1 Jun 2018

رمضان میں نبوی سخاوت وسعت کے باوجود خرچ نہ کرنے سے خرچ کرنے کی توفیق چھن سکتی ہے

رمضان میں نبوی سخاوت
وسعت کے باوجود خرچ نہ کرنے سے خرچ کرنے کی توفیق چھن سکتی ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی
رابطہ9871552408
حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے۔ اس کے باوجود جب رمضان آتا، تو آپ کی سخاوت تیز ہوا سے بھی زیادہ برق رفتار ہوجاتی۔ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ 
و کان النبی ﷺ اجود الناس، واجود مایکون فی رمضان، یکثر فیہ من الصدقۃ والاحسان و تلاوۃ القرآن والصلاۃ و الذکر والاعتکاف۔ (زاد المعاد،۲؍۳۲)
حضرت ابن عباسؓ سے بخاری میں ایک روایت منقول ہے کہ 
کان رسول اللہ ﷺ اجود الناس، و کان اجود مایکون فی رمضان حین یلقاہ جبرئیل، و کان یلقاہ فی کل لیلۃ من رمضان، فیدارسہ القرآن، فلرسو ل اللہ ﷺ اجود بالخیر من الریح المرسلۃ 
یہ حدیث شاہد عدل ہے کہ رمضان کا کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا، جس دن نبی اکرم ﷺ سخاوت و فیاضی نہ کرتے ہوں۔ اس لیے نبوی طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ہمارا فریضہ اور وطیرہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم بھی روزانہ کچھ نہ کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کریں ۔
جن لوگوں کے پاس وسعت ہے اور اس کے باوجود وہ خرچ نہیں کرتے، ایسے لوگوں کے بارے میں خطرہ یہ ہے کہ ان سے خرچ کرنے کی توفیق ہی سلب نہ کر لی جائے اور پھر ہمیشہ ہمیش کے لیے اس کا مال اس کے لیے طوق بن جائے اور کل قیامت کے دن اسی مال کو گنجا سانپ بناکر اس پر مسلط کردیا جائے ۔ 
ولا یحسبن الذین یبخلون بما آتاھم اللہ من فضلہ ھو خیرا لھم بل ھو شر لھم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ وللہ میراث السماوات والأرض واللہ بما تعملون خبیر 
و في الحديث الصحیح، ''إن البخیل یمثل لہ مالہ یوم القیامۃ شجاعا أقرع، لہ زبیبتان، یأخذ بلھزمتیہ یقول: أنا مالک، أنا کنزک، وتلا رسول اللہ ﷺ مصداق ذلک، ھذہ الآیۃ۔
تاریخ اسلام کا مشہور واقعہ ہے کہ 
ثعلبہ بن حاطب انصاری رضی اللہ عنہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہتعالیٰ سے میرے مال میں فراوانی اور رزق میں فراخی کی دعا فرمادیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ثعلبہ! اللہ تجھ پر رحم کرے، وہ کم جس کا شکر ادا کرسکو اس زیادہ سے بہتر ہے جس کے تحمل کی تم میں طاقت نہ ہو۔ یہ سن کر اس وقت چلے گئے، لیکن بعد میں یہ دوبارہ آئے اوراپنی بات دہرائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: کیا تمھارے لیے مجھ میں بہترین اسوہ نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں چاہوں کہ پہاڑ سونا اور چاندی بن کر میرے ساتھ ساتھ چلیں تو چلیں گے۔ چنانچہ خاموش ہوگئے۔
کچھ دنوں کے بعد ایک دفعہ پھر آئے اور طلب مال کی وہی پرانی بات دہرائی اور کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے مال عطا کیا تو میں ہر حقدار کو اس کا حق ادا کروں گا۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔
راوی کا بیان ہے کہ انھوں نے بکری پالی۔ نبی اکرم ﷺ کی دعا کی برکت سے اس کی کیڑوں کی طرح افزائش ہوئی ، جس کی دیکھ ریکھ کے لیے بہت زیادہ مشغول رہنے لگے۔ اب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ظہر اور عصر پڑھتے تھے، بقیہ نمازیں اپنی بکریوں میں پڑھاکرتے تھے ۔ بکریوں کی تعداد روز بروز بڑھتی رہی ، جس کی دیکھ بھال کے لیے اتنے مصروف ہوگئے کہ جمعہ اور جماعت میں بھی حاضر نہیں ہونے لگے۔ البتہ جب جمعہ کا دن آتا تو لوگوں سے نبی اکرم ﷺ کے حال پوچھ لیا کرتے تھے۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ کا ذکر کیا اور صحابہ سے دریافت کیا، تو انھوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! ثعلبہ نے اتنی بکریاں پال لی ہیں کہ ان کے لیے وادیاں تنگ ہورہی ہیں۔ اور وہ مدینہ سے باہر قیام پذیر ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا: ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ!۔
جب زکوۃ فرض ہوئی، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے ایک اور بنو جہینہ کے ایک (دو آدمیوں) کو زکوۃ کا نصاب لکھ کر ثعلبہ اور بنو سلیم کے ایک شخص کے پاس وصولی کے لیے بھیجا۔چنانچہ وہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے۔ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سناکر زکوۃ طلب کی۔ ثعلبہ نے کہا: یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے۔ جاؤ دوسروں سے فارغ ہوکے میرے پاس آنا۔ وہ دونوں بنوسلیم کیشخص کے پاس گئے، اس شخص نے قاصد رسول کی آمد کے بارے میں سنا تو اپنے اچھے اچھے اونٹ صدقہ کے لیے الگ کردیے۔اوران دونوں کا استقبال کرتے ہوئے اچھے الگ کیے ہوئے اونٹ پیش کیے۔قاصد رسول نے کہا: یہ آپ پر واجب نہیں (یعنی اوسط سے بڑھ کر اچھے اچھے اونٹ تم پر واجب نہیں)۔ لیکن اس شخص نے کہا یہیں اونٹ قبول کریں میں بہ طیب خاطر دے رہا ہوں۔
وہ دونوں دوسرے لوگوں کے پاس بھی گئے اور ان سے زکوۃ وصول کرکے، دوبارہ ثعلبہ کے پاس آئے تو ثعلبہ نے کہا: مجھے خط دکھاؤ۔ اسے پڑھا پھر کہا: یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے۔ آپ دونوں جائیں میں غور کرتا ہوں۔
جب وہ دونوں واپس ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کو دیکھ کر گفتگو سے پہلے ہی کہا: ہائے ثعلبہ! پھر بنو سلیم کے آدمی کے لیے خیر وبرکت کی دعا کی۔ اس کے بعد ان دونوں نے آپ کو ثعلبہ کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔ پھر قرآن پاک کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
وَمِنْھمْ مَنْ عَاھَدَ اللَہَ لَءِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلہِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِینَ (۷۵) فَلَمَّا آتَاھُمْ مِنْ فَضْلِہِ بَخِلُوا بِہِ وَتَوَلَّوْا وَھُمْ مُعْرِضُونَ (۷۶) فَأَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِھِمْ إِلَی یَوْمِ یَلْقَوْنہُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَہَ مَا وَعَدُوہُ وَبِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ (التوبۃ: ۵۷ ۔ ۷۷) 
ترجمہ: (ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انھیں اس کی پروا تک نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھادیا،جو اللہ کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا)۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثعلبہ کے قرابت داروں میں سے ایک شخص موجود تھا۔ وہ یہ بات سن کے بھاگتا ہوا ثعلبہ کے پاس پہنچا اور کہا: ثعلبہ تم برباد ہوئے۔ تمھارے بارے میں ایسی اور ایسی آیت نازل ہوئی ہے۔ ثعلبہ بہت پچھتائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھارا صدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے، چنانچہ وہ حسرت وندامت سے اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ تو خود تمھارا عمل ہے۔ میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا لیکن تم نے میری ایک نہ مانی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول کرنے سے انکار کردیا تو وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کبھی ان کا صدقہ قبول نہیں کیا ۔بعد ازاں حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنھما کا دور آیا اور ان دونوں کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو ان دونوں کا یہی جواب تھا کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا، میں کیسے قبول کرلوں؟ پھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا۔ ثعلبہ ان کے پاس بھی اپنا صدقہ لے کر آئے اور قبول کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے جواب دیا: جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا، اور نہ ہی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم نے قبول کیا تومیں کیسے قبول کرسکتا ہوں؟ چنانچہ اسی حالت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ثعلبہ کی وفات ہوئی۔ 
یہ واقعہ ہمارا لیے درس عبرت ہے کہ اگر ہم موقع رہتے ہوئے خرچ نہیں کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ہمارے لیے خرچ کرنے کی توفیق ، حتیٰ کہ راستے تک بند کردیں گے اور ناکامی ہماری مقدر بن جائے گی۔ اس لیے آئیے نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اس واقعہ سے عبرت لیں اور اس مقدس مہینے میں ہر روز کچھ نہ کچھ خرچ کرنے کا معمول بنائیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔

ہمارا روزہ تین تبدیلیوں کے ذریعہ آسان کردیا گیا ہے

ہمارا روزہ تین تبدیلیوں کے ذریعہ آسان کردیا گیا ہے 
محمد یاسین قاسمی جہازی
واٹس ایپ: 9871552408
روزہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ گذشتہ امتوں میں بھی روزہ فرض کیا گیا تھا، البتہ اس کی صورت اور وقت بدلتا رہا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کا طرز عمل بھی روزہ کے حوالے سے مختلف رہا ہے۔ چنانچہ(۱) حضرت نوح علیہ السلام: صوم دھر یعنی ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔(۲) حضرت داود علیہ السلام:ایک دن روزہ ایک دن افطار کیا کرتے تھے۔(۳) حضرت عیسی علیہ السلام:ایک دن روزہ اور ایک دن یا کئی دن افطار کیا کرتے تھے۔(۴) خاتم المرسلین صلیٰ اللہ علیہ وسلم:کبھی روزہ رکھا کرتے تھے اور کبھی افطار کیا کرتے تھے۔
آج جو ہم روزہ رکھتے ہیں، اس میں تین تبدیلیوں کے بعد اسے آسان بنایا گیا ہے ، جس کی تفصیل تفسیر ابن کثیرجلد ۲؍ میں آیت نمبر ۱۸۲ کے تحتبیان کی گئی ہے کہ نماز کی طرح روزہ میں بھی تین تبدیلیاں ہوئی ہیں:
اول یہ کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ہر مہینہ میں تین دن اور یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب کتب علیکم الصیام کی آیت نازل ہوئی اور رمضان کا روزہ فرض ہوا تو ابتدائی حکم یہ تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دیدے۔پھر یہ آیت اتری کہ فمن شھد منکم الشھر، فلیصمہ ۔ اس آیت سے من چاہا روزہ کی اجازت ختم ہوگئی اور بغیر شرعی عذر کے روزہ رکھنا ضروری ہوگیا ۔ یہ دوسری تبدیلی تھی اور تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ ابتدا میں کھانا پینا اور عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا، لیکن سونے کے بعد جائز نہیں تھا۔ حضرت صرمہؓ دن بھر کام کرکے تھکے ہارے گھر آئے اور عشا کی نماز ادا کی اور نیند آگئی، کچھ کھانے پینے کا موقع نہیں ملا۔ دوسرے دن بغیر کھائے پیے روزہ رکھا تو حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ ایک دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ حضرت عمرؓ نے سونے کے بعد اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی اور پھر حضور ﷺ کے پاس حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے قصور کا اظہار کیا۔ ان حالات کے پیش نظر یہ آیت اتری کہ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الیٰ نسائکم ۔ اس آیت میں افطار کے وقت سے سحری ختم ہونے تک کھانے پینے اور جماع کی اجازت دی گئی ۔ اس طرح روزہ میں تین تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ 
محترم بزرگو!
یہ روزہ ہمارے لیے ابتدائی حکم کے مقابلے میں کئی سہولتوں کے ساتھ فرض کیا گیا ہے ۔ یہ روزہ سہولت سے لبریز ہے ۔ تصور کیجیے کہ اگر دوسری تبدیلی نہیں ہوئی ہوتی، تو روزہ کتنا پرمشقت ہوتا۔ اب جب کہ ان تین تبدیلیوں کے بعد روزہ آسان کردیا گیا ہے، اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم پورا روزہ رکھیں اور ہمارا ایک روزہ بھی چھوٹنے نہ پائے ، کیوں کہ رمضان کے ایک دن کے چھٹے ہوئے روزہ کی قضا میں پوری زندگی بھی روزہ رکھا جائے تو بھی رمضان کی خصوصیات و کیفیات اس میں پیدا نہیں ہوں گی۔ اللہ پاک پروردگار ہمیں رمضان کے پورے روزہ رکھنے کی توفیق بخشے ، آمین۔ 

27 May 2018

روزہ پر پانچ خصوصی انعامات

روزہ پر پانچ خصوصی انعامات
محمد یاسین جہازی 
9871552408
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے روزہ داران کے لیے پانچ خصوصی انعامات رکھے ہیں:
(۱) روزہ داروں کے منھ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
(۲) روزہ داروں کے لیے افطار کرنے تک فرشتے حتی کہ مچھلیاں دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
(۳) روزہ داروں کے لیے روزانہ جنت سجائی جاتی ہے۔
(۴) روزہ داروں کو شیاطین کے مکرو فریب سے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔
(۵) رمضان کی آخری رات میں سبھی روزہ داروں کی مغفرت عام کردی جاتی ہے۔ 
یہ انعامات صرف امت محمدیہ کے لیے مخصوص ہیں۔ اس سے پہلے کی کسی بھی امت کے لیے یہ انعامات نہیں تھے، اس لیے اس کی قدر کرتے ہوئے ہمیں روزہ کو اس کے آداب کے ساتھ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 
حوالہ
عَنْ أَبِي ھریْرَۃَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: '' أُعْطِیَتْ أُمَّتِي خَمْسَ خِصَالٍ فِي رَمَضَانَ لَمْ تُعْطَہُ أُمۃٌ قَبْلَھُمْ: خُلُوفُ فَمِ الصَّاءِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللَّہِ مِنْ رِیحِ الْمِسْکِ، وَتَسْتَغْفِرُ لَھُمُ الْمَلاءِکَۃُ حَتّیَ یُفْطِرُوا، وَتُصَفَّدُ فِیہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِینِ، فَلا یَخْلُصُونَ إِلَی مَا کَانُوا یَخْلُصُونَ فِیہِ إِلَی غَیْرہِ، وَیُزَیِّنُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِ فِي کُلِّ یَوْمٍ جَنَّتہُ، ثُمَّ یَقُولُ: یُوشِکُ عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ أَنْ یُلْقُوا عَنْھُمُ الْمُؤْنَۃَ وَالأَذَی، وَأَنْ یَصِیرُوا إِلَيَّ، وَیُغْفَرُ لَھُمْ فِي آخِرِ لَیْلَۃٍ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ صَلیَ اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ! ھِيَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ؟ قَالَ:’’ لا، وَلَکِنْ إِنَّمَا یُوَفّی الْعَامِلُ أَجْرَہُ إِذَا قَضَی عَمَلَہُ۔ (مسند احمد، باقی سند المکثرین، سند ابی ھریرۃؓ) 

25 May 2018

کیا تراویح میں آپ تھک جاتے ہیں؟ تو اس نبوی فارمولہ پر عمل کیجیے تھکاوٹ ختم ہوجائے گی

کیا تراویح میں آپ تھک جاتے ہیں؟ تو اس نبوی فارمولہ پر عمل کیجیے تھکاوٹ ختم ہوجائے گی
محمد یاسین جہازی 
 9871152408
یہ قدرتی نظام ہے کہ عقائد و نظریات ہمت و حوصلے بھی بخشتے ہیں اور پست ہمتی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ہاتھی کے بچے کو مضبوط زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے، تاکہ وہ اسے توڑ کر بھٹک نہ سکے۔ بیسار کوششوں کے باوجود جب وہ نہیں توڑپاتا، تو اس کا نظریہ یہ بن جاتا ہے کہ اسے توڑنا مشکل ہے۔ پھر بڑا اور مزید طاقت ور ہونے کے باوجود اسے معمولی رسی میں بھی باندھ دیا جاتا ہے، تو وہ اس توڑنے کی کوشش نہیں کرتا، کیوں کہ نظریہ اسے توڑنے کا حوصلہ نہیں دیتا۔ انسان کا نظریہ بھی اس اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ پتھروں کو بھگوان ماننے والے یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ جوخود پر بیٹھی مکھی بھی نہیں بھگاسکتے، وہ بالآخر کائنات کا سوپر پاور کیسے ہوسکتا ہے، کیوں کہ وہ عقائد و نظریات کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اسی طرح خدائے واحد لم یزل کا عقیدہ رکھنے والے دنیا کے بڑے سے بڑے سوپر پاور کے سامنے اپنی پیشانی نہیں جھکاسکتے، کیوں کہ ان کا نظریہ انھیں تعلیم دیتا ہے کہ جو پیشانی صرف خالق کائنات کے سامنے جھکنے کے لیے بنی ہے، اسے مخلوق کے سامنے جھکاکر رسوا نہیں کی جاسکتی۔ 
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان کی آمد سے ایک دن پہلے خطاب فرمایا ، جس میں انھوں نے بارہ باتوں کا تذکرہ کیا۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ رمضان صبر کا مہینہ ہے۔ 
نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ رمضان ہمیں کس طرح گذارنی چاہیے۔ اور اس کا بنیادی فارمولہ یہ ہے کہ ہمیں صبرو ضبط کے ساتھ رمضان کے دنوں کو گذارنا چاہیے۔ پیاس لگے، صبر کرنا چاہیے۔ بھوک ستائے، صبر کیجیے۔ تراویح میں تھکاوٹ ہو، صبر کیجیے۔ تراویح میں زیادہ رکعات کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو، تو فورا یہ سوچیے کہ یہ مہینہ تو صبر کا ہے، لہذا ہمیں اس پر صبر کرنا ہے۔ خود نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل شاہد عدل ہے کہ وہ نمازوں میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے تھے کہ پیروں میں ورم آجاتا تھا۔ خون جمنے کی وجہ سے ان کے پیر پھول جاتے تھے۔ ان کا طریقہ ہم کو بتلاتا ہے کہ ہمیں کس طرح صبر کرنا ہے۔ کیا ہماری جان نبی اکرم ﷺ کی جان سے زیادہ قیمتی ہے، جوہم ذرا سی دیر کی وجہ سے تراویح میں کھڑے نہیں ہوتے اور انتہائی بے اعتنائی کے ساتھ تراویح پڑھتے ہیں؟ ۔ اگر آپ حوصلہ نہیں کرپاتے ہیں ،تو غور کیجیے کہ جب نبی اکرم ﷺ نے اسے صبر کا مہینہ قرار دیا ہے، تو ہمیں صبر وسکون کے ساتھ تراویح اور دیگر عبادت کو انجام دینا ہے اور کبھی مشقت محسوس ہو، تو صبر کے ساتھ اسے انجام دینا ہے۔ اس تصور کے ساتھ اور سیرت نبوی ﷺ کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ رمضان کے اعمال انجام دیں گے تو آپ کو کبھی بھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوگی اور آپ ہر اعمال شوق و رغبت سے انجام دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی قدر کرنے والا بنائے اور اسوہ نبی پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔

روزہ کے آداب

روزہ کے آداب

پھٹا ہوا روزہ انسان کے کسی کام کا نہیں ہوتا
تحریر: ۔۔۔ محمد یاسین قاسمی جہازی 
رابطہ:9871552408
مشائخ نے روزہ کے چھ آداب تحریر کیے ہیں:
(۱) نگاہ کی حفاظت: کیوں کہ نگاہ ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ 
(۲) زبان کی حفاظت:جھوٹ ، چغلی ، غیبت اور بکواس سے روزہ پھٹ جاتا ہے، جس سے روزہ دار کو روزہ بہت دشوار معلوم ہوتا ہے۔
(۳) کان کی حفاظت: جھوٹ ، چغلی ، غیبت اور بکواس سننا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے، جتنا کہ انھیں کرنا۔ اس لیے روزہ میں اس سے بچنا ضروری ہے۔
(۴)دیگر اعضائے بدن کی حفاظت: مثلا ہاتھ کو ناجائز پکڑنے سے، پیٹ کو حرام افطار سے ، قدم کو غلط سمت اٹھنے سے، نیت کو غلط ارادے سے، ذہن کو غلیظ سوچ سے وغیرہ۔
(۵) افطار میں احتساب: روزہ کا مقصد قوت شہویہ کو کمزور کرنا ہے، اس لیے افطار میں احتساب کے ساتھ کھائے پیے، کہ کہیں اس سے روزہ کا مقصد تو فوت نہیں ہورہا ہے۔ اسی طرح اس میں یہ پہلو بھی شامل ہے کہ ہمارے دسترخوان پر تو قسم قسم کی نعمتیں ہیں؛ لیکن آس پڑوس میں کوئی ایسا تو نہیں، جس کے افطار کے لیے پانی بھی میسر ہے کہ نہیں۔
(۶) امید وبیم: روزہ مکمل ہونے کے بعد ، اس کے قبول اور رد ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔ رحمت الٰہی سے یہ امید رکھے کہ کوتاہیوں کے باوجود ہمارا روزہ قبول ہوگیا ہوگا۔ لیکن اللہ سے ڈرتا بھی رہے کہ خدانخواستہ اگر قبول نہ ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ان آداب کے ساتھ جو بھی روزہ رکھے گا، اس کا روزہ اس کے لیے خود ڈھال بن کر بھوک پیاس اور پریشانی سے اس کی حفاظت کرے گا۔ اور جو کوئی ان کا خیال نہیں رکھے گا، تو اس کا روزہ پھٹ جائے گا۔ اور یہ روزہ اس کی کسی بھی پریشانی سے تحفظ فراہم نہیں کرسکے گا۔کیوں کہ حدیث شریف میں کہا گیا ہے کہ روزہ خود ڈھال ہے، جب تک کہ اس کو پھاڑ نہ دے۔ پوچھا گیا کہ یہ ڈھال پھٹتا کیسے ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ جھوٹ اور غیبت سے۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں ان آداب کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔

19 May 2018

قسط نمبر (10) آخری قسط میت کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا بیان

میت کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا بیان
قسط نمبر (10)

