محمد یاسین جہازی
آہ! مولانا ازہر صاحب
حضرت مولانا از ہررانچوی صاحب نور اللہ مرقدہ (07-07-1924--13-05-2017) کی وفات پر ایک حکایتی تحریر
۱۳؍ مئی بروز سنیچر دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ ،جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر ،جامعہ حسینیہ کڈرو رانچی جھارکھنڈ کے مہتمم اور خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا ازہر صاحب نور اللہ مرقدہ رانچی میں انتقال فرماگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
موت و حیات کا تسلسل نظام فطرت کا حصہ ہے۔ یہاں ہر آن زندگی وجود میں آتی ہے اور ہر لمحہ فنا گردش کرتی رہتی ہے۔ کائناتی سسٹم کے توازن کے لیے دونوں کا وجود ضروری ہے۔ اگر صرف زندگی ہی زندگی جنم لیتی رہے ، یا صرفہ ہمہ وقت فنا ہی فناکا خوف چھایا رہے، تو کوئی بھی زندگی مسرت خیز نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی فنا باعث رنج و الم ہوگی۔ کچھ زندگیاں دوسری زندگیوں کی بنسبت زیادہ اہم ہوتی ہیں، جس کا لازمی تقاضا ہے کہ ان کی فنا بھی زیادہ تکلیف دہ ہوگی۔ آج ہم ایک اہم زندگی کے فوت ہونے پر زیادہ صدمہ کے دور سے گذر رہے ہیں ۔ اور صدمہ پر تسلی کے سامان بہم پہنچانے کے لیے چند سطور حوالے قلم کی جارہی ہیں۔
حضرت مولانا ازہر صاحب بیک وقت کئی جہت کی مالک شخصیت تھی۔ وہ ایک طرف ہندستان کی سب سے بڑی تعلیم گاہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، تو وہیں دوسری طرف سرمایہ ملت اسلامیہ ہند کی پاسبان و محافظ تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر بھی تھے۔حضرت والا کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ و مجاز تھے۔ اسی طرح تعلیمی خدمات انجام دینے کے لیے رانچی میں واقع جامع حسینیہ کڈرو کے بانی و مہتمم بھی تھے۔ مولانا محترم کے جہاں سینکڑوں نیاز مند ہیں، وہیں ان میں سے ایک یہ ناچیز بھی ہے۔ ہرچند کہ ناچیزکا حضرت بزرگ محترم سے کوئی رسمی و سلسلہ جاتی تعلق نہیں تھا تاہم عقیدت و محبت کا رشتہ قائم تھا۔اور درج ذیل سطور میں اسی کے شواہد پیش کیے جارہے ہیں۔
حضرت والا سے شناسائی کی کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں راقم بعد نماز عصر آسامی منزل سے مطبخ آرہا تھا ۔ جب احاطہ مطبخ کے دروازے کے پاس سے گزر ہوا، تو ساتھ میں آرہے ایک طالب علم نے ایک کمرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ جانتے ہو کہ یہ کس کا کمرہ ہے۔ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ارے تم نہیں جانتے ہو،اس میں مولانا ازہر صاحب کا فرزند رہتے ہیں، ان کا نام اسجد بھائی ہے۔ چوں کہ زندگی میں پہلی مرتبہ یہ نام گوش گزار ہوا تھا ، اس لیے میں نے سوال کیا کہ یہ مولانا ازہر صاحب کون ہیں؟۔ ان کا پھر وہی جواب تھا کہ کیا تم مولانا ازہر صاحب کو بھی نہیں جانتے ، وہ بھی تو جھارکھنڈ کے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ ہیں اور شیخ الاسلام ؒ کے خلیفہ ہیں۔اس پر میرا جواب تھا کہ اچھا۔ چوں کہ اس وقت دارالعلوم دیوبند کا جدید اور مولویت کے تیسرے درجہ کا طالب علم تھا، اس لیے کہ ان کی باتوں کی اہمیت کو سمجھ نہیں پایا۔ پھر انھوں نے کہا کہ چلو ایک دن تمھاری ان سے ملاقات کرائیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ ایک دن بعد نماز مغرب ان کے ہمراہ مولانا اسجد صاحب کے کمرے میں حاضر ہوا۔ وہاں دیکھا کہ نصف درجن طلبہ پہلے سے موجود ہیں اور چائے نوشی کر رہے ہیں۔ پہنچتے ہی انھوں نے دو کپ ہماری طرف بڑھانے کا اشارہ کیا اور ہم دونوں نے بھی ان کی چائے کی ضیافت کا لطف لیا۔ ہر طالب علم اپنے اپنے اعتبار سے جو کچھ بات کرنا تھی ، کر رہے تھے، لیکن میں نہیں سمجھ پارہا تھا کہ مجھے کیا بات کرنی چاہیے۔ چنانچہ محفل برخاست ہونے کے بعد میں بھی لوٹ آیا۔ لیکن اس تاثر کے ساتھ لوٹا کہ اگر اتنے سارے طالب علم ملاقات کے لیے آتے ہیں، تو ان کے والد گرامی یقیناًکوئی بہت بڑی ہستی ہوگی۔
