2 Apr 2018

پوری دنیا پر قبضے کی صہیونی سازشیں اور ان کا حل



پسِ منظر 
عالمِ اسلام کے خلاف امریکہ اور اس کے حلیف یورپی ممالک کی پشت پناہی کے پسِ پردہ یہودیوں اور صہیونیوں کی ریشہ دوانیاں ،عالم آشکار ا ہیں ،انھیں میں سے ایک ان صلیبیوں کا پوری دنیا کو صلیبیت کی زنجیر وں میں جکڑنا بھی ہے،جس کے لیے یہودی گذشتہ کئی دھائیوں سے تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں ۔حالات کے انقلابات،میڈیاکے رسوخ واثرات،سیاسیات واقتصادیات کے طور وطریق اور گلوبلائزیشن کے زبردست حملے کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں ایک حد تک کام یاب ہو تے نظر آرہے ہیں ،جس کا بر ملا اظہار انھوں نے اپنی خفیہ دستاویز ’’پروٹوکو لز آف یہودیت ‘‘میں کیا ہے۔
مشرقی روس کے لیڈر کا ایک سائنس داں دوست نا ئلس نے جب ان دستاویزات کا مطالعہ کیا ،تو وہ ان کے منصوبے کو دیکھ کر گھبر اگیا اور دنیا کو صہیونیت کی غلامی سے بچانے کے لیے ان کا تر جمہ شائع کیا ، جس کی پاداش میں اگر چہ صہیو نیوں نے انھیں مو ت کے گھاٹ اتار دیا، بلکہ ہر اس شخص کو موت کی نیند سلاتا رہا ، جس جس نے اس کتاب کو چھاپنے او ربیچنے کی کو شش کی ۔ لیکن اس کی وجہ سے دنیائے یہو دیت میں کھلبلی مچ گئی اور اس کے خلاف زبر دست غم و غصے کا اظہار کیا گیا ۔
جب وہ پر و ٹو کو لز اردو میں ’’ وثائق یہو دیت ‘‘ کے نا م سے شائع ہو ئی ، تو راقم الحر وف بھی ان میں بیان کر دہ حکمت عملی کے مطابق حالات کے رخ کا بہا ؤ دیکھ کر گھبرا گیا اور اپنی پر واز کی حد تک دنیائے اسلام کو ان سے آگاہ کر نے کا ٹھان لیا ، چنانچہ جب بہار ، جھارکھنڈ ، اڑیسہ و نیپال کی مشتر کہ یونین ’’ بز م سجاد ‘‘ کی صدارت کی نیابت کی ذمہ داری کا بو جھ بندۂ ہیچ مداں کے دوشِ ناتواں پر رکھا گیا ، تو اس مقصد کی پر واز کے لیے اپنا پر تو لنا شروع کیا ۔ جس کی ایک کوشش یہ مکالمہ ہے ۔ اس کے کر دار اور پلاٹ دونوں کی وضاحت تفصیلات او ر دورانِ مکالمہ کر دی گئی ہے اور حسبِ مو قع رموز و اشارات کی بھی ۔
تفصیلات 
افراد کر دار 
(۱)محمد اعظم یہودی اسٹو ڈینٹ 
(۲) محمد محسن یہودی اسٹوڈینٹ 
(۳) محمد عارف یہودی اسٹو ڈینٹ 
(۴) محمد خالد پر نسپل 
(۵) محمد زاہد پر وفیسر 
(۶) ضیاء اللہ یہودی مفکر 
(۷)ثناء اللہ یہودی مفکر
(۸)ہدایت اللہ یہودی مفکر 
(۹)عبداللہ یہودی مفکر 
(۱۰)ذکر اللہ العربی یہودی مفکر 
(۱۱)احسن اللہ نیوز اناؤ نسر 
(۱۲)عبد الر حمان اخبار ی تبصرہ نگار 
(۱۳)نظام الدین مفکر اسلامی 
(۱۴)جہاں گیر مفکر اسلامی 
(۱۵)دلاور حسین مفکر اسلامی 
(۱۶)محمد تنویر مفکر اسلامی 
(۱۷) محمد ریحان مفکر اسلامی



محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ) May I Came in Sir?: =مے آئی کم ان سر ؟
محمد خالد (پر نسپل ): Sit don.Come in. yes (یس کم اِن ، سیٹ ڈاؤن)
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ):Sir(سر ) آپ کی یو نی ور سٹی میں ایڈ میشن لینا چاہتا ہوں، اس لیے مجھے ایک ایڈمیشن فارم چاہیے۔
محمد خالد (پرنسپل): یہ لو فارم، اور ون تھاوزینڈ روپیس کیش فارم فیس جمع کرو۔
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ): سر! فی الحال کیش تو نہیں ہے، چیک ہی لے لیجیے۔
محمد خالد(پرنسپل): لاؤ چیک ہی دے دو ۔۔۔۔۔۔اور سنو ! فارم جمع کرنے کا آج ہی آخری ڈیٹ ہے ، اس لیے خانہ پرُی کر کے ابھی جمع کر دو ۔
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ): یس سر ۔۔۔یہ لیجیے (یہاں پر وفیسر اسٹیج پر آکر کر سی پر بیٹھ جاتا ہے) 
محمد خالد (پر نسپل ): (ہاتھ میں فارم لے کر )یہ تم نے اپنی قومیت کیا لکھی ہے ؟ یہودیت!
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ): یس سر۔۔۔ میری نیشنلٹی یہو دیت ہے ۔
محمد خالد (پرنسپل): اس یو نی ور سٹی کے آئین کی دفعہ ۳۰؍ فقر ہ ۲؍کی رو سے تمھارا ایڈمیشن نہیں ہو سکتا ، کیو ں کہ یہ یو نی ور سٹی عیسائیو ں کی ہے ، یہاں ایسے عیسائی مبلغین تیار کیے جاتے ہیں ، جو مسلمانوں کو گمراہ کر سکیں، اس لیے یہاں صر ف عیسائیوں کا ایڈمیشن ہو تا ہے ،یہودیو ں کا نہیں ۔
محمد محسن (اسٹوڈینٹ ) : یہودی ہو نا کو ن سا گناہ ہے سر ! کہ ہمارا ایڈمیشن نہیں ہو گا ؟ 
محمد خالد (پر نسپل ): میں نے ابھی سمجھایا ناکہ یہودیو ں کاایڈ میشن نہیں ہوتا، اس لیے اٹھو اور سیدھے چپ چاپ گیٹ آوٹ ہو جاؤ ) (You are get out 
محمد محسن (اسٹوڈینٹ ) (غصیلے لہجے میں )ٹھیک ہے سر ! چلا جاتا ہوں۔(تینوں اسٹوڈینٹ اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں)
محمد زاہد (پر و فیسر) : پر نسپل صاحب ! دنیا کے تمام ممالک کا یہ متفقہ قانون ہے کہ نوعِ انسان کے ہر فرد کوخواہ وہ قوم کے اعتبار سے کچھ بھی ہو ، تعلیم حاصل کر نے کا حق ہے تو پھر کیا یہودی انسان نہیں کہ دنیا کی کوئی بھی یو نی ور سٹی اس کا ایڈمیشن نہیں لیتی ؟ 
محمد خالد (پر نسپل ): اگر چہ یہ بین الاقوامی) (Low لو ہے کہ ایجو کیشن حاصل کر نے کا حق ہر نوعِ انسان کو ہے ، خواہ اس کی قومیت کچھ بھی ہو ، لیکن قوم یہو د انتہا ئی ذلیل اور شر انگیز قوم ہے ، یہ لو گ شکل و صور ت سے تو انسان معلوم ہو تے ہیں ، لیکن حقیقت میں یہ ما ر آسیتن ہیں ،جو سب سے پہلے اپنے محسن ہی کو زک پہنچاتا ہے ، اس لیے ہم ان مو ذی جانوروں کا ایڈمیشن لے کر مفت میں مصیبت اپنے سر نہیں لینا چا ہتے ۔
محمد زاہد (پروفیسر ): آپ نے بالکل صحیح کہا پر نسپل صاحب ، واقعی ہمیں ایسا سانپ نہیں پالنا چاہیے، جو کل ہمیں کو ڈ سنے لگے ، اچھا سر ، و کیش کا ٹائم ہو گیا ہے ۔چلتے ہیں ، پھر ملیں گے ۔
محمد خالد (پر نسپل ): چلو پھر ہم بھی چلتے ہیں(اب تینوں اسٹوڈینٹ اسٹیج پر آتے ہیں )
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ): دوست ! ہم لو گوں کا سوائے یہودی ہونے کے اور کیا گناہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اپنے کالجوں اور یو نی ور سٹیوں میں ہمارا ایڈمیشن نہیں لیتی ۔ یہو دی اور ملعونِ خداوندی ہو نا دنیا والوں کی نگاہوں میں کوئی گناہ تونہیں ہے ؟ 
محمد عارف (اسٹوڈنیٹ) :میری کھٹمل جیسی عقل میں ایک سازش ہے، وہ یہ کہ چو ں کہ پچھلی مرتبہ ہمارا ایڈمیشن قومیت یہودیت لکھنے کی وجہ سے نہیں ہو ا تھا ، اس لیے ہم قومیت ہی چینج کر لیتے ہیں اور یہو دی کے بجائے نئے عیسائی لکھتے ہیں ، تاکہ کر سچن اپنا آدمی سمجھ کر ہمارا ایڈمیشن لے لے ، او رجب ایڈمیشن ہو جائے گا ، تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے ۔
محمد اعظم(اسٹوڈینٹ ): ویری گڈ : یہ نیشنلٹی چینجنگ کا آئیڈیا اچھا معلوم ہوتا ہے ، اب دیر کس بات کی، چلو ایڈمیشن کے لیے چلتے ہیں اور ایسا ہی کر تے ہیں (اس کے بعد پانچ افراد اسٹیج پر آ کر میٹنگ کر تے ہیں ) ۔
ضیاء اللہ (یہودی مفکر ) : فقط لفظِ یہود بو لنے سے ہرِ شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہی مکار ،عیار اور ذلیل و خوار قوم جو انبیائے کرام کی زبان سے مطعون ہو ئی ہے اور وہ قوم ، جس کو شرارت اور فطری خباثت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ’’دائمی ذلت ‘‘ کا پر وانہ دے دیا ہے ، وَضُرِبَتْ عَلَیْہُمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَاءُوْابِغَضَبٍ مِنَ اللّٰہِ ، اسی وجہ سے ساری دنیا کا ہمارے بارے میں یہ تصور قائم ہو گیاہے کہ یہو د مارِ آستین ہیں ، یہود خون چوسنے والی قوم ہے ، تمام مصیبتیں یہود کی پیداکر دہ ہیں اسی تصور کی وجہ سے ہمارے بچوں کا دنیا کی کسی بھی یو نی ور سٹی میں ایڈمیشن نہیں ہو رہا تھا، یہ الگ بات ہے کہ ہماری نیشنلٹی چینجینگ سازش سے ایڈمیشن ہو گیا، ہماری تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ اِ نھیں تصورات کی وجہ سے ہم بطور یہو د کہیں بھی اور کبھی بھی پنپ نہیں سکتے ، لہذا اپنی قوم سے ان بھیانک الزامات کو ختم کر نے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے، اور کیا صور ت اختیار کی جائے کہ ہم بھی دگر اقوام کی طرح عزت و شرافت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ؟۔
ثناء اللہ ( یہودی مفکر ):آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ ہم بطور یہود کہیں بھی پنپ نہیں سکتے ، کیوں کہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے ۷۲۰ ؁ ق م میں آشورکے فرما رواسارگون نے سلطنتِ یہود کو تہس نہس کر دیا، ۵۸۷ ؁ق م میں شاہ بابل بخت نصر نے ہماری حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ۹۸ ؁ ق م میں شام کے سلوقی بادشاہ اینٹیو کس نے ہمارے خلاف زبر دست معر کہ آرائی کی۔ ۶۳۰ ؁ ق م میں رومن فاتح پو مپی نے ہماری قوت و طاقت کو پامال کر دیا ، ۷۰ ؁ء میں ٹیٹس نے ہمارے ایک لاکھ افر اد کو قتل ، ۶۷؍ ہزار کو غلام اور ہماری دوشیزاؤں کو فوجیوں میں تقسیم کر دیا ، ۶۱ ؁ء میں ہماری قوم جزیر ۃ العرب سے جلاوطن کر دی گئی، ۱۱۰۷ ؁ء میں یوسف بن تاشقین نے ہمیں کچل کر رکھ دیا۔ ۱۲۰۰ ؁ء میں مختلف ملکوں میں ہمارا قتلِ عام ہوتا رہا ، ۱۲۵۴ ؁ء میں ہم فرانس سے جلاوطن کیے گئے ۔ ۱۳۲۱ ؁ء میں اسپین میں ہمیں زندہ جلادیا گیا ، جر منی میں ہم خون چوسنے والی قوم کی صدائے ذلت سے پکارے گئے ، ۱۴۹۴ ؁ء میں فرڈے ننڈ کے ظلم و ستم کے شکار ہو ئے ،۱۶۵۱ ؁ء میں ہو لینڈ سے ملک بدرکیے گئے ، ۱۸۷۱ ؁ء میں روس سے بھگائے جانے پر ہم نے فرانس و انگلستان کا رخ کیا ، لیکن ہمیں ویزا نہیں دیا گیا ، جب پو ری دنیا اپنی وسعت کے باو جود ہم پر تنگ کر دی گئی ، تو تر کیوں نے انسانیت کی خاطر ہمیں پناہ دینے کی کوشش کی ؛ لیکن ہم وہا ں پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں لو ٹ لیے گئے ، اتنا مظلوم ہونے کے باوجود بھی ہمارے بارے میں کہا گیا کہ ’’ ہر مصیبت یہود کی پیدا کر دہ ہے‘‘ اور اس خیال کو عام کر نے کی تحریک چلائی گئی، جو آج بھی سامی کش تحریک کے نام سے اپنے کام میں مشغول ہے ، اور ہمارے خلاف لو گوں کو نفر ت و عداوت پر اکسا رہے ہیں ، بالأ خر کب تک ہم ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہیں گے ، اس لیے اب ہمیں کو ئی ایسی حکمت عملی اختیار کر نی چاہیے، جس سے ہم سر اٹھا کر جی سکیں ۔
ہدایت اللہ (یہودی مفکر):اگر ہم عز ت وشرافت کے ساتھ سراٹھاکر جینا چاہتے ہیں ، تو سب سے پہلے اپنی بر بادی او ربد نامی کے اسباب تلاش کرنے ہو ں گے اور ہماری ساری بر بادی و بد نامی کی وجہ انبیا ئے کرام کی زبانی ہماری مطعونیت اور دائمی رسوائی کی مہر الہی کی وجہ سے پیدا شدہ لو گوں کے دلوں میں ہماری نفر ت ہے، اور جب تک لو گو ں کے دلوں سے ہماری نفر ت ختم نہیں ہوگی ، تب تک ہم عزت کی زندگی نہیں جی سکتے ، اس لیے ا س حوالے سے ہمیں ایسی حکمت عملی اختیار کر نی پڑے گی، اور ایسے کار نا مے انجام دینے ہوں گے جس سے ہم ہر کسی کی ضرورت بن جائیں ، اور فی الحال ہم ہر کسی کی ضرورت بننے کے لیے یہ صورت اختیار کر سکتے ہیں کہ ہمارے جن جن بچوں کی نیشنلٹی سازش سے یو نی ور سٹیوں میں ایڈمیشن ہو رہا ہے ، ان میں سے کسی کو ڈاکٹر بنا ئیں کسی کو ڈائر یکڑ، کسی کو سائنٹسٹ بنا ئیں، کسی کو انجنیر اور کسی کو دگر ٹر ٹر ، جب ہمارے بچے ٹر ٹر بن جائیں گے، تو لوگو ں کے دلوں سے ہماری نفرت و عداوت خود ہی ختم ہو جائے گی اور ہم عزت و شرافت کے ساتھ زندگی گذارنے لگیں گے ۔
