پسِ منظر
عالمِ اسلام کے خلاف امریکہ اور اس کے حلیف یورپی ممالک کی پشت پناہی کے پسِ پردہ یہودیوں اور صہیونیوں کی ریشہ دوانیاں ،عالم آشکار ا ہیں ،انھیں میں سے ایک ان صلیبیوں کا پوری دنیا کو صلیبیت کی زنجیر وں میں جکڑنا بھی ہے،جس کے لیے یہودی گذشتہ کئی دھائیوں سے تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں ۔حالات کے انقلابات،میڈیاکے رسوخ واثرات،سیاسیات واقتصادیات کے طور وطریق اور گلوبلائزیشن کے زبردست حملے کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں ایک حد تک کام یاب ہو تے نظر آرہے ہیں ،جس کا بر ملا اظہار انھوں نے اپنی خفیہ دستاویز ’’پروٹوکو لز آف یہودیت ‘‘میں کیا ہے۔
مشرقی روس کے لیڈر کا ایک سائنس داں دوست نا ئلس نے جب ان دستاویزات کا مطالعہ کیا ،تو وہ ان کے منصوبے کو دیکھ کر گھبر اگیا اور دنیا کو صہیونیت کی غلامی سے بچانے کے لیے ان کا تر جمہ شائع کیا ، جس کی پاداش میں اگر چہ صہیو نیوں نے انھیں مو ت کے گھاٹ اتار دیا، بلکہ ہر اس شخص کو موت کی نیند سلاتا رہا ، جس جس نے اس کتاب کو چھاپنے او ربیچنے کی کو شش کی ۔ لیکن اس کی وجہ سے دنیائے یہو دیت میں کھلبلی مچ گئی اور اس کے خلاف زبر دست غم و غصے کا اظہار کیا گیا ۔
جب وہ پر و ٹو کو لز اردو میں ’’ وثائق یہو دیت ‘‘ کے نا م سے شائع ہو ئی ، تو راقم الحر وف بھی ان میں بیان کر دہ حکمت عملی کے مطابق حالات کے رخ کا بہا ؤ دیکھ کر گھبرا گیا اور اپنی پر واز کی حد تک دنیائے اسلام کو ان سے آگاہ کر نے کا ٹھان لیا ، چنانچہ جب بہار ، جھارکھنڈ ، اڑیسہ و نیپال کی مشتر کہ یونین ’’ بز م سجاد ‘‘ کی صدارت کی نیابت کی ذمہ داری کا بو جھ بندۂ ہیچ مداں کے دوشِ ناتواں پر رکھا گیا ، تو اس مقصد کی پر واز کے لیے اپنا پر تو لنا شروع کیا ۔ جس کی ایک کوشش یہ مکالمہ ہے ۔ اس کے کر دار اور پلاٹ دونوں کی وضاحت تفصیلات او ر دورانِ مکالمہ کر دی گئی ہے اور حسبِ مو قع رموز و اشارات کی بھی ۔
تفصیلات
افراد کر دار
(۱)محمد اعظم یہودی اسٹو ڈینٹ
(۲) محمد محسن یہودی اسٹوڈینٹ
(۳) محمد عارف یہودی اسٹو ڈینٹ
(۴) محمد خالد پر نسپل
(۵) محمد زاہد پر وفیسر
(۶) ضیاء اللہ یہودی مفکر
(۷)ثناء اللہ یہودی مفکر
(۸)ہدایت اللہ یہودی مفکر
(۹)عبداللہ یہودی مفکر
(۱۰)ذکر اللہ العربی یہودی مفکر
(۱۱)احسن اللہ نیوز اناؤ نسر
(۱۲)عبد الر حمان اخبار ی تبصرہ نگار
(۱۳)نظام الدین مفکر اسلامی
(۱۴)جہاں گیر مفکر اسلامی
(۱۵)دلاور حسین مفکر اسلامی
(۱۶)محمد تنویر مفکر اسلامی
(۱۷) محمد ریحان مفکر اسلامی
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ) May I Came in Sir?: =مے آئی کم ان سر ؟
محمد خالد (پر نسپل ): Sit don.Come in. yes (یس کم اِن ، سیٹ ڈاؤن)
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ):Sir(سر ) آپ کی یو نی ور سٹی میں ایڈ میشن لینا چاہتا ہوں، اس لیے مجھے ایک ایڈمیشن فارم چاہیے۔
محمد خالد (پرنسپل): یہ لو فارم، اور ون تھاوزینڈ روپیس کیش فارم فیس جمع کرو۔
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ): سر! فی الحال کیش تو نہیں ہے، چیک ہی لے لیجیے۔
محمد خالد(پرنسپل): لاؤ چیک ہی دے دو ۔۔۔۔۔۔اور سنو ! فارم جمع کرنے کا آج ہی آخری ڈیٹ ہے ، اس لیے خانہ پرُی کر کے ابھی جمع کر دو ۔
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ): یس سر ۔۔۔یہ لیجیے (یہاں پر وفیسر اسٹیج پر آکر کر سی پر بیٹھ جاتا ہے)
محمد خالد (پر نسپل ): (ہاتھ میں فارم لے کر )یہ تم نے اپنی قومیت کیا لکھی ہے ؟ یہودیت!