بہر حال وقت گزرتا گیا اور گزرتا زمانہ جوں جوں شعور و ادراک میں اضافہ کرتا رہا، اسی اعتبار سے اکابر کے متعلق جانکاری بھی ہوتی رہی۔لیکن تشخص کے ساتھ تعارف اس وقت ہوا، جب راقم جمعیۃ علماء ہند میں ایک ملازم کی حیثیت سے شریک کار ہوا۔ واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ تھی، حضرت چوں کہ اس کے نائب صدر تھے، اس لیے حضرت تشریف لائے ہوئے تھے، اور ساتھ میں فرزند ارجمند مولانا اسجد صاحب بھی تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ سلیک علیک کے بعد خیر و خیریت پوچھی گئی۔ عشا کے بعد جب میٹنگ سے فارغ ہوگئے، تو ناچیز حضرت کی قیام گاہ پر حاضر ہوا۔ اندر آنے کی اجازت چاہی۔ مولانا اسجد صاحب نے دروازہ کھولا اور حضرت کے سامنے تعارف کرایا کہ یہ گڈا کا ہے اور یہیں ملازم ہے۔یہ سن کر حضرت نے خوشی کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں۔ اور پھر فرمایا کہ رابطے میں رہنا، جسے ناچیز نے اپنے لیے باعث سعادت سمجھا۔ اس کے بعد خیرو خیریت اور دعائیں لینے کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت کے چہرے کی نورانیت دیکھ کر پہلی ہی ملاقات میں ان سے عقیدت ہوگئی اور یہ عقیدت محبت میں تبدیل ہوگئی۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا رہا، اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی کا فون آیا۔ اس وقت میں اپنے مادروطن جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ میں تھا ۔ انھوں نے فرمایا کہ تم رانچی چلے جاو ۔ میں نے تعمیل حکم کے لیے ہاں میں جواب دیا۔ پھر مجھے جمعیۃ علماء ہند کا ایک کام سونپا گیا۔ چنانچہ اس کام کے مقصد سے حضرت کے مدرسے میں حاضری ہوئی اور زندگی میں پہلی مرتبہ حضرت کے مدرسے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ مدرسہ حضرت کی پرخلوص جدو جہد کو بیان کر رہا تھا۔ یقیناًجھارکھنڈ جیسے علاقے میں اتنا بڑا مدرسہ قائم کرنا کسی معمولی جگر والے کا کام نہیں ہوسکتا، اسے تو وہی قائم کرسکتا تھا ، جن کے اندر بطل حریت حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی روح دوڑ رہی ہو۔ المختصر وہاں دیگر اکابرین کے ساتھ مولانا ابوبکر قاسمی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ، جو جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے ناظم اعلیٰ ہیں۔ انھوں نے ناچیز کی پر تکلف ضیافت کی اور رانچی شہر کے دیدار کا بھی بندوبست کیا۔
ایک دن اچانک سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوئی کہ خلیفہ شیخ الاسلام اس دنیا سے چل بسے۔ یہ سن کر دلی صدمہ ہوا اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے چند ذمہ داران مدارس سے دعائے مغفرت کی اپیل کی۔ان کا انتقال رانچی میں ہوا اور وہیں تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔
اولاد واحفاد
حضرت نور اللہ مرقدہ کے تین صاحب زادے تھے، جن کے نام علی ٰ الترتیب مولانا احمد صاحب قاسمی، مولانا محمد صاحب قاسمی اور مولانا اسجد صاحب قاسمی ہیں۔ اور الحمد للہ تینوں صاحبزادگان حافظ قرآن بھی ہیں۔ نیک سیرت اور خوش اخلاقی گویا ان کو وراثت میں ملے ہیں، مہمان نوازی اور نرم گوئی ان حضرات کا خصوصی امتیازات ہیں۔ بڑے صاحب زادے مولانا احمد صاحب قاسمی ابتدا میں مولانا کے سفر و حضر میں ساتھ رہے۔ بعد میں چھوٹے صاحبزادے مولانا اسجد صاحب شریک سفر رہا کرتے تھے۔ اور اہم امور میں مشورے کے لیے انھیں ترجیح دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد صاحب قاسمی، سر دست مدرسہ حسینیہ کے ذمہ دار ہیں۔ انھیں مولانا نور اللہ مرقدہ نے حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ کے مشورے سے نائب مہتمم بنایا تھا۔ مولانا کی صاحب زادیوں کی تعدادآٹھ ہیں، جن میں سے قدرت، نعمت اور بریرت اللہ کو پیاری ہوگئی ہیں، جب کہ رحمت، فرحت، راحت، عشرت اور نصرت باحیات ہیں اور صاحب اولاد و احفاد ہیں۔ ان کے شوہروں کے نام علیٰ الترتیب یہ ہیں: حافظ و قاری حسام الدین شبول مدھوبنی، حافظ ابو نصر کھیروا مدھوبنی، مولانا صفات اللہ اتھوس مدھوبنی، عبدالعلام گڑھیا مدھوبنی اور مولانا ضیاء الدین شبول مدھوبنی۔