عبدااللہ (یہودی مفکر ):آپ کی سوچ کچھ اونچی معلوم ہو تی ہے ، جو ہم جیسے کم سمجھکی سمجھ سے بالا تر ہے، اس لیے آپ مثال سے ہمیں سمجھائیں کہ مثلاً ہمارے بیٹے ڈاکٹر بن جائیں گے ، تو لوگوں کے دلوں سے ہماری نفر ت کیسے ختم ہو گی او ر ہماری الفت و محبت ان کے دلوں میں کیسے پید ا ہو گی؟
ذکر اللہ (یہودی مفکر ) : واقعی آپ جیسے کم عقلوں کی وجہ سے ہی قوم یہود اتنی ذلت و رسوائی کاشکار ہو تی رہی، جو اتنی عام فہم بات بھی نہیں سمجھ پاتے، ارے بھائی جب ہمارے بیٹے ڈاکٹر بن جائیں گے تو لوگ بیماروں کو لے کر ہمارے پاس آنے پر مجبور ہو ں گے اور ہم سے التجا و درخواست کریں گے کہ ہمارے مریض کو دیکھ لو ڈاکٹر صاحب ، اس طرح سے لو گ ہمارے محتاج ہو جائیں گے، اور ہم ان کی ضرورت بن جائیں گے ، اسی طرح دگر شعبہ ہا ئے زندگی میں بھی ہمارے محتاج ہو ں گے اور انسانی فطرت ہے کہ محتاج کو محتاج الیہ سے عقیدت ہو ہی جاتی ہے ، اور جب کسی سے عقیدت ہو جاتی ہے ، تو اس کی ہر برائی بھی اچھائی ہی معلو م ہو تی ہے ، لہذا لو گ ہمارے محتاج ہونے کی وجہ سے جب ہمارے عقیدت مند بن جائیں گے، تو ان کے دلوں سے ہماری نفرت ختم ہوجائے گی، اور جب نفرت ختم ہو جائے گی، تو ہم بھی عزت و شرافت کے ساتھ زندگی بسر کر نے لگیں گے ۔
ضیا ء اللہ (یہودی مفکر ): ہم ہر کسی کی ضرورت بن جائیں ، یہ مشورہ بالکل ٹھیک ہے ، امید ہے کہ ہم سب اس پر عمل کر یں گے ، تو راۃ کے الفاظ ہیں کہ ’’ بادشاہ میرے ہی تو سط سے حکمرانی کرتے ہیں‘‘ یعنی پیغمبر وں کے اشارے کے مطابق ہمیں کر ۂ ارض پر حکمرانی کے لیے خود خدانے منتخب کیا ہے ، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی ذہا نت عطا کی ہے ، تاکہ ہم اس فر ضِ عظیم کو انجام دے سکیں، یہ الگ بات ہے کہ عصر حاضر میں ہماری کو ئی منظم پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہم در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، آج کی میٹنگ اِنھیں باتوں پر اختتام پذیر ہو تی ہے ، اگر ہم آج کی میٹنگ میں پا س کر دہ تجویز پر عمل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور لو گ ہمیں شریف قوم سمجھنے لگیں ، تو وہ دن دور نہیں، جس دن ہم پوری دنیا پر حکومت کر نے کے خواب دیکھنے لگیں گے اور صر ف خواب ہی نہیں دیکھتے رہیں گے ، بلکہ اس خواب کو شر مندۂ تعبیر بھی کر دکھائیں گے ۔
(پانچوں چلے جا تے ہیں اور پہلے کے تینوں اسٹوڈینٹ اسٹیج پر آ تے ہیں )
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ) : پہلے ہم اسٹوڈینٹ ایڈمیشن کے لیے پریشان تھے ، اب ایڈمیشن ہوگیا ہے، تو نمبرات کے لیے پریشان ہیں ، کیوں کہ پر نسپل کوجب سے یہ پتہ چلا ہے کہ ہم لو گ وہی مکار یہو دی ہیں ، تب سے ہمیں نمبرات ہی نہیں دیتے کہ ہم لوگ آگے بڑھ سکیں اور کسی بڑے شعبے میں داخلہ لے سکیں، بس اعادے پر اعادہ ہو رہا ہے ، یہ تو ہمارے بڑوں کا پو ری دنیا پر حکومت کر نے کے خواب کا شیش محل زمین بوس ہو تا ہو ا نظر آرہا ہے ، کیوں کہ جب ہمارے نمبرات نہیں آئیں گے ، تو ہم ڈاکٹر انجنیر کیسے بنیں گے ، جس سے ہم ہر کسی کی ضرورت بن سکیں ، لہذا اب کیا کر نا چاہیے ؟ 
محمد محسن (اسٹوڈینٹ ) : ہماری فطر ت یا کہہ لیجیے کہ ہماری کا میابی کا اصل ہتھیا رہے : شرارت، مکاری اور سازش ، تو پھر غم کس چیز کا ،چلو کو ئی نئی سازش رچتے ہیں ، جیسے ہم ممتحن کو گھی کاڈبہ دے دیں گے یا چائے پلادیں گے۔
محمد عارف (اسٹوڈینٹ ):آپ اپنی سازش اپنے ہی پاس رکھیے اور میر ی سازش سنیے کہ اگر ہمارے نمبرات اس سے پہلے ۸۰؍ پر سینٹ کی محنت پر ۹۰؍ آتے تھے تو اب ہم پورے سو پر سینٹ محنت کر یں گے، تاکہ پر نسپل ہماری قابلیت کو دیکھ کر سو فی صد نمبرات دینے پر مجبور ہو جائیں اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں ۔
محمد اعظم(اسٹوڈینٹ) : یہ بات تو دل کو لگنے والی ہے اور ہم اسی پر عمل کریں گے ، اس کے بعد (تینوں چلے جاتے ہیں اور پانچوں یہودی مفکر آتے ہیں) 
ضیاء اللہ (یہودی مفکر) :سوئزر لینڈ کے اس شہر بازل میں مختلف ممالک سے تشریف لائے یہودی تنظیموں کے تمام سر براہان کا سواگت ہے ، آج ہم اس میٹنگ میں پو ری دنیا پرحکومت کرنے کا لائحۂ عمل مر تب کر یں گے ، کیو ں کہ گذشتہ میٹنگ میں پاس شدہ تجویز ات پر عمل کرنے میں ہم ننانوے پرسینٹ کامیاب رہے ہیں ،چناں چہ ہمارے بچے انجنیر نگ اور آرٹنگ وغیرہ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے ہیں ، جس سے لو گوں کے دلوں سے نہ صرف ہماری نفرت ہی ختم ہو رہی ہے ، بلکہ وہ ہمیں شریف قوم اور اپنا خیر خواہ بھی سمجھنے لگے ہیں ، اس لیے وہ مو قعہ آگیا ہے کہ جس میں ہم پوری دنیا پر حکومت کر نے کے خواب کو شر مندۂتعبیر کر یں اور اس کے منصو بے تیار کریں ، اس کار روائی کو آگے بڑھاتے ہو ئے میں بلڈ ر بر ج تنظیم کے صدر بر ن ہارڈ کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ عالمی نظام کے کچھ منصوبے پیش کر یں ۔
ثناء اللہ (یہودی مفکربر ن ہارڈ): پوری دنیا پر قبضہ کرنے کا واحد ذریعہ قوت و طاقت ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ طاقت ورچیز سیم وزر ہے ’’ لَوْ لَا التُّقَیٰ لَقُلْتُ جَلَّتْ قُدْرَتُہُ ‘‘ کیوں کہ دنیا میں اچھے لو گوں کی بہ نسبت برے لوگو ں کی تعداد زیادہ ہے اور برے لوگوں کو طاقت ہی سے زیر اور سیم وزر کے لالچ سے ہی غلام بنایا جاسکتا ہے ، لہذا سیم وزر کے ذخائر پر قبضہ، دنیا کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لیے اولین شر ط ہے ۔
ضیاء اللہ(یہودی مفکر):اب میں اس کے بعد یہو دی مفکر را کفلرفاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری سے در خواست کر و ں گا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
ہدایت اللہ (یہودی مفکر) :اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سونے کے ذخائر پر قبضہ کر نے کو مر کزی حیثیت اور اولین شر ط قرار دیتے ہیں ، تو ذرائع ابلاغ بھی خواہ وہ پر نٹ میڈیا کی شکل میں ہو یا الیکڑانک میڈیا کی شکل میں ، ہمارے مقاصد کے حصول کے لیے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں،کیو ں کہ میڈیا عقلوں کو فتح کر نے، اپنے جذبات و احساسات اور فکر و خیالات سے دوسروں کو متاثر کر نے کا ایک مضبوط ہتھیار ہے ، جس کے ذریعے ہم غیر حقیقی افکار وخیالات اور باطل عقائد و نظریات کو لوگوں کے دماغوں میں راسخ کر سکتے ہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ، نیز میڈیا پر ہمارا ہی مکمل کنٹرول ہو نا چاہیے، تاکہ اگر ہمارے مخالفین ہماری حکمت عملی کی مخالفت کر یں ،تو ان کی آواز ایک محدود حلقے میں رہ کر خود ہی بے اثر ہو جائے گی۔
(۱)یہودی مفکر (ضیااللہ ) بعد ازاں عالمی تنظیم کے اسسٹینٹ سیکریڑی کودعوت دوں گا کہ وہ بھی کچھ کہیں۔
عبدا للہ (یہودی مفکر): کسی بھی قوم اور ملک پر بالا دستی قائم کر نے کے لیے ا ن کی ثقافت و فکر پر حاوی ہو نا اور ان کے مذہبی تشخص و جذبات کو ختم کر نا ضروری ہے ، اس لیے غیر یہودیوں کو صنعت وتجارت اور مادی تر قی کے چکروں میں ایسا پھنسا دیا جائے کہ انھیں اپنے مذہب پر غور و فکر کرنے کا موقع ہی نہ مل سکے ، اس طرح تمام اقوام جلبِ زراور منفعت اندوزی کے تعاقب میں یوں سر پٹ دوڑتی رہیں گی کہ ان کا صرف ایک ہی مقصد رہ جائے گا ، یعنی زر پرستی اور منافع پر ستی، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب وہ اپنے اپنے مذہب سے بے گانہ ہو جائیں گے، تو اپنے مذہبی تشخص اور دینی ثقافت وفکر سے محروم ہوتے چلے جائیں گے اور اس جگہ ہماری مغربی تہذیب و ثقافت اور لادینیت کے رنگ میں رنگتے چلے جائیں گے ۔
ضیاء اللہ(یہودی مفکر ): اب ہم سب سے آخر میں تعلقاتِ خارجہ یعنی G.F.R. کو نسل کے سر برا ہ کو دعوت دیں گے کہ وہ بھی کچھ ارشاد فر مائیں ۔
ذکر اللہ(یہودی مفکر ):پوری دنیا کو یہودی کے دم چھلے اور غلام بنانے کے لیے ابھر تی ہو ئی نسل کی قوتِ فکر کو سلب کرنا بھی ضروری ہے ، تاکہ وہ ہمارے ان خوف ناک عزائم کوبھانپ نہ سکیں ،جس کے لیے کارٹونوں ، سیریلوں اور کرکیٹ جیسی بے سود چیز و ں کو ایسے دل چسپ انداز میں پیش کریں گے کہ نو نہا لانِ قوم انھیں چیز وں سے لطف اندوزی میں مگن رہیں اور حالاتِ دنیا اور فکرِ آخرت سے غافل ہو جائیں ، نیز ہماری تمام پر و ٹو کو لز خفیہ اور پو شید ہ رہنے چاہیں،کیو ں کہ ان دستاویزات پر عمل درآمد ہو نے سے پہلے ان کے عام ہو جانے سے یہو دیوں کو بڑے خطرات در پیش ہو سکتے ہیں اور ہم اپنے مقصد میں نا کام بھی ہو سکتے ہیں ۔
ضیا ء اللہ(یہودی فکر ):آج بہ تاریخ ۱۵؍ جو ن ۱۸۸۷ ؁ء بر و ز ہفتہ شہر باسل میں ایک میٹنگ منعقدکی گئی ، جس میں پو ری دنیا پر صہیو نی قبضہ جمانے کے لیے بہ اتفاقِ رائے مندرجہ ذیل منصو بے بنائے گئے :
(۱) سونے کے ذخائر پر قبضہ ۔
(۲) ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹر ول ۔
(۳) صنعت و تجار ت میں سر ما یہ دارانہ نظام کا فر وغ ۔
(۴) ٹکنا لو جی کے مید ان میں انقلاب ۔
(۵) فلموں کے ذریعہ مغر بی تہذیب وثقافت ،مغربی معاشر ت واخلاق اور مغربی زبان و ادب یعنی انگریز ی زبان کا فرو غ ،نیز کر کیٹ وغیرہ کے ذریعے نونہالانِ قوم کی عقل و فکر کومفلوج کر نا ۔
(۶) مذکور ہ بالا پر و ٹو کو لز کو با لکلیہ خفیہ او رپو شیدہ رکھناتاکہ ہمارے خو ف ناک عزائم پر کو ئی مطلع نہ ہو سکے ۔
آج کی میٹنگ یہی ختم ہو تی ہے ، تو راۃ میں ہے کہ’’ یہو دا(خدا) ایک مسیحا نازل فر مائے گا ، دنیا کی باد شاہت اس کی ہو گی، اس کے آنے سے حضر ت داؤ د علیہ السلام کی سلطنت بحال ہو جائے گی اور یر و شلم خدا کا دارالحکومت ہو گا‘‘ ۔ یعنی یہو دیو ں کی مقدس سر زمین اوران کی حکو مت کا اصل وطن ارض فلسطین ہے، اس لیے ہماری اگلی میٹنگ حصولِ فلسطین کے لیے ہوگی۔( اس کے بعد خبریں نشر ہوتی ہیں)
احسن اللہ(خبریں ):یہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سر و س ہے، صبح کے چھ بجے ہیں ،اب آپ احمق گپتا نا دان سے خبریں سنیے ۔
آج یہو دیو ں کی عظیم عالمی صہیو نی سازش یعنی ان کی خفیہ دستاویز ات کے انکشاف پر دنیا کے بڑے بڑ ے لیڈروں ا ور مفکر وں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے ، آج ’’ سجاد یو نین ‘‘ کا تاریخی اور افتتاحی اجلاس بہ مقام دارالحدیث تحتانی دارالعلوم دیو بند بڑے ہی تز ک واحتشام کے ساتھ منعقد ہونے جارہا ہے ، جس میں ملک کے بڑے بڑے علما ئے کرام تشریف لارہے ہیں ۔(اس جگہ اور بھی حالات حاضر ہ کی خبریں نشر کی جائیں )۔
اور آخرمیں کیا چھپا ہے آج کے اخباروں میں، آئیے دیکھنے کے لیے چلتے ہیں ابوالخیال فر ضی کے پا س۔ فر ضی جی ! بتائیے کہ آج کے اخبار وں کی اہم اہم سر خیاں کیا ہیں ؟ 
عبدالر حمان (ابو الخیال فر ضی) : آج دنیا بھر کے اکثر بڑے اخباروں میں یہو دیو ں کی عظیم ساز ش یعنی ان کی خفیہ دستاویزات کے انکشاف کی خبر کو انتہائی اہمیت کے ساتھ نمایا ں طو ر پر شائع کیا ہے ، چناں چہ لند ن سے شائع ہونے والے دہ ٹائمس آف لندن میں لکھا ہے کہ ؂
