29 Jun 2020

جمعیت کا آن لائن ممبر اس طرح بنیں

جمعیت کا آن لائن ممبر اس طرح بنیں

محمد یاسین جہازی 9891737350

بھارت کی قدیم اور فعال تنظیم جمعیت علمائے ہند نے سال رواں سے آن لائن ممبر بننے کا سسٹم شروع کیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند سے آن لائن اسکالر شپ حاصل کرنے، یا تصدیق نامہ مدارس لینے یا چندہ دینے کے لیے ممبر بننا ضروری ہے اور اس کا طریقہ بالکل آسان رکھا گیا ہے، جو اس طرح ہے
آپ تین طریقے سے آن لائن ممبر بن سکتے ہیں:
(
۱)سب سے پہلے اس کے ویب سائٹ پر جائیں۔ ایڈریس یہ ہے: https://jamiat.org.in/
(
۲) ہوم پیج کے دائیں جانب Loginآپشن کلک کریں۔ کلک کرتے ہی ایک مینو بار کھلے گا، جس کی اوپر پٹی پر دو آپشن ہوں گے: ایک Loginکا اور دوسرا Registerکا۔ آپ کو دوسرے آپشن پر کلک کرنا ہے۔

(
۳) اس رجسٹرآپشن میں لوگن کے تین آپشن ہیں: ایک FaceBook۔ دوسرا Google۔ اگر آپ کے کمپیوٹر یا موبائل میں فیس بک یا جی میل لوگن ہے، تو صرف اس پر کلک کرنے کے بعد پرمیشن دینے سے لوگن ہوجائے گا۔آپ کو بہت زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیسرا آپشن ہے موبائل نمبر سے۔ اس آپشن میں اپنا موبائل نمبر درج کرنے کے بعد اس کے سامنے موجود آپشن Request Codeپر کلک کریں گے۔ اس پر کلک کرنے سے OTP Sent Successfully… کا باکس ظاہر ہوگا، اس کے Okپر کلک کریں گے۔ اس کے بعد اپنا موبائل کا میسج باکس چیک کریں، چار عدد کا ایک او ٹی پی آیا ہوگا۔ اس کو Enter OTPباکس میں درج کریں اور اس کے سامنے موجود آپشنLoginپر کلک کریں۔ اس کے بعد ایک میسج باکس ظاہر ہوگا، جس پر لکھا ہوگا کہ OTP Verified Successfully۔ یعنی آپ نے صحیح او ٹی پی درج کیا۔ اس کے Okپر کلک کریں گے۔

یہاں کلک کرنے کے بعد ایک باکس ظاہر ہوگا، جس پر لکھا ہوگا کہ Please Add Member Information Below….۔ اس پٹی کے نیچے کئی آپشن ہیں، جنھیں بھرنا ضروری ہے، جو علیٰ الترتیب اس طرح ہے۔
(2) Member Type۔ یعنی ممبر کی قسم۔ اس پر لال اسٹار لگا ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کرنا ضروروی ہے۔ اس کے نیچے پٹی میں Select Member Type۔ اس پر کلک کریں گے، تو تین آپشن نظر آئے گا۔
(الف) Associate۔ اس کو سردست چھوڑ دینا ہے۔
(ب) Active Memebr۔ اس کو بھی سردست چھوڑ دینا ہے۔
(ج) Primary Member۔ یعنی ابتدائی ممبر۔ اس پر آپ کو کلک کرنا ہے۔
(2) اس کے نیچے First Nameآپشن میں اپنے نام کا پہلا حصہ لکھنا ہے۔ جیسے محمد۔

(3) Last Name۔ اس میں اپنے نام کا آخری حصہ لکھنا ہے، جیسے یاسین۔
(4)User Nameمیں ای میل، فیس بک وغیرہ کی آئی ڈی بنانے کی طرح یہاں بھی ایک آئی ڈی بنائیں گے۔
(5) چوں کہ ہم موبائل سے رجسٹر کرنے کے بعد یہ فارم بھر رہے ہیں، اس لیے یہاں ہمارا موبائل نمبر پہلے سے درج نظر آئے گا۔ دوبارہ درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

(6) Password۔ جی میل، فیس بک وغیرہ کی طرح اس کا بھی پاس ورڈ بنایا جائے گا۔ یہاں پاسورڈ کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:
(الف) کم سے کم چھ تعداد میں ہونا ضروری ہے، اس سے کم سے نہیں بنے گا۔