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ): یس سر۔۔۔ میری نیشنلٹی یہو دیت ہے ۔
محمد خالد (پرنسپل): اس یو نی ور سٹی کے آئین کی دفعہ ۳۰؍ فقر ہ ۲؍کی رو سے تمھارا ایڈمیشن نہیں ہو سکتا ، کیو ں کہ یہ یو نی ور سٹی عیسائیو ں کی ہے ، یہاں ایسے عیسائی مبلغین تیار کیے جاتے ہیں ، جو مسلمانوں کو گمراہ کر سکیں، اس لیے یہاں صر ف عیسائیوں کا ایڈمیشن ہو تا ہے ،یہودیو ں کا نہیں ۔
محمد محسن (اسٹوڈینٹ ) : یہودی ہو نا کو ن سا گناہ ہے سر ! کہ ہمارا ایڈمیشن نہیں ہو گا ؟
محمد خالد (پر نسپل ): میں نے ابھی سمجھایا ناکہ یہودیو ں کاایڈ میشن نہیں ہوتا، اس لیے اٹھو اور سیدھے چپ چاپ گیٹ آوٹ ہو جاؤ ) (You are get out
محمد محسن (اسٹوڈینٹ ) (غصیلے لہجے میں )ٹھیک ہے سر ! چلا جاتا ہوں۔(تینوں اسٹوڈینٹ اسٹیج سے باہر آجاتے ہیں)
محمد زاہد (پر و فیسر) : پر نسپل صاحب ! دنیا کے تمام ممالک کا یہ متفقہ قانون ہے کہ نوعِ انسان کے ہر فرد کوخواہ وہ قوم کے اعتبار سے کچھ بھی ہو ، تعلیم حاصل کر نے کا حق ہے تو پھر کیا یہودی انسان نہیں کہ دنیا کی کوئی بھی یو نی ور سٹی اس کا ایڈمیشن نہیں لیتی ؟
محمد خالد (پر نسپل ): اگر چہ یہ بین الاقوامی) (Low لو ہے کہ ایجو کیشن حاصل کر نے کا حق ہر نوعِ انسان کو ہے ، خواہ اس کی قومیت کچھ بھی ہو ، لیکن قوم یہو د انتہا ئی ذلیل اور شر انگیز قوم ہے ، یہ لو گ شکل و صور ت سے تو انسان معلوم ہو تے ہیں ، لیکن حقیقت میں یہ ما ر آسیتن ہیں ،جو سب سے پہلے اپنے محسن ہی کو زک پہنچاتا ہے ، اس لیے ہم ان مو ذی جانوروں کا ایڈمیشن لے کر مفت میں مصیبت اپنے سر نہیں لینا چا ہتے ۔
محمد زاہد (پروفیسر ): آپ نے بالکل صحیح کہا پر نسپل صاحب ، واقعی ہمیں ایسا سانپ نہیں پالنا چاہیے، جو کل ہمیں کو ڈ سنے لگے ، اچھا سر ، و کیش کا ٹائم ہو گیا ہے ۔چلتے ہیں ، پھر ملیں گے ۔
محمد خالد (پر نسپل ): چلو پھر ہم بھی چلتے ہیں(اب تینوں اسٹوڈینٹ اسٹیج پر آتے ہیں )
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ ): دوست ! ہم لو گوں کا سوائے یہودی ہونے کے اور کیا گناہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اپنے کالجوں اور یو نی ور سٹیوں میں ہمارا ایڈمیشن نہیں لیتی ۔ یہو دی اور ملعونِ خداوندی ہو نا دنیا والوں کی نگاہوں میں کوئی گناہ تونہیں ہے ؟
محمد عارف (اسٹوڈنیٹ) :میری کھٹمل جیسی عقل میں ایک سازش ہے، وہ یہ کہ چو ں کہ پچھلی مرتبہ ہمارا ایڈمیشن قومیت یہودیت لکھنے کی وجہ سے نہیں ہو ا تھا ، اس لیے ہم قومیت ہی چینج کر لیتے ہیں اور یہو دی کے بجائے نئے عیسائی لکھتے ہیں ، تاکہ کر سچن اپنا آدمی سمجھ کر ہمارا ایڈمیشن لے لے ، او رجب ایڈمیشن ہو جائے گا ، تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے ۔
محمد اعظم(اسٹوڈینٹ ): ویری گڈ : یہ نیشنلٹی چینجنگ کا آئیڈیا اچھا معلوم ہوتا ہے ، اب دیر کس بات کی، چلو ایڈمیشن کے لیے چلتے ہیں اور ایسا ہی کر تے ہیں (اس کے بعد پانچ افراد اسٹیج پر آ کر میٹنگ کر تے ہیں ) ۔
ضیاء اللہ (یہودی مفکر ) : فقط لفظِ یہود بو لنے سے ہرِ شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہی مکار ،عیار اور ذلیل و خوار قوم جو انبیائے کرام کی زبان سے مطعون ہو ئی ہے اور وہ قوم ، جس کو شرارت اور فطری خباثت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ’’دائمی ذلت ‘‘ کا پر وانہ دے دیا ہے ، وَضُرِبَتْ عَلَیْہُمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَاءُوْابِغَضَبٍ مِنَ اللّٰہِ ، اسی وجہ سے ساری دنیا کا ہمارے بارے میں یہ تصور قائم ہو گیاہے کہ یہو د مارِ آستین ہیں ، یہود خون چوسنے والی قوم ہے ، تمام مصیبتیں یہود کی پیداکر دہ ہیں اسی تصور کی وجہ سے ہمارے بچوں کا دنیا کی کسی بھی یو نی ور سٹی میں ایڈمیشن نہیں ہو رہا تھا، یہ الگ بات ہے کہ ہماری نیشنلٹی چینجینگ سازش سے ایڈمیشن ہو گیا، ہماری تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ اِ نھیں تصورات کی وجہ سے ہم بطور یہو د کہیں بھی اور کبھی بھی پنپ نہیں سکتے ، لہذا اپنی قوم سے ان بھیانک الزامات کو ختم کر نے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے، اور کیا صور ت اختیار کی جائے کہ ہم بھی دگر اقوام کی طرح عزت و شرافت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ؟۔
