2 Apr 2018

پو ری دنیا کا دائمی ،عالم گیری اور کامل آئڈیل لائف کو ن اور کیو ں؟

پسِ منظر 
جب دنیاکی تعمیر وتر قی اور انسانیت کی خدمت کی بات آتی ہے، تو دنیا کے بے شمار اور لاتعداد گر وہ یہ دعویٰ لے کر اٹھ کھڑے ہو تے ہیں کہ دنیا کی تعمیر و تر قی اور انسانیت کی خدمت میں سب سے بڑا کر دار اور سب سے بڑا کارنامہ صر ف اسی گروہ نے انجام د یا ہے۔ اس لیے دنیا کی فلاح وبہبود صر ف اسی گروہ کی اتباع میں ہے اور عالم انسانیت کا مکمل آئڈیل لائف او ر کامل نمونہ حیات وہی طبقہ ہے ۔ ہر گروہ کا یہ دعویٰ کس حد تک صحیح ہے ؟ کون سا طبقہ سارے عالم کے لیے دائمی ، عالم گیر ی اور کامل آئڈیل لائف بن سکتاہے ؟ ان تمام باتو ں کا جائزہ ا س مکالمے میں لیا گیا ہے۔
جب راقم نے دارالعلوم دیو بند کی سب سے بڑی اور فعال، بہا ر، جھارکھنڈ ، اڑیسہ و نیپال کی مشتر کہ انجمن ’’بزم سجاد ‘‘ کے افتتاحی اجلاس کے لیے مکالمہ لکھا تھا ، تو اس میں سازشِ صیہونیت کا مکمل تجزیہ کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کی بھر پو رعکاسی کی گئی تھی، جس کی وجہ سے جہاں ہندستان کے مختلف خطوں سے تشر یف لائے بڑے بڑے علمائے کر ام نے داد و تحسین ، حوصلہ افزا کلمات او رنیک دعاؤں سے نوازا تھا ،وہیں کچھ بے تکلف احباب نے مشورہ دیا تھا کہ اس میں ذرا سی ظرافت اور بڑھادی جاتی، تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا، جب کہ موضوع کی نو عیت ظرافت کا نہیں، بلکہ غور و فکر کا متقاضی تھی ۔ بہر کیف احباب کے اس مشورے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسی انجمن میں اسٹیج کیے جانے کے لیے یہ مکالمہ لکھا گیا ۔ پلاٹ کی ترتیب میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ مو ضوع کی نزاکت بھی بر قرار رہ جائے او رظرافت سے بھی لبریز ہو جائے ۔ اسی لیے کر دار میں کچھ ایسے مر دہ نفوس کو روح حیات پھونکی گئی ہے ، جو زندہ ہو کر اپنا کر دار نبھا رہے ہیں ۔ باقی تفصیلات مکالمے سے واضح ہیں ۔

تفصیلات
افراد کر دار 
(۱)عبدالواحد بریلوی 
(۲)منہاج العابدین چائے فروش 
(۳)محمد عابد فلسفی 
(۴)عبدالرحمان اناؤنسر مشاعرہ 
(۵) محمد اظہر مرزاغالب (شاعر) 
(۶) مر شد اکرامی ذوق (شاعر ) 
(۷)دلاور حسین (شاعر)
(۸) جہاں گیر نزاکت خان (شاعر )
(۹)محمدعمران سائنٹسٹ (اول )
(۱۰) محمد فر قان سائنٹسٹ (دوم )
(۱۱) محمد احمد ٹی وی اناونسر 
(۱۲)محمد خلیق امیتابھ بچن 
(۱۳)ابوللیث مولانا قاسمی
(۱۴)محمد فاروق مولانا ندوی 


عبدالواحد (بہ ہیئت بریلوی ): (اپنا سوٹ کیس رکھتے ہو ئے ) اف ! آج اسٹیشن پر خلافِ توقع اتنی بھیڑ کیوں ہے ؟ نہ مسلمانوں کی عید ،نہ ہندووں کا کو ئی تہوار، پھر بھی اتنی بھیڑ ،چلو سفر میں ایسا ہو تا رہتا ہے ، (گھڑی دیکھتے ہوئے ) ٹرین آنے میں ابھی ساڑھے گھپ چالیس منٹ باقی ہیں ، کیسے کٹے گا اتنا سارا وقت ؟ کوئی ٹائم پاس مونگ پھلی والا بھی نظر نہیں آرہا ہے ،کیا کر یں ۔۔۔چلو جب تک کرسی پر بیٹھتے ہیں ۔
منہاج (چائے فر وش ): چائع چائع ،جھارکھنڈ کی سب سے خراب چائع ، الائچی دار ، خوشبو دار یعنی شاندار چائع چائع ۔
عبدالواحد (بریلوی ): ایک چائے دینا بھائی (اسی دوران ایک فلسفی آتاہے )
محمد عابد (فلسفی ): جِن شتابدی نکل گئی کیا ؟ 
عبدالواحد(بریلوی): جِن تو کیا ابھی انسان شتابدی ،بھو ت ایکسپرس ، شیطان پسنجر کوئی نہیں آئی ہے ، میں بھی جِن ہی کے انتظار میں ہوں ۔
اعلان (پردے سے ): یا تری گن کر پیا دھیا ن دیں ! لال ہیڑی سے چل کر نیلا و پیلا ہیڑی ہو تے ہو ئے کا لا ہیڑی کو جانے والی جِن شتابدی تھوڑی ہی دیر میں پلیٹ فارم نمبر ڈھائی اور پو نے تین کے درمیان آرہی ہے ۔
عبدالواحد (بریلوی ):کہاں جاناہے آپ کو ؟ 
محمد عابد (فلسفی ): مجھے سنگم نگر جاناہے ۔
عبدالواحد(بریلوی ):میں بھی سنگم نگر ہی جارہا ہو ں ، پھرساتھ چلتے ہیں، گفتگو کرتے چلیں گے تاکہ سفر بھی آسانی سے کٹ جائے گااور ہم بور بھی نہ ہوں گے۔
محمدعابد(فلسفی ): اس سے بڑی میرے لیے او رکیا سعادت ہو گی کہ ایک عالم کی رفاقت نصیب ہو رہی ہے ۔
عبدالواحد (بریلوی ): عرض ہے کہ ع 
تجدد میں تکلف ہے تکلف میں پر یشانی 
اس لیے ان باتوں کو چھوڑیے اور بلا تکلف چائے نوش فر مائیے ۔
محمد عابد(فلسفی ):بلاتکلف ہی عرض ہے کہ آپ کے پاس صرف ایک چائے ہے ، اگر آپ مجھے پلا دیں گے ، تو آپ کیا پئیں گے؟
عبدالواحد (بریلوی) : آپ بھی کیا بے تکلف نکلے ، آپ ذرا ہاں تو کیجیے ، دوسری چائے فوراً آجائے گی ۔
محمدعابد(فلسفی): لیکن آپ دوسری چائے منگانے کی زحمت نہ اٹھائیں ، کیو ں کہ میں ایک فیلا سوفی ہو ں او رایک کو کئی بنانے کافن جانتا ہو ں ۔
عبدالواحد (بریلوی ):وہ کیسے ؟ (متعجبانے انداز میں )
محمدعابد (فلسفی) :وہ اس طرح کہ ایک پیالی چائے تو یہ خارج میں موجو د ہے ،لہذا یہ ایک چائے ہو گئی، دوسری اسی جیسی چائے اور پیا لی کا تصور آپ کے ذہن میں موجو د ہے ، لہذا یہ دوسری چائے ہو گئی ۔ اسی طرح میرے ذہن میں بھی ایک چائے اور پیالی کا تصور مو جو د ہے ، لہذا یہ تیسری چائے ہوگئی۔ دیکھا آپ نے میں نے ایک چائے کو فوراً کس طرح تین بنادیا ، اور بھی بنا سکتا ہو ں ،لیکن کو ئی پینے والا نہیں نظر آرہا ہے، اس لیے تین ہی پر اکتفا کر تا ہوں، جب ضرورت پڑے گی، تو اوربنالیں گے ۔ اسی لیے تو ہم فلسفیوں کا دعویٰ ہے کہ ، ہم ہی دنیا کے لیے ’’دائمی آئڈیل لائف ‘‘ بن سکتے ہیں ، کیو ں کہ ہم فلسفی تمام انسانوں کی ہر ہر مشکلات کا حل پیش کر سکتے ہیں ، جیسا کہ ابھی آپ نے ایک ادنیٰ سا نمونہ دیکھ لیاکہ میں نے صر ف آپ کی پر یشانی ہی کو دور نہیں کیا،بلکہ آپ کا تین روپیے بھی بچا دیا ۔
عبدالواحد(بر یلوی ): واہ بھائی واہ !واقعی فلسفی پوری دنیا کے لیے ’’آئڈیل ‘‘بنانے کے لائق ہیں ، کیو ں کہ آپ حضرات کے پاس انسانی مسائل کے حل کے لیے بے شمار نسخے مو جود ہیں ، جیسے کہ میرے مسئلے کو آپ نے حل بھی کر دیا اور تین روپیے کی بھی بچت کر ادی ، لہذا میں خارج میں مو جو د اس چائے کو پی لیتا ہو ں اور آپ اپنے بنائے ہو ئے دونوں ذہنی چائے پی لیجیے۔ٹھیک ہے ۔
محمد عابد (فلسفی )اچھاحضور باتیں تو بہت ہو گئیں ، کچھ تعارف بھی ہو جائے ، تو آپ کا نام و پتہ ؟
عبدالواحد(بریلوی ): اس بندہ ناچیز کوحقیر ،فقیر ، دست گیر ، غوثِ اعظم،ننگ اسلاف،امام الشعرا ،الفت علی محبت، عرف پیارے ،اور لوگ پیار سے پیارے میاں کہتے ہیں، اوروالد صاحب کانام رشید آڑ و ، عر ف غنی پکوڑے والے ، ضلع سر گودا ،پھا ٹک موڑ ،گلی لحاف گدوں والی ، آگے آم کا پیڑ،پیچھے گنے کا کھیت ، اوپر مکان ،نیچے دوکان،سامنے ریلوے پھاٹک ،پھاٹک کے پاس پان کاکھوکھا ،کھو کھے کے اندر ایک سگریٹ کے کلینڈر پر میرا پتہ لکھا ہواہے، باقی آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں ، اور آپ کا کچھ تعارف ؟ ۔
محمدعابد(فلسفی ):بھائی میں آپ کی طرح پانچ درجنوں کا معجونِ مر کب نہیں ہو ں ، بلکہ میر ا تو مختصر سانام ہے ، یعنی ماہر فلکیات وارضیات ،جناب ماسڑتصور خیالی اور چوں کہ کوچہ ہیولیٰ میں رہتا ہوں ، اس لیے سب لوگ مجھے فیلاسوفی کہتے ہیں ، اور صر ف کہتے ہی نہیں ، بلکہ میں فیلا سوفی ہو ں بھی ، اور کیا آپ یہ بتانے کی زحمت گوارا کریں گے کہ آپ سنگم نگر کیوں جارہے ہیں ؟ ۔
عبدالواحد(بریلوی ): جیسا کہ میرے تعارف سے آپ کو معلوم ہی ہو گیا کہ میں اما م الشعرا بھی ہو ں، اس لیے سنگم نگر مشاعرے میں جارہا ہوں ، جس میں جدیدوقدیم شعرا تشریف لارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ٹرین رک گئی سنگم نگر آگیا کیا؟ 
محمدعابد(فلسفی ): جی جناب ! سنگم نگر آگیا ، چلو اتر تے ہیں ۔
(دونوں سوٹ کیس اٹھائے ہوئے اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں ، اور اس کے بعد شاعر حضرات آتے ہیں )
عبدالرحمان(مشاعرہ اناؤنسر) : سامعینِ کرام ! سب سے پہلے میں آپ حضرات کو سنگم نگر کے اس آل انڈیا مشاعرے میں شر کت کر نے پر مبارک باد پیش کر تا ہو ں،جیسا کہ آپ لو گو ں کو مشاعرے کا اشتہار دیکھ کر معلوم ہی ہو گیا ہو گا کہ یہ مشاعرہ جدید وقدیم شعرا کا حسین سنگم ہے ، جو تاریخ میں اس نوعیت کا پہلی مر تبہ ہو رہا ہے ، کیو ں کہ آج کے اس مشاعرے میں آپ جہاں غالب اور مومن جیسے قدیم شعرا کے اشعار سنیں گے وہیں، جدید شعرا کے کلام سے بھی آپ محظوظ ہو ں گے ، اور ایسی ایسی آزاد نظموں اور بہترین غزلوں کو سما عت فرمائیں گے کہ ہنستے ہنستے آپ کے پیٹ میں درد ہونے لگے گا ، اور آپ یہ فیصلہ کر نے پر مجبو ر ہو جائیں گے کہ اگر کو ئی جماعت انسانوں کی زندگی کو خوشیوں سے بھر سکتی ہے ، اوردائمی آئڈیل لائف بن سکتی ہے ؛ تو وہ صر ف شاعروں کی جماعت ہے ۔
تمہیدکو مزید طول نہ دیتے ہو ئے آئیے اب اصل مو ضوع کی طرف لوٹتے ہیں ، اور سب سے پہلے ایک قدیم شاعر ۔ جو عالم آخرت سے تشریف لائے ہیں ۔کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور اپنا کلام سنائیں ، اس سے میری مراد جناب اسداللہ خان غالب ہے ، حضر ت غالب مائک پر ۔
محمد اظہر(غالب ): میں آپ تمام حضرات کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے مجھے عالم آخرت میں دعوت نامہ بھیجااور اس مجلس میں مدعو کیا ، میری مدت سے آرزو تھی کہ کسی ایسے مشاعرے میں شر کت کروں ، جس میں قدیم وجدید شعرا تشریف رکھتے ہو ں ، اور الحمد اللہ آج یہ میری آرزو پو ری ہو گئی ۔
سب سے پہلے میں یہ وضاحت کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ عالم آخرت بھی عجیب جگہ ہے ، جب سے میں وہا ں گیا ہو ں ؛ تب سے تمام فراغت کے باوجود ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکا ہو ں، کیوں کہ آپ لوگ میر ی سوانح کا مطالعہ کرکے جانتے ہی ہیں کہ غالب جب تک مخمور نہیں ہوتااس وقت تک کوئی شعر ہی موزوں نہیں کرپاتااور جنت کی شراب میں نشہ ہی ہے تو غالب کیسے لکھے گا، اس لیے جو کچھ سناؤں گا،وہ پرانے اشعار میں سے ہی سناؤ ں گا ، توتوجہ چاہتاہوں کہ ؂
خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو 
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے 
عبدالرحمان(اناؤنسر ): یہ آپ کیا بے معنی شعر پڑھ رہے ہیں ، کچھ معنی دار اشعار سنائیے کہ سامعین داد دے سکیں ۔
محمد اظہر (غالب ): کیا کہا آپ نے ! بے معنی شعر ؟ 
عبدالرحمان(اناؤنسر ): گستاخی معاف مرزا ! آپ کا یہ شعر بالکل بکواس لگ رہا ہے ، کیوں کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو ، اگر مطلب کچھ نہیں ، تو خط لکھنے کا فائدہ ہی کیا ؟ اور اگر آپ صرف معشوق کے نام ہی کے عاشق ہیں، تو ۵۰؍ پیسے کا کارڈ بر باد کر نے سے کیا فائدہ؟ لہذا آپ بیٹھ جائیے اور سادہ کاغذ پر معشوق کا نام لکھتے رہیے ۔
اب میں غالب صاحب کے بعد عالم آخرت ہی سے تشریف لائے جناب ذوق صاحب کو دعوت دیتا ہو ں کہ وہ آئیں اور اپنا کلام سنائیں ۔جناب مومن رو بر ومائک کے ۔
مرشد(ذوق ): بلا کسی تمہید کے عر ض ہے کہ ؂
اب تو گھبراکے کہتے ہیں مر جائیں گے 
مر کے بھی چین نہ آیا تو کدھر جائیں گے
دلاور حسین(ماجد ): آپ بھی غالب کی طرح بے تکے اشعار کیو ں سنارہے ہیں ؟ کچھ جان داراشعار سنائیے؟ ۔
مرشد (ذوق): کیا یہ شعر آپ کو بے تکا معلوم ہو رہا ہے ؟
دلاورحسین (ماجد) : جی ہاں !بے تکا ہی نہیں معلوم ہو رہا ہے ، بلکہ سراسر بے تکا ہے ، کیو ں کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ’’ اب تو گھبرا کے کہتے ہیں مرجائیں گے ‘‘ اولا تو آپ پہلے ہی مر چکے ہیں اور اس وقت عالم آخرت سے تشریف لا ئیں ہیں ، اس لیے مر نے کے بعد گھبراکر کہنے کا کو ئی مطلب ہی نہیں ہو تا، ثانیاً چلو مان لیتے ہیں کہ آپ گھبرا کر ہی کہہ رہے ہیں ، لیکن مر نے کے بعد کہنا کہ ’’ مر جائیں گے ‘‘ سراسربے تک اور بے معنی ہے ۔
عبدالرحمان(اناؤنسر) : مومن صاحب ! آپ کو بھی غالب کی طرح بے معنی شعر پڑھنے پر بیٹھایا جاتا ہے ، اورجناب ماجد صاحب ہی سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ وہ کچھ سچے اور مبنی بر حقیقت اشعار سنائیں ۔
دلاورحسین(ماجد) : واقعات کی سچی تصویر پر مبنی میر ی ایک غزل ہے ، سماعت فر مائیں کہ ؂
اللہ میرے رزق کی بر کت نہ چلی جائے 
دو دن سے میرے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے 
جہاں گیر(نزاکت خاں) : آہ شاعر صاحب آہ ! 
