزوی سہارا دیتے۔ اور اس طرح سے اجرا مکمل کرادیتے۔ جب اجرا مکمل ہوجاتا ،تو ہرچند کہ اس میں زیادہ اجرا مولانا نور اللہ مرقدہ ہی کی طرف سے ہوتا تھا، اس کے باوجود ، اس کو شاباشی دیتے اور کہتے ’’ شاباش بیٹا!‘‘۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ایک ہی طالب علم سے ایک ہی اجرا کو کئی کئی مرتبہ کہلواتے اور اس کے باوجود وہ نہیں کرپاتا، تو ناراض بالکل نہیں ہوتے تھے، بلکہ یہ فرماتے کہ سمجھ میں تو آہی گیا ہے، بس تھوڑا اور زور لگانے کی ضرورت ہے۔ مولانا کا یہ انداز درس اتنا موثر تھا کہ غبی سے غبی طالب علم بھی فن سے روشناس ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ 
مولانا کی سادگی اور تواضع تو گویا ضرب المثل تھی،اس سلسلے کے دو واقعے ، جن کو راقم نے بذات خود دیکھاہے ، پیش کرتا ہوں۔
ہمارے زمانے میں تکمیل ادب کا جو شعبہ تھا،وہاں اساتذہ کرام کی چپل رکھنے کی ایک مخصوص جگہ تھی۔ اور اساتذہ عموما اپنے جوتے یا چپل وہیں اتارتے تھے۔ لیکن مولانا نور اللہ مرقدہ عموما وہاں نہیں اتارتے تھے ، بلکہ اس کے نیچے اتارتے تھے ، جہاں سبھی طالب علموں کے جوتے چپل ہوتے تھے۔ مولانا نور اللہ مرقدہ عموما ہوائی چپل پہن کر آتے تھے ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ حسب معمول حضرت نے اپنی ہوائی چپل نیچے اتاری۔ ایک طالب علم آیا۔ اس نے دیکھا کہ جہاں پر اساتذہ کی چپلیں رہتی ہیں، وہ جگہ خالی ہے اور مولانا مرحوم تشریف فرما ہیں، تو اس نے نیچے سے ایک قیمتی اور خوبصورت چپل اٹھاکراوپر رکھ دیا ، جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اتنی قیمتی اور نمایاں چپل تو مولانا ہی کی ہوگی۔ جب درس سے فراغت کے بعد واپس ہونے لگے تو مولانا نے اوپر ایک قیمتی چپل دیکھا ، تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میری چپل کہاں ہے بھائی؟ یہ چپل تو اتنی قیمتی ہے کہ میرے لیے ہدیہ بھی موزوں شخص کے لیے نہیں ہوگا۔ یہ سن کر چپل والے طالب علم نے کہا کہ حضرت اسے قبول فرمالیں ، تو حضرت نے جواب دیا کہ بھائی جوانی میں کبھی ایسی قیمتی چیز پہننے کا شوق نہیں ہوا، تو اب بڑھاپے میں اس کی کہاں گنجائش ہے۔پھر فرمایا کہ جس طالب علم نے میری چپل سمجھ کر اس چپل کو یہاں رکھا ہے، وہ اگر میرے کرتے کو دیکھ لیتے تو انھیں غلط فہمی نہیں ہوتی۔ پھر نیچے اپنی چپل دیکھ کر حضرت نے خود ہی اٹھائی اور اسے پہن کر درس گاہ سے روانہ ہوگئے۔
جمعیۃ علماء ہند کے شعبہ مباحث فقہیہ سے وابستگی کی نسبت سے ایک دن حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں دیوبند حاضر ہوا۔ شعبہ کا کام یہ تھا کہ اکابرین محترم حالات کے مطابق کوئی موضوع تجویز فرمائیں گے، جس پر جمعیۃ سیمینار کرے گی۔ اس تعلق سے دیگر اساتذۂ دارالعلوم کے ساتھ حضرت نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں بھی حاضر ی ہوئی۔ عصر کے بعد مولانا مرحوم کے مکان پراساتذہ دارالعلوم کی پر رونق محفل سجی ہوئی تھی ۔ اساتذہ حضرت مولانا سے گفتگو میں مصروف تھے کہ موقع پر ناچیز نے بھی اپنی بات رکھی ۔ اور ساتھ میں شعبہ کی طرف سے جاری خط کو بھی حضرت والا کی خدمت میں پیش کیا۔ خط پڑھ کر حضرت نے حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ ساتھ اپنا پورا تعاون دینے کا وعدہ کیا ۔ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ جب یہ ایک مستقل کام تھا، تو حضرت سے پہلے ملاقات کا وقت لے لینا چاہیے تھا، لیکن پیشگی کسی اطلاع کے بغیر حضرت کے پاس گیا، تو نہ ناگواری کا اظہار فرمایا اور نہ ہی عدم تعاون کا عذر پیش کیا ؛ بلکہ تعاون اور دعا دونوں سے نوازا۔ اسے حضرت نور اللہ مرقدہ کے تواضع کے علاوہ کیا عنوان دیا جاسکتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے تعلق سے حضرت دفتر تشریف لایا کرتے تھے، تو گاہے بگاہے نیازی کا شرف حاصل ہوتا رہتا تھا۔ اور ہر مرتبہ خلوص و للہیت سے لبریز دعاوں سے نوازتے تھے۔ آج جبکہ حضرت کی ذات ہمارے درمیان نہیں ہے، تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دعاوں کے تعلق سے بھی کتنا خلا پیدا گیا ہے۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ واٹس ایپ دیکھ رہا تھا کہ داما دم پیغامات آنے لگے ، اور تقریبا ہر پیغام یہی خبر دے رہا تھا کہ حضرت نور اللہ مرقدہ اس دار فانی سے رحمت الٰہی کی آغوش میں چلے گئے، انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ پہلے یقیناًسا نہیں آیا، لیکن خبر کے تواتر نے یقین کرنے پر مجبور کیا اور شکستہ خاطر کے ساتھ ہمیں پڑھنا پڑا کہ بیشک ہم سب اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کے پاس لوٹ کر جائیں گے۔
کچھ لمحے بعد دفتر جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں سے ایک وفد جنازے میں شرکت کے لیے جائے گا، جس میں مولانا معز الدین صاحب ، مولانا محمد یوسف صاحب ، مولانا محمد عرفان صاحب ، مولانا کلیم الدین صاحب اور ناچیز کا نام شامل کیا گیا۔پھر یہ وفد دیوبند کے لیے روانہ ہوگیا۔ اور تقریبا ڈیڑھ بجے دارالعلوم پہنچا ۔ مسجد قدیم میں ظہر کی نماز کے بعد علیٰ الفور احاطہ مولسری میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے امامت کی۔بعد ازاں جنازہ قبرستان قاسمی میں لایا گیا اور اس عظیم ہستی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔ 
جمعیۃ علماء ہند کی تعزیتی نشست میں اکابرین کے تاثرات