مولانا کے خصوصی امتیازات
مولانا کے چھوٹے صاحبزادے مولانا اسجد صاحب قاسمی کے مطابق مولانا وقت کے بہت پابند تھے۔ ملاقات کرنے والوں سے جو وقت طے ہوجاتا تھا، مولانا اس سے پہلے ہی ملاقات کے لیے تیار رہتے تھے۔ اسی طرح اگر کہیں پروگرام کے لیے وقت دیتے تھے تو انتظامیہ کی طرف سے خواہ کوئی انتظام نہ ہو، لیکن مولانا وہاں نہ پہنچنا وعدہ خلافی تصور کرتے تھے اور خود پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔
ان کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ مدرسہ کے تعلق سے حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے فکر کے امین و وارث تھے۔ خاص طور سے مالیات کے تعلق سے مالداروں پر تکیہ نہیں کرتے تھے؛ بلکہ اس کے مقابلے میں غریبوں کے تعاون کو زیادہ سراہتے تھے۔ مولانا اسجد صاحب قاسمی نے اس تعلق سے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ رانچی کے اطراف میں ایک غریب بڑھیا رہتی تھی، جو ہر سال تقریبا چار کلو چاول چندہ دیا کرتی تھی۔ وہ انتہائی غریب تھی، اس کے باوجود وہ روزانہ اپنے گھر میں پکانے والے چاول میں سے ایک مٹھی چاول نکالتی تھی اور اسے مدرسہ کے چندہ کے نام پر اکٹھا کرتی تھی۔ پھر جب سال میں ایک مرتبہ مولانا تشریف لے جاتے تھے تو وہ یہ چندہ دیا کرتی تھی۔ مولانا خصوصی طور پر اسی بوڑھی عورت کا چندہ لینے جایا کرتے تھے ارو بڑی محبت سے اسے ایک چادر میں باندھ کر لاتے اور حفاظت سے رکھتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ ایسے ہی چندوں کی برکت سے مدرسہ چلا کرتا ہے۔ مولانا کا یہ نظریہ تھا کہ جو شخص بھی دے اور جو کچھ بھی دے، اسے محبت اور شکریے کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ بڑے آدمی اور بڑی مقدار پر ہی اپنے خلوص کو مخصوص نہیں رکھنا چاہیے۔ اس سے مدرسے کی حصولیابی میں بے برکتی پیدا ہوتی ہے اور پھر مدرسے پر حالات آنے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ جیسے علاقہ میں آج بھی سب سے بڑا مدرسہ مدرسہ حسینیہ ہی ہے۔ اور اس کی بڑائی کا راز حضرت کا یہ مخلصانہ طرز عمل ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی تعزیتی نشست میں اکابرین کے تاثرات
۲۵؍ مئی ۲۰۱۷ ، بروز جمعرات جمعیۃ علماء ہند کے دفتر واقعی آئی ٹی او نئی دہلی میں حضرت والا اور دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری نور اللہ مرقدہ کے لیے ایک تعزیتی اجلاس رکھا گیا، جس میں جمعیۃ علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ نے شرکت کی۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا کی وفات دارالعلوم دیوبند اور جمعےۃ علماء ہند سمیت پوری ملت اسلامیہ کے لیے بڑا خسارہ ہے ۔ تعزیتی اجلاس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے والی شخصیات کی خصوصیات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ ہم ان سے رہ نمائی حاصل کریں۔ موجودہ دور میں ان بزرگوں کے کردار سے روشنی حاصل کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔مولانا مدنی صاحب نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مولانا ازہر صاحب کے تواضع وانکساری کی میں شہادت دیتاہوں ۔ میں مولانا ازہر ؒ کے جنازے میں شریک تھا ، وہاں بہت بڑا مجمع تھا، لوگ مٹی دینے کے لیے ظہر سے مغرب تک قبرستان آتے رہے ۔ مولانا محترم جمعےۃ علماء ہندکے نائب صدر تھے ، آج ہم سے جدا ہوگئے، جس کے لیے ہم ز یادہ تعزیت کے مستحق ہیں ۔
حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ میں مولانا ازہر صاحب رانچی کی تواضع اور للہیت سے کافی متاثر ہوں ،ان سے جب بھی گفتگو ہوتی تو سلام کے بعد پہلا لفظ ’’اللہ ‘‘کا ہوتا تھا، وہ ہمیشہ دعا دیتے ہوئے کہتے تھے کہ بھائی اللہ آپ کو خیریت سے رکھے ۔حضرت مولانا سلمان بجنوری صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مولاناازہر صاحب رانچی بہت ہی سادہ اور نیک دل انسان تھے ۔اس موقع پر مولانا مفتی راشد اعظمی صاحب دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ ان دونوں ہستیوں کے قریب قریب ہی مدت میں رخصت ہوجانے سے گہرا صدمہ پہنچا ہے ۔ انھوں نے اپنے دلی جذبات کاظہار کرتے ہوئے غالب کایہ شعر پیش کیا کہ ’’حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ مولانا متین الحق اسامہ صاحب صدر جمعیۃ علماء صوبہ اتر پردیش نے اپنے خطاب میں اپنی چند یادوں اور ان اکابر کے انداز تربیت پر روشنی ڈالی۔ رانچی سے تشریف لائے جمعۃ علماء جھارکھنڈ کے جنرل سکریٹری مفتی ابوبکر صاحب نے اپنے خطاب میں حضرت کے انداز تربیت کو بیان کرتے ہوئے ، جامعہ حسینیہ کے تعلق سے ان کی بے پناہ جدوجہد کا تذکرہ کیا اور کہاکہ جھارکھنڈ جیسے علاقے میں اتنا بڑا ادارہ قائم کرنا اور اسے بحسن و خوبی چلانا یہ حضرت ہی کی ہمت و حوصلہ کا کام تھا۔ اور آج تک وہاں اس سے بڑا کوئی اور ادارہ نہیں ہے۔اس اجلاس میں مولانا مرحوم کے صاحب زادے مولانا محمد صاحب نے بھی پرسوز خطاب کیا ۔انھوں نے اپنے خطاب میں حضرت مدنی سے تعلق کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ جب بھی بیمار ہوتے تھے ، تو دوران علاج ایک واقعہ سنایا کرتے تھے اور جب بھی وہ واقعہ سنایا کرتے تھے ، تو حضرت والا روبہ صحت ہوجاتے تھے۔ واقعہ یہ تھا کہ حضرت مدنی خواب میں آئے تھے اور میں اب اچھا ہوجاوں گا۔ لیکن اس مرتبہ کوئی ایسا واقعہ سنایا نہیں، جس کے بعد وہ دنیا سے چل بسے۔
جمعیۃ علماء ہندنے اپنے اس تعزیتی اجلاس میں ایک تعزیت نامہ بھی پیش کیا،جسے اس کے سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے پڑھ کر سنایا۔ اس کے متن وہ حصہ جو مولانا مرحوم کے تعلق سے ہے، درج ذیل ہے:
حضرت مولانا ازہر ؒ صاحب
جمعےۃ علماء ہند کا یہ اجلاس حضرت مولانا ازہر نعمانی ؒ صاحب کی جمعےۃ علماء ہندکے تئیں بے لوث خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہے ۔آپ طویل عرصے سے دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری اور جمعےۃ علما ء ہند کے نائب صدراور اس کی مجلس عاملہ کے موقر رکن رہے ۔ ۱۹۹۳ء سے مسلسل جمعےۃ علماء بہار کے صدر رہے ۔ سال ۲۰۰۹ء سے تادم واپسیں جمعےۃ علماء جھارکھنڈ کی صدار ت کی ذمہ داری نبھارہے تھے۔آپ دارالعلوم دیوبند اور جمعےۃ علماء ہند کے تحریکوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ۔آپ تقوی ، نیکی اور دیانت داری میں اسلاف کی روایتوں کے امین تھے۔دور حاضر میں وہ چند گنے چنے افراد میں سے تھے جن کو حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے خاص شاگرد اورخلیفہ مجاز ہونے کا شرف حاصل رہا ۔حضرت شیخ الاسلامؒ کے خادم خاص کی حیثیت سے ، سفر و حضر میں ساتھ رہنے کے موقع کو وہ اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے تھے۔حضرت مدنی ؒ کے وصال کے بعد فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی ؒ کی ماتحتی میں بدستور مدنی منزل دیوبند میں مکتوبات کے جوابات کی ذمہ داری نبھائی،لیکن ۱۹۵۸ء میں مدرسہ حسینہ کے قیام کے بعد رانچی منتقل ہو گئے اور وہیں بودوباش اختیار کرلی ۔
ان دونوں حضرات کے یکے بعد دیگرے چلے جانے سے یقینی طور پر ہم سب یتیمی محسوس کر رہے ہیں، لیکن رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ کو اپنے لیے صبرو سکون بناتے ہوئے ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ
اللھم ارحمھم و اغفر لھم و عافھم و اعف عنھم و اکرم نزلھم و وسع مدخلھم و اغسلھم بالماء و الثلج و البرد و نقھم من الذنوب والخطایا کماینقی الثوب الأبیض من الدنس اللھم جاذھم بالحسنات احساناً و بالسیئات عفوا و غفراناً۔
