17 Aug 2018

Arkane Tawaaf

ارکان طواف
قسط نمبر (28)  
تصنیف: 

حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
طواف کے تین رکن ہیں : 
(۱) طواف خانہ کعبہ سے باہر اور مسجد حرام کے اندر ہونا۔ 
(۲) چار یا چار سے زیادہ شوط کا پورا کرنا۔ 
(۳) اپنے سے طواف کرنا خواہ چل کر یا سواری پر؛ البتہ بیہوش کی طرف سے دوسرا شخص بھی طواف کرسکتا ہے۔ 
عن ابن عباسؓ ان رسولَ اللّٰہِ ﷺ قَدِمَ مکۃَ ھو یشتکی فطافَ علیٰ راحلتہِ کلما اتیٰ علیٰ الرکن استلمَ الرکن بمحجنٍ فلما فرغَ من طوافِہِ اناخَ فصلّٰی رکعتین۔ (رواہ ابو داود)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو آپﷺ بیمار تھے۔ آپ ﷺ نے سواری پر طواف کیا اور جب جب حجر اسود کے پاس آتے تو حجر اسود کو چھڑی سے چھوتے (اور چھڑی کو چومتے جیسا کہ دوسری روایت میں ہے) پھر جب طواف سے فارغ ہوئے تو اونٹ کو بیٹھایا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ 
اس حدیث سے تین باتیں معلوم ہوئیں: 
(۱) سوار ہوکر طواف کرنا۔ 
(۲) جب ہاتھ سے حجر اسود کو نہ چھو اور چوم سکے تو چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو چھوئے اور چومے۔ 
(۳) ضرورت کے وقت میں جانور مطاف میں لے جانا درست ہے۔ 
شرائط طواف
تین شرطیں تمام طواف کے لیے ہیں، خواہ حج کا طواف ہو یا نہ ہو۔ 
(۱) طواف کرنے والے کے اندر اسلام کا ہونا۔ 
(۲) طواف کی نیت کرنا۔ 
(۳) مسجد حرام کے اندر مطاف میں طواف کرنا اور حج کے طواف کے لیے تین شرطیں زائد ہیں: 
(۱) خاص وقت کا ہونا یعنی حج کا موسم ہونا۔ 
(۲) طواف سے پہلے احرام کا ہونا۔ 
(۳) وقوف عرفہ کا ہونا۔ 
یہ شرطیں طواف زیارت کی ہیں جو حج کا دوسرا رکن ہے۔ 
مسئلہ: بغیر نیت اگر کسی نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے تو وہ طواف نہیں ہوا، اس لیے کہ نیت شرط ہے۔ 
مسئلہ: بیت اللہ کی خبر نہ تھی کہ یہی بیت اللہ ہے اور بے خبری میں سات چکر لگادیے تو طواف نہ ہوا۔
مسئلہ: خواہ کسی قسم کا طواف ہو اس میں صرف طواف کی نیت کرلینا کافی ہے ، تعیین طواف کی حاجت نہیں؛ البتہ تعیین کرلینا مستحب ہے ۔ طواف قدوم، یا طواف زیارت، یا طواف وداع یا عمرہ کا طواف کرتا ہوں ، اس طرح نیت متعین کرلینا مسنون ہے۔ اگر تعیین نہ کیا ، جب بھی طواف ہوجائے گا، مثلا دسویں کو صبح صادق کے بعد مطلق طواف کی نیت سے طواف کیا ، تو وہ طواف زیارت ہوجائے گی۔ 
واجبات طواف
طواف کے اندر چھ چیزیں واجب ہیں: 
(۱) وضو و غسل دونوں کا ہونا، یعنی پوری طہارت طواف کے لیے واجب ہے۔ 
عن ابن عباسؓ ان النبی ﷺ قال: الطوافُ حولَ البیتِ مثلُ الصلوٰۃِ الا انکم تتکلمون فیہ فمن تکلم فیہ فلایتکلمن الا بخیر۔ (رواہ الترمذی والنسائی والدارمی، و ذکر الترمذی جماعۃ وقفوہ علیٰ ابن عباس)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیت اللہ کے گرد گھومنا نماز کی طرح ہے؛ مگر یہ کہ تم اس میں کلام کرتے ہو تو جو شخص طواف میں کلام کرے تو بہتر ہی کلام کرے۔ 
یعنی نماز میں سلام کلام جائز نہیں، مگر طواف میں جائز ہے ؛ لیکن بلا ضرورت کلام نہ کرے اور کرے تو بہتر کلام کرے اور دوسری باتوں میں نماز کی طرح ہے ۔ اور نماز میں دونوں حدیثوں سے طہارت فرض ہے اس لیے کہ دلیل قطعی سے ثابت ہے اور طواف میں واجب ہے اس لیے کہ دلیل ظنی سے ثابت ہے ، اس لیے کہ اس کو ترمذی نے کہا کہ ایک جماعت نے اس حدیث کو ابن عباسؓ پر موقوف کیا ہے، یعنی یہ رسول اللہﷺ کا قول نہیں؛ بلکہ ابن عباسؓ کا قول ہے۔
(۲) ستر عورت کا ہونا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں جو حج ۹ ء میں ادا ہوا تھا، اس میں رسول اللہ ﷺ نے اعلان کردیا تھا کہ: 
لایطوفن بالبیت عریانٌ (متفق علیہ)
ہر گز بیت اللہ کا طواف ننگے ہوکر نہ کریں۔ 
(۳) جو شخص پیدل چل سکتا ہے ، اس کو پیادہ طواف کرنا۔
(۴) داہنی طرف سے شروع کرنا، جیسا کہ حدیث میں گذرا کہ 
ثم مشیٰ علیٰ یمینہ
آپ ﷺ نے دائیں جانب سے طواف شروع کیا۔ 
(۵) حطیم کو شامل کرکے طواف کرنا، اس لیے کہ وہ بھی خانہ کعبہ کا ایک ٹکڑا ہے۔ 
(۶) پورا طواف کرنا، یعنی ساتوں چکر کا پورا کرنا۔ چار شوط رکن ہے اور باقی واجب۔ 
واجبات کا حکم
کسی واجب کے چھوٹنے یا چھوڑ دینے سے طواف کا دوبارہ کرنا واجب ہوگا۔ اگر دوبارہ طواف نہیں کیا تو اس پر جزا واجب ہوگی، جس کا بیان جنایات میں آئے گا۔ 
نوٹ
طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے، جیسا کہ حضور ﷺ نے پڑھا۔ مگر طواف میں داخل نہیں اور بعض نے اس کو طواف میں داخل کرکے سات واجب بتاتے ہیں۔ اور بعض نے حجر اسود سے طواف کا ابتدا کرنا بھی واجب کہا ہے۔ ان کے نزدیک آٹھ واجب ہیں، مگر ظاہر روایت یہی ہے کہ حجر اسود سے ابتدا سنت ہے ، یہی اکثر مشائخ کا قول ہے۔
طواف کی سنتیں