دلاورحسین(ماجد ):یہ آپ واہ واہ کہنے کے بجائے آہ آہ کیو ں کر رہے ہیں ؟ 
جہاں گیر (نزاکت خاں ): کیا بات کر تے ہیں ، آ پ اپنی مصیبت کا اظہار کریں اور ہم واہ واہ کریں ،یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اردو کا ایک محاورہ ہے کہ ’’مصیبت کے وقت سچا دوست ہی کام آتاہے ‘‘ ہم یہ نہیں چاہتے کہ آپ کے رزق کی بر کت چلی جائے ، اس لیے ہم چند سچے دوست آج سے اس وقت تک آپ کا مہمان بنے رہنا چاہتے ہیں ، جب تک کہ کو ئی دوسرا مہمان نہ آجائے ، کیو ں کہ ہم اگر اس موقعے پر کام نہ آئیں گے ، توپھر کب کام آئیں گے ؟ 
دلاور حسین (ماجد ): ہم آپ کے سچے جذبے کی قدر کر تے ہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ ان دنوں میں کچھ زیادہ ہی مصروف ہوں ، کیوں کہ آج تو اسی مشاعرے میں مو جود ہوں ، کل بھکاریڑی کے مشاعرے میں جانا ہے ، او رپر سوں گہیڑی میں پر وگرام ہے ، وہاں بھی شر کت کر نی ہے ، غر ض ابھی سے دوتین مہینے تک میری کو ئی تاریخ خالی نہیں ہے ، مزید برآں مشغولیا ت بھی زیادہ ہیں ، اس لیے تین مہینے کے بعد دیکھ لیجیے گا اور ہا ں ! آنے سے پہلے فون ضرور کر لیجیے گا ۔
جہاں گیر(نزاکت خان ): واہ بھائی واہ ! کیا مبنی بر حقیقت شعر ہے آپ کا ، واقعی دل کھول کرداد دینے کے بجائے ماردینے کو جی چاہتاہے ۔
عبدالرحمان(اناؤنسر ): اگر ماجد صاحب بھی سچے اشعار سنانے سے عاجز ہیں ، تو کیوں نہ پھر آپ ہی وہ اپنی مشہور آزاد نظم سنادیں ، جس کا عنوان ہے :نزاکت۔ 
جہاں گیر(نزاکت خاں) :اناؤنسر کے حکم کی تکمیل کر تے ہو ئے نزاکت خان انتہائی نزاکت کے ساتھ اپنی آزاد نظم ’’نزاکت ‘‘ کے چند اشعار حاضر خدمت کر رہا ہے۔عرض کیا ہے کہ ؂
مخمل پہ چلنے سے پاؤ ں میں میرے 
کانٹے چبھے جاتے ہیں ،کیل گڑے جا تے ہیں 
اور کھاتا ہو ں جب بھی رس گلا یا رس ملائی 
جی جلے جاتے ہیں ،ہو نٹ چھلے جاتے ہیں اور دانت ہلے جا تے ہیں 
محمد اظہر(غالب ): بھائی یہ کیا مذاق ہے ، یہ مشاعرہ ہو رہا ہے مشاعرہ،یہاں نظم پڑھیے نظم ، نہ کہ کسی اردو کتاب کی عبارت ۔
جہاں گیر(نزاکت خان) : کیا یہ نظم آپ کو نثر معلوم ہو رہی ہے ؟ یہی ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم ؟ حالاں کہ آپ ہی نے کہا ہے کہ ع 
ہم سخن فہم ہیں ، غالبؔ کے طرف دار نہیں 
محمداظہر(غالب ): بہت خوب ، کیا نظم ہے ،نہ ترنم ، نہ قافیہ ، نہ تخیل ، نہ ردیف ۔اور کیا مبنی برحقیقت ہے کہ مخمل پہ چلنے سے پاؤں میں میر ے ، کانٹے چبھے جاتے ہیں ، کمال ہی توکر دیا آپ نے ، اس لیے آپ کی شان میں عر ض ہے کہ ؂
شعر کو چارہ سمجھ کر سب گدھے چرنے لگے 
اردو زباں آتی نہیں اور شاعری کر نے لگے 
عبدالرحمان(اناؤنسر): آپ دونوں اپنی نونک جھونک بند کریں ، آپ کی نو نک جھونک سے ہمارا مشاعر ہ ناکام ہو تا نظر آرہا ہے ۔
سامعینِ کرام! آپ حضرات تسلی رکھیں ، جیسا کہ ابھی آپ جدید و قدیم دونوں قسم کے شعرا کے کلام سے محظوظ ہو رہے تھے ، اور ان حضرات کاکلام سن کر ہنسنے ؛ بلکہ قہقہے لگانے پر مجبور ہو رہے تھے ، اسی لیے تو ہم شاعروں کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر کوئی جماعت انسانوں کی زندگی کو مسرتوں سے لبریز کر سکتی ہے ، اور انسان کسی گروہ کو اپنا آئڈیل لائف بناکر خوش و خرم زندگی گذار سکتا ہے ، تو وہ شاعروں کا گروہ ہے ، بہر کیف غالب قدیم اور نزاکت خاں جدید کی نوک جھوک کے بعد مشاعرے کو جاری رکھنے میں کوئی خیر نہیں سمجھتاہوں ، اس لیے یہ مشاعرہ یہی پر ختم کیا جاتا ہے ، تمام سامعین کا شکریہ ۔
(اس کے بعد ایک سائنٹسٹ آتاہے اور بجلی کا بلب ٹھیک کر نے میں مشغول ہو جاتاہے ، پھر دوسرا سائنٹسٹ ہاتھ میں اخبار لیے آتاہے ، اور کرسی پر بیٹھ جاتاہے )
محمد عمران (سائنٹسٹ اول) : آپ نے آج کے اخبار میں سنگم نگر کے مشاعرے کی خبرپڑھی کیا ؟ 
محمد فر قان(سائنٹسٹ دوم) : کیاخبر ہے اس مشاعرے کے بارے میں ؟ 
محمد عمران (سائنٹسٹ اول) : لکھا ہے کہ ۲۹؍جون (نیوز بیورو ) آج قصبہ سنگم نگر میں جدید و قدیم شعرا کاایک حسین سنگم مشاعرہ منعقد کیا گیا ، جس میں قدیم شعرا میں سے جہاں غالب او رذوق جیسے شاعروں نے شرکت کی اور اپنے کلام سے سامعین کو نوازا، وہیں جدید شعرا میں سے عصر حاضر کے معروف و مشہور شاعر جناب ماجد صاحب اور مشہور آزاد نظم گو نزاکت خان نزاکت بھی رونق اسٹیج تھے اور اپنے کلام سے سامعین کو قہقہے پر مجبو ر کر رہے تھے ، اس مشاعرے میں ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ ہر شاعر دوسرے شاعر کے کلام کی صداقت کابھانڈا پھوڑ رہا تھا ، تاریخ میں اس طرح کا پہلی مر تبہ ہونے والا مشاعرہ کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا کہ اچانک دو قدیم و جدید شاعروں میں کچھ اختلاف ہو گیا ، جس کی بنا پر اناؤنسر نے مشاعر ے کو وہیں پر ختم کر دیا ، لیکن مشاعر ہ ختم کر تے ہو ئے اناؤنسر نے اپنی کامیابی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ بہر کیف شعرا کرام کے کلام پر سامعین کا قہقہے لگانے پر مجبور ہو نا یہ ا س بات کی دلیل ہے کہ ہم شاعرہی لو گوں کی زندگیوں کو مسر توں سے لبریز کر سکتے ہیں ، لہذا دنیا کے اصل آئڈیل لائف ہم شاعر ہی ہیں ‘‘۔
محمد فر قان(سائنٹسٹ دوم ): یہ شاعر لو گ کب سے آئیڈیل لائف بننے کا دعوی کر نے لگے ہیں اور کس خوبی کی بنا پر ، اور کس منہ سے وہ یہ دعوی کر رہے ہیں ؟ ۔
محمد عمر ان(سائٹسٹ اول ): جناب ! داڑھی کے اوپر ، ناک کے نیچے اور دونوں ہونٹوں کے درمیان والا منہ سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم شاعر ایسا کلام پیش کر تے ہیں جس سے روح کو بالیدگی ملتی ہے اور زندگی مسرت سے لبریزہوجاتی ہے ، لہذا اصل آئیڈیل لائف دینا کے ہمیں لو گ ہیں ۔
محمدفر قان(سائنٹسٹ دوم ): اگر شاعر چند لمحے لو گوں کو ہنسا کر ’’آئڈیل لائف ‘‘ بننے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ، تو ان سے کہیں زیادہ حق دار ہم سائنٹسٹ ہیں ، کیوں کہ انسانوں پر ہماری خدمات و احسانات اتنے ہیں کہ ہم ذرا سا ان خدمات سے ہاتھ کھینچ لیں ، تو ان کی زندگی اجیرن ہو جائے ، چنانچہ ہم سائنٹسٹ نے انسانوں کو گھوڑوں اور گدھوں سے ہوائی جہاز پر چڑھا دیا ، پسماندگی اور پس گر دی سے تر قی کے بامِ عروج پر پہنچا دیا ، در ندہ صفت انسانوں کو مہذب و متمدن بنادیا ،ٹمٹماتے چراغوں کی تاریکیوں سے نکال کر بجلی کے قمقموں میں لا کھڑا کر دیا ، الغر ض عصر حاضر کے تمام تر انقلابات ، دولتوں کی ریل پیل ، دنیا کی چمک دمک ؛ سب ہماری رہین منت ہیں ، اور ہماری خدمات کے بارِ احسانات سے انسانوں کی گر دنیں خم کھائی ہو ئی ہیں ؛ کیوں کہ دنیا ہمارے ایجادات سے کٹ کر زندگی نہیں گذارسکتی ، لہذا دنیا کے حقیقی نمونۂ عمل اور اصل آئڈیل لائف ہم سائنس داں ہیں ۔
محمدعمران(سائنٹسٹ اول) : آپ کا خیال بالکل در ست ہے ، کیو ں کہ ہماری ایجادکردہ ایک معمولی سی چیز بجلی ہی چند لمحوں کے لیے چلی جاتی ہے ، تو تمام انسان چیخنے اور چلانے لگتے ہیں کہ جیسے ان کے جسم سے روح نکل رہی ہو، اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے ایجادات سے کٹ کر اس زمانے میں کوئی زندہ نہیں رہ سکتا ، لہذا اصل آئڈیل لائف ہم گر وہ سائنٹسٹ ہیں ۔
محمدفر قان (سائنٹسٹ دوم) : آئیڈیل لائف کے بارے میں اور کچھ لکھا ہے ؟
محمدعمران(سائنٹسٹ اول) : دیکھتا ہو ں۔۔۔ہا ں نیچے چھوٹے پر دے کے پر وگرام کے عنوان میں لکھا ہے کہ آج بر وز جمعرات رات ۔۔۔بجے ٹی وی پر ایک پر وگرام آرہا ہے ، جس کا نام ہے ’’ دنیا کا کامل ، دائمی اورعالم گیر ی آئڈیل لائف کو ن اور کیوں ؟ 
محمد فر قان(سائنٹسٹ دوم) : (گھڑی دیکھتے ہو ئے ) پروگرام کا وقت تو ہو اچاہتا ہے، چلو اس پرو گرام کو دیکھتے ہیں کہ اس میں کس کو اور کیوں پوری دنیا کے لیے نمونہۂ عمل بنایا جاتا ہے ؟ 
محمداحمد(ٹی وی اناؤنسر ): یہ نیشنل چینل D D 1کا اردو سیوا ہے ، اب ہم آپ کے لیے وہ پر وگرام لے کر آئے ہیں ، جس کا نام ہے ’’ کو ن اور کیوں؟‘‘ جی ہاں ! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس پروگر ام میں کسی بڑی ہستی سے ہم آپ کی ملاقات کر اتے ہیں، اور کسی خاص مو ضوع پر ان کے تأثرات سے آپ کو آگاہ کر تے ہیں ، تو میرے لِسزو ! آج ہم نے اس پر وگرام میں عصر حاضر کا ایک اہم سلگتا مو ضوع ’’ دنیا کا دائمی آئڈیل لائف کو ن اور کیوں ’’ کے تحت اپنے اسٹو ڈیو میں مدعیانِ آئڈیل لائف کی چند بڑی ہستیو ں کو مدعوکیا ہے ، جن میں سر فہرست ہیں : جناب حضرت مولاناابو اللیث صاحب قاسمی اور مولانا محمد فاروق صاحب ندوی اوربالی وڈ کے سپر اسٹار مسٹرامیتابھ بچن۔
