2 Apr 2018

سپاس نامہ کیسے تیار کریں


سپاس نامہ کیسے تیار کریں
کسی اہم شخصیات کے باوقار استقبال کے لیے سپاس نامہ تیار کیا جاتا ہے، سپاس نامے میں درج ذیل چند امور کا خیال رکھا جاتاہے
(الف) سب سے پہلے حصے میں مہمان کے لیے استقبالیہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں اور ان کے تئیں اپنے دیرینہ جذبات اور عقیدت و محبت کا اظہار کیا جاتاہے۔
(ب) بعد ازاں ان کی آمد پران کا شکریہ اداکیا جاتاہے اور سامعین کے لیے مہمان کا مختصر؛ مگر جامع انداز میں ایک تعارفی خاکہ پیش کیا جاتاہے، ساتھ ہی ان کی سماجی و سیاسی، علمی و عملی ( جس میدان حیات کے وہ ہیں) اعتبار سے ان کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کی جاتی ہے۔
(ج) اسی ضمن میں ان کی خدمات اور قربانیوں کا ایک مرقع بھی پیش کیا جاتاہے،مثلا اگر وہ علمی آدمی ہیں اور صاحب تصنیف بھی ہیں تو ان پہلووں کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے۔
(د) پھر مہمان کے لیے اپنے ادارے یاانجمن کا ایک تعارفی رپورٹ شامل کیا جاتا ہے، جس سے مہمان مکرم کے سامنے اس ادارے یا انجمن کی پوزیشن واضح ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ اپنے عزائم و منصوبے اور ضروریات کی باتیں ہوتی ہیں۔ 
(ہ) پھر ان کی حیثیت و مرتبے کے مطابق اپنی انجمن یا ادارے کے لیے ضروریات کے تحت مطالبے ہوتے ہیں۔ اور پھر دوبارہ شکریے کی ادائیگی کے ساتھ مضمون مکمل کردیا جاتاہے۔
(و) پورے سپاس نامے میں مضمون میں ندرت اور طرز ادا میں حد درجے کی شائستگی کا ہونا ناگزیر ہوتاہے، جملے میں خشکی کو راہ نہیں ملنی چاہیے ،جابجا اشعار استعمال کرکے اس کے اندر حلاوت و چاشنی پیدا کرنا ایک عمدہ سپاس نامہ کی امتیازی خصوصیت ہوتی ہے اوررنگین بیانی کے ساتھ ساتھ تصنع و مبالغہ آمیزی کے شبہ سے بھی بچنا ضروری ہوتاہے۔
یہاں مثال کے لیے ایک سپاس نامہ دیا جارہا ہے ، جسے بغور مطالعہ کرکے اس کے لازمی عناصر کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔


سپاس نامہ
بہ خدمت عالی جناب حضرت مولانا ثمیرالدین صاحب قاسمی ماہر فلکیات و چیرمین ہلال کمیٹی انگلینڈ۔
حامدا و مصلیا امابعد
مہمان ذی وقار ! سب سے پہلے ہم تمام اراکینِ ۔۔۔ اپنے مہمان معظم ، رفیع المرتبت، عالی منزلت، جناب مولانا ۔۔۔ کا نہا خانۂ دل سے پرتپاک استقبال کرتے ہیں اور آں حضور کی خدمت عالیہ میں کمال خلوص و محبت و نیاز مندانہ احترام و عقیدت کے ساتھ ہدیۂ امتنان وتشکر پیش کرتے ہیں کہ آں جناب نے بے پناہ مصروفیتوں اور غیر معمولی مشغولیتوں کے باوجود ، سفر کی دشواریاں برداشت کرکے، اور ان سب سے بڑھ کر وقت کی قربانی دے کر ہماری حقیر سی دعوت کو شرفِ قبولیت سے نوازااور قدم رنجہ فرماکر ہماری امنگوں میں توانائی، ہمتوں میں بلندی اور ہماری حوصلہ افزائی کی ۔ عزت مآب کی اس ذرہ نوازی اور تشریف آوری سے ہمارے دلوں کے ظلمت کدوں میں اتنے چراغ روشن ہوگئے اور تمناؤں کے ویرانوں میں اتنے رنگین پھول کھل اٹھے جو نظر کی تنگ دامانی کا گلہ کر رہے ہیں ؂
دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
اس پر مسرت موقعے پر ہم آں حضور کا بے حد ممنون و مشکور اور نشۂ مسرت میں مخمور ہیں اور ہمارے قلوب جن عقیدت و محبت کے جذبات سے معمور ہیں ان کے اظہار کے لیے غالب کے اس شعر میں تشنگی محسوس کر رہے ہیں کہ ؂
وہ آئیں ہمارے گھر میں خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
جس کی تلافی کے لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ؂
نادم ہوں واقعی میں کرمِ بے حساب سے 
خوش آمدید! آپ کہاں میرا گھر کہاں
یہ درست ہے کہ ہمارے شکرو شکیب کے یہ چند الفاظ آپ کے بے کراں احسانات کا بدل نہیں بن سکتے اور نہ ہی ہمارے بے انتہا جذبات کی ترجمانی کرسکتے ہیں ؛ کیوں کہ ع
جذبات اک عالم اکبر ہے ، الفاظ کی دنیا چھوٹی سی
مگر ہاں ! یہ عرض کردینا شاید بے محل نہ ہوگا کہ ہمارا یہ اعتراف عام رسم ورواج سے قطعی مختلف اور ہر قسم کی تکلفات و تصنع سے یکسر ورا ہے ، جس کا اندازہ ہماری بزم کی سادگی سے بہ خوبی لگایاجاسکتا ہے۔
عالی جاہ! ہمارے قلوب قدرتی طور پر فخرو مسرت سے لبریز ہے کہ آپ ہند و بیرون ہند کی ایک ممتاز شخصیت ، علم عمل کا مجمع البحرین، فضل و کمال کاحامل، علم و فن کا ماہر، ملک و ملت کا مقبول خادم، عوام وخواص کا رہ نما، غریبوں کا ماویٰ، بے کسوں و بے بسوں کا سہارا ہمارے درمیان رونق افروز ہیں۔ اس لیے ایسی عظیم ہستی کی موجودگی میں ہماری یہ توقع بالکل بجا ہے کہ آج ہمیں وہ روشنی عطا ہوگی، جس سے ہم اپنی زندگی کا جائزہ لینے پر مجبور ہوں گے۔
مہمان عالی مقام! آپ کی ذات گرامی فکرو نظر ، علم وعمل اور فضل و کمال کا ایک حسین سنگم ہے، سادہ مزاجی، تصنع وتکلف سے بیزاری اور اخلاق و عادات میں اسلاف کے سچے جانشین ہیں۔تبحر علمی ، فکر کی گہرائی، تحریر کی شگفتگی اور طرز نگارش کے قابل ذکر کمالات سے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں ،آپ کے گہربار قلم سے یاد وطن اور اثمارالہدایہ جیسی جامع کتابیں اہل علم کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں، آپ کی ہمہ جہت ذات گرامی اور گوناگوں صفات و کمالات کی حامل ہستی ہم اخلاف کے لیے قابل تقلید نمونہ ہیں۔
عزت مآب! ہماری یہ انجمن ۔۔۔ کی ایک علمی ، فکری وادبی مجلس اور صوبہ جھارکھنڈکے ظلمت کدہ میں مینارۂ نور جناب حضرت مولانا منیرالدینؒ کی زندہ و پایندہ یادگار ہے، جن کا وجود شمع ہدایت کی فیروزمندی اور ظلمت وضلالت کی آخری شکست تھی۔ الحمد للہ یہ انجمن گذشتہ ۔۔۔ بر س سے طلبۂ ضلع ۔۔۔ میں خطابت وصحافت کا ذوق، شعرو شاعری کا ملکہ، معلومات میں وسعت، مطالعہ میں گہرائی وگیرائی اور اخلاق و کردار کی شائستگی پیدا کرنے میں مصروف عمل ہے اور بفضلہ تعالیٰ اس کے اچھے ثمرات ظاہر ہورہے ہیں، اب تک اس سے سینکڑوں شعلہ نوا مقرر پیدا ہوئے ہیں اور بے شمار شاعر و صحافی تیار ہوکر ملک و قوم کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اسلام کا نام روشن کر رہے ہیں۔
فی الحال انجمن کے پاس ۔۔۔ اور دیگر اشیا موجود ہیں، لیکن موجودہ ۔۔۔ طلبہ کے ذوق وشوق، ان کی وسعت طلب، اشتیاق مطالعہ اور روز افزوں شوقِ جستجو ئے کتب کے پیش نظر بالکل ناکافی ہیں اور وہ پریشانی سے دوچار اور حیران کن مخمصے کا شکار ہیں، ایسی حیران و سراسیمگی کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے آں حضور کو غیبی امداد کی صورت میں جلوہ افروز فرمایا ہے ، اس لیے اس غیبی نصرت و اعانت کو غنیمت جانتے ہوئے حضور والا سے درخواست ہے کہ ۔۔۔چیزیں انجمن کی بروقت ضرورت ہیں۔ امید ہے کہ مطلوبہ چیزیں عنایت فرمائی جائیں گی، ہم خدام اس عنایت بے غایت پر بے حد ممنون و مشکور ہوں گے۔
گرامی قدر! آخر میں سمع خراشی، ہنگامہ آرائی اور گستاخانہ جرأت و جسارت پر معافی چاہتے ہوئے ایک بار پھر آں حضور فیض گنجور کے ورود مسعود اور قدوم میمنت پر اپنے دل کی ان گہرائیوں سے پرتپاک خیر مقدم کرتے ہوئے شکر و سپاس کا حسین سوغات پیش کرتے ہیں، جہاں آپ کے لیے عزت و عظمت، رفعت و محبت ، احترام و عقیدت اور نیاز مندی کے بے شمار جذبات موجزن ہیں اور اس شعر کے ساتھ اپنی خوشی و مسرت کے جذبات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ؂
شکرانہ پیش ہے حضوری میں آپ کے 
اے کاش! روز آئے یہ موسم بہار کے
اور ساتھ ہی حضرت اقدس کے لیے دعا گو ہیں کہ ؂
تم سلامت رہو ہزار برس 
ہر برس کے دن ہو پچاس برس
والسلام ۔

