4 Apr 2018

تقریر کی تقسیم

(قسط نمبر (9) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

تقریر کی تقسیم

فنی حیثیت سے اگر چہ اساتذۂ فن میں سے کسی نے بھی اس کی کوئی حتمی و قطعی تقسیم نہیں کی ہے ،جس میں شکست نا ممکن ہو ،کیوں کہ یہ خود ناممکن ہے ۔اس لیے کہ تقریر احوال و واقعات کی پیدا وار ہوتی ہے اور ان میں اس قدر تنوع وتلون ہے کہ ان کی حدبندی نہ صرف مشکل ہے ؛بلکہ قوت بشریہ سے باہر ہے ۔المختصر تقریر کو کسی یقینی خانوں میں تقسیم کرنا ممکن نہیں ہے ۔نئے نئے حالات و واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شاخیں بھی نکلتی رہتی ہیں ۔ اس لیے اس کی درجنوں قسمیں ہوسکتی ہیں ۔ذیل میں چند قسموں کا تذکرہ کیا جارہا ہے ۔ 
مذہبی تقریریں
ان تقریروں میں مذہبیات و دینیات سے گفتگو کی جاتی ہے ۔ان میں کبھی دین و مذہب کے حوالے سے صرف مسائل و عقائد کی وضاحت کردی جاتی ہے اور جو کچھ صحیح یا غلط مقرر کے مذہب اور اس کے اعتقاد میں ہوتا ہے، اس کو اپنے انداز و بیان میں سامعین کے سامنے بیان کر دیتا ہے اور کبھی ان کے ساتھ ساتھ منفی پہلووں کی بھی نشاندھی کر کے ان سے بچنے کی ہدایت کرتا ہے ۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مقرر مذاہب عالم کا تجزیہ پیش کرتا ہے اور پھر اپنے مذہب کی برتری،آفاقیت اور عالم گیریت کو ثابت کرنے کوشش کرتا ہے ۔اس طرح کی جتنی بھی تقریریں ہیں ، سب مذہبی تقریروں میں شامل ہیں۔ 
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ مذہبی تقریروں کا انداز اور لب ولہجہ کیسا ہونا چاہیے ؟تو اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ انداز خطابت کا سراسر دارومدار موضوع پر ہے ۔اگر موضو ع جو ش وہنگامہ آمیز اور تحریک جذبات کا داعی ہے ،تو اس وقت جوشیلالب ولہجہ اور جذبات مشتعل کن انداز اختیار کرنا چاہیے ۔اور اگر موضوع سرد ہو یا پھر علمی عنوان ہو،تو ظاہر ہے کہ یہاں تحریک جذبات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،اس لیے اس کے لیے سمیل اور سادہ انداز ہی زیاد ہ موزوں ہے ۔
سیاسی تقریریں
ان تقریروں کا موضوع حالات حاضرہ ،ملک کی پالیٹکس پالیسیا ں،بین الاقوامی سیاسی رخ ،تاریخ کی روشنی میں قوموں کے عروج وزوال کا تجزیہ اور ہر وہ مسائل ہیں ،جو اس وقت موضوع بحث بنے ہوتے ہیں ۔ان میں حقائق کم اور پروپیگنڈا زیادہ بیان کیے جاتے ہیں ۔الزام تراشی ،عیب جوئی ،دروغ گوئی ان کی خاص خصوصیت سمجھی جاتی ہے ۔ ہنگامہ آرائی اور تحریک جذبات ان کی مقبولیت کا خاصہ ہے ۔سیاسی عنوان پر وہی تقریریں کامیاب ثابت ہوتی ہیں ،جن میں مقرر اپنی آتش بیانی سے سامعین کے جذبات کو بر انگیختہ کر دیتا ہے اور نفسیاتی طور پر اپنا ہم نوا و ہم خیال بنا لیتا ہے ۔ 
تعزیتی تقریریں
