26 Jul 2017

قربانی میں اسلامی اصلاحات

قربانی میں اسلامی اصلاحات
حمد یاسین قاسمی جہازی گڈاوی جمعیۃ علماء ہند
قربانی کی تاریخ
قرآن کی گواہی کے مطابق اس روئے زمین پر کوئی بھی قوم ایسی نہیں گذری ہے، جس میں قربانی کی روایت نہ رہی ہو۔ اس سے یہ دعویٰ کرنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ قربانی کی رسم اتنی ہی پرانی ہے، جتنی کی خود نوع انسانی کی تاریخ۔ ارشاد خداوندی ہے۔
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّن بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ (الحج، آیۃ: 34)
اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی کا طریق مقرر کردیا ہے تاکہ جو مویشی چارپائے خدا نے ان کو دیے ہیں (ان کے ذبح کرنے کے وقت) ان پر خدا کا نام لیں۔
کلام پاک میں ایک دوسری جگہ سدنا حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں: ہابیل اور قابیل کی قربانیوں کا قصہ مذکور ہے۔
وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ، اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَر، قَالَ لَاَقْتُلَنَّک، قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدۃ، آیۃ: 27)
اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے خدا (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا اس نے کہا کہ خدا پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے ۔
آدم کے بیٹے ہابیل بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل کسان تھا۔ ان دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ہابیل نے کچھ جانور پیش کیے، جبکہ قابیل نے اناج نذر کیا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی مگر قابیل کی قبول نہیں ہوئی۔ اُس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے ایک شعلہ آتا تھا اور وہ قربانی کو جلا کر بھسم کر دیتا تھا۔ اوریہی قبولیت کی علامت ہوتی تھی۔ جس کی قربانی پر آسمانی آگ نازل نہیں ہوتی تھی، اس کی قربانی نامنظور ہوتی تھی۔ اس تعلق سے ایک حوالہ ملاحظہ کیجیے۔
قد تکلمنا علی ھذہ القصۃ، في سورۃ المائدۃ، في التفسیر بما فیہ کفایۃ، وللہ الحمد.
ولنذکر ھنا ملخص ما ذکرہ أئمۃ السلف في ذلک، فذکر السدي، عن أبي مالک، وأبي صالح، عن ابن عباس، وعن مرۃ، عن ابن مسعود، وعن ناس من الصحابۃ: أن آدم کان یزوج ذکر کل بطن بأنثی الأخریٰ، وأن قابیل أراد أن یتزوج بأخت ھابیل، وکان أکبر من ھابیل، وأخت قابیل أحسن، فأراد قابیل أن یستأثر بھا علیٰ أخیہ، وأمرہ آدم علیہ السلام أن یزوجہ إیاھا فأبیٰ، فأمرھما أن یقربا قربانًا۔ وذھب آدم لیحج إلیٰ مکۃ، واستحفظ السماوات علیٰ بنیہ، فأبین، والأرضین، والجبال فأبین، فتقبل قابیل بحفظ ذلک.فلما ذھب قربا قربانھما، فقرب ھابیل جذعۃ سمینۃ، وکان صاحب غنم، وقرب قابیل حزمۃ من زرع من رديء زرعہ، فنزلت نار، فأکلت قربان ھابیل، وترکت قربان قابیل، فغضب، وقال: لأقتلنک حتیٰ لا تنکح أختي، فقال: إنما یتقبل اللہ من المتقین۔ (البدایۃ والنھایۃ، الجزء الاول، باب خلق آدم علیہ السلام، قصۃ قابیل و ھابیل)
قربانی کا تصور دیگر مذاہب میں
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی قربانی کا رواج رہا ہے۔ یہودیوں میں عید فصیح کے موقع پر ایک سالہ بھیڑ کی قربانی کی جاتی ہے اور اس کا گوشت تبرکا آپس میں تقسیم کرتے ہیں، پھر اس کے پچاس دن بعد یوم خمس مناتے ہیں، جس میں سات بھیڑیں یا بیل اور دو دنبے ذبح کرتے ہیں اور ان کا گوشت غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔دین مسیحیت میں بھی قربانی کی جاتی ہے۔ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام قربانی کرتے ہیں اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسے دفن کردیتے ہیں۔سکھ مذہب میں ہولا کے تہوار کے موقع پر بھیڑ کی قربانی پیش کی جاتی ہے۔ اس قوم کے جھچے دار ایک ہی جھٹکے میں قتل کرکے خون کو جمع کرتے ہیں اور نہنگ گروہ کے سردار کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ بعض قوموں میں قربانی اتنی افضل اور اہم عبادت قرار دی گئی ہے کہ وہ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی بھی قربانی اور بلی چڑھانے لگیں، چنانچہ اہل دوما میں انسانی جانوں کو ذبح کرنے کی تاریخ ملتی ہے۔ ہندستان کی غیر مسلم اقوام میں تو اب تک اس کا رواج چلا آرہا ہے، چنانچہ جتنا بڑا مقصد ہوتا ہے، اتنی ہی بڑی قربانی پیش کی جاتی ہے ، حتیٰ کہ کتے بلی وغیرہ کے علاوہ انسانی بچوں اور بڑوں کی بلی دی جاتی ہے۔( تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے : المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج:۶، ص؍ ۱۹۸)
اسلام کی قربانی کی تاریخ
اسلام میں قربانی کا جو طریقہ رائج ہے، وہ وہ طریقہ ہے، جس کی شروعات سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ہے۔ اس کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ
ایک دن ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدیم پائیں گے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی: اے ابراہیم! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم احسان کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں اور ہم نے اس کے لیے ذبح عظیم کا فدیہ دیا۔ مفسرین کا بیان ہے کہ خدا کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ حضرت اسماعیل کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال عید الاضحیٰ منائی جاتی ہے۔
قبل از اسلام عربوں میں قربانی کا یہی براہیمی تصور موجود تھا کہ لیکن ادیان میں تحریفات کے باعث اہل عرب قربانی کے ابراہیمی طریقے سے منحرف ہوچکے تھے اور انھوں نے اس میں کئی تحریفیں شامل کردیتی تھیں۔ براہیمی طریقے میں صرف جانوروں کی قربانی کا حکم تھا، لیکن انھوں نے اس میں اولاد کی قربانی بھی اپنے دین کا حصہ بنا لیا تھا۔ اس تعلق سے سیرت نبوی علیہ السلام میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ 146146جب حضرت عبدالمطلب زمزم کا کنواں جو گمنام ہوچکا تھا اسے الہام الٰہی سے نشاندہی ملنے کے بعد کھودنے لگے ،تو انھیں دشواری ہوئی تو انھوں نے منت مانی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوں تو میں ان میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردوں گا۔ ان کے بیٹے ہوئے تو انھوں نے قرعہ اندازی کی جس میں حضرت عبداللہ کا نام نکلا جو کہ ان کے چہیتے بیٹے تھے۔حضرت عبدالمطلب انھیں قربان گاہ کی طرف لے گئے تو ان کے بھائیوں اور قبیلے کے دوسرے لوگوں کے اصرار پر حضرت عبداللہ اور دس اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا مگر نام حضرت عبداللہ کا ہی نکلا، پھر اونٹوں کی تعداد بڑھائی گئی مگر ہر بار قرعہ میں نام حضرت عبداللہ کا ہی نکلتا، آخرکار سو اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا تو اونٹ پر قرعہ نکلا، اس کے بعد حضرت عبداللہ کی جگہ سو اونٹوں کی قربانی کی گئی۔145145 (البدایۃ والنہایہ، جلد دوم، ذکر اخبار العرب، ذکر قس بن ساعدہ الایادی)۔
المختصر قربانی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اس لیے اسلام نے بھی اس کو باقی رکھا ؛ البتہ اسلام نے قربانی کے ابراہیمی طریقے میں شامل تمام غلط رسموں کا قلع قمع کیا اور اس طریقے کو دوبارہ بحال کیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ابراہیمی طریقے میں اہل عرب نے کیا کیا غلط رسمیں شامل کردیتی تھیں۔
رسم نمبر ۱۔بتوں کے نام پر جانور کو حرام قرار دینا۔
دین ابراہیمی بتوں اور بت پرستوں سے اظہار بیزاری پر مبنی دین تھا، لیکن اہل عرب بعض جانوروں کو بتوں کے نام وقف کردیا کرتے تھے۔ اور پھر اس کی قربانی کو ناجائز قرار دیتے تھے اور کھانا حرام سمجھتے تھے ۔ ان جانوروں کا نام بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام تھا ۔بحیرہ، سائبہ کی بچی کو کہا جاتا ہے۔ اور سائبہ اس انٹنی کو کہا جاتا ہے جس سے دس بار پے دَر پے مادہ بچے پیدا ہوں، درمیان میں کوئی نر پیدا نہ ہو۔ ایسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیاجاتا تھا اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی، اس کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہیں پیتا تھا۔ اس کے بعد یہ اونٹنی جو مادہ بچہ جنتی اس کا کان چیر دیا جاتا اور اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ اس پر سواری نہ کی جاتی۔ اس کا بال نہ کاٹا جاتا۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہ پیتا۔ یہی بحیرہ ہے اور اس کی ماں سائبہ ہے۔ وصیلہ اس بکری کو کہا جاتا تھا جو پانچ دفعہ پے دَرپے دودو مادہ بچے جنتی (یعنی پانچ بار میں دس بار مادہ بچے پیدا ہوتے) درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ اس بکری کو اس لیے وصیلہ کہا جاتا تھا کہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی تھی۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھا سکتے تھے عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں۔ البتہ اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوتا تو اس کو مرد عورت سبھی کھا سکتے تھے۔ حَامی اس نر اونٹ کو کہتے تھے جس کی جُفْتی سے پے در پے دس مادہ بچے پیدا ہوتے، درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کر دی جاتی تھی۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھا۔ بلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جفتی کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اور اس کے سوا اس سے کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا۔اور بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ اپنی اس مشرکانہ رسم کو خدا تعالیٰ کی رضا اور تقرب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی تردیدکرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:
مَا جَعَلَ اللَّہُ مِنْ بَحِیرَۃٍ وَلَا سَاءِبۃٍ وَلَا وَصِیلۃٍ وَلَا حَام وَلکِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یَفْتَرُونَ عَلی اللّہِ الْکَذِبَ وَأَکْثَرُھُمْ لَایَعْقِلُونَ (المائدۃ، آیۃ: 103)
اللہ نے نہ کوئی بحیرہ، نہ کوئی سائبہ نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی بنایا ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔
رسم نمبر ۲۔ بتوں کے نام پر قربانی کرنا۔
دور جاہلیت میں خانہ کعبہ کے ارد گرد تین سو ساٹھ پتھر نصب کیے ہوئے تھے، جن کے لیے اہل جاہلیت قربانیاں کیا کرتے تھے اور پھر ان پر ان کے گوشت رکھتے اور خون ملتے تھے ۔ یہ ان کے عقیدے کے مطابق ان پتھروں سے تقرب و تبرک حاصل کرنے کا نیازمندانہ طریقہ تھا۔