ہم آپ سب کا اپنے اسٹوڈ یو میں سواگت کر تے ہیں ۔
مولاناابو اللیث صاحب قاسمی :آپ کا اس ذر ہ نوازی کا بہت بہت شکریہ ، میرے لِسزو! یہ انتہائی اہم پروگرام ہے ،اس لیے کو ئی بھی اپنی ٹی وی بند نہ کیجیے گا ، اب ہم اپنے پر وگرام کا آغاز کر تے ہوئے سب سے پہلے ہم مسٹر بچن سے یہ پو چھنا چاہیں گے کہ یو ں تو شاعر بھی، شہنشاہ بھی ، فلسفی بھی ، سائنٹسٹ بھی ، سبھی یہ دعویٰ کر تے نظر آرہے ہیں کہ دنیا کی تعمیر و ترقی اور انسانیت کی خدمت میں اصل کر دار ہمارا رہا ہے ،اس لیے اصل آئڈیل لائف ہمیں ہیں ، تو اس سلسلے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے ؟ 
محمدخلیق (امیتابھ بچن): جہاں تک شاعر وں ، شہنشاہوں ، فلسفیوں یا سائنٹسٹوں کی بات ہے تو ہم یہ تسلیم کر تے ہیں کہ انھوں نے کچھ ایسے کار نامے انجام دیے ہیں ، جن کی بنا پر دہ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں ، لیکن مکمل آئڈیل لائف ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے اور دائمی نمونۂ عمل بننے کا تو ان کے لیے تذکر ہ بھی فضول ہو گا ۔
محمد احمد(ٹی وی اناؤنسر ): کیا آپ اس بات کی وضاحت کریں گے کہ یہ تمام گروہ مکمل اور دائمی نمونہ کیو ں نہیں بن سکتے ؟ 
محمدخلیق(امیتابھ بچن ): یہ بات تو اظہر من الشمش ہے ؛ کیوں کہ مثال کے طو ر پر سائنٹسٹ کے ایجاد سے ہماری زندگی کی کچھ پر یشانیاں تو ختم ہو جاتی ہیں؛ لیکن ساری پریشانیاں تو ختم نہیں ہوتیں، بلکہ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ زمانہ سائنسی اور ٹکنا لوجی کے اعتبار سے جتنا تر قی کر تا جا رہا ہے ، انسان کی الجھنیں اتنی ہی بڑھتی جارہی ہیں ۔
محمد احمد (ٹی وی اناؤنسر ): یہ تو واقعی آپ نے بالکل سچی بات کہی ، لیکن اب آپ یہ بتائیں کہ اگر مذکورہ کوئی گروہ بھی مکمل او ر دائمی آئڈیل لائف نہیں بن سکتا ،تو پھر وہ کو ن سا گروہ ہے ، جسے آ پ دنیا والوں کے لیے دائمی اور مکمل نمونۂ حیات سمجھتے ہیں؟۔
محمد خلیق(امیتابھ بچن ): ظاہر ہے کہ جب مذکورہ تمام گروہ اپنے دعوے پر کھرے نہیں اترتے، اوران کے علاوہ کو ئی اور گروہ بھی اس معیار کا نظر نہیں آتا ، تو اس کے بعد صر ف ایک ہی گر وہ رہ جاتا ہے ، جو آج دنیا کی ہر چیز میں آئڈیل لائف بنا ہو ا ہے ، حتی کہ دنیا اگرایک سوئی بھی خرید تی ہے ، تو سب سے پہلے یہ دیکھتی ہے کہ اس گر وہ کے کسی فر د کا ایڈ رو ٹائز ہے کہ نہیں ، کپڑے کاانتخاب کر تی ہے ،تو پہلے یہ غور کرتی ہے کہ یہ فیشن چل رہاہے کہ نہیں ، سر پے بال رکھتی ہے، تو بھی ا س گروہ میں پہلے مثال اور نمونہ ڈھونڈھ لیتی ہے ، لہذا اس بنا پر ہم صر ف کہہ ہی نہیں سکتے ، بلکہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ پو ری دنیا کے لیے دائمی و مکمل آئڈیل لائف ہم اسٹار وں کا ،بالی وڈ کے ستاروں کا ، بہ الفاظ دیگر ہم ہیروں اور ہیروئنوں کا گروہ ہے ۔
محمد احمد(ٹی وی اناؤنسر ): اب ہم دوسرے مہمان مولاناابواللیث قاسمی صاحب سے بھی کچھ پو چھنا چاہیں گے کہ آپ اس بارے میں کیا راے رکھتے ہیں ؟ ذرا تفصیل سے بتائیں گے ۔
مولانا ابوللیث صاحب(مولانا قاسمی صاحب): جب دنیا کی تعمیر و تر قی اور انسانیت کے لیے کامل آئڈیل لائف بننے کی بات آتی ہے ، تو مختلف گر وہ ا س دعوے کا مدعی ہوتے ہیں ، اور ہر گروہ صرف اپنے حق میں دعوے کو سچ مانتا ہے ، ہم یہ مانتے ہیں کہ ہر گروہ کو اس دعوے کا حق ہے ، اور ہم یہ بھی تسلیم کر تے ہیں کہ ایک حد تک اس کا دعویٰ بجا ہے ، لیکن ان تمام کے مقابلے میں ایک گر وہ ایسا بھی ہے، جو تمام گر وہو ں پر حاوی اور بھا ری ہے ، اور در حقیقت یہی گروہ مکمل ، دائمی نمونہ حیات بننے کے علم بر دار اور حق دار ہے، اس سے میر ی مراد انبیائے کرام علیہم السلام کا گروہ ہے ، اور ان میں سے بطور خاص خاتم الانبیا سرکار دوجہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے ، کیو ں کہ جب ہم تمام گروہوں کا تجزیہ کر تے ہیں ،تو ہم کو صاف نظر آتاہے کہ حکمااور فلاسفروں نے ہر چند کہ اپنی عقلِ رساسے کو اکب و سیارات کی طلسم کشائی کے حیرت انگیز نظر یے پیش کیے، اور ہر چیز کو کلی و جزئی کی حدوں میں تقسیم کر دیا ؛ لیکن ان کی فلکی مو شگافیوں اور سیاروں کی گذر گاہوں میں بھٹکنے سے سسکتی ودم توڑتی انسانیت کے کون کو ن سے مسئلے حل ہو گئے ہیں ؟ ۔
اسی طرح خیالی دنیا کے شہنشاہو ں کے سرُ اور سر گم سے انسانو ں کو کتنا چین ملا ؟ مثلاً ایک شاعر بانسری بجاتا نغمہ سرائی کر رہا ہے ، تو اس کی شیر یں آواز سے انسانوں کی کتنی پر یشانیاں دور ہوجائیں گی ، المختصر جن کی زندگی کی حقیقی تصویر یہ ہو کہ وَالشُّعَرَ آءُ یَتَّبِعُہَمُ الْغَاءُوْنَ،اَلَمْ تَرَاَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ ۔اور ظاہر ہے کہ جو خو د اپنی شیر یں باتوں پر عمل نہ کر تا ہو ، وہ کہا ں سے دوسروں کے لیے نمونۂ عمل بن سکتے ہیں؟۔
نیز آ پ سائنٹسٹوں کے حالات پر غور کیجیے، تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے ایسے ایسے بم ، نیو کلیائی ہتھیار اور میزائیل تیار کیے ،جن کی بدولت انسان کی سوئی ہو ئی سبعیت وبہیمیت جاگ اٹھی اور منٹوں میں عشر ت کدہ کو ماتم کدہ بنادیا ، کیا ایسے خوں خوار کارنامے والے ، دنیا کے آئڈیل لائف بنائے جاسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔
بڑے بڑے شہنشاہو ں اور فر ماں رواؤں کا کیا حال رہا ہے ، جنھوں نے چہاردانگِ عالم کو کشت وخون سے لالہ زار کر دیا ، ایک قوم کو بسا یا ، تو سینکڑوں قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا ، اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْ یَۃً اَفْسَدُوْاھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ أَھْلِہَا اأذِلَّۃً ۔لہذا یہ گروہ بھی آئڈیل لائف بننے کے حق دار نہیں ہے ۔اور اس گروہ کو بھی دیکھ لیجیے، جو اپنے کو ہیر و کہتا ہے، اس نے کیا کارنامہ انجام دیا ، یہی ناکہ ماضی کی اقدار و روایات کا مذاق اڑایا ، آزادی اور مساوات کے نام پر عورتوں کی عزت و آبر ونیلام کر دی، محبت کے پسِ پر دہ نفر ت کی تخم ریزی کی اور فیشن کے نام پر سب کو ننگا کر دیا ، تو کیا اس گر وہ کو آئڈیل لائف بنا کر ہم سب پائے جامے سے باہر آجائیں ؟
ہم نے صنفِ انسانی کے تمام بلند پایہ طبقوں ( جن کی زندگیا ں نو عِ انسانی کے لیے قابل تقلید نمونہ اور آئڈیل لائف بن سکتی تھیں ،) ہر ایک کا جائز ہ لے لیا، لیکن کسی کی زندگی معیارِ تقلید نہ ٹھری، اب تمام گروہو ں کے مقابلے میں انبیا کا گر وہ آتا ہے ، جن کی زندگیا ں تمام انسانو ں کے لیے ایسا نمونۂ اور ایسا آئڈیل لائف ہے، جس سے گریز کر کے انسان کبھی فلاح نہیں پاسکتا اور نہ ہی اپنی پریشانیوں اور بے چینیو ں سے نجات حاصل کر سکتاہے ، اور چو ں کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمام انبیا ئے کر ام کی سیرت و اخلاق کی جامع ہے اور آ پ کا پیغام دائمی ہے ، اس لیے صر ف آ پ ہی کی ذاتِ اقدس دائمی اور مکمل آئڈیل لائف ہے ۔
محمد احمد (ٹی وی اناؤنسر) : خیر آ پ نے یہ تو ثابت کر دیا کہ واقعی اگر کو ئی گروہ قابلِ نمونۂ عمل ہے ، تو وہ انبیائے کرام کا گر وہ اور ان میں بطورِ خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ، لیکن اس میں جو ہندو مذہب کا دعویٰ ہے کہ انسان اسی وقت چین و سکون پاسکتا ہے ، جب کہ وہ ہندو بن جائیں اور قومی دھارے میں آجائیں ،اسی طرح ہر مذہب بھی اپنے تئیں یہی دعویٰ رکھتا ہے، لہذا اس سلسلے میں مولانافاروق ندوی صاحب ! آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ذرا وقت کا لحاظ رکھتے ہو ئے انتہائی اختصار کے ساتھ جواب دیں ۔
مولاناندوی : کسی بھی گر وہ یا مذہب کے دائمی ، کامل اورعالم گیری اسوہ بننے کے لیے تین شرطیں ہیں : (۱) تاریخیت ، یعنی اس گروہ یا مذہب کے بانی کی تعلیم اور پیغام بغیر کسی خر دوبر د کے صحیح سندوں کے ساتھ ہم تک پہنچا ہو ، تاکہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے ۔(۲) جامعیت : یعنی اس کا پیغام اتنا جامع ہو ، جو تمام طبقے ، تمام خطے اور تمام زمانے کے لوگوں کے لیے ہو ، او رجس میں تمام انسانوں کے لیے یکسانیت کا تصور موجود ہو ، کیو ں کہ اگر کسی خاص طبقہ ، خاص خطہ یا خا ص لوگو ں کے لیے وہ پیغام ہو گا ،توعالم گیری ودائمی نہیں ہو سکتا ، اسی طرح اگر اس میں کسی کو اعلیٰ اور کسی کو ادنیٰ تسلیم کیا گیا ہو ، تو لامحالہ مساواتِ انسانی قائم نہیں ہو سکتی ، اور اس کے بغیر آئڈیل لائف کا کوئی معنی ہی باقی نہیں رہ جاتا ۔(۳) عملیت :یعنی اس گروہ یا مذہب کے بانی نے جو کچھ پیغام دیاہے ، پہلے ا س پر خو د عمل کر کے دکھا یا ہو ۔