نظامت برائے اختتامی اجلاس

نظامت برائے اختتامی اجلاس
الحمد للہ کفیٰ وسلام علیٰ عباداللہ الذی اصطفیٰ ،أما بعد
معزز سامعین، لائق صد احترام حاضرین! آج میں کچھ ایسے موڑ پر کھڑا نظر آرہا ہوں ، جہاں فکرو خیالات کے دورنگی شور نے ایک ہنگامہ مچا رکھا ہے ، ایک طرف تو اپنی علمی کم مائیگی اور تنگ دامانی کا بے ہنگم احساس دہن و لب پر بار بار مہر سکوت رکھ رہا ہے اور زبان و منہ پر آرزوئے پرشوق کے اظہار کرنے سے بندش لگارہاہے، وہیں دوسری طرف آپ حضرات کے خلوص وعنایات کی موسلہ دھار بارش اپنے پیہم تقاطر سے میری قوت گویائی کو آزادی دلانے کی کوشش کر رہی ہے اور مجھے مسلسل اس بات پر بر انگیختہ کر رہی ہے کہ میں اپنے دہن و لب کی بندشوں سے مکمل آزاد ہوکر آپ کے روبرو اپنی آرزووں کا جھلملاتا شیش محل پیش کروں اور آپ حضرات کے تئیں دل کے نہاخانوں میں پنہاں رنگین تمناؤں کو مظہر بیان میں لاکر اظہار کا لبادہ پہناؤں ؂
گرم نالوں میں اگر سوزواثر ہوتاہے
سرد آہوں میں بھی پوشیدہ شرر ہوتاہے 
کارواں شوق کا جب گرم سفر ہوتاہے 
فرش کیا عرش پہ انساں کا گذر ہوتا ہے
مجھے ہر گز یہ امید نہ تھی کہ ہر طرف سے بہاروں میں گھرا اس خطۂ ارض پر دیوان گان دین اسلام کا اتنا بڑا ہجوم ہوگا اوران کی سعی و کوشش سے اس تزک و احتشام کے ساتھ یہ عطر بیز محفل سجے گی ۔ سچ مچ مجھے آپ حضرات کی اس پر رونق بزم کو دیکھ کر اپنی تعبیر کے تگنائے میں وہ الفاظ نہیں مل رہے ہیں، جس سے آپ حضرات کی مثالی جدو جہد اور سعی و کوشش کو دادو تحسین کا خوش نما گل دستہ پیش کروں۔
حضرات ! آپ کی یہ بزم یقیناًان گنت خوبیوں اور گوناگوں خصوصیات کا حامل ہے ، جو صرف آپ حضرات کی توجہ و عنایات سے بڑی مشکل سے وجود میں آئی ہے ۔ آپ اپنی اس عظیم ترین نعمت کو ایک گراں قدرسرمایہ سمجھیں اورکچھ لمحے سرجوڑ کر اس ماحول میں بیٹھنے کو غنیمت جانیں، ان شاء اللہ آپ تھوڑی ہی دیر میں مقررین حضرات کی دل پذیر تقاریر اور جامع خطابات سے اپنے دامنوں کو اس طرح گہربار پائیں گے کہ ملائکۂ فلک بھی آپ کی اس خوش قسمتی پر رشک کررہے ہوں گے۔ باہر سے تشریف لائے ہوئے شیریں بیان مقرر بھی جلد ہی اپنی اپنی مبارک زبانوں سے علم و عرفان کا چشمہ بہانے والے ہیں۔قبل اس کے کہ میں اپنے اس سلسلہ کو آغاز کا روپ دوں ،آپ حضرات سے چند باتیں بطور تمہید عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔
حضرات! آج کی یہ بزم نہایت ہی مبارک اور بے شمار خصوصیات کا آئینہ دار ہے۔ اس بزم کے بار گراں کا یہ دوش ناتواں ہرگز تنہا متحمل نہیں ہوسکتا؛ بلکہ مجھے ہر ہر قدم پر آپ کے تعاون اور امداد کا سہارا چاہیے۔ یہ بزم آپ کی ہے ، چاہیں تو آپ اس کو ناکام بنادیں اور چاہیں تو کامیاب شکل میں دیکھیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ آپ کی یہ بزم کسی ناکامی کا شکار ہوجائے یا اس میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہو، اس کے باوجود آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ آپ دل جمعی اور سکون کے ساتھ از ابتدا تاانتہا میرے ہم رکاب رہیں اورشانہ بہ شانہ میری امدادو تعاون کریں، آپ حضرات کو اس بات کی ہر گز فکر نہیں ہونی چاہیے کہ پتہ نہیں کہ ایک ناتجربہ کار شخص کے ہاتھ میں بزم پروری کی باگ ڈور رکھ دی گئی ہے ، آبروئے بزم کا کیا ہوگا۔ 
حضرات! آپ کو ایسا کبھی خیال نہیں کرنا چاہیے ؛ کیوں کہ جب آپ نے مجھے بزم کی زلف برہم کو سنوارنے کے لیے منتخب کرہی لیا ہے تو آپ کو میرے اوپر یہ اعتماد بھی کرنا ہوگا کہ یہ ناچیز آپ کی بزم کی رونق کو دوبالا کرنے اور اسے دیدہ زیب بنانے کے لیے اور آپ کی آرزووں کو ساحل طمانینت تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے میں کوشا رہوں گا۔ آپ صرف ماحول کو سنجیدہ بنائے رکھیں اور از ابتدا تا انتہا میرا ساتھ نبھانے کا وعدہ کریں، ان شاء اللہ آپ تھوڑی ہی دیر میں دیکھیں گے کہ تلاوتِ قرآن کریم کی روحانیت اورنعت نبی کی ترنم آمیز گنگناہٹ سے یہ محفل نورانی بن جائے گی اور رحمتِ الٰہی کا سایۂ عاطفت اپنے دامن میں ڈھانپ لے گا۔ستارے ہماری خوش قسمتی پر مسکرائیں گے اور چاند اپنی سنہری سنہری دودھیالی چاندنی سے موسم کو اور حسین کردے گا۔
سامعین کرام ! اب بلا کسی تاخیر کے آئیے پروگرام کاآغاز کرتے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت باسعادت کے لیے دعوت دیتے ہیں ساحراللسان قاری خوش الحان جناب مولانا ۔۔۔ کو، موصوف سے التماس ہے کہ ؂
قرآن کی تلاوت سے آغاز ہو محفل کا
اس نور سے پاجائیں ہم راستہ منزل کا
جناب موصوف مائک کے روبرو۔
حضرات ! ابھی آپ تلاوت کی سماعت سے اپنے دلوں کے گناہوں کی کثافتوں کو دھو رہے تھے ۔ آئیے اب تلاوت کے بعد اس مدنی آقا ، مولائے کریم ، محبوب رب العالمین، محمد عربی ،فداہ امی وابی ﷺ کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کرتے ہیں ، جن کے احسانِ گراں بار سے ہم سب ؛ بلکہ پوری انسانیت کی گردن خم کھائی ہوئی ہے ، جن کے دنیا میں آنے سے دنیا کی تمام غم گینیاں اور دائمی سرگشتگیاں ختم ہوگئیں اور کلمۂ حق کا موسمِ ربیع، موسم بہار شروع ہوا۔ تو لیجیے سماعت فرمائیے شاعر شیریں زبان و خوش الحان جناب ۔۔۔ کو ، میں ان سے بصد احترام گذارش کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنی ترنم آسا دل سوز نغمگی آواز سے نعتیہ کلام پیش فرمائیں۔آں جناب آپ کے روبرو۔
سامعین کرام! ابھی آپ نعت نبی سن رہے تھے اوریوں محسوس کررہے تھے کہ گویا ہم تصور میں آقائے مدنی کی گلیوں میں سیر کر رہے ہیں ۔پروگرام کی اس ضروری رسم و راہ کے بعد آئیے اب اصلی منزل کا رخ کرتے ہیں اور تقریری کڑی کا آغاز کرتے ہیں جس کے لیے ہم آواز دیتے ہیں انجمن کے ایک ہونہار فرد ، ماہر وبے باک مقرر جناب مولوی۔۔۔کو کہ وہ آئیں اور اپنی آتش بیانی سے خرمن باطل میں آگ لگادیں۔میں ان سے درخواست کرتا ہوں ان دو شعر کے ساتھ کہ ؂
بزم سخن کا رنگ نکھر آیا اس طرح
جیسے نکھار آیا ہو تازہ گلاب پر 
اور آواز دے رہی ہیں تجھے دل کی دھڑکنیں
آجاؤ اب کہ بزم ہے پورے شباب پر
جناب خطیب صاحب آپ سے مخاطب۔
دوستو! ہمارا یہ پروگرام انتہائی مختصر ہے ، جس کی وضاحت یہ ہے کہ اب ایک مکالمہ پیش کیا جائے گا اور اس کے بعد اساتذۂ کرام کی مفید نصیحتوں کادور چلے گا۔
دوستو ! زندگی کے سفر میں جس طرح کسی رنج و غم سے پڑنے والے اثرات سے آنسو بہانا ضروری ہے، دوستو اس سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ لوگ قہقہوں سے اپنے دلوں کے بوجھ کو ہلکا کریں،پھولوں کے سیج پر سونے کا حقیقی لطف وہی اٹھا سکتا ہے، جو کانٹوں کی چبھن کی لذت سے آشنا ہو،تو آئیے ماحول کو اور بھی خوب صورت اورموسم کو حسین سے حسین تر بنانے کے لیے آپ کو قہقہوں کی محفل میں لیے چلتے ہیں اور ایک تہلکہ خیز و تہلکہ ڈاٹ مکالمہ پیش کرتے ہیں جس کے لیے مکالمہ میں کردار ادا کرنے والے حضرات جناب ۔۔۔ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور اپنے اپنے رول اور کردار کے اعتبار سے اپنی اپنی ذمے داری کونبھائیں۔ 
محترم سامعین ! ابھی آپ مکالمہ سن رہے تھے اور ساتھ ہی اس میں ادا کیے جانے والے ایکٹنگ کو دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے ۔ 
دوستو! اب ہم طلبہ کے پروگرام کا دور ختم ہوگیا ۔ آئیے اب اپنے مشفق اورکرم فرماو کرم گستر اساتذۂ کرام کی نصیحتوں سے مستفیض ہوتے ہیں،جو اپنے تجرباتِ حیات کی روشنی میں ہم وابستگانِ دامن اساتذہ کی زندگی کے لیے مفید لائحۂ عمل اور کارگرپروگرام کی طرف رہ نمائی کریں گے اور ہماری زندگی پھر اس ڈگر پر چل کر کامیابی اور کامرانی سے ہم کنارہوگی ۔ تو پروگرام کی اس کڑی کو شروع کرتے ہوئے انتہائی عاجزانہ درخواست کرتے ہیں جناب حضرت مولانا ۔۔۔سے کہ آں جناب تشریف لائیں اور خطاب فرمائیں۔
دوستو!ہم تمام طالبان علوم نبویہ کی یہ فطری تمنا ہوتی ہے کہ ہمارے علمی سفر کی آخری منزل ازہر ہند دارالعلوم دیوبند ہو اوراس گلشن قاسمی میں بلبل بن کر چہکتے رہیں۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکرو احسان ہے کہ اس نے ہماری اس فطری تمنا کی تکمیل کی اورہم اس مادرعلمی سے فیض یاب ہوتے رہے؛ لیکن دوستو مادر علمی کے یہ ایام اتنی تیز ی سے گذر گئے جیسا لگتا ہے کہ قدرت کے غیبی ہاتھوں نے گھڑیوں کی رفتار تیز کردی تھی ، سکنڈ منٹ کی طرح، منٹ گھنٹوں کی مانند اور گھنٹے ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے اعتبار سے گذر رہے ہیں۔
ساتھیو!یہ اختتامی اجلاس ہماری جدائی کی گھڑی آن پہنچنے کا اعلان کررہا ہے، شاید ہماری اور آپ کی یہ آخری بزم ہے ، اب ہم سے مادر علمی چھوٹ جائے گی ، ہم اپنے اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں سے محروم ہوجائیں گے، درس و تدریس کے لمحے لمحے کی یاد ہمیں ستائے گی، ہم ان درودیوار کی دیدار کو ترس جائیں گے ، یہ دارالحدیث کا گنبد بیضا، مسجد رشید کی حسین میناریں، مسجد چھتہ کی روحانیت، مسجد قدیم کی نورانیت، ساقی کوثر کا مے خانہ،میکدۂ قاسم کا جام و سبو، گہورۂ طیب،چمن نصیری، قلزم مدنی، مینائے مدراسی، صہبائے سعیدی، بزم قمری، بہار حبیبی، درس نعمتی، بیر زمزم کا پرتو، احاطۂ مولسری میں گذری ہوئی زندگی کی صبح و شام، ان درودیوار سے وابستہ ماضی کی حسین یادیں، شب و روز کے مشاغل، تعلیم تعلم کے معمولات، پندو وعظ کی قیمتی باتیں، تقریرو تکرار میں گزری ہوئی راتیں، صدائے قال قال کی بازگشت، دوست واحباب کے میل ملاپ ، یاران ہم نوا کے اجتماع واختلاف ، باہمی الفت ولگن، آپسی خلش و چپقلش ، ایک دوسرے سے روٹھنا منانا،رفقاکے ساتھ مستیاں و اٹھکھیلیاں، انجمن کی بزم آرئیاں اور احباب کی طرب انگیزیاں ؛ دوستوان سب کی یادیں ہمیں تڑپاتی رہیں گی ؂
جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ، جہاں نغمے ہی نغمے تھے
وہ گلشن اور وہ یاران غزل خواں یاد آئیں گے
لیکن دوستو! یہ اجتماع و افتراق، یہ اتحادواتفاق، یہ وصال وفراق،یہ جمع و تفریق، یہ جدائی وجفائی، یہ بے کسی وبے بسی، یہ ہماری آمدو رفت؛ سب قدرت کی کرشمہ سازیاں ہیں، یہاں کسی کو بقا و دوام نہیں، خود دنیا کی کیا حقیقت ہے ؟ کلی پھول بنی اور مرجھا گئی، گلاب میں چمک آئی اور ماند پڑگئی، چمیلی مہکی اور ختم ہوگئی، کنول کھلااور کمھلا گیا، نرگس شہلا مسکرائی اور خاموش ہوگئی، چمپا میں تازگی آئی اور پژمردگی چھا گئی، بلبل شاخ گل پر چہکا اور اڑگیا، چاندنی آئی اور غائب ہوگئی، سورج طلوع ہوا اور غروب ہوگیا، دن رخصت ہوا اور رات کی تاریکی چھا گئی ، رات کافور ہوئی اور دن آگیا، صبح ہوئی اور شام ہوگئی ؂
بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میں 
ثبات ایک تغیر کوہے زمانے میں 
تو جب دنیا ہی کو بقا و دوام نہیں ، تو ہم کب تک اس گلشن میں رہتے؟ زندگی کا اور کتنا حصہ یہاں بتاتے؟ اور کب تک زندگی کی بہار یوں ہی لوٹتے رہتے؟ ؂
چلے گا بزم میں جام و شراب مشک وبو کب تک
رہیں گے زینت محفل بتان سعلہ رو کب تک
کریں گے بزم قاسم میں سکون آرزو کب تک
ہماری کروفر کب تک رہے گی اور ہم کب تک
یقیناًہمیں یہاں سے ایک نہ ایک دن ضرور نکلنا پڑتااور ہمیں یہاں سے رخصت سفر باندھنا ہی پڑتا۔ دوستو آج وہی ہماری رخصت کی گھڑی ہے ، تو پھر یہ کیسا شکوہ اور کس کا شکوہ؟ یہ کیسا گلہ اور کس کا گلہ؟ یہ کیسا غم اور کس کا غم؟ یہ کیسی کسک اور کیسا دردِ جدائی؟ یہ کیسی رنجش اور کیسا رونااور کیوں کر رونا؟ ارے بھائی ؂
غم تو غذائے روح ہے اس سے گریز کیا
جس کو ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے
لہذا چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے ماضی کی حسین یادوں کو ، جس کو دہراکر ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں، اگرچہ سچ یہ ہے کہ ؂
یہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
اوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹنا کھیل نہیں
لیکن ؂
لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاؤ رہنے دو
پس جدائی کی اس جاں سوز گھڑی میں نمناک آنکھوں اور غم ناک چہروں سے نہیں ؛ بلکہ ہشاش بشاش چہروں سے ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہیں اور یہ وعدہ کرتے ہیں کہ زندگی کے ہر موڑ پر، جہاں بھی موقع ملے گا، ان شاء اللہ ملاقات کرتے رہیں گے ۔ ؂
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک 
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
اور اگر زندگی نے وفا نہ کی اور قبل از وصال وفات پاگئے ، تو ان شاء اللہ حشر میں سایۂ عرش کے نیچے ضرور ملاقات ہوگی، جس وقت اگرچہ نفسی نفسی کا عالم ہوگا، لیکن ہماری یہ سچی دوستی ضرور کام آئے گی، الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین ؂
علیکم سلام اللہ انی راحل
وعینای من خوف التفرق تدمع
و ان نحن عشنا فھو یجمع بیننا
و ان نحن متنا فالقیامۃ تجمع 
محترم سامعین! جدائی کے جذبات غم کو میں ضبط نہ کرسکااور جنون فراق میں نہ جانے کیا کیا بک دیا۔ ہم اس سمع خراشی کی معافی چاہتے ہوئے آخرمیں درخواست کرتے ہیں عارف باللہ جناب حضرت مولانا۔۔۔سے کہ اپنے مفید کلمات سے نوازیں اور دعا فرما کر مجلس کا اختتام فرمائیں۔
محترم حضرات ! اآ پ حضرات نے ہمارا آخر تک ساتھ دیا اور پروگرام کو کامیاب بنایا، اس پر آپ تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ 

