4 Apr 2018

خطابت کے ایک سو ساٹھ نکات،اشارات ،ہدایات

نکات،اشارات ،ہدایات 
(قسط نمبر ۱۱ آخری قسط ،محمد یاسین جہازی کی کتاب : رہ نمائے خطابت سے اقتباس
 
(۱)مقرر کو نہایت ذکی الطبع اور حساس ہونا چاہیے ۔
(۲)ہر چیز کی ماہیت سے بحث کرنے اور علم ریاضی کے مسلمہ اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے سے آدمی بہت جلد حساس اور زکی الطبع ہوجاتا ہے ۔
(۳)مقرر کو مہذب ،پر وقار اور با تمیز ہونا نہایت ضروری ہے ۔
(۴)مقرر کے ہر ہر لفظ سے تہذیب وشرافت مترشح ہونی چاہیے ۔
(۵)’’ہر چہ بر خود نہ پسندی بہ دیگراں نپسند‘‘،تہذیب کی تحصیل کا اصل الاصول ہے۔
(۶)جو بات کہنی ہو،پہلے اس سے خود متأثر ہونا ضروری ہے ۔کیوں کہ بعض اوقات محض تأثر کی وجہ سے اس قدر کامیابی ملتی ہے کہ اتنی کامیابی قزنی دلائل سے بھی نہیں ملتی ۔اس لیے کہ سامعین کا جوش ہمیشہ فہم و فراست پر غالب رہتا ہے ۔
(۷)اچھا مقرر سر سے پاوں تک جوش کا مرقع بن جاتا ہے ۔اس کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اگر ممکن ہو،تو تقریر کی شکل میں متشکل ہوکر حاضرین کے کانوں اور آنکھوں کے راستے ان کے دل ودماغ اور خیالات میں پیوست ہوجائیں۔
(۸)جب تک مقرر میں زبردست قوت متخیلہ نہ پائی جاتی ہو ،وہ با کمال مقرر نہیں ہوسکتا ۔
(۹)اگر مقرر نے اپنے تخیل کی اصلاح و درستی ملحوظ نہ رکھی ،تو گویا اس نے اپنے سرمائے کومعرض خطر میں ڈال دیا ۔
(۱۰)تقریر کا دوسرا نام اظہار خیالات ہے ۔جب متخیلہ ہی باطل ہو ،تو خیالات کی پاکیزگی کا نام لینا ہی فضول ہے ۔
(۱۱)کامیاب مقرر وہی ہے ،جس کی زبان میں تذبذب ہو اور نہ ہی تزلزل۔اور اس کی تقریر میں اول سے آخر تک ربط و تسلسل ۔
(۱۲)اعلیٰ مقرر بننے کے لیے منجملہ دیگر امور میں سے ایک عزم بالجزم بھی ہے ۔کسی مجلس میں کھڑاہونا اور پھر آزادی کے ساتھ خیالات کا اظہار کرنا بڑی دلیری اور جرأت کی بات ہے ۔خاص کر متنازع فیہ مسائل پر رائے زنی کرنے کیے لیے بڑی ہمت درکار ہے ۔
(۱۳)اگر ارادے میں استقلال اور طبیعت میں عزم کا مادہ ہو،تو مقرر ہمت و جرأت کی ایک زبردست طاقت اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے ۔ممکن ہے کہ وقت پر الفاظ یاد نہ آئیں،خیالات محو ہوجائیں، ہچکچاہٹ و لڑکھڑاہٹ کی کیفیت پیدا ہو جائے ؛لیکن جب ارادہ مضبوط ہوگا ،تو زبان کی لغزش ناممکن ہے ۔
(۱۴)مقرر کی شائستگی ،صداقت اور استقلال کامیابی کے ضامن ہیں ۔خود بینی و خود سرائی بے ہودگی ہے ، کیوں کہ اس سے سامعین متنفر ہوجاتے ہیں۔
(۱۵ )اعلیٰ درجے کی قوت گویائی کے بغیر کوئی شخص مقرر نہیں بن سکتا ۔
(۱۶)جو شخص فطری طور پر خوش بیان نہ ہو،وہ اپنے اندر ادبی لیاقت پیدا کرنے سے خوش بیان اور زبان آور ہوسکتا ہے،اس لیے مقرر کے لیے علم ادب کی تکمیل کرنی ضروری ہے ۔
(۱۷)عمدہ مقرر بننے کے لیے نیک چلنی اتنے ہی ضروری ہے ،جتنے کہ آئینے کے لیے صفائی۔ 
(۱۸)بد چلن آدمی کے دل میں وہ توانائی اور آزادی نہیں ہوتی ،جو خیالات کی پیدائش اور ان کے اظہار کے لیے لازمی ہے ،کیوں کہ وہ ہر لفظ پر چونک اٹھتا ہے ۔بات بات پر دل میں خفت پیدا ہوتی ہے۔ حوصلہ و ہمت کو وہ پھر اکٹھا کرتا ہے اور بیان کرنے کوشش کرتا ہے ؛مگر باطنی کمزوری پھر زبان پر تالا ڈال دیتی ہے ۔
(۱۹)جو شخص اپنے عیوب کی وجہ سے انگشت نما ہو ،وہ کبھی بھی ایک مقرر کی حیثیت سے لوگوں میں اثر پیدا نہیں کرسکتا ۔
(۲۰)جب بد چلن مقرر اسٹیج پر نماں ہوتا ہے ،تو پبلک میں اس کے متعلق چہ می گوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
(۲۱)جب کوئی نیک چلن مقرر تقریر کرتا ہے ،تو خواہ اس کے الفاظ کیسے ہی بے تکے ہوں ،تقریر کیسی ہی لغو ہو؛لیکن فقط اس کا نیک ہونا ہی پبلک کے لیے سب سے بڑی سفارش ثابت ہوتا ہے ۔اس کی نیکی کے خیال سے سامعین کے دلوں میں اس کی عزت و عظمت پیدا ہوجاتی ہے ۔
(۲۲)جب تک انسان تعلیم و تربیت اور عمدہ خصائل وفضائل کی تحصیل نہیں کرتا، اس وقت تک صرف ذاتی اوصاف اور قدرتی صلاحیت کی وجہ سے اعلیٰ درجے کا مقرر نہیں بن سکتا ۔
(۲۳)خوش بیانی اور علم باہمی رشتہ رکھتے ہیں ۔کسی بڑے شخص کا مقولہ ہے کہ فصاحت کو غذا درکا ر ہے اور یہ غذا علم ہے ۔
(۲۴)جب انسان کے پاس علم ہی نہ ہوگا ،توخیالات کہاں سے پیدا ہوں گے اور معلومات کے بغیر ایک مقرر کاکام نہیں چل سکتا ۔
(۲۵)سقراط کہتا ہے کہ کسی شئی پر بحث کرنے پہلے اس سے کما حقہ واقفیت رکھنا ضروری ہے ۔
(۲۶)مقرر کے لیے ضروری ہے کہ معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ اس کے ذہن و دماغ میں محفوظ ہو ۔
(۲۷)کائنات کا باریک بینی سے مطالعہ اور طبائع انسانی کے رجحانات کو پہچاننے کی استعداد پیدا کرنا ایک مقرر کے لیے ضروری ہے ۔
(۲۸) ایک فلاسفر کا مقولہ ہے کہ ایک مقرر کو انسانی زندگی کے عوارض و لواحق سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے۔ اور اس کے لیے علم النفس (سائکا لوجی )کا مطالعہ لازم ہے ۔
(۲۹)کوئی فن ہو یا ہنر؛اس کی تکمیل محنت پر منحصر ہے ۔بس تقریر کی مشق بہم پہنچانا بھی پوری محنت و مشق کے بغیر ناممکن ہے ۔
(۳۰)صرف چند روز کی محنت فن تقریر کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہے ؛بلکہ اس کے لیے سالہا سال کی جفا کشی اور مسلسل مشقت درکار ہے ۔
(۳۱)ایک کامیاب مقرر بننے کے لیے مطالعہ نہایت ضروری ہے ۔
(۳۲)تقریر کا ملکہ بعض کے اندر فطری ہوتا ہے اور بعض محنت و مشق سے حاصل کر لیتا ہے ۔اس راہ میں فطرت آڑے نہیں آتی ،لہذا فطری ملکۂ تقریر نہ ہونے پر سیکھنے کی کوشش نہ کرنا دانش مندی نہیں ؛بلکہ حماقت ہے ۔
(۳۳)تقریر کا موضوع خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ،جب تک الفاظ موزوں نہ ہوں گے ،بے لطفی و بے نمکی رہے گی ۔اس لیے ایک مقرر کو ایسی تصانیف کا مطالعہ کرنا ضروری ہے،جو اپنے موضوع پر ایک عظیم شاہ کار اور ہر اعتبار سے مقبول ومستند نہ ہوں ۔
(۳۴)عمدہ عمدہ جملے اور شان دار تعبیرات کو یاد کر لینا اور انھیں موقع بموقع تقریر میں استعمال کرنا کوئی عیب نہیں ؛ بلکہ ایک خوبی ہے ۔
(۳۵)کثرت مطالعہ سے ذوق کی نعمت حاصل ہوتی ہے ۔اس لیے مقرر کے لیے شعر وسخن اور ادبیات کا اتنا مطالعہ ضروری ہے ،جس سے اتنا ذوق پید اہوجائے کہ وہ یہ فیصلہ کرنے پر قادر ہو جائے کہ یہ غالب کا شعر ہے ،یہ اقبال کی نظم ہے ،یہ مومن کا مصرع ہے ۔
(۳۶)اس خیا ل سے کہ فکر میں غلطی واقع نہ ہو ،منطق کی پیروی بھی ایک مقرر کے لیے ضروری ہے اور چوں کہ مقرر کاکام اظہا ر فکر ہے ،اس لیے اس علم کی تحصیل بھی لازمی ہے ۔
(۳۷)منطق وفلسفہ کی کم سے کم اتنی معلو مات ضروری ہے کہ مقرر یہ جان سکے کہ حد و تعریف سے کیا مراد ہے؟دلیل و حجت کسے کہتے ہیں ؟بحث قضایا میں کس کس بات کا ہونا ضروری ہے ؟
(۳۸)انگلستان کے مشہور مقرر گلیڈاسٹون کی رائے میں مقرر کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کی تعلیم عمدہ ہو ، کیوں کہ اس سے دل کو ایک طرح کی تقویت اور قدرت حاصل ہوتی ہے ۔دوسرے یہ کہ اس میں غور وفکر و دقیقہ رسی کا مادہ موجود ہو ۔غور وفکر خود بخود الفاظ کا لباس پہن کر عمدہ تعلیم کے فقرات کی مدد سے ایک تقریر کا مضمون بن جا ئے گی ۔
(۳۹)مقرر کے لیے لازمی ہے کہ اسے انشا پردازی میں کافی دسترس حاصل ہو ۔
(۴۰)جب تک مقرر قاد رالکلام نہ ہوگا ،اس وقت تک وہ فن تقریر میں کمال حاصل نہیں کرسکتا ۔
(۴۱)جب تک ایک مضمون کو نئے طور سے ادا کرنے کا طریقہ ،الفاظ کی چست بندشیں اور رنگا رنگ فقرے ، مقرر کے حافظے میں نہ ہو ں ،تو اس وقت تک وہ اس فن میں ناقص ہے ۔ 
(۴۲)مقرر کو چاہیے کہ کو ئی عمدہ اور مستند کتاب اٹھالے اور اس میں سے چند الفاظ یا فقرے منتخب کرکے الٹ پھیر کے دیکھے اور کئی اسلوبوں میں بیان کرنے کی کوشش کرے ۔اس سے طرز ادا میں جدت اور زبان میں روانی پید اہوگی ۔
(۴۳)کسی کتاب کا کوئی مضمون مطالعہ کیجیے ۔پھر کتاببند کرکے اس مضمون کو اپنے انداز میں اور اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرو ۔پہلے تھوڑی سی عبارت مشق کے لیے اختیار کرو۔ پھر رفتہ رفتہ پورے پورے مضمون اور پوری پوری کتاب کا خلاصہ بیان کرنے کوشش کرو۔اس طرح کی مشق تقریری صلاحت اجا گر کرنے میں کافی ممد و معاون ہوتی ہے ۔ 
(۴۴)کسی مستند شاعر کی نظم لے کر ذرا اونچی آواز سے شعر پڑھنے اور اس کے مطلب کو نثر میں ضروری الفاظ زیادہ کرکے بیان کرنے سے قوت بیانیہ کو ترقی ملتی ہے۔ 
(۴۵)تنہائی میں تقریر کی مشق کرتے وقت یہ فرض کرلینا چاہیے کہ ہم ایک بڑے مجمع کے سامنے بیان کر رہے ہیں۔اس سے جہاں جرأت و خود اعتمادی پید اہوگی،وہیں اسلوب واظہار میں بھی نکھارپیداہوگا۔ 
(۴۶)صرف لفاظی و لسانی اور چرب بیانی ،بکواس و فضول گوئی کے ہم معنی ہے ۔ 
(۴۷)مقرر کو اس بات سے واقف ہونا ضروری ہے کہ کون سا لفظ کس شکل میں اور کس موقعے پر موزوں ہے۔’’ہر سخنے وقت و ہر نکتہ مکانے دارد‘‘پر عمل ضروری ہے ۔ 
(۴۸)عصبی مزاج کامیابی میں بڑی حد تک سد راہ ہوتا ہے ؛لیکن حتیٰ المقدور اس پر غالب آنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
(۴۹)جب ایک جملہ شروع کرنے کے بعدا لفاظ یا ترکیب میں کوئی صرفی یا نحوی غلطی واقع ہوجائے ، تو اس کے دو علاج ہیں :یا تواس جملے کی اصلاح کی غرض سے اسے دوبارہ بولنا چاہیے یا صرف ونحو کوکچلتے ہوئے بے تکلف آگے بڑھ جانا چاہیے ؛لیکن غلطی اگر معمولی قسم کی ہوئی ہو اور تکلم میں کوئی جھول یا جھجھک واقع نہ ہوئی ،تو دوسری صورت زیادہ بہتر ہے ،ورنہ پہلی صورت اختیار کرنی چاہیے ۔ 
(۵۰)یاد رکھنا چاہیے کہ سامعین جب جوش میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں ،تو انھیں صرف و نحو پر توجہ نہیں ہوتی۔ ہاں تقریر میں کوئی رکاوٹ پیداہونے سے ان کو ضرور الجھن ہوتی ہے ۔اس لیے اغلاط سے ممکنہ حد تک بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
(۵۱)ایک مقرر کواعلیٰ درجے کا حافظہ درکار ہے ۔ایک بے تکلف تقریر کرنے کو والے کو بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی تقریرکے مطالب اول سے آخر تک پیش نظر رکھے اور تقریرکا مکمل خاکہ ذہن میں مرتب کرے۔
(۵۲)حافظے کی ترقی کے لیے خیالات کا یک جا ہونا ،توجہ کا یکسو رہنا ،دل کا شیطانی وسوسوں اور باطل افکار ونظریات سے پاک ہونا ضروری ہے ۔
(۵۳)اگر حافظے کی مضبوطی کے لیے کسی طبی دوا کی ضرورت محسوس کریں ،تو ضرور استعمال کریں ۔ایک بہتر ترکیب یہ بھی ہے کہ بہ تدریج مشق سے حافظے کو بڑھانے کی کوشش کی جائے ۔
(۵۴)کسی تقریر کو یاد کرنے کا عمدہ طریقہ یہ ہے کہ اس کے کئی حصے کر لیے جائیں اور ہر حصے کو الگ الگ مجلس میں یاد کریں ۔اس کے لیے سب سے بہتر وقت رات اور فجر کے بعد کا ہے ؛کیوں کہ اس وقت معدہ خالی رہتا ہے ،جس کی وجہ سے مضامین بہت جلد ذہن میں منقش ہوجاتے ہیں
(۵۵)سسرو کا قول ہے کہ ایک مقرر کو منطقیوں کی تیزی ،فلسفیوں کی دانائی ،شاعروں کی زبان ،مقننوں کا حافظہ اور عمدہ ایکٹر کی وضاحت اور اشارے درکار ہیں ۔
(۵۶)کسی جلسے میں شرکت کرنے سے پہلے اس کی نوعیت پر غور وفکر کر لینی چاہیے ۔ 
(۵۷)عام تقریروں کا مضمون موقع اور وقت کے لحاظ سے ہمیشہ نیا ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے نئے دلائل اور جدید طرز ادا میسر آجاتا ہے ،لیکن ایک واعظ اور اپدیشک کو ہمیشہ ایک ہی مضمون پر تقریر کرنی ہوتی ہے اور بڑی فکر یہ ہوتی ہے کہ کہیں سامعین پرانی باتوں سے اکتانہ جائیں،اس لیے ایک واعظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پرانی باتوں میں دل چسپی پیدا کرنے کے لیے نئے نئے نکات اور مؤثر و دل کش اسلوب بیان اختیار کرے۔ 
(۵۸)مقرر کی طرح واعظ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ جس عنوان پر وعظ کہہ رہا ہے، اس سے تجاوز نہ کرے اور اول سے آخر تک اس کو مؤثر اور دل کش بنانے کی کوشش کرے۔
(۵۹)تقریر ہو یا وعظ ،دونوں میں ایسی طوالت سے بچنا چاہیے ،جس سے سامعین اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور بے لطفی کا احساس ہونے لگتا ہے ۔
(۶۰)پبلک تقریروں میں زبان بالکل عام فہم ہونی چاہیے اور اس مشہور مقولے کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ’’داناؤں کی طرح غور کرو اور عوام کی طرح بولو‘‘۔
(۶۱)بے شمار استعارات و کنایات اور حد سے زیادہ رنگین بیانی سے لوگ ضرور مائل و مخاطب ہوتے ہیں،لیکن ایسی تقریر اثر انگیز اورعمل کا جذبہ پیدا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔
(۶۲)پبلک تقریروں میں خواہ دلائل زیادہ ہوں، لیکن اس کے جذبات سے اپیل نہایت ضروری ہے ۔تا کہ سب لوگ مقرر کی جانب متوجہ ہوجائیں۔