دنیا کے تمام مذہبوں کو تین خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : (۱) یہودیت ونصرانیت۔(۲) ہندو۔(۳) اسلام ۔ ان میں سے جہاں تک یہودیت کی بات ہے ، تو یہودی خود اس بات کے معتر ف ہیں کہ اس کا دین صر ف ایک خاص طبقہ یعنی یہودیو ں کے لیے ہے ۔اور عیسائیوں کا بھی یہی نظر یہ ہے ، جیسا کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کا فر مان ہے کہ ’’ میں اسرائیل کے گھر انے کی کھو ئی ہو ئی بھیڑوں کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں بھیجا گیا ہو ں ‘‘ ۔لہذا ان دونوں مذہبوں میں جامعیت کے شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے عالم گیر ی نہیں ہو سکتے ، اور جہاں تک ہندو مذہب کی بات ہے ، تو اولاً اس کا یہی پتہ نہیں چلتا کہ بانی کو ن ہے ؟ ثانیاً یہ کہ ا س نے اپنے پیر و کارو ں کو نسلی اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے : (۱) شودر (۲) چھتری (۳) ویش(۴) بر ہمن ۔ ان میں سے برہمن کو سب سے اعلیٰ ذات مانا گیا ہے ، پھر علی التر تیب درجے گھٹتے گئے ہیں ، یہاں تک کہ شودر کو اس درجہ گھٹیا قرار دیا گیا ہے کہ ان کی تخلیق صر ف ان ذاتوں کی خدمت کے لیے ہو ئی ہے ، لہذاہندو میں نہ تو جامعیت ہے اور نہ ہی تاریخیت ، اور عملیت کی شر ط تو کسی گر وہ یا مذہب کے بانی میں پا ئی ہی نہیں جاتی ۔اب رہ جاتا ہے مذہبِ اسلام اور شارعِ اسلام ، تو اس میں تاریخیت بھی پا ئی جاتی ہے ، جو قرآن و احادیث کی صورت میں مو جود ہے ، اس میں جامعیت کا بھی پہلو ہے ، جیسا کہ قرآنِ مجید کااعلان ہے کہ یہ تما م انسانیت کے لیے چراغ ہدایت ہے، ھُدَی لِلْنَّاسِ اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبو ت و رسالت تمام انسانیت کے لیے ہے کَا فَّۃً لِّلنَّاسِ اور شارعِ اسلام عملیت کے تو ایسے بے مثال نمونہ ہیں کہ تاریخ ان کی نظیر پیش کر نے سے عاجز ہے ، لہذاثابت ہو گیا کہ پوری انسانیت کے لیے دائمی ، عالم گیر ی اور کامل اسو ہ اور آئڈیل لائف صر ف اور صر ف مذہبِ اسلام ہے اور شارعِ اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ۔
محمد احمد(اناؤنسر) : بے شک آپ نے عقیدت کی زنجیرو ں سے آزاد ہو کر صر ف حقائق کی روشنی میں جو آپ نے یہ ثابت کیاکہ اگر کوئی گروہ یا مذہب دائمی ، عالم گیر ی اور مکمل نمونہ حیات بن سکتا ہے، تو وہ صر ف مذہبِ اسلام اور شارعِ اسلام محمد عر بی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ۔آپ حضرات کا بہت بہت شکر یہ کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت دے کر ہمارے پر وگر ام میں شر کت کی۔
محمد خلیق(امیتابھ بچن) : شکر یہ تو آپ کا ہے سرکہ اب تک ہم گمرا ہی میں پڑ ے ہوئے تھے اوراپنے گر وہ کو دنیا کا آئڈیل لائف سمجھ رہے تھے ؛ لیکن اس پر وگرام میں شرکت کے بعد میر ی یہ خوشی فہمی ؛ بلکہ غلط فہمی دور ہو گئی ۔ اس پر میں آپ کا جتنا بھی شکر یہ ادا کرو ں کم ہے سر ۔
مولاناقاسمی : شکر یہ تو مجھے ادا کر ناچاہیے، اس ٹی وی چینل D.D.iکا،اور اس کے اناؤنسر کا کہ انھو ں نے اس پر وگر ام میں مجھے مدعو کیا اور حق بات لو گوں تک پہنچانے کا مو قع فراہم کیا ۔
محمد احمد(ٹی وی اناؤنسر) : میرے لسنرواورسجنو ! (اس وقت مشاعر ہ اناؤنسر اس کی بات کاٹتے ہو ئے کہتا ہے )
عبدالرحمان(مشاعر ہ اناؤنسر ): اناؤنسر صاحب ! روکیے ذرامجھے ایک بات کہنے دیجیے ،میں کمر ے میں ٹی وی پر آپ کا یہ پر گرام دیکھ رہاتھا، اس پروگرام کے پیش کرنے پر میں آپ کا احسان مند ہو ں کہ آپ نے اس پروگر ام کے ذریعے میر ی یہ غلط فہمی دور کر دی کہ اصلی آئڈیل لائف ہم شاعر ہیں ، اس پر آپ کاشکریہ صاحب شکر یہ ۔
محمد احمد(ٹی وی اناؤنسر) : آپ کا بھی شکریہ ۔ میر ے لسنرو! 
شاعر نے کہا ہے کہ ؂
ہرملاقات کا انجام جدائی کیو ں ہے 
اب تو ہر وقت یہی بات رلاتی ہے مجھے
لیکن دیکھ رہاہو ں کہ رونے کابھی کچھ فائدہ نظر نہیں آ رہا ہے ، کیو ں کہ گھڑی ٹک ٹک کرتی اس مقام پر پہنچ گئی ہے، جہاں مجھے نہ چاہتے ہو ئے بھی آپ سے یہ کہنا پڑے گا کہ الوداع الوداع ؛ لیکن الوداع اور گڈ بائے کہنے سے پہلے یہ کہوں گا کہ کل آپ سے پھر ملاقات ہو گی ،اسی وقت ، اسی پروگرام میں ، اسی چینل پر۔ پر وگرام کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ، آپ رہیے D.D.iکے ساتھ او رمجھے دیجیے،اجازت والسلام ، شب بخیر ،گڈ نائٹ۔


پوری دنیا پر قبضے کی صہیونی سازشیں اور ان کا حل



پسِ منظر 
عالمِ اسلام کے خلاف امریکہ اور اس کے حلیف یورپی ممالک کی پشت پناہی کے پسِ پردہ یہودیوں اور صہیونیوں کی ریشہ دوانیاں ،عالم آشکار ا ہیں ،انھیں میں سے ایک ان صلیبیوں کا پوری دنیا کو صلیبیت کی زنجیر وں میں جکڑنا بھی ہے،جس کے لیے یہودی گذشتہ کئی دھائیوں سے تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں ۔حالات کے انقلابات،میڈیاکے رسوخ واثرات،سیاسیات واقتصادیات کے طور وطریق اور گلوبلائزیشن کے زبردست حملے کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں ایک حد تک کام یاب ہو تے نظر آرہے ہیں ،جس کا بر ملا اظہار انھوں نے اپنی خفیہ دستاویز ’’پروٹوکو لز آف یہودیت ‘‘میں کیا ہے۔
مشرقی روس کے لیڈر کا ایک سائنس داں دوست نا ئلس نے جب ان دستاویزات کا مطالعہ کیا ،تو وہ ان کے منصوبے کو دیکھ کر گھبر اگیا اور دنیا کو صہیونیت کی غلامی سے بچانے کے لیے ان کا تر جمہ شائع کیا ، جس کی پاداش میں اگر چہ صہیو نیوں نے انھیں مو ت کے گھاٹ اتار دیا، بلکہ ہر اس شخص کو موت کی نیند سلاتا رہا ، جس جس نے اس کتاب کو چھاپنے او ربیچنے کی کو شش کی ۔ لیکن اس کی وجہ سے دنیائے یہو دیت میں کھلبلی مچ گئی اور اس کے خلاف زبر دست غم و غصے کا اظہار کیا گیا ۔
جب وہ پر و ٹو کو لز اردو میں ’’ وثائق یہو دیت ‘‘ کے نا م سے شائع ہو ئی ، تو راقم الحر وف بھی ان میں بیان کر دہ حکمت عملی کے مطابق حالات کے رخ کا بہا ؤ دیکھ کر گھبرا گیا اور اپنی پر واز کی حد تک دنیائے اسلام کو ان سے آگاہ کر نے کا ٹھان لیا ، چنانچہ جب بہار ، جھارکھنڈ ، اڑیسہ و نیپال کی مشتر کہ یونین ’’ بز م سجاد ‘‘ کی صدارت کی نیابت کی ذمہ داری کا بو جھ بندۂ ہیچ مداں کے دوشِ ناتواں پر رکھا گیا ، تو اس مقصد کی پر واز کے لیے اپنا پر تو لنا شروع کیا ۔ جس کی ایک کوشش یہ مکالمہ ہے ۔ اس کے کر دار اور پلاٹ دونوں کی وضاحت تفصیلات او ر دورانِ مکالمہ کر دی گئی ہے اور حسبِ مو قع رموز و اشارات کی بھی ۔
تفصیلات 
افراد کر دار 
(۱)محمد اعظم یہودی اسٹو ڈینٹ 
(۲) محمد محسن یہودی اسٹوڈینٹ 
(۳) محمد عارف یہودی اسٹو ڈینٹ 
(۴) محمد خالد پر نسپل 
(۵) محمد زاہد پر وفیسر 
(۶) ضیاء اللہ یہودی مفکر 
(۷)ثناء اللہ یہودی مفکر
(۸)ہدایت اللہ یہودی مفکر 
(۹)عبداللہ یہودی مفکر 
(۱۰)ذکر اللہ العربی یہودی مفکر 
(۱۱)احسن اللہ نیوز اناؤ نسر 
(۱۲)عبد الر حمان اخبار ی تبصرہ نگار 
(۱۳)نظام الدین مفکر اسلامی 
(۱۴)جہاں گیر مفکر اسلامی 
(۱۵)دلاور حسین مفکر اسلامی 
(۱۶)محمد تنویر مفکر اسلامی 
(۱۷) محمد ریحان مفکر اسلامی



محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ) May I Came in Sir?: =مے آئی کم ان سر ؟
محمد خالد (پر نسپل ): Sit don.Come in. yes (یس کم اِن ، سیٹ ڈاؤن)
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ):Sir(سر ) آپ کی یو نی ور سٹی میں ایڈ میشن لینا چاہتا ہوں، اس لیے مجھے ایک ایڈمیشن فارم چاہیے۔
محمد خالد (پرنسپل): یہ لو فارم، اور ون تھاوزینڈ روپیس کیش فارم فیس جمع کرو۔
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ): سر! فی الحال کیش تو نہیں ہے، چیک ہی لے لیجیے۔
محمد خالد(پرنسپل): لاؤ چیک ہی دے دو ۔۔۔۔۔۔اور سنو ! فارم جمع کرنے کا آج ہی آخری ڈیٹ ہے ، اس لیے خانہ پرُی کر کے ابھی جمع کر دو ۔
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ): یس سر ۔۔۔یہ لیجیے (یہاں پر وفیسر اسٹیج پر آکر کر سی پر بیٹھ جاتا ہے) 
محمد خالد (پر نسپل ): (ہاتھ میں فارم لے کر )یہ تم نے اپنی قومیت کیا لکھی ہے ؟ یہودیت!