ثناء اللہ ( یہودی مفکر ):آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ ہم بطور یہود کہیں بھی پنپ نہیں سکتے ، کیوں کہ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے ۷۲۰ ق م میں آشورکے فرما رواسارگون نے سلطنتِ یہود کو تہس نہس کر دیا، ۵۸۷ ق م میں شاہ بابل بخت نصر نے ہماری حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ۹۸ ق م میں شام کے سلوقی بادشاہ اینٹیو کس نے ہمارے خلاف زبر دست معر کہ آرائی کی۔ ۶۳۰ ق م میں رومن فاتح پو مپی نے ہماری قوت و طاقت کو پامال کر دیا ، ۷۰ ء میں ٹیٹس نے ہمارے ایک لاکھ افر اد کو قتل ، ۶۷؍ ہزار کو غلام اور ہماری دوشیزاؤں کو فوجیوں میں تقسیم کر دیا ، ۶۱ ء میں ہماری قوم جزیر ۃ العرب سے جلاوطن کر دی گئی، ۱۱۰۷ ء میں یوسف بن تاشقین نے ہمیں کچل کر رکھ دیا۔ ۱۲۰۰ ء میں مختلف ملکوں میں ہمارا قتلِ عام ہوتا رہا ، ۱۲۵۴ ء میں ہم فرانس سے جلاوطن کیے گئے ۔ ۱۳۲۱ ء میں اسپین میں ہمیں زندہ جلادیا گیا ، جر منی میں ہم خون چوسنے والی قوم کی صدائے ذلت سے پکارے گئے ، ۱۴۹۴ ء میں فرڈے ننڈ کے ظلم و ستم کے شکار ہو ئے ،۱۶۵۱ ء میں ہو لینڈ سے ملک بدرکیے گئے ، ۱۸۷۱ ء میں روس سے بھگائے جانے پر ہم نے فرانس و انگلستان کا رخ کیا ، لیکن ہمیں ویزا نہیں دیا گیا ، جب پو ری دنیا اپنی وسعت کے باو جود ہم پر تنگ کر دی گئی ، تو تر کیوں نے انسانیت کی خاطر ہمیں پناہ دینے کی کوشش کی ؛ لیکن ہم وہا ں پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں لو ٹ لیے گئے ، اتنا مظلوم ہونے کے باوجود بھی ہمارے بارے میں کہا گیا کہ ’’ ہر مصیبت یہود کی پیدا کر دہ ہے‘‘ اور اس خیال کو عام کر نے کی تحریک چلائی گئی، جو آج بھی سامی کش تحریک کے نام سے اپنے کام میں مشغول ہے ، اور ہمارے خلاف لو گوں کو نفر ت و عداوت پر اکسا رہے ہیں ، بالأ خر کب تک ہم ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہیں گے ، اس لیے اب ہمیں کو ئی ایسی حکمت عملی اختیار کر نی چاہیے، جس سے ہم سر اٹھا کر جی سکیں ۔
ہدایت اللہ (یہودی مفکر):اگر ہم عز ت وشرافت کے ساتھ سراٹھاکر جینا چاہتے ہیں ، تو سب سے پہلے اپنی بر بادی او ربد نامی کے اسباب تلاش کرنے ہو ں گے اور ہماری ساری بر بادی و بد نامی کی وجہ انبیا ئے کرام کی زبانی ہماری مطعونیت اور دائمی رسوائی کی مہر الہی کی وجہ سے پیدا شدہ لو گوں کے دلوں میں ہماری نفر ت ہے، اور جب تک لو گو ں کے دلوں سے ہماری نفر ت ختم نہیں ہوگی ، تب تک ہم عزت کی زندگی نہیں جی سکتے ، اس لیے ا س حوالے سے ہمیں ایسی حکمت عملی اختیار کر نی پڑے گی، اور ایسے کار نا مے انجام دینے ہوں گے جس سے ہم ہر کسی کی ضرورت بن جائیں ، اور فی الحال ہم ہر کسی کی ضرورت بننے کے لیے یہ صورت اختیار کر سکتے ہیں کہ ہمارے جن جن بچوں کی نیشنلٹی سازش سے یو نی ور سٹیوں میں ایڈمیشن ہو رہا ہے ، ان میں سے کسی کو ڈاکٹر بنا ئیں کسی کو ڈائر یکڑ، کسی کو سائنٹسٹ بنا ئیں، کسی کو انجنیر اور کسی کو دگر ٹر ٹر ، جب ہمارے بچے ٹر ٹر بن جائیں گے، تو لوگو ں کے دلوں سے ہماری نفرت و عداوت خود ہی ختم ہو جائے گی اور ہم عزت و شرافت کے ساتھ زندگی گذارنے لگیں گے ۔
عبدااللہ (یہودی مفکر ):آپ کی سوچ کچھ اونچی معلوم ہو تی ہے ، جو ہم جیسے کم سمجھکی سمجھ سے بالا تر ہے، اس لیے آپ مثال سے ہمیں سمجھائیں کہ مثلاً ہمارے بیٹے ڈاکٹر بن جائیں گے ، تو لوگوں کے دلوں سے ہماری نفر ت کیسے ختم ہو گی او ر ہماری الفت و محبت ان کے دلوں میں کیسے پید ا ہو گی؟
ذکر اللہ (یہودی مفکر ) : واقعی آپ جیسے کم عقلوں کی وجہ سے ہی قوم یہود اتنی ذلت و رسوائی کاشکار ہو تی رہی، جو اتنی عام فہم بات بھی نہیں سمجھ پاتے، ارے بھائی جب ہمارے بیٹے ڈاکٹر بن جائیں گے تو لوگ بیماروں کو لے کر ہمارے پاس آنے پر مجبور ہو ں گے اور ہم سے التجا و درخواست کریں گے کہ ہمارے مریض کو دیکھ لو ڈاکٹر صاحب ، اس طرح سے لو گ ہمارے محتاج ہو جائیں گے، اور ہم ان کی ضرورت بن جائیں گے ، اسی طرح دگر شعبہ ہا ئے زندگی میں بھی ہمارے محتاج ہو ں گے اور انسانی فطرت ہے کہ محتاج کو محتاج الیہ سے عقیدت ہو ہی جاتی ہے ، اور جب کسی سے عقیدت ہو جاتی ہے ، تو اس کی ہر برائی بھی اچھائی ہی معلو م ہو تی ہے ، لہذا لو گ ہمارے محتاج ہونے کی وجہ سے جب ہمارے عقیدت مند بن جائیں گے، تو ان کے دلوں سے ہماری نفرت ختم ہوجائے گی، اور جب نفرت ختم ہو جائے گی، تو ہم بھی عزت و شرافت کے ساتھ زندگی بسر کر نے لگیں گے ۔
ضیا ء اللہ (یہودی مفکر ): ہم ہر کسی کی ضرورت بن جائیں ، یہ مشورہ بالکل ٹھیک ہے ، امید ہے کہ ہم سب اس پر عمل کر یں گے ، تو راۃ کے الفاظ ہیں کہ ’’ بادشاہ میرے ہی تو سط سے حکمرانی کرتے ہیں‘‘ یعنی پیغمبر وں کے اشارے کے مطابق ہمیں کر ۂ ارض پر حکمرانی کے لیے خود خدانے منتخب کیا ہے ، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی ذہا نت عطا کی ہے ، تاکہ ہم اس فر ضِ عظیم کو انجام دے سکیں، یہ الگ بات ہے کہ عصر حاضر میں ہماری کو ئی منظم پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہم در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، آج کی میٹنگ اِنھیں باتوں پر اختتام پذیر ہو تی ہے ، اگر ہم آج کی میٹنگ میں پا س کر دہ تجویز پر عمل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور لو گ ہمیں شریف قوم سمجھنے لگیں ، تو وہ دن دور نہیں، جس دن ہم پوری دنیا پر حکومت کر نے کے خواب دیکھنے لگیں گے اور صر ف خواب ہی نہیں دیکھتے رہیں گے ، بلکہ اس خواب کو شر مندۂ تعبیر بھی کر دکھائیں گے ۔
(پانچوں چلے جا تے ہیں اور پہلے کے تینوں اسٹوڈینٹ اسٹیج پر آ تے ہیں )
محمد اعظم (اسٹوڈینٹ) : پہلے ہم اسٹوڈینٹ ایڈمیشن کے لیے پریشان تھے ، اب ایڈمیشن ہوگیا ہے، تو نمبرات کے لیے پریشان ہیں ، کیوں کہ پر نسپل کوجب سے یہ پتہ چلا ہے کہ ہم لو گ وہی مکار یہو دی ہیں ، تب سے ہمیں نمبرات ہی نہیں دیتے کہ ہم لوگ آگے بڑھ سکیں اور کسی بڑے شعبے میں داخلہ لے سکیں، بس اعادے پر اعادہ ہو رہا ہے ، یہ تو ہمارے بڑوں کا پو ری دنیا پر حکومت کر نے کے خواب کا شیش محل زمین بوس ہو تا ہو ا نظر آرہا ہے ، کیوں کہ جب ہمارے نمبرات نہیں آئیں گے ، تو ہم ڈاکٹر انجنیر کیسے بنیں گے ، جس سے ہم ہر کسی کی ضرورت بن سکیں ، لہذا اب کیا کر نا چاہیے ؟
محمد محسن (اسٹوڈینٹ ) : ہماری فطر ت یا کہہ لیجیے کہ ہماری کا میابی کا اصل ہتھیا رہے : شرارت، مکاری اور سازش ، تو پھر غم کس چیز کا ،چلو کو ئی نئی سازش رچتے ہیں ، جیسے ہم ممتحن کو گھی کاڈبہ دے دیں گے یا چائے پلادیں گے۔
محمد عارف (اسٹوڈینٹ ):آپ اپنی سازش اپنے ہی پاس رکھیے اور میر ی سازش سنیے کہ اگر ہمارے نمبرات اس سے پہلے ۸۰؍ پر سینٹ کی محنت پر ۹۰؍ آتے تھے تو اب ہم پورے سو پر سینٹ محنت کر یں گے، تاکہ پر نسپل ہماری قابلیت کو دیکھ کر سو فی صد نمبرات دینے پر مجبور ہو جائیں اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں ۔
محمد اعظم(اسٹوڈینٹ) : یہ بات تو دل کو لگنے والی ہے اور ہم اسی پر عمل کریں گے ، اس کے بعد (تینوں چلے جاتے ہیں اور پانچوں یہودی مفکر آتے ہیں)
