تثلیث حیات
(4جنوری 2016 یعنی یوم پیدائش یاسیمین بنت محمد یاسین قاسمی کے لیے ایک خصوصی تحریر)
4 جنوری 2016 کی تاریخ تھی اور رات کے 11 بج کر 35 منٹ ہوئے تھے۔ ہلکی ہلکی سرد و خنک کی نشاط آمیز فضا چاروں طرف چھائی ہوئی تھی کہ یکایک کلکاریوں کی چہکار میرے کانوں میں رس گھولنے لگی۔اس نوید مسرت سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پوری کائنات خوشی سے جھوم جھوم رہی ہے۔ شروع میں آنکھوں پر یقین نہیں آیا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس مژدہ جاں فزا کا رفلیکشن تھا، جو میرے وجود کے ساتھ ساتھ میری روح کو بھی کیف و سرور میں مدمست و مدہوش کررہا تھا۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اپنی ایک عظیم نعمت سے نوازا تھا۔ یہ ننھی اور معصوم پری اپنی آمدسے قبل ہی طے شدہ نام کے مطابق یاسمین موسوم ہوئی۔ ہم کسی کی پیدائش پرعید منانے کے قائل نہیں ہیں، اس کے باجود خوشی و شادمانی کا جو احساس ہورہا ہے، اس میں آپ کو بھی شرکت کی دعوت دیتے ہوئے پرویز شاہدی کی نظم تثلیث حیات کے چند منتخب بند اس نئے مہمان کے ایک سال پورے ہونے پر اس کی نذر کرتے ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کی پرورش و پرداخت میں ہمیں کمی و کوتاہی سے محفوظ رکھے اور دین کی داعیہ کا کردار ادا کرنے والی بنے۔ اللھم آمین یا رب العالمین۔
(1)
انگلیاں میری ہیں، لب میرے ہیں، آنکھیں میری
میری پیشانی کا ٹکڑا تری پیشانی ہے
ننھی ننھی یہ بھنویں تیری ہیں یا میری ہیں
تیری رگ رگ میں مرے خون کی جولانی ہے
دست و پا میں جو یہ کیفیت سیمابی ہے
میری ہی روح کی بکھری بیتابی ہے
(02)
تجھ کو اپنے ہی خدوخال تری ماں نے دیے
اپنا شاداب چمکتا ہوا چہرہ بخشا
خلوت بطن میں ہر طرح سنوارا تجھ کو
پیکر حال کو خون رگ فردا بخشا
تجھ کو بخشی ہے تری ماں نے لطافت اپنی
دیکھتی ہے ترے آئینے میں صورت اپنی
(03)
گرہ رشتہ پیمان وفا تیرا وجود
تجھ سے مضبوط ہوا عہد محبت اپنا
ہاتھ میں ہے مرے دل کے دلِ محبوب کا ہاتھ
کتنا بشاش ہے احساس رفاقت اپنا
خستگی شوق کی اب تازہ دمی تک پہنچی
راحتِ ہم سفری ہم قدمی تک پہنچی
(04)
ماں نے موسم کے بدلتے تیور بھانپے
انگلیوں نے مری، کیں نبضِ ہوا سے باتیں
ایک لمحہ بھی نہ چپکے سے گزرنے پایا
دن تو دن آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹی ہیں راتیں
آج کی طرح تمنا کبھی بیدار نہ تھی
اتنی دلچسپ تو کل وقت کی رفتار نہ تھی
(05)
گرچہ ہے سخت بہت معرک? نشو و نما
مامتا صرف سپر ہی نہیں، تلوار بھی ہے