(۶۳)عوام میں تقریر کرنے کے لیے ظرافت اور خوش طبعی نہایت ضروری ہے ۔اس کے بغیر رنگ نہیں جمتااور مجمع مقرر کے قبضے میں نہیں آتا ۔
(۶۴)تقریر نہ تو اتنی تیز کرنی چاہیے کہ کہیں کہیں الفاظ حذف ہونے لگیں ؛کیوں کہ اس سے تقریر کی شگفتگی جاتی رہتی ہے اور نہ اتنا ٹھہر ٹھہر کر بولنا چاہیے کہ بھولنے کا شبہ گذرنے لگے ؛کیوں کہ اس سے ا کتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے ۔
(۶۵)تقریر ایسی ہر گز نہ ہو کہ دلائل ہوں ،تو بے تکے اور بے وزن۔نفس مضمون سے الفاظ کا کچھ سروکار نہیں۔ دعویٰ کچھ ،ثبوت کچھ؛غرض تمام چیزیں انمل ،بے جوڑ۔
(۶۶)تقریر کی ترتیب بیانی بالکل صاف اور واضح ہونی چاہیے ،غرض تقریر کو ایک سڑک کی مانند ہونی چاہیے ، جس پر فرلانگ اور میلوں کے پتھر نصب ہوتے ہیں ،جس سے ہر وقت معلوم ہوسکتا ہے کہ منزل کتنی دور ہے۔
(۶۷)تقریر میں حتیٰ المقدور کتابی زبان سے احتراز کرنا چاہیے ۔
(۶۸)مقرر کو اپنے سامعین کی قابلیت کے مطابق کلام کرنا چاہیے اگر وہ معمولی عقل و فہم کے لوگ ہوں ،تو نہایت توضیح و تشریح کے ساتھ بیان کرنا چاہیے ۔اور اگر وہ تعلیم یافتہ ہوں ،تو عالمانہ اسلوب اختیار کرنا چاہیے اور غیرضروری تشریح سے بچنا چاہیے ۔
(۶۹)تقریر کو نہایت پرجوش ہونا چاہیے اور یہ تین باتوں پر منحصر ہے :بلند الفاظ،مترادف الفاظ اور ترتیب الفاظ ۔ لہذا ان کو تقریر کرتے وقت مد نظر رکھنا چاہیے ۔
(۷۰)جو الفاظ رکیک،بازاری اور گندے سمجھے جاتے ہیں ،اور اہل ذوق ان کے استعمال کو ناپسند کرتے ہیں، ان سے پرہیز لازم ہے۔
(۷۱)تقریر کی آراستگی سے مردانہ ہمت اور پاکیزگی مترشح ہونی چاہیے ۔زنانہ بناوچناو حسن طبعی کے سامنے ہیچ ہے۔ 
(۷۲)کوئی خاص جملہ یا مخصوص لفظ مقرر کا تکیۂ کلام نہ ہو۔ 
(۷۳)ظرافت تقریر میں چٹنی کی حیثیت رکھتی ہے ۔خشک مضامین سے جو خشکی اور تکان پیدا ہوتی ہے ، اسے دور کرنے کے لیے یہ نہایت مفید ہے ۔
(۷۴)ظرافت میں اعتدال ضروری ہے ،ورنہ وہ پھکڑ یا مذاق بن جاتی ہے ۔
(۷۵)عمدہ اور سلیس تقریر حسب ذیل پانچ اجزا پر مشتمل ہوتی ہے :تمہید،دعویٰ،اثبات مدعیٰ،مراجعت،نتیجہ و خلاصہ ۔لیکن موقع اور وقت کے ماتحت بعض اجزا تبدیل اور حذف کیے بھی کی لاسکتے ہیں ۔
(۷۶)تمہید ایک عنوان کی طرح ہونا چاہیے ۔جس طرح عنوان سے مضمون کی مکمل کیفیت معلوم ہوجاتی ہے،اسی طرح تمہید ہی سے تقریر کی مکمل نوعیت واضح ہوجانی چاہیے۔ 
(۷۷)تمہید کو حسب موقع بہترین مقولوں ،شان دار مثالوں اور اچھے اشعار سے شروع کرنا چاہیے ۔کیوں کہ ان سے سامعین کی توجہ حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے ؛لیکن مضحکہ خیز اور تمسخر انگیز امور سے بچنا ضروری ہے۔ 
(۷۸)تقریرکے باقی دیگر حصے میں صحت لفظی کی اس قدر ضرورت نہیں ہوتی ہے،جتنی کہ تمہید میں ہوتی ہے۔ کیوں کہ شروع شروع میں سامعین نکتہ چینی کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔جب شروع ہی میں انھیں اپنا ہم نوا بنا لیں گے ،تو پھر وہ نکتہ چینی کے بجائے آپ کی تائید کریں گے ۔
(۷۹)تمہید تقریر کے تناسب سے بڑی چھوٹی ہونی چاہیے ۔ایسا نہ ہوکہ تقریر کا سارا وقت تمہیدہی میں گذر جائے اور بقیہ اجزا کے لیے دوسری نشست کا انتظار کرنا پڑے ۔اسی طرح تمہید میں دوسرے اجزا کی تفصیل نہیں ہونی چاہیے ؛ ورنہ وہ اپنے موقعے پر بالکل سبک اور بے اثر نظر آئیں گے اور مضامین مکرر ہونے کی وجہ سے اکتاہٹ کا باعث بنے گی ۔ 
(۸۰)تمہید کے بعد دعویٰ پیش کرنا چاہیے ۔دعویٰ بالکل صاف،مکمل،بے ساختہ اور نہایت واضح ہونا چاہیے کہ سامعین کو نفس مضمون کے متعلق کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
(۸۱)تمثیلات اور نظائر سے کسی مضمون یا مطلب کی تشریح میں بڑی مدد ملتی ہے ۔
(۸۲)دلائل وبراہین کے لیے اول تو یہ ضروری ہے کہ وہ منتخب اور قوی ہوں ۔دوسرے یہ کہ ان کی ترتیب عمدہ ہو ۔ اور تیسرے یہ کہ وہ پر زور الفاظ میں بیان کیے گئے ہوں ۔
(۸۳)اثبات مدعیٰ کے درجنوں طریقے ہیں ۔ان میں سے ایک استقرا و استخراج بھی ہے۔اس کی تشریح یہ ہے کہ بتدریج ایک واقعے سے دوسرے واقعے کو ثابت کرتے جائیے اور اپنے دعویٰ تک پہنچ جائیے یا اس کے برخلاف دعویٰ سے ابتدا کیجیے اور اس کے اثبات یا تردید میں دلائل پیش کیجیے ۔ دلائل بالکل صاف اور الگ الگ ہوں ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ بے شمار ہوں ؛البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ وزنی اور قطعی ہوں ۔ 
(۸۴)مراجعت سے تقریر کا وہ حصہ مرادہے ،جس میں مقرر اپنے دعوے کودلائل قاطع اور براہین ساطع سے پایۂ ثبوت تک پہنچا کر سامعین کو نہایت پر جوش الفاظ میں اپنا موئید اور ہم خیال بنا نے کی کوشش کرتا ہے ۔
(۸۵)جس موقعے پر کسی امر کا یقین دلانا ہو ،وہاں زور اور فصاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔ لیکن جب ترغیب دینا مقصود ہو،تو اس کے بغیر کام نہیں چلتا ۔
(۸۶)بعض اوقات مقرر کسی واقعے سے خود متأثر ہوتا ہے اور حاضرین کو متأثر کرنے کے لیے اپنی آواز میں رونے کی سی کیفیت پیدا کرلیتا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ اس سے مجمع میں خاص اثر پڑتا ہے ۔لیکن افراط و تفریط کو ملحوظ نہ رکھنا سخت غلطی ہے ۔
(۸۷)تقریر کا آخری حصہ یعنی نتیجہ و خلاصہ کی اہمیت مسلم ہے ،کیوں کہ تقریر کا اختتام اگر اطمینا ن بخش نہ ہو،تو ساری کوشش بے کار ہوسکتی ہے ۔
(۸۸)اگر ساری تقریر میں دلائل کی بھر مار رہی ہو ،تو اختتام پر ان کا خلاصہ بیان کرکے اور دعوے کو ثابت قرار دے کر خاموش ہوجانا چاہیے ۔
(۸۹)خاتمے کی کوئی بھی صورت اختیار کی جاسکتی ہے ،لیکن ایسے انداز میں نہ ہو کہ حاضرین اسے غیر متوقع اور قبل از وقت سمجھ لیں ۔
(۹۰)زبانی یاد کرکے تقریر کرنا گرچہ وقت پر کام نکال دیتا ہے ،لیکن در حقیقت اس سے کوئی شخص مقرر نہیں بن سکتا؛کیوں کہ کبھی اگر برجستہ بولنے کی ضرورت پیش آجائے ،تو ایسا شخص کچھ نہیں بول سکتا یا تقریر کے دوران بھول جائے ،تو اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا ۔البتہ ابتدائی طور پر مشق کے لیے یاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تاہم رفتہ رفتہ بے ساختہ تقریر کرنے کی مشق کرنا ضروری ہے ۔
(۹۱)یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ مقرر سامعین کو حقارت آمیز الفاظ سے خطاب کرے۔اس لیے کسی بھی مجمع کو خواہ اس میں صرف جہلا ہی کیوں نہ ہوں ،عزت و وقار کی نگا ہ سے دیکھنا چاہیے اور معزز الفاظ سے خطاب کرنا چاہیے۔
(۹۲)جب ایک مقرر تقریر شروع کرتا ہے ،تو اس کے دل میں تمام سامعین کی شرکت خیال پیدا ہوتا ہے ، جس سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ مجمع کا مقابلہ کر رہا ہے ،اس لیے ایسے موقعے پر بڑی ہمت اور دلیری سے کام لینا پڑتا ہے ۔
(۹۳)جس طرح ایک ایک بڑے مجمع میں نوآموز گھبراتا اور مرعوب ہوتا ہے ،اسی طرح ایک مشاق مقرر کو اعلیٰ درجے کا جوش پیدا ہوتا ہے اور یہی ایک ایسا موقع ہوتا ہے،جہاں وہ بہتر سے بہتر تقریر کر سکتا ہے۔
(۹۴)مجمع میں جب مقرر کو اپنے حسن بیان اور عمدہ خیالات کی داد ملنی شروع ہوجاتی ہے ،تو اس کی طبیعت میں روانی اور تقریر میں جوش پیدا ہوجاتا ہے ۔
(۹۵)مقرر کی آوز نہایت صاف و شفاف،شیریں و بے عیب،لوچ دار ،خوش لہجہ اور پر درد ہونی چاہیے ۔
(۹۶)تقریر کے لیے سب سے عمدہ وقت کھانا کھانے کے تین یا چار گھنٹے بعد کا ہوتا ہے ۔ 
(۹۷)خالی پیٹ،بھوک وپیاس کی شدت یا ممتلی معدے کی حالت میں تقریر کرنا نامناسب ؛بلکہ ممنوع ہے۔سب سے بہتر حالت یہ ہے کہ بھوک و پیاس اور آرام و تکان ؛ہر اعتبار سے معتدل ہو۔
(۹۸)علیٰ الصباح تقریر کرنا بھی غیر موزوں ہے ،اس لیے کہ اس وقت حلق رطوبت سے صاف نہیں ہوتا اور معدہ بالکل خالی ہونے کی وجہ سے طبیعت پر زبردست زور پڑتا ہے ۔
(۹۹)ہکلانا ،تتلانا ،دانت پیسنا ،ناگوار و کریہہ صورت بنانا ،ناک منھ چڑھانا ،بے موقع ہنسنا ،بے تحاشا قہقہے لگانا ، جلدی جلدی سانس لینا ،اور اتنے لمبے چوڑے جملے استعمال کرنا کہ ان کے پورا کرنے سے پہلے سانس لینے کے لیے کئی بار ٹھہرنا پڑجائے ،تلفظ ،لب ولہجہ ،جوش و گرج،سوز و گداز،اشاروں ،جنبشوں،حرکتوں اور طرز بیان کا خاص خیال نہ رکھنامقرر کے لیے سخت معیوب ہے۔
(۱۰۰)اگر سانس جلدی جلدی لینے کی عادت ہو ،تو منھ میں شفاف پتھر کے چند گول ٹکڑے رکھ کر دم لیے بغیر کچھ اشعار وغیرہ گنگنانے کی کوشش کیجیے ۔اسی طرح اونچے نیچے ڈھلوان اور ناقابل گذر راستوں پر چلنے کی مشق کیجیے ۔لوگوں کی چیخ و پکا ر اور شور غل سے پیدا ہونے والے خوف و گھبراہٹ کو دور کرنے کے لیے کسی پر شور سمندر ، ترنم آسا آبشاریا نغمہ ریز دریا کے کنارے بے قابو موجوں کو سامعین تصور کرکے تقریر کی مشق کیجیے ۔
(۱۰۱)آواز کو پر زور بنانے کی ایک اور ترکیب یہ ہے کہ ہوا کے رخ منھ کرکے زورزور سے چلائیںیا کسی دل کش قدرتی مناظر کے ارد گرد کھڑے ہوکر کچھ گائیں ۔
(۱۰۲)تقریر کرتے وقت بالکل سیدھا کھڑا رہنا چاہیے اس طرح کہ سینہ تنا ہوا رہے،لیکن اتنا تنا ہوا نہ ہو کہ لب کشائی میں دقت ہو ۔اور اگر بیٹھ کر تقریر کر رہے ہیں ،تو کرسی سے ٹیک لگا کر یا بغیر ٹیک لگا کر جو صورت آپ کے لیے آرام دہ ہو،اسی صورت و ہیئت میں بیٹھ کر تقریر کریں۔
(۱۰۳)زکام سے بچنا چاہیے اور حفظ ما تقدم کے طور پر مناسب تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔ 
(۱۰۴)گلا خراب کرنے والے مشروبات ،تمباکو ،کھینی،گٹکے ترش اور زیادہ گرم چیزوں کے استعمال سے آواز بگڑجاتی ہے ۔بکثرت پان کھانا بھی نقصان سے خالی نہیں ہے ،اس سے زبان موٹی ہوجاتی ہے اور تلفظ میں نقص آجاتا ہے ۔
(۱۰۵)دانتوں کی حفاظت ضروری ہے ؛کیوں کہ اس کے بغیر آواز درست نہیں نکل سکتی ۔ 
(۱۰۶)کسی قدر گانے اور ترنم کا شوق پیدا کرنے سے بھی آواز ترقی پاتی ہے ۔ 
(۱۰۷)تقریر کرتے وقت گردن اور سینے پر زیادہ چست کپڑے نہیں ہونا چاہیے ۔ 
(۱۰۸)آواز کی درستگی کے لیے طبی دواؤں کا استعمال اور اس سلسلے میں حکیم سے مشورہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ 
(۱۰۹)لکنت اور لہجے کا پھسلنا بھی آواز کے لیے ایک زبردست عیب ہے ؛لیکن دوؤں سے اس کا علاج ممکن ہے۔مثلابادام اور مصری کا متواتر استعمال کافی مفید ہے۔
(۱۱۰)زیادہ بولنے، حدسے زیادہ چیخنے چلانے ،خلاف عادت کافی دیر تک تقریر کرتے رہنے اور بری طرح آواز نکالنے سے بھی آواز متأثر ہوتی ہے ،اس سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
(۱۱۱)سانس پر ہمیشہ قابو رکھنا چاہیے اور حتیٰ الوسع تقریر میں اتنی ہی دفع سانس لینے کی کوشش کرنی چاہیے ، جتنی کہ ضرورت ہو ،ضرورت سے زیادہ سانس لینا تقریر میں بے لطفی پیدا کر دیتا ہے ۔
(۱۱۲)سانس کو نتھنوں سے کھینچنی چاہیے اور تقریر میں جس جملے پر وقفہ لازم ہو ،وہیں پر دم لینا چاہیے ۔سانس کی اصلاح کے لیے یوگا کا حبس دم کا عمل یا یہ کہ سانس کو آہستہ آہستہ لینا اور آہستہ آہستہ نکالنا بہت مفید ہے ۔
(۱۱۳)علما کی صحبت ،ان کی تقریروں کی سماعت و مشاہدہ اور زبان دانوں سے گفتگو سے عموما تلفظ صحیح اور لب و لہجہ درست ہوجاتا ہے ۔
(۱۱۴)الفاظ میں زیروزبر ،تشدیدومد،اور حرکات و سکنات کے اغلاط کا ارتکاب ،مقرر کی حیثیت کو مجروح کر دیتا ہے ۔
(۱۱۵)آواز کی بلندی اور پستی کے متعلق یہ خیال رکھنا کافی ہے کہ سامعین کے مقام اور حسب موقع بلند یا پست کیا جائے ۔
(۱۱۶)سامعین پر مقرر کی حرکات و سکنات کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے ۔
(۱۱۷)ہاتھوں اور سر کی جنبش میں بھدا پن اور بد تہذیبی نہیں ہونی چاہیے ،مثلا مونڈھے چڑھانا ، ہتھیلیاں پیٹنا ، تالیاں بجانا ،آنکھیں مٹکانا،چاروں طرف ناچناوغیرہ۔
(۱۱۸)تقریر کے وقت دل کی کیفیت چہرے سے عیاں ہونی چاہیے ،مثلا اگر تقریر کا موضوع غم ہے ،تو چہرے سے بھی غم ظاہر ہونا چاہیے ۔اگر غصے کا اظہار ہے ،تو چہرہ بھی تمتما رہا ہو۔لیکن منھ بنانا،چہرہ بسورنا ، آنکھیں گھمانا،گال پھلانا سخت معیوب ہے ۔ 
(۱۱۹)بعض مقرر تقریر کے دوران آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور بعض جلد جلد جھپکاتے ہیں ؛یہ دونوں باتیں عیب میں داخل ہیں۔
(۱۲۰) مقرر کا لباس سادگی کا نمونہ ہونا چاہیے ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ داغ دار ،میلے کچیلے ،پھٹے پرانے کپڑے زیب تن کرلے؛بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیا نہ ہو تو نہ صحیح ،لیکن دھلے دھلائے ،صاف ستھرے اور اجلے ہو ۔ اور ایسا بھی پر تکلف اور بھڑک دار نہ ہو کہ سب لوگ تقریر سننا چھوڑ کر مقرر کا لباس ہی دیکھنے میں رہ جائے ۔
(۱۲۱)تقریر کی سادگی اور جملوں کا اختصار نہایت مؤثر ثابت ہوتا ہے ؛لیکن نہ اتنی سادگی کہ مضمون بالکل عامیانہ ہوجائے اور نہ اتنا اختصار کہ مطلب فوت ہوجائے ۔
