محمد یاسین جہازی
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
حضرت مولاناریاست علی ظفر بجنوری صاحب نور اللہ مرقدہ (09-03-1940- 20-05-2017) کی وفات پر ایک حکایتی تحریر
دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوری ۲۰؍ مئی ، بروز سنیچر علیٰ الصباح دیوبند میں انتقال فرماگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اکابرین کے ساتھ تعلق کی نوعیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، راقم کے لیے یہ فخر کی نسبت ہے کہ ان کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ جس کے شواہد پیش خدمت ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے طالب علم ہونے کی نسبت سے استاذ ہونے کے علاوہ حضرت مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ سے کچھ اور بھی رشتہ تھا۔ اور اس رشتہ کی روداد یہ ہے کہ جب حضرت مولانا منیر الدین صاحب گڈاوی کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں ہوا، توشروعاتی زمانے میں ان کا قیام حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کے کمرہ میں رہا۔ یہ کمرہ مسجد قدیم کے شمالی حصے سے متصل بالائی منزل پر واقع ہے۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ صرف ایک کمرہ نہیں تھا، بلکہ حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کا ذاتی کتب خانہ بھی تھا، جس میں مختلف علوم و فنون کی ہزاروں کتابیں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں۔ ایک دن ایسا ہوا کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک ساتھی طالب جناب مولوی جہاں گیر صاحب نے ۔جو مولانا کے طعام کے ذمہ دار تھے ۔ایک دن مجھ سے کہا کہ کل جمعہ کی مناسبت سے مولانا کے کمرے کی صفائی کرنی ہے، تو تھوڑا ساتھ دینا پڑے گا، اسی بہانے سے مولانا سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ چنانچہ راقم نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔ اور اگلے دن ان کے ہمراہ مولانا کے کمرے کی صفائی کا فریضہ انجام دینے چلا گیا۔ ناتجربہ کاری دیکھیے کہ صفائی کی دھلائی میں کافی کتابیں اور قدیم اخبارات زد میں آگئے۔ پھر انھیں دھوپ میں ڈالا گیا۔ جب انھیں اپنی جگہ پر رکھنے کا وقت آیا تو کافی بے ترتیبی ہوگئی۔اس پر مولانا نے کہا کہ اگر ترتیب کے مطابق رکھا جاتا تو بہتر ہوتا ، کیوں کہ مولانا نور اللہ مرقدہ نے اپنی ضرورت اور ترتیب کے مطابق انھیں رکھا تھا۔ اس پر راقم نے یہ عندیہ دیا کہ ان شاء اللہ آپ اجازت دیں، تو میں ساری کتابیں فن کے اعتبار سے مرتب کردوں؟ مولانا نے نہ صرف اجازت دی؛ بلکہ دعا دیتے ہوئے کمرے کی ایک چابھی بھی عنایت فرمادی۔ اس کے بعد ہوا ایسا کہ راقم از سر نو کتابیں ترتیب دینے لگا، جب کچھ نایاب کتابوں اور مولانا نور اللہ مرقدہ کے ذاتی مطالعے کی کتابوں پر لکھے ان کے نوٹ پر نظر پڑی، تو مولانا کی سبھی کتابوں کو پڑھنے کا ایسا شوق ہوا کہ پھر ترتیب کم اور مطالعہ زیادہ ہوتا تھا۔ مولانا کے شذرات کے مطالعے سے ان کی عظمت کا سکہ میرے دل پر بیٹھ گیا اور مولانا سے مجھے گہری عقیدت ہوگئی۔
مولانا نور اللہ مرقدہ چوں کہ علیا کے استاذ تھے ، اس لیے نیچے کے درجات میں تو نہیں؛ البتہ دورہ حدیث شریف میں ابن ماجہ شریف پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ مولانا کے درس میں جب اختلاف مذاہب پر کلام ہوتا تھا ، تو حنفیت کی حقانیت اور اس کے اقرب الیٰ النصوص ہونے کا یقین بڑھتا چلا جاتا تھا،جو مولانا مرحوم کے تبحر علمی اور مہارت حدیث کا عملی مظہر تھا۔ بعد ازاں جب دورہ حدیث سے فراغت کے بعد تکمیل ادب عربی کے شعبہ میں داخل ہوا، تو یہاں مولانا نور اللہ مرقدہ سے البلاغۃ الواضحۃ متعلق تھی۔ چنانچہ حضرت وقت کی پابندی کے ساتھ درس میں تشریف لاتے تھے اور عبارت خوانی کے بعد تشریح متن فرماتے ۔ پھر ہر سبق کے تحت دی گئی مشقوں کو حل کرنے کے لیے کہتے ہوئے شیریں دہن سے محبت و شیفتگی سے لبریز یہ جملہ ارشاد فرماتے کہ ’’ بیٹا ! جاری کرنا‘‘۔ پھر روحانی فرزند اپنی اپنی سمجھ کے مطابق قواعد کو منطبق کرنے کی کوشش کرتے۔ اگر کوئی شخص مکمل اجرا کردیتا ، تو دوسرا جملہ اس کے لیے یہ فرماتے کہ ’’شاباش بیٹا!