(۱) حجر اسود کا استلام یعنی چھونا اور بوسہ لینا۔ 
(۲) چادر کو دائیں بغل میں سے نکال کر بائیں مونڈھے پر ڈالنا۔ 
(۳) تین پھیرے میں اکڑ کر چلنا۔ 
(۴) باقی میں اپنی رفتار سے چلنا۔ 
(۵) طواف کے بعد اور سعی سے پہلے دوبارہ حجر اسود کا استلام کرنا، جب کہ طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے۔ 
(۶) حجر اسود کے مقابل میں کھڑے ہوکر تکبیر کہتے وقت ہاتھ اٹھانا۔ 
(۷) حجر اسود سے طواف شروع کرنا۔ 
(۸) طواف کے شروع میں حجر اسود کی طرف منھ کرنا۔ 
(۹) لگاتارتمام چکر پورے کرنا۔ 
(۱۰) کپڑے اور بدن کو نجاست حقیقیہ سے پاک رکھنا سنت ہے۔ 
طواف کے مستحبات
(۱) طواف حجر اسود کی داہنی طرف سے اس طرح شروع کرنا کہ طواف کرنے والے کا پورا بدن حجر اسود کے سامنے گذرتے ہوئے محاذی ہوکر گذرے۔ حجر اسود کی داہنی طرف سے مراد اس کی شرقی جانب ہے، جو بیت اللہ کے دروازے کے طرف ہے۔ اس کی غربی جانب مراد نہیں ہے۔ 
(۲) حجر اسود پر تین مرتبہ بوسہ دینا اور تین مرتبہ اس پر سر رکھنا۔ 
(۳) طواف کرتے ہوئے ماثور دعاؤں کا پڑھنا۔ 
(۴) مرد کو بیت اللہ سے قریب ہوکر طواف کرنا، بشرطیکہ ہجوم اور کسی کو تکلیف نہ ہو۔ 
(۵) عورت کو رات میں طواف کرنا۔ 
(۶) طواف میں بیت اللہ کے پشتہ کو شامل کرلینا۔ 
(۷) اگر طواف بیچ میں چھوڑ دیا ہو یا مکروہ طریقہ پر کیا ہو تو اس کو پھر سے کرنا۔ 
(۸) مباح گفتگو کا ترک کرنا۔ 
(۹) جو چیز خشوع میں حارج ہو اس کو چھوڑ دینا۔ 
(۱۰) دعا اور اذکار کو طواف میں آہستہ پڑھنا۔ 
(۱۱) رکن یمانی (مغربی جنوبی گوشہ) کا استلام کرنا، یعنی چھونا۔ 
(۱۲) جو چیز دل کو مشغول کرنے والی ہو، اس سے نظر بچانا۔ 
مباحات طواف
طواف میں یہ چیزیں مباح ہیں: 
(۱) سلام کرنا۔ 
(۲) چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا۔ 
(۳) مسائل شرعیہ کا بتانا اور دریافت کرنا۔ 
(۴) کسی ضرورت سے کلام کرنا۔
(۵) کچھ پینا۔ 
(۶) دعاوں کا ترک کرنا۔ 
(۷) اچھا شعر پڑھنا۔ 
(۸) پاک جوتے وغیرہ پہن کر طواف کرنا۔ 
(۹) کسی عذر کی وجہ سے سوار ہوکر طواف کرنا۔ 
(۱۰) دل دل میں قرآن پڑھنا۔ 
محرمات طواف
یہ سب چیزیں طواف کرنے والوں کے لیے حرام ہیں: 
(۱) جنابت یا حیض و نفاس کی حالت میں طواف کرنا۔ 
(۲) بلا عذر کسی پر چڑھ کر یا سوار ہوکر طواف کرنا۔ 
(۳) بے وضو طواف کرنا۔
(۴) بلا عذر گھٹنوں کے بل یا الٹا ہوکر طواف کرنا۔ 
(۵) طواف کرتے ہوئے حطیم کے بیچ میں کو نکلنا۔ 
(۶) طواف کا کوئی چکر یا اس سے کم چھوڑ دینا۔ 
(۷) حجر اسود کے علاوہ کسی اور جگہ سے طواف شروع کرنا۔ 
(۸) طواف میں بیت اللہ کی طرف منھ کرنا؛ البتہ شروع طواف میں حجر اسود کے استقبال کے وقت جائز ہے ۔ 
(۹) جو چیزیں طواف میں واجب ہیں، ان میں سے کسی کو ترک کرنا۔ 
مکروہات طواف
یہ چیزیں طواف میں مکروہ ہیں: 
(۱) فضول بیہودہ باتیں کرنا۔ 
(۲) خریدو فروخت کرنا یا اس کی بات چیت کرنا۔
(۳) کوئی ایسا شعر پڑھنا جو حمد وثنا سے خالی ہو۔ اور بعض نے مطلق شعر پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ 
(۴) دعا یا قرآن بلند آواز سے پڑھنا جس سے طواف کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کو تشویش ہو۔ 
(۵) جس طواف میں رمل اور اضطباع ہو اس کو بلا عذر ترک کرنا۔ 
(۶) حجر اسود کا استلام چھوڑ دینا۔ 
(۷) طواف کے پھیروں میں زیادہ فاصلہ کرنا۔ 
(۸) دو طواف اس طرح اکٹھے کرنا کہ بیچ میں دو رکعت بھی نہ پڑھے؛ لیکن اگر نماز کا مکروہ وقت ہو تو جائز ہے۔ 
(۹) طواف کی نیت کے بغیر تکبیر کے دونوں ہاتھ اٹھانا۔ 
(۱۰) خطبہ اور فرض نماز کی جماعت کھڑی ہوجانے کے وقت طواف کرنا۔ 
(۱۱) طواف کے درمیان کھانا کھانا۔ بعض نے پینے کو بھی مکروہ لکھا ہے۔ 
(۱۲) پیشاب، پاخانے کے تقاضے کے وقت طواف کرنا۔ 
(۱۳) بھوک اور غصہ کی حالت میں طواف کرنا۔ 
(۱۴) طواف کرتے ہوئے نماز کی طرح ہاتھ باندھنا۔ 
(۱۵) کولھے اور گردن پر ہاتھ رکھنا۔ 
طواف کے اقسام
طواف کی سات قسمیں ہیں: 
(۱) طواف قدوم: یعنی آنے کے وقت کا طواف ۔ اس کو طواف تحیہ ، طواف اللقاء اور طواف الورود بھی کہتے ہیں۔ یہ ان آفاقی کے لیے سنت ہے جو صرف حج یا قران کرے۔ تمتع اور عمرہ کرنے والے کے لیے مسنون نہیں ہے ، اگرچہ آفاقی ہو۔ اسی طرح مکہ والوں کے لیے بھی مسنون نہیں ہے؛ البتہ اگر کوئی مکی میقات سے باہر جاکر افراد کا قران کا احرام باندھے اور حج کرے تو اس کے لیے مسنون ہے ۔ اور اس کا وقت مکہ میں داخل ہونے کا وقت ہے۔ 
(۲) طواف زیارت: اس کو طواف رکن اور طواف حج اور طواف فرض بھی کہتے ہیں ۔ یہ حج کا رکن ہے ، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا ہے ۔ اور اس کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور ایام نحر یعنی بارھویں تک کرلینا واجب ہے ۔ اس میں رمل ہوتا ہے اگر اس کے بعد سعی ہو۔ اور احرام کھول کر سلے ہوئے کپڑے پہن لیے ہوں تو اضطباع نہیں ہوتا۔ اور اگر احرام کے کپڑے نہیں اتارے تو پھر اضطباع کرنا چاہیے۔ اگر طواف قدوم کے بعد سعی کرچکا ہے تو دوبارہ سعی نہ کرے اور نہ اس طواف میں رمل اور اضطباع کرے۔ 
(۳) طواف صدر: یعنی بیت اللہ سے واپسی کا طواف ۔ اس کو طواف وداع بھی کہتے ہیں ۔ یہ آفاقی پر واجب ہے ، مکی پر واجب نہیں۔ اسی طرح جو مکہ کو ہمیشہ کے لیے وطن بنالے اس پر واجب نہیں۔ اس طواف میں رمل اور اضطباع نہیں کیا جاتا اور اس کے بعد سعی بھی نہیں ہے۔ یہ تینوں طواف حج کے ساتھ مخصوص ہیں۔ 
(۴) طواف عمرہ: یہ عمرہ کا رکن ہے ۔ اس میں رمل اور اضطباع کرے اور اس کے بعد سعی کرے۔ 
(۵) طواف نذر: یہ نذر ماننے والے پر واجب ہے۔ 
(۶) طواف تحیہ: یہ مسجد حرام میں داخل ہونے والے کے لیے مستحب ہے ، لیکن اگر کوئی دوسرا طواف کرلے تو وہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔ 
(۷) طواف نفل: یہ جس وقت جی چاہے کرے۔ 
طواف کے مسائل

مسائل استلام
مسئلہ: ہجوم کی وجہ سے اگر استلام نہ کرسکے تو ہاتھ یا چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرے اور اسی کو چوم لے اور طواف شروع کردے۔ (ہدایہ) 
عن ابی الطفیل قال: رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یطوفُ بالبیتِ ویستلمُ الرکنَ بمحجنٍ و یُقَبِّلُ (رواہ مسلم)
حضرت ابو الطفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اور حجر اسود کو چھڑی سے چھوتے ہیں اور چومتے ہیں جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی۔ 
مسئلہ: حجر اسود کو ہاتھ لگانا اور چومنا اس وقت مسنون ہے کہ جب کسی کو تکلیف نہ ہو۔ کسی مسلمان کو سنت کی وجہ سے تکلیف دینا حرام ہے، اس لیے دھکے دے کر استلام نہ کرے۔ (ہدایہ)
عن عمر ان رسولَ اللّٰہِ ﷺ قال لہ انک رجل قوی لاتزاحم علی الحجر فتوذی الضعیف، ان وجدت خلوۃ فاستلمہ الا فاستقبلہ و کبر و ھلل۔ (رواہ احمد) 
حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: تو طاقتور آدمی ہے ۔ حجر اسود پر ہجوم نہ کرنا کہ کمزور کو تکلیف پہنچائے ۔ اگر جگہ خالی ہو تواس کا استلام کرے ورنہ صرف اس کا استقبال کر اور تکبیر و تہلیل کر۔
معلوم ہوا کہ تکلیف دے کر استلام کرنا درست نہیں ہے؛ بلکہ ایسے وقت میں صرف دونوں ہاتھ کو حجر اسود پر رکھے اور ہاتھ چوم لے۔ اگر اس میں بھی دوسرے کو تکلیف پہنچے تو چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو چھوئے اور چھڑی کو چوم لے۔ اگر یہ بھی بلا ایذا کے نہ ہوسکے تو صرف حجر اسود کا استقبال کرے اور تکبیر اور لاالٰہ الا اللہ کہہ لے اور دونوں ہاتھوں کو حجر اسود کی طرف اس طرح کرے کہ حجر اسود پر رکھی ہے اور پھر ہاتھ چوم لے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: حجر اسود پر اگر خوشبو لگی ہو اور طواف کرنے والا احرام میں ہو تو اس کا استلام جائز نہیں ؛بلکہ ہتھیلیوں سے اشارہ کرکے اس کو بوسہ دے لے۔ 
مسئلہ: حجر اسود پر چاندی کا حلقہ لگا ہوا ہے ۔ استلام کے وقت اس کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔ 
مسئلہ: حجر اسود اور بیت اللہ کی چوکھٹ یعنی دہلیز کے علاوہ بیت اللہ کے اور کسی گوشہ یا دیوار کو بوسہ دینا منع ہے ۔ صرف رکن یمانی کو ہاتھ لگائے ، بوسہ نہ دے ۔ اگر ہاتھ نہ لگاسکے تو اشارہ نہ کرے، اس کا صرف چھونا مسنون ہے ۔ اس کی طرف اشارہ وغیرہ مسنون نہیں۔ 
مسئلہ: استلام کے وقت بیت اللہ کی طرف منھ کرنا درست ہے ؛ لیکن طواف کی حالت میں اس کے علاوہ اور وقت میں بیت اللہ کی طرف منھ کرنا منع ہے ۔ 
استلام کے وقت دونوں پاؤں اپنی جگہ پر رکھے اور استلام کرکے سیدھا کھڑا ہوجائے اور طواف شروع کردے ۔ پیچھے نہ ہٹے۔ اس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ 
مسائل نماز و طواف
مسئلہ: ہر طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اور افضل یہ ہے کہ مقام ابراہیم میں پڑھے۔ (ہدایہ) مسلم کی طویل حدیث میں گذر چکا ہے کہ طواف کے بعد رسول اللہ ﷺ مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور آپ ﷺ نے پڑھا: 
واتخذوا من مقام ابراھیم مصلیٰ
پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی اور بعد میں اتنا ہجوم ہوگیا کہ رمل نہیں کرسکتا ہے تو رمل موقوف کردے اور طواف پورا کرے۔ 
مسئلہ: اگر رمل کرنا بھول گیا اور ایک چکر کے بعد یاد آیا تو صرف دو میں رمل کرے اور اگر اول کے تین چکر کے بعد یاد آئے تو پھر رمل نہ کرے ، کیوں کہ جس طرح اول کے تین چکروں میں رمل مسنون ہے اسی طرح اخیر کے چار میں رمل نہ کرنا مسنون ہے۔ 
عن ابن عمرؓ قال: کانَ رسولُ اللّٰہ ﷺ اذا طافَ فی الحج او العمرۃ اول ما یقدم سعیٰ ثلاثۃ اطواف و مشیٰ اربعۃ ثم سجد سجدتین ثم یطوف بین الصفا والمروۃ۔ (متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب حج یا عمرہ میں طواف کرتے، تو سب سے پہلے تین طواف میں تیزی سے چلتے یعنی رمل کرتے اور چار میں اپنی رفتار سے چلتے۔ پھر دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر صفا ومروہ کے درمیان چکر لگاتے۔ 
مسئلہ: پورے طواف میں رمل کرنا مکروہ ہے، لیکن کرنے سے کوئی جزا واجب نہ ہوگی۔ 
مسئلہ: کسی مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے رمل نہیں کرسکے تو کچھ حرج نہیں۔ 
مسئلہ: رمل کرتے ہوئے بیت اللہ کے قریب چلنا افضل ہے ۔ لیکن اگر قریب ہوکر رمل نہ کرسکتا ہو تو پھر فاصلہ سے رمل کے ساتھ طواف کرنا افضل ہے ۔ محض قریب کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو تکلیف دینا گناہ ہے ۔ اسی طرح بلا رمل بھی مرد کو بیت اللہ کے قریب طواف کرنا افضل ہے ، لیکن اگر قریب ہونے میں دوسروں کو تکلیف ہوتو پھر افضل دور ہی ہے۔
طواف کے پھیروں میں کمی زیادتی کے مسائل
مسئلہ: کسی نے قصدا آٹھ چکر طواف کرلیے تو اس پر واجب ہے کہ چھ چکر اور ملا کر دو طواف پورے کرلے۔ 
مسئلہ: ساتویں چکر کے بعد وہم یا وسوسہ سے آٹھویں چکر کرلیا، تب بھی اس کو دوسرا طواف پورا کرنا لازم ہے۔
مسئلہ: اگر آٹھویں چکر کیا اور یہ گمان تھا کہ ساتواں ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ آٹھواں ہے تو دوسرا طواف پورا کرنا واجب نہیں ۔ 
مسئلہ: اگر طواف رکن یعنی طواف زیارت میں شک ہوجائے تو اس کو دوبارہ کرلے۔ اور اگر طواف فرض یا واجب کے پھیروں کی تعداد میں شبہ ہوجائے تو جس پھیرے میں شک ہو اسی کو لوٹائے۔ 
مسئلہ: طواف سنت اور نفل میں شک ہو تو غلبہ ظن پر عمل کرے ۔ 
مسئلہ: اگر کوئی عادل شخص طواف کرنے والے کے ساتھ ہو اور وہ تعداد پھیروں کی کم بتائے تو اس کے قول پر احتیاطا عمل کرنا مستحب ہے اور اگر دو عادل شخص بتائیں تو ان کے قول پر عمل کرنا واجب ہے۔ 
تنبیہ: مریض اور بیہوش کے طواف کا حکم بیہوش کے احرام میں گذرچکا ہے ۔ 
آخری قسط نمبر 29 کے لیے کلک کریں