حضرت مولانا از ہررانچوی صاحب نور اللہ مرقدہ (07-07-1924--13-05-2017) کی وفات پر ایک حکایتی تحریر
۱۳؍ مئی بروز سنیچر دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ ،جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر ،جامعہ حسینیہ کڈرو رانچی جھارکھنڈ کے مہتمم اور خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا ازہر صاحب نور اللہ مرقدہ رانچی میں انتقال فرماگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
موت و حیات کا تسلسل نظام فطرت کا حصہ ہے۔ یہاں ہر آن زندگی وجود میں آتی ہے اور ہر لمحہ فنا گردش کرتی رہتی ہے۔ کائناتی سسٹم کے توازن کے لیے دونوں کا وجود ضروری ہے۔ اگر صرف زندگی ہی زندگی جنم لیتی رہے ، یا صرفہ ہمہ وقت فنا ہی فناکا خوف چھایا رہے، تو کوئی بھی زندگی مسرت خیز نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی فنا باعث رنج و الم ہوگی۔ کچھ زندگیاں دوسری زندگیوں کی بنسبت زیادہ اہم ہوتی ہیں، جس کا لازمی تقاضا ہے کہ ان کی فنا بھی زیادہ تکلیف دہ ہوگی۔ آج ہم ایک اہم زندگی کے فوت ہونے پر زیادہ صدمہ کے دور سے گذر رہے ہیں ۔ اور صدمہ پر تسلی کے سامان بہم پہنچانے کے لیے چند سطور حوالے قلم کی جارہی ہیں۔
حضرت مولانا ازہر صاحب بیک وقت کئی جہت کی مالک شخصیت تھی۔ وہ ایک طرف ہندستان کی سب سے بڑی تعلیم گاہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے، تو وہیں دوسری طرف سرمایہ ملت اسلامیہ ہند کی پاسبان و محافظ تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر بھی تھے۔حضرت والا کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ و مجاز تھے۔ اسی طرح تعلیمی خدمات انجام دینے کے لیے رانچی میں واقع جامع حسینیہ کڈرو کے بانی و مہتمم بھی تھے۔ مولانا محترم کے جہاں سینکڑوں نیاز مند ہیں، وہیں ان میں سے ایک یہ ناچیز بھی ہے۔ ہرچند کہ ناچیزکا حضرت بزرگ محترم سے کوئی رسمی و سلسلہ جاتی تعلق نہیں تھا تاہم عقیدت و محبت کا رشتہ قائم تھا۔اور درج ذیل سطور میں اسی کے شواہد پیش کیے جارہے ہیں۔
حضرت والا سے شناسائی کی کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں راقم بعد نماز عصر آسامی منزل سے مطبخ آرہا تھا ۔ جب احاطہ مطبخ کے دروازے کے پاس سے گزر ہوا، تو ساتھ میں آرہے ایک طالب علم نے ایک کمرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ جانتے ہو کہ یہ کس کا کمرہ ہے۔ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ارے تم نہیں جانتے ہو،اس میں مولانا ازہر صاحب کا فرزند رہتے ہیں، ان کا نام اسجد بھائی ہے۔ چوں کہ زندگی میں پہلی مرتبہ یہ نام گوش گزار ہوا تھا ، اس لیے میں نے سوال کیا کہ یہ مولانا ازہر صاحب کون ہیں؟۔ ان کا پھر وہی جواب تھا کہ کیا تم مولانا ازہر صاحب کو بھی نہیں جانتے ، وہ بھی تو جھارکھنڈ کے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ ہیں اور شیخ الاسلام ؒ کے خلیفہ ہیں۔اس پر میرا جواب تھا کہ اچھا۔ چوں کہ اس وقت دارالعلوم دیوبند کا جدید اور مولویت کے تیسرے درجہ کا طالب علم تھا، اس لیے کہ ان کی باتوں کی اہمیت کو سمجھ نہیں پایا۔ پھر انھوں نے کہا کہ چلو ایک دن تمھاری ان سے ملاقات کرائیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ ایک دن بعد نماز مغرب ان کے ہمراہ مولانا اسجد صاحب کے کمرے میں حاضر ہوا۔ وہاں دیکھا کہ نصف درجن طلبہ پہلے سے موجود ہیں اور چائے نوشی کر رہے ہیں۔ پہنچتے ہی انھوں نے دو کپ ہماری طرف بڑھانے کا اشارہ کیا اور ہم دونوں نے بھی ان کی چائے کی ضیافت کا لطف لیا۔ ہر طالب علم اپنے اپنے اعتبار سے جو کچھ بات کرنا تھی ، کر رہے تھے، لیکن میں نہیں سمجھ پارہا تھا کہ مجھے کیا بات کرنی چاہیے۔ چنانچہ محفل برخاست ہونے کے بعد میں بھی لوٹ آیا۔ لیکن اس تاثر کے ساتھ لوٹا کہ اگر اتنے سارے طالب علم ملاقات کے لیے آتے ہیں، تو ان کے والد گرامی یقیناًکوئی بہت بڑی ہستی ہوگی۔
