2 Apr 2018

فضلائے مدارس کامستقبل مجہول ہے ؟



پسِ منظر 
انگریزی زبان ایک عالمی،بین الاقوامی اور انٹرنیشنل زبان کی حیثیت اختیار کرجانے کی وجہ سے فضلائے مدارس۔اس زبان سے مکمل طورپر واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے ۔اس احساس کمتری کے شکار نظر آرہے ہیں کہ’’ہمارا مستقبل مجہول ہے‘‘اور ہماری تعلیم عصرِ حاضر سے ہم آہنگ تعلیم نہیں ہے،اس احساس سے طلبہ میں کیا کیا خامیاں درآئی ہیں ،انھیں کا جائزہ اس مکالمے میں لیا گیا ہے۔ اس میں پلاٹ وکردار دونوں مزاحیہ ہیں ،مزید برآں ظرافت کی نمکینی میں تھوڑی سی مٹھاس پیدا کرنے کی خاطر کچھ عملی وآلی رموز بھی استعمال کی گئی ہیں ۔
تفصیلات
افراد کردار
(۱)محمد افضل طالب علم (فٹ بالر)
(۲)محمد ارشد طالب علم (کرکیٹر)
(۳)محمد اکبر طالب علم (ناصح)
(۴)محمداحمد مولانا (استاذ )
(۵)محمد اختر مو لانا(استاذ)


محمدافضل:(ایک لڑکا ہاتھ میں کھانا لینے والاجھو لااور برتن لے کراسٹیج کی ایک جانب سے آتا ہے اوردوسری طرف سے محمد ارشد،درمیان اسٹیج میں سلیک علیک کے بعد)
محمدافضل (طالب علم):ادھر چھٹی کیا ہوئی کہ ادھر فوراً برتن اٹھایا اور چل دیے کھانا لانے، مدرسہ صرف کھا نے ہی کے لیے آئے ہوکیا؟ 
محمد ارشد (کرکیڑ ): آپ اس طرح مجھ پر جملے کس رہے ہیں ،جیسے آپ کبھی کھاتے ہی نہیں؛ بلکہ ہمہ وقت پڑھتے ہی رہتے ہیں اور میں صرف کٹرہ ہی کھاتا رہتا ہوں ۔
محمد افضل(طالب علم ): اردو کا ایک محاورہ ہے کہ ’’مارے گھٹنہ پھوٹے سر‘‘ ارے بھائی! میرے کہنے کایہ مطلب تھوڑی ہی ہے کہ آپ صرف کٹرہ کھانے میں اورمیں صرف پڑھنے میں لگا رہتا ہوں ،بلکہ میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ مدرسے والے نے آپ کے حصہ کی جو دو روٹی ،دوبو ٹی اور ایک آلو بنایا ہے ،وہ کسی اور کو نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ختم ہو جائے گی، پھر بھی اتنی جلدی کھانا لا نے کی وجہ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
محمد ارشد (کرکیٹر): آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ پورے چوبیس گھنٹے میں صرف چھٹی کے بعد کا مختصر ساوقت کھیلنے کودنے کو ملتا ہے ،تو اگر اس کو بھی کھیل کود کے علاوہ کسی اور چیز میں صرف کریں گے، تو کھیلنے کا وقت نہیں ملے گا نا۔
محمد افضل : اچھا کون سا کھیل کھیلتے ہیں جس کے لیے اس قدر اہتمام کرتے ہیں آپ ؟
محمد ارشد (کرکیٹر): ارے بھائی وہی کھیل، جس کا آج پوری دنیا دیوانی ہے اور ہر خواص وعام اس کا شیدائی ۔
محمد افضل (طالب علم) : اچھا یہ بات ہے! کیا نام ہے اس کھیل کا؟ 
محمد ارشد (کرکیٹر): آپ بھی کیا تصوف کی پُڑ یا بنے ہو ئے ہیں جو اتنا کہنے کے بعد بھی نہیں سمجھتے ،ارے صوفی جی!وہ کھیل کرکیٹ ہے ،کرکیٹ۔