16 Aug 2018

tawaf ka bayan

طواف کا بیان

قسط نمبر (27)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

لغت میں کسی چیز کے چاروں طرف چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں اور شریعت میں خانہ کعبہ کے چاروں طرف سات مرتبہ گھومنے کو طواف کہتے ہیں ۔ خانہ کعبہ کو دیکھنا اور اس کا طواف کرنا بڑے ثواب کی بات ہے۔ 
عن بن عباسؓ قال: قال رسولُ اللّٰہ ﷺ ان للّٰہِ فی کل یوم و لیلۃ عشرین و ماءۃ رحمۃ تنزل علیٰ ھذا البیتِ ستون للطائفین ا ربعون للمصلین، و عشرون للناظرین۔ (کذا فی الدر عن ابن عدی والبیہقی و ضعفہ و ھما وحسنہ المندری ، و فی الکنز بالفاظ اٰخر وھو فی المسلسلات للشاہ ولی اللّٰہ الدھلوی)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک سو بیس رحمتیں روزانہ اس گھر پر نازل ہوتی ہیں، جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر اور چالیس نماز پڑھنے والوں پر اور بیس بیت اللہ کو دیکھنے والوں پر ہوتی ہیں ۔
بیت اللہ شریف کا صرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حضرت سعید بن المسیب تابعیؒ فرماتے ہیں کہ جو ایمان و تصدیق کے ساتھ کعبہ کو دیکھے، وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے ، جیسا آج ہی پیدا ہو۔ ابو السائب مدنی کہتے ہیں : جو ایمان و تصدیق کے ساتھ کعبہ کو دیکھے، اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں ، جیسے پتے درخت سے جھڑ جاتے ہیں ۔ اور جو شخص مسجد میں بیٹھ کر بیت اللہ کو صرف دیکھتا رہے، چاہے طواف و نماز نفل نہ پڑھتا ہو، وہ افضل ہے اس شخص سے جو اپنے گھر میں نفلیں پڑھے اور بیت اللہ کو نہ دیکھے۔ حضرت عطا کہتے ہیں کہ بیت اللہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے اور بیت اللہ کو دیکھنے والا ایسا ہے جیسا کہ رات کو جاگنے والا، دن میں روزہ رکھنے والا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے واالا۔ اور حضرت عطا ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ ایک مرتبہ بیت اللہ کو دیکھنا ایک سال کی نفلی عبادت کے برابر ہے۔ (در منثور)۔ 
اور طواف کرنے والوں پر جس قدر رحمتیں نازل ہوتی ہیں، وہ اس حدیث سے ظاہر ہے ، اسی واسطے علما نے لکھا ہے کہ مسجد حرام میں تحیۃ المسجد سے طواف افضل ہے۔ 
عن ابی ھریرۃؓ ان النبی ﷺ قال: من طافَ بالبیت سبعا ولایتکلم الا ب سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الٰہ الا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر، ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ، مُحِیتْ عنہ عشر سیئات و کتب لہ عشر حسنات و رفع لہ عشر درجات، و من طاف فتکلمَ وھو فی تلک الحال خاض فی الرحمۃ برجلیہ کخائض الماء برجلیہ (رواہ ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیت اللہ کا سات پھیرا طواف کرے اور اس میں سبحان اللہ،والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبرکے سواکوئی کلام نہ کرے، تو اس کے دس گناہ مٹیں گے اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے ۔ اور جو شخص طواف کرے ، پھر اس حالت میں کلام کرے تو وہ خدا کی رحمت میں پاؤں سے گھسنے والا ہے ، جیسے کوئی پانی میں دونوں پاؤں سے گھسے۔ 
طواف کرنے کا طریقہ
بیت اللہ کے سامنے جس طرف حجر اسود ہے، اس طرح کھڑا ہو کہ داہنا مونڈھا حجر اسود کے مغربی کنارے کے مقابل ہو اور سارا حجر اسود داہنی طرف رہے ۔ اس کے بعد طواف کی نیت کرکے داہنی طرف کو اتنا ہٹے کہ حجر اسود بالکل مقابل ہوجائے ۔ا ور حجر اسود کی طرف منھ کرکے حجر اسود کے قریب سامنے کھڑا ہوکر دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائے ، جس طرح نماز کے لیے کانوں تک اٹھاتے ہیں ۔ اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰہُ أکْبَرُ، وَ لِلّٰہِ الحَمْدُ وَ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلامُ علیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ الْلّٰھُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَ وَفَاء اً بِِعَھْدِکَ وَ اِتِّباعَاً لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ محمَّدٍ ﷺ ۔
اس کے بعد ہاتھ چھوڑ کر حجر اسود پر آئے اور دونوں ہاتھ حجر اسود پر رکھے اور منھ دونوں کے بیچ میں رکھ کر بوسہ دے؛ لیکن آہستہ آہستہ دے ، چٹاخے کی آواز نہ پیدا ہو۔ اور بعض کے نزدیک یہ بھی مستحب ہے کہ بوسہ دینے کے بعد حجر اسود پر سر رکھے اور اس کے بعد دوسرا بوسہ دے ، پھر سررکھے۔ پھر تیسرا بوسہ دے اور سر رکھے ۔ اس کے بعد داہنی طرف یعنی بیت اللہ کے دروازے کی طرف چلے اور بیت اللہ بائیں مونڈھے کی طرف رہے۔ اور طواف میں حطیم کو بھی شامل کرلے۔ جب طواف کرتا ہوا رکن یمانی (کعبہ کا جنوبی مغربی گوشہ) پر پہنچے، تو اس کا استلام کرے، یعنی دونوں ہاتھ یا صرف داہنا ہاتھ اس کو لگائے ، بوسہ نہ دے اور اس پر پیشانی وغیرہ نہ رکھے۔ پھر جب حجر اسود پر آئے تو حجر اسود کا استلام کرے، جیسا کہ اول مرتبہ کیا تھا، لیکن ہاتھ نہ اٹھائے۔ ہاتھ صرف پہلی مرتبہ اٹھائے جاتے ہیں اور حجر اسود تک پھر آنے کوشوط (ایک چکر) کہتے ہیں ۔ اسی طرح سات چکر پوری کرے۔ (ہدایہ)
اور ساتویں شوط کے بعد آٹھویں مرتبہ پھر حجر اسود کا استلام کرے۔ اب طواف پورا ہوگیا۔ اس کے بعد دو رکعت طواف مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھے ، پہلی رکعت میں قل یا ایہا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھے۔اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے؛ لیکن دعائے آدم علیہ السلام اس مقام پر ماثور ہے۔ وہ یہ ہے:
اللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ سِرِّی و علانِیَتیْ فاقْبِلْ معْذِرَتِی، وَ تَعْلَمُ حاجَتِیْ فاعْطِنِی سُؤلِیْ و تعلَمُ ما فی نفسیْ فاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ، الْلّٰھُمَّ اِنِّی اَسْءَلُکَ اِیْمانَاً یُّبَاشِرُ قَلْبِیْ وَ یَقِیْنَاً صادِقَاً حَتّٰی اَعْلَمُ أنَّہُ لایُصِیْبُنِیْ اِلَّا مَا کَتَبَ لِی و رِضاً بِما قَسَمْتَ لِیْ یا أرْحمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ 
پھر دوگانہ طواف پڑھ کر مستحب ہے کہ چاہ زمزم پر جائے اور آب زمزم پیے اور دعا مانگے اس وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ 
عن جابرؓ یقولُ: سمعتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یقولُ: ماءُ زمزمَ لما شرِبَ لہ (رواہ ابن ماجہ و بسط صاحب الاتحاف فی تخریجہ و قال شیخنا الشاہ الغنی ھذا الحدیث مشھور علیٰ الالسنۃ کثیرا واختلف الحفاظ فیہ، فمنھم من حسنہ و منھم من ضعفہ والمعتمد الاول الخ۔ و قال ابن حجر فی شرح مناسک النووی قد کثر کلام المحدثین فی ھذا الحدیث والذی استقر علیہ امر محققیھم انہ حسن او صحیح و قول الذھبی انہ باطل وابن الجوزی انہ موضوع مردود)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرمارہے تھے کہ زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے، وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے ۔ 
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ اگر تو اس کو پیاس بجھانے کے واسطے پیے تو اس کا کام دے ۔اور اگر کھانے کی جگہ پیٹ بھرنے کے لیے پیے تو اس کا کام دے۔ اور اگر کسی مرض سے صحت کی نیت سے پیے تو اس کا کام دے۔ یہ حضرت جبرئیل کی خدمت ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سبیل ہے۔ (اتحاف)
حضرت عمرؓ نے زمزم کا پانی پیتے ہوئے کہا : یا اللہ! میں قیامت کے دن کی پیاس بجھانے کے لیے پیتا ہوں۔ (کنز)
پانی پی کر ملتزم پر آئے۔ ملتزم حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازہ کے درمیان کی دیوار کو کہتے ہیں۔ ملتزم سے لپٹ کر دعا مانگے، یہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ 
عن ابن عباسؓ یقول: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ ﷺ الملتزمُ موضعٌ یستجاب فیہ الدعاءُ۔ ما دعَا اللّٰہَ فیہ عبدٌ الا استجَابَ بھا۔ (کذا فی المسلسلات للشاہ ولی اللّٰہ الدھلوی و ذکرہ الجزری فی الحصن مجملا)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا: آپ ﷺ فرماتے تھے: ملتزم ایسی جگہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے ۔ کسی بندہ نے وہاں ایسی دعا نہیں کی جو قبول نہ ہوئی ہو۔ 
حضرت ابن عباسؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے اس جگہ کھڑے ہوکر اپنے سینہ اور چہرہ کو دیوار سے چمٹا دیا اور دونوں ہاتھوں کو دیوار پر پھیلادیا اور یہ کہا کہ میں نے اسی طرح حضوراقدس ﷺ کو کرتے دیکھا۔ (ابوداود)
حضرت مولانا زکریاصاحب محدث سہارنپوریؒ فضائل حج میں بیان فرماتے ہیں کہ میرے حضرت نور اللہ مرقدہ سے لے کر حضور ﷺ تک ہر استاذ حدیث سناتے وقت اپنا ذاتی تجربہ یہ بتاتے ہیں کہ میں نے اس جگہ دعا کی اور وہ قبول ہوئی اور اس ناپاک کا بھی یہی ذاتی تجربہ ہے ۔اور بعض کہتے ہیں کہ طواف کے بعد اول ملتزم پر آئے ۔ پھر دوگانہ پڑھے ۔ پھر زمزم پر آئے۔ 
تنبیہات
(۱) جس طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ہو ، اس طواف کے پہلے تین شوط (پھیرے) میں رمل کرے، یعنی اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے ہوئے چلے۔ (ہدایہ)
عن جابرؓ قال: ان رسولَ اللّٰہِ ﷺ لما قدمَ مکۃَ اتیٰ الحجرَ فاستلمَہُ ثم مشیٰ علیٰ یمینہِ فرملَ ثلاثا و مشیٰ اربعا۔ (رواہ مسلم)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو حجر اسود کے پاس آئے ، پھر اس کا استلام کیا ۔ پھر دائیں جانب چلے اور تین شوط میں رمل کیا اور چار شوط میں اپنی چال چلے۔ 
(۲) اور اس طواف میں شروع سے آخر تک چادر کو دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر دونوں چھور کو ڈال لے اور داہنا کندھا کھلا رہنے دے۔ (ہدایہ)
عن یعلی ابن امیۃ قال: ان رسولَ اللّٰہ ﷺ طافَ بالبیتِ مضطجعاً بِبُردٍ اخْضَرَ۔ (رواہ الترمذی و ابو داود وابن ماجہ والدارمی و حسنہ الترمذی)
یعلی ابن امیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سبز چادر سے اضطباع کرتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا۔ 
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک طواف میں اضطباع کرنا۔ دوسری یہ کہ احرام کا کپڑا سفید ہونا ضروری نہیں ، اس لیے کہ حضور ﷺ کی چادر سبز تھی۔ اضطباع کی صورت وہی ہے جو بیان ہوا۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ 
عن ابن عباسؓ ان رسولَ اللّٰہ ﷺ و اصحابَہ اعتمروا من الجعرانۃ فرملوا بالبیت ثلاثا و جعلوا أردِیتَھُمْ تحتَ اِبْطِھِمْ، ثُمَّ قَذَفُوا علیٰ عَوَاتِقِھِمِ الیُسْرَیٰ۔ (رواہ ابو داود)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب نے جعرانہ سے عمرہ کیا تو بیت اللہ کے طواف میں تین شوط میں رمل کیا اور اپنی چادروں کو اپنی بغلوں میں کیں، پھر بائیں کندھوں پر اس کو ڈال لیں۔ 
(۳) طواف کے بعد جو دو رکعت نماز پڑھے اس میں چادر سے دونوں مونڈھوں کو چھپالے، نماز میں اضطباع نہ کرے۔ اضطباع صرف طواف میں ہوتا ہے۔ 
(۴) شروع طواف میں جو ہاتھ اٹھایا جاتا ہے، وہ اس وقت اٹھائے جب حجر اسود کا استبقال کرے اور تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھائے۔ حجر اسود کے استقبال سے پہلے ہاتھ اٹھانا بدعت ہے۔ 
(۵) اکثر طواف کرنے والے حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان میں کھڑے ہوکر نیت کرتے ہیں ، یہ مکروہ ہے ۔ طواف کی نیت کے لیے اس طرح کھڑا ہو کہ داہنا کندھا حجر اسود کے مغربی کنارے کے مقابل میں ہو۔ 