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ): یس سر۔۔۔ میری نیشنلٹی یہو دیت ہے ۔
محمد خالد (پرنسپل): اس یو نی ور سٹی کے آئین کی دفعہ ۳۰؍ فقر ہ ۲؍کی رو سے تمھارا ایڈمیشن نہیں ہو سکتا ، کیو ں کہ یہ یو نی ور سٹی عیسائیو ں کی ہے ، یہاں ایسے عیسائی مبلغین تیار کیے جاتے ہیں ، جو مسلمانوں کو گمراہ کر سکیں، اس لیے یہاں صر ف عیسائیوں کا ایڈمیشن ہو تا ہے ،یہودیو ں کا نہیں ۔
محمد محسن (اسٹوڈینٹ ) : یہودی ہو نا کو ن سا گناہ ہے سر ! کہ ہمارا ایڈمیشن نہیں ہو گا ؟ 
محمد خالد (پر نسپل ): میں نے ابھی سمجھایا ناکہ یہودیو ں کاایڈ میشن نہیں ہوتا، اس لیے اٹھو اور سیدھے چپ چاپ گیٹ آوٹ ہو جاؤ ) (You are get out 
محمد محسن (اسٹوڈینٹ ) (غصیلے لہجے میں )ٹھیک ہے سر ! چلا جاتا ہوں۔(تینوں اسٹوڈینٹ اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں)
محمد زاہد (پر و فیسر) : پر نسپل صاحب ! دنیا کے تمام ممالک کا یہ متفقہ قانون ہے کہ نوعِ انسان کے ہر فرد کوخواہ وہ قوم کے اعتبار سے کچھ بھی ہو ، تعلیم حاصل کر نے کا حق ہے تو پھر کیا یہودی انسان نہیں کہ دنیا کی کوئی بھی یو نی ور سٹی اس کا ایڈمیشن نہیں لیتی ؟ 
محمد خالد (پر نسپل ): اگر چہ یہ بین الاقوامی) (Low لو ہے کہ ایجو کیشن حاصل کر نے کا حق ہر نوعِ انسان کو ہے ، خواہ اس کی قومیت کچھ بھی ہو ، لیکن قوم یہو د انتہا ئی ذلیل اور شر انگیز قوم ہے ، یہ لو گ شکل و صور ت سے تو انسان معلوم ہو تے ہیں ، لیکن حقیقت میں یہ ما ر آسیتن ہیں ،جو سب سے پہلے اپنے محسن ہی کو زک پہنچاتا ہے ، اس لیے ہم ان مو ذی جانوروں کا ایڈمیشن لے کر مفت میں مصیبت اپنے سر نہیں لینا چا ہتے ۔
محمد زاہد (پروفیسر ): آپ نے بالکل صحیح کہا پر نسپل صاحب ، واقعی ہمیں ایسا سانپ نہیں پالنا چاہیے، جو کل ہمیں کو ڈ سنے لگے ، اچھا سر ، و کیش کا ٹائم ہو گیا ہے ۔چلتے ہیں ، پھر ملیں گے ۔
محمد خالد (پر نسپل ): چلو پھر ہم بھی چلتے ہیں(اب تینوں اسٹوڈینٹ اسٹیج پر آتے ہیں )
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ): دوست ! ہم لو گوں کا سوائے یہودی ہونے کے اور کیا گناہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اپنے کالجوں اور یو نی ور سٹیوں میں ہمارا ایڈمیشن نہیں لیتی ۔ یہو دی اور ملعونِ خداوندی ہو نا دنیا والوں کی نگاہوں میں کوئی گناہ تونہیں ہے ؟ 
محمد عارف (اسٹوڈنیٹ) :میری کھٹمل جیسی عقل میں ایک سازش ہے، وہ یہ کہ چو ں کہ پچھلی مرتبہ ہمارا ایڈمیشن قومیت یہودیت لکھنے کی وجہ سے نہیں ہو ا تھا ، اس لیے ہم قومیت ہی چینج کر لیتے ہیں اور یہو دی کے بجائے نئے عیسائی لکھتے ہیں ، تاکہ کر سچن اپنا آدمی سمجھ کر ہمارا ایڈمیشن لے لے ، او رجب ایڈمیشن ہو جائے گا ، تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے ۔
محمد اعظم(اسٹوڈینٹ ): ویری گڈ : یہ نیشنلٹی چینجنگ کا آئیڈیا اچھا معلوم ہوتا ہے ، اب دیر کس بات کی، چلو ایڈمیشن کے لیے چلتے ہیں اور ایسا ہی کر تے ہیں (اس کے بعد پانچ افراد اسٹیج پر آ کر میٹنگ کر تے ہیں ) ۔
ضیاء اللہ (یہودی مفکر ) : فقط لفظِ یہود بو لنے سے ہرِ شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہی مکار ،عیار اور ذلیل و خوار قوم جو انبیائے کرام کی زبان سے مطعون ہو ئی ہے اور وہ قوم ، جس کو شرارت اور فطری خباثت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ’’دائمی ذلت ‘‘ کا پر وانہ دے دیا ہے ، وَضُرِبَتْ عَلَیْہُمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَاءُوْابِغَضَبٍ مِنَ اللّٰہِ ، اسی وجہ سے ساری دنیا کا ہمارے بارے میں یہ تصور قائم ہو گیاہے کہ یہو د مارِ آستین ہیں ، یہود خون چوسنے والی قوم ہے ، تمام مصیبتیں یہود کی پیداکر دہ ہیں اسی تصور کی وجہ سے ہمارے بچوں کا دنیا کی کسی بھی یو نی ور سٹی میں ایڈمیشن نہیں ہو رہا تھا، یہ الگ بات ہے کہ ہماری نیشنلٹی چینجینگ سازش سے ایڈمیشن ہو گیا، ہماری تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ اِ نھیں تصورات کی وجہ سے ہم بطور یہو د کہیں بھی اور کبھی بھی پنپ نہیں سکتے ، لہذا اپنی قوم سے ان بھیانک الزامات کو ختم کر نے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے، اور کیا صور ت اختیار کی جائے کہ ہم بھی دگر اقوام کی طرح عزت و شرافت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ؟۔
ثناء اللہ ( یہودی مفکر ):آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ ہم بطور یہود کہیں بھی پنپ نہیں سکتے ، کیوں کہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے ۷۲۰ ؁ ق م میں آشورکے فرما رواسارگون نے سلطنتِ یہود کو تہس نہس کر دیا، ۵۸۷ ؁ق م میں شاہ بابل بخت نصر نے ہماری حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ۹۸ ؁ ق م میں شام کے سلوقی بادشاہ اینٹیو کس نے ہمارے خلاف زبر دست معر کہ آرائی کی۔ ۶۳۰ ؁ ق م میں رومن فاتح پو مپی نے ہماری قوت و طاقت کو پامال کر دیا ، ۷۰ ؁ء میں ٹیٹس نے ہمارے ایک لاکھ افر اد کو قتل ، ۶۷؍ ہزار کو غلام اور ہماری دوشیزاؤں کو فوجیوں میں تقسیم کر دیا ، ۶۱ ؁ء میں ہماری قوم جزیر ۃ العرب سے جلاوطن کر دی گئی، ۱۱۰۷ ؁ء میں یوسف بن تاشقین نے ہمیں کچل کر رکھ دیا۔ ۱۲۰۰ ؁ء میں مختلف ملکوں میں ہمارا قتلِ عام ہوتا رہا ، ۱۲۵۴ ؁ء میں ہم فرانس سے جلاوطن کیے گئے ۔ ۱۳۲۱ ؁ء میں اسپین میں ہمیں زندہ جلادیا گیا ، جر منی میں ہم خون چوسنے والی قوم کی صدائے ذلت سے پکارے گئے ، ۱۴۹۴ ؁ء میں فرڈے ننڈ کے ظلم و ستم کے شکار ہو ئے ،۱۶۵۱ ؁ء میں ہو لینڈ سے ملک بدرکیے گئے ، ۱۸۷۱ ؁ء میں روس سے بھگائے جانے پر ہم نے فرانس و انگلستان کا رخ کیا ، لیکن ہمیں ویزا نہیں دیا گیا ، جب پو ری دنیا اپنی وسعت کے باو جود ہم پر تنگ کر دی گئی ، تو تر کیوں نے انسانیت کی خاطر ہمیں پناہ دینے کی کوشش کی ؛ لیکن ہم وہا ں پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں لو ٹ لیے گئے ، اتنا مظلوم ہونے کے باوجود بھی ہمارے بارے میں کہا گیا کہ ’’ ہر مصیبت یہود کی پیدا کر دہ ہے‘‘ اور اس خیال کو عام کر نے کی تحریک چلائی گئی، جو آج بھی سامی کش تحریک کے نام سے اپنے کام میں مشغول ہے ، اور ہمارے خلاف لو گوں کو نفر ت و عداوت پر اکسا رہے ہیں ، بالأ خر کب تک ہم ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہیں گے ، اس لیے اب ہمیں کو ئی ایسی حکمت عملی اختیار کر نی چاہیے، جس سے ہم سر اٹھا کر جی سکیں ۔
ہدایت اللہ (یہودی مفکر):اگر ہم عز ت وشرافت کے ساتھ سراٹھاکر جینا چاہتے ہیں ، تو سب سے پہلے اپنی بر بادی او ربد نامی کے اسباب تلاش کرنے ہو ں گے اور ہماری ساری بر بادی و بد نامی کی وجہ انبیا ئے کرام کی زبانی ہماری مطعونیت اور دائمی رسوائی کی مہر الہی کی وجہ سے پیدا شدہ لو گوں کے دلوں میں ہماری نفر ت ہے، اور جب تک لو گو ں کے دلوں سے ہماری نفر ت ختم نہیں ہوگی ، تب تک ہم عزت کی زندگی نہیں جی سکتے ، اس لیے ا س حوالے سے ہمیں ایسی حکمت عملی اختیار کر نی پڑے گی، اور ایسے کار نا مے انجام دینے ہوں گے جس سے ہم ہر کسی کی ضرورت بن جائیں ، اور فی الحال ہم ہر کسی کی ضرورت بننے کے لیے یہ صورت اختیار کر سکتے ہیں کہ ہمارے جن جن بچوں کی نیشنلٹی سازش سے یو نی ور سٹیوں میں ایڈمیشن ہو رہا ہے ، ان میں سے کسی کو ڈاکٹر بنا ئیں کسی کو ڈائر یکڑ، کسی کو سائنٹسٹ بنا ئیں، کسی کو انجنیر اور کسی کو دگر ٹر ٹر ، جب ہمارے بچے ٹر ٹر بن جائیں گے، تو لوگو ں کے دلوں سے ہماری نفرت و عداوت خود ہی ختم ہو جائے گی اور ہم عزت و شرافت کے ساتھ زندگی گذارنے لگیں گے ۔
عبدااللہ (یہودی مفکر ):آپ کی سوچ کچھ اونچی معلوم ہو تی ہے ، جو ہم جیسے کم سمجھکی سمجھ سے بالا تر ہے، اس لیے آپ مثال سے ہمیں سمجھائیں کہ مثلاً ہمارے بیٹے ڈاکٹر بن جائیں گے ، تو لوگوں کے دلوں سے ہماری نفر ت کیسے ختم ہو گی او ر ہماری الفت و محبت ان کے دلوں میں کیسے پید ا ہو گی؟
ذکر اللہ (یہودی مفکر ) : واقعی آپ جیسے کم عقلوں کی وجہ سے ہی قوم یہود اتنی ذلت و رسوائی کاشکار ہو تی رہی، جو اتنی عام فہم بات بھی نہیں سمجھ پاتے، ارے بھائی جب ہمارے بیٹے ڈاکٹر بن جائیں گے تو لوگ بیماروں کو لے کر ہمارے پاس آنے پر مجبور ہو ں گے اور ہم سے التجا و درخواست کریں گے کہ ہمارے مریض کو دیکھ لو ڈاکٹر صاحب ، اس طرح سے لو گ ہمارے محتاج ہو جائیں گے، اور ہم ان کی ضرورت بن جائیں گے ، اسی طرح دگر شعبہ ہا ئے زندگی میں بھی ہمارے محتاج ہو ں گے اور انسانی فطرت ہے کہ محتاج کو محتاج الیہ سے عقیدت ہو ہی جاتی ہے ، اور جب کسی سے عقیدت ہو جاتی ہے ، تو اس کی ہر برائی بھی اچھائی ہی معلو م ہو تی ہے ، لہذا لو گ ہمارے محتاج ہونے کی وجہ سے جب ہمارے عقیدت مند بن جائیں گے، تو ان کے دلوں سے ہماری نفرت ختم ہوجائے گی، اور جب نفرت ختم ہو جائے گی، تو ہم بھی عزت و شرافت کے ساتھ زندگی بسر کر نے لگیں گے ۔
ضیا ء اللہ (یہودی مفکر ): ہم ہر کسی کی ضرورت بن جائیں ، یہ مشورہ بالکل ٹھیک ہے ، امید ہے کہ ہم سب اس پر عمل کر یں گے ، تو راۃ کے الفاظ ہیں کہ ’’ بادشاہ میرے ہی تو سط سے حکمرانی کرتے ہیں‘‘ یعنی پیغمبر وں کے اشارے کے مطابق ہمیں کر ۂ ارض پر حکمرانی کے لیے خود خدانے منتخب کیا ہے ، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی ذہا نت عطا کی ہے ، تاکہ ہم اس فر ضِ عظیم کو انجام دے سکیں، یہ الگ بات ہے کہ عصر حاضر میں ہماری کو ئی منظم پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہم در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، آج کی میٹنگ اِنھیں باتوں پر اختتام پذیر ہو تی ہے ، اگر ہم آج کی میٹنگ میں پا س کر دہ تجویز پر عمل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور لو گ ہمیں شریف قوم سمجھنے لگیں ، تو وہ دن دور نہیں، جس دن ہم پوری دنیا پر حکومت کر نے کے خواب دیکھنے لگیں گے اور صر ف خواب ہی نہیں دیکھتے رہیں گے ، بلکہ اس خواب کو شر مندۂ تعبیر بھی کر دکھائیں گے ۔
(پانچوں چلے جا تے ہیں اور پہلے کے تینوں اسٹوڈینٹ اسٹیج پر آ تے ہیں )
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ) : پہلے ہم اسٹوڈینٹ ایڈمیشن کے لیے پریشان تھے ، اب ایڈمیشن ہوگیا ہے، تو نمبرات کے لیے پریشان ہیں ، کیوں کہ پر نسپل کوجب سے یہ پتہ چلا ہے کہ ہم لو گ وہی مکار یہو دی ہیں ، تب سے ہمیں نمبرات ہی نہیں دیتے کہ ہم لوگ آگے بڑھ سکیں اور کسی بڑے شعبے میں داخلہ لے سکیں، بس اعادے پر اعادہ ہو رہا ہے ، یہ تو ہمارے بڑوں کا پو ری دنیا پر حکومت کر نے کے خواب کا شیش محل زمین بوس ہو تا ہو ا نظر آرہا ہے ، کیوں کہ جب ہمارے نمبرات نہیں آئیں گے ، تو ہم ڈاکٹر انجنیر کیسے بنیں گے ، جس سے ہم ہر کسی کی ضرورت بن سکیں ، لہذا اب کیا کر نا چاہیے ؟ 