(ب) کم سے کم ایک حرف بڑا۔ باقی سب چھوٹا، یا ایک چھوٹا باقی بڑے حروف میں ہونا ضروری ہے۔
(ج) کم سے کم ایک کیرکٹر ہندسہ یعنی نمبر میں ہونا ضروری ہے۔
(7)Select Religionکا مطلب ہے کہ اپنا مذہب درج کریں۔ اس میں پانچ مذاہب سکھ، بدھسٹ، کرسچن، ہندو اور اسلام کا آپشن موجود ہے، آپ جو ہیں، اسے منتخب کریں۔
(8) Gender۔ اس میں اپنا جنس حسب حال Maleیا Female پر کلک کریں۔
(9) Date of Birthکے نیچے پٹی پر کلک کرتے ہی کلینڈر ظاہر ہوگا۔ اس سے آپ اپنا دن، تاریخ اور سال منتخب کرتے ہوئے اپنی تاریخ پیدائش درج کریں۔
(10)Pin Code۔ اس میں اپنے علاقے کا پن درج کریں، جس کے بعد پن نمبر سے ویب سائٹ خود بخود آپ کے ضلع کا نام اس کے نیچے شو کردے گا۔
(11) Upload Photo۔ اس میں Choose Fileپر کلک کریں۔ جس کے بعد آپ کے موبائل یا کمپیوٹر کا ایک فائل باکس نظر آئے گا۔ آپ نے جس جگہ اپنی تصویر محفوظ رکھی ہے، وہاں جاکر اپنی تصویر کو سلیکٹ کریں، اور Okیا Openجیسا بھی آپ کے ڈیوائس میں گرین رنگ یا یائی لائٹ نظر آئے اس کو کلک کریں۔ آپ کی تصویر اپلوڈ ہوکر سامنے والے باکس میں نظر آئے گی۔
(12) Select ID Proof: اس میں پین کارڈ، آدھار کارڈ، پاسپورٹ، ووٹر کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس میں سے جو آپ کے پاس ہے، اس پر کلک کریں۔ اس کے نیچے ظاہر ہونے والے میسج Choose Fileپر کلک کرکے اپلوڈ کریں۔
(13) اس کے بعد Emailآئی ڈی درج کریں۔ اس پر لال مارک نہیں ہے، تو یہ ضروری نہیں ہے، اختیاری آپشن ہے۔
(14) Qualification۔ اس آپشن میں آپ اپنی تعلیمی صلاحیت کو منتخب کرکے اس پر کلک کریں۔
(15) Profession۔ یعنی آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے، اسے لسٹ سے منتخب کریں۔
(16)اس کے نیچے نظر والے کیپچا کو اس کے نیچے والی پٹی میں درج کریں۔
(17) Submit۔ اس کے بعد سبمٹ یعنی جمع کرنے کا آپشن ہے۔ لیکن یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ نے پہلے جوپن کوڈ درج کیا ہے، تو اس کے اعتبار سے ایڈریس والے آپشن خود بخود بھر جائیں گے۔اس میں اگر کچھ غلط ایڈریس شو کر رہا ہے، تو Submitکرنے سے پہلے، اسے ٹھیک کرلیں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(الف) Select Country: میں اپنے ملک کا نام منتخب کریں۔
(ب) Select State: میں اپنا صوبہ منتخب کریں۔
(ج)Select District: میں اپنا ضلع منتخب کریں
(د) Taluka: میں سب ڈویژن یا پولیس اسٹیشن منتخب کریں۔
(ھ) Residential Address: اس میں اپنا رہائشی پتہ درج کریں۔
(و) Admin: اس جگہ اگر ایڈمن لکھا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ضلعی جمعیت کے ذمہ دار کا نام ویب سائٹ کے ڈیٹا بیس میں ابھی درج نہیں ہے۔ اگر درج ہوگا، تو وہاں پر ان کا نام شو کرے گا۔
اس کے بعد اب Submitپر کلک کردیں۔جس کے بعد ایک باکس ظاہر ہوگا، جس میں لکھا ہے کہ پرائمری ممبری فیس دس روپے ادا کریں۔ چنانچہ اس کے لیے آپ Pay Nowکے بٹن پر کلک کریں۔ کلک کرتے ہیں۔ پیمنٹ آپشن کھل کر آئے گا، جس میں ڈیبٹ کارڈ، کریڈیٹ کارڈ،نیٹ بینکنگ اور یو پی آئی کے ذریعہ پیمنٹ کرنے کی سہولیات موجود ہیں۔ان میں سے کسی ایک طریقہ کو سلیکٹ کرنے اور اس کی ضروری تفصیلات درج کرنے کے بعد Make Paymentپر کلک کریں۔ اس کے بعد ایک باکس ظاہر ہوگا، اور آپ کے موبائل پر بینک کی طرف سے ایک او ٹی پی آئے گا۔ آپ اس اوٹی پی کو نیچے باکس میں درج کریں اور MakePaymentپر کلک کردیں۔ اس کے بعد ایک پروسیس پیج کھلے گا، جو ویب سائٹ بینک سے پیسے ٹرانسفر کرتا ہے۔ پروسیسنگ کے دوران کچھ نہ کریں۔ کچھ ہی سکنڈ کے بعد ایک میسج ظاہر ہوگا، جس میں بینک سے کٹے پیسے کی آئی ڈی نمبر اور جمعیت علمائے ہند کے آرڈر نمبر آپ کو ملے گا۔ جسے آپ Prntکے آپشن پر کلک کرکے پرنٹ لے سکتے ہیں۔ اس پرنٹ رسید میں آپ کی تفصیلات موجود ملیں گی۔
مبارک ہو، آپ جمعیت علمائے ہند کے پرائمری ممبر بن گئے۔
نمبر(۳) میں آپ نے لوگن کے تین طریقے پڑھے۔ ویب سائٹ کے رجسٹر کے اس آپشن کے نیچے Orکے بعد لوگن کا ایک چوتھا آپشن ہے۔ اور اس چوتھے آپشن سے لوگن ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ ابھی آپ نے ترتیب وار فارم بھرنے کے دوران جو یوزر نام اور پاس ورڈ بنایا ہے، اس کے ذریعہ آپ لوگن ہوجائیں، یعنی
(
۱) Username: اس میں جو یوزر نام بنایا ہے، وہ درج کریں۔
(
۲) Password: اس میں جو پاسور ڈ بنایا ہے وہ درج کریں۔
(
۳) اس کے نیچے جو کیپچا نظر آرہا ہے، اسے نیچے کے باکس میں درج کریں۔
(
۴) اس کے بعد Loginپر کلک کردیں۔ آپ جمعیت علمائے ہند کے ویب سائٹ پر لوگن ہوجائیں گے۔
جمعیت علمائے ہند نے نئے لوگوں سے جڑنے اور ان تک اپنی خدمات پہنچانے کے لیے اپنے ویب سائٹ کو نئے لباس میں پیش کرتے ہوئے، کورونا لاک ڈاون کے باعث پروگرام کی ممانعت کی وجہ سے Premiere کے ذریعہ 26اپریل 2020کو قائد جمعیت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند نے اس کا افتتاح کیا۔ ویب سائٹ آپ حضرات کی خدمت میں ہے۔ آپ حضرات سے یہی گذارش ہے کہ اپنی اس تنظیم سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جڑیں اور اس کے لیے آن لائن ممبر بن کر اپنا ممبر شپ حاصل کریں۔