Masjide Haram min Dakhil hone ka Bayan

مسجد حرام میں داخل ہونے کے آداب کا بیان

قسط نمبر (26)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
خانہ کعبہ کے چاروں طرف جو مسجد ہے، وہی مسجد حرام ہے۔بیت اللہ مسجد حرام کے بالکل بیچ میں ہے۔
مسئلہ: مکہ میں داخل ہوتے ہی مسجد حرام میں حاضر ہونا مستحب ہے۔ اگر فورا ممکن نہ ہو تو اسباب وغیرہ کا بندوبست کرکے سب سے اول مسجد میں حاضر ہونا چاہیے، کیوں کہ اس سفر کا مقصد ہی بیت اللہ کی زیارت ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: مسجد حرام میں داخل ہونے سے پہلے وضو کرلینا چاہیے، تاکہ اس کے بعد جو افعال کریں، وہ باوضو کریں، جیسے طواف اور نماز ۔ 
عن عروۃ بن الزبیرؓ قال: حجَّ النبیُ ﷺ فاخبرتْنیْ عائشۃؓ أنَّ أوَّلَ شئیٍ بدأَ بہِ حین قدِمَ مکۃَ أنَّہُ توضَّأ ثُمَّ طافَ بالبیتِ (متفق علیہ)
حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حج کیا ، تو حضرت عائشہؓ نے مجھے خبر دی کہ جس وقت آپ ﷺ مکہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلا کام آپ ﷺ نے یہ کیا کہ آپ ﷺ نے وضو کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ 
مسئلہ: اس مسجد میں باب السلام سے داخل ہونا مستحب ہے۔
مسئلہ: تلبیہ پڑھتے ہوئے نہایت خشوع خضوع کے ساتھ دربار الٰہی کی عظمت و جلال کا لحاظ کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہو۔ اور پہلے داہنا پاؤں رکھے اور یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللّٰہِ وَ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلامُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ أبْوَابَ رَحْمَتِکَ۔ 
مسئلہ: مسجد میں اندر داخل ہونے کے بعد جب بیت اللہ پر نظر پڑے تو تین مرتبہ کہے:
الْلّٰہُ أکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا الْلّٰہُ ۔
اور بیت اللہ کو دیکھتے وقت ہاتھ اٹھاکر یہ دعا پڑھے، جو مسند شافعی میں ابن جریج سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بیت اللہ کو دیکھتے تو ہاتھ اٹھاتے اور کہتے:
ألْلّٰھُمَّ زِدْ ھَذا الْبَیْتِ تَشْرِیْفَاً وَّ تَعْظِیْمَاً وَّ تَکْرِیْمَاً وَّ مَھَابَۃً وَّ زِدْ مِنْ شَرَفِہِ وَ کَرَمِہِ مِمَّنْ حَجَّہُ أوْ اعْتَمَرَہُ تَشْرِیْفَاً وَّ تَعْظِیْمَاً وَّ تَکْرِیْمَاً ۔ (فتح القدیر)
اور بیہقی نے سعید بن مسیبؓ سے بیان کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ سے ایک کلمہ سنا ہے ، جس کے سننے والوں میں سے میرے سوا کوئی باقی نہیں رہا۔ جب بیت اللہ دیکھتے تو کہتے:
ألْلّٰھُمَّ أنْتَ السَّلامُ وَ مِنْکَ السَّلامُ فَحَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ (فتح القدیر)
بہتر ہے کہ دونوں ہی دعا کو پڑھ لے ۔ اس کے بعد درود پڑھے اور جو دعا چاہے مانگے۔اور اس وقت یہ دعا بھی مستحب ہے جو حضرت عطا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ کی زیارت کی تو فرمایا : 
أعُوْذُ بِرَبِّ الْبَیْتِ مِنَ الدَّیْنِ وَالْفَقْرِ وَ مِنْ ضَیْقِ الصَّدْرِِ وَ عَذَابِ الْقَبْرِ (زیلعی)
مسئلہ: بیت اللہ کے دیکھتے وقت کھڑے ہوکر دعا مانگنا مستحب ہے ، جو دعائیں جناب رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں اگر وہ یاد ہوں، تو ان کا پڑھنا افضل ہے ؛ لیکن اگروہ دعا یاد نہ ہو، تو جو چاہے دعا مانگے۔ کسی جگہ کوئی خاص دعا معین نہیں ہے کہ اس کا پڑھنا ضروری ہو ، جس دعا میں خشوع حاصل ہو، وہ پڑھے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: مسجد حرام میں داخل ہوکر تحیۃ المسجد نہ پڑھے۔ اس کا تحیہ طواف ہے ، اس لیے دعا مانگنے کے بعد طواف کرے ؛ البتہ اگر طواف کرنے کی وجہ سے فرض نماز کے قضا ہونے یا مستحب وقت نکل جانے یا جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو طواف کے بجائے تحیۃ المسجد پڑھنا چاہیے ، بشرطیکہ وقت مکروہ نہ ہو۔ 
مسئلہ: نماز جنازہ ، سنت مؤکدہ ، وتر کو طواف تحیہ سے پہلے پڑھے اور اشراق و تہجد، چاشت وغیرہ کو طواف سے پہلے نہ پڑھے۔ 
مسئلہ: مسجد حرام میں ؛ بلکہ ہر مسجد میں داخل ہونے کے وقت نفلی اعتکاف کی نیت کرنا مستحب ہے اور نفل اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی جائز ہے۔ 
مسئلہ: مسجد حرام میں نماز پڑھنے والے کے آگے طواف کرنے والوں کو گذرنا جائز ہے اور طواف نہ کرنے والوں کو بھی جائز ہے، مگر سجدہ کی جگہ میں نہ گذرے۔
مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا بیان
مسجد حرام تمام مسجدوں سے افضل ہے ، اس میں نماز پڑھنے کا بڑا ثواب ہے۔ ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہوتا ہے۔
عن أنس بن مالکؓ قال: قال رسولُ اللّٰہِ ﷺ صلوٰۃُ الرجلِ فی بیتِہ صلوٰۃٌ، و صلوٰتُہ فی مسجد القبائل بخمس و عشرین صلوٰۃً، و صلوٰتُہ فی المسجدِ الذی یجمع فیہ بخمس ماءۃ صلوٰۃ، و صلوٰتہ فی المسجد الاقصیٰ بخمسین ألف صلوٰۃ، و صلوٰتہ فی مسجدی بخمسین ألف صلوۃ و صلوٰتہ فی المسجد الحرام بماءۃ ألف صلوٰۃ۔ (رواہ ابن ماجہ)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی کی نماز اپنے گھر میں ایک نماز ہے۔ اور اس کی نماز محلہ کی مسجد میں پچیس نماز کے برابر ہے ۔ اور اس کی نماز جامع مسجد میں پانسو نماز کے برابر ہے ۔ اور اس کی نمازمسجد اقصیٰ میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے۔ اور اس کی نماز میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے اور اس کی نما ز مسجد حرام میں ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ 
متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہے کہ مکہ مکرمہ کی مسجد (یعنی مسجد حرام) میں ایک لاکھ نماز کا ثواب ہے ۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ مکہ میں ایک دن کا روزہ مکہ سے باہر ایک لاکھ روزوں کے برابر ہے ۔ اسی طرح وہاں ایک درم کا ثواب باہر کے لاکھ درم کے برابر ہے ۔ اسی طرح وہاں کی ہر نیکی باہر کی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے۔ (اتحاف)
بہت سی احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی کا ثواب مسجد اقصیٰ سے زائد ہے ؛ لیکن اس حدیث میں دونوں کا ثواب پچاس ہزار آیا ہے، اس لیے علما نے ان روایات کی وجہ سے اس حدیث میں یہ توجیہہ فرمائی ہے کہ یہاں ہر مسجد کا ثواب اس سے پہلی مسجد کے اعتبار سے ہے ، یعنی جامع مسجد کا ثواب محلہ کی مسجد کے ثواب سے پانچ سو مرتبہ سے زائد ہے۔ اس صورت میں جامع مسجد کا ثواب بارہ ہزار پانسو ہوگیا ۔ اور مسجد اقصیٰ کا ثواب باسٹھ کروڑ پچاس لاکھ ہوگیا اور مسجد مدینہ کا تین نیل بارہ کھرب پچاس ارب ہوا ۔ اور مسجد حرام کا اکتیس سنکھ پچیس پدم ہوا۔ اس صورت میں مسجد مدینہ کا ثواب مسجد اقصیٰ سے بہت زائد ہوگیا۔ (فضائل حج) 
لہذا مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے ۔ سیرو تفریح میں اس مسجد کی نماز نہ چھوٹ جائے ۔ مسجد حرام میں اگر صرف ایک دن پانچوں وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے، تو اس کا ثواب ساری عمر کی نمازوں سے بڑھ کر ہے ۔ مسجد حرام میں خاص ان مقامات میں بھی نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے ، جن مقامات میں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی ہے ۔ اور وہ یہ ہیں: مقام ابراہیم کے پیچھے۔ حجر اسود کے سامنے مطاف کے کنارے پر۔ رکن شامی کے قریب کعبہ کے دروازے کے پاس۔ بیت اللہ کے سامنے جو گڑھا ہے ، جن کو مقام جبرئیل بھی کہتے ہیں ۔ بیت اللہ کے سامنے حطیم میں۔ بیت اللہ کے اندر اور حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان ۔ رکن غربی کے سامنے اس طرح کہ باب العمرہ پیچھے ہو۔ مصلی آدم علیہ السلام۔ رکن یمانی کی جانب۔ 