بہر حال وقت گزرتا گیا اور گزرتا زمانہ جوں جوں شعور و ادراک میں اضافہ کرتا رہا، اسی اعتبار سے اکابر کے متعلق جانکاری بھی ہوتی رہی۔لیکن تشخص کے ساتھ تعارف اس وقت ہوا، جب راقم جمعیۃ علماء ہند میں ایک ملازم کی حیثیت سے شریک کار ہوا۔ واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ تھی، حضرت چوں کہ اس کے نائب صدر تھے، اس لیے حضرت تشریف لائے ہوئے تھے، اور ساتھ میں فرزند ارجمند مولانا اسجد صاحب بھی تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ سلیک علیک کے بعد خیر و خیریت پوچھی گئی۔ عشا کے بعد جب میٹنگ سے فارغ ہوگئے، تو ناچیز حضرت کی قیام گاہ پر حاضر ہوا۔ اندر آنے کی اجازت چاہی۔ مولانا اسجد صاحب نے دروازہ کھولا اور حضرت کے سامنے تعارف کرایا کہ یہ گڈا کا ہے اور یہیں ملازم ہے۔یہ سن کر حضرت نے خوشی کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں۔ اور پھر فرمایا کہ رابطے میں رہنا، جسے ناچیز نے اپنے لیے باعث سعادت سمجھا۔ اس کے بعد خیرو خیریت اور دعائیں لینے کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت کے چہرے کی نورانیت دیکھ کر پہلی ہی ملاقات میں ان سے عقیدت ہوگئی اور یہ عقیدت محبت میں تبدیل ہوگئی۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا رہا، اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی کا فون آیا۔ اس وقت میں اپنے مادروطن جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ میں تھا ۔ انھوں نے فرمایا کہ تم رانچی چلے جاو ۔ میں نے تعمیل حکم کے لیے ہاں میں جواب دیا۔ پھر مجھے جمعیۃ علماء ہند کا ایک کام سونپا گیا۔ چنانچہ اس کام کے مقصد سے حضرت کے مدرسے میں حاضری ہوئی اور زندگی میں پہلی مرتبہ حضرت کے مدرسے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ مدرسہ حضرت کی پرخلوص جدو جہد کو بیان کر رہا تھا۔ یقیناًجھارکھنڈ جیسے علاقے میں اتنا بڑا مدرسہ قائم کرنا کسی معمولی جگر والے کا کام نہیں ہوسکتا، اسے تو وہی قائم کرسکتا تھا ، جن کے اندر بطل حریت حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی روح دوڑ رہی ہو۔ المختصر وہاں دیگر اکابرین کے ساتھ مولانا ابوبکر قاسمی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ، جو جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے ناظم اعلیٰ ہیں۔ انھوں نے ناچیز کی پر تکلف ضیافت کی اور رانچی شہر کے دیدار کا بھی بندوبست کیا۔
ایک دن اچانک سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوئی کہ خلیفہ شیخ الاسلام اس دنیا سے چل بسے۔ یہ سن کر دلی صدمہ ہوا اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے چند ذمہ داران مدارس سے دعائے مغفرت کی اپیل کی۔ان کا انتقال رانچی میں ہوا اور وہیں تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔
اولاد واحفاد
حضرت نور اللہ مرقدہ کے تین صاحب زادے تھے، جن کے نام علی ٰ الترتیب مولانا احمد صاحب قاسمی، مولانا محمد صاحب قاسمی اور مولانا اسجد صاحب قاسمی ہیں۔ اور الحمد للہ تینوں صاحبزادگان حافظ قرآن بھی ہیں۔ نیک سیرت اور خوش اخلاقی گویا ان کو وراثت میں ملے ہیں، مہمان نوازی اور نرم گوئی ان حضرات کا خصوصی امتیازات ہیں۔ بڑے صاحب زادے مولانا احمد صاحب قاسمی ابتدا میں مولانا کے سفر و حضر میں ساتھ رہے۔ بعد میں چھوٹے صاحبزادے مولانا اسجد صاحب شریک سفر رہا کرتے تھے۔ اور اہم امور میں مشورے کے لیے انھیں ترجیح دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد صاحب قاسمی، سر دست مدرسہ حسینیہ کے ذمہ دار ہیں۔ انھیں مولانا نور اللہ مرقدہ نے حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ کے مشورے سے نائب مہتمم بنایا تھا۔ مولانا کی صاحب زادیوں کی تعدادآٹھ ہیں، جن میں سے قدرت، نعمت اور بریرت اللہ کو پیاری ہوگئی ہیں، جب کہ رحمت، فرحت، راحت، عشرت اور نصرت باحیات ہیں اور صاحب اولاد و احفاد ہیں۔ ان کے شوہروں کے نام علیٰ الترتیب یہ ہیں: حافظ و قاری حسام الدین شبول مدھوبنی، حافظ ابو نصر کھیروا مدھوبنی، مولانا صفات اللہ اتھوس مدھوبنی، عبدالعلام گڑھیا مدھوبنی اور مولانا ضیاء الدین شبول مدھوبنی۔
