26 Jul 2017

قربانی میں اسلامی اصلاحات

قربانی میں اسلامی اصلاحات
حمد یاسین قاسمی جہازی گڈاوی جمعیۃ علماء ہند
قربانی کی تاریخ
قرآن کی گواہی کے مطابق اس روئے زمین پر کوئی بھی قوم ایسی نہیں گذری ہے، جس میں قربانی کی روایت نہ رہی ہو۔ اس سے یہ دعویٰ کرنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ قربانی کی رسم اتنی ہی پرانی ہے، جتنی کی خود نوع انسانی کی تاریخ۔ ارشاد خداوندی ہے۔
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّن بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ (الحج، آیۃ: 34)
اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی کا طریق مقرر کردیا ہے تاکہ جو مویشی چارپائے خدا نے ان کو دیے ہیں (ان کے ذبح کرنے کے وقت) ان پر خدا کا نام لیں۔
کلام پاک میں ایک دوسری جگہ سدنا حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں: ہابیل اور قابیل کی قربانیوں کا قصہ مذکور ہے۔
وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ، اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَر، قَالَ لَاَقْتُلَنَّک، قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدۃ، آیۃ: 27)
اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے خدا (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا اس نے کہا کہ خدا پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے ۔
آدم کے بیٹے ہابیل بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل کسان تھا۔ ان دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ہابیل نے کچھ جانور پیش کیے، جبکہ قابیل نے اناج نذر کیا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی مگر قابیل کی قبول نہیں ہوئی۔ اُس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے ایک شعلہ آتا تھا اور وہ قربانی کو جلا کر بھسم کر دیتا تھا۔ اوریہی قبولیت کی علامت ہوتی تھی۔ جس کی قربانی پر آسمانی آگ نازل نہیں ہوتی تھی، اس کی قربانی نامنظور ہوتی تھی۔ اس تعلق سے ایک حوالہ ملاحظہ کیجیے۔
قد تکلمنا علی ھذہ القصۃ، في سورۃ المائدۃ، في التفسیر بما فیہ کفایۃ، وللہ الحمد.
ولنذکر ھنا ملخص ما ذکرہ أئمۃ السلف في ذلک، فذکر السدي، عن أبي مالک، وأبي صالح، عن ابن عباس، وعن مرۃ، عن ابن مسعود، وعن ناس من الصحابۃ: أن آدم کان یزوج ذکر کل بطن بأنثی الأخریٰ، وأن قابیل أراد أن یتزوج بأخت ھابیل، وکان أکبر من ھابیل، وأخت قابیل أحسن، فأراد قابیل أن یستأثر بھا علیٰ أخیہ، وأمرہ آدم علیہ السلام أن یزوجہ إیاھا فأبیٰ، فأمرھما أن یقربا قربانًا۔ وذھب آدم لیحج إلیٰ مکۃ، واستحفظ السماوات علیٰ بنیہ، فأبین، والأرضین، والجبال فأبین، فتقبل قابیل بحفظ ذلک.فلما ذھب قربا قربانھما، فقرب ھابیل جذعۃ سمینۃ، وکان صاحب غنم، وقرب قابیل حزمۃ من زرع من رديء زرعہ، فنزلت نار، فأکلت قربان ھابیل، وترکت قربان قابیل، فغضب، وقال: لأقتلنک حتیٰ لا تنکح أختي، فقال: إنما یتقبل اللہ من المتقین۔ (البدایۃ والنھایۃ، الجزء الاول، باب خلق آدم علیہ السلام، قصۃ قابیل و ھابیل)
قربانی کا تصور دیگر مذاہب میں
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی قربانی کا رواج رہا ہے۔ یہودیوں میں عید فصیح کے موقع پر ایک سالہ بھیڑ کی قربانی کی جاتی ہے اور اس کا گوشت تبرکا آپس میں تقسیم کرتے ہیں، پھر اس کے پچاس دن بعد یوم خمس مناتے ہیں، جس میں سات بھیڑیں یا بیل اور دو دنبے ذبح کرتے ہیں اور ان کا گوشت غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔دین مسیحیت میں بھی قربانی کی جاتی ہے۔ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام قربانی کرتے ہیں اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسے دفن کردیتے ہیں۔