تغلقی مہتمم

تغلقی مہتمم
محمد یاسین جہازی 9891737350
کووڈ لاک ڈاون نے بھارت کی تاریخ کے وہ تاریک گوشے بھی اجاگر کردیے، جن کی طرف نہ اہل سیاست توجہ دے رہے تھے اور نہ اہل قلم بھارت کو اس نظریے سے دیکھنے کے بارے میں سوچ پارہے تھے۔ سبھی دیس واسی سمجھ رہے تھے کہ بھارت کی جی ڈی پی بہت زیادہ آگے بڑھ  رہی ہے اور اب یہ ملک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ میں شمار کیا جانے لگے گا۔ عوام کے ساتھ ساتھ طبقہ خواص بھی ڈیجیٹل انڈیا اور شائنگ انڈیا کے نعروں میں مدہوش ہوچکے تھے۔
لیکن اچانک کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے ہجرت اور مزدور طبقے کی مظلومیت، بے کسی، بے بسی، بھوک، پیاس اور پیدل اسفار کی جو بھیانک تصویریں سامنے آئیں، انھوں نے سب انسانیت پسند طبقے کو ہلاکر رکھ دیا۔ مودی حکومت کے علاوہ، سیکڑوں تنظیمیں، ہزاروں سماج سیوا اور انسانیت کا مفہوم سمجھنے والے افراد میدان عمل میں آئے اور جن کی جہاں تک وسعت اور گنجائش تھی، انھوں نے وہاں تک ان لوگوں کی مدد کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ بھارت کی سب سے بڑی تنظیم جمعیت علمائے ہند نے براہ راست اور اپنی ریاستی و ضلعی یونٹوں کے تعاون سے مشترکہ طور پر ساٹھ کروڑ روپے کا رفاہی کام انجام دیا، جو اپنے آپ میں ایک بڑی تاریخ ہے اور اس کا سہرا، اس کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب کے ساتھ ساتھ ان کے سبھی رضاکاروں کے سر جاتا ہے۔
مدارس-جونبوی تعلیمات اور انسانیت و بھلائی کی تعلیم کی آماجگاہیں ہیں - نے اپنے اسٹاف و ملازمین کے ساتھ ہمدردی اور انھیں تنخواہ دینے کی حتی الامکان کوشش کی۔ بعض چھوٹے مدارس جن کا ذریعہ آمدنی صرف رمضان کا چندہ ہی ہے، انھوں نے بھی مدرسین کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور ان کو تنخواہیں دیتے رہے۔ جو مدارس سردست نہیں دے پارہے ہیں، ان کے ذمہ دار اپنے اساتذہ کے ساتھ یہ معاملہ کر رہے ہیں کہ جہاں تک گنجائش نکل رہی ہے، دے رہیں اور جب گنجائش باقی نہیں رہی، تو ان سے کہا کہ حالات معمول ہونے پر بقیہ تنخواہ بھی رفتہ رفتہ دی جائے گی۔ ایسے ایک مدرسہ کے مہتمم ہیں مفتی محمد نظام الدین صاحب قاسمی مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ۔ انھو ں نے بتایا کہ جب تک گنجائش رہی دیتے رہے، جب گنجائش کم ہونے لگی، تو کہا کہ آدھی تنخواہ ابھی لے لیں۔ بقیہ ان شاء اللہ تھوڑی تھوڑی کرکے بعد میں دی جائے گی۔ اب جب کہ بالکل گنجائش نہیں بچی، تو ان سے کہا کہ آپ کی آدھی تنخواہ حسب معمول جاری رہے گی، تاہم ادائیگی کے لیے حالات کے معمول پر آنے کا انتظار کریں۔ اس قسم کے ذمہ داران مدارس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے۔ یہ حضرات بالیقین نبوی تعلیمات کے عملی مظاہر ہیں۔
اسی لاک ڈاون میں جب اپنے اساتذہ اور اسٹاف کا تعاون کرنا اسوہ نبی کی بہترین تقلید ہے؛ بعض ایسے مدارس جو نہ مجبور ہیں اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی مجبوری ہے اور یہ مدارس سالوں اپنے اساتذہ اور اسٹاف کو تنخواہیں دینے کی اہلیت رکھتے ہیں، اس مصیبت کی گھڑی میں نہ صرف اپنے اساتذہ کی تنخواہ کاٹ رہے ہیں؛ بلکہ انھیں مدرسہ بدر بھی کردے رہے ہیں۔
اس حوالے سے ایک خبر شروع لاک ڈاون میں ہی دارالعلوم نیرل سے آئی تھی کہ اس ادارے نے اپنے آٹھ اساتذہ کو یک قلم مدرسے سے نکال دیا ہے۔ جب یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور مولانا سجاد نعمانی صاحب کو شیخ الاسٹیج کا خطاب دیے جانے لگا تو ادارے کی طرف سے صحیح صورت حال کی وضاحت آئی کہ وہاں ایک سال کے لیے عارضی تقرر ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی استقلال کے بارے میں فیصلہ کیا جاتاہے، جن اساتذہ کو نکالا گیا ہے، وہ اسی قسم کے اساتذہ ہیں، جن کا استقلال نہیں ہوا ہے اور یہ وہاں کے روٹین میں شامل ہے۔
اسی بیچ کئی اور چھوٹے بڑے مدارس کے تعلق سے خبریں آئیں کہ انھوں نے بھی اپنے اساتذہ کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔ ایک خبر دارالعلوم حیدرآباد سے آئی کہ اس نے مدرسہ کھلنے تک اساتذہ کی تنخواہوں کو بند کردیا ہے۔ ان دنوں کی تنخواہیں بعد میں بھی نہیں دی جائیں گی۔ حالاں کہ عوامی رائے یہ ہے کہ یہ ادارہ اتنا غریب نہیں ہے کہ وہ تنخواہیں برداشت نہ کرسکے۔
اسی دوران کچھ لوگوں نے دارالعلوم دیوبند سے یہ فتویٰ بھی حاصل کرلیا کہ لاک ڈاون کی تنخواہیں دینا ضروری ہیں۔ ادارے والے کاٹ نہیں سکتے۔ یہ فتویٰ ابھی وائرل ہو ہی رہا تھا کہ دارالعلوم کنتھاریہ کے مہتمم کا ایک تغلقی فیصلہ وائرل ہوا کہ انھوں نے اپنے یہاں کے دو سو اساتذہ کو یک قلم باہر نکال دیا ہے، تاکہ انھیں تنخواہ نہ دینی پڑے۔ اس ادارے کو قریب سے جاننے والے ایک شخص نے جب راقم کو یہ خبر دی، تو میں نے وہاں کے مالی کیفیت کے بار ے میں سوال کیا، تو ان کا جواب تھا کہ ادارہ اتنا مضبوط ہے کہ سالوں اگر بیٹھا کر تنخواہیں دے، تو بھی ادارہ مفلوک الحال نہیں ہوسکتا۔ یہ حقیقت جان کر ایسا محسوس ہوا کہ جو ادارے ان تعلیمات نبوی کی تعلیم کے لیے شناخت رہکھتے ہیں، جو اپنے ملازمین کو پسینے خشک ہونے سے پہلے حق المحنت دینے کی وکالت کرتے ہیں، جو یہ سکھاتے ہیں کہ تم اہل زمیں پر رحم کروگے، تو خدا عرش بریں پر تمھارے لیے رحم و کرم کے دروازے کھول دیں گے۔ اور اس قسم کی درجنوں تعلیمات کا درس یہ خود دیتے ہیں، اس کے باوجود مہتمم کا ایسا فیصلہ؛ ایک مہتمم کا نہیں؛ بلکہ فرعونی یا تغلقی فرمان ہی ہوسکتا ہے، جو تعلیمات نبوی کے مزاج سے کبھی بھی ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ ایسے مہتمموں کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔  

26 Jun 2020

آہ چچا اطہر!

آہ چچا اطہر!
محمد یاسین جہازی
9891737350
معصوم عمر سے چچا اطہر کا نام سنتے آئے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چچا اطہر میری مرحومہ دادی نور اللہ مرقدہا کے سگے بھتیجے تھے۔ چچا اطہر کے والد کا انتقال تقریبا تیس سال کی عمر میں ہوگیا تھا،جب کہ چچا اطہر اس وقت ڈیڑھ دو سال کے تھے۔چچا اطہر کی یتیمی انھیں زندہ رکھنے کے لیے کڑے امتحان لینے لگی اور تلاش معاش میں گھر سے نکلے، تو غائب ہوگئے۔ عرصہ دراز کے بعد ان کے چچا قاری عبد الجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی کوششوں سے دریافت ہوئے، تو گھر لے آئے اور رشتہ ازدواج سے منسلک کردیا۔ لیکن یتیمی کے زخم ابھی نہیں بھرے تھے، اس لیے زندہ رہنے کی ضرورت نے دوبارہ گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا، اور خود کو اپنوں سے روپوش کرلیا۔ نئی نویلی چاچی کے لیے گھر کا بڑا آنگن بیوگی کا احساس دلانے لگا، جس کو مٹانے کے لیے میری دادی مرحومہ اور دادی کے ساتھ ناچیز چچا اطہر کے گھر میں مہینوں قیام پذیر رہتے تھے۔ اور ہمیشہ چچا اطہر کا ذکر لاشعور کانوں سے ٹکراتا رہتا تھا۔
بعد میں بالیدہ شعورنے سمجھا اور جانا کہ یہ چچا اطہر کون تھے۔ان کے والد محترم  حضرت مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری (جون1943-19اپریل1972) استاذ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ تھے، جو تعلیم و تربیت اور تقویٰ و طہارت میں خاصی شہرت رکھتے تھے۔
چچا اطہر کو جب خانگی ذمہ داری کا احساس ہوا، تو انھوں نے سمجھا کہ زندگی سے بھاگنے کا نام زندگی نہیں؛ بلکہ زندگی کو سہارا دینے کا نام زندگی ہے؛ چنانچہ انھوں نے زندگی کے بارے میں اپنا نظریہ بدلہ اور خانگی زندگی جینا شروع کیا۔ اسی دور میں چچا اطہر سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کو قریب سے جاننے سمجھنے کا موقع ملا۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اس حوالے سے اتنے انسان پسند اور اولو العزم واقع ہوئے تھے کہ اتنا شاید بعض دانش مندبھی نہیں ہوتے۔ایک مرتبہ میں نے ان سے فیملی سے دوری کا سبب پوچھا، تو انھوں نے کہا کہ میں ایک لمبی چھلانگ میں ہوں، اگر اس میں کامیاب ہوگیا، تو میں اس طرح کی چھوٹی موٹی نوکری سے نجات پاجاوں گا۔ وہ لمبی چھلانگ کیا تھی، مجھ سے شیئر نہیں کیا۔ لیکن ان کے بعد کے حالات شاہد ہیں کہ شاید وہ لمبی چھلانگ  نہیں لگا پائے۔
پہلے وہ ٹرک ڈرائیورتھے۔ پھر فروٹ جوس کا کاروبار کیا۔ بعد ازاں مدرسہ ربانیہ پرشواتم مدراس میں معاون باورچی بنے۔ یہاں کے دینی ماحول میں ایسے گھلے ملے اور چہرے پر ایسی سنت سجائی کہ کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ پہلے یہ ٹرک ڈرائیور رہے ہوں گے۔
پچھلے کئی سالوں سے گھر میں ہی کھیتی باڑی کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا تھا۔ اور صاف ستھری زندگی گزار رہے تھے۔
آج (26جون2020) کو علیٰ الصباح مفتی نظام الدین صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کے فون سے اطلاع ملی کہ چچا اطہر اب دنیا میں نہیں رہے، ان کا صبح تقریبا پانچ اور چھ بجے درمیان انتقال ہوگیا۔ پہلے سے کوئی بیماری نہیں تھی۔ آج بھی بے تکلف احباب کے ساتھ انھوں چائے کی محفل سجائی تھی؛ لیکن اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، چچا اطہر بھی محض تقریبا پچاس سال کی عمر میں اپنی دو بچیوں کو یتیم کرکے چلے گئے۔ رضائے مولیٰ بر ہمہ اولیٰ ہوتا ہے۔ اس لیے ہم بھی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہیں، اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، دعا گو ہیں کہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ تدفین آج ہی(26جون2020، بروز جمعہ)  بعد نماز جمعہ جہازی قبرستان میں کی جائے گی۔ 

12 Jun 2020

ویڈیو کتاب لکھیں

ویڈیو کتاب لکھیں
محمد یاسین جہازی
زبان کی ارتقائی تاریخ میں آپ نے یہ ضرور پڑھا ہوگا کہ جو زبان آج ہم اور آپ بول رہے ہیں، اس میں اور وجودی عہد کی زبان میں بے شمار فرق ہے۔ پہلے ہم شکستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے، لیکن جوں جوں زبان کا ذوق اور مذاق جمالیات بڑھتا گیا، توں توں زبان کی شیرینی، تسلسل اور سائستگی میں خوبصورتی پید اہوتی گئی۔ اور یہ سفر آج بھی جاری ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ زبان کے پیدائشی دور میں اشارات و کنایات ہی زبان ہوا کرتے تھے۔ پھر ترقی کرکے ان میں الفاظ کا اضافہ ہوا۔ الفاظ کو خارجی وجود دینے کے لیے تحریر وجود میں آئی؛ اور اس تثلیث سے زبان کی تکمیل ہوئی۔ الفاظ اورتحریر میں ایک خامی یہ ہے کہ الگ الگ زبانوں اور تحریروں کی ہیئتیں، مصوتے، مصمتے اور رسم الخط الگ الگ ہیں، جو ان سے غیر متعلق افراد کے لیے ناقابل استعمال اور ناقابل فہم ہوتے ہیں۔ اردو والوں کو انگریزی اور انگریزی جاننے والوں کے لیے اردو پڑھنا، بولنا اور سمجھنا فطری تربیت میں مشکل ہوتا ہے۔ دوسری زبان، بولنے، پڑھنے اور سمجھنے کے لیے سیکھنے کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ دنیا کا ہر انسان دنیا کی سبھی زبانیں سیکھ لے۔
علاوہ ازیں ایک زبان والوں کے لیے بولنے، پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے بھی درجے ہوتے ہیں۔ بولنے والا یا سمجھنے والا ضروری نہیں ہے کہ لکھنا بھی جانتا ہو۔ بہت سارے لوگ اردو یا ہندی بولتے یا سمجھتے ہیں، لیکن تحریر سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ خود اپنی زبان والا اپنی زبان میں لکھی ہوئی تحریر سے استفادہ نہیں کرپاتا۔ چنانچہ انسان کے متجسس دماغ نے اس تاریکی پرقابو پانے کے لیے کئی طریقے ایجاد کیے ہیں، جن سے فائدہ اٹھا کر ہم بے زبانوں تک بھی اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔
 کمپیوٹر ایک ایسی مشین ہے، جو دنیا کی ہر زبان کے رسم الخط کو لکھ بھی سکتا ہے اور پڑھ بھی سکتا ہے؛ کیوں کہ کمپیوٹر کی ساخت کسی ایک زبان پر رکھنے کے بجائے بائنری زبان پر رکھی گئی ہے۔ بائنری زبان کے صرف دو حروف تہجی ہیں ایک زیرو (0)اور دوسرا ایک (1)۔ زیرو کو آف اور ایک کو آن کہا جاتا ہے۔ اور انھیں دونوں حروف سے دنیا کی ہر زبان کی سوفٹویر کے ذریعہ کوڈنگ کی جاتی ہے اور اس کا رسم الخط اسکرین پر نظر آتا ہے۔ لیکن یہ کوڈنگ انتہائی مشکل اشاریہ ہوتا ہے، جو صرف انجنیر اور سافٹویر ہی سمجھ پاتا ہے۔ سافٹویرکے کمانڈ کو آسان بنانے کے لیے انجنیر اشاراتی زبان استعمال کرتا ہے، جسے سیمبل لنگویج کہا جاتا ہے۔ یہ سیمبل لنگویج ایک ایسی ایجاد ہے، جس نے رسم الخط سے ناواقف افراد کے لیے تحریر فہمی کو آسان بنا دیا ہے۔ چنانچہ آپ اپنے موبائل میں اس کی لاتعداد مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک بچہ یا ان پڑھ آدمی واٹس ایپ یا فیس بک لکھنا یا پڑھنا نہیں جانتا، لیکن اس کے آئیکن سے یہ سمجھ اور پڑھ لیتا ہے کہ واٹس ایپ اور فیس بک کا ایپ یہی ہے۔
تحریری زبان سے ناواقف افراد کے لیے ایک جدید طریقہ ویڈیو تحریر بھی ہے۔ جس میں مضمون کو سمجھانے کے لیے کسی مخصوص رسم الخط کو استعمال کرنے کے بجائے، اس کی کوریو گرافی اور فریمنگ کی جاتی ہے اور ان دونوں کو سمجھانے کے لیے آواز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور چوں کہ ویڈیو میں آواز سنائی دینے کے ساتھ ساتھ سیمبل لنگویج یعنی تصاویر، گرافکس وغیرہ بھی نظر آتے ہیں، توہر شخص کے لیے مضمون کو سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے؛ اس لیے اس جدید ایجاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں تحریری کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ ویڈیو کتاب لکھنے کا بھی رواج دینا چاہیے۔

سیمینار کو ویبینار بنائیں

سیمینار کو ویبینار بنائیں
محمد یاسین جہازی 9891737350
دیگر مخلوقات الہی میں انسان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خیالات وتجربات کا تبادلہ کرکے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاکراور فائدہ حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔تبادلہ خیالات کے طریق عمل زمانے کے اعتبارسے بدلتا رہا ہے۔ کاغذ اور تحریر کی ایجاد سے پہلے تبادلہ خیال کا طریقہ زبانی روایات پر مبنی تھا، جو سینہ بہ سینہ نسل در نسل منتقل ہوا کرتی تھیں۔ تحریر کا طریقہ دریافت ہونے کے بعد زبانی روایات کا سلسلہ کمزور ہوتا گیا اور اس کی جگہ کاغذ قلم نے لے لی۔
عصر حاضر میں ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوجانے کی وجہ سے کاغذقلم کی اہمیت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ کاپی پیسٹ کی زبردست طاقت کے وجود میں آجانے کے بعد ماضی کے دور کی بہت سے پریشانیوں کا تصور تک مٹتا جارہاہے۔کاغذ قلم کے دور کی ایک سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ کاپی تیار کرنے میں بھی اصل کے برابر ہی محنت اور وقت درکار ہوا کرتا تھا، لیکن سوشل میڈیا اور کاپی پیسٹ کے آسان طریقہ وجود میں آجانے کی وجہ سے تعلیم و تعلیم اور تجربات کے تبادلہ میں زبردست انقلاب پیدا ہوگیا ہے۔ اب نہ تو اصل بنانے میں مہینوں اور سالوں کا وقت درکار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی کاپی بنانے میں لمبی چوڑی محنت صرف کی جاتی ہے؛ بلکہ سب کچھ ایک کلک اور چند کلک سے ہوجاتا ہے۔ بالخصوص یونی کوڈ فارمیٹ کی سہولت ایجاد ہونے کے بعد ایک شخص کی محنت سے سبھی لوگ یکساں فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ آج لوگ گوگلنگ مزاج کے حامل ہوچکے ہیں، سب کچھ چند لمحوں میں حاصل کرکے،اس کی کاپی بناکر پیش کردینا چاہتے ہیں اور جدید ذرائع میں یہ سب آپشن موجود ہے؛ اس لیے ان سہولیات سے فائدہ نہ اٹھانا،اور ماضی کے فرسودہ طریقہ پر ہی قائم رہنا، راقم کے عندیہ میں وقت ضائع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ کچھ مہینے پہلے ایک موقرشیخ الحدیث صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ راقم نے اصلاح کی نیت سے ایک مضمون پیش کیا، تو انھوں نے فرمایا کہ اسے لکھنے میں کتنا وقت لگا؟ میں نے کہا کہ دیگر مصروفیات کے ساتھ تقریبا ایک ہفتہ میں مکمل ہوا۔ یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ اتنے حوالوں کے ساتھ ایک ہفتہ میں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ تو میں نے بتایا کہ قرآن اور احادیث کمپوزشدہ انٹرنیٹ سے مل جاتی ہیں۔ حوالے بھی اسی ذریعہ سے تلاش کرلیتا ہوں۔ باقی دیگر ہزاروں کتابیں مختلف سائٹوں پر موجود ہیں، جہاں سے پڑھ لیا جاتا ہے، کاپی کا آپشن ہوتا ہے، تو کاپی اور پیسٹ کرلیتے ہیں۔ اور اس طرح کم وقت میں مستند و محقق مضمون تیار ہوجاتا ہے۔ پھر میں نے حضرت سے پوچھا کہ آپ کا کیا طریقہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ پہلے کاغذ پر قرآن کی آیتیں لکھتا ہوں، پھر رنگین قلم سے اعراب لگاتا ہوں، پھر کمپوزر کو دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر اس میں مہینوں لگ جاتا ہے۔
بہرحال جدید ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے ماضی کے طریقے کو بدل کر جہاں ہم اپنا وقت اورمحنت بچاسکتے ہیں، وہیں خرچ ہونے والے کثیر صرفے سے بھی بچ سکتے ہیں؛ کیوں کہ ہر شخص سیکڑوں کتابیں نہیں خرید سکتا، البتہ ایک لیپ ٹاپ خرید کر سائٹوں سیمفت میں یا پھر معمولی ممبرشپ پر ہزاروں کتابوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
عصر حاضر میں تبادلہ خیال کا ایک طریقہ سیمینار بھی ہے، لیکن جدید ایجادات سے فائدہ اٹھایا جائے، تو ہم سیمینار کو ویبینار بناسکتے ہیں۔ سیمینار کے مقابلہ میں ویبینار جہاں کم خرچ میں ہوجاتا ہے، وہیں وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ریکارڈ اور کاپی کی سہولیات بھی میسر آجاتی ہیں۔ اسی طرح اس میں مجمع اور سامعین و ناظرین کو لامحدود سعت دے سکتے ہیں۔
ویسے تو ویبینار کرنے کے لیے کئی طریقے اور ایپس ہیں؛ لیکن ہم ذیل میں تین آسان طریقوں کا تعارف پیش کرتے ہیں۔
(۱) زوم(Zoom cloud meeting): اس کورونا لاک ڈاون میں اس ایپ کا سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ایپ دوسرے ایپ کے مقابلہ میں قدرے آسان ہے اور زیادہ آپشن سے لیس ہے۔ اس کے استعمال کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لیپ ٹیپ میں انٹرنیٹ سے یا موبائل میں پلے اسٹور یا ایپ اسٹور سے ڈاون لوڈ کریں اور پھر میل آئی ڈی کی طرح آئی ڈی بناکر استعمال کرنا شروع کردیں۔ اگر کوئی آپشن سمجھ میں نہیں آرہا ہے، تو سیکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ سیکھنا ہے وہ یوٹیوب میں سرچ کرکے سیکھ سکتے ہیں۔
(۲) لارک(Lark): یہ ایپ بھی زوم ہی کی طرح ہے۔ البتہ اس میں ایک اضافی آپشن یہ ہے کہ آپ جو کچھ بولتے ہیں، اسے ساتھ ساتھ ٹیکسٹ میں بھی بدل سکتے ہیں۔ تاکہ جو کوئی آپ کی زبان نہیں سمجھتا ہے، وہ اس کا ٹیکسٹ ترجمہ کی شکل میں پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔
(۳) میٹ (Meet): یہ گوگل کا ایپ ہے، جو ہر جی میل کے ساتھ اٹیچ ہے۔ اگر آپ اپنا جی میل لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر میں استعمال کر رہے ہیں، تو کوئی ایپ لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے  اور نہ ہی کوئی آئی ڈی بنانے کی ضرورت ہے۔ جی میل کی آئی ڈی ہی کافی ہے۔ لیکن اگر موبائل میں استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو پھر پلے اسٹور یا ایپ اسٹور سے میٹ نامی ایپ لوڈ کرنا ہوگا اور اپنی جی میل آئی ڈی استعمال کرکے اس سے ویڈیو کانفرنسنگ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کی ایک خامی یہ ہے کہ اس میں ریکارڈ اور لائیو کا آپشن نہیں ہے، جب کہ زوم میں ریکارڈ اور اسے لائیو کرنے کا بھی آپشن موجود ہے۔
اس کورونا لاک ڈاون میں جب کہ اجتماع سے بیمار ہونے کا خطرہ ہے، ایک دوسرے کے تجربات و خیالات سے فائدہ اٹھانے کا ویبینار ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس میں جہاں آمدو رفت اور قیام و طعام کے اخراجات سے بچ سکتے ہیں، وہیں وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ریکارڈ، کاپی اور لائیو کے آپشن سے فائدہ اٹھاکر افادے کے دائرے کو لامحدود وسعت دے سکتے ہیں۔ تو راقم کا یہی مشورہ ہے کہ اب سیمینار نہیں؛ بلکہ ویبینار کو فروغ دیں اور جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افادے و استفادے کے حلقہ اثر کو عالمی بنانے میں ایک موثر کردار ادا کریں۔

5 Jun 2020

وطن معیشت کو وطن اقامت بنائیے

وطن معیشت کو وطن اقامت بنائیے
آرٹیکل 32 اور The Remedy Of Compensation کے اختیارات کے باوجود سپریم کورٹ کا خاموش رہنا؛ کیا بھارت میں جمہوریت کے خاتمہ کا اعلان نہیں ہے
محمد یاسین جہازی
بھارت میں 25مارچ 2020سے 31مئی 2020یعنی کل 68دنوں کے لیے ا س کے وزیر اعظم مسٹر مودی نے پہلے سے طے شدہ کسی حکمت عملی کے بغیر اچانک لاک ڈون کا فیصلہ کردیا۔ اس فیصلہ کے بعد بھارت کی ایک نئی تصویر ابھر کرسامنے آئی۔ ایک ایسی تصویر، جس میں بے بسی، مجبوری اور مفلوک الحالی کے رنگ نمایاں تھے۔ اس ہوائی جہاز اور راکیٹ کے دور میں بھی ایسی بھیانک تصاویر منظر عام پر آئیں، جہاں لاکھوں مزدور تپتی دھوپ اور گرم سڑکوں پر سروں پر سامان اور کندھوں پر معصوم بچوں کو لادھے ہزاروں کلو میٹر دور بھوکے پیاسے پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سفر کے تمام ذرائع بند کردیے گئے تھے، تو پھر ان مزدوروں کو اپنی جگہ سے سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی، جو جہاں پھنس گیا تھا، وہیں رہتے۔ تو اس سوال کا جواب بھی سوشل میڈیا اور میڈیا کے توسط سے مل گیا ہے کہ وہ جہاں رہتے تھے، وہاں سے مکان مالک نے کرایہ کا مطالبہ کرنا شروع کردیا، کام کاج بند ہونے کی وجہ سے مزدور کرایہ ادا نہ کرسکے، تو مکان مالکوں نے نکالنا شروع کردیا۔ اسی طرح کھانے پینے کی جو بھی چیزیں اور انتظام مزدوروں کے پاس تھا، وہ سب رفتہ رفتہ ختم ہوگیا، جس کے باعث بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر مزدور اپنے گاوں کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہوئے اور سواری بند ہونے کی وجہ سے پیدل ہی سفر پر نکل پڑے۔ان کی پریشانیوں کو احساس دلانے والوں نے جب ان سے سوال کیاکہ گھر جانے کے لیے آخر اتنی پریشانیاں کیوں برداشت کر رہے ہیں، تو ان کا سیدھا جواب تھا کہ ویسے بھی بھوک سے مرتے، تو ایسے ہی چل کر اپنوں کے بیچ مریں گے؛ کیوں کہ ہمیں تو آخر مرنا ہی ہے۔
جینے اور زندہ رہنے کا حق  وغیرہ بھارت کے دستورکے مطابق انسان کے بنیادی حقوق کے تحت آتے ہیں، جنھیں مہیا کرانا موجودہ سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر سرکار عوام کے بنیادی حقوق بھی فراہم نہ کرسکے، تو دستور کے آرٹیکل 32 اور The Remedy Of Compensation کے تحت کورٹ اور سپریم کورٹ کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ سرکار کا محاسبہ کرکے اسے حکم دے کہ وہ عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کو یقینی بنائے۔
لیکن اس لاک ڈاون میں مزدوروں کے جملہ بنیادی حقوق تو کجا، زندہ رہنے تک کے حق سے محروم کردیا گیا، اس کے باوجود نہ تو کورٹ نے اور نہ ہی سپریم کورٹ نے سرکار کو سرزنش کی اور نہ ہی سرکار کی نیت اور نیتی پر سوال اٹھاکر اسے اپنی ذمہ داری یاد دلائی۔ اس پورے بھیانک منظر نامہ پر سپریم کورٹ بھی بالکل خاموش تماشائی بنا رہا۔
میرے خیال سے   آرٹیکل 32 اور The Remedy Of Compensation اس بھارت کے دستور کا حصہ تھا، جب سرکار ووٹوں کی طاقت سے بنتی تھی۔ سرکاری پارٹیوں کو ووٹروں کی ضرورت ہوتی تھی، اس لیے ووٹر ووٹ کے وقت ا ن پارٹیوں کا خیال رکھتی تھی، جو پارٹی ووٹروں کا خیال رکھے۔ جب زمانے نے تھوڑی ترقی کی، اور ہر طرح کے اعداد وشمار سامنے آنے لگے، تو اس نے ”ہمارے ووٹر“ اور ”ہمارے ووٹر نہیں“ کی ذہنیت پیدا کی۔ پھر ذرا اور آگے چل کر ”پالیس میکر ووٹر“ اور ”اندھ بھکت ووٹر“ میں معاملہ تقسیم ہوگیا۔ یہاں تک بھی معاملہ کسی قدر غنیمت تھا؛ لیکن جب سے مشینی دور شروع ہوگیا ہے، تب سے حکومت کو ووٹروں کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ جس کا سب سے بھیانک پہلو یہ سامنے آرہا ہے کہ سرکار مطلق العنان ہوکر فیصلہ کرتی ہے۔ وہ اپنے فیصلے میں نہ تو عوام کی خواہشات کا خیال رکھتی ہے اور نہ ہی ضروریات کا؛ اچانک ڈی مونی ٹائزیشن، اچانک لاک ڈاون وغیرہ وغیرہ؛ یہ سب اسی مطلق العنانی کی مثالیں ہیں۔
 ان واقعات کو اگر عبرت کی نگاہ سے دیکھیں، تو جس طرح انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے اہل دانش کو یہ فتویٰ دینا پڑا تھاکہ بھارت اب غلام ہوچکا ہے، جس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے، اسی طرح اہل دانش کو یہ اعلان کرنا ضروری ہے کہ بھارت میں اب جمہوریت کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے؛ لہذا اس کے تحفظ کے لیے، کورٹ، سپریم کورٹ، میڈیا، قلم کار، اہل دانش، اپوزیشن پارٹیوں اور تمام محبان وطن کو بہر قیمت آگے آنا ہوگا۔
اور یاد رکھیے کہ اگر ابھی نہیں اٹھے، اور جان و مال کی پرواہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھے، تو پھر بھارت کو دوبارہ برباد ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔
اخیر میں اپنے مزدور بھائیوں کو بھی ایک مشورہ دینا چاہوں گاکہ اس لاک ڈاون کی بے بسی نے ہمیں اچھی طرح بتادیا کہ غریبوں کا مسیحا کوئی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی سبق ملا کہ جہاں وطن معیشت ہے، اگر اسی کو وطن اقامت بھی بنالیں، تو اس قسم کے حالات کے دوبارہ شکار نہیں ہوں گے۔ اور یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے؛ بلکہ بہت سے بڑے صاحب ثروت نے وطن معیشت کو وطن اقامت بنایا ہے، شاہ رخ خان، امیتاب بچن اور ہزاروں لوگوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