میری شفقت بھی تری جہد بقا میں ہے شریک
دل جری ہی نہیں، کچھ واقف پیکار بھی ہے
ذہن میں سلسل? شام و سحر رہتا ہے
تیرا اندازِ سفر پیش نظر رہتا ہے
(06)
یہ تضاداتِ مسلسل، یہ ستیزِ پیہم
یہ تصادم، یہ ہم آویزی اضداد حیات
ساز سے یہ رم آواز، یہ ربط آواز
زندگی کا یہ تسلسل، یہ تغیر، یہ ثبات
روح تخلیق خفی کو بھی جلی کرتی ہے
ہے یہ ثابت کہ نفی اپنی نفی کرتی ہے
(07)
نفی و اثبات کے تاروں کا مسلسل ٹکراؤ
زندگی کی جدلی زمزمہ پروازی ہے
کائنات اتنی خوش آہنگ جو آتی ہے نظر
عمل و رد عمل ہی کی نوا سازی ہے
حسن معنی ہے یہی، جلو? صورت ہے یہی
نغمہ ہی نغمہ ہے، ہر شئی کی حقیقت ہے یہی
(08)
حسن اور عشق کا یہ جذب? خود افزائی ہی
اک نئے پیکرِ معصوم میں ڈھل جاتا ہے
اسی پیکر سے ابھرتا ہوا نقشِ تثلیث
اپنی وسعت میں جہاں ساز نظر آتا ہے
محفل حسن و محبت اسی تثلیث میں ہے
جلوہ گر شاہدِ فطرت اسی تثلیث میں ہے
(09)
کتنی دلکش ہے خوش امکانی تثلیث حیات
اس کی فطرت ہے خود افراز و خود آرا ہونا
وسعت جلوہ سے ہے حسن کی تکمیلِ شباب
قسمتِ ذرہ ہے آئین? صحرا ہونا
زندگی مست و غزل خواں ہے خود آرائی ہے
ہر کلی جانِ گلستاں ہے خود آرائی ہے
(10)
باپ، ماں، بچے کی فطری سہ رخی وحدت سے
کنبے انسانوں کی تثلیث کی صورت پھیلے
کثرت آرائی فطرت کا یہی مقصد ہے
حسن دنیا میں پھلے پھولے، محبت پھیلے
اور ابھی روشنی مہر مبیں پھیلے گی
گود میں لے کے ستاروں کو زمیں پھیلے گی
(11)
تیری معصوم صدا سے مترنم ہے شعور
علم و حکمت کو بھی موسیقی جذبات ملی
دھڑکنیں دل کی خوش آوازی افکار بنیں
ذہن کو بربط احساس کی سوغات ملی
سازِ ادراک میں نغموں کا تلاطم ہے آج
عقلِ بے لحن ترنم ہی ترنم ہے آج
(12)
سرو قد مجھ کو نظر آتے ہیں ننھے پودے
بڑھ رہا ہے مرا دل بھی ترے قامت کے ساتھ
سامنے آنکھوں کے رہتے ہیں کروڑوں نغمے
جیسے ہر پھول کھلے گا تری صورت کے ساتھ
تجھ سے اے جانِ پدر! میں نے نظر پائی ہے
ساری دنیا مرے پہلو میں سمٹ آئی ہے
(13)
تیری سانسوں سے پگھل کر مرے اعصاب کا موم
سختی آہن و فولاد کو شرماتا ہے
جب ترے ننھے سے پیکر کو اٹھالیتا ہوں
بار آلام سبک مجھ کو نظر آتا ہے
ہے کھلونا غمِ دنیا، مجھے معلوم نہ تھا
میرے بازو ہیں توانا، مجھے معلوم نہ تھا
(14)
رخِ امروز پہ کیوں ہو غم فردا کا غبار
حال کو میرے مبارک ترا ماضی ہونا
نیستی میرے تصور میں نہیں آسکتی
تری ہستی کو ہے بڑھ کر مری ہستی ہونا
تو مری روح، مرا جسم، مرا دل ہے
تیرے چہرے سے درخشاں مرا مستقبل ہے
(15)
ائے مرے پیکرِ نو! ائے مری روحِ پیکار!