۲۵؍ مئی ۲۰۱۷ ، بروز جمعرات جمعیۃ علماء ہند کے دفتر واقعی آئی ٹی او نئی دہلی میں مولانا محترم اور مولانا ازہر صاحب رنچوی کے لیے ایک تعزیتی اجلاس رکھا گیا، جس میں جمعیۃ علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ نے شرکت کی۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں شخصیات کی وفات دارالعلوم دیوبند اور جمعےۃ علماء ہند سمیت پوری ملت اسلامیہ کے لیے بڑا خسارہ ہے ۔ تعزیتی اجلاس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے والی شخصیات کی خصوصیات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ ہم ان سے رہ نمائی حاصل کریں۔ موجودہ دور میں ان بزرگوں کے کردار سے روشنی حاصل کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔حضرت مولانا ریاست علی صاحب ایک مخلص مشیر اور سادگی کے پیکرتھے ۔مجھے یاد ہے کہ۲۰۱۳ء میں امن عالم کانفرنس دیوبند میں منعقد ہوئی۔مولانا ریاست علیؒ صاحب نے بہت ہی جامع بات کہی کہ ’’ اسلام مذہب امن واعتدال ہے اور دیوبندیت مسلک امن و اعتدال ہے ‘‘،یہ جملہ بہت چھوٹا ہے لیکن کافی جامع ہے۔مولانا مدنی صاحب نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مولانا ریاست علی کے تواضع وانکساری کی میں شہادت دیتاہوں ۔ مولانا نور اللہ مرقدہ جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر تھے، اس لیے تعزیت کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔
حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مولانا ریاست علیؒ سادہ طبع اور مستحکم رائے والے انسان تھے ۔ ان کی تالیف ایضاح البخاری ایسا گراں قدر کارنامہ ہے کہ اگر کوئی اور چیز نہ ہوتی، تو صر ف یہ کتاب ان کی عظمت ظاہرکرنے کے لیے کافی تھی ۔انھوں نے کہا کہ مختلف مجلسوں میں ان سے گفتگو کا موقع ملا ،میں نے کبھی ان کو زود رائے اور پژمردہ نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ آخر میں رائے دیتے تھے اور مسکراتے رہتے۔ حضرت مولانا سلمان بجنوری صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مولانا ریاست علی ؒ ورع اور تقوی کے انسان تھے ،تواضع کا یہ عالم تھا کہ ان کو اگر اعزاز دیا جاتا تو دلی تکلیف ہو تی تھی ، وہ ہمیشہ عہدوں اور مسندوں سے گریز کرتے تاہم وہ اعلی درجہ کے خود اعتماد تھے۔ مولانا سلمان بجنوری صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے صاحبزادے نے عید کے موقع پر کپڑا کے لیے رقم مانگی ، مگر ان کے پاس نہیں تھی ۔ اگلے دن چند لفافوں میں رقم ڈال رہے تھے ، اسی لڑکے نے دیکھ لیا ، حضرت نے بلایا او رکہا بیٹے تم سے کیا چھپا نا یہ رقم ضرورت مند بیواؤں اور یتیموں کے لیے ہے ، جسے ہرسال عید کے موقع پر دیتا ہوں ، اس بار اپنے پاس نہیں تھی تو بیس ہزار قرض لے کر ان کو دے رہا ہوں ۔مولانا قاری شوکت علی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مولانا ریاست علی صاحب کی شخصیت ہشت پہلو تھی ۔ وہ شخصیت ساز ، خرد نواز اور نفع رساں انسان تھے ، ایضاح البخاری ان کے فکر کی پختگی کا خارجی ثبوت ہے ۔اس موقع پر مولانا مفتی راشد اعظمی صاحب دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ ان دونوں ہستیوں کے قریب قریب ہی مدت میں رخصت ہوجانے سے گہرا صدمہ پہنچا ہے ۔ انھوں نے اپنے دلی جذبات کاظہار کرتے ہوئے غالب کایہ شعر پیش کیا کہ ’’حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ مولانا متین الحق اسامہ صاحب صدر جمعیۃ علماء صوبہ اتر پردیش نے اپنے خطاب میں اپنی چند یادوں اور ان اکابر کے انداز تربیت پر روشنی ڈالی۔ اس اجلاس میں مولانا مرحوم کے صاحب زادے مولانا عدنان صاحب نے بھی خطاب کیا اور اپنے والد محترم کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا۔جمعیۃ علماء ہندنے اپنے اس تعزیتی اجلاس میں ایک تعزیت نامہ بھی پیش کیا،جسے اس کے سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے پڑھ کر سنایا۔ اس کے متن کا وہ حصہ جو حضرت مولانا سے متعلق پیش خدمت ہے۔
حضرت مولانا ریاست علی ظفر ؒ صاحب بجنوری
حضرت مولانا ریاست علی ؒ کو اللہ تعالی نے گرا ں قدر علم وفضل کی دولت سے نوازا تھا، علمی بصیرت ، فکر رسا، تعمق نظر، ادبی ذوق، تحقیق و تفتیش کا وہ شوق عطا فرمایا تھا ، جس نے آپ کو یکتائے روزگار بنادیا ۔معاملہ فہمی اور رسائی فکر کا وہ جوہر آپ کو میسر ہوا تھا جو ہر پیچیدہ معاملے کی گتھی کو آسانی سے سلجھا دیتا ہے۔حضرت والانے ۱۹۷۲ء سے تام واپسیں پینتالیس سالوں تک دارالعلوم دیوبند میں استاذحدیث کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی ۔اس طویل مدت تک در س وتدریس میں ہزارہا تشنگان علوم آپ کے سرچشمہ فیض سے بلاواسطہ فیضیاب ہوئے ۔آ پ جیسے کریم النفس، مشفق استاذ اور رفیق عمل کا سایہ بڑی سعادت اوران کی وفات بڑی محرومی اور عظیم نقصان ہے ۔ آپ علم حدیث و فقہ کے بڑے عالم کے ساتھ اردو زبان وادب کے بہترین قلم کار وادیب بھی تھے۔آپ کی شاعری کا مجموعہ’’ نغمہ سحر‘‘ ایک عمدہ کاوش ہے ، اس کے علاوہ ’’ایضاح البخاری‘‘ ’’ شوری کی شرعی حیثیت ‘‘ سے فیضان علوم دہائیوں سے فیض حاصل کررہے ہیں۔ آپ کا لکھا ہو ا دارالعلوم کا ترانہ نہایت جامع و مقبول ہے ، اس میں دارالعلوم کی خصوصیا ت ، مقصد تاسیس ، تاریخی واقعات کو بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ آپ نے جمعےۃ علما ء ہند پر بھی بہترین ترانہ لکھا ہے۔
جمعےۃ علماء ہند، آپ کی محبوب جماعت رہی ۔شروع میں جمعےۃ علماء ہند کے دفتر سے وابستہ رہے ، پھر بعد میں دارالعلوم دیوبند چلے گئے ، لیکن اس کے باوجود جمعےۃ سے آپ کا تعلق قائم رہا ۔ آپ سال۲۰۱۱ء سے جمعےۃ علماء ہند کے مسلسل نائب صدر منتخب ہو تے رہے۔جمعےۃ علماء ہند نے آپ کی رہ نمائی اور سرپرستی سے ہر موقع پر روشنی حاصل کی اور آپ کے مدبرانہ مشوروں پر عمل کرکے وقار وعظمت اور قومی اعتماد کا بلند مقام حاصل کیا ۔
جمعےۃ علماء ہند کا یہ اجلاس آپ کی علمی ودینی و ملی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ، وفات پر ملال کو موت العالم موت العالم کی صحیح تصویر قراریتا ہے اور آپ کے تمام متوسلین اور پسماندگان سے دلی ہمدردری کا اظہار کرتا ہے۔ہم سب دست بدعا ہیں کہ ا للہ تعالی آپ کو اپنی مرضیات سے نوازے اور روح پرفلاح کو جنت الفردوس میں قیام اعلی عطا فرمائے اور انبیاء و صادقین کا رفیق بنائے ( آمین )