’’ یہودیوں کی خفیہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی انھیں رو بہ عمل لا یا جاچکا ہے ، اس لیے اس کے خلاف اگر فو ری طور پر پیش رفت نہ کی گئی، تو ایک دن ضرور پوری دنیا یہودیت کے خطر نا ک شکنجے میں پھنس جائے گی‘‘ ۔ 
نیو یار ک ٹا ئمس میں لکھا ہے کہ ’’ 
’’اس خوف نا ک فر قے نے اپنے تسلط کے لیے جو منصوبہ بنا رکھاہے ، اس کے پہلے مراحل طے ہو چکے ہیں ، یعنی عام انقلاب بر پا کرنے کے لیے کئی تختے الٹ دیے جائیں گے ۔ تمام مذاہب داخلی انتشار سے دو چار ہوجائیں گے اور معاشرہ تباہ و بر باد ہو جائے گا ‘‘۔
دی ٹائمس آف انڈیا اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ
’’ یہودیو ں کی سازش کا جو پر وٹوکو ل دستیاب ہو ا ہے ، ان کی یہ تحریر نئی نہیں ہے ، بلکہ ۱۸۹۷ ؁ء سے لے کر عصر حاضر تک جو عالم گیر سازشیں ظہو ر میں آتی رہی ہیں، ان کا مقصد صہیونی حکومت کا قیام اور گلوبلائزیشن کا نفاذ ہے ، سب کے سب پر وٹو کول میں بیان کر دہ حکمت عملی کا نمونہ ہے ‘‘۔
عربی کا مشہو ر اخبار ’’ عکاظ ‘‘ میں ہے کہ’’ مو جو دہ دور کے حالات ، پروٹوکول میں بیان کر دہ منصوبو ں کے با لکل مطابق ہو رہے ہیں ۔ اور انڈیا ٹوڈے نے اس خبر پر سر خی لگائی ہے کہ ’’ یہ کو ئی افسانہ نہیں ، بلکہ خو ف نا ک حقیقت ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہو دیوں کی اس سازش پر قابو پانے اور دنیا کو یہو دیوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ’’ رابطۂ عالمِ اسلامی ‘‘ کا مکہ مکر مہ میں کل ہو نے والے اجلاس کی خبر کو بھی خصوصی طورپر اکثر اخباروں نے پہلے ورق پر جگہ دی ہے ۔۔۔۔۔۔فر ضی جی ! آپ کا شکر یہ ۔
اسی کے ساتھ خبریں ختم ہوئیں ۔۔۔( اس کے بعد رابطۂ عالم اسلامی کے اراکین کی میٹنگ ہوتی ہے)۔
نظام الدین (اسلامی مفکر): پو ری دنیا پر صہیو نی قبضہ اور گلو بلا ئز یشن کے نفاذ کے لیے صدیوں قبل کی منصو بہ بندی یعنی ان کی خفیہ پر و ٹو کو ل کا جو انکشاف ہو ا ہے، ان کی تدبیرو ں پر جہاں انھیں شاباشی دینے کو بے ساختہ جی چاہتاہے ، وہیں ہم در د مندانِ ملتِ اسلامیہ کے قلوب خون کے آنسو بہانے پر مجبور ہیں ، کیو ں کہ عالمی سطح پر سیا سی و سماجی ، صنعتی و اقتصادی ، فکر ی و ثقافتی ، غرض تمام شعبۂ ہا ئے زندگی میں گلوبلائز یشن کا جو اثر نظر آرہا ہے یہ انھیں یہو دیوں کی پروٹو کول کا نتیجہ ہے ، اور آئے دن عالم اسلام کی صور تِ حال جو سنگین سے سنگین تر ہوتی چلی جارہی ہے ، یہ بھی انھیں کی کا رستانیوں کاسبب ہے ، ایسے میں عالمی برادری کی غفلت سے پوری دنیا ، با لخصوص مسلمانو ں کو شدید خطرات در پیش ہیں ، لہذا صہیونی چیلنج اور گلو بلائزیشن کے سد باب کے لیے کو ن سا طریقہ اختیا رکیا جائے ؟ اسی پر اظہار خیال کے لیے یہ میٹنگ بلائی گئی ہے ۔ اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے ہندوستان سے تشریف لائے ایشیا کے عظیم اسلامی مفکرجناب حضرت مولانامر غوب الرحمن صاحب مدظلہ العالی سے درخواست کر تے ہیں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
جہاں گیر(اسلامی مفکر): عالم گیر یت او رگلو بلائزیشن کو روکنے کے لیے تین طرح کے رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں : (۱) عالم گیریت کو من وعن تسلیم کر لیا جائے او راسے انسانوں کے لیے سر چشمۂ خیر مان لیا جائے ، ظاہر ہے کہ حقائق کی روشنی میں یہ بالکل غلط بات ہو گی ۔(۲) گلو بلائزیشن کو مکمل طور پر ر د کر دیا جائے ، لیکن یہ تین وجوہ سے ممکن نہیں ، پہلی وجہ یہ ہے کہ عالم گیریت کا طوفان پو ری دنیا کو اپنی لپٹ میں لے چکا ہے یا لیا چاہتا ہے ،اس لیے ہم قلیل افراد اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم گیریت لاتعداد چینلو ں کے ذریعے لو گوں کو اپنا شکار بنا رہی ہے ، خواہ لو گ چاہیں یا نہ چاہیں ، ان چینلوں پر نہ صر ف افراد ، بلکہ حکومتوں کے لیے بھی کنٹر ول ممکن نہیں ، توہم بدرجۂ اولیٰ کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں ، تیسری وجہ یہ ہے کہ صہیونیو ں کا سیاسی اقتصادی ، ثقافتی ، معاشرتی گویا ہر میدانِ زندگی پر قبضہ ہو گیا ہے ، لہذاکوئی قوم یا جماعت اپنے آپ کو ا س سے علاحدہ نہیں کر سکتی کہ اس سے کٹ کر اس کا مقابلہ کر ے ۔ ( ۳) اور تیسرا رویہ یہ اختیار کیا جاسکتاہے کہ جو ہمارے لیے ممکن بھی ہے کہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر ہم گلو بلائزیشن کے خطرات سے لو گوں کو آگاہ کر یں اور دین اسلام کی روشنی میں اس کا متبادل پیش کریں ۔
نظام الدین ( اسلامی مفکر): اب میں ا س کے بعد مصر سے آئے ہوئے جامع ازہر کے استاذ سماحۃ الشیخ سمیر محمد احمد عاشور کو دعوت دیتاہو ں کہ وہ بھی اپنے خیالات کااظہار کریں ۔
دلاور حسین (اسلامی مفکر ): پوری دنیا پر صہیونی قبضہ یا گلو بلا ئزیشن کو نا کام کر نے کے لیے حضرت کے بیان کر دہ لائحے کے علاوہ یہ طریقے بھی اختیار کیے جاسکتے ہیں : (۱) دستیاب خفیہ پروٹو کو ل کو بڑے پیمانے پر شائع کر کے اس کے خطر ناک مقاصد سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ (۲) تمام ممالک کی وزارت خارجہ سر کاری وغیرسرکاری تنظمیں، بالخصوص ہر مسلم ممالک کی وزارت خارجہ ، وزارت برائے معاشرتی امور اور ہر جگہ کے دارالافتا والقضا ان کے نا پاک عزائم کے خلاف مذمتی بیانات بڑے پیمانے پر شائع کریں، تاکہ عوام ان سے متأثر نہ ہو ں۔(۳) مدرسوں ، بالخصوص کالجو ں اور یو نی ور سٹیوں میں ایسے پر وگرام منعقد کیے جائیں ، جن کے ذریعے ان کے مذموم مقاصد آشکارہ کیے جائیں تاکہ نو نہالانِ نسل ان سے متأثر نہ ہوسکیں ۔ (۴) ائمہ خطبا اور مبلغین حضرات اپنی تقریروں اور خطبوں میں دینی رہ نمائی کے ساتھ ساتھ ان کی ناپاک سازشوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کریں تاکہ لوگ ان سے اجتناب کر نے لگیں اور گلو بلائزیشن کی روک تھام ہو سکے ۔
نظام الدین (اسلامی مفکر): اب میں ا س کے بعد ڈاکٹر فواد بن عبدالکریم کو دعوت دیتا ہو ں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
محمد تنویر( اسلامی مفکر ): اس سلسلے میں میر ی رائے یہ ہے کہ گلو بلائزیشن کی ترویج کے لیے کوشاں کا رندے اور افراد کے سامنے اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلام کے اقتصادی ومعاشر تی نظام کو پو ری قوت کے ساتھ پیش کیا جائے اور صہیو نی عالم گیریت کے مکروہ چہرے سے پردہ ہٹایا جائے ،تاکہ وہ اس کی خرابی کو تسلیم کر کے اسلامی عالم گیریت کا داعی بن جائے ۔
نظام الدین (اسلامی مفکر): اب میں سب سے آخر میں اسلامی مفکر مراد ہا ف مین سے درخواست کر تا ہوں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
محمد ریحان( اسلامی مفکر ): مو ضوع کے حوالے سے میں یہ کہنا چا ہو ں گا کہ عالم گیر یت کے چند میدانِ عمل ہیں،جیسے سیاسست ، اقتصاد، تہذیب وثقافت ، معاشرہ واخلاق ،زبان وادب وغیرہ وغیرہ۔ عالم گیریت کے پا لیسی ساز یہودیوں نے عالم گیر یت کے ان تمام پہلووں کو قابل غور بنانے کے لیے جن وسائل کے ذریعے راہ ہموار کی ، ان میں سے اہم وسائل درجِ ذیل ہیں :(۱) سونے کے ذخائر پر قبضہ (۲) سر مایہ دارانہ نظام کا فروغ (۳) ٹکنا لو جی کے میدان میں انقلاب (۴) میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈے ، ان مذکو رہ وسائل میں میڈیا کے ذریعہ پر و پیگنڈے نے عالم گیریت کو پھیلانے میں سب سے زیادہ اہم رول ادا کیا ہے ، لہذا کیو ں نہ ہم بھی ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے میڈیا کے ذریعے ان کا مقابلہ کریں او رصہیونی سیاست و حکومت ،صیہونی تہذیب وثقافت، صیہونی اخلاق ومعاشر ت اور صیہونی زبان و ادب کے مفاسد اجاگر کر کے اسلامی سیاست و حکومت ، اسلامی تہذیب وثقافت، اسلامی اخلاق ومعاشرت اور اسلامی زبان و ادب کو میڈیا کے ذریعہ گھر گھر تک پہنچائیں ۔
نظام الدین (اسلامی مفکر ):مکہ مکر مہ میں منعقد اس اجلاس میں پوری دنیا پر صیہونی قبضہ اور گلوبلائزیشن کی روک تھام کے لیے بہ اتفاق رائے مندرجہ ذیل امور پاس کیے گئے :
(۱)انفرادی واجتماعی سطح پر گلوبلائزیشن کے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اوراسلامی متبادل پیش کیا جائے۔
(۲)دریافت شدہ خفیہ پروٹوکول کو بڑے پیمانے پر شائع کیا جائے ۔
(۳) تمام مما لک کی وزارتیں ، سر کاری وغیرسرکاری تنظیمیں ،نیز ہرجگہ کے دارالافتا والقضا ان کے ناپاک عزائم کے خلاف مذمتی بیانات جاری کر یں ۔
(۴) نئی نسل خصوصاً مغربی ماحول میں پر ورش پانے والے اسکولو ں اور کالجوں کے اسٹوڈینٹ کے لیے خصوصی پر وگرام منعقد کر کے صیہونیوں کے مذموم مقاصد سے آگاہ کر کے ان سے اجتناب کی تلقین کی جائے ۔
(۵) صیہونی مقاصد کے لیے کار فر ماں دماغوں اور کو شاں کارندوں کے سامنے اسلامی تہذیب اور اسلامی اقتصادی ومعاشرتی نظام پوری قوت کے ساتھ پیش کیا جائے ۔
(۶) چوں کہ صہیونیت اور گلوبلائز یشن کی راہ ہموار کر نے میں سب سے زیادہ اہم رول میڈیا نے ادا کیا ہے ، اس لیے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے ا ن کا مقابلہ میڈیا کے ذریعہ کیا جائے۔
آج کی میٹنگ اختتام پذیر ہو تی ہے ، حالات کے مطابق ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً ہماری میٹنگ ہو تی رہے گی ۔

فضلائے مدارس کامستقبل مجہول ہے ؟



پسِ منظر 
انگریزی زبان ایک عالمی،بین الاقوامی اور انٹرنیشنل زبان کی حیثیت اختیار کرجانے کی وجہ سے فضلائے مدارس۔اس زبان سے مکمل طورپر واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے ۔اس احساس کمتری کے شکار نظر آرہے ہیں کہ’’ہمارا مستقبل مجہول ہے‘‘اور ہماری تعلیم عصرِ حاضر سے ہم آہنگ تعلیم نہیں ہے،اس احساس سے طلبہ میں کیا کیا خامیاں درآئی ہیں ،انھیں کا جائزہ اس مکالمے میں لیا گیا ہے۔ اس میں پلاٹ وکردار دونوں مزاحیہ ہیں ،مزید برآں ظرافت کی نمکینی میں تھوڑی سی مٹھاس پیدا کرنے کی خاطر کچھ عملی وآلی رموز بھی استعمال کی گئی ہیں ۔
تفصیلات
افراد کردار
(۱)محمد افضل طالب علم (فٹ بالر)
(۲)محمد ارشد طالب علم (کرکیٹر)
(۳)محمد اکبر طالب علم (ناصح)
(۴)محمداحمد مولانا (استاذ )
(۵)محمد اختر مو لانا(استاذ)


محمدافضل:(ایک لڑکا ہاتھ میں کھانا لینے والاجھو لااور برتن لے کراسٹیج کی ایک جانب سے آتا ہے اوردوسری طرف سے محمد ارشد،درمیان اسٹیج میں سلیک علیک کے بعد)
محمدافضل (طالب علم):ادھر چھٹی کیا ہوئی کہ ادھر فوراً برتن اٹھایا اور چل دیے کھانا لانے، مدرسہ صرف کھا نے ہی کے لیے آئے ہوکیا؟ 
محمد ارشد (کرکیڑ ): آپ اس طرح مجھ پر جملے کس رہے ہیں ،جیسے آپ کبھی کھاتے ہی نہیں؛ بلکہ ہمہ وقت پڑھتے ہی رہتے ہیں اور میں صرف کٹرہ ہی کھاتا رہتا ہوں ۔
محمد افضل(طالب علم ): اردو کا ایک محاورہ ہے کہ ’’مارے گھٹنہ پھوٹے سر‘‘ ارے بھائی! میرے کہنے کایہ مطلب تھوڑی ہی ہے کہ آپ صرف کٹرہ کھانے میں اورمیں صرف پڑھنے میں لگا رہتا ہوں ،بلکہ میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ مدرسے والے نے آپ کے حصہ کی جو دو روٹی ،دوبو ٹی اور ایک آلو بنایا ہے ،وہ کسی اور کو نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ختم ہو جائے گی، پھر بھی اتنی جلدی کھانا لا نے کی وجہ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