‘‘ پھر کسی دوسرے طالب کی علم کی طرف نظر دوڑاتے۔ پھر اسے کہتے’’ بیٹا ! اب آپ جاری کرنا‘‘۔ پھر وہ اپنی سمجھ کے مطابق کرتا۔ اگر کوئی طالب علم قواعد کا اجرا نہیں کرپاتا، تو ناراض نہیں ہوتے تھے؛ بلکہ جزوی سہارا دیتے۔ اور اس طرح سے اجرا مکمل کرادیتے۔ جب اجرا مکمل ہوجاتا ،تو ہرچند کہ اس میں زیادہ اجرا مولانا نور اللہ مرقدہ ہی کی طرف سے ہوتا تھا، اس کے باوجود ، اس کو شاباشی دیتے اور کہتے ’’ شاباش بیٹا!‘‘۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ایک ہی طالب علم سے ایک ہی اجرا کو کئی کئی مرتبہ کہلواتے اور اس کے باوجود وہ نہیں کرپاتا، تو ناراض بالکل نہیں ہوتے تھے، بلکہ یہ فرماتے کہ سمجھ میں تو آہی گیا ہے، بس تھوڑا اور زور لگانے کی ضرورت ہے۔ مولانا کا یہ انداز درس اتنا موثر تھا کہ غبی سے غبی طالب علم بھی فن سے روشناس ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔
مولانا کی سادگی اور تواضع تو گویا ضرب المثل تھی،اس سلسلے کے دو واقعے ، جن کو راقم نے بذات خود دیکھاہے ، پیش کرتا ہوں۔
ہمارے زمانے میں تکمیل ادب کا جو شعبہ تھا،وہاں اساتذہ کرام کی چپل رکھنے کی ایک مخصوص جگہ تھی۔ اور اساتذہ عموما اپنے جوتے یا چپل وہیں اتارتے تھے۔ لیکن مولانا نور اللہ مرقدہ عموما وہاں نہیں اتارتے تھے ، بلکہ اس کے نیچے اتارتے تھے ، جہاں سبھی طالب علموں کے جوتے چپل ہوتے تھے۔ مولانا نور اللہ مرقدہ عموما ہوائی چپل پہن کر آتے تھے ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ حسب معمول حضرت نے اپنی ہوائی چپل نیچے اتاری۔ ایک طالب علم آیا۔ اس نے دیکھا کہ جہاں پر اساتذہ کی چپلیں رہتی ہیں، وہ جگہ خالی ہے اور مولانا مرحوم تشریف فرما ہیں، تو اس نے نیچے سے ایک قیمتی اور خوبصورت چپل اٹھاکراوپر رکھ دیا ، جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اتنی قیمتی اور نمایاں چپل تو مولانا ہی کی ہوگی۔ جب درس سے فراغت کے بعد واپس ہونے لگے تو مولانا نے اوپر ایک قیمتی چپل دیکھا ، تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میری چپل کہاں ہے بھائی؟ یہ چپل تو اتنی قیمتی ہے کہ میرے لیے ہدیہ بھی موزوں شخص کے لیے نہیں ہوگا۔ یہ سن کر چپل والے طالب علم نے کہا کہ حضرت اسے قبول فرمالیں ، تو حضرت نے جواب دیا کہ بھائی جوانی میں کبھی ایسی قیمتی چیز پہننے کا شوق نہیں ہوا، تو اب بڑھاپے میں اس کی کہاں گنجائش ہے۔پھر فرمایا کہ جس طالب علم نے میری چپل سمجھ کر اس چپل کو یہاں رکھا ہے، وہ اگر میرے کرتے کو دیکھ لیتے تو انھیں غلط فہمی نہیں ہوتی۔ پھر نیچے اپنی چپل دیکھ کر حضرت نے خود ہی اٹھائی اور اسے پہن کر درس گاہ سے روانہ ہوگئے۔
جمعیۃ علماء ہند کے شعبہ مباحث فقہیہ سے وابستگی کی نسبت سے ایک دن حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں دیوبند حاضر ہوا۔ شعبہ کا کام یہ تھا کہ اکابرین محترم حالات کے مطابق کوئی موضوع تجویز فرمائیں گے، جس پر جمعیۃ سیمینار کرے گی۔ اس تعلق سے دیگر اساتذۂ دارالعلوم کے ساتھ حضرت نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں بھی حاضر ی ہوئی۔ عصر کے بعد مولانا مرحوم کے مکان پراساتذہ دارالعلوم کی پر رونق محفل سجی ہوئی تھی ۔ اساتذہ حضرت مولانا سے گفتگو میں مصروف تھے کہ موقع پر ناچیز نے بھی اپنی بات رکھی ۔ اور ساتھ میں شعبہ کی طرف سے جاری خط کو بھی حضرت والا کی خدمت میں پیش کیا۔ خط پڑھ کر حضرت نے حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ ساتھ اپنا پورا تعاون دینے کا وعدہ کیا ۔ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ جب یہ ایک مستقل کام تھا، تو حضرت سے پہلے ملاقات کا وقت لے لینا چاہیے تھا، لیکن پیشگی کسی اطلاع کے بغیر حضرت کے پاس گیا، تو نہ ناگواری کا اظہار فرمایا اور نہ ہی عدم تعاون کا عذر پیش کیا ؛ بلکہ تعاون اور دعا دونوں سے نوازا۔ اسے حضرت نور اللہ مرقدہ کے تواضع کے علاوہ کیا عنوان دیا جاسکتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے تعلق سے حضرت دفتر تشریف لایا کرتے تھے، تو گاہے بگاہے نیازی کا شرف حاصل ہوتا رہتا تھا۔ اور ہر مرتبہ خلوص و للہیت سے لبریز دعاوں سے نوازتے تھے۔ آج جبکہ حضرت کی ذات ہمارے درمیان نہیں ہے، تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دعاوں کے تعلق سے بھی کتنا خلا پیدا گیا ہے۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ واٹس ایپ دیکھ رہا تھا کہ داما دم پیغامات آنے لگے ، اور تقریبا ہر پیغام یہی خبر دے رہا تھا کہ حضرت نور اللہ مرقدہ اس دار فانی سے رحمت الٰہی کی آغوش میں چلے گئے، انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ پہلے یقیناًسا نہیں آیا، لیکن خبر کے تواتر نے یقین کرنے پر مجبور کیا اور شکستہ خاطر کے ساتھ ہمیں پڑھنا پڑا کہ بیشک ہم سب اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کے پاس لوٹ کر جائیں گے۔
کچھ لمحے بعد دفتر جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں سے ایک وفد جنازے میں شرکت کے لیے جائے گا، جس میں مولانا معز الدین صاحب ، مولانا محمد یوسف صاحب ، مولانا محمد عرفان صاحب ، مولانا کلیم الدین صاحب اور ناچیز کا نام شامل کیا گیا۔پھر یہ وفد دیوبند کے لیے روانہ ہوگیا۔ اور تقریبا ڈیڑھ بجے دارالعلوم پہنچا ۔ مسجد قدیم میں ظہر کی نماز کے بعد علیٰ الفور احاطہ مولسری میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے امامت کی۔بعد ازاں جنازہ قبرستان قاسمی میں لایا گیا اور اس عظیم ہستی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔
جمعیۃ علماء ہند کی تعزیتی نشست میں اکابرین کے تاثرات
۲۵؍ مئی ۲۰۱۷ ، بروز جمعرات جمعیۃ علماء ہند کے دفتر واقعی آئی ٹی او نئی دہلی میں مولانا محترم اور مولانا ازہر صاحب رنچوی کے لیے ایک تعزیتی اجلاس رکھا گیا، جس میں جمعیۃ علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ نے شرکت کی۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں شخصیات کی وفات دارالعلوم دیوبند اور جمعےۃ علماء ہند سمیت پوری ملت اسلامیہ کے لیے بڑا خسارہ ہے ۔ تعزیتی اجلاس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے والی شخصیات کی خصوصیات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ ہم ان سے رہ نمائی حاصل کریں۔ موجودہ دور میں ان بزرگوں کے کردار سے روشنی حاصل کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔حضرت مولانا ریاست علی صاحب ایک مخلص مشیر اور سادگی کے پیکرتھے ۔مجھے یاد ہے کہ۲۰۱۳ء میں امن عالم کانفرنس دیوبند میں منعقد ہوئی۔مولانا ریاست علیؒ صاحب نے بہت ہی جامع بات کہی کہ ’’ اسلام مذہب امن واعتدال ہے اور دیوبندیت مسلک امن و اعتدال ہے ‘‘،یہ جملہ بہت چھوٹا ہے لیکن کافی جامع ہے۔مولانا مدنی صاحب نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مولانا ریاست علی کے تواضع وانکساری کی میں شہادت دیتاہوں ۔ مولانا نور اللہ مرقدہ جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر تھے، اس لیے تعزیت کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔
حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مولانا ریاست علیؒ سادہ طبع اور مستحکم رائے والے انسان تھے ۔ ان کی تالیف ایضاح البخاری ایسا گراں قدر کارنامہ ہے کہ اگر کوئی اور چیز نہ ہوتی، تو صر ف یہ کتاب ان کی عظمت ظاہرکرنے کے لیے کافی تھی ۔انھوں نے کہا کہ مختلف مجلسوں میں ان سے گفتگو کا موقع ملا ،میں نے کبھی ان کو زود رائے اور پژمردہ نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ آخر میں رائے دیتے تھے اور مسکراتے رہتے۔ حضرت مولانا سلمان بجنوری صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مولانا ریاست علی ؒ ورع اور تقوی کے انسان تھے ،تواضع کا یہ عالم تھا کہ ان کو اگر اعزاز دیا جاتا تو دلی تکلیف ہو تی تھی ، وہ ہمیشہ عہدوں اور مسندوں سے گریز کرتے تاہم وہ اعلی درجہ کے خود اعتماد تھے۔ مولانا سلمان بجنوری صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے صاحبزادے نے عید کے موقع پر کپڑا کے لیے رقم مانگی ، مگر ان کے پاس نہیں تھی ۔ اگلے دن چند لفافوں میں رقم ڈال رہے تھے ، اسی لڑکے نے دیکھ لیا ، حضرت نے بلایا او رکہا بیٹے تم سے کیا چھپا نا یہ رقم ضرورت مند بیواؤں اور یتیموں کے لیے ہے ، جسے ہرسال عید کے موقع پر دیتا ہوں ، اس بار اپنے پاس نہیں تھی تو بیس ہزار قرض لے کر ان کو دے رہا ہوں ۔