ان دونوں حضرات کے یکے بعد دیگرے چلے جانے سے یقینی طور پر ہم سب یتیمی محسوس کر رہے ہیں، لیکن رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ کو اپنے لیے صبرو سکون بناتے ہوئے ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ
اللھم ارحمھم و اغفر لھم و عافھم و اعف عنھم و اکرم نزلھم و وسع مدخلھم و اغسلھم بالماء و الثلج و البرد و نقھم من الذنوب والخطایا کماینقی الثوب الأبیض من الدنس اللھم جاذھم بالحسنات احساناً و بالسیئات عفوا و غفراناً۔


تثلیث حیات

تثلیث حیات
(4جنوری 2016 یعنی یوم پیدائش یاسیمین بنت محمد یاسین قاسمی کے لیے ایک خصوصی تحریر)
4 جنوری 2016 کی تاریخ تھی اور رات کے 11 بج کر 35 منٹ ہوئے تھے۔ ہلکی ہلکی سرد و خنک کی نشاط آمیز فضا چاروں طرف چھائی ہوئی تھی کہ یکایک کلکاریوں کی چہکار میرے کانوں میں رس گھولنے لگی۔اس نوید مسرت سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پوری کائنات خوشی سے جھوم جھوم رہی ہے۔ شروع میں آنکھوں پر یقین نہیں آیا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس مژدہ جاں فزا کا رفلیکشن تھا، جو میرے وجود کے ساتھ ساتھ میری روح کو بھی کیف و سرور میں مدمست و مدہوش کررہا تھا۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اپنی ایک عظیم نعمت سے نوازا تھا۔ یہ ننھی اور معصوم پری اپنی آمدسے قبل ہی طے شدہ نام کے مطابق یاسمین موسوم ہوئی۔ ہم کسی کی پیدائش پرعید منانے کے قائل نہیں ہیں، اس کے باجود خوشی و شادمانی کا جو احساس ہورہا ہے، اس میں آپ کو بھی شرکت کی دعوت دیتے ہوئے پرویز شاہدی کی نظم تثلیث حیات کے چند منتخب بند اس نئے مہمان کے ایک سال پورے ہونے پر اس کی نذر کرتے ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کی پرورش و پرداخت میں ہمیں کمی و کوتاہی سے محفوظ رکھے اور دین کی داعیہ کا کردار ادا کرنے والی بنے۔ اللھم آمین یا رب العالمین۔
(1)
انگلیاں میری ہیں، لب میرے ہیں، آنکھیں میری
میری پیشانی کا ٹکڑا تری پیشانی ہے
ننھی ننھی یہ بھنویں تیری ہیں یا میری ہیں
تیری رگ رگ میں مرے خون کی جولانی ہے
دست و پا میں جو یہ کیفیت سیمابی ہے
میری ہی روح کی بکھری بیتابی ہے
(02)
تجھ کو اپنے ہی خدوخال تری ماں نے دیے
اپنا شاداب چمکتا ہوا چہرہ بخشا
خلوت بطن میں ہر طرح سنوارا تجھ کو 
پیکر حال کو خون رگ فردا بخشا
تجھ کو بخشی ہے تری ماں نے لطافت اپنی
دیکھتی ہے ترے آئینے میں صورت اپنی
(03)
گرہ رشتہ پیمان وفا تیرا وجود
تجھ سے مضبوط ہوا عہد محبت اپنا
ہاتھ میں ہے مرے دل کے دلِ محبوب کا ہاتھ
کتنا بشاش ہے احساس رفاقت اپنا
خستگی شوق کی اب تازہ دمی تک پہنچی
راحتِ ہم سفری ہم قدمی تک پہنچی
(04)
ماں نے موسم کے بدلتے تیور بھانپے
انگلیوں نے مری، کیں نبضِ ہوا سے باتیں
ایک لمحہ بھی نہ چپکے سے گزرنے پایا
دن تو دن آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹی ہیں راتیں
آج کی طرح تمنا کبھی بیدار نہ تھی
اتنی دلچسپ تو کل وقت کی رفتار نہ تھی
(05)
گرچہ ہے سخت بہت معرک? نشو و نما
مامتا صرف سپر ہی نہیں، تلوار بھی ہے 
میری شفقت بھی تری جہد بقا میں ہے شریک
دل جری ہی نہیں، کچھ واقف پیکار بھی ہے
ذہن میں سلسل? شام و سحر رہتا ہے
تیرا اندازِ سفر پیش نظر رہتا ہے
(06)
یہ تضاداتِ مسلسل، یہ ستیزِ پیہم
یہ تصادم، یہ ہم آویزی اضداد حیات
ساز سے یہ رم آواز، یہ ربط آواز
زندگی کا یہ تسلسل، یہ تغیر، یہ ثبات
روح تخلیق خفی کو بھی جلی کرتی ہے
ہے یہ ثابت کہ نفی اپنی نفی کرتی ہے
(07)
نفی و اثبات کے تاروں کا مسلسل ٹکراؤ
زندگی کی جدلی زمزمہ پروازی ہے
کائنات اتنی خوش آہنگ جو آتی ہے نظر
عمل و رد عمل ہی کی نوا سازی ہے
حسن معنی ہے یہی، جلو? صورت ہے یہی
نغمہ ہی نغمہ ہے، ہر شئی کی حقیقت ہے یہی
(08)
حسن اور عشق کا یہ جذب? خود افزائی ہی 
اک نئے پیکرِ معصوم میں ڈھل جاتا ہے
اسی پیکر سے ابھرتا ہوا نقشِ تثلیث
اپنی وسعت میں جہاں ساز نظر آتا ہے
محفل حسن و محبت اسی تثلیث میں ہے
جلوہ گر شاہدِ فطرت اسی تثلیث میں ہے
(09)
کتنی دلکش ہے خوش امکانی تثلیث حیات
اس کی فطرت ہے خود افراز و خود آرا ہونا
وسعت جلوہ سے ہے حسن کی تکمیلِ شباب
قسمتِ ذرہ ہے آئین? صحرا ہونا
زندگی مست و غزل خواں ہے خود آرائی ہے
ہر کلی جانِ گلستاں ہے خود آرائی ہے
(10)
باپ، ماں، بچے کی فطری سہ رخی وحدت سے
کنبے انسانوں کی تثلیث کی صورت پھیلے
کثرت آرائی فطرت کا یہی مقصد ہے
حسن دنیا میں پھلے پھولے، محبت پھیلے
اور ابھی روشنی مہر مبیں پھیلے گی
گود میں لے کے ستاروں کو زمیں پھیلے گی
(11)
تیری معصوم صدا سے مترنم ہے شعور
علم و حکمت کو بھی موسیقی جذبات ملی
دھڑکنیں دل کی خوش آوازی افکار بنیں
ذہن کو بربط احساس کی سوغات ملی
سازِ ادراک میں نغموں کا تلاطم ہے آج
عقلِ بے لحن ترنم ہی ترنم ہے آج
(12)
سرو قد مجھ کو نظر آتے ہیں ننھے پودے
بڑھ رہا ہے مرا دل بھی ترے قامت کے ساتھ
سامنے آنکھوں کے رہتے ہیں کروڑوں نغمے
جیسے ہر پھول کھلے گا تری صورت کے ساتھ
تجھ سے اے جانِ پدر! میں نے نظر پائی ہے
ساری دنیا مرے پہلو میں سمٹ آئی ہے
(13)
تیری سانسوں سے پگھل کر مرے اعصاب کا موم
سختی آہن و فولاد کو شرماتا ہے
جب ترے ننھے سے پیکر کو اٹھالیتا ہوں
بار آلام سبک مجھ کو نظر آتا ہے
ہے کھلونا غمِ دنیا، مجھے معلوم نہ تھا
میرے بازو ہیں توانا، مجھے معلوم نہ تھا
(14)
رخِ امروز پہ کیوں ہو غم فردا کا غبار
حال کو میرے مبارک ترا ماضی ہونا
نیستی میرے تصور میں نہیں آسکتی
تری ہستی کو ہے بڑھ کر مری ہستی ہونا
تو مری روح، مرا جسم، مرا دل ہے
تیرے چہرے سے درخشاں مرا مستقبل ہے
(15)
ائے مرے پیکرِ نو! ائے مری روحِ پیکار!