نظامت کی مثال بہ موقع افتتاحی پروگرام

نظامت کی مثال
بہ موقع افتتاحی پروگرام
محترم سامعین کرام! کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ ؂
رشک کرتا ہے فلک ایسی زمیں پر اسعد
جس پہ دوچار گھڑی ذکرِ خدا ہوتاہے
میرے عزیز ساتھیو! آپ تمام حضرات کا اس رشک فلک بزم اور رشک ملائکہ کی محفل میں جوق در جوق تشریف لانا اور ہماری حقیر سی دعوت پر اپنی تمام اہم اور ضروری مصروفیات کو چھوڑ کر یہاں قدم رنجہ فرماکر اس محفل کی رونق میں اضافہ کرنا؛ یہ وہ چیزیں ہیں ، جن سے ہم بے حد ممنون و مشکور ہیں۔
دوستو! ویسے توآج کے اس پروگرام کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کسی انجمن کا افتتاحی پروگرام ہے، کسی بزم کا پہلا اجلاس ہے ، کسی ایک محفل کی شروعات ہورہی ہے اور کسی جلسے کا آغاز ہورہا ہے ؛ لیکن کسی شاعر نے کہا ہے کہ ؂
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شئی کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
جی ہاں دوستو!جب ہم اس کو کسی اور پہلو سے دیکھتے ہیں، توہمیں کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔حقیقتِ شئی کی نظر سے دیکھتے ہیں ، تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ صرف کسی ایک انجمن کا افتتاحی پروگرام نہیں؛ بلکہ ہماری ایک نئی زندگی کی افتتاحی تقریب ہے۔ یہ صرف کسی ایک بزم کا اجلاس نہیں؛ بلکہ ہماری ایک نئی امنگ کے لیے جدو جہد کرنے کے عزم کا اعلان ہے۔ یہ صرف کسی ایک محفل کی شروعات نہیں؛ بلکہ ہماری ایک اور زندگی کی شروعات کا عندیہ ہے۔ یہ صرف کسی ایک جلسے کا آغاز نہیں؛ بلکہ یہ ہمارے ایک نئے مستقبل کا بھی آغاز ہے ۔ کیوں کہ آج کا یہ وقت وہ وقت ہے ، جس میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کو کامیاب بنانا ہے کہ نہیں، اپنے ایک سنہرے مستقبل کو آواز دینا ہے یا نہیں اور آگے کچھ بن کر یا کچھ کر کے دکھانا ہے یا نہیں۔
وقت کی قلت دامن گیر ہے اس لیے اب ہم مزید کلپترہ گوئی اور سمع خراشی کے بجائے پروگرام کے آغاز کی طرف قدم بڑھاتے ہیں کہ ؂
تصویر آج کھینچیں گے بہزاد بن کے ہم
یہ صحن چمن غارِ حرا ہم بنائیں گے 
وہ چشمہ جو کہ منبعِ آبِ حیات ہے 
اک جوئے شیر بزم میں اس سے بہائیں گے 
وہ قند جس سے میٹھی ہے عذب البیانیاں
وہ آج سب کو مثلِ تبرک چکھائیں گے
وہ نور جس سے طور کی قسمت چمک گئی
ہم اس سے آج سرو چراغاں جلائیں گے
ہاں میرا ہاتھ شوخی تقریر چوم لے
ہم آج شان منزل وحدت دکھائیں گے
یہ سن کے آج تاب سماعت پھڑک اٹھی
اب خود بہ خود سمجھ لو کہ ہم کیا سنائیں گے
گر اب بھی نہ سمجھے کوئی میرے کلام کو 
ہم لا کلام صورت قرآں دکھائیں گے
جی ہاں دوستو! وہ قرآن ؂
وہ قرآں جو سراپا نور ہے رحمت ہے برکت ہے
پلاتا ہے جو اپنے عاشقوں کو جام عرفانی
وہ قرآں جو غذا بھی ہے ، دوا بھی ہے، شفا بھی ہے
مئے توحید کی جس سے ہوئی دنیا میں ارزانی
وہ قرآں جس کی برکت کا بیاں ہوہی نہیں سکتا
بناتا ہے جو اپنے ماننے والوں کو ربانی
وہ جس کا ایک نقطہ بھی نہ بدلے گا قیامت تک
وہ جس کی خود خدائے پاک کرتا ہے نگہہ بانی
اخوت کا سبق جس نے پڑھایا سارے عالم کو 
غلاموں کو عطا جس نے کیا ہے تاج سلطانی
اسی قرآنِ کریم سے محفل کا آغاز کرنے کے لیے ہم دعوت دیتے ہیں، جناب مولانا قاری ۔۔۔ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو ، کہ وہ آئیں اور قرآن کریم کی تلاوت سے ہم لوگوں کے ایمان میں تازگی کی روح گھول دیں۔
محترم حضرات! یہ تھے جناب مولانا قاری ۔۔۔ صاحب ،جو اپنے مخصوص لب ولہجے میں تلاوت فرما رہے تھے اور آپ ایمان کی حلاوت محسوس کررہے تھے۔ 
ساتھیو! خالق دوجہاں اور مالکِ کن فکاں کے بعد اس طلسم کدہ ہزار شیوۂ رنگ میں کسی کا مقام و مرتبہ ہے اور ساری انسانیت پر؛ بلکہ پوری کائنات پر کسی کا احسان عظیم ہے ، تو وہ وہی ہستی ہے ، جن کا نام خود خدائے پاک کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ؂
تکبیر میں کلمے میں نمازو اذان میں 
ہے نام الٰہی سے جڑا نام محمد
فرماتے تھے آدم کہ مجھے خلد بریں میں
لکھا ہوا طوبیٰ پہ ملا نام محمد
جی ہاں ! وہ آقائے دوجہاں، باعثِ کن فکاں ، محبوب رب کائنات،فخر موجودات، نبی امی، محمد عربی ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے ۔ جن کی شان یہ ہے کہ لَوْ لاکَ لَمَا خَلَقْتُ السَّمَوٰاتِ وَالأرْضَ ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؂
کتابِ فطرت کے ہر ورق پر جو نام احمد رقم نہ ہوتا
تو نقشِ ہستی ابھر نہ سکتی، وجودِ لوح و قلم نہ ہوتا
تیرے غلاموں میں بھی نمایاں جو تیرا عکس کرم نہ ہوتا
تو بارگاہ ازل سے تیرا خطاب خیر الامم نہ ہوتا
نہ روئے حق سے نقاب اٹھتا، نہ ظلمتوں کا حجاب اٹھتا
فروغ بخش نگاہ عرفاں اگر چراغِ حرم نہ ہوتا
تو آئیے اسی محسنِ کائنات کی بارگاہ میں عقیدت و محبت اور عشق و شیفتگی کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور اس کے لیے آواز دیتے ہیں، شاعر خوش الحان جناب مولانا۔۔۔ کو ، کہ وہ آئیں اور اس عظیم ہستی کی مدحت و توصیف میں رطب اللسان ہوں۔ جناب مولانا ۔۔۔ مائک کے روبرو۔
سامعین با وقار! اگر یہ حقیقت ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع اور مشرق میں غروب نہیں ہوسکتا، مچھلی خشکی اور پرندے دریا میں زندہ نہیں رہ سکتے، نباتات پانی کے بغیر سرسبزوشاداب اورانسان زمین چھوڑ کر سمندروں کی تہہ میں آباد نہیں ہوسکتے اور ان سے واضح تر مثال میں کہ کوئی بھی گاڑی ڈرائیور کے بغیر نہیں چل سکتی، تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ کوئی بھی کارواں میر کارواں کے بغیر منزل کی جانب کشاں کشاں رواں دواں نہیں ہوسکتا۔ ؂
ممکن نہیں کہ کارواں منزل کوپاسکے
جب تک نہ کوئی راہبر معتبر ملے
اس لیے تحریک صدارت پیش کرنے کے لیے ہم دعوت دیتے ہیں ، جناب مولانا ۔۔۔ کو ،کہ وہ آئیں اور تحریک صدارت پیش کریں۔
تائیدی کلمات: جس عظیم ہستی کانام صدارت کے لیے پیش کیا گیا ہے میں اس کی اپنی طرف سے اور پورے مجمع کی طرف سے ترجمانی کرتے ہوئے پرزور تائید کرتاہوں، ان الفاظ کے ساتھ کہ ؂
مدت سے کاروانِ خرد کو تلاش تھی
اک راہبر جنون ملے معتبر ملے
مدت پہ جستجوئے نظر کامراں ہوئی 
مدت پہ اک قدر شناس گہر ملے
اب ایک دھوم قافلے والوں میں ہے کہ ہاں
ایسا ملے امیر کسی کو اگر ملے 
اس حسن انتخاب اور اس کی پرزور تائید کے بعد پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ پروگرام مختصر؛ بلکہ مختصر تر ہے ؛ کیوں کہ اب خطبۂ استقبالیہ کے بعد صرف ایک تقریر ہوگی اور اس کے بعد حضرات اساتذۂکرام کی نصیحتوں اور دعاؤں پر پروگرام اختتام کو پہنچ جائے گا۔ پھر اس کے بعد آپ ہوں گے ، ہم ہوں گے، مٹھائیاں ہوں گی اور یارانہ مستی کا موحول۔ 
المختصر پروگرام کی ایک کڑی یعنی خطبۂ استقبالیہ پیش کرنے کے لیے ہم دعوت دیتے ہیں ، جناب مولانا۔۔۔ کو ،کہ وہ تشریف لائیں اور استقبالیہ کلمات پیش کریں۔ 
معزز سامعین ! آپ بہ خوبی جانتے ہیں کہ انسان اپنے مافی الضمیرکے اظہار کے لیے دو چیزوں کا سہارا لیتاہے ، جن میں سے ایک کو تقریر کہاجاتاہے اور دوسرے کو تحریر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور ان دونوں صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہماری مادرِ علمی میں مختلف انجمنیں قائم ہیں۔ تو آئیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری یہ انجمنیں اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہیں۔ تو اس کے لیے ہم آواز دیتے ہیں جناب مولوی ۔۔۔ صاحب کو، کہ وہ آئیں اور اپنی آتش بداماں تقریر سے اپنی انجمن کا نام روشن کریں۔جناب مولوی ۔۔۔ مائک پر۔
سامعین کرام!اس شعلۂ جوالہ نما خطابت سے آپ نے بہ خوبی اندازہ لگالیا ہوگا کہ ہماری یہ تحریک اپنے مقصد میں سو فی صد کامیاب ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ جب ہماری یہ انجمنیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوہی گئیں ،تو اب ہمیں مزید ان کی ضرورت نہیں رہی، لہذا آئیے اب ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں؛ کیوں کہ ایسا کرنا گویا اپنی شکست کااعلان کرنا ہے ، حالاں کہ ایک طالب علم و فن کا نصب العین یہ ہے کہ ؂
بلندی پر پہنچنا کوئی کمال نہیں
بلندی پر ٹھہرنا کمال ہوتاہے
اس لیے آئیے آج ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم نے انجمن کی شکل میں جوقافلہ تیار کیا ہے اور انجمن کی صورت میں جو کارواں مرتب کیا ہے اور تقریر و تحریر کا زادِ راہ لے کر طلب و جستجو کی جس راہ پر نکل چکے ہیں، اب ہم بیچ میں سستانے کے لیے تھوڑی دیر ٹھہر تو سکتے ہیں ؛ لیکن ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ نہیں سکتے اورجب تک ہم اپنے منزل مقصود کو نہ پالیں، اس وقت تک ہمارا یہ سفر جاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
دوستو! ہم طلبہ کا پروگرام کادور تو ختم ہوگیا؛ لیکن پروگرام کا اصلی دور اور بزم کا اصلی حسن تواب نکھرنے والا ہے ، ہم طلبہ کے گلستانِ تمنا کے پھول تو اب کھلیں گے، ہماری چاہتوں کے غنچے تو اب چٹکیں گے؛ کیوں کہ ہمارے انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہوچکی ہیں اور وہ وقت آگیا ہے کہ اساتذۂ کرام کی قیمتی نصیحتوں سے ہم مستفیض ہوں گے، جو ہمارے پروگرام کا خلاصہ اور اصلی جوہر ہیں۔
توآئیے پروگرام کی اس کڑی کی شروعات کرتے ہوئے زحمت سخن دیتے ہیں ایک ایسی شخصیت کو ، جن کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ ؂
تعارف کی قطعا ضرورت نہیں ہے
تمھیں جانتا ہے یہ سارا زمانہ
اور جن کا یہ اعلان ہے کہ ؂
میرے ساتھ ساتھ چلے وہی جو خارِ راہ کو چوم لے
جسے کلفتوں سے گریز ہو وہ میرا شریک سفر نہ ہو
اور جن کا یہ مسلک ہے کہ ؂
شریعت عشق کا ہے فتویٰ حرام راحت کی زندگی ہے
گریز پھر کشمکش سے کیوں ہو، ہمارا مسلک ہے عاشقانہ
اور جن کا یہ عزم ہے کہ ؂
ہم اس مٹی کو اپنے خون سے زر خیز کردیں گے
ہمارے اس زمیں کے ساتھ کچھ رشتے انوکھے ہیں
اور جن کا یہ پیغام ہے ؂
تیرے بال و پر کا مقصد ہے بلندیوں پہ جانا 
نہ سکوں نہ سیر گلشن نہ تلاش آب و دانہ
اور جن کا یہ پیام ہے کہ ؂
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اور جن کا یہ فرمان ہے کہ ؂
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا 
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے
اور جن سے درخواست ہے کہ ؂
آ بزم کی رونق کو بڑھانے کے لیے آ
ہم تشنہ لب کو جام پلانے کے لیے آ
اور ؂
طوفانِ حوادث نے بھلادی میری منزل
گم گشتہ راہ کو راہ دکھانے کے لیے آ
ہم بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ درخواست کرتے ہیں نمونۂ اسلاف جناب حضرت مولانا ۔۔۔ صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے کہ آں حضور تشریف لائیں اور اپنی قیمتی نصیحتوں اور مفید مشوروں سے نوازیں ، جن کی روشنی میں ہم اپنی زندگی کی صحیح سمت متعین کرسکیں اور اپنی فکر وعمل کے دھارے کو مثبت موڑ دے سکیں۔
میرے عزیز ساتھیو! پروگرام کا دونوں دور بہ حسن و خوبی اختتام کو پہنچ گیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پروگرام کو کامیاب بنانے میں آپ سبھی حضرات کا تعاون شامل حال رہا ؛ورنہ اس شان دار انداز کے ساتھ یہاں تک پہنچنا ہمارے لیے ناممکن تھا ۔ آپ حضرات کا ہم دوبارہ شکریہ ادا کرتے ہیں اوراجازت لینے سے پہلے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ پھرجب اختتامی دور کا موسم بہار آئے گا، توپھر اسی طرح ہم یاران باصفا کی بزم طرب سجے گی ،پھر یہی محفل نشاط انگیز ہوگی اورجام ومینا کا یہی دور گردش کرے گا۔ یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے۔اب اجازت اس شعر کے ساتھ کہ ؂
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک 
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
اور اب ؂
مستیاں آپ کو آواز دیتی ہیں
مٹھائیاں آپ کو آواز دیتی ہیں
اب لیجیے مٹھائیوں کا لطف ۔