(۱۲۲)اگر تقریر کے دوران اپنے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت پیش آجائے ،تو اپنا تذکرہ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ کرنا چاہیے ۔اگر خود ستائی بھی عاجزانہ انداز میں کی جاتی ہے ،تو سامعین میں کچھ برا اثر پیدا نہیں ہوتا۔
(۱۲۳)تقریر میں اتنی مہارت پیدا کر لینی چاہیے کہ سامعین کو رلانا ہنسانا ،آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو ۔
(۱۲۴)اگر تقریر مناظرہ کا پہلو رکھتی ہو ،تو مخالفین کا نام نہایت ادب کے ساتھ لینا چاہیے اور کبھی اشتعال اور غصے سے مغلوب نہیں ہونا چاہیے ۔
(۱۲۵)مناظرہ میں کبھی ذاتیات پر حملہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ایسے الفاظ استعمال کرنا چاہیے، جن کی شریفانہ اخلاق اجازت نہیں دیتی ۔اور جو دوسروں کی دل آزاری کا باعث ہوں ۔
(۱۲۶)اگر جانب مخالف آپ کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرے،تو تحمل سے کام لینا چاہیے اور شائستگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے ۔
(۱۲۷)غصے سے عقل مغلوب ہوجاتی ہے اور ذہن اپنا کام کرنا بند کردیتا ہے ۔کبھی کبھار جانب مخالف اسی لیے غصہ دلانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ آپ کو غصہ دلا کر اپنی بازی مار لے جائے ،اس لیے جانب مخالف کی کسی باتوں پر غصے میں نہیں آنا چاہیے اور اس کی اس سازش کو سمجھنا چاہیے ۔
(۱۲۸)اگر کوئی بات بحث و تنقیح کے بعد ثابت ہوجائے ،تو کج بحثی اور کٹ حجتی سے پرہیز کرنا چاہیے اور اسے تسلیم کرتے ہوئے کوئی مناسب تاویل سے چھٹکارہ پانے کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔
(۱۲۹)دوران تقریر اس بات غورپر کرتے رہنا چاہیے کہ آپ کی تقریر سامعین پر کیا اثر مرتب کررہی ہے ۔ آپ کے کس انداز اور کن باتوں سے زیادہ متأثر ہورہے ہیں ۔اور آئندہ بھی وہی طریقہ اختیار کیجیے ،جو تجربے سے معقول ہو۔
(۱۳۰)ہمیشہ اپنی غلطیوں اور نا مناسب باتوں پر غور کرتے رہنا چاہیے۔
(۱۳۱)جب آپ کا مخاطب ایسا مجمع ہو،جس میں مرد وعورت دونوں ہوں ،تو اپنی تقریر میں دونوں کو مخاطب بنائیے ۔عورتوں کو فراموش نہ کیجیے ۔
(۱۳۲)سیاحت اور اسفارسے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے ،اس لیے مقرر کے لیے سیاحی اور اسفار کرنا مفید ہے ۔ اسی طرح ہر طرح کے علوم وفنون میں ماہر شخصیات سے تبادلۂ خیال کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہے ۔
(۱۳۳)صداقت اختیار کرنی چاہیے اور سامعین کا ہمدرد ہونا چاہیے ،کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ایک فصیح مقرر کے لیے بیش قیمت جوہر ہیں ۔
(۱۳۴)حتیٰ المقدور اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ آپ کو اپنے سے بالا اور بہتر مقرر کے بعد تقریر کرنی پڑے ؛کیوں کہ ایسی صورت میں مجمع پر کنٹرول کرنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔اور اگر کبھی کرنی ہی پڑجائے ،تو اپنی پوری طاقت تقریر پر صرف کردینی چاہیے اور نہایت سلیقے کے ساتھ سامعین کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ایسے موقعے پر حتیٰ الامکان مختصر سے مختصر تقریر کرنی چاہیے ۔
(۱۳۵)کبھی چبا نہ کر نہ بولیے ۔الفاظ نوالہ نہیں ۔اس طرح بولیے کہ حلق سے نکلی اور حلق میں پہنچی ۔آوز ذریعۂ ابلاغ ہے ۔گلا صاف ہوگا ،تو آواز ستھری ہوگی۔
(۱۳۶)صبح و شام کی سیر میں کھلی ہوا ،آپ کی آواز کو پروان چڑھا سکتی ہے ۔آواز کے ساتھ ایک بنیادی چیز اظہار ہے کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں،وہ کس طرح کہتے ہیں ؟اظہار ایک ایسا وصف ہے ،جو ردو قبول کی فضا پیداکرتا ہے۔آپ کے اظہار میں دل آویزی نہیں ،تو آپ کی عمدہ سے عمدہ بات بھی غیر مؤثر ہوگی ۔آپ نے کئی دفعہ محسوس کیا ہوگا کہ ایک ہی بات مختلف زبانوں سے اظہار کی بدولت ،مختلف تاثیر پیدا کرتی اور اظہار کی مختلف لہروں سے گرم ،سرد ، مرطوب اور معتدل ہوجاتی ہے ۔جب تک آپ اظہار میں دست گاہ حاصل نہ کرلیں ،اس وقت تک آپ کا تأثر گہرا نہیں ہوسکتا اور نہ خطابت کا روپ ہی نکھر سکتا ہے۔اظہار کی آب و تاب آپ جید مقرروں ، نام ور شاعروں ،آپ کے مطالعے کی وسعت اور مشق و تمرین سے معلوم کر سکتے ہیں ۔
(۱۳۷)اشارات خیالات کے ترجمان ہیں ۔ہم زبان سے الفاظ بولتے اور ہاتھوں کی حرکت سے ان کا وزن قائم کرتے ہیں ۔ہمارے چہرے کی سلوٹیں ،باہوں کے زاویے اور آنکھوں کے ڈورے ہماری خطابت کا اعلامیہ ہیں ۔ عوام ان سے الفاظ ہی کی طرح مستفید ہوتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ اشارات حقیقی ہوں ، مصنوعی نہ ہوں ؛ورنہ تقریر کا تأثر تاراج ہوجاتا ہے ۔
(۱۳۸)آپ جس موضوع ،عنوان یا مضمون پر تقریر کرنا چاہتے ہیں ،اس کی تیاری ضرور کیجیے ۔کسی کاغذ کے پرزے پر اشاراتی نوٹ لینا کوئی عیب نہیں ۔ذہنی تیاری ضرور کیجیے ۔تیاری وزن بڑھاتی ہے ۔جو کچھ آپ کے ذہن میں ہوتا ہے ،اس میں اضافے کا موجب ہوتی اور زبان و بیان میں تسلسل و آرائش کا باعث بن جاتی ہے ۔ 
(۱۳۹)جس موضوع یا مضمون پر تیاری کریں ،اس کے عمومی دلائل کو اپنے لہجے میں بیان کریں ؛لیکن اصل خوبی یہ ہے کہ اپنے موضوع و مضمون کے لیے کوئی نئی بات ضرور پیدا کریں ۔
(۱۴۰)ایسے موضوع پر کبھی بھی نہ بولیں ،جس سے آپ کو دل چسپی نہ وہ، یا جس کے بارے میں آپ کو معلومات نہیں ہیں ۔محض طلاقت لسانی سے آپ کسی موضوع پر قادر نہیں ہوسکتے ۔
(۱۴۱)سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ تقریر کیسے شروع کریں ؟۔یاد رکھیے کہ ہر تقریر کا ابتدائیہ ہی سمع وبصر کو ملتفت کرتا ہے ۔ابتدائیہ کے بول اسی طرح اٹھائیے کہ اس کے الفاظ عوام کے سینے میں اس طرح کھب جائیں ، جس طرح شاعروں کے دل میں سرمئی نگاہیں اتر جاتی ہیں ۔آپ اسٹیج پر کھڑے ہوتی ہی اس طرح معلوم ہوں کہ آپ کوخود پر اعتماد ہے ۔آپ خوش چہرہ ہیں اور عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم کلام ہونا چاہتے ہیں ۔ 
(۱۴۲)ابتدا ہی سے گرج گونج پیدا نہ کیجیے ۔نہ آواز میں جوش و خروش لائیے ۔ملائمت و سلاست سے چلیے ۔ جب لوگ ہمہ تن گوش ہوجائیں گے ،تو اظہار واسلوب کے زاویے اپنی حرارت خود قائم کر لیں گے ۔آپ کے ذہن میں یہ احساس ہونا چاہیے کہ آپ کا مقصد ان کے دماغوں پرفتح مندی حاصل کرنا ہے ۔ اور انھیں اس طرح اپنے ہاتھ میں لینا ہے کہ وہ آپ ہی کے ہوجائیں ۔
(۱۴۳)آپ مجمع کو اس وقت تک کسی ترغیب پر آمادہ نہ کریں ،یا عمل کی دعوت نہ دیں ،جب تک اس کو وحدت میں ڈھال کر اپنی مٹھی میں نہ کرلیں ۔عوام کبھی ایک نہیں ہوتے ،انھیں ایک کرنا ہی مقرر کا سب سے بڑا سحر ہے۔
(۱۴۴)ہمیشہ دوستانہ طریقے سے خطاب کیجیے ۔کبھی اجنبی انداز میں نہ بولیے ،اس غرض سے ایسا کوئی پہلو ضرور تلاش کریں ،جو آپ کے اور عوام کے مابین مشترک ہو ۔
(۱۴۵)اگر کوئی مقرر آپ سے پہلے اپنے خیا لات کی چھاپ لگا چکا ہے اور مجمع نے اس کی تحسین کی ہے ،تو اپنی تقریر کا آغاز اسی سے ملاکر اس طرح کیجیے ،گویا آپ اس کہانی کو آگے بڑھارہے ہیں ۔اس کے خلاف بولنے کی قطعا حماقت نہ کریں۔
(۱۴۶)خواہ مخواہ خطابت میں تموج پیدا نہ کیجیے ۔مصنوعی مدو جزر اور اختیاری گونج گرج کی مثال اس طرح ہے گویا آپ خواہ مخواہ ڈھولک پہ تھاپ لگا رہے ہیں اور بلاذوق بانسری بجا رہے ہیں ۔
(۱۴۷)خطیب کی واحد خوبی یہ ہے کہ اپنے سامعین میں اکتاہٹ پیدا نہ ہونے دے ۔اور جب اکتاہٹ پیدا ہونے لگے ،تو اپنے بیان میں اس طرح شگفتگی پیدا کرے کہ ان کے چہرے کھل جائیں ،اور ان کی توجہ ابھر آئے۔ یہی خطابت کی رعنائی ہے ۔
(۱۴۸)بعض مقرر شعروں کی بھر مار کرتے ہیں ۔ایک ایسا معاشرہ یا مجمع ،جو علمی طور پر ادھورا ہو ، اس میں شاعری کی برکھا واقعی لطف دے جاتی ہے ؛لیکن شاعری کی بہتا ت ہر موضوع اور مضمون کے لیے موزوں نہیں ۔یہ صحیح ہے کہ شعر سے خطابت میں کشش پیدا ہوتی ہے اور سامعین برجستہ اشعار پر جھومتے ہیں؛لیکن خطابت میں وہی شعر جوبن پیدا کرتا اور دلوں کو غنچوں کی طرح کھلاتا ہے ،جو تقریر سے اسی طرح منسلک ہو ،جس طرح ردیف کے ساتھ قافیہ۔ اور یہ محسوس ہو ،گویا کسی آہوِ چشم کا سحرِ نگاہ کاجل سے دہک اٹھاہے ۔اسی طرح ان کا استعمال بداہتا ہو، گویا حافظہ جاگ اٹھاہے اور فقروں کی تراش خراش کے ساتھ شعروں کا دریچہ کھل گیا ہے ۔ خطابت میں شعر آورد سے نہیں ،آمد سے تیر ونشتر ہوتے ہیں ۔
(۱۴۹)اپنے تخیل کی اڑانوں میں اضافہ کرتے رہیے ۔ان کی نشو نما اس طرح کیجیے کہ آپ خود محسوس کریں کہ آپ کوئی نئی چیز حاصل کر رہے ہیں اور آپ کے سامعین کو بھی احساس ہو کہ وہ خیالات کے نئے لالہ زاروں میں گل کشت کر رہے ہیں ۔ 
(۱۵۰)زبان سیکھتے رہیے ۔زبان سب سے بڑی دولت ہے ۔جس طرح اندھا بتا نہیں سکتا کہ اس کے گرد و پیش کیا ہے ،اسی طرح زبان سے محروم انسان اپنے خیالات پر روشنی نہیں ڈال سکتا ۔ایک بے زبان شخص علم کا مزار ہے ۔ زبان ہمیشہ سیکھیے ،ہر لحظہ سیکھیے اور آخر تک سیکھیے۔
(۱۵۱)کسی مقرر کے طرز(اسٹائل) کی نقل نہ کیجیے اور یہ کوشش کیجیے کہ وہ نقل آپ کی اصل ہوجائے ۔ اصل اصل ہے ،کاربن کاپی بننے سے کچھ فائدہ نہیں ۔دوسروں کے محاسن سے فائدہ ضرور اٹھائیے ۔ان کے اظہارو اسلوب اور بیان و زبان سے اپنی انفرادیت پیدا کیجیے ۔ایک نام ور مقرر کی تکنیک کا مطالعہ خود ایک تکنیک پیدا کرتا ہے ،لیکن اس کا چربہ اتارنا فنی علو کے لیے مفید نہیں ۔ناقل بہر حال ناقل ہی ہوتا ہے اور ان کا شعلہ بعجلت کجلاجاتا ہے ۔
(۱۵۲)کوئی ایک طرز خطابت کے لیے پائیدار نہیں ،کیوں کہ خطابت خیالوں کا میوزیم ہے ،جو آواز کی نیو پر قائم ہے ۔انسان مجموعہ ہے حواس خمسہ اور عناصر اربعہ کا ،اس کا سر ہے ،آنکھیں ہیں ،ناک ہے ،رخسار ہے ،منھ ہے، دانت ہے ،جگر ہے ،دل ہے وغیرہ ۔کسی ایک عضو کو خواہ وہ کتنا ہی اہم ہو ،ہم انسان نہیں کہہ سکتے ،اسی طر ح ہم کسی ایک طرز کو خطابت نہیں گردان سکتے ۔کئی طرزوں کی رنگا رنگی سے خطابت کی تصویر ابھرتی ہے ۔
(۱۵۳)ہمیشہ دوست کی حیثیت سے خطاب کیجیے اور عوام کو یہ تأثر کبھی نہ دیجیے کہ آپ ان سے کوئی ا لگ انسان ہیں یا ان کے ہدایت کار ہیں ۔آپ ان کے لیے معلم نہیں ؛بلکہ ان کے ہم سفر ہیں ۔وہ خود محسوس کریں کہ آپ ان کے میر کارواں اور سالار قافلہ ہیں ۔
(۱۵۴)انشا و شعر میں تکرار عیب ہے ؛لیکن تقریر و خطابت میں تکرار عیب نہیں؛بشر طیکہ آپ کسی نظریے یا مقصد کو عوام کے ذہنوں میں وحدت مقصد کی غرض سے اتارنا چاہتے ہیں اور آپ اس غرض سے الفاظ کو مختلف پیراہن پہنا سکتے ہیں ۔لیکن خواہ مخواہ تقریر کو طول دینے کے لیے مضامین کا تکرار سخت معیوب ہے ۔
(۱۵۵)جب مجمع بہت بڑا ہو ،تو آپ استدلال سے کہیں بڑھ کر جذبے سے کام لیں اور اپنے ذہن میں یہ بات نقش رکھیں کہ عوام جذبات کی مخلوق ہیں ؛کیوں کہ وہ استدلال کے نہیں، جذبے کے شیدائی ہوتے ہیں ۔
(۱۵۶)جس طرح صبح کی ہوا صحت کے لیے ضروری ہے ،اسی طرح صبح کا اخبار خطابت کے لیے لازم ہے ۔ آج کا انسان اخباری مطالعہ کے بغیر گھپ اندھیروں میں کھو جاتا ہے ۔ہر انسان علاقائی حدود کی شہریت کے باوجود ذہنی اعتبار سے عالمی ہوچکا ہے ۔
(۱۵۷)کبھی اس قسم کے صنائع و بدائع یا استعارے اور تشبیہیں استعمال نہ کیجیے ،جو عوام کی ذہنی استعداد کے لیے پہیلی ہوں ۔ان استعاروں اور تشبیہوں سے کام لیں ،جو عوام کے دماغ ،حلق سے نکلتے ہی اعادہ کرلیں اور وہ لطف محسوس کریں کہ آپ انھیں ساتھ لے کر چل رہے ہیں ۔
(۱۵۸)بسا اوقات اپنے سے برتر خطیب اور بلند تر شخصیت کا غیر شعوری دبدبہ آپ کو شعوری طور پر اس طرح مرعوب کرتا ہے کہ آپ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں ۔یہ ایک طبعی امر ہے ۔ہر مقرر کو اس حالت سے گذرنا پڑتا ہے ؛لیکن اس پر قابو پانا مشکل بھی ہے اور آسان بھی ۔اگر آپ کے پاس اپنے موضوع کا سرمایہ ہے اور آپ خطابت کے اور چھور سے واقف ہیں ،تو آپ خود اعتمادی سے اس حالت پر قابو پاسکتے ہیں اور اس کے خوف کو گرد کی طرح جھاڑ سکتے ہیں ۔جب تقریب و اجتماع اس انداز کا ہو ،تو اپنے موضوع کی ہمہ جہت تیاری کے بعد ہی خطاب کریں۔آپ کے حسن ابتدائیہ پر عوام کی تحسین آپ کے ذہن کو جگمگا دے گی اور آپ کا ذہنی راستہ کھلتا چلا جائے گا ۔
(۱۵۹)اپنی تقریر میں سامعین و حاضرین کو شریک کرنے کی غرض سے کسی بات پر تائیدو تو ثیق یا اقرارو عمل کا وعدہ کرنا کرانا کوئی عیب نہیں ؛البتہ زیادہ اصرار و الحاح نا مناسب ہے ۔
(۱۶۰)ایک با کمال خطیب بننے کے لیے ان نکات کا بار بار مطالعہ کرنا ،ان اشارات کا سمجھنا اور ان ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے ۔
بفضل ایزدی تعالیٰ اختتام شد