محمد ارشد (کرکیٹر): آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ پورے چوبیس گھنٹے میں صرف چھٹی کے بعد کا مختصر ساوقت کھیلنے کودنے کو ملتا ہے ،تو اگر اس کو بھی کھیل کود کے علاوہ کسی اور چیز میں صرف کریں گے، تو کھیلنے کا وقت نہیں ملے گا نا۔
محمد افضل : اچھا کون سا کھیل کھیلتے ہیں جس کے لیے اس قدر اہتمام کرتے ہیں آپ ؟
محمد ارشد (کرکیٹر): ارے بھائی وہی کھیل، جس کا آج پوری دنیا دیوانی ہے اور ہر خواص وعام اس کا شیدائی ۔
محمد افضل (طالب علم) : اچھا یہ بات ہے! کیا نام ہے اس کھیل کا؟ 
محمد ارشد (کرکیٹر): آپ بھی کیا تصوف کی پُڑ یا بنے ہو ئے ہیں جو اتنا کہنے کے بعد بھی نہیں سمجھتے ،ارے صوفی جی!وہ کھیل کرکیٹ ہے ،کرکیٹ۔
محمد افضل (طالب علم ): اچھا اچھا اب میں سمجھا ،وہی کھیل جس میں ایک آدمی چھوٹا سا کیا اینٹ اونٹ پھینکتا ہے اور دوسرا ایک لکڑی سے اس کو مارتا ہے اور پھر سب کھلاڑی مل کر چیخنے ،چلانے اور اچھلنے لگتے ہیں ۔
محمد ارشد (کرکیٹر): اردوکا ایک محاورہ ہے کہ ’’بندر کیا جانے ادرک کا سواد ‘‘اور اسی کو عربی میں یوں کہا جاتا ہے کہ’’الناس اعداء لما جہلوا‘‘۔جب آپ کرکیٹ کے لطف سے ہی ناواقف ہیں ،تو اس سلسلے میں آپ سے گفتگوکرنا ہی فضول ہے ۔
محمد افضل (طالب علم ): چلو ہم ٹھہر ے نا آشنا ئے لطف ،لیکن آپ تو بتائیے کہ کرکیٹ میں کب اور کیسے مزہ آتا ہے ؟ 
محمد ارشد (کرکیٹر ): ویسے تو کرکیٹ کے تصور ہی سے لطف آنے لگتاہے،کھیلنے میں تو کیا کہنااور اس وقت کا مزہ تو پو چھیے ہی مت ،جب چوکا لگتا ہے اور جب چھکا لگ جاتا ہے ،تو خوشی کی کو ئی انتہا ہی نہیں رہتی ،سب کھلاڑی مارے خوشی سے پائے جامے سے باہرآجاتے ہیں۔
محمد افضل (طالب علم) : اور بھی کچھ کرتے ہیں ،جیسے : گیند نالی میں چلی جاتی ہے تو اس کو ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر تلاش کرتے ہیں ،جب مل جاتی ہے تو اسے پائے جامے پر رگڑکر صاف کرتے ہیں۔ایسا کرتے ہیں نا؟
محمد ارشد (کرکیٹر): ہاںیہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ؛ لیکن اس میں کیا برائی ہے؟یہ تو ایسا ہے کہ ’’پسند اپنی اپنی، خیال اپنا اپنا ‘‘۔یہ تو سب کی اپنی اپنی چوائس ہے ۔
محمد افضل (طالب علم ): واہ بھائی واہ !کیا پسند ہے آپ کرکیٹروں کی،یعنی نالی گھکور نا۔
محمد اکبر (ناصح): آ پ دونوں کیا بحث ومباحثہ کررہے ہیں ،حالاں کہ ہم طالب علم ہیں اور ہمارا عزم یہ ہے کہ ؂
ہمیں کھیلوں سے کیا، مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر، ورق ہو گا کفن اپنا 
اس لیے ہر وقت کرکیٹ کا تذکرہ اور ہر لمحہ کھیلوں پر تبصرہ نہیں ہو نا چاہیے؛ بلکہ علمی مباحثہ اور پڑھنے لکھنے کے حوالے سے گفتگو کرنی چاہیے ۔
محمد ارشد (کرکیٹر): آپ اپنی نصیحت اپنی جیب میں رکھیے، دیکھے ہیں زیادہ پڑھ کر کیا کر لیا ہے کسی نے ،جب اپنا بوریا بستر سمیٹ کر مدرسے کے گیٹ سے باہرہوجائیں گے، اوراس وقت مستقبل مجہول نظر آئے گا اور روٹی بو ٹی کا مسئلہ ایک مہیب اندھیرا بن کر سامنے کھڑا ہو جائے گا اس وقت ہم بتا دیں گے کہ کیا کرلیا آپ نے دن رات پڑھ کے ۔
محمد اکبر (ناصح ): یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم طلبہ کا مستقبل مجہول ہے، لیکن اس کی وجہ کیا ہے ؟ ہر وقت پڑھنا یا ہر وقت کرکیٹ کھیلنا ؟
محمد افضل (فٹ بالر):اس کی وجہ نا تو ہر وقت پڑھنا ہے اور نہ ہی ہر وقت کھیلنا ،بلکہ مستقبل مجہول ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ مدرسے میں ہمیں صرف دینی علوم ہی پڑھائے جاتے ہیں ،روزگارسے جڑے تعلیم کا کو ئی حصہ نہیں پڑھایا جاتا ،اور قدیم زمانے میں اس وقت کے حالات کے مطابق جو کتابیں داخل نصاب کی گئی تھیں ،وہ علیٰ حالہ باقی ہیں ، جن کا نہ تو مو جودہ زمانے میں کچھ فائد ہ نظر آرہا ہے اور نہ ہی وہ عصر حاضر سے ہم آہنگ ہیں ،جیسے :میبذی وغیرہ۔ نیز ہماری سندیں سرکاری طورپر کچھ اہمیت نہ رکھنے کی وجہ سے پورے نوسال کا لگا یا ہوا لمبا عرصہ بے کارمحسوس ہو تا ہے۔اور مستقبل مجہول ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بابِ اقتصادیات میں فقہِ قدیم تو ہمیں پڑھایا جاتا ہے ،لیکن عصرِ حاضر کے اقتصادیات کے نئے نئے طریقوں سے ہمیں روشناس نہیں کرایا جاتا ہے،جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم سامان لے کر جب مدرسے کے گیٹ سے باہر ہوتیہیں ،تو روزی روٹی کا مسئلہ ایک اندھیرا بن کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، اور ہمیں مستقبل مجہول ہی مجہول نظر آنے لگتا ہے ۔
محمد افضل (کرکیٹر): مدارس کا موجودہ نصاب تعلیم کی وجہ سے کچھ نادان لوگ مولوی کا مطلب لینے لگے ہیں کہ نا عاقبت اندیش ،بے قوف ۔اور یہ جملے بھی کسنے لگے ہیں کہ بسم اللہ کی گنبد میں رہنے والے ،ملا کی دوڑ مسجد تک وغیرہ وغیرہ، لہذ ا جب ہماری محنتوں کا صلہ ان القاب سے دیا جا رہا ہے اور اتنی پڑھائی کرنے کے بعد بھی مستقبل مجہول کا مجہول ہی رہ جاتا ہے ،تو ایسی پڑھائی سے کیا فائدہ ؟ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ کرکیٹ کھیلتے رہیں ، اس کا فائدہ کم سے کم اتنا تو ہے کہ ہم زندگی کی بہار لوٹیں گے اور یہی تو زمانہ ہے ہمارے بہار لوٹنے کا،اگر یہ مو قع ہاتھ سے چلاگیا ،تو بہار نہ لو ٹنے اور کرکیٹ نہ کھیلنے کاتاحیات افسوس رہے گا ۔
محمد اکبر (ناصح ): آپ نے بالکل سچی بات کہی ،کیو ں کہ نو سال لگا نے کے بعد بھی اگر مستقبل مجہول ہی رہ جائے، تو ایسی پڑھائی سے کیا فائدہ ؟چلو ہم بھی کرکیٹ کھیلتے ہیں اور زندگی کی بہارلوٹتے ہیں ۔(دو تین لڑکے ہاتھ میں بیٹ بلے لے کر اسٹیج پر نمایاں ہوتے ہیں اور دوسری جانب سے استاذ)
مولانا احمد (استاذ):آپ لوگ دوپہر کی سخت دھوپ میں پڑھائی کے وقت بیٹ اور بلالے کر کہاں جارہے ہیں؟ کیا آپ لوگ صرف کھیلنے کے لیے دارالعلوم آئے ہیں ؟
محمد اکبر (ناصح): صرف کھیلنے کے لیے تودارالعلوم نہیں آئے تھے ؛لیکن اب یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ صرف دارالعلوم کی روٹی کھانی ہے اور دن رات کھیلنا ہے۔
مولانا احمد (استاذ): لیکن آپ کے ایسا فیصلہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟
محمد اکبر (ناصح): وجہ یہ ہے کہ جب نو سال لگا نے کے بعد بھی مستقبل مجہو ل ہی رہ جاتا ہے اور ہم زندگی کے میدان میں روزی روٹی کے لیے مارے مارے پھرنے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں ،تو ایسی پڑھائی سے کیافائدہ ؟۔
مولانااحمد (استاذ): لگتا ہے کہ آپ لوگوں پر شیطان کا جادو چل چکاہے ،جس کی وجہ سے اتنی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں ،آپ حضرات کے ایک ایک اشکال کا جواب دوں گا ،جہاں تک اس اشکال کی بات ہے کہ مدارس میں ہمیں صرف دینی علوم پڑھائے جاتے ہیں ،روزگا ر سے جڑے کو ئی تعلیم نہیں دی جاتی ،تو اس سلسلے میں یادرکھنا چا ہیے کہ ہم مسلمان ہیں اورایک مسلمان کا اعتقاد یہ ہے کہ اِنَّ الْلّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنَ۔وَالْلّٰہُ خَیْرُالرَّازِقِیْنَ۔لہذا روٹی بوٹی کے مسئلے کو اچھا لنا ، گویا اپنے ایمان کی کمزوری کا اعلان کرنا ہے ،اور آپ حضرات کا یہ کہنا کہ نصاب میں قدیم زمانے میں داخل کردہ کتا بیں عصر حاضر میں اپنی افادیت کھو چکی ہیں ،بالکل بکواس ہے ، کیوں کہ یہی وہ نصاب تعلیم ہے جس کو پڑھ کر شیخ الہند پیدا ہوئے ،شیخ الاسلام پیدا ہو ئے ،علامہ بہاری پیدا ہو ئے ، اور ایسی ایسی شخصیت پیدا ہو ئی کہ دنیا کا کوئی بھی نصاب ان جیسی ایک بھی شخصیت پیدا کرنے سے عاجز رہاہے اور اب تک عاجز ہے، لہذا یہ اشکال بھی بے جا ہے۔اور یہ اشکا ل کہ عصر حاضر کے طریقۂ اقتصادیات سے ہمیں با لکل روشناس نہیں کرایا جاتا ،تو یہ اشکال بھی بے حقیقت ہے، کیوں کہ یہ دینی مدارس ہیں ،جن کا واحد مقصد دینیات پڑھانا ہے ، اگر آپ حضرات دینی تعلیم ، حصول دینا کے لیے پڑھ رہے ہیں، تو اس سے بڑ ھ کر آپ لو گو ں کی کو ئی او رحماقت نہیں ہو سکتی، کرکیٹ کھیلنابھی نہیں،کیوں کہ ہمارا پڑھنا صرف رضائے الٰہی کے لیے ہے، اور اس کے لیے عصری تعلیم ضروری نہیں۔ اور اس جواب کے بعد آپ کا یہ اشکال خو د ہی بے معنی ہو جاتا ہے کہ ہماری سندوں کا سر کاری طور پر اہمیت نہیں ہے ، کیوں کہ ہمیں اللہ کو خوش کر نا ہے ، جس کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں پڑتی ، اور کیا جتنے سر کاری طور پر ما نیتا ڈگری ہو لڈ ر ہیں ، سب بر سر روز گار ہیں؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں جتنے بے روز گار ی سے ؛ بلکہ خود کشی کر کے مر رہے ہیں ،اتنے توبے سند لو گ بھی نہیں مر رہے ہیں ، اب تو آپ حضرات کے تمام اشکالات رفع ہوگئے ہوں گے اور مجہول مستقبل امید کی کر نوں سے جگمگانے لگا ہو گا ؟
مو لانا اختر(استاذ):ابھی نہیں !ابھی ان لوگوں کا ایک اور اشکال باقی ہے کہ جب ہم رزق کے سلسلے میں دنیا وی تمام اسباب کو منقطع کر لیں گے،تو ہم اور ہمارے بال بچے کیا کھائیں گے ؟جب کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور اسباب کے بغیر یہاں کچھ نہیں ملتا ،تو اس کا جواب سن لیجیے کہ دنیا میں آج تک رزّاق کا بڑا سے بڑا نافرمان ،حتی کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والا فرعون بھی بھوکا نہیں مراہے ،تو کیا ہم اللہ کے کام کرنے والے بندے کو اللہ بھو کا رکھیں گے؟ہر گز نہیں ،چنانچہ آپ اس کی عملی مثال دیکھنا چاہتے ہیں ،تو دیکھ سکتے ہیں کہ معقول یعنی عقل میں آنے والی اور ہم مولویوں کی عقل میں آنے والی مقدار صرف پندرہ سو کمانے والا ایک مولوی لاکھوں کے کمانے والے سے بہتر، پرسکون ،خوش حال اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی گذارتا ہے، اور ایسا ایسا کھا نا کھاتا ہے کہ لاکھوں کمانے والے کو اس کا ذرہ بھی نصیب نہیں ہو تا ہے ،جیسے آپ مسجد میں ہیں ،تو پندرہ بیس ایٹم کے تو صرف گوشت کے آئیں گے ،کیا اتنا ایٹم لاکھوں کمانے والا کھاسکتا ہے ؟اور وہ بھی روزانہ ؟اور مرغے کھانے میں تو پوچھیے ہی مت کہ مولوی کا پیٹ مرغوں کاقبر ستان بنا ہوا ہے ،جب حقیقت یہ ہے ،تو پھر اس سلسلے میں واویلا مچانا کہ ہمارا مستقبل مجہول ہے خود اپنی عقل وفکر کی ہنسی اڑانی ہے۔
اور ہاں یہ اتنا عیش وآرام اسی وقت نصیب ہو گا ،جب کہ ہم کچھ ہو ں گے ،اور جب ہم کچھ نہ ہو ں گے اور لعنت زدہ کھیل کرکیٹ میں ہر وقت لگے رہیں گے ،تو یقیناًہمارا مستقبل مجہول رہے گا ،لہذا اگر مستقبل تابناک بنانا چاہتے ہیں، تو اولاً کرکیٹ چھوڑنا ہوگا اور تمام مشاغل سے کٹ کر پڑھنے میں لگنا ہوگا۔ کیا آپ لوگ اس کے لیے تیار ہیں؟
محمد اکبر (ناصح): اگر آپ ابھی تشریف نہ لاتے، تو میں ان کے بہکاوے میں آجاتا اور میرا مستقبل واقعی مجہول ہوتا،اس لیے میں اب کرکیٹ جیسے لعنت زدہ کھیلوں سے تو بہ کرتا ہوں اور محنت کا عزم کرتا ہوں ۔
