19 Sept 2018

Talaaq: Legal Reform Nahi Social Reform ki Zaroorat hi

طلاق:لیگل ریفارم نہیں؛ سوشل ریفارم کی ضرورت ہے
شریعت لاء کے مطابق بارہ مصالحتی مراحل سے گذرنے کے بعد ہی تین طلاق تک معاملہ پہنچتا ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاسلام سے پہلے کے نکاح پر ایک نظر
دین فطرت آنے سے پہلے لوگوں میں چار قسم کے نکاح رائج تھے: 
(۱) ایک طریقہ تو وہی تھا، جو آج شرعی طریقہ ہے کہ لڑکا لڑکی کے ذمہ دار حضرات کے توسط سے نکاح انجام پاتا ہے۔ 
(۲) دوسرا نکاح ’ استبضاع‘ تھا۔ اس کی شکل وہی تھی، جو غیر مسلموں میں نیوگ کی صورت ہے کہ اولاد حاصل کرنے کے لیے ، یا اعلیٰ نسب کی اولاد پانے کے لیے اپنی بیوی کو دوسرے کے پاس بھیج دیتے تھے۔ 
(۳) تیسرا طریقہ یہ تھا کہ دس پانچ مردوں کا ایک گروہ کسی عورت سے ہمبستر ی کرتا۔ اگر وہ عورت حاملہ ہوجاتی تو بچہ کی پیدائش کے بعد ان سبھی کو بلاتی ۔ اور دستور کے مطابق ہر شخص کو آنا ضروری تھا۔ پھر وہ اس محفل میں کسی ایک کا بچہ ہونے کا اعلان کرتی۔ یہی اعلان اس سے نسب ثابت ہونے کا ثبوت ہوتا اور وہ شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ 
(۴) چوتھا طریقہ وہ تھا، جو آج کل طوائف کی شکل میں موجود ہے۔ البتہ اس سے آگے یہ ہوتا کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوجاتا، تو تعلق رکھنے والے سبھی لوگوں کو جمع کرتی اور قیافہ شناسی کے ماہرین کے ذریعہ باپ کی نشاندھی کرائی جاتی۔ یہ قیافہ شناس جس کا لڑکا بتادیتے، اسے تسلیم کیے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا۔ (۱)
نکاح کا ایک پانچواں طریقہ بھی تھا، جس کو ’متعہ ‘ کہاجاتا ہے۔ یہ ابتدائے اسلام میں روا تھا، لیکن جب اسلام نے تمام شرمناک طریقوں پر پابندی لگائی، تو اس نکاح پر بھی ہمیشہ کے لیے بندش لگا دی گئی۔ اور درج بالا طریقوں میں صرف پہلا طریقہ جائز و برقرار رکھا۔(۲)
اسلام سے پہلے طلاق 
کچھ قدیم مذاہب میں نکاح ایک اٹوٹ بندھن ہے،ہوگیا، تو ہوگیا، اب وہ کسی طرح سے ختم ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ نظریہ دراصل عورتوں کے حوالے سے اس نظریہ کیپیداوار ہے کہ ’عورت پرایا دھن ہوتی ہے‘۔ اسی وجہ سے ایسے لوگوں کے نزدیک نکاح میں عورت کو قبول کرنے کے بجائے ’دان ‘ کردیا جاجاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ نکاح کو ’’کنیہ دان ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ 
عرب میں طلاق کا رواج تو تھا، لیکن طلاق کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی، جس کی وجہ سے عورت ظلم و زیادتی کی شکار ہوتی تھی ، کیوں کہ اگر کوئی مرد اپنی کسی بیوی سے محبت نہیں کرتا تھا ، تواس کو ستانے کے لیے پہلے طلاق دے دیتے تھے اور پھر عدت گذرنے سے پہلے رجوع کرلیا کرتے تھے۔ اس طرح سے عورت نہ تو مکمل طور پر آزاد ہوکر دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی تھی اور نہ ہی اس مرد سے حقوق زوجیت حاصل ہوتے تھے۔ عورتوں پر اس ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے اسلام نے طلاق کی تعداد مقرر کردی اور اسے تین تک محدود کردیا کہ رجوع تین طلاق تک ہی کرسکتے ہیں، اس کے بعد نہیں کرسکتے۔ تفسیر عثمانی میں ہے کہ 
’’اسلام سے پہلے دستور تھا کہ دس بیس جتنی بار چاہتے، زوجہ کو طلاق دیتے، مگرعدت کے ختم ہونے سے پہلے رجعت کرلیتے۔ پھر جب چاہتے طلاق دیتے اوررجعت کرلیتے۔ اور اس صورت سے بعض شخص عورتوں کو اسی طرح بہت ستاتے ، اس واسطے یہ آیت اتری کہ طلاق جس میں رجعت ہوسکے، ، کل دو بار ہے۔ ایک یا دو طلاق تک تو اختیار دیا گیا کہ عدت کے اندر مرد چاہے تو عورت کو پھر دستور کے موافق رکھ لے یا بھلی طرح سے چھوڑ دے۔ پھر بعد عدت کے رجعت باقی نہیں رہتی۔ ہاں اگر دونوں راضی ہوں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ اور اگر تیسری بار طلاق دے گا تو پھر ان میں نکاح بھی درست نہ ہوگا، جب تک دوسرا خاوند اس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلیوے۔ (البقرۃ،آیت نمبر: ۲۲۹)
اسلامی ہدایت
طلاق و عدت کے بارے میں اصولی ہدایت یہ ہے کہ مرد و عورت کے درمیان جو رشتہ قائم ہوگیا ہے، اسے ہمیشہ برقرار رکھے اور اس رشتہ محبت پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دے۔ لیکن اگر بتقاضائے بشریت ، یہ رشتہ نفرت و تلخی میں بدل جائے تو اس کی اصلاح کے لیے تین پروسیس ہیں:
پہلا پروسیس
(۱) سب سے پہلے ، میاں بیوی خود مل کر اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کریں اور آپس میں کچھ ٹرم اینڈ کنڈیشن طے کرکے رشتہ کو دوبارہ بحال کریں۔
دوسرا پروسیس 
(۲) لیکن اگر یہ نہ ہوپائے اور دونوں کسی مشترک اور متحدہ پوائنٹ پر جمع نہ ہوسکیں، تو پھر لڑکے کے لیے تین صورتیں ہیں: 
(۱) سب سے پہلے عورت کو سمجھائے بجھائے۔ اگر اس سے معاملہ ٹھیک ہوجاتا ہے تو بہت بہتر ہے۔ اگر نہیں ہوتا ہے تو پھر دوسرا طریقہ یہ اختیار کرے کہ 
(۲) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ یہ عورت کے لیے انتہائی دشوار مرحلہ ہوتا ہے اور بالعموم عورتیں نافرمانی سے باز آجاتی ہیں، لیکن اگر معاملہ اس سے بھی زیادہ بگڑ چکا ہے، تو تیسرا طریقہ یہ ہے کہ 
(۳) عورت کی ہلکی سرزنش کرے۔ یہ اصلاح کا آخری حربہ ہے ۔ اگر سرزنش کے خوف سے معاملہ ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے، تو بہت اچھا ہے، لیکن معاملہ یہاں بھی نہیں سدھرتا ہے تو پھر آگے دو صورتیں ہیں: 
(الف) یا تو یہ معاملہ زوجین کے بجائے ان کے سرپرست حضرات حل کریں اور صلح کی مکمل کوشش کریں۔ اگر سرپرستوں سے معاملہ حل ہوجاتا ہے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات استوار ہوجاتے ہیں، تو بہت بہتر ہے۔ لیکن اگر سرپرستوں سے بھی معاملہ حل نہیں ہوتا تو
(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر کردیا جائے۔ اور ان دونوں حکموں کو فیصلہ کا مکمل اختیار دے دیا جائے۔ 
قرآن کا اعلان ہے کہ اگریہ حکم زوجین کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں گے، تو اللہ ان کی پرخلوص نیت اور اچھی کوشش سے ضرور موافقت پیدا کردیں گے۔(۳) 
تیسرا پروسیس
(۳) اگر بالفرض درج بالا چھ شکلیں(۱۔ زوجین کی آپسی مصالحت۔ ۲۔ عورت کو نصیحت۔ ۳۔عورت کے بستر سے علاحدگی۔ ۴۔ عورت کی ہلکی سرزنش۔ ۵۔ سرپرستوں کی مصالحت۔ ۶۔ حکمین کی مصالحت) بھی کار گر نہیں ہوتی ہیں۔ تو یہاں سے تیسرا پروسیس شروع ہوتا ہے ۔ اس کی دو شکلیں ہیں: 
(الف)ایک شکل تو یہ ہے کہ اگر یہ ساری پریشانی شوہر کے لیے بیوی کی طرف سے ہے، تو شوہر بیوی کی اصلاح حال کے لیے اس وقت ایک طلاق دے جب وہ پاکی کی حالت میں ہو اور اس پاکی کی حالت میں اس سے ہمبستری نہ کی ہو۔ اور تین مہینے کے اندر اندر بیوی کے سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ میری وجہ سے میرا شوہر پریشان ہے ، مجھے اپنی عادتوں سے باز آجانا چاہیے۔ یا شوہر کو یہ احساس ہوجائے کہ شاید غلطی ہماری ہی ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو عدت کے اندر رجوع کرلے اور ایک خوشگوار محبت بھری زندگی گذارے۔ 
پھر کبھی پانچ دس سال گذرنے کے بعد دونوں میں اختلافات ہوتے ہیں ، تو پھراسی طرح درج بالا چھ طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے صلح و مصالحت کی کوشش کی جائے گی ۔ لیکن بالفرض ان سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوتا ہے ، تو پھر شوہر اپنی بیوی کو اس پاکی کی حالت میں ، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے، ایک طلاق دے گا۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے گا۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں دوبارہ مصالحت کرکے محبت آمیز زندگی کی شروعات کرنی چاہیے، تو عدت کے اندر شوہر رجوع کرلے ۔ اور محبت بھری زندگی کی نئی شروعات کرے۔ 
زندگی یوں ہی ہنسی خوشی گذرتے گذرتے بالفرض اگر پھر اختلاف ہوجاتا ہے ، تو اصلاح حال کے لیے پھر درج بالا چھ صورتوں کو اپنایا جائے گا۔ مان لیجیے کہ اگر ان سے بھی مصالحت نہیں ہوپاتی ہے اور مصالحت کے لیے کوئی راہ نہیں بچتی،تو چوں کہ اس سے پہلے دو دو بار یہ سارے طریقے ناکام ہوچکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصالحت کی بارہ کوششیں ناکام ہوچکی ہیں،اس لیے فطری طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ شاید ان دونوں کی زندگی ایک ساتھ نہیں گذر سکتی، اس لییایسی زندگی کو الجھنوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے لڑکا تیسری طلاق دیدے۔ 
تین طلاق پورے ہونے کے بعد نہ اب لڑکے کو اختیار رہے گا کہ عدت کے اندر پھر رجوع کرکے عورت کو زندگی کو جہنم بنائے ۔ اور نہ لڑکی کے لیے گنجائش ہے کہ جس مرد نے اس کو دو دو مرتبہ اسے زندگی سے نکالنے کی کوشش کی، پھر تہ بارہ اسی کی زندگی کی زینت بنے ۔ اب لڑکا بھی کسی دوسری عورت سے شادی کرکے اپنی زندگی کی دوسری شروعات کرے اور لڑکی بھی کسی دوسرے شریک سفر کو اپنا ہم سفر بناکر خوشگوار زندگی گذارے۔ 
(ب)دوسری شکل یہ ہے کہ اگر معاملہ الٹا ہو، یعنی شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن بیوی ہی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو ایسا نہیں ہے کہ عورت مرد کی زندگی سے بالکل بھی آزاد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خلع کی پیشکش کرے، یعنی شوہر سے کچھ مال کے عوض میں طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر منظور کرلے گا، تو بذریعہ خلع طلاق واقع ہوجائے گی۔ (۴) 
حلالہ کی حقیقت
تیسری طلاق دینے کے بعد مرد کو تو بالکل اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لائے، کیوں کہ اگر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی ہے، پھرتو مردبالکل نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگرطلاق کے بعد کسی کی زوجیت میں نہیں گئی ہے، تو بھی مرد نکاح نہیں کرسکتا، کیوں جس مرد کو قانون فطرت نے طلاق کے مرحلے سے پہلے پہلے بارہ مرتبہ موقع دیا اور اس کے باوجود بھی اس عورت کی قدر نہیں کی، تو اب تین طلاق دینے کے بعد یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مرد ہی اس عورت کے قابل نہیں ہے۔ 
لیکن اگر عورت ہی کی یہ خواہش ہے کہ چلو جیسا بھی تھا، ہم نے زندگی کی شروعات اس کے ساتھ کی تھی ، تو اختتام بھی اسی کے ساتھ کریں گے، تو صرف عورت کے لیے شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ تم پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرو، پھر اس کے ساتھ زندگی اتنی دوبھر ہوجائے کہ مذکورہ بالا تینوں پروسیس سے گذرنے پر مجبور ہوکر تیسری طلاق تک نوبت آجائے ۔ اور تیسری طلاق دیدے، تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہو۔ اسی کو شریعت میں حلالہ کہاجاتا ہے۔ تو گویا حلالہ کوئی نکاح نہیں، بلکہ معاملہ کو سلجھانے کے ایک پروسیس کا نام ہے، جو صرف اور صرف عورت کا حق و اختیار ہے۔ (۵) 
طلاق کا موجودہ رویہ
لیکن آج طلاق کے حوالے سے ہمارا رویہ یہ ہے کہ جب کسی بات پر غصہ آتا ہے تو ہم انجام کو سوچے بغیر یکبارگی تینوں طلاق دے ڈالتے ہیں، جس سے کئی قسم کے خانگی مسائل جنم لے لیتے ہیں۔ طلاق دینے کے اس طریقے کو طلاق بدعت کہاجاتا ہے۔ ایک طرف جہاں اس عورت کی زندگی اندھیرے میں چلی جاتی ہے، وہیں دوسری طرف بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے اور خاندان انھونی مشکلات سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک پاک رشتے کی وجہ سے جن دو خاندانوں میں الفت و محبت کا رشتہ قائم ہوا تھا، وہ نفرت و عداوت میں بدل جاتا ہے ۔ 
غیروں کا اعتراض
اس صورت حال کو دیکھ کر ہمارے غیر مسلم یہ اعتراض کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ایک عورت جس نے اپنے والدین کاسب کچھ چھوڑ کر اپنی مکمل زندگی جس مرد کے حوالے کیا اور ہمہ وقت اس کی ، اس کے گھر کی ، اس کے بچوں کی اور اس کے ماں باپ کی خدمت میں لگی رہی، محض تین مرتبہ طلاق کا لفظ بولنے سے یکبارگی یہ سب چیزیں کیسے ختم ہوجائیں گی؟ یہ نقطہ نظر اس نیتجے تک پہنچاتا ہے کہ تین طلاق عورتوں پر ظلم اور نا انصافی ہے، لہذا مسلم مہیلاوں کے ساتھ یہ ناانصافی بند ہونی چاہیے۔ چنانچہ موجودہ بی جے پی کی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف طوفان بد تمیزی مچاتے ہوئے اس مسئلے کو اولیت دے کر پارلیمنٹ میں ایک ڈرافٹ بل پیش کیا ۔ اس کا اردو ترجمہ ہمارے رفیق محترم مولانا عظیم اللہ صاحب قاسمی صدیقی میڈیا انچارج جمعیۃ علماء ہند نے کیا ہے، ان کے شکریہ کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔
(۱) بل کا مقصد 
شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان کے شوہر کے ذریعہ دی جانے والی طلاق کی روک تھام اورمطلقہ خواتین کو ان حقوق فراہمی جو ری پبلک آف انڈیا کی ۶۸؍ سالہ مدت میں پارلیامنٹ کے ذریعہ طے کیے گئے ہیں۔
باب (۱)
پارلیامنٹری 