مبتدی خطیبوں سے چند گذارشات


(قسط نمبر (10) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

کسی بھی میدان کے نوواردوں کے سامنے سب سے بڑی پریشانی یہ در پیش ہوتی ہے کہ اپنے سفر کو کیسے شروع کریں ؟چنانچہ وہ اس مسئلے کو لے کراتنا حیران و سراسیمہ ہوجاتے ہیں کہ ہر کس ونا کس کی رائے و مشورے پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں ۔اس مرحلے پر اگر ان کی صحیح رہ نمائی نہیں ہو پاتی ہے ۔اور صلاح کار ان کی نفسیات کے مطابق اچھی صلاح نہیں دے پاتا ہے ،تو انھیں آگے چل کر ناکامی و نا مرادی کا منھ تک دیکھنا پڑ جاتاہے اور وہ یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ اس فن کا حصول میری ہمت و حوصلے سے باہر ہے ۔ اس لیے یہ مرحلہ جہاں نوواردوں کے لیے صبر آزما اور مشقت آمیز ہوتا ہے ،وہیں رہ نما ؤں کے لیے بھی محنت طلب اور آزمائش کن ہوتا ہے ؛ کیوں کہ اِنھیں کی نفسیاتی پرکھ کی صلاحیت اور ہر ہر طالب خطابت کے لیے جدا جدا مناسب ہدایات پر نوواردوں کی کامیابی و کامرانی اور ناکامی و نامرادی کا دارومدار ہوتا ہے ۔اس لیے اس مقام پر جہاں نوواردوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رہ نمائی کے لیے اُنھیں حضرات کو رہ نما بنائیں ،جو اس فن میں مکمل مہارت رکھتے ہوں اور ہر ایک کی نفسیات کے مطابق رہ نمائی کرسکتے ہوں ، وہیں رہ نماؤں سے یہ گذارش ہے کہ جو مبتدی آپ کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے آئیں ،ان کی صحیح اور مکمل رہ نمائی کریں ۔آپ ان کی زندگی سے کھلواڑ نہ کریں ۔اگر ان میں سے کسی کی اصلاح آپ کے بس کی بات نہ ہو،تو ان کے سامنے اپنی عاجز ی کا اظہار کردیں۔اور دوسروں سے رجوع کرنے کی نیک صلاح دے دیں۔خواہ مخواہ ان کا قیمتی وقت ضائع نہ کریں ۔ذیل میں عمومی ہدایات کے تحت ہم نوواردوں سے چند گذارشات کر رہے ہیں ۔
(۱)کسی بھی علم وفن سیکھنے کے لیے صرف دوہی طریقے ہیں :(الف)مطالعہ اور اس فن کی بنیادی باتوں سے واقفیت ۔(ب)مشق وتمرین۔ہرچند کہ فن سیکھنے کے لیے مطالعہ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ؛لیکن فنِ خطابت کے لیے سب سے زیادہ اہمیت مشق وتمرین کی ہے ۔اس لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ فنی نکتوں اور علمی موشگافیوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ وقت مشق و تمرین میں صرف کریں ۔
(۲)اگر چہ قدیم اساتذۂ فن نے سارا زور اس بات پرصرف کردیاہے کہ رٹ کر تقریر نہیں کرنی چاہیے ؛بلکہ ہمیشہ فی البدیہہ اور برجستگی کے ساتھ بولنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔یہ بات اس شخص کے حق میں تو قابل قبول ہوسکتی ہے ،جو خطبا کی فہرست میں آچکے ہیں ۔لیکن ایک مبتدی کے حق میں نہیں ۔کیوں کہ تجربہ بتلاتا ہے کہ ایک مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کی مشق جس قدر مفید اور سود مند ہے ،وہ بغیر رٹے کرنے میں نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مبتدی بحیثیت مبتدی اس درجہ خالی الذہن ہوتا اور اسٹیج کا خوف اس قدرمسلط ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی کہنے سے عاجز و قاصر رہتا ہے ۔ایسی صورت میں کوئی چیز اسے سہارا دے سکتی ہے ،تو وہ رٹی ہوئی بات ہی ہوسکتی ہے ،جو وہ اسٹیج کا خوف محسوس کرتے ہوئے بھی بول سکتا ہے ۔اور جب متعدد بار اس طرح سے رٹ کر تقریر کر لے گا ،تو اسٹیج کا خوف بھی دور ہوتا چلاجائے گا اور مواد ومیٹر کا ایک بڑا ذخیرہ اس کے سینے میں محفوظ ہوجائے گا ۔پھر وہ بلا خوف و تردد اپنے حافظے کے بھروسے پر خودبخود فی البدیہہ تقریر کرنے لگے گا اور رٹنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔اس لیے ایک مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کی مشق زیادہ مفید اور سود مند ہے ۔
(۳) آج کل طباعت کی سہولتوں اور رطب و یابس جمع کردینے والے مؤلفوں کی کثرت کی وجہ سے بری بھلی ہر طرح کی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں ،جس کی وجہ سے کتاب کے انتخاب کا مسئلہ ایک مبتدی کے لیے مشکل مسئلہ بن گیا ہے ۔اس لیے اس سلسلے میں راقم الحروف کا مشورہ یہ ہے کہ آپ انھیں خطیبوں اور ادیبوں کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ کریں ،جو اپنے فن میں سند کا درجہ اور اساتذۂ فن کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جیسے :مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شاہ عطاء اللہ بخاری ،مولانا علی جوہر ؒ ؒ مولانا حسین آزاد ،مولانا ڈپٹی نذیر احمد ،مولانا شبلی نعمانی ،ؒ مولانا الطاف حسین حالی ؒ ،علامہ اقبال ؒ ،مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ وغیرہ ۔ان کی رشحات و نگارشات کے مطالعہ کرنے سے جہاں آپ کی تقریری صلاحیت پروان چڑھے گی ،وہیں آپ کی زبان وبیان کی بھی اصلاح ہوگی اور طلاقت وسلاست بھی پیدا ہوگی۔
(۴)آپ ہر طرح کے جلسے جلوس میں شرکت کرنے کی کوشش کریں اور نام ور خطیبوں کے لب ولہجے ، اشارات وحرکات ،مدوجزر،زیروبم،اندازواسلوب ؛غرض ہر چیز پر نگاہ رکھیں اور ان سے کچھ حاصل کرنے کوشش کریں ۔
(۵)ٹیپ،سی۔ڈی اور موبائل جیسے جدید آلات و سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان خطیبوں کوبار بار سنیں اور دیکھیں ،جن کو بہ راہ راست اسٹیج پر سن چکے ہیں اور ان کو بھی جن کو بہ راہ راست نہیں سن سکیں ہیں۔ 
(۶)چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے،ملنے جلنے والے سبھی بے تکلف یارو احباب کے درمیان بے باکی کا مظاہرہ کریں اور جو کچھ بولیں ،قواعد زبان کی رعایت کرتے ہوئے بلا جھجھک اور انتہائی سلاست کے ساتھ بولیں۔اس میں کسی طرح کا خوف یا شرم کو مانع نہ بننے دیں ۔باقی مزید باتیں ’’مشق خطابت ‘‘کے زیر عنوان آرہی ہیں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ہوالموفق والمعین۔




