26 Apr 2019

kia aap Allah se Razi hin?

کیا آپ اللہ سے راضی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


انسان کو پیدا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خالق کائنات کی عبادت کرے۔ اور عبادت کا ایک ہی مقصد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ مقررین و واعظین بار باراس مقصد کی یاد دہانی کراتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بھائی اللہ کو راضی کرلو۔ بھائی اللہ کو راضی کرلو۔ 
جس طرح شریعت میں بتائے ہوئے طریقے کو اختیارکرتے ہوئے اللہ کو منانا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں۔ کیوں کہ آپ کے اللہ سے راضی ہوئے بغیر اللہ آپ سے راضی نہیں ہوسکتا۔حدیث قدسی ہے 
عن ابي ھریرۃ، قال:قال رسول اللہ ﷺ:یقول اللہ عز وجل:”انا عند ظن عبدي بي۔“ (سنن الترمذی، کتاب الدعوات، باب فی حسن الظن باللہ عز و جل)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔
اگر آپ اللہ کو راضی کرنے میں شب و روز عبادت کرتے ہیں، لیکن آپ خود اللہ سے نا راض ہیں، تو آپ کا اللہ کے ساتھ معاملہ کے مطابق اللہ کبھی بھی راضی نہیں ہوگا۔ 
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا مشہور مقولہ ہے کہ ”تم اللہ سے راضی ہوجاؤ تو اللہ بھی تم سے راضی ہوجائے گااور جو حقو ق اللہ ہیں، انھیں ادا کرو۔ کیا تم نے اللہ کا قول نہیں سنا ہے کہ ”اللہ ان سے راضی ہوگئے اور لوگ بھی اللہ سے راضی ہوگئے (التوبہ، ۰۰۱)۔ حضرت محمد ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ ایک عالم سے سوال کیا گیا کہ اہل رضا کا مقام کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ تو عالم نے جواب دیا کہ معرفت الٰہی سے۔ اور رضامعرفت کی ایک شاخ ہے۔ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ”رضا اللہ کا بڑا دروازہ، دنیا کی جنت، عبادت گذاروں کے لیے باعث تسکین اوراہل عشق کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ جس شخص کا دل مقدر کی رضا سے بھرا ہوا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو بے نیازی اور سکون سے لبریز کردیتے ہیں، اس کے دل کو اپنی محبت، رجوع اور توکل کے لیے خالص کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ سے راضی نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پلٹ دیتا ہے اور سعادت و فلاح سے محرومی مقدر کردیتا ہے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ”جو کوئی مقدرات الٰہی سے راضی ہوتا ہے،اسے اجر ملتا ہے، اور جو راضی نہیں ہوتا، اس کے اعمال صالحہ بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ایمان کی تکمیل کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم خیرو شر کی تقدیر پر رضا کا اقرار کریں۔
درج بالا تمام حوالے سند ہیں کہ اگر آپ اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں، تو اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ پہلے آپ خود اللہ سے راضی ہوجائیں۔ فرمان نبوی ضامن ہے کہ اگر آپ اللہ سے راضی ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ آپ سے ضرور راضی ہوجائے گا۔

24 Apr 2019

مولانا محمد اسلام مظاہری نور اللہ مرقدہ ( جون ۱۹۴۳ء۔ ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ)

مولانا محمد اسلام مظاہری نور اللہ مرقدہ
( جون ۱۹۴۳ء۔ ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ)محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے بعدجہازی اکابرین میں دوسرا بڑا نام مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ محمد اسلام نام تھا، ساجدؔ تخلص کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مظاہر علوم سہارنپور سے سند فراغت حاصل کی تھی، اس لیے اس نسبت سے کبھی مظاہری اور کبھی مظہری لکھا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم کا نام جناب عبدالرحمٰن تھا، جو نصیرالدین عرف نسو کے فرزند تھے۔ نسو ابن پھیکو، ابن گھولی ابن دروگی تھے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب نہ کسی کو معلوم ہے اور نہ ہی محفوظ ہے۔ دستیاب نسب نامہ کی تحریر پر ہر نام کے ساتھ شیخ یا مرڑ کا لاحقہ لگا ہوا ہے، جس سے پوری برادری شیخ کہلاتی ہے۔ گرچہ اس حوالے سے کوئی مستند معلومات نہیں ہیں، تاہم قبائلی روایت کو تسلیم کرتے ہوئے مولانا بھی شیخ برادری میں آتے ہیں۔مولانا مرحوم کی پیدائش اور تعلیمی معلومات کے حوالے سے ان کی ایک تحریر موجود ہے، جو انھوں نے ’’حرف آخر ‘‘ نامی کتاب کے شروع میں تعارف کے عنوان سے لکھا ہے ۔ اس تحریر کو من و عن یہاں پیش کیا جارہا ہے: نام: محمد اسلام ساجدؔ پتہ: مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ، ڈاک خانہ اعظم پکڑیا، تھانہ پتھر گاماں، ضلع دمکا بہارتاریخ پیدائش: ماہ جمادی الثانیہ۱۳۶۲ھ، (مطابق جون ۱۹۴۳ء) میں ولادت ہوئی، تاریخ متعین نہ کی جاسکی۔ تعلیم: غالبا ۱۳۶۶ء (مطابق۱۹۴۷ء) سے طفل مکتب بنا۔ ۱۳۷۹ء (مطابق ۱۹۵۹ء) تک مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں تعلیم شرح جامی، کنز الدقائق، اصول الشاشی تک حاصل کی۔ شوال ۱۳۷۹ھ (مطابق مارچ ۱۹۶۰ء) میں مظاہر علوم سہارنپور، بتکمیل تعلیم پہنچا۔ شعبان ۱۳۸۴ھ( مطابق دسمبر ۱۹۶۴ء) فراغت (مدرسہ مذکور سے ) پائی۔ پیشہ: آبائی پیشہ کاشتکاری ہے۔ والد ماجد کے ذمہ ایک ایکڑ چند ڈسمل زمین کاشت ہے۔ فراغت کے بعد مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں بحیثیت مدرس چہارم کام کرنا شروع کیا۔ نوٹ: دنیا مجھے اسلام کے نام سے جانتی ہے۔ گھر، گاوں، مدرسہ، حتیٰ کہ مظاہر علوم