16 Aug 2018

tawaf ka bayan

طواف کا بیان

قسط نمبر (27)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

لغت میں کسی چیز کے چاروں طرف چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں اور شریعت میں خانہ کعبہ کے چاروں طرف سات مرتبہ گھومنے کو طواف کہتے ہیں ۔ خانہ کعبہ کو دیکھنا اور اس کا طواف کرنا بڑے ثواب کی بات ہے۔ 
عن بن عباسؓ قال: قال رسولُ اللّٰہ ﷺ ان للّٰہِ فی کل یوم و لیلۃ عشرین و ماءۃ رحمۃ تنزل علیٰ ھذا البیتِ ستون للطائفین ا ربعون للمصلین، و عشرون للناظرین۔ (کذا فی الدر عن ابن عدی والبیہقی و ضعفہ و ھما وحسنہ المندری ، و فی الکنز بالفاظ اٰخر وھو فی المسلسلات للشاہ ولی اللّٰہ الدھلوی)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک سو بیس رحمتیں روزانہ اس گھر پر نازل ہوتی ہیں، جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر اور چالیس نماز پڑھنے والوں پر اور بیس بیت اللہ کو دیکھنے والوں پر ہوتی ہیں ۔
بیت اللہ شریف کا صرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حضرت سعید بن المسیب تابعیؒ فرماتے ہیں کہ جو ایمان و تصدیق کے ساتھ کعبہ کو دیکھے، وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے ، جیسا آج ہی پیدا ہو۔ ابو السائب مدنی کہتے ہیں : جو ایمان و تصدیق کے ساتھ کعبہ کو دیکھے، اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں ، جیسے پتے درخت سے جھڑ جاتے ہیں ۔ اور جو شخص مسجد میں بیٹھ کر بیت اللہ کو صرف دیکھتا رہے، چاہے طواف و نماز نفل نہ پڑھتا ہو، وہ افضل ہے اس شخص سے جو اپنے گھر میں نفلیں پڑھے اور بیت اللہ کو نہ دیکھے۔ حضرت عطا کہتے ہیں کہ بیت اللہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے اور بیت اللہ کو دیکھنے والا ایسا ہے جیسا کہ رات کو جاگنے والا، دن میں روزہ رکھنے والا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے واالا۔ اور حضرت عطا ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ ایک مرتبہ بیت اللہ کو دیکھنا ایک سال کی نفلی عبادت کے برابر ہے۔ (در منثور)۔ 
اور طواف کرنے والوں پر جس قدر رحمتیں نازل ہوتی ہیں، وہ اس حدیث سے ظاہر ہے ، اسی واسطے علما نے لکھا ہے کہ مسجد حرام میں تحیۃ المسجد سے طواف افضل ہے۔ 
عن ابی ھریرۃؓ ان النبی ﷺ قال: من طافَ بالبیت سبعا ولایتکلم الا ب سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الٰہ الا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر، ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ، مُحِیتْ عنہ عشر سیئات و کتب لہ عشر حسنات و رفع لہ عشر درجات، و من طاف فتکلمَ وھو فی تلک الحال خاض فی الرحمۃ برجلیہ کخائض الماء برجلیہ (رواہ ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیت اللہ کا سات پھیرا طواف کرے اور اس میں سبحان اللہ،والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبرکے سواکوئی کلام نہ کرے، تو اس کے دس گناہ مٹیں گے اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے ۔ اور جو شخص طواف کرے ، پھر اس حالت میں کلام کرے تو وہ خدا کی رحمت میں پاؤں سے گھسنے والا ہے ، جیسے کوئی پانی میں دونوں پاؤں سے گھسے۔ 
طواف کرنے کا طریقہ
بیت اللہ کے سامنے جس طرف حجر اسود ہے، اس طرح کھڑا ہو کہ داہنا مونڈھا حجر اسود کے مغربی کنارے کے مقابل ہو اور سارا حجر اسود داہنی طرف رہے ۔ اس کے بعد طواف کی نیت کرکے داہنی طرف کو اتنا ہٹے کہ حجر اسود بالکل مقابل ہوجائے ۔ا ور حجر اسود کی طرف منھ کرکے حجر اسود کے قریب سامنے کھڑا ہوکر دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائے ، جس طرح نماز کے لیے کانوں تک اٹھاتے ہیں ۔ اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰہُ أکْبَرُ، وَ لِلّٰہِ الحَمْدُ وَ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلامُ علیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ الْلّٰھُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَ وَفَاء اً بِِعَھْدِکَ وَ اِتِّباعَاً لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ محمَّدٍ ﷺ ۔