محمد ارشد (کرکیٹر): میں بھی اب تک مستقبل مجہول کے تصور سے غفلت میں پڑا ہواتھا اور استاذ کا سبق سننے کے بجائے مستقبل مجہول کرنے والاکھیل: کرکیٹ کا تذکرہ کرتا رہتا تھا،لیکن اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ نہ میں کرکیٹ کھیلوں گا اور نہ ہی کسی کو کرکیٹ کی ترغیب دوں گا ،بلکہ ہر وقت محنت کروں گا ۔
محمد افضل (طالب علم): اگر ہر وقت پڑھنے ہی میں گذارا جائے، تو پھر پاگل ہو نے کا خطرہ ہے ،جیسا کہ کچھ احباب امتحان کے زمانے میں زیادہ محنت کرنے سے پاگل ہو گئے ہیں ،لہذا کھیلنا بھی ضروری ہے۔
مولانااختر(استاذ): میں یہ کہاں کہتا ہوں کہ ہر وقت پڑھا ہی جائے اور کچھ نہ کیا جائے ،بلکہ پڑھنے کی طرح کھیلنا بھی ضروری ہے،لیکن کرکیٹ کے علاوہ کو ئی کھیل ہو نا چا ہیے ۔
محمد ارشد (طالب علم): کرکیٹ کے علاوہ کون سا کھیل ہو نا چاہیے؟
محمد افضل (فٹ بالر): کرکیٹ کے علاوہ جیسے:کراٹا، کبڈی اور سنا ہے کہ گڈا کے طلبہ نے مل کر فٹ بال کی ایک ٹیم بنائی ہے ،تو اس میں بھی شریک ہو سکتے ہیں۔
مولانااحمد (استاذ) : یہ کھیل ٹھیک ہے چلو پھر آج سے آپ لوگ صرف فٹ بال کھیلا کرو۔

شر ک و بدعت کے قلع قمع کر نے اور سوسائٹی کی اصلاح میں علمائے دیو بند کے کارنامے

پسِ منظر 
یہ مکالمہ دراصل اس سے پہلے کے مکالمے کی بے پنا ہ مقبو لیت کی دَین ہے ، جس کی وجہ سے دو بارہ ’’ النا دی العربی ‘‘ کے اختتامی پر وگرام کے لیے لکھنے کا حکم دیا گیا، چنا نچہ حضرت الاستاذ جناب مولانا شو کت صاحب بستو ی مد ظلہ العالی جنرل سکریڑی رابطۂ مدارسِ اسلامیہ و مشر فِ عام انجمن النادی العربی و استاذ عر بی ادب دارالعلوم دیو بند کے حکم پر لکھا گیا اور ’’ النا دی العر بی ‘‘ کے اختتامی پروگرام میں اسٹیج کیا گیا ۔چو ں کہ اس کے مو ضو ع کی ہمہ گیر یت کی وجہ سے علمائے دیو بند کے کارنامو ں کا مکمل و مفصل احاطہ و تجزیہ پیش کر نا ، مکالمے کی نزاکت بر قرار رکھتے ہو ئے اور اس کے اسٹیج کیے جانے کے لیے مختص مختصروقت میں نا ممکن تھا ، اس لیے پلاٹ میں چند پہلو و ں کو ہی اور وہ بھی صرف ’ ’ مشتے نمونے از خروارے ‘‘ کے طو رپر پیش کیا گیاہے ۔ اسی وجہ سے مکالمہ اپنی تشنگی کا شکوہ کنا ں ہے ، تا ہم پہلے کی طرح اسے بھی محبو بیت کی نگاہ سے دیکھا او رسنا گیا، جس کا اردو تر جمہ پیش ہے ۔اس میں مقامات اورتاریخی ہستیوں کے نام تاریخی واقعے کی منظر کشی کرنے کے لیے لکھے گئے ہیں۔

تفصیلات 
افراد کر دار 
(۱)محمد اکرم سکریڑی ملکہ وکٹوریہ 
(۲)محمد مستقیم باللہ بر طانوی ممبر پارلیمنٹ 
(۳)آفتاب عالم بر طانوی ممبر پارلیمنٹ 
(۴)عبد الجلیل بر طانوی ممبر پارلیمنٹ 
(۵)محمد مصطفی پادری فنڈر 
(۶)محمد ازہر ایک عام مسلمان 
(۷)حبیب اللہ مولا نا نانوتوی ؒ (دیوبند ی) 
(۸)محمد زاہد پا دری محی الدین 
(۹)محمد نظام الدین پادری اسکاٹ 
(۱۰)محمد تفصیل پادری نو لس 
(۱۱)محمد خلیق مولانا ابو المنصور (دیوبند ی ) 
(۱۲) عبد الواحد مولانا غلام دستگیر (بر یلوی )
(۱۳) محمد احمد مولوی حشمت علی (بر یلوی ) 
(۱۴) محمد خالد مولوی نعیم الدین (بر یلوی )
(۱۵)محمد شوکت مولوی سر دار علی خان (بر یلوی )
(۱۶)سراج الدین مولانا محمدمنظور نعمانی (دیو بندی )
(۱۷)محمد قاسم مولانا عبداللطیف (دیوبندی ) 



(بر طانوی پارلیمنٹ کی ہنگامی میٹنگ )
اکرم (سکریڑی ملکہ وکٹوریہ) : شر کا ئے میٹنگ !ہم سب کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبر ی ہے ، وہ یہ ہے کہ ہم نے سلطنتِ مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کر کے رنگون بھیج دیا ہے ، اب ہندستان پر ہمارا مکمل قبضہ ہوچکا ہے ،اس لیے آج ہم انتہا ئی فخر کے ساتھ یہ اعلان کر تے ہیں ،کہ ’’خلق اللہ کی، ملک بادشاہ کا اور حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کی ‘‘ لیکن ہمیں ابھی تک یہ خدشہ ہے کہ کہیں مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر ہمارے خلاف علمِ بغاوت نہ بلند کردیں او رہمارا سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے ۔ اس لیے ہندستان پر دائمی قبضہ بر قرار رکھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کیا جائے ؟ اسی مسئلے پر غور کر نے کے لیے یہ ہنگامی میٹنگ بلائی گئی ہے ، تو اس میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے ؟ 
مستقیم (بر طانوی ممبر پارلیمنٹ ):میری رائے یہ ہے کہ تمام ہندستانی مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنا دیا جائے او رجو بھی دینِ مسیحیت قبول کرنے سے انکار کرے ، اس کو یا تو قید کر دیا جائے یا پھر سر ہی قلم کر دیا جائے ۔ اسی طر ح وہاں کے ہندوں کوخصوصی مر اعات دے کر مسلمانو ں کے خلاف استعمال کیا جائے ۔ 
آفتاب عالم (ممبر پارلیمنٹ ):میں اپنے دوست کی رائے سے بالکل متفق ہو ں ،لیکن اس کا تعلق صر ف خارجی سازش سے ہے ، جس سے اپنے مقصد میں خاطر خواہ کامیابی ملنے کی امید نہیں کی جاسکتی ، اس لیے اس کے ساتھ ساتھ داخلی سازش کا جال بچھانا بھی ضروری ہے اور اس کی صور ت یہ ہوگی کہ چو ں کہ ہندستانی،نفسیاتی طو رپر عقیدت کے محکو م اور اسلاف پر ست ہو تے ہیں، اس لیے انھیں اس جال میں بھی پھساناپڑ ے گا ، جیسے ہم مرزا غلام احمد قادیا نی کوجھوٹا نبی بنا کر کھڑاکر دیں گے ، اس کافائدہ کم از کم اتنا تو ضرور ہو گاکہ اگر مسیحیت قبو ل نہیں کر یں گے ، تو ا س ہمارے بھیجے ہو ئے نبی کے دامِ فریب میں ضرور آجائیں گے اور اس طرح وہ اپنے دین وایمان سے ہا تھ دھوبیٹھیں گے ۔
عبدالجلیل (ممبر پارلیمنٹ ):یہ تمام مشورے اپنی جگہ ٹھیک ہیں ؛ لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مزید دیگر فتنے بھی کھڑے کیے جائیں ،جیسے ، فتنۂ شیعیت ، فتنۂ بر یلویت ، غیر اسلامی رسم ورواج کا فر وغ وغیرہ وغیرہ ، کیو ں کہ اگر وہ ایک فتنے کے جھانسے میں نہیں آئیں گے ، تو دوسرے کسی میں ضرور آجائیں گے ۔نیز ہمیں یہ بات بھی فرامو ش نہیں کر نی چاہیے کہ ہندستانی مسلمان اپنے ملاؤں ، بالخصوص دیو بند ی علما کی باتو ں پر اپنی جان جاں آفریں کے سپر د کرنے میں ذرا بھی با ک محسوس نہیں کر تے ، اس لیے ان ملاؤں بطور خاص دیوبندیو ں سے یہاں کی عوام کو متنفر کرنا اپنے مقصد میں مکمل کام یا بی حاصل کر نے کے لیے ضروری ہے ۔
محمد اکرم (سکریڑی ملکہ وکٹوریہ):(تھوڑی دیرکچھ لکھنے کے بعد ) آج مؤرخہ ۔۔۔۔۔۔ برطانوی پارلیمنٹ کی ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی ،جس میں ہندستان میں اپنی حکمرانی بر قرار اور وہا ں کے مسلمانو ں کو عیسائی بنانے یا گمراہ کر نے کے حوالے سے غور و خوض کیا گیا ، تمام ممبر ان سے صلاح و مشورے کے بعد بہ اتفاق رائے درجہ ذیل تجاویز پا س کی گئیں :
تجویز(۱) :ہندستان میں خارجی فتنے پھیلائے جائیں ۔
تجویز(۲): داخلی فتنے بھی کھڑے کیے جائیں ۔
تجویز(۳):مسیحیت کی تبلیغ کے لیے بڑے بڑے پادریوں کو ہندستان روانہ کیا جائے۔
تجویز(۴) : حالات کے تقاضے کے مطابق دیگر سازشیں بھی رچی جائیں ۔
یہ میٹنگ آج یہیں اختتام پذیر ہو تی ہے ، لیکن جب جب اس مسئلے پرغور و فکر کی ضرورت پڑے گی ، ہم ہنگامی میٹنگ طلب کر یں گے ۔تمام ممبران کا شکریہ ۔
(یہاں میٹنگ ختم ہو جاتی ہے اور پادری ہندستان کے اسٹیج پر نمایا ں ہو جاتے ہیں او رساتھ میں ایک عام ہندستانی مسلمان بھی )
محمد مصطفی(پادری فنڈر): سامعینِ کرام !میری بات بالکل دھیان سے سنیے کہ اس روئے زمین پر اگر کو ئی سچ اور حق مذہب ہے ، تو صر ف اور صر ف عیسائیت ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور مذہب نہیں، حتی کہ مذہبِ اسلام بھی نہیں۔ اس لیے آپ حضرات کی بھلائی اسی میں ہے کہ گورنمنٹ کے مذہب میں داخل ہو جاؤ او رسب کے سب عیسائی بن جا ؤ ، ورنہ یاد رکھو ! اگر کسی نے ذرا بھی مخالفت کی کوشش کی، تو ا س کا وجود ہی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا ۔ 
محمد ازہر (عام مسلمان ): پادری صاحب ! آپ کا مجمعِ عام کے سامنے برملا اسلام کے خلاف زہر افشانی کر نا ٹھیک نہیں ہے ، کیو ں کہ اس کا انجا م بہت برُا ہو گا ، او رجس گور نمنٹ کے غرور میں آپ اس طرح بیان دے رہے ہیں، خود ا س کا وجود یہاں سے مٹ جائے گا ۔ویسے ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح اور حق ہونے کا دعوےٰ رہتاہے ، اس لیے آپ کامذہبِ عیسائی کے بارے میں یہ دعویٰ کر نا بھی اسی قبیل سے ہے۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر) : یہ لو گوں کی غلط فہمیاں ہیں کہ وہ اپنے مذہب کو سب سے زیادہ حق مانتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ صر ف عیسائیت ہی حق ہے اور باقی سب باطل ۔اب آپ ٹھہرے جاہل آدمی، میں آپ کو کیسے سمجھاؤں؟ اگر آپ کے بڑے بڑے علمائے کرام بھی میرے سامنے آجائیں،تو میں سب کو دلائل سے اپنے مذہب کے حق ہونے کا قائل کردوں گا۔
محمد ازہر (عام مسلمان ): اس کا مطلب ، آپ مناظرہ کرنا چاہتے ہیں ، تو میں بھی مناظرے کے لیے تیار ہوں، اس لیے آپ اپنے پادریوں اور گروگھنڈالوں کو بلا لیجیے اور میں بھی اپنے علما ئے کرام کو بلاتا ہوں ، تاکہ آج بر ملا دودھ کا ددوھ اور پانی کاپانی ہو جائے ۔
(موبائل سے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔۔۔۔۔۔حضرت ایک مصیبت آپڑی ہے ۔۔۔ ایک لحیم شحیم اورہڑ یا پیٹ والا پا دری بر سرِ عام اسلام کے خلاف تقریر کر کے مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے اورمناظرے کا چیلنج کر رہا ہے ، اس لیے آپ سے در خواست ہے کہ جلد سے جلد تشریف لائیے ۔۔۔وعلیکم السلام ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر): (موبائل سے ) گڈ مو رننگ پادریو ۔۔۔تم لو گ مز ے کی نیند لے رہے ہو او ریہا ں میرے چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں ۔۔۔ارے یار کیا بتاؤں ، میں مسلمانوں کو مناظرے کا چیلنج کر دیا ہوں اوروہ لوگ مکمل تیاری کے ساتھ آرہے ہیں ، ا س لیے اگر مسیحیت کو رسوا ہونے سے بچانا ہے ، تو جلدی سے میر ی مدد کے لیے آجاؤ،کو ئی سواری نہ ملے تو جگاڑہی پر بیٹھ کر آجاؤ ۔۔۔ورنہ سمجھ لو کہ ہندستان سے آج مسیحیت کا خاتمہ ہو گیا ۔
محمد تفصیل (پادری نو لس ): (پر دے سے ) ارے یار ! تم سے مسلمانوں کو مناظرے کا چیلنج دے کر یہ بے وقوفی کرنے کے لیے کس نے کہا ؟ 
محمد مصطفی(پادری فنڈر ): ارے یارمجھے او ر رسوا مت کر و ، جو ہونا تھا وہ ہوگیا ، اب آگے کیا ہوگا اس کی فکر کر و او ر تم لوگ تیاری کے ساتھ جلدی سے آجاؤ۔
محمد تفصیل (پادری نو لس ): ٹھیک ہے ہم لوگ پہنچ رہے ہیں ۔
(دونوں فریقین کے آجانے کے بعد ) 
محمدمصطفی(پادری فنڈر ): مسلمانو! آؤ پہلے شرائطِ منا ظرہ طے کر لو ۔ 
حبیب اللہ (مولانا قاسم نا نو تو ی ؒ ) : ہم تمھاری ہر شر ط اور ہر مو ضوع پر مناظرہ کر نے کے لیے تیار ہیں ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر ):اگر آپ حضرات اس پر تیار ہیں، تو مناظرہ درج ذیل شر طو ں کے ساتھ ہو گا :
شرط (۱)مناظرہ پہلے عقیدۂ تثلیث پر او رپھر اس کے بعد ایمان کی حقیقت پر ہو گا۔ 
شرط(۲)دونوں فریقین کے صر ف چار چار اشخاص ہی شریک ہو سکتے ہیں ۔
شرط (۳)ہر فریق کے متکلم کو صر ف پانچ منٹ کا وقت دیا جائے گا ۔
شرط(۴)شکست خوردہ کو مجمعِ عام کے سامنے بلا پس و پیش فاتح کا مذہب قبول کر نا ہو گا ۔
حبیب اللہ (مولانا نا نوتویؒ ) : ہمیں تمام شرائط منظور ہیں، بلکہ تم نے توچار اشخاص تک کی اجازت لی ہے، تم رہوچار، ہم تمھارے لیے دو ہی کافی ہیں، لہذااب بلا تاخیرمنا ظرے کا آغاز کیاجائے ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر ): پہلے آپ ہی لوگ شر وع کر یں ۔
حبیب اللہ (مولانا نانو تو ی): الحمد لأھلہ والصلاۃ لأھلہا ،امابعد! عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا تین ہیں: (۱)الہ (۲)جبرائیل (۳)ابن اللہ اور یہ تینو ں ایک ہی ہیں ۔یہ کس قد ر مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک چیز تین بھی ہے اور ایک بھی ، فیا للعجب ویا للتحسر اتنی عام فہم بات بھی نہ سمجھنے والے کو کیسے سمجھاؤ ں ؟ اکبر الہ آبادی نے کیا خو ب کہا ہے کہ ؂ 
تثلیث کے قائل نے خالق کو کہا ایک 
سوئی تھی تین پر حیر ت سے بجا ایک 
اسی طرح ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسؑ ی خدا بھی ہیں اور ابن خدا بھی ۔یہ کس درجہ بے حقیقت عقیدہ ہے ؟ کیوں کہ خدا اس کو کہاجاتاہے جو ہر طرح کی احتیاج و افتقار سے وریٰ ہو اور حضرت عیسیٰ توتمام انسانی ضرورتوں کے محتاج تھے ، لہذا حضرت عیسیٰ کو خدا ماننا درست نہیں، جب خدا ماننا درست نہیں، تو ابنِ خدا ماننابہ درجہ اولیٰ درست نہ ہو گا ، کیو ں کہ خدا کی شان یہ ہے کہ لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد۔اگربالفر ض مان بھی لیں کہ وہ ابن خدا تھے ، تو عیسائی ہمیں یہ بتائیں کہ ان کے دادا کو ن تھے ؟ ؂
معاذ اللہ فرزندِ خدا کہتے ہو عیسیٰ کو 
تو دادا کو ن ہے ؟ اس کو بتا ئے جس کا جی چاہے 
سامعین کرام !(مولانا کچھ بو لنا چاہتے ہیں ؛ لیکن پادری نو لس فو راً ٹو ک دیتاہے کہ )
محمد تفصیل (پادری نولس ): مولانا ! آپ کا وقت ختم ہو گیا ، اس لیے تشر یف رکھیں ۔
حبیب اللہ (مولانانانوتوی ): اگر آپ حضرات کو میرے بیان پر کوئی اعتراض ہو ، تو بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں ، ان شاء اللہ جواب دو ں گا ۔
محمد تفصیل (پادری نو لس) : میرے دل میں کو ئی اعتراض نہیں ہے البتہ پادری فنڈر کو ئی اعتراض کرنا چاہیں، تو کر سکتے ہیں ۔
محمد مصطفی(پادری فنڈر ): میں کیا اعتراض کروں ؟ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے بیان پر کو ئی اعتراض نہیں کر سکتا اورنہ ہی کسی پادری کو ایسی حماقت کر نی چاہیے، ورنہ شکست ورسوائی ا س کا مقدر ہو گا اس لیے اس مو ضوع سے صر ف نظر کر تے ہوئے دوسرا موضوع : حقیقتِ نجات پر مناظرہ شر وع کرتے ہیں ، جس کے لیے ہم پا دری ا سکا ٹ سے درخواست کر تے ہیں کہ وہ آئیں او ردیو بندیو ں کے پر خچے اڑادیں ۔
محمد نظام الدین (پادری اسکا ٹ) : گناہو ں سے بچنا ہی نجات کہلاتاہے ،لیکن جب خالقِ عالم نے یہ دیکھا کہ پوری دنیا گناہوں اوربداعمالیوں کے سمند ر میں ڈوبی ہو ئی ہے ، تو وہ حضرت عیسی کا روپ دھا ر کر زمین پر اتر آئے اور صلیب پر لٹک کر ساری دنیا کے لو گو ں کے گناہو ں کا کفارہ ادا کر کے چلے گئے ۔ اس لیے اب نجات ا س کی ہو گی جو صلیب کو مانتے ہیں او رصلیب کو ماننا ہی عیسائیت ہے ، لہذا عیسائیت ہی نجات ہو گی ۔ عیسائیت ہو گی، تو نجات ملے گی ۔ عیسائیت نہیں ہو گی، تو نجات بھی نہیں ملے گی ؛کیو ں کہ نجات کی حقیقت یہی ہے ۔
محمد خلیق (مولانا ابو المنصور قاسمی) : نجات کی حقیقت وہ نہیں ہے ، جو اسکاٹ نے ابھی بیان کیا، بلکہ نجات کی حقیقت یہ ہے کہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے تدابیر اختیار کی جائیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب کہ گناہوں سے بچا جائے ۔ایسا نہیں ہے کہ مسیحیت اختیار ،کر لی تو اب کوئی گناہ ہی نہیں ہو گا ، بلکہ گناہو ں سے بچنے کے لیے گناہوں کا تر ک ضرور ی ہے ،خواہ وہ مسیح ہی کیو ں نہ ہو ۔ اور۔۔۔
محمد زاہد (پادری محی الدین ): ( مولانا کی بات کاٹتے ہو ئے ) مولانا آپ کا وقت ختم ہو گیا اس لیے آپ بیٹھ جائیے اور ہمیں کچھ بولنے دیجیے ۔ 
محمدخلیق(مولانا ابو المنصور قاسمی) :(گھڑی دیکھتے ہو ئے )پادریو!ابھی تو پانچ میں تین منٹ باقی ہیں ،پھر بھی تم کہہ رہے ہو کہ وقت ختم ہو گیا۔اگر تم لوگ جواب نہیں دے سکوگے، تو کم ازکم میری تقریرتو سکون کے ساتھ سن لو،شاید تمھیں ہدایت نصیب ہو جائے ۔
محمدزاہد (پادری محی الدین): نہیں ،نہیں ،ہم لوگ اب کچھ نہیں سنیں گے۔ پادریو!نکل چلو یہاں سے، ورنہ پھنس گئے تو قوم کے جوتے بجنے سے تمھیں کو ئی نہیں بچا سکتا ۔اس لیے بھاگو ،جلدی بھاگو۔
(اسی کے ساتھ سب پادری اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں )
حبیب اللہ (مولانا نانوتوی) :اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ ہمیں فتح نصیب ہو ئی اور پادری بری طرح شکست کھاکر سرپہ پاؤں رکھ کے بھاگے۔جہاں تک میں دیکھ رہاہوں میدان بالکل خالی نظر آرہاہے،اس لیے چلیے ہم لوگ بھی لوٹ چلتے ہیں ۔
محمد خلیق (مولانا ابو المنصورقاسمی) :جب کو ئی رہاہی نہیں، تو ہمارے یہاں رہنے سے کیا فائدہ اب تو لو ٹنے ہی میں فائدہ ہے،چلیے چلتے ہیں ۔
(بعد ازاں چار بریلوی اسٹیج پر آتے ہیں اور مل کر یہ درود پڑھتے ہیں )
ایک:یانبی سلام علیک 
سب :یا نبی سلام علیک 
ایک :یارسول سلام علیک
سب:یا رسول سلام علیک 
ایک:یا حبیب سلام علیک
سب :یا حبیب سلام علیک
ایک : صلوات اللہ علیک 
سب :صلوات اللہ علیک
ایک: یا بابا صابر!یا راجہ صابر!یا دولہا صابر!مجھے ایک نیک لڑکادے دو،اگر تم نہیں دوگے،تو میں کبھی تمھیں اوڑھنے کے لیے چادر نہیں دوں گا۔یاغوث المد د !یا بابا المدد !
سراج الدین (مولانامحمد منظور نعمانی ):(پردے سے )یہ کیساشوروغل ہو رہاہے؟
محمد قاسم (مولانا عبد الطیف قاسمی): کچھ قبری لوگ مُردے سے کچھ مانگ رہے ہیں۔مُردہ تو رہا دینے سے، اس لیے یہ لوگ چِلاّ رہے ہیں ۔
سراج الدین (مو لانا نعمانی) : (متعجبانہ انداز میں )مردے سے مانگ رہاہے ؟یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ کو ئی مردمردوں سے اپنی مراد مانگ رہا ہے ،ایسا کام تو کوئی عقل وخردسے پیدل شخص ہی کرسکتا ہے ،اس لیے چلیے اسے بتا دیتے ہیں کہ اس طرح شور مچانے سے کچھ ملنے والا نہیں ہے۔
(اسٹیج پر آنے کے بعد )
سراج الدین(مولانا نعمانی )ارے قبر یو!یہ تم لوگ کیا حماقت کررہے ہو ؟مرُدوں سے مرادیں مانگ رہے ہو اوریا رسول اللہ کہہ کر پکار رہے ہو ؟حالاں کہ لفظ ’’یا‘‘سے عربی میں صرف زندہ آدمی کو پکار اجاتا ہے۔اور کیا تم نہیں جانتے کہ صرف اللہ ہی سے مانگا جاتا ہے اور کسی سے نہیں۔
محمد احمد (مولوی حشمت علی بریلوی):میرے ساتھیو!یہ لوگ وہی وہابڑے ہیں جو رسول اللہ کے دشمن ہیں ، بزرگوں کی شان میں گستا خیاں کرنا ان کاشیوہ ہے،عرس مبارک اور میلاد شریف کے یہ سخت مخالف ہیں،قبروں پہ چراغاں جیسے متبرک کام سے انھیں نفرت ہے۔یہ لوگ کافر ہیں ،بلکہ جو شخص ان کے کافر ہو نے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے،اس لیے ان کافروں کی باتیں مت سنواور کانوں میں انگلیاں ٹھونس کے میرے ساتھ کہو: 
یا نبی سلام علیک۔
سب بریلوی :یا نبی سلام علیک
سراج الدین (مولانا نعمانی): قبر یو!تم لوگ ہمارے متعلق کیا بکواس کررہے ہو ؟کیا ہم لوگ کافر ہیں ؟حالاں کہ ہمارے عقائدصحابہ کے عقائد کی طرح ہیں ۔ہمارے عقائد تابعین کے عقائد کی طرح ہیں ۔ہمارے عقائد جملہ ائمۂ کرام ،فقہائے عظام اور کتاب وسنت کے عین مطابق ہیں ۔
عبدالواحد (مولوی غلام دستگیر بریلوی):نعمانی صاحب!صرف زبانی جمع خرچ کرنے سے کچھ نہیں ہو تا،اگر تمھیں اپنے عقائد کی درستگی پر اتنا ہی یقین ہے ،تو ہم تم دیو بندیوں کو مناظرے کا چیلنج کرتے ہیں ۔دم ہے تو آیئے اور مناظرے کا چیلنج قبول کیجیے ۔تا کہ آج علی الاعلان دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے ۔ 
محمد خالد (مو لوی نعیم الدین مرادآبادی): ارے میرے گروگھنڈالو!تم یہ کیا کہہ رہے ہو !تم جانتے بھی ہو کہ تم کس کو چیلنج کررہے ہو ؟تم دیوبندیوں کو چیلنج کررہے ہو ،اس لیے میں تمھارا ساتھ نہیں دے سکتا ،میں چلتا ہوں ۔
عبدالواحد(مولوی غلام دستگیر بریلوی):جب ہم قبریوں کے سرخیل آپ ہی نہیں رہیں گے، تو ہمارا پرخچے اڑنا یقینی ہے،اس لیے آپ کو رضاؔ کا واسطہ ،آپ کو قبروں کے چڑھاوے کا واسطہ ،خدا را آپ مت بھاگیے اور بریلویت کو رسوا مت کیجیے۔
محمد خالد(مولوی نعیم الدین مرادآبادی):ارے قبریو!میں توکیا ،میرا باپ رضاؔ بھی اگر قبرسے اٹھ کر آجائے تو ان دیو بندیوں سے مناظرہ جیت نہیں سکتا، اس لیے میں برسرِ عام رسواہو نا نہیں چاہتا ۔تم نے انھیں چیلنج کیا ہے ،تم جانو اور تمھارا کام،میں چلتا ہوں ۔خدا حافظ۔خواجہ تمھیں شکست سے بچائے ۔
(یہ کہہ کر فوراً اسٹیج سے نکل جاتے ہیں )
محمد شوکت (مولوی سردار علی خان):دیوبندیوں کو چوں کہ ہماری طرح قبری حلوے اور نذرانے کے مرغے نہیں ملتے، اس لیے یہ لوگ ہمارے رزق پر حسد کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی قسمت پر ماتم بھی،اس لیے یہ لوگ ہم لوگوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ،حالاں کہ وہابڑوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ رزق دینا اللہ کاکام ہے،وہ جس طرح چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے ویسے دیتا ہے۔بندے کا کام اسباب اختیارکرنا ہے،اس لیے وہابڑو!تم بھی قبرپر ستی شروع کردو،پھر ہماری طرح ہی مرغے اڑاؤگے اور ہماری ہی طرح خوش قسمت بن جاؤگے ۔
سراج الدین (مولانا نعمانی): بے شک تمھاری طرح ہمیں مرُدوں کے کھانے کے لیے دیے ہو ئے حلوے اور قبروں پر چڑھائے ہو ئے مرغے نہیں ملتے ،اس لیے تم اپنے آپ کو نیک بخت کہتے ہو اور ہم کو بدبخت ۔لیکن قبریو!جس طرح تم اپنے حلووں اور بھنے تلے مرغوں میں خوش ہو ،اسی طرح ہمیں اپنے فاقے اور بھوکے رہنے پر فخر ہے ،کیوں کہ ہمارے سردارمحمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم بھی فاقے کیا کرتے تھے ۔اے اللہ ہمارا حشر بھی انھیں کے ساتھ فرما۔
محمد شوکت (مولوی سردار علی خان) :نعمانی !تو بہ کرو تو بہ ،تم نے یہ کیا کہہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے رہاکرتے تھے ،نعوذ باللہ من ذلک۔تم مرتد ہو گئے،تم کافر ہو گئے ،تم مباح الد م اور واجب القتل ہو گئے ،کہو بریلویو!نعمانی کافر،نعمانی کافر۔(نعرے کے ساتھ )
سراج الدین (مولانا نعمانی) :ارے قبر یو!تمھاری یہ فطرت رہی ہے کہ جب تم ہارنے لگتے ہو،تو ہنگامہ کھڑا کرکے کسی طرح جان چھڑا نا چاہتے ہو اور یہاں بھی تم اسی لیے ہنگا مہ کررہے ہو،تا کہ بھا گنے کاکو ئی راستہ مل جائے۔ 
محمداحمد(مولوی حشمت علی): ہاں نعمانی صاحب!ٹھیک سمجھاآپ نے،جان بچی تولاکھوں پائے ،آج جان بچ جائے گی، تو کل سے حلوے پھراٹے پھر سے ملنے شروع ہو جائیں گے ۔اس لیے ہمیں برسرِ عام یوں رسوا کرکے ہمارے پیٹ پر لات مت ماریے اور ہمیں بھاگنے دیجیے ۔
سراج الدین (مولانا نعمانی) :جلدی سے پیچھے کے راستے سے بھاگ جاؤ ،ورنہ دیکھ رہے ہو !عوام کے جوتے چپل تمھارے سروں کو تاک رہی ہیں ،لگنا شروع ہو جائے گا ،تو تمام مرغے باہر آجائیں گے۔
عبدالواحد(مولوی غلام دستگیر):نعمانی صاحب!آپ کا بہت بہت شکریہ ،آپ نے ہمیں بھاگنے کا موقع دے کر رسوائی اور پٹائی دونوں سے بچالیے ،ورنہ آپ کے سوا آج جوتے سے کو ئی خواجہ نہیں بچاسکتا تھا،اس لیے آپ کا شکریہ ،شکریہ ،شکریہ۔(تمام بریلوی اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں )
سراج الدین (مولانا نعمانی) :خدا کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ ہم دیوبندیوں کو اپنی جگہ جمائے رکھا اور بریلوی بری طرح شکست کھاکر بھاگے اور بہت سارے لوگوں کوتوبے کی توفیق عنایت فرمائی ۔فالحمداللہ اولاًوآخراً۔
محمد قاسم (مولانا عبدالطیف ):میدان بالکل خالی نظرآرہا ہے اس لیے ہم لوگ لوٹ چلتے ہیں 
سراج الدین (مولانا نعمانی): ہا ں خداکا شکریہ اداکرتے ہوئے چلتے ہیں ۔

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ ؟

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ ؟
پسِ منظر
یہ مکالمہ دراصل دارالعلوم دیوبند کی ایک فعال اور سر گر م عربی انجمن ’’النادی العربی ‘‘ کے ششماہی پر وگرام کے لیے عربی میں لکھا گیا تھا ، جب اس مو ضوع کی تعیین کے ساتھ لکھنے کی ذمہ داری احقر کو دی گئی ، تو پلاٹ کی ترتیب کی نو عیت پر بہت غور وفکر کیا ، لیکن شر وع میں کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیسے تر تیب دیں ؟ کیوں کہ ایک طر ف تو مکالمے کے حوالے سے موضوع اتنا خشک تھا کہ اسے مکالمے کے رنگ میں رنگنا دشوار نظر آرہا تھا ، وہیں دوسری طرف یہ حکم بھی تھا کہ اسے مزاحیہ روپ دیا جائے ، بہر کیف تو فیق ایز دی اورنہایت عر ق افشانی کے بعد پلاٹ کی تر تیب دے دی گئی اور مزاحیہ بنانے کے لیے نفس مضمون کے مکالمات کے ساتھ ساتھ عملی وآلی رموز کے سہارے بھی لیے گئے ۔ اور چوں کہ مکالمے کاافتتاح او ر اختتام بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہو تا ہے اور اسے کسی بھی رنگ میں رنگنے کے لیے انھیں دونوں حصوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے بایں وجہ مزاحیہ روپ دینے کے لیے ان دونوں حصوں پر زیادہ تو جہ دی گئی ہے اور خارجی رموز بھی استعمال کی گئی ہیں ۔
جب یہ مکالمہ اسٹیج کیا گیا تو جہا ں طلبۂ کرام او ر سامعینِ عظام نے بے حد پسند کیا ، وہیں اساتذۂ کرام نے بھی تحسین و حو صلہ افزا کلمات سے نوازا، جن کی بدولت احقر کو ا س میدان میں آگے قدم بڑھانے میں بہت حو صلہ ملا اور قدم بڑھاتا چلا گیا ۔ ہذامن فضل ربی وللہ الحمد ۔ اب اسے اردو میں منتقل کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے ۔



تفصیلات 
افراد کردار
(۱)محمد نسیم مو ؤن 
(۲)محمد خالد ایک عام دیوبندی 
(۳)محمد منور ایک عام سلفی 
(۴)ہدایت اللہ سلفی عالم 
(۵)ثنا ء اللہ سلفی عالم 
(۶)محمد سعد دیوبندی عالم
(۷)نہال انور دیو بندی عالم 
محمد نسیم (موؤن ): (ہاتھ میں ایک مو ٹی سی تسبیح اور سر پہ پگڑی باندھے اسٹیج پر آتا ہے اور اسٹیج پر لگی گھڑی ۔جس میں عشا کی اذان کا وقت بجا ہو تا ہے ۔کو دیکھتے ہو ئے کہتا ہے کہ )
اوفوہ ! عشا کی اذان کا وقت ہو بھی گیا ۔ چلو پہلے اذان دے دیتے ہیں ، پھر چٹائی و ٹائی بچھائیں گے ۔
(پھر ا س طر ح اذان دیتا ہے )اللہ اکبر اللہ اکبر ۔اللہ اکبر اللہ ۔۔۔۔۔۔(یہاں پر اچانک آواز بند کر دیتا ہے جو اس با ت کی طر ف اشارہ ہو تا ہے کہ بجلی کٹ جانے کی وجہ سے آواز بند ہو گئی ہے ۔ پھر دس پندرہ سکنڈ کے وقفے کے بعد )۔۔۔ ۔۔۔الہ الا اللہ ۔(پھر گھڑی کو پچاس منٹ آگے کر کے اسٹیج سے باہر آجاتا ہے ۔ اس کے بعد دو آدمی اسٹیج کے دونوں کناروں سے چل کر بیچ میں آکر ملتے ہیں اورعلیک سلیک کے بعد )
محمد خالد(عام دیوبند ی) : بھا ئی صاحب ! اذان ہو چکی ہے ،چلیے عشااور تراویح کی نماز پڑھنے چلتے ہیں ۔
محمد منور (عام سلفی ):تعجب ہے ! ابھی تک آپ نے عشا کی بھی نماز نہیں پڑھی ہے ؟ حالاں کہ میں عشا تو کیا تراویح سے بھی فارغ ہو چکا ہو ں ۔
محمد خالد (عام دیو بند ی) :انا للہ ! ابھی تو اذان ہو نے سے پچاس منٹ بھی نہیں گذرے ہیں ، پھر بھی آپ عشا اور تراویح دونوں سے فارغ ہو گئے ؟ کیوں کہ صر ف عشا ہی کی نماز سنن و نو افل کے ساتھ دس رکعات ہیں ، پھر تراویح کی بیس رکعات ہیں ، اس کے بعد تین رکعات وتر کی بھی ہیں ۔ اور آخر میں کم از کم دورکعت نفل بھی ہے اور یہ تمام مل کر ۳۵؍رکعات ہو جاتی ہیں، توآپ نے ۳۵؍ رکعات ۵۰؍منٹ کے اندر ہی اندر کیسے ادا کر لیے ؟ یہ تو بچوں والی نماز ہی ہو سکتی ہے ۔
محمد منور (عام سلفی) : ( تعجب خیز انداز میں )کیا کہا آپ نے تراویح کی بیس رکعات ہیں ؟ ارے بھا ئی ! تراویح توصر ف آٹھ ہی رکعات ہیں ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صر ف آٹھ ہی رکعات منقول ہے ، ا س لیے ہم سلفی نبی کا کامل اتباع کر تے ہو ئے صر ف آٹھ ہی رکعات پڑھتے ہیں ، ہم مانتے ہیں کہ کثر ت صلاۃ بذات خود ایک عبادت ہے ، لیکن اتنی ہی کثرت عبادت ہے ، جتنی کہ شر ع میں منقول ہے، اس سے زیادہ عبادت نہیں؛ بلکہ گناہ ہے، نیز ارشادِ خداوندی ہے کہ ( یُرِ یْدُ الْلّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ) اورآپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بیس کے با لمقابل آٹھ رکعات مختصر ہیں او رآسان بھی ۔
محمد خالد (عام دیو بند ی ): تعجب ہے آپ پر اور آپ کی عقل و فکر پر ’’ چوری بھی اور سینہ زو ری بھی ‘‘ خواہش نفسانی کا اتباع کر تے ہوئے صر ف آٹھ رکعات ہی پڑھتے ہیں اور اس پر قرآن و حدیث سے غلط استدلال بھی کرتے ہیں ، ہا ئے تعجب ، ہا ئے افسوس ۔
محمد منور (عام سلفی ):دیو بندی بھا ئی ! آپ کو اس عمل پر تعجب او رافسوس ہو رہا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور جس عمل کو کر نے کا حکم امیر المؤمنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے دیا ہے او ر جس عمل پر امت کا توارث چلا آرہا ہے ؟۔
محمد خالد (عام دیوبندی ): نہیں میرے بھا ئی نہیں ۔ میں اس عمل پر تعجب نہیں کر رہا ہو ں،جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہے او رجس کو کرنے کا حکم خلیفۂ ثانی نے دیا ہے ، بلکہ آپ کے اس عمل پر تعجب کر رہا ہو ں ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے ، صحابہ کے عمل کے خلاف ہے ،جمہورِ امت کے عمل کے خلاف ہے اور اس دعوے پر تعجب کر رہا ہو ں، جو شریعت کے خلاف ہوتے ہوئے بھی کامل اتباع نبوی سمجھ رہے ہیں ۔
محمد منور (عام سلفی ): دیوبندی بھائی !اب آپ بالکل خاموش ہو جائیے او رمزید ایسی ہر زہ سرائی نہ کیجیے ، جس سے آپ کا ایمان و عقیدہ اکارت ہو جائے ۔اور میں بھی اب کچھ نہیں بو لوں گا ، جس سے آپ کی ہٹ دھر می میں اضافہ ہو جائے ، اس لیے میں ایک بڑے عالم کو بلاتاہوں ، جو آپ کو اچھی طرح سمجھادیں گے کہ تراویح صر ف آٹھ رکعات ہیں بیس رکعات نہیں ہیں ۔
محمد خالد (عام دیو بندی) :ٹھیک ہے بلائیے ۔
محمد منور(عام سلفی ):(موبائل سے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم ) : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ،کہو کیسے یاد فر مایا آپ نے ؟ کوئی خاص مسئلہ پیش آگیا ہے کیا ؟ 
محمد منور(عام سلفی ): جی حضرت، معاملہ کچھ ایسا ہی پیش آگیا ہے ، میرے ایک دیوبندی دوست ہے، جوا س بات پر بہ ضد ہے کہ ترا ویح بیس رکعات ہیں آٹھ نہیں ، میں نے اسے سمجھانے کی ہر ممکن کو شش کی، مگر یہ سمجھتا ہی نہیں، اس لیے آپ جلدی تشریف لے آئیے ، تاکہ ہم اپنے دوست کو دیوبندیت کی ضلالت سے سلفیت کی ہدایت پر لاسکیں ۔
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم) :ٹھیک ہے میں پہنچ رہا ہو ں، تم میرا انتظار کرو ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
محمد منور (عام سلفی ):وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ (دیو بندی کو مخاطب بنا کر ) وہ آرہے ہیں ، جو اچھی طرح آپ کو سمجھا دیں گے ۔
(اتنے میں دو سلفی عالم اسٹیج پر آجاتے ہیں )
مولانا ہدایت اللہ(سلفی عالم ) :حامداً و مصلیا امابعد! سب سے پہلے میں اس بات پر شکر یہ ادا کر وں گا کہ ایک دیو بندی کی اصلاح کے لیے مجھے بلایا گیا ، کیوں کہ اگر ایک دیو بندی کی اصلاح ہوجائے تو میں اسے سو ابلیس کو مسلمان بنانے سے زیادہ ثواب کاکا م سمجھتا ہو ں ، اس لیے کہ شیطان شیطانی کر تا ہے، تواس احساس کے ساتھ کر تا ہے کہ و ہ شیطانی کا م ہے ، جس کی اصلاح ممکن ہے ، لیکن ایک دیو بندی کو ئی غلط کام کر تا ہے تو اسے غلطی کا احساس نہیں ہو تا؛ بلکہ وہ اسے دین کاکام سمجھ کر کر تا ہے، او رایسوں کی اصلاح نا ممکن ہے ، انھیں غلط کاموں میں سے ایک، دیو بندی کا بیس رکعات تراویح پڑھنابھی ہے ،حالاں کہ بے شمار احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ مسئلہ مذکور ہے کہ تراویح صرف آٹھ رکعات ہیں ۔میں چند احادیث پیش کر تا ہوں۔
اِنَّ صَحَابِیًّا سَاألَ عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہٗ تَعَالیٰ عَنْہَا :کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُوْ لِ اللّٰہٖ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ :مَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہٖ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہٖ عَلیٰ اِحْدَیٰ عَشْرَ ۃَ رَکْعَۃً یُصَلِّی اأرْبَعًا ‘‘(بخاری شریف،ص،۱۵۴)۔
اس حدیث سے صاف پتہ چلتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں صرف گیارہ رکعات پڑھا کر تے تھے ، جن میں سے آٹھ تراویح کی ہو تی اور تین وتر کی ہوتی تھیں۔ اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مر وی ہے: 
صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہٖ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ لَیْلَۃً ثَمَانَ رَکَعَاتٍ وَالْوِتْرَ۔
علاوہ ازیں خلیفہ ثانی حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بھی آٹھ ہی رکعات پڑھنے کا حکم دیاہے ، جیسے کہ مو طا امام مالک میں ایک حدیث ہے :
’’ اَمَرَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہٗ تَعَالیٰ عَنْہٗ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَ تَمِیْمًا اَلدَّارَمِیْ اَنْ یَقُوْمَ لِلنَّا سِِ اِحْدَیٰ عَشْرَ ۃَ رَکْعَۃً‘‘۔
ان تمام احادیث سے یہی ثابت ہو تا ہے کہ تراویح صر ف آٹھ رکعات ہیں، بیس رکعات نہیں ہیں ۔
دیوبندی جی !اب تو آپ کے دل میں آٹھ کے بارے میں کو ئی شبہ باقی نہیں ہوگا؟
محمد خالد(عا م دیوبندی ):مو لانا سلفی صاحب ! ابھی آپ نے جو احادیث مبارکہ پڑھ کر سنائیں ،وہ سر آنکھو ں پر ، لیکن میں ایک جاہل آدمی ہو ں ، میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتا ہو ں کہ آپ نے جو کہا وہی حق ہے ، یا پھر وہ جو ہمارے علمائے کر ام کہتے ہیں ، کیوں کہ وہ بھی تو احادیث ہی سے بیس رکعات ثابت کرتے ہیں ،اس لیے میں بھی اپنے علما کو بلا تا ہو ں ، تا کہ آج آمنے سامنے یہ فیصلہ ہو جائے کہ کون حق پر ہے او ر کو ن باطل پر ؟ 
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم) : میرے بھائی ! میں تو آپ کے سامنے احادیث سے مکمل صراحت کے ساتھ یہ ثابت کر دیاکہ تراویح آٹھ ہی رکعات ہیں ، اس لیے آپ کو اپنے علما کو بلانے کی کیا ضرورت ہے ۔ میری باتوں پرغور وفکر کر تے رہیے ، سب سمجھ میں آجائے گا ۔