محمد افضل (طالب علم ): اچھا اچھا اب میں سمجھا ،وہی کھیل جس میں ایک آدمی چھوٹا سا کیا اینٹ اونٹ پھینکتا ہے اور دوسرا ایک لکڑی سے اس کو مارتا ہے اور پھر سب کھلاڑی مل کر چیخنے ،چلانے اور اچھلنے لگتے ہیں ۔
محمد ارشد (کرکیٹر): اردوکا ایک محاورہ ہے کہ ’’بندر کیا جانے ادرک کا سواد ‘‘اور اسی کو عربی میں یوں کہا جاتا ہے کہ’’الناس اعداء لما جہلوا‘‘۔جب آپ کرکیٹ کے لطف سے ہی ناواقف ہیں ،تو اس سلسلے میں آپ سے گفتگوکرنا ہی فضول ہے ۔
محمد افضل (طالب علم ): چلو ہم ٹھہر ے نا آشنا ئے لطف ،لیکن آپ تو بتائیے کہ کرکیٹ میں کب اور کیسے مزہ آتا ہے ؟ 
محمد ارشد (کرکیٹر ): ویسے تو کرکیٹ کے تصور ہی سے لطف آنے لگتاہے،کھیلنے میں تو کیا کہنااور اس وقت کا مزہ تو پو چھیے ہی مت ،جب چوکا لگتا ہے اور جب چھکا لگ جاتا ہے ،تو خوشی کی کو ئی انتہا ہی نہیں رہتی ،سب کھلاڑی مارے خوشی سے پائے جامے سے باہرآجاتے ہیں۔
محمد افضل (طالب علم) : اور بھی کچھ کرتے ہیں ،جیسے : گیند نالی میں چلی جاتی ہے تو اس کو ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر تلاش کرتے ہیں ،جب مل جاتی ہے تو اسے پائے جامے پر رگڑکر صاف کرتے ہیں۔ایسا کرتے ہیں نا؟
محمد ارشد (کرکیٹر): ہاںیہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ؛ لیکن اس میں کیا برائی ہے؟یہ تو ایسا ہے کہ ’’پسند اپنی اپنی، خیال اپنا اپنا ‘‘۔یہ تو سب کی اپنی اپنی چوائس ہے ۔
محمد افضل (طالب علم ): واہ بھائی واہ !کیا پسند ہے آپ کرکیٹروں کی،یعنی نالی گھکور نا۔
محمد اکبر (ناصح): آ پ دونوں کیا بحث ومباحثہ کررہے ہیں ،حالاں کہ ہم طالب علم ہیں اور ہمارا عزم یہ ہے کہ ؂
ہمیں کھیلوں سے کیا، مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر، ورق ہو گا کفن اپنا 
اس لیے ہر وقت کرکیٹ کا تذکرہ اور ہر لمحہ کھیلوں پر تبصرہ نہیں ہو نا چاہیے؛ بلکہ علمی مباحثہ اور پڑھنے لکھنے کے حوالے سے گفتگو کرنی چاہیے ۔
محمد ارشد (کرکیٹر): آپ اپنی نصیحت اپنی جیب میں رکھیے، دیکھے ہیں زیادہ پڑھ کر کیا کر لیا ہے کسی نے ،جب اپنا بوریا بستر سمیٹ کر مدرسے کے گیٹ سے باہرہوجائیں گے، اوراس وقت مستقبل مجہول نظر آئے گا اور روٹی بو ٹی کا مسئلہ ایک مہیب اندھیرا بن کر سامنے کھڑا ہو جائے گا اس وقت ہم بتا دیں گے کہ کیا کرلیا آپ نے دن رات پڑھ کے ۔
محمد اکبر (ناصح ): یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم طلبہ کا مستقبل مجہول ہے، لیکن اس کی وجہ کیا ہے ؟ ہر وقت پڑھنا یا ہر وقت کرکیٹ کھیلنا ؟