مسئلہ: جس طرح کعبہ سے باہر اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا جائز ہے ، اسی طرح کعبہ کے اندر بھی نماز پڑھنا جائز ہے ۔ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کی صورت میں چاروں طرف قبلہ ہے ۔ جدھر کو چاہو نماز پڑھو۔ 
عن ابن عمرؓ قال: دَخَلَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ الکعبۃَ والفضلُ و اسامۃُ و زیدٌ و عثمانُ بن طلحۃَ، فکانَ أول من لقیتُ بلالاً فقلتُ أینَ صلَّی النبی ﷺ؟ قالَ: بین ھاتین الساریتین (رواہ ابن ابی شیبۃ و رویٰ الطحاوی والبخاری مسلم نحوہ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ، فضل، اسامہ ابن زید اور عثمان ابن طلحہ کعبہ میں داخل ہوئے ، تو سب سے پہلے میں نے حضرت بلالؓ سے ملاقات کی، تو میں نے کہا : نبی کریم ﷺ نے کہاں نماز پڑھی؟ فرمایا: ان دونوں ستونوں کے درمیان میں۔ 
مسئلہ: آج کل عورتیں مردوں کی جماعت میں یا آگے پیچھے اس طرح کھڑی ہوجاتی ہیں کہ ان کی محاذات سے یعنی برابر میں کھڑی ہونے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ، اس لیے عورتوں کے برابر میں کھڑے ہونے سے بچے۔ 
مسئلہ: اگر عورتوں کی صف آگے اور مردوں کی صف پیچھے ہو تو مردوں کی نماز نہیں ہوگی۔ 
مسئلہ: محاذات کی صورت میں نماز کے فاسد ہونے کی چند شرطیں ہیں: 
اول: عورت کا قابل جماع ہونا، بالغ ہو یا نابالغ۔
دوسری: دونوں کا ایک نماز میں شریک ہونا۔
تیسری: درمیان میں حائل یا ایک آدمی کی جگہ خالی نہ ہونا۔
چوتھی: عورت میں نماز صحیح ہونے کی شرط پایا جانا، یعنی مجنونہ اور حیض و نفاس والی نہ ہونا۔
پانچویں: کم از کم ایک رکن کی مقدار نماز میں شریک رہنا۔
چھٹی: دونوں کا تحریمہ ایک ہونا، یعنی دونوں کسی تیسرے کے مقتدی ہوں یاعورت مرد کی مقتدی ہو۔
ساتویں: امام کا عورت کی امامت کی نیت نماز شروع کرتے وقت کرنا۔ اگر نیت نہ کی ہو، تو مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔ عورت کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ 
مسئلہ: بیت اللہ کی مسجد میں کعبہ کے چاروں طرف نماز پڑھنی جائز ہے ، لیکن بیت اللہ کا سامنے ہونا ضروری ہے ۔ اگر بیت اللہ سامنے نہ ہوگا تو نماز نہ ہوگی ۔ بیت اللہ سے دوری کی صورت میں تو بیت اللہ کی سیدھ کافی ہوجاتی ہے ۔ مگر قریب ہونے کی صورت میں استقبال عین قبلہ کا ضروری ہے ۔ اگر ذرا بھی قبلہ سے انحراف ہوا تو نماز نہ ہوگی۔ 
مسئلہ: صرف حطیم کا استقبال نماز میں کافی نہیں ہے ؛ بلکہ کعبہ کا استقبال ضروری ہے، چاہے حطیم بیچ میں آجائے۔ 
مسئلہ: جب امام بیت اللہ سے باہر مسجد حرام میں کھڑا ہوکر نماز پڑھا رہا ہے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ چاروں طرف سے حلقہ بناکر اقتداء کرے ، یہ درست ہے۔ البتہ جس طرف امام کھڑا ہو، اس طرف مقتدی امام سے آگے کھڑا نہ ہو، ورنہ اس کی نماز نہ ہوگی۔ 
قسط 27 کے لیے کلک کریں

Makka min dakhil bone ka bayan

مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا بیان
قسط نمبر (25)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

مکہ مکرمہ میں قبرستان مکہ یعنی باب المعلیٰ کی طرف سے داخل ہونا اور باب السفلیٰ سے نکلنا مستحب ہے اگر سہولت سے ممکن ہو ۔ ورنہ جس طرف سے چاہے داخل ہوجائے اور نکل جائے ۔ (بحر الرائق)
عن عائشۃؓ ان النبی ﷺ لما جاء الیٰ مکۃ دخلَھا اعلاھا و خرجَ مِن أسفلِھا (متفق علیہ)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ میں داخل ہوتے تو باب معلیٰ سے داخل ہوتے اور باب سفلیٰ سے باہر نکلتے۔ 
مسئلہ: مکہ میں داخل ہونے کے وقت غسل کرنا مسنون ہے ۔ حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ جب بھی مکہ تشریف لاتے تو رات ذی طویٰ میں گذارتے، یہاں تک کہ صبح ہوجاتی اور غسل کرتے اور نماز پڑھتے۔ پھر مکہ میں دن کو داخل ہوتے۔ اور جب مکہ سے کوچ کرتے تو ذی طویٰ سے گذرتے اور رات وہیں گذارتے، یہاں تک کہ صبح ہوجاتی اور تذکرہ کرتے کہ نبی کریم ﷺ ایسا کرتے تھے۔ (بخاری مسلم)
بحرالرائق میں ہے کہ مسنون غسلوں میں سے ایک مکہ میں داخل ہونے کا بھی ہے اور یہ غسل نظافت کے لیے ہے، اس لیے حیض و نفاس والی بھی غسل کرے۔ 
چوں کہ اب زیادہ تر جدہ سے موٹر میں جانا ہوتا ہے، اس لیے جدہ ہی میں غسل کرلے، بعد کو موقع نہیں ملتا ہے۔ 
فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ مکہ میں دن کو داخل ہونا مستحب ہے۔ اور لباب المناسک میں ہے کہ مکہ میں دن کو داخل ہو، یا رات کو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن دن کو داخل ہونا افضل ہے۔ 
مسئلہ: جب مکہ نظر آئے تو یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ اجْعَلْ لِّیْ بِھَا قَرَارَاً وَّ ارْزُقْنِیْ فِیْھَا رِزْقَاً حَلَالَاً۔ 
مسئلہ: مکہ میں نہایت خشوع خضوع کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے نہایت ادب و تعظیم کے ساتھ داخل ہو اور داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھے: 
ألْلّٰھُمَّ أنْتَ رَبِّیْ وَ أنَا عَبْدُکَ جِءْتُ لِاُؤدِّیَ فَرْضَکَ وَ اَطْلُبُ رَحْمَتَکَ وَ اَلْتَمِسُ رِضَاکَ مُتَتَبِّعَاً لِّاَمْرِکَ رَاضِیَاً بِقَضَاءِکَ، أسْءَلُکَ مَسْءَلَۃَ الْمُضْطَرِّیْنَ اِلَیْکَ، الْمُشْفِقِیْنَ مِنْ عَذَابِکَ الْخَاءِنِیْنَ مِنْ عِقَابِکَ أنْ تَسْتَقْبِلَنِیْ الْیَوْمَ بِعَفْوِکَ وَ تَحْفِظْنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَ تَجَاوَزَ عَنِّیْ بِمَغْفِرَتِکَ وَ تَعِیْنَنِیْ عَلیٰ أداءِ فَرْضِکَ، ألْلّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ أبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَ ادْخِلْنِیْ فِیْھَا وَ اَعِذْنِیْ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ 
مسئلہ: مکہ کے قبرستان اور مسجد حرام کے درمیان ایک جگہ ہے ، جس کا نام مدعیٰ ہے ، یعنی دعا کرنے کی جگہ۔ پہلے اس جگہ سے بیت اللہ نظر آتا تھا اور حضرت عمرؓ نے اس کو خوب اونچا کرادیا تھا، تاکہ اس پر سے بیت اللہ نظر آئے، لیکن اب مکانات بن جانے کی جہ سے وہاں سے بیت اللہ نظر نہیں آتا ہے ، لیکن اس جگہ دعا مانگنا اب بھی مستحب ہے ، جب مدعی پر پہنچے تو یہ دعا پڑھے:
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ، ألْلّٰھُمَّ اِنِّی أسْءَلُکَ مِمَّا سَءَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّداً ﷺ وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدَاً ﷺ ۔ 
اور مناقب میں مذکور ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو فرمایا : جو مکہ کے سفر کا ارادہ رکھتا تھا: بیت اللہ شریف کے مشاہدہ کے وقت مستجاب الدعوات ہونے کی دعا کرنا۔ اگر دعا قبول ہوئی تو مستجاب الدعوات ہوجائے گا۔ (بحر الرائق)
قسط 26 کے لیے کلک کریں

