20 Jul 2017

نبی اکرم ﷺ کا آخری حج (حجۃ الوداع)


(نبی اکرم ﷺ کا آخری حج (حجۃ الوداع
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی ، گڈاوی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند رابطہ: 9871552408
روانگی کی تمہید
جب سورہ النصر نازل ہوئی، تو نبی اکرم ﷺ نے قدرت کا یہ اشارہ سمجھ لیا کہ اب رحلت کا وقت قریب آگیاہے، چنانچی ۱۰ھ ؁ میں یہ ارادہ فرمالیا کہ آخری حج کرلیا جائے، بڑا اہتمام کیا گیا، کوشش یہ کی گئی کہ کوئی عقیدت مند محروم نہ رہ جائے ، آس پاس کے قبائل میں ارادہ پاک کی اطلاع دی گئی، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت یمن میں تھے، ان کو بلوالیا گیا۔ تمام ازواج مطہرات کو ساتھ چلنے کی خوش خبری سنائی گئی ،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تیاری کا حکم ملا۔۲۴؍ ذی قعدہ جمعہ کا دن تھا، مسجد نبوی میں جمعہ میں ۲۶؍ کی روانگی کا اعلان ہوا۔
روانگی کا پہلا دن ۲۵؍ ذی قعدہ بروز سنیچر
۲۵؍ ذی قعدہ بروز سنیچر ، آپ ﷺ نے غسل فرمایا، لباس تبدیل کیے اور مسجد نبوی میں ظہر کی نمازکے لیے تشریف لائے ۔ نماز سے قبل آپ نے خطبہ دیا، جس میں مسائل حج بیان کیے۔ پھر نماز ادا فرمائی اور حمد و شکر کے ترانوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد صحابہ کرام آپ ﷺ کے ہمرکاب تھے، جہاں تک نظر جاتی تھی ، ہر طرف انسانوں کا سیلاب نظر آتا تھا۔مدینے سے۹ کیلو میٹر کے فاصلے پر مقام ذوالحلیفہ ہے، آپ ﷺ یہاں پہنچے تو عصر کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے سب سے پہلے آپ ﷺ نے دو رکعت نماز عصر ادا کی اوررات بھی یہیں قیام فرمایا۔سبھی نوازواج مطہرات شریک سفر تھیں، اس رات سبھی سے صحبت فرمائی۔
روانگی کا دوسرا دن ۲۶؍ ذی قعدہ بروز اتوار
دوسرے دن نبی اکرم ﷺ نے غسل فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جسم پاک پر اپنے ہاتھوں سے عطر لگائی۔سر پر تلبید(سر کے بالوں کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے کچھ کرنا) فرمائی ۔ قربانی کے۶۳؍ جانوروں کو گلے میں جوتے پہناکر نشان زد کیا اور انھیں ناجیۃ اسلمی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا۔ پھر آپ نے احرام کی چادریں زیب تن فرمائیں۔ ظہر کی نماز مسجد ذوالحلیفہ(مسجد شجرہ ) میں ادا کی۔پھر بڑے دردو گداز سے دو رکعتیں پڑھیں اور مسجد سے باہر تشریف لاکر اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوئے اورحج و عمرہ کے لیے احرام باندھتے ہوئے ترانہ لبیک بلند فرمایا: 
لبیک اللھم لبیک ، لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک، لاشریک لک۔
اس ایک صدائے لبیک کی اقتدا میں ہزارہا آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں ، جن سے دشت وجبل ترانہ توحید سے گونج اٹھے۔ روانگی شروع ہوگئی اور ذوالحلیفہ کے قریب بیدا کی پہاڑی پر پہنچے۔یہاں کبھی آپ حج و عمرہ کے لیے تلبیہ پڑھتے تھے اور کبھی صرف حج کا۔ اور کبھی آپ یہ دعا پڑھتے تھے کہ 
اللھم اجعلہ حجا لا ریاء ا فیہ و لا سمعۃ۔ ائے اللہ! اسے دکھاوے اور شہرت سے پاک حج فرما۔
بیدا کی پہاڑی پر
جب بیدا کی پہاڑی پر چڑھے، تو یہیں پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام محمد ابن ابوبکر رکھا گیا۔ پیدائش کے وقت حضرت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام تشریف لائے اور یہ پیغام پہنچایا کہ آپ ﷺ صحابہ کو آواز بلند کرنے کا حکم دیں۔ یہاں حضور ﷺ نے زور سے لبیک کہا، صحابہ نے بھی آپ کی آواز سے آواز ملائی، جس سے آسمان کا خلا حمد خدا سے لبریز ہوگیا۔جب مدینے سے اٹھائیس میل دور مقام ملل پر پہنچے تو آپ نے یہاں پر پیر کے اپری حصہ پرحجامہ کرایا۔ پھر آگے بڑھے اور وادی روحا پہنچے۔جو مدینے سے چوہتر کلو میٹر دور ہے۔