محمد افضل (فٹ بالر):اس کی وجہ نا تو ہر وقت پڑھنا ہے اور نہ ہی ہر وقت کھیلنا ،بلکہ مستقبل مجہول ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ مدرسے میں ہمیں صرف دینی علوم ہی پڑھائے جاتے ہیں ،روزگارسے جڑے تعلیم کا کو ئی حصہ نہیں پڑھایا جاتا ،اور قدیم زمانے میں اس وقت کے حالات کے مطابق جو کتابیں داخل نصاب کی گئی تھیں ،وہ علیٰ حالہ باقی ہیں ، جن کا نہ تو مو جودہ زمانے میں کچھ فائد ہ نظر آرہا ہے اور نہ ہی وہ عصر حاضر سے ہم آہنگ ہیں ،جیسے :میبذی وغیرہ۔ نیز ہماری سندیں سرکاری طورپر کچھ اہمیت نہ رکھنے کی وجہ سے پورے نوسال کا لگا یا ہوا لمبا عرصہ بے کارمحسوس ہو تا ہے۔اور مستقبل مجہول ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بابِ اقتصادیات میں فقہِ قدیم تو ہمیں پڑھایا جاتا ہے ،لیکن عصرِ حاضر کے اقتصادیات کے نئے نئے طریقوں سے ہمیں روشناس نہیں کرایا جاتا ہے،جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم سامان لے کر جب مدرسے کے گیٹ سے باہر ہوتیہیں ،تو روزی روٹی کا مسئلہ ایک اندھیرا بن کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، اور ہمیں مستقبل مجہول ہی مجہول نظر آنے لگتا ہے ۔
محمد افضل (کرکیٹر): مدارس کا موجودہ نصاب تعلیم کی وجہ سے کچھ نادان لوگ مولوی کا مطلب لینے لگے ہیں کہ نا عاقبت اندیش ،بے قوف ۔اور یہ جملے بھی کسنے لگے ہیں کہ بسم اللہ کی گنبد میں رہنے والے ،ملا کی دوڑ مسجد تک وغیرہ وغیرہ، لہذ ا جب ہماری محنتوں کا صلہ ان القاب سے دیا جا رہا ہے اور اتنی پڑھائی کرنے کے بعد بھی مستقبل مجہول کا مجہول ہی رہ جاتا ہے ،تو ایسی پڑھائی سے کیا فائدہ ؟ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ کرکیٹ کھیلتے رہیں ، اس کا فائدہ کم سے کم اتنا تو ہے کہ ہم زندگی کی بہار لوٹیں گے اور یہی تو زمانہ ہے ہمارے بہار لوٹنے کا،اگر یہ مو قع ہاتھ سے چلاگیا ،تو بہار نہ لو ٹنے اور کرکیٹ نہ کھیلنے کاتاحیات افسوس رہے گا ۔
محمد اکبر (ناصح ): آپ نے بالکل سچی بات کہی ،کیو ں کہ نو سال لگا نے کے بعد بھی اگر مستقبل مجہول ہی رہ جائے، تو ایسی پڑھائی سے کیا فائدہ ؟چلو ہم بھی کرکیٹ کھیلتے ہیں اور زندگی کی بہارلوٹتے ہیں ۔(دو تین لڑکے ہاتھ میں بیٹ بلے لے کر اسٹیج پر نمایاں ہوتے ہیں اور دوسری جانب سے استاذ)
مولانا احمد (استاذ):آپ لوگ دوپہر کی سخت دھوپ میں پڑھائی کے وقت بیٹ اور بلالے کر کہاں جارہے ہیں؟ کیا آپ لوگ صرف کھیلنے کے لیے دارالعلوم آئے ہیں ؟
محمد اکبر (ناصح): صرف کھیلنے کے لیے تودارالعلوم نہیں آئے تھے ؛لیکن اب یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ صرف دارالعلوم کی روٹی کھانی ہے اور دن رات کھیلنا ہے۔
مولانا احمد (استاذ): لیکن آپ کے ایسا فیصلہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟
محمد اکبر (ناصح): وجہ یہ ہے کہ جب نو سال لگا نے کے بعد بھی مستقبل مجہو ل ہی رہ جاتا ہے اور ہم زندگی کے میدان میں روزی روٹی کے لیے مارے مارے پھرنے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں ،تو ایسی پڑھائی سے کیافائدہ ؟۔