محمد محسن (اسٹوڈینٹ ) : ہماری فطر ت یا کہہ لیجیے کہ ہماری کا میابی کا اصل ہتھیا رہے : شرارت، مکاری اور سازش ، تو پھر غم کس چیز کا ،چلو کو ئی نئی سازش رچتے ہیں ، جیسے ہم ممتحن کو گھی کاڈبہ دے دیں گے یا چائے پلادیں گے۔
محمد عارف (اسٹوڈینٹ ):آپ اپنی سازش اپنے ہی پاس رکھیے اور میر ی سازش سنیے کہ اگر ہمارے نمبرات اس سے پہلے ۸۰؍ پر سینٹ کی محنت پر ۹۰؍ آتے تھے تو اب ہم پورے سو پر سینٹ محنت کر یں گے، تاکہ پر نسپل ہماری قابلیت کو دیکھ کر سو فی صد نمبرات دینے پر مجبور ہو جائیں اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں ۔
محمد اعظم(اسٹوڈینٹ) : یہ بات تو دل کو لگنے والی ہے اور ہم اسی پر عمل کریں گے ، اس کے بعد (تینوں چلے جاتے ہیں اور پانچوں یہودی مفکر آتے ہیں) 
ضیاء اللہ (یہودی مفکر) :سوئزر لینڈ کے اس شہر بازل میں مختلف ممالک سے تشریف لائے یہودی تنظیموں کے تمام سر براہان کا سواگت ہے ، آج ہم اس میٹنگ میں پو ری دنیا پرحکومت کرنے کا لائحۂ عمل مر تب کر یں گے ، کیو ں کہ گذشتہ میٹنگ میں پاس شدہ تجویز ات پر عمل کرنے میں ہم ننانوے پرسینٹ کامیاب رہے ہیں ،چناں چہ ہمارے بچے انجنیر نگ اور آرٹنگ وغیرہ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے ہیں ، جس سے لو گوں کے دلوں سے نہ صرف ہماری نفرت ہی ختم ہو رہی ہے ، بلکہ وہ ہمیں شریف قوم اور اپنا خیر خواہ بھی سمجھنے لگے ہیں ، اس لیے وہ مو قعہ آگیا ہے کہ جس میں ہم پوری دنیا پر حکومت کر نے کے خواب کو شر مندۂتعبیر کر یں اور اس کے منصو بے تیار کریں ، اس کار روائی کو آگے بڑھاتے ہو ئے میں بلڈ ر بر ج تنظیم کے صدر بر ن ہارڈ کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ عالمی نظام کے کچھ منصوبے پیش کر یں ۔
ثناء اللہ (یہودی مفکربر ن ہارڈ): پوری دنیا پر قبضہ کرنے کا واحد ذریعہ قوت و طاقت ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ طاقت ورچیز سیم وزر ہے ’’ لَوْ لَا التُّقَیٰ لَقُلْتُ جَلَّتْ قُدْرَتُہُ ‘‘ کیوں کہ دنیا میں اچھے لو گوں کی بہ نسبت برے لوگو ں کی تعداد زیادہ ہے اور برے لوگوں کو طاقت ہی سے زیر اور سیم وزر کے لالچ سے ہی غلام بنایا جاسکتا ہے ، لہذا سیم وزر کے ذخائر پر قبضہ، دنیا کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لیے اولین شر ط ہے ۔
ضیاء اللہ(یہودی مفکر):اب میں اس کے بعد یہو دی مفکر را کفلرفاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری سے در خواست کر و ں گا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
ہدایت اللہ (یہودی مفکر) :اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سونے کے ذخائر پر قبضہ کر نے کو مر کزی حیثیت اور اولین شر ط قرار دیتے ہیں ، تو ذرائع ابلاغ بھی خواہ وہ پر نٹ میڈیا کی شکل میں ہو یا الیکڑانک میڈیا کی شکل میں ، ہمارے مقاصد کے حصول کے لیے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں،کیو ں کہ میڈیا عقلوں کو فتح کر نے، اپنے جذبات و احساسات اور فکر و خیالات سے دوسروں کو متاثر کر نے کا ایک مضبوط ہتھیار ہے ، جس کے ذریعے ہم غیر حقیقی افکار وخیالات اور باطل عقائد و نظریات کو لوگوں کے دماغوں میں راسخ کر سکتے ہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ، نیز میڈیا پر ہمارا ہی مکمل کنٹرول ہو نا چاہیے، تاکہ اگر ہمارے مخالفین ہماری حکمت عملی کی مخالفت کر یں ،تو ان کی آواز ایک محدود حلقے میں رہ کر خود ہی بے اثر ہو جائے گی۔
(۱)یہودی مفکر (ضیااللہ ) بعد ازاں عالمی تنظیم کے اسسٹینٹ سیکریڑی کودعوت دوں گا کہ وہ بھی کچھ کہیں۔
عبدا للہ (یہودی مفکر): کسی بھی قوم اور ملک پر بالا دستی قائم کر نے کے لیے ا ن کی ثقافت و فکر پر حاوی ہو نا اور ان کے مذہبی تشخص و جذبات کو ختم کر نا ضروری ہے ، اس لیے غیر یہودیوں کو صنعت وتجارت اور مادی تر قی کے چکروں میں ایسا پھنسا دیا جائے کہ انھیں اپنے مذہب پر غور و فکر کرنے کا موقع ہی نہ مل سکے ، اس طرح تمام اقوام جلبِ زراور منفعت اندوزی کے تعاقب میں یوں سر پٹ دوڑتی رہیں گی کہ ان کا صرف ایک ہی مقصد رہ جائے گا ، یعنی زر پرستی اور منافع پر ستی، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب وہ اپنے اپنے مذہب سے بے گانہ ہو جائیں گے، تو اپنے مذہبی تشخص اور دینی ثقافت وفکر سے محروم ہوتے چلے جائیں گے اور اس جگہ ہماری مغربی تہذیب و ثقافت اور لادینیت کے رنگ میں رنگتے چلے جائیں گے ۔
ضیاء اللہ(یہودی مفکر ): اب ہم سب سے آخر میں تعلقاتِ خارجہ یعنی G.F.R. کو نسل کے سر برا ہ کو دعوت دیں گے کہ وہ بھی کچھ ارشاد فر مائیں ۔
ذکر اللہ(یہودی مفکر ):پوری دنیا کو یہودی کے دم چھلے اور غلام بنانے کے لیے ابھر تی ہو ئی نسل کی قوتِ فکر کو سلب کرنا بھی ضروری ہے ، تاکہ وہ ہمارے ان خوف ناک عزائم کوبھانپ نہ سکیں ،جس کے لیے کارٹونوں ، سیریلوں اور کرکیٹ جیسی بے سود چیز و ں کو ایسے دل چسپ انداز میں پیش کریں گے کہ نو نہا لانِ قوم انھیں چیز وں سے لطف اندوزی میں مگن رہیں اور حالاتِ دنیا اور فکرِ آخرت سے غافل ہو جائیں ، نیز ہماری تمام پر و ٹو کو لز خفیہ اور پو شید ہ رہنے چاہیں،کیو ں کہ ان دستاویزات پر عمل درآمد ہو نے سے پہلے ان کے عام ہو جانے سے یہو دیوں کو بڑے خطرات در پیش ہو سکتے ہیں اور ہم اپنے مقصد میں نا کام بھی ہو سکتے ہیں ۔
ضیا ء اللہ(یہودی فکر ):آج بہ تاریخ ۱۵؍ جو ن ۱۸۸۷ ؁ء بر و ز ہفتہ شہر باسل میں ایک میٹنگ منعقدکی گئی ، جس میں پو ری دنیا پر صہیو نی قبضہ جمانے کے لیے بہ اتفاقِ رائے مندرجہ ذیل منصو بے بنائے گئے :
(۱) سونے کے ذخائر پر قبضہ ۔
(۲) ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹر ول ۔
(۳) صنعت و تجار ت میں سر ما یہ دارانہ نظام کا فر وغ ۔
(۴) ٹکنا لو جی کے مید ان میں انقلاب ۔
(۵) فلموں کے ذریعہ مغر بی تہذیب وثقافت ،مغربی معاشر ت واخلاق اور مغربی زبان و ادب یعنی انگریز ی زبان کا فرو غ ،نیز کر کیٹ وغیرہ کے ذریعے نونہالانِ قوم کی عقل و فکر کومفلوج کر نا ۔
(۶) مذکور ہ بالا پر و ٹو کو لز کو با لکلیہ خفیہ او رپو شیدہ رکھناتاکہ ہمارے خو ف ناک عزائم پر کو ئی مطلع نہ ہو سکے ۔
آج کی میٹنگ یہی ختم ہو تی ہے ، تو راۃ میں ہے کہ’’ یہو دا(خدا) ایک مسیحا نازل فر مائے گا ، دنیا کی باد شاہت اس کی ہو گی، اس کے آنے سے حضر ت داؤ د علیہ السلام کی سلطنت بحال ہو جائے گی اور یر و شلم خدا کا دارالحکومت ہو گا‘‘ ۔ یعنی یہو دیو ں کی مقدس سر زمین اوران کی حکو مت کا اصل وطن ارض فلسطین ہے، اس لیے ہماری اگلی میٹنگ حصولِ فلسطین کے لیے ہوگی۔( اس کے بعد خبریں نشر ہوتی ہیں)
احسن اللہ(خبریں ):یہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سر و س ہے، صبح کے چھ بجے ہیں ،اب آپ احمق گپتا نا دان سے خبریں سنیے ۔
آج یہو دیو ں کی عظیم عالمی صہیو نی سازش یعنی ان کی خفیہ دستاویز ات کے انکشاف پر دنیا کے بڑے بڑ ے لیڈروں ا ور مفکر وں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے ، آج ’’ سجاد یو نین ‘‘ کا تاریخی اور افتتاحی اجلاس بہ مقام دارالحدیث تحتانی دارالعلوم دیو بند بڑے ہی تز ک واحتشام کے ساتھ منعقد ہونے جارہا ہے ، جس میں ملک کے بڑے بڑے علما ئے کرام تشریف لارہے ہیں ۔(اس جگہ اور بھی حالات حاضر ہ کی خبریں نشر کی جائیں )۔
اور آخرمیں کیا چھپا ہے آج کے اخباروں میں، آئیے دیکھنے کے لیے چلتے ہیں ابوالخیال فر ضی کے پا س۔ فر ضی جی ! بتائیے کہ آج کے اخبار وں کی اہم اہم سر خیاں کیا ہیں ؟ 
عبدالر حمان (ابو الخیال فر ضی) : آج دنیا بھر کے اکثر بڑے اخباروں میں یہو دیو ں کی عظیم ساز ش یعنی ان کی خفیہ دستاویزات کے انکشاف کی خبر کو انتہائی اہمیت کے ساتھ نمایا ں طو ر پر شائع کیا ہے ، چناں چہ لند ن سے شائع ہونے والے دہ ٹائمس آف لندن میں لکھا ہے کہ ؂
’’ یہودیوں کی خفیہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی انھیں رو بہ عمل لا یا جاچکا ہے ، اس لیے اس کے خلاف اگر فو ری طور پر پیش رفت نہ کی گئی، تو ایک دن ضرور پوری دنیا یہودیت کے خطر نا ک شکنجے میں پھنس جائے گی‘‘ ۔ 
نیو یار ک ٹا ئمس میں لکھا ہے کہ ’’ 
’’اس خوف نا ک فر قے نے اپنے تسلط کے لیے جو منصوبہ بنا رکھاہے ، اس کے پہلے مراحل طے ہو چکے ہیں ، یعنی عام انقلاب بر پا کرنے کے لیے کئی تختے الٹ دیے جائیں گے ۔ تمام مذاہب داخلی انتشار سے دو چار ہوجائیں گے اور معاشرہ تباہ و بر باد ہو جائے گا ‘‘۔
دی ٹائمس آف انڈیا اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ
’’ یہودیو ں کی سازش کا جو پر وٹوکو ل دستیاب ہو ا ہے ، ان کی یہ تحریر نئی نہیں ہے ، بلکہ ۱۸۹۷ ؁ء سے لے کر عصر حاضر تک جو عالم گیر سازشیں ظہو ر میں آتی رہی ہیں، ان کا مقصد صہیونی حکومت کا قیام اور گلوبلائزیشن کا نفاذ ہے ، سب کے سب پر وٹو کول میں بیان کر دہ حکمت عملی کا نمونہ ہے ‘‘۔
عربی کا مشہو ر اخبار ’’ عکاظ ‘‘ میں ہے کہ’’ مو جو دہ دور کے حالات ، پروٹوکول میں بیان کر دہ منصوبو ں کے با لکل مطابق ہو رہے ہیں ۔ اور انڈیا ٹوڈے نے اس خبر پر سر خی لگائی ہے کہ ’’ یہ کو ئی افسانہ نہیں ، بلکہ خو ف نا ک حقیقت ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہو دیوں کی اس سازش پر قابو پانے اور دنیا کو یہو دیوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ’’ رابطۂ عالمِ اسلامی ‘‘ کا مکہ مکر مہ میں کل ہو نے والے اجلاس کی خبر کو بھی خصوصی طورپر اکثر اخباروں نے پہلے ورق پر جگہ دی ہے ۔۔۔۔۔۔فر ضی جی ! آپ کا شکر یہ ۔
اسی کے ساتھ خبریں ختم ہوئیں ۔۔۔( اس کے بعد رابطۂ عالم اسلامی کے اراکین کی میٹنگ ہوتی ہے)۔