(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں 
پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
دفن کے بعد تھوڑی دیر قبر پر ٹھہرنا اور میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا، یا قرآن شریف پڑھ کر اس کو ثواب پہنچانا مستحب ہے (شامی، عالمگیری)۔
حضرت عبدالرحمان اپنے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ لجلاج نے فرمایا
یَا بُنَیَّ اذَا أنَا مِتُّ فَالْحِدْنِیْ ، فَاِذَا وَضَعْتَنِیْ فِیْ لَحْدِی فَقُلْ: بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلَیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہِ، ثُمَّ سَنَّ عَلَیَّ التُّرابَ سَنَّاً ثُمَّ اقْرَأ عِنْدَ رَأسِی بِفَاتِحَۃِ الْبَقْرَۃِ وَ خَاتِمِھَا، فَانِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ الْلّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ ذٰالِکَ۔ (رواہ الطبرانی و اسنادہ صحیح قال الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد و رجالہ موثوقون)
ائے میرے بیٹے! جب میں مرجاؤں ، تو میرے لیے بغلی قبر کھودو۔ پھر جب مجھے قبر میں رکھو تو کہو بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہ۔ پھرمجھ پر آہستہ سے مٹی ڈالنا۔ پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کا شروع اور اس کا آخری حصہ پڑھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے ۔
سورہ بقرہ کا شروع الم سے مفلحون تک اور اس کا آخری آمن الرسول سے ختم سورہ تک ۔ (امداد الفتاویٰ)
حضرت شعبی نے بیان کیا کہ انصار کا قاعدہ تھا کہ جب ان میں سے کسی کا انتقال ہوتا،تو وہ لوگ قبروں کی طرف سے متفرق ہوجاتے اور ان کے لیے قرآن پڑھتے ۔ (شرح الصدور للسیوطی) ۔ ابو محمد سمرقندی نے قل ھو اللہ احد کے فضائل میں حضرت علیؓ سے مرفوعا روایت بیان کی ہے کہ جو شخص قبرستان سے گذرے اور گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھے ، پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشے، تو مردوں کی گنتی کے برابر اس کو ثواب عطا ہوگا۔ (شرح الصدور)
ابوالقاسم سعید بن علی زنجانی نے اپنے فوائد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعا روایت لائے ہیں کہ: 
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتابِ، وَ قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحَدٌ، وَ ألْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ، ثُمَّ قَالَ: ألْلّٰھُمَّ ا8نِّیْ جَعَلْتُ ثَوَابَ مَا قَرَأتُ مِنْ کََلَامِکَ لَأھْلِ الْمَقابِرِ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ، کَانُوْا شُفَعَاءَ لَہُ ا8لَیٰ الْلّٰہِ تَعَالیٰ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں داخل ہو۔ پھر سورہ فاتحہ اور قل ھو اللہ احد اور الھٰکم التکاثر پڑھے اور کہے کہ ائے اللہ! جو کچھ میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب قبرستان کے مسلمان مردوں اور عورتوں کے بخشا، تو وہ مردے اللہ کے حضور سفارشی ہوں گے۔
یعنی وہ تمام مردے جن کوبخشا ہے ، ثواب بخشنے والے کی سفارش کریں گے ۔  
اتنا تو رحم کرتا مرے حال زار پر
آتا کبھی تو فاتحہ پڑھنے مزار پر
اور عبد العزیز صاحب خلال نے اپنی سند سے حضرت انس کی روایت بیان کی ہے :
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأ سُوْرَۃَ یٰسٓ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ کَانَ لَہُ بِعَدَدِ مَنْ فِیْھَا حَسَنَاتٌ۔ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں آئے ، پھر سورہ یٰسٓ پڑھے ، تو اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کرے گا ۔ اور اس کو اس قبرستان کے مردوں کی گنتی کے مطابق ثواب ملے گا۔ 
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن مجید پڑھ کر بخشنے سے میت کو ثواب پہنچتا ہے ۔ اور ساتھ ہی پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے۔ اور مردے اس کے لیے خدا کے پاس سفارشی ہوں گے۔ اس لیے قبرستان پہنچ کر وقت ضائع نہ کریں؛ بلکہ تلاوت قرآن کا ثواب پہنچا ئیں اور ا ن کے لیے دعائے مغفرت مانگیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اِسْتَغْفِرُوا لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ، فَا8نَّ الا8نْسَانَ یُسْءَلُ۔
(ابو داود)
اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت مانگو، اس لیے کہ وہ ابھی پوچھا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
انَّ الْلّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ!أنّٰی لِیْ ھٰذِہِ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ۔
(احمد)
بے شک اللہ جل شانہ جنت میں اپنے نیک بندہ کا درجہ بلند فرمائے گا، تو بندہ کہے گاکہ ائے پروردگار! یہ کہاں سے مجھ کو ملا؟ (اتنی نیکیاں تو میری نہیں تھیں) پروردگار فرمائے گا کہ یہ تیرے لیے تیری اولاد کے استغفار کی وجہ سے ہے۔
یعنی تیرے لیے تیری اولاد نے دعائے مغفرت کی جس کی وجہ سے تیرا یہ درجہ بلند ہوا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَا الْمَیِّتُ فِي الْقَبَرِ إلَّا کَالْغَرِیْقِ الْمُتَغَوِّثِ، یَنْتَظِرُ دَعْوَۃً تَلْحَقُہُ مِنْ أبٍ، أوْ أمٍ، أوْ أخٍ، أوْ صَدِیْقٍ، فَإذَا لَحِقَتْہُ کَانَ أحَبَّ إلَیْہِ مِنَ الدُّنْیا وَمَا فِیْھَا، وَإنَ الْلّٰہَ تَعَالَیٰ لَیَدْخُلُ عَلَیٰ أھْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أھْلِ الأرْضِ أمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإنَّ ھَدْیَۃَ الأحْیَاءِ إلَیٰ الأمْوَاتِ الاسْتِغْفَارُ لَھُمْ ۔
(رواہ البیھقي في شعب الإیمان)
میت قبر میں ڈوبنے والے غوطہ کھانے والے کے مثل ہوتے ہیں ۔ وہ دعا کا انتظار کرتے ہیں کہ اس کا باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچے۔ پھر جب اس کو کوئی دعا پہنچتی ہے ، تو وہ اس کے لیے دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے ۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ قبر والوں کو زمین والوں کی دعا کی وجہ سے پہاڑ کے مانند ثواب پہنچاتا ہے ۔ اور بے شک مردوں کے لیے زندوں کا تحفہ ان کے لیے استغفار کی دعا مانگنا ہے۔
اسی طرح اللہ کی راہ میں روپیہ پیسہ وغیرہ دے کر ثواب پہنچانے سے اس کو ثواب پہنچتا ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ نے جامع البرکات میں جو مشکوٰۃ شریف کی شرح کا منتخب ہے ، شیخ ابن الہمام ؒ کا قول لکھا ہے کہ عبادت مالی کا ثواب اور اس کا فائدہ جو کوئی کسی میت کو پہنچائے تو بالاتفاق پہنچتا ہے ۔ اور عبادت بدنی کے ثواب پہنچنے میں اختلاف ہے ۔ اور قول اصح یہ ہے کہ پہنچتا ہے ، جیسا کہ احادیث سے ثابت کیا جاچکا ہے ۔ اب عبادت مالی کے ثواب پہنچنے کے بارے میں چند حدیثیں درج کرتے ہیں ۔
حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جو شخص مرجاتا ہے اور اس کے بعد اس کے وارث اس کی طرف سے کچھ صدقہ و خیرات کرتے ہیں، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کے ثواب کو ایک نور کے طبق میں رکھ کر اس میت کی قبر کے کنارے پر کھڑے ہوکر کہتے ہیں : ائے گہری قبر والے! یہ تحفہ تجھ کو تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے، تو اس کو قبول کر۔ پھر وہ ہدیہ اس میت کے پاس پہنچتا ہے ، تو وہ خوش ہوتا ہے اور خوش خبری پاتا ہے ۔ اور وہ مردے جو اس کے ہمسائے ہیں اور ان کے وارثوں نے کچھ ہدیہ تحفہ نہیں بھیجا ہوتا ہے ، وہ مردے اس کو دیکھ کر غم ناک اور دل گیر ہوتے ہیں۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)۔
ایک شخص نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں اچانک مرگئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کلام کرتی، تو صدقہ کرتی:
فَھَلْ لَھَا أجْرٌ انْ تَصَدَّقْتُ عَنْھَا؟ قَالَ:نَعَمْ۔
(بخاری و مسلم)
اگر میں ماں کی طرف سے صدقہ کروں، تو کیا اس کو ثواب ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔حضرت سعد ابن عبادہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ ام سعد مرگئی ۔
فَأیُّ الصَّدَقَۃِ أفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَاءُ ۔ (ابو داود ، نسائی)
یعنی پس کونسا صدقہ بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی، تو انھوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ ام سعد کے لیے ہے ۔ 
مدینہ میں پانی کی قلت تھی ۔ آپ ﷺ نے اس کو افضل کہا۔ معلوم ہوا کہ صدقہ جاریہ میں اس کو فضیلت رہے گی ، جس کی لوگوں کو زیادہ ضرورت پڑتی ہے ۔ نفلی نمازروزے کا بھی ثواب میت کو پہنچانا درست ہے ۔ چنانچہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ جب میرے ماں باپ زندہ تھے ، تو میں ان کے ساتھ سلوک کیا کرتا تھا۔ اب ان کے مرنے کے بعدان کے ساتھ میرا سلوک کیسے ہوگا؟ ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی روزے رکھ (دار قطنی)
یعنی نفلی نماز روزے کا ان دونوں کو ثواب پہنچا۔حضرت مالک بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ !ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کی کوئی خدمت اولاد کے ذمہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہاں نماز پڑھنا اور ماں باپ کے لیے استغفار کرنا۔ اگر انھوں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو، تو اس کو پورا کرنا۔ ماں باپ کے واسطے سے جن لوگوں کی رشتہ داری ہوتی ہو، ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ماں باپ کے دوستوں کی عزت کرنا، یہ سب باتیں ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی خدمت میں شامل ہیں۔ (ابو داود)
تلقین بعد الموت
موت کے بعد تلقین ظاہر روایت میں منع لکھا ہے ، جیسا کہ عینی شرح ہدایہ میں ہے ۔ اور سراج الدرایہ میں مضمرات سے نقل کیا ہے کہ ہم تو قریب موت کے اور وقت دفن کے دونوں وقت تلقین کیا کرتے ہیں۔ (عالمگیری)
اور شرح برزخ میں نقل کیا ہے کہ نزع کے وقت تلقین کرنا بالاتفاق مسنون ہے۔ اور دفن کے بعد اکثر مشائخ بدلائل احادیث آئندہ کے مستحب کہتے ہیں ۔ اور اسی پر اعتماد ہے۔
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مرجائے اور اس کو قبر میں تم دفن کرچکو، تو تم میں سے کوئی اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : یا فلان ابن فلانہ، یعنی ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سنتا ہے ، لیکن جواب نہیں دے سکتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سیدھا اٹھ بیٹھتا ہے۔ پھر تیسری مرتبہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے! تو وہ مردہ کہتا ہے : 
أیْ شِدْنَا، رَحِمَکَ اللّٰہُ
پھر آں حضرت ﷺ نے فرمایا: اس مردہ کے بولنے کی تم کو خبر نہیں ہوتی۔ پھر اس سے مخاطب ہو کر کہے:
مَا خَرَجْتَ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃُ أنْ لَّا ا8لٰہَ ا8لَّا اللّٰہُ وَ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ وَ أنَّکَ رَضِیْتَ بِاللّٰہِ رَبَّاً وَّ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ نَبِیَّاً وَّ بِالْقُرْاٰنِ ا8مَامَاً ۔ 
اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے فرمایا : جب وہ کہنے والا یہ تلقین کہہ چکتا ہے ، تو منکر نکیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ چل ہمارے ساتھ ۔ اب تو کیا کرے گا ، اس شخص سے اس کو تو یاروں نے تلقین کردی ۔ پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر میت کی ماں کا نام معلوم نہ ہو تو کیا کہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: حضرت حوا ؑ کی طرف نسبت کرکے کہیں: ائے فلاں حوا کے بیٹے۔ (طبرانی)۔
اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن حجر نے بلوغ المرام میں فرمایا :
و للطبرانی نحوہ من حدیث ابی امامۃ مرفوعا مطولا
حضرت ضمرہ ابن خبیب ؒ جو ایک تابعی ہیں ان سے روایت ہے کہ 
کَانُوْا اذَا سُوِّیَ عَلیٰ الْمَیِّتِ قَبْرُہُ وَ انْصَرَفَ النَّاسُ عَنْہُ أنْ یُّقَالَ عِنْدَ قَبْرِہ: یا فُلانُ قُلْ لَا الٰہَ الَّا اللّٰہُ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، یا فُلانُ قُلْ: رَبِّیَ اللّٰہُ وَ دِیْنِی الاسْلَامُ وَ نَبِیِّ مُحَمَّدٌ۔ (رواہ ابو سعید ابن منصور مرفوعا بحوالہ بلوغ المرام)
جب قبر میت پر ٹھیک کردی جاتی اور لوگ لوٹ جاتے تو صحابہ کرام مستحب سمجھتے تھے کہ اس کی قبر کے پاس کہا جائے : ائے فلاں کہہ: لا الٰہ الا اللہ۔ تین مرتبہ۔ ائے فلاں کہہ: میرا پروردگار اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرا نبی محمد ہے ﷺ ۔ 
حضرت عثمان غنی ﷺ سے مروی ہے کہ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے، تو رسول اللہ ﷺ ٹھہرجاتے اور فرماتے:
اِسْتَغْفِرُوْ لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ فَانَّہُ الآنَ یُسْءَلُ (رواہ ابو داود و صححہ الحاکم)
یعنی اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا مانگو، اس لیے کہ ابھی اس سے پوچھا جائے گا۔ 
میت پر رونے کا بیان
کیوں غل ہے مری نعش پہ نوحے کی صدا کا 
رونے کا نہیں وقت یہ ہے وقت دعا کا 
انسان غور کرے تو کوئی چیز اپنی نظر نہ آئے گی ، خواہ اولاد ہو ، یا مال؛ سب خدا کا انعام ہے، حتیٰ کہ خود اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی ایک بخشی ہوئی نعمت ہے ۔ انسان گمان کرتا ہے کہ یہ دولت ہماری ہے اور ہم نے اپنی قوت بازو سے حاصل کیا ہے۔ یہ اس کا غلط گمان ہے ۔اگر دولت قوت بازو سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے شہزور بڑے دولت مند ہوتے ۔ مگر ان کو دوسرے کی خاطر ہی شہ زوری کرنی پڑتی ہے ۔ اور چند ٹکوں میں ان کی طاقت بک جاتی ہے ۔ طاقت کا دھنی دولت کا دھنی کم ہوتا ہے۔
اگر دولت عقل و ہنر سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے عقل مند اور دانش مند بڑے دولت مند ہوتے؛ مگر وہاں بھی معاملہ برعکس نظر آتا ہے ۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ؂
بنا دانا چناں روزی ساند
کہ دانایاں دراں حیران بماند
یعنی اللہ تعالیٰ نادانوں کو اس طرح روزی دیتا ہے کہ دانا اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ، اس لیے سب کو اللہ کی دین سمجھیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَیْکَأنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَ یَقْدِرُ۔
(القصص، آیۃ:۸۲)
تیرا برا ہو، اللہ جس کی روزی چاہتا ہے اپنے بندے میں سے فراخ کرتا ہے اور جس کی چاہتا ہے ، تنگ کرتا ہے ۔ 
یہی حال اولاد کا ہے ۔ خدا جس کو عطا کرتا ہے ، اسے اولاد ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے دولت مند اولاد کے لیے ترستے ہیں اور غربا اولاد کی کثرت سے بھوک سے مرتے ہیں ۔ اس لیے ہم اپنے کو اور اپنے مال اور اولاد کو خدا کی دین سمجھیں۔ اس لیے اگر ہماری کوئی اولاد مرجائے تو اس میت پر نوحہ کرنا ، یعنی زور زور سے ، چیخ چیخ کر رونا ، واویلا کرنا ممنوع اور حرام ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ، جو مصیبت کے وقت گریبان چاک کرے اور رخسار پیٹے اور زمانہ جاہلیت کا سا نوحہ و ماتم کرے ۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا ممنوع ہے۔ اور اس کا مرتکب قابل ملامت ہے ۔ اور اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نوحہ و ماتم کرنے سے میت کو عذاب ہوتا ہے ۔ کیوں کہ اگر کسی مرد مومن کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اکرام کے ساتھ رکھتے ہیں، جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ سچے پکے مومن کے کے لیے قبر سے ہی اللہ کی نعمتیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ اور اگر مرنے والا خدا نخواستہ گناہ گار ہے تو جہاں تک ممکن ہو اس کے لیے جلد ایصال ثواب کرے، تاکہ اس کو فائدہ پہنچے ۔ نیز صبر کرنے میں آدمی کا فائدہ ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
الصَّبْرُ عِنْدَ صَدْمَۃِ الْأوْلیٰ
صبر صدمہ کی ابتدا سے ہی ہو، یہی صبر کا اصل مقام ہے، جس پر اللہ تعالیٰ ثواب عطا کرتا ہے۔
میت کی تعریف کرنے کا بیان
کسی بھی ایسے آدمی کی برائی نہیں کرنی چاہیے ، جس کا انتقال ہوچکا ہو۔ چاہے ان کے اعمال کیسے ہی رہے ہوں ، کیوں کہ مردہ انسان کی غیبت کرنا نہایت ہی قابل گرفت جرم ہے ، چوں کہ اگر زندہ انسان کی غیبت کی تو ممکن ہے کہ اس سے معافی تلافی کرالے؛ لیکن مردہ سے تویہ بھی ممکن نہیں۔ اور یہ بھی بات ہے کہ کسی انسان کی کامیابی اور ناکامی اس کے اعمال سے براہ راست نہیں؛ بلکہ رحمت حق بہانہ می جوید ۔ نہ جانے اللہ تبارک و تعالیٰ کو کس انسان کی کون سی ادا پسند آجائے، جس سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں، اس لیے کسی مردہ انسان پر لعنت کرنا جائز نہیں؛ الا یہ کہ قطعی طور پر یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے۔
اہل میت کے لیے کھانا تیار کرنا
حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفرؓ کی شہادت کی خبر آئی، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، کیوں کہ ان کو وہ رنج و غم پہنچا ہے ، جو ان کو کھانا پکانے سے مشغول رکھے گا۔ اس لیے بہت سے علماء کا یہ قول ہے کہ اہل میت کے لیے ایک دن ایک رات کا کھانا تیار کرنا مستحب ہے ۔ اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ تین دن تک مستحب ہے ، لہذا جس کے گھر موت ہوگی، پڑوسی اور اپنے رشتہ داروں کو کھانا پکواکر بھیجنا چاہیے۔ بہرحال پریشان حال کی دلداری اور غمزدہ انسان کی غمخواری تو ایک فطری چیز ہے ، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اہل میت کے صدمہ کے پیش نظر ان کی تسلی کی جائے، ان کو دلاسہ دیا جائے اور ان کو صبرو ضبط کی تلقین کی جائے ، ان کے ساتھ نہایت نرمی کا برتاؤ کیا جائے ، تاکہ ان کا غم غلط ہوسکے اور ان کو زندگی میں سکون و اطمینان حاصل ہوسکے۔