مولانااحمد (استاذ): لگتا ہے کہ آپ لوگوں پر شیطان کا جادو چل چکاہے ،جس کی وجہ سے اتنی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں ،آپ حضرات کے ایک ایک اشکال کا جواب دوں گا ،جہاں تک اس اشکال کی بات ہے کہ مدارس میں ہمیں صرف دینی علوم پڑھائے جاتے ہیں ،روزگا ر سے جڑے کو ئی تعلیم نہیں دی جاتی ،تو اس سلسلے میں یادرکھنا چا ہیے کہ ہم مسلمان ہیں اورایک مسلمان کا اعتقاد یہ ہے کہ اِنَّ الْلّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنَ۔وَالْلّٰہُ خَیْرُالرَّازِقِیْنَ۔لہذا روٹی بوٹی کے مسئلے کو اچھا لنا ، گویا اپنے ایمان کی کمزوری کا اعلان کرنا ہے ،اور آپ حضرات کا یہ کہنا کہ نصاب میں قدیم زمانے میں داخل کردہ کتا بیں عصر حاضر میں اپنی افادیت کھو چکی ہیں ،بالکل بکواس ہے ، کیوں کہ یہی وہ نصاب تعلیم ہے جس کو پڑھ کر شیخ الہند پیدا ہوئے ،شیخ الاسلام پیدا ہو ئے ،علامہ بہاری پیدا ہو ئے ، اور ایسی ایسی شخصیت پیدا ہو ئی کہ دنیا کا کوئی بھی نصاب ان جیسی ایک بھی شخصیت پیدا کرنے سے عاجز رہاہے اور اب تک عاجز ہے، لہذا یہ اشکال بھی بے جا ہے۔اور یہ اشکا ل کہ عصر حاضر کے طریقۂ اقتصادیات سے ہمیں با لکل روشناس نہیں کرایا جاتا ،تو یہ اشکال بھی بے حقیقت ہے، کیوں کہ یہ دینی مدارس ہیں ،جن کا واحد مقصد دینیات پڑھانا ہے ، اگر آپ حضرات دینی تعلیم ، حصول دینا کے لیے پڑھ رہے ہیں، تو اس سے بڑ ھ کر آپ لو گو ں کی کو ئی او رحماقت نہیں ہو سکتی، کرکیٹ کھیلنابھی نہیں،کیوں کہ ہمارا پڑھنا صرف رضائے الٰہی کے لیے ہے، اور اس کے لیے عصری تعلیم ضروری نہیں۔ اور اس جواب کے بعد آپ کا یہ اشکال خو د ہی بے معنی ہو جاتا ہے کہ ہماری سندوں کا سر کاری طور پر اہمیت نہیں ہے ، کیوں کہ ہمیں اللہ کو خوش کر نا ہے ، جس کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں پڑتی ، اور کیا جتنے سر کاری طور پر ما نیتا ڈگری ہو لڈ ر ہیں ، سب بر سر روز گار ہیں؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں جتنے بے روز گار ی سے ؛ بلکہ خود کشی کر کے مر رہے ہیں ،اتنے توبے سند لو گ بھی نہیں مر رہے ہیں ، اب تو آپ حضرات کے تمام اشکالات رفع ہوگئے ہوں گے اور مجہول مستقبل امید کی کر نوں سے جگمگانے لگا ہو گا ؟
مو لانا اختر(استاذ):ابھی نہیں !ابھی ان لوگوں کا ایک اور اشکال باقی ہے کہ جب ہم رزق کے سلسلے میں دنیا وی تمام اسباب کو منقطع کر لیں گے،تو ہم اور ہمارے بال بچے کیا کھائیں گے ؟جب کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور اسباب کے بغیر یہاں کچھ نہیں ملتا ،تو اس کا جواب سن لیجیے کہ دنیا میں آج تک رزّاق کا بڑا سے بڑا نافرمان ،حتی کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والا فرعون بھی بھوکا نہیں مراہے ،تو کیا ہم اللہ کے کام کرنے والے بندے کو اللہ بھو کا رکھیں گے؟