15 Aug 2018

Makroohate Ehram ka bayan

مکروہات احرام کا بیان

قسط نمبر (24)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

مسئلہ: بدن سے میل دور کرنا ، سر داڑھی اور بدن کو صابون وغیرہ سے دھونا مکروہ ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: بالوں میں کنگھی کرنا یا اس کو اس طرح سے کھجلاناکہ بال یا جوں گر پڑے، مکروہ ہے۔ اس طرح کھجلانا کہ بال یا جوں نہ گرے جائز ہے ۔ اگر بال گرنے کا ڈر نہ ہو تو زور سے بھی کھجلاسکتا ہے۔ 
مسئلہ: داڑھی میں خلال کرنا بھی مکروہ ہے، اگر کرے تو اس طرح کہ بال نہ گرے۔ 
مسئلہ: لنگی کے دونوں پلوں کو آگے سے سینا مکروہ ہے ۔ اگر کسی نے ستر عورت کی حفاظت کے لیے سی لیا تو دم واجب نہ ہوگا، اس لیے کہ یہ بدن کی ہیئت پر سلی ہوئی نہیں ہے۔ 
مسئلہ: چادر میں گرہ دے کر گردن پر باندھنا ، چادر اور لنگی میں گرہ لگانا یا سوئی اور پن وغیرہ لگانا، تاگے یا رسی سے باندھنا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: خوشبو کو چھونا یا سونگھنا، خوشبو والے کی دوکان پر خوشبو سونگھنے کے لیے بیٹھنا، خوشبو دارمیوہ اور خوشبو دار گھاس سونگھنا اور چھونا مکروہ ہے۔ اگر بلا ارادہ خوشبو آجائے تو کچھ حرج نہیں۔ 
مسئلہ: سر اور منھ کے علاوہ اور بدن پر بلا وجہ پٹی باندھنا مکروہ ہے ۔ ضرورت کے وقت باندھ سکتا ہے ۔ 
مسئلہ: کعبہ کے پردہ کے نیچے اس طرح کھڑا ہونا کہ منھ کو یا سر کو لگے مکروہ ہے ۔ اگر سریا منھ کو نہ لگے تو جائز ہے ۔
مسئلہ: لنگی میں نیفہ موڑ کر کمربند ڈالنا جیسا کہ پاجامہ میں کرتے ہیں ، مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: ناک، تھوڑی اور رخسار کو کپڑے سے چھپانا مکروہ ہے ۔ ہاتھ سے چھپانا جائز ہے۔
مسئلہ: تکیہ پر منھ کے بل لپٹنا مکروہ ہے ۔ سر یا رخسارے کا تکیہ پر رکھنا جائز ہے ۔
مسئلہ: خوشبو دار کھانا بلا پکا ہوا مکروہ ہے ۔ خوشبو دار پکا ہوا کھانا مکروہ نہیں۔ 
مسئلہ: اپنی عورت کی شرمگاہ شہوت سے دیکھنا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: چوغہ اور قبا وغیرہ کو صرف کندھوں پر ڈالنا بھی مکروہ ہے، اگرچہ ہاتھ آستینوں میں نہ ڈالے ہوں۔ ہاتھ آستینوں میں ڈالنے سے جنایت لازم آئے گی۔ 
مسئلہ: احرام باندھنے کے بعد دھونی دیا ہوا کپڑا پہننا مکروہ ہے۔ 
مباحات احرام کا بیان
ضرورت کی وجہ سے ٹھنڈے یا گرم پانی سے غسل کرنا جائز ہے۔ (ہدایہ)
عن ابی ایوبؓ ان النبی ﷺ کانَ یغسِلُ رأسَہُ وھو محرِمٌ۔ (متفق علیہ)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ احرام کی حالت میں سر دھوتے تھے۔ 
سر کا بال اس طرح دھونا کہ بال نہ ٹوٹے بالاتفاق جائز ہے، لیکن خطمی وغیرہ سے دھونے سے اما م صاحب کے نزدیک دم واجب ہے اور صاحبین کے نزدیک صدقہ ۔ (فتاویٰ قاضی خان)
حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ حاجی کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
أشعث التفل(ابن ماجہ)
جن کا بال پراگندہ ہو، خوشبو نہ لگائے۔ شعث کے معنی بال کے پراگندگی کے اور تفل کے معنی ترک خوشبو کے ہیں ، یعنی تیل خوشبو ترک کرے صابون وغیرہ سے بال کو صاف نہ کرے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے یا گردوغبار دور کرنے کے لیے نہانا جائز ہے ، مگر میل دور نہ کرے۔ پانی میں غوطہ لگانا، حمام میں داخل ہونا، کپڑا پاک کرنا، انگوٹھی پہننا، ہتھیار باندھنا، دشمن سے شریعت کے مطابق جنگ کرنا جائز ہے۔
مسئلہ: ہمیانی (تھیلی) اور پیٹی لنگی کے اوپر یا نیچے باندھنا جائز ہے ، اگرچہ اس میں اپنا یا کسی دوسرے کا روپیہ ہو۔ (ہدایہ)
مسئلہ: گھر یا خیمے کے اندر داخل ہونا ، چھتری لگانا، شغدف و عماری میں بیٹھنا، ریل ، موٹر میں بیٹھنا، یا کسی اور چیز کے سایہ میں بیٹھنا جائز ہے۔ 
عن ام الحصین قالتْ: رأیتُ أسامۃ و بلالا، احدھما اخذَ بخطامِ ناقۃِ رسولِ اللّٰہِ والاٰخرُ رفَعَ ثوبَہُ یستُرُہُ مِنَ الحرِّ حتّٰی رمیٰ جمرۃَ العقْبَۃِ (رواہ مسلم)
ام حصین بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت اسامہ اور بلال رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑی اور دوسرے نے اپنا کپڑا اٹھایا، تاکہ آپ ﷺ کو گرمی سے بچائے۔ (اسی طرح سایہ کیے رہے) یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جمرۂ عقبہ کی رمی کی۔ 
عالمگیری میں ہے کہ گھر اور محمل کے سایہ میں کچھ حرج نہیں ۔ اور قاضی خان میں ہے کہ خیمہ کے سایہ میں کچھ حرج نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ سایہ میں بیٹھنے میں کچھ حرج نہیں۔ حضورﷺ کے لیے عرفات میں خاص طور سے خیمہ نصب ہوا تھا، جس میں آپ ﷺ آرام کرتے تھے۔ 
مسئلہ: آئینہ دیکھنا، مسواک کرنا، دانت اکھاڑنا، ٹوٹے ہوئے ناخن کاٹنا، پچھنے لگانا، پڑبال نکالنا، بلا خوشبو کا سرمہ لگانا، ختنہ کرانا، آبلہ کو توڑنا، ٹوٹے ہوئے عضو پر پٹی باندھنا جائز ہے۔ 
مسئلہ: بال دور کیے بغیر فصد لینا، ہیضہ وغیرہ کا انجشکن لینا اور چیچک کا ٹیکہ لگوانا جائز ہے۔ 
عن ابن عباسؓ قال: احتجمَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ وھو محرمٌ (متفق علیہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے احرام کی حالت میں سینگی لگوائی ہے۔ 
عالمگیری میں ہے کہ سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور لباب میں ہے کہ جب کہ بال دور نہ کرے۔ اور در مختار میں ہے کہ بال کے ازالہ کی صورت میں دم واجب ہوگا۔ اسی سے انجکشن اور ٹیکہ کا حال معلوم ہوگیا۔ 
مسئلہ: لنگی میں روپیہ یا گھڑی کے لیے جیب لگانا جائز ہے ۔ 
مسئلہ: سر اور منھ کے علاوہ دوسرے بدن کو ڈھانکنا، کان، گردن، پیروں کو چادر، رومال وغیرہ سے چھپانا جائز ہے۔ 
مسئلہ: جو داڑھی تھوڑی سے نیچے لٹکی ہوئی ہے، اس کو چھپانا جائز ہے۔ 
مسئلہ: دیگ، طباق، رکابی، چارپائی، سبزہ وغیرہ سر پر اٹھانا جائز ہے۔ 
مسئلہ: خشکی کے اس شکار کا گوشت کھانا جس کو کسی حلال شخص نے حل میں شکار کیا ہواور اسی نے ذبح کیا ہو، محرم نے کسی قسم کی شرکت نہ کی ہو جائز ہے۔ 
مسئلہ: اونٹ، گائے، بکری، مرغی، گھریلو بطخ کو ذبح کرنا اور گوشت کھانا؛ سب جائز ہے۔ جنگلی بطخ کا ذبح کرنا، محرم کو جائز نہیں۔ 
مسئلہ: موذی جانوروں کا مارنا جائز ہے ، جیسے سانپ، بچھو، پسو، چھپکلی، گرگٹ، بھڑ، کھٹمل، مکھی، مردار خور کوا وغیرہ ۔
عن ابن عمرؓ عن النبی ﷺ قال: خمسٌ لاجناحَ علیٰ مَنْ قَتَلَھُنَّ فی الحرمِ والاِحرام، الفارۃُ، والغرابُ، والحداۃُ، والعقربُ، والکلبُ العقورُ۔ (متفق علیہ)
حضرت ابن عمرؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو کسی نے حرم میں یا حالت احرام میں مار ڈالا، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے: (۱) چوہا۔ (۲) کوا۔ (۳) چیل۔ (۴) بچھو۔ (۵) کاٹنے والا کتا۔ 
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بچھو کے بجائے سانپ ہے اور غراب کی جگہ میں غراب ابقع ہے یعنی مردار خور کوا۔ (بخاری و مسلم)۔
پہلی حدیث میں بھی کوا سے مرادمردار خور کوا ہے۔ 
عن ابی سعید الخُدری عن النبی ﷺ قال: یقتلُ المحرمُ السبُعُ العادی۔ (رواہ الترمذی و ابو داود و ابن ماجہ) 
ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حملہ کرنے والے درندہ کو مار ڈالے۔ 
در مختار میں ہے کہ حملہ کرنے والے جانور کے مار ڈالنے میں کچھ نہیں ، جب کہ اس کا دفع کرنا قتل کے سوا ممکن نہ ہو۔ اور اگر قتل کے بغیر اس کا دفع کرنا ممکن ہواور پھر بھی قتل کر ڈالے تو اس پر جزا لازم آئے گی۔ 
مسئلہ: لونگ، الائچی اور خوشبو دار تمباکو کے بغیر پان کھانا جائز ہے ۔ اور لونگ،الائچی اور خوشبو دار تمباکو ڈال کر پان کھانا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: ایسا شعر پڑھنا جس میں گناہ کی بات نہ ہوجائز ہے ، ورنہ ناجائز ہے۔ 
مسئلہ: بدن میں گھی یا چربی لگانا مکروہ ہے۔
مسئلہ: گھی، تیل اور چربی کا کھانا جائز ہے۔
مسئلہ: زخم، یا ہاتھ پاؤں کی بوائی اور پٹھن میں تیل لگانا جائز ہے ، بشرطیکہ خوشبو دار نہ ہو۔ 
مسئلہ: مسائل اور دینی امور میں گفتگو کرنا جائز ہے۔ 
مسئلہ: احرام کی حالت میں اپنا یا کسی دوسرے کا نکاح کرنا جائز ہے، لیکن صحبت کرنا جائز نہیں ۔ 
عن بن عباسؓ ان النبی ﷺ تزوجَ میمونۃَ وھو محرمٌ (متفق علیہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔ 
مسئلہ: کپڑوں کی گیٹھری اگر خوب بندھی ہوئی ہے تو اس کا اٹھانا جائز ہے ، ورنہ مکروہ ہے۔