اس کے بعد ہاتھ چھوڑ کر حجر اسود پر آئے اور دونوں ہاتھ حجر اسود پر رکھے اور منھ دونوں کے بیچ میں رکھ کر بوسہ دے؛ لیکن آہستہ آہستہ دے ، چٹاخے کی آواز نہ پیدا ہو۔ اور بعض کے نزدیک یہ بھی مستحب ہے کہ بوسہ دینے کے بعد حجر اسود پر سر رکھے اور اس کے بعد دوسرا بوسہ دے ، پھر سررکھے۔ پھر تیسرا بوسہ دے اور سر رکھے ۔ اس کے بعد داہنی طرف یعنی بیت اللہ کے دروازے کی طرف چلے اور بیت اللہ بائیں مونڈھے کی طرف رہے۔ اور طواف میں حطیم کو بھی شامل کرلے۔ جب طواف کرتا ہوا رکن یمانی (کعبہ کا جنوبی مغربی گوشہ) پر پہنچے، تو اس کا استلام کرے، یعنی دونوں ہاتھ یا صرف داہنا ہاتھ اس کو لگائے ، بوسہ نہ دے اور اس پر پیشانی وغیرہ نہ رکھے۔ پھر جب حجر اسود پر آئے تو حجر اسود کا استلام کرے، جیسا کہ اول مرتبہ کیا تھا، لیکن ہاتھ نہ اٹھائے۔ ہاتھ صرف پہلی مرتبہ اٹھائے جاتے ہیں اور حجر اسود تک پھر آنے کوشوط (ایک چکر) کہتے ہیں ۔ اسی طرح سات چکر پوری کرے۔ (ہدایہ)
اور ساتویں شوط کے بعد آٹھویں مرتبہ پھر حجر اسود کا استلام کرے۔ اب طواف پورا ہوگیا۔ اس کے بعد دو رکعت طواف مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھے ، پہلی رکعت میں قل یا ایہا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھے۔اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے؛ لیکن دعائے آدم علیہ السلام اس مقام پر ماثور ہے۔ وہ یہ ہے:
اللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ سِرِّی و علانِیَتیْ فاقْبِلْ معْذِرَتِی، وَ تَعْلَمُ حاجَتِیْ فاعْطِنِی سُؤلِیْ و تعلَمُ ما فی نفسیْ فاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ، الْلّٰھُمَّ اِنِّی اَسْءَلُکَ اِیْمانَاً یُّبَاشِرُ قَلْبِیْ وَ یَقِیْنَاً صادِقَاً حَتّٰی اَعْلَمُ أنَّہُ لایُصِیْبُنِیْ اِلَّا مَا کَتَبَ لِی و رِضاً بِما قَسَمْتَ لِیْ یا أرْحمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ 
پھر دوگانہ طواف پڑھ کر مستحب ہے کہ چاہ زمزم پر جائے اور آب زمزم پیے اور دعا مانگے اس وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ 
عن جابرؓ یقولُ: سمعتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یقولُ: ماءُ زمزمَ لما شرِبَ لہ (رواہ ابن ماجہ و بسط صاحب الاتحاف فی تخریجہ و قال شیخنا الشاہ الغنی ھذا الحدیث مشھور علیٰ الالسنۃ کثیرا واختلف الحفاظ فیہ، فمنھم من حسنہ و منھم من ضعفہ والمعتمد الاول الخ۔ و قال ابن حجر فی شرح مناسک النووی قد کثر کلام المحدثین فی ھذا الحدیث والذی استقر علیہ امر محققیھم انہ حسن او صحیح و قول الذھبی انہ باطل وابن الجوزی انہ موضوع مردود)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرمارہے تھے کہ زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے، وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے ۔ 
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ اگر تو اس کو پیاس بجھانے کے واسطے پیے تو اس کا کام دے ۔اور اگر کھانے کی جگہ پیٹ بھرنے کے لیے پیے تو اس کا کام دے۔ اور اگر کسی مرض سے صحت کی نیت سے پیے تو اس کا کام دے۔ یہ حضرت جبرئیل کی خدمت ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سبیل ہے۔ (اتحاف)
حضرت عمرؓ نے زمزم کا پانی پیتے ہوئے کہا : یا اللہ! میں قیامت کے دن کی پیاس بجھانے کے لیے پیتا ہوں۔ (کنز)