ہر گز نہیں ،چنانچہ آپ اس کی عملی مثال دیکھنا چاہتے ہیں ،تو دیکھ سکتے ہیں کہ معقول یعنی عقل میں آنے والی اور ہم مولویوں کی عقل میں آنے والی مقدار صرف پندرہ سو کمانے والا ایک مولوی لاکھوں کے کمانے والے سے بہتر، پرسکون ،خوش حال اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی گذارتا ہے، اور ایسا ایسا کھا نا کھاتا ہے کہ لاکھوں کمانے والے کو اس کا ذرہ بھی نصیب نہیں ہو تا ہے ،جیسے آپ مسجد میں ہیں ،تو پندرہ بیس ایٹم کے تو صرف گوشت کے آئیں گے ،کیا اتنا ایٹم لاکھوں کمانے والا کھاسکتا ہے ؟اور وہ بھی روزانہ ؟اور مرغے کھانے میں تو پوچھیے ہی مت کہ مولوی کا پیٹ مرغوں کاقبر ستان بنا ہوا ہے ،جب حقیقت یہ ہے ،تو پھر اس سلسلے میں واویلا مچانا کہ ہمارا مستقبل مجہول ہے خود اپنی عقل وفکر کی ہنسی اڑانی ہے۔
اور ہاں یہ اتنا عیش وآرام اسی وقت نصیب ہو گا ،جب کہ ہم کچھ ہو ں گے ،اور جب ہم کچھ نہ ہو ں گے اور لعنت زدہ کھیل کرکیٹ میں ہر وقت لگے رہیں گے ،تو یقیناًہمارا مستقبل مجہول رہے گا ،لہذا اگر مستقبل تابناک بنانا چاہتے ہیں، تو اولاً کرکیٹ چھوڑنا ہوگا اور تمام مشاغل سے کٹ کر پڑھنے میں لگنا ہوگا۔ کیا آپ لوگ اس کے لیے تیار ہیں؟
محمد اکبر (ناصح): اگر آپ ابھی تشریف نہ لاتے، تو میں ان کے بہکاوے میں آجاتا اور میرا مستقبل واقعی مجہول ہوتا،اس لیے میں اب کرکیٹ جیسے لعنت زدہ کھیلوں سے تو بہ کرتا ہوں اور محنت کا عزم کرتا ہوں ۔
محمد ارشد (کرکیٹر): میں بھی اب تک مستقبل مجہول کے تصور سے غفلت میں پڑا ہواتھا اور استاذ کا سبق سننے کے بجائے مستقبل مجہول کرنے والاکھیل: کرکیٹ کا تذکرہ کرتا رہتا تھا،لیکن اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ نہ میں کرکیٹ کھیلوں گا اور نہ ہی کسی کو کرکیٹ کی ترغیب دوں گا ،بلکہ ہر وقت محنت کروں گا ۔
محمد افضل (طالب علم): اگر ہر وقت پڑھنے ہی میں گذارا جائے، تو پھر پاگل ہو نے کا خطرہ ہے ،جیسا کہ کچھ احباب امتحان کے زمانے میں زیادہ محنت کرنے سے پاگل ہو گئے ہیں ،لہذا کھیلنا بھی ضروری ہے۔
مولانااختر(استاذ): میں یہ کہاں کہتا ہوں کہ ہر وقت پڑھا ہی جائے اور کچھ نہ کیا جائے ،بلکہ پڑھنے کی طرح کھیلنا بھی ضروری ہے،لیکن کرکیٹ کے علاوہ کو ئی کھیل ہو نا چا ہیے ۔
محمد ارشد (طالب علم): کرکیٹ کے علاوہ کون سا کھیل ہو نا چاہیے؟
محمد افضل (فٹ بالر): کرکیٹ کے علاوہ جیسے:کراٹا، کبڈی اور سنا ہے کہ گڈا کے طلبہ نے مل کر فٹ بال کی ایک ٹیم بنائی ہے ،تو اس میں بھی شریک ہو سکتے ہیں۔
مولانااحمد (استاذ) : یہ کھیل ٹھیک ہے چلو پھر آج سے آپ لوگ صرف فٹ بال کھیلا کرو۔