سکھ مذہب میں ہولا کے تہوار کے موقع پر بھیڑ کی قربانی پیش کی جاتی ہے۔ اس قوم کے جھچے دار ایک ہی جھٹکے میں قتل کرکے خون کو جمع کرتے ہیں اور نہنگ گروہ کے سردار کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ بعض قوموں میں قربانی اتنی افضل اور اہم عبادت قرار دی گئی ہے کہ وہ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی بھی قربانی اور بلی چڑھانے لگیں، چنانچہ اہل دوما میں انسانی جانوں کو ذبح کرنے کی تاریخ ملتی ہے۔ ہندستان کی غیر مسلم اقوام میں تو اب تک اس کا رواج چلا آرہا ہے، چنانچہ جتنا بڑا مقصد ہوتا ہے، اتنی ہی بڑی قربانی پیش کی جاتی ہے ، حتیٰ کہ کتے بلی وغیرہ کے علاوہ انسانی بچوں اور بڑوں کی بلی دی جاتی ہے۔( تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے : المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج:۶، ص؍ ۱۹۸)
اسلام کی قربانی کی تاریخ
اسلام میں قربانی کا جو طریقہ رائج ہے، وہ وہ طریقہ ہے، جس کی شروعات سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ہے۔ اس کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ
ایک دن ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدیم پائیں گے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی: اے ابراہیم! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم احسان کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں اور ہم نے اس کے لیے ذبح عظیم کا فدیہ دیا۔ مفسرین کا بیان ہے کہ خدا کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ حضرت اسماعیل کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال عید الاضحیٰ منائی جاتی ہے۔
قبل از اسلام عربوں میں قربانی کا یہی براہیمی تصور موجود تھا کہ لیکن ادیان میں تحریفات کے باعث اہل عرب قربانی کے ابراہیمی طریقے سے منحرف ہوچکے تھے اور انھوں نے اس میں کئی تحریفیں شامل کردیتی تھیں۔ براہیمی طریقے میں صرف جانوروں کی قربانی کا حکم تھا، لیکن انھوں نے اس میں اولاد کی قربانی بھی اپنے دین کا حصہ بنا لیا تھا۔ اس تعلق سے سیرت نبوی علیہ السلام میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ 146146جب حضرت عبدالمطلب زمزم کا کنواں جو گمنام ہوچکا تھا اسے الہام الٰہی سے نشاندہی ملنے کے بعد کھودنے لگے ،تو انھیں دشواری ہوئی تو انھوں نے منت مانی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوں تو میں ان میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردوں گا۔ ان کے بیٹے ہوئے تو انھوں نے قرعہ اندازی کی جس میں حضرت عبداللہ کا نام نکلا جو کہ ان کے چہیتے بیٹے تھے۔حضرت عبدالمطلب انھیں قربان گاہ کی طرف لے گئے تو ان کے بھائیوں اور قبیلے کے دوسرے لوگوں کے اصرار پر حضرت عبداللہ اور دس اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا مگر نام حضرت عبداللہ کا ہی نکلا، پھر اونٹوں کی تعداد بڑھائی گئی مگر ہر بار قرعہ میں نام حضرت عبداللہ کا ہی نکلتا، آخرکار سو اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا تو اونٹ پر قرعہ نکلا، اس کے بعد حضرت عبداللہ کی جگہ سو اونٹوں کی قربانی کی گئی۔145145 (البدایۃ والنہایہ، جلد دوم، ذکر اخبار العرب، ذکر قس بن ساعدہ الایادی)۔
المختصر قربانی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اس لیے اسلام نے بھی اس کو باقی رکھا ؛ البتہ اسلام نے قربانی کے ابراہیمی طریقے میں شامل تمام غلط رسموں کا قلع قمع کیا اور اس طریقے کو دوبارہ بحال کیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ابراہیمی طریقے میں اہل عرب نے کیا کیا غلط رسمیں شامل کردیتی تھیں۔