ان تقریروں میں دنیا سے گذر جانے والوں کے اوصافِ حمیدہ ،ان کے رہن سہن ،چال ڈھال ،لین دین ، ایک دوسرے کے ساتھ اچھے میل جول اور بہتر تعلقات کا تذکرہ کیاجاتاہے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی تلقین اور نعم البدل عطا کرنے کی دعا دی جاتی ہے ۔ایسی تقریروں کالب و لہجہ غم آمیز ہوتا ہے ،جوش وخروش ،تحریک جذبات اور ہنگامہ آرائی سے گریز کیا جاتا ہے ۔بس جو کچھ بیان کرنا ہوتا ہے ،خطیب اسے عام گفتگو کی طرح بیان کر دیتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حد سے زیادہ دردو غم کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی خوب زور زور سے رونا دھونا شروع کر دینا چاہیے ؛کیوں کہ ہر چیز اس کی حد تک ہی ٹھیک رہتی ہے ۔حد سے تجاوز کر جانے پر الٹا اثر ہونے لگتا ہے ۔ایسی صورت میں سامعین یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسے کچھ غم وم نہیں ہورہا ہے ؛بلکہ یہ تو ڈھونگ کر رہاہے ۔
خطبے
تقریر ہی کے قبیل سے جمعہ اور عیدین کے خطبے بھی ہیں ۔اسلام نے جمعہ و عیدین کی نما ز کے ساتھ خطبے کو بھی ضروری قرار دیا ہے ۔ان میں حمد و نعت ،شریعت کے احکام ،اوامر و نواہی اور حالات حاضرہ کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں ۔ان خطبوں سے اسلام کا مقصد یہ تھا کہ عام و خاص سبھی آدمی دین کی ضروری باتوں اور بر وقت پیش آنے والے مسائل سے واقف ہوسکیں ۔چنانچہ شروع عہدِاسلام سے لے کر تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ؛لیکن ان سے جو فوائد مطلوب تھے اور پہلے وہ حاصل بھی ہوتے تھے ،اب حاصل نہیں ہورہے ہیں ۔اس کی چند وجوہات ہیں،جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ خطبے عربی زبان میں دیے جاتے ہیں اور عربی سمجھنے والے خا ل خا ل ہی نظر آتے ہیں ۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں عصر حاضر سے اٹیچ مسائل بھی بیان نہیں کیے جاتے ہیں ؛بلکہ پرانے زمانے کے جو مقفیٰ و مسجع خطبے چھپے ہوئے ہیں ،انھیں کی تلاوت کر دی جاتی ہے ۔کوئی نیا مضمون بیان نہیں کیا جاتا ۔
بہر کیف ان کے افادی پہلو سے قطع نظر ان خطبوں کا انداز خطیبانہ ہونا چاہیے اور ایک دینی تقریر کے لیے جو لب ولہجہ اختیار کیا جا تا ہے اسی لب ولہجے میں خطبہ دینا چاہیے۔کتاب پڑھ کر سنانے یا تلاوت کے اندازمیں خطبے نہیں دینا چاہیے ۔
تقریر کرنے کی مختلف صورتیں
اگر چہ تقریر کا لفظ ہی سننے سے یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ وہ زبانی گفتگو ،جومخصوص طرز اورمنفرد لب ولہجے کے ساتھ اسٹیج کی کرسی پر بیٹھ کر کی جاتی ہے ۔لیکن عصر حاضر میں اس طریقے کے علاوہ اور بھی کئی طریقے اور صورتیں رائج ہیں ، جو درج ذیل ہیں :(۱)لکھے مضمون کو پڑھ کر سنانا (۲)لکھ کر زبانی یاد کرکے تقریر کرنا (۳)فی البدیہہ بیان کرنا ۔ان تین صورتوں میں سے آخر الذکر صورت ہی تقریر کی اصل صورت ہے ۔باقی اول الذکر دونوں صورتیں اگر چہ صورتا تقریر ہی ہیں؛ لیکن حقیقتا انھیں تقریر کے نام سے پکارناصحیح نہیں ہیں۔