پانی پی کر ملتزم پر آئے۔ ملتزم حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازہ کے درمیان کی دیوار کو کہتے ہیں۔ ملتزم سے لپٹ کر دعا مانگے، یہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ 
عن ابن عباسؓ یقول: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ ﷺ الملتزمُ موضعٌ یستجاب فیہ الدعاءُ۔ ما دعَا اللّٰہَ فیہ عبدٌ الا استجَابَ بھا۔ (کذا فی المسلسلات للشاہ ولی اللّٰہ الدھلوی و ذکرہ الجزری فی الحصن مجملا)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا: آپ ﷺ فرماتے تھے: ملتزم ایسی جگہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے ۔ کسی بندہ نے وہاں ایسی دعا نہیں کی جو قبول نہ ہوئی ہو۔ 
حضرت ابن عباسؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے اس جگہ کھڑے ہوکر اپنے سینہ اور چہرہ کو دیوار سے چمٹا دیا اور دونوں ہاتھوں کو دیوار پر پھیلادیا اور یہ کہا کہ میں نے اسی طرح حضوراقدس ﷺ کو کرتے دیکھا۔ (ابوداود)
حضرت مولانا زکریاصاحب محدث سہارنپوریؒ فضائل حج میں بیان فرماتے ہیں کہ میرے حضرت نور اللہ مرقدہ سے لے کر حضور ﷺ تک ہر استاذ حدیث سناتے وقت اپنا ذاتی تجربہ یہ بتاتے ہیں کہ میں نے اس جگہ دعا کی اور وہ قبول ہوئی اور اس ناپاک کا بھی یہی ذاتی تجربہ ہے ۔اور بعض کہتے ہیں کہ طواف کے بعد اول ملتزم پر آئے ۔ پھر دوگانہ پڑھے ۔ پھر زمزم پر آئے۔ 
تنبیہات
(۱) جس طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ہو ، اس طواف کے پہلے تین شوط (پھیرے) میں رمل کرے، یعنی اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے ہوئے چلے۔ (ہدایہ)
عن جابرؓ قال: ان رسولَ اللّٰہِ ﷺ لما قدمَ مکۃَ اتیٰ الحجرَ فاستلمَہُ ثم مشیٰ علیٰ یمینہِ فرملَ ثلاثا و مشیٰ اربعا۔ (رواہ مسلم)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو حجر اسود کے پاس آئے ، پھر اس کا استلام کیا ۔ پھر دائیں جانب چلے اور تین شوط میں رمل کیا اور چار شوط میں اپنی چال چلے۔ 
(۲) اور اس طواف میں شروع سے آخر تک چادر کو دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر دونوں چھور کو ڈال لے اور داہنا کندھا کھلا رہنے دے۔ (ہدایہ)
عن یعلی ابن امیۃ قال: ان رسولَ اللّٰہ ﷺ طافَ بالبیتِ مضطجعاً بِبُردٍ اخْضَرَ۔ (رواہ الترمذی و ابو داود وابن ماجہ والدارمی و حسنہ الترمذی)
یعلی ابن امیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سبز چادر سے اضطباع کرتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا۔ 
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک طواف میں اضطباع کرنا۔ دوسری یہ کہ احرام کا کپڑا سفید ہونا ضروری نہیں ، اس لیے کہ حضور ﷺ کی چادر سبز تھی۔ اضطباع کی صورت وہی ہے جو بیان ہوا۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ 
عن ابن عباسؓ ان رسولَ اللّٰہ ﷺ و اصحابَہ اعتمروا من الجعرانۃ فرملوا بالبیت ثلاثا و جعلوا أردِیتَھُمْ تحتَ اِبْطِھِمْ، ثُمَّ قَذَفُوا علیٰ عَوَاتِقِھِمِ الیُسْرَیٰ۔ (رواہ ابو داود)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب نے جعرانہ سے عمرہ کیا تو بیت اللہ کے طواف میں تین شوط میں رمل کیا اور اپنی چادروں کو اپنی بغلوں میں کیں، پھر بائیں کندھوں پر اس کو ڈال لیں۔ 
(۳) طواف کے بعد جو دو رکعت نماز پڑھے اس میں چادر سے دونوں مونڈھوں کو چھپالے، نماز میں اضطباع نہ کرے۔ اضطباع صرف طواف میں ہوتا ہے۔ 
(۴) شروع طواف میں جو ہاتھ اٹھایا جاتا ہے، وہ اس وقت اٹھائے جب حجر اسود کا استبقال کرے اور تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھائے۔ حجر اسود کے استقبال سے پہلے ہاتھ اٹھانا بدعت ہے۔ 
(۵) اکثر طواف کرنے والے حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان میں کھڑے ہوکر نیت کرتے ہیں ، یہ مکروہ ہے ۔ طواف کی نیت کے لیے اس طرح کھڑا ہو کہ داہنا کندھا حجر اسود کے مغربی کنارے کے مقابل میں ہو۔