مولانا قاری شوکت علی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مولانا ریاست علی صاحب کی شخصیت ہشت پہلو تھی ۔ وہ شخصیت ساز ، خرد نواز اور نفع رساں انسان تھے ، ایضاح البخاری ان کے فکر کی پختگی کا خارجی ثبوت ہے ۔اس موقع پر مولانا مفتی راشد اعظمی صاحب دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ ان دونوں ہستیوں کے قریب قریب ہی مدت میں رخصت ہوجانے سے گہرا صدمہ پہنچا ہے ۔ انھوں نے اپنے دلی جذبات کاظہار کرتے ہوئے غالب کایہ شعر پیش کیا کہ ’’حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ مولانا متین الحق اسامہ صاحب صدر جمعیۃ علماء صوبہ اتر پردیش نے اپنے خطاب میں اپنی چند یادوں اور ان اکابر کے انداز تربیت پر روشنی ڈالی۔ اس اجلاس میں مولانا مرحوم کے صاحب زادے مولانا عدنان صاحب نے بھی خطاب کیا اور اپنے والد محترم کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا۔جمعیۃ علماء ہندنے اپنے اس تعزیتی اجلاس میں ایک تعزیت نامہ بھی پیش کیا،جسے اس کے سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے پڑھ کر سنایا۔ اس کے متن کا وہ حصہ جو حضرت مولانا سے متعلق پیش خدمت ہے۔
حضرت مولانا ریاست علی ظفر ؒ صاحب بجنوری
حضرت مولانا ریاست علی ؒ کو اللہ تعالی نے گرا ں قدر علم وفضل کی دولت سے نوازا تھا، علمی بصیرت ، فکر رسا، تعمق نظر، ادبی ذوق، تحقیق و تفتیش کا وہ شوق عطا فرمایا تھا ، جس نے آپ کو یکتائے روزگار بنادیا ۔معاملہ فہمی اور رسائی فکر کا وہ جوہر آپ کو میسر ہوا تھا جو ہر پیچیدہ معاملے کی گتھی کو آسانی سے سلجھا دیتا ہے۔حضرت والانے ۱۹۷۲ء سے تام واپسیں پینتالیس سالوں تک دارالعلوم دیوبند میں استاذحدیث کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی ۔اس طویل مدت تک در س وتدریس میں ہزارہا تشنگان علوم آپ کے سرچشمہ فیض سے بلاواسطہ فیضیاب ہوئے ۔آ پ جیسے کریم النفس، مشفق استاذ اور رفیق عمل کا سایہ بڑی سعادت اوران کی وفات بڑی محرومی اور عظیم نقصان ہے ۔ آپ علم حدیث و فقہ کے بڑے عالم کے ساتھ اردو زبان وادب کے بہترین قلم کار وادیب بھی تھے۔آپ کی شاعری کا مجموعہ’’ نغمہ سحر‘‘ ایک عمدہ کاوش ہے ، اس کے علاوہ ’’ایضاح البخاری‘‘ ’’ شوری کی شرعی حیثیت ‘‘ سے فیضان علوم دہائیوں سے فیض حاصل کررہے ہیں۔ آپ کا لکھا ہو ا دارالعلوم کا ترانہ نہایت جامع و مقبول ہے ، اس میں دارالعلوم کی خصوصیا ت ، مقصد تاسیس ، تاریخی واقعات کو بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ آپ نے جمعےۃ علما ء ہند پر بھی بہترین ترانہ لکھا ہے۔
جمعےۃ علماء ہند، آپ کی محبوب جماعت رہی ۔شروع میں جمعےۃ علماء ہند کے دفتر سے وابستہ رہے ، پھر بعد میں دارالعلوم دیوبند چلے گئے ، لیکن اس کے باوجود جمعےۃ سے آپ کا تعلق قائم رہا ۔ آپ سال۲۰۱۱ء سے جمعےۃ علماء ہند کے مسلسل نائب صدر منتخب ہو تے رہے۔جمعےۃ علماء ہند نے آپ کی رہ نمائی اور سرپرستی سے ہر موقع پر روشنی حاصل کی اور آپ کے مدبرانہ مشوروں پر عمل کرکے وقار وعظمت اور قومی اعتماد کا بلند مقام حاصل کیا ۔
جمعےۃ علماء ہند کا یہ اجلاس آپ کی علمی ودینی و ملی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ، وفات پر ملال کو موت العالم موت العالم کی صحیح تصویر قراریتا ہے اور آپ کے تمام متوسلین اور پسماندگان سے دلی ہمدردری کا اظہار کرتا ہے۔ہم سب دست بدعا ہیں کہ ا للہ تعالی آپ کو اپنی مرضیات سے نوازے اور روح پرفلاح کو جنت الفردوس میں قیام اعلی عطا فرمائے اور انبیاء و صادقین کا رفیق بنائے ( آمین )
ان دونوں حضرات کے یکے بعد دیگرے چلے جانے سے یقینی طور پر ہم سب یتیمی محسوس کر رہے ہیں، لیکن رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ کو اپنے لیے صبرو سکون بناتے ہوئے ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ
اللھم ارحمھم و اغفر لھم و عافھم و اعف عنھم و اکرم نزلھم و وسع مدخلھم و اغسلھم بالماء و الثلج و البرد و نقھم من الذنوب والخطایا کماینقی الثوب الأبیض من الدنس اللھم جاذھم بالحسنات احساناً و بالسیئات عفوا و غفراناً۔