پرچم عزم مرا اب تجھے لہرانا ہے
میری آواز نہیں میرے لبوں تک محدود
تیرے ہی ہونٹوں سے کل مجھ کو رجز گانا ہے
ہے تری جہدِ نمو جنگِ مسلسل میری
تیری تکمیل میں ہے فتح مکمل میری
آئیے دعا کریں کہ اللہ ہر ایک والدین کے لعل کو لمبی عمر عطا فرمائے، آمین۔
(4جنوری 2016 یعنی یوم پیدائش یاسیمین بنت محمد یاسین قاسمی کے لیے ایک خصوصی تحریر)
4 جنوری 2016 کی تاریخ تھی اور رات کے 11 بج کر 35 منٹ ہوئے تھے۔ ہلکی ہلکی سرد و خنک کی نشاط آمیز فضا چاروں طرف چھائی ہوئی تھی کہ یکایک کلکاریوں کی چہکار میرے کانوں میں رس گھولنے لگی۔اس نوید مسرت سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پوری کائنات خوشی سے جھوم جھوم رہی ہے۔ شروع میں آنکھوں پر یقین نہیں آیا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس مژدہ جاں فزا کا رفلیکشن تھا، جو میرے وجود کے ساتھ ساتھ میری روح کو بھی کیف و سرور میں مدمست و مدہوش کررہا تھا۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اپنی ایک عظیم نعمت سے نوازا تھا۔ یہ ننھی اور معصوم پری اپنی آمدسے قبل ہی طے شدہ نام کے مطابق یاسمین موسوم ہوئی۔ ہم کسی کی پیدائش پرعید منانے کے قائل نہیں ہیں، اس کے باجود خوشی و شادمانی کا جو احساس ہورہا ہے، اس میں آپ کو بھی شرکت کی دعوت دیتے ہوئے پرویز شاہدی کی نظم تثلیث حیات کے چند منتخب بند اس نئے مہمان کے ایک سال پورے ہونے پر اس کی نذر کرتے ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کی پرورش و پرداخت میں ہمیں کمی و کوتاہی سے محفوظ رکھے اور دین کی داعیہ کا کردار ادا کرنے والی بنے۔ اللھم آمین یا رب العالمین۔
(1)
انگلیاں میری ہیں، لب میرے ہیں، آنکھیں میری
میری پیشانی کا ٹکڑا تری پیشانی ہے
ننھی ننھی یہ بھنویں تیری ہیں یا میری ہیں
تیری رگ رگ میں مرے خون کی جولانی ہے
دست و پا میں جو یہ کیفیت سیمابی ہے
میری ہی روح کی بکھری بیتابی ہے
(02)
تجھ کو اپنے ہی خدوخال تری ماں نے دیے
اپنا شاداب چمکتا ہوا چہرہ بخشا
خلوت بطن میں ہر طرح سنوارا تجھ کو
پیکر حال کو خون رگ فردا بخشا
تجھ کو بخشی ہے تری ماں نے لطافت اپنی
دیکھتی ہے ترے آئینے میں صورت اپنی
(03)
گرہ رشتہ پیمان وفا تیرا وجود
تجھ سے مضبوط ہوا عہد محبت اپنا
ہاتھ میں ہے مرے دل کے دلِ محبوب کا ہاتھ
کتنا بشاش ہے احساس رفاقت اپنا
خستگی شوق کی اب تازہ دمی تک پہنچی
راحتِ ہم سفری ہم قدمی تک پہنچی
(04)
ماں نے موسم کے بدلتے تیور بھانپے
انگلیوں نے مری، کیں نبضِ ہوا سے باتیں
ایک لمحہ بھی نہ چپکے سے گزرنے پایا
دن تو دن آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹی ہیں راتیں
آج کی طرح تمنا کبھی بیدار نہ تھی
اتنی دلچسپ تو کل وقت کی رفتار نہ تھی
(05)
گرچہ ہے سخت بہت معرک? نشو و نما
مامتا صرف سپر ہی نہیں، تلوار بھی ہے