پرچم عزم مرا اب تجھے لہرانا ہے
میری آواز نہیں میرے لبوں تک محدود
تیرے ہی ہونٹوں سے کل مجھ کو رجز گانا ہے
ہے تری جہدِ نمو جنگِ مسلسل میری
تیری تکمیل میں ہے فتح مکمل میری
آئیے دعا کریں کہ اللہ ہر ایک والدین کے لعل کو لمبی عمر عطا فرمائے، آمین۔

ہندستانیوں کے درمیان امن و ایکتاپیدا کرنے کا مدنی فارمولہ

محمد یاسین جہازی قاسمی ، مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علمائے ہند

ہندستانیوں کے درمیان امن و ایکتاپیدا کرنے کا مدنی فارمولہ
مضمون نگار کا عندیہ ے کہ ہندستان جیسے کثیر مذہبی و تہذیبی ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے دینی، سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کا واحد طریقہ نبوی و مدنی فارمولہ میں مضمر ہے۔ اور جمعیۃ علماء ہند کا امن و ایکتا سمیلن اسی فارمولہ کی تجدید کا اعلان عام ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کفار قریش کی مسلسل سازش اور ظلم و ستم کے بعد نبی اکرم ﷺ کو مدینہ ہجرت کا حکم الٰہی ملا، تو مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ یا صحابہ کرام یا پھر مذہب اسلام محفوظ نہیں ہوگیا تھا؛ بلکہ مکہ کے مقابلے میں یہاں تین گنے خطرات بڑھ گئے تھے۔ ایک طرف یہودی تھے، تو دوسری طرف مدینہ کے ارد گرد آباد دوسرے قبائل۔ اور تیسری طرف خود مکہ کے لوگ۔ یہ سب مسلمانوں کے لیے مشکلات کھڑی کر رہے تھے۔ غور سے دیکھیے تو آج ہندستان میں مسلمانوں کے سامنے حالات کا نقشہ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ایک طرف غیر مسلم برادری کے کچھ شرپسند عناصر کی ریشہ دوانیاں ہیں، تو دوسری طرف مسلکی تشدد و تفرقہ بازی۔ اور تیسری طرف کچھ مسلمانوں کا اپنے ہی معاملات و مسائل کے تئیں منافقانہ کردار۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے دینی اور سیاسی مسائل کے حل اور سماج کی کثرت میں وحدت کا رنگ پیدا کرنے کا صرف اور صرف وہی ایک طریقہ ہے،جو آج سے چودہ سو سال قبل سرورکائنات نبی اکرم ﷺ نے ایجاد فرمایا تھا، جسے میثاق مدینہ کہاجاتا ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالاں کہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جب کہ میگنا کارٹا 600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔ بہر کیف آئیے دیکھتے ہیں کہ ہندستان کے موجودہ حالات کیا ہیں اور میثاق مدینہ کی کونسی کونسی دفعات ہماری رہ نمائی کے لیے مکمل فریضہ ادا کرتی ہیں۔
ہندستان کے مذاہب کی بات کریں، تو یہ دنیا کا منفرد ملک ہے جہاں لاتعداد مذاہب پائے جاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب کے اپنے طریقے اور رواجات ہیں، جو قطعی طور پر ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور کہیں کہیں ہم آہنگ بھی، اس لیے بعض مواقع پر ہم آہنگی کے پہلو سے اتحاد و ایکتا کی فضا قائم کی جاسکتی ہے، لیکن اختلافی پہلو بھی ہونے کی وجہ سے اختلاف و عداوت کا پیدا ہوجانا بعید از امکان نہیں ہے۔ امن و اتحاد کو پارہ کرنے والی ایک وجہ تو یہی تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب سیاست مفادات کا چولا اوڑھ لیتی ہے، اور حصول مقصد کے لیے اخلاق کی آخری گراوٹ تک گرجانا معیوب سمجھنا صرف ایک شریف والوں بات بن کر رہ جاتی ہے، تو ایک سماج میں بسنے والے مختلف مذہب و کلچر کے لوگ ایک دوسرے کے لیے مشکوک ہوجاتے ہیں، جس سے امن و ایکتا کا دامن تار تار ہونے لگتا ہے۔ ایسے پرفتن حالات میں بعض لوگوں کا منافقانہ کردار اور ایک دوسرے کے خلاف سازشی ذہن آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتا ہے، جس کے نتیجے میں فسادات کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔ انسانیت چیخ اٹھتی ہے اور جان و مال تباہ و برباد ہوتا چلا جاتا ہے۔
اگر کہیں پر امن و ایکتا کی فضا مسموم ہوتی ہے، تو بالعموم اس کی یہی درج بالا دو وجہیں ہوتی ہیں۔ آج دنیا امن و ایکتا قائم کرنے کے لیے بڑے بڑے منشور ترتیب دے رہی ہے، لمبے چوڑے منصوبے بنارہی ہے، لیکن نتیجہ دیکھا جائے تو، صفر سے آگے کچھ نہیں نکلتا، حالاں کہ اسلام نے اس کا بہترین طریقہ آج سے صدیوں پہلے بتا دیا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی صداقت و حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی بالا دستی کو قبول کیا جائے اور اس کے طریقے کو اپنانے میں تعصب سے کام نہ لیا جائے۔ 
امن کی فضا مکدر ہونے کی پہلی وجہ کے تعلق سے میثاق مدینہ کا یہ فارمولہ ہے کہ ایک کثیر تہذیبی و مذہبی ملک میں ہر ایک شخص کو مکمل طور پر مذہب کی آزادی حاصل رہے، کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے مذہب پر نہ اعتراض کرے اور نہ اس میں عیب جوئی کرکے لڑائی کی ذہنیت کو فروغ دے۔ چنانچہ اس تعلق سے دفعہ 25 میں ہے کہ ''۔ یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہے خواہ وہ موالی ہوں یا اصل''۔ 
اس سے پہلے کی دفعا ت میں ریاست مدینہ میں آباد یہودیوں کے دیگر قبائل، بشمول بنی نجار، بنی الحارث، بنی ساعدہ، بنی جشم، بنی الاوس، بنی ثعلبہ، بنی شطیبہ کا فرداً فرداً تذکرہ کیا گیا ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ خواہ وہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ ہو، انھیں مذہبی آزادی کا آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔صرف اتنا ہی نہیں؛ بلکہ یہ اصل قبیلے اگر کسی دوسرے کو اپنا دوست اور موالی بناتے ہیں، تو مذہبی آزادی کا یہ قانونی تحفظ اس کو بھی حاصل ہوگا۔ اگر میثاق مدینہ کے اس فلسفہ پر عمل کر لیا جائے تو بالیقین یہ کہاجاسکتا ہے کہ ہندستان میں کبھی بھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوں گے۔ 
امن کی فضا مکدر ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب سیاست اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اپنے بنیادی مقصد خدمت سے غافل ہوکر محض مفادات کی غلام ہوجاتی ہے، تو اس میں چنگیزیت کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ پھر اس کا پورا زور اسی پر صرف ہوتا ہے کہ کس طرح تفرقہ ڈالیں اور اپنا الو سیدھا کرتے رہیں۔ اس میں اسے نہ اخلاق کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ انسانیت کی۔ اس کے سامنے محض مفادات ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک جیسی شکل و صورت والا انسان اپنے ہی نوع انسان کا دشمن و قاتل بن جاتا ہے اور خشکی و تری میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔
ایسے حالات میں دنیا کے بڑے بڑے روشن خیالوں کا ماننا ہے کہ اس کا حل یہ ہے کہ قومیت کا تصور مذہب سے وابستہ ہے، لہذا اتحاد و اتفاق کے لیے ضروری ہے کہ پورے ملک کا مذہب ایک ہو، تاکہ مذہب کو گندی سیاست کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے اور ملک کا امن و امان برقرار رہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ نظریہ کسی بھی طرح سے کامیاب نہیں ہوا، جس کی مثال موجودہ پاکستان کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں، کہ جو ملک خالص مذہب کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور جسے سلطنت خداداد کہا جاتا ہے، آج وہاں امن و امان کی کیا صورت حال ہے۔ ایک ہی مذہب اور مسلک کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ جو لوگ ہندستان میں ایک خاص نظریے کو پورے ملک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہندستان امن کا راشٹر بن جائے گا، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ایسے لوگوں کو پاکستان سے سبق لینا چاہیے۔ 
ہندستان کے موجودہ حالات میں امن قائم کرنے کا وہی طریقہ سب سے کارگر ہوگا، جو سرورکائنات ﷺ آج سے چودہ سو سال قبل ہمیں عملی طور پر سکھلا گئے تھے کہ وطنیت کا تصور مذہب پر نہیں؛ بلکہ قومیت پر مبنی ہونا چاہیے اور قومیں وطن سے تشکیل پاتی ہیں، اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے، چنانچہ دفعہ 2 میں صراحت موجود ہے کہ '' تمام (دنیا کے دیگر) لوگوں کے بالمقابل ان(اہل مدینہ: یہود، انصار، مہاجرین و دیگر قبائل) کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (قومیت) ہوگی''۔
یہ دفعہ مختلف مذاہب کے بیچ سیاسی وحدت کا دائرہ کار متعین کرتی ہے اور مذہب کے بجائے جغرافیائی حدود میں منقسم قومیت پر سیاسی وحدت کی نیو رکھتی ہے۔آج ہندستان میں اگر وحدت کی بنیاد اسی دفعہ کو قرار دیا جائے، تو ناچیز کا عندیہ ہے کہ پورا ہندستان پھر سے امن کا گہوارہ اور ایکتا کا گلدستہ بن جائے گا۔
جمعیۃ علماء ہند جو ہندستان میں سرمایہ ملت کی نگہبان اور محافظ ہے۔ یہ امن اور ایکتا دونوں کے قیام کے لیے روز اول سے مدنی و مکی فارمولہ کی ترجمانی کرتی رہی ہے اور آج بھی اس کا نظریہ یہی ہے کہ امن و ایکتا کا قیام تبھی ممکن ہے کہ جب کہ ہندستان میں ہر شخص ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرے۔ دین و تشخص کی بات آئے تو سب لوگ اپنے اپنے طریقے کو اختیار کرلے اور ایک دوسرے کے لیے تکلیف یا رکاوٹ کا سبب نہ بنے۔ اور قوم و ملت کے مشترکہ مسائل میں اجتماعی مفادات کو ترجیح دے، تاکہ سیاست میں گندی و مفادی ذہنیت کو فروغ نہ مل سکے۔ اور جو لوگ مذہب یا سیاست کا سہارا لے کر مشترکہ کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، اس کے کردار پر منافقانہ روش اختیار کرنے کا جرم عائد کرکے ہر طرح کا بائکاٹ کر کے بالکل الگ تھلگ ڈال دے۔ 
جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام 29 / اکتوبر 2017 کو دہلی میں ہونے ہونے والے امن و ایکتا سمیلن اسی میثاق مدینہ کی تجدید کا اعلان ہے۔ اور قوی امید ہے کہ یہ سمیلن اپنے مقاصد میں پورے طور پر کامیاب ہوگا اور ان شاء اللہ ہندستان میں امن و ایکتا کی ایک لہر دوڑ جائے گی۔
ذیل میں میثاق مدینہ کا پورا متن دیا جارہا ہے تاکہ شائقین اس سے پورا پورا فائدہ اٹھاسکیں۔

سم اﷲ الرحمن الرحیم
هذا کتاب من محمد النبي رسول الله بين المؤمنين و المسلمين من قريش و أهل يثرب، و من تبعهم فلحق بهم و جاهد معهم. 
أنهم امة واحدة من دون الناس. [ صفحه 102] 
المهاجرون من قريش علي ربعتهم ، يتعاقلون بينهم و هم يفدون عانيهم بالمعروف، و القسط بين المؤمنين.
 و بنوعوف علي ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين. 
و بنوالحارث من الخزرج علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوساعدةعلي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنو جشم علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوالنجار علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوعمرو بن عوف علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوالنبيت علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و لک طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
 و بنوالأوس علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين. [ صفحه 103]
 و ان المؤمنين لايترکون مفرحا  بينهم أن يعطوه بالمعروف في فداء أو عقل و ان لايحالف مؤمن مولي مؤمن دونه.
 و ان المؤمنين المتقين ايديهم علي من بغي منهم أو ابتغي دسيعة  ظلم او اثما او عدوانا أو فسادا بين المؤمنين، و أن أيديهم عليه جميعا و لو کان ولد أحدهم.
 و لايقتل مؤمن مؤمنا في کافر و لاينصر کافرا علي مؤمن.
 و ان ذمة الله واحدة يجير عليهم أدناهم، و ان المؤمنين بعضهم موالي بعض دون الناس.
 و ان من تبعنا من يهود فان له النصر و الاسوة غير مظلومين و لامتناصرين عليهم.
 و ان سلم المؤمنين واحدة، لايسالم مؤمن دون مؤمن في قتال في سبيل الله الا علي سواء و عدل بينهم. 
 وان کل غازية غزت معنا يعقب بعضها بعضا.
 وان المؤمنين يبي‏ء بعضهم علي بعض بما نال دماءهم في سبيل الله تعالي. 
 و ان المؤمنين المتقين علي أحسن هدي وأقومه.. و انه لايجير مشرک مالا لقريش و لا نفسا و لايحول دونه علي مؤمن.
 و انه من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة فانه قود به الا أن يرضي ولي المقتول بالعقل، و ان المؤمنين عليه کافة، و لايحل لهم الا قيام عليه.
 و انه لايحل لمؤمن أقر بما في هذه الصحيفة، و آمن بالله و اليوم الآخر أن‏ [صفحه 104] ينصر محدثا.و يؤويه، و انه من نصره أو آواه فان عليه لعنة الله و غضبه يوم القيامة، و لايؤخذ منه صرف و لا عدل.
 و انکم مهما اختلفتم فيه من شي‏ء فان مرده الي الله عزوجل و الي محمد صلي الله عليه و آله و سلم.
 و ان اليهود ينفقون مع المؤمنين ماداموا محاربين.
 و ان يهود بني‏عوف امة مع المؤمنين، لليهود دينهم، و للمسلمين دينهم و مواليهم و أنفسهم الا من ظلم أو أثم فانه لايوتغ الا نفسه وأهل بيته.
 و ان ليهود بني‏النجار مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏الحارث مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏ساعدة مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏جشم مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏الاوس مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏ثعلبة ملث ما ليهود بني‏عوف الا من ظلم و أثم فانه لايوتغ الا نفسه و أهل بيته.
 و ان جفنة بطن من ثعلبة کأنفسهم.
 و ان لبني‏الشطيبة مثل ما ليهود بني‏عوف و أن البر دون الاثم.
  و ان موالي ثعلبة کأنفسهم  .