حضرت مولاناریاست علی ظفر بجنوری صاحب نور اللہ مرقدہ (09-03-1940- 20-05-2017) کی وفات پر ایک حکایتی تحریر
دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوری ۲۰؍ مئی ، بروز سنیچر علیٰ الصباح دیوبند میں انتقال فرماگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اکابرین کے ساتھ تعلق کی نوعیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، راقم کے لیے یہ فخر کی نسبت ہے کہ ان کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ جس کے شواہد پیش خدمت ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے طالب علم ہونے کی نسبت سے استاذ ہونے کے علاوہ حضرت مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ سے کچھ اور بھی رشتہ تھا۔ اور اس رشتہ کی روداد یہ ہے کہ جب حضرت مولانا منیر الدین صاحب گڈاوی کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں ہوا، توشروعاتی زمانے میں ان کا قیام حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کے کمرہ میں رہا۔ یہ کمرہ مسجد قدیم کے شمالی حصے سے متصل بالائی منزل پر واقع ہے۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ صرف ایک کمرہ نہیں تھا، بلکہ حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کا ذاتی کتب خانہ بھی تھا، جس میں مختلف علوم و فنون کی ہزاروں کتابیں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں۔ ایک دن ایسا ہوا کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک ساتھی طالب جناب مولوی جہاں گیر صاحب نے ۔جو مولانا کے طعام کے ذمہ دار تھے ۔ایک دن مجھ سے کہا کہ کل جمعہ کی مناسبت سے مولانا کے کمرے کی صفائی کرنی ہے، تو تھوڑا ساتھ دینا پڑے گا، اسی بہانے سے مولانا سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ چنانچہ راقم نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔ اور اگلے دن ان کے ہمراہ مولانا کے کمرے کی صفائی کا فریضہ انجام دینے چلا گیا۔ ناتجربہ کاری دیکھیے کہ صفائی کی دھلائی میں کافی کتابیں اور قدیم اخبارات زد میں آگئے۔ پھر انھیں دھوپ میں ڈالا گیا۔ جب انھیں اپنی جگہ پر رکھنے کا وقت آیا تو کافی بے ترتیبی ہوگئی۔اس پر مولانا نے کہا کہ اگر ترتیب کے مطابق رکھا جاتا تو بہتر ہوتا ، کیوں کہ مولانا نور اللہ مرقدہ نے اپنی ضرورت اور ترتیب کے مطابق انھیں رکھا تھا۔ اس پر راقم نے یہ عندیہ دیا کہ ان شاء اللہ آپ اجازت دیں، تو میں ساری کتابیں فن کے اعتبار سے مرتب کردوں؟ مولانا نے نہ صرف اجازت دی؛ بلکہ دعا دیتے ہوئے کمرے کی ایک چابھی بھی عنایت فرمادی۔ اس کے بعد ہوا ایسا کہ راقم از سر نو کتابیں ترتیب دینے لگا، جب کچھ نایاب کتابوں اور مولانا نور اللہ مرقدہ کے ذاتی مطالعے کی کتابوں پر لکھے ان کے نوٹ پر نظر پڑی، تو مولانا کی سبھی کتابوں کو پڑھنے کا ایسا شوق ہوا کہ پھر ترتیب کم اور مطالعہ زیادہ ہوتا تھا۔ مولانا کے شذرات کے مطالعے سے ان کی عظمت کا سکہ میرے دل پر بیٹھ گیا اور مولانا سے مجھے گہری عقیدت ہوگئی۔
مولانا نور اللہ مرقدہ چوں کہ علیا کے استاذ تھے ، اس لیے نیچے کے درجات میں تو نہیں؛ البتہ دورہ حدیث شریف میں ابن ماجہ شریف پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ مولانا کے درس میں جب اختلاف مذاہب پر کلام ہوتا تھا ، تو حنفیت کی حقانیت اور اس کے اقرب الیٰ النصوص ہونے کا یقین بڑھتا چلا جاتا تھا،جو مولانا مرحوم کے تبحر علمی اور مہارت حدیث کا عملی مظہر تھا۔ بعد ازاں جب دورہ حدیث سے فراغت کے بعد تکمیل ادب عربی کے شعبہ میں داخل ہوا، تو یہاں مولانا نور اللہ مرقدہ سے البلاغۃ الواضحۃ متعلق تھی۔ چنانچہ حضرت وقت کی پابندی کے ساتھ درس میں تشریف لاتے تھے اور عبارت خوانی کے بعد تشریح متن فرماتے ۔ پھر ہر سبق کے تحت دی گئی مشقوں کو حل کرنے کے لیے کہتے ہوئے شیریں دہن سے محبت و شیفتگی سے لبریز یہ جملہ ارشاد فرماتے کہ ’’ بیٹا ! جاری کرنا‘‘۔ پھر روحانی فرزند اپنی اپنی سمجھ کے مطابق قواعد کو منطبق کرنے کی کوشش کرتے۔ اگر کوئی شخص مکمل اجرا کردیتا ، تو دوسرا جملہ اس کے لیے یہ فرماتے کہ ’’شاباش بیٹا!