مشقِ خطابت 
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ کسی بھی فن کے حصول کا سراسر دارومدارمطالعہ اور مشق پر ہے ۔گرچہ ہر فن میں مطالعہ کو اولیت حاصل ہے ؛لیکن فنِ خطابت میں سب سے زیادہ اہمیت مشق کی ہے اور مطالعہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ مشق وتمرین کا مسئلہ اگر زیادہ مشکل نہیں ہے ،تو اس قدر آسان بھی نہیں ہے کہ جس کا جس طرح جی چاہے ، اسی طرح مشق کرنا شروع کردے ؛بلکہ مشق خطابت کے بھی کچھ اصول اور زریں طریقے ہیں ،جن کو اپنا نااورصحیح طور پر برتنا ضروری ہے ۔ذیل میں وہ طریقے لکھے جارہے ہیں ،جنھیں خود مملکت خطابت کے بے تاج بادشاہوں نے عملی تجربے کے بعد مفید پایا ہے اور انھیں طریقوں پر چل کر وہ منزل مقصود تک پہنچے ہیں ۔
(۱)’’جو شخص خطابت سیکھنا چاہتا ہے ،اس کو چاہیے کہ بولنے سے پہلے لکھنے کی مشق کرے ۔مضمون لکھتے وقت کوئی سامنے نہیں ہوتا ،جس کا خوف ہو اور دماغ میں یکسوئی ہوتی ہے ۔مضمون لکھ کر کسی جلسے میں لوگوں کے سامنے پڑھے ۔اس کے عیب وہنر سوچے اور دوسروں سے دریافت کرے ۔پہلے چھوٹے اور سہل مضامین سے ابتدا کرے ۔جس قدر مشق بڑھتی جائے اور لکھنے کا سلیقہ آتا جائے ،اسی قدر بڑے اور مشکل مضامین لیتا رہے۔اسی طرح پہلے چھوٹے جلسوں میں پڑھے پھر بڑے جلسوں مین بیان کرے ۔‘‘(خطابت وتقریر،ص؍۴۴)
(۲)تقریر کی کوئی معیاری کتاب سامنے رکھ لیجیے اور تقریری انداز میں بآواز بلند پڑھیے ۔
(۳)تقریر کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ جانے نہ دیجیے اور چھوٹے بڑے سبھی جلسوں میں تقریر کرنے کی کوشش کیجیے ۔
(۴)کسی بھی مضمون کا ذہن میں ایک خاکہ تیار کر لیجیے اور تنہائی میں نا قابل خطاب اشیا کو مخاطب بنا کر تقریر کیجیے اور یہ تصور قائم کر لیجیے کہ وہ ہمارے سامعین ہیں اور ہماری گفتگو کو سن رہے ہیں ۔
(۵) تنہائی میں چوں کہ کوئی ناقد نہیں ہوتا ،جو اس کو اس کی خامیوں پر تنبیہہ کرے ،اس لیے جو خامیاں ہوتی ہیں ،ان کی اصلاح نہیں ہوپاتیں؛بلکہ وہ اور پروان چڑھ جاتی ہیں ،جو پھر بعد میں کبھی دور نہیں ہوپاتیں۔اس لیے ان کی اصلاح ضروری ہے ۔اور اس کے لیے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ آپ کسی ایسے کمرے کو مشق گاہ بنائیں، جس میں بڑے بڑے سائز کے شیشے فٹ ہوں ۔ان کے سامنے کھڑے ہو کر تقریر کریں اور ساتھ ہی یہ دیکھتے رہیں کہ ہماری کونسی حرکت نازیبا اور کونسا اشارہ نا مناسب ہے ؟پھر اس کی اصلاح کی کوشش کریں ۔اسی طرح اس پر بھی نگاہ رکھیں کہ ہم کسی مخصوص حرکتوں کا بار بار ارتکاب تو نہیں کر رہے ہیں ۔چہرے مہرے کی ہیئت ٹھیک ٹھاک رہتی ہے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ ان تمام چیزوں پر نگاہ رکھیں اور ان کی اصلاح کی فکر کریں ۔اور اپنی آواز ، انداز ، لب ولہجے،تکلم کا زیرو بم ،الفاظ کا مد جزر اور ان جیسے پہلووں کی خامیوں کو پکڑنے کے لیے ٹیپ وغیرہ کا سہارا لیں ۔
(۶)اگر کسی وجہ کر آپ کے لیے یہ صورت ممکن نہیں ہے ،تو پھر ایسے دوستوں کی ایک تنظیم بنائیں ،جو آپ ہی کی طرح تقریروخطابت سیکھنے کے شیدائی ہوں اور انھیں بھی کسی سہارے کی تلاش ہو ۔اور ہر ایک فرد اس بات کے لیے فکر مند ہو کہ کوئی ایسا دوست ملے ،جو اس کی غلطیوں کی نشاندھی کرے ۔
(۷)اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو،تو پھر آپ کسی قریبی مدرسے ،کالج اور یونی ورسٹیوں کی انجمنوں ۔جن کا بنیادی مقصد طلبہ میں تقریرو خطابت کی روح پھونکنی ہوتی ہے ۔سے جڑ جائیں اور ان کے ہفتہ واری ،پندرہ روزہ یا ماہانہ پروگرام میں پابندی کے ساتھ شرکت کریں ۔
(۸)ملک کے طول عرض میں کہیں بھی مسابقۂ خطابت ہو رہاہو ،تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کریں۔
(۹)اگر مذکورہ بالا تمام صورتیں آپ کے لیے نا پید ہوں ،تو پھر آپ اپنے گھر کے افراد کو اکٹھا کرکے تقریر کی مشق کرسکتے ہیں۔
(۱۰)اگر یہ تمام صورتیں بھی ممکن نہ ہوں ،توجنگل و بیابان میں نکل جائیں اور درخت ،پتھر اور ان جیسی بے جان چیزوں کو اپنا مخاطب بنا کر مشق کریں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ کامیابی ضرور ملے گی ۔اور بہت جلد ایک باکمال و بے مثال خطیب بن کر ابھریں گے۔

تقریر کی تقسیم

(قسط نمبر (9) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

تقریر کی تقسیم

فنی حیثیت سے اگر چہ اساتذۂ فن میں سے کسی نے بھی اس کی کوئی حتمی و قطعی تقسیم نہیں کی ہے ،جس میں شکست نا ممکن ہو ،کیوں کہ یہ خود ناممکن ہے ۔اس لیے کہ تقریر احوال و واقعات کی پیدا وار ہوتی ہے اور ان میں اس قدر تنوع وتلون ہے کہ ان کی حدبندی نہ صرف مشکل ہے ؛بلکہ قوت بشریہ سے باہر ہے ۔المختصر تقریر کو کسی یقینی خانوں میں تقسیم کرنا ممکن نہیں ہے ۔نئے نئے حالات و واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شاخیں بھی نکلتی رہتی ہیں ۔ اس لیے اس کی درجنوں قسمیں ہوسکتی ہیں ۔ذیل میں چند قسموں کا تذکرہ کیا جارہا ہے ۔ 
مذہبی تقریریں
ان تقریروں میں مذہبیات و دینیات سے گفتگو کی جاتی ہے ۔ان میں کبھی دین و مذہب کے حوالے سے صرف مسائل و عقائد کی وضاحت کردی جاتی ہے اور جو کچھ صحیح یا غلط مقرر کے مذہب اور اس کے اعتقاد میں ہوتا ہے، اس کو اپنے انداز و بیان میں سامعین کے سامنے بیان کر دیتا ہے اور کبھی ان کے ساتھ ساتھ منفی پہلووں کی بھی نشاندھی کر کے ان سے بچنے کی ہدایت کرتا ہے ۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مقرر مذاہب عالم کا تجزیہ پیش کرتا ہے اور پھر اپنے مذہب کی برتری،آفاقیت اور عالم گیریت کو ثابت کرنے کوشش کرتا ہے ۔اس طرح کی جتنی بھی تقریریں ہیں ، سب مذہبی تقریروں میں شامل ہیں۔ 
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ مذہبی تقریروں کا انداز اور لب ولہجہ کیسا ہونا چاہیے ؟تو اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ انداز خطابت کا سراسر دارومدار موضوع پر ہے ۔اگر موضو ع جو ش وہنگامہ آمیز اور تحریک جذبات کا داعی ہے ،تو اس وقت جوشیلالب ولہجہ اور جذبات مشتعل کن انداز اختیار کرنا چاہیے ۔اور اگر موضوع سرد ہو یا پھر علمی عنوان ہو،تو ظاہر ہے کہ یہاں تحریک جذبات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،اس لیے اس کے لیے سمیل اور سادہ انداز ہی زیاد ہ موزوں ہے ۔
سیاسی تقریریں
ان تقریروں کا موضوع حالات حاضرہ ،ملک کی پالیٹکس پالیسیا ں،بین الاقوامی سیاسی رخ ،تاریخ کی روشنی میں قوموں کے عروج وزوال کا تجزیہ اور ہر وہ مسائل ہیں ،جو اس وقت موضوع بحث بنے ہوتے ہیں ۔ان میں حقائق کم اور پروپیگنڈا زیادہ بیان کیے جاتے ہیں ۔الزام تراشی ،عیب جوئی ،دروغ گوئی ان کی خاص خصوصیت سمجھی جاتی ہے ۔ ہنگامہ آرائی اور تحریک جذبات ان کی مقبولیت کا خاصہ ہے ۔سیاسی عنوان پر وہی تقریریں کامیاب ثابت ہوتی ہیں ،جن میں مقرر اپنی آتش بیانی سے سامعین کے جذبات کو بر انگیختہ کر دیتا ہے اور نفسیاتی طور پر اپنا ہم نوا و ہم خیال بنا لیتا ہے ۔ 
تعزیتی تقریریں
ان تقریروں میں دنیا سے گذر جانے والوں کے اوصافِ حمیدہ ،ان کے رہن سہن ،چال ڈھال ،لین دین ، ایک دوسرے کے ساتھ اچھے میل جول اور بہتر تعلقات کا تذکرہ کیاجاتاہے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی تلقین اور نعم البدل عطا کرنے کی دعا دی جاتی ہے ۔ایسی تقریروں کالب و لہجہ غم آمیز ہوتا ہے ،جوش وخروش ،تحریک جذبات اور ہنگامہ آرائی سے گریز کیا جاتا ہے ۔بس جو کچھ بیان کرنا ہوتا ہے ،خطیب اسے عام گفتگو کی طرح بیان کر دیتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حد سے زیادہ دردو غم کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی خوب زور زور سے رونا دھونا شروع کر دینا چاہیے ؛کیوں کہ ہر چیز اس کی حد تک ہی ٹھیک رہتی ہے ۔حد سے تجاوز کر جانے پر الٹا اثر ہونے لگتا ہے ۔ایسی صورت میں سامعین یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسے کچھ غم وم نہیں ہورہا ہے ؛بلکہ یہ تو ڈھونگ کر رہاہے ۔
خطبے
تقریر ہی کے قبیل سے جمعہ اور عیدین کے خطبے بھی ہیں ۔اسلام نے جمعہ و عیدین کی نما ز کے ساتھ خطبے کو بھی ضروری قرار دیا ہے ۔ان میں حمد و نعت ،شریعت کے احکام ،اوامر و نواہی اور حالات حاضرہ کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں ۔ان خطبوں سے اسلام کا مقصد یہ تھا کہ عام و خاص سبھی آدمی دین کی ضروری باتوں اور بر وقت پیش آنے والے مسائل سے واقف ہوسکیں ۔چنانچہ شروع عہدِاسلام سے لے کر تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ؛لیکن ان سے جو فوائد مطلوب تھے اور پہلے وہ حاصل بھی ہوتے تھے ،اب حاصل نہیں ہورہے ہیں ۔اس کی چند وجوہات ہیں،جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ خطبے عربی زبان میں دیے جاتے ہیں اور عربی سمجھنے والے خا ل خا ل ہی نظر آتے ہیں ۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں عصر حاضر سے اٹیچ مسائل بھی بیان نہیں کیے جاتے ہیں ؛بلکہ پرانے زمانے کے جو مقفیٰ و مسجع خطبے چھپے ہوئے ہیں ،انھیں کی تلاوت کر دی جاتی ہے ۔کوئی نیا مضمون بیان نہیں کیا جاتا ۔
بہر کیف ان کے افادی پہلو سے قطع نظر ان خطبوں کا انداز خطیبانہ ہونا چاہیے اور ایک دینی تقریر کے لیے جو لب ولہجہ اختیار کیا جا تا ہے اسی لب ولہجے میں خطبہ دینا چاہیے۔کتاب پڑھ کر سنانے یا تلاوت کے اندازمیں خطبے نہیں دینا چاہیے ۔
تقریر کرنے کی مختلف صورتیں
اگر چہ تقریر کا لفظ ہی سننے سے یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ وہ زبانی گفتگو ،جومخصوص طرز اورمنفرد لب ولہجے کے ساتھ اسٹیج کی کرسی پر بیٹھ کر کی جاتی ہے ۔لیکن عصر حاضر میں اس طریقے کے علاوہ اور بھی کئی طریقے اور صورتیں رائج ہیں ، جو درج ذیل ہیں :(۱)لکھے مضمون کو پڑھ کر سنانا (۲)لکھ کر زبانی یاد کرکے تقریر کرنا (۳)فی البدیہہ بیان کرنا ۔ان تین صورتوں میں سے آخر الذکر صورت ہی تقریر کی اصل صورت ہے ۔باقی اول الذکر دونوں صورتیں اگر چہ صورتا تقریر ہی ہیں؛ لیکن حقیقتا انھیں تقریر کے نام سے پکارناصحیح نہیں ہیں۔
اول الذکر صورت اس وقت اختیار کی جاتی ہے ،جب کوئی تجویز اور ریگولیشن وغیرہ پیش کی جاتی ہے یا پھر کسی بڑے آدمی کا لکھا ہو ا کوئی پیغام سامعین تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے ۔تقریر کی اس صورت میں حسب موضوع انداز اختیار کرنا چاہیے ،مثلااگر اس پیغام میں حکومت وقت سے کسی چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے اور مطالبہ پورا نہ کرنے پر منفی پہلو کی بھی نشاندھی کی گئی ہے،یا کسی تحریک کے چلانے وغیرہ کی دھمکی دی گئی ہے، تو اسے ایسے بھیانک انداز اور خوف ناک لب ولہجے میں پڑھنا چاہیے کہ کہ حکومت کے ایوان میں زلزلہ پیدا ہوجائے اور سامعین یہ محسوس کرنے لگیں کہ واقعی اس میں جن خدشات اور رد عمل کا اظہا ر کیا گیا ہے ،وہ واقعی ہو کر رہے گا ۔
تقریر کی دوسری صورت اگر چہ صورتا تقریر ہی محسوس ہوتی ہے ؛لیکن اس کا جو فطری اثر سامعین پر ہونا چاہیے اور عوام کو جو لذت وچاشنی محسوس ہونی چاہیے ،اس سے یہ تقریر محروم ہوتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو الفاظ فطری طور پر جس کی زبان سے نکلے ہوئے ہوتے ہیں ،وہ انھیں کی زبان سے اچھے لگتے ہیں اور سامعین پر جادو کی سی کیفیت پیدا کرتے ہیں ۔اس کے بر عکس جب کوئی کسی دوسرے کی تقریر رٹ کر کرتا ہے ،تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی کوا بلبل کی بولی بولنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اس سے نہ تو وہ خود متأثر ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو متأ ثر کر سکتا ہے۔ اس لیے اس طریقے سے گریز ہی بہتر ہے،البتہ مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛بلکہ اس کے لیے شروعات میں یہی طریقہ سب سے زیادہ مفید ہے ۔رٹ کر تقریر کرنے کا ایک منشا یہ ہوتا ہے کہ جب ہم شستہ و شائستہ اور معیاری زبان کو اچھی طرح رٹ کر تقریر کریں گے ،تو لوگ ہماری تقریر سے مرعوب ہوں گے اور وہ یہ سمجھیں گے کہ مقرر موصوف کو زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل ہے ۔اس سے ہماری قدروں میں بلندی آئے گی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اونچے اونچے الفاظ کا استعمال کسی کی قدروں کو بلندی عطا نہیں کر سکتا،جب تک کہ وہ خود صاحب قدر نہ ہو؛بلکہ قدروں کی بلندی کا رازتو اس میں مضمر ہے کہ سامعین کی زبان میں گفتگو کی جائے اور جو کچھ کہا جائے ،وہ بالکل سیدھے سادے اور سمیل انداز میں کہا جائے۔ 
آخر الذکر صورت ہی تقریر کا اصل معراج ہے ،جس کسی کو فی البدیہہ تقریر کرنے کا ملکہ حاصل ہوگیا ،سمجھ لیجیے کہ وہ فنِ خطابت کا بے تاج بادشاہ بن گیا ۔ہر مبتدی کے لیے یہ ملکہ پیدا کرنا ایک با کمال خطیب بننے کے لیے ضرور ی ہے۔
تقریر کا سب سے عمدہ انداز
ہر مقرر اپنے طور پر یہی کوشش کرتا ہے کہ وہ سب سے عمدہ اور سب سے اچھی تقریر کرے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی تقریر سب سے عمدہ ااور کیسی تقریر سب سے اچھی سمجھی جاتی ہے ۔تو اس حوالے سے سب سے پہلے یہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ تقریر کی عمدگی اور بہتری کا سارا دارو مدار آواز،انداز،الفاظ کے زیرو بم ،کلمات کے مدو جزر ،موقع بہ موقع گھن گرج اور ساتھ ہی مناسب اشارات و حرکات پر ہے ۔اس لیے اگر ان چیزوں کو ان کے صحیح مقامات پر برتنے کے گر معلوم ہوجائیں ،تو سب سے عمدہ طریقۂ خطابت کا راز خود بخود معلوم ہوجائے گا ۔چنانچہ اس سلسلے میں ماہرین فن کا کہنا ہے کہ آوز کو بالکل صاف و شفاف رکھی جائے ،اس میں کسی بھی طرح کا کوئی عیب اور خامی نہ ہو۔آغاز میں آواز وانداز دونوں دھیمے ہوں۔ پھر جوں جوں تقریر آگے بڑھائی جائے ،توں توں رفتار بھی بڑھا ئی جائے ،یہاں تک کہ شباب پر پہنچ جائے اور پھر زور دار انداز کے ساتھ اچانک رک جائے ،پھر دھیمے دھیمے اور ٹھہر ٹھہر کے بولے اور بولتے بولتے رفتار وآوازمیں کرختگی پیدا کرتے ہوئے شباب پر پہنچ جائے ،پھر اچانک ٹھہر جائے۔ اور اسی انداز سے تقریر کرتا چلاجائے ۔لیکن ساتھ ہی یہ نہ بھولنا چاہیے کہ جہاں جہاں الفاظ میں مدو جزر اور تکلم میں زیرو بم ہونا چاہیے ،وہاں وہاں اسی طرح کا لب ولہجہ اختیار کرنا ضروری ہے ۔علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ پر زور کلام کیا جائے ۔کلام میں زور پیدا کرنے کی مختلف صورتیں ہیں ،جن میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہر جملے کو تین حصوں میں بانٹ دیا جائے ۔شروع حصے میں پرزور انداز اختیار کیا جائے ۔درمیانی حصے میں تھوڑی سی خفت پیدا کر لی جائے اور آخری حصے میں پرزور ترین اسلوب اپنا یا جائے۔اس طریقے کی بھر پور عکاسی کرتے ہوئے شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ 
’’۔۔۔مقرر یا خطیب جب مجمع سے خطاب کرتے ہیں ،تو ان کی آواز یکساں رفتار پر نہیں رہتی اور نہ ان کا لہجہ ہم وزن رہتا ہے ۔اس کے لیے ایک بحر نہیں ،کئی بحروں کا مجموعہ ہے۔ کہیں مقرر گفتگو کا لہجہ اخیار کرتا ہے ،کہیں نرم لہجہ ،کہیں زور دار ور کہیں ان کا حد اوسط۔۔مقرر اپنے الفاظ کا حسن زیروبم سے بڑھاتا ہے ،اس کو اظہار کے اتار چڑھاو سے گذرنا پڑتا ہے، ایکا ایکی گونج پیدا کرتا اور یکا یک گرج سے کام لیتا ہے ،کبھی اس کی آواز میں بوندا بوندی ہوتی اور کبھی وہ موسلا دھار انداز میں برسنے لگتا ہے ۔کبھی صباکی طرح چلتا اور کبھی صرصر ہوجاتا ہے۔آبشار کی طرح بہتا ہے۔اس میں چشمہ کا بہاو اور جھرنا کا غل بھی ہوتا ہے ۔وہ راگ نہیں جانتا ؛لیکن اس کی آواز کبھی دیپک راگ ہوجاتی ہے اور کبھی جل ترنگ۔وہ آواز میں آنسو پیدا کرتا اور قہقہہ اجالتا ہے ،وہ چشم زدن میں ہنسا اور رلا سکتا ہے ۔ وہ رعد کی طرح کڑکتا اور شعلے کی طرح بھڑکتا ہے ۔اس میں غنچے کی چٹک اور نغمے کی لٹک ہوتی ہے ۔وہ بادل کی کڑک اورہیرے کی ڈلک رکھتا ہے ۔کویل کی طرح کوکتا اور شیر کی طرح دھاڑتا ہے ۔خطیب کی آواز سمندر کی لہروں کی طرح ہے کہ اپنی سطح سے اٹکھیلیاں کرتی چلی جاتی ہیں۔‘‘(ص۱۰۹)
اپنی تقریر میں مذکورہ بالا خصوصیتیں آپ اسی وقت پیدا کرسکتے ہیں ،جب کہ آپ عملی مشق کے ساتھ ساتھ اکابر خطبا کی تقریریں سنیں ،ان کے لب ولہجے پر نگاہ رکھیں اور ان سے ان کی تقریر کی عمدگی و مقبولیت کا رازدریافت کریں۔ 
(کلام میں زور پیدا کرنے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے دیکھیے:رہ نما ئے اردو ادب، ازص؍ ۱۸۵ تا ۱۹۰ )۔