رسم نمبر ۱۔بتوں کے نام پر جانور کو حرام قرار دینا۔
دین ابراہیمی بتوں اور بت پرستوں سے اظہار بیزاری پر مبنی دین تھا، لیکن اہل عرب بعض جانوروں کو بتوں کے نام وقف کردیا کرتے تھے۔ اور پھر اس کی قربانی کو ناجائز قرار دیتے تھے اور کھانا حرام سمجھتے تھے ۔ ان جانوروں کا نام بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام تھا ۔بحیرہ، سائبہ کی بچی کو کہا جاتا ہے۔ اور سائبہ اس انٹنی کو کہا جاتا ہے جس سے دس بار پے دَر پے مادہ بچے پیدا ہوں، درمیان میں کوئی نر پیدا نہ ہو۔ ایسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیاجاتا تھا اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی، اس کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہیں پیتا تھا۔ اس کے بعد یہ اونٹنی جو مادہ بچہ جنتی اس کا کان چیر دیا جاتا اور اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ اس پر سواری نہ کی جاتی۔ اس کا بال نہ کاٹا جاتا۔ اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہ پیتا۔ یہی بحیرہ ہے اور اس کی ماں سائبہ ہے۔ وصیلہ اس بکری کو کہا جاتا تھا جو پانچ دفعہ پے دَرپے دودو مادہ بچے جنتی (یعنی پانچ بار میں دس بار مادہ بچے پیدا ہوتے) درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ اس بکری کو اس لیے وصیلہ کہا جاتا تھا کہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی تھی۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھا سکتے تھے عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں۔ البتہ اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوتا تو اس کو مرد عورت سبھی کھا سکتے تھے۔ حَامی اس نر اونٹ کو کہتے تھے جس کی جُفْتی سے پے در پے دس مادہ بچے پیدا ہوتے، درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کر دی جاتی تھی۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھا۔ بلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جفتی کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اور اس کے سوا اس سے کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا۔اور بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ اپنی اس مشرکانہ رسم کو خدا تعالیٰ کی رضا اور تقرب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی تردیدکرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:
مَا جَعَلَ اللَّہُ مِنْ بَحِیرَۃٍ وَلَا سَاءِبۃٍ وَلَا وَصِیلۃٍ وَلَا حَام وَلکِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یَفْتَرُونَ عَلی اللّہِ الْکَذِبَ وَأَکْثَرُھُمْ لَایَعْقِلُونَ (المائدۃ، آیۃ: 103)
اللہ نے نہ کوئی بحیرہ، نہ کوئی سائبہ نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی بنایا ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔
رسم نمبر ۲۔ بتوں کے نام پر قربانی کرنا۔
دور جاہلیت میں خانہ کعبہ کے ارد گرد تین سو ساٹھ پتھر نصب کیے ہوئے تھے، جن کے لیے اہل جاہلیت قربانیاں کیا کرتے تھے اور پھر ان پر ان کے گوشت رکھتے اور خون ملتے تھے ۔ یہ ان کے عقیدے کے مطابق ان پتھروں سے تقرب و تبرک حاصل کرنے کا نیازمندانہ طریقہ تھا۔
قال ابن جریج: النصب لیست باصنام۔ الصنم یصور و ینقش، و ھذہ حجارۃ تنصب، ثلاثماءۃ منھا لخزاعۃ فکانوا اذا نضحوا الدم علیٰ ما اقبل من البیت و شرحوا اللحم و جعلوہ علیٰ الحجارۃ۔ فقال المسلمون: یا رسول اللہ، کان اھل الجاھلیۃ یعظمون البیت بالدم، فنحن احق ان نعظمہ! فقال النبی ﷺ لم یکرہ ذالک، فانزل اللہ تعالیٰ: (لن ینال اللہ لحومھا ولا دماؤھا) (سورۃ الحج: 37) (تفسیر الطبری، تفسیر سورۃ المائدۃ)
جانوروں کو خالق کائنات کے نام کے بجائے بتوں اور پتھر وغیرہ کی بنائی ہوئی مورتیوں کے لیے قربان کرنا اسلام کی روح توحید کے خلاف ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس رسم کی اصلاح فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
وما ذُبح علیٰ النصب (المائدۃ، آیۃ: 3) وہ جانور ربھی حرام ہیں، جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں۔
کچھ قبیلے قربانیوں کے لیے خاص دن کا انتظار کیا کرتے تھے یا پھر جانوروں کے لیے یہ قید لگا رکھی تھی کہ جانور کے پہلے بچے کی قربانی ہوگی۔ ان سب کی اصلاح فرماتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ
عَنْ أَبِي ھُریْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: لَا فَرَعَ وَلَا عَتِیرۃَ، قَالَ سَعِیدٌ: فَالْفَرَعُ أَوَّلُ نِتَاجٍ یُنْتَجُ کَانُوا یَذْبَحُونَہُ لِطَوَاغِیتِھِمْ، نَھَاھُمْ رَسُولُ اللہِ صَلی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَنْھَا، وَالْعَتِیرَۃُ ذَبِیحَۃُ مُضَرَ فِي رَجَبٍ، فَنَھَاھُمْ رَسُولُ اللّہِ صَلی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَنھَا (مسند ابی داود الطیالسی، ما اسند ابو ھریرۃ، من روایۃ سعید ابن مسیب)
رسم نمبر۳۔قربانی کا گوشت خود نہ کھانا
بعض کافروں کا یہ عقیدہ تھا کہ حج کے موقع پر جو ہم قربانی کرتے ہیں، اس کا گوشت صرف فقرا اور محتاجوں کو ہی کھانا جائز ہے، خود کے لیے اس کا استعمال کرنا صحیح نہیں ہے، اس تعلق سے اصلاح کرتے ہوئے قرآن نے بتایا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھاو اور مصیبت زدہ محتاجوں کو بھی کھلاو۔
لِّیَشھہَدُوا مَنَافِعَ لَہُم وَ یَذکُرُوا اسمَ اللّٰہِ فِی اَیَّامٍ مَّعلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیمَۃِ الاَنعَامِ فَکُلُوا مِنھَا وَ اَطعِمُوا البَآءِسَ الفَقِیرَ ( الحج، آیۃ: 28)
تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں، اور متعین دنوں میں جو چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں۔ چنانچہ ان جانوروں سے خود بھی کھاو اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاو۔
رسم نمبر۴۔ ہدی کے جانوروں سے کسی قسم کا فائدہ نہ اٹھانا۔
عربوں کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ جو جانور ہدی کے لیے خاص کردیے جاتے ہیں، ان سے بالکیہ فائدہ اٹھانا ناجائز ہے، یہاں تک کہ دوسرا انتظام نہ ہونے کے باوجود اس پر سواری کرنا، اس کا دودھ استعمال کرنا اور باربرداری کا کام لینا ممنوع سمجھتے تھے۔ قرآن نے انھیں بتلایا کہ ہدی کے جانور سے اس وقت تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب تک کہ قربان گا حدود حرم نہ پہنچ جائے۔
لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّی، ثُمَّ مَحِلُّھَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ.(الحج ۲۲: ۳۳)
ہدی کے اِن جانوروں سے تم ایک وقت مقرر تک فائدے اٹھا سکتے ہو، پھر اُن کو اِسی قدیم گھر تک پہنچنا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلّی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ رَای رَجُلًا یَسُوقُ بَدَنَۃً فَقَالَ: ارْکَبْھَا، قَالَ: إِنّھَا بَدَنَۃٌ قَالَ: ارْکَبْھَا، قَالَ: إِنّھَا بَدَنَۃٌ قَالَ:ارْکَبھَا( ثَلاَثًا) (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب رکوب البدن)
نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ہدی کے جانور کو لے جاتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجاو، انھوں نے کہا یہ ہدی ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ پھر بھی سوار ہوجا۔ آپ ﷺ نے انھیں تین مرتبہ کہا ۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ وقت مقررہ سے مرادہدی کے قربانی کا وقت مراد ہے، لہذا قربانی سے پہلے پہلے ان جانوروں سے ہر طرح کے فوائد حاصل کرنا صحیح ہے۔ امام اعظمؒ کے نزدیک مقررہ وقت سے مراد یہ ہے کہ جب تک جانور کو ہدی کے لیے مخصوص نہ کرلیا ہو، اگر ہدی کے لیے مخصوص کردیا ، تو اب شدید ضرورت کے بغیر اس سے کسی قسم کا دنیاوی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اب وہ صرف اخروی فائدہ ہی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ فائد یہ ہے کہ حدود حرم میں لے جاکر قربان کیا جائے۔المختصر اہل جاہلیت ہدی کے لیے نامزد جانور سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا جائز سمجھتے تھے ، ان کے اس عقیدے کی اصلاح کی گئی اور صحیح طریقہ بتلایا گیا ۔
خلاصہ بحث
جاہلی رسوم پر ایک سرسری نظر ڈالیں، تو یہ خلاصہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے ان تمام طریقوں اورعقیدوں کی بیخ کنی ہے، جو عقل و بصیرت کی نظر سے لایعنی نظر آتے تھے۔ مثال کے طور پر پہلے بچے کی ہی قربانی کا نظریہ ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے تو ممکن ہوسکتا ہے، جس کا پیشہ جانوروں کی نگہ بانی و پرورش ہو، لیکن دوسرے افراد کے لیے یہ تکلیف مالایطاق ہے، لہذا اسلام نے اس پر روک لگائی۔
ہندستان میں آج کل بھگوان سمجھ کر گایوں کی تجارت اور معیشت پر پابندی لگانے کی بات کی جارہی ہے، جس سے بے شمار سماجی و معاشی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ خریدو فروخت میں قانونی پیچدگی کے باعث کمزور اور آوارہ گائیں سڑکوں پر زندگی گزار رہی ہیں، جن سے ٹریفک اور تحفظات کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ واقعہ شاہد عدل ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بتوں کے نام پر جانوروں کو آزاد چھوڑنے کی جو روایت تھی، اگر اسلام اسے برقرار رکھتا، تو بے شمار سماجی و معاشی مسائل پیدا ہوجاتے ، اس لیے اسلام نے اس کی اصلاح کی اور یہ حکم دیا کہ یہ اللہ کا حکم نہیں ہوسکتا، یہ سب محض بیوقوفی کی باتیں ہیں۔
قربانی خوشنودی رب حاصل کرنے کا ایک نیاز مندانہ طریقہ ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہمانی کا اعلان عام ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے
بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنہُ فِي أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ ، یُنَادِي فِي النَّاسِ:لَا تَصُومُوا فِي ھَذِہِ الْأیَّامِ 249 فَإِنّھَا أَیَّامُ اکْلٍ وَشُرْبٍ وَبِعَالٍ (شرح معانی الاثار،کتاب مناسک الحج، باب المتمتع الذی لایجد ھدیا ولایصوم فی العشر)
جب ان دنوں میں روزہ رکھنے تک ممنوع ہے، تو قربانی کا گوشت نہ کھنا بدرجہ اولیٰ غیر شرعی ہوگا، اس لیے انھیں حکم دیا گیا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھاو اور دوسروں کو بھی کھلاو۔یہی ضیافت رب کا صحیح طریقہ ہے۔ البتہ جو نذور یا کفارے کی قربانی ہوتی ہے، تو چوں کہ ا ن سے کمی کوتاہی کا ازالہ مقصود ہوتا ہے، اس لیے ان کو کھانے سے منع کیا گیا ہے۔
اسی طرح ہدی کے علاوہ سواری ، دودھ ، بار برداری کے لیے کوئی اور انتظام نہ ہو، تویہ سب کام اس سے لینا بشری ضرورت کا تقاضا ہے، لہذا ہر چند کہ ہدی کے لیے مخصوص کردینے کے بعد دنیاوی فائدہ اٹھانا، چھوٹے نفع کی بات ہے، لیکن مجبوری کی شکل میں اس سے روکنا یا رکنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے اس عقیدے میں ترمیم کرکے انسانوں کے لیے آسانی پیدا کی گئی۔
دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم ﷺ کے طریقے کے مطابق حج اورقربانی کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور لغویات سے ہماری حفاظت کرے۔ آمین یا رب العالمین۔