وادی روحا میں
یہاں پر آپ ﷺ سواری سے اترے اور نماز ادا فرمائی پھر ارشاد فرمایا کہ اس مقام پر ستر نبیوں نے نماز پڑھی ہے۔ پھر قافلہ آگے کے لیے روانہ ہوگیا ۔اور اثایہ پہنچا ، یہاں دیکھا کہ ایک ہرن شکار کی ہوئی ہے۔ چوں کہ محرم کے لیے شکار جائز نہیں ہے، اس لیے ایک شخص کو اس جگہ مقرر کردیا تاکہ کوئی محرم اسے استعمال نہ کرے۔ اور قافلہ آگے بڑھتا رہا۔یہاں تک کہ لحی جمل آگیا۔ یہاں آپ ﷺ تھوڑی دیر ٹھہرے اور اپنے سر پر پچھنا لگوایا۔ بعد ازاں قافلہ آگے کے لیے روانہ ہوا۔
وادی عرج میں انتظار
چلتے چلتے وادی عرج پہنچے،یہاں دیکھا تو معلوم ہوا کہ سامان جس غلام کے سپرد تھا، وہ ابھی تک نہیں پہنچا ہے، لہذا اس کا انتظار فرمانے لگے۔ اس سفر میں حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سامان ایک ہی اونٹ پر تھا۔ وہ غلام بہت دیر میں آیا اور وہ بھی خالی ہاتھ ۔ یہ دیکھ کرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمھار اونٹ کہاں ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ صبح سے ہی گم ہوگیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کافی ناراض ہوئے اور غلام کی پٹائی کرنے لگے اور کہاکہ ایک ہی تو اونٹ تھا اور اسے بھی گم کردیا۔ حضور ﷺ نے یہ منظر دیکھا تو تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
انظروا الیٰ ھذا المحرم ما یصنع؟
ان محرم کو دیکھو کہ کیا کر رہے ہیں، یعنی حالت احرام میں مار پیٹ کر رہے ہیں۔
جب فضالہ اسلمی رضی اللہ عنہ اورصحابہ کو حضور ﷺ کے اونٹ کے گم ہونے کی اطلاع ملی تو وہ آپ کے لیے کھانا تیار کر کے لائے۔ حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر کو آواز دی کہ آو اللہ تعالیٰ نے بہترین غذا عطا فرمائی ہے،مگر حضرت ابوبکر کافی غصے میں تھے، اور غلام کو ڈانٹ ڈپٹ رہے تھے ۔حضور اکرم ﷺنے ان سے کہا: ابوبکر غصہ کو جانے دو۔کچھ دیر بعد اونٹنی مل گئی۔ کھانا تناول کے بعد حضرت سعد اور حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہما خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ سامان کی اونٹنی ہے اسے قبول فرمالیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمھیں برکت دے ، ہماری اونٹنی اللہ کے فضل سے مل گئی ہے۔ یہاں سے آگے کے لیے روانہ ہوئے۔ اور مقام ابوا پہنچے، جو مدینے سے 128کلو میٹر پر واقع ہے۔آج کل اس کا نام مستورۃ ہے۔یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ ﷺ کی والدہ محترمہ مدفون ہیں۔
مقام ابوا
جب آپ یہاں پہنچے، تو حضرت صعب ابن جثامہ رضی اللہ عنہ نے حمار وحشی آپ کو ہدیۃ پیش کیا، جسے آپ ﷺ نے قبول کرنے سے منع کردیا ، کیوں کہ محرم کے لیے شکار کا گوشت جائز نہیں ہے۔ یہاں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت انجش رضی اللہ عنہ عورتوں کے اونٹوں کو ہنکا رہے تھے اور اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے نغمے بھی گاتے جارہے تھے، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا کہ انجش! تمھاری سواری میں شیشے یعنی عورتیں ہیں، تھوڑا آہستہ ہنکاؤ۔ قافلہ چل ہی رہا تھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا۔ وہ بہت زیادہ رونے لگیں۔ آپ ﷺ کو اطلاع ہوئی۔ آپ تشریف لائے، تو انھیں تسلی دی اور اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پوچھے، لیکن وہ مزید رونے لگیں۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے انھیں ڈانٹا اور لوگوں کو قیام کرنے کا حکم دیا۔ حالاں کہ یہاں آپ کے ٹھہرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ نبی اکرم ﷺ اپنے خیمے میں آرام فرمانے لگے۔ یہ دن خود حضرت صفیہ کی باری کا دن تھا۔ نبی اکرم ﷺ کی ڈانٹ سے انھیں یہ احساس ہوا کہ رسول اللہ ﷺان سے ناراض ہوگئے ہیں۔ چنانچہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور کہاکہ اگر رسول اللہ ﷺ کی مجھ سے ناراضگی دور کرادیں، تو میں اپنی باری تمھیں دے دوں گی۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے۔ انھوں نے اپنا دوپٹہ لیا، لباس پہنی اور رسول اللہ ﷺ کے خیمہ کے پاس جاکر خیمہ کا کنارہ اٹھاکر اندر جھانکا۔ حضرت عائشہ کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا ہوا عائشہ ! آج تو تمھاری باری نہیں ہے، تو حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ اللہ اپنا فضل جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے۔ دوپہر کا وقت تھا ، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ کے ساتھ قیلولہ فرمایا۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ایک اونٹ صفیہ کو دیدو ، تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ میں اپنا اونٹ یہودیہ کو دوں گی ! یہ جواب سن کر نبی اکرم ﷺ شدید ناراض ہوئے ، حتیٰ کہ پورے سفر میں اور مدینہ لوٹنے کے بعد ربیع الاول تک ان سے بات چیت نہیں کی۔ پھر یہاں سے قافلہ آگے بڑھا۔
وادی عُسفان 
چلتے چلتے مکہ سے ۲۵ ؍ کلو میٹر دور واقع وادی عسفان پہنچے۔ یہاں پر آپ نے قیام فرمایا۔اسی مقام پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ یہ کونسی وادی ہے؟ تو حضرت ابوبکرنے جواب دیا کہ یہ وادی عسفان ہے۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسی مقام سے حضرت ھود اور حضرت صالح علیہما السلام حج کے لیے تلبیہ پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے تھے۔یہاں آپ آرام فرمارہے تھے کہ حضرت سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ نے آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ہمیں حج کا طریقہ اس طرح سکھا دیجیے کہ جیسے کہ ہم آج ہی پیدا ہوئے ہیں یعنی اس طرح سکھائیں کہ گویا ہمیں پہلے سے کچھ معلوم نہیں ہے، چنانچہ سرکار دو عالم ﷺ نے انھیں حج کا مکمل طریقہ سکھایا۔
مقام سرف
پھر وہاں سے آگے بڑھے اور سرف پہنچے، یہاں ایک شرعی مسئلہ یہ پیش آیا کہ اماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عورتوں والا معاملہ پیش آگیا، تو وہ کافی رونے لگیں کہ میرا تو سفر ہی بیکار ہوگیا اور حج کا وقت کا قریب ہے اور میں ناپاک ہوں۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے انھیں تسلی دی اور بتایا کہ یہ تو سبھی عورتوں کو پیش آتا ہے۔ پھر حضور ﷺ نے صحابہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے ، وہ مکہ مکرمہ میں داخلے کے بعد عمرہ کریں گے اور عمرہ کے بعد احرام کھول دیں گے۔
مقام ذو طویٰ
قافلہ آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ کے بالکل قریب ذو طوی پہنچ گئے ۔ شام ہوگئی تھی ، اس لیے رات یہیں قیام فرمایا۔یہ اتوارکی رات اور تاریخ ۴ ؍ ذی الحجہ تھی۔جب صبح ہوئی تو مکہ معظمہ کی عمارتیں نظر آنے لگیں۔آپ نے سب سے پہلے غسل فرمایا اور مکہ میں داخلے کی تیاری کرنے لگے اور وادی ازرق کا راستہ اختیار کیا۔
وادی ازرق
جب وادی ازرق پہنچے ، تو ایک لمحہ کے لیے حضور ﷺ یہاں رک گئے اور ارشاد فرمایا کہ اس وقت میرے سامنے وہ منظر ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام حج کے لیے آئے تھے اور اس مقام سے گزرے تو انھوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں ڈالیں اور زور سے زور سے ترانہ حج پڑھنے لگے۔
مکہ میں داخلہ
جوں جوں آپ مکہ سے قریب ہوتے جارہے تھے ، توں توں ہاشمی خاندان کے افراد حضور اکرم ﷺ کے استقبال کے لیے بے تابانہ بے خود ہوئے جارہے تھے اور معصوم بچے سراپا شوق بنے ہوئے اپنے گھروں سے دوڑتے نکل رہے تھے۔ چنانچہ جب ان کی نگاہیں سرورکائنات ﷺ پر پڑیں، تو بچے آپ کی سواری کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے ۔ ادھر سرکار دوجہاں کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ ان کے معصوم چہروں کو دیکھ کر جوش محبت سے جھک گئے اور کسی کو اپنی سواری کے آگے بٹھالیا اور کسی کو پیچھے بیٹھالیا۔جب اور آگے بڑھے ، تو کعبۃ اللہ کی عمارت نظر آنے لگی، جس پر آپ کی زبان سے یہ ارشاد عالی مقام صادر ہوا کہ 
اللھم زد بیتک ھذا تشریفا و تعظیما و تکریما و مھابۃ
ائے اللہ خانہ کعبہ کو اور زیادہ شرف و امتیاز عطا فرما۔
آپ باب بنی شیبہ سے مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔ سب سے پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ بعدہ طواف فرمایا۔ جب طواف مکمل ہوگیا ، تو مقام ابراہیم پر آئے اور دوگانہ ادا فرمایا ، اس وقت زبان اقدس و اطہر پر یہ آیت جاری تھی کہ 
واتخذوا من مقام ابراھیم مصلیٰٰ (سورۃ البقرۃ، آیۃ: )
نماز سے فراغت کے بعد پھر حجر اسود کو بوسہ دیا ۔پھر زمزم کے پاس آئے ۔ کچھ نوش فرمایا اور کچھ اپنے سر پر ڈالا۔اور باب الصفا سے نکل کر صفا کے قریب پہنچے تو آپ کی زبان پر یہ آیت تھی کہ 
ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ
صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا کہ جس کے ذکر سے اللہ نے شروعات کی ہے ، میں بھی اسی سے شروع کرتا ہوں، چنانچہ پہلے صفاپہاڑی پر تشریف لے گئے۔پہاڑی پر اتنا اوپر چڑھے کہ کعبۃ اللہ نظر آنے لگا۔ یہاں تھوڑی دیر تکبیر و تحمید میں مشغول رہے ۔اس کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کی سات چکریں پوری فرمائیں۔ جب مروہ پر سعی پوری ہوئی، تو آپ ﷺ نے حج کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں کے پاس ہدی نہیں ہے ، وہ اپنا احرام کھول دیں اور جن کے پاس ہدی ہے وہ بدستور حالت احرام میں ہی رہیں۔پھر آپ نے حلق یعنی سرمنڈوانے والے کے لیے تین مرتبہ اور قصر کرنے والوں کے لیے ایک مرتبہ مغفرت کی دعا فرمائی۔ یہاں سے پھر آپ اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور یہاں پر چار دن قیام فرمایا۔
نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تھا، جب ان کو نبی اکرم ﷺ کے ارادہ حج کی اطلاع ملی، تو آپ براہ راست یمن سے مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ مکہ پہنچ کرسب سے پہلے اپنی بیوی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ حالت احرام میں نہیں ہے، تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ جس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ایسا انھوں نے اس لیے کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر حضرت علی نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے، اس وقت سرور کائنات ﷺ ابطح میں تھے۔ ملاقات کے بعد ان سے پوچھا کہ بما اھللت یا علی؟ ائے علی کس چیز کا احرام باندھے ہو، تو انھوں نے جواب دیا کہ جس چیز کا احرام نبی اکرم ﷺ نے باندھا ہے، تو آپ نے حکم دیا کہ پھر حالت احرام میں ہی رہو، کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے قربانی کے جانوروں کے ساتھ آئے تھے۔اسی مقام پر صحابہ کی حضور اکرم ﷺ پر وارفتگی اور جاں نثاری کا وہ عدیم النظیر واقعہ پیش آیا، جو تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ آپ نے وضو فرمایا تو صحابہ کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے پانی کو زمین پر گرنے نہیں دیا، اس سے پہلے ہی ہاتھوں میں اٹھا لیا او ر برکت حاصل کرنے کے لیے اپنے چہروں پر ملنے لگے۔
ساتویں ذی الحجہ کو آپ ﷺ بطحا سے مکہ تشریف لائے اور ایک درد انگیز خطبہ ارشاد فرمایا کہ
یا معشر المسلمین! قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ نماز کو مار ہی ڈالیں گے۔ اسی طرح آپ نے قیامت کی مزید نشانیوں کے بارے میں بتایا۔
۸؍ ذی الحجہ جمعرات کو چاشت کے وقت ابطح سے آپ نے حج کے لیے احرام باندھا اور منیٰ تشریف لے گئے۔ سبھی صحابہ کرام بھی ساتھ تھے۔یہ دن اور رات یہیں گزاری۔ اسی دن منیٰ کے میدان میں ایک سانپ نکلا، جسے صحابہ نے مارنا چاہا، لیکن وہ بل میں گھس گیا۔ ۹؍ ذی الحجہ بروز جمعہ بعد نماز فجر عرفات تشریف لائے اور مقام نمرہ پر اپنے خیمے میں زوال تک آرام فرمایا۔ بعد زوال اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بطن عرنہ آئے اور ایک طویل خطبہ دیا ۔ حمد و صلاۃ کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ ائے لوگو! یہ ہمارا آخری اجتماع ہے ، شاید آج کے بعد کبھی دوبارہ ہم اس طرح جمع نہ ہوسکیں گے۔ یہ درد انگیز جملہ سننا تھا کہ صحابہ کی آنکھیں بے اختیار ہوگئیں، کیوں کہ اس جملے نے اس اجتماع کا مقصد واضح کردیا تھا ۔خطبہ میں آپ ﷺ نے گمراہ نہ ہونے اور آپس میں ایک دوسرے کی گردن نہ مارنے کی تلقین کی۔ بعدہ اپنی بیویوں اور غلاموں کے حقوق کی پاسداری کی توجہ دلائی۔ پھر عرب میں فساد و خون ریزی کے سب سے بڑے دو اسباب: ادائے سود کے مطالبات اور مقتولوں کے انتقام کو باطل فرمایا اور سب سے پہلے اپنے خاندانی مقتول ربیعہ بن حارث کے خون سے اور اپنے خاندانی سود عباس بن مطلب کے سود سے دستبرداری کا اعلان عام فرمایا۔رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز و تفریق کی بیخ کنی فرمائی اور اتحاد ملت، نماز پنجگانہ کی پابندی ، رمضان کے روزے رکھنے اور خوش دلی سے زکوٰۃ دینے کی تاکید کی۔پھر فرمایا : الا و انی فرطکم علیٰ الحوض و اکاثر بکم الامم فلاتسودوا وجھی۔ خبردار رہو!میں حوض کوثر پر تمھارا منتظر رہوں گا اور تمھارے ذریعے سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا، اس لیے بد عملی کرکے میرا چہرہ سیاہ مت کرنا( مجھے رسوا مت کرنا)۔اور سب سے آخر میں فرمایا: و انتم تسالون عنی فما انتم قائلون؟اس پر مجمع سے پرجوش صدائیں بلند ہوئیں کہ انک قد بلغت و ادیت و نصعت۔ اس وقت حضور پر نور محمد عربی ﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمانی کی طرف اٹھائی اور ارشاد فرمایا اللھم اشھد۔ ائے اللہ! خلق خدا کی گواہی سن لے۔ اللھم اشھد۔ ائے اللہ! مخلوق خدا کا اعتراف سن لے۔ اللھم اشھد ائے اللہ! گواہ ہوجا۔