14 Aug 2018

مقالات جہازی جلد اول

تقریظ

حضرت مولانا محمد سالم جامعی صاحب حفظہ اللہ
ایڈیٹر ہفت روزہ الجمعیۃ نئی دہلی

قلم اور زبان پروردگار عالم کی دو بڑی نعمتیں ہیں۔ قلم آلہ علم ہے اور زبان اس علم کی ترجمان ہے۔ جس کسی کو یہ دونوں نعمتیں میسر آجائیں ، اسے خیر کثیر کا حامل کہاجاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں اس لیے عطا فرمائیں تاکہ ہم ان کا حامل ان کا صحیح استعمال کرے۔ 

بلاشبہ اسلام دین فطرت ہے اور زندگی کے تمام پہلووں پر محیط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے واسطے سے پوری انسانیت کو عطا فرمایا۔ اس دین نے دنیائے انسانیت کو امن دیا، انصاف دیا اور سعادت سے نوازا اور اخلاق عالیہ کے حسین زیور سے آراستہ کیا۔ پھر شروع سے ہی اس دین کو ایسے حاملین ملتے رہے، جو دین و شریعت کے ماہر اور دشمنان اسلام کی دسیسہ کاریوں کا ادراک رکھتے تھے۔ انھوں نے اسلام کے آفاقی پیغام اور اس کی علمی ، فکری اور انسانی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اور اپنی علمی و دینی تصنیفات و تالیفات اور تخلیقات کے ذریعہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح کردی کہ اسلام کسی انسانی ذہن و دماغ کی تخلیق نہیں؛ بلکہ صرف اور صرف اللہ کا نازل کردہ دین ہے ۔ یہ بھی ایک امر مسلمہ ہے کہ چوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ آخری نبی ہیں، اس لیے آپ کی امت بھی آخری امت ہے ، جسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ 
اس وقت امت میں دعوت اور اشاعت اسلام کے متعدد طریقے پائے جاتے ہیں ، جن میں تصنیف و تالیف، تقریر و خطابت اور تعلیم و تذکیر وغیرہ شامل ہیں۔ الحمد للہ اس وقت دعوت و اشاعت اسلام کا کام ان تمام جہات سے ہورہا ہے ۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ تمام طریقے اسلام کی تعلیمات مزاج نبوت اور امت محمدیہ کی اجتماعی فکر کے عین مطابق ہے ؛ تاہم یہ ضروری ہے کہ دعوت اور طریق دعوت طریق نبوت کے مطابق ہو، خالص اسلام اور عمل صالح کی دعوت دی جائے اور طریق دعوت وہی اختیار کیا جائے جو داعی اسلام ﷺ نے اختیار فرمایا تھا۔ اس لیے کہ جس حد تک دعوت اور طریق دعوت میں عہد مبارک کے ساتھ قربت و مناسبت ہوگی، اتنی ہی اس میں برکت و تاثیر اور کشش ہوگی۔ گذشتہ چودہ سو سالوں کے دوران جن بزرگوں اور اسلاف کے اصلاحی و تحریری کارناموں کو امت نے سند قبولیت سے نوازا ہے، وہ بھی اسی اصول کی شہادت دے رہے ہیں ۔ 
بر صغیر ہندو پاک میں مسلمانوں کے دینی و سماجی لحاظ سے بحیثیت مسلمان زندگی گذارنے کی جو دینی و فکری راہ اختیار کی، اس کے نتیجہ میں ایک بڑی تعداد میں ایسی ممتاز شخصیتیں وجود میں آئیں، جنھوں نے اپنے علم و فضل اور دینی و علمی رہنمائی سے نہ صرف ملت کو فیض بخشا؛ بلکہ علمی و دینی میدان میں وہ امتیاز بھی حاصل کیا، جس کے ذریعہ وہ اس بر صغیر میں علم و دین کے اثرات اور مفید کار گذاری کے حامل ثابت ہوئے۔ 
مقالہ نگاری کا فن ایک مشکل ترین فن سمجھا جاتا ہے ، اس لیے کہ اس میں مقالہ نگار کو اپنی پسند ، ناپسند سے بالاتر ہوکر انسانی احتیاط کے ساتھ سوچ سمجھ کر قلم اٹھانا اور افراط و تفریط کا شکار ہوئے بغیر واقعی حقائق و واقعات کو خوب صورت الفاظ میں بیان کرنا ہوتا ہے، جس کے لیے وسعت نظر، گہرا مطالعہ، ذکاوت و ذہانت، الفاظ کا انتخاب اور موضوع سے مکمل واقفیت جیسے بنیادی و موثر عناصر درکار ہوتے ہیں۔ 
ہمارے محترم فاضل و عالم، علم و اخلاق، اور مئے خانہ قاسمی سے بھرپور فیض یافتہ مولانا محمد یاسین صاحب قاسمی جہازی گڈاوی کو پروردگار عالم نے اپنی خصوصی رحمت کے سایہ میں مذکورہ بالا اوصاف وکمالات سے حصہ وافر عطا فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں علمی تحقیق و تدقیق کے ساتھ زبان و قلم کی شہ سواری سے بھی نوازا ہے ۔ وہ اپنے دور طالب علمی سے ہی تصنیف و تالیف اور مقالہ نگاری کے ذوق کے حامل رہے ہیں ۔ ان کی متعدد مطبوعہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ تصنیف و تالیف ، قلم و کتاب کے حوالے سے ایک بے حد پسندیدہ اور دل چسپ موضوع ہے ، جس کا خصوصی ذوق پروردگار عالم نے مولانا موصوف کو خوب خوب عطا کیا ہے ۔ زیر نظر ’’مقالات جہازی‘‘ اس کا ایک اعلیٰ اور خوب صورت نمونہ ہے۔ 
مولانا محمد یاسین قاسمی دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور علمی و ادبی ذوق کے حامل عالم دین ہیں۔ تا دم تحریروہ جمعیۃ علماء ہند کے ’’مرکز دعوت اسلام‘‘ سے وابستہ اور دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر میں مقیم ہیں ۔ ان کا وطن جھارکھنڈ کے ضلع گڈا کا ایک معروف قریہ ’’جہاز قطعہ‘‘ ہے۔ 
مولانا موصوف کے مقالہ جات کا یہ مجموعہ سر دست ویب سائٹ کی زینت بن رہا ہے ، جو دینی تعلیم و تبلیغ اور اشاعت اسلام کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایک اچھی مثال ہے۔ راقم الحروف کے سامنے اس وقت مضامین و مقالات کے عنوانات کی تقریبا ستر موضوعات پر مشتمل ایک فہرست ہے ، جس سے مولانا قاسمی کے ذہنی و فکری اور علمی رجحان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو قائم رکھے اور اسے مزید وسعت دینے کی توفیق ارزانی فرمائے اور اس سے امت کو استفادہ کا موقع عطا فرمائے ، آمین۔ 
(مولانا) محمد سالم جامعی ( صاحب حفظہ اللہ) 
ایڈیٹر ہفت روزہ الجمعیۃ نئی دہلی
۱۳؍ اگست ۲۰۱۸ء 
پیر

دل کی بات
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
دارالعلوم دیوبند کے طالب علمی کے زمانہ میں لاشعوری طور پر قلم پکڑنے کی کوشش کی۔ یہی کوشش لگن اور شوق میں تبدیل ہوگئی ۔ اور شوق کا یہ سفر تا ہنوز جاری و ساری ہے۔ اس سفر شوق و طلب میں جن راہوں سے گذارا ، انھیں غبار راہ کو اس میں یکجا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ امید ہے کہ یہ کوشش نو وارد اہل قلم کے حوصلوں کو مہمیز کرنے کا فریضہ انجام دے گی اور پھر وہ بھی اپنی پرواز کو جاری و ساری رکھیں گے۔
اس میں کچھ مقالات وہ ہیں جو زمانہ طالب علمی کی لاشعوری کوششیں ہیں، انھیں’’ کاوشیں زمانہ طالب علمی کی‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جارہا ہے۔ اور جو مقالات دارالعلوم سے فراغت کے بعد کے ہیں، انھیں اس کے بعد شامل کتاب کیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ مطالعہ میں زمانہ کے امتیاز کا خیال رکھتے ہوئے مقالہ سے استفادہ و افادہ کی کوشش کی جائے گی۔
دوسرے دور کے مقالات وہ ہیں، جو کسی ویب پورٹل ، اخبار یا کسی موقع کی طلب پر لکھے گئے ہیں اور اکثر مقالات مختلف ویب سائٹوں، روزنامہ، سہ روزہ اور ہفت روزہ اخبارات و رسائل میں اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مقالات قارئین کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ دعوات صالحات میں فراموش نہ کریں، جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء۔
محمد یاسین قاسمی 
جمعیۃ علماء ہند
۴؍ اگست ۲۰۱۸ء