ضیاء اللہ (یہودی مفکر) :سوئزر لینڈ کے اس شہر بازل میں مختلف ممالک سے تشریف لائے یہودی تنظیموں کے تمام سر براہان کا سواگت ہے ، آج ہم اس میٹنگ میں پو ری دنیا پرحکومت کرنے کا لائحۂ عمل مر تب کر یں گے ، کیو ں کہ گذشتہ میٹنگ میں پاس شدہ تجویز ات پر عمل کرنے میں ہم ننانوے پرسینٹ کامیاب رہے ہیں ،چناں چہ ہمارے بچے انجنیر نگ اور آرٹنگ وغیرہ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے ہیں ، جس سے لو گوں کے دلوں سے نہ صرف ہماری نفرت ہی ختم ہو رہی ہے ، بلکہ وہ ہمیں شریف قوم اور اپنا خیر خواہ بھی سمجھنے لگے ہیں ، اس لیے وہ مو قعہ آگیا ہے کہ جس میں ہم پوری دنیا پر حکومت کر نے کے خواب کو شر مندۂتعبیر کر یں اور اس کے منصو بے تیار کریں ، اس کار روائی کو آگے بڑھاتے ہو ئے میں بلڈ ر بر ج تنظیم کے صدر بر ن ہارڈ کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ عالمی نظام کے کچھ منصوبے پیش کر یں ۔
ثناء اللہ (یہودی مفکربر ن ہارڈ): پوری دنیا پر قبضہ کرنے کا واحد ذریعہ قوت و طاقت ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ طاقت ورچیز سیم وزر ہے ’’ لَوْ لَا التُّقَیٰ لَقُلْتُ جَلَّتْ قُدْرَتُہُ ‘‘ کیوں کہ دنیا میں اچھے لو گوں کی بہ نسبت برے لوگو ں کی تعداد زیادہ ہے اور برے لوگوں کو طاقت ہی سے زیر اور سیم وزر کے لالچ سے ہی غلام بنایا جاسکتا ہے ، لہذا سیم وزر کے ذخائر پر قبضہ، دنیا کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لیے اولین شر ط ہے ۔
ضیاء اللہ(یہودی مفکر):اب میں اس کے بعد یہو دی مفکر را کفلرفاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری سے در خواست کر و ں گا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
ہدایت اللہ (یہودی مفکر) :اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سونے کے ذخائر پر قبضہ کر نے کو مر کزی حیثیت اور اولین شر ط قرار دیتے ہیں ، تو ذرائع ابلاغ بھی خواہ وہ پر نٹ میڈیا کی شکل میں ہو یا الیکڑانک میڈیا کی شکل میں ، ہمارے مقاصد کے حصول کے لیے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں،کیو ں کہ میڈیا عقلوں کو فتح کر نے، اپنے جذبات و احساسات اور فکر و خیالات سے دوسروں کو متاثر کر نے کا ایک مضبوط ہتھیار ہے ، جس کے ذریعے ہم غیر حقیقی افکار وخیالات اور باطل عقائد و نظریات کو لوگوں کے دماغوں میں راسخ کر سکتے ہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ، نیز میڈیا پر ہمارا ہی مکمل کنٹرول ہو نا چاہیے، تاکہ اگر ہمارے مخالفین ہماری حکمت عملی کی مخالفت کر یں ،تو ان کی آواز ایک محدود حلقے میں رہ کر خود ہی بے اثر ہو جائے گی۔
(۱)یہودی مفکر (ضیااللہ ) بعد ازاں عالمی تنظیم کے اسسٹینٹ سیکریڑی کودعوت دوں گا کہ وہ بھی کچھ کہیں۔
عبدا للہ (یہودی مفکر): کسی بھی قوم اور ملک پر بالا دستی قائم کر نے کے لیے ا ن کی ثقافت و فکر پر حاوی ہو نا اور ان کے مذہبی تشخص و جذبات کو ختم کر نا ضروری ہے ، اس لیے غیر یہودیوں کو صنعت وتجارت اور مادی تر قی کے چکروں میں ایسا پھنسا دیا جائے کہ انھیں اپنے مذہب پر غور و فکر کرنے کا موقع ہی نہ مل سکے ، اس طرح تمام اقوام جلبِ زراور منفعت اندوزی کے تعاقب میں یوں سر پٹ دوڑتی رہیں گی کہ ان کا صرف ایک ہی مقصد رہ جائے گا ، یعنی زر پرستی اور منافع پر ستی، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب وہ اپنے اپنے مذہب سے بے گانہ ہو جائیں گے، تو اپنے مذہبی تشخص اور دینی ثقافت وفکر سے محروم ہوتے چلے جائیں گے اور اس جگہ ہماری مغربی تہذیب و ثقافت اور لادینیت کے رنگ میں رنگتے چلے جائیں گے ۔
ضیاء اللہ(یہودی مفکر ): اب ہم سب سے آخر میں تعلقاتِ خارجہ یعنی G.F.R. کو نسل کے سر برا ہ کو دعوت دیں گے کہ وہ بھی کچھ ارشاد فر مائیں ۔
ذکر اللہ(یہودی مفکر ):پوری دنیا کو یہودی کے دم چھلے اور غلام بنانے کے لیے ابھر تی ہو ئی نسل کی قوتِ فکر کو سلب کرنا بھی ضروری ہے ، تاکہ وہ ہمارے ان خوف ناک عزائم کوبھانپ نہ سکیں ،جس کے لیے کارٹونوں ، سیریلوں اور کرکیٹ جیسی بے سود چیز و ں کو ایسے دل چسپ انداز میں پیش کریں گے کہ نو نہا لانِ قوم انھیں چیز وں سے لطف اندوزی میں مگن رہیں اور حالاتِ دنیا اور فکرِ آخرت سے غافل ہو جائیں ، نیز ہماری تمام پر و ٹو کو لز خفیہ اور پو شید ہ رہنے چاہیں،کیو ں کہ ان دستاویزات پر عمل درآمد ہو نے سے پہلے ان کے عام ہو جانے سے یہو دیوں کو بڑے خطرات در پیش ہو سکتے ہیں اور ہم اپنے مقصد میں نا کام بھی ہو سکتے ہیں ۔