‘‘ پھر کسی دوسرے طالب کی علم کی طرف نظر دوڑاتے۔ پھر اسے کہتے’’ بیٹا ! اب آپ جاری کرنا‘‘۔ پھر وہ اپنی سمجھ کے مطابق کرتا۔ اگر کوئی طالب علم قواعد کا اجرا نہیں کرپاتا، تو ناراض نہیں ہوتے تھے؛ بلکہ جزوی سہارا دیتے۔ اور اس طرح سے اجرا مکمل کرادیتے۔ جب اجرا مکمل ہوجاتا ،تو ہرچند کہ اس میں زیادہ اجرا مولانا نور اللہ مرقدہ ہی کی طرف سے ہوتا تھا، اس کے باوجود ، اس کو شاباشی دیتے اور کہتے ’’ شاباش بیٹا!‘‘۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ایک ہی طالب علم سے ایک ہی اجرا کو کئی کئی مرتبہ کہلواتے اور اس کے باوجود وہ نہیں کرپاتا، تو ناراض بالکل نہیں ہوتے تھے، بلکہ یہ فرماتے کہ سمجھ میں تو آہی گیا ہے، بس تھوڑا اور زور لگانے کی ضرورت ہے۔ مولانا کا یہ انداز درس اتنا موثر تھا کہ غبی سے غبی طالب علم بھی فن سے روشناس ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔
مولانا کی سادگی اور تواضع تو گویا ضرب المثل تھی،اس سلسلے کے دو واقعے ، جن کو راقم نے بذات خود دیکھاہے ، پیش کرتا ہوں۔
ہمارے زمانے میں تکمیل ادب کا جو شعبہ تھا،وہاں اساتذہ کرام کی چپل رکھنے کی ایک مخصوص جگہ تھی۔ اور اساتذہ عموما اپنے جوتے یا چپل وہیں اتارتے تھے۔ لیکن مولانا نور اللہ مرقدہ عموما وہاں نہیں اتارتے تھے ، بلکہ اس کے نیچے اتارتے تھے ، جہاں سبھی طالب علموں کے جوتے چپل ہوتے تھے۔ مولانا نور اللہ مرقدہ عموما ہوائی چپل پہن کر آتے تھے ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ حسب معمول حضرت نے اپنی ہوائی چپل نیچے اتاری۔ ایک طالب علم آیا۔ اس نے دیکھا کہ جہاں پر اساتذہ کی چپلیں رہتی ہیں، وہ جگہ خالی ہے اور مولانا مرحوم تشریف فرما ہیں، تو اس نے نیچے سے ایک قیمتی اور خوبصورت چپل اٹھاکراوپر رکھ دیا ، جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اتنی قیمتی اور نمایاں چپل تو مولانا ہی کی ہوگی۔ جب درس سے فراغت کے بعد واپس ہونے لگے تو مولانا نے اوپر ایک قیمتی چپل دیکھا ، تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میری چپل کہاں ہے بھائی؟ یہ چپل تو اتنی قیمتی ہے کہ میرے لیے ہدیہ بھی موزوں شخص کے لیے نہیں ہوگا۔ یہ سن کر چپل والے طالب علم نے کہا کہ حضرت اسے قبول فرمالیں ، تو حضرت نے جواب دیا کہ بھائی جوانی میں کبھی ایسی قیمتی چیز پہننے کا شوق نہیں ہوا، تو اب بڑھاپے میں اس کی کہاں گنجائش ہے۔پھر فرمایا کہ جس طالب علم نے میری چپل سمجھ کر اس چپل کو یہاں رکھا ہے، وہ اگر میرے کرتے کو دیکھ لیتے تو انھیں غلط فہمی نہیں ہوتی۔ پھر نیچے اپنی چپل دیکھ کر حضرت نے خود ہی اٹھائی اور اسے پہن کر درس گاہ سے روانہ ہوگئے۔
جمعیۃ علماء ہند کے شعبہ مباحث فقہیہ سے وابستگی کی نسبت سے ایک دن حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں دیوبند حاضر ہوا۔ شعبہ کا کام یہ تھا کہ اکابرین محترم حالات کے مطابق کوئی موضوع تجویز فرمائیں گے، جس پر جمعیۃ سیمینار کرے گی۔ اس تعلق سے دیگر اساتذۂ دارالعلوم کے ساتھ حضرت نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں بھی حاضر ی ہوئی۔ عصر کے بعد مولانا مرحوم کے مکان پراساتذہ دارالعلوم کی پر رونق محفل سجی ہوئی تھی ۔ اساتذہ حضرت مولانا سے گفتگو میں مصروف تھے کہ موقع پر ناچیز نے بھی اپنی بات رکھی ۔ اور ساتھ میں شعبہ کی طرف سے جاری خط کو بھی حضرت والا کی خدمت میں پیش کیا۔ خط پڑھ کر حضرت نے حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ ساتھ اپنا پورا تعاون دینے کا وعدہ کیا ۔ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ جب یہ ایک مستقل کام تھا، تو حضرت سے پہلے ملاقات کا وقت لے لینا چاہیے تھا، لیکن پیشگی کسی اطلاع کے بغیر حضرت کے پاس گیا، تو نہ ناگواری کا اظہار فرمایا اور نہ ہی عدم تعاون کا عذر پیش کیا ؛ بلکہ تعاون اور دعا دونوں سے نوازا۔ اسے حضرت نور اللہ مرقدہ کے تواضع کے علاوہ کیا عنوان دیا جاسکتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے تعلق سے حضرت دفتر تشریف لایا کرتے تھے، تو گاہے بگاہے نیازی کا شرف حاصل ہوتا رہتا تھا۔ اور ہر مرتبہ خلوص و للہیت سے لبریز دعاوں سے نوازتے تھے۔ آج جبکہ حضرت کی ذات ہمارے درمیان نہیں ہے، تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دعاوں کے تعلق سے بھی کتنا خلا پیدا گیا ہے۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ واٹس ایپ دیکھ رہا تھا کہ داما دم پیغامات آنے لگے ، اور تقریبا ہر پیغام یہی خبر دے رہا تھا کہ حضرت نور اللہ مرقدہ اس دار فانی سے رحمت الٰہی کی آغوش میں چلے گئے، انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ پہلے یقیناًسا نہیں آیا، لیکن خبر کے تواتر نے یقین کرنے پر مجبور کیا اور شکستہ خاطر کے ساتھ ہمیں پڑھنا پڑا کہ بیشک ہم سب اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کے پاس لوٹ کر جائیں گے۔
کچھ لمحے بعد دفتر جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں سے ایک وفد جنازے میں شرکت کے لیے جائے گا، جس میں مولانا معز الدین صاحب ، مولانا محمد یوسف صاحب ، مولانا محمد عرفان صاحب ، مولانا کلیم الدین صاحب اور ناچیز کا نام شامل کیا گیا۔پھر یہ وفد دیوبند کے لیے روانہ ہوگیا۔ اور تقریبا ڈیڑھ بجے دارالعلوم پہنچا ۔ مسجد قدیم میں ظہر کی نماز کے بعد علیٰ الفور احاطہ مولسری میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے امامت کی۔بعد ازاں جنازہ قبرستان قاسمی میں لایا گیا اور اس عظیم ہستی کو ہمیشہ ہمیش کے لیے نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔
جمعیۃ علماء ہند کی تعزیتی نشست میں اکابرین کے تاثرات
۲۵؍ مئی ۲۰۱۷ ، بروز جمعرات جمعیۃ علماء ہند کے دفتر واقعی آئی ٹی او نئی دہلی میں مولانا محترم اور مولانا ازہر صاحب رنچوی کے لیے ایک تعزیتی اجلاس رکھا گیا، جس میں جمعیۃ علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ نے شرکت کی۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں شخصیات کی وفات دارالعلوم دیوبند اور جمعےۃ علماء ہند سمیت پوری ملت اسلامیہ کے لیے بڑا خسارہ ہے ۔ تعزیتی اجلاس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے والی شخصیات کی خصوصیات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ ہم ان سے رہ نمائی حاصل کریں۔ موجودہ دور میں ان بزرگوں کے کردار سے روشنی حاصل کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔حضرت مولانا ریاست علی صاحب ایک مخلص مشیر اور سادگی کے پیکرتھے ۔مجھے یاد ہے کہ۲۰۱۳ء میں امن عالم کانفرنس دیوبند میں منعقد ہوئی۔مولانا ریاست علیؒ صاحب نے بہت ہی جامع بات کہی کہ ’’ اسلام مذہب امن واعتدال ہے اور دیوبندیت مسلک امن و اعتدال ہے ‘‘،یہ جملہ بہت چھوٹا ہے لیکن کافی جامع ہے۔مولانا مدنی صاحب نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مولانا ریاست علی کے تواضع وانکساری کی میں شہادت دیتاہوں ۔ مولانا نور اللہ مرقدہ جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر تھے، اس لیے تعزیت کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔
حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مولانا ریاست علیؒ سادہ طبع اور مستحکم رائے والے انسان تھے ۔ ان کی تالیف ایضاح البخاری ایسا گراں قدر کارنامہ ہے کہ اگر کوئی اور چیز نہ ہوتی، تو صر ف یہ کتاب ان کی عظمت ظاہرکرنے کے لیے کافی تھی ۔انھوں نے کہا کہ مختلف مجلسوں میں ان سے گفتگو کا موقع ملا ،میں نے کبھی ان کو زود رائے اور پژمردہ نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ آخر میں رائے دیتے تھے اور مسکراتے رہتے۔ حضرت مولانا سلمان بجنوری صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مولانا ریاست علی ؒ ورع اور تقوی کے انسان تھے ،تواضع کا یہ عالم تھا کہ ان کو اگر اعزاز دیا جاتا تو دلی تکلیف ہو تی تھی ، وہ ہمیشہ عہدوں اور مسندوں سے گریز کرتے تاہم وہ اعلی درجہ کے خود اعتماد تھے۔ مولانا سلمان بجنوری صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے صاحبزادے نے عید کے موقع پر کپڑا کے لیے رقم مانگی ، مگر ان کے پاس نہیں تھی ۔ اگلے دن چند لفافوں میں رقم ڈال رہے تھے ، اسی لڑکے نے دیکھ لیا ، حضرت نے بلایا او رکہا بیٹے تم سے کیا چھپا نا یہ رقم ضرورت مند بیواؤں اور یتیموں کے لیے ہے ، جسے ہرسال عید کے موقع پر دیتا ہوں ، اس بار اپنے پاس نہیں تھی تو بیس ہزار قرض لے کر ان کو دے رہا ہوں ۔