سیکشن۱۔ ۱۔اس قانون کو ’’مسلم خواتین (تحفظِ حقوق نکاح) ایکٹ۲۰۱۷ ء کہا جائے گا۔
۲۔ یہ جمو ں وکشمیر کے علاوہ تمام ریاستوں میں نافذ ہو گا۔
۳۔یہ مرکزی حکومت کے ذریعہ سرکاری گزٹ میں جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے تحت طے کردہ تاریخ سے نافذ ہو گا۔
سیکشن۲۔ توضیح:
اس قانون میں ذکرکردہ الفاظ کے درج ذیل معنی ہوں گے چاہے دوسری جگہ جو بھی معنی ہو۔
(الف) ’’الیکٹرانک فارم‘‘Electronic formکا معنی یہاں بھی وہی ہے جو آئی ٹی ایکٹ۲۰۰۰ء کے سیکشن (۲) کے ذیلی سیکشن (۱) میں موجود ہے۔
(ب) طلاق Talaqکامطلب ’’طلاق بدعت ’’ہے یا اس جیسی طلاق جوفوری طور سے اثر انداز ہوتی ہے اور ایسی ناقابل ترمیم طلاق جو کسی مسلم شوہر نے دی ہو۔
(ج) ’’مجسٹریٹ‘‘ Magistrate کا مطلب فرسٹ کلاس کا مجسٹریٹ جو کہ کریمنل پروسیزر۱۹۷۳ء کے تحت اس علاقہ میں مقرر ہو جہاں متعلقہ شادی شدہ خاتو ن رہتی ہے۔ 
باب (۲) 
طلاق کا اعلان غیر قانونی اور غیر موثر ہو گا۔ 
سیکشن۳۔ کسی بھی شخص کے ذریعہ اپنی بیوی کو دی گئی کوئی بھی طلاق، چاہے وہ لفظ کے ذریعہ ہو، یا بولی گئی ہو یا لکھی گئی ہو یا الیکٹرونک شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں ہو، غیر موثر اور غیر قانونی ہو گی ۔
سیکشن۴۔ سیکشن۳ کی تشریح کے مطابق ’’طلاق‘‘ جو شخص بھی اپنی بیوی کو دے گا، اسے تین سال کی قیداور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔
باب (۳) 
شادی شدہ مسلم خواتین کے حق کا تحفظ 
سیکشن ۵۔ کسی بھی نافذ العمل قانون میں شامل ہدایات کی عمومیت سے قطع نظر،ایسی مسلم شادی شدہ خاتون جسے طلاق دی گئی ہے، وہ اپنے اور اپنے زیر کفالت بچے کے لیے گزارہ خرچ لینے کی حق دار ہو گی، جس کی مقدار مجسٹریٹ کے ذریعہ طے کی جائے گی۔
سیکشن۶۔ نافذ العمل کسی بھی قانون میں شامل کسی امر کے باوجود،طلاق دیے جانے کی صورت میں، عورت اپنی نابالغ اولاد کی کسٹڈی کی حق دار ہو گی،اسی طرح سے جیسا کہ مجسٹریٹ طے کردے۔
سیکشن ۷۔ کریمنل پروسیز ر ایکٹ ۱۹۷۳ء میں شامل کسی بھی بات کے باوجود،اس ایکٹ کے تحت کیا گیا کوئی بھی جرم مذکورہ کوڈ کے مفہوم کے مطابق قابل گرفت (یعنی بغیر گرفتاری وارنٹ) اور ناقابل ضمانت ہو گا۔
قانون سازی کے اسباب و عوامل 
سائرہ بنام حکومت ہند اور دیگر کے مسئلے میں ۲۲؍اگست ۲۰۱۷ء کو 3۔2کے اپنے اکثریتی فیصلہ میں طلاق بدعت (تین طلاق جو ایک بار میں اور ایک وقت میں دی جائے) کو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا تھا۔اس فیصلے نے مسلم خواتین کو طلاق کے اس وحشیانہ طریقہ عمل سے نجات دلایاجس میں مصالحت کی کوئی راہ نہیں بچتی تھی۔
۲۔ مذکورہ عرضی گزار(خاتون) نے چیلنج کیا تھا کہ بہت ساری دشواریو ں کے علاوہ’طلاق بدعت‘ کا عمل عورت کی عزت کے خلاف اور تفریق پر مبنی ہے۔اس فیصلے نے حکومت کے اس موقف کو بھی ثابت کردیا کہ ’طلاق بدعت‘ ’جنسی مساوات کے اصول،عورت کی عزت اور دستوری اخلاقیات کے خلاف ہے۔اس کے علاوہ دستور کے تحت دیے گئے جنسی مساوات سے متعلق حقوق کے بھی خلاف ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو کہ مذکورہ مقدمہ میں فریق نمبرسات تھا،اپنے حلفیہ بیان میں دیگر باتوں کے علاوہ،اس نے اس بات کو پیش کی تھی کہ طلاق بدعت جیسے مذہبی مسائل میں عدالت کو فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے لیکن یہ کام مقننہ کا ہے کہ وہ اس مسئلہ پر قانو ن بنائے۔اس نے سپریم کورٹ میں یہ عرضی بھی داخل کی تھی کہ وہ اس عمل کے خلاف مسلم طبقہ کے ممبران کو ایڈوائزری جاری کرے گا۔
۳۔سپریم کورٹ کے ذریعہ طلاق بدعت کو منسوخ کیے جانے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے یقین دلانے کے باوجود، طلاق بدعت دیے جانے سے متعلق ملک کے مختلف حصوں سے شکایتیں مل رہی ہیں۔یہ دیکھا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کا طلاق بدعت سے متعلق کیا گیا فیصلہ بعض مسلمانوں کے درمیا ن طلاق دہی کی اعداد و شمار کو روکنے میں کارگر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔اسی وجہ سے یہ محسوس کیا گیا کہ سرکار، سپریم کورٹ کے فیصلہ کو موثر بنانے کے لیے اقدام کرے تاکہ غیر قانونی طلاق کے ذریعہ متاثرہ خواتین کو درپیش مشکلات کا حل نکلے۔
۴۔ بے یارو مددگار شادی شدہ خواتین کے ساتھ مسلسل ہورہی اذیتوں کو روکنے اور انھیں راحت دینے کے لیے فوری طور سے قانون سازی کی ضرور ت ہے۔ یہ بل، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق طلاق بدعت کو غیر قانونی و غیر موثر قرار دینے کی تجویز پیش کرتا ہے۔مزید تین طلاق دینا ایک قابل سزا جرم ہو۔ یہ ایسی طلاق کے عمل کو روکنے میں معاون ہو گا جس میں علاحدگی کے دوران عورت کچھ نہیں کہہ سکتی۔اس بات کی بھی تجویز پیش کی جاتی ہے کہ تین طلاق دیے جانے کی صورت میں ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے عورت کو شوہر سے گزارہ بھتہ مہیا کرایا جائے، خود اس کے لیے اور اس کے زیر کفالت بچوں کے لیے اور بیوی کو نابالغ اولا د کی کسٹڈی کا بھی حق ہو۔
۵۔ یہ قانون، شادی شدہ خواتین کے جنسی مساوات او رجنسی انصا ف کے دستوری حق کو وسیع حد تک یقینی بنانے میں معاون ہو گا۔ یہ قانون ناانصافی کے خاتمہ اور عورت کو مضبوط کرنے کے لیے بنیادی حق میں بھی کچھ تک معاو ن ہو گا۔(روی شنکر پرشاد)
ایکٹ میں ترمیم و منظوری
آج بتاریخ ۱۹؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کو بی جے پی کی کابینہ نے اس آرڈینینس کو منظوری دیتے ہوئے تین ترمیمات بھی کی ہیں:
ایک ترمیم: پہلے یہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں کوئی بھی، حتیٰ کہ پولیس بھی کیس درج کراسکتی تھی،لیکن اب نئے ترمیم کا کہنا ہے کہ اب صرف متاثرہ خاتون، یا اس کا سگا رشتہ دارہی کیس درج کراسکتا ہے۔ 
دوسری ترمیم:پہلیپولیسپیشگی گرفتاری وارنٹ جاری کیے بغیرطلاق دینے والے کو گرفتاری کر سکتی ہے، لیکن اب نئی ترمیمکے مطابق مجسٹریٹ کو ضمانت دینے کااختیار ہے۔
تیسری ترمیم: پہلیکیس درج ہونے کے بعد زوجین کو مصالحت کرنے کا اختیار نہیں تھا،لیکن اس جدید ترمیم میں یہ کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ کے سامنے شوہر اور بیوی مصالحت کرسکتے ہیں۔ 
ایکٹ پر ایک نظر
اس ایکٹ کے باب نمبر ۲؍ سیکشن ۳؍ اور سیکشن ۴؍ کے مطابق کوئی بھی طلاق دی جائے ، وہ واقع نہیں ہوگی، اس کے باوجود محض طلاق کا لفظ کہہ دینے سے تین سال کی قید اور ساتھ میں جرمانہ بھی لگایا جائے گا۔ اس حوالے سے سماجی حالات اور بشری نفسیات کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر غور کیا جائے تو اس میں کئی طرح کی خامیاں نظر آئیں گی: 
(۱) جس طرح نکاح فطرت کی آواز ہے، اسی طرح بعض حالات میں طلاق بھی ایک ضرورت ہے۔ اس پر مکمل پابندی لگادی جائے گی تو مردوں اور عورتوں ؛ بالخصوص عورتوں کے لیے لامتناہی ظلم کا وہی دروازہ دوبارہ کھل جائے گا، جو لاتعداد طلاق و رجوعکے نام سے قبل ازاسلام زمانہ جاہلیت کی شناخت تھی اور جسے اسلام نے آکر بند کیا تھا۔ 
(۲) اگرخونی رشتے: ماں باپ کی طرح نکاح کو بھی ناقابل شکست رشتہ قرار دیا جائے، تو بسااوقات مرد و عورت دونوں کے لیے زندگی جہنم بن سکتی ہے۔ کیوں کہ اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر غیر کفو میں رشتہ ہوگیا اور دونوں میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی تو زندگی بھر دونوں ایک دوسرے کے لیے زندگی کا عذاب بن جائیں گے، تو جس رشتہ کی نیو محبت و الفت کے لیے رکھی جاتی ہے، وہ نفرت و عداوت کا سرچشمہ بن جائے گا ۔ اور اس کا علاج اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے کہ دونوں میں علاحدگی کا بھی آپشن رکھا جائے ۔ اور اسی کا نام طلاق ہے۔ 
(۳)خود سیکشن ۴؍ ، سیکشن ۳ ؍ کے متضاد مفہوم پر مشتمل ہے، کیوں کہ سزا کے لیے جرم کا ثبوت ضروری ہے۔ جرم طلاق کا وقوع ہے ، جو تفریق پر منتج ہے۔ اور جب سیکشن ۳؍ کے مطابق طلاق واقع ہی نہیں ہوگی، تو تفریق کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اور جب تفریق نہیں پائی گئی، تو جرم کا ثبوت نہیں ہوا۔ اور جب جرم ہی ثابت نہیں ہوا تو پھر تین سال کی قید اور مزید برآں سزا کا کیا جواز ہوسکتا ہے!۔ 