حوالہ جات
۱۔ قرآن کریم
۲۔ بخاری
۳۔ مسلم۔
۴۔ نسائی
۵۔ ابن ماجہ
۶۔ مؤطا امام مالک
۷۔ کنز العباد فی شرح الاوراد
۸۔ الجامع الصغیر
۹۔ رفاہ المسلمین فی شرح مسائل الاربعین
۱۰۔ شِرعۃ الاسلام
۱۱۔ سفر السعادۃ وسفیر الافادۃ
۱۲۔ رزین العرب
۱۳۔ جامع شتیٰ
۱۴۔ اشرف الوسائل الیٰ فہم الشمائل
۱۵۔ الجامع الکبیر
۱۶۔ الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی
۱۷۔ احیاء علوم الدین
۱۸۔ الحصن الحصین فی کلام سید المرسلین
۱۹۔ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر
۲۰۔ مسند احمد ابن حنبل
۲۱۔ خزانۃ الفتاویٰ
۲۲۔ ادب القاضی
۲۳۔ عین العلم و زین الحلم
۲۴۔ فتاویٰ قاضی خاں
۲۵۔ مجمع البرکات لابی البرکات بن حسام الدین الدمنوی
۲۶۔ تفسیر الزاہدی
۲۷۔ شرح السعادۃ
۲۸۔ فتاویٰ عالم گیری
۲۹۔ مطالب المومنین
۳۰۔ جواہر الفتاویٰ
۳۱۔ تفسیر فتح العزیز المعروف بہ تفسیر عزیزی
۳۲۔ فتاویٰ حمادیہ
۳۳۔ تنبیہ الانام
۳۴۔ فتاویٰ سراجیہ
۳۵۔ مالابد منہ
۳۶۔ انیس الواعظین
۳۷۔ تفسیر الخازن
۳۸۔ کنز الدقائق
۳۹۔ مواھب الرحمان فی تفسیر القرآن
۴۰۔ تحفۃ الملوک
۴۱۔ عینی (ہدایہ
۴۲۔ سراج الہدایہ
۴۳۔ ہدایہ
۴۴۔ شرح برزخ
۴۵۔ بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام
۴۶۔ حق السماع
۴۷۔ الدیلمی
۴۸۔ رسالہ نصیحت
۴۹۔ مبسوط
۵۰۔ رسالہ ابطال
۵۱۔ بوارق
۵۲۔ المواھب اللدنیہ
۵۳۔ نور الہدایہ
۵۴۔ وصایا
۵۵۔ رد محتار
۵۶۔ در مختار
۵۷۔ فتاویٰ تاتارخانیہ
۵۸۔ الکفایہ للشعبی
۵۹۔ خزانہ جلالی
۶۰۔ رحمۃ الامہ فی اختلاف الائمہ
۶۱۔ بنایہ شرح ہدایہ
۶۲۔ شرح وقایہ
۶۳۔الملتقط فی الفتاویٰ الحنفیہ
۶۴۔ تحفۃ الزوجین
۶۵۔ مشکوٰۃ المصابیح

قسط نمبر (9) نماز جنازہ کا بیان

نماز جنازہ کا بیان

قسط نمبر (9)
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
تکفین کے بعد حتیٰ الامکان نماز جنازہ کی تیاری میں جلدی کرے اور محلہ یا گاؤں میں سے ہر شخص جنازہ میں شرکت کی کوشش کرے ، کیوں کہ مومن میت کا حق ہے ۔ اور ادائیگیِ حق میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ۔ یاد رہے کہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے ، یعنی اگر ایک جماعت نے اس پر نماز پڑھ لی تو بقیہ لوگوں سے فرض ساقط ہوجائے گا۔ ورنہ گاؤں یا محلہ کے سارے لوگ ترک فرض کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔( کنز الدقائق)
نماز جنازہ کے لیے میت کا مسلمان اور پاک ہونا شرط ہے ۔ اور نماز جنازہ میں قیام اور چار تکبیریں فرض ہیں۔ (کنز الدقائق، مؤطا امام مالک)
عَنْ أبِیْ ھُرَیْرَۃؓ أنَّ رَسُوْلَ الْلّٰہِ ﷺ نَعیٰ النَّجَّاشِیْ فِی الْیَوْمِ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ وَ خَرَجَ بِھِمْ ا8لَیٰ الْمُصَلّٰی فَصَفَّ بِھِمْ وَ کَبَّرَ أرْبَعَ تَکْبِیْراتٍ ۔(مؤطا ا8مام مالک)
حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ جس دن نجاشی کی وفات ہوئی، حضور ﷺ نے صحابہ کرام کو اس کی اطلاع دی اور اپنے اصحاب کو لے کر میدان میں نکلے اور صف درست کرائی اور نماز میں چار تکبیریں کہیں۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ کے جنازہ کی نماز میں آپ ﷺنے چار تکبیریں کہیں۔(سنن ابن ماجہ)
نجاشی کی نماز جنازہ میں آپ ﷺنے چار ہی تکبیریں کہیں اور فرشتوں نے بھی حضرت آدم علیہ السلام کے جنازہ میں چار تکبریں کہیں اور فرشتوں نے کہا : ائے بنی آدم! یہ تمھاری سنت ہے ۔ (حاکم فی المستدرک و سنن بیہقی طبرانی) 
کسی روایت میں پانچ پانچ، چھ چھ اور سات سات تکبیرات کا تذکرہ بھی آیا ہے ؛ لیکن یہ ابتدا کی بات ہے، آخر زمانہ میں چار ہی تکبیرات رہ گئیں اور اسی پر صحابہ کرام کا اتفاق اور اجماع ہوگیا ۔ا ور تمام صحابہ کرام کو حضرت عمرؓ نے چار تکبیروں پر جمع کیا ۔ چنانچہ حضرت ابو وائلؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ عہد رسالت میں چار چار، پانچ پانچ، چھ چھ اور سات سات تکبیریں کہا کرتے تھے ؛ لیکن حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو چار تکبیروں پر جمع کیا۔ (سنن بیہقی ) تو گویا باجماع صحابہ کرام نماز جنازہ میں آخر میں صرف چار تکبیریں فرض رہ گئیں۔ 
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جس آخری جنازے کی نماز پڑھائی، اس میں چار ہی تکبیریں کہی ہیں۔ (سنن بیہقی) 
جنازہ کی نماز میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شریک ہونا چاہیے، پتہ نہیں،جماعت میں کون خدا کا مقبول بندہ ہو، جس کی دعا میت کے حق میں خدا کے نزدیک مقبول ہوجائے اور اس کی مغفرت ہوجائے اور جنت واجب ہوجائے۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جس میت پر سو مسلمانوں نے نماز پڑھی، اس کی مغفرت ہوگئی ۔ ایک روایت میں چالیس ہے۔ مراد زیادتی ہے یا سائلین کے جواب میں مختلف تعداد کا ذکر فرمایا۔ 
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنازہ کے پیچھے پیچھے چلا اور اس کی نماز پڑھی، تو اس کو ایک قیراط کے برابر ثواب ملے گا اور جو نماز کے بعد دفن کرکے فارغ ہوگئے ، اس کو دو قیراط کے برابر ثواب ملے گا ۔ (ابو داود) ۔
حاضرین جنازہ کو تین صفوں میں تقسیم کردیا جائے۔
قَالَ مَالِکُ بْنُ ھُبَیْرَۃَ الشَّامِیْ اِذَا اُتِیَ بِجَنَازَۃٍ، فَتَقَالَ مَنْ تَبِعَھَا جَزَّاھُمْ ثَلَاثَۃَ صُفُوْفٍ ثُمَّ صَلَّیٰ عَلَیْھَا وَ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ الْلّٰہِ ﷺ قَالَ: مَا صَفَّ صُفُوْفَ ثَلَاثَۃٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلَّا وَاجِبٌ ۔(سنن ابن ماجہ)
مالک بن ہبیرہ فرماتے ہیں کہ جب ان کے پاس جنازہ آیا ، تو آپ نے حاضرین کو کم سمجھ کر تین صفوں میں تقسیم کیا اور نماز پڑھائی اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جب بھی تین صفیں ہوتی ہیں ، میت کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
نماز پڑھانے میں اول درجہ کا حق سلطان کو ہے ، پھر قاضی کو ، پھر محلہ کے امام کو، پھر ولی میت کو ۔ سلطان کے علاوہ کسی اور کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد اگر ولی اعادہ کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے ، غیر مستحق کو مستحق کے نماز پڑھانے کے بعد اعادہ کا حق نہیں ہوگا۔ (کنز، ہدایہ)
اگر بغیر نماز کے میت کو دفن کردیا گیا ہے، تو بعد میں قبر کے پاس آکر نماز پڑھی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ میت کا جسم پھٹا پھولا نہ ہو۔ (ہدایہ ، کنز)۔
رسول اللہ ﷺ نے میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس آکر نماز پڑھی۔
امام کو میت (مردہویا عورت) کے سینے کے مقابلہ میں کھڑا ہونا چاہیے ، کیوں کہ وہ عضو ایمان کا مرکز ہے ۔ (ہدایہ ، کنز)
اگر مستحق نے غیر مستحق کو نماز پڑھانے کی اجازت دیدی، تو وہ نماز پڑھا سکتا ہے ۔ ایسی مسجد جس میں باقاعدہ جماعت ہوتی ہو، وہاں جنازے کی نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ (ہدایہ، کنز)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی، اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔ (ابوداود)
نومولود بچہ پر بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ، بشرطیکہ بوقت پیدائش حیات کی کوئی علامت معلوم ہوچکی ہو۔ حضور ﷺ نے حضرت ابراہیم پر نماز پڑھی ہے ۔ (ابو داود، ابن ماجہ) اور آپ ﷺ نے فرمایا:
اَلطِّفْلُ یُصَلَّیٰ عَلَیْہِ
دوسری جگہ ہے کہ 
اِذَا اسْتَھَلَّ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَوَرِثَ، قَالَ النَّبِیُّ ﷺ صَلُّوْا عَلَیٰ أطْفَالِکُمْ فَا8نَّھُمْ مِنْ أفْرَاطِکُمْ 
اور جو بچہ مردہ پیدا ہو اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر بغیر نماز پڑھے ہوئے دفن کرے۔ (ہدایہ)
دارالحرب سے کوئی بچہ اگر تنہا (بغیر والدین کے ) قید ہوکر دارالاسلام آیا ہے ، یا والدین کے ساتھ قید ہوکر آیا ، ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہوگیا یا مسلمان تو نہیں ہوئے ؛ لیکن صرف بچہ نے اپنے اسلام کا اقرار کیا، بشرطیکہ وہ بچہ عاقل ہو، ان تینوں صورتوں میں ایسے بچہ پر اس کے مرنے کے بعد نماز جنازہ پڑھی جائے گی ، بصورت دیگر نہیں پڑھی جائے گی ۔ اگر دارالاسلام میں کوئی بچہ کہیں پایا گیا ؛ لیکن اس بچہ کا مسلمان ہونا معلوم نہیں ہے، تو اس پر نماز پڑھی جائے گی ۔ (ہدایہ)
شہید کو بغیر غسل دیے ان کے کپڑوں میں (جو اس کے بدن پر ہے) دفن کیا جائے گا۔ شہید کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ اگر سنت سے زائد کپڑا ہے ، تو علاحدہ کرلیا جائے گا۔ اور اگر کم ہے تو پورا کیا جائے گا۔ اور شہید وہ ہے جسے ظلما قتل کیاگیا ہو اور ان کے قتل سے دیت واجب نہ ہوئی ہو۔ جس شخص کو کسی حربی یا باغی حکومت یا ڈاکو نے قتل کر ڈالا، چاہے جس چیز سے ہو ، اسے غسل دیے بغیر ، نماز پڑھ کر دفنایا جائے گا ۔ ہاں اگر جنبی تھاتو چاہے وہ شہید ہو، لیکن اسے غسل دیا جائے گا کہ بغیر اس کے نماز جنازہ نہیں ہوتی ہے۔ یہی حکم حائضہ اور نفساء کا ہے ۔ حداً یا قصاصاً مقتول کو غسل دے کر اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ (ہدایہ) 
نماز کی ترکیب
سب سے پہلے نیت کرے۔ اور تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کان کے لو تک اٹھاکر باندھ لے ۔ اور ثنا پڑھے ۔ دوسری دفعہ بغیر ہاتھ اٹھائے تکبیر کہے اور کوئی درود شریف پڑھے ، لیکن بہتر درود، درود ابراہیمی ہے ، جسے نمازی نماز کے قعدہ اولیٰ میں پڑھتے ہیں۔ تیسری تکبیر کہہ کر بالغ مرد اور عورت کے کے لیے یہ دعا پڑھے :
ألْلّٰھُمَ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیَّتِنَا وَ شَاھِدِنَا وَ غَاءِبِنَا وَ صَغِیْرِنَا وَ کَبِیْرِنَا وَ ذَکَرِنَا وَ أنْثَانَا۔ ألْلّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہُ مِنَّافَاَحْیِہِ عَلٰی الاسْلَامِ وَ مَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلٰی الایْمَانِ۔ 
اور نابالغ لڑکا کے لیے یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ اجْعلْہُ لَنَا فَرَطَاً وَ اجْعَلْہُ لَنَا أجْرَاً وَّ ذُخْرَاً وَاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعاً وَّ مُشَفَّعَاً 
اور نابالغ لڑکی کے لیے یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرَطَاً وَ اجْعَلْھَا لَنَا أجْرَاً وَّ ذُخْرَاً وَّاجْعَلْہَا لَنَا شَافِعَۃً وَّ مُشَفَّعَۃً۔ 
یہ دعا پڑھ کر تکبیر کہے ۔ پھر دونوں طرف سلام پھیرے۔
جس شخص کی کچھ تکبیریں چھوٹ جائیں، تو اسے چاہیے کہ امام کی اگلی تکبیر کے ساتھ نماز میں داخل ہوجائے اور چوتھی تکبیر کے بعد بغیر سلام پھیرے اپنی فوت شدہ تکبیریں پوری کرلے ، کیوں تکبیرات فرض ہیں ، ان کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (ہدایہ)
البتہ جو شخص شروع سے جماعت میں حاضر ہے ، اس کے باوجود اس کی تکبیر چھوٹ گئی ہو، تو وہ امام کی اگلی تکبیر کا انتظار نہیں کرے گا، بلا انتظار تکبیر کہہ ڈالے اور اخیر میں امام کی چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے اپنی فوت شدہ تکبیریں پوری کرے۔ 
جن اوقات مکروہ میں پنجوقتہ نماز مکروہ ہے ، ان اوقات میں نماز جنازہ بھی مکروہ ہے ۔ سورج نکلنے کے وقت، اس کے ڈوبنے کے وقت اور زوال کے وقت نماز جنازہ نہ پڑھے؛ لیکن اگر جنازہ اسی وقت تیار ہوکر آیا ہے ، ایسی صورت میں بلاکراہت نماز پڑھی جاسکتی ہے اور نماز ہوجائے گی۔ حضرت عقبہ ابن عامرؓ فرماتے ہیں کہ تین وقتوں میں نبی اکرم ﷺ نے مردوں کی نماز اور ان کو دفن کرنے سے منع فرمایا ہے : (۱)طلوع شمس سے رفع شمس تک ۔ (۲) ٹھیک جب سورج سر پر آجائے، اس وقت سے لے کر زوال تک۔ (۳) سورج ڈوبنے کے وقت سے غروب شمس تک (ابو داود)
محمد ابن ابی حرملہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے سنا کہ وہ متوفیہ حضرت زینب بنت سلمہ کے رشتہ داروں سے کہنے لگے : یا تو تم جنازے کی نماز اس وقت پڑھ لو، یا اس وقت چھوڑ دو، سورج بلند ہونے کے بعد پڑھنا۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عمرؓ عصر اور صبح کی نماز کے بعد جب کہ دونوں وقتوں کی نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھ لی جاتی تھیں، نماز جنازہ ادا کرتے تھے ، یعنی اوقات مکروہہ میں ادا نہیں کرتے تھے ۔ (مؤطا امام مالک)
جنازہ اٹھانے اوردفنانے کا بیان
آئے ہیں تا قبر دوشا دوش ائے ریاض
کچھ نہ کچھ عزت تو کی یاروں نے مرجانے کے بعد
جنازہ اٹھانا اور لے جانا
اگر میت کوئی شیر خوار بچہ یا اس سے کچھ بڑا ہو ، جو ہاتھوں پر جاسکے ، تو اس کو دست بدست لے جائیں ، یعنی ایک آدمی اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھالے، پھر اس سے دوسرا،اور دوسرا سے تیسرا ، اسی طرح بدلتے ہوئے لے جائیں۔ (عالمگیری)
اگر میت کوئی بڑا آدمی ہوتو اس کو کسی چارپائی وغیرہ پر رکھ کر لے جائیں ۔اور اس کے چاروں پایوں کو ایک ایک آدمی اٹھائے ۔ چلتے وقت میت کی چارپائی کو ہاتھوں سے اٹھاکر کندھوں پر رکھے اور آگے بڑھے ۔ اب دوسرے آدمیوں کے لیے جنازہ کندھوں پر رکھنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کا اگلا داہنا پایا اپنے داہنے کندھے پر رکھ کر دس قدم چلے ۔ پھر پچھلا بایاں پایا پکڑ کر اپنے بائیں کندھے پر رکھ کر اسی طرح دس قدم چلے ۔ پھر اگلا بایاں پایا پکڑ کر اپنے بائیں کندھ پر رکھ رکھ کر اسی طرح دس قدم چلے ۔ پھر پچھلا بایاں پایا پکڑ کر اپنے کندھے پر رکھ کر دس قدم چلے ، تاکہ چاروں پایوں کو ملا کر چالیس قدم ہوجائے۔ (در مختار، عالمگیری)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
مَنْ حَمِلَ جَوانِبَ السَّرِیْرِ الْأرْبَعِ کَفَّرَ الْلّٰہُ عَنْہُ أرْبَعِیْنَ کَبِیْرَۃً ۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط، زجاجۃ، ص۴۷۱)
جو شخص جنازہ کے چاروں پایوں کو اٹھائے ، اللہ تعالیٰ اس کے چالیس گناہ کبیرہ کو معاف فرمائے گا۔
جنازہ تیزی سے لے جائے ؛ مگر اتنا تیز نہیں کہ جنازہ کو حرکت آجائے۔ (عالمگیری)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أسْرِعُوْا بِالْجَنازَۃِ فَانْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُوْنَھَا الَیْہِ وَ انْ تَکُ سِوَیٰ ذٰالِکَ فَشَرٌّ یَضَعُوْنَہُ عَنْ رِقَابِکُمْ ۔
(متفق علیہ)، زجاج ۴۵۶)
جنازہ لے کر تیزی سے چلو ، اگر نیک ہے تو خیر اس کے آگے کر رہے ہو۔ اور اگر اس کے علاوہ ہے تو شر ہے ، جس کو اپنے کندھوں سے اتار رہے ہو۔
یعنی اگر نیک ہے تو اس کے لیے قبر میں آسائش کا سامان ہے ، اس کو جلد آرام کی جگہ پر پہنچاؤ۔اور اگر بد ہے تو اس کی برائی سے بچنے کے لیے اپنے کندھے سے اس کو جلد دور کرو۔
اور بخاری کی روایت میں ہے کہ جب جنازہ رکھا جاتا ہے ۔ پھر اس کو مرد اپنی گردن پر اٹھاتے ہے ، تو اگر نیک ہے تو کہتا ہے : قَدِّمُوْنِیْ مجھے آگے لے چلو۔ اور اگر غیر صالح (بد) ہوتا ہے ، تو اپنے اہل سے کہتا ہے : تیری خرابی ہو، مجھے کہاں لیے جاتے ہو (اور اتنا واویلا کرتا ہے کہ) انسان کو چھوڑ کر باقی تمام مخلوق اس کی آواز کو سنتی ہے ۔ اگر انسان سن لے تو مرجائے۔ (زجاجہ، ص۴۵۶)اور باقی لوگ جنازہ کے پیچھے چلیں، اگرچہ آگے چلنا بھی درست ہے ، لیکن افضل پیچھے چلنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مسلم کے جنازہ کے پیچھے یقین اور ثواب کی نیت سے چلے اور اس کے ساتھ رہے ، یہاں تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے ۔ اور اس کے دفن سے فارغ ہوجائے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے ۔ ہر قیراط احد پہاڑ کے مثل ہوتا ہے ۔ اور جو صرف اس پر نماز پڑھے اور دفن کرنے سے پہلے لوٹ جائے، تو وہ صرف ایک قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے ۔ (بخاری مسلم)
جنازہ کے پیچھے چلنے کو آگے چلنے پر وہی فضیلت ہے ، جو فرض نماز کو نفل پر ہے ، یا جماعت کی نماز کو تنہا نماز پر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
أمَا انَّ فَضْلَ الرَّجُلِ یَمْشِیْ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ عَلَیٰ الَّذِیْ یَمْشِیْ أمَامَھَا کَفَضْلِ صَلَوٰۃِ الْجَمَاعَۃِ عَلیٰ صَلَوٰۃِ الْفَذِّ ۔(رواہ الطحاوی وعبدالرزاق وابن ابی شیبہ واسنادہ صحیح)
بہرحال جو شخص جنازے کے پیچھے چلتا ہے ، اس کی فضیلت آگے چلنے والے پر ایسی ہے جیسے کہ جماعت کی نماز کی فضیلت تنہا نماز پر۔ 
یہ حدیث گرچہ موقوف ہے ؛ مگر حکم مرفوع کا رکھتی ہے ، اس لیے کہ صحابی ایسی باتیں اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے ۔ 
بہتر ہے کہ جنازہ کے ساتھ چلنے والے اللہ کا ذکر کرتے جائیں اور ان ذکروں میں سب سے بہتر ذکر لا الٰہ الا اللہ کا ذکر ہے ، کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ: 
أفْضَلُ الذِّکْرِ لَا اِلٰہَ اِلَّا الْلّٰہُ (ترمذی ابن ماجہ)
دوسری حدیث میں ہے کہ جنازہ کے ساتھ کثرت سے لا الٰہ الا اللہ پڑھو۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جنازہ کے ساتھ دینے والوں میں افضل وہ شخص ہے ، جو اس جنازہ کے ساتھ (اللہ کا) ذکر کرے اور جو نہ بیٹھے ، یہاں تک کہ جنازہ زمین پر رکھ دیا جائے ۔ اور (ثواب کا ) پیمانہ پورا کرنے والا وہ ہے، جو تین بار اس پر مٹھی بھر خاک ڈالے۔
لیکن ذکر آہستہ کرے ۔ جنازہ کے ساتھ زور سے ذکر کرنے کو شامی نے مکروہ لکھا ہے ۔ عالمگیری میں فتاوٰیٰ قاضی خاں سے منقول ہے کہ جو کوئی جنازہ کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا چاہے، تو اپنے جی میں آہستہ پڑھے ۔ جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھنا مکروہ ہے ۔ جنازہ زمین پر رکھنے کے بعد بیٹھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِذَا اتَّبَعْتُمُ الْجَنَازَۃَ فَلَا تَجْلِسُوْا حَتّیٰ تُوضَعَ ۔
(رواہ ابو اداود و فی روایۃ لہ حتیٰ توضع فی الارض) 
جب جنازہ کے ساتھ جاؤ تو تم مت بیٹھو، یہاں تک کہ جنازہ رکھ دیا جائے ۔
یعنی زمین پر جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے ۔ 
جنازہ کے پیچھے عورتیں نہ جائیں۔ ام عطیہ سے روایت ہے کہ :
کُنَّا نُنْھیٰ عَنِ اتِّبَاعِ الْجِنَاءِزِ (بخاری، جلد دوم ص۸۰۴) 
جنازہ کے پیچھے چلنے سے ہم سب عورتوں کو منع کیا جاتا تھا۔
قبر
صدا یہ قبر سے بیدار دل کو آتی ہے 
عمل جو نیک ہوں تو ایسی خواب گاہ نہیں
کم از کم میت کا نصف قد اور زیادہ سے زیادہ ایک قد گہری قبر کھودے ۔ اس سے زیادہ گہری نہ کھودے اور لمبائی اس کے قد کے موافق ہونی چاہیے ۔ بغلی قبر صندوقی قبر سے افضل ہے ۔ جائز دونوں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی قبر بغلی تھی۔حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ نے مرض الموت میں فرمایا : میرے لیے بغلی قبر کھودو اور مجھ پر کچی اینٹ چن دو، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا گیا ۔ (مسلم)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
الْلّحْدُ لَنَا وَالشِّقُّ لِغَیْرِنَا (ترمذی، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ)
بغلی قبرہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر غیر کے لیے ہے ، یعنی مسلمانوں کی قبر بغلی اور غیر مسلموں کی قبر صندوقی ہوتی ہے۔
دفنانے کا بیان
جب قبر تیار ہوجائے، تو میت کو قبلہ کی طرف سے قبر میں اتار دیں ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جنازہ قبر سے قبلہ کی جانب رکھا جائے اور اتارنے والے قبلہ رو کھڑے ہوکر میت کو اٹھاکر قبر میں رکھ دیں۔ (بحرالرائق، در مختار) ۔ ؂
پہنچے مرمر کر لحد تک پہلی منزل طے ہوئی
عرصۂ محشر کی باقی اب مسافت رہ گئی
عنْ أبِیْ سَعِیْدٍ أنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ أخِذَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَۃِ وَاسْتَقْبَلَ اِسْتَقْبَالَاً (ابن ماجہ)
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبلہ کی طرف سے اتارے گئے اور آپ ﷺ نے قبلہ کا استقبال کیا۔
مستحب ہے کہ قبر میں اتارنے والایہ دعا پڑھے:
بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہِ 
قبر میں اتارتے وقت نبی کریم ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے (احمد، ابن ماجہ، ترمذی)۔میت کو قبر میں داہنے پہلو پر قبلہ رو کردینا مسنون ہے ۔ (عالمگیری)
اس کے بعد وہ گرہیں کھول دیں جو کفن کے کھلنے کے خوف سے لگائی گئی تھیں۔
جیسے منزل پہ مسافر کی کمر کھلتی ہے 
قبر میں یاروں نے وا بند کمر چھوڑ دیا
اس کے بعد کچی اینٹوں یا بانس نرکل وغیرہ سے بند کردیں ۔ پختہ اینٹ اور تختوں سے بند کرنا مکروہ ہے ۔ البتہ اگر نرم زمین ہو اور قبر کے بیٹھنے کا خوف ہو، تو تختہ اور اینٹ یا صندوق میں بند کرکے رکھنا درست ہے ۔ (شامی)
قبر میں مٹی ڈالتے وقت مستحب یہ ہے کہ سرہانے کی طرف سے شروع کریں ۔ اور ہر شخص اپنے دونوں ہاتھوں سے قبر میں مٹی ڈالے۔ پہلے لپ میں پڑھے :
مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ 
اور دوسرے لپ میں 
وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ 
اور تیسرے میں
وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أخْرَیٰ 
پڑھے ۔ یہ تین لپ مٹی ہوئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی، پھر قبر کے پاس تشریف لائے۔ اور اس پر سر کی طرف سے تین لپ مٹی ڈالی ۔ (ابن ماجہ)۔ پھر جس قدر مٹی قبر سے نکلی ہو، اس پر وہ سب ڈال دیں۔ اس سے زیادہ مٹی ڈالنا مکروہ ہے ۔ (بحر الرائق) ؂
مرتے ہی جتنے یار تھے ، اغیار ہوگئے
سب خاک میں ملانے کو تیار ہوگئے
اور قبر کو کوہان شتر کی طرح کردے ۔ اس کو مربع کرنا مکروہ ہے۔
عَنْ سُفْیَانٍ التَّمَّارِ دَخَلْتُ الْبَیْتَ الَّذِیْ فِیْہِ قَبْرُ النَّبِیِّ ﷺ، فَرَأیْتُ قَبْرَ النَّبِیِّ ﷺ وَ قَبْرَ اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ مُسَنَّۃً ۔
(رواہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ)
حضرت سفیان تمار کا بیان ہے کہ میں اس گھر میں داخل ہوا، جس میں نبی کریم ﷺ کی قبر تھی ، تو میں نے آپ ﷺ کی اور حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبریں کوہان نما دیکھی۔ حضرت سفیان جلیل القدر تابعی ہیں۔
قبرکو پختہ کرنا اور اس پر گنبد بنانا اور گردو پیش قبر کے چار دیواری اور چبوترا تعمیر کرنا جائز نہیں۔ 
نَھَیٰ رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ أنْ یُّجَصَّصَ الْقَبْرُوَ أنْ یُبْنیٰ عَلَیْہِ وَ أنْ یُّقْعَدَ عَلَیْہِ ۔(مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے قبر کو پختہ کیے جانے اور اس پر عمارت بنائے جانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ 
زیادہ اونچی قبر کرنا بھی مکرو ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اس بات کے لیے بھیجا کہ جس تصویر کو دیکھوں اسے مٹادوں اور جس اونچی قبر کو دیکھوں اسے برابر کردوں۔ (مسلم)
مواہب الرحمان میں لکھا ہے کہ زینت کے واسطے قبر پر عمارت بنانا حرام ہے۔ اور میت کے دفن کے بعد اس کو مضبوط کرنا مکروہ ہے ۔ اور فتاویٰ عالمگیری میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ اور تحفۃ الملوک میں لکھا ہے کہ پانی کے صدمہ سے بچنے کے واسطے قبر کے گرد چونے سے بنانا مکروہ ہے ۔ اس واسطے کہ قبر اور جو چیز قبر کے تابع ہے وہ استحکام اور مضبوط کرنے کی جگہ نہیں ہے ۔ پس جیسا کہ قبر کو کچا رکھنا بہتر ہے ، ویسا ہی اس کے گرد بھی کچا رکھنا بہتر ہے ۔ لیکن ٹوٹی ہوئی قبر کو مٹی سے مرمت کردینے میں کچھ حرج نہیں۔(عالمگیری)
قبر کی شناخت کے لیے پتھر رکھنا درست ہے۔جب حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور وہ دفنائے گئے، تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو پتھر لانے کا حکم دیا ۔ وہ پتھر نہیں اٹھاسکا، تو حضور ﷺ خود اس پتھر کی طرف تشریف لے گئے اور اپنی آستین سمیٹی اور اس کو اٹھا کرحضرت عثمان بن مظعون ؓ کے سرہانے رکھ دیا اور فرمایا : اسی کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر پہچانوں گا۔ اور میرے اہل میں جس کا انتقال ہوگا ، اس کو اس کے پاس دفن کروں گا۔ (ابو داود)
دفن کرنے کے بعد قبر کے اوپر پانی چھڑکنا مستحب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا اور اس پر کنکریاں رکھیں۔ (شرح السنۃ)
اگر قبر زمین کے برابر ہوجائے، تو اس صورت میں اس پر چلنا پھرنا درست ہے ، لیکن اگر قبر نمایاں ہو، تو اس پر چڑھنا یا بیٹھنا یا اس پر سے گذرنا درست نہیں۔
نَھَیٰ رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ أنْ یُّجَصَّصَ الْقُبُوْرُ وَ أنْ یُّکْتَبَ عَلَیْھَا وَأنْ تُؤطَأ ۔(ترمذی) 
رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پختہ کیے جانے اور اس پر لکھے جانے اور اس کو روندے جانے سے منع کیا ہے ۔ ؂
مرمٹوں کی قبر کو پامال تونے کیوں کیا
ٹوٹا پھوٹا بھی نشاں ائے پر جفا جاتا جارہا
آخری قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں