27 Oct 2017

ہندستانیوں کے درمیان امن و ایکتاپیدا کرنے کا مدنی فارمولہ

مضمون نگار کا عندیہ ے کہ ہندستان جیسے کثیر مذہبی و تہذیبی ملک  کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے  دینی، سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کا  واحد طریقہ نبوی و مدنی فارمولہ میں مضمر ہے۔ اور جمعیۃ علماء ہند کا امن و ایکتا سمیلن اسی فارمولہ کی تجدید کا اعلان عام ہے۔
محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کفار قریش کی مسلسل سازش اور ظلم و ستم کے بعد نبی اکرم ﷺ کو  مدینہ ہجرت کا حکم  الٰہی ملا، تو مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ یا صحابہ کرام یا پھر مذہب اسلام محفوظ نہیں ہوگیا تھا؛ بلکہ مکہ کے مقابلے میں یہاں تین گنے خطرات بڑھ گئے تھے۔ ایک طرف یہودی تھے، تو دوسری طرف مدینہ کے ارد گرد آباد دوسرے قبائل ۔ اور تیسری طرف خود مکہ کے لوگ ۔ یہ سب مسلمانوں کے لیے مشکلات کھڑی کر رہے تھے۔ غور سے دیکھیے تو آج ہندستان میں مسلمانوں کے سامنے حالات کا نقشہ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ایک طرف غیر مسلم برادری کے کچھ شرپسند عناصر کی ریشہ دوانیاں ہیں، تو دوسری طرف مسلکی تشدد و تفرقہ بازی ۔ اور تیسری طرف کچھ مسلمانوں کا اپنے ہی معاملات و مسائل کے تئیں منافقانہ کردار۔  ایسے حالات میں مسلمانوں کے دینی اور سیاسی مسائل کے حل اور سماج کی کثرت میں وحدت کا رنگ پیدا کرنے کا صرف اور صرف وہی ایک طریقہ ہے،جو آج سے چودہ سو سال قبل سرورکائنات نبی اکرم ﷺ نے ایجاد فرمایا تھا، جسے میثاق مدینہ کہاجاتا ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالاں کہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جب کہ  میگنا کارٹا   600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔ بہر کیف آئیے دیکھتے ہیں کہ ہندستان کے موجودہ حالات کیا ہیں اور میثاق مدینہ کی کونسی کونسی دفعات ہماری رہ نمائی کے لیے مکمل فریضہ ادا کرتی ہیں۔
ہندستان کے مذاہب کی بات کریں، تو یہ دنیا کا منفرد ملک ہے جہاں لاتعداد مذاہب پائے جاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب کے اپنے طریقے اور رواجات ہیں، جو قطعی طور پر ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور کہیں کہیں ہم آہنگ بھی، اس لیے بعض مواقع پر ہم آہنگی کے پہلو سے اتحاد و ایکتا کی فضا قائم کی جاسکتی ہے، لیکن اختلافی پہلو بھی ہونے کی وجہ سے اختلاف و عداوت کا پیدا ہوجانا بعید از امکان نہیں ہے۔  امن و اتحاد کو پارہ کرنے والی ایک وجہ تو یہی تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب سیاست مفادات  کا چولا اوڑھ لیتی ہے ، اور حصول مقصد کے لیے اخلاق کی آخری گراوٹ تک گرجانا معیوب سمجھنا صرف ایک شریف والوں بات بن کر رہ جاتی ہے،  تو ایک سماج میں بسنے والے مختلف مذہب و کلچر کے لوگ ایک دوسرے کے لیے مشکوک ہوجاتے ہیں ، جس سے امن و ایکتا کا دامن تار تار ہونے لگتا ہے۔ ایسے پرفتن حالات میں بعض لوگوں کا منافقانہ کردار اور ایک دوسرے کے خلاف سازشی ذہن آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتا ہے، جس کے نتیجے میں فسادات کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں ۔ انسانیت چیخ اٹھتی ہے اور جان و مال تباہ و برباد ہوتا چلا جاتا ہے۔
اگر کہیں پر امن و ایکتا کی فضا مسموم ہوتی ہے، تو بالعموم اس کی یہی درج بالا دو وجہیں ہوتی ہیں۔ آج دنیا امن و ایکتا قائم کرنے کے لیے بڑے بڑے منشور ترتیب دے رہی ہے، لمبے چوڑے منصوبے بنارہی ہے، لیکن نتیجہ دیکھا جائے تو ، صفر سے آگے کچھ نہیں نکلتا، حالاں کہ اسلام نے اس کا بہترین طریقہ آج سے صدیوں پہلے بتا دیا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی صداقت و حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی بالا دستی کو قبول کیا جائے اور اس کے طریقے کو اپنانے میں تعصب سے کام نہ لیا جائے۔
امن کی فضا مکدر ہونے کی پہلی وجہ کے تعلق سے میثاق مدینہ کا یہ فارمولہ ہے کہ ایک کثیر تہذیبی و مذہبی ملک میں ہر ایک شخص کو مکمل طور پر مذہب کی آزادی حاصل رہے، کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے مذہب پر نہ اعتراض کرے اور نہ اس میں عیب جوئی کرکے لڑائی کی ذہنیت کو فروغ دے ۔ چنانچہ اس تعلق سے دفعہ 25 میں ہے کہ '' ۔  یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہے خواہ وہ موالی ہوں یا اصل''۔
اس سے پہلے کی دفعا ت میں ریاست مدینہ میں آباد یہودیوں کے دیگر قبائل، بشمول بنی نجار، بنی الحارث، بنی ساعدہ، بنی جشم، بنی الاوس، بنی ثعلبہ، بنی شطیبہ کا فرداً فرداً تذکرہ کیا گیا  ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ خواہ وہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ ہو ، انھیں مذہبی آزادی کا آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔صرف اتنا ہی نہیں ؛ بلکہ یہ اصل قبیلے اگر کسی دوسرے کو اپنا دوست اور موالی بناتے ہیں، تو مذہبی آزادی کا یہ قانونی تحفظ اس کو بھی حاصل ہوگا۔ اگر میثاق مدینہ کے اس فلسفہ پر عمل کر لیا جائے تو بالیقین یہ کہاجاسکتا ہے کہ ہندستان میں کبھی بھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوں گے ۔
امن کی فضا مکدر ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ  جب سیاست  اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اپنے بنیادی مقصد خدمت سے غافل ہوکر محض مفادات کی غلام ہوجاتی ہے، تو اس میں چنگیزیت کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ پھر اس کا پورا زور اسی پر صرف ہوتا ہے کہ کس طرح تفرقہ ڈالیں اور اپنا الو سیدھا کرتے رہیں۔ اس میں اسے نہ اخلاق کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ انسانیت کی ۔ اس کے سامنے محض مفادات ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک جیسی شکل و صورت والا انسان اپنے ہی نوع انسان کا دشمن و قاتل بن جاتا ہے اور خشکی و تری میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔
ایسے حالات میں دنیا کے بڑے بڑے روشن خیالوں کا ماننا ہے کہ اس کا حل یہ ہے کہ قومیت کا تصور مذہب سے وابستہ ہے ، لہذا اتحاد و اتفاق کے لیے ضروری ہے کہ پورے ملک کا مذہب ایک ہو، تاکہ مذہب کو گندی سیاست کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے اور ملک کا امن و امان برقرار رہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ نظریہ کسی بھی طرح سے کامیاب نہیں ہوا، جس کی مثال موجودہ پاکستان کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں، کہ جو ملک خالص مذہب کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور جسے سلطنت خداداد کہا جاتا ہے، آج وہاں امن و امان کی کیا صورت حال ہے۔ ایک ہی مذہب اور مسلک کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ جو لوگ ہندستان میں ایک خاص نظریے کو پورے ملک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہندستان امن کا راشٹر بن جائے گا، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ایسے لوگوں کو پاکستان سے سبق لینا چاہیے۔
ہندستان کے موجودہ حالات میں امن قائم کرنے کا وہی طریقہ سب سے کارگر ہوگا، جو سرورکائنات ﷺ آج سے چودہ سو سال قبل ہمیں عملی طور پر سکھلا گئے تھے کہ وطنیت کا تصور مذہب پر نہیں؛ بلکہ قومیت پر مبنی ہونا چاہیے اور قومیں وطن سے تشکیل پاتی ہیں، اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے ، چنانچہ دفعہ 2 میں صراحت موجود ہے کہ  '' تمام (دنیا کے دیگر ) لوگوں کے بالمقابل ان(اہل مدینہ: یہود، انصار، مہاجرین و دیگر قبائل) کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (قومیت) ہوگی''۔
یہ دفعہ مختلف مذاہب کے بیچ سیاسی وحدت کا دائرہ کار متعین کرتی ہے اور مذہب کے بجائے جغرافیائی حدود میں منقسم قومیت پر سیاسی وحدت کی نیو رکھتی ہے ۔آج ہندستان میں اگر وحدت کی بنیاد اسی دفعہ کو قرار دیا جائے ، تو ناچیز کا عندیہ ہے کہ پورا ہندستان پھر سے امن کا گہوارہ اور ایکتا کا گلدستہ بن جائے گا۔
جمعیۃ علماء ہند جو ہندستان میں سرمایہ ملت کی نگہبان اور محافظ ہے ۔ یہ امن اور ایکتا دونوں کے قیام کے لیے روز اول سے مدنی و مکی فارمولہ کی ترجمانی کرتی رہی ہے اور آج بھی اس کا نظریہ یہی ہے کہ امن و ایکتا کا قیام تبھی ممکن ہے کہ جب کہ ہندستان میں ہر شخص     ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرے۔ دین و تشخص کی بات آئے تو سب لوگ اپنے اپنے طریقے کو اختیار کرلے اور ایک دوسرے کے لیے تکلیف یا رکاوٹ کا سبب نہ بنے۔  اور قوم و ملت کے مشترکہ مسائل میں اجتماعی مفادات کو ترجیح دے، تاکہ سیاست میں گندی و مفادی ذہنیت کو فروغ نہ مل سکے۔ اور جو لوگ مذہب یا سیاست کا سہارا لے کر مشترکہ کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، اس کے کردار پر منافقانہ روش اختیار کرنے کا جرم عائد کرکے ہر طرح کا بائکاٹ کر کے بالکل الگ تھلگ ڈال دے۔
جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام 29 / اکتوبر 2017 کو دہلی میں ہونے  ہونے والے امن و ایکتا سمیلن اسی میثاق مدینہ کی تجدید کا اعلان ہے ۔ اور قوی امید ہے کہ  یہ سمیلن اپنے مقاصد میں پورے طور پر کامیاب ہوگا اور ان شاء اللہ ہندستان میں امن و ایکتا کی ایک لہر دوڑ جائے گی۔
ذیل میں میثاق مدینہ کا پورا متن دیا جارہا ہے تاکہ شائقین اس سے پورا پورا فائدہ اٹھاسکیں۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
هذا کتاب من محمد النبي رسول الله بين المؤمنين و المسلمين من قريش و أهل يثرب، و من تبعهم فلحق بهم و جاهد معهم.
أنهم امة واحدة من دون الناس. [ صفحه 102]
المهاجرون من قريش علي ربعتهم ، يتعاقلون بينهم و هم يفدون عانيهم بالمعروف، و القسط بين المؤمنين.
 و بنوعوف علي ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوالحارث من الخزرج علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوساعدةعلي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنو جشم علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوالنجار علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوعمرو بن عوف علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوالنبيت علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و لک طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
 و بنوالأوس علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين. [ صفحه 103]
 و ان المؤمنين لايترکون مفرحا  بينهم أن يعطوه بالمعروف في فداء أو عقل و ان لايحالف مؤمن مولي مؤمن دونه.
 و ان المؤمنين المتقين ايديهم علي من بغي منهم أو ابتغي دسيعة  ظلم او اثما او عدوانا أو فسادا بين المؤمنين، و أن أيديهم عليه جميعا و لو کان ولد أحدهم.
 و لايقتل مؤمن مؤمنا في کافر و لاينصر کافرا علي مؤمن.
 و ان ذمة الله واحدة يجير عليهم أدناهم، و ان المؤمنين بعضهم موالي بعض دون الناس.
 و ان من تبعنا من يهود فان له النصر و الاسوة غير مظلومين و لامتناصرين عليهم.
 و ان سلم المؤمنين واحدة، لايسالم مؤمن دون مؤمن في قتال في سبيل الله الا علي سواء و عدل بينهم.
 وان کل غازية غزت معنا يعقب بعضها بعضا.
 وان المؤمنين يبي‏ء بعضهم علي بعض بما نال دماءهم في سبيل الله تعالي.
 و ان المؤمنين المتقين علي أحسن هدي وأقومه.. و انه لايجير مشرک مالا لقريش و لا نفسا و لايحول دونه علي مؤمن.
 و انه من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة فانه قود به الا أن يرضي ولي المقتول بالعقل، و ان المؤمنين عليه کافة، و لايحل لهم الا قيام عليه.
 و انه لايحل لمؤمن أقر بما في هذه الصحيفة، و آمن بالله و اليوم الآخر أن‏ [صفحه 104] ينصر محدثا.و يؤويه، و انه من نصره أو آواه فان عليه لعنة الله و غضبه يوم القيامة، و لايؤخذ منه صرف و لا عدل.
 و انکم مهما اختلفتم فيه من شي‏ء فان مرده الي الله عزوجل و الي محمد صلي الله عليه و آله و سلم.
 و ان اليهود ينفقون مع المؤمنين ماداموا محاربين.
 و ان يهود بني‏عوف امة مع المؤمنين، لليهود دينهم، و للمسلمين دينهم و مواليهم و أنفسهم الا من ظلم أو أثم فانه لايوتغ الا نفسه وأهل بيته.
 و ان ليهود بني‏النجار مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏الحارث مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏ساعدة مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏جشم مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏الاوس مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏ثعلبة ملث ما ليهود بني‏عوف الا من ظلم و أثم فانه لايوتغ الا نفسه و أهل بيته.
 و ان جفنة بطن من ثعلبة کأنفسهم.
 و ان لبني‏الشطيبة مثل ما ليهود بني‏عوف و أن البر دون الاثم.
  و ان موالي ثعلبة کأنفسهم  .
  و ان بطانة اليهود کأنفسهم. [ صفحه 105]
و انه لايخرج أحد الا باذن محمد صلي الله عليه و آله و سلم و أنه لاينحجز علي ثار جرح و انه من فتک فبنفسه فتک و أهل بيته، ألا من ظلم، و ان الله علي أبر من هذا .
  و ان علي اليهود نفقتهم و ان بينهم النصر علي من حارب أهل هذه الصحيفة.. وان بينهم النصح و النصيحة و البر دون الاثم، و أنه لم يأثم امرؤ بحليفه، و ان النصر للمظلوم.
 و ان اليهود ينفقون مع المؤمنين ماداموا محاربين.
 و ان يثرب حرام جوفها لأهل هذه الصحيفة.
 و ان الجار کالنفس غير مضار و لا آثم.
 و انه لا تجار حرمه الا باذن أهلها.
 و انه ما کان بين أهل هذه الصحيفة من حدث أو اشتجار يخاف فساده فان مرده الي الله عزوجل و الي محمد رسول الله صلي الله عليه و آله و سلم.
 و انه لا تجار قريش و لا من نصرها.
 و ان بينهم النصر علي من دهم يثرب.
 و اذا دعوا الي صلح يصالحونه و يلبسونه فانهم يصالحونه و يلبسونه، و انهم اذا دعوا الي مثل ذلک فانه لهم علي المؤمنين الا من حارب في الدين..علي کل اناس حصتهم من جانبهم الذي قبلهم.
 و ان يهود الأوس، مواليهم وأنفسهم، علي مثل ما لأهل هذه الصحيفة مع البر المخض من أهل هذه الصحيفة، و ان البر دون الاثم، لايکسب کاسب الا علي نفسه و ان الله علي أصدق ما في هذه الصحيفة و أبره.

 و انه لايحول هذا الکتاب دون ظالم أو آثم، و أنه من خرج آمن و من قعد [ صفحه 106] آمن بالمدينة، الا من ظلم أو أثم، و ان الله جاز لمن بر واتقي، و محمد رسول الله۔( سیرۃ ابن ھشام،ج 2، صفحات اوپر درج ہیں) و تاریخ ابن کثیرج3، از صفحہ224-226)

21 Oct 2017

اسلام میں ماحولیات کا تحفظ اور شجر کاری کی اہمیت تحریر: محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند

تحریر: محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
صنعتی ترقیات اور ٹکنالوجی کی نت نئی ایجادات  نے جہاں ایک طرف وسائل حیات کی فراوانی اور انسانی زندگی کے لیے سہولیات و تعیش  فراہم  کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں دوسری طرف ان کے کارخانوں سے  خارج ہونے والے مضر مواد  اور فضلات نے  طبعی آب وہوا ، فطری حیاتیاتی نظاموں اور عوامل کو  بری طرح سے متاثر کردیا ہے ، جس سے  ماحولیات  میں کثافت اور آلودگیاں پیدا ہوگئی ہیں ، جنھیں درج ذیل پانچ قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:(1) فضائی آلودگیاں۔ (2) آبی آلودگیاں۔ (3) صوتی آلودگیاں۔ (4) زمینی آلودگیاں۔ (5) شعاعی آلودگیاں۔
بڑی بڑی کمپنیوں سے خارج ہونے والے گرین ہاوس گیس ، کثیر مقدار میں  فضا میں جلے ہوئے ٹھوس اور سیال اجزا جیسے دھول ، دھنویں اور اسپرے کی آمیزش بہت ہی خطرناک طریقے سے فضا کی کثافت میں اضافہ کررہی ہے۔جس سے سانس ، کینسر، وضع حمل اور سقوط حمل جیسی مہلک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ نامیاتی اور غیر نامیاتی صنعتی فضلات ،  فیکٹریوں سے  نکلنے والی ردیوں اور گرم پانی، پلاسٹک ، ربر، کیمیکل سے بنی چیزیں اورنالیوں کے   گندی پانی کو  دریاوں اور بڑے بڑے آبی ذخائر میں ڈالنے سے آبی آلودگیاں پیدا ہورہی ہیں۔جن سے نہ صرف انسان؛ بلکہ چرند، پرند ؛ حتیٰ کہ نباتات  اور سمندری مخلوقات  بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔  پٹرول کی ریفائنری، صابن  سازی کے فضلاتی مادے، نمک، تیزاب، نقصان دہ کمیکل اور صنعتی کوڑا کرکٹ  زمینی آلودگیوں  کے بڑے اسباب ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے ، تو آسمان کا صاف شفاف پانی بھی زمینی آلودگیوں کی کثافت کو دھونے  میں ناکام رہتا ہے۔ جس سے  زمین بڑی تیزی سے ناقابل استعمال ہوتی جارہی ہے۔صوتی آلودگی کے بڑے اسباب میں سے صنعتی و تعمیراتی سرگرمیاں، ہمہ وقت چلنے والی مشینیں، جنریٹر، گاڑی اور گانے بجانے کے آلات ہیں،  جوفلک شگاف شورو ہنگامہ کا تسلسل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ 38 ڈسیمل سے زائد شور ہونے پر چڑچڑاپن، غصہ، ذہنی تناو، حرکت قلب، بلڈ پریشراور بہرے پن کی بیماریاں عام ہوتی جارہی ہیں۔ذرائع مواصلات: ریڈیو، ٹی وی اور موبائل نیٹ ورکنگ سسٹم میں  استعمال ہونے والی  برقی لہریں بڑی مقدار میں ریڈیشین خارج کر رہی ہیں، جو حرکت قلب اور سمعی قوتوں کو کمزور کرتی رہتی ہیں۔
درج بالا آلودگیاں خود انفرادی حیثیت سے بہت مضر ہیں، لیکن یہ سب آلودگیاں ایک ساتھ خارج ہورہی ہیں، جس کی وجہ سے ماحولیات خطرناک حد تک مسموم ہوتی جارہی ہیں چنانچہ فضائی و آبی آلودگیوں کی وجہ سے زمین کی حدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس سے بڑی تیزی سےگلیشیر پگھل رہے ہیں  اور سطح سمندر بلند ہوتی جارہی ہے۔ جس سے زمین کے قابل رہائش حصے  ڈوبتے جارہے ہیں۔کیمیائی کھادوں ،  پٹرول، گیس اور ایٹمی توانائی کا بے جا استعمال زمینی و  آبی  آلودگیوں  میں اضافہ کا سبب بنتا جارہا ہے، جس سے ہریالی اور پیڑ پودے  متاثر ہورہے ہیں علاوہ ازیں بڑی بڑی کمپنیوں اور نو آبادیات کے پھیلاو کے سبب جنگلات کی کٹائی سے گلوبل وارمنگ کی  خطرناک صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ مختصر یہ کہ قدرتی وسائل  کے غیر منصفانہ استعمال کی وجہ سے  تری ، خشکی؛ حتیٰ کہ فضا میں  بھی فساد برپا ہوگیا ہے ، جس سے پوری دنیا  کے سامنے ماحولیات کا مسئلہ ایک چیلنج بنتا جارہا ہے۔ اس تعلق سے بیداری پیدا کرنے کے لیے ہر سال 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات منایا جاتا ہے، اس کے مضر اثرات پر قابو پانے کے لیے نیشنل اور نٹرنیشنل سطح پر بڑے بڑے اجلاس اور کانفرنسیں کی جارہی ہیں، لیکن یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید سنگین حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔اور آج کا حال یہ ہے کہ دنیا  تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
(1) اسلام انسانوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر کوئی انسان مرجائے ، تو اسے پہلے غسل دو، پھر کفن بھی دو اور بعد ازاں قبر میں رکھ دو۔  ارشاد خداوندی ہے کہ  ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ (پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچا دیا۔) (سورہ عبس، آیت 21، پارہ 30)۔ انعام و اکرام والی آیتوں کےضمن میں یہ آیت وارد ہوئی ہے،لہذااس کا جہاں ایک مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی تکریم ہو، اور اس کی لاشوں کو درندے اور پرندے نہ نوچ کھائیں،  وہیں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مردہ جسموں سے پیدا ہونے والے تعفن سے فضا مسموم نہ ہو۔
بین ٹلی یونیورسٹی کے پروفیسرسوسن ڈوب سچا کا کہنا ہے کہ  جلتی لاش کے دھنویں سے  کاربن مونو آکسائیڈ، کالک، سلفر ڈی  آکسائیڈ اور خطرناک بدبو ہوا میں تحلیل ہوتی ہے، جس سے فضا مکدر ہوجاتی ہے ، اسی طرح اس کی راکھ کو پانی میں ڈالنے سے  یہ سب زہریلی اثرات پانی کو متاثر کرتے ہیں اور آبی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے بالمقابل اگر لاش کو زمین میں دفن کردیا جائے، تو زمین لاش کو خود میں جذب کرکے مٹی بنالیتی ہے اور اس سے نیوٹرینٹ حاصل کرتی ہے۔ جس سے اس کی قوت افزائش میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
(2) ہرے بھرے پیڑ پودے اور سرسبز شادابی نہ صرف منظر کو حسین بناتے ہیں؛ بلکہ اس سے فضائی آلودگیاں بھی ختم ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق  انسان جب سانس باہر نکالتا ہے ، تو مضر کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتا ہے اور سانس لیتے وقت آکسیجن کھینچتا ہے ، پیڑ پودے اپنے عمل تنفس میں کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن چھوڑتے ہیں، اس اعتبار سے پیڑے پودے انسانوں کو فریش اور تازہ ہوا مہیا کراتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے مضر کاربن کو ہضم کرکے ہوا میں توازن پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں درخت لگانے کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے، جس کا تذکرہ آگے آرہا ہے ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
فضائی کثافت سے بچنے کے لیے اسلام کی یہ خوبصورت تجاویزہیں اگر ان پر عمل کرلیا جائے، تو ایک حد تک فضائی آلودگی سے نجات مل سکتی ہے۔
(2) آبی آلودگیوں کا اسلامی تحفظ
اسلامی نظریہ کے مطابق پانی ہر چیز کی روح حیات ہے، اس لیے اسے  گندہ کرنے سے ممانعت وارد ہوئی ہے ۔ اور اس کے تحفظ کے لیے کئی اہم طریقے بتلائے گئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(1) اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ ( سنن ابی داود، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَابُ الْمَوَاضِعِ الَّتِي نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبَوْلِ فِيهَا ) ’’تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو (۱پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (۲راستہ میں پاخانہ کرنے سے (۳سایہ دارجگہوں میں پاخانہ کرنے سے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص نہر، نالہ، یا  تالاب وغیرہ  کے کنارے بول وبراز کرے گا، تو وہ گندگی پانی میں پہنچ جائے گی اور پانی کو آلودہ   و ناقابل استعمال بنا دے گی۔
(2) لاَ يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي المَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لاَ يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ( صحیح البخاری،کتاب الوضوء، بَابُ البَوْلِ فِي المَاءِ الدَّائِمِ)
تم میں سے کوئی اس پانی میں پیشاب نہ کرے جو ٹھہرا ہو، پھر اس میں غسل کرے۔
آبی آلودگی کے تحفظ کے لیے ہر اس طریقہ پر اسلام نے قدغن لگایا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ پانی آلودہ ہوتا ہے ؛ بلکہ ناپاک ، حتی کہ طبیعت پر اس کے استعمال سے تنفر بھی پیدا ہوتا ہے، چنانچہ بڑے برتن میں منھ لگاکر پانی پینا، پانی کے برتن میں سانس لینا، یا اس میں پھونک مارنا، برتن کو ڈھک کر نہ رکھنا  اور حالت جنابت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرنا شامل ہے۔اختصار کے پیش نظر ان کے حوالوں کو ترک کیا جارہا ہے۔
(3) صوتی آلودگی پر کنٹرول کی اسلامی تدابیر 
اسلامی عبادات اور تعلیمات میں صوتی آلودگی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اسلا م نقطہ نظر یہ ہے کہ آواز نہ تو بہت زیادہ بلند ہو کہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور نہ ہی اتنی پست ہو کہ جس مقصد کے لیے آواز نکالی جارہی ہے، وہ مقصد بھی پورا نہ ہو۔ اس تعلق سے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آوازسے پڑھیے، نہ بالکل پست آواز سے، بلکہ ان کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کیجیے۔
(2) أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِينَةِ كَبَّرَ النَّاسُ، وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا (سنن ابی داود، باب تفاریع ابواب الوتر، باب الاستغفار)
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے  جب مدینہ سے قریب ہوئے تو لوگوں  نے بلند آواز میں اللہ ہو اکبر کا نعرہ لگایا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے کہا (اپنی آواز دھیمی رکھو) تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔
ان کے علاوہ بھی حوالے موجود ہیں، جن میں صوتی آلودگی کو ناپسند کیا گیا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق موقع و محل کی مناسبت سے بقدر ضرورت آواز استعمال کرکے انسان اپنے مقصد کو پورا کرے، تو صوتی آلودگی کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
(4) زمینی آلودگی سے حفاظت کے لیے اسلام کا فارمولہ
انسان و حیوانات کے ساتھ ساتھ نباتات کی بقا کا دارو مدار اچھی زمین پر ہے، اسی لیے اسلام نے اس کے برباد کرنے کو سختی سے ناپسند کیا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے کہ
وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205 سورة البقرة، آیة: 205)
اور جب وہ آپ کے پاس سے واپس جاتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ زمین کی صلاح و فلاح اوراس  کی صلاحیت کو غارت کرنا مذموم حرکت ہے، اس لیے وہ تمام کام، جن سے زمین کی فطری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اسلام ان سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس ہدایت کے پیش نظر اگر قدرتی وسائل کو اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے ، اور اس کو نقصان پہنچنے والے عوامل کو نظر انداز نہ کیا جائے، تو زمینی کثافت رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گی ۔
(5) شعاعی آلودگی کی روک تھام کے لیے اسلامی اشارات
(1)سن 8 ہجری کا واقعہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت ملک شام کی جنگ موتہ میں ہے۔ آپ مسجد نبوی کے ممبر پر جلوہ افروز ہیں، صحابہ کا ایک گروہ آپ کے ارشاد گرامی قدر کے منتظر ہیں ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں  سے آنسو جاری  ہیں اور ارشاد فرمارہے ہیں کہ زید شہید ہوگئے ۔ پھر تھوڑی دیر بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ اب جعفر بھی جنت سدھار گئے۔ پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ عبد اللہ ابن رواحہ بھی اپنی آخری سانس لے چکے۔ پھر آخر میں ارشاد فرمایا کہ اب اسلامی جھنڈا سیف من سیوف اللہ کے ہاتھ میں آچکا ہے ۔ پھر فتح کی بشارت سنائی۔
لما التقى الناس بمؤتة جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر وكشف الله له ما بينه وبين الشام، فهو ينظر إلى معتركهم، فقال أخذ الراية زيد بن حارثة (البدایة والنهایة،ج، 4، ص281)
(2) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  23 ہجری میں فارس کےمیدان جنگ میں صرف اپنے آگے کا منظر دیکھ رہے ہیں، پہاڑ کے پیچھے سے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے بالکل بے خبر ہیں، وہاں سے سیکڑوں کلو میٹر دور مدینے کی مسجد نبوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کا خطبہ دے رہے ہیں کہ اچانک بیچ میں ایک جملہ  ارشاد فرماتے ہیں کہ یا ساریۃ ! الجبل!۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو! دشمن نے تمھیں پیچھے سے گھیر لیا ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یہ آواز سن کر پلٹتے ہیں اور دشمن پر پلٹ وار کرکے میدان جنگ جیت لیتے ہیں۔
وكان من قصته أن عمر رضى الله عنه أمره على جيش وسيره إلى فارس سنة ثلاث وعشرين، فوقع في خاطر سيدنا عمر وهو يخطب يوم الجمعة أن الجيش المذكور لاقى العدو وهم في بطن واد وقد هموا بالهزيمة، وبالقرب منهم جبل، فقال في أثناء خطبته: يا سارية، الجبل الجبل ! ورفع صوته، فألقاه الله في سمع سارية فانحار بالناس إلى الجبل وقاتلوا العدو من جانب واحد، ففتح الله عليهم. (تفسیر القرطبی، ج 12، ص79)
شرعی اصطلاح میں وسائل کے بغیر اس قسم کے مواصلات کو فراست ایمانی کہاجاتا ہے۔ درج بالا واقعات گرچہ اس عنوان کے لیے عبارۃ النص کے حوالے نہیں ہیں، تاہم اشارۃ النص اور  اسلام کی دوسری ہدایات  جیسے کہ   وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ (سورۃ النساء، آیت 29) اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو کے پیش نظر یہ کہاجاسکتا ہے کہ جہاں تک ہلاکت خیز اشیا کے بغیر کام چل سکتا ہو، کام چلانا چاہیے، لیکن اگر اس کے بغیر چارہ کار نہ ہو، تو بقدر ضرورت ہی اس کا استعمال کیا جائے۔ نیز  ریڈیشن خارج کرنے والے آلات جدید سائنس کا کارنامہ ہے، تو سائنس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کھوج جاری رکھے اور ایسی ایجاد لائے، جس سےاس خطرہ پر قابو پایا جاسکے۔
اسلام نے شجر کاری کی خصوصی ہدایات دی ہیں اور اسے ثواب اور صدقہ جاریہ کا ذریعہ بتایا ہے۔ اور بلاضرورت درخت کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ (صحیح البخاری، کتاب المزارعة، بَاب فَضْلِ الزَّرْعِ وَالْغَرْسِ إِذَا أُكِلَ مِنْهُ)
" مسلمان جو بھی میوہ دار درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس سے پرندے ، آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں اس کا ثواب اس کو ملتا ہے"۔
درخت لگانے کے ساتھ ساتھ اسلام نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جو کارآمد درخت ہے اسے نہ کاٹا جائے، چنانچہ ارشاد گرامی ہے کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَطَعَ سِدْرَةً صَوَّبَ اللَّهُ رَأْسَهُ فِي النَّارِ( سنن ابی داود، کتاب الادب، باب قطع السدر)
جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔
اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ اگر کوئی زمین بے آب وگیاہ پڑی ہے، اور صاحب زمین خود سے کچھ نہیں کرپاتا، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کو دیدے تاکہ وہ اسے قابل کاشت اور قابل استعمال بنائے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ لَمْ يَزْرَعْهَا، فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب البیوع، بَابُ كِرَاءِ الْأَرْضِ)
حوالے اور بھی ہیں، جنھیں اختصار کے پیش نظر ترک کیا جاتا ہے، ان تمام تعلیمات و ارشادات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے نہ  صرف شجرکاری کو فروغ دینے کے احکامات جاری کیے ہیں؛ بلکہ اسے صدقہ جاریہ کا ایک بہترین ذریعہ قرار دیا ہے، جس کا فائدہ صرف اس دنیاوی زندگی تک محدود نہیں رہ جاتا؛ بلکہ  آخروی زندگی کے لیے بھی مفید تر قرار پاتا ہے۔ اور اسلامی تعلیمات کی یہی معنویت اسے آفاقی، دائمی اور فطری ہونے کا امتیاز بخشتی ہے ۔  
مختصر یہ کہ شجری کاری اور درج بالا اسلامی تعلیمات  پر عمل کرلیا جائے، تو ماحولیاتی کثافت پر کنٹرول ہوسکتا ہے۔ اور دنیا پھر قدرتی آب و ہوا میں سانس لینے کی قابل بن سکتی ہے۔


20 Oct 2017

گالی دینا بڑے ثواب کا کام ہے۔۔۔؟ محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند


گالی دینا بڑے ثواب کا کام ہے۔۔۔؟
محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
سن ۹ ہجری کا واقعہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے آخری حج سے پہلے حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کچھ صحابہ کرام کو یمن فتح کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ جب یمن فتح ہوگیا، تو حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ کو ایک مکتوب ارسال کیا، جس میں فتح کی خوشخبری کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ مال غنیمت کی تقسیم اور اللہ اور اس کے رسول کا حصہ لینے کے لیے کسی کو بھیج دیں، تو نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کاقاضی بناکربھیجا۔ روانگی کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ آپ مجھے قاضی بناکر بھیج رہے ہیں اور مجھے قضا کا کوئی علم نہیں ہے ، تو نبی اکرم ﷺ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور قریب بلاکر اپنا دست مبارک سینہ پر مارااور دعا دی کہ ائے اللہ ! اس کی زبان کو راست گو اور دل کو ثبات و استقلال عطا فرما!۔یہ نبی اکرم ﷺ کی دعا کی برکت تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ صحابہ میں سب سے بڑے قاضی تھے۔
اس جنگ میں مسلمانوں کو کافی مال غنیمت ملاتھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ انصاف کے سبھی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سب مالوں کو تقسیم کردیا اور نبی اکرم ﷺ کا جو حصہ بنتا تھا، وہ لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ قیدیوں میں کئی لونڈیاں بھی تھیں، جن میں سے بطور خمس ایک لونڈی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے رکھ لی۔ اور ان سے اگلے ہی دن صحبت فرمائی ۔ فراغت کے بعد جب غسل کرکے نکل رہے تھے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا۔ حضرت خالد نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا کہ اس شخص نے کیا کیا؟ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب حضرت علی نے خمس لیا، تو خمس تو نبی اکرم ﷺ کے لیے ہوتا ہے، تو یہ باندی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کی جانی چاہیے تھی، اس کو حضرت علی نے خود کیوں استعمال کیا؟ حضرت بریدہ نے جواب دیا کہ مجھے علی سے نفرت ہے ۔ پھر حضرت بریدہ نے حضرت علی سے سوال کیا کہ ائے حسن کے ابا! یہ سب کیا ہے؟ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ یہ لونڈی خمس کا حصہ ہے اور خمس نبی اور آل نبی کے لیے ہوتا ہے اور میں آل نبی میں سے ہوں، اس لیے میں نے اسے استعمال کیا۔لیکن اس جواب سے حضرت بریدہ مطمئن نہیں ہوئے ۔ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے،حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی ناپسندیدگی کی ایک وجہ تو یہ تھی اور دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باندی کو نبی اکرم ﷺ کے حصہ میں لیا اور پھر آل نبی میں ہونے کی وجہ سے استعمال کیا ، تو یہ ان کا حق تھا، اس میں عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن چوں کہ نئی ملکیت کے بعد باندی کا استبراء رحم ضروری ہوتا ہے؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے استبراء کے بغیر ہی صحبت کرلی۔ اور چوں کہ یہ ایک شرعی مسئلہ کے خلاف کام کیا، اس لیے حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ ان سے ناراض ہوئے۔ تاریخ کی شہادت پیش کردوں کہ واقعہ یہ ہوا تھا کہ جس دن وہ باندی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں آئی تھی، اسی دن شام کو وہ پاک ہوگئی تھی، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے صحبت فرمائی۔ کیوں کہ سب سے بڑے قاضی کی ذات سے یہ تصور بھی ناممکن ہے کہ انھوں نے خلاف مسئلہ کوئی کام کیا ہوگا۔ 
تاریخ میں ایک تیسرا واقعہ بھی مذکور ہے کہ جب حجۃ الوداع کے لیے بلاوا آیا، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ شوق دیدار بیت اللہ سے بے چین ہو اٹھے اور اپنے قافلہ کی قیادت کسی اور کے حوالے کرکے ، تیزی سے مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ جب قافلہ آپ کے بعد مکہ پہنچا تو دیکھا کہ سبھی لشکری غنیمت میں ملے زیورات زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سالار قافلہ سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ ۔ تو آپ کے نائب نے جواب دیا کہ میں نے یہ سب اس لیے پہنا دیا تاکہ یہ اچھے نظر آئیں اور ہماری شان و شوکت ظاہر ہو۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس حال میں دیکھں گے ، تو بہت ناراض ہوں گے، اس لیے یہ سب زینت اتار دو۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اس حکم کی وجہ سے لوگوں میں ناراضگی پھیل گئی ۔ اور رسول اللہ ﷺ سے آپ کے خلاف شکایت کرنے کا فیصلہ کیا۔
بہر کیف ان میں سے جو بھی ایک واقعہ پیش آیا ہو، سبھی واقعات پیش آئے ہوں۔ جب حجۃ الوداع کی دعوت نبوی ﷺ پر یمنی قافلہ مکہ پہنچا تو، حج میں صرف تین چار دن رہ گئے تھے، اس لیے یہ حضرات آتے ہی عمرہ اور حج میں مشغول ہوگئے۔ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ محض حج سے محض چار دن قبل مکہ پہنچے اورسب سے پہلے اپنی بیوی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ حالت احرام میں نہیں ہیں، تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ جس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ایسا انھوں نے اس لیے کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر حضرت علی نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے، اس وقت سرور کائنات ﷺ ابطح میں تھے۔ ملاقات کے بعد ان سے پوچھا کہ بما اھللت یا علی؟ ائے علی کس چیز کا احرام باندھے ہو، تو انھوں نے جواب دیا کہ جس چیز کا احرام نبی اکرم ﷺ نے باندھا ہے، تو آپ نے حکم دیا کہ پھر حالت احرام میں ہی رہو، کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے قربانی کے جانورلے کر آئے تھے۔
نبی اکرم ﷺ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین افعال حج سے فارغ ہوگئے تو ۱۴؍ ذی الحجہ کو روانگی کا حکم دیا گیا ۔ اور چلتے چلتے ۱۸؍ ذی الحجہ کو غدیر خم مقام پر پہنچے۔ اور ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا۔ اسی مقام پر جب یمن سے آئے ہوئے صحابہ کو موقع ملا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکورہ بالا واقعہ کی شکایت کی ۔اور حضرت بریدہ نے معاملہ کو اوربڑھا چڑھاکر پیش کیا، جسے سن کر نبی اکرم ﷺ کا چہرہ غصے سے متغیر ہوگیا۔ نماز ظہر کا وقت ہورہا تھا ۔ آپ نے نماز کے لیے منادی کرائی ۔ تمام صحابہ آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے ۔ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں پہلے حضرت علی کے فضائل اور ان کے انصاف پسند ی کی تعریف کی ۔ بعدہ ارشاد فرمایا کہ
الستم تعلمون انی اولیٰ بالمسلمین من انفسھم، قالوا: بلیٰ یا رسول اللہ!، قال: من کنت مولاہ، فعلی مولاہ، اللھم وال من والاہ، و عاد من عاداہ، وانصر من نصرہ ، واخذل من خذلہ (شرح مشکل الآثار)
کیا میں مسلمانوں کی جانوں سے زیادہ افضل نہیں ہوں، تو سب صحابہ نے بیک زبان ہوکر ہاں میں جواب دیا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ میں جس کا محبوب ہوں، علی بھی اس کے محبوب ہیں۔ ائے اللہ ! جو علی سے دوستی رکھے، تو اسے دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی رکھے، تو تو اس کا دشمن بن جا۔ اللہ تعالیٰ علی کے مددگار کی مدد فرما اور علی کو رسوا کرنے والے کو ذلیل و خوار کردے۔حضرت بریدہ کا ہی بیان ہے کہ 
عَنْ بُرَیْدۃَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْیَمَنَ فَرَأَیْتُ مِنْہُ جَفْوَۃً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلی رَسُولِ اللہِ صَلی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذکَرْتُ عَلِیًّا فَتَنَقَّصْتہُ، فَرَأَیْتُ وَجہَ رَسُولِ اللہِ صَلی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَتَغَیَّرُ فَقَالَ: یَا بُرَیْدَۃُ أَلَسْتُ أَوْلی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ؟ قُلْتُ: بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ. قَالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ (مسند احمد ، حدیث بریدۃ الاسلمی)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے نبی اکرم ﷺ کا یہ جلال دیکھا تو سب لوگ سہم گئے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جن غلط فہمیوں کے شکار تھے، وہ سب کافور ہوگئے۔ اور سب لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دوست بن گئے۔
تاریخ کے اس واقعہ کو لے کر ہمارے کچھ لوگوں کو پہلے نظریاتی اختلاف ہوا۔ پھر یہ اختلاف ایک مسلک میں تبدیل ہوگیا۔ پھر اس مسلک نے فرقہ کا روپ دھار لیا ۔ بڑھتے بڑھتے معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ اس فرقہ میں فرقہ واریت اور تفرقہ نے جگہ لے لی ہے ۔
اس فرقہ کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ فعلی مولاہ کے ارشاد نبوی میں مولا کا مطلب اولیٰ بالامامۃ یعنی خلیفہ کے سب سے زیادہ حق دار ہے ا ور اس سے نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین بنانے کا اشارہ کیا ہے ، لہذا جن لوگوں نے وفات نبوی ﷺ کے بعد آپ کو خلیفہ نہیں بنایا، وہ سب کے سب راہ ہدایت سے منحرف اور غاصب دین و خلافت ہیں۔ اور پھر یہیں سے طوفانی بدتمیزی شروع کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو گالی دینا اس فرقہ کا سب سے بڑا کار ثواب ہے۔
اس فرقہ کا یہ معنی نکالنا کئی وجوہات سے درست نہیں ہے ، جن میں سے کچھ درج ذیل ہے:
(۱) مولیٰ کے معنی دوست کے ہیں، جس کا مشتق ولی ہے۔ اور قرآن و احادیث کے بے شمار حوالے موجود ہیں۔
(۲) اگر مان بھی لیں کہ اس سے مراد اولیٰ بالامامۃ ہے، تو نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں امام ہونا لازم آئے گا جو کہ غلط ہے۔
(۳) اگر مان لیں کہ اس سے مراد اولیٰ بالامامۃ ہی ہے تو پھر حضرات خلفاء ثلاثۃ سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیوں بیعت کیا؟۔
پھر اسی کے ساتھ تاریخ میں ایک دوسرا واقعہ پیش آیا ، جس میں ۱۰؍ محرام الحرام کو کربلا میں حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنھما کو بلاکر شہید کردیا گیا۔ پہلے یہ فرقہ صرف صحابہ کو گالی دیتا تھا، لیکن اس واقعہ کے بعد زمانے کو بھی برا بھلا کہنے لگے ۔ اور محرم کا پورا مہینہ گالی گلوچ ، تبرا کاری اور مقدس ہستیوں کی ذاتوں پر کیچڑ اچھالنے کا تہوار بنالیا ۔اور اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ اس پورے مہینے کو غم اور ماتم کا مہینہ قرار دے کر اسے کوسنا اور اس مہینے میں کوئی بھی خوشی کا کام نہ کرنا اپنا شعار بنالیا۔حالاں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان مجھے تکلیف پہنچاتا ہے ، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور زمانہ تو میں ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سارا معاملہ ہے۔ رات دن کی گردش میں ہی کرتا ہوں۔
عن ابی ھریرۃ ،قال، قال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم: قال عز وجل: یوذینی ابن آدم، یسب الدھر، و انا الدھر، بیدی الامر، اقلب اللیل والنھار(صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب وما یھلکنا الا الدھر (الجاثیۃ)
بہر کیف ، گالی خواہ صحابہ و صحابیات کو دی جائے ، یا پھر اس سے بڑھ کر کسی زمانے کو برا بھلا مان کر یا کہہ کر اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جائے، دونوں ناجائز اور حرام ہیں۔ یہ دین و شریعت کا بالکل بھی حصہ نہیں ہوسکتا ہے، لیکن کچھ لوگ جو ایسی حرکتیں کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں، ان کے بارے میں بس یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو عقل سلیم اور فہم رشید عطا فرمائے۔ آمین۔

7 Oct 2017

ہائے توبہ!۔۔۔ توبہ ابھی تک قبول نہیں ہوئی؟

ہائے توبہ!۔۔۔ توبہ ابھی تک قبول نہیں ہوئی؟
محمد یاسین قاسمی، جہازی
۱۰؍ محرم۶۱ ھ مطابق ۱۰؍ اکتوبر ۶۸۰ ء کو ایک طرف سے عمرو بن سعداپنی فوج لے کر نکلا ،ادھر دوسری طرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے حامیوں کی صفیں قائم کیں۔ ادھر سے چھ ہزار فوج تھی جب کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کل ۷۲؍ آدمی تھے۔جب صفیں تیار ہوگئیں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فوجوں کے سامنے نہایت پرجوش تقریر کی ، جس میں انھوں نے کہا کہ میرا حسب و نسب یاد کرو، میں کون ہوں؟ کیا میں تمھارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا سید الشھدا حضرت حمزہ میرے چچا نہیں تھے؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان میرے بارے میں نہیں سنا کہ الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ؟، سنو ، ذرا غور کرو ! تم اپنے دل سے پوچھو کہ تمھیں میرا قتل کرنا جائز ہے ؟ اس وقت پورے روئے زمین پر میرے علاوہ نبی کا نواسہ کوئی نہیں ہے ، کیا تم نواسہ نبی کے خون کے پاسے ہو؟ کیا تم اس پیشانی کو زخمی کروگے جس کو بارہارسول خدا چوما کرتے تھے، کیا ان آنکھوں کو بینائی سے محروم کروگے ، جنھوں نے رسول اللہ کا دیدار کیا ہے، یہ میرے سر پر پگڑی دیکھوسرور کائنات ﷺ کی ہے ، کیا تم اسے خاک و خون میں غلطاں کروگے، میرے ہاتھ میں یہ تلوار حیدر کرار کی ہے، کیا تم اس سے مقابلہ کروگے۔ 
بہر کیف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کسی بات کا ان پر اثر نہیں ہوا اور عمرو ابن سعد نے پہلا تیر چلاتے ہوئے جنگ کاآغاز کردیا۔ایک ایک کرکے فدائے حسینی شہید ہوگئے ، یہاں تک کہ خاندان نبوت کے ایک ایک چراغ جام شہادت نوش کرتے چلے گئے ، سب سے پہلے علی اکبر شہید ہوئے ۔پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت قاسم نے جام شہادت پیا۔ عین لڑائی کے دوران حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کان میں اذان دینے کے لیے بچہ کو گود میں لیا ہی تھا کہ ایک تیر آیا اور اس نومولود بچے کو زخمی کر شہید کرگیا۔ آپ نے وہ تیر حلق سے کھینچا تو خون کا فورا پھوٹ پڑا،آپ نے خون کو چلومیں لیااوراسے آسمان کی طرف اچھال دیا ۔ پھر رب سے ایک التجا کی کہ ائے اللہ! اگر تو نے ہم سے اپنی نصرت روک لی ہے، تو وہی کر جس میں بہتری ہے۔
اب قافلہ حسینی میں صرف آپ رضی اللہ عنہ کی ذات باقی تھی ۔ آپ میدان میں آئے ۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو شدت کی پیاس محسوس ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ پانی پینے کے لیے فرات کی طرف بڑھے ، لیکن دشمن نے ایک تیر مارا جو حلق میں لگا اور خون کے فوارے نکلنے شروع ہوگئے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے بائیں ہاتھ اور شانے پر تلوار ماری جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے گر گئے ۔ گرنے کے باجود آپ کے رعب و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص قریب جانے کی ہمت نہیں جٹا پارہا تھا ۔ یہ منظر دیکھ کر شمر چلایا اور کہا کہ دیکھتے کیا ہو، آگے بڑھو اور کام تمام کردو، اس کی کرخت آواز پر سنان بن انس نخعی آگے بڑھا اور آپ کے سر کو تن سے جدا کردیا ۔اتنا ہی نہیں، ان ظالموں نے گھوڑے دوڑا کر نعش مبارک کو روند ڈالا ۔
تاریخی شہادت کے مطابق قافلہ حسینی کے ۷۲ افراد کو انتہائی بے دردی اور بے چارگی کے عالم میں اہل کوفہ نے قتل کردیا۔ بقیہ جاں نثاروں میں صرف پانچ مرد اور سات عورتیں کل بارہ افرادزندہ بچ گئے ، جن میں اکثر بچے تھے۔ مردوں میں (۱) حضرت زین العابدین جناب حضرت حسین رضی اللہ عنہ۔(بیٹا)۔(۲)حضرت محمد باقر رحمہ اللہ ابن جناب حضرت زین العابدین۔( پوتا)۔(۳)حسن مثنیٰ ابن حضرت حسن رضی اللہ عنہ (بھتیجا)۔ (۴) مرقع ابن ثمامہ اسدی۔(یکے از جاں نثار حسینی)۔(۵) اور عقبہ ابن سمعان۔(غلام زوجہ حضرت حسین محترمہ رباب) ۔ اور خواتین میں امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں:(۱)حضرت زینب بنت فاطمہ و علی رضی اللہ عنہ۔(۲)فاطمہ بنت علی رضی اللہ عنہ۔ (۳)زینب صغریٰ ، کنیت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ، زوجہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔ اور(۴) ام حسن بنت علی رضی اللہ عنہ۔ اورحضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں:(۵)فاطمہ بنت حسین۔ (۶)سکینہ بنت حسین(۷)اورفاطمہ صغری بنت حسین زندہ چھوڑ دیے گئے تھے۔ خاندان نبوی کے چشم و چراغ پر مشتمل اس بارہ نفری قافلہ کو پہلے لوٹا گیا۔ پھر کوفہ لے جایاگیا۔ وہاں پھرسے دمشق۔ اور دمشق کے بعد ،مدینہ منورہ پہنچایا گیا۔
یہ حرکت کسی اور نے نہیں؛ بلکہ اسلام کے نام لیواوں نے نبی کے خاندان والوں کے ساتھ بے حرمتی کی تھی، لہذا اس کا رد عمل اور قہر الٰہی کا نزول ہونا ہی تھا۔ چنانچہ انتقام حسین کے جذبے سے کوفہ میں ہی ایک تحریک اٹھی، جس کا نام توابین تھا۔ اور اس کی سربراہی سلیمان بن صرد کر رہا تھا۔ یہ تحریک اس نظریے کی پیداوار تھی کہ ہم شیعوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی، لیکن جب وہ تشریف لے آئے تو ہم نے ساتھ چھوڑ دیا،لہذا یہ ایسا گناہ ہے کہ اس کا کفارہ ادا کیے بغیر ہم بخشے نہیں جائیں گے۔ چنانچہ وہ یا لثارات الحسین کا نعرہ لگا کر میدان میں آئے اور اس وقت سے لے کر آج تک گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے میدان ماتم میں حیران و ششدر ہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ جب محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا ہے ، تو یہ اپنے آپ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بد عہدی کے گناہ کا اقراری مجرم قرار دے کر اس کی تلافی کے لیے خود کوسزا دیتے ہیں۔
ایک دوسری تاریخ کے مطابق توابین دراصل وہی قاتلان حسین ہیں، جنھوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلایا۔ کیوں کہ میدان جنگ کربلامیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کے خطوط دکھائے تھے اور کہا تھاکہ میں خود نہیں، بلکہ تمھارے ان خطوط کی دعوت کی وجہ سے آیا ہوں۔ پھر فطرت سے مجبور ہوکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پہلے بے دردی سے قتل کیا۔ پھر قتل اور فتح کی خوشی میں جشن منایا۔ جشن مناتے ہوئے انھوں نے غرور کے پھیریرے اڑائے۔ تلوار کو لہرایا۔ نیزے کی چمتکاری کی نمائش کی۔ خوشی میں ڈھول بجا بجاکر جھومے۔ اور سر حسین کو بھالے کی نوک پر اچھال اچھال کر اپنی غداری اور شیعیت کا ثبوت دیا۔
بہرحال معاملہ جو بھی ہو۔ شریعت اور اسلام کا مزاج یہ ہے کہ ڈھول، تاشے، اور غرور کی نمائش ناجائز ہے۔ اسی طرح شریعت کی مقدس تعلیم یہ بھی ہے کہ جو شخص گناہ کرتا ہے، صرف وہی شخص، اس گناہ کی سزا کا موجب ہوتا ہے، وہ گناہ نسل در نسل منتقل نہیں ہوتا۔ ایک شخص کے گناہ کی وجہ سے پورا نسب اور خاندان تباہ نہیں ہوتا۔ اس لیے محرم الحرام کے مہینے میں ماتم و توبہ کرنے والوں سے سوال یہ ہے کہ آپ کے آبا و اجداد نے ایسا کونسا اور کس خطرناک قسم کا گناہ کیا تھا کہ صدیاں بیت گئیں، اور گناہ نہیں مٹا۔۔۔؟ اس واقعہ کے افسوس پر روتے روتے اشکوں کے سمندر بہہ گئے۔ خون کی ندیاں رواں ہوگئیں۔ بدن لہو لہو ہوگیا اور اس کے باوجود گناہ ہے کہ دھلتا ہی نہیں۔۔۔؟

2 Oct 2017

ہندستان میں نظام مکاتب کا تصور جمعیۃ علمائے ہند کی دین ہے

محمد یاسین جہازی
ہندستان میں سیکولر نظام حکومت کی بنیاد پر سرکاری تعلیمی اداروں کو مذہبی جانب داری سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، یہ اقدام جہاں خوش آئند ہے ، وہیں ایک چیلنج بھی ہے۔ خوش آئند تو اس لیے ہے کہ حکومت کسی بھی فرقے کے مذہبی معاملے میں دخیل نہیں ہوگی ۔ اورچیلنج کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے تحفظ کی ذمہ داری خود اسی فرقے پر ہوگی ، حکومت پر نہیں۔ اس پس منظر میں حکومت نے سیکولرزم کی بنیاد پراپنا ایک مشترکہ تعلیمی نظام رائج کیا اور اکابرین ملت مسلمہ نے اس سے الگ ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ حکومتی اداروں کو اسکول ، کالج اور یونی ورسٹی کے ناموں سے جانا جاتا ہے اور ملت مسلمہ کی تعلیمی تحریکوں کو مکاتب، مدارس اور جامعات کہاجاتا ہے۔ ان دونوں سلسلوں کے سامنے اپنے اپنے مقاصد تھے : حکومتی اداروں کا مقصد جدید علوم وفنون کی تعلیم دے کر ملک کی تعمیر وترقی میں کردار نبھانے والے افرادتیار کرنااور حصول معاش کا ذریعہ بناناتھا، جب کہ اسلامی تحریکات کے سامنے صرف اور صرف مذہبی تعلیم و ثقافت کی حفاظت پیش نظر تھی۔یہی وجہ تھی کہ دونوں کے الگ الگ مقاصد کے پیش نظر نصاب بھی الگ ہوگیا اور زبان بھی دونوں کی مختلف ہوگئی۔ اول الذکر کے سلیبس میں اس کے مقاصد کے پیش نظر سائنس، جغرافیہ، ریاضی، سیاست انفارمیشن ٹکنالوجی وغیرہ شامل ہوئے۔ گلوبل زبان: انگریزی اس کا میڈیم قرار پایا۔ اور آخر الذکر اداروں کا نصاب اسلامیات پر مشتمل تھا ، اسی بنا پر ان کا مآخذی زبان عربی اور تشریحی زبان فارسی واردوذریعۂ تعلیم ٹھہری۔
ہر اداروں نے اپنے فکری نہج سے طالب علموں کو متاثر کیا ۔ حکومتی اداروں کے تعلیم یافتہ حضرات کے لیے حصول معاش اور دنیا طلبی، تعلیم کا مقصد ٹھہری، اس لیے وہ اخروی زندگی سے لا تعلق ہوتے چلے گئے۔ اسلامی تحریکوں سے وابستہ افراد کے سامنے فکر عقبیٰ پیش نظر تھی، اس لیے معاشی جدوجہد میں ان کا دائرہ تنگ ہوتا گیا،جن کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ اول الذکر دین سے نابلد ہوتے جارہے ہیں اور آخر الذکر حصول دنیاکے لیے پریشان۔ نیز دونوں اداروں کی تعلیمی زبان الگ ہونے کی بنیاد پر دونوں طبقوں کے مابین ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی کہ وہ ان کو سمجھنے سے قاصر اور یہ ان کو سمجھانے سے عاجز ۔ پھر دونوں کے درمیان فکری، معاشرتی اور تہذیبی اعتبارسے ایسی دوری ہوتی جارہی ہے کہ ایک جگہ اور ایک سماج میں رہنے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی لگنے لگے ہیں۔
اس طرح دو الگ الگ نہج کی وجہ سے تعلیم بھی دو حصوں میں بٹ کر رہ گئی : ایک دنیاوی تعلیم اور دوسری دینی تعلیم۔پھر تعلیم کا سسٹم کچھ ایسا بنا کہ اگر دینی تعلیم کے سلسلے میں جڑتے ہیں تو دنیاوی تعلیم کے لیے عمر نکال پانا ناممکن ہوجاتا ہے اور اگر دنیاوی تعلیمی سلسلے کو اختیار کرتے ہیں تو پھر دینی تعلیم کے حصول کے لیے وقت نہیں بچتا۔ سرٹیفکٹ کے ردو قبول کے معیار نے اس پریشانی کو اور بھی بڑھادیاہے۔ مدارس کی سندیں حکومتی اداروں میں ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے عصری تعلیم کے کسی بڑے کورس میں داخلہ نہیں مل پاتا ۔ اب یا تو اس کے لیے پرائمری سے ہی تعلیمی سلسلہ شروع کرنا پڑے گا اور اس کے لیے نہ عمر اجازت دیتی ہے اور نہ ہی وقت، یا پھر اس سے محرومی ؛ نتیجۃََ دونوں تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کا مرادف ہوگیا ہے۔اور دونوں تعلیم کا سنگم نہ ہونے کی وجہ سے فکری ٹکراو، تہذیبی تصادم، سماجی کشمکش، معاشی پریشانی اوردین سے بے زاری عام ہوتی جارہی ہے۔ دنیا طلبی کی ہوس اور مادیات کے حصول میں زبردست مقابلہ آرائی نے ایک دوسرے کو نفرت کی حد تک جدا کردیا ہے۔ایک حصول دنیا کے لیے حلال و حرام کی تمیز کرنے کے لیے تیار نہیں، تو دوسرا دینی باتوں کو سننااور سمجھنا گوارا نہیں کرتا۔اور یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں۔ اور اس کی وجہ تعلیم کا دو الگ الگ خانوں میں بٹنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ 
المختصر تعلیم کی عمر میں دینی و عصری دونوں تعلیم کے لیے کوئی ایسامنظم و مستحکم سسٹم بناناوقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، جس سے ہمارے بچے جہاں تعلیم کی اعلیٰ ڈگریاں پاکر تعمیر وترقی کی دوڑمیں شامل ہوکر دوسروں کے ہمدوش رہیں، وہیں اسلامی وضع قطع کا وہ کامل نمونہ بھی نظر آئے۔چنانچہ اکابرین جمعیۃ نے ان تمام حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے آزادی کے بعد ہی سے اس طرح کے سسٹم بنانے کی جدو جہد کی۔ ۲۲، ۲۳ ؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں درج ذیل چار نکاتی پروگرام بنائے: (۱)مسلمان اپنے طور پر مدارس قائم کریں، جن میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ان مضامین کی تعلیم بھی دی جائے ، جو سرکاری اداروں کے نصاب میں ضروری ہیں اور حکومت ان مدارس کی تعلیم کو مستند قرار دے اور امداد کرے۔ (۲)حکومت ابتدائی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم لازمی قراردے۔ (۳) پرائمری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو خارجی اوقات میں مذہبی تعلیم دینے کے لیے پرائیوٹ مکاتب قائم کیے جائیں۔ (۴)حکومت لڑکوں کے لیے لازمی تعلیم کی ابتدائی عمر آٹھ سال قراردے تاکہ اس عمر کے بچوں کو مذہبی تعلیم دی جاسکے۔اور ۱۹۵۵ء میں ۸،۹؍ جنوری کوممبئی کے قیصر ہال میں منعقد ’’کل ہند دینی تعلیمی کنونشن ‘‘ کے ذریعے ’’مرکزی دینی تعلیمی بورڈ‘‘ کی تشکیل کرکے پورے ہندستان میں اس نظام کو پھیلانے کے لیے ایک تحریک چھیڑ دی۔ جس کا سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے۔

1 Oct 2017

اب کیا کریں۔۔۔ ایک سیڑھی ۔۔۔۔۔۔اوپر جائیں؟ ۔۔۔ یا نیچے اتریں۔۔۔۔۔۔؟

اب کیا کریں۔۔۔ ایک سیڑھی ۔۔۔۔۔۔اوپر جائیں؟ ۔۔۔ یا نیچے اتریں۔۔۔۔۔۔؟

محمد یاسین قاسمی جہازی

۱۔ عشرۂ محرم الحرام میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقدس نام پر ہم نے شراب پی۔ ۔۔۔۔۔۔(ایک واقعہ)

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور 146146 شرابی145145 کہیں؟۔۔۔یا پھر نیچے اتریں اور 146146جاں نثار حسینی145145 کا خطاب دیں۔۔۔؟۔

۲۔ ماتم حسینی کے نام پر مسجد میں خوب ڈی جے بجائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ایک حقیقت)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور146146کنجری و بجنتری145145 کہیں؟۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور محافظ اسلام کا تمغہ دیں۔۔۔؟۔

۳۔ قتل حسین کی خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر جی بھر کر ناچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ایک سچی کہانی)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور 146146ذاکر اہل بیت145145 کہیں؟۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور 146146جانشین حسین 145145 پکاریں۔۔۔؟۔

۴۔ امام کو پیدا کرنے کے لیے ماؤں بہنوں تک سے 146146متعہ145145 کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ایک عقیدہ)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور 146146حرامی 145145 کہیں؟ ۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور 146146امام منتظر145145 کے منتظر رہیں۔۔۔؟۔

۵۔ حضرت حسین کی شبیہ بناکر سینکڑوں مرتبہ دفن کیا؛ لیکن اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ کی توفیق کبھی نہیں ہوئی۔ ۔۔۔(محبت کا ایک کردار)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور 146146ڈھونگی ملنگ145145 کہیں؟ ۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور 146146پیکر حسین145145 کا نام دیں۔۔۔؟۔

۶۔ غیر مسلموں نے بھی ایک دن پہلے 146146درگا ماں145145 کو آب برد کیا اور ان لوگوں نے 146146تعزیہ145145 کو سپرد خاک کیا۔ ۔۔۔(ایک مذہبی فریضہ)

اب کریں کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور146146من تشبہہ بقوم فھو منھم145145 کہیں؟۔۔۔ یا پھر نیچے اتریں اور 146146سیکولر مزاج145145 بتائیں؟

۷۔ مظلومیت کا پیکر احساس بننے کے لیے خود کو 146146بلیڈ، چاقو145145 سے زخمی زخمی اور لہو لہو کرلیا۔۔۔۔(منظر کی ہوبہو عکاسی)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور احساس کے بجائے عین بننے کے لیے 146146رائفل، بندوق 145145 کی سفارش کریں؟ یا پھر نیچے اتریں اور146146دعوت فکر145145 دیں؟۔

۸۔ کسی شخصیت کے لیے حقیقی تعزیت یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنے مشن اور زندگی کا حصہ بنالیں۔ ۔۔۔(اقوال زریں)۔

اب کیا کریں؟ ایک سیڑھی اوپر چڑھیں اور حقیقت کا علان کرتے ہوئے 146146قاتل نواسہ رسول145145 کہیں؟ یا پھر نیچے اتریں اوران کے ایمان و فکر کے سلب ہوجانے پر خود 146146سراپا ماتم 145145 بن جائیں۔۔۔؟۔

۹۔ ماتم کے لیے شراب، گانجہ، چرس، ڈھول، تاشہ، کیسیو، بنجو باجا، ناچ،زنا،بے پردگی، شعار اسلام کی بے حرمتی وغیرہ وغیرہ سب کیے۔ ۔۔۔ (آج کے سماج کا انوکھا کردار)

اب کیا کریں ؟ ایک سیڑھی اوپر جائیں اور اس ماتم پر146146ماتم 145145 کریں ؟ یا پھر نیچے اتریں اور ایسے اوباشوں کو 146146حقیقی خلف یزید145145 کہیں؟۔

۱۰۔ یہ سارے حالات۔۔۔ اور ۔۔۔ ہم۔۔۔آپ۔۔۔ ہم سب۔ ۔۔۔کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اب کیا کریں۔۔۔؟ کوئی سیڑھی چڑھیں۔۔۔؟ یا نہ چڑھیں۔۔۔؟۔ اگر چڑھیں۔۔۔، تو ایک سیڑھی۔۔۔ اوپر جائیں۔۔۔؟ یا پھر نیچے اتریں۔۔۔؟۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نتیجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنفیوژن۔

اور یہ قوم اب تک کنفیوژ ہے کہ ہم جشن منا رہے ہیں ، یا ماتم کے اسیر ہیں۔۔۔۔۔۔؟ 

بس یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ انھیں عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین۔