(۴) دوسری حیثیت سے بھی غور کیجیے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، جو خود قانون کی رو سے واقع نہیں ہوئی، اس کے باوجود شوہر کو تین سال کی قید کی سزا سناکر مقید کردیا گیا۔ اب تین سال کے بعد شوہر اپنے گھر آتا ہے تو کیا ایسا شوہر اپنی بیوی کو آتے ہی کہے گا کہ ’’ میڈم ! آئی لو یو‘‘ ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کی وجہ سے مجھ تین سال کی قید ہوگئی۔ پھر آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی بیوی کے ساتھ آگے کی زندگی میں شوہر کا کیا رویہ ہوگا!۔
(۵) پھر اس اعتبار سے بھی سوچیے کہ جس عورت کی وجہ سے اس کا بیٹا جیل چلا جائے، کیا وہ ساس اور سسرال کے دیگر افراداس عورت کو قبول کرسکیں گے۔ اگر بالفرض برداشت بھی کرلیں گے تو اس گھر میں اس عورت کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے گا، یہ کہنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ 
(۶) اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ قید کے ان تین سالوں کے دوران ، بیوی، بچوں اور شوہر کے والدین کی کفالت کا ذمہ دار کون ہوگا۔ 
پھر صحیح راستہ کیا ہے
آپ نے اسلام سے پہلے اور دیگر مذاہب کے نکاح و طلاق دونوں کا مطالعہ کرلیا۔ اور پھر اسلام نے ان میں کیا کیا اصلاحات کیں، وہ بھی آپ نے پڑھ لیا ، اور یہ بھی آپ نے پڑھ لیا کہ اسلام میں میاں بیوی کے درمیان تفریق تک پہنچنے تک کے لیے تقریبا بارہ مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، پھر تینوں طلاق کی نوبت آتی ہے۔اگر اسلام کے بتائے اس طریقے کے مطابق طلاق دی جائے تو راقم کا عندیہ ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی طلاق واقع ہوگی۔ کیوں کہ ناچیز کی معلومات کے مطابق آج تک کوئی ایک کیس بھی دیکھنے سننے یا پڑھنے کو نہیں ملا کہ جس نے شریعت کے صحیح طریقے کے مطابق طلاق دی ہو اور پھر وہ تفریق کے مرحلے تک پہنچ گیاہو؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ تفریق کا یہ اسلامک لیگل سسٹم اتنا فطری اور انسانی نفسیات سے ہم آہنگ ہے کہ یہاں تک مرد و عورت اسی وقت پہنچ سکتے ہیں کہ جب دونوں کی مشترکہ زندگی ناقابل برداشت ہوجائے۔ برداشت اور مصالحت کی ذرا بھی گنجائش باقی رہے گی تو تینوں طلاق کی نوبت نہیں آسکتی۔ 
لیکن۔۔۔ چوں کہ ہمارا طریقہ شرعی طریقہ سے مختلف ہوگیا ہے، اس لیے آج معاشرہ میں دھڑا دھڑ طلاقیں ہور ہیں اور مرد و عورت دونوں کی زندگیاں جہنم کدہ بن رہی ہیں، ایسی صورت حال میں کسی لیگل ریفارم کی نہیں، کیوں کہ لیگل ریفارم کی جتنی ضرورت تھی، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام کرچکا ہے؛ بلکہ سوشل کی ریفارم کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر زندگی عذاب بن جائے تو اسلام اسے کس طرح حل کرنے کا فارمولہ پیش کرتا ہے ،اس فارمولہ پر عمل کیا جائے، تبھی عورتوں کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا۔ 
لیکن اس کے بجائے اگر لیگل ریفارم کی کوشش کی جائے گی تو یہ فطری قانون سے ٹکرانے کے مترادف ہوگی، جس میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی۔ 
مآخذو مصادر
(۱)
أَنَّ النِّکَاحَ فِي الجَاھِلِیّۃِ کَانَ عَلَی أَرْبَعَۃِ أَنْحَاءٍ: فَنِکَاحٌ مِنْھَا نِکَاحُ النَّاسِ الیَوْمَ: یَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلی الرَّجُلِ وَلِیَّتَہُ أَوِ ابْنَتہُ، فَیصْدِقُھَا ثُمَّ یَنْکِحُھَا، وَنِکَاحٌ آخَرُ: کَانَ الرَّجُلُ یَقُولُ لِامْرَأَتِہِ إِذَا طَھُرَتْ مِنْ طَمْثِھَا: أَرْسِلِي إِلَی فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْہُ، وَیَعْتَزِلُھَا زَوْجُھَا وَلاَ یَمَسُّھَا أَبَدًا، حَتَّی یَتَبَیَّنَ حَمْلُھَا مِنْ ذَلِکَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْہُ، فَإِذَا تَبَیَّنَ حَمْلُھَا أَصَابَھَا زَوْجُھَا إِذَا أَحَبَّ، وَإِنَّمَا یَفْعَلُ ذَلِکَ رَغْبَۃً فِي نَجَابَۃِ الوَلَدِ، فَکَانَ ھَذَا النِّکَاحُ نکَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ۔ وَنکَاحٌ آخَرُ: یَجْتَمِعُ الرَّھْطُ مَا دُونَ العَشَرَۃِ، فَیَدْخُلُونَ عَلَی المَرْأَۃِ، کُلّھُمْ یُصِیبُھَا، فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ، وَمَرَّ عَلَیھَا لَیَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَھَا، أَرْسَلَتْ إِلَیھِمْ، فَلَمْ یَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْھُمْ أَنْ یَمْتَنِعَ، حَتّی یَجْتَمِعُوا عِنْدَھَا، تَقُولُ لَھُمْ: قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي کَانَ مِنْ أَمْرِکُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ، فَھُوَ ابْنُکَ یَا فُلاَنُ، تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِہِ فَیَلْحَقُ بِہِ وَلَدُھَا، لاَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَمْتَنِعَ بِہِ الرَّجُلُ، وَنِکَاحُ الرَّابِعِ: یَجْتَمِعُ النَّاسُ الَثِکیرُ، فَیَدْخُلُونَ عَلَی المَرْأۃِ، لاَ تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَھَا، وَھُنَّ البَغَایَا، کُنّ یَنْصِبْنَ عَلَی أَبْوَابِھِنَّ رَایَاتٍ تَکُونُ عَلَمًا، فَمَنْ أَرَادَھُنَّ دَخَلَ عَلَیْھِنَّ، فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاھُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَھَا جُمِعُوا لَھَا، وَدَعَوْا لَھُمُ القَافَۃَ، ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَھَا بِالَّذِي یَرَوْنَ، فَالْتَاطَ بِہِ، وَدُعِيَ ابْنَہُ، لاَ یَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِکَ ، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالحَقِّ، ھَدَمَ نِکَاحَ الجَاھِلِیَّۃِ کُلَّہُ إِلَّا نِکَاحَ النَّاسِ الیَوْمَ۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب من قال لانکاح الا بولی)
(۲)
ان علیا قال لابن عباسؓ : ان النبی ﷺ نھیٰ عن المتعۃ عن لحوم الحمر الاھلیۃ زمن الخیبر۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب نھیٰ رسول اللّٰہ ﷺ عن نکاح المتعۃ اخیرا۔ 
(۳)
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَھُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِھِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللَّہُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَھُنَّ فَعِظُوھُنَّ وَاھْجُرُوھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوھُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْھِنَّ سَبِیلًا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیرًا(۳۴) وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوا حَکَمًا مِّنْ أَھْلِہِ وَحَکَمًا مِّنْ أَھْلِھَا إِن یُریدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللَّہُ بَیْنَھُمَا إِنَّ اللّہََ کانَ عَلِیمًا خَبِیرًا (۳۵) النساء)
(۴)
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَیْتُمُوھُنَّ شَیْءًا إِلَّا أَنْ یَخَافَا أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللَّہِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللَّہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیہِ مَا فِيمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلکَ حُدُودُ اللَّہِ فَلَا تَعْتَدُوھَا وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اللّہِ فَأُولَئکَ ھُمُ الظَّالِمُونَ۔ (البقرۃ، ۲۲۰)
(۵) فَإِن طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لہُ مِن بَعْدُ حَتّیٰ تَنکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، فَإِن طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیھِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیمَا حُدُودَ اللّہِ ، وَتِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ، (البقرۃ، ۲۳۰)