مولانا قاری شوکت علی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مولانا ریاست علی صاحب کی شخصیت ہشت پہلو تھی ۔ وہ شخصیت ساز ، خرد نواز اور نفع رساں انسان تھے ، ایضاح البخاری ان کے فکر کی پختگی کا خارجی ثبوت ہے ۔اس موقع پر مولانا مفتی راشد اعظمی صاحب دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ ان دونوں ہستیوں کے قریب قریب ہی مدت میں رخصت ہوجانے سے گہرا صدمہ پہنچا ہے ۔ انھوں نے اپنے دلی جذبات کاظہار کرتے ہوئے غالب کایہ شعر پیش کیا کہ ’’حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ مولانا متین الحق اسامہ صاحب صدر جمعیۃ علماء صوبہ اتر پردیش نے اپنے خطاب میں اپنی چند یادوں اور ان اکابر کے انداز تربیت پر روشنی ڈالی۔ اس اجلاس میں مولانا مرحوم کے صاحب زادے مولانا عدنان صاحب نے بھی خطاب کیا اور اپنے والد محترم کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا۔جمعیۃ علماء ہندنے اپنے اس تعزیتی اجلاس میں ایک تعزیت نامہ بھی پیش کیا،جسے اس کے سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے پڑھ کر سنایا۔ اس کے متن کا وہ حصہ جو حضرت مولانا سے متعلق پیش خدمت ہے۔
حضرت مولانا ریاست علی ظفر ؒ صاحب بجنوری
حضرت مولانا ریاست علی ؒ کو اللہ تعالی نے گرا ں قدر علم وفضل کی دولت سے نوازا تھا، علمی بصیرت ، فکر رسا، تعمق نظر، ادبی ذوق، تحقیق و تفتیش کا وہ شوق عطا فرمایا تھا ، جس نے آپ کو یکتائے روزگار بنادیا ۔معاملہ فہمی اور رسائی فکر کا وہ جوہر آپ کو میسر ہوا تھا جو ہر پیچیدہ معاملے کی گتھی کو آسانی سے سلجھا دیتا ہے۔حضرت والانے ۱۹۷۲ء سے تام واپسیں پینتالیس سالوں تک دارالعلوم دیوبند میں استاذحدیث کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی ۔اس طویل مدت تک در س وتدریس میں ہزارہا تشنگان علوم آپ کے سرچشمہ فیض سے بلاواسطہ فیضیاب ہوئے ۔آ پ جیسے کریم النفس، مشفق استاذ اور رفیق عمل کا سایہ بڑی سعادت اوران کی وفات بڑی محرومی اور عظیم نقصان ہے ۔ آپ علم حدیث و فقہ کے بڑے عالم کے ساتھ اردو زبان وادب کے بہترین قلم کار وادیب بھی تھے۔آپ کی شاعری کا مجموعہ’’ نغمہ سحر‘‘ ایک عمدہ کاوش ہے ، اس کے علاوہ ’’ایضاح البخاری‘‘ ’’ شوری کی شرعی حیثیت ‘‘ سے فیضان علوم دہائیوں سے فیض حاصل کررہے ہیں۔ آپ کا لکھا ہو ا دارالعلوم کا ترانہ نہایت جامع و مقبول ہے ، اس میں دارالعلوم کی خصوصیا ت ، مقصد تاسیس ، تاریخی واقعات کو بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ آپ نے جمعےۃ علما ء ہند پر بھی بہترین ترانہ لکھا ہے۔
جمعےۃ علماء ہند، آپ کی محبوب جماعت رہی ۔شروع میں جمعےۃ علماء ہند کے دفتر سے وابستہ رہے ، پھر بعد میں دارالعلوم دیوبند چلے گئے ، لیکن اس کے باوجود جمعےۃ سے آپ کا تعلق قائم رہا ۔ آپ سال۲۰۱۱ء سے جمعےۃ علماء ہند کے مسلسل نائب صدر منتخب ہو تے رہے۔جمعےۃ علماء ہند نے آپ کی رہ نمائی اور سرپرستی سے ہر موقع پر روشنی حاصل کی اور آپ کے مدبرانہ مشوروں پر عمل کرکے وقار وعظمت اور قومی اعتماد کا بلند مقام حاصل کیا ۔
جمعےۃ علماء ہند کا یہ اجلاس آپ کی علمی ودینی و ملی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ، وفات پر ملال کو موت العالم موت العالم کی صحیح تصویر قراریتا ہے اور آپ کے تمام متوسلین اور پسماندگان سے دلی ہمدردری کا اظہار کرتا ہے۔ہم سب دست بدعا ہیں کہ ا للہ تعالی آپ کو اپنی مرضیات سے نوازے اور روح پرفلاح کو جنت الفردوس میں قیام اعلی عطا فرمائے اور انبیاء و صادقین کا رفیق بنائے ( آمین )
ان دونوں حضرات کے یکے بعد دیگرے چلے جانے سے یقینی طور پر ہم سب یتیمی محسوس کر رہے ہیں، لیکن رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ کو اپنے لیے صبرو سکون بناتے ہوئے ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ
اللھم ارحمھم و اغفر لھم و عافھم و اعف عنھم و اکرم نزلھم و وسع مدخلھم و اغسلھم بالماء و الثلج و البرد و نقھم من الذنوب والخطایا کماینقی الثوب الأبیض من الدنس اللھم جاذھم بالحسنات احساناً و بالسیئات عفوا و غفراناً۔