اول الذکر صورت اس وقت اختیار کی جاتی ہے ،جب کوئی تجویز اور ریگولیشن وغیرہ پیش کی جاتی ہے یا پھر کسی بڑے آدمی کا لکھا ہو ا کوئی پیغام سامعین تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے ۔تقریر کی اس صورت میں حسب موضوع انداز اختیار کرنا چاہیے ،مثلااگر اس پیغام میں حکومت وقت سے کسی چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے اور مطالبہ پورا نہ کرنے پر منفی پہلو کی بھی نشاندھی کی گئی ہے،یا کسی تحریک کے چلانے وغیرہ کی دھمکی دی گئی ہے، تو اسے ایسے بھیانک انداز اور خوف ناک لب ولہجے میں پڑھنا چاہیے کہ کہ حکومت کے ایوان میں زلزلہ پیدا ہوجائے اور سامعین یہ محسوس کرنے لگیں کہ واقعی اس میں جن خدشات اور رد عمل کا اظہا ر کیا گیا ہے ،وہ واقعی ہو کر رہے گا ۔
تقریر کی دوسری صورت اگر چہ صورتا تقریر ہی محسوس ہوتی ہے ؛لیکن اس کا جو فطری اثر سامعین پر ہونا چاہیے اور عوام کو جو لذت وچاشنی محسوس ہونی چاہیے ،اس سے یہ تقریر محروم ہوتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو الفاظ فطری طور پر جس کی زبان سے نکلے ہوئے ہوتے ہیں ،وہ انھیں کی زبان سے اچھے لگتے ہیں اور سامعین پر جادو کی سی کیفیت پیدا کرتے ہیں ۔اس کے بر عکس جب کوئی کسی دوسرے کی تقریر رٹ کر کرتا ہے ،تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی کوا بلبل کی بولی بولنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اس سے نہ تو وہ خود متأثر ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو متأ ثر کر سکتا ہے۔ اس لیے اس طریقے سے گریز ہی بہتر ہے،البتہ مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛بلکہ اس کے لیے شروعات میں یہی طریقہ سب سے زیادہ مفید ہے ۔رٹ کر تقریر کرنے کا ایک منشا یہ ہوتا ہے کہ جب ہم شستہ و شائستہ اور معیاری زبان کو اچھی طرح رٹ کر تقریر کریں گے ،تو لوگ ہماری تقریر سے مرعوب ہوں گے اور وہ یہ سمجھیں گے کہ مقرر موصوف کو زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل ہے ۔اس سے ہماری قدروں میں بلندی آئے گی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اونچے اونچے الفاظ کا استعمال کسی کی قدروں کو بلندی عطا نہیں کر سکتا،جب تک کہ وہ خود صاحب قدر نہ ہو؛بلکہ قدروں کی بلندی کا رازتو اس میں مضمر ہے کہ سامعین کی زبان میں گفتگو کی جائے اور جو کچھ کہا جائے ،وہ بالکل سیدھے سادے اور سمیل انداز میں کہا جائے۔ 
آخر الذکر صورت ہی تقریر کا اصل معراج ہے ،جس کسی کو فی البدیہہ تقریر کرنے کا ملکہ حاصل ہوگیا ،سمجھ لیجیے کہ وہ فنِ خطابت کا بے تاج بادشاہ بن گیا ۔ہر مبتدی کے لیے یہ ملکہ پیدا کرنا ایک با کمال خطیب بننے کے لیے ضرور ی ہے۔
تقریر کا سب سے عمدہ انداز
ہر مقرر اپنے طور پر یہی کوشش کرتا ہے کہ وہ سب سے عمدہ اور سب سے اچھی تقریر کرے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی تقریر سب سے عمدہ ااور کیسی تقریر سب سے اچھی سمجھی جاتی ہے ۔تو اس حوالے سے سب سے پہلے یہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ تقریر کی عمدگی اور بہتری کا سارا دارو مدار آواز،انداز،الفاظ کے زیرو بم ،کلمات کے مدو جزر ،موقع بہ موقع گھن گرج اور ساتھ ہی مناسب اشارات و حرکات پر ہے ۔اس لیے اگر ان چیزوں کو ان کے صحیح مقامات پر برتنے کے گر معلوم ہوجائیں ،تو سب سے عمدہ طریقۂ خطابت کا راز خود بخود معلوم ہوجائے گا ۔چنانچہ اس سلسلے میں ماہرین فن کا کہنا ہے کہ آوز کو بالکل صاف و شفاف رکھی جائے ،اس میں کسی بھی طرح کا کوئی عیب اور خامی نہ ہو۔آغاز میں آواز وانداز دونوں دھیمے ہوں۔ پھر جوں جوں تقریر آگے بڑھائی جائے ،توں توں رفتار بھی بڑھا ئی جائے ،یہاں تک کہ شباب پر پہنچ جائے اور پھر زور دار انداز کے ساتھ اچانک رک جائے ،پھر دھیمے دھیمے اور ٹھہر ٹھہر کے بولے اور بولتے بولتے رفتار وآوازمیں کرختگی پیدا کرتے ہوئے شباب پر پہنچ جائے ،پھر اچانک ٹھہر جائے۔ اور اسی انداز سے تقریر کرتا چلاجائے ۔لیکن ساتھ ہی یہ نہ بھولنا چاہیے کہ جہاں جہاں الفاظ میں مدو جزر اور تکلم میں زیرو بم ہونا چاہیے ،وہاں وہاں اسی طرح کا لب ولہجہ اختیار کرنا ضروری ہے ۔علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ پر زور کلام کیا جائے ۔کلام میں زور پیدا کرنے کی مختلف صورتیں ہیں ،جن میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہر جملے کو تین حصوں میں بانٹ دیا جائے ۔شروع حصے میں پرزور انداز اختیار کیا جائے ۔درمیانی حصے میں تھوڑی سی خفت پیدا کر لی جائے اور آخری حصے میں پرزور ترین اسلوب اپنا یا جائے۔اس طریقے کی بھر پور عکاسی کرتے ہوئے شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ 
’’۔۔۔مقرر یا خطیب جب مجمع سے خطاب کرتے ہیں ،تو ان کی آواز یکساں رفتار پر نہیں رہتی اور نہ ان کا لہجہ ہم وزن رہتا ہے ۔اس کے لیے ایک بحر نہیں ،کئی بحروں کا مجموعہ ہے۔ کہیں مقرر گفتگو کا لہجہ اخیار کرتا ہے ،کہیں نرم لہجہ ،کہیں زور دار ور کہیں ان کا حد اوسط۔۔مقرر اپنے الفاظ کا حسن زیروبم سے بڑھاتا ہے ،اس کو اظہار کے اتار چڑھاو سے گذرنا پڑتا ہے، ایکا ایکی گونج پیدا کرتا اور یکا یک گرج سے کام لیتا ہے ،کبھی اس کی آواز میں بوندا بوندی ہوتی اور کبھی وہ موسلا دھار انداز میں برسنے لگتا ہے ۔کبھی صباکی طرح چلتا اور کبھی صرصر ہوجاتا ہے۔آبشار کی طرح بہتا ہے۔اس میں چشمہ کا بہاو اور جھرنا کا غل بھی ہوتا ہے ۔وہ راگ نہیں جانتا ؛لیکن اس کی آواز کبھی دیپک راگ ہوجاتی ہے اور کبھی جل ترنگ۔وہ آواز میں آنسو پیدا کرتا اور قہقہہ اجالتا ہے ،وہ چشم زدن میں ہنسا اور رلا سکتا ہے ۔ وہ رعد کی طرح کڑکتا اور شعلے کی طرح بھڑکتا ہے ۔اس میں غنچے کی چٹک اور نغمے کی لٹک ہوتی ہے ۔وہ بادل کی کڑک اورہیرے کی ڈلک رکھتا ہے ۔کویل کی طرح کوکتا اور شیر کی طرح دھاڑتا ہے ۔خطیب کی آواز سمندر کی لہروں کی طرح ہے کہ اپنی سطح سے اٹکھیلیاں کرتی چلی جاتی ہیں۔‘‘(ص۱۰۹)
اپنی تقریر میں مذکورہ بالا خصوصیتیں آپ اسی وقت پیدا کرسکتے ہیں ،جب کہ آپ عملی مشق کے ساتھ ساتھ اکابر خطبا کی تقریریں سنیں ،ان کے لب ولہجے پر نگاہ رکھیں اور ان سے ان کی تقریر کی عمدگی و مقبولیت کا رازدریافت کریں۔ 
(کلام میں زور پیدا کرنے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے دیکھیے:رہ نما ئے اردو ادب، ازص؍ ۱۸۵ تا ۱۹۰ )۔