محمد منور (عام سلفی ): میرا دوست ٹھیک کہہ رہا ہے، انھیں بھی اپنے علماکو بلانے دیجیے، اگر ہم حق پر ہیں، تو ڈر نے کی کیا بات ہے ، ان کے علماکے سامنے بھی حق واضح ہو جائے گا۔(دیو بند ی سے مخاطب ہو کر ) آپ اپنے علما کو بلایئے ۔
محمد خالد (عام دیو بندی ) : (موبائل سے ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
مولانا محمد سعد (دیو بندی عالم) :(اسٹیج کے پیچھے سے ) وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ، کہو کیسے یا د فر مایا آپ نے ؟ 
محمد خالد (عام دیوبندی) :اس وجہ سے زحمت دی آپ کو ، کہ ہمارے یہاں ایک سلفی عالم آئے ہو ئے ہیں ، جو یہ کہہ رہے ہیں کہ احادیث سے تراویح کی صرف آٹھ رکعات ہی ثابت ہیں اور مجھے سلفی بنانے کی ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں ، اس لیے آپ تشریف لے آئیں ، تو آپ کی مہر بانی ہو گی ۔
مولانا سعد (دیوبندی عالم) :ٹھیک ہے ، آپ اسے روکے رکھیے ، کہیں بھاگنے نہ پا ئے ، میں بہت جلد آرہا ہوں، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔
محمد خالد (عام دیو بندی ): شکر یہ حضرت ، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ ۔ 
مولانا ثناء اللہ( سلفی عالم):کیا وہ تشریف لا رہے ہیں ؟ 
محمد خالد (عام دیو بندی ):(موبائل جیب میں رکھ کر) ہا ں بس وہ پہنچنے ہی والے ہیں ۔
مولاناثناء اللہ (سلفی عالم) :(گھبراہٹ کے انداز میں ) بھا ئی ! میں چلتا ہوں،اس لیے کہ گھر میں بہت کام ہے ، پھر کبھی ملاقات ہوگی ، ان شاء اللہ ۔
محمد منور (عام سلفی ):رکیے مولانا رکیے !اتنی سخت سردی میں بھی آپ کی پیشانی پر پسینہ ؟ خیریت تو ہے ، مو لانا اگر ہم حق پر ہیں ، تو دیو بند ی علماکے نام سے گھبراکربھاگنے کی کیا ضرورت ہے ؟
(اتنے میں دو دیو بندی عالم اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں او رعلیک سلیک کے بعد )
مولانامحمد سعد(دیوبندی عالم) :مجھے اطلاع ملی ہے کہ بیس رکعات تراویح کو آٹھ کر نے کے لیے آپ ایک جاہل آدمی سے مناظرہ کررہے ہیں ؟ 
مولاناثنا ء اللہ (سلفی عالم ):مولانا !چھوڑیے ان باتو ں کو اور خدا را ہمارے پیچھے مت پڑیے، ویسے بھی اس مو ضوع پر مناظرہ کرنے سے کچھ فائد ہ نہیں ، کیو ں کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ آج کے زمانے میں لوگ کس قدر سہولت پسند اور تن آساں ہو گئے ہیں اور تراویح کے حوالے سے آٹھ بیس دونوں طرح کی روایتیں ہیں ، اس لیے زمانے کے تقاضے کے مطابق جس روایت پر چاہیں عمل کر سکتے ہیں ، اس میں جھگڑ نے کی کو ئی بات ہی نہیں ہے ۔
مولانامحمد سعد(دیوبندی عالم ):سلفی عالم صاحب! مذہبِ اسلام کو ئی کھیل کی چیز نہیں کہ جو چاہے ، او رجس طرح چاہے ، اس سے کھیل کر ے ، اورآپ کایہ کہنا کہ ہم جس روایت پر چاہیں حسبِ خواہش عمل کر سکتے ہیں، یہ انتہائی غلط نقطۂ نظر او رگھنا ؤنی فکر کی عکاسی کر تا ہے ، اگر آپ سلفی حضرات ان جیسی چیزوں سے باز نہیں آئیں گے تو کوئی بعید نہیں کہ آپ حضرات اپنے ایمان سے ہا تھ دھو بیٹھیں۔ اس لیے آج میں احادیث کی روشنی میں یہ ثابت کر دکھاؤں گا کہ تراویح حقیقہً بیس رکعات ہیں ، آٹھ رکعات نہیں ۔
اس سلسلے میں بے شمار احادیث مر وی ہیں ، لیکن قلتِ وقت کی وجہ سے چند احادیث پیش کر تا ہو ں، علامہ شیخ نیمویؒ نے آثار السنن میں ایک حدیث ذکر کی ہے کہ 
’’ اِنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہٗ عَنْہٗ اَمَرَ رَجُلًا اَنْ یُصَلِّیَ بِہِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً ‘‘۔
تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ترا ویح میں بیس رکعات ہی پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عطا کاقول منقول ہے کہ
’’اَدْرَکْتُ النَّاسَ وَہُمْ یُصَلُّوْنَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً ‘‘
علاوہ ازیں چاروں امام بھی بیس رکعات ہی کے قائل تھے ۔ نیز عہد صحابہ سے لے کر با ر ھویں صدی تک پو ری امت کااجماع او رتوارث اسی پر چلا آرہا ہے کہ تراویح بیس رکعات ہیں ، چنانچہ امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ
’’ثُمَّ اسْتَقَرَّالأمْرُ عَلیٰ أَنَّ التَّرَاوِیْحَ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً ‘‘
حافظ ابن حجر بھی یہی کہتے ہیں کہ
’’ اِجْتَمَعَتِ الصَّحَابَۃُ عَلیٰ اَنَّ التَّرَاوِیْحِ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً ‘‘ 
امام ابن تیمیہؒ کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ
’’ہُوَ الَّذِیْ یَعْمَلُِ بہٖ اَکْثَرُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘۔
علاوہ ازیں دنیا کی تمام مسجدوں میں حتی کہ حر مین شریفین میں آج بھی بیس رکعات کی تراویح ہوتی ہے ، اگر حقیقت میں آٹھ ہی رکعات ہو تیں ،تو امت کے یہ جلیل القدر علما اس کی مخالفت نہ کر تے او رنہ ہی مسلمانوں کی بڑی تعداد اس کے خلاف عمل پیرا ہوتی ۔لہذامعلوم ہو اکہ آٹھ رکعات نہ صرف احادیث کے خلاف ہیں، بلکہ تعاملِ صحابہ او راجماعِ امت کے بھی خلاف ہیں۔
مولانا ہدایت اللہ (سلفی عالم):(متعجبانہ لہجے میں ) مولانا قاسمی صاحب، کیا کہا آ پ نے! آٹھ رکعات کا ثبوت احادیث کے خلاف ہے ، حالاں کہ اس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک حدیث مر وی ہے جو بخاری شریف میں مو جود ہے ، اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک حدیث مر وی ہے ، جس میں صراحت کے ساتھ آٹھ رکعت کا ذکر ہے ، اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ کا حکم بھی حدیث کی کتابوں میں مو جو د ہے ، کیا بخاری شر یف جھوٹی کتاب ہے ؟ کیا احادیث کا جو ذخیر ہ ہم تک پہونچا ہے، یہ سب جھوٹی باتو ں سے بھر ی ہو ئی ہے ، اگر یہ سب جھوٹ نہیں ہے اور یقیناًجھوٹ نہیں ہے، توان احادیث کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے اور آپ کے پاس ان کے کیا جوابات ہیں ؟ 
مولانا نہا ل انور (دیو بندی عالم) : مولانا سلفی صاحب ! ہمیں ان کے حدیث ہو نے کا انکار نہیں ہے ، البتہ جن احادیث کی طر ف آپ نے اشارہ کیاہے ، ان سے وہ مر اد نہیں ہے ، جو آپ حضرات سمجھ رہے ہیں؛ بلکہ ان کا صحیح مطلب وہ ہے ، جو میں بتلانے جارہا ہو ں ، جہاں تک حضرت عائشہ کی حدیث کی بات ہے ، تو اس سے تراویح نہیں، بلکہ تہجد کی نماز مراد ہے ؛ کیوں کہ اس حدیث میں ایک لفظ ’’ وَلَا فِیْ غَیْرِہِ ‘‘ہے، جو اس با ت پر صراحتاً دلالت کر تا ہے کہ حضرت عائشہؓ ؓؓؓؓؓؓ سے تہجد کے بارے میں سوال کیا گیا تھا ؛کیوں کہ غیر رمضان میں تہجد ہی پڑھی جاتی ہے ، تراویح نہیں ۔
اگر با لفر ض ہم یہ مان بھی لیں کہ تراویح ہی کے متعلق سوال کیا گیا تھا، تو بھی آٹھ کی تحدید درست نہ ہو گی؛ کیو ں کہ حضرت عائشہ سے پانچ طرح کی روایتیں مر وی ہیں ، جن میں یہ چار قوی اسانید سے ثابت ہیں ؛ (۱) گیارہ رکعات (۲) تیرہ رکعات (۳) اکیس رکعات (۴) تئیس رکعات، لہذا صرف آٹھ کی تحدید د رست نہیں ۔ اسی وجہ سے امام قر طبی ؒ حضرت عائشہ کی حدیثوں کے بارے میں یہ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اُشْکِلَتْ رِوَایَاتُ عَاءِشَۃَ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ اَہْلِ الْعِلْمِ حَتٰی نَسَبَ بَعْضُہُمْ حَدِیْثَہَا اِلٰی الِاضْطِرَابِ ‘‘ 
اورماشاء اللہ آپ عالم ہیں، جانتے ہی ہیں کہ حدیث مضطرب سے استدلال کر نا درست نہیں ہے ۔
مولانا ثناء اللہ(سلفی عالم ) :مولانا قاسمی صاحب ! چلو ہم یہ مان لیتے ہیں کہ حدیثِ عائشہ تہجد سے تعلق رکھتی ہے ، یا مضطر ب ہے ، لیکن حضرت جابرؓ کی حدیث میں تو صراحت کے ساتھ تراویح اور رمضان کاذکر ہے ۔ اس میں آپ یہ کہہ ہی نہیں سکتے ہیں کہ وہ تہجد سے متعلق ہے ، اسی طرح حدیث عمر بھی ہمارے ہی موقف پر دلالت کر تی ہے۔ ان کا کوئی جواب ہے آپ کے پا س ؟ 
مولانا نہا ل انور(دیو بندی عالم ) :ہمیں آپ کی یہ بات تسلیم ہے ، لیکن جس حدیث جابر کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، در اصل اس میں ایک راوی متہم بالکذ ب اور منکر الحدیث ہے ، او رمنکر کے بارے میں امام بخاری کا یہ فیصلہ ہے کہ
’’ اِنَّ مُنْکَرَ الْحَدِیْثِ وَصْفٌ فِی الرِّ جَالِ یَسْتَحِقُّ بِہٖ التَّرْ کَ‘‘
لہذا اس سے استدلال کر نا درست نہیں ۔
اور رہی بات حدیثِ عمر کی ، تو وہ سند اور متن دونو ں اعتبار سے مضطرب ہے ، اور مضطرب کے بارے میں ابھی آپ نے سنا کہ وہ قابلِ استدلال نہیں ۔ علاوہ ازیں اس کے خلاف حضرت عمر ہی کے متعلق ’’ بیہقی میں صحیح سند کے ساتھ سائب بن یزید سے ایک روایت مذکور ہے کہ 
’’ کَانُوْایَقُوْمُوْ نَ عَلیٰ عَہْدِ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِؓ فیِ شَھْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِ یْنَ رَکْعَۃً وَ کَذَ ا فِیْ عَہْدِ عُثْمَانَؓ ‘‘۔ 
المختصر تمام روایتوں پر غائرانہ نظر دوڑ انے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ تراویح آٹھ نہیں؛ بلکہ بیس رکعات ہیں ، جیسا کہ میں نے کچھ نمونہ آپ کے سامنے پیش کیا ، اب تو آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ تراویح بیس ہی رکعات ہیں ، یا اب بھی کوئی شبہ باقی ہے ؟اگر باقی ہے تو پیش کیجیے ان شاء اللہ اس کا بھی ازالہ ہو جائے گا ۔
مولانا ہدایت اللہ( سلفی عالم ) :میرے کر م فرما مولانا قاسمی صاحب! اب تک تو ہم سلفی یہی سمجھتے آرہے تھے کہ ا حادیث کو ہم سلفی کے علاوہ کو ئی اور صحیح طو ر پر سمجھتا ہی نہیں ہے ، لیکن آپ دونوں کی اس بلیغانہ ، عالمانہ اور محققانہ تقریر سے معلوم ہو ا کہ حقیقت بالکل ا س کے بر عکس ہے ۔آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری آنکھیں کھو ل دیں او رفریبِ علاّمیت سے نکال کر حق و صداقت کی راہیں دکھلائیں ۔فجزاکمااللہ احسن الجزاء۔
محمدمنور(عام سلفی ): میں بھی اپنے مولویوں کی غلط فہمیو ں کی وجہ سے اب تک دھو کے میں پڑا ہو ا تھا اور بچپن سے لے کر اس عمر تک آٹھ رکعات ہی پڑھا کر تا تھا ، جس کی وجہ سے بارہ رکعات کے ثواب سے محروم ہو تا رہا ، لیکن آج سے ان شاء اللہ بیس رکعات پڑھا کر وں گا ۔
محمد خالد (عام دیو بند ی) : ( گھڑی دیکھتے ہو ئے ) مسجد میں تراویح ہو رہی ہے ، تو چلیے چلتے ہیں اور مکمل بیس رکعات پو ری کر کے آتے ہیں ۔
محمد منور(عالم سلفی ): ہا ں ہا ں جلدی چلیے کہیں کو ئی رکعت نہ نکل جائے اور پھر کفِ افسوس ملنا پڑ ے ۔(بعد ازاں تمام حضرات اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں اور موؤن آتاہے ، جو گھڑی میں سحر ی کا وقت بجا دیتا ہے ، پھر بہ آواز بلند یہ اعلان کر تا ہے ) 
محترم حضرات ! سحری کھانے کا وقت ہو گیا ہے ، اس لیے جلد سے جلد اپنی نیند کو تو ڑ یں اورسحری کھالیں (یہ اعلان دو مر تبہ کر تا ہے ، پھر گھڑی میں ختمِ سحری کا وقت بجا کر دو مر تبہ یہ اعلان کر تا ہے کہ )
محتر م حضرات ! سحری کا وقت ختم ہو گیاہے ، اس لیے جو حضرات سحری تناول فر ما رہے ہیں ، وہ کھانا بند کر دیں اور نمازِ فجر کی تیاری کریں ۔