Paaki ka Bayaan

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمدُ للّٰہِ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین، و علیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۔
پاکی کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (1) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
جہاں نماز کے مسائل کا جاننا ضروری ہے، وہاں طہارت کے مسائل کا جاننا بھی ضروری ہے۔ 
بدن اور کپڑے اور مکان کی صفائی اور اس کی پاکیزگی کا اہتمام مذہب اسلام نے جس قدر کیا ہے، اس کی مثال کوئی مذہب پیش نہیں کرسکتا ہے۔ پاکیزگی کو مذہب اسلام نے جزو ایمان قرار دیا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا:
اَلطہورُ شطرُالایمان: الحدیث (رواہ مسلم عن مالک الاشعری )
پاکیزگی جزو ایمان ہے۔
جزو ایمان ہی نہیں۔ بلکہ نصف ایمان ہے۔ چنانچہ سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الطہور نصف الایمان(رواہ الترمذی عن رجل من بنی سلیمٖؓ وقال ھٰذا حدیث حسن) زجاجہ ص۶۸۔
پاکی آدھا ایمان ہے۔اس کے بغیر مسلمانوں کی اہم عبادت جو نماز ہے جو حصول جنت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، بغیر طہارت صحیح نہیں ہوتی ۔چنانچہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا :
مفتاحُ الجنۃِ الصلوٰۃُ و مفتاحُ الصلوٰۃِ الطہورُ(رواہ احمد عن جابر)زجاجہ ص۶۷
جنت کی کنجی نماز اور خود نماز کی کنجی طہارت ہے۔
طہارت پاکی حاصل کرنے کو کہتے ہیں اور پاکی نجاست ہی سے حاصل کی جاتی ہے اس لیے پہلے نجاست سے بحث کی جاتی ہے۔
نجاست کا بیان
نجاست گندگی اور ناپاکی کو کہتے ہیں اس کی دوقسمیں ہیں: حقیقیہ اور حکمیہ۔
بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اس کا خون وغیرہ کا گندہ اور ناپاک ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، اسی کو نجاست حقیقیہ کہتے ہیں۔ اور بعض چیزیں ہیں جن کا گندہ اور ناپاک ہونا ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ہیں، کیوں کہ اس پر ظاہری نجاست نہیں ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ناپاک قرار دیا ہے، جیسے بدن کا ناپاک ہونا، اس وجہ سے نہیں کہ اس پر ناپاکی لگی ہے؛ بلکہ اس وجہ سے کہ وضو یا غسل کی حاجت ہے، اسی کو نجاست حکمیہ کہتے ہیں۔
قسط نمبر (1) کے لیے کلک کریں

16 Sept 2018

Moharram ki jharni

محرم کی جھرنی
محمد یاسین قاسمی جہازی
قسط (2)
گیت نمبر ۴ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت قاسم ہاتھ میں قرآن لے کر آرہے ہیں اور علیٰ الصباح حضرت زینب بھی آرہی ہیں، جن کے ہاتھ میں رومال ہے۔ حضرت سکینہ قرآن پڑھی رہی ہیں اور شادی کی تمنا دل میں جاگ رہی ہے ۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ ہمیں فرات ندی کے کنارے لے چلو، کیوں کہ آج بڑی قتل یعنی یوم شہادت حسین کی رات ہے اور چوں کہ آج رینی رات ہے، اس لیے سبھی حسینیوں کو مل کر رہنا چاہیے۔ 
پانچ نمبر گیت کہا گیا ہے کہ میدان جنگ کے بیچ سات شیطانوں نے دونوں بھائیوں کو گھیرلیا ہے ۔ حضرات حسنین اللہ اور اس کے رسول کا نام لے رہے ہیں ۔ اور جس طرح کیلا کاٹا جارہا ہے، اسی طرح دونوں بھائی شیطانوں کو میدان جنگ میں کاٹ رہے ہیں اور خون کی دھاریں پھوٹ رہی ہیں۔ 
گیت نمبر ۶ میں کئی سوالات و جوابات ہیں کہ حضرت حسین کی قبر اینٹ کی بنائی گئی ہے اور دودھ سے پوتائی کی گئی ہے ، اسے ریشم کے رومال کی چادر اوڑھائی گئی ہے ۔ اور لسان( جھنڈا) میں بانس اور کپڑا لگایا گیا ہے۔ یہ درگاہ میدان جنگ کے بیچ میں ہے۔ 
آخری گیت کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ میں چوڑیاں اور سر پر اوڑھنی اچھی لگتی ہے، لیکن جب میرا سید میدان جنگ میں گیا ہے تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ بیوی پلنگ پر اچھی لگتی ہے ۔ ایک گھر ہے، جس میں پھول کے بستر لگے ہیں۔ اگر کسی کو نماز پڑھنی ہے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔ 
آپ نے گیت اور ان کی تشریحات دونوں کو پڑھ لیا، جس سے بالیقین آپ بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہوں گے، جس نتیجہ پر راقم پہنچاہے، وہ نتیجہ و خلاصہ پیش خدمت ہے: 
(۱) یہ قبائلی گیت سراسر فرضی اوردیو مالائی داستان کے عکس ہیں، جن میں نہ واقعیت ہے اور نہ صداقت ۔ 
(۲) ان کہانیوں کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ کربلا کی کچھ پرچھائیاں ضرور پائی جاتی ہیں۔ 
(۳) گیت کے بعض بندوں میں شرکیہ کلمات بھی ہے ، جیسے کہ گیت نمبر ایک کی لائن نمبر ۲۹؍ میں دولہن یہ کہتی ہے کہ میرا بھائی سورج دیو سے مانگا ہوا ہے۔ یہ سراسر شرکیہ نظریہ ہے۔ 
(۴) یہ گیت بالعموم سنی مسلم لڑکیاں حضرت حسین سے عشق و شیفتگی میں گاتی ہیں اور ایصال ثواب کا ذریعہ سمجھتی ہیں، جو کہ سراسر گناہ اور مذموم حرکت ہے۔ 
قصہ مختصر یہ ہے کہ محرم کے موقع پر کھیلے جانے والے کھیل ’’جھرنی‘‘ کے گیت، طریق عمل اور کھیلنے والیوں کو دیکھا جائے تو اس کا جہاں اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہیں یہ سراسر قبیح اور مذموم عمل ہے۔یہ شیعی طرز فکر کے اثرات ہیں اور الحمد للہ اللہ نے آپ کو صحیح العقیدہ اہل سنت والجماعۃ کی صف میں شامل کیا ہے، اس لیے راہ مستقیم کو پانے پر اللہ کا شکر ادا کیجیے اور ہماری جو بچیاں جھرنی کھیلنے کے نام پر غول میں جاتی ہیں اور ایک طرف کفریہ کلمات گاتی ہیں، تودوسری طرف اخلاقی کمزوریوں کی بھی شکار ہوتی ہیں۔انھیں ’’محرم کی جھرنی‘‘ کھیل سے ہر ممکن دور رکھ کر اپنے گھر اور بچیوں کے اعلیٰ اقدار و کردار کو قائم و دائم رکھیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلائے۔ آمین۔ 

15 Sept 2018

Moharram ki Jharni

محرم کی جھرنی
محمد یاسین قاسمی جہازی
قسط (۱)