مولانا کے خصوصی امتیازات
مولانا کے چھوٹے صاحبزادے مولانا اسجد صاحب قاسمی کے مطابق مولانا وقت کے بہت پابند تھے۔ ملاقات کرنے والوں سے جو وقت طے ہوجاتا تھا، مولانا اس سے پہلے ہی ملاقات کے لیے تیار رہتے تھے۔ اسی طرح اگر کہیں پروگرام کے لیے وقت دیتے تھے تو انتظامیہ کی طرف سے خواہ کوئی انتظام نہ ہو، لیکن مولانا وہاں نہ پہنچنا وعدہ خلافی تصور کرتے تھے اور خود پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔
ان کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ مدرسہ کے تعلق سے حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے فکر کے امین و وارث تھے۔ خاص طور سے مالیات کے تعلق سے مالداروں پر تکیہ نہیں کرتے تھے؛ بلکہ اس کے مقابلے میں غریبوں کے تعاون کو زیادہ سراہتے تھے۔ مولانا اسجد صاحب قاسمی نے اس تعلق سے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ رانچی کے اطراف میں ایک غریب بڑھیا رہتی تھی، جو ہر سال تقریبا چار کلو چاول چندہ دیا کرتی تھی۔ وہ انتہائی غریب تھی، اس کے باوجود وہ روزانہ اپنے گھر میں پکانے والے چاول میں سے ایک مٹھی چاول نکالتی تھی اور اسے مدرسہ کے چندہ کے نام پر اکٹھا کرتی تھی۔ پھر جب سال میں ایک مرتبہ مولانا تشریف لے جاتے تھے تو وہ یہ چندہ دیا کرتی تھی۔ مولانا خصوصی طور پر اسی بوڑھی عورت کا چندہ لینے جایا کرتے تھے ارو بڑی محبت سے اسے ایک چادر میں باندھ کر لاتے اور حفاظت سے رکھتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ ایسے ہی چندوں کی برکت سے مدرسہ چلا کرتا ہے۔ مولانا کا یہ نظریہ تھا کہ جو شخص بھی دے اور جو کچھ بھی دے، اسے محبت اور شکریے کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ بڑے آدمی اور بڑی مقدار پر ہی اپنے خلوص کو مخصوص نہیں رکھنا چاہیے۔ اس سے مدرسے کی حصولیابی میں بے برکتی پیدا ہوتی ہے اور پھر مدرسے پر حالات آنے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ جیسے علاقہ میں آج بھی سب سے بڑا مدرسہ مدرسہ حسینیہ ہی ہے۔ اور اس کی بڑائی کا راز حضرت کا یہ مخلصانہ طرز عمل ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی تعزیتی نشست میں اکابرین کے تاثرات
۲۵؍ مئی ۲۰۱۷ ، بروز جمعرات جمعیۃ علماء ہند کے دفتر واقعی آئی ٹی او نئی دہلی میں حضرت والا اور دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی ظفر بجنوری نور اللہ مرقدہ کے لیے ایک تعزیتی اجلاس رکھا گیا، جس میں جمعیۃ علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ نے شرکت کی۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا کی وفات دارالعلوم دیوبند اور جمعےۃ علماء ہند سمیت پوری ملت اسلامیہ کے لیے بڑا خسارہ ہے ۔ تعزیتی اجلاس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے والی شخصیات کی خصوصیات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ ہم ان سے رہ نمائی حاصل کریں۔ موجودہ دور میں ان بزرگوں کے کردار سے روشنی حاصل کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔مولانا مدنی صاحب نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مولانا ازہر صاحب کے تواضع وانکساری کی میں شہادت دیتاہوں ۔ میں مولانا ازہر ؒ کے جنازے میں شریک تھا ، وہاں بہت بڑا مجمع تھا، لوگ مٹی دینے کے لیے ظہر سے مغرب تک قبرستان آتے رہے ۔ مولانا محترم جمعےۃ علماء ہندکے نائب صدر تھے ، آج ہم سے جدا ہوگئے، جس کے لیے ہم ز یادہ تعزیت کے مستحق ہیں ۔
حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ میں مولانا ازہر صاحب رانچی کی تواضع اور للہیت سے کافی متاثر ہوں ،ان سے جب بھی گفتگو ہوتی تو سلام کے بعد پہلا لفظ ’’اللہ ‘‘کا ہوتا تھا، وہ ہمیشہ دعا دیتے ہوئے کہتے تھے کہ بھائی اللہ آپ کو خیریت سے رکھے ۔حضرت مولانا سلمان بجنوری صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مولاناازہر صاحب رانچی بہت ہی سادہ اور نیک دل انسان تھے ۔اس موقع پر مولانا مفتی راشد اعظمی صاحب دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ ان دونوں ہستیوں کے قریب قریب ہی مدت میں رخصت ہوجانے سے گہرا صدمہ پہنچا ہے ۔ انھوں نے اپنے دلی جذبات کاظہار کرتے ہوئے غالب کایہ شعر پیش کیا کہ ’’حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ مولانا متین الحق اسامہ صاحب صدر جمعیۃ علماء صوبہ اتر پردیش نے اپنے خطاب میں اپنی چند یادوں اور ان اکابر کے انداز تربیت پر روشنی ڈالی۔ رانچی سے تشریف لائے جمعۃ علماء جھارکھنڈ کے جنرل سکریٹری مفتی ابوبکر صاحب نے اپنے خطاب میں حضرت کے انداز تربیت کو بیان کرتے ہوئے ، جامعہ حسینیہ کے تعلق سے ان کی بے پناہ جدوجہد کا تذکرہ کیا اور کہاکہ جھارکھنڈ جیسے علاقے میں اتنا بڑا ادارہ قائم کرنا اور اسے بحسن و خوبی چلانا یہ حضرت ہی کی ہمت و حوصلہ کا کام تھا۔ اور آج تک وہاں اس سے بڑا کوئی اور ادارہ نہیں ہے۔اس اجلاس میں مولانا مرحوم کے صاحب زادے مولانا محمد صاحب نے بھی پرسوز خطاب کیا ۔انھوں نے اپنے خطاب میں حضرت مدنی سے تعلق کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ جب بھی بیمار ہوتے تھے ، تو دوران علاج ایک واقعہ سنایا کرتے تھے اور جب بھی وہ واقعہ سنایا کرتے تھے ، تو حضرت والا روبہ صحت ہوجاتے تھے۔ واقعہ یہ تھا کہ حضرت مدنی خواب میں آئے تھے اور میں اب اچھا ہوجاوں گا۔ لیکن اس مرتبہ کوئی ایسا واقعہ سنایا نہیں، جس کے بعد وہ دنیا سے چل بسے۔
جمعیۃ علماء ہندنے اپنے اس تعزیتی اجلاس میں ایک تعزیت نامہ بھی پیش کیا،جسے اس کے سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے پڑھ کر سنایا۔ اس کے متن وہ حصہ جو مولانا مرحوم کے تعلق سے ہے، درج ذیل ہے:
حضرت مولانا ازہر ؒ صاحب
جمعےۃ علماء ہند کا یہ اجلاس حضرت مولانا ازہر نعمانی ؒ صاحب کی جمعےۃ علماء ہندکے تئیں بے لوث خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہے ۔آپ طویل عرصے سے دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری اور جمعےۃ علما ء ہند کے نائب صدراور اس کی مجلس عاملہ کے موقر رکن رہے ۔ ۱۹۹۳ء سے مسلسل جمعےۃ علماء بہار کے صدر رہے ۔ سال ۲۰۰۹ء سے تادم واپسیں جمعےۃ علماء جھارکھنڈ کی صدار ت کی ذمہ داری نبھارہے تھے۔آپ دارالعلوم دیوبند اور جمعےۃ علماء ہند کے تحریکوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ۔آپ تقوی ، نیکی اور دیانت داری میں اسلاف کی روایتوں کے امین تھے۔دور حاضر میں وہ چند گنے چنے افراد میں سے تھے جن کو حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے خاص شاگرد اورخلیفہ مجاز ہونے کا شرف حاصل رہا ۔حضرت شیخ الاسلامؒ کے خادم خاص کی حیثیت سے ، سفر و حضر میں ساتھ رہنے کے موقع کو وہ اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے تھے۔حضرت مدنی ؒ کے وصال کے بعد فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی ؒ کی ماتحتی میں بدستور مدنی منزل دیوبند میں مکتوبات کے جوابات کی ذمہ داری نبھائی،لیکن ۱۹۵۸ء میں مدرسہ حسینہ کے قیام کے بعد رانچی منتقل ہو گئے اور وہیں بودوباش اختیار کرلی ۔
ان دونوں حضرات کے یکے بعد دیگرے چلے جانے سے یقینی طور پر ہم سب یتیمی محسوس کر رہے ہیں، لیکن رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ کو اپنے لیے صبرو سکون بناتے ہوئے ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ
اللھم ارحمھم و اغفر لھم و عافھم و اعف عنھم و اکرم نزلھم و وسع مدخلھم و اغسلھم بالماء و الثلج و البرد و نقھم من الذنوب والخطایا کماینقی الثوب الأبیض من الدنس اللھم جاذھم بالحسنات احساناً و بالسیئات عفوا و غفراناً۔