  و ان بطانة اليهود کأنفسهم. [ صفحه 105] 
و انه لايخرج أحد الا باذن محمد صلي الله عليه و آله و سلم و أنه لاينحجز علي ثار جرح و انه من فتک فبنفسه فتک و أهل بيته، ألا من ظلم، و ان الله علي أبر من هذا .
  و ان علي اليهود نفقتهم و ان بينهم النصر علي من حارب أهل هذه الصحيفة.. وان بينهم النصح و النصيحة و البر دون الاثم، و أنه لم يأثم امرؤ بحليفه، و ان النصر للمظلوم.
 و ان اليهود ينفقون مع المؤمنين ماداموا محاربين.
 و ان يثرب حرام جوفها لأهل هذه الصحيفة.
 و ان الجار کالنفس غير مضار و لا آثم. 
 و انه لا تجار حرمه الا باذن أهلها.
 و انه ما کان بين أهل هذه الصحيفة من حدث أو اشتجار يخاف فساده فان مرده الي الله عزوجل و الي محمد رسول الله صلي الله عليه و آله و سلم.
 و انه لا تجار قريش و لا من نصرها.
 و ان بينهم النصر علي من دهم يثرب.
 و اذا دعوا الي صلح يصالحونه و يلبسونه فانهم يصالحونه و يلبسونه، و انهم اذا دعوا الي مثل ذلک فانه لهم علي المؤمنين الا من حارب في الدين..علي کل اناس حصتهم من جانبهم الذي قبلهم.
 و ان يهود الأوس، مواليهم وأنفسهم، علي مثل ما لأهل هذه الصحيفة مع البر المخض من أهل هذه الصحيفة، و ان البر دون الاثم، لايکسب کاسب الا علي نفسه و ان الله علي أصدق ما في هذه الصحيفة و أبره.
 و انه لايحول هذا الکتاب دون ظالم أو آثم، و أنه من خرج آمن و من قعد [ صفحه 106] آمن بالمدينة، الا من ظلم أو أثم، و ان الله جاز لمن بر واتقي، و محمد رسول الله۔( سیرۃ ابن ھشام،ج 2، صفحات اوپر درج ہیں) و تاریخ ابن کثیرج3، از صفحہ224-226)

مسلکی اختلافات میں تشدد کی مذمت

محمد یاسین جہازی قاسمی
مسلکی اختلافات میں تشدد کی مذمت
قرآن کریم کی تشریح کے مطابق خدائے بزرگ و متعال نے امت محمدیہ کے لیے بھی وہی دین مقرر فرمایا ہے ، جس کی بنیادی دفعات میں سابقہ پیغمبروں کی دفعات شامل ہیں۔ ارشاد باری ہے: شرع لکم من الدین ماوصیٰ بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم وموسیٰ وعیسیٰ ان اقیموا الدین ولاتتفرقوا فیہ (شوریٰ ، الاٰیۃ ۱۳)۔ اللہ نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے ، جس کا تاکیدی حکم نوح کو دیا گیااور وہی دین وحی کے ذریعے آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اسی کا ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو تاکیدی حکم دیا گیا تھا کہ دین کو قائم رکھواور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔
وحدانیت کا اقرار، رسالت کی تصدیق، آخرت، ملائکہ اور کتب سماویہ پر ایمان لانا وغیرہ سابقہ مذاہب کی بنیادی دفعات ہیں۔ ان کے بعد عملی احکام ہیں، جیسے عبادات ، نکاح و وراثت وغیرہ وغیرہ۔ یہ احکام بھی اصولی طور پر تمام مذاہب میں مشترک رہے ہیں، لیکن ان کے عملی طریقوں میں جزوی اختلاف بھی رہا ہے۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجا (مائدہ، الایۃ۴۸)۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک دستور اور طریق عمل مقرر کیا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پچھلے پیغمبروں کی شریعتوں اور اسلامی احکام میں جو اختلافات ہیں ، وہ صرف منہاج یعنی طریقِ کار کا اختلاف ہے اور اس اختلاف کے باوجود وہ تمام احکام برحق ہیں۔اسی طرح مسائل میں مدارک اجتہاد کے اختلاف کی وجہ سے نصوص فہمی میں جو اختلاف رائے ہے، وہ بھی درحقیقت منہاج ہی کا اختلاف ہے ۔ اور چوں کہ اس طرح کے اختلاف کرنے والے اہل علم اور مجتہدین کا مقصد صرف تعلیمات اسلام کی تشریح تھا، اس لیے ان اختلافات کو پسندیدہ اور امت کے لیے عمل میں توسع پیدا کرنے کی وجہ سے رحمت قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ اختلاف امتی رحمۃ۔ میری امت کا اختلاف ایک رحمت ہے۔
لیکن اگر اختلاف رائے اس منہاج کی حدود سے آگے بڑھ کر کیا جائے اور پھر وہ بغض و عناد اور مسلکی تشدد و نفرت کی صورت اختیار کرلے، تو یہ سخت مذموم ہے ۔ شریعت مطہرہ میں اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے ۔ قرآن کریم کی زبان میں اسے بغیا بینھم کہا گیا ہے ۔ ومااختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ماجاء ھم البینات بغیا بینھم(البقرۃ، الاٰیۃ ۲۱۳)۔ اور نہیں جھگڑا ڈالا کتاب میں ، مگر انھیں لوگوں نے ، جن کو کتاب دی گئی تھی اس کہ بعد کہ ان کے پاس صاف حکم پہنچ چکے تھے ، صرف آپس کی ضد کی وجہ سے۔
اختلاف علٰی المنہاج کو تجزیے کے طور پر اس طرح بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ اسلا م میں تین چیزیں ہیں: دین، مذہب اور مسلک۔ دین وہ ہے، جو قرآن و حدیث میں واضح طور پر موجود ہے اور جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مذہب وہ قوانین ہیں، جن کو علما نے اپنے علم وعقل کی روشنی میں نہایت غور و خوض اور اجتہاد سے اخذ کیا ہے اور اس میں اختلاف رائے بھی ہے۔ مسلک سے ہماری مرادوہ باتیں ہیں جن کو کوئی بھی شخص اپنے میلان طبعی سے پہلے ایک نظریہ گھڑ لیتا ہے ، پھر قرآن و حدیث سے غلط استدلال کے ذریعے صرف اسی کوصحیح اور جائز مانتاہے۔ اس کے علاوہ تمام آراء کو غلط اور ان کے ماننے والے کوغلطی پر ٹھہراتاہے۔ دین و مذہب سے اسلام کا رشتہ قائم ہے ، جب کہ مسلک سے اختلاف و افتراق جنم لیتا ہے۔
تاریخ شاہد عدل ہے کہ امت کا سواد اعظم منہاجی اختلاف کے نتیجے میں پیدا شدہ احکام کے طریق کار کے اختلاف کے باوجود صراط مستقیم پر گامزن رہااور اسے برحق تسلیم کیا گیا؛کیوں کہ ان کا اختلاف صرف مذہب کی حد تک تھا؛ لیکن حالیہ صدی میں ناپسندیدہ اختلافات پیدا کرنے والے کچھ ایسے فرقے پیداہوگئے ہیں، جن کی سراسر دل چسپی مسلکی اختلاف میں ہے۔جن کاطرز فکر اور اختلافی روش مذکورہ بالا منہاج سے منحرف ہوگئی ہے۔ ایسے افراد ضد ، ہٹ دھرمی اور عناد کو ہوا دے رہے ہیں جن کے ، نتیجۃ میں یہ اختلافات ،فتنے اور تشددکا سبب بن رہے ہیں، فرقہ پرستی کو بڑھاوا مل رہا ہے، امت مسلمہ کے اتحاد کا شیرازہ منتشر ہورہا ہے اورقومی یکجہتی کے فروغ میں رکاوٹیں آرہی ہیں ۔
حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ’’ میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیاکہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیاوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں، تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا اور دوسرے آپسی اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہاں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کردوں کہ قرآن کریم کو لفظا ومعنا عام کیا جائے۔ بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہربستی میں قائم کیے جائیں۔ بڑوں کو عوامی درس کی صورت میں قرآن کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے انھیں آمادہ اور تیار کیا جائے ۔ اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر بھی برداشت نہ کیا جائے‘‘۔معلوم یہ ہواکہ مسلکی تشدد نہ صرف فتنہ و فساد کی جڑ ہے ؛ بلکہ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی دونوں حیثیتوں سے تباہی کا باعث بھی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر متعدد ایجنسیاں اور فسطائی طاقتیں اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کی ملی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ یہ عناصر کہیں شیعہ، سنی ، کہیں دیوبندی ، بریلوی اور کہیں سلفی و اہل حدیث کے درمیان منافرت کا بیج بوکرمسلکی فسادا ت کرانے کے فراق میں لگے رہتے ہیں۔ شرپسند عناصر اس طرح کے حالات سے فائدہ اٹھا کر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی قوت کو منتشر کرنے اور انھیں دبانے ، ستانے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے آپسی اختلافات اور مسلکی تنازعات سے انھیں تقویت ملتی ہے اور امت مسلمہ مزید دشواریوں میں گھر جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی سازشوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور مسلکی منافرت کی آگ کے ایندھن بننے کے بجائے وحدت ملی کے لیے ہر ممکن اور ہر سطح پر کوششیں کریں۔ 
انسان کے لفظی معنی میں انس ومحبت کا مفہوم شامل ہے۔ یہ صفت اس کی فطرت کا ایک حصہ ہونا چاہیے۔ محض مذہب اور اعتقادات و نظریات کے الگ ہونے سے اس کی انسانیت اور جسمانی ہیئت میں کچھ تغیر واقع نہیں ہوتا۔ وہ بہر حال انسان ہی ہوتا اور انسان ہی کہلاتا ہے۔اس تناظر میں اسلام کے حقوق آدمیت اور احترام انسانیت کا تقاضا ہے کہ کسی بھی انسان کے ساتھ بھید بھاو نہ برتا جائے ، اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہ کیا جائے۔ ایک انسان کے سا تھ محض اس لیے تشدد برتنا کہ اس کا مذہب دوسرا ہے، اس کے نظریات آپ سے الگ ہیں ؛نہ تو انسانی فطرت اس کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی اسلام میں اس کی کوئی گنجائش ہے ۔ اور مسلکی تشدد کا تو کوئی جوا ز و سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

امن کے قیام کے لیے علما کا کردار اور ان کے فرائض

محمد یاسین جہازی قاسمی ، مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علمائے ہند
امن کے قیام کے لیے علما کا کردار اور ان کے فرائض
امن کے تعلق سے اسلام کا نقطۂ نظر
اسلام میں امن کامفہوم بہت وسیع ہے۔ اسلام سلم سے مشتق ہے ۔ اس کے معنی ہی امن و سلامتی کے ہیں۔ اس کے امن و امان کا پیغام صرف مسلمانوں یا انسانوں تک محدود نہیں ؛ بلکہ کائنات کے ہر ذی روح کے لیے عام ہے۔قیام امن اسلام کا محض ایک شعبہ ہی نہیں ؛ بلکہ یہ اس کا ایک اہم مقصد ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام باہمی اتحادو اتفاق اور بین الاقوامی تعاون و اشتراک کی حمایت کرتا ہے اوردنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ عدل و مساوات، ہمدردی و خیر خواہی اور صلح و آشتی کی تعلیم دیتا ہے۔اس کے برخلاف ہر قسم کے ظلم و ستم، فتنہ وفساد ، تشدد و نفرت اور دہشت گردی کا سخت مخالف ہے۔ انسان بحیثیت انسان مشرقی و مغربی ، شمالی و جنوبی ، کالے و گورے، عربی و عجمی، ہندی و غیر ہندی اور نسلی و خاندانی کسی قسم کے امتیاز کا روا دار نہیں ہے۔وہ سب کو برابری کی نظر سے دیکھتا ہے: الناس سواسیۃ کاسنان المشط، لافضل لعربی علٰی عجمی، ولا لابیض علٰی اسود، ولا لاحمر علٰی اصفر۔ کلکم بآدم، وآدم من تراب۔
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے ،جو انسانیت اور احترام انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار ہے ۔ اسلام کا یہ واضح پیغام ہے کہ جو کسی ایک شخص کو ناحق مار ڈالتا ہے ، تو وہ صرف ایک شخص کاقاتل نہیں ؛ بلکہ گویا پوری انسانیت کا قاتل ہے۔ اسی طرح جو کوئی ایک نفس کی حفاظت کرتا ہے ، تو وہ صرف ایک جان کی حفاظت نہیں ؛ بلکہ سارے انسانوں کے بچانے کے مرادف ہے۔ارشاد خداوندی ہے : من اجل ذٰلک کتبنا علیٰ بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض،فکانما قتل الناس جمیعا، ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا(المائدہ، الایۃ ۳۲)۔ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو قتل کرڈالے، تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے، گویا تمام لوگوں کو بچا لیا۔بارہا اور متعدد مقامات پر یہ اعلان کیا گیا کہ ان اللہ لایحب الظالمین ۔ ان اللہ لایحب الفساد۔ کہ اللہ کو ظلم کرنے والے ناپسند ہیں۔ وہ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔ان احکامات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام نے امن اور قیام امن کے حوالے سے ہدایات کا ایک مکمل گلدستہ اور جامع مرقع پیش کردیا ہے۔ 
موجودہ حالات پر ایک نظر
آج پوری دنیاعجیب کشمکش سے دوچار اور حیران کن مخمصے کی شکار نظر آرہی ہے۔ ہر سمت بے چینی، بے اطمینانی، بد امنی، بد عنوانی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی لعنت پھیلی ہوئی ہے۔ امن و سکون اور صلح و آشتی کا ایسا فقدان ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ اور بے یارو مددگار خیال کرنے پر مجبورہے۔جانور؛ حتیٰ کہ موذی حیوان سانپ بھی اپنے جنس کو نہیں ڈستا؛ لیکن یہاں انسان خود اپنے بھائی ہی کے خون کا پیاسا ہوگیا ہے، آدمی آدمیت کا قاتل اور انسان انسانیت کا دشمن نظر آرہا ہے، غرض پوری دنیا عالمی شر و فساد او ر بین الاقوامی کرپشن و فتنہ میں مبتلا نظر آرہی ہے۔
امن وامان کے اس عالمی بحران کو ختم کرنے لیے دانشور، مغربی مفکرین، جارح حکومتیں اور اقوام متحدہ دنیا بھر میں مختلف سطح پر کوششیں کر رہے ہیں : ریزولیشن پاس کیے جارہے ہیں، دستاویزات مرتب کی جارہی ہیں، عہدنامے تیار کیے جارہے ہیں، مذاکرات ہورہے ہیں اور کانفرنسوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، طاقت بھی آزمائی جارہی ہے؛ لیکن ظلم وطغیانی ودہشت گردی کاخاتمہ اور امن و امان کا قیام، ایک خواب پریشاں ہی نظر آتا ہے۔ 