جہاز قطعہ و اطراف کے علاقوں میں ماہ محرم کی شروعات سے یوم عاشورہ تک عورتوں میں دس روز ہ کھیل کھیلنے کی قدیم رسم چلی آرہی ہے، جس کو وہاں کے عرف میں جھرنی کہاجاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مراہق بچیاں شام کو کچھ اندھیرا پھیلنے کے بعدایک جگہ جمع ہوتی ہیں اور گول دائرہ کا گروپ بناکر مخصوص گیت گاتی ہیں۔ گیت کے ساتھ بانس سے بنی جھرنیوں سے تال ملایا جاتا ہے۔ گیت کے ترنم ، جھرنی کی تان ،بدن کے تھرکنے اورصوتی ہم آہنگی میں اس قدر تناسب و توازن ہوتا ہے کہ دیکھنے سننے کے بعد ایک انجان شخص یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہ پائے گا کہ یہ کوئی گھریلو ، دیہاتی لڑکیاں نہیں؛ بلکہ یہ اس فن میں پروفیشنل ہیں، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی نیچرل مہارت ہے، جو از خود سیکھ لیتی ہیں اور ہر سال اس موقع پر اس کا مظاہرہ کرنا اپنا فریضہ سمجھتی ہیں۔ 
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ لڑکیاں، ماہ محرم کے اس دس روزہ کھیل میں اپنے کن جذبات کا اظہار کرتی ہیں اور ان کے گیتوں کا کیا پیغام ہوتا ہے۔ 
ناچیز نے اب تک جن گیتوں پر تحقیق کی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا موضوع بالعموم واقعہ کربلا اور اس کے متعلقات ہیں، البتہ ان گیتوں میں حقیقت کم اور سراسر جہالت کے مضامین بھرے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ بعض مضامین کفریہ معانی پر بھی مشتمل ہیں۔ آئیے پہلے کچھ گیت پڑھ لیتے ہیں۔ 
۱۔ گامو کے پیچھے ہو سید، ایکے بانسو بیربا
وہی سے بانسو رو بیربا، جھانری کنواں را با
ماہی رے انربا، دولہنیا بھرے پانی
کتھی کے گھَیلیا ہے دولہنیا، کتھی کے گے ڑولیا (نیٹھوا)
کتھی لاگے دولہنیا بھرے پانی
سونو کے گھیلیا ہے دولہنیا، روپا کے جڑولیا
ریشم لاگل دولہنیا بھرے پانی
ایکے کوسے گیلے ہے دولہنیا، دوہی کو سے گیلے
تیسری رے کوسے جھایاری رے اِنربا
ریشم لاگل دولہنیا بھرے پانی
پانی یے بھری یے دولہنیا، دیکھے رے لاگلے چاروں دس برنائے
گھوڑیاں چڑھالو آبے حسن حسین بھیا
دے ہو بھیا گھیلیا الَگائے
گھیلیا الگاؤنی کیے دے بھو دینما
تبّے دے بھوں گھیلیا الگائے
گھیلیا الگاؤنی ہو سید کانوں دونوں سونما
آرو رے دے بو گلے ہرمَل ہار
ادیا لگابو کانو دونوں سونما ہے دولہنیا
بجڑا کھسابو دولہنیا گلے ہرمل ہار
غصہ تیری مار لی ہے دولہنیا، گھیلیا لے لی الگائے
چلی رے گیلے اپنو حویلیا
ایکے کوسے گیلے دولہنیا، دوہی کوسے گیلے
تیسری رے کوسے اپنو حویلیا
گھیلیا دھرے ہے دولہنیا ماہی گھلَ سریا
گے ڑولیا پھیک لے مایے (ماں) اینگنیا
اینگنا بولیے بولی ساسو پڑھے گریا
بھائی با کھوکی گے ڑولیا دوکھے دیل کے
جانھو گاری پڑھیو ہے ساسو، بھئی با کھوکی بھتیج با
مورو رے بھیا، سورجو دیو کے مانگ لو
باپے بھٹائے گیلے بٹوہیا
لے لے ہو جاھیے ہمرو سمودبا
ہمرو سمودبا ہو بھیا بابا آگو چلی بولیھے
باباں رے سنتے، دسے لوگیں بیٹھاتے
ہمرو سمودبا ہو بھیا میو آگو چلی بولیھے
میو رے سنتے، دھرتی رے لوٹاتے
ہمرو سمودبا ہو بھیا بھوجو آگو چلی بولیھے
بھوجو رے سنتے ، او لیھے نو پہنچاتے
ہمرو سمودبا ہو بھیا آگو چلی بولیھے
بھیا رے سنتے گھوڑیا دوڑاتے 
نامی نامی کوڑیا ہو بھیا، بانھیو پھسڑیا(لنگی کا چیرا) ہو بھیا
چلی رے گیلے حاجی پور ہٹیا
ایکے کوسے گیلے دوہی کوسے گیلے
تیسری رے کوسے حاجی پورے ہٹیا
پیشابے رے لاگلے بھیا، رانگے چھنگے جڑولیا
کہاں مائی دھربے گے ڑولی بریا
کہاں مائی دھربے جیٹھو بھیا
بنگلہ دھربے ساسو ، گے ڑولی کبھریا
اچَراں بیٹھابے ہے ساسو جیٹھو بھیا
کیے کیے کھلابے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
کیے کیے کھلابے ہے ساسو جیٹھو بھیا
وہی چوڑا کھلابے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
کھوا کھلابے ہے ساسو جیٹھو بھیا
کیے کیے سموکھ بے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
کیے کیے سموکھ بے ہے ساسو جیٹھو بھیا
پانے پھولے سموکھ بے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
چھوٹکو نندو سموکھ بے ہے ساسو جیٹھو بھیا
ہانسل کھیلل جاتے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
کانل کھینچل جاتے ہے ساسو چھوٹکو نندیا جیٹھو بھیا
۲۔ جو جنگل میں دادا، ربھے، وی جنگل گھمسان ہے
دادا نے پوکھریا کھنابے، دادی روبے جھارے جھار
ہیگے دادی تم پیاری، ناکو بے سوریا اتار
ناکو کے بے سوریا ناکھ بے راجے
کٹ گیو ،رے ہائے رے ہائے
۳۔ سیتا ھو کا سنوریا، جھاڑے ہے رے جھاڑے دُھر مے رو نہ ہو
کہاں میں دنیا ہے رے زیادہ، غم کرو رے ستم کرو
آبے گا رے ساری دنیاکے لوگیں، غم کرو رے ستم کرو
جس کا دل میں مکناں (کینہ) ہے رے مکناں
آبے گا رے ساری دنیاکے لوگیں، غم کرو رے ستم کرو
غم کرو رے مہا غم کرو، غم کرو رے ستم کرو
۴۔ گھوڑے پرسے قاسم اترے، ہاتھ میں قرآن ہے
بھور(صبح) بکت میں زینت اترے، ہاتھ میں اورمال ہے
قرآن پڑھتی ہے سکینہ، شادی کو ارمان ہے
لے چلو ندیا کنار، یاج رَینی رات ہے
رات ہے ، بے رات ہے، بڑی قتل کی رات ہے
سب حسینا کے مل کے رہیو، یاج رینی رات ہے
۵۔ بیچ رے میدان میں دونوں بھائی جوبَنَما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
گھیرل یابے گھیرل جائے ساتو بھائے شیطنما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
آبے رے جاتے جانو تورے پرنما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
پہلے پکارے چھے، اللہ رسولنا ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
دوسری پکارے چھے پیرے پیغمبر ہو ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
آبے رے جاتے جانو تورے پرنما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
جیسن کاٹے چھے کیلا تورے بگنما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
ویسن کاٹے چھے دونوں بھائے رے ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
جیسن چلے چھے آکھر ماسے ندیا، ویسن چلے چھے خونو رو دھربا 
ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
۶۔ کاہے کی درگھا ہو میاں، کاہے کی نی پا، لاگی
کاہے کی اورمال چھتیا، بیچ رین میں ہے کھڑی
اینٹا کی درگھا ہو میاں، دودھ کی نی پا ،لاگی
ریشم کی اورمال چھتیا، بیچ رین میں ہے کھڑی
کاہے کی لسان ہو میاں، کاہے کی دھوجا (جھنڈا)میاں
بانسے کے لسان ہو میاں، کپڑا کی دھوجا لاگی
بیچ رین میں ہے کھڑی
۷۔ کہاں سوبھے چوڑی لاری، کہاں سوبھے سورما ہے
کہاں سوبے سر پہ اوڑھنی، سید میرا رین چلو
ہاتھے سوبھے چوڑی لاری، نینا سوبھے سورما ہے
بدن سوبھے سر پہ اوڑھنی سید میرا رین چلو
پلنگ سوبھے سجنی، اچھا گھرو میں پھول بچھونا
نماز پڑھ بھے تے پڑھی لے
گیتوں پر ایک نظر
مشتے نمونے از خروارے کے طور پر یہ چند گیت یہاں پیش کیے گئے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ ان گیتوں کا میں کیا کہا گیا ہے۔ 
گیت نمبر ایک میں کئی الگ الگ کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ قصہ کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ گاؤں کے پچھلے حصے میں بانس بٹا کے پاس ایک کنواں ہے۔ ایک دولہن جس کے پاس سونے کا گھڑا اور روپا کمپنی کا نیٹھوا (کوئی چیز سر پر رکھنے کے لیے رکھی جانے والی چیز) ہے، وہ ریشمی صفت اس کنویں سے پانی بھر رہی ہے۔ پانی بھرتے ہوئے وہ چاروں طرف دیکھتی ہے، تو اسے حسن حسین دونوں بھائی گھوڑے پر سوار آتے دکھتے ہیں اور کنویں پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ دولہن ان سے گھڑا سر پر رکھ دینے کی درخواست کرتی ہے، جس پر دونوں بھائی دولہن سے پوچھتے ہیں کہ اس کے بدلے میں وہ کیا دے گی۔ وہ کہتی ہے کہ دونوں کان کے سونا اور گلے کا ہار دوں گی۔ لیکن پھر بھی دونوں بھائی گھڑا سرپر نہیں رکھتے، جس سے وہ غصہ ہوجاتی ہے اور خود سے گھڑا اٹھاکر سر پر رکھتی ہے اورتین کوس کے فاصلہ پر واقع اپنی حویلی پہنچ جاتی ہے۔ حویلی میں گھلساری( گھڑا رکھنے کی جگہ) پر گھڑا رکھتی ہے، لیکن نیٹھوا آنگن میں پھینک دیتی ہے، جسے دیکھ کر اس کی ساس دولہن کو گالی دینے لگتی ہے۔گالی سن کر دولہن ساس کہتی ہے کہ راستے میں بٹوہیا ملا تھا، اس کے ذریعہ ہم نے اپنے والد کو یہ قصہ کہلا بھیجا ہے، وہ عن قریب آئیں گے اور دس لوگوں کو میٹنگ میں اس کا فیصلہ کریں گے اور میرا بھائی سورج بھگوان سے مانگا ہوا ہے، اس لیے یہ خبر سنتے ہی میرا بھائی کوڑی (پیسوں) کی گٹھری باندھ کر تین کوس پر واقع حاجی پور بازار جائیں گے اور نیا نیٹھوا لے کر آئیں گے۔ کہانی اور آگے تک جاتی ہے جس میں بھائی اور دوسرے رشتہ دار کے آنے پر انھیں کہاں ٹھہرائیں گے اور کیا کیا کھلائیں گے وغیرہ جیسی باتیں ہیں۔ 
گیت نمبر دو میں کہا گیا ہے کہ دادا جس جنگل میں رہتے ہیں، وہ بہت گھنا جنگل ہے، اس جنگل میں دادا ایک تالاب کھودوا رہے ہیں اور دادی وہیں پر پودے لگا رہی ہے ۔ دادی کی ناک میں بیسر ہے، گیت میں کہاجارہا ہے کہ وہ بیسر اتار کر دیدو دادی اسے راجا (حسین ) کو دیدیا جائے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ راجا میدان جنگ میں گئے اور کٹ گئے۔ 
نمبر تین کے گیت کا مضمون ہے کہ سر کے بالوں کی سیت درست کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ، لیکن دنیا کی زندگی تو بہت کم ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ غم کرنا چاہیے۔ اس غم گیری میں تنہا آپ نہیں رہیں گے؛ بلکہ پوری دنیا غم حسین میں شرکت کرے گی، اس لیے بہت زیادہ غموں کا اظہار کرو۔ 

14 Sept 2018

Bharti musalmano min shiat ke asarat

بھارتی سنی مسلمانوں میں شیعیت کے اثرات
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

بھارت میں اکثر مسلم حکمراں اہل سنت والجماعۃ تھے؛ البتہ کچھ ریاستوں میں شیعہ کی حکمرانی قائم تھی۔ مغلیہ حکومتوں کے تقریبا سبھی بادشاہ بھی اہل سنت والجماعۃ تھے؛ لیکن جب ایران کے شیعی صفوی حکومت کا شاہ دوم طہما سپ اول (1524- 1576)نے ہمایوں بادشاہ کو پناہ دی اور اسے سوری بادشاہ کو شکست دینے اور اس کی حکومت کو دوبارہ بحال کرنے میں بھرپور تعاون کیا، تبھی سے شاہانِ مغلیہ کے ایران کے ساتھ اچھے مراسم قائم ہوئے اور اس کی وجہ سے شیعی عناصر حکومت کے کاموں میں دخیل ہوئے۔بطور خاص اورنگ زیب عالم گیر کے انتقال کے بعد جب مغلیہ حکومت کمزور پڑنے لگی تو ان شیعی عناصر نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور بادشاہ ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہے۔لال قلعہ میں تعزیہ داری اور شہزادوں کا اس میں پوری دل چسپی سے حصہ لینا یہ سب کچھ شیعی اثرات کا ثمرہ تھا۔
سلطنتِ مغلیہ میں ان کے گہرے اثرات کی وجہ سے ان کے مذہبی عقائد کی چھاپ پورے ہندستان پر پڑ گئی تھی۔ پورے ہندستان میں شیعی عقائد اور ان کے مشرکانہ رسوم اس طرح غیر شیعہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں رچ بس گئے تھے کہ اگر ان کو صحیح طور پر کلمہ شہادت بھی ادا کرنا نہ آتا ہو؛ مگر وہ تعزیہ داری اور اس کے ساتھ عقیدت مندی کا والہانہ جذبہ سینوں میں موج زن رکھتے تھے اور اس کو اپنے مسلمان ہونے کی سند سمجھتے تھے۔ سنی مسلمانوں کی مسجدوں میں تعزیے رکھے رہتے تھے اور ان کے محلوں میں چبوترے بنے ہوتے۔ محرم کے مہینے میں سنی مسلمان بڑی عقیدت سے تعزیہ اٹھاتے۔ حیرت ناک بات یہ تھی کہ شیعہ اتنے بڑے ملک میں سنیوں کے مقابل میں مٹھی بھر تھے؛ لیکن کروڑوں اہل السنۃوالجماعۃ مسلمانوں کے دلوں میں شیعوں نے اپنے سارے عقائد و مراسم، جذبات و خیالات کی چھاپ ڈال دی تھی اور پورے ہندستان کو شیعیت کے رنگ میں رنگ دیا تھا۔(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند،دارالعلوم دیوبند اور رد شیعیت، شمارہ۱۲، جلد۹۷،دسمبر۲۰۱۳ء تھوڑی ترمیم و اضافہ کے ساتھ)
مشاہدات اور واقعات اس اقتباس کی صداقت پر گواہ ہیں کہ آج بھارت کے اکثر سنی مسلمانوں کے معاشرے میں محرم آتے ہی شیعوں کے یہ تہوار بھی جنون کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، حالاں کہ ان میں سے اکثر بالخصوص دیہاتی سماج کے افراد اس چیز سے بھی واقف نہیں ہیں کہ شیعہ کس چڑیا کا نام ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلاکر دھوکہ دیا اور نواسہ رسول ﷺ کے لیے قتل و غارت گیری میں شرکت کی۔ پھر شہادت حسین کی خوشی میں ڈھول تاشوں کی تان پر فتح کے فخرو غرور کے پھریرے اڑائے اور جشن مناتے ہوئے خود بھی ناچے اور اپنی عورتوں کو بھی نچایا اور نچا رہے ہیں، ایسے لوگ ہرگز ہرگز محب حسین نہیں ہیں، یہ قاتلان حسین ہیں، جو اپنی شرمندگی اور ذلت کو چھپانے کے لیے نسل در نسل ناٹک رچ رہے ہیں۔
اس لیے۔۔۔ اس لیے سنی مسلمانوں سے دردمندانہ گذارش ہے کہ یہ جس فرقہ و مذہب کا جشن یا ماتم یا پھر جشن ماتم ہے، انھیں ہی منانے دیا جائے۔ماضی کی ان کی حرکتوں کا بوجھ اپنے کاندھے پر محسوس نہ کریں اور ایک محترم مہینے میں غیر اسلامی خرافات کا شکار نہ ہوں؛ بلکہ اس کی نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھ کر صبر حسینی کا عملی پیکر پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے ، آمین۔ 

11 Sept 2018

Maulana Margubor Rahman Bijnori

مولانا مرغوب الرحمان صاحب کا انتقال ملتِ اسلامیہ کا عظیم خسارہ 
یکم محرم الحرام یوم وفات کی مناسبت سے  ایک خصوصی پیش کش
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
موت ایک ایسی تلخ حقیقت ہے، جس سے نہ تو انکار ممکن ہے اور نہ ہی اس سے نجات و فرار کا کوئی راستہ ہے ۔ دنیا میں جو بھی آیا ہے ، وہ سب جانے ہی کے لیے آیا ہے ۔ یہاں بقا و دوام کسی کو حاصل نہیں ۔ خود اس کائنات ہی کو ثبات و استقلال نہیں ہے ، تو اس میں بسنے والی مختلف و متنوع مخلوقات کو بقاودوام و کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے ۔ ؂

سکوں محال ہے قدرت کے کار خانے میں 
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں 
ہاں یہ ایک الگ بات ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جن کے مرنے کی صبح وشام تمنائیں کی جاتی ہیں ، جب کہ کچھ حضرات وہ ہوتے ہیں ، جب وہ داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور ایک مرتبہ مر کر پھر کبھی موت نہ آنے والی زندگی کی شروعات کرتے ہیں ، تو نہ صرف ان کے متعلقین ؛ بلکہ ایک عالم سوگوار ہوجاتا ہے ، ان کی کمی کی کسک درد کا سراپا بن کر سینکڑوں آنکھوں کو نم ناک کر جاتی ہے ۔قافلۂ ملت کے بے باک سالار ، ہندی مسلمانوں کے دین و ایمان کا امین و محافظ ادارہ ، ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحب کے سانحۂ ارتحال کی خبر دامنِ قاسمی سے وابستہ حضرات اور نظریاتی اختلافات سے قطعِ نظر فیضانِ دارالعلوم کے احسان شناس افراد کے دلوں پر ایک بجلی بن کر گری اور پوری ملت اسلامیہ سوگوار ہوگئی ۔ ؂
رکی رکی سی نظر آرہی ہے نبض حیات 
یہ کون اٹھ کے گیا ہے میرے سرہانے سے 
مولانا مرحومؒ ، شمالی ہند کے ایک مردم خیز شہر بجنور کے ایک بڑے زمین دار اور علم دوست، فاضلِ دارالعلوم دیوبند ،شیخ الہند ؒ کے تلمیذِ خاص حضرت مولانا مشیت اللہ صاحب کے یہاں ۱۳۳۲ھ مطابق 1914ء میں پیدا ہوئے ۔شرح جامی تک کی ابتدائی تعلیم اپنے شہر بجنور کے مدرسہ رحیمیہ میں حاصل کی ۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ نے ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا ، جہاں آپ نے ۱۳۴۷ھ مطابق 1929ء میں داخلہ لیااور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب ؒ ، حضرت العلامہ مولانا محمد ابراہیم صاحب ؒ ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ اور دیگر اکابر اساتذۂ دارالعلوم کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے ۱۳۵۲ھ مطابق 1933ء میں سندِ فراغت حاصل کی ۔ فراغت کے بعد کچھ ایسے بیمار پڑ گئے کہ دو تین سال کا عرصہ آپ کو اپنے گھر پرہی گذارنا پڑ گیا ۔ لیکن علم کی طلب اور جستجو کے شوق نے چین سے بیٹھے نہیں دیا اور دوبارہ علم کی پیاس بجھانے کے لیے آپ نے دیوبند کا رخ کیا اور تکمیلِ افتا میں داخلہ لیا ۔ مفتی سہول صاحب بھاگل پوریؒ اور دیگر اصحابِ فتاویٰ کی نگرانی میں افتا کی تکمیل کی ۔ 
دارالعلوم دیوبند سے آں جناب کا پشتینی تعلق تھا۔ خود مولانا مرحوم ؒ کے والد ماجد مرحوم ؒ یہاں کے فارغ التحصیل تھے ۔ فراغت کے بعد اپنی زمین داری کی نگرانی کے ساتھ ساتھ مادرِ علمی کے انتظامی امور میں بھی معاونت فرمایا کرتے تھے ۔ اپنے والد محترم کی طرح مولانا مرحوم ؒ بھی دارالعلوم کے لیے ہر طرح کے تعاون میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے تھے ۔مولانا مرحومؒ کا دارالعلوم سے اسی لگاؤ اور جذبۂ و خلوص کو دیکھ کر ارباب حل و عقد نے 1962ء میں مجلسِ شوریٰ کا رکن منتخب کیا ۔ آپ جرأت وہمت اور رائے کی پختگی کے لیے مشہور تھے ۔ انھوں نے کبھی دارالعلوم کے مفاد سے سودا نہیں کیا ۔ وہ جب بھی فیصلہ لیتے ، انتہائی غور و خوض کے بعد لیتے ۔ دارالعلوم کی محبت آپ کی رگوں میں خون کی طرح رچی بسی ہوئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ شوری کی کسی بھی مٹینگ کو مِس نہیں کرتے تھے ۔ سو سالہ اجلاس کے بعد جب دارالعلوم کے حالات خراب ہوئے اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے ایک معاون مہتمم کی درخواست کی ، تو تما م لوگوں کی نظرِ انتخاب آپ مرحوم ؒ پر پڑی اور آپ کو معاون مہتمم بنایا گیا ۔ پھر اختلاف کا قضیہ نامرضیہ پیش آنے کے بعد ایک انتہائی نازک موقع پر جب کیمپ دارالعلوم قائم ہوا تو اس دوران مجلسِ شوریٰ نے متفقہ طور پر آپ کو مہتمم بنایا ۔ چنانچہ آپ نے اپنی انتظامی صلاحیت ، دور بینی اور فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے 1962ء کے بعد منصبِ اہتمام کے لیے اختلاف کے تناظر میں پیدہ شدہ سخت ترین حالات سے دوچار ہونے سے نہ صرف دارالعلوم کو بچایا ؛ بلکہ اسے سنبھالا دیتے ہوئے تعلیمی و تعمیری ہر طرح کی ترقی کی راہ پر گامزن کردیا ۔ آپ کے دورِ اہتمام میں جہاں ایک طرف تعلمی میدان میں عصرِ حاضر کے نئے چیلنجوں کو قبول کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ردودِ مذاہبِ باطلہ ، تحفظِ شریعت و ختم نبوت ، کمپیوٹر اور صحافت جیسے شعبوں کا قیام عمل میں آیا ، وہیں دوسری طرف تعمیری میدان میں بھی امورِ حفظانِ صحت کا خیال رکھتے ہوئے جدید سہولیات سے لیس ہاسٹل تعمیر کرائے گئے ۔پورے ایشیا میں سب سے منفرد اور دل کش مسجد ’’ مسجدِ رشید‘‘ بھی آپ ہی کے دورِ اہتمام کی یاد گار ہے ۔مولانا مرحومؒ 29 سال تک منصبِ اہتمام پر فائز رہے ۔ اس طویل عرصے میں آپ نے ان جملہ خدمات کا کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیا ؛ بلکہ خود اپنے جیبِ خاص سے مختلف طرح کی ضروریات و اخراجات کے لیے خطیر رقم عنایت فرماتے رہے ۔
آپ ؒ کی دینی و ملی خدمات صرف دارالعلوم تک محدود نہیں تھی ؛ بلکہ ملک وملت کے مسائل سے بھی گہری دل چسپی رکھتے تھے ۔ آں جناب مرحوم ؒ ہی نے سب سے پہلے جارج ڈبلیو بش کے ظالمانہ پالیسیاں اختیار کرنے کے باعث پوری دنیا میں بد امنی اور ظلم و دہشت پھیل جانے کی وجہ سے امریکہ کو سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا ۔ ۲۰۰۶ء میں فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنیؒ کے انتقال کے بعد آپ کو ’’امیر الہند‘‘ کے منصبِ جلیل پر فائز کیا گیا ، تاہم انھوں نے نہ تو کبھی دارالعلوم کو سیاست سے جوڑا اور نہ ہی اس کے نام سے کسی کو سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ۔ 
امیرالہند حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحبؒ کا سانحۂ ارتحال ملتِ اسلامیہ کا ایک عظیم خسارہ ہے ۔ 8؍دسمبر 2010ء مطابق یکم محرم الحرام بروز بدھ صبح ساڑھے دس بجے آپ نے اپنے شہر بجنور میں اپنی آخری سانس لی ۔ یہ خبر فورا جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی ۔جگہ جگہ مدرسوں اور مسجدوں میں اعلان ہونے لگا ۔ دعائے مغفرت کی اپیلیں کی جانے لگیں اور ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا جانے لگا۔ آنا فانا علماو عوام کا ایک ہجوم بجنور اور دیوبند کی طرف روانہ ہوگیا ۔ پہلے بجنور میں چار بجے نمازِ جنازہ ادا کی گئی ۔پھر جنازہ دیوبند لایا گیا ، جہاں پر اساتذہ و طلبہ اور دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں نے حضرت کی جسدِ خاکی کی زیارت کی ۔ رات گیارہ بجے دوسری نمازِ جنازہ پرھی گئی اور قبرستان قاسمی میں تدفین عمل میں آئی ۔ جنازے کی نماز آپ کے والا تبار صاحب زادہ حضرت مولانا انوارلرحمان صاحب نے پڑھائی ۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے ۔ ان کے متعلقین کو صبرِ جمیل اور دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین ، ثم آمین ۔
القصہ مختصر مولانا اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ وہ اپنے نیک کاموں کا صلہ پانے کے لیے معبود حقیقی سے کے پاس جا چکے ہیں ۔ اب ہم ان کے لیے دعائے مغفرت ، ایصالِ ثواب اور ان کی یاد میں حسرت و افسوس کے چند قطرے آنسو بہانے کے سوا اور کر ہی کیا سکتے ہیں ؛ لیکن انھوں نے اپنے تجربے کے بعد مفید پاکر جو علمی وعملی نقوش چھوڑے ہیں ، وہ نہ صرف آنے والی نسلوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کے لیے نمونہ اور مشعلِ راہ ثابت ہوں گے اور قدم قدم پر رہ نمائی کا ذریعہ بنیں گے ؛ بلکہ دائمی نیک نامی اور اہل دل کے دلوں میں ہمیشہ زندہ و پایندہ رہنے کا سبب بھی ہوں گے ۔ 
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے 

10 Sept 2018

Sharae Shadi Aur Hamri Rasmen

شرعی شادی اور ہماری رسمیں
محمد یاسین قاسمی جہازی
واٹس ایپ: 9871552408

آپ حضرات اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ’’شادی‘‘ ہمارے سرورکونین ﷺ کی سنت ہے، جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ رشتہ پسند آنے کے بعد لڑکا لڑکی کے گارجین کسی مسجد میں باہم مل بیٹھ کر نکاح پڑھوادیں۔ اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کھجور لٹوادیں۔ یہ ہے شرعی شادی کا مکمل نقشہ۔ 
چوں کہ لڑکی کو حدیث شریف میں رحمت سے تعبیر کی گئی ہے، اس لیے لڑکی والوں کے لیے مسرت کا نہیں، بلکہ غم کا دن ہے۔ اور چوں کہ لڑکے والوں کے یہاں ایک رحمت گھر میں آرہی ہے ، اس لیے ان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر گنجائش ہو تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ’’ولیمہ‘‘ کریں۔ اگر وسعت نہیں ہے، تو کوئی بات نہیں۔ 
آج ہندوانہ رسوم و رواج کی نقالی میں مسلمان بھی شادی کو ایک بوجھ اور رسم سمجھتے ہیں ۔ ہندوانہ عقیدے کے مطابق لڑکی کو ’’دان‘‘ یعنی بطور چندہ لڑکے والوں کو دے دی جاتی ہے، جس کا صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ اب والدین کے گھر سے لڑکی کا رشتہ ختم ہوگیا، کیوں کہ وہ دان میں چلی گئی۔ اور دان کی چیز واپس نہیں لی جاتی۔ اور چوں کہ یہ ختمیت دائمی طور پر سمجھی جاتی ہے، اس لیے ماں باپ دان کے ساتھ کچھ دہیز (جہیز) کا بھی سامان کردیتے ہیں، تاکہ سسرال والے طعنہ نہ دیں۔ اور لڑکی کو بوجھ سمجھ کر ’’کنیہ دان‘‘ کیا جاتا ہے، اس لیے بوجھ اترنے کی وجہ سے خوشی منانا ان کے اپنے عقیدے کے مطابق ان کا حق ہے، لہذا اگر غیر مسلم اپنی شادیوں میں ناچیں، نچائیں، گائیں بجائیں، تو یہ اچھنبے کی بات نہیں، لیکن اگر کوئی مسلمان ایسا کرے ، تو یہ یقیناًنبی اکرم ﷺ کی سنت کے ساتھ ایک بھدا مذاق ہے، کیوں کہ سنت کی ادائیگی کے لیے ڈھول نہیں بجائے جاتے، سنت کی تکمیل کے لیے عورتوں کو بے پردہ اور تاشے کی تھاپ پر بے آبرو نہیں کی جاتی۔ کیا آپ کبھی ظہر کی سنت ادا کرتے وقت ناچتے ہیں؟ کیا آپ عصر کی سنت ادا کرتے وقت ڈھول بجواتے ہیں؟ کیا آپ مغرب کی نماز کے لیے جاتے وقت عورتوں سے کہتے ہیں کہ تم ناچو، کیوں کہ میں ایک فرض اور سنت ادا کرنے جارہا ہوں؟ اگر ان سب سوالات کے جواب نہیں میں ہے، تو پھر ’’شادی کی سنت‘‘ میں یہ حرام کام کیوں؟؟؟؟؟؟
اس لیے تمام علمائے کرام سے گذارش ہے کہ جہاں کہیں بھی رسم کی شادی ہو، جس شادی میں ڈی جے بجائے جائیں، جس تقریب میں دولہا گھوڑے پر سوار دیکھیں، جس نکاح میں رسول اکرم ﷺ کی سنت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہوں۔ اس کا مکمل بائکاٹ کریں۔ 
اسی طرح کلام پاک کے حکم کے مطابق : مردوں کو عورتوں پر حاکمیت دو وجہ سے دو گئی ہے: (۱) نظام کائنات کو چلانے کے حاکم ومحکوم کا تسلسل ضروری ہے، اس لیے اللہ نے جسے چاہا، اسے دوسروں پر حاکم بنادیا۔ اسے نظام کو چلانے کے لیے مرد کو عورت کا قوام یعنی نگہبان بنادیا۔ (۲) مرد چوں کہ مال خرچ کرتا ہے، اس لیے نگہبانی کا حق مرد کو ہی حاصل ہے، لہذا جو کوئی لڑکی سے مال لے، جہیز کے سازو سامان لے، تو اسے مرد نہیں، خود کو عورت سمجھنا چاہیے۔ اور اگر وہ خود کو عورت نہ سمجھ پائے ، تو علمائے کرام کو چاہیے کہ اس کی اس عورت والی حرکت پر اس کی نکیر کرے ۔ اور ایسی جہیز والی شادیوں میں قطعی شرکت نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنا آسان فرمائے اور سنت نبوی پر مکمل عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔

5 Sept 2018

USTAZ

استاذ
5/ ستمبر یعنی یوم اساتذہ کی مناسبت پر بچی کے لیے لکھی گئی ایک تقریر

محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

ناظرین و سامعین! میں جناب ۔۔۔کی نور نظر بی بی۔۔۔ ، کلاس ۔۔۔ کی طالبہ سب سے پہلے آپ تمام حضرات کادل کی اتھاہ گہرائیوں سے استقبال کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں سلام کی سوغات پیش کرتی ہوں : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میری پیاری پیاری سہیلیواور سامعین! جب گھڑی کی تینوں سوئیاں اپنی اپنی رفتار سے گھومتی ہوئی چوبیس کے علامتی دائرے کو مکمل کر لیتی ہیں ، تو ہماری زندگی سے ایک ’دن ‘نکل چکا ہوتا ہے اور ایک دوسرا’ڈے‘ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ زندگی کے یہ ایام یوں ہی گذرتے رہتے ہیں۔ کچھ ڈے تو یوں ہی آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ، ان میں نہ تو تذکرۂ سرورو مستی ہوتا ہے اور نہ ہی وہ لمحات رنج وغم فراہم کرتے ہیں، بس آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن کچھ ڈے ایسے بھی آتے ہیں ، جو ہماری زندگی کے لیے خوشیوں کی بہار کا نویدفرحت ہوتے ہیں ، پھر وہ دن ہماری زندگی کا ایک یادگار اور مسرت آمیز دن ہوتا ہے، جس کے ایک ایک لمحہ کو قیمتی جانتے ہوئے اپنے دامن میں خوشیاں سمیٹنے اور باٹنے کا کام کرتے ہیں ۔ یہ سال میں صرف ایک ہی دن، اور ایک ہی ڈے نہیں ہوتا، بلکہ ہماری شعبہ ہائے حیات سے وابستگی جس نوعیت کی ہوتی ہے، اس کے اعتبار سے یہ ایام بار بار ہمیں یہ موقع فراہم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب ایک سال میں اتنے ڈے آنے لگے ہیں کہ کبھی ہم خود کنفیوز ہوجاتے ہیں کہ سال کے ایام زیادہ ہوتے ہیں یا پھر یہ ڈے۔ 
چنانچہ 
کبھی فادرس ڈے آتا ہے ، تو کبھی مدرس ڈے
کبھی واٹر ڈے آ دھمکتا ہے ، تو کبھی گڈ فرائڈے
کبھی فرینڈ شپ ڈے کی رنگینیاں آتی ہیں تو کبھی میرج ڈے
کبھی بینک ہولی ڈے ہوتا ہے، تو کبھی کرسمس ڈے 
مزدور ڈے، گاندھی ڈے، گرو نانک ڈے،شب معراج ڈے، آزادی دے ، برتھ ڈے اور خدا جانے کتنے ڈے ڈے ڈے۔ المختصر سلیبریشن اور جشن کے اتنے ڈے آتے ہیں کہ ہمارے ممی ڈیڈی، ان ڈیڈوں کے اخراجات اور فنکشن سے بس ڈیڈ ہوتے ہوتے ہی بچتے ہیں۔
میری ہم نفسو! ہوائیں ہر موسم میں چلتی ہیں، لیکن ساون کے مہینے کی باد نسیم کی خنکی کچھ اور ہی پیام لے کر آتی ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ، لیکن کوئلوں کی کوں کوں اور پپیہوں کی پیہوں پیہوں کی صدائے نشاط سے کون جھومنے پر مجبور نہیں ہوتا،کھیتوں کی ہریالی، باغوں کی لہلہاہٹ ہمیں ضرور دعوت نظارہ دیتی ہے ، پر جو بات یاسمین و نسترن کی رنگت اور چمپاو چمیلی کی مہک میں ہوتی ہے ، اس کی بات ہی الگ ہے۔ اسی طرح سورج ہر دن نکلتا ہے ، شام ہر روز آتی ہے، لیکن جو بات ’یوم اساتذہ‘ میں ہے، وہ کسی اور ڈے میں نہیں۔ 
کیوں کہ جب ہم ان سلیبریشن ایام کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان میں کچھ ڈے تو وہ ہیں ، جو صرف ہماری ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے :برتھ ڈے ، اور کچھ وہ ہوتے ہیں، جو ہماری عشق و شیفتگی اور الفت وارفتگی کا مظہر ہوتے ہیں جیسے شادی ڈے ، فرینڈشپ ڈے۔ کچھ ڈے ایسے ہوتے ہیں ، جو ہمیں ماضی کے سہانے ایام کی یاد دلاتے ہیں ، آزادی ڈے، کرسمس ڈے اس کی مثالیں ہیں۔ اور کچھ زندگی کے تلخ و کڑوی حقیقت سے روشناس کراتے ہیں ، مزدور ڈے اور وفات ڈے کی یہی خصوصیات ہوتی ہیں۔ یعنی یہ ڈیز یا تو ہمیں ماضی کی خوشیاں فراہم کرتے ہیں یا پھر اس کی کسی تاریخی سچائی سے روشناس کراتے ہیں ، ان میں ہمارے حال اور مستقبل کے لیے کوئی لائحۂ عمل یا درس عبرت نہیں ہوتا
لیکن 
میری باتمکین و شگفتین سہیلیوں اور معزز سماعتیں! یہ ٹیچرس ڈے، یہ یوم اساتذہ ، یہ گرو اتسو، یہ یوم المعلمین ہمیں کبھی ماضی میں بھی لے جاتا ہے اور جب کبھی ہمیں اپنا ماضی یاد آنے لگتا ہے تو ہمارے پہلے کے اساتذہ کی شفقتیں اور عنایتیں آنکھوں میں آنسو بن کرامتنان و تشکر کی سوغات پیش کرتی ہیں اور ہم بہ زبان قال نہ سہی، بہ زبان حال یہ ترانہ سنجی کرتی ہیں کہ ؂
کتنی حسین صبح ، حسیں شام آئے گی 
لیکن تمھاری یاد بھلائی نہ جائے گی
یہی ہمارے ماضی کے دھندلکے خواب ہمارے حال کے لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے روشنی کا کام کرتے ہیں، اگر ہمارے سابقہ اساتذہ ہمیں تعلیم و تربیت کی شکل میں وہ خواب نہ دکھاتے ، تو آج حال کے اس پردے پر یہ تعبیر ہاں ہاں یہی تعبیر،جو آپ ہیں ،آپ ہیں اور آپ ہیں اور ہم سب ہیں،اسی’ ہم‘ میں سے ایک ۔۔۔ بیگم ،آپ کے سامنے کھڑی ہوکر ہمت و حوصلے سے الفاظ کے یہ موتی بکھیرنے کی قابل نہیں ہوتی ۔ آج میں بول رہی ہوں ، آپ بول رہے ہیں اور ہم سب بول رہے ہیں ، تو یہ انھیں اساتذہ کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔ انھوں نے ہمیں زندگی کی تلخ راہوں میں چلنے کا شعور بخشتے ہوئے سکھایا کہ 
تیرے بال و پر کا مقصد ہے بلندیوں پہ جانا 
نہ سکوں نہ سیر گلشن نہ تلاش آب و دانہ
انھوں نے ہمیں حوصلہ دیا کہ ؂ 
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا 
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے
چنانچہ ان اساتذہ کی ہدایات و ارشادات کی روشنی میں حال سے گذرتے ہوئے ہم مستقبل کو تلاش کرنے کے سفر پر نکلے ہوئے ہیں اور جب تک ہمیں اپنے مستقبل میں محفوظ منزل نہیں مل جاتی 
ہم چلتے ہی رہیں گے 
ہم بڑھتے ہی رہیں گے
اور قدم بڑھاتے ہی رہیں گے
لہذمیں اپنی طرف سے اور تمام سہیلیوں و ساتھیوں کی طرف سے 
زندگی کے اس موڑ پر 
شب و روز کی اس گردش پر
کلینڈرکی اس تاریخ پر 
میرا مطلب
’’یوم اساتذہ‘‘ کے اس حسین و خوب صورت جشن پر 
ٹیچرس ڈے کے اس سلیبریشن پر
اپنے ماضی وحال کے اساتذہ کے حضور، ممنونیت و مشکوریت کے پھول نچھاور کرتی ہوں اور رنگ ہائے رنگ سے آراستہ و پیراستہ گل دستۂ سلام و محبت پیش کرتی ہوں۔ اس جذباتی لمحات میں ان کی یاد نے میرے دل کے اندر وہ ہلچل پیدا کردی ہے کہ میں یہ کہنے پر پر مجبور ہوئی جارہی ہوں کہ 
ڈھونڈتا ہوں جہاں در جہاں
کھوگیا میرا بچپن کہاں
جی ہاں، وہ بچپن، بچپن کی وہ یادیں، میں ننھی منھی، میرے ننھے مننھے دوست، ہماری معصوم ذہانت، معصومیت و بے شعوری کی شوخی، کبھی ہنسنا، کبھی رونا، کبھی گڈے گڑیے کی لڑائی، کبھی ساتھیوں و ہم جولیوں کی محفل اور ان تمام کیفیتوں میں ہمارے ماں باپ اور اساتذہ کی شفقتیں و عنایتیں، جب کبھی مجھے یاد بن کر ستاتی ہیں ، تو میرا دل اس تمنا سے مچل مچل اٹھتا ہے کہ ؂
ہاں دکھادے ائے تصور ، پھر وہ صبح و شام تو 
لوٹ پیچھے کی طرف ائے گردش ایام تو
لہذاجشن یوم اساتذہ اس کے سلیبریٹی پر چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے، ماضی کی حسین یادوں کو ، جن کو دہرانے سے ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے، اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ ؂
یہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
اوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹانا کھیل نہیں
لیکن ؂
لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاؤ رہنے دو
میرے ہم صفیرو! ہندی کاایک مشہور محاورہ ہے کہ پیدا کرنے والے سے ، پالنے والا کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے ۔ ہمارے والدین ہماری زندگی کا سبب ہوتے ہیں،ہماری دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں، لیکن اساتذہ ہمارے حال اور مستقبل کو سجانے اور سنوارنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرتے ہیں ، یہ کردار کوئی معمولی کردار نہیں ہوتا۔ اگر والدین کی عنایتوں کے علاوہ اساتذہ کی رہنمائی ہمارے شامل حال نہ ہو ، تو یقین جانیے کہ ہماری زندگی لاحاصل اور بے مقصد ہوسکتی ہے، ہماری ترقی کے تمام راستے مسدود ہوجائیں گے ، ہمارے اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا، گویا ہمیں صف انسان میں شامل ہونے کا شعور اساتذہ کی مرہون منت ہے، اس لیے آج اس یوم اساتذہ کے موقع پر اپنے تمام اساتذہ کے ادب و احترام کے عزم کا اعلان کرتے ہوئے یہ استدعا کرتی ہوں کہ جس طرح آپ نے اب تک ہماری بے لوث رہ نمائی فرمائی، ہم نے اپنی زندگی کے حسین لمحات آپ کے حوالے کیے۔
آپ نے ہمیں زیور تعلیم وتربیت سے مزین کیا، اس کے لیے آپ کا شکریہ۔ 
ہم کردار سے خالی تھے ، آپ نے ہمارے کرداروں میں اخلاق حسنہ کے پھولوں کے ہار پہنادیے، اس کے لیے بھی شکریہ ۔
ہم آداب گفتگو سے عاری تھے ،ہماری گفتارمیں شیرینی اور مٹھاس پیدا کی، اس کے لیے بھی شکریہ۔ 
ہم کردار سے نابلد تھے ،ہمارے کردار کوآپ نے معیار بخشا،اس کے لیے بھی شکریہ
راہ حیات کی پر خار وادی میں چلنے کا سلیقہ عطا کیا ،اس کے لیے بھی شکریہ
زمانے کی سرد و گرم ہواوں سے حفاظت کا طریقہ بتلایا،اس کے لیے بھی شکریہ
فکرو فن کا شعور دیا، اس کے لیے بھی شکریہ
اخوت و محبت کے درس دیے، اس کے لیے بھی شکریہ
فلسف�ۂ خیر وشرسمجھایا،اس کے لیے بھی شکریہ
حسن و عشق کے منطقی انجام سے آگاہ کیا،اس کے لیے بھی شکریہ
مستقبل کے حسین خواب دیکھنے کی حوصلہ افزائی کی،اس کے لیے بھی شکریہ
خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا گر بتایا،اس کے لیے بھی شکریہ
المختصر ہر وہ اس عمل کے لیے شکریہ، جوآپ نے ہمارے لیے کیا اور آئندہ آپ کا ہمارے تئیں جو بھی رول پلے ہوگا، ان کے لیے بھی شکریہ ،شکریہ، شکریہ۔
آخر میں سمع خراشی کی معذرت چاہتے ہوئے اپنے اساتذہ کے لیے دعا گو ہوں کہ ؂
تم سلامت رہو ہزاربرس
ہربرس کے دن ہو پچاس ہزار
اور 
آپ سلامت رہیں قیامت تک 
اور قیامت نہ آئے قیامت تک
اور آپ سے اس وعدے کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں کہ ؂
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