تقریر کی تیاری

(قسط نمبر (8) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

تقریر کی تیاری 

جو چیز منظر عام پر آنے والی ہوتی ہے ،خواہ وہ معمولی ہو یا غیر معمولی،اسے منصۂ شہود پر لانے سے پہلے اس کے مثبت ومنفی دونوں پہلووں پر خوب گور وفکر کیا جاتا ہے اور مکمل تیاری کے بعد ہی اسے نمایاں کیا جاتا ہے ۔تقریر کا تعلق بھی انھیں چیزوں سے ہے،جو منظر عام پر نمود سے متعلق ہیں ۔اس لیے اسٹیج پرآنے سے پہلے جس عنوان پر جلسہ ہے یا جس موضوع پر تقریر کرنی ہے ،اس پر مکمل تیاری کر لینی ضروری ہے کیوں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جو لوگ بغیر کسی تیاری کے خالی خالی ذہن اسٹیج پر آجاتے ہیں ،انھیں بسااوقات خفت و ذلت کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے ۔اس لیے دانش مندی یہی ہے کہ مکمل تیاری کے بعد ہی اسٹیج پر آیا جائے ۔شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ :
’’ان خصائص کے علاوہ خطابت کے دوسرے لوازم بھی ہیں ،مثلاتیاری ۔یہ صحیح ہے کہ بعض تقریریں بلا تیاری کے بھی ہوجاتی ہیں ۔ان کا انحصار خطابت کے طویل تجربے اور مطالعے کی وسعت پر ہے ۔لیکن جامع تقریر کے لیے خطیب کا فرض ہے کہ اپنے موضوع و مضمون کی تیاری کرے ۔‘‘(ص؍۴۸)
تیاری کے طریقے
المختصر تقریرمیں جامعیت پیدا کرنے کے لیے تیاری ضروری ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ تیاری کس طرح کی جائے؟تو اس حوالے سے چند طریقے ،جو ماہرین فن کے مجرب و آزمودہ ہیں ،اختصار کے ساتھ لکھے جارہے ہیں ۔
(۱)’’تیاری دو طرح کی ہیں :ایک ذہنی کہ مطالعہ و فکر کے بعد دماغ میں وہ چیزیں لف ونشر کے طور پر محفوظ کرلی جائیں ،جو عوام سے کہنی ہیں ۔دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے موضوع کے متعلق پرزۂ کاغذات پر اشارات قلم بند کرلیے جائیں کہ اس ترتیب کے ساتھ فلاں فلاں بات کہنی ہے۔تیاری کے بغیر تقریر کے خطوط مکمل نہیں ہوتے۔‘‘ (ص؍۴۸) 
(۲)موضوع کا پہلے خاکہ تیار کرلیں،پھر اس خاکے پر اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے ،چلتے پھرتے ؛غرض ہمہ وقت غور وفکر کریں اور ملنے جلنے والے ہرایک آدمی سے اس پر تبادلۂ خیالات کریں ۔
(۳)اپنے موضوع پر مطالعے کے دوران جو اہم باتیں نظر سے گذریں ،جیسے قرآنی آیات کے نکات ، حدث شریف سے کوئی انوکھا استدلال،حکیمانہ اقوال ،زریں کہاوتیں ،عبرت انگیز واقعات وغیرہ وغیرہ۔ان سب چیزوں کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں اور انھیں موقع بہ موقع اپنی تقریر میں استعمال کریں ۔
(۴)رٹنا بھی ایک تیاری ہے ،لیکن عہدۂ خطابت پر فائز ہوجانے اور خطباکی فہرست میں اپنا نام درج کرالینے کے بعد یہ طریقہ غیر مستحسن سمجھا گیا ہے ۔البتہ کچھ مخصوص جملے ،جو انتہائی شیریں ،معنی خیز اورعبرت آگیں ہوں ،ان کو رٹ کر یاد رکھنے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
(۵)اپنے موضوع پر اولاََ بھر پور مطالعہ کریں،بعد ازاں تقریر کے اجزائے ترکیبی کے مطابق اس کا خلاصہ اور نچوڑ لکھ لیں اور تقریر سے پہلے اسی خلاصے کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں ۔ 
عناصر ترکیبی 
آپ خواہ مضمون لکھنا چاہتے ہوں یاپھر تقریر کرنے کا خواہاں ہوں ،دونوں میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہونے کے لیے آغاز سے لے کر اختتام تک ربط و تسلسل برقرار رکھنا ضروری ہے اور اس کے لیے ان کے اجزائے ترکیبی اور عناصر ترتیبی کو پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے ۔تقریر کے عناصر ترکیبی درج ذیل ہیں:(۱)تمہید یا ابتدائیہ (۲)دعویٰ (۳) اثبات مدعی ٰ(۴)مراجعت(۵)نتیجہ و خلاصہ ۔
ابتدائیہ
تقریر کی تمہید، آگے کی تقریر کے لیے پیش خیمہ اور سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس لیے آغاز جتنا پرکشش، دل کش اور خوب صورت ہوگا ،آگے کی تقریر بھی اتنی ہی پرلطف ،مقبول اور من موہ لینے والی ہوگی اور سامعین کی مکمل توجہ آپ کی طرف مبذول ہوجائے گی ۔ابتدائیہ کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے صاحبِ ’’فنِ خطابت ‘‘لکھتے ہیں کہ:
’’ایک دوسری چیز یہ ہے کہ تقریر کی ابتدا کیوں کر ہو ؟کیوں کہ خطابت کی ابتدا اس کاچہرہ نما ہے ۔ چہرہ دل کش ہوگا،تو کشش ہوگی ۔اس بارے میں مقررین کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ خطاب کا ابتدائیہ عوام کو متحرک کرتا ہے ۔ابتدائیہ کی حیثیت برات میں عقد کی طرح ہے ۔اس سے ایجابی تأثر پیدا ہوتا ہے اور تأثر کے معنی ہیں کہ آپ دوستوں کی التفات کو اپنی مٹھی میں کیوں کر لے سکتے ہیں ۔‘‘
(ص؍۴۸)
افتتاحیہ میں پوری تقریر کا اجمالی خاکہ بیا ن کیا جاتا ہے اور آگے آنے والے نکات و استدلال کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔ تقریر کے آغاز میں شہنشاہ خطابت اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نہایت لطیف اور سادۂ پیرایۂ بیان میں تقریر شروع کردیتے تھے اور تکلف و تصنع سے یکسر وریٰ ہوکر موضوع کا اجمالی خاکہ بیان کر دیتے تھے ۔اس کی مثال میں سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وہ تقریر پیش کی جاسکتی ہے ،جو انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد زمام خلافت اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائی تھی۔
’’ایہا الناس!انی ولیت علیکم ولست بخیرکم ۔فان رأتمونی علیٰ حق؛فأعینونی،و ان رأتمونی علیٰ باطل،فسددونی ۔أطیعونی ما اطعت اللہ فیکم ،فاذا عصیتہ ،فلا طاعۃ لی علیکم ۔ألا ان أقواکم عندی الضعیف حتٰی أخذالحق لہ و أضعفکم عندی القویٰ ،حتٰی أخذ الحق منہ ۔آقول قولی ہذاو استغفرا للہ لی ولکم۔‘‘ 
ترجمہ:اے لوگو !میں تمھارا حاکم مقرر کیا گیا ہوں ،حالاں کہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں ۔اگر تم مجھے حق پر چلتے ہوئے دیکھو ،تو تم میری مدد کرنا ۔اور اگر مجھے باطل پر چلتے ہوئے دیکھو ،تو تم مجھے روک دینا ۔تم اسی وقت تک میری اطاعت کرنا ،جب تک میں تمھارے بارے میں اللہ کی اطاعت کرتا رہوں ۔اور اگر میں اس کی نافرمانی کروں ،تو پھر تم پر میری کوئی اطاعت نہیں ہے ۔آگاہ ہوجاؤ کہ تم میں سب سے زیادہ طاقت ور میرے نزدیک کمزور ہے ، جب تک میں اس کا حق نہ دلا دوں اور تم میں سے کمزور شخص میرے نزدیک طاقت ور ہے ،جب تک کہ میں اس کا حق پورا نہ کردوں ۔ انھیں چند باتوں کے بعد خدا سے اپنے لیے اور تمھارے لیے مغفرت کی دعا مانگتا ہوں ۔
تقریر کا آغاز کسی مزاحیہ جملے یا فرضی کہانیوں سے نہیں کرنی چاہیے ۔اس سے ممکن ہے کہ آپ کے متعلق شروع ہی سے یہ تأثر قائم کر لیا جائے کہ یہ کوئی باوقار خطیب نہیں ؛بلکہ اداکارمعلوم ہوتا ہے ۔اسی طرح کرسی خطابت پر بیٹھتے ہی اپنی احساس کمتری اور بے اعتمادی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔مثلا اس طرح کہ میں اس وقت تقریر کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔۔۔یا میرا تقریر کرنے کا موڈ نہیں ہے ۔۔۔اس موضوع پر میں نے کوئی تیاری نہیں کی ہے ۔۔۔میں کیاتقریر کروں مجھے تو تقریرکرنی ہی نہیں آتی ۔۔۔۔میرا کوئی تازہ مطالعہ نہیں ہے ،جو کچھ بھی کہوں گا وہ پرانی باتیں ہوں گی وغیرہ۔ اس طرح کے الفاظ سے سامعین میں غلط تأثر قائم ہوتا ہے اوران کی توجہ خطیب سے ہٹ جاتی ہے، جب کہ کامیابی اس میں ہے کہ آپ سامعین کی پوری توجہ اپنی جانب مبذول کرالیں اور انھیں اپنی تقریر سننے کے لیے جم کر بیٹھنے پر مجبور کردیں ۔اسی طرح تمہید کو تقریر کی مناسبت سے چھوٹی بڑی رکھیں ؛لیکن اسے اصل تقریر سے کبھی طول نہ دیں کہ آپ کا سارا وقت تمہید ہی بیان کرنے میں صرف ہوجائے ۔ 
دعویٰ
دعویٰ تقریر کا دوسرا حصہ ہے ۔اس میں اس اجمال کی تفصیل بیا ن کی جاتی ہے ،جس کا ذکر اجمالی طور پر تمہید میں کردیا گیا ہوتا ہے ،اس میں موضوع کے خدو خال کو مکمل طور پر نمایا ں کیا جاتا ہے ،ساتھ ہی اس کے لوازمات و شواہد پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے ۔یہ حصہ تقریر کا بہت اہم ہوتا ہے ۔گویا یہی جز اس کا مغز اور گودا ہوتا ہے ،باقی دیگر اجزا اس کے لیے چھلکا اور کھال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اس لیے دعوے کا انداز ایسا ہونا چاہیے ،جو شیریں ہو ،سہل ہو ،الفاظ سلاست کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں ۔نہ بہت زیادہ گھن گرج اور برس کا لہجہ ہو اور نہ ہی بالکل سلو اور دھیما،جیسے یوں محسوس ہو کہ گلے میں اچھو لگ گیا ہے ،جس کی وجہ سے آواز اٹک اٹک کر نکل رہی ہے ؛بلکہ مناسب رفتار اختیار کیا جائے ۔ حسب موقع مدو جزر سے کام لیا جائے اور کہیں کہیں گھن گرج بھی دکھائی جائے۔
ایسا دعویٰ کبھی نہیں کرنا چاہیے ،جس کو آپ ثابت نہ کرسکیں یا اس پر آپ کی مکمل تیاری نہ ہو،اور نہ ہی بے شمار دعوے کریں ،جن سے تقریر طویل ہوتی چلی جائے ؛بلکہ دعویٰ مختصر ہونا چاہیے ،تاکہ تقریر مختصر ہوسکے ،افہام و تفہیم میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور سامعین اکتاہٹ بھی محسوس نہ کریں۔ 
اثبات مدعیٰ
دعوے کے بعد خطیب کو یہ فکر شدت کے ساتھ ستانے لگتی ہے کہ اس نے جو دعویٰ کیا ہے ،اس کو ثابت کرنے کے لیے کس طرح کے دلائل بیان کیے جائیں اور کس حسن و خوبی سے بیان کیے جائیں کہ دعویٰ بھی مکمل طور پر ثابت ہوجائے اور دلائل بھی اچھی طرح ذہن نشیں ہوتے چلے جائیں اور سامعین کے دلوں میں کسی قسم کاشک و شبہ بھی باقی نہ رہے ۔اس لیے ذیل کی سطروں میں دلائل اور اثبات مدعیٰ کے حوالے سے چند باتیں لکھی جارہی ہیں ۔
دلیلیں دو طرح کی ہوتی ہیں :(۱)قطعی (۲)ظنی۔خطیب اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کبھی دلیل قطعی کا سہارا لیتا ہے ،تو کبھی دلیل ظنی کا ۔اگر اثبات مدعیٰ کے لیے اس کے پاس قطعی دلائل ہیں ،تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔مسئلہ اس وقت ہوتا ہے ،جب کہ قطعی دلائل نہ ہوں ؛بلکہ صرف ظنی دلائل ہوں ۔ایسے موقعے پر خطیب اس طرح کاانداز بیان اختیار کرے کہ ظنی دلائل بھی قطعی دلائل محسوس ہوں اور سامعین کے دلوں میں کسی طرح کا شک و شبہ برقرار نہ رہے۔
دلائل نقلیہ
سب سے پہلے اپنے دعوے کو دلائل نقلیہ سے مدلل و مبر ہن کرنا چاہیے ۔ان میں بھی سب سے پہلے قرآن کا سہارا لینا چاہیے۔ اگر قرآن میں نہ ملے ،توپھر احادیث مبارکہ ،آثار صحابہؓاوراقوال تابعین وغیرہم سے نظائر و شواہد پیش کرنا چاہیے۔بعد ازاں دلائل عقلیہ سے اس کی مزید تائید وتوثیق کرنی چاہیے ۔ 
دلائل عقلیہ منطقیہ
اثبات مدعیٰ کے لیے منطقی دلائل وبراہین کا بھی سہارا لیاجاتا ہے ۔منطقی دلائل کی تین قسمیں ہیں:(۱)قیاس (۲)استقرا(۳)تمثیل۔پھر قیاس کی اولادو قسمیں ہیں :(۱)قیاس استثنائی(۲)قیاس اقترانی ۔پھر اقترانی کی دو قسمیں ہیں:(۱)حملی(۲)شرطی۔پھراستثنائی اوراقترانی کی مجموعی طور پر کئی اقسام ہیں،جیسے:قیاس ذوحدین،قیاس خلف، قیاس مرکب وغیرہ ۔پھر قیاس کی مادے کے اعتبار سے پانچ قسمیں ہیں :(۱)قیاس برہانی (۲)قیاس جدلی (۳)قیاس خطابی (۴)قیاس شعری (۵)قیاس سفسطی۔پھر قیاس برہانی کی دو قسمیں ہیں : (۱)قیاس برہانی انی(۲)قیاس برہانی لمی ۔ان تمام اقسام کے تفصیلی مطالعہ اور مکمل معلومات کے لیے تو آپ فن منطق کا مطالعہ کریں؛ البتہ ایک خطیب کو اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے جن جن دلائل کا زیادہ سہارا لینا پڑتا ہے ،ان کا اختصار کے ساتھ یہاں تذکرہ کیا جارہا ہے ۔
قیاس
قیاس سے مراد یہ ہے اگر کوئی شخص ایک بات مان لے ،تو اس کے ماننے کی وجہ سے ایک دوسری بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی ،جیسے :آپ اپنے مدعیٰ کوثابت کرنے کے لیے اس بات کو منوالیں کہ ’مرنے کے بعد انسان کے تمام اعضا کا م کرنا چھوڑ دیتے ہیں ،پس وہ جس طرح حس و حرکت نہیں کر سکتا ،اسی طرح وہ دوسرے کام بھی نہیں کر سکتا ۔ تو اسے یقینی طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بعد المرگ انسان نہ تو کسی کی حاجت روائی کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی مشکل کشائی،نہ کسی کی فریاد رسی کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اولاد وغیرہ عطا کرسکتا ہے ۔کیوں کہ مردہ خود اتنا محتاج ہوتا ہے کہ اپنی ضروریات کی تکمیل ،مثلا نہانے اور اپنے گھر قبر تک جانے کے لیے زندوں کے کندھوں کاسہارا لیتا ہے ، تو پھر وہ دوسروں کی حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے ؟لہذا مردوں سے حاجت روائی کی عقیدہ رکھنے والایا تو مرفوع القلم ہوسکتا ہے یا حقیقت کا منکر ،ضدی اور ہٹ دھرم۔
قیاس ذوحدین
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مدعیٰ کو ایسی دوصورتوں میں تقسیم کر کے بیان کیا جائے کہ بیچ میں کوئی تیسری صورت نہ نکل سکے ۔اور سامعین یا فریق مخالف کوئی اور صورت نکال کر آپ کے دعوے کی تردید نہ کرسکے ۔آپ کی وہ تقسیم اس قدر مستحکم اور یقینی ہو کہ کوئی اور صورت پیدا ہی نہ ہوسکے ،جس سے سامعین کے دلوں میں کسی قسم کا شک وشبہ پیدا ہونے کا خطرہ در پیش ہو ۔مثال ملا حظہ فرمائیے :انسان کے لیے دوہی راستے ہیں :یا تو وہ اللہ کی وحدانیت کی شہادت دے کر پورے لوازمات کے ساتھ مسلمان ہوجائے اور ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت کا حق دار ہوجائے یا پھر کفر و الحاد کا لبادہ اوڑھ کر سدا کے لیے جہنم کو اپنا مستقر بنا لے ۔ان کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ،جس پر چل کر وہ جنت و جہنم کے علاوہ کہیں اور اپنا ٹھکانہ بنا سکتا ہے ۔
قیاس خلف
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس مدعیٰ کو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں ،اس کو ایسی دو شقیں نکال کر ثابت کریں کہ اگر ان میں سے کسی ایک شق کو باطل کردیں ،تودوسری شق خود بخود ثابت ہوجائے ،مثلا :خدا کی محبت اور اس کی نافرمانی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتی ؛کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔اگر محبت ہوگی ،تو نفرت نہیں ہوسکتی ۔اگر نفرت ہوگی ،تو پھر محبت کا دعویٰ کھوکھلا ہوگا ،لہذاجو کوئی خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی محبت الٰہی کا مدعی ہو ،تو اس کا دعویٰ محض ایک فریب اور دھوکہ ہے ۔دیکھیے محمود الوراق نے کیا نکتہ آفرینی کی ہے کہ ؂
تعصی الالہ وانت تظہر حبہ
ہذالعمری فی القیاس بدیع
لوکان حبک صادقا لاطعتہ 
ان المحب لمن یحب یطیع
ترجمہ:خدا کی نافرمانی کرنے کے باوجود اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے ۔بخدا یہ ایک انتہائی تعجب خیز بات ہے ۔ اگر واقعی تمھاری محبت سچی ہوتی ،تو تم اس کی اطاعت کرتے ؛کیوں کہ عاشق ہمیشہ محبوب کی اطاعت کرتا ہے۔
قیاس مرکب
اس کا مطلب یہ کہ اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے سلسہ وارکئی باتوں کو بیان کیا جائے اورایک کو دوسرے کا سبب بتایا جائے ۔مثلاََ اس طرح کہ :علم نجوم سیکھنے سے گریز کرنا چاہیے ؛کیوں کہ نجومیت فال گوئی تک پہنچاتی ہے، نجومی کاہن کی طرح ہے اور کاہن جادوگر کی مانند ہے اور جادو گر کافر کی طرح ہے اور کافر دوزخی ہے ،بس یہی انجام نجومی کا بھی ہے ۔۔۔۔دین میں کوئی ایسی چیز شامل کرنا ،جس کی کوئی اصل شریعت میں موجود نہ ہو ؛وہ بدعت ہے ۔ اور بدعت خواہ عملی ہو یا اعتقادی ؛دونوں مذموم ہیں اور ان سے بچنے کی شدید تاکید کی گئی ہے ،کیوں کہ ہر بدعت ضلالت و جہالت کا دروازہ کھولتی ہے اور ضلالت دوزخ میں جانے کا سبب بنتی ہے ۔
قیاس برہانی 
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایسے دلائل یقینیہ وقطعیہ پیش کریں ،جن میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو ،جیسے آپ کوئی بات بیان کرکے قرآن و حدیث سے اسے مدلل کریں یا قیاس و اجماع سے ثابت کریں ۔اس کی مثالیں واضح ہیں ۔
قیاس جدلی 
اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جو بات کہنا چاہتے ہیں اس کو ثابت کرنے کے لیے ان باتوں کو پیش کریں ،جو لوگوں میں مشہور ومعروف ہیں یا وہ ان کی عادات و رسوم کا حصہ ہیں یا پھر ان چیزوں سے استدلال کریں ،جو کسی خاص گروہ کے لوگ مانتے ہیں سب نہیں مانتے ،جیسے کہ’ :آج کل علما کو برا بھلا کہنا عام ہوتا جارہا ہے ،حالاں کہ یہ بہت بری بات ہے ۔عورتیں اپنے شوہروں کو نام لے کر نہیں پکارتیں ۔کیوں ؟اس لیے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اپنے سرتاجوں کو نام لے کر پکارنا ،ان کی بے ادبی اور ان کی شان میں گستاخی ہے اور ایک نیک صالح بیوی اپنے سرتاج کی بے ادبی نہیں کرسکتی ۔ علمائے کرام جو قوم کے مقتدیٰ،رہ نما اور روحانی سرتاج ہیں ،ان کی گستاخی کیسے برداشت کی جاسکتی ہے ۔‘یا جیسے ہندووں کا عقیدہ ہے کہ جانوروں کو ذبح کرنا ایک معصوم جان کوماردینا ہے اور کسی جان کو مارنا بہت بری بات ہے ۔اس عقید ے پر اس طرح کی تقریر کرسکتے ہیں کہ :’غیر مسلم اور ہندو یہ کہتے ہیں کہ مسلمان کیسے سخت دل اور وحشی ہیں کہ وہ جانوروں کا گلا کاٹ کر انھیں کھا جاتے ہیں ۔اسی لیے ہندو جانوروں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے چیونٹیوں کے بلوں میں آٹا ڈالتے ہیں ۔لیکن آج پوری دنیا میں فرقہ پرست عناصر اور غیر مسلم فسطائی طاقتیں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں ۔یہاں انھیں ہمدردی کا خیال نہیں آتا !!یہ کیسی ہمدردی ہے کہ جانوروں کو ذبح کرنا انھیں ظلم محسوس ہوتا ہے اور اپنے ہی ہم جنسوں اور اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانا ظلم نظرنہیں آتا ۔