میری شفقت بھی تری جہد بقا میں ہے شریک
دل جری ہی نہیں، کچھ واقف پیکار بھی ہے
ذہن میں سلسل? شام و سحر رہتا ہے
تیرا اندازِ سفر پیش نظر رہتا ہے
(06)
یہ تضاداتِ مسلسل، یہ ستیزِ پیہم
یہ تصادم، یہ ہم آویزی اضداد حیات
ساز سے یہ رم آواز، یہ ربط آواز
زندگی کا یہ تسلسل، یہ تغیر، یہ ثبات
روح تخلیق خفی کو بھی جلی کرتی ہے
ہے یہ ثابت کہ نفی اپنی نفی کرتی ہے
(07)
نفی و اثبات کے تاروں کا مسلسل ٹکراؤ
زندگی کی جدلی زمزمہ پروازی ہے
کائنات اتنی خوش آہنگ جو آتی ہے نظر
عمل و رد عمل ہی کی نوا سازی ہے
حسن معنی ہے یہی، جلو? صورت ہے یہی
نغمہ ہی نغمہ ہے، ہر شئی کی حقیقت ہے یہی
(08)
حسن اور عشق کا یہ جذب? خود افزائی ہی
اک نئے پیکرِ معصوم میں ڈھل جاتا ہے
اسی پیکر سے ابھرتا ہوا نقشِ تثلیث
اپنی وسعت میں جہاں ساز نظر آتا ہے
محفل حسن و محبت اسی تثلیث میں ہے
جلوہ گر شاہدِ فطرت اسی تثلیث میں ہے
(09)
کتنی دلکش ہے خوش امکانی تثلیث حیات
اس کی فطرت ہے خود افراز و خود آرا ہونا
وسعت جلوہ سے ہے حسن کی تکمیلِ شباب
قسمتِ ذرہ ہے آئین? صحرا ہونا
زندگی مست و غزل خواں ہے خود آرائی ہے
ہر کلی جانِ گلستاں ہے خود آرائی ہے
(10)
باپ، ماں، بچے کی فطری سہ رخی وحدت سے
کنبے انسانوں کی تثلیث کی صورت پھیلے
کثرت آرائی فطرت کا یہی مقصد ہے
حسن دنیا میں پھلے پھولے، محبت پھیلے
اور ابھی روشنی مہر مبیں پھیلے گی
گود میں لے کے ستاروں کو زمیں پھیلے گی
(11)
تیری معصوم صدا سے مترنم ہے شعور
علم و حکمت کو بھی موسیقی جذبات ملی
دھڑکنیں دل کی خوش آوازی افکار بنیں
ذہن کو بربط احساس کی سوغات ملی
سازِ ادراک میں نغموں کا تلاطم ہے آج
عقلِ بے لحن ترنم ہی ترنم ہے آج
(12)
سرو قد مجھ کو نظر آتے ہیں ننھے پودے
بڑھ رہا ہے مرا دل بھی ترے قامت کے ساتھ
سامنے آنکھوں کے رہتے ہیں کروڑوں نغمے
جیسے ہر پھول کھلے گا تری صورت کے ساتھ
تجھ سے اے جانِ پدر! میں نے نظر پائی ہے
ساری دنیا مرے پہلو میں سمٹ آئی ہے
(13)
تیری سانسوں سے پگھل کر مرے اعصاب کا موم
سختی آہن و فولاد کو شرماتا ہے
جب ترے ننھے سے پیکر کو اٹھالیتا ہوں
بار آلام سبک مجھ کو نظر آتا ہے
ہے کھلونا غمِ دنیا، مجھے معلوم نہ تھا
میرے بازو ہیں توانا، مجھے معلوم نہ تھا
(14)
رخِ امروز پہ کیوں ہو غم فردا کا غبار
حال کو میرے مبارک ترا ماضی ہونا
نیستی میرے تصور میں نہیں آسکتی
تری ہستی کو ہے بڑھ کر مری ہستی ہونا
تو مری روح، مرا جسم، مرا دل ہے
تیرے چہرے سے درخشاں مرا مستقبل ہے
(15)
ائے مرے پیکرِ نو! ائے مری روحِ پیکار!
پرچم عزم مرا اب تجھے لہرانا ہے
میری آواز نہیں میرے لبوں تک محدود
تیرے ہی ہونٹوں سے کل مجھ کو رجز گانا ہے
ہے تری جہدِ نمو جنگِ مسلسل میری
تیری تکمیل میں ہے فتح مکمل میری
آئیے دعا کریں کہ اللہ ہر ایک والدین کے لعل کو لمبی عمر عطا فرمائے، آمین۔