اس کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ فلیبلغ منکم الشاھد الغائب۔خطبہ سے فارغ ہوئے تو جبرئیل امین وہیں تکمیل دین اور اتمام نعمت کا پیغام لے کر آئے اور یہ آیت اتری کہ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا۔اسی دوران حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا نے آپ کا روزہ معلوم کرنے کے لیے دودھ بھیجا ، جسے سرکار دوعالم ﷺ نے سارے مجمع کے سامنے نوش فرمایا کہ تاکہ امت کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دن روزہ رکھنے کے نہیں بلکہ خدا کی مہمانی سے لطف اندوز ہونے کا دن ہے۔ بعد ازاں حضرت بلال کو تکبیر کہنے کا حکم فرمایا اور ظہر و عصر کی نماز ظہر ہی کے وقت پڑھائیں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو بطن عرنہ سے میدان عرفات کے مقام موقف پر تشریف لائے ۔اور مغرب تک اپنی اونٹنی ہی پر دعا میں مشغول رہے ۔اسی دوران ایک صحابی اونٹ سے گر کر شہید ہوگئے، تو انھیں احرام ہی کے کپڑوں میں دفنانے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ یہ شخص کل قیامت تک لبیک پڑھتے ہوئے اٹھے گا۔ اس جگہ نجد کی ایک جماعت پہنچی ،اس نے حج کے بارے میں سوال کیا ، جس پر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ حج عرفہ میں ٹھہرنے کا نام ہے، جو شخص دس ذی الحجہ کی صبح سے پہلے پہلے یہاں پہنچ جائے ، اس کا حج ہوگیا۔
غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب سے قبل عرفات سے روانگی کا حکم دیا ، مجمع کثیر تھا ، کثرت ہجوم کی وجہ سے اضطراب کی ایک کیفیت پیدا ہورہی تھی ، اس وقت حضور اکرم ﷺ کی زبان اقدس و اطہر پر یہ الفاظ جاری تھے کہ السکینۃ ایھا الناس۔ السکینۃ ایھا الناس۔راستے میں اسنتجا کا تقاضا ہوا تو آپ نے استنجا کیا اور وضو فرمایا۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے نماز مغرب کی یاد دہانی کرائی تو ارشاد فرمایا کہ آگے چلو، یہاں تک کہ آپ مزدلفہ پہنچے اور پہنچتے ہی سب سے پہلے مغرب اور عشا کی نماز ایک ساتھ پڑھائیں۔اس کے بعد دعا میں مشغول ہوگئے ۔ دعا سے فراغت کے بعد آپ صبح تک آرام فرماتے رہے ، یہاں تک کہ زندگی میں پہلی بار آپ نے نماز تہجد بھی ادا نہیں فرمائی۔
۱۰؍ ذی الحجہ بروز سنیچر بعد نماز فجر طلوع آفتاب سے قبل آپ ﷺ مزدلفہ سے پھر منیٰ کے لیے روانہ ہوئے۔جب بطن محسر کے پاس پہنچے ، تو سواری کی رفتار تیز کردی۔ راستے میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک مسئلہ دریافت کرنے آئی کہ کیا میں اپنے کمزور باپ کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ نے ہاں میں جواب دیا۔ حضرت فضل ابن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے ہمراہ تھے، وہ اس عورت کو دیکھ رہے تھے ، توآپ ﷺ نے ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا ۔مزدلفہ سے سیدھے جمرہ عقبہ پر پہنچے۔ شیطان کو سات کنکریاں ماریں اور واپس منیٰ کے میدان میں تشریف لائے ، دھوپ تیز تھی ۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے کپڑا تان کر سایہ کیا۔ حضرت بلال حبشیؓ آپ کے ناقہ کے مہار تھامے کھڑے تھے۔ آگے پیچھے، دائیں بائیں مہاجرین و انصار ، قریش اور دیگر قبائل کھڑے تھے۔ ایسے میں زبان اقدس و مطہر سے یہ جملے ارشاد ہوئے کہ اس وقت حج کے مسائل سیکھ لو ، شاید اس کے بعد دوبارہ اس کی نوبت نہ آئے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ آج کونسا دن ہے؟ حسب معمول صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ طویل خاموشی کے بعد پھر سوال کیا کہ کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ صحابہ کا جواب تھا کہ بیشک آج قربانی کا دن ہے۔ پھر سوال ہوا کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ حسب دستور صحابہ کا وہی جواب تھا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ طویل خاموشی کے بعد ارشاد ہوا کہ کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ مسلمانوں کا جواب تھا کہ بیشک یہ ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔ پھر سوال ہوا کہ یہ کونسا شہر ہے؟ صحابہ کا وہی جواب تھا ۔ طویل خاموشی کے بعد پیغمبر انسانیت نے کہا کہ کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے؟ مجمع کا بیک زبان یہی جواب تھا کہ بیشک یہ بلدۃ الحرام ہے۔ اس کے بعد ارشاد عالی مقام ہوا کہ مسلمانو! تمھارا خون، تمھارا مال، تمھاری آبرواسی طرح قابل حرمت ہیں، جس طرح یہ دن، یہ مہینہ اور یہ شہر محترم ہیں۔ دیکھو تم میرے بعد گمراہ نہ ہوجاناکہ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔خطبہ میں سرکار دوعالم ﷺ نے مزید چند باتیں ارشاد فرمائیں۔ خطبہ کی تکمیل کے بعد کئی صحابہ نے الگ الگ مسائل دریافت کیے، سب کے جواب میں آپ نے یہی ارشاد فرمایا کہ افعل ولا حرج، کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ خطبہ سے فراغت کے بعد قربانی کی جگہ پر تشریف لائے اورسو اونٹوں کی قربانی فرمائی، جس میں اپنی عمر کے مطابق تریسٹھ اونٹوں کو خود ذبح فرمایا بقیہ ۳۷؍ اونٹوں کو حضرت علیؓ نے قربان کیا۔قربانی کے بعد اعلان کرادیا کہ جس کاجی چاہے ، ان قربانیوں سے گوشت لے جائے اور حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر ایک قربانی سے ایک ایک بوٹی لے کر آو۔چنانچہ حکم کی تعمیل کی گئی ۔ حضور نے اس سالن کا شوربا نوش فرمایا۔ اس سفر میں چوں کہ۹؍ ازواج مطہرات ساتھ تھیں، اس لیے ان کی طرف سے آپ ﷺ نے گائے کی قربانی پیش کی۔قربانی سے فراغت کے بعد حضرت معمر یا حضرت خراشؓ کو بلایا گیا اور سرمنڈوائے اور ناخن ترشوائے ، جنھیں بطور تبریک حاجیوں میں تقسیم کردیا گیا ۔اس کے بعد احرام کی چادریں اتار دیں اور کپڑے زیب تن فرمالیے اور خوشبو بھی لگائی۔جب ظہر کا وقت ہوا تو مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہاں نماز ظہر ادا کی اور طواف فرمایا۔ اس کے بعد زمزم کے کنویں پر تشریف لائے اور زمزم نوش فرمایا اور واپس منی ٰ تشریف لے آئے۔ بعدہ تین دن منیٰ ہی میں قیام فرمایا، جس میں روزانہ زوال کے بعد رمی جمار کیا کرتے تھے۔
۱۳؍ ذی الحجہ بروز سوم وار مکہ سے باہر بطحا تشریف لائے ۔ عشا تک یہاں قیام فرمایا۔ بعد نماز عشا مکہ مکرمہ تشریف لائے اور طواف وداع فرمایا۔ فجر تک یہیں قیام فرما رہے۔ ساتھ میں زمزم کا پانی لیا اوربعد نماز فجر یعنی ۱۴؍ ذی الحجہ بروز منگل پھر بطحا واپس آئے ۔ اور اسی دن مدینہ واپسی کا حکم دیا۔ ۱۸؍ ذی الحجہ کو غدیر خم پہنچے اورایک درخت کے نیچے قیام فرمایا ۔ بعد نماز ظہر آپ ﷺ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمام مومنین سے افضل نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، آپ تمام مومنین سے اعلیٰ و افضل ہے۔ پھر فرمایا کہ من کنت مولاہ ، فعلی مولاہ، کہ میں جس کا محبوب ہوں، علی بھی اس کے محبوب ہیں۔ اس خطبہ کی وجہ یہ تھی کہ 
حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ یمن کو فتح کرچکے تھے ۔ یمن کے جہاد میں مسلمانوں کو کافی مالی غنیمت حاصل ہوا تھا، اس کو تقسیم کرنے اور خمس لینے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی کو یمن بھیجا۔ قیدیوں میں کئی لونڈیاں بھی تھیں، جن میں سے بطور خمس ایک لونڈی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے رکھ لی۔ اور ان سے اگلے ہی دن صحبت فرمائی ۔ فراغت کے بعد جب غسل کرکے نکل رہے تھے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا۔ حضرت خالد نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا کہ اس شخص نے کیا کیا؟ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب حضرت علی نے خمس لیا، تو خمس تو نبی اکرم ﷺ کے لیے ہوتا ہے، تو یہ باندی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کی جانی چاہیے تھی، اس کو حضرت علی نے خود کیوں استعمال کیا؟ حضرت بریدہ نے جواب دیا کہ مجھے علی سے نفرت ہے ۔ پھر حضرت بریدہ نے حضرت علی سے سوال کیا کہ ائے حسن کے ابا! یہ سب کیا ہے؟ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ یہ لونڈی خمس کا حصہ ہے اور خمس نبی اور آل نبی کے لیے ہوتا ہے اور میں آل نبی میں سے ہوں، اس لیے میں نے اس سے صحبت کی۔لیکن اس جواب سے حضرت بریدہ مطمئن نہیں ہوئے ۔ حجۃ الوداع کے لیے جب بلاوا آیا ، تو یہ سبھی حضرات یہاں سے سیدھے مکہ چلے گئے۔ اور حج و عمرہ میں مشغول ہوگئے۔ واپسی پر غدیر خم پر حضرت بریدہ نے نبی اکرم ﷺ سے حضرت علی کی شکایت کی اور معاملہ کو بڑھا کر پیش کیا، جسے سن کر نبی اکرم ﷺ کا چہرہ غصے سے متغیر ہوگیااور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں پہلے حضرت علی کے فضائل اور ان کے انصاف پسند ی کی تعریف کی ۔ بعدہ ارشاد فرمایا کہ من کنت مولاہ، فعلی مولاہ کہ میں جس کا محبوب ہوں، علی بھی اس کے محبوب ہیں، اور جو علی سے دشمنی رکھے، وہ میرا بھی دشمن ہے۔ حضرت بریدہ کا ہی بیان ہے کہ 
عَنْ بُرَیْدۃَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْیَمَنَ فَرَأَیْتُ مِنْہُ جَفْوَۃً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلی رَسُولِ اللہِ صَلی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذکَرْتُ عَلِیًّا فَتَنَقَّصْتہُ، فَرَأَیْتُ وَجہَ رَسُولِ اللہِ صَلی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَتَغَیَّرُ فَقَالَ: یَا بُرَیْدَۃُ أَلَسْتُ أَوْلی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ؟ قُلْتُ: بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ. قَالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ (مسند احمد ، حدیث بریدۃ الاسلمی)
المختصر تاریخی شہادت کے مطابق غدیرخم کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی کے متعلق لوگوں کی غلط فہمی کو دور کیا۔ پھر قافلہ یہاں سے روانہ ہوا اور جب روحا پہنچے، تو گھڑسواروں کا ایک گروہ آیا۔ اس میں سے ایک عورت چھوٹے بچے کو لے کر نکلی اور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا اس پر بھی حج ہے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں اس پر حج ہے اور اسے حج کرانے پر تمھیں ثواب ملے گا۔
اس کے بعد تقریبا ۴؍ دن بعد ذو الحلیفہ پہنچے۔ یہاں رات قیام فرمایا اور صبح کے وقت معرس کے راستے سے مدینہ میں داخل ہوئے ۔ اس وقت زبان اقدس و اطہر پر یہ کلمات جاری تھے کہ آئبون، تائبون، عابدون،ساجدون، لربنا حامدون۔
مآخذ: حجۃ الوداع و جزء عمرات النبی ﷺ ، مصنفہ حضرت علامہ شیخ زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ ۔