نظام الدین (اسلامی مفکر): پو ری دنیا پر صہیو نی قبضہ اور گلو بلا ئز یشن کے نفاذ کے لیے صدیوں قبل کی منصو بہ بندی یعنی ان کی خفیہ پر و ٹو کو ل کا جو انکشاف ہو ا ہے، ان کی تدبیرو ں پر جہاں انھیں شاباشی دینے کو بے ساختہ جی چاہتاہے ، وہیں ہم در د مندانِ ملتِ اسلامیہ کے قلوب خون کے آنسو بہانے پر مجبور ہیں ، کیو ں کہ عالمی سطح پر سیا سی و سماجی ، صنعتی و اقتصادی ، فکر ی و ثقافتی ، غرض تمام شعبۂ ہا ئے زندگی میں گلوبلائز یشن کا جو اثر نظر آرہا ہے یہ انھیں یہو دیوں کی پروٹو کول کا نتیجہ ہے ، اور آئے دن عالم اسلام کی صور تِ حال جو سنگین سے سنگین تر ہوتی چلی جارہی ہے ، یہ بھی انھیں کی کا رستانیوں کاسبب ہے ، ایسے میں عالمی برادری کی غفلت سے پوری دنیا ، با لخصوص مسلمانو ں کو شدید خطرات در پیش ہیں ، لہذا صہیونی چیلنج اور گلو بلائزیشن کے سد باب کے لیے کو ن سا طریقہ اختیا رکیا جائے ؟ اسی پر اظہار خیال کے لیے یہ میٹنگ بلائی گئی ہے ۔ اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے ہندوستان سے تشریف لائے ایشیا کے عظیم اسلامی مفکرجناب حضرت مولانامر غوب الرحمن صاحب مدظلہ العالی سے درخواست کر تے ہیں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
جہاں گیر(اسلامی مفکر): عالم گیر یت او رگلو بلائزیشن کو روکنے کے لیے تین طرح کے رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں : (۱) عالم گیریت کو من وعن تسلیم کر لیا جائے او راسے انسانوں کے لیے سر چشمۂ خیر مان لیا جائے ، ظاہر ہے کہ حقائق کی روشنی میں یہ بالکل غلط بات ہو گی ۔(۲) گلو بلائزیشن کو مکمل طور پر ر د کر دیا جائے ، لیکن یہ تین وجوہ سے ممکن نہیں ، پہلی وجہ یہ ہے کہ عالم گیریت کا طوفان پو ری دنیا کو اپنی لپٹ میں لے چکا ہے یا لیا چاہتا ہے ،اس لیے ہم قلیل افراد اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم گیریت لاتعداد چینلو ں کے ذریعے لو گوں کو اپنا شکار بنا رہی ہے ، خواہ لو گ چاہیں یا نہ چاہیں ، ان چینلوں پر نہ صر ف افراد ، بلکہ حکومتوں کے لیے بھی کنٹر ول ممکن نہیں ، توہم بدرجۂ اولیٰ کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں ، تیسری وجہ یہ ہے کہ صہیونیو ں کا سیاسی اقتصادی ، ثقافتی ، معاشرتی گویا ہر میدانِ زندگی پر قبضہ ہو گیا ہے ، لہذاکوئی قوم یا جماعت اپنے آپ کو ا س سے علاحدہ نہیں کر سکتی کہ اس سے کٹ کر اس کا مقابلہ کر ے ۔ ( ۳) اور تیسرا رویہ یہ اختیار کیا جاسکتاہے کہ جو ہمارے لیے ممکن بھی ہے کہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر ہم گلو بلائزیشن کے خطرات سے لو گوں کو آگاہ کر یں اور دین اسلام کی روشنی میں اس کا متبادل پیش کریں ۔
نظام الدین ( اسلامی مفکر): اب میں ا س کے بعد مصر سے آئے ہوئے جامع ازہر کے استاذ سماحۃ الشیخ سمیر محمد احمد عاشور کو دعوت دیتاہو ں کہ وہ بھی اپنے خیالات کااظہار کریں ۔
دلاور حسین (اسلامی مفکر ): پوری دنیا پر صہیونی قبضہ یا گلو بلا ئزیشن کو نا کام کر نے کے لیے حضرت کے بیان کر دہ لائحے کے علاوہ یہ طریقے بھی اختیار کیے جاسکتے ہیں : (۱) دستیاب خفیہ پروٹو کو ل کو بڑے پیمانے پر شائع کر کے اس کے خطر ناک مقاصد سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ (۲) تمام ممالک کی وزارت خارجہ سر کاری وغیرسرکاری تنظمیں، بالخصوص ہر مسلم ممالک کی وزارت خارجہ ، وزارت برائے معاشرتی امور اور ہر جگہ کے دارالافتا والقضا ان کے نا پاک عزائم کے خلاف مذمتی بیانات بڑے پیمانے پر شائع کریں، تاکہ عوام ان سے متأثر نہ ہو ں۔(۳) مدرسوں ، بالخصوص کالجو ں اور یو نی ور سٹیوں میں ایسے پر وگرام منعقد کیے جائیں ، جن کے ذریعے ان کے مذموم مقاصد آشکارہ کیے جائیں تاکہ نو نہالانِ نسل ان سے متأثر نہ ہوسکیں ۔ (۴) ائمہ خطبا اور مبلغین حضرات اپنی تقریروں اور خطبوں میں دینی رہ نمائی کے ساتھ ساتھ ان کی ناپاک سازشوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کریں تاکہ لوگ ان سے اجتناب کر نے لگیں اور گلو بلائزیشن کی روک تھام ہو سکے ۔
نظام الدین (اسلامی مفکر): اب میں ا س کے بعد ڈاکٹر فواد بن عبدالکریم کو دعوت دیتا ہو ں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
محمد تنویر( اسلامی مفکر ): اس سلسلے میں میر ی رائے یہ ہے کہ گلو بلائزیشن کی ترویج کے لیے کوشاں کا رندے اور افراد کے سامنے اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلام کے اقتصادی ومعاشر تی نظام کو پو ری قوت کے ساتھ پیش کیا جائے اور صہیو نی عالم گیریت کے مکروہ چہرے سے پردہ ہٹایا جائے ،تاکہ وہ اس کی خرابی کو تسلیم کر کے اسلامی عالم گیریت کا داعی بن جائے ۔
نظام الدین (اسلامی مفکر): اب میں سب سے آخر میں اسلامی مفکر مراد ہا ف مین سے درخواست کر تا ہوں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
محمد ریحان( اسلامی مفکر ): مو ضوع کے حوالے سے میں یہ کہنا چا ہو ں گا کہ عالم گیر یت کے چند میدانِ عمل ہیں،جیسے سیاسست ، اقتصاد، تہذیب وثقافت ، معاشرہ واخلاق ،زبان وادب وغیرہ وغیرہ۔ عالم گیریت کے پا لیسی ساز یہودیوں نے عالم گیر یت کے ان تمام پہلووں کو قابل غور بنانے کے لیے جن وسائل کے ذریعے راہ ہموار کی ، ان میں سے اہم وسائل درجِ ذیل ہیں :(۱) سونے کے ذخائر پر قبضہ (۲) سر مایہ دارانہ نظام کا فروغ (۳) ٹکنا لو جی کے میدان میں انقلاب (۴) میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈے ، ان مذکو رہ وسائل میں میڈیا کے ذریعہ پر و پیگنڈے نے عالم گیریت کو پھیلانے میں سب سے زیادہ اہم رول ادا کیا ہے ، لہذا کیو ں نہ ہم بھی ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے میڈیا کے ذریعے ان کا مقابلہ کریں او رصہیونی سیاست و حکومت ،صیہونی تہذیب وثقافت، صیہونی اخلاق ومعاشر ت اور صیہونی زبان و ادب کے مفاسد اجاگر کر کے اسلامی سیاست و حکومت ، اسلامی تہذیب وثقافت، اسلامی اخلاق ومعاشرت اور اسلامی زبان و ادب کو میڈیا کے ذریعہ گھر گھر تک پہنچائیں ۔
نظام الدین (اسلامی مفکر ):مکہ مکر مہ میں منعقد اس اجلاس میں پوری دنیا پر صیہونی قبضہ اور گلوبلائزیشن کی روک تھام کے لیے بہ اتفاق رائے مندرجہ ذیل امور پاس کیے گئے :
(۱)انفرادی واجتماعی سطح پر گلوبلائزیشن کے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اوراسلامی متبادل پیش کیا جائے۔
(۲)دریافت شدہ خفیہ پروٹوکول کو بڑے پیمانے پر شائع کیا جائے ۔
(۳) تمام مما لک کی وزارتیں ، سر کاری وغیرسرکاری تنظیمیں ،نیز ہرجگہ کے دارالافتا والقضا ان کے ناپاک عزائم کے خلاف مذمتی بیانات جاری کر یں ۔
(۴) نئی نسل خصوصاً مغربی ماحول میں پر ورش پانے والے اسکولو ں اور کالجوں کے اسٹوڈینٹ کے لیے خصوصی پر وگرام منعقد کر کے صیہونیوں کے مذموم مقاصد سے آگاہ کر کے ان سے اجتناب کی تلقین کی جائے ۔
(۵) صیہونی مقاصد کے لیے کار فر ماں دماغوں اور کو شاں کارندوں کے سامنے اسلامی تہذیب اور اسلامی اقتصادی ومعاشرتی نظام پوری قوت کے ساتھ پیش کیا جائے ۔
(۶) چوں کہ صہیونیت اور گلوبلائز یشن کی راہ ہموار کر نے میں سب سے زیادہ اہم رول میڈیا نے ادا کیا ہے ، اس لیے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے ا ن کا مقابلہ میڈیا کے ذریعہ کیا جائے۔
آج کی میٹنگ اختتام پذیر ہو تی ہے ، حالات کے مطابق ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً ہماری میٹنگ ہو تی رہے گی ۔

فضلائے مدارس کامستقبل مجہول ہے ؟



پسِ منظر 
انگریزی زبان ایک عالمی،بین الاقوامی اور انٹرنیشنل زبان کی حیثیت اختیار کرجانے کی وجہ سے فضلائے مدارس۔اس زبان سے مکمل طورپر واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے ۔اس احساس کمتری کے شکار نظر آرہے ہیں کہ’’ہمارا مستقبل مجہول ہے‘‘اور ہماری تعلیم عصرِ حاضر سے ہم آہنگ تعلیم نہیں ہے،اس احساس سے طلبہ میں کیا کیا خامیاں درآئی ہیں ،انھیں کا جائزہ اس مکالمے میں لیا گیا ہے۔ اس میں پلاٹ وکردار دونوں مزاحیہ ہیں ،مزید برآں ظرافت کی نمکینی میں تھوڑی سی مٹھاس پیدا کرنے کی خاطر کچھ عملی وآلی رموز بھی استعمال کی گئی ہیں ۔
تفصیلات
افراد کردار
(۱)محمد افضل طالب علم (فٹ بالر)
(۲)محمد ارشد طالب علم (کرکیٹر)
(۳)محمد اکبر طالب علم (ناصح)
(۴)محمداحمد مولانا (استاذ )
(۵)محمد اختر مو لانا(استاذ)


محمدافضل:(ایک لڑکا ہاتھ میں کھانا لینے والاجھو لااور برتن لے کراسٹیج کی ایک جانب سے آتا ہے اوردوسری طرف سے محمد ارشد،درمیان اسٹیج میں سلیک علیک کے بعد)
محمدافضل (طالب علم):ادھر چھٹی کیا ہوئی کہ ادھر فوراً برتن اٹھایا اور چل دیے کھانا لانے، مدرسہ صرف کھا نے ہی کے لیے آئے ہوکیا؟ 
محمد ارشد (کرکیڑ ): آپ اس طرح مجھ پر جملے کس رہے ہیں ،جیسے آپ کبھی کھاتے ہی نہیں؛ بلکہ ہمہ وقت پڑھتے ہی رہتے ہیں اور میں صرف کٹرہ ہی کھاتا رہتا ہوں ۔
محمد افضل(طالب علم ): اردو کا ایک محاورہ ہے کہ ’’مارے گھٹنہ پھوٹے سر‘‘ ارے بھائی! میرے کہنے کایہ مطلب تھوڑی ہی ہے کہ آپ صرف کٹرہ کھانے میں اورمیں صرف پڑھنے میں لگا رہتا ہوں ،بلکہ میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ مدرسے والے نے آپ کے حصہ کی جو دو روٹی ،دوبو ٹی اور ایک آلو بنایا ہے ،وہ کسی اور کو نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ختم ہو جائے گی، پھر بھی اتنی جلدی کھانا لا نے کی وجہ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
محمد ارشد (کرکیٹر): آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ پورے چوبیس گھنٹے میں صرف چھٹی کے بعد کا مختصر ساوقت کھیلنے کودنے کو ملتا ہے ،تو اگر اس کو بھی کھیل کود کے علاوہ کسی اور چیز میں صرف کریں گے، تو کھیلنے کا وقت نہیں ملے گا نا۔
محمد افضل : اچھا کون سا کھیل کھیلتے ہیں جس کے لیے اس قدر اہتمام کرتے ہیں آپ ؟
محمد ارشد (کرکیٹر): ارے بھائی وہی کھیل، جس کا آج پوری دنیا دیوانی ہے اور ہر خواص وعام اس کا شیدائی ۔
محمد افضل (طالب علم) : اچھا یہ بات ہے! کیا نام ہے اس کھیل کا؟ 
محمد ارشد (کرکیٹر): آپ بھی کیا تصوف کی پُڑ یا بنے ہو ئے ہیں جو اتنا کہنے کے بعد بھی نہیں سمجھتے ،ارے صوفی جی!وہ کھیل کرکیٹ ہے ،کرکیٹ۔
محمد افضل (طالب علم ): اچھا اچھا اب میں سمجھا ،وہی کھیل جس میں ایک آدمی چھوٹا سا کیا اینٹ اونٹ پھینکتا ہے اور دوسرا ایک لکڑی سے اس کو مارتا ہے اور پھر سب کھلاڑی مل کر چیخنے ،چلانے اور اچھلنے لگتے ہیں ۔
محمد ارشد (کرکیٹر): اردوکا ایک محاورہ ہے کہ ’’بندر کیا جانے ادرک کا سواد ‘‘اور اسی کو عربی میں یوں کہا جاتا ہے کہ’’الناس اعداء لما جہلوا‘‘۔جب آپ کرکیٹ کے لطف سے ہی ناواقف ہیں ،تو اس سلسلے میں آپ سے گفتگوکرنا ہی فضول ہے ۔
محمد افضل (طالب علم ): چلو ہم ٹھہر ے نا آشنا ئے لطف ،لیکن آپ تو بتائیے کہ کرکیٹ میں کب اور کیسے مزہ آتا ہے ؟ 