قیاس خطابی
اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ایسے بزرگوں اور بڑی بڑی ہستیوں کے اقوال ، افعال اور ارشادات پیش کریں ،جن کے نام آتے ہی عقیدت و محبت سے گردنیں جھک جاتی ہیں ،جیسے کہ انبیائے کرام ؑ ہیں یا اولیا ئے عظام ؒ وغیرہ۔اس قیاس کا سہارا عموما وہاں لیا جاتا ہے ،جہاں سامعین کو کسی بات پر ترغیب یا ترہیب دینی مقصود ہوتی ہے یا پھر اپنی باتوں کی تائید وتوثیق مطمح نظر ہوتی ہے۔جیسے :’جودو سخاوت کا سب سے اعلیٰ معیار یہ ہے کہ اپنی جان عزیز کو بھی سخاوت میں پیش کردے ۔حاتم طائی دنیائے سخاوت میں سب سے زیادہ شہرت اسی وجہ سے رکھتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے اپنے سر کی سخاوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا ،تو حاتم طائی نے بلا پس وپیش ایک تلوار نکال کر اسے دیا اور کہا کہ ابھی رات کی تاریکی باقی ہے ۔کوئی تمھیں پکڑ نہیں سکے گا،اس لیے جلدی کرو ،یہ تلوار لو اور میرا سر قلم کرلو۔
قیاس شعری 
اس کامطلب یہ ہے کہ مدعیٰ کے ثبوت کے لیے حقیقی یا فرضی خیالات پر مشتمل اشعار پیش کیے جائیں اور دلیل میں اشعار کو پیش کریں۔جیسے :’اس مرتبہ کے الیکشن میں ہم ہار گئے اور ہماری پارٹی شکست سے دوچار ہوگئی ،تو کیا ہوا؟ ہم صرف الیکشن ہارے ہیں ،حوصلے نہیں ہارے ہیں ۔ہمارے حوصلے ابھی تک اتنے ہی بلند ہیں ،جتنے پہلے بلند تھے ۔ ہم پھر دوبارہ الیکشن لڑیں گے اور اس وقت جیت ان شاء اللہ ہماری ہوگی ۔اس لیے ہم وقتی طور پر ہارجانے سے ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھنے والے نہیں ہیں ،کیوں کہ ؂
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں 
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
یا جیسے : 
عصر حاضر میں مسلمانوں کی ذلت و پستی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن اور اسلامی تعلیمات و احکام سے کوسوں دور ہوگیا ہے ۔آج بھی مسلمان اگر ذرا پیچھے کی طرف لوٹ جائیں اور قرآنی احکام اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے لگیں ، توان کی ذلت ونکبت عزت ومنزلت میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔ ؂
وہ معززتھے زمانے میں مسلماں ہوکر 
اور ہم خوار ہوئے تاریکِ قرآں ہوکر
قیاس سفسطی
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ایسی باتوں کا سہارا لیا جائے ،جو سراسر فرضی ،خیالی اور بے حقیقت ہو ں اور آپ کا مطمح نظر صرف سامعین یا جانب مخالف کو اپنی بات منوانی ہو ۔جیسے آپ کو اس موضوع پر اظہار خیال کرنا ہے کہ جو شخص محنت کرتا ہے ،آگے چل کر اس کو اس کا پھل ضرور ملتا ہے اور جو شخص محنت و مشقت سے جی چراتا ہے ،بعد میں اسے ناکامی اور محرومی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے ۔اس کو ذہن نشیں کرنے کے لیے مثلا اس فر ضی واقعے کو بیان کریں کہ:
’ایک مرغی تھی ،جس نے کہیں سے گیہوں کاایک دانہ لایا اور گھر کے ایک کونے میں تھوڑی سی جگہ کرید کر اسے بو دیا ۔جب پودا نکل آیا اور اسے پانی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ،تومر غی نے اپنے تمام سہیلیوں سے کہا کہ اس کی سینچائی کون کرے گی؟تو سب نے سستی اور کاہلی کی وجہ سے یہ جواب دیا کہ ہم اس کی سینچائی نہیں کرسکتیں ۔یہ جواب سن کر اس مرغی نے خود سے سینچائی کی ۔جب وہ پودا بڑا ہوگیا اور اس کی بالیاں پک گئیں اور کاٹنے کے لائق ہوگیا ، تواس نے پھر سبھی سہیلیوں سے کہا کہ اس کو کون کاٹ کر لاکے گاہے گی اور پیس کر ہمارے لیے روٹی بنائے گی ؟تو اس مرتبہ بھی سب نے اپنی کاہلی اور سستی کی وجہ سے یہی جواب دیا کہ یہ کام ہم سے نہیں ہوسکے گا ۔ بالآخر سب کام اسی مرغی نے کیے۔ جب روٹی پکا کر کھانے کے لیے دستر خوان پر رکھا ،تو اس نے سب سہیلیوں کا جواب سننے کے لیے کہا کہ ہمارے ساتھ کون کون کھائے گی ؟توسب مرغیوں نے یک بارگی جواب دیا کہ میں بھی کھاؤں گی ،میں بھی کھاؤں گی ۔اس پر اس مرغی نے جواب دیا کہ کام کے موقعے پر تم میں سے کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اب جب کہ کھانے کی باری آئی ، توتم سب تیار ہوگئیں ۔آج صرف میں کھاؤں گی اور تم سب میرا صرف منھ دیکھو گی؛کیوں کہ دستور ہے کہ جو محنت کرے گا ؛وہ پائے گا ۔میں نے محنت کی ،اس لیے مجھے پھل ملا ۔تم لوگ محنت سے جی چراتے رہے ، اس لیے آج تمھیں بھوکا رہنا پڑے گا ۔
قیاس استقرا 
ایسے قیاس کو قیاس استقرا کہتے ہیں ،جس میں اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے لیے ان چیزوں کوپیش کیاجائے، جن کے بارے میں تحقیق و جستجو سے یہ معلوم ہوگیا ہو کہ وہ چیزیں جب بھی اور جہاں بھی پائی جائیں گی ، اسی طرح پائی جائیں گی ۔جیسے:
’جو کوئی حضور قلب ،مکمل توجہ اور کامل رجوع الیٰ اللہ کے جذبے کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتا ،وہ شخص کبھی بھی خشوع وخضوع ،اخلاص وللٰہیت اور ک�أنک تریٰ کی کیفیت پیدا نہیں کر سکتا ؛کیوں کہ جو بھی اس جذبے سے خالی ہوکر محض فرض کو اپنے ذمے سے ساقط کرنے کے لیے نیت باندھ کرکھڑا ہوجاتا ہے،اس کا ذہن دنیاوی معاملات اور کاروباری خیالات میں منہمک ہوجاتا ہے ۔بسا اوقات انہماک اس قدر شدید ہوجاتا ہے کہ نماز میں ہونے کا خیال تک نہیں رہتا ۔‘ 
معاشرۂ یہود کا استقرا و مشاہدہ اور اس قوم کی تاریخ بتلاتی ہے کہ یہ قوم فطری طور پر شرارتی اور فتنہ و فسادات مچانے والی واقع ہوئی ہے ۔یہ جس ملک میں بھی بسی ہے ،وہاں شرانگیزی کرتی رہی ہے ،معاشرے کا چین و سکون لوٹتی رہی ہے اور وہاں کے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔اس لیے اسے مسلم ممالک کے سویدائے قلب (اسرائیل) میں لاکر اس نیت سے لا بسانا کہ جب اسے ایک اپنا ملک مل جائے گا ،تو یہ چین وسکون سے رہے گی اور کسی قسم کا فتنہ و فساد برپا نہیں کرے گی،سیاست دانوں کی ایک ایسی تاریخی غلطی تھی کہ اس پر جتنا بھی تعجب وحسرت کا اظہار کیا جائے ،وہ کم ہے ؛ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ’’جبل گردد جبلت نہ گردد‘‘اس لیے جو بھی یہودیت سے منسوب ہوگا ،فتنہ و فساد مچانا اس کی فطرت ہوگا ۔ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ ایک آدمی یہودی بھی ہو اور شریف بھی ہو۔ 
قیاس تمثیل
اس کا مطلب یہ ہے کہ خطیب اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے تشبیہات و استعارات سے کام لیتا ہے ۔ اور اپنے مدعیٰ کو کسی مشابہ چیز سے تشبیہ دیتا ہے ۔جیسے آپ دنیا کی بے ثباتی کو قیاس تمثیل میں اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ:
’دنیا کی کیا حقیقت ہے ؟کلی پھول بنتی ہے اور مرجھا جاتی ہے ،گلاب میں چمک آتی ہے اور ماند پڑجاتی ہے ، چمیلی عطر بیزی شروع کرتی ہے اور ختم ہوجاتی ہے ،کنول کھلتا ہے اور کمھلا جاتا ہے ،نرگس شہلا مسکراتی ہے اور خاموش ہوجاتی ہے، چمپا میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور پژمردگی چھا جاتی ہے ،بلبل شاخ گل پر چہکتی ہے اور اڑجاتی ہے ،نغمہ ہوا میں گونجتا ہے اور فنا ہوجاتا ہے ،چاندنی پھیلتی ہے اور سمٹ جاتی ہے ،سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوجاتا ہے ،دن رخصت ہوتا ہے اور رات کی تاریکی چھا جاتی ہے ،رات کافور ہوتی ہے اور دن نمودار ہوجاتا ہے ، صبح ہوتی ہے اور شام ہوجاتی ہے ،زندگی یوں ہی تمام ہو جاتی ہے۔ ؂
بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میں 
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اس قیاس کے ذریعے اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کے بے شمار طریقے ہیں ،جن میں سے دو مشہور طریقے یہاں پر لکھے جا رہے ہیں :
(۱)دوران یا طرد وعکس 
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کوئی علت اور وجہ بیان کردیں ۔پھر وہ علت اور وجہ جہاں جہاں پائی جائے ، وہاں وہاں اپنے مدعیٰ کو ثابت کردیں ۔جیسے کہ بقا ئے ایما ن کی آپ نے یہ علت بیان کی کہ جس طرح قرآن کو ماننا ضروری ہے ،اسی طرح احادیث کو ماننا بھی ضروری ہے ؛کیوں کہ ایمان برقرار رکھنے کے لیے وحی الٰہی کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے ،خواہ وہ وحی متلو ہو یا وحی غیر متلو ۔قرآن وحی متلو ہے اور احادیث وحی غیر متلو ۔اب جو شخص بھی ان میں سے کسی کو ماننے سے انکا ر کردے گا وہ خارج از ایمان ہو جائے گا ۔
اس علت کی روشنی میں یہ حکم ہر اس جگہ لگا سکتے ہیں جہاں کوئی صرف قرآن کو مانتا ہے اور حدیث کو نہیں مانتا ، جیسا کہ اہل قرآن نامی فرقے کا نظریہ ہے ۔یا صرف احادیث کو قابل حجت مانتا ہے اور قرآن کے بارے میں خرد برد کا اعتقاد رکھتا ہے ،جیسا کہ اہل تشیع کہتے ہیں ۔ 
(۲)سِبر وتقسیم
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دعوے کوثابت کرنے کے لیے اس کی بہت ساری وجوہات نکالیں ،پھر ان میں سے جو صحیح وجہ ہو ،اس کی وضاحت کردیں ۔جیسے آپ کسی مدرسے کے سنگ بنیا د پر تقریر کرتے ہوئے کہیں کہ 
’آج کل جو گلی گلی اورکوچے کوچے میں مدارس قائم کیے جا رہے ہیں ،ان کے قیام کے بے شمار مقاصد ہو سکتے ہیں:ایک مقصد تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس طرح ہم مہتمم بن جائیں گے اور ہمیں خود مختاری حاصل ہوجائے گی ۔ دوسرا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری قدرو منزلت میں اضافہ ہوجائے گا اور لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔تیسرا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری دنیاوی ومالی پوزیشن مضبوط اور مستحکم ہو جائے گی۔اگر چہ ان مقاصد کے لیے بھی مدرسے قائم کیے جارہے ہیں ؛لیکن یہ صحیح مقاصد نہیں ہیں۔صحیح مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے اسلام کی خدمت کا فریضہ انجام دیں گے اور شمع اسلام کی روشنی گھر گھر پہنچائیں گے ۔یہ مدرسہ بھی اسی مقصد کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ 
تقابل وموازنہ
تقابل وموازنہ سے بھی مدعیٰ کو مدلل ومستحکم کیا جاتا ہے ،کیوں کہ جب دو الگ الگ چیزوں کا باہم موازنہ و تقابل کیا جاتاہے ،تو دونوں کے مثبت ومنفی دونوں پہلو اجاگر ہوجاتے ہیں اور بات بالکل منقح ،واضح اور روشن ہوجاتی ہے،جیسے :
’’۔۔۔اللہ کے دربار میں ان دونوں میں زیادہ مقبول کون ہو سکتا ہے؟۔ اپنے دل میں خود سوچیے اور فیصلہ کیجیے کہ اللہ کے یہاں مقبولیت پیدا کرنے والی کون سی چیز ہو سکتی ہیں؟ پر تکلف لباس؟ لذیذ غذائیں؟ عمدہ کوٹھیاں؟ اعلیٰ سامان آرائش ؟ نمائشی چندے؟ رسمی جلسے؟ بناوٹی تقریریں اور تحریریں؟ یا اس کے برعکس زندگی کی سادگی؟ دل کی شکستگی؟ ایثار وخدمت گذاری؟ انکساری وخاکساری؟عاجزی وفروتنی؟ صبر وقناعت؟ زہد وعبادت؟ تقویٰ وطہارت؟ ‘۔ (مولاناعبدا لماجد دریا بادیؒ )
اثباتِ مدعیٰ کے مزید دیگر طریقے
اثبات مدعیٰ کے لیے بسااوقات خطیب کو اس مسئلے میں کسی فرقے کے خاص نظریے کی تردید کرنی پڑتی ہے ، اس کے کئی طریقے ہوتے ہیں :
(۱)کسی دلیل سے اس کے نظریے کی تردید کریں ۔
(۲)اس کے بعض پہلووں کو مان لیں اور بعض پر گرفت کر لیں ۔
(۳)س کے نظریے میں ہی کچھ ایسی خامیاں اجا گر کر دیں کہ وہ خود اس کی نگاہ میں باطل ہوجائے ۔
(۴)اس نظریے کے حامل افراد ۔جو آپ کے نظریے پر شک و شبہ قائم کیا ہوا ہے۔کے نظریے پر اسی طرح کے دوسرے شبہات وشکوک پیدا کردیں ،تاکہ ان کو خود اپنے نظریے میں تردد پیدا ہوجائے ۔
(۵)الزامی جواب دیں ،یعنی انھیں کے دلائل سے ان کی تردید کردیں۔
(۶)ان کے دلائل و شواہد کو مذاق کی نذر کردیں ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خطیب معقول دلیل پیش کرتا ہے ،لیکن کچھ نقاد سامعین اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس کی تردید کر بیٹھتے ہیں ۔ایسے موقعے پر جھنلانے یا پر پیچ منطقی دلائل دینے کے بجائے ایسی کھلی ہوئی اور واضح دلیل پیش کریں کہ اسے ہر کس و ناکس سمجھ سکے اور پھر اشکال کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ،جیسے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کے اعتراض پر دیا تھا ۔
یہاں یہ عرض کر دینا شاید بے محل نہ ہوگا کہ اثبات مدعیٰ کے حوالے سے اختصار کے باوجود بحث کافی لمبی ہوگئی؛ لیکن یہ وہ ناگزیر باتیں تھیں ،جن کا ایک خطیب کے لیے جاننا ضرور ی ہے ۔البتہ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہ دلائل و شواہد عموماََانھیں مجلسوں میں بیان کرنا چاہیے ،جہاں صرف اہل علم اور پڑھے لکھے حضرات تشریف رکھتے ہوں ۔ ہرمحفل اور عوام کے اجتماع میں ان سے گریز ہی بہتر ہے ۔الا یہ کہ وہ ہر پر پیچ بحثوں اور فلسفیانہ دلیلوں کو عام فہم اور سادہ اندازمیں بیان کرنے کا فن جانتے ہوں اور مشکل سے مشکل مسئلے کو آسان بنانے کے گر سے اچھی طرح واقف ہو ۔ بعض خطیبوں کودیکھا گیا ہے کہ وہ عوامی جلسے میں بھی دقیق وپیچیدہ مسائل اور منطقی دلائل کی بحثیں چھیڑدیتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے لوگ میری علمی قابلیت کی شہادت دیں گے ،حالاں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اس کا سراسر الٹااثر ہوتا ہے ۔عوام مجلس سے اٹھ اٹھ کر بھاگنے لگتے ہیں ۔اس لیے تقریر مقتضائے حال کے مطابق ہی کرنی چاہیے ۔
مراجعت
یہ تقریر کا چوتھا جز ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریر کا آغاز جس منزل سے کیا گیا تھا اور تمہید کے حصے میں جو اجمالا بیان کیا گیا تھا ،پھر اسی منزل کی طرف لوٹ آیا جائے اورتمام اجزا میں ربط و تسلسل اور ہم آہنگی کی وضاحت کی جائے ۔اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ تقریر کے مختلف عناصر کی توضیح کے دوران اگر کسی کو بے ربطی کا احساس ہوا ہوتا ہے ،تواس سے وہ ختم ہوجاتا ہے ۔اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خلاصہ و نتیجہ بیان کرنے میںآسانی ہوجاتی ہے اورمراجعت و خلاصے کے قریبی مضامین سے تکرار کی وہ صورت پیدا ہوجاتی ہے ،جس کا فائدہ فان الذکریٰ تنفع المؤمنین میں بتلا یا گیا ہے ۔
خلاصہ و اختتام
تقریر کا آغاز جس طرح اہم ہوتا ہے ،اسی طرح اس کا اختتام بھی بہت اہم ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ :
’’ابتدائیہ کی طرح اختتامیہ بھی دل فریب ہو ،تو خطابت کی چھاپ گہری ہو جاتی ہے ۔ایک عمارت کا آغاز کتنا ہی پر شکوہ ہو ؛لیکن اختتام تصدیق نہ کرے ،شکوہ مؤثر نہیں ہوسکتا ؛بلکہ کوئی سا نقص ساری عمارت کا عیب ہوجاتا ہے ۔اختتامیہ خطابت کا توشہ ہے ،اس سے خطابت کی یکسانی کا احساس قائم رہتا اور اظہار میں کسی عنوان سے کوئی تشنگی محسوس نہیں ہوتی ۔اور یہی چیز خطابت میں حسن و کمال ہے ۔‘‘
(ص؍۴۸)
اس لیے تقریر ختم کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیا ل رکھنا چاہیے :
(۱)دوران تقریر اِدھر اُدھر کی مختلف باتیں بھی آجاتی ہیں ،اس لیے بسا اوقات سامعین مرکزی موضوع کو فراموش کرجاتے ہیں ۔اس لیے اختتام میں سرسری طور پر شروع سے آخر تک تمام باتوں کا خلاصہ بیان کر دینا چاہیے ،تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ مرکزی عنوان کیا تھا ۔
(۲)اچانک تقریر ختم نہیں کرنی چاہیے ،بلکہ کسی پر لطف جملے یا موقع ومحل کے اعتبار سے جو چیز مناسب ہو ، اس پر ختم کرنی چاہیے ۔جیسے کہ کسی شعر یا مزاحیہ فقرے یا پھر کسی نام ور خطیب کے ایسے انداز اور طریقۂ کار سے ،جو لوگوں کے مابین مشہور و متعارف ہو اوروہ دل چسپی سے لبریز ہو ۔ 
اس بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں یہ عرض کردینا نامناسب نہ ہوگا کہ تقریر کے یہ پانچوں عناصر اس درجہ لازمی نہیں ہیں کہ اگر ان میں سے کسی کو برتنے میں کوئی جھول واقع ہوجائے یا کوئی عنصر چھوٹ جائے ،تو وہ تقریر کی حد سے ہی نکل جائے گی ؛بلکہ ان کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ ان کی رعایت کرنے سے تقریر کا حسن مزید نکھر جائے گا اور اس کی شیرینی،حلاوت ،چاشنی اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہو جائے گا ۔اس لیے خطیب کے لیے یہ گنجائش ہے کہ وہ موقع ومحل کی مناسب سے ان عناصرمیں حذف واضافہ کرسکتا ہے ۔ 