ضیا ء اللہ(یہودی فکر ):آج بہ تاریخ ۱۵؍ جو ن ۱۸۸۷ ء بر و ز ہفتہ شہر باسل میں ایک میٹنگ منعقدکی گئی ، جس میں پو ری دنیا پر صہیو نی قبضہ جمانے کے لیے بہ اتفاقِ رائے مندرجہ ذیل منصو بے بنائے گئے :
(۱) سونے کے ذخائر پر قبضہ ۔
(۲) ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹر ول ۔
(۳) صنعت و تجار ت میں سر ما یہ دارانہ نظام کا فر وغ ۔
(۴) ٹکنا لو جی کے مید ان میں انقلاب ۔
(۵) فلموں کے ذریعہ مغر بی تہذیب وثقافت ،مغربی معاشر ت واخلاق اور مغربی زبان و ادب یعنی انگریز ی زبان کا فرو غ ،نیز کر کیٹ وغیرہ کے ذریعے نونہالانِ قوم کی عقل و فکر کومفلوج کر نا ۔
(۶) مذکور ہ بالا پر و ٹو کو لز کو با لکلیہ خفیہ او رپو شیدہ رکھناتاکہ ہمارے خو ف ناک عزائم پر کو ئی مطلع نہ ہو سکے ۔
آج کی میٹنگ یہی ختم ہو تی ہے ، تو راۃ میں ہے کہ’’ یہو دا(خدا) ایک مسیحا نازل فر مائے گا ، دنیا کی باد شاہت اس کی ہو گی، اس کے آنے سے حضر ت داؤ د علیہ السلام کی سلطنت بحال ہو جائے گی اور یر و شلم خدا کا دارالحکومت ہو گا‘‘ ۔ یعنی یہو دیو ں کی مقدس سر زمین اوران کی حکو مت کا اصل وطن ارض فلسطین ہے، اس لیے ہماری اگلی میٹنگ حصولِ فلسطین کے لیے ہوگی۔( اس کے بعد خبریں نشر ہوتی ہیں)
احسن اللہ(خبریں ):یہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سر و س ہے، صبح کے چھ بجے ہیں ،اب آپ احمق گپتا نا دان سے خبریں سنیے ۔
آج یہو دیو ں کی عظیم عالمی صہیو نی سازش یعنی ان کی خفیہ دستاویز ات کے انکشاف پر دنیا کے بڑے بڑ ے لیڈروں ا ور مفکر وں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے ، آج ’’ سجاد یو نین ‘‘ کا تاریخی اور افتتاحی اجلاس بہ مقام دارالحدیث تحتانی دارالعلوم دیو بند بڑے ہی تز ک واحتشام کے ساتھ منعقد ہونے جارہا ہے ، جس میں ملک کے بڑے بڑے علما ئے کرام تشریف لارہے ہیں ۔(اس جگہ اور بھی حالات حاضر ہ کی خبریں نشر کی جائیں )۔
اور آخرمیں کیا چھپا ہے آج کے اخباروں میں، آئیے دیکھنے کے لیے چلتے ہیں ابوالخیال فر ضی کے پا س۔ فر ضی جی ! بتائیے کہ آج کے اخبار وں کی اہم اہم سر خیاں کیا ہیں ؟
عبدالر حمان (ابو الخیال فر ضی) : آج دنیا بھر کے اکثر بڑے اخباروں میں یہو دیو ں کی عظیم ساز ش یعنی ان کی خفیہ دستاویزات کے انکشاف کی خبر کو انتہائی اہمیت کے ساتھ نمایا ں طو ر پر شائع کیا ہے ، چناں چہ لند ن سے شائع ہونے والے دہ ٹائمس آف لندن میں لکھا ہے کہ
’’ یہودیوں کی خفیہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی انھیں رو بہ عمل لا یا جاچکا ہے ، اس لیے اس کے خلاف اگر فو ری طور پر پیش رفت نہ کی گئی، تو ایک دن ضرور پوری دنیا یہودیت کے خطر نا ک شکنجے میں پھنس جائے گی‘‘ ۔
نیو یار ک ٹا ئمس میں لکھا ہے کہ ’’
’’اس خوف نا ک فر قے نے اپنے تسلط کے لیے جو منصوبہ بنا رکھاہے ، اس کے پہلے مراحل طے ہو چکے ہیں ، یعنی عام انقلاب بر پا کرنے کے لیے کئی تختے الٹ دیے جائیں گے ۔ تمام مذاہب داخلی انتشار سے دو چار ہوجائیں گے اور معاشرہ تباہ و بر باد ہو جائے گا ‘‘۔
دی ٹائمس آف انڈیا اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ
’’ یہودیو ں کی سازش کا جو پر وٹوکو ل دستیاب ہو ا ہے ، ان کی یہ تحریر نئی نہیں ہے ، بلکہ ۱۸۹۷ ء سے لے کر عصر حاضر تک جو عالم گیر سازشیں ظہو ر میں آتی رہی ہیں، ان کا مقصد صہیونی حکومت کا قیام اور گلوبلائزیشن کا نفاذ ہے ، سب کے سب پر وٹو کول میں بیان کر دہ حکمت عملی کا نمونہ ہے ‘‘۔