قیام امن کے لیے علما کی ذمے داریاں 
موجودہ حالات کے تناظر میں علما کے لیے یہ لازم و ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ قیام امن کے لیے اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے اپنا مفروضہ کردار اداکریں اور دنیا کو اسلام کے پیغامات و ہدایات سے روشناس کراتے ہوئے یہ بتائیں کہ اگر قرآنی احکامات اور نبوی تعلیمات کوزیر عمل لایا جائے تو دنیا امن وامان کا گہوارہ اور صلح و آشتی کا سائبان بن جائے گی۔اور نقض امن اور فتنہ و فساد کا یکسر خاتمہ ہوجائے گا۔
اسلام صرف امن و سلامتی کا ایک مذہب ہی نہیں؛ بلکہ اس کا داعی اور محرک بھی ہے۔ انسانی جورو جفااور ظلم و ستم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے باوجود۔ کچھ اپنوں کے غلط کردار اور منفی طرز عمل کی بنیاد پر اور کچھ غیروں کی شرارت و فتنہ پروری کے باعث ۔اس کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے۔ پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع مواصلات کے توسط سے یہ تاثر دینے کی مذموم سعی پورے زور شور سے جاری ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اس کے ماننے والے مسلمان دہشت گرد ہیں۔ ایسے حالات میں داعیان و مبلغین اسلام کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ حالات کا تجزیہ کرکے ان کے تقاضے اور چیلینجز کے مطابق ایسی حکمت عملی تیارکریں، جس سے اسلام کا بے داغ چہرہ سب کے سامنے نمایاں ہوسکے اور پھر وہ یہ باور کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ اسلام ہر قسم کی دہشت گردی و تشدد کا نہ صرف مخالف ہے ؛ بلکہ اس کا خاتمہ اور امن و امان کا مکمل قیام صرف اسلامی ہدایات پر چل کر ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
قیام امن کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں: (الف)ظلم کے محرکات کی نشاندھی۔ (ب) پھر اس کے تناظر میں حکمت عملی کی تجویز۔
ظلم کے محرکات
تعصب و نفرت۔۔۔ظلم و تشدد کے اصل محرک ہیں۔ تعصب و نفرت کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں:
۱۔لسانی اختلاف۔
۲۔ علاقائیت۔
۳۔ نسلی تفاخر۔
۴۔ مذہبی تنگ نظری۔
۵۔ مسلکی تشدد۔
۶۔ملکی تعصب۔
کبھی ایک انسان دوسرے انسان کو اس لیے خاطر میں نہیں لاتا کہ دوسرے کی زبان اس سے الگ ہے۔ زبان کے اختلاف کو دل کے اختلاف تک لے جاتا ہے اور اس کے ساتھ امتیاز برتنے لگتا ہے۔ علاقائیت بھی ظلم کی وجہ بنتی ہے ۔ نسلی تفوق و امتیاز سے بھی تعصب و نفرت جنم لیتی ہے اور انسان اعلیٰ و ادنیٰ کی حدوں میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کو انسانی برتاوکے قابل نہیں سمجھتا۔ مذہبی اختلافات، فرقہ پرستی کا سبب بنتے ہیں اور تشدد کا راستہ کھلتا ہے۔ مسلکی نظریات کی بنیاد پر بھی انسان ایک دوسرے کے خلاف ہوجاتا ہے۔ کبھی گورا ہونا،کالا ہونا نفرت کی بنیاد بن جاتا ہے ۔ سرحد اور ملک کے الگ ہونے کی وجہ سے بھی انسان آپس میں امتیازبرتنے لگتے ہیں ۔ ان تنوعات کے وقت انسان یہ بھول جاتا ہے کہ یہ سب اس کے اندر عارضی صفات ہوتی ہیں۔ ہمدردی و مساوات کی اصل وجہ تو اس کا انسان ہونا ہے اور سب انسان بحیثیت انسان برابر ہیں۔
قیام امن کی تجاویز
قیام امن کے لیے دائرۂ کار کے اعتبار سے درج ذیل سطح پر کوششیں کی جاسکتی ہیں: 
(الف) انفرادی سطح پر قیام امن ۔
(ب)سماجی سطح پر قیام امن۔
(ج) بین مذاہب سطح پر قیام امن۔
(د)ملکی و بین الاقوامی سطح پر قیام امن۔
انفرادی طور پرکوشش کے ذریعے امن و امان کی فضا قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ جس کے پاس جس طرح کا موقع اور قوت عمل ہے ، وہ اس اعتبار سے قیام امن کی کوشش کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ مقرر ہے ، توتقریری مواقع پید اکرکے اسلام کے اس پیغام کو عام کرسکتا ہے ۔ اگر کوئی قلم کار ہے تو وہ اپنی تحریر سے اس فریضہ کو انجام دے سکتا ہے۔ کوئی صاحب حیثیت ہے تو وہ اس طرح کے لٹریچر، پمفلٹ اور کتابچے شائع کراکے اس کار خیر میں حصہ لے سکتا ہے ، وغیرہ ۔سماجی سطح پر بھی قیام امن کی کوشش کی جاسکتی ہے ، مثلا اس طرح کہ اگر کوئی مختلف و مخلوط مذاہب پر مشتمل سوسائٹی یا کالونی میں رہتا ہے تو وہاں کوئی ایسی مشترکہ کمیٹی بنالی جائے ، جس کے بنیادی مقاصد میں اخوت و بھائی چارگی اور مل جل کر رہنے کا عزم محکم شامل ہو۔علاوہ ازیں اپنے اخلاق و کردار، پڑوسیوں کے حقوق اوران کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی جو اسلامی ہدایات ہیں ، ان پر کاربند ہوکر سماج کو پر امن اور مثالی بنائے۔ہندستان جیسے کثیر مذہبی و کثیر لسانی ملک میں۔ جہاں زیادہ تر فسادات کی وجہ یہی مذہب کا اختلاف اور زبان کا الگ ہونا ہے۔قیام امن کے لیے یہ کوشش کی جاسکتی ہے کہ مختلف مذاہب کے نمایندوں کے مابین مکالمہ و مفاہمت کا سلسلہ شروع کیا جائے ، جس میں اپنے مذہب کی برتری ظاہر کرنے کے بجائے ۔جو مناظرہ و مناقشہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور لڑائی و تشدد کا باعث بن جاتا ہے۔اسلام میں عصر حاضر کے تمام مسائل و مشکلات کے حل کا فارمولہ پیش کیا جائے ۔اس طرح سے جہاں مختلف مذاہب کے مابین رواداری اور ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں ، وہیں ایک اہم فائدہ یہ بھی حاصل ہوگا کہ دوسرے مذاہب کے جو حضرات صرف ترجمہ پڑھ کر یا احکام کو ان کے پس منظر سے ہٹا کر اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں ، اس کا ازالہ ممکن ہوسکے گااور اسلام کا صحیح پیغام ان کے سامنے رکھنے کا موقع ہاتھ آئے گا۔ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھی اسلام کے عالمی مصالحت پسندی اورآفاقی رواداری پر مبنی قوانین کی تشریح و تبلیغ کر کے امن و امان کے قیام کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے اور دنیا کو امن و امان کا گہوارہ بنانے میں خوب صورت کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔
قیام امن کی کوششوں کا یہ کوئی حتمی و قطعی طریقۂ کار نہیں ہے؛ بلکہ ایک بنیادی اور ابتدائی خاکہ ہے ، اس میں آپ اپنی بیش قیمت رائے اور حکمت عملی کو بھی شامل کرسکتے ہیں ، جس سے فضائے امن و سکون کو عام کرنے میں مدد مل سکے اور تشدد و نفرت سے بہت پاک ر ایک صالح معاشرے کی تشکیل عمل میں لائی جائے۔