مضمون نگار کا عندیہ ے کہ ہندستان جیسے کثیر مذہبی و تہذیبی ملک
کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے دینی، سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کا واحد طریقہ نبوی و مدنی فارمولہ میں مضمر ہے۔
اور جمعیۃ علماء ہند کا امن و ایکتا سمیلن اسی فارمولہ کی تجدید کا اعلان عام ہے۔
محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
اسلام اور مسلمانوں کے
خلاف کفار قریش کی مسلسل سازش اور ظلم و ستم کے بعد نبی اکرم ﷺ کو مدینہ ہجرت کا حکم الٰہی ملا، تو مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ یا صحابہ
کرام یا پھر مذہب اسلام محفوظ نہیں ہوگیا تھا؛ بلکہ مکہ کے مقابلے میں یہاں تین
گنے خطرات بڑھ گئے تھے۔ ایک طرف یہودی تھے، تو دوسری طرف مدینہ کے ارد گرد آباد
دوسرے قبائل ۔ اور تیسری طرف خود مکہ کے لوگ ۔ یہ سب مسلمانوں کے لیے مشکلات کھڑی
کر رہے تھے۔ غور سے دیکھیے تو آج ہندستان میں مسلمانوں کے سامنے حالات کا نقشہ اس
سے مختلف نہیں ہے۔ ایک طرف غیر مسلم برادری کے کچھ شرپسند عناصر کی ریشہ دوانیاں
ہیں، تو دوسری طرف مسلکی تشدد و تفرقہ بازی ۔ اور تیسری طرف کچھ مسلمانوں کا اپنے
ہی معاملات و مسائل کے تئیں منافقانہ کردار۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے دینی اور سیاسی
مسائل کے حل اور سماج کی کثرت میں وحدت کا رنگ پیدا کرنے کا صرف اور صرف وہی ایک
طریقہ ہے،جو آج سے چودہ سو سال قبل سرورکائنات نبی اکرم ﷺ نے ایجاد فرمایا تھا،
جسے میثاق مدینہ کہاجاتا ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا
کارٹا کو پہلا بین الاقوامی
معاہدہ قرار دیتے ہیں حالاں کہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جب کہ میگنا
کارٹا 600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔ بہر
کیف آئیے دیکھتے ہیں کہ ہندستان کے موجودہ حالات کیا ہیں اور میثاق مدینہ کی کونسی
کونسی دفعات ہماری رہ نمائی کے لیے مکمل فریضہ ادا کرتی ہیں۔
ہندستان کے مذاہب کی بات
کریں، تو یہ دنیا کا منفرد ملک ہے جہاں لاتعداد مذاہب پائے جاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب
کے اپنے طریقے اور رواجات ہیں، جو قطعی طور پر ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور
کہیں کہیں ہم آہنگ بھی، اس لیے بعض مواقع پر ہم آہنگی کے پہلو سے اتحاد و ایکتا کی
فضا قائم کی جاسکتی ہے، لیکن اختلافی پہلو بھی ہونے کی وجہ سے اختلاف و عداوت کا
پیدا ہوجانا بعید از امکان نہیں ہے۔ امن و
اتحاد کو پارہ کرنے والی ایک وجہ تو یہی تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب سیاست
مفادات کا چولا اوڑھ لیتی ہے ، اور حصول
مقصد کے لیے اخلاق کی آخری گراوٹ تک گرجانا معیوب سمجھنا صرف ایک شریف والوں بات
بن کر رہ جاتی ہے، تو ایک سماج میں بسنے
والے مختلف مذہب و کلچر کے لوگ ایک دوسرے کے لیے مشکوک ہوجاتے ہیں ، جس سے امن و
ایکتا کا دامن تار تار ہونے لگتا ہے۔ ایسے پرفتن حالات میں بعض لوگوں کا منافقانہ
کردار اور ایک دوسرے کے خلاف سازشی ذہن آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتا ہے، جس کے
نتیجے میں فسادات کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں ۔ انسانیت چیخ اٹھتی ہے اور جان و مال
تباہ و برباد ہوتا چلا جاتا ہے۔
اگر کہیں پر امن و ایکتا
کی فضا مسموم ہوتی ہے، تو بالعموم اس کی یہی درج بالا دو وجہیں ہوتی ہیں۔ آج دنیا
امن و ایکتا قائم کرنے کے لیے بڑے بڑے منشور ترتیب دے رہی ہے، لمبے چوڑے منصوبے
بنارہی ہے، لیکن نتیجہ دیکھا جائے تو ، صفر سے آگے کچھ نہیں نکلتا، حالاں کہ اسلام
نے اس کا بہترین طریقہ آج سے صدیوں پہلے بتا دیا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ
اسلام کی صداقت و حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی بالا دستی کو قبول کیا جائے
اور اس کے طریقے کو اپنانے میں تعصب سے کام نہ لیا جائے۔
امن کی فضا مکدر ہونے کی
پہلی وجہ کے تعلق سے میثاق مدینہ کا یہ فارمولہ ہے کہ ایک کثیر تہذیبی و مذہبی ملک
میں ہر ایک شخص کو مکمل طور پر مذہب کی آزادی حاصل رہے، کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے
مذہب پر نہ اعتراض کرے اور نہ اس میں عیب جوئی کرکے لڑائی کی ذہنیت کو فروغ دے ۔
چنانچہ اس تعلق سے دفعہ 25 میں ہے کہ '' ۔ یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان
کا دین ہے خواہ وہ موالی ہوں یا اصل''۔
اس سے پہلے کی دفعا ت میں
ریاست مدینہ میں آباد یہودیوں کے دیگر قبائل، بشمول بنی نجار، بنی الحارث، بنی ساعدہ،
بنی جشم، بنی الاوس، بنی ثعلبہ، بنی شطیبہ کا فرداً فرداً تذکرہ کیا گیا ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ خواہ وہ کوئی بھی قوم
یا قبیلہ ہو ، انھیں مذہبی آزادی کا آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔صرف اتنا ہی نہیں ؛
بلکہ یہ اصل قبیلے اگر کسی دوسرے کو اپنا دوست اور موالی بناتے ہیں، تو مذہبی
آزادی کا یہ قانونی تحفظ اس کو بھی حاصل ہوگا۔ اگر میثاق مدینہ کے اس فلسفہ پر عمل
کر لیا جائے تو بالیقین یہ کہاجاسکتا ہے کہ ہندستان میں کبھی بھی فرقہ وارانہ
فسادات نہیں ہوں گے ۔
امن کی فضا مکدر ہونے کی
دوسری وجہ یہ ہے کہ جب سیاست اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اپنے بنیادی مقصد
خدمت سے غافل ہوکر محض مفادات کی غلام ہوجاتی ہے، تو اس میں چنگیزیت کے علاوہ کچھ
نہیں رہ جاتا۔ پھر اس کا پورا زور اسی پر صرف ہوتا ہے کہ کس طرح تفرقہ ڈالیں اور
اپنا الو سیدھا کرتے رہیں۔ اس میں اسے نہ اخلاق کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ انسانیت
کی ۔ اس کے سامنے محض مفادات ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک جیسی شکل و
صورت والا انسان اپنے ہی نوع انسان کا دشمن و قاتل بن جاتا ہے اور خشکی و تری میں
فساد برپا ہوجاتا ہے۔
ایسے حالات میں دنیا کے
بڑے بڑے روشن خیالوں کا ماننا ہے کہ اس کا حل یہ ہے کہ قومیت کا تصور مذہب سے
وابستہ ہے ، لہذا اتحاد و اتفاق کے لیے ضروری ہے کہ پورے ملک کا مذہب ایک ہو، تاکہ
مذہب کو گندی سیاست کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے اور ملک کا امن و امان برقرار
رہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ نظریہ کسی بھی طرح سے کامیاب نہیں ہوا، جس کی مثال
موجودہ پاکستان کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں، کہ جو ملک خالص مذہب کی بنیاد پر وجود
میں آیا تھا اور جسے سلطنت خداداد کہا جاتا ہے، آج وہاں امن و امان کی کیا صورت
حال ہے۔ ایک ہی مذہب اور مسلک کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ اس لیے یہ
کہاجاسکتا ہے کہ جو لوگ ہندستان میں ایک خاص نظریے کو پورے ملک پر مسلط کرنا چاہتے
ہیں اور اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہندستان امن کا راشٹر بن جائے گا، تو
یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ایسے لوگوں کو پاکستان سے سبق لینا چاہیے۔
ہندستان کے موجودہ حالات
میں امن قائم کرنے کا وہی طریقہ سب سے کارگر ہوگا، جو سرورکائنات ﷺ آج سے چودہ سو
سال قبل ہمیں عملی طور پر سکھلا گئے تھے کہ وطنیت کا تصور مذہب پر نہیں؛ بلکہ
قومیت پر مبنی ہونا چاہیے اور قومیں وطن سے تشکیل پاتی ہیں، اس میں مذہب کا کوئی
دخل نہیں ہے ، چنانچہ دفعہ 2 میں صراحت موجود ہے کہ '' تمام (دنیا کے
دیگر ) لوگوں کے بالمقابل ان(اہل مدینہ: یہود، انصار، مہاجرین و دیگر قبائل) کی
ایک علیحدہ سیاسی وحدت (قومیت) ہوگی''۔
یہ دفعہ مختلف مذاہب کے
بیچ سیاسی وحدت کا دائرہ کار متعین کرتی ہے اور مذہب کے بجائے جغرافیائی حدود میں
منقسم قومیت پر سیاسی وحدت کی نیو رکھتی ہے ۔آج ہندستان میں اگر وحدت کی بنیاد اسی
دفعہ کو قرار دیا جائے ، تو ناچیز کا عندیہ ہے کہ پورا ہندستان پھر سے امن کا
گہوارہ اور ایکتا کا گلدستہ بن جائے گا۔
جمعیۃ علماء ہند جو
ہندستان میں سرمایہ ملت کی نگہبان اور محافظ ہے ۔ یہ امن اور ایکتا دونوں کے قیام
کے لیے روز اول سے مدنی و مکی فارمولہ کی ترجمانی کرتی رہی ہے اور آج بھی اس کا
نظریہ یہی ہے کہ امن و ایکتا کا قیام تبھی ممکن ہے کہ جب کہ ہندستان میں ہر
شخص ایک
دوسرے کے مذاہب کا احترام کرے۔ دین و تشخص کی بات آئے
تو سب لوگ اپنے اپنے طریقے کو اختیار کرلے اور ایک دوسرے کے لیے تکلیف یا رکاوٹ کا
سبب نہ بنے۔ اور قوم و ملت کے
مشترکہ مسائل میں اجتماعی مفادات کو ترجیح دے، تاکہ سیاست میں گندی و مفادی ذہنیت
کو فروغ نہ مل سکے۔ اور جو لوگ مذہب یا سیاست کا سہارا لے کر مشترکہ کاز کو نقصان
پہنچانے کی کوشش کرے، اس کے کردار پر منافقانہ روش اختیار کرنے کا جرم عائد کرکے
ہر طرح کا بائکاٹ کر کے بالکل الگ تھلگ ڈال دے۔
جمعیۃ علماء ہند کے زیر
اہتمام 29 / اکتوبر 2017 کو دہلی میں ہونے ہونے والے امن و ایکتا سمیلن اسی میثاق مدینہ کی
تجدید کا اعلان ہے ۔ اور قوی امید ہے کہ
یہ سمیلن اپنے مقاصد میں پورے طور پر کامیاب ہوگا اور ان شاء اللہ ہندستان
میں امن و ایکتا کی ایک لہر دوڑ جائے گی۔
ذیل میں میثاق مدینہ کا
پورا متن دیا جارہا ہے تاکہ شائقین اس سے پورا پورا فائدہ اٹھاسکیں۔
بسم اﷲ
الرحمن الرحیم
هذا کتاب
من محمد النبي رسول الله بين المؤمنين و المسلمين من قريش و أهل يثرب، و من تبعهم
فلحق بهم و جاهد معهم.
أنهم امة
واحدة من دون الناس. [ صفحه 102]
المهاجرون
من قريش علي ربعتهم ، يتعاقلون بينهم و هم يفدون عانيهم بالمعروف، و القسط بين
المؤمنين.
و بنوعوف علي ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الاولي، و
کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و
بنوالحارث من الخزرج علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها
بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و
بنوساعدةعلي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و
القسط بين المؤمنين.
و بنو
جشم علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط
بين المؤمنين.
و
بنوالنجار علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف
و القسط بين المؤمنين.
و
بنوعمرو بن عوف علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها
بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوالنبيت
علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و لک طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط
بين المؤمنين.
و
بنوالأوس علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و
القسط بين المؤمنين. [ صفحه 103]
و ان المؤمنين لايترکون مفرحا بينهم أن يعطوه بالمعروف في فداء أو عقل و ان
لايحالف مؤمن مولي مؤمن دونه.
و ان المؤمنين المتقين ايديهم علي من بغي منهم
أو ابتغي دسيعة ظلم او اثما او عدوانا أو
فسادا بين المؤمنين، و أن أيديهم عليه جميعا و لو کان ولد أحدهم.
و لايقتل مؤمن مؤمنا في کافر و لاينصر کافرا علي
مؤمن.
و ان ذمة الله واحدة يجير عليهم أدناهم، و ان
المؤمنين بعضهم موالي بعض دون الناس.
و ان من تبعنا من يهود فان له النصر و الاسوة
غير مظلومين و لامتناصرين عليهم.
و ان سلم المؤمنين واحدة، لايسالم مؤمن دون مؤمن
في قتال في سبيل الله الا علي سواء و عدل بينهم.
وان کل غازية غزت معنا يعقب بعضها بعضا.
وان المؤمنين يبيء بعضهم علي بعض بما نال
دماءهم في سبيل الله تعالي.
و ان المؤمنين المتقين علي أحسن هدي وأقومه.. و
انه لايجير مشرک مالا لقريش و لا نفسا و لايحول دونه علي مؤمن.
و انه من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة فانه قود به
الا أن يرضي ولي المقتول بالعقل، و ان المؤمنين عليه کافة، و لايحل لهم الا قيام
عليه.
و انه لايحل لمؤمن أقر بما في هذه الصحيفة، و
آمن بالله و اليوم الآخر أن [صفحه 104] ينصر محدثا.و يؤويه، و انه من نصره أو
آواه فان عليه لعنة الله و غضبه يوم القيامة، و لايؤخذ منه صرف و لا عدل.
و انکم مهما اختلفتم فيه من شيء فان مرده الي
الله عزوجل و الي محمد صلي الله عليه و آله و سلم.
و ان اليهود ينفقون مع المؤمنين ماداموا
محاربين.
و ان يهود بنيعوف امة مع المؤمنين، لليهود
دينهم، و للمسلمين دينهم و مواليهم و أنفسهم الا من ظلم أو أثم فانه لايوتغ الا
نفسه وأهل بيته.
و ان ليهود بنيالنجار مثل ما ليهود بنيعوف.
و ان ليهود بنيالحارث مثل ما ليهود بنيعوف.
و ان ليهود بنيساعدة مثل ما ليهود بنيعوف.
و ان ليهود بنيجشم مثل ما ليهود بنيعوف.
و ان
ليهود بنيالاوس مثل ما ليهود بنيعوف.
و ان ليهود بنيثعلبة ملث ما ليهود بنيعوف الا
من ظلم و أثم فانه لايوتغ الا نفسه و أهل بيته.
و ان جفنة بطن من ثعلبة کأنفسهم.
و ان لبنيالشطيبة مثل ما ليهود بنيعوف و أن
البر دون الاثم.
و ان موالي ثعلبة کأنفسهم .
و ان بطانة اليهود کأنفسهم. [ صفحه 105]
و انه
لايخرج أحد الا باذن محمد صلي الله عليه و آله و سلم و أنه لاينحجز علي ثار جرح و
انه من فتک فبنفسه فتک و أهل بيته، ألا من ظلم، و ان الله علي أبر من هذا .
و ان علي اليهود نفقتهم و ان بينهم النصر علي
من حارب أهل هذه الصحيفة.. وان بينهم النصح و النصيحة و البر دون الاثم، و أنه لم
يأثم امرؤ بحليفه، و ان النصر للمظلوم.
و ان اليهود ينفقون مع المؤمنين ماداموا
محاربين.
و ان يثرب حرام جوفها لأهل هذه الصحيفة.
و ان الجار کالنفس غير مضار و لا آثم.
و انه لا تجار حرمه الا باذن أهلها.
و انه ما کان بين أهل هذه الصحيفة من حدث أو
اشتجار يخاف فساده فان مرده الي الله عزوجل و الي محمد رسول الله صلي الله عليه و
آله و سلم.
و انه لا تجار قريش و لا من نصرها.
و ان بينهم النصر علي من دهم يثرب.
و اذا دعوا الي صلح يصالحونه و يلبسونه فانهم
يصالحونه و يلبسونه، و انهم اذا دعوا الي مثل ذلک فانه لهم علي المؤمنين الا من
حارب في الدين..علي کل اناس حصتهم من جانبهم الذي قبلهم.
و ان يهود الأوس، مواليهم وأنفسهم، علي مثل ما
لأهل هذه الصحيفة مع البر المخض من أهل هذه الصحيفة، و ان البر دون الاثم، لايکسب
کاسب الا علي نفسه و ان الله علي أصدق ما في هذه الصحيفة و أبره.
و
انه لايحول هذا الکتاب دون ظالم أو آثم، و أنه من خرج آمن و من قعد [ صفحه 106]
آمن بالمدينة، الا من ظلم أو أثم، و ان الله جاز لمن بر واتقي، و محمد رسول الله۔( سیرۃ ابن ھشام،ج 2، صفحات اوپر درج ہیں) و
تاریخ ابن کثیرج3، از صفحہ224-226)