قال ابن جریج: النصب لیست باصنام۔ الصنم یصور و ینقش، و ھذہ حجارۃ تنصب، ثلاثماءۃ منھا لخزاعۃ فکانوا اذا نضحوا الدم علیٰ ما اقبل من البیت و شرحوا اللحم و جعلوہ علیٰ الحجارۃ۔ فقال المسلمون: یا رسول اللہ، کان اھل الجاھلیۃ یعظمون البیت بالدم، فنحن احق ان نعظمہ! فقال النبی ﷺ لم یکرہ ذالک، فانزل اللہ تعالیٰ: (لن ینال اللہ لحومھا ولا دماؤھا) (سورۃ الحج: 37) (تفسیر الطبری، تفسیر سورۃ المائدۃ)
جانوروں کو خالق کائنات کے نام کے بجائے بتوں اور پتھر وغیرہ کی بنائی ہوئی مورتیوں کے لیے قربان کرنا اسلام کی روح توحید کے خلاف ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس رسم کی اصلاح فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
وما ذُبح علیٰ النصب (المائدۃ، آیۃ: 3) وہ جانور ربھی حرام ہیں، جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں۔
کچھ قبیلے قربانیوں کے لیے خاص دن کا انتظار کیا کرتے تھے یا پھر جانوروں کے لیے یہ قید لگا رکھی تھی کہ جانور کے پہلے بچے کی قربانی ہوگی۔ ان سب کی اصلاح فرماتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ
عَنْ أَبِي ھُریْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: لَا فَرَعَ وَلَا عَتِیرۃَ، قَالَ سَعِیدٌ: فَالْفَرَعُ أَوَّلُ نِتَاجٍ یُنْتَجُ کَانُوا یَذْبَحُونَہُ لِطَوَاغِیتِھِمْ، نَھَاھُمْ رَسُولُ اللہِ صَلی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَنْھَا، وَالْعَتِیرَۃُ ذَبِیحَۃُ مُضَرَ فِي رَجَبٍ، فَنَھَاھُمْ رَسُولُ اللّہِ صَلی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَنھَا (مسند ابی داود الطیالسی، ما اسند ابو ھریرۃ، من روایۃ سعید ابن مسیب)
رسم نمبر۳۔قربانی کا گوشت خود نہ کھانا
بعض کافروں کا یہ عقیدہ تھا کہ حج کے موقع پر جو ہم قربانی کرتے ہیں، اس کا گوشت صرف فقرا اور محتاجوں کو ہی کھانا جائز ہے، خود کے لیے اس کا استعمال کرنا صحیح نہیں ہے، اس تعلق سے اصلاح کرتے ہوئے قرآن نے بتایا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھاو اور مصیبت زدہ محتاجوں کو بھی کھلاو۔
لِّیَشھہَدُوا مَنَافِعَ لَہُم وَ یَذکُرُوا اسمَ اللّٰہِ فِی اَیَّامٍ مَّعلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیمَۃِ الاَنعَامِ فَکُلُوا مِنھَا وَ اَطعِمُوا البَآءِسَ الفَقِیرَ ( الحج، آیۃ: 28)
تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں جو چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں۔ چنانچہ ان جانوروں سے خود بھی کھاو اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاو۔
رسم نمبر۴۔ ہدی کے جانوروں سے کسی قسم کا فائدہ نہ اٹھانا۔
عربوں کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ جو جانور ہدی کے لیے خاص کردیے جاتے ہیں، ان سے بالکیہ فائدہ اٹھانا ناجائز ہے، یہاں تک کہ دوسرا انتظام نہ ہونے کے باوجود اس پر سواری کرنا، اس کا دودھ استعمال کرنا اور باربرداری کا کام لینا ممنوع سمجھتے تھے۔ قرآن نے انھیں بتلایا کہ ہدی کے جانور سے اس وقت تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب تک کہ قربان گا حدود حرم نہ پہنچ جائے۔
لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّی، ثُمَّ مَحِلُّھَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ.(الحج ۲۲: ۳۳)
ہدی کے اِن جانوروں سے تم ایک وقت مقرر تک فائدے اٹھا سکتے ہو، پھر اُن کو اِسی قدیم گھر تک پہنچنا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلّی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ رَای رَجُلًا یَسُوقُ بَدَنَۃً فَقَالَ: ارْکَبْھَا، قَالَ: إِنّھَا بَدَنَۃٌ قَالَ: ارْکَبْھَا، قَالَ: إِنّھَا بَدَنَۃٌ قَالَ:ارْکَبھَا( ثَلاَثًا) (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب رکوب البدن)
نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ہدی کے جانور کو لے جاتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجاو، انھوں نے کہا یہ ہدی ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ پھر بھی سوار ہوجا۔ آپ ﷺ نے انھیں تین مرتبہ کہا ۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ وقت مقررہ سے مرادہدی کے قربانی کا وقت مراد ہے، لہذا قربانی سے پہلے پہلے ان جانوروں سے ہر طرح کے فوائد حاصل کرنا صحیح ہے۔ امام اعظمؒ کے نزدیک مقررہ وقت سے مراد یہ ہے کہ جب تک جانور کو ہدی کے لیے مخصوص نہ کرلیا ہو، اگر ہدی کے لیے مخصوص کردیا ، تو اب شدید ضرورت کے بغیر اس سے کسی قسم کا دنیاوی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اب وہ صرف اخروی فائدہ ہی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ فائد یہ ہے کہ حدود حرم میں لے جاکر قربان کیا جائے۔المختصر اہل جاہلیت ہدی کے لیے نامزد جانور سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا جائز سمجھتے تھے ، ان کے اس عقیدے کی اصلاح کی گئی اور صحیح طریقہ بتلایا گیا ۔
خلاصہ بحث
جاہلی رسوم پر ایک سرسری نظر ڈالیں، تو یہ خلاصہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے ان تمام طریقوں اورعقیدوں کی بیخ کنی ہے، جو عقل و بصیرت کی نظر سے لایعنی نظر آتے تھے۔ مثال کے طور پر پہلے بچے کی ہی قربانی کا نظریہ ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے تو ممکن ہوسکتا ہے، جس کا پیشہ جانوروں کی نگہ بانی و پرورش ہو، لیکن دوسرے افراد کے لیے یہ تکلیف مالایطاق ہے، لہذا اسلام نے اس پر روک لگائی۔
ہندستان میں آج کل بھگوان سمجھ کر گایوں کی تجارت اور معیشت پر پابندی لگانے کی بات کی جارہی ہے، جس سے بے شمار سماجی و معاشی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ خریدو فروخت میں قانونی پیچدگی کے باعث کمزور اور آوارہ گائیں سڑکوں پر زندگی گزار رہی ہیں، جن سے ٹریفک اور تحفظات کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ واقعہ شاہد عدل ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بتوں کے نام پر جانوروں کو آزاد چھوڑنے کی جو روایت تھی، اگر اسلام اسے برقرار رکھتا، تو بے شمار سماجی و معاشی مسائل پیدا ہوجاتے ، اس لیے اسلام نے اس کی اصلاح کی اور یہ حکم دیا کہ یہ اللہ کا حکم نہیں ہوسکتا، یہ سب محض بیوقوفی کی باتیں ہیں۔
قربانی خوشنودی رب حاصل کرنے کا ایک نیاز مندانہ طریقہ ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہمانی کا اعلان عام ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے
بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنہُ فِي أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ ، یُنَادِي فِي النَّاسِ:لَا تَصُومُوا فِي ھَذِہِ الْأیَّامِ 249 فَإِنّھَا أَیَّامُ اکْلٍ وَشُرْبٍ وَبِعَالٍ (شرح معانی الاثار،کتاب مناسک الحج، باب المتمتع الذی لایجد ھدیا ولایصوم فی العشر)
جب ان دنوں میں روزہ رکھنے تک ممنوع ہے، تو قربانی کا گوشت نہ کھنا بدرجہ اولیٰ غیر شرعی ہوگا، اس لیے انھیں حکم دیا گیا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھاو اور دوسروں کو بھی کھلاو۔یہی ضیافت رب کا صحیح طریقہ ہے۔ البتہ جو نذور یا کفارے کی قربانی ہوتی ہے، تو چوں کہ ا ن سے کمی کوتاہی کا ازالہ مقصود ہوتا ہے، اس لیے ان کو کھانے سے منع کیا گیا ہے۔
اسی طرح ہدی کے علاوہ سواری ، دودھ ، بار برداری کے لیے کوئی اور انتظام نہ ہو، تویہ سب کام اس سے لینا بشری ضرورت کا تقاضا ہے، لہذا ہر چند کہ ہدی کے لیے مخصوص کردینے کے بعد دنیاوی فائدہ اٹھانا، چھوٹے نفع کی بات ہے، لیکن مجبوری کی شکل میں اس سے روکنا یا رکنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے اس عقیدے میں ترمیم کرکے انسانوں کے لیے آسانی پیدا کی گئی۔
دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم ﷺ کے طریقے کے مطابق حج اورقربانی کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور لغویات سے ہماری حفاظت کرے۔ آمین یا رب العالمین۔

24 Jul 2017

آزادی ہند میں جمعیۃ علماء ہند

آزادی ہند میں جمعیۃ علماء ہند
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی گڈاوی، جمعیۃ علماء ہند
۱۸۵۷ء کی جنگ، تحریک آزادی ہند کاایک انقلابی آغازہے ۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق جدوجہد آزادی کے حوالے سے حالات کا نقشہ یہ تھا کہ اس وقت تین پارٹیاں میدان عمل میں سرگرم عمل تھیں۔ پہلی پارٹی کا نام ہے انڈین نیشنل کانگریس۔ اس پارٹی کی تشکیل ۲۸؍ دسمبر ۱۸۸۵میں ایک انگریز Allan Octavian Hume نے کی تھی، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندستانی عوام کو تعلیم یافتہ بنایا جائے تاکہ وہ برٹش حکومتوں کی زبان اور اس کے دستور کو سمجھ سکیں اور انگریزی تعلیم پاکر انگریزیت کے رنگ میں رنگ جائیں۔ لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ نتیجہ اس کے برعکس سامنے آیا۔ کل تک جو ہندستانی ناخواندگی کی بنیاد پر ملک کے حالات اور انگریزوں کے سیاسی مکاریوں سے ناواقف تھے ، وہی ہندستانی جب تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوگئے، تو انھیں احساس ہوا کہ انگریزوں نے ہندستان پر جابرانہ و ظالمانہ قبضہ کررکھا ہے اور ہماری زندگی ان کی غلامی کی ذلت کی رہین ہوچکی ہے۔ چنانچہ ہندستانیوں کا شعور بیدار ہوا اور ان کے دلوں میں جنگ آزادی کے شرربار جذبے انگڑائیاں لینے لگے ۔ 
دوسری پارٹی ایک مخصوص طبقے کے نام پربنائی گئی ، جس کا نام تھا آل انڈیامسلم لیگ ۔ اس پارٹی کا وجود ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۶ء میں ہوا۔ لیگیوں کا ماننا تھا کہ انگریزہیوم نے آل انڈیا کانگریس پارٹی اس لیے بنائی تھی تاکہ انگریزوں کے بعد ہندستان پر ہندو راج قائم ہوسکے۔ لہذا مسلمانان ہند کو انگریزوں کے بعد ہندووں کی غلامی سے بچانے کے لیے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے، چنانچہ اس جماعت نے اس وقت کے حالات کے مزاج اور مستقبل کے خوف ناک نتائج کو سمجھے بغیر برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ ریاست کی تشکیل کی کوشش شروع کردی اور یہی ایک کوشش اس جماعت کا بنیاد مقصد بن گیا۔