محمد ارشد (کرکیٹر ): ویسے تو کرکیٹ کے تصور ہی سے لطف آنے لگتاہے،کھیلنے میں تو کیا کہنااور اس وقت کا مزہ تو پو چھیے ہی مت ،جب چوکا لگتا ہے اور جب چھکا لگ جاتا ہے ،تو خوشی کی کو ئی انتہا ہی نہیں رہتی ،سب کھلاڑی مارے خوشی سے پائے جامے سے باہرآجاتے ہیں۔
محمد افضل (طالب علم) : اور بھی کچھ کرتے ہیں ،جیسے : گیند نالی میں چلی جاتی ہے تو اس کو ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر تلاش کرتے ہیں ،جب مل جاتی ہے تو اسے پائے جامے پر رگڑکر صاف کرتے ہیں۔ایسا کرتے ہیں نا؟
محمد ارشد (کرکیٹر): ہاںیہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ؛ لیکن اس میں کیا برائی ہے؟یہ تو ایسا ہے کہ ’’پسند اپنی اپنی، خیال اپنا اپنا ‘‘۔یہ تو سب کی اپنی اپنی چوائس ہے ۔
محمد افضل (طالب علم ): واہ بھائی واہ !کیا پسند ہے آپ کرکیٹروں کی،یعنی نالی گھکور نا۔
محمد اکبر (ناصح): آ پ دونوں کیا بحث ومباحثہ کررہے ہیں ،حالاں کہ ہم طالب علم ہیں اور ہمارا عزم یہ ہے کہ ؂
ہمیں کھیلوں سے کیا، مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر، ورق ہو گا کفن اپنا 
اس لیے ہر وقت کرکیٹ کا تذکرہ اور ہر لمحہ کھیلوں پر تبصرہ نہیں ہو نا چاہیے؛ بلکہ علمی مباحثہ اور پڑھنے لکھنے کے حوالے سے گفتگو کرنی چاہیے ۔
محمد ارشد (کرکیٹر): آپ اپنی نصیحت اپنی جیب میں رکھیے، دیکھے ہیں زیادہ پڑھ کر کیا کر لیا ہے کسی نے ،جب اپنا بوریا بستر سمیٹ کر مدرسے کے گیٹ سے باہرہوجائیں گے، اوراس وقت مستقبل مجہول نظر آئے گا اور روٹی بو ٹی کا مسئلہ ایک مہیب اندھیرا بن کر سامنے کھڑا ہو جائے گا اس وقت ہم بتا دیں گے کہ کیا کرلیا آپ نے دن رات پڑھ کے ۔
محمد اکبر (ناصح ): یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم طلبہ کا مستقبل مجہول ہے، لیکن اس کی وجہ کیا ہے ؟ ہر وقت پڑھنا یا ہر وقت کرکیٹ کھیلنا ؟
محمد افضل (فٹ بالر):اس کی وجہ نا تو ہر وقت پڑھنا ہے اور نہ ہی ہر وقت کھیلنا ،بلکہ مستقبل مجہول ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ مدرسے میں ہمیں صرف دینی علوم ہی پڑھائے جاتے ہیں ،روزگارسے جڑے تعلیم کا کو ئی حصہ نہیں پڑھایا جاتا ،اور قدیم زمانے میں اس وقت کے حالات کے مطابق جو کتابیں داخل نصاب کی گئی تھیں ،وہ علیٰ حالہ باقی ہیں ، جن کا نہ تو مو جودہ زمانے میں کچھ فائد ہ نظر آرہا ہے اور نہ ہی وہ عصر حاضر سے ہم آہنگ ہیں ،جیسے :میبذی وغیرہ۔ نیز ہماری سندیں سرکاری طورپر کچھ اہمیت نہ رکھنے کی وجہ سے پورے نوسال کا لگا یا ہوا لمبا عرصہ بے کارمحسوس ہو تا ہے۔اور مستقبل مجہول ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بابِ اقتصادیات میں فقہِ قدیم تو ہمیں پڑھایا جاتا ہے ،لیکن عصرِ حاضر کے اقتصادیات کے نئے نئے طریقوں سے ہمیں روشناس نہیں کرایا جاتا ہے،جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم سامان لے کر جب مدرسے کے گیٹ سے باہر ہوتیہیں ،تو روزی روٹی کا مسئلہ ایک اندھیرا بن کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، اور ہمیں مستقبل مجہول ہی مجہول نظر آنے لگتا ہے ۔
محمد افضل (کرکیٹر): مدارس کا موجودہ نصاب تعلیم کی وجہ سے کچھ نادان لوگ مولوی کا مطلب لینے لگے ہیں کہ نا عاقبت اندیش ،بے قوف ۔اور یہ جملے بھی کسنے لگے ہیں کہ بسم اللہ کی گنبد میں رہنے والے ،ملا کی دوڑ مسجد تک وغیرہ وغیرہ، لہذ ا جب ہماری محنتوں کا صلہ ان القاب سے دیا جا رہا ہے اور اتنی پڑھائی کرنے کے بعد بھی مستقبل مجہول کا مجہول ہی رہ جاتا ہے ،تو ایسی پڑھائی سے کیا فائدہ ؟ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ کرکیٹ کھیلتے رہیں ، اس کا فائدہ کم سے کم اتنا تو ہے کہ ہم زندگی کی بہار لوٹیں گے اور یہی تو زمانہ ہے ہمارے بہار لوٹنے کا،اگر یہ مو قع ہاتھ سے چلاگیا ،تو بہار نہ لو ٹنے اور کرکیٹ نہ کھیلنے کاتاحیات افسوس رہے گا ۔
محمد اکبر (ناصح ): آپ نے بالکل سچی بات کہی ،کیو ں کہ نو سال لگا نے کے بعد بھی اگر مستقبل مجہول ہی رہ جائے، تو ایسی پڑھائی سے کیا فائدہ ؟چلو ہم بھی کرکیٹ کھیلتے ہیں اور زندگی کی بہارلوٹتے ہیں ۔(دو تین لڑکے ہاتھ میں بیٹ بلے لے کر اسٹیج پر نمایاں ہوتے ہیں اور دوسری جانب سے استاذ)
مولانا احمد (استاذ):آپ لوگ دوپہر کی سخت دھوپ میں پڑھائی کے وقت بیٹ اور بلالے کر کہاں جارہے ہیں؟ کیا آپ لوگ صرف کھیلنے کے لیے دارالعلوم آئے ہیں ؟
محمد اکبر (ناصح): صرف کھیلنے کے لیے تودارالعلوم نہیں آئے تھے ؛لیکن اب یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ صرف دارالعلوم کی روٹی کھانی ہے اور دن رات کھیلنا ہے۔
مولانا احمد (استاذ): لیکن آپ کے ایسا فیصلہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟
محمد اکبر (ناصح): وجہ یہ ہے کہ جب نو سال لگا نے کے بعد بھی مستقبل مجہو ل ہی رہ جاتا ہے اور ہم زندگی کے میدان میں روزی روٹی کے لیے مارے مارے پھرنے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں ،تو ایسی پڑھائی سے کیافائدہ ؟۔
مولانااحمد (استاذ): لگتا ہے کہ آپ لوگوں پر شیطان کا جادو چل چکاہے ،جس کی وجہ سے اتنی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں ،آپ حضرات کے ایک ایک اشکال کا جواب دوں گا ،جہاں تک اس اشکال کی بات ہے کہ مدارس میں ہمیں صرف دینی علوم پڑھائے جاتے ہیں ،روزگا ر سے جڑے کو ئی تعلیم نہیں دی جاتی ،تو اس سلسلے میں یادرکھنا چا ہیے کہ ہم مسلمان ہیں اورایک مسلمان کا اعتقاد یہ ہے کہ اِنَّ الْلّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنَ۔وَالْلّٰہُ خَیْرُالرَّازِقِیْنَ۔لہذا روٹی بوٹی کے مسئلے کو اچھا لنا ، گویا اپنے ایمان کی کمزوری کا اعلان کرنا ہے ،اور آپ حضرات کا یہ کہنا کہ نصاب میں قدیم زمانے میں داخل کردہ کتا بیں عصر حاضر میں اپنی افادیت کھو چکی ہیں ،بالکل بکواس ہے ، کیوں کہ یہی وہ نصاب تعلیم ہے جس کو پڑھ کر شیخ الہند پیدا ہوئے ،شیخ الاسلام پیدا ہو ئے ،علامہ بہاری پیدا ہو ئے ، اور ایسی ایسی شخصیت پیدا ہو ئی کہ دنیا کا کوئی بھی نصاب ان جیسی ایک بھی شخصیت پیدا کرنے سے عاجز رہاہے اور اب تک عاجز ہے، لہذا یہ اشکال بھی بے جا ہے۔اور یہ اشکا ل کہ عصر حاضر کے طریقۂ اقتصادیات سے ہمیں با لکل روشناس نہیں کرایا جاتا ،تو یہ اشکال بھی بے حقیقت ہے، کیوں کہ یہ دینی مدارس ہیں ،جن کا واحد مقصد دینیات پڑھانا ہے ، اگر آپ حضرات دینی تعلیم ، حصول دینا کے لیے پڑھ رہے ہیں، تو اس سے بڑ ھ کر آپ لو گو ں کی کو ئی او رحماقت نہیں ہو سکتی، کرکیٹ کھیلنابھی نہیں،کیوں کہ ہمارا پڑھنا صرف رضائے الٰہی کے لیے ہے، اور اس کے لیے عصری تعلیم ضروری نہیں۔ اور اس جواب کے بعد آپ کا یہ اشکال خو د ہی بے معنی ہو جاتا ہے کہ ہماری سندوں کا سر کاری طور پر اہمیت نہیں ہے ، کیوں کہ ہمیں اللہ کو خوش کر نا ہے ، جس کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں پڑتی ، اور کیا جتنے سر کاری طور پر ما نیتا ڈگری ہو لڈ ر ہیں ، سب بر سر روز گار ہیں؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں جتنے بے روز گار ی سے ؛ بلکہ خود کشی کر کے مر رہے ہیں ،اتنے توبے سند لو گ بھی نہیں مر رہے ہیں ، اب تو آپ حضرات کے تمام اشکالات رفع ہوگئے ہوں گے اور مجہول مستقبل امید کی کر نوں سے جگمگانے لگا ہو گا ؟
مو لانا اختر(استاذ):ابھی نہیں !ابھی ان لوگوں کا ایک اور اشکال باقی ہے کہ جب ہم رزق کے سلسلے میں دنیا وی تمام اسباب کو منقطع کر لیں گے،تو ہم اور ہمارے بال بچے کیا کھائیں گے ؟جب کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور اسباب کے بغیر یہاں کچھ نہیں ملتا ،تو اس کا جواب سن لیجیے کہ دنیا میں آج تک رزّاق کا بڑا سے بڑا نافرمان ،حتی کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والا فرعون بھی بھوکا نہیں مراہے ،تو کیا ہم اللہ کے کام کرنے والے بندے کو اللہ بھو کا رکھیں گے؟ہر گز نہیں ،چنانچہ آپ اس کی عملی مثال دیکھنا چاہتے ہیں ،تو دیکھ سکتے ہیں کہ معقول یعنی عقل میں آنے والی اور ہم مولویوں کی عقل میں آنے والی مقدار صرف پندرہ سو کمانے والا ایک مولوی لاکھوں کے کمانے والے سے بہتر، پرسکون ،خوش حال اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی گذارتا ہے، اور ایسا ایسا کھا نا کھاتا ہے کہ لاکھوں کمانے والے کو اس کا ذرہ بھی نصیب نہیں ہو تا ہے ،جیسے آپ مسجد میں ہیں ،تو پندرہ بیس ایٹم کے تو صرف گوشت کے آئیں گے ،کیا اتنا ایٹم لاکھوں کمانے والا کھاسکتا ہے ؟اور وہ بھی روزانہ ؟اور مرغے کھانے میں تو پوچھیے ہی مت کہ مولوی کا پیٹ مرغوں کاقبر ستان بنا ہوا ہے ،جب حقیقت یہ ہے ،تو پھر اس سلسلے میں واویلا مچانا کہ ہمارا مستقبل مجہول ہے خود اپنی عقل وفکر کی ہنسی اڑانی ہے۔
اور ہاں یہ اتنا عیش وآرام اسی وقت نصیب ہو گا ،جب کہ ہم کچھ ہو ں گے ،اور جب ہم کچھ نہ ہو ں گے اور لعنت زدہ کھیل کرکیٹ میں ہر وقت لگے رہیں گے ،تو یقیناًہمارا مستقبل مجہول رہے گا ،لہذا اگر مستقبل تابناک بنانا چاہتے ہیں، تو اولاً کرکیٹ چھوڑنا ہوگا اور تمام مشاغل سے کٹ کر پڑھنے میں لگنا ہوگا۔ کیا آپ لوگ اس کے لیے تیار ہیں؟
محمد اکبر (ناصح): اگر آپ ابھی تشریف نہ لاتے، تو میں ان کے بہکاوے میں آجاتا اور میرا مستقبل واقعی مجہول ہوتا،اس لیے میں اب کرکیٹ جیسے لعنت زدہ کھیلوں سے تو بہ کرتا ہوں اور محنت کا عزم کرتا ہوں ۔
محمد ارشد (کرکیٹر): میں بھی اب تک مستقبل مجہول کے تصور سے غفلت میں پڑا ہواتھا اور استاذ کا سبق سننے کے بجائے مستقبل مجہول کرنے والاکھیل: کرکیٹ کا تذکرہ کرتا رہتا تھا،لیکن اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ نہ میں کرکیٹ کھیلوں گا اور نہ ہی کسی کو کرکیٹ کی ترغیب دوں گا ،بلکہ ہر وقت محنت کروں گا ۔
محمد افضل (طالب علم): اگر ہر وقت پڑھنے ہی میں گذارا جائے، تو پھر پاگل ہو نے کا خطرہ ہے ،جیسا کہ کچھ احباب امتحان کے زمانے میں زیادہ محنت کرنے سے پاگل ہو گئے ہیں ،لہذا کھیلنا بھی ضروری ہے۔
مولانااختر(استاذ): میں یہ کہاں کہتا ہوں کہ ہر وقت پڑھا ہی جائے اور کچھ نہ کیا جائے ،بلکہ پڑھنے کی طرح کھیلنا بھی ضروری ہے،لیکن کرکیٹ کے علاوہ کو ئی کھیل ہو نا چا ہیے ۔
محمد ارشد (طالب علم): کرکیٹ کے علاوہ کون سا کھیل ہو نا چاہیے؟
محمد افضل (فٹ بالر): کرکیٹ کے علاوہ جیسے:کراٹا، کبڈی اور سنا ہے کہ گڈا کے طلبہ نے مل کر فٹ بال کی ایک ٹیم بنائی ہے ،تو اس میں بھی شریک ہو سکتے ہیں۔
مولانااحمد (استاذ) : یہ کھیل ٹھیک ہے چلو پھر آج سے آپ لوگ صرف فٹ بال کھیلا کرو۔