4 Sept 2018

Palestine se hame Mohabbat kiu hin

فلسطین سے ہمیں محبت کیوں ہے؟

محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552480

پوری دنیا کے مسلمانوں کا فلسطین سے مضبوط رشتے کی تین بنیادی وجوہات ہیں: (۱) انسانیت۔ (۲) وحدت امت۔ (۳) قبلہ اول۔

ہمیں فلسطین سے محبت اس لیے ہے کہ وہاں پر رہ رہے انسانوں پر ظلم و بربریت انسانیت پر ظلم و سفاکیت ہے اور ظلم و بربریت پوری دنیائے انسانیت پر کہیں بھی ہو ، ہماری نگاہ میں وہ قابل مذمت و نفریں ہے۔ فلسطینی باشندگان یہودیوں کی چیرہ دستیوں کی اسیر ہیں۔ اور ان کی سفاکیت و خوں آشام فطرت کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں و پیچاں ہیں، اس لیے ہمارا انسانی فریضہ ہے کہ ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کے پنجے کو مروڑ کر رکھ دیں۔ اگر ہم اپنے اندر اس جذبے کو محسوس نہیں کرتے ہیں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہم زندہ قوم نہیں ہیں۔
اسلام وحدت امت کی تعلیم دیتا ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ اگر دنیا کے آخری کونے پر بسنے کسی مسلم بھائی کے پیر میں کانٹا چبھے، تو دنیا کے دوسرے کونے پر بسنے مسلم فرد کے دل میں اس کی چبھن محسوس ہونی چاہیے۔ اگر ہمارا دل اس درد کی لذت سے نا آشنا ہے، تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مردہ قوم ہیں۔ زندگی ہمارے اوپر لعنت بھیج چکی ہے۔
ہمارا قبلہ اول مسجد اقصیٰ ہے اوریہاں کی سرزمین انبیائے کرام کے ورود بامسعود سے زعفران زار رہی ہے ، اس لیے اس جگہ سے محبت ہمارا وفور ایمان کا حصہ ہے۔ اگر کوئی مسلم شخص اس جذبے سے محروم ہے، تو یقین مانیے کہ اسے اپنے آپ کو زندہ سمجھنے کا حق نہیں ہے۔ 
لیکن ۔۔۔آج ہمارا مظلوم فسلطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا، ان کے حال زار پر رحم و کرم کے لیے بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہونا اور جگہ جگہ پر امن احتجاج اور یوم دعا منانا اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔ ہمارے اندر ابھی بھی وہی خون رواں دواں ہے، جو صلاح الدین ایوبی کے وارثین کی شناخت ہے۔ ہم اس وراثت کے امین ہے ، جس نے سمندروں کے سینے چیر کر فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑے تھے۔ ہمارے گھوڑے خشکیوں کی رہین منت نہیں تھے، دشت ،و جبل اور ارض و فلک ہمارے اقبال مندی کی پیشانی چومنے کے لیے بے چین و مضطرب رہا کرتے تھے۔ 
مسلمانوں کے دو قبلے اور دستور الٰہی
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے دو جگہوں کو قبلہ بنایا ہے : ایک بیت اللہ اور دوسرا بیت المقدس۔ ان دونوں قبلوں کے تعلق سے خدا تعالیٰ کا دستور الگ ہے۔ بیت اللہ پر کفار و مشرکین کبھی بھی غالب نہیں آسکتے ، کیوں کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اس سلسلے میں واقعہ فیل مشہور ہے۔ دوسرا قبلہ بیت المقدس ہے۔ اس کے متعلق قانون قدرت یہ ہے کہ جب مسلمان معاصی اور گمراہی میں مبتلا ہوں گے، تو سزا کے طور پر ان سے یہ قبلہ چھین لیا جائے گا ، جو اس بات کی علامت ہوگی کہ امت مسلمہ ہر اعبتار سے پس روی کی شکار ہوگئی ہے، نہ تو اس کے اندر اسلام کی عملی روح باقی ہے اور نہ ہی فکر اسلامی سے اس کا ذہن و دماغ روشن و منور ہے۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ پوری دنیا میں اتنے مسلم ممالک ہونے کے باوجود امت مسلمہ نظریاتی و عملی دونوں اعتبار سے اپاہج ہوچکی ہے ، جو ہم سب کے لیے سوچنے اور کچھ کرگزرنے کی دعوت دے رہا ہے ، لیکن ہم ہیں کہ بہرے سے بھی زیادہ بے حس، گونگے سے بھی زیادہ خاموش اور لنگڑے سے بھی زیادہ پاوں توڑ کر بیٹھ چکے ہیں۔ 
اگر ہم بیت المقدس کو دوبارہ واپس لینا چاہتے ہیں، تو اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ اور رجوع الیٰ اللہ کے ساتھ ساتھ سیاست و معاشرت میں اسلامی حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے کھل کر فلسطین کی حمایت و نصرت کا اعلان کریں۔
۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۷ کو جمعیۃ علماء ہند نے پورے ملک میں تقریبا ایک ہزار سے زائد مقامات پر رجوع الیٰ اللہ اور اسلامی فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے پرامن احتجاج کیا اور بعد نماز جمعہ ’’یوم دعا ‘‘ مناتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دعائیں کی گئیں۔ اس دور بیں اور اسلامی حکمت عملی پر مبنی فکر کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران و کارکنان یقیناًمبارک بادی کے مستحق ہیں۔دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے کی گئی کوششوں کو کامیاب و کامران کرے۔ آمین۔