13 Aug 2018

ممنوعات احرام کا بیان

ممنوعات احرام کا بیان

قسط نمبر (23)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

ان چیزوں کا بیان ، جس کا احرام کی حالت میں کرنا منع ہے۔ 
مسئلہ: احرام کے بعد عورتوں کے سامنے جماع کا ذکر کرنا ، شہوت سے چھونا، بوسہ لینا؛ سب منع ہے۔ قرآن میں ہے : 
فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (سورۃ البقرۃ، آیۃ: )
سو جو شخص ان مہینوں میں حج مقرر کرلے، تو پھر ( اس کو) نہ کوئی فحش بات (جائز) ہے اور نہ کوئی بے حکمی (درست) ہے اور نہ کسی قسم کا نزاع (زیبا) ہے۔ (ترجمہ تھانوی)
یعنی احرام باندھنے کے بعد نہ رفث جائز ہے اور نہ فسوق و جدال درست ہے ۔ رفث، جماع اور فحش کلام اور عورتوں کے سامنے جماع کے ذکر کرنے کو کہتے ہیں ۔ (ہدایہ)
فسوق ہر قسم کا گناہ ؛ کسی وقت جائز نہیں ہے ، لیکن احرام کے بعد اس کا کرنا اور سخت گناہ ہے اور اس سے بچنے کی سخت تاکید ہے۔ جدال یعنی جھگڑا کرنا۔ اگرچہ فسوق میں جدال بھی داخل تھا، لیکن اس کو خاص طورپر الگ ذکرکرنے کا مقصد یہ ہے کہ رفیق سفر سے خاص طور پر جھگڑا نہ کرے اور اس سے بچنے کی بڑی کوشش کرے۔ 
مسئلہ: احرام کی حالت میں کوئی گناہ کرنا خاص طور سے منع ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا۔ (ہدایہ)
مسئلہ: ساتھیوں کے ساتھ یا دوسرے لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرنا منع ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا۔ 
مسئلہ: خشکی کے جانور کا شکار کرنا یا کسی شکاری کو بتانا اور اشارہ کرنا منع ہے ۔ شکاری کی مدد کرنا ، تیر، تلوار، چھری ، چاقو وغیرہ دینا بھی منع ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یَاأیُّھا النَّاسُ اٰمَنُوا لاتَقْتُلُوْا الصَّیْدَ وَ أنْتُمْ حُرُمٌ ۔ (سورۃ المائدۃ، آیہ:)
ائے ایمان والو! وحشی شکار کو قتل مت کرو، جب کہ تم حالت احرام میں ہو۔ (ترجمہ تھانوی)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ابھی تک احرام نہیں باندھا تھا کہ ایک گورخر کا شکار کیا اور اس کے کھانے کے بارے میں سوال کیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا: 
أأحدٌ منکم أمرَہُ أن یحملَ علیھا أو أشارَ علیھا (بخاری و مسلم)
کیا کسی نے تم میں سے اس کو حکم دیا کہ اس پر حملہ کرے یا اس کی طرف اشارہ کیا؟ 
اور مسلم اور نسائی کی ایک روایت میں ہے :
ھلْ أشرْتُمْ ھلْ اعَنْتُمْ
یعنی کیا تم نے اشارہ کیا تھا؟ کیا تم نے مدد کی تھی؟ صحابہ کرام نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو کھاؤ۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ شکار کرنا، یا اس کی طرف اشارہ کرنا، اس کا نشان ، پتہ دینا، اس کے شکار کا حکم دینا، اس کی مدد کرنا ، یعنی گھوڑا کوڑا دینا، تیر، تلوار، چھری دینا وغیرہ ؛ اگر محرم کی طرف سے ان باتوں میں سے کوئی بات نہ ہو اور حلال نے شکارکیا ہو تو اس کا گوشت کھانا سب کے لیے جائز ہے۔ 
مسئلہ: خشکی کے شکار کو بھگانا، اس کا انڈا توڑنا، پر اور بازو اکھاڑنا، انڈا یا شکار بیچنا، خریدنا، شکار کا دودھ نکالنا، اس کے انڈے یا گوشت کو بھوننا، پکانا، جوں مارنا،یا دھوپ میں ڈالنا، یا کپڑے کو جوں مارنے کے لیے ڈھونا یا دھوپ میں ڈالنا، یا کسی دوسرے سے جوں مروانا، یا مارنے کے لیے اشارہ کرنا ، خضاب کرنا، تلبید یعنی بالوں کو گوند وغیرہ سے اس طرح جمانا کہ بال چھپ جائیں؛ منع ہے۔ اگر بال نہ چھپیں تو مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: محرم کا شکار کیا ہوا جانور حرام ہے ، اس کا محرم اور غیر محرم کسی کو کھانا جائز نہیں ۔ 
مسئلہ: اگر کسی غیر محرم نے حل میں اپنے مطلب سے شکار کیا۔ نہ کسی محرم نے حکم دیا، نہ شکار کو بتایا، نہ نشان، پتہ دیا، نہ اس کی اعانت کی تو اس کا کھانا سب کے لیے جائز ہے خواہ محرم ہو یا غیر محرم۔ 
مسئلہ: خوشبو لگانا، ناخن اور بال کاٹنے، کٹوانے ، سر یا منھ کو ڈھانکنا خواہ سارا یا تھوڑا منع ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: سلے ہوئے کپڑے جیسے کرتہ، پاجامہ، ٹوپی، عمامہ، اچکن،واسکوٹ،دستانے، موزہ وغیرہ منع ہیں۔ (ہدایہ)
قالَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ : لاتلبسوا القمصَ، ولاالعمائمَ، ولا السراویلات، ولا البرانس، و لا الخفافَ، الا احد لایجد نعلَین، فیلْبِس خفین، ولیقطعھما أسفلَ مِنَ الکعْبَیْنِ وَلا تلْبِسُوا مِنَ الثِّیابِ شیئا مسَّہُ زعفرانٌ ولا ورسٌ۔ (متفق علیہ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمامے، پاجامے،باران کوٹ اور موزے مت پہنو؛ مگر یہ کہ کوئی نعلین نہ پائے تو موزے کو کعبین کے نیچے سے کاٹ کر پہنے اور زعفران اور کسم کے رنگے ہوئے کپڑے مت پہنو۔ 
یہاں کعب سے مراد ٹخنہ نہیں ہے ؛ بلکہ وہ ہڈی ہے جو وسط قدم میں ابھری ہوئی ہے ، اسی طرح ہشام نے امام محمدؒ سے روایت کی ہے ۔ (ہدایہ)
اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ احرام والی عورت نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔ اور امام شافعی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ اپنی بیٹیوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے کا حکم دیتے تھے۔ یہی مذہب حضرت علی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھما کا ہے اور یہی مذہب امام ابو حنیفہؒ کا ہے کہ عورتوں کو حالت احرام میں دستانے پہننا جائز ہے ؛ مگر خلاف سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ نہ پہنے۔ 
مسئلہ: اگر جوتا نہ ہو تو موزوں کو کاٹ کر جوتے کی طرح بناکر پہننا جائز ہے، لیکن اتنا کاٹنا ضروری ہے کہ پیر کے بیچ میں جو ہڈی اٹھی ہوئی ہے ،وہ کھل جائے۔ 
مسئلہ: ایسا جوتا پہنا بھی منع ہے جس میں بیچ کی ہڈی چھپ جائے ، اس لیے ایسے جوتے اور سلیپر کو یاتو کاڈ ڈالے یا اوپر کپڑا وغیرہ کوئی ٹھوس چیز دے، جس سے بیچ کی ہڈی نکل جائے۔ 
مسئلہ : کرتا وغیرہ کو چادر کی طرح اوڑھنا جائز ہے ؛ مگر بہتر اس سے بھی بچنا ہے۔ 
مسئلہ: سر اور منھ پر پٹی باندھنا منع ہے۔ اگر کسی نے بیماری کی وجہ سے ایک دن یا ایک رات باندھ رکھی تو صدقہ واجب ہوگا، بشرطیکہ سر یا منھ چوتھائی سے کم ڈھنکا ہو۔ اگر چوتھائی سے زیادہ ڈھکا رہا تو قربانی واجب ہوگی۔ البتہ اگر ایک دن ایک رات سے کم ڈھکارہا تو صدقہ واجب ہوگا، خواہ چوتھائی سے کم ڈھکا ہو یا چوتھائی سے زیادہ۔ (غنیہ)
مسئلہ: مرد نہ سر چھپائے اور نہ منھ ڈھانکے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: زعفران اور کسم اور خوشبو دار چیز سے رنگا ہوا کپڑا پہننا منع ہے، البتہ اگر دھلا ہوا ہو اور خوشبو نہ آتی ہو تو جائز ہے ۔
عن ابن عمرؓ عن النبی ﷺ قال: لاتلبسوا ثوبا مسَّہُ ورسٌ و زعفرانٌ یعنی فی الاحرام الا أن یکونَ غسیلا۔ (رواہ الطحاوی و قال العینی رجالہ ثقات)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کسم اور زعفران کے رنگے ہوئے کپڑے مت پہنو، یعنی احرام کی حالت میں مگر یہ کہ دھلا ہوا ہو۔ 
مسئلہ: جو شخص احرام کی حالت میں مرجائے، اس کی تجہیز و تکفین غیر محرم کی طرح کی جائے، اس کا سر ڈھانکا جائے ، کافور اور خوشبو وغیرہ لگائے جائے۔ 
ان ابن عمرؓ: لما مات ابنہ واقد وھو محرم کفنَہُ و خمرَ رأسَہُ و وجھَہُ و قالَ: لولا انا محرمون لحنَّطناکَ یا واقدُ۔ (رواہ مالک)
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا لڑکا واقد کی جب احرام کی حالت میں وفات ہوئی تو ابن عمر نے ان کو کفنایااور اس کے سر اور چہرہ کو ڈھانکا اور فرمایا: اگر ہم احرام میں نہ ہوتے تو ائے واقد! ہم تم کو خوشبو لگاتے۔ 
یعنی احرام کی حالت میں محرم کو خوشبو کا چھونا جائز نہیں ہے، اس لیے اپنے ہاتھ سے خوشبو نہ لگانے کا عذر فرمایا۔ 
حضرت عائشہؓ نے فرمایا: 
اصنعوا بہ ماتصنعون بموتاکم (رواہ مالک)
اپنے میت کے ساتھ جو تم کرتے ہو، وہی اس محرم میت کے ساتھ کرو۔ 
قسط (24) کے لیے کلک کریں