نقائصِ خطابت

(قسط نمبر (7) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

نقائصِ خطابت

نقائص سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ چیزیں خطیب کے میں پائی جاتی ہیں ،توممکن ہے کہ ان کی وجہ سے اسے کسی رسوائی کا سامنا کرنا پڑ جائے یا کم از کم اس کے متعلق سامعین چہ می گوئیاں کرنے لگیں۔چوں کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ الاشیاء تعرف باضدادہا ۔اس لیے مثبت پہلو (خصائص خطابت )کے تذکرے کے بعد اس کے منفی پہلو(نقائص خطابت )کے حوالے سے چند سطریں لکھی جارہی ہیں ۔
اسٹیج سے گھبراہٹ
تقریر اور اسٹیج دونوں تقریر کی ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں ۔اس لیے جب کبھی اسٹیج کا تصور کیا جائے گا،تو اس کے ساتھ تقریر کا تصور بھی ناگزیر ہوگا ۔اسی طرح جب جب بھی تقریر کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی ،تو ضرور بالضرور اسٹیج کے نقوش بھی ذہن میں ابھریں گے۔اسٹیج ہر مقرر کے لیے ایک امتحان اور آزمائش کی حیثیت رکھتا ہے ، جس سے خوف وہراس پیدا ہونا اور عقل حواس کا متأثر و مرعوب ہونا ایک فطری بات ہے ۔اس کی دو وجہ ہوتی ہیں :ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام سے گھبراہٹ اور مجمع سے خوف محسوس کرتا ہے ۔اور دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسٹیج پر جلوہ افروز مقررین حضرات سے مرعوب و متأثر ہوکر اپنی جرأت و خود اعتمادی کھوبیٹھتا ہے اور ان حضرات کے سامنے اپنے آپ کو ہیچ سے ہیچ تر سمجھنے لگتا ہے ۔اپنے تئیں اس کی یہ فکراس کے ذہن ودماغ پر اس قدر حاوی ہوجاتی ہے کہ وہ حواس باختہ ہوجاتا ہے جس سے اس کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے ،اور
’’اس ڈر سے کبھی اس کی آواز کانپتی ،کبھی دانت بجتے ،کبھی لہجہ پھسل جاتا ہے ۔حتیٰ کہ الفاظ گلے کی پھانس ہوجاتے اور خیالات چکنا چور ہونے لگتے ہیں ۔اس مرحلے میں صوت اور سکوت میں آویزش ہوتی ہے۔اِدھرآواز پر سکتہ طاری ہوتا ،اُدھر تلفظ میں سانس اکھڑجاتا ہے ۔اسی خوف سے کئی اضحوکے پیدا ہوجاتے ہیں،مثلا:آواز بے ہنگم ہوجاتی ہے۔واحد متکلم کی جگہ جمع متکلم اور تذکیر کی جگہ تانیث آجاتی ہے ۔تمام اجزائے دماغ بکھر جاتے ہیں،پاؤں ڈگمگاتے ،بدن پر کپکپی طاری ہوتی اور چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔‘‘ (ص؍۵۱)
جہاں تک پہلی صورت سے نجات پانے کا تعلق ہے ،تو اس سلسلے میں بڑے بڑے مقرروں کا آزمایا ہو ایہ نسخہ استعمال کیا جاسکتا ہے کہ جب تقریر کے لیے کھڑا ہو ا جائے ،تو اس وقت ذہن میں یہ تصور بیٹھا لیا جائے کہ سامعین بالکل جاہل ہیں ۔اس خیال کو اس طور پر ذہن میں راسخ کر سکتے ہیں کہ انسانی فطرت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ معلومات کو حاصل کرنے کے لیے جد وجہد نہیں کیا کرتا ؛کیوں کہ یہ تحصیل حاصل اور فعل عبث ہے ۔اب اگر سامعین اس کو سننے کے لیے آئے ہیں ،تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ مجہولات کی بابت ہی معرفت حا صل کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں ۔اس موقعے پر نفس یہ کہہ کر دھوکہ دے سکتا ہے کہ جو باتیں ہم بیان کر رہے ہیں ،ممکن ہے کہ سامعین میں سے کوئی ضرور واقف ہو ۔لہذا اگر کہیں غلطی ہوجاتی ہے ،تو ہم ضرور بالضرور تنقید وتعریض کے نشانے بنائے جائیں گے۔لیکن نفس کے اس بودے اور لچر پوچ بہانے سے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے ۔اس لیے کہ اس وقت آپ اپنے نفس پر اس یقین کا دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ باتیں سامعین میں کسی کو بھی معلوم نہیں ہے ۔کیوں کہ اگر انھیں معلوم ہوتیں ،تو وہ یہاں آتے ہی نہیں ۔اس لیے کہ جلسے کے اشتہار یا ایجنڈے سے موضوع کا اعلان کیا جا چکا ہے ،اس کے باوجود اگر وہ یہاں آئے ہیں ،تو یہ اس بات پر غماز ہے کہ وہ اس موضوع سے بالکل نا آشنا ہیں۔اس حیلے سے سامعین کا خوف دل سے نکال سکتے ہیں اور اپنے اندر خود اعتمادی و جرأت پیدا کرسکتے ہیں ۔
دوسری صورت سے پیدا ہونے والے خوف وہراس کو اس طور پر ختم کیا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے ذہن میں اس بات کو مضبوطی کے ساتھ بیٹھا لیں کہ یہ رونق افروزان بزم اوراسٹیج پر تشریف فرمامقررین سبھی کچھ جانتے ہیں اور ہمہ گیر معلومات رکھتے ہیں ؛لیکن یہ کوئی پھاڑکھا نے والے درندے تو ہیں نہیں،جن سے ہم خوف کھائیں ۔بلکہ یہ بھی تو ہماری طرح ایک انسان ہیں ۔خطا اور نسیا ن سے مرکب ہیں۔غلطیاں تو ان سے بھی سرزد ہوسکتی ہیں ۔جب مذکورہ بالا دونوں تصورات کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے ہوں گے ،تو خوف وگھبراہٹ ختم ہوتی چلی جائے گی ۔آپ کے اندر جرأت وخود اعتمادی کی کیفیت پیدا ہوجائے گی اور آپ بہت جلد ایک بے باک اور نڈر مقرر بن جائیں گے ۔پھر خواہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر کی طرح انسانوں کی تعداد کیوں نہ ہو؛آپ بالکل خوف نہیں کھائیں گے ۔بلکہ انھیں دیکھ کر آپ کے اندر اور حوصلہ پیدا ہوگا اورآپ کی ہمت کو مزید تقویت ملے گی۔
اگر ان دونوں تھیوریوں سے بھی آپ کا نفس قابو میں نہ آئے ،تو اس کا سب سے آخری ،زود اثر اور پکا علاج یہ ہے کہ آپ مشق خطابت کو معمولاتِ زندگی کا جز بنا لیجیے۔اور جس طرح کھانے کے بغیر آپ ایک دن بھی نہیں گذارتے، اسی طرح جس دن مشق نہ کرلیں ،اس دن کھانا پینا ؛سب چیز ممنوع کر لیجیے۔بہر کیف آپ اس بات کو پلو میں باندھ لیجیے کہ پابندی اور تسلسل کے ساتھ مشق آپ کے اندر پوشیدہ جھجھک کو ختم کردے گی ۔پھر آپ بڑے سے بڑے مجمع کے سامنے برملاوبرجستہ تقریر کرنے پر قادر ہوجائیں گے۔مشق خطابت کے حوالے سے ایک مستقل عنوان آگے آئے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
غیر مہذب انداز بیان
بعض لوگ جب تقریر کرنے بیٹھتے ہیں ،تو شروع ہی سے ایسا غیر مہذب اسلوب اور ناشائستہ انداز تکلم اختیار کرتے ہیں کہ سامعین ناگواری محسوس کرنے لگتے ہیں اور مقرر کے متعلق چہ می گوئیاں کرنے لگتے ہیں ۔مثلا اس طرح کے الفاظ و القاب سے خطاب کرتے ہیں ،جو عام بول چال میں بھی نامناسب اور غیر مہذب سمجھے جاتے ہیں۔جیسے کہ اس طر ح کے الفاظ:ائے بدمعاشو!سنبھل جاؤ۔سامعین تمھیں بار بار بتلا یا جاتا ہے ،اس کے باوجود تمھارے گدھے پن میں کوئی فرق نہیں آتا ۔حاضرین!جانوروں کی طرح شور مت مچاؤوغیرہ وغیرہ۔اسی طرح بعض لوگوں کا انداز تخاطب کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ سامعین یہ نتیجہ اخذ کرنے میں ذرا بھی نہیں چونکتے کہ خطیب موصوف اپنی علامیت جھاڑ رہے ہیں اور ان کی بات بات سے غرور و تکبر کی بو آرہی ہے ۔مثلا اس طرح کا انداز کہ’جہاں تک میرا مطالعہ کہتا ہے ‘۔جہاں تک میری علمی تحقیق شہادت دیتی ہے ۔جو بات میں بیا ن کر رہاہوں ،وہ تمھیں کوئی نہیں بتا پائے گا وغیرہ۔اسی طرح کسی ایسی محفل میں جہاں بڑے بڑے مقرر موجود ہوتے ہیں ،اور وہاں کسی چھوٹے اور غیر معروف مقرر کو موقع مل جاتا ہے ،تو اپنی صلاحیتِ خطابت کے اظہار،سامعین پر اپنا رعب و دبدبہ اور اثر ورسوخ قائم کرنے کے لیے خواہ مخواہ بلا ضرورت چیخنے چلانے لگتے ہیں اور بڑے مقرروں پر حاوی ہونے کی فکر میں اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ وہ تقریری نزاکت کو ملحوظ نہیں رکھ پاتے ،جس سے بیان کی فطری و ترکیبی ترتیب قائم نہیں رہتی اور تقریر بے اثر ہوجاتی ہے ۔یاد رکھیے کہ ایسی کوئی بھی حرکت جس سے سامعین کسی منفی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ،مقرر کے لیے مضر ہے اور اسے گریز کرنالازم ہے۔
گھسا پٹا یا خشک موضوع
کچھ خطیب ،خطیب و مقررکہلانے کے شوق میں چند تقریریں رٹ لیتے ہیں یا رٹتے تو نہیں ہیں ؛البتہ ان کا مطالعہ اور معلومات اتنی محدود ہوتی ہیں کہ ہر جلسے میں باربار انھیں محدود معلومات کو دھراتے رہتے ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور موضوع پر نہیں بولتے یا بول ہی نہیں پاتے ۔اسی طرح بعض خطیب ہر پروگرام میں ایسے موضوع کو چھیڑتے ہیں ،جومیڈیا اور مبلغین کی زبانی بے پناہ چرچامیں رہنے کی وجہ سے عوام و خواص میں فرسودہ ہوچکا ہوتا ہے۔اسی طرح کچھ مقررصرف انھیں مسائل و موضوع پر خطاب کرتے ہیں ،جن سے ان کو ذاتی دل چسپی اور میلان ہوتا ہے یا کوئی خاص موضوع ان کی شناخت بن چکا ہوتا ہے۔ایسے مقرر اس بات کو بالکل مد نظر نہیں رکھتے کہ مجلس کس نوعیت کی ہے ۔ یہاں پر ہمیں کس موضوع پر تقریر کرنی چاہیے ؟ان چیزوں سے سامعین غلط تأثرلیتے ہیں اور وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ مقررموصوف بھی انگلی کٹا کر ؛بلکہ رنگا کر شہیدان خطابت کی فہرست میں اپنے نام کا اندراج کرانا چاہتے ہیں یا خریداران یوسف میں سے ایک بے بضاعت بڑھیا کا ہم منصب ہونا چاہتے ہیں۔ 
خود ستائی
بعض مقرروں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ بیٹھتے ہی حمد وثنا کے بعد قبل اس کے کہ موضوع کی اہمیت و فضائل پر روشنی ڈالیں؛اپنے ہی فضائل ومناقب بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔جیسے کہ :میں ایسی ویسی چھوٹی موٹی محفل میں شرکت نہیں کرتا ،یہ تو میری کسر نفسی مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ میں اس جلسے میں حاضر ہوتا ۔۔۔۔۔۔میرا یہاں آنا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں تھا ،کیوں کہ میرے اسفار پہلے ہی سے اتنے بک تھے کہ یہاں آنے کی کوئی تاریخ ہی خالی نہ تھی۔لیکن بمشکل تمام دیگر تاریخوں کو کینسل کرکے یہاں حاضر ہوا ہوں ۔۔۔۔یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ میں آپ کے درمیان حاضرہو ں اور میرے بیان سننے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ،ورنہ میری تقریر سننے کے لیے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔اس طرح کی باتیں خطیب یہ سمجھ کر کرتا ہے کہ ان سے میری اہمیت بڑھے گی اور سامعین یہ خیال کریں گے کہ حضرت کیا ہی مقبول بارگاہ الٰہی اور محبوب خدا وندی ہیں کہ خلق خدا پروانہ وارحضرت کے آستانے کا چکر لگاتی ہے اور ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب و بے چین رہتی ہے۔حالاں کہ وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ سامعین جس طرح خطیب کے مطیع ومنقاد ہوتے ہیں ،اسی طرح وہ ناظرو نقاد بھی ہوتے ہیں۔ 
حد سے زیادہ عاجزی کا اظہار
کچھ لوگ تقریر کا آغاز ہی ایسے جملوں سے کرتے ہیں ،جن سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ خاکساری وفروتنی اور توضع و انکساری کی کہیں کوئی عملی مثال ہے ،تو وہ حضرت خطیب ہی ہیں ،مثلا :حضرات!میں کیاتقریر کروں ،مجھے تو بولنا ہی نہیں آتا ۔۔۔اس موضوع پر میری کوئی تیاری ہے اور نہ ہی کچھ مطالعہ ؛لیکن جب تقریر کا حکم دے دیا گیا ہے ، تو چند باتیں سن لیجیے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔موصوف کی ماورائے اسٹیج زندگی کی کیا کیفیت ہے ،وہ تو ایک الگ موضوع ہے ۔ ان کے ان الفاظ سے سیدھے سادے لوگ اور بھولی بھالی عوام تو یہی سمجھے گی کہ اگر کچھ آتاہی نہیں ،تو تقریر کرنے کیوں بیٹھ گئے۔اور اگر کچھ آتا ہے اوراسی کی بنیاد پر مدعو بھی کیا گیا ہے ،تو ان جملوں سے منفی مدحت طلبی کے علاوہ اور کیامقصد ہوسکتا ہے ۔شہنشاہ خطابت جناب شورش کاشمیری تحریر فرماتے ہیں کہ 
’’اس سلسلے میں ایک چیز زبان و بیان سے متعلق مقرر کی انا(Ego) ہے ۔اگر وہ معذرت کالہجہ اختیار کرتا ہے ،تو اس کا مطلب ہے کہ اپنے بارے میں تذبذب کا شکار ہے ۔اور جب مقرر تذبذب کا شکار ہو،تو وہ اپنے ساتھ انصاف نہیں کرتا ۔اس کامجمع سے کسی تحسین یا انصاف کا توقع رکھنا واہمہ ہے ۔ ایک اچھا مقرر اپنے بارے میں کبھی انکسار نہیں کرتا ۔کسی خیال سے کبھی معافی نہیں چاہتا ۔کسی عنوان سے کسر نفسی کا شکار نہیں ہوتا اور نہ اپنے جوہر کو منحنی الفاظ سے پسپا کرتا ہے ۔وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے ،پورے استغنا و استقامت کے لہجے میں جماؤ سے بولتا ہے ۔ اس قسم کے فقرے :’حضرات!میں زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ ۔۔۔۔چند کلمات سماعت فرمائیے۔ ۔۔۔۔مجھے اپنی کوتاہ فکری کا احساس ہے۔۔ ۔۔۔۔میری غلطیوں سے چشم پوشی کیجیے ‘کسی خوبی کا اظہار نہیں ،بلکہ کمزوری کا اقرار ہے۔آپ اس لیے تقریر نہ کریں کہ آپ بولنا چاہتے ہیں یا آپ کو تقریر کا شوق ہے ۔آپ اس لیے تقریر کریں کہ لوگ اس کو سننا چاہتے ہیں اور آپ کی تقریر کو مجمع کی ضرورت ہے۔‘‘(ص؍۵۶)
المختصر حد سے زیادہ عاجزی وکم مائیگی کے اظہار کا لب ولہجہ خطیب کے لیے ایک نقص ہے ا وراس سے گریز ہی بہتر اور کامیابی کی دلیل ہے ۔ 
تکیۂ کلام
کچھ خطیب مخصوص جملے بلا تکلف اور انتہائی بر جستگی کے ساتھ بار بار بولتے رہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ بر محل واقع ہوتے ہیں ؛بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی عادت سے مجبور ہوتے ہیں ،جس کی بنا پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ الفاظ ان کی زبان سے خود بخود نکلتے رہتے ہیں ۔جیسے کہ ہر دوچار جملوں کے بعداس طرح کے الفاظ دہرانا کہ سامعین! سمجھے کہ نہیں سمجھے۔۔۔ہاں تو میںیہ عرض کررہا تھا ۔۔۔جو ہے کہ جوہے کہ ۔۔۔میرے بھائیو،بزرگو،دوستو!۔۔۔آپ سن رہے ہیں کہ نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ان جملوں سے جہاں ایک طرف تقریر کی شیرینی و شگفتگی جاتی رہتی ہے اور ان کے بار بار ضرب تکلم سے گوش سماعت مجروح ہوجاتا ہے ،وہیں دوسری طرف وہ جملے ان کی شخصیت کے لیے شناخت اور اضحوکہ بن جاتے ہیں ۔اس لیے مشق اور ہر ممکن کوشش کے ذریعے اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ 
ایکٹنگ اور مخصوص عادی حرکات 
بعض خطیبوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ تقریر کرنے کے ساتھ ساتھ ایکٹنگ بھی کرتے رہتے ہیں اور جوش خطابت میں اتنا زیادہ اچھلنے کودنے لگتے ہیں کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ خدشہ ہونے لگتا ہے کہ پائے اسٹیج کہیں دھڑام نہ ہوجائیں ۔یہ نامناسب حرکتیں ہیں ؛کیوں کہ 
’’خطابت اداکاری نہیں اور نہ مقرر کسی ناٹک یا کھیل کا ادا کار ہے ۔اپنے چہرے مہرے پہ اداکاری ، جلال وجمال پیدا کرتا ہے ،تو ممکن ہے مجمع کے جزو کل میں کوئی عارضی لہر پیدا ہو ؛لیکن ایک ڈرامائی کیفیت ہوگی کہ بگٹٹ آتی اوربگٹٹ چلی جاتی ہے۔یہ کہنا شاید نفس مضمون کی رعایت سے کسی حد تک صحیح ہو کہ خطیب میں اداکاری کی فنی خوبو کا پر توضرور ہوتا ہے ؛لیکن یہ لازمہ نہیں ۔اداکار تماشا ہوتا ،ناظرین تماشائی،خطیب راہ نما ہوتا ،سامعین راہ رو ۔ فی الجملہ اداکا رکا فن مسرت اور خطیب کا فن عزت ہے۔ظاہر ہے کہ اداکار کا فن اس کا پیشہ اور خطیب کا فن اس کا فرض ہے اور فرض کسی تصنع سے ادا نہیں ہوتا۔‘‘ (ص؍۷۰)
کچھ مقرر ایکٹنگ تو نہیں کرتے ،البتہ کچھ ایسی حرکتوں کے وہ عادی ہوتے ہیں کہ ناچاہتے ہوئے بھی لاشعوری طور پر وقوع پزیر ہوتی رہتی ہیں،جن کا احساس خود مقرر کو تو نہیں ہوتا ،البتہ سامعین وناظرین ان کو دیکھ کر ضرور اچنبھے میں پڑجاتے ہیں اور زیر لب مسکراتے ہوئے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں ۔جیسے :بہت زیادہ ہاتھ اڑانا ۔ مسلسل سر کو مخصوص انداز پر حرکت دینا ۔بار بار سینے کو آگے پیچھے کرنا ۔دائیں بائیں زیادہ مائل ہوتے رہنا وغیرہ۔ 
بے تحاشا چیخ و پکار کرنا 
کچھ خطیب شروع ہی سے بے تحاشا چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں اور الفاظ کا جو فطری مدو جزر ،زیرو بم اور اتارچڑھاؤ ہوتا ہے ،اس کا بالکل بھی خیال نہیں کرتے ۔بس وہ جوش میں گرجتے اور برستے چلے جاتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ سامعین محظوظ ہورہے ہیں اور ہمیں دادو تحسین سے نواز رہے ہیں ۔حالاں کہ ہوتا یہ ہے کہ بے تحاشا چیخنے سے آواز متأثر ہوجاتی ہے ،لہجے میں کرختگی اور خشکی پیدا ہوجاتی ہے ،جس سے سامعین ناگواری محسوس کرتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ مقرر ان باتوں سے بخوبی واقف ہو کہ تقریر کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟کہاں پر کیسا لہجہ اور کس طرح کا انداز اختیار کرنا چاہیے ؟کہاں پر اتار اور کہاں پر چڑھاو ہونا چاہیے ؟ان تمام باتوں کے حوالے سے مفصل گفتگو آگے آئے گی۔ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
نقالی و تقلید
بعض حضرات ان لب ولہجے میں تقریر کرنا اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں، جو کسی بڑے خطیب کے ہوتے ہیں اور وہ انداز ان کی شناخت بن چکا ہوتا ہے ،جیسے مولانا ابو الکلام آزادؔ ؒ کا لہجہ ،قاری حنیف ؒ کا انداز بیان اور ان کے علاوہ دیگر مشہور ومعروف خطیبوں کے اسلوب ۔اس حوالے سے جناب شورش کاشمیری کا مشورہ یہ ہے کہ 
’’اس سلسلے کی بنیادی چیز یہ ہے کہ کسی مقرر کی نقل نہ کریں ۔اس کی کاپی نہ بنیں اور نہ تتبع یاتصنع سے کام لیں ۔نہ لوگوں کو بنائیں اور نہ خود بنیں ۔ممکن ہے اس طرح آپ فائدہ اٹھا لیں ؛لیکن یہ تمام چیزیں شعلۂ مستعمل ہیں ۔آپ اس طرح اپنے لیے کوئی مقام پیدا نہیں کرسکتے اورنہ اشہب کے سوار ہوسکتے ہیں۔ کسی خطیب یا مقرر میں ذاتی انفرادیت نہ ہو،تو عوام کے ذہنوں پر اس کی چھاپ لگنا مشکل ہے‘‘۔ (ص؍۶۹و۷۰)
کسی کی نقالی اس لیے بھی بے سود ہے کہ مجمع میں مختلف و متنوع طبائع کے لوگ ہوتے ہیں ۔ہر ایک کی پسند و نا پسند الگ الگ ہوتی ہے ۔کسی کے نزدیک مولانا ابو الکلام کا لہجہ ہی تقریر ہے ،توکسی کے نزدیک کسی اور کا اسلوب۔ اور ظاہر ہے کہ ایک ہی تقریر میں سب کا لہجہ اختیا ر کر نے کوشش کرنا ایک لایعنی عمل ہے ۔علاوہ ازیں مجمع آپ کے نام پر اکٹھا ہو اہے ،جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو سننے کے لیے حاضر ہوئے ہیں نہ کہ کسی اور کو ۔ اس لیے دوسروں کا اسلوب اختیار کرنا اور دوسروں کے لب ولہجے میں بولنا بے فائدہ اور لاحاصل ہوگا ۔
سب بات بیان کرنے کی خواہش
بعض خطیبوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو تقریر کا موقع مل جاتا ہے ،تو وہ کرسیِ خطابت سے اس وقت تک نہیں اترنا نہیں چاہتے ،جب تک کہ سب باتیں نہ بیان کرلیں ،جس کی وجہ سے تقریر بے موضوع ،بد مزہ اور اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ سامعین اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور دل ہی دل میں یہ تمنا کرنے لگتے ہیں کہ جلدی سے وہ گھڑی آجائے ،جب کہ خطیب موصوف یہ جملہ کہیں کہ وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین ۔یاد رکھیے کہ وہی تقریر کامیاب ، زود اثر ،مؤثراور دل نشیں ہوتی ہے ،جو سامعین کی من پسند ہو ۔اس لیے ایک مقرر کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقریر سے پہلے ان باتوں پر غور کرلے کہ اس وقت طول طویل تقریر کار گر ہوگی یا مختصر بیان ہی زیادہ مفید ہوگا ۔ اس بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ:
’’بعض مقرروں میں شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ نقص ہوتا ہے کہ جس موضوع پر جلسہ ہورہا ہے ،وہ اس کے متعلق سبھی کچھ کہہ دینا چاہتے ہیں اور ساتھی مقرروں کے لیے شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ چھوڑنا نہیں چاہتے یا کچھ مقرراپنے سے بہتر مقرر کی موجودگی سے مرعوب ہوکر احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں غلط ہیں ۔اپنے حدود میں رہیے ۔عوام کے لیے بار نہ بنیے ۔وہ دوسرے مقرروں کوبھی سننا چاہتے ہیں ۔جب ایک جلسے میں کئی مقرر ہوں،تومجمع فرد واحد کے لیے نہیں،سب کے لیے ہوتا ہے اور ان سب کے نام پر اکٹھا ہوا ہے ۔‘‘ (ص؍۵۳) 
اسی لیے جب کئی مقرر موجود ہوں ،تو ایجاز و اختصار ہی سے کام لینا چاہیے اور طول طویل تقریر سے عوام کے چہرے پر بے زاری کی شکن پیدا نہ ہونے دینا چاہیے ۔
خود نمائی اور بے جا تکلفات
صفائی ستھرائی اور طہارت و نظافت پر جتنا زور اسلام نے دیا ہے ،اتنا زور کسی اور مذہب نے نہیں دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے ۔ایک خطیب کی ذات اور زندگی صرف اسی کی ذات اور زندگی تک محدود نہیں رہتی ؛بلکہ اس کی ذات اور زندگی دونوں لوگوں کے لیے آئدیل لائف ہوتی ہیں ۔اس لیے کسی خطیب کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات پر کسی قسم کا کوئی دھبہ یا بٹہ لگا لے اور اپنی زندگی کو کسی بھی اعتبار سے مجروح اور قابل لعن طعن بنالے ۔اعلیٰ سے اعلیٰ ڈرائی کلینر میں دھلے ہوئے کپڑے ،پریس دار ،کرچ دار ،کلف دار اور حسب ذوق نیل دار کرتے ،قیمتی سے قیمتی جوڑے ،بیوٹیڈ چہرے ،سلیقہ مند بال،حسن ذوق اور صفائی ستھرائی کے اعلیٰ معیار ہیں ؛لیکن ان چیزوں میں حد سے زیادہ غلو ،مثلاگل و بوٹے سے مزین زری کاری کرتے ،چمکیلے ،بھڑکیلے اور رنگیلے عبا و قبا ،نمایاں کرم پوتے چہرے ،فیشن کٹ بال اور ایسا اسمارٹ بننے کی کوشش کہ اسٹیج پر آتے ہی سب لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے ؛ایک خطیب کو بالکل زیب نہیں دیتا ۔
بعض حضرات اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی پُر وقار اور نستعلیق دکھانے کے لیے لباس کی طرح سفر وغیرہ کے حوالے سے بھی بہت زیادہ نزاکت کا اظہار کرتے ہیں ۔چنانچہ بعضوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب تک ان کے لیے اے۔سی کے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ بک نہیں کرالیا جاتا ہے ،اس وقت تک وہ سفر کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ۔اسی طرح جب تک ان کے من پسند کھانے پینے کے بارے میں انھیں مکمل طور پر مطمئن نہیں کر دیا جاتا ہے ،اس وقت تک وہ اپنی تاریخ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔بعض حضرات کی حیثیت تو اس اہتمام کی متقاضی ہوتی ہے ،جن کے لیے ایک حدتک ان باتوں کو روا رکھا جاسکتا ہے ۔لیکن بعضے اس لیے ایسا کرتے ہیں تاکہ منتظمین ان کے اعلیٰ ذوق کے حامل ، انتہائی نازک مزاج اور بہت زیادہ پر وقار ہونے کی شہادت دے سکیں ۔حالاں کہ ان چیزوں کی وجہ سے لوگ انھیں پروقار اور نستعلیق سمجھنے کے بجائے اجڈپن، اکھڑ مزاج اور تکلف پسند سمجھتے ہیں اور اپنے پروگرام میں بلانے سے ہچکچاتے ہیں ۔
فیس بازی
نبی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق تبلیغ و خطابت واجب اور فرض ہے ۔فرض نہ تو کسی طرح کے ڈھونگ سے ادا ہوتا ہے اور نہ ہی اجرت و معاوضہ لے کر یہ کام کرنے سے ۔لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کچھ مقرروں کو دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی ان کے پاس دین کی باتیں سننے کی غرض سے پروگرام کی تاریخ لینے آتا ہے ،تو اول وہلہ میں اپنی متعینہ فیس کا مطالبہ کر ڈالتے ہیں اور اس کے فیصلے کے بغیر آگے کچھ بات ہی کرنا نہیں چاہتے۔وہ اس بات کابھی خیال نہیں رکھتے کہ اس لین دین کی گفتگو سے میرے متعلق کیا تأثر لیا جائے گا۔
اگر چہ یہاں پر معاملہ ایسا ہے کہ ’’کچھ سونا کھوٹا ،کچھ سنار کھوٹا ‘‘کیوں کہ ایسا معاملہ بھی سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے پروگرام میں مدعو کرلیتے ہیں اور سفر کے اخراجا ت تک نہیں دیتے ۔ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں مجبورا زبان تو کھولنی ہی پڑے گی ؛لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ داعی کی انتظامی پوزیشن کی پرواہ کیے بغیر جب تک دس بیس ہزار کی خطیر رقم پہلے ہی طے نہ ہوجائے اور زر ضمانت کے طور کچھ جمع نہ کردے ،تب تک آگے کچھ بات ہی نہ کرے ۔یہ جہاں اخلاقی غیرت کے منافی ہیں ،وہیں دینی حمیت بھی اس کی ابا کرتی ہے ۔ یہ نہ صحابۂ کرام کا اسوہ تھا اور نہ ہی اکابر و اسلاف کا وطیرہ ؛بلکہ یہ عصر حاضر کی زر طلبی کی ہوس اور مادیت پرستی کا جنوں ہے، جو ایک مقررکو مجبوری کے نام پر زیور اخلاص سے معطل کر دیتی ہے ۔