ہندستانیوں کو غلامی سے نجات دینے کے لیے ایک اور تحریک اٹھی ۔ اس تحریک کا نام تھا : جمعیۃ علماء ہند ۔ ویسے کلینڈر کے اعتبار سے اس کی تشکیل تو۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ء میں ہوئی، لیکن اگر اس کی پوری تاریخ اور اس فکر کی جڑ کو تلاش کریں گے، تو اس کا سلسلہ ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی سے جاملے گا۔ جب مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں شکست ہوئی، تو اس کے اسباب پر غور کرتے ہوئیحجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ اس قوم سے اپنے آباو اجداد کے پرسودہ ہتھیار سے لڑنا ناممکن ہے، اس کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان علم دین کے ہتھیار سے لیث ہوں اور یہی ایک ایسا ہتھیار ہے، جو ہندستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلاسکتا ہے۔ اور ہندستان میں اسلام اور مسلمانوں دونوں کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے۔چنانچہ اس کے بعد حجۃ الاسلام نے اپنے طریقۂ کار کو بدلتے ہوئے دیوبند کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ۱۸۶۶ ء میں ایک ادارہ قائم کیا، جو دارالعلوم دیوبند کے نام سے عالمی شہرت اختیار کرچکا ہے۔ اس کے قیام کا مقصد جہاں تعلیم و تعلم تھا ، وہیں ملک کی آزادی کے لیے رجال کار بھی تیار کرنا تھا۔ چنانچہ تاریخ شاہد عدل ہے کہ اس ادارے کے فارغین نے جہاں دینی سلسلے کو آگے بڑھایا، وہیں جنگ آزادی اور ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کا قیام بھی ان کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ان بنیادی باتوں کے بعد آئیے اب مختصرا اس وقت کا جائزہ لیتے ہیں، جس وقت ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبان یعنی جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا۔ 
واقعہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے اوائل میں جنگ آزادی کے لیے جتنی بھی تحریکیں میدان عمل میں اتریں ، ان کا دائرۂ کاریاتو ان کے مسلکی افراد تک محدود تھایا پھر آزادی کے نام پر اپنے خاص نظریے کو تھوپنے کی کوشش تھی۔بطور خاص آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی مسیحائی کے لیے خوب صورت نام کا سہارا لے کر فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دینے میں مصروف عمل تھی۔ اور ان میں کچھ تحریکیں ایسی بھی تھیں، جن کا کردار صاف طور پر ملک سے غداری پر مبنی تھا۔ ان کے لیے تو انگریز گویا ایک مسیحا اور نجات دہندہ تھا۔ المختصر جدوجہد آزادی جاری تھی، مگر کوئی ایسی مشترکہ تحریک نہیں تھی، جس کے بینر تلے مسلک و مذہب کی قید سے آزاد ہوکر محض ایک ہندستانی ہونے کی بنیاد پر یہ لڑائی لڑی جائے۔ملک کا یہی نقشہ تھا کہ۲۳ نومبر ۱۹۱۹ء میں بمقام دہلی ’’خلافت کانفرنس ‘‘ ہوتی ہے، جس میں ملک کے کونے کونے سے علمائے کرام تشریف لاتے ہیں۔ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلمانوں کی تنظیم سمجھی جانے والی آل انڈیامسلم لیگ علما کی قیادت سے محروم ہے، جس کے باعث مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اگر بروقت علمائے کرام مسلک و مشرب کے اختلاف سے اوپر اٹھ کر اجتماعیت کے ساتھ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے، تو اس ملک سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔چنانچہ اسی محفل میں ید بیضا لیے بیٹھے اہل اللہ اور خرقہ پوش متقی علمائے کرام نے متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے اس تنظیم کی نیو رکھی اور اس کا نام ’’ جمعیۃ علماء ہند‘‘ رکھا۔
چنانچہ اس جماعت نے حالات کے مزاج کو سمجھتے ہوئے فراست ایمانی پر مبنی حکمت عملی اختیار کی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے پھیلتے زہریلے اثرات کو روکنے کے لیے برادران وطن پر مشتمل تنظیم کانگریس سے اتحاد کرکے،ملک کی مکمل آزادی کے لیے فرقہ و مذہب کی قید سے آزاد ہوکرلڑائی شروع کی ۔آئیے اس عنوان کے حوالے سے ایک مختصر تاریخی حوالہ دیکھتے ہیں کہ 
۱۹۱۹ء میں (جو کہ جمعیۃ علماء ہند کا سن قیام ہے) اس نے ہندستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ اسی سال جدوجہد آزادی کی پاداش میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ اور امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کو گرفتار کر لیا گیا، جن کی رہائی کے لیے بھرپور جدوجہد کی گئی۔۱۹؍ جولائی ۱۹۲۰ء میں حضرت شیخ الہندؒ نے ترک موالات کا فتویٰ دیا، جسے ۶؍ ستمبر کو کلکتہ میں منعقد جمعیۃ کے خصوصی اجلاس میں اس کی بھرپور تائید کی گئی اور پھر ۱۹؍تا ۲۱؍ اکتوبر دہلی میں منعقد دوسرے اجلاس عام میں یہ اعلان کیا کہ حکومت برطانیہ سے ہر طرح کے تعلقات کا بائکاٹ کیا جائے اور اسے ایک مذہبی فریضے کے طور پر ناجائز اور حرام قرار دیا۔اس تجویز میں یہ کہاگیا کہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس کامل غور کے بعد مذہبی احکام کے مطابق اعلان کرتا ہے کہ موجودہ حالت میں گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ موالات اور نصرت کے تمام تعلقات اور معاملات رکھنے حرام ہیں، جس کے ماتحت حسبِ ذیل امور بھی واجب العمل ہیں۔
(۱) خطابات اور اعزازی عہدے چھوڑ دینا۔
(۲) کونسلوں کی ممبری سے علیحدگی اور امیدواروں کے لیے رائے نہ دینا۔
(۳) دشمنانِ دین کو تجارتی نفع نہ پہنچانا۔
(۴) کالجوں اسکولوں میں سرکاری اِمداد قبول نہ کرنا اور سرکاری یونیورسٹیوں سے تعلق قائم نہ رکھنا۔
(۵) دشمنانِ دین کی فوج میں ملازمت نہ کرنا اور کسی قسم کی فوجی امداد نہ پہنچانا۔
(۶) عدالتوں میں مقدمات نہ لے جانا اور وکیلوں کے لیے ان مقدمات کی پیروی نہ کرنا۔
ملک کے بگڑتے حالات ؛ بطور خاص فرقہ پرستی کی ذہنیت کو پنپتے دیکھ کر اسی سال یہ فیصلہ کیا کہ آزادی کی لڑائی مذہب کے بجائے برادران وطن کے ساتھ اتحاد و ربط پیدا کرکے لڑی جائے ، چنانچہ اس نے خود بھی کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا اور جدوجہد آزادی کی دیگر منتشر قوتوں کو بھی کانگریس کے پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کی۔ ۸؍ جولائی ۱۹۲۱ء میں بمقام کراچی خلافت کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی ؒ نے شرکت کی اور جمعیۃ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے برطانوی حکومت سے تمام تعلقات قطع کرنے کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں آپ کو گرفتار کرلیا گیا اور ساتھ ہی ترک موالات کے فتوی کو بھی ضبط کرلیاگیا۔ لیکن جمعیۃ علماء ہند خاموش نہیں بیٹھی اور ۱۸؍ تا ۲۰؍ نومبر ۱۹۲۱ء لاہور میں تیسرے اجلاس عام کا انعقاد کیا اور اس کھلے اجلاس میں اعلان کیا کہ ترک موالات کی تحریک جاری رہے گی، چاہیے اس کے لیے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ جمعیۃ کے اس عزم کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اس فتویٰ کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت پر پابندی بھی لگادی، لیکن جمعیۃ نے اس کے باوجود اسے بار بار شائع کیا اور تقسیم کیا۔۹، ۱۰؍ فروری ۱۹۲۲ء کو دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس کیا اور یہ فیصلہ لیا کہ لوگ بڑھ چڑھ کر انفرادی سول نافرمانی میں حصہ لیں۔ ۲۴؍ تا ۲۶؍ اپریل ۱۹۲۲ء میں بمقام گیا چوتھا اجلاس عام کیا اور کونسلوں سے بائکاٹ کرنے کی تجویز پاس کی۔جمعیۃ علماء ہند کی برادران وطن کے ساتھ متحدہ جدوجہد انگریزوں کو ایک آنکھ نہ بھائی ، تو پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے ہندو مسلم کے مثالی اتحاد کو توڑنے اور جذبۂ آزادی کو ختم کرنے کے لیے غیر مسلموں میں شدھی سنگھٹن کھڑا کیا اور مسلمانوں میں قادیانیت کا فرقہ ( جو پہلے سے ہی ارتدادی کام انجام دے رہا تھا ) اور دیگر فرقوں کو کھڑا کیا، لیکن جمعیۃ علماء ہند نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا مشن جاری رکھا۔۳؍ جنوری کو کوکناڈ میں پانچواں اجلاس کیا اور مکمل آزادی کے مطالبے کو دہرایا۔۱۱؍ تا ۱۴؍ مارچ کلکتہ میں ساتواں اجلاس عام کیا اور ترک موالات کی تحریک کو جاری رکھتے ہوئے مکمل آزادی تک جدوجہد کرنے کا عہدو پیمان لیا۔۱۹۲۷ء میں حکومت ہند کے دستور میں تبدیلی کے نام پر جذبۂ آزادی کو سرد کرنے کے لیے حکومت برطانیہ نے سائمن کمیشن بنائی۔ جمعیۃ نے اس کے مقصد کو بھانپتے ہوئے کمیشن کا مکمل بائکاٹ کیا ۔۱۹۲۸ء میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے ’’نہرو رپورت ‘‘ کے نام سے ایک رپورٹ برطانوی حکومت کو دی۔ اس رپورٹ میں مکمل آزادی کے بجائے برطانوی حکومت کے تحت آئینی مراعات حاصل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس کی سخت مخالفت کی ۔ رپورٹ کے جائزے کے لیے ایک سب کمیٹی بھی بنائی ، جس نے ترمیمی مسودہ بھی تیار کیا۔ اس میں مکمل آزادی سے کم کسی بھی چیز پر راضی نہ ہونے کی وکالت کی گئی۔۱۹۲۹میں گاندھی جی کے ذریعے چلائی جارہی تحریک ’’تحریک نمک سازی‘‘ میں جمعیۃ علماء ہند نے بھرپور حصہ لیا۔ ۱۹۳۰ ء میں تحریک سول نافرمانی کو دوبارہ شدومد کے ساتھ چلائی گئی ، جس کی وجہ سے حکومت بوکھلاہٹ کی شکار ہوگئی اور صدر جمعیۃ حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ اور ناظم عمومی حضرت مولانا احمد سعید صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ۳۱؍ مارچ تا یکم اپریل۱۹۳۱ء کراچی میں دسواں اجلاس عام کیا گیا، جس میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے کوششوں پر زور دیا گیا اور اسی سال آزاد ہندستان کا دستوری خاکہ پیش کرنے کے لیے حکومت کے سامنے ایک فارمولہ پیش کیا ، جو تاریخ میں ’’مدنی فارمولہ ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ۱۹۳۲ء میں سول نافرمانی تحریک دوبارہ شروع کی گئی اور ساتھ ہی کانگریس کی جنگی کونسل کی طرح ایک ادارہ قائم کیا، جس کانام ’’ادارۂ حربیہ‘‘ رکھا۔ ۱۹۳۳ء میں بمقام مرادآباد مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا اور یہ فیصلہ لیا کہ کامل آزادی ملنے تک جدوجہد جاری رہے گی۔۱۱؍ مارچ ۱۹۳۴ء میں ملک کے حالات کے پیش نظر ایک لاکھ افراد پر مشتمل ایک احتجاجی جلوس نکالاگیا، جس کی قیادت حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ نے کی اور انھیں دفعہ ۱۴۴؍ کی خلاف ورزی کرنے کے نام پر گرفتار کرلیا گیا۔
اگست ۱۹۳۵ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پاس کرانے میں جمعیۃ علماء ہند کو بڑی کامیابی ملی۔ واضح رہے کہ اس ایکٹ میں مدنی فارمولہ کی تجاویز شامل کی گئی تھیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو مذہبی مراعات حاصل ہوسکیں۔جب تقسیم وطن کا مطالبہ زور پکڑنے لگا،جس کی اصل یہ تھی کہ وطن کی تعمیر مذہب کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے، چنانچہ خود کو مسلمانوں کی مسیحا کہلانے والی تنظیم نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایک خدا کی پرستش کرنے والی قوم کروڑوں خداوں کو ماننے والی قوم کے ساتھ ایک ساتھ کیسے رہ سکتی ہے ، کیوں کہ قومیں سرحد سے بنتی ہیں، چنانچہ لیگ نے مسلمانوں کے لیے اسلامی سلطنت کے خوب صورت نام پر پاکستان بنانے کا مطالبہ کیا؛ لیکن جمعیۃ علماء ہندکے اکابرین نے اپنی فراست ایمانی سے محسوس کرلیا کہ جس قسم کے لوگ اور جس طریقے سے پاکستان بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ، اس میں فائدے کم اور نقصان زیادہ ہے، چنانچہ جمعیۃ علماء ہند نے اس مطالبے کی شدت سے مخالفت کی اور تقسیم کے بجائے ’’ متحدہ قومیت‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔یہ ۱۹۳۷ء کا واقعہ ہے ۔یہ نظریہ پیش کرنا تھا کہ لیگیوں نے جمعیۃ علماء ہند اور اس کے اکابرین کے ساتھ بدتمیزیوں اور گستاخیوں کا ایک طوفان کھڑا کردیا، جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کو زیادتیوں کا نشانہ بنایاگیا ، انھیں گالیاں دی گئیں ، ان کا مذاق اڑایا گیا اور شیخ الاسلام کے بجائے انھیں شیخ الاصنام کہنے لگے۔ ان الزام تراشیوں میں صرف عوام نہیں ؛ بلکہ بڑے بڑے خواص بھی مبتلا تھے، جس پر اس وقت کے جنرل سکریٹری مولانا احمد سعیدصاحب نور اللہ مرقدہ نے پیش قیاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لیگی مدنی صاحب کے ساتھ گستاخیاں کر رہے ہیں، ان سے حضرت مدنی کا تو کچھ بگڑنے والا نہیں، البتہ لیگیوں کا نام و نشان ضرور مٹ جائے گا۔ آج تاریخ شاہد ہے کہ بدتمیزی کرنے والوں کے نام تک باقی نہیں رہے اور حضرت کا نام آج بھی تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھے ہوئے ہیں اور ہندستانیوں کی گردنیں ان کے احسانات کے بارگراں سے خم کھائی ہوئی ہیں۔۱۹۴۱ ء میں آزادی کے متوالوں نے ایک تحریک بنائی ، جس کا نام تھا ’’ ستیہ گرہ‘‘ ۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس کی مکمل حمایت کی۔ اسی سال یہ طے کیا گیا کہ سول نافرمانی تحریک میں تشدد کے بجائے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ۱۹۴۲ء میں جمعیۃ علماء ہند نے آزادی کی تحریک کو مہمیز کرتے ہوئے یہ نعرہ دیا کہ’’ انگریزو!ہندستان چھوڑود‘‘۔ اور مکمل آزادی کے لیے ریاستوں کی مکمل خود مختاری کی قرارداد منظور کی۔ حالات کے پیش نظر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے جگہ جگہ حصول آزادی کے موضوع پر تقریریں شروع کردیں، جن کے نتیجے میں آپ کو پھر گرفتار کرلیاگیا اور ساتھ ہی انگریزوں نے آزادی کے مجاہدین کی عام گرفتاری بھی شروع کردی، جس کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے دفعہ ۱۲۹؍ ڈیفینس آف انڈیا رولز کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ عام گرفتاری بند کرے۔۱۹۴۳ء میں پھر شدت کے ساتھ قیام پاکستان کے نظریے کی مخالفت کی اور اس کے بھیانک نتائج سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ اسی دوران فرقہ پرستی اور مسلم فرقہ پرستی بھی عروج پر تھی، جمعیۃ نے ان دونوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیااور لوگوں سے یہ اپیل کہ وہ خوب صورت نام سے دھوکہ نہ کھائیں اور حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔تقسیم ہند کے نظریہ کا طوفان جب کسی طرح سے بھی نہ تھما، تو ۱۹۴۵ء میں اس کے متبادل نظریہ ’’ مدنی فارمولہ ‘‘ پیش کیا ۔اسی سال جمعیۃ نے ایک اہم کام یہ کیا کہ آل مسلم پارٹیز کی کانفرنس بلائی اور مسلم پارلیمنٹری بورڈ سے کہاکہ وہ مرکزی و صوبائی الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑا کرے۔ تمام روپوش مجاہدین آزادی سے پابندی اٹھالینے اور ان کی عام رہائی کی بھی کوشش کی۔۱۹۴۶ء میں برٹش حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آزادی ملک، آزادی مذہب، کلچر، زبان، اس کی رسم الخط، مذہبی تعلیم و تبلیغ ، مذہبی عقائد و اعمال، عبادت گاہیں اور اوقاف جیسے مسائل کو مسلمانوں کے فنڈا مینٹل رائٹس کے طور پر منظور کرے اور حکومت ان میں مداخلت کرنا بند کرے۔قیام پاکستان کی مخالفت پر مسلم لیگ بدستور اکابرین جمعیۃ کی شان میں گستاخی اور بد تمیزی کرتے رہے۔۲۰؍ فروری ۱۹۴۷ء میں برطانوی وزیر اعظم کے اعلان آزادی کا خیر مقدم کیا ؛ البتہ انتقال اختیارات کے طریقے کو واضح نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ فرقہ وارانہ تقسیم اور پنجاب کو دو حصوں مسلم و غیر مسلم پنجاب میں تقسیم کرنے کی سخت مذمت کی۔آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے مذہبی و قومی تحفظ کے لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے تمام مسلم تنظیموں سے مل کر کوئی فیصلہ کرنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں نے اس کی طرف سے لاپرواہی برتی اور ضد سے کام لیا، تو آزاد ہندستان میں ان کے لیے کوئی مناسب مقام نہ ہوگا (کاروائی مجلس عاملہ ۱۰ تا ۱۳ مارچ ۱۹۴۷)۔ برطانیہ نے تقسیم کا جو پلان پیش کیا تھا، اس میں نہ تو مکمل آزادی کا ذکر تھا اور نہ ہی ہندستان کی وحدت کاتذکرہ تھا۔ اس سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ’’ اس پلان کی وجہ سے مسلمانان ہند تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ اور تقریبا پانچ کروڑ مسلمان ایک ایسی اکثریت کے حوالے کردیے گئے ہیں، جس کی تعداد پچیس کروڑ ہے۔ مسلمانوں کی یہ تباہی ان کی گمراہانہ رہنمائی کا نتیجہ ہے۔ اگر اس نقصان دہ تقسیم کو ہی قبول کرنا تھا ، تو اس کا بہترین موقع وہ تھا جب کہ مسٹر گاندھی اور مسٹر راج گوپال آچاریہ اس تقسیم کی پیشکش کر رہے تھے یا جب کہ کیبنٹ مشن سے گفتگو ہورہی تھی ، لیکن اس وقت پاکستان کو ’’چھلکا‘‘ اور سایہ کہہ کر مسٹر جناح نے رد کردیا ۔ اگر یہ چھوٹا اور بے حقیقت پاکستان اس وقت قبول کرلیا جاتا، تو مسلمان یوں تباہ و برباد نہ ہوتے۔ جمعیۃ علماء ہند نے کانگریس کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے اس تقسیم کو منظور کرکے ملک کے مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اپنے اصول سے کھلا انحراف کیا ہے۔ ‘‘ (کاروائی مجلس عاملہ ۲۴؍ جون ۱۹۴۷)۔ لیکن جوں ہی زبردست جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ۱۵؍ اگست کو ہندستان کی آزادی کا اعلان مسرت ہوا، تو اسی وقت تقسیم کے نتیجے میں آبادی کی تبدیلی کی ہولناک تباہی و بربادی اور فرقہ وارانہ فسادات نے ساری خوشیوں کو خاک میں ملادی۔ اکابرین جمعیۃ نے قبل از تقسیم، تقسیم کے نتیجے میں پیش آنے والے جن بھیانک اور خوف ناک خطرات کی پیش قیاسی کی تھی، وہ ایک ایک کرکے پوری ہونے لگی۔ ایسے نازک وقت میں بھی جمعیۃ علماء ہند نے مسلمانوں کو بے سہارا نہیں چھوڑا اور آگ و خون کی اس ہولی کو روکنے کی انتھک جدوجہدکی اور انھیں اس ملک میں عزت کے ساتھ رہنے کا حوصلہ بخشا۔پھر ۲۷، ۲۸؍ دسمبر۱۹۴۷ کو لکھنو میں منعقد ہونے والی آزاد کانفرنس سے فرقہ وارانہ پارلیمانی سیاست سے دستبرداری اور تعمیری پروگرام کا اعلان کیا۔
یہاں پر ہم تاریخ سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ سوال تاریخ سے کرنا جتنا ضروری ہے، اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ یہ سوال ہر ہندستانی مسلمان خواہ وہ کسی بھی شعبہ حیات سے وابستہ ہو یا پھر کسی بھی مسلک و مشرب کا ترجمان ہواپنے آپ سے کرے ۔اور پھر تاریخ اس کا جو جواب دے گی ، اس کی روشنی میں اپنے کردار کے تعلق سے خود سے اور اپنی خودی سے سوال کرے کہ اس محسن کے لیے اب تک ہمارا رویہ کس طرح کا رہا ہے ؟ اگر ضمیر یہ جواب دیتا ہے کہ معاندانہ رہا ہے، تو ان کے لیے نیک مشورہ ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ اس رویے سے باز آجائے اور خود کو اس کے لیے وقف کردے ۔ اور اگر یہ جواب دیتا ہے کہ معاندانہ نہیں بلکہ دوستانہ رہا ہے، تو یہ اس کے لیے خوش آئند بات ہے، لیکن اس کو بھی یہ جائزہ لینا ہوگا کہ یہ دوستانہ تعلق محض ظاہر پرستی پر مبنی ہے ، یا اس کا واقعیت و حقیقت سے بھی کچھ تعلق ہے؛ اگر اس کا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ اس کا تعلق حقیقی بنیادوں پر قائم ہے، تو اسے سجدۂ شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ معاملہ صرف ظاہر پرستی تک محدود ہے ، تو اس کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ بھی اپنے کردار کا جائزہ لے اور پھر اسے واقعیت میں بدلنے کا عزم کرے کہ یہی خود کے ساتھ ، تاریخ کے ساتھ اور اس محسن کے ساتھ انصاف ہوگا۔ 
وہ سوال یہ ہے کہ ۱۸۸۵ میں تشکیل کانگریس پارٹی تمام برادران ہند کی نمائندہ پارٹی کہلاتی ہے، جو تحریک آزادی میں سرگرم عمل ہے۔ پھر ۱۹۰۶ میں فرقہ واریت کی سوچ پر مبنی ایک جماعت وجود میں آتی ہے، جسے آل انڈیا مسلم لیگ کا نام دیا جاتا ہے، جو بعد میں تقسیم ہند کی وکالت کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے مذہب کے نام پر پاکستان بنانے کی جدوجہد شروع کردیتی ہے، جس سے فرقہ پرستی کے نظریات میں شدت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر ۱۹۱۹ میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آتا ہے، جو ہندستان کی مکمل آزادی کے لیے انتھک جدوجہد کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کی مخالفت کرتی ہے۔ اور وہ یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم ہندستان کی مٹی پر پیدا ہوئے ہیں، یہی ہمارا اصلی وطن ہے اور اسی زمین میں ہم دفن ہوں گے۔ ان تمام قربانیوں کے باوجود آج برملا یہ کہاجاتا ہے کہ ہندی، ہندو، ہندستان، مسلم بھاگو پاکستان ۔ تو ذرا غور رکیجیے کہ اگر ۱۴؍ جون ۱۹۴۷ ؁ء کو کانسٹی ٹیوشن ہاؤس دہلی میں کانگریس کے اجلاس میں پیش کی گئی تقسیم ہند کی تجویزپر اے۔ آئی۔ سی۔ سی (آل انڈیا کانگریس کمیٹی)کے تقریباً چھ سوارکان کی ہم نوائی و حمایت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند بھی دستخط کردیتی ، تو بھلا بتائیے کہ آج ہندستان میں مسلمانوں کے لیے فخر اور حق کے ساتھ جینے کے لیے کیا جواز رہ جاتا؟
علاوہ ازیں جمعیۃ علماء ہند نے ہندستان میں مسلمانوں کے قومی اور ملی امتیازات و تشخصات اور ان کے دینی و سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے جو کارنامے پیش کیے ہیں، ان کی بنیاد پر یہ دعویٰ خلاف واقعہ نہیں ہوسکتا کہ آج ہندستان کے کونے کونے میں جومساجد، مدارس ، مکاتب، خانقاہیں ،دینی ادارے، مذہبی تحریکات کی آزادی، تبلیغی مشن، چہروں پر داڑھیاں، سروں پر ٹوپیاں، جسم پر برقعے اوراسلامی تہذیب کو اختیارکرنے کا حق حاصل ہے ، وہ سب کے سب جمعیۃ علماء ہند کی کاوشوں کی رہین منت ہیں۔ ان تاریخی حقائق کے بعد بھی اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ایک ہندستانی مسلمان ہوتے ہوئے وہ جمعیۃ کا احسان مند نہیں ہے، تو اسے ناسپاس اورحقیقت بینی سے معذور کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
المختصر جمعیۃ علماء ہند نے روز اول ہی سے ملک و قوم کے لیے حالات کے تقاضے کے پیش نظرجو کار ہائے نمایا ں انجام دیے ہیں، وہ ناقابل فراموش ہیں؛ بالخصوص تحریک آزادی ہند میں جو کردار اس نے ادا کیے ہیں، ان کا انکار سراسر تاریخی شہادتوں کو جھٹلانے کے مرادف ہے!! 

20 Jul 2017

نبی اکرم ﷺ کا آخری حج (حجۃ الوداع)


(نبی اکرم ﷺ کا آخری حج (حجۃ الوداع
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی ، گڈاوی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند رابطہ: 9871552408
روانگی کی تمہید
جب سورہ النصر نازل ہوئی، تو نبی اکرم ﷺ نے قدرت کا یہ اشارہ سمجھ لیا کہ اب رحلت کا وقت قریب آگیاہے، چنانچی ۱۰ھ ؁ میں یہ ارادہ فرمالیا کہ آخری حج کرلیا جائے، بڑا اہتمام کیا گیا، کوشش یہ کی گئی کہ کوئی عقیدت مند محروم نہ رہ جائے ، آس پاس کے قبائل میں ارادہ پاک کی اطلاع دی گئی، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت یمن میں تھے، ان کو بلوالیا گیا۔ تمام ازواج مطہرات کو ساتھ چلنے کی خوش خبری سنائی گئی ،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تیاری کا حکم ملا۔۲۴؍ ذی قعدہ جمعہ کا دن تھا، مسجد نبوی میں جمعہ میں ۲۶؍ کی روانگی کا اعلان ہوا۔
روانگی کا پہلا دن ۲۵؍ ذی قعدہ بروز سنیچر
۲۵؍ ذی قعدہ بروز سنیچر ، آپ ﷺ نے غسل فرمایا، لباس تبدیل کیے اور مسجد نبوی میں ظہر کی نمازکے لیے تشریف لائے ۔ نماز سے قبل آپ نے خطبہ دیا، جس میں مسائل حج بیان کیے۔ پھر نماز ادا فرمائی اور حمد و شکر کے ترانوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد صحابہ کرام آپ ﷺ کے ہمرکاب تھے، جہاں تک نظر جاتی تھی ، ہر طرف انسانوں کا سیلاب نظر آتا تھا۔مدینے سے۹ کیلو میٹر کے فاصلے پر مقام ذوالحلیفہ ہے، آپ ﷺ یہاں پہنچے تو عصر کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے سب سے پہلے آپ ﷺ نے دو رکعت نماز عصر ادا کی اوررات بھی یہیں قیام فرمایا۔سبھی نوازواج مطہرات شریک سفر تھیں، اس رات سبھی سے صحبت فرمائی۔
روانگی کا دوسرا دن ۲۶؍ ذی قعدہ بروز اتوار
دوسرے دن نبی اکرم ﷺ نے غسل فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جسم پاک پر اپنے ہاتھوں سے عطر لگائی۔سر پر تلبید(سر کے بالوں کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے کچھ کرنا) فرمائی ۔ قربانی کے۶۳؍ جانوروں کو گلے میں جوتے پہناکر نشان زد کیا اور انھیں ناجیۃ اسلمی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا۔ پھر آپ نے احرام کی چادریں زیب تن فرمائیں۔ ظہر کی نماز مسجد ذوالحلیفہ(مسجد شجرہ ) میں ادا کی۔پھر بڑے دردو گداز سے دو رکعتیں پڑھیں اور مسجد سے باہر تشریف لاکر اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوئے اورحج و عمرہ کے لیے احرام باندھتے ہوئے ترانہ لبیک بلند فرمایا: 
لبیک اللھم لبیک ، لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک، لاشریک لک۔
اس ایک صدائے لبیک کی اقتدا میں ہزارہا آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں ، جن سے دشت وجبل ترانہ توحید سے گونج اٹھے۔ روانگی شروع ہوگئی اور ذوالحلیفہ کے قریب بیدا کی پہاڑی پر پہنچے۔یہاں کبھی آپ حج و عمرہ کے لیے تلبیہ پڑھتے تھے اور کبھی صرف حج کا۔ اور کبھی آپ یہ دعا پڑھتے تھے کہ 
اللھم اجعلہ حجا لا ریاء ا فیہ و لا سمعۃ۔ ائے اللہ! اسے دکھاوے اور شہرت سے پاک حج فرما۔
بیدا کی پہاڑی پر
جب بیدا کی پہاڑی پر چڑھے، تو یہیں پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام محمد ابن ابوبکر رکھا گیا۔ پیدائش کے وقت حضرت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام تشریف لائے اور یہ پیغام پہنچایا کہ آپ ﷺ صحابہ کو آواز بلند کرنے کا حکم دیں۔ یہاں حضور ﷺ نے زور سے لبیک کہا، صحابہ نے بھی آپ کی آواز سے آواز ملائی، جس سے آسمان کا خلا حمد خدا سے لبریز ہوگیا۔جب مدینے سے اٹھائیس میل دور مقام ملل پر پہنچے تو آپ نے یہاں پر پیر کے اپری حصہ پرحجامہ کرایا۔ پھر آگے بڑھے اور وادی روحا پہنچے۔جو مدینے سے چوہتر کلو میٹر دور ہے۔
وادی روحا میں
یہاں پر آپ ﷺ سواری سے اترے اور نماز ادا فرمائی پھر ارشاد فرمایا کہ اس مقام پر ستر نبیوں نے نماز پڑھی ہے۔ پھر قافلہ آگے کے لیے روانہ ہوگیا ۔اور اثایہ پہنچا ، یہاں دیکھا کہ ایک ہرن شکار کی ہوئی ہے۔ چوں کہ محرم کے لیے شکار جائز نہیں ہے، اس لیے ایک شخص کو اس جگہ مقرر کردیا تاکہ کوئی محرم اسے استعمال نہ کرے۔ اور قافلہ آگے بڑھتا رہا۔یہاں تک کہ لحی جمل آگیا۔ یہاں آپ ﷺ تھوڑی دیر ٹھہرے اور اپنے سر پر پچھنا لگوایا۔ بعد ازاں قافلہ آگے کے لیے روانہ ہوا۔
وادی عرج میں انتظار
چلتے چلتے وادی عرج پہنچے،یہاں دیکھا تو معلوم ہوا کہ سامان جس غلام کے سپرد تھا، وہ ابھی تک نہیں پہنچا ہے، لہذا اس کا انتظار فرمانے لگے۔ اس سفر میں حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سامان ایک ہی اونٹ پر تھا۔ وہ غلام بہت دیر میں آیا اور وہ بھی خالی ہاتھ ۔ یہ دیکھ کرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمھار اونٹ کہاں ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ صبح سے ہی گم ہوگیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کافی ناراض ہوئے اور غلام کی پٹائی کرنے لگے اور کہاکہ ایک ہی تو اونٹ تھا اور اسے بھی گم کردیا۔ حضور ﷺ نے یہ منظر دیکھا تو تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
انظروا الیٰ ھذا المحرم ما یصنع؟
ان محرم کو دیکھو کہ کیا کر رہے ہیں، یعنی حالت احرام میں مار پیٹ کر رہے ہیں۔
جب فضالہ اسلمی رضی اللہ عنہ اورصحابہ کو حضور ﷺ کے اونٹ کے گم ہونے کی اطلاع ملی تو وہ آپ کے لیے کھانا تیار کر کے لائے۔ حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر کو آواز دی کہ آو اللہ تعالیٰ نے بہترین غذا عطا فرمائی ہے،مگر حضرت ابوبکر کافی غصے میں تھے، اور غلام کو ڈانٹ ڈپٹ رہے تھے ۔حضور اکرم ﷺنے ان سے کہا: ابوبکر غصہ کو جانے دو۔کچھ دیر بعد اونٹنی مل گئی۔ کھانا تناول کے بعد حضرت سعد اور حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہما خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ سامان کی اونٹنی ہے اسے قبول فرمالیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمھیں برکت دے ، ہماری اونٹنی اللہ کے فضل سے مل گئی ہے۔ یہاں سے آگے کے لیے روانہ ہوئے۔ اور مقام ابوا پہنچے، جو مدینے سے 128کلو میٹر پر واقع ہے۔آج کل اس کا نام مستورۃ ہے۔یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ ﷺ کی والدہ محترمہ مدفون ہیں۔
مقام ابوا
جب آپ یہاں پہنچے، تو حضرت صعب ابن جثامہ رضی اللہ عنہ نے حمار وحشی آپ کو ہدیۃ پیش کیا، جسے آپ ﷺ نے قبول کرنے سے منع کردیا ، کیوں کہ محرم کے لیے شکار کا گوشت جائز نہیں ہے۔ یہاں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت انجش رضی اللہ عنہ عورتوں کے اونٹوں کو ہنکا رہے تھے اور اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے نغمے بھی گاتے جارہے تھے، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا کہ انجش! تمھاری سواری میں شیشے یعنی عورتیں ہیں، تھوڑا آہستہ ہنکاؤ۔ قافلہ چل ہی رہا تھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا۔ وہ بہت زیادہ رونے لگیں۔ آپ ﷺ کو اطلاع ہوئی۔ آپ تشریف لائے، تو انھیں تسلی دی اور اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پوچھے، لیکن وہ مزید رونے لگیں۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے انھیں ڈانٹا اور لوگوں کو قیام کرنے کا حکم دیا۔ حالاں کہ یہاں آپ کے ٹھہرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ نبی اکرم ﷺ اپنے خیمے میں آرام فرمانے لگے۔ یہ دن خود حضرت صفیہ کی باری کا دن تھا۔ نبی اکرم ﷺ کی ڈانٹ سے انھیں یہ احساس ہوا کہ رسول اللہ ﷺان سے ناراض ہوگئے ہیں۔ چنانچہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور کہاکہ اگر رسول اللہ ﷺ کی مجھ سے ناراضگی دور کرادیں، تو میں اپنی باری تمھیں دے دوں گی۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے۔ انھوں نے اپنا دوپٹہ لیا، لباس پہنی اور رسول اللہ ﷺ کے خیمہ کے پاس جاکر خیمہ کا کنارہ اٹھاکر اندر جھانکا۔ حضرت عائشہ کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا ہوا عائشہ ! آج تو تمھاری باری نہیں ہے، تو حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ اللہ اپنا فضل جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے۔ دوپہر کا وقت تھا ، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ کے ساتھ قیلولہ فرمایا۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ایک اونٹ صفیہ کو دیدو ، تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ میں اپنا اونٹ یہودیہ کو دوں گی ! یہ جواب سن کر نبی اکرم ﷺ شدید ناراض ہوئے ، حتیٰ کہ پورے سفر میں اور مدینہ لوٹنے کے بعد ربیع الاول تک ان سے بات چیت نہیں کی۔ پھر یہاں سے قافلہ آگے بڑھا۔
وادی عُسفان 
چلتے چلتے مکہ سے ۲۵ ؍ کلو میٹر دور واقع وادی عسفان پہنچے۔ یہاں پر آپ نے قیام فرمایا۔اسی مقام پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ یہ کونسی وادی ہے؟ تو حضرت ابوبکرنے جواب دیا کہ یہ وادی عسفان ہے۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسی مقام سے حضرت ھود اور حضرت صالح علیہما السلام حج کے لیے تلبیہ پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے تھے۔یہاں آپ آرام فرمارہے تھے کہ حضرت سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ نے آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ہمیں حج کا طریقہ اس طرح سکھا دیجیے کہ جیسے کہ ہم آج ہی پیدا ہوئے ہیں یعنی اس طرح سکھائیں کہ گویا ہمیں پہلے سے کچھ معلوم نہیں ہے، چنانچہ سرکار دو عالم ﷺ نے انھیں حج کا مکمل طریقہ سکھایا۔
مقام سرف
پھر وہاں سے آگے بڑھے اور سرف پہنچے، یہاں ایک شرعی مسئلہ یہ پیش آیا کہ اماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عورتوں والا معاملہ پیش آگیا، تو وہ کافی رونے لگیں کہ میرا تو سفر ہی بیکار ہوگیا اور حج کا وقت کا قریب ہے اور میں ناپاک ہوں۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے انھیں تسلی دی اور بتایا کہ یہ تو سبھی عورتوں کو پیش آتا ہے۔ پھر حضور ﷺ نے صحابہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے ، وہ مکہ مکرمہ میں داخلے کے بعد عمرہ کریں گے اور عمرہ کے بعد احرام کھول دیں گے۔
مقام ذو طویٰ
قافلہ آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ کے بالکل قریب ذو طوی پہنچ گئے ۔ شام ہوگئی تھی ، اس لیے رات یہیں قیام فرمایا۔یہ اتوارکی رات اور تاریخ ۴ ؍ ذی الحجہ تھی۔جب صبح ہوئی تو مکہ معظمہ کی عمارتیں نظر آنے لگیں۔آپ نے سب سے پہلے غسل فرمایا اور مکہ میں داخلے کی تیاری کرنے لگے اور وادی ازرق کا راستہ اختیار کیا۔
وادی ازرق
جب وادی ازرق پہنچے ، تو ایک لمحہ کے لیے حضور ﷺ یہاں رک گئے اور ارشاد فرمایا کہ اس وقت میرے سامنے وہ منظر ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام حج کے لیے آئے تھے اور اس مقام سے گزرے تو انھوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں ڈالیں اور زور سے زور سے ترانہ حج پڑھنے لگے۔
مکہ میں داخلہ
جوں جوں آپ مکہ سے قریب ہوتے جارہے تھے ، توں توں ہاشمی خاندان کے افراد حضور اکرم ﷺ کے استقبال کے لیے بے تابانہ بے خود ہوئے جارہے تھے اور معصوم بچے سراپا شوق بنے ہوئے اپنے گھروں سے دوڑتے نکل رہے تھے۔ چنانچہ جب ان کی نگاہیں سرورکائنات ﷺ پر پڑیں، تو بچے آپ کی سواری کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے ۔ ادھر سرکار دوجہاں کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ ان کے معصوم چہروں کو دیکھ کر جوش محبت سے جھک گئے اور کسی کو اپنی سواری کے آگے بٹھالیا اور کسی کو پیچھے بیٹھالیا۔جب اور آگے بڑھے ، تو کعبۃ اللہ کی عمارت نظر آنے لگی، جس پر آپ کی زبان سے یہ ارشاد عالی مقام صادر ہوا کہ 
اللھم زد بیتک ھذا تشریفا و تعظیما و تکریما و مھابۃ
ائے اللہ خانہ کعبہ کو اور زیادہ شرف و امتیاز عطا فرما۔
آپ باب بنی شیبہ سے مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔ سب سے پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ بعدہ طواف فرمایا۔ جب طواف مکمل ہوگیا ، تو مقام ابراہیم پر آئے اور دوگانہ ادا فرمایا ، اس وقت زبان اقدس و اطہر پر یہ آیت جاری تھی کہ 
واتخذوا من مقام ابراھیم مصلیٰٰ (سورۃ البقرۃ، آیۃ: )
نماز سے فراغت کے بعد پھر حجر اسود کو بوسہ دیا ۔پھر زمزم کے پاس آئے ۔ کچھ نوش فرمایا اور کچھ اپنے سر پر ڈالا۔اور باب الصفا سے نکل کر صفا کے قریب پہنچے تو آپ کی زبان پر یہ آیت تھی کہ 
ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ
صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا کہ جس کے ذکر سے اللہ نے شروعات کی ہے ، میں بھی اسی سے شروع کرتا ہوں، چنانچہ پہلے صفاپہاڑی پر تشریف لے گئے۔پہاڑی پر اتنا اوپر چڑھے کہ کعبۃ اللہ نظر آنے لگا۔ یہاں تھوڑی دیر تکبیر و تحمید میں مشغول رہے ۔اس کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کی سات چکریں پوری فرمائیں۔ جب مروہ پر سعی پوری ہوئی، تو آپ ﷺ نے حج کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں کے پاس ہدی نہیں ہے ، وہ اپنا احرام کھول دیں اور جن کے پاس ہدی ہے وہ بدستور حالت احرام میں ہی رہیں۔پھر آپ نے حلق یعنی سرمنڈوانے والے کے لیے تین مرتبہ اور قصر کرنے والوں کے لیے ایک مرتبہ مغفرت کی دعا فرمائی۔ یہاں سے پھر آپ اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور یہاں پر چار دن قیام فرمایا۔
نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تھا، جب ان کو نبی اکرم ﷺ کے ارادہ حج کی اطلاع ملی، تو آپ براہ راست یمن سے مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ مکہ پہنچ کرسب سے پہلے اپنی بیوی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ حالت احرام میں نہیں ہے، تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ جس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ایسا انھوں نے اس لیے کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر حضرت علی نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے، اس وقت سرور کائنات ﷺ ابطح میں تھے۔ ملاقات کے بعد ان سے پوچھا کہ بما اھللت یا علی؟ ائے علی کس چیز کا احرام باندھے ہو، تو انھوں نے جواب دیا کہ جس چیز کا احرام نبی اکرم ﷺ نے باندھا ہے، تو آپ نے حکم دیا کہ پھر حالت احرام میں ہی رہو، کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے قربانی کے جانوروں کے ساتھ آئے تھے۔اسی مقام پر صحابہ کی حضور اکرم ﷺ پر وارفتگی اور جاں نثاری کا وہ عدیم النظیر واقعہ پیش آیا، جو تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ آپ نے وضو فرمایا تو صحابہ کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے پانی کو زمین پر گرنے نہیں دیا، اس سے پہلے ہی ہاتھوں میں اٹھا لیا او ر برکت حاصل کرنے کے لیے اپنے چہروں پر ملنے لگے۔
ساتویں ذی الحجہ کو آپ ﷺ بطحا سے مکہ تشریف لائے اور ایک درد انگیز خطبہ ارشاد فرمایا کہ
یا معشر المسلمین! قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ نماز کو مار ہی ڈالیں گے۔ اسی طرح آپ نے قیامت کی مزید نشانیوں کے بارے میں بتایا۔
۸؍ ذی الحجہ جمعرات کو چاشت کے وقت ابطح سے آپ نے حج کے لیے احرام باندھا اور منیٰ تشریف لے گئے۔ سبھی صحابہ کرام بھی ساتھ تھے۔یہ دن اور رات یہیں گزاری۔ اسی دن منیٰ کے میدان میں ایک سانپ نکلا، جسے صحابہ نے مارنا چاہا، لیکن وہ بل میں گھس گیا۔ ۹؍ ذی الحجہ بروز جمعہ بعد نماز فجر عرفات تشریف لائے اور مقام نمرہ پر اپنے خیمے میں زوال تک آرام فرمایا۔ بعد زوال اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بطن عرنہ آئے اور ایک طویل خطبہ دیا ۔ حمد و صلاۃ کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ ائے لوگو! یہ ہمارا آخری اجتماع ہے ، شاید آج کے بعد کبھی دوبارہ ہم اس طرح جمع نہ ہوسکیں گے۔ یہ درد انگیز جملہ سننا تھا کہ صحابہ کی آنکھیں بے اختیار ہوگئیں، کیوں کہ اس جملے نے اس اجتماع کا مقصد واضح کردیا تھا ۔خطبہ میں آپ ﷺ نے گمراہ نہ ہونے اور آپس میں ایک دوسرے کی گردن نہ مارنے کی تلقین کی۔ بعدہ اپنی بیویوں اور غلاموں کے حقوق کی پاسداری کی توجہ دلائی۔ پھر عرب میں فساد و خون ریزی کے سب سے بڑے دو اسباب: ادائے سود کے مطالبات اور مقتولوں کے انتقام کو باطل فرمایا اور سب سے پہلے اپنے خاندانی مقتول ربیعہ بن حارث کے خون سے اور اپنے خاندانی سود عباس بن مطلب کے سود سے دستبرداری کا اعلان عام فرمایا۔رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز و تفریق کی بیخ کنی فرمائی اور اتحاد ملت، نماز پنجگانہ کی پابندی ، رمضان کے روزے رکھنے اور خوش دلی سے زکوٰۃ دینے کی تاکید کی۔پھر فرمایا : الا و انی فرطکم علیٰ الحوض و اکاثر بکم الامم فلاتسودوا وجھی۔ خبردار رہو!میں حوض کوثر پر تمھارا منتظر رہوں گا اور تمھارے ذریعے سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا، اس لیے بد عملی کرکے میرا چہرہ سیاہ مت کرنا( مجھے رسوا مت کرنا)۔اور سب سے آخر میں فرمایا: و انتم تسالون عنی فما انتم قائلون؟اس پر مجمع سے پرجوش صدائیں بلند ہوئیں کہ انک قد بلغت و ادیت و نصعت۔ اس وقت حضور پر نور محمد عربی ﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمانی کی طرف اٹھائی اور ارشاد فرمایا اللھم اشھد۔ ائے اللہ! خلق خدا کی گواہی سن لے۔ اللھم اشھد۔ ائے اللہ! مخلوق خدا کا اعتراف سن لے۔ اللھم اشھد ائے اللہ! گواہ ہوجا۔اس کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ فلیبلغ منکم الشاھد الغائب۔خطبہ سے فارغ ہوئے تو جبرئیل امین وہیں تکمیل دین اور اتمام نعمت کا پیغام لے کر آئے اور یہ آیت اتری کہ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا۔اسی دوران حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا نے آپ کا روزہ معلوم کرنے کے لیے دودھ بھیجا ، جسے سرکار دوعالم ﷺ نے سارے مجمع کے سامنے نوش فرمایا کہ تاکہ امت کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دن روزہ رکھنے کے نہیں بلکہ خدا کی مہمانی سے لطف اندوز ہونے کا دن ہے۔ بعد ازاں حضرت بلال کو تکبیر کہنے کا حکم فرمایا اور ظہر و عصر کی نماز ظہر ہی کے وقت پڑھائیں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو بطن عرنہ سے میدان عرفات کے مقام موقف پر تشریف لائے ۔اور مغرب تک اپنی اونٹنی ہی پر دعا میں مشغول رہے ۔اسی دوران ایک صحابی اونٹ سے گر کر شہید ہوگئے، تو انھیں احرام ہی کے کپڑوں میں دفنانے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ یہ شخص کل قیامت تک لبیک پڑھتے ہوئے اٹھے گا۔ اس جگہ نجد کی ایک جماعت پہنچی ،اس نے حج کے بارے میں سوال کیا ، جس پر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ حج عرفہ میں ٹھہرنے کا نام ہے، جو شخص دس ذی الحجہ کی صبح سے پہلے پہلے یہاں پہنچ جائے ، اس کا حج ہوگیا۔
غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب سے قبل عرفات سے روانگی کا حکم دیا ، مجمع کثیر تھا ، کثرت ہجوم کی وجہ سے اضطراب کی ایک کیفیت پیدا ہورہی تھی ، اس وقت حضور اکرم ﷺ کی زبان اقدس و اطہر پر یہ الفاظ جاری تھے کہ السکینۃ ایھا الناس۔ السکینۃ ایھا الناس۔راستے میں اسنتجا کا تقاضا ہوا تو آپ نے استنجا کیا اور وضو فرمایا۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے نماز مغرب کی یاد دہانی کرائی تو ارشاد فرمایا کہ آگے چلو، یہاں تک کہ آپ مزدلفہ پہنچے اور پہنچتے ہی سب سے پہلے مغرب اور عشا کی نماز ایک ساتھ پڑھائیں۔اس کے بعد دعا میں مشغول ہوگئے ۔ دعا سے فراغت کے بعد آپ صبح تک آرام فرماتے رہے ، یہاں تک کہ زندگی میں پہلی بار آپ نے نماز تہجد بھی ادا نہیں فرمائی۔
۱۰؍ ذی الحجہ بروز سنیچر بعد نماز فجر طلوع آفتاب سے قبل آپ ﷺ مزدلفہ سے پھر منیٰ کے لیے روانہ ہوئے۔جب بطن محسر کے پاس پہنچے ، تو سواری کی رفتار تیز کردی۔ راستے میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک مسئلہ دریافت کرنے آئی کہ کیا میں اپنے کمزور باپ کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ نے ہاں میں جواب دیا۔ حضرت فضل ابن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے ہمراہ تھے، وہ اس عورت کو دیکھ رہے تھے ، توآپ ﷺ نے ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا ۔مزدلفہ سے سیدھے جمرہ عقبہ پر پہنچے۔ شیطان کو سات کنکریاں ماریں اور واپس منیٰ کے میدان میں تشریف لائے ، دھوپ تیز تھی ۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے کپڑا تان کر سایہ کیا۔ حضرت بلال حبشیؓ آپ کے ناقہ کے مہار تھامے کھڑے تھے۔ آگے پیچھے، دائیں بائیں مہاجرین و انصار ، قریش اور دیگر قبائل کھڑے تھے۔ ایسے میں زبان اقدس و مطہر سے یہ جملے ارشاد ہوئے کہ اس وقت حج کے مسائل سیکھ لو ، شاید اس کے بعد دوبارہ اس کی نوبت نہ آئے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ آج کونسا دن ہے؟ حسب معمول صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ طویل خاموشی کے بعد پھر سوال کیا کہ کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ صحابہ کا جواب تھا کہ بیشک آج قربانی کا دن ہے۔ پھر سوال ہوا کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ حسب دستور صحابہ کا وہی جواب تھا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ طویل خاموشی کے بعد ارشاد ہوا کہ کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ مسلمانوں کا جواب تھا کہ بیشک یہ ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔ پھر سوال ہوا کہ یہ کونسا شہر ہے؟ صحابہ کا وہی جواب تھا ۔ طویل خاموشی کے بعد پیغمبر انسانیت نے کہا کہ کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے؟ مجمع کا بیک زبان یہی جواب تھا کہ بیشک یہ بلدۃ الحرام ہے۔ اس کے بعد ارشاد عالی مقام ہوا کہ مسلمانو! تمھارا خون، تمھارا مال، تمھاری آبرواسی طرح قابل حرمت ہیں، جس طرح یہ دن، یہ مہینہ اور یہ شہر محترم ہیں۔ دیکھو تم میرے بعد گمراہ نہ ہوجاناکہ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔خطبہ میں سرکار دوعالم ﷺ نے مزید چند باتیں ارشاد فرمائیں۔ خطبہ کی تکمیل کے بعد کئی صحابہ نے الگ الگ مسائل دریافت کیے، سب کے جواب میں آپ نے یہی ارشاد فرمایا کہ افعل ولا حرج، کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ خطبہ سے فراغت کے بعد قربانی کی جگہ پر تشریف لائے اورسو اونٹوں کی قربانی فرمائی، جس میں اپنی عمر کے مطابق تریسٹھ اونٹوں کو خود ذبح فرمایا بقیہ ۳۷؍ اونٹوں کو حضرت علیؓ نے قربان کیا۔قربانی کے بعد اعلان کرادیا کہ جس کاجی چاہے ، ان قربانیوں سے گوشت لے جائے اور حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر ایک قربانی سے ایک ایک بوٹی لے کر آو۔چنانچہ حکم کی تعمیل کی گئی ۔ حضور نے اس سالن کا شوربا نوش فرمایا۔ اس سفر میں چوں کہ۹؍ ازواج مطہرات ساتھ تھیں، اس لیے ان کی طرف سے آپ ﷺ نے گائے کی قربانی پیش کی۔قربانی سے فراغت کے بعد حضرت معمر یا حضرت خراشؓ کو بلایا گیا اور سرمنڈوائے اور ناخن ترشوائے ، جنھیں بطور تبریک حاجیوں میں تقسیم کردیا گیا ۔اس کے بعد احرام کی چادریں اتار دیں اور کپڑے زیب تن فرمالیے اور خوشبو بھی لگائی۔جب ظہر کا وقت ہوا تو مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہاں نماز ظہر ادا کی اور طواف فرمایا۔ اس کے بعد زمزم کے کنویں پر تشریف لائے اور زمزم نوش فرمایا اور واپس منی ٰ تشریف لے آئے۔ بعدہ تین دن منیٰ ہی میں قیام فرمایا، جس میں روزانہ زوال کے بعد رمی جمار کیا کرتے تھے۔
۱۳؍ ذی الحجہ بروز سوم وار مکہ سے باہر بطحا تشریف لائے ۔ عشا تک یہاں قیام فرمایا۔ بعد نماز عشا مکہ مکرمہ تشریف لائے اور طواف وداع فرمایا۔ فجر تک یہیں قیام فرما رہے۔ ساتھ میں زمزم کا پانی لیا اوربعد نماز فجر یعنی ۱۴؍ ذی الحجہ بروز منگل پھر بطحا واپس آئے ۔ اور اسی دن مدینہ واپسی کا حکم دیا۔ ۱۸؍ ذی الحجہ کو غدیر خم پہنچے اورایک درخت کے نیچے قیام فرمایا ۔ بعد نماز ظہر آپ ﷺ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمام مومنین سے افضل نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، آپ تمام مومنین سے اعلیٰ و افضل ہے۔ پھر فرمایا کہ من کنت مولاہ ، فعلی مولاہ، کہ میں جس کا محبوب ہوں، علی بھی اس کے محبوب ہیں۔ اس خطبہ کی وجہ یہ تھی کہ 
حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ یمن کو فتح کرچکے تھے ۔ یمن کے جہاد میں مسلمانوں کو کافی مالی غنیمت حاصل ہوا تھا، اس کو تقسیم کرنے اور خمس لینے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی کو یمن بھیجا۔ قیدیوں میں کئی لونڈیاں بھی تھیں، جن میں سے بطور خمس ایک لونڈی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے رکھ لی۔ اور ان سے اگلے ہی دن صحبت فرمائی ۔ فراغت کے بعد جب غسل کرکے نکل رہے تھے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا۔ حضرت خالد نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا کہ اس شخص نے کیا کیا؟ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب حضرت علی نے خمس لیا، تو خمس تو نبی اکرم ﷺ کے لیے ہوتا ہے، تو یہ باندی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کی جانی چاہیے تھی، اس کو حضرت علی نے خود کیوں استعمال کیا؟ حضرت بریدہ نے جواب دیا کہ مجھے علی سے نفرت ہے ۔ پھر حضرت بریدہ نے حضرت علی سے سوال کیا کہ ائے حسن کے ابا! یہ سب کیا ہے؟ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ یہ لونڈی خمس کا حصہ ہے اور خمس نبی اور آل نبی کے لیے ہوتا ہے اور میں آل نبی میں سے ہوں، اس لیے میں نے اس سے صحبت کی۔لیکن اس جواب سے حضرت بریدہ مطمئن نہیں ہوئے ۔ حجۃ الوداع کے لیے جب بلاوا آیا ، تو یہ سبھی حضرات یہاں سے سیدھے مکہ چلے گئے۔ اور حج و عمرہ میں مشغول ہوگئے۔ واپسی پر غدیر خم پر حضرت بریدہ نے نبی اکرم ﷺ سے حضرت علی کی شکایت کی اور معاملہ کو بڑھا کر پیش کیا، جسے سن کر نبی اکرم ﷺ کا چہرہ غصے سے متغیر ہوگیااور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں پہلے حضرت علی کے فضائل اور ان کے انصاف پسند ی کی تعریف کی ۔ بعدہ ارشاد فرمایا کہ من کنت مولاہ، فعلی مولاہ کہ میں جس کا محبوب ہوں، علی بھی اس کے محبوب ہیں، اور جو علی سے دشمنی رکھے، وہ میرا بھی دشمن ہے۔ حضرت بریدہ کا ہی بیان ہے کہ 
عَنْ بُرَیْدۃَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْیَمَنَ فَرَأَیْتُ مِنْہُ جَفْوَۃً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلی رَسُولِ اللہِ صَلی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذکَرْتُ عَلِیًّا فَتَنَقَّصْتہُ، فَرَأَیْتُ وَجہَ رَسُولِ اللہِ صَلی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَتَغَیَّرُ فَقَالَ: یَا بُرَیْدَۃُ أَلَسْتُ أَوْلی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ؟ قُلْتُ: بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ. قَالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ (مسند احمد ، حدیث بریدۃ الاسلمی)
المختصر تاریخی شہادت کے مطابق غدیرخم کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی کے متعلق لوگوں کی غلط فہمی کو دور کیا۔ پھر قافلہ یہاں سے روانہ ہوا اور جب روحا پہنچے، تو گھڑسواروں کا ایک گروہ آیا۔ اس میں سے ایک عورت چھوٹے بچے کو لے کر نکلی اور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا اس پر بھی حج ہے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں اس پر حج ہے اور اسے حج کرانے پر تمھیں ثواب ملے گا۔
اس کے بعد تقریبا ۴؍ دن بعد ذو الحلیفہ پہنچے۔ یہاں رات قیام فرمایا اور صبح کے وقت معرس کے راستے سے مدینہ میں داخل ہوئے ۔ اس وقت زبان اقدس و اطہر پر یہ کلمات جاری تھے کہ آئبون، تائبون، عابدون،ساجدون، لربنا حامدون۔
مآخذ: حجۃ الوداع و جزء عمرات النبی ﷺ ، مصنفہ حضرت علامہ شیخ زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ ۔ 

18 Jul 2017

حج و عمرہ میں اسلامی اصلاحات


حج و عمرہ میں اسلامی اصلاحات
محمد یاسین قاسمی جہازی گڈاوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمعیۃ علماء ہند
انسانوں میں حج و عمرہ کا تصور بہت قدیم ہے، تاریخ کی شہادت کے مطابق اس کی شروعات حضرت آدم علیہ السلام نے کی ہے۔ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ہندستان سے پیدل چالیس حج کیے تھے۔ اقناع میں ہے کہ سبھی انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے حج کیے ہیں۔ عثمان ابن ساج کہتے ہیں کہ مجھے سعید نے بتایا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ستر پیدل حج کیے ہیں ۔ 
وماقالہ ابن الجوزی اخرجہ الحاکم عن الثوری۔ و اول من حج آدم علیہ السلام۔ حج من الھند ماشیا اربعین سنۃ۔ و قیل ما من نبی الا حج، کذا فی الاقناع، و فی القریٰ لقاصد ام القریٰ، عن عثمان بن ساج قال: آخبرنی سعید ان آدم علیہ السلام حج علیٰ رجلیہ سبعین حجۃ ماشیا۔ الیٰ آخر الحدیث۔ خرجہ الازرقی۔ (حجۃ الوداع وجزء عمرات النبی ﷺ، ص۲۴)
لیکن حضرت آدم علیہ السلام کے حج کا کیا طریقہ تھا، اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ البتہ حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر بیت اللہ کے بعد جو حج فرمایا تھا، وہی حج سابقہ امتوں میں جاری و ساری تھا۔چنانچہ کلام پاک میں ارشاد ہے کہ 
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یأْتِینَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ (27)لِّیشْھَدُوا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فِي أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلیٰ مَا رَزَقَھُم مِّن بَھِیمۃِ الْأَنْعَامِ ، فَکُلُوا مِنْھَا وَأَطْعِمُوا الْبَاءِسَ الْفَقِیرَ (28) ثُمَّ لْیَقْضُوا تَفَثَھُمْ وَلْیُوفُوا نُذُورَھُمْ وَلْیطَّوَّفُوا بِالْبَیتِ الْعَتِیقِ (الحج)
اور لوگوں میں حج کا اعلان کرو، کہ وہ تمھارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز سے راستوں سے سفر کرنے والی اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں۔ تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں، چنانچہ (مسلمانو) ان جانوروں میں سے خود بھی کھاو اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاو۔پھر (حج کرنے والے ) لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنا میل کچیل دور کریں ، اور اپنی منتیں پوری کریں اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔(آسان ترجمہ قرآن)
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حج و عمرہ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا ، وہ قبل از اسلام بھی جاری رہا اور بعد از اسلام بھی جاری ہے۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی حج و عمرہ کیا کرتے تھے اور یہ ان کے دین کے بنیادی فریضے میں شامل تھے۔ اور حج کا صحیح طریقہ وہی سمجھا جاتا تھا، جو ابراہیمی طریقہ تھا۔لیکن انھوں نے حج و عمرہ کے ابراہیمی طریقے میں کچھ بدعتیں شامل کر دیتی تھیں۔ اسلام نے ان تمام بدعتوں کا خاتمہ کردیا اور ابراہیمی طریقے کو دوبارہ بحال کیا۔ ذیل کی سطروں میں ہم انھیں بدعتوں اور اسلامی اصلاحات کا جائزہ لیں گے۔
بدعت نمبر ۱۔ وقوف عرفہ سے پرہیز
قبیلہ عرب کے قریش خانہ کعبہ کے متولی تھے اوراس تولیت کی بدولت اپنے آپ اور اپنے خاندان کو اعلیٰ خاندان سمجھتے تھے، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنے لیے یہ عقیدہ بنالیا تھا کہ قریش حدود حرم سے باہر نہیں جاسکتا ۔ میدان عرفہ چوں کہ حدود حرم سے باہر ہے، لہذا وہ عرفہ کا وقوف نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے بجائے وہ مزدلفہ میں قیام کرتے تھے ۔ بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ عرفہ کے دن حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ عنہ کا اونٹ گم ہوگیا ، وہ اسے ڈھونڈھنے کے لیے عرفہ گئے۔ وہاں انھوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ، تو تعجب ہوا کہ یہ قریشی شخص عرفہ کے دن یہاں کیوں ہے، ان کا بیان ہے کہ 
عَنْ أَبِیہ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: أَضْلَلْتُ بَعِیرًا لِي، فَذَھَبْتُ أَطْلُبہ یَوْمَ عَرَفَۃَ، فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا بِعَرَفۃَ، فَقُلْتُ: ھَذَا وَاللہِ مِنَ الحُمْسِ فَمَا شَأْنُہُ ھَا ھُنَا ( صحیح بخاری، کتاب الحج، باب الوقوف بعرفۃ)
’’میرا اونٹ کھو گیا۔ عرفہ کے دن میں اُسے تلاش کرتا ہوا گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں کھڑے ہیں۔ میں نے خیال کیاکہ بخدا یہ تو قریش میں سے ہیں، پھر یہ یہاں کیا کررہے ہیں؟‘‘
اس بدعت کی اصلاح کرتے ہوئے قرآن کریم نے اعلان کیا کہ 
ثُمَّ أَفِیضُوا مِنْ حَیثُ أَفَاضَ النَّاسُ ( البقرۃ، آیۃ نمبر 199، پارہ ایک)
اس کے علاوہ (یہ بات بھی یاد رکھو کہ ) تم اسی جگہ سے روانہ ہو جہاں سے عام لوگ روانہ ہوتے ہیں۔ 
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ میدان عرفات سے دور کھڑے تھے ۔ آپ نے ان لوگوں کو اطلاع بھجوائی کہ تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی وراثت پر ہو، لہذا حج طریق ابراہیمی کے مطابق کرو۔ 
عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ خَالٍ لہَُ یُقَالُ لہُ یَزِیدُ بْنُ شَیْبَانَ قَالَ: کُنَّا فِي مَوْقِفٍ لَنَا بِعَرَفۃَ یُبَاعِدُہُ عَمْرٌو مِنْ مَوْقِفِ الْإِمَامِ جِدًّا فَأَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ: إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیْکُمْ یَقُولُ لَکُمْ: 171قِفُوا عَلَی مَشَاعِرکُمْ فَإِنَّکُمْ عَلَی إِرْثِ من إِرْثِ أَبِیکُمْ إِبْرَاھِیمَ عَلَیہِ السَّلَامُ187 . رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجۃْ (مشکاۃ المصابیح، باب الوقوف بعرفۃ) 
حضرت یزید بن شیبان کہتے ہیں کہ ہم عرفہ میں اپنے موقف پر تھے ، عمرو اسے امام کے موقف سے کافی دور کر رہے تھے کہ ابن مربع انصاری ہمارے پاس آکر بولے کہ میں رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں ، انھوں نے آپ حضرات کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ اپنے مشاعر پر قیام کرو، کیوں کہ تم اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وراثت پر ہو۔
بدعت نمبر ۲۔صفا و مروہ کے طواف سے کنارہ کشی
انصاری حضرات مکہ و مدینہ کے بیچ میں واقع قدید نامی جگہ پر نصب منات بت کے لیے احرام باندھتے تھے۔ اور صفا و مروہ کی سعی کرنے میں دلی تنگی محسوس کرتے تھے ، کیوں کہ صفا پر اساف اور مروہ پر نائلہ نامی دو بت رکھے ہوئے تھے، یہ دونوں بت کفار کے تھے، اس لیے انصاریوں کو ان کا طواف ناگوار گزرتا تھا ۔ اسلام نے اس رسم کی اصلاح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ صفا و مروہ دونوں جگہیں اللہ کے شعائر ہیں اور ان کی تعظیم ضروری ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے کہ
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِ اللہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِھِمَا ( البقرۃ، آیۃ 158، پارہ 2) 
صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، لہذا جو شخص بھی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس کے لیے اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ ان کے درمیان چکر لگائے۔
حدیث شریف میں ہے کہ 
عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَاءِشَۃ، قَالَ: قُلْتُ أَرَأَیْتِ قَوْلَ اللہِ تَعَالَی. إِنَّ الصَّفا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعاءِرِ اللَّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَیہِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِھِما؟ قلت: فو اللہ مَا عَلی أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا یطَّوَّفَ بِھِمَا، فَقَالَتْ عَاءِشَۃُ: بِءْسَمَا قُلْتَ یَا ابْنَ أُخْتِي إِنَّھا لَوْ کَانَتْ عَلیَ مَا أَوَّلْتَھَا علیہ کانت فلا جناح أن علیہ لا یَطَّوَفَ بِھِمَا، وَلَکِنَّھَا إِنَّمَا أُنْزِلَتْ أَنَّ الْأَنْصَارَ کَانُوا قَبْلَ أَنْ یُسْلِمُوا کَانُوا یُھِلُّونَ لِمَنَاۃَ الطَّاغِیَۃِ التِي کَانُوا یَعْبُدُونَھَا عِنْدَ الْمُشَلَّلِ، وَکَانَ مَنْ أھَلَّ لھَا یَتَحَرَّجُ أَنْ یَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، فَسَأَلُوا عَنْ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیہِْ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّا کُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ فِي الْجَاھِلِیَّۃِ. فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعاءِرِ اللَّہِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَیْہِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِھِما قَالَتْ عَاءِشَۃُ: ثُمَّ قَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّہِ صَلّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بِھِمَا فَلَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یَدَعَ الطَّوَافَ بِھِمَا أَخْرَجَاہُ فِي الصَّحِیحَیْنِ. (التفسیر لابن کثیر،سورۃ البقرۃ آیۃ58) 
حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ اس آیت کے بارے میں آپ کیا فرماتی ہیں؟ خدا کی قسم ان دونوں کا طواف کرنا کسی کے لیے گناہ نہیں ہے۔ تو حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ ائے میرے بن بیٹے ! تم نے بہت غلط تاویل کی۔ اگر وہی بات صحیح ہوتی، جو تم نے کہا تو آیت اس طرح ہوتی۔۔۔ ۔ در اصل یہ آیت انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اسلام کے قبل منات کے لیے احرام باندھا کرتے تھے اور مشلل پر اس کی پوجا کیا کرتے تھے۔اور جو مناۃ کے لیے احرام باندھتے تھے، انھیں صفا و مروہ کی سعی کرنے میں دلی تنگی محسوس ہوا کرتی تھی۔ اسلام لانے کے بعد جب انھوں نے اس تعلق سے سوال پوچھا تواس کا جواب اس آیت کی شکل میں آیا۔
بدعت نمبر ۳۔ دروازے کے بجائے کھڑکی سے آمدو رفت
جاہلی عقیدے میں یہ بھی شامل تھا کہ جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیا جائے ، تو دروازے کے بجائے کھڑکی سے داخل ہونا ایک کار ثواب ہے۔ چنانچہ اگر احرام باندھنے کے بعد کوئی ضرورت پڑجاتی تھی ، توگھر میں داخل ہونے کے لیے کھڑکی سے داخل ہوتے تھے ۔ اگر کسی کے گھر میں کھڑکی نہیں ہوتی تھی ، تو چھپر پھاڑ کر یا دیوار میں نقب لگاکر گھر میں آتے تھے ۔ اور اس میں جو تنگیاں اور پریشانیاں ہیں، وہ ظاہر ہیں اور اسلام آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ایک دوسری روایت کے مطابق ایسا عموما حج سے واپسی کے بعد کیا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جن دروازوں سے گناہوں کا بوجھ لے کر نکلے ہیں ، حج کے بعد پاک صاف ہوکر ان دروازوں سے کیسے آمدو رفت کی جاسکتی ہے۔ اس غیر ضروری طریقے کی اصلاح کرتے ہوئے ارشاد ہوا کہ 
ولیس البر بان تاتوا البیوت من ظھورھا( سورۃ البقرۃ، آیۃ: ۱۸۹، پارہ ۲)
اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے داخل ہو۔
بدعت نمبر ۴۔ سفر حج میں تجارت کو ناجائز سمجھنا۔
زمانہ جاہلیت کا ایک تصور یہ تھا کہ حج کا سفر خالص عبادت کا سفر ہے اور عبادت میں تجارت ناجائز ہے ، اس لیے وہ دیگر ناجائز کاموں تو روا رکھتے تھے مگر تجارت کرنا حرام سمجھتے تھے۔ اس کی اصلاح کرتے ہوئے ہدایت دی گئی کہ 
لیس جناح علیکم اب تبتغوا فضلا من ربکم (سورۃ البقرۃ، آیۃ: 198) 
تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم (حج کے دوران تجارت یا مزدوری کے ذریعے) اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو۔
بدعت نمبر ۵ ۔ اخراجات سفر کے بغیر مانگتے ہوئے حج پر جانا۔
کچھ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ جب ہم اللہ کے راستے میں نکل گئے ہیں، تو ہمارا حامی و ناصر اور محافظ اللہ ہے، لہذا توکل کا تقاضا ہے کہ ہم پھر کسی اور چیز پر بھروسہ نہ کریں، چنانچہ ان کے پاس اگر زاد راہ ہوتا ، تو اسے پھینک دیتے ، یا پھر توشہ سفر لیتے ہی نہیں تھے اور مانگتے ہوئے حج پر نکلتے تھے ۔اور یہ ان کے یہاں تقویٰ کا اعلیٰ معیار سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے ان کے اس عقیدے پر نکیر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ توشہ سفر لے کر نکلنا ہی اصل تقویٰ ہے۔ 
و تزودوا فان خیر الزاد التقویٰ (البقرۃ، آیۃ: 197) 
اور ( حج کے سفر میں) زاد راہ ساتھ لے جایا کرو، کیوں کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔
بدعت نمبر ۶ ۔ ذکر الہی کے بجائے خاندانی قصیدے خوانی اور مشاعرے۔
مناسک حج کی تکمیل کے بعد منیٰ کے قیام کی گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں تاریخ کو بڑے بڑے مشاعرے کیا کرتے تھے ۔جس میں وہ اپنے آبا و اجداد کے کارنامے فخریہ طور پر بیان کرتے تھے۔کوئی کہتا تھا کہ میرا خاندان سخاوت میں اپنی ثانی نہیں رکھتا ۔ کسی کا دعویٰ ہوتا کہ بہادری اس کے قبیلے کی لونڈی ہے۔ اس میں ہر شخص کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ اس کے خاندان کے فضائل و کمالات دوسرے خاندان و قبیلے سے اعلیٰ و ارفع ثابت ہوجائے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ مبالغہ آمیزی اور دروغ گوئی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کبھی کبھی یہ خاندانی تفاخر لمبی لمبی جنگوں کا سبب بھی بن جایا کرتا تھا، اس لیے اسلام نے اس رسم کی اصلاح کرتے ہوئے انھیں ہدایت دی کہ یہاں اپنے باپ داداوں کے نام لینے کے بجائے خدائے بزرگ و برتر کی تسبیح و تقدیس بیان کرو اور اسی کے حمد کے ترانے گاؤ۔
فَإِذَا قَضَیْتُم مَّنَاسکَکُمْ فَاذکُرُوا اللَّہَ کَذِکْرکُمْ آبَاءَکُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِکْرًا (سورۃ البقرۃ، آیۃ: 200، پارہ 2)
پھر جب تم اپنے حج کے کام پورے کرچکو تو اللہ کا اس طرح ذکرو کروجیسے تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے ہو ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ذکر کرو۔
بدعت نمبر ۷۔ مشرکین کے لیے حج کی ممانعت
وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لاَّ تُشْرِکْ بِیْ شَیْءًا، وَّطَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآءِفِیْنَ وَالْقَآءِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ.(الحج، آیۃ: 26)
اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کی جگہ بتا دی تھی۔ (اور یہ ہدایت دی تھی کہ ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اور میرے ساگھر کو ان لوگوں کے لیے پاک رکھنا جو (یہاں) طواف کریں، اور عبادت کے لیے کھڑے ہوں، اور رکوع سجدے بجالائیں۔ 
اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی، تو اسی وقت رب کائنات نے یہ حکم دیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ اوریہ گھر پاک صاف رہنا چاہیے، لیکن لوگوں نے اس مرکز ہدایت کو بھی شرک و کفر کی غلاظت سے بھردیاتھا ۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے پہلے اسے بتوں کی گندگی سے پاک فرمایا۔ پھر سن ۹ ہجری میں یہ اعلان عام کرادیا گیا کہ 
یا أَیھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرکُونَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامھِمْ ھَٰذَا (سورۃ : التوبۃ، آیۃ: 28)
ائے ایمان والو! مشرک لوگ تو سراپا ناپاکی ہیں، لہذا وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔
أَنَّ أَبَا ھُرَیْرَۃَ، قَالَ: بَعَثَنِي أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ فِي تِلکَ الحَجَّۃِ فِي المُؤَذِّنِینَ، بَعَثَھُمْ یَوْمَ النَّحْرِیُؤَذِّنُونَ بِمِنًی، أَنْ لاَ یحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوفَ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ، قَالَ حُمَیْدٌ: ثُمَّ 171أَرْدَفَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ بِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَأَمَرَہُ أَنْ یُؤَذِّنَ بِبَرَاءۃَ، قَالَ أَبُو ھُرَیْرَۃَ: فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ فِي أَھْلِ مِنًی یَوْمَ النَّحْرِ بِبَرَاءَۃَ، 171وَأَنْ لاَ یَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوفَ بِالْبَیتِ عُرْیَانٌ( صحیح بخاری، کتاب تفیسر القرآن، باب و آذان من اللہ و رسولہ)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج میں( جس میں امیر حج تھے) اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا کہ ہم منی میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی شخص خانہ کعبہ کا ننگا ہوکر طواف نہ کرے۔ حضرت حمید فرماتے ہیں کہ پھر نبی اکرم ﷺ نے بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ برائت کا اعلان کریں۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ منی میں براء ۃ کا اعلان کیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ آگے سال سے کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ کوئی شخص ننگا طواف کرے گا۔
چنانچہ سن ۱۰ ہجری سے تا حال کسی بھی مشرک کے لیے حج کرنے پر مکمل پابندی ہے۔
بدعت نمبر ۸۔قربانی کا گوشت خود نہ کھانا
بعض کافروں کا یہ عقیدہ تھا کہ حج کے موقع پر جو ہم قربانی کرتے ہیں، اس کا گوشت صرف فقرا اور محتاجوں کو ہی کھانا جائز ہے، خود کے لیے اس کا استعمال کرنا صحیح نہیں ہے، اس تعلق سے اصلاح کرتے ہوئے قرآن نے بتایا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھاو اور مصیبت زدہ محتاجوں کو بھی کھلاو۔
لِّیَشھہَدُوا مَنَافِعَ لَہُم وَ یَذکُرُوا اسمَ اللّٰہِ فِی اَیَّامٍ مَّعلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیمَۃِ الاَنعَامِ فَکُلُوا مِنھَا وَ اَطعِمُوا البَآءِسَ الفَقِیرَ ( الحج، آیۃ: 28) 
تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں جو چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں۔ چنانچہ ان جانوروں سے خود بھی کھاو اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاو۔
بدعت نمبر ۹۔ ننگے طواف کی ممانعت۔
اس سلسلے کی ایک بد ترین رسم یہ تھی کہ قریش کے علاوہ سبھی لوگ ننگے طواف کیا کرتے تھے ۔ مرد دن میں جب کہ عورتیں راتوں کو طواف کیا کرتی تھیں اور یہ شعر بھی گنگناتی تھی کہ 
الْیوْمَ یَبدُو بَعْضُہُ أَوْ کُلُّہُ
فَمَا بَدَا مِنْہُ فلا أُحِلہُ
تفسیر طبری، سورۃ اعراف
آج کے دن کچھ یا پورے بدن کو ظاہر کیا جائے گا۔ اور جو ظاہر ہوگا، اسے میں حلال نہیں کروں گی۔
اسلام نے انسانیت کو شرمسار کردینے والی اس رسم پر پابندی لگادی اور یہ حکم دیا کہ 
یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد (سورہ : اعراف، آیۃ: 32) 
ائے آدم کے بیٹے اور بیٹیو! جب کبھی مسجد میں آو تو اپنی خوشنمائی کا سامان (یعنی لباس جسم پر ) لے کر آو۔
سن ۹ ہجری میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے ذریعے نبی اکرم ﷺ نے یہ اعلان کروادیا کہ 
وَأَنْ لاَ یَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوفَ بِالْبَیتِ عُرْیَانٌ( صحیح بخاری، کتاب تفیسر القرآن، باب و آذان من اللہ و رسولہ)
کہ اس کے بعد اب کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ کوئی شخص ننگا ہوکر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا۔ 
بدعت نمبر ۱۰ حج میں عمرہ کو ناجائز سمجھنا۔
اہل جاہلیت کا ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ حج کے ساتھ عمرہ کرنا درست نہیں ہے۔ اس میں آفاقی حضرات عمرہ سے محروم ہوجایا کرتے تھے ، کیوں کہ عمرہ کے لیے ایک مستقل سفر کرنا دشواری کا باعث تھا، اس لیے حجۃ الوداع کے موقع پر خود نبی اکرم ﷺ نے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور جو صحابہ کرام صرف حج کا احرام باندھ کر آئے تھے ، انھیں حکم دیا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ نیت بدل دیں اور پہلے عمرہ کریں۔ اس کے بعد احرام کھول دیں اور پھر مکہ ہی سے حج کا احرام باندھیں۔ مسند داود الطیالسی میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ 
فَقَالَ: 171لَا، بَلْ لِلْأَبَدِ، دَخَلَتِ الْعُمْرَۃُ فِي الْحَجِّ187 وَشَبَّکَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ(احادیث النساء، ما اسند جابر بن عبداللہ الانصاری)
نبی اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی انگلی ایک دوسرے میں داخل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہمیشہ کے لیے عمرہ حج کے ساتھ ہوگیا ہے۔
بدعت نمبر ۱۱۔ عرفات سے طلوع کے بعدروانگی
مشرکین منیٰ سے عرفات کے لیے سورج نکلنے کے بعد نکلتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اشرق ثبیر۔ اسلام نے ان کے عقیدے کی اصلاح کرتے ہوئے یہ کیا کہ ۹ ذی الحجہ کو بعد الفجر طلوع آفتاب سے قبل ہی عرفات کے لیے روانگی کا حکم دیا ۔ 
و قد ذکر العلماء أن المشرکین کانوا لایفضیون حتیٰ تطلع الشمس، و یقولون: أشرق ثبیر، و أن النبی ﷺ خالفھم، فأفاض حین أسفرقبل طلوع الشمس۔ (المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ص؍385)
مآخذو مصادر
آسان ترجمہ قرآن۔ تفسیر ابن کثیر۔ تفسیر طبری۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام۔ صحیح بخاری ۔ مشکاۃ المصابیح۔حجۃ الوداع و جزء عمرات النبی ﷺ ۔