نظامت کے ذریں اصول

نظامت کے ذریں اصول
( اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیں ناچیز کی کتاب: نظامت خطابت اور مکالمہ نگاری کے اصول و امثال)

نظامت در اصل ایک کلاہے، ایک فن ہے ، ایک آرٹ ہے۔ پروگرام کی کامیابی و ناکامی اور مقبولیت و غیر مقبولیت کا سارا دارو مدار اسی کے حسن و خوبی پر موقوف ہوتاہے۔ اگر نظامت اچھی ہوگی، تو پروگرام کا حسن بھی سامعین کو مسحور کرتا رہے گااور پروگرامی کے لطف میں دوبالگی پیدا ہوجائے گی؛ لیکن اگر نظامت ہی معیاری نہ ہوگی، توخواہ کتنے ہی پروگرام کی کامیابی کی ضامن نام ور شخصیات کیوں نہ موجود ہوں، پروگرام میں بے لطفی اور کرکراپن ضرور محسوس ہوگا اور مجمع اکتاہٹ کا شکار ہوکر کم ہوتا چلائے گا۔ اس لیے پروگرام کو از ابتدا تا انتہا خوب صورت و کامیاب بنانے کے لیے بہترین مقرر، شان دار نعت خواں اور دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ اناؤنسر کا انتخاب نہایت ضروری ہے اور ایک عمدہ اناونسر کی پہچان یہ ہے کہ 
(الف) وہ بے باک اور نڈر ہوتاہے اورمجمع کی قلت و کثرت سے فطری طور پر پیدا ہونے والے خوف و ہراس میں مبتلا نہیں ہوتا۔
(ب) صاف گو ، شیریں آواز اور عمدہ طرز تکلم کی صفت سے لیس ہوتا ہے ۔ چرب زبانی، طلاقت لسانی اور بات سے بات پیدا کرنے کے فنمیں ماہر ہوتاہے۔ 
(ج)مجمع کی نفسیات سے باخبر ہوتاہے۔ کہاں کون سی چیز پیش کرنا زیادہ موزوں ہے، کس مقرر کو کس وقت موقع دیا جانا چاہیے، موقعے اور حالات کی کیا نزاکتیں ہیں، انھیں بھانپ کر سامعین کو کس طرح مطمئن کیا جائے گا، پروگرام کے ان تمام پیچ و خم سے بہ خوبی واقف ہوتاہے۔
(د) وسیع المطالعہ ، گوناگوں موضوعات پر گہری نظراور اشعارو ادب پر کافی دسترس رکھتا ہے، موقع بہ موقع ضرب الامثال اورعبرت خیز واقعات و حکایات سے بر محل مناسب تبصروں سے نظامت میں تازگی کی روح پھونکتا ہے۔
(ہ) پروگرام کی مناسبت سے اس کی روایات و انداز کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے جذبات پر کنٹرول اور وقت کی فراوانی وتنگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے طویل و مختصر گوئی کی خصوصیات اس کے اندر پائی جاتی ہیں اور مضامین کی مناسبت سے آواز میں زیروبم پیدا کرکے صوتی نغمگیت سے جادو جگاتا ہے اور سامعین کو مسحور و مدہوش کردیتا ہے۔
(و) جہاں تک ایک مبتدی کے لیے اناؤنسری اور اس کے لیے تیاری کی بات ہے ، تو اس سلسلے میں یہ چند گذارشات پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے۔
(۱)سب سے پہلے اس موضوع کے متعلق کتابوں کا مطالعہ کریں، ان میں بیان کردہ اصول و امثال اور طریقۂ کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے خود بھی اسی نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔
(۲)انجمن یا جلسے کی نوعیت کو دیکھ کر اس کے مطابق نظامت پہلے لکھ لیں، پھر اسے رٹ کر یا ذہن میں بیٹھا کر ہفتہ واری عملی مشق کریں۔
(۳)سیکھنے کے دوران کسی جھجھک کویا غلطی در آنے کے خوف سے شرم و حیا کو رکاوٹ نہ بننے دیں ؛ بلکہ ہر قسم کے خوف و عار کو پس پشت ڈال کر محض سیکھنے کے جذبے کو قوت بخشیں اور اس عمل کو برابر جاری رکھیں۔
(۴) کسی بھی اناؤنسری کی تیاری کا سب سے بنیادی مرحلہ یہ ہے کہ آپ پہلے یہ غور کریں کیسی بزم ہے، کس طرح کی انجمن ہے، پروگرام کا عنوان کیا ہے، کس طرح کے مقررین موجود ہیں، پروگرام کا شیڈول کیا ہے، ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک پیش منظر کا خاکہ بنائیں، پھر اس کے مطابق نظامت تیارکریں۔

1 Apr 2018

الوداعی نمبر


الوداعی نمبر

آج قلم کا دماغ معطر ہے،سیاہی باغ قرطاس کو سیراب کرنے کے لیے مضطرب و ملتہب ہے، کاغذ کا دل خوشیوں سے پھولے نہیں سمارہا ہے ، فضا مشکبار ہے، باد نسیم کے نم آلود جھونکے فرحت و مسرت کے نغمے سنارہے ہیں، باغ و راغ میں ایک ہلچل ہے، پھول مسکرا رہے ہیں ، عندلیبان گلشن ترانہ سنج ہیں اور موسم بہار اچھل اچھل کر ناچ رہا ہے؛ لیکن یہ سب کیوں ہورہا ہے ؟ کیاا س لیے کہ باغ و بہار کی کہانی سنانی ہے؟ یا حسین موسم کی منظرکشی؟۔۔۔ نہیں، ایسا کچھ نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ’’ پرواز‘‘ ( جس نے تعلیمی سال کے آغاز میں جس منزل کی طرف پرواز کیا تھااور تاہنوز مسلسل محو پرواز اور جانب منزل رواں دواں ہے) اب وہ طویل اور مشکلات سے پر رہ گذر طے کرنے کے بعد وہ منزل پانا ہی چاہتا ہے، جہاں اسے ٹھہرنا اور کچھ وقفہ کے لیے سستانا ہے۔
چوں کہ قافلہ بغیر سالار قافلہ کے محو سفر نہیں ہوسکتا، جماعت کا تصور بدون امیر کے بے سود اور گاری بغیر ڈرائیور کے نہیں چل سکتی؛ بلکہ اس طلسمی کارخانہ کی تمام چیزیں ہی زریں اصولوں کا پابند ہیں ، بایں وجہ تعلیمی سال کے آغاز میں آپ تمام حضرات نے بندۂ ناتواں کو اس ’’پرواز‘‘ کی پروازی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور عمدہ عمدہ و معیاری مضامین شائع کرنے کے ساتھ ساتھ وقت پر نکالنے کا مکلف بنایا، جس سے میں بارگاہ ایزدی میں حامد و شاکر ہوں کہ بحمد اللہ ہم نے آپ کی آرزووں کی تکمیل کا جامہ پہنانے میں پوری کوشش صرف کردی ، لیکن ہماری محنت کہاں تک کامیاب رہی ؟ اس کا فیصلہ تو آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
ہم نے ماہنامہ ’’پرواز ‘‘ کی اشاعت کے تخیل کے ساتھ ہی یہ عزم کرلیا تھا کہ صحیح بات کہنی ہے ، خواہ وہ کسی کے مفاد میں ہو یا کسی کے خلاف۔ اور اس سلسلے میں نہ کسی کی ناراضگی کا خوف دامن گیر رہا اور نہ کسی کی خوشنودی کا حصول پیش نظر رہا۔ اگر چہ زمانے کی گروہ بندیوں اور انتہائی تعصب پرستیوں نے جانب داری اور آشنا پروری کا رجحان پیدا کردیا ہے۔ اور لوگ چاہتے بھی یہی ہیں کہ منکر کو منکر اور حق کو حق نہ کہاجائے؛ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں کہ پانی کو دودھ اور رات کو دن کہیں؛ بلکہ جب تک ہمارا قلم خشک نہیں ہوجاتا، ہاتھ کی انگلیاں حرکت کرنے سے تھک نہیں جاتیں، زندگی ساتھ نہیں چھوڑ دیتی اور روح تن سے جدا نہیں ہوجاتی، تب تک حق کو حق اور باطل کو باطل ہی کہتے رہیں گے اور لکھتے رہیں گے۔ اس سلسلہ میں فرزندان اسلام ہونے کے ناطے نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے اور نہ کوئی طمع ہلاسکتی ہے۔ان شاء اللہ۔
بہرکیف! ’پرواز‘ کے آخری شمارہ ’’الوداعی نمبر‘‘ کی اشاعت کے تعلق سے پیدا ہونے والے پر کیف و نشاط آفریں موقع پر اللہ تعالیٰ کی حمد وستائش کے بعد من لم یشکر الناس، لم یشکر اللہ کے جذبے کے ساتھ ان تمام حضرات کا شکر گزار ہیں، جنھوں نے یہ ذمہ داری سونپ کر کچھ سیکھنے کا حسین موقع فراہم کیا مزید برآں یہ کہ قدم قدم پر رہنمائی اور مفید مشوروں سے نواز کر آگے بڑھنے کا حوصلہ بخشا اور ہم ان معاونین کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کریں، جن کی مخلصانہ جدوجہداو رتعاون سے ہی ’’پرواز‘‘ منزل مقصود کو پہنچا اور بندہ اس بارگراں سے سبکدوش ہوا، نیز ہم قارئین کا بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ممنون و مشکور ہیں ، جن کے حسن انتخاب نے ’’پرواز‘‘ کو شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔

رحم مادرسے بیٹی کے نام ماں کا خط


رحم مادرسے بیٹی کے نام ماں کا خط
محمد یاسین جہازی
میری پیاری و لاڈلی نور نظر ! اپنی ماں کا سلام قبول کرو۔
میری معصوم بیٹی!جب سے مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم میرے پاس آنے والی ہو، تو مارے خوشی کے میں پھولے نہیں سماپارہی ہوں اوراسی وقت سے میں شدت سے انتظار کر رہی ہوں کہ تم جلدسے جلد دنیا میں چلی آو۔ میری خالی گود بھردو ۔ میرے دل کی دنیا سنسان ہے ،تم اپنی معصوم چہکار سے آباد کردو۔ میری تنہائیاں اداس ہیں،تم اس میں خوشیاں بھردو۔ میری تصویر حیات بے رنگ ہے، تم اس تصویر کا رنگ صد رنگی بن جاو۔ میں بہت دنوں سے اپنے بچپن کو بچپن کی ساری معصوم اداوں کو ان اداوں میں بسی خوشیوں کو ڈھونڈھ رہی تھی، لیکن خوشیاں اپنا پتہ نہیں دے رہی تھیں۔ تم جلدی سے آجاو اور میرے بچپن کی وہی خوشیاں لوٹادو۔ میرا وعدہ ہے کہ میں تم سے حد سے زیادہ پیار کروں گی، میں تمھیں بے انتہا محبت کروں گی، تمھارا ہر وقت خیال رکھوں گی، ہمہ وقت اپنا سایہ کیے رہوں گی،میں تمھیں دنیا کے ہر غم و تکلیف سے بچاوں گی، تمھیں بھوک لگے گی،تو میں اپنا شراب حیات پلاوں گی، تمھیں دھوپ لگے گی تو آنچل میں چھپالوں گی، سردی ستائے گی تو اپنی راحت جاں لوٹادوں گی، رونے لگوگی تو آنسو پوچھوں گی اور بڑی پیار سے چپ کراوں گی، پیاس لگے گی تو سینہ سے چمٹا لوں گی، نیند نہیں آئے گی تو لوریاں سناوں گی، کھلونا مانگوگی تو ہمہ رنگ کھلونا دوں گی،تمھارا جو کھانے کادل کرے گا ؛ چاکلیٹ، بسکٹ، ٹافی سب کچھ لاکر دوں گی، بس تم جلدی سے آجاؤ۔ آؤ میری بیٹی جلدی آؤ۔۔۔۔۔۔۔ ارے یہ تمھیں کیا ہوگیا ؟تم ڈری ڈری سی کیوں ہو؟ تمھارا چہرہ مرجھایا ہوا کیوں ہے؟ تم غم میں کیوں ڈوبی ہوئی ہو؟ تمھارے جسم پر کپکپی کیوں طاری ہے؟ اور یہ کیا کہ تمھاری آنکھوں میں آنسو ہیں؟ ۔۔۔ کیا تمھیں میری باتیں جھوٹی لگ رہی ہیں؟ کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں؟ کیا میرا دعوائے محبت جھوٹا ہے؟ تم ایک ماں کی عشق و شیفتگی اور اس کی مامتا پر شک کر رہی ہو؟آخر کیا وجہ ہے کہ تم میرے پاس اور میری دنیا میں آنے سے انکار کررہی ہو؟ کیا میرے چہرے کی عارضی پریشانی دیکھ کر تمھیں کچھ تامل ہورہا ہے ؟
میری پیاری بیٹی! میرے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار تو اس لیے ہیں کہ میں تمھیں دنیا میں زندہ و سلامت دیکھنا چاہتی ہوں،لیکن سماج کے کچھ خوں خوار درندے تمھارے خون کے پیاسے ہیں، تمھاری ننھی و معصوم جان کے جانی دشمن ہیں، میں سماج کے ان قاتلوں سے گھبرارہی ہوں کہ کہیں وہ تمھیں دنیا میں آنے سے پہلے راستے میں ہی تمھارا خون نہ کردیں، میں تمھیں ان سے بچانا چاہتی ہوں ، تمھیں سلامتی کے ساتھ دنیا میں لانے کی تدبیریں سوچ رہی ہوں اور میں ان کوششوں پر غور کر رہی ہوں کہ میں تمھیں ان بھیڑیوں سے چھپاکر دنیا میں لاؤں تاکہ سماج اور انسانیت کے ان انسان نماجانوروں کے پنجے تم تک نہ پہنچ سکے، اس لیے میں تھوڑی گھبرائی ہوئی اور تھوڑا بہت پریشان ہوں۔ 
لیکن میری بیٹی! تم میری پریشانی سے پریشان مت ہو، تم میرے اضطراب سے دل گرفتہ نہ ہواور مجھے بری بھی مت سمجھو۔ میرا وعدہ ہے کہ میں تمھیں دنیا میں لاؤں گی اور باحفاظت لاؤں گی،چاہے یہ سماج مجھ پر کتنا بھی ظلم کریں، یہاں تک کہ مجھے قتل بھی کرڈالیں، لیکن پھر بھی میں اپنا وجود تمھیں دوں گی اور تمھیں دنیا میں آنا ہی ہوگا۔ اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ گرچہ عورت محبت کی دیوی ہوتی ہے ، امن کا پھول ہوتی ہے ، وفا شعاری عورت کی حیات کا تلازمہ ہے ، لیکن عورت صنف نازک بھی تو ہوتی ہے، اس لیے تم سماج کے اس عظیم معرکہ میں شکست کھاجاؤگی اور بھیڑیے غالب آجائیں گے تو میں تمھیں ایک مشورہ دیتی ہوں کہ میرے اس خط کی طرح تم بھی ایک خط اپنے پاپا کے نام لکھو، اور اس میں یہ لکھنا نہ بھولنا کہ وہ اس جنگ میں سماج کے بجائے تمھاری ماں کی طرف داری کریں تاکہ تمھیں باسلامت دنیا تک لانے میں کامیاب ہوجاؤں۔
میری بیٹی!اپنی ماں کی بات مانگی نا؟ تم آؤگی نا؟ اور جلدی آوگی نا؟۔ اچھا دیکھو تم آنے تک اپنا خیال رکھنا۔ اور ہاں تم میرے لیے دعا کرنا اور میں تمھاری سلامتی کے لیے دعا کروں گی کہ اللہ پاک تمھیں باحفاظت اور صحیح سلامت میرے پاس پہنچائے، آمین یا رب العالمین۔ 
یہاں کا باقی سب حال ٹھیک ہے ، اب مزید کیا لکھوں ۔ 
فقط والسلام۔
تمھاری منتظر ، تمھاری شفیق و مہربان ماں۔
تاریخ:

قیام اسرائیل اور قرآن (ایک شرعی تجزیہ)


قیام اسرائیل اور قرآن (ایک شرعی تجزیہ)
محمد یاسین جہازی
محض لفظ یہود سے ہی ہر تاریخ شناس کا دل یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ گروہ جو ہر لمحہ، ہر جگہ اور ہر زمانے میں ذلت و مسکنت کا پیکر رہا ہے اور جو لوگوں اور قوموں؛ حتیٰ کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی زبانوں سے مطعون و ملعون اور غیر مصون تھا۔
ادھر چند دہائی پیشتر ۱۹۴۶ء میں برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر بالفورڈ وزیر نے فلسطین کے قریب اور عرب کے سویدائے قلب میں ایک یہودی حکومت (نام نہاد اسرائیل) کی بنیاد ڈالی تھی، جس سے جہاں ایک طرف ہمارے عرب بھائیوں کے جگر کٹ گئے ، تو دوسری طرف ہمارے دینی بھائیوں کے دلوں میں یہ خلجان پیدا ہونے لگا کہ کہ جب قرآن نے انھیں ہمیشہ کے لیے محکوم اور ذلت و رسوائی کا موجب قرار دیا ہے تو اسرائیل میں یہودیوں کی حکومت کیسے قائم ہوگئی ، گویا یہ قرآنی تصریحات اور اسلامی تبشیرات کے خلاف واقعہ پیش آگیا، جب کہ دین اسلام کی ہر بات سچی اور اچھی ہے اور اس کا ہو قول سراسر صداقت و عدالت کا مجسمہ ہے اور دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے ، جو قرآن اور اسلام بڑھ کر صداقت اور سچائی میں ان کا ہم پلہ ہو۔
لیکن یہ بات فہم و تدبرسے بالا تر ہے کہ ہمارے ان اسلامی بھائیوں کو شبہات کہاں سے ، کیسے اور کیوں کر پیدا ہوئے ، جب کہ قرآن اس سلسلے سے بالکل خاموش ہے۔نہ ان کی حکومت کے قیام سے متعلق کچھ کہا ہے اور نہ ہی عدم قیام کی بابت کچھ روشنی ڈالی ہے ؛ بلکہ ان یہودیوں کے متعلق صرف تین چیزوں کی صراحت کی ہے (۱) ذلت و مسکنت (۱) پیہم اضطراب۔ (۳) علم و ہدایت سے محرومی۔
قرآن کا پہلا اعلان
قرآن کریم میں پہلی بات کی صراحت ان الفاظ میں کی ہے 
و ضربت علہیم الذلۃ والمسکنۃ و باؤا بغضب من اللہ
ان یہودیوں پر ذلت ومسکنت ڈال دی گئی ہے اور وہ اللہ کا غصہ لے کر لوٹے۔
قوم یہود چوں کہ روز اول سے ہی شرارت پسند قوم تھی ، دغابازی اور دھوکہ دہی اس کی فطرت تھی، وعدہ خلافی اور مکاری و عیاری اس کا شیوہ تھا ، اللہ کے احکام کی مخالفت کو لازم گردانتے تھے ، انبیائے کرام علیہم السلام کا ناحق قتل اس کا خاص پیشہ تھا اور احکام الٰہی سے سرتابی اس کی خاصیت تھی، اس لیے یہ اپنی پشتینی شرارت و خباثت کی وجہ سے عتاب الٰہی کی مستحق ہوئی اور اللہ کے غصے کا نشانہ بنی۔
قرآن کا دوسرا اعلان
دستور الٰہی ہے کہ جب کوئی فلک نیلگوں اور اس سطح نمو پر فرعونیت اور الوہیت وربوبیت کا مدعی ہوتا ہے تو اللہ کسی موسیٰ کو ان کی سرکوبی کے لیے مسلط کردیتا ہے ۔ اور قانون الٰہی ہے کہ جب کوئی شرکشی اور نافرمانی میں تمام حدود پارکرجاتا ہے ، آبادیاں ہلاک اور بستیاں برباد کرنے لگتا ہے ، دوسروں کی عیش حیات چھین کر اپنی نشاط زندگی کا سامان ڈھونڈھتا ہے اور دوسروں کے سرخ لہو سے اپنی سرخ روئی کا طالب ہوتا ہے ، تو قدرت کاملہ ان پر ایسے ہی لوگوں کو مسلط کردیتا ہے، جو ان کے لیے برابر جہنم بھڑکاتا رہے اور ان کے عیش خانہ کو آتش کدہ بنادے۔
و اذ تاذن ربک لیبعثن علیھم الی یوم القیامۃ من یسومھم سوء العذاب 
اور وہ لمحہ قابل بیان ہے جب کہ تیرے پروردگار نے یہ خبر دی کہ ان (یہودیوں ) پر تاقیامت ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا، جو انھیں شدید تکلیف سے دوچار کرتے رہے۔
اور ظاہر ہے کہ جو کوئی دوسروں کے درپے آزار ہواور ان کے نشیمن کو نذر آتش کرنے کا خواہاں ہو، تو وہ اپنے لیے نشاط کی کلیاں کیسے چن سکتے ہیں؟ اور چوں کہ ان یہودیوں نے انبیائے کرام علیہم السلام تک کو قتل کیا اور ان مقدس گروہ کو برابر ستاتے رہے، تو اللہ کا یہ دستور ان پر چسپاں ہوگیا۔
قرآن کا تیسرا اعلان
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے تین وعدے کیے تھے ، جن میں سے تیسرا وعدہ یہ تھا کہ دین کے اعتبار سے متبع عیسیٰ یہودیوں پر ہمیشہ غالب رہیں گے اور یہود ی عیسائی سے ہمیشہ مغلوب رہیں گے۔
و جاعلوا الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ
اور(ائے عیسیٰ) میں تیرے مطیع کو تیرے منکرین (یہود) پر تاقیامت برتر رکھوں گا۔
اور اس لیے بھی کہ یہود اپنی شرارت انگیزی اور فتنہ سازی اور معصوموں کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے اس قابل ہی نہ رہے کہ وہ کسی کار نیک کے متحمل ہواور گناہ کرتے کرتے ان کا دل اس قدر پراگندہ ہوگیا ہے کہ دین اسلام کی کوئی بھی بات اس کے پلے نہیں پڑتی۔ اور ان کے دل اس قدر سخت و کرخت ہوگئے ہیں کہ عذاب ونار کے ہولناک مناظر بھی چنداں مفید نہیں ، حتیٰ کہ پتھر پگھل سکتا ہے، لیکن جب ان کے دل پتھر کے ہوگئے ہیں، تو ممکن نہیں کہ وہ نرمی کو قبول کریں۔ فھی کالحجارۃ او اشد قسوۃ، و ان من الحجارۃ لما یتفجر منہ االانھار۔
پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح فضا میں پرواز کرسکتا ہے، سمندر خشکی میں تبدیل ہوسکتا ہے، آفتاب ومہتاب کی کرنیں بے نور ہوسکتی ہیں اور زمین و آسمان یک قلم پاش پاش ہوسکتے ہیں، لیکن کوئی واقعہ اسلام کی پیشین گوئی کے خلاف ہوجائے، یہ ممکن ہی نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن کی دگر پیشین گوئیاں آج تک صداقت سے معمور ہیں ، اسی طرح یہودیوں کے متعلق یہ تینوں پیشین گوئیاں آج بھی حقیقت کی شہادت پر قائم ہیں۔
خلفائے راشدین کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے جلاوطن کردیا تھا۔ ڈاکٹر گوبلس (وزیر اعظم جرمنی) نے اپنے مقالہ میں کہا تھا کہ ’’ یہود خون چوسنے والی اور دوسروں کے خون سے پیٹ بھرنے والی قوم ہے‘‘۔ کسی زمانے میں جرمنی کے کچھ ہوٹلوں پر یہ بورڈ آویزاں رہتا تھاکہ ’’یہودی اور کتے اس ہوٹل میں داخل نہ ہوں‘‘۔ کیا یہ ثبوت قرآن کی پہلی پیشین گوئی کا مظہر نہیں ہے!۔
فرعون مصر نے انھیں سلاسل غلامی میں جکڑ دیا تھا، ان کے بچوں کا قتل عام کیا، بچیوں کو صرف اس لیے زندہ رکھا کہ فرعونیوں کے لیے باندیوں کے کام آئیں۔ بخت نصر نے ان کے خون سے ہولی کھیلی۔ ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کیا۔ ٹیٹس نے ان کے اوپر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ ان کی درندگی کے سامنے حیوانیت بھی پانی پانی ہوگئی۔
کوئی نئی شریعت کے آنے سے قدیم شریعت منسوخ ہوجاتی ہے، لہذا جب اسلام آگیا، تو جس طرح دیگر تمام ادیان منسوخ ہوگئے ، اسی طرح عیسائی مذہب بھی منسوخ ہوگیااور اب حقیقی مذہب صرف اسلام باقی رہا۔ ان الدین عند اللہ الاسلام، لہذا و جاعلوا الذین اتبعوک سے مراد مسلمان ہی ہوں گے۔ اور وہ عیسائی بھی اس دائرے میں آئیں گے جو دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے ، لہذا فوقیت سے مراد دین اسلام کی فوقیت ہوگی۔ 
اور حقیقی عیسائی سے مراد صرف مسلمان اس لیے ہوسکتا ہے کہ عیسائی سے مراد وہ ہے جو انجیل کا پیرو کار ہو اور موجودہ دور میں مسلمانوں سے بڑھ کر انجیل کا کوئی پیروکار نہیں ہوسکتا ، کیوں کہ مسلمانوں کا عقیدہ مصدقا لما بین یدیہ پر ہے۔ کیوں کہ مسلمان سابقہ تمام کتابوں پر ایمان رکھتا ہے۔ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ اس سے مراد نام نہاد عیسائی ہی ہیں،تو بھی اس خوشخبری کے مصداق قرار نہیں پائیں گے ، کیوں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ منزل من اللہ والی انجیل پر ایمان رکھیں ، لیکن ان کا ایمان اس انجیل پر ہے ، جس میں انھوں نے خود تحریف کرکے اسے مکمل طور پر بگاڑ دیا ہے، لہذا ان کا ایمان منزل من اللہ والی انجیل پر نہیں، بلکہ اپنی تحریف شدہ انجیل پر ہے ، جسے کسی بھی طور پر صحیح انجیل نہیں کہاجاسکتا ہے۔لہذا حضرت عیسا علیہ السلام کے حقیقی پیرو مسلمان ہی ہوں گے اور اس بشارت کے مستحق قرار پائیں گے۔
دیکھیے اور چشم حقیقت سے دیکھیے کہ قرآن نے جو پیشین گوئی چودہ سو سال پیشتر کردی تھی، وہ آج اسی طرح صادق و برقرار ہے، جس طرح چودہ سو سال پہلے تھا اور اس میں سر مو بھی فرق و اختلال نہیں آیا۔
قرآن نے صرف یہی تین باتیں یہودیوں کے متعلق کہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان تینوں باتوں میں نہ تو ان کی حکومت و سیادت کا انکار کیا ہے اور نہ ہی اقرار کیا ہے، لہذا ان کی حکومت کا عدم قیام قرآن حکیم سے ثابت کرنا اور بصورت قیام قرآنی تصریحات کے خلاف سمجھنا کج فہمی اور غلط اندیشی پر مبنی ثبوت ہوگا۔ اور ایک ایسا مفہوم (جس سے قرآن ساکت و صامت ہے) قرآن سے ملصق کرنا ، قرآن میں معنوی تحریف کے مرادف ہوگا۔ 

31 Mar 2018

پریزنر؟ ویکیشنر؟لرنر؟۔۔۔کیا ہیں آپ؟


محمد یاسین قاسمی جہازی

پریزنر؟ ویکیشنر؟لرنر؟۔۔۔کیا ہیں آپ؟
انسانی زندگی کا کوئی بھی عمل مقصدیت سے عاری نہیں ہوتا، کیوں کہ ایسا کرنا صاحب عقل و شعور مخلوق کے لیے ننگ و عار کا باعث ہوتا ہے۔ 
مشاہدہ ہے کہ ہم چھوٹا سے چھوٹا کام بھی مقصد کے بغیر نہیں کرتے۔ حصول رزق کے لیے تگ و دو ، آفس کے لیے بھاگ دوڑ،دنیا یا آخرت کو بنانے کے لیے کوئی بھی جدوجہد ؛ سب کے سب بامقصد ہوتے ہیں؛ لیکن ہماری زندگی کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اس حوالے سے کیا ہم نے کبھی غور کیا ؟ یہ تحریر اسی پہلو پر غور و فکر کی دعوت کا اشاریہ ہے۔ 
اس دنیائے رنگ و بو میں آنکھیں کھولنے والوں کے لیے زندگی ، بحیثت زندگی تین مقاصد میں سے کسی ایک مقصدکے لیے ذریعہ ہوتی ہے۔ ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ ہماری اپنی زندگی کے وجود میں چوں کہ ہمارا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے۔ بس فطرت کے قانون کے تحت ہم دنیا میں بلا اختیار آگئے ہیں۔ جب آگئے ہیں اور زندگی ہمارے اوپر مسلط کردی گئی ہے،تو ہمیں ایک قیدی کی طرح زندگی کو ڈھونا ہی پڑے گا۔ اور اس لیے ہم ڈھو رہے ہیں۔ شکیل بدایونی کہتے ہیں کہ ؂
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
گویا ہم اس زندگی کے ہاتھوں زندہ رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ ہم زندگی کی قید میں قیدی ہیں۔ جب تک قید کا زمانہ چلتا رہے گا، ہم بھی ایک پریزنر (قیدی) کی طرح زندگی گذارتے رہیں گے۔ اور یہ آپ بھلی بھانتی جانتے ہیں کہ ایک قیدی کا قیدی زندگی گذارنا کوئی بامقصد زندگی نہیں ہوتا۔اس لیے قید کی ساری زندگی برباد زندگی ہوتی ہے ۔اور زندگی کی عمر میں اس کا شمار ایک ضائع زندگی کے طور پر ہوتا ہے۔ 
زندگی کے تعلق سے بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ یہ زندگی ایک ویکیشن ہے، موقع ہے۔ ایک آخری موقع ، جس کے بعد زندگی کی شکل میں دوبارہ موقع نہیں ملے گا، اس لیے اس زندگی میں جتنا ممکن ہو، موج مستی کرلو۔ ایسے لوگوں کے معراج فکر بس عیش کوشی تک محدود رہتا ہے۔اور محض اسی کا حصول ان کی زندگی کا آخری مقصد ۔ 
تیسری قسم کے لوگ بھی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں، جن کا نظریہ حیات ، درج بالا دونوں نظریوں سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ماننا ہے کہ زندگی منزل نہیں؛ بلکہ ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ ہماری حیات اس جہان رنگ و بو تک ہی محدود نہیں؛ بلکہ یہ صرف خاص مقصد کیتکمیل کے لیے مقدمہ ہے۔ اس مقصد کی تحصیل و تعیین کے لیے یہ کائنات اور کائنات کی تمام بوقلمونیاں رچائی گئیں ہیں۔اونچے پربت، نیلے ساگر،بہتے بادل، گرتے جھرنے، رنگ برنگے پھولوں کی وادی،غرض کائنات کے کسی بھی منظر میں غور وفکر کرتے ہیں ، تو ہماری عقل نارسا ان کے تغیرات و تنوعات کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھتی ہے کہ سبحانک ربنا ، ماخلقت ھذا باطلا۔ پھر یہی احساس و شعور ہمیں اپنا مقصد حیات بتاتے ہوئے سکھلاتا ہے کہ ہم اس دنیا میں بے کار پید انہیں کیے گئے ہیں؛ بلکہ ہمارا مقصد انتہائی اعلیٰ و ارفع ہے۔ ہماری تخلیق اس لیے ہوئی ہے کہ خالق کائنات کے منشا کو سیکھ ، جان کر اس کی خوشنودی اور رضا کے حصول میں اس زندگی کو وقف کردیں۔ گویا ہمارا وجود ایک متعلم کی حیثیت رکھتا ہے، یہاں ہم ایک لرنر ہیں۔ خالق کائنات کے ثبوت وشواہدات کو دیکھ دیکھ کر ہم سیکھتے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا وجود کس چیز کے لیے وقف ہونا چاہیے۔
زندگی کے ان تینوں مقاصد میں آپ کی زندگی کس مقصد کے لیے وقف ہے ، یہ آپ کو طے کرنا ہے۔ اگر آپ قیدی ہیں، تو زندگی آپ کے لیے عذاب کے سوا کچھ اورنہیں ہوسکتی۔ اگر آپ ویکیشنر ہیں، تو آپ کا وجود صرف اسی دنیا کے اندر باعث رشک ہوسکتا ہے ۔ آگے کے مراحل کے لیے آپ کی ناکامی اور خسارہ متعین ہے۔ لیکن اگر آپ لرنر ہیں اوروسعت آفاق میں پھیلی مناظر قدرت سے وحدانیت کا درس لیتے ہیں، تو آپ نے زندگی کے حقیقی مقصد کو پالیا ہے اوردرحقیقت یہی زندگی بامعنی اور کامیاب زندگی ہے۔
آئیے ہم ایک مثال سے خود کا تجزیہ کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کس مقصد کے تحت گذر رہی ہے۔
جمعہ کی فضیلت میں یہ آیا ہے کہ جو سب سے پہلے مسجد پہنچتا ہے، اسے ایک اونٹ قربان کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔ پھر اس کے بعد میں آنے والے کے لیے گائے، پھر دنبہ، پھر مرغا، پھر انڈے کا ثواب ملتا ہے۔ پھر جب خطبہ شروع ہوجاتا ہے، تو فرشتے ثواب کا رجسٹر بند کرکے خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ 
اس فضیلت کے پیش نظر جمعہ میں حاضری کا وقت ہماری زندگی کی قسم متعین کردیتا ہے۔ کچھ تو اس طرح آتے ہیں، گویا قیدی کی طرح آئے نہیں؛ بلکہ زبردستی لائے گئے ہیں۔ جماعت تیار ہونے کے بعد آتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی بھاگ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے آفس سے یا اپنے کام سے آزاد ہونے کا بہانہ مل جاتا ہے ۔ اور اس موقع کو ویکیشن سمجھتے ہوئے جمعہ کے ذکرو اذکار میں وقت لگانے کے بجائے دوست و احباب سے ملنے ملانے میں لگ جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اول وقت میں آتے ہیں اور جمعہ کے سارے ذکر و اذکار کی تکمیل کے بعد ہی لوٹتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی زندگی کی حقیقت اور مقصد حیات سے بہ خوبی واقف ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کا اصل کام اور بنیادی کردار کیا ہونا چاہیے، جس کی تکمیل کے لیے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اس میں صرف کرتے ہیں اور یہی دونوں جہان میں کامیابی کا وسیلہ ہے۔
اس اصول و امثال کی روشنی میں خود کا جائزہ لیجیے کہ آپ زندگی کے ہاتھوں کیا ہیں: پریزنر؟۔۔۔ ویکیشنر؟۔۔۔ لرنر؟۔۔۔۔

قسط نمبر (4) اولاد کی تربیت کا بیان


(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
اولاد کی تربیت کا بیان
دودھ پلانے کا بیان
جب بچہ پیدا ہو تو اس کو دو سال تک ماں کا دودھ پلائے۔ بچہ کے حق میں ماں کا دودھ سب سے زیادہ مفید ہے ۔ اگر کسی وجہ سے ماں دودھ نہ پلاسکے، تو کسی نیک مزاج صحت مند شریف عورت کا دودھ پلائے ۔ دو سال سے زیادہ دودھ پلانا درست نہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلینِ کامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن یُتِمَّ الرَّضَاعَۃَ (سورۃ البقر، آیۃ: ۲۳۳)
جن کو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنی ہو، وہ مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
لَا رِضَاعَ ا8لَّا مَا کانَ فی الحَوْلَیْنِ (رواہ دار قطنی)
دودھ پلانا تو بس دو سال ہے۔ 
یعنی دو سال سے زیادہ دودھ پلانا درست نہیں ۔ اس درمیان میں اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا، پینا ، اٹھنا ، بیٹھنا، پیشاب پاخانہ کرنا اپنے ہاتھ سے کپڑے پہننا سکھائے۔ اور دوسری اخلاق و عادات کی تعلیم دے ۔ اور جب لڑکا بولنے اور باتیں کرنے لگے، تو اس کو 
لَا ا8لٰہَ ا8لَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ 
اور آیت کریمہ 
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیکٌ فِي الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً (سورۃ الا8سراء آیۃ: ۱۱۱)
سکھائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ عبد المطلب کی اولاد میں جب کوئی لڑکا بولنے لگتا، تو حضور اکرم ﷺ اس کو کلمہ توحید اور پچھلی آیت بنی اسرائیل کی 
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیکٌ فِي الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً (سورۃ الا8سراء آیۃ: ۱۱۱)
سکھاتے ۔ (حصن حصین)
تعلیم کا بیان
جب لڑکا پڑھنے کے لائق ہو تو اس کو علم دین کی تعلیم دے، اس لیے کہ اشرف العلوم ہے ۔ اور اس کا سیکھنا سکھانا بقدر ضرورت ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ اس لیے اپنی اولاد کو سب سے پہلے علم دین سکھائے ۔ علم دین کی بڑی فضیلت ہے اور اس میں بڑی برکت ہے۔ 
حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ علم دین حاصل کرو۔ علم کا سیکھنا خدا سے ڈرنے کا موجب ہے ۔ اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ علم کا تذکرہ کرنا خدا کی پاکی بیان کرنے کے ہم معنی ہے۔ علم سے بحث کرنا جہاد ہے ۔ علم کو سکھانا ایسے شخص کو جو نہ جانتا ہو، صدقہ ہے۔ علم کا ضرورت کے موقع پر خرچ کرنا ثواب ہے ۔ علم حلال اور حرام کو پہچاننے کی علامت ہے ۔ علم اہل جنت اور نیک لوگوں کے راستہ کا نشان ہے۔ علم تنہائی میں ایک بات کرنے والا رفیق ہے ۔ راحت اور مصیبت دونوں حالتوں میں رہنما ہے۔ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے علم ایک مضبوط ہتھیارہے۔ دوستوں کے سامنے علم زینت ہے ۔ علم کی بدولت اللہ تعالیٰ پست اقوام کو بلند کرتا ہے ۔ ان کو پیشوا اور مقتدیٰ بناتا ہے ۔ لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں پست اقوام کو علم کی بدولت یہ مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے کہ ان کی رائے ہر معاملہ میں آخری رائے سمجھی جاتی ہے ۔ ملائکہ ان کے دوست بننے کی تمنا کرتے ہیں اور اپنے پیروں کو عاجزی کے ساتھ مس کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے لیے عالم کی ہر تر و خشک چیز استغفار کرتی ہے ؛ یہاں تک کہ دریاؤں کی مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، جنگل کے درندے اور چوپائے بھی ان لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ علم دلوں کو جہالت کی موت سے نکال کر عزت کی زندگی بخشتا ہے۔ علم تاریکی میں روشنی اور چراغ کا کام دیتا ہے ۔ علم انسان کو بہترین حضرات کے مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے اور دنیا و آخرت کے بلند سے بلند مراتب پر انسان کو پہنچا دیتا ہے ۔علم کی بات میں فکر کرنا، روزہ رکھنے کے ثواب کے مانندہے ۔ اور علم کو پڑھنا پڑھانا رات کی عبادت کے مثل ہے۔ علم سے آدمی کو صلہ رحمی کا سلیقہ آجاتا ہے ۔ اور حلال و حرام کو پہچان جاتا ہے ۔ عمل علم کے تابع ہے اور علم عمل کا امام ہے۔ علم سعید اور نیک لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے ۔ بد بخت اور اشقیاء اس سے محروم رہتے ہیں ۔ (ابن عبد البر عزی)
اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں ، جو علم دین کی بزرگی اور اس کے اشرف ہونے پر روشنی ڈالتی ہیں۔ لیکن اس زمانہ میں دنہا کے حریص اپنے بچوں کو علم دین سے محروم رکھتے ہیں اور ایسے علوم میں ان کو منہمک رکھتے ہیں، جس سے دین اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔اس تجربہ کے بعد اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے کہا ہے کہ ؂
یوں قتل کی اولاد سے بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
علم دین کے ساتھ اپنے بچوں کو اس پر عمل بھی کراتے جاؤ ۔ جب بچہ سات برس کی عمر کا ہوجائے، تو اس کو نماز پڑھنے کے لیے کہے۔ اور اس سے نماز پڑھائے۔ اور جب دس برس کا ہوجائے تو اس کو تاکید کے ساتھ نماز پڑھائے۔ اگر نماز پڑھنے میں سستی کرے، تو اس کو مارے ، تنبیہہ کرے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تمھارے لڑکے سات برس کی عمر کو پہنچیں، تو ان کو نماز پڑھنے کا حکم کرو اور جب دس برس کا ہوجائے تو مار کر نماز پڑھاؤ۔ (ابو داود)
مقصد یہ ہے کہ نری تعلیم نہ ہو؛ بلکہ اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی ہونی چاہیے ۔ کالجوں کے لڑکے کے بگڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اچھی تربیت کے بجائے بری تربیت ہوتی ہے ؛ ورنہ نفس تعلیم میں اتنی خامی نہیں ہے۔ رفاہ المسلمین میں لکھا ہے کہ جب اولاد پیدا ہو تو اولاد کی پرورش اور اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانا ، کپڑے پہنانا اور قضائے حوائج یعنی پاخانہ پیشاب کروانہ اور شفقت و محبت سے تا حد بلوغ پالنا ماں کے ذمہ ہے۔ اور دودھ پلانا بھی ماں کا حق ہے۔ اگر وہ قبول نہ کرے تو باپ کو چاہیے کہ کسی اور عورت مسلمان نیک بخت پاک دامن سے دودھ پلوائے؛ لیکن ان سب چیزوں کا یعنی کھلانے پلانے کا اور دوا، لباس و پوشاک اور دودھ پلانے کا خرچ اور اسباب موجود کردینا باپ کے ذمہ ہے۔ اور اولاد کا اچھا نام رکھنا اور عقیقہ اور ختنہ کرانا اور کلام اللہ وغیرہ دینی علوم پڑھانا اور تربیت و تادیب اور نماز و روزوں کی تاکید کرنا اور کتاب اللہ اور تیر اندازی اور شناوری (پانی میں تیرنا) سکھانا اور جس کتاب میں عشق کی باتیں ہوں یا عورتوں کے حسن و خوبی و جوانی کے قصے ہوں ، اس کے پڑھنے سے روکنا اور جو استاد ادیب کہ ان کو شعرو شاعری سکھائے ، اس کی صحبت سے بچانا، آخرش جب سولہ سترہ برس کا ہو تو کسی نیک بخت بھلی مانس سے نکاح کرادینا ؛ یہ سب باتیں باپ پر واجب ہیں ۔ باپ نہ ہوتو دادا پر۔ وہ بھی نہ ہوتوبموجب ترتیب عصبات کے اور وارثوں پر واجب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
من وُلِدَ لہ ولدٌ فلیُحسن اسمَہ وأدبَہ فإذا بلغ فلیُزوجہ فإن بلغ ولم یزوجہ فأصاب إثما فإنما إثمہ علیٰ أبیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب الولی فی النکاح استئذان المرأۃ الفصل الأول) 
جس کو اولاد ہو اس کو چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے ۔ اس کی اچھی تربیت کرے۔ پھر جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرادے، پس اگر وہ بالغ ہوا اور اس کا نکاح نہیں کردیا اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا ، تو اس کا گناہ اس کے باپ کے اوپر ہے۔
ختنہ کا بیان
ختنہ کرنا امام اعظم، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک سنت ہے اور شعار اسلام سے ہے ، یہاں تک کہ اگر کسی شہر کے تمام لوگ متفق ہوکر ختنہ چھوڑ دیں، تو حاکم وقت کو ان کے خلاف جہاد کرنا چاہیے ، جیسا کہ دوسری سنتوں کے ترک کرنے پر کرتا ہے۔ 
مسند امام احمد ابن حنبل میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ ختنہ کرنا مردوں کے لیے سنت ہے اور عورتوں کے لیے موجب کرامت۔ خزانۃ الفتاویٰ میں شرعۃ الاسلام سے منقول ہے کہ مردوں کا ختنہ کرنا مسنون ہے۔ اور عورتوں کے ختنہ کرنے میں اختلاف ہے۔ ادب القاضی میں مکروہ اور بعض علماء نے واجب اور بعض نے فرض لکھا ہے ۔ اور عین العلم میں لکھا ہے کہ عورتوں کا ختنہ کرنا مسنون ہے ، جیسا کہ حدیث میں آیا کہ عورتوں کا ختنہ کرنا موجب کرامت ہے کہ ختنہ کرنے سے ان کے چہرے میں تازگی اور خوب صورتی آتی ہے ۔ اور شہوت سست ہوتی ہے اور مجامعت میں زیادہ لذت آتی ہے ۔ اور خاوند اس کو بہت چاہتا ہے۔
ختنہ کا وقت
ختنہ کے لیے کوئی وقت متعین نہیں؛ البتہ بلوغ سے پہلے ختنہ ہوجانا چاہیے، اس لیے کہ بلوغت کے بعد کشف عورت جائز نہیں ۔ اور سنت کے ادا کرنے کے لیے فرض کا ترک کرنا کسی طرح درست نہیں ۔ چنانچہ قاضی خاں میں لکھا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو اس کے وقت کے تقرر کا کوئی علم نہیں۔ اور نہ کوئی دلیل قطعی اس کے تعیین پر قائم ہے۔ اور اس بارے میں صاحبین سے بھی کچھ پایہ ثبوت تو نہیں پہنچتا۔ اور شمس الائمہ حلوائی فرماتے ہیں کہ بالغ ہونے تک جس وقت لڑکے کو سختی اور درد کے برداشت کی طاقت حاصل ہو ، اس وقت اس کا ختنہ کردینا چاہیے۔
اور مجمع البرکات میں کنز العباد سے نقل کیا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ختنہ کرنے کا کوئی وقت متعین نہیں ، لیکن لڑکے کا حال دریافت کرے۔ اگر اس میں دکھ تکلیف اٹھانے کی طاقت ہے، تو تاخیر نہ کرے ۔ اور اگر کمزور ہے تو طاقت آنے تک انتظار کرے اور یہی بات سب سے بہتر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ختنہ کا اتفاق اسی برس کی عمر میں ہوا۔ (بخاری و مسلم)
اور تفسیر زاہدی میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ختنہ اسی برس کی عمر میں ہوا ہے ۔اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے سے ساتویں دن اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تیرہ برس کی عمر میں ہوا۔ پس یہ سنت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ان کی اولاد میں جاری ہے کہ تیرہ برس کی عمر میں ختنہ کرتے ہیں ۔ (شرح السعادۃ)
کتنی کھال کٹنے سے ختنہ ہوتا ہے؟
قاضی خاں می لکھا ہے کہ جس شخص کا ختنہ ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ جس قدر کھال کاٹنی سنت ہے ، اس سے کم کٹی ، پس اگر آدھے سے زیادہ کٹی تو اس کو مختون (ختنہ کیا ہوا) کا حکم دیا جائے گا۔ اور جو آدھے سے کم کٹی تو اس کو مختون کا حکم نہ ہوگا۔ اور جس لڑکے کا ابھی ختنہ نہیں ہوا اور اس کی کھال حشفہ (سپاری) سے اوپر کو چڑھ گئی، جس سے حشفہ نمودار ہے ، یعنی دیکھنے میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ختنہ ہوچکا ہے اور اب اس کا ختنہ کرنا چاہتے ہیں تو بغیر ایذااور تکلیف کے اس کی کھال نیچے نہیں آتی ہے ، تو اس صورت میں اگر ماہر ختان (ختنہ کرنے والا) کہہ دے کہ اس کا ختنہ کرنے میں جس قدر کھال کاٹنا منظور ہے ، اس سے زیادہ کٹ جائے گی، تو اس صورت میں اس کا ختنہ نہ کرنا چاہیے۔ اور ختنہ کی سنت اس سے ساقط ہوجائے گی، جیساکہ حضور اکرم ﷺ دنیا میں مختون تشریف لائے تھے ۔ ایسوں کی پان لپیٹ کر کاٹنا محض لغو حرکت ہے۔
بالغ کا ختنہ
جو شخص ختنہ ہونے سے پہلے بالغ ہوگیا اور ختنہ کی تکلیف سہنے کی طاقت رکھتا ہے ، تو متقدمین حنفیہ اس کے ختنہ کرنے کو منع کرتے ہیں، اس لیے کہ کشف عورت جائز نہیں۔ اور سنت کے ادا کرنے کے لیے حرام کا ارتکاب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور عالم گیری میں لکھا ہے کہ جو شخص ختنہ ہونے سے پہلے بالغ ہوگیا، تو اس شخص کو اپنا ختنہ آپ کرنا چاہیے، اگر وہ ایسا کرسکتا ہو؛ ورنہ ایک باندی ختنہ کرنے والی خریدے اور اس کا ختنہ کرے، یا ختنہ کرنے والی عورت سے نکاح کرے اور وہ اس کا ختنہ کرے۔
خنثیٰ مشکل کا ختنہ
اسی طرح اگر کوئی خنثیٰ مشکل ہے، یعنی اس میں مرد اور عورت ہونے کی دونوں علامتیں موجود ہیں، اور ختنہ سے پہلے بالغ ہوجائے تو وہ تین بالا صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرے۔ بالغ خنثیٰ مشکل کا ختنہ مرد کو کرنا مکروہ ہے ، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ عورت ہو اور عورت کو کرنا بھی مکروہ ہے ، کیوں کہ ممکن ہے کہ مرد ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ کشف عورت حرام ہے، خواہ مرد کے سامنے مرد ہو یا عورت کے سامنے۔ اور اگر نابالغ ہے تو اس کا ختنہ مرد کو کرنا درست ہے ، اس لیے کہ اگر وہ حقیقت میں لڑکا ہے تو مرد کو لڑکے کا ختنہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر لڑکی ہے تو پھر بھی کچھ قباحت نہیں کہ ابھی غیر مشتہات ہے اور حرمت کا سبب شہوت ہی ہے۔ (مطالب المومنین)
بڈھے کا ختنہ
ایسے بڈھے کا جو ختنہ کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا ہے، علاوہ ازیں کہ وہ ایسی ہی حالت میں اسلام قبول کیا ہو، یا وہ مسلمان بغیر ختنہ کے ایسی حالت میں پہنچ گیا ہو اور ماہر حجام اس کی تصدیق کردے، تو اس کا ختنہ نہ کیا جائے۔
ختنہ کا دن
سوموار کے دن دو پہر کے بعد ختنہ کرنا مسنون ہے اور اتوار کو مکروہ۔ (جواہر الفتاویٰ)
ختنہ کی دعوت
پیغمبر ﷺ کے مبارک زمانہ میں بغیر دعوت ختنہ ہوجاتا تھا۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ابن ابی العاص کو کسی نے ختنہ میں بلایا ۔ آپؓ نے تشریف لے جانے سے انکار کردیا۔ آپ سے اس کی وجہ دیافت کی گئی ۔ آپؓ نے فرمایا کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہ جاتے تھے اور نہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے (مسند احمد) ۔ 
البتہ اگر ادائے شکر کے طور پر ختنہ کے بعد اسی دن یا اس کے بعد کسی دن دعوت دی جائے یا کھانا یا شیرینی تقسیم کی جائے تو اس کی گنجائش ہے ۔ چنانچہ شیخ عبد الحق ؒ نے مشکوٰۃ کی عربی شرح میں لکھا ہے کہ لڑکوں کے ختنہ کے بعد دعوت کرنا اور کھانا بانٹنا مستحب ہے ۔ تفسیر فتح العزیز میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ سیکھنے کے بعد ادائے شکر نعمت کی نیت سے ایک اونٹ ذبح کیا اور دوستوں یاروں کو کھلایا۔