عربی کا مشہو ر اخبار ’’ عکاظ ‘‘ میں ہے کہ’’ مو جو دہ دور کے حالات ، پروٹوکول میں بیان کر دہ منصوبو ں کے با لکل مطابق ہو رہے ہیں ۔ اور انڈیا ٹوڈے نے اس خبر پر سر خی لگائی ہے کہ ’’ یہ کو ئی افسانہ نہیں ، بلکہ خو ف نا ک حقیقت ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہو دیوں کی اس سازش پر قابو پانے اور دنیا کو یہو دیوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ’’ رابطۂ عالمِ اسلامی ‘‘ کا مکہ مکر مہ میں کل ہو نے والے اجلاس کی خبر کو بھی خصوصی طورپر اکثر اخباروں نے پہلے ورق پر جگہ دی ہے ۔۔۔۔۔۔فر ضی جی ! آپ کا شکر یہ ۔
اسی کے ساتھ خبریں ختم ہوئیں ۔۔۔( اس کے بعد رابطۂ عالم اسلامی کے اراکین کی میٹنگ ہوتی ہے)۔
نظام الدین (اسلامی مفکر): پو ری دنیا پر صہیو نی قبضہ اور گلو بلا ئز یشن کے نفاذ کے لیے صدیوں قبل کی منصو بہ بندی یعنی ان کی خفیہ پر و ٹو کو ل کا جو انکشاف ہو ا ہے، ان کی تدبیرو ں پر جہاں انھیں شاباشی دینے کو بے ساختہ جی چاہتاہے ، وہیں ہم در د مندانِ ملتِ اسلامیہ کے قلوب خون کے آنسو بہانے پر مجبور ہیں ، کیو ں کہ عالمی سطح پر سیا سی و سماجی ، صنعتی و اقتصادی ، فکر ی و ثقافتی ، غرض تمام شعبۂ ہا ئے زندگی میں گلوبلائز یشن کا جو اثر نظر آرہا ہے یہ انھیں یہو دیوں کی پروٹو کول کا نتیجہ ہے ، اور آئے دن عالم اسلام کی صور تِ حال جو سنگین سے سنگین تر ہوتی چلی جارہی ہے ، یہ بھی انھیں کی کا رستانیوں کاسبب ہے ، ایسے میں عالمی برادری کی غفلت سے پوری دنیا ، با لخصوص مسلمانو ں کو شدید خطرات در پیش ہیں ، لہذا صہیونی چیلنج اور گلو بلائزیشن کے سد باب کے لیے کو ن سا طریقہ اختیا رکیا جائے ؟ اسی پر اظہار خیال کے لیے یہ میٹنگ بلائی گئی ہے ۔ اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے ہندوستان سے تشریف لائے ایشیا کے عظیم اسلامی مفکرجناب حضرت مولانامر غوب الرحمن صاحب مدظلہ العالی سے درخواست کر تے ہیں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
جہاں گیر(اسلامی مفکر): عالم گیر یت او رگلو بلائزیشن کو روکنے کے لیے تین طرح کے رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں : (۱) عالم گیریت کو من وعن تسلیم کر لیا جائے او راسے انسانوں کے لیے سر چشمۂ خیر مان لیا جائے ، ظاہر ہے کہ حقائق کی روشنی میں یہ بالکل غلط بات ہو گی ۔(۲) گلو بلائزیشن کو مکمل طور پر ر د کر دیا جائے ، لیکن یہ تین وجوہ سے ممکن نہیں ، پہلی وجہ یہ ہے کہ عالم گیریت کا طوفان پو ری دنیا کو اپنی لپٹ میں لے چکا ہے یا لیا چاہتا ہے ،اس لیے ہم قلیل افراد اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم گیریت لاتعداد چینلو ں کے ذریعے لو گوں کو اپنا شکار بنا رہی ہے ، خواہ لو گ چاہیں یا نہ چاہیں ، ان چینلوں پر نہ صر ف افراد ، بلکہ حکومتوں کے لیے بھی کنٹر ول ممکن نہیں ، توہم بدرجۂ اولیٰ کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں ، تیسری وجہ یہ ہے کہ صہیونیو ں کا سیاسی اقتصادی ، ثقافتی ، معاشرتی گویا ہر میدانِ زندگی پر قبضہ ہو گیا ہے ، لہذاکوئی قوم یا جماعت اپنے آپ کو ا س سے علاحدہ نہیں کر سکتی کہ اس سے کٹ کر اس کا مقابلہ کر ے ۔ ( ۳) اور تیسرا رویہ یہ اختیار کیا جاسکتاہے کہ جو ہمارے لیے ممکن بھی ہے کہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر ہم گلو بلائزیشن کے خطرات سے لو گوں کو آگاہ کر یں اور دین اسلام کی روشنی میں اس کا متبادل پیش کریں ۔
نظام الدین ( اسلامی مفکر): اب میں ا س کے بعد مصر سے آئے ہوئے جامع ازہر کے استاذ سماحۃ الشیخ سمیر محمد احمد عاشور کو دعوت دیتاہو ں کہ وہ بھی اپنے خیالات کااظہار کریں ۔
دلاور حسین (اسلامی مفکر ): پوری دنیا پر صہیونی قبضہ یا گلو بلا ئزیشن کو نا کام کر نے کے لیے حضرت کے بیان کر دہ لائحے کے علاوہ یہ طریقے بھی اختیار کیے جاسکتے ہیں : (۱) دستیاب خفیہ پروٹو کو ل کو بڑے پیمانے پر شائع کر کے اس کے خطر ناک مقاصد سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ (۲) تمام ممالک کی وزارت خارجہ سر کاری وغیرسرکاری تنظمیں، بالخصوص ہر مسلم ممالک کی وزارت خارجہ ، وزارت برائے معاشرتی امور اور ہر جگہ کے دارالافتا والقضا ان کے نا پاک عزائم کے خلاف مذمتی بیانات بڑے پیمانے پر شائع کریں، تاکہ عوام ان سے متأثر نہ ہو ں۔(۳) مدرسوں ، بالخصوص کالجو ں اور یو نی ور سٹیوں میں ایسے پر وگرام منعقد کیے جائیں ، جن کے ذریعے ان کے مذموم مقاصد آشکارہ کیے جائیں تاکہ نو نہالانِ نسل ان سے متأثر نہ ہوسکیں ۔ (۴) ائمہ خطبا اور مبلغین حضرات اپنی تقریروں اور خطبوں میں دینی رہ نمائی کے ساتھ ساتھ ان کی ناپاک سازشوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کریں تاکہ لوگ ان سے اجتناب کر نے لگیں اور گلو بلائزیشن کی روک تھام ہو سکے ۔
نظام الدین (اسلامی مفکر): اب میں ا س کے بعد ڈاکٹر فواد بن عبدالکریم کو دعوت دیتا ہو ں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
محمد تنویر( اسلامی مفکر ): اس سلسلے میں میر ی رائے یہ ہے کہ گلو بلائزیشن کی ترویج کے لیے کوشاں کا رندے اور افراد کے سامنے اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلام کے اقتصادی ومعاشر تی نظام کو پو ری قوت کے ساتھ پیش کیا جائے اور صہیو نی عالم گیریت کے مکروہ چہرے سے پردہ ہٹایا جائے ،تاکہ وہ اس کی خرابی کو تسلیم کر کے اسلامی عالم گیریت کا داعی بن جائے ۔
نظام الدین (اسلامی مفکر): اب میں سب سے آخر میں اسلامی مفکر مراد ہا ف مین سے درخواست کر تا ہوں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فر مائیں ۔
محمد ریحان( اسلامی مفکر ): مو ضوع کے حوالے سے میں یہ کہنا چا ہو ں گا کہ عالم گیر یت کے چند میدانِ عمل ہیں،جیسے سیاسست ، اقتصاد، تہذیب وثقافت ، معاشرہ واخلاق ،زبان وادب وغیرہ وغیرہ۔ عالم گیریت کے پا لیسی ساز یہودیوں نے عالم گیر یت کے ان تمام پہلووں کو قابل غور بنانے کے لیے جن وسائل کے ذریعے راہ ہموار کی ، ان میں سے اہم وسائل درجِ ذیل ہیں :(۱) سونے کے ذخائر پر قبضہ (۲) سر مایہ دارانہ نظام کا فروغ (۳) ٹکنا لو جی کے میدان میں انقلاب (۴) میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈے ، ان مذکو رہ وسائل میں میڈیا کے ذریعہ پر و پیگنڈے نے عالم گیریت کو پھیلانے میں سب سے زیادہ اہم رول ادا کیا ہے ، لہذا کیو ں نہ ہم بھی ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے میڈیا کے ذریعے ان کا مقابلہ کریں او رصہیونی سیاست و حکومت ،صیہونی تہذیب وثقافت، صیہونی اخلاق ومعاشر ت اور صیہونی زبان و ادب کے مفاسد اجاگر کر کے اسلامی سیاست و حکومت ، اسلامی تہذیب وثقافت، اسلامی اخلاق ومعاشرت اور اسلامی زبان و ادب کو میڈیا کے ذریعہ گھر گھر تک پہنچائیں ۔
نظام الدین (اسلامی مفکر ):مکہ مکر مہ میں منعقد اس اجلاس میں پوری دنیا پر صیہونی قبضہ اور گلوبلائزیشن کی روک تھام کے لیے بہ اتفاق رائے مندرجہ ذیل امور پاس کیے گئے :
(۱)انفرادی واجتماعی سطح پر گلوبلائزیشن کے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اوراسلامی متبادل پیش کیا جائے۔
(۲)دریافت شدہ خفیہ پروٹوکول کو بڑے پیمانے پر شائع کیا جائے ۔
(۳) تمام مما لک کی وزارتیں ، سر کاری وغیرسرکاری تنظیمیں ،نیز ہرجگہ کے دارالافتا والقضا ان کے ناپاک عزائم کے خلاف مذمتی بیانات جاری کر یں ۔
(۴) نئی نسل خصوصاً مغربی ماحول میں پر ورش پانے والے اسکولو ں اور کالجوں کے اسٹوڈینٹ کے لیے خصوصی پر وگرام منعقد کر کے صیہونیوں کے مذموم مقاصد سے آگاہ کر کے ان سے اجتناب کی تلقین کی جائے ۔
(۵) صیہونی مقاصد کے لیے کار فر ماں دماغوں اور کو شاں کارندوں کے سامنے اسلامی تہذیب اور اسلامی اقتصادی ومعاشرتی نظام پوری قوت کے ساتھ پیش کیا جائے ۔
(۶) چوں کہ صہیونیت اور گلوبلائز یشن کی راہ ہموار کر نے میں سب سے زیادہ اہم رول میڈیا نے ادا کیا ہے ، اس لیے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے ا ن کا مقابلہ میڈیا کے ذریعہ کیا جائے۔
آج کی میٹنگ اختتام پذیر ہو تی ہے ، حالات کے مطابق ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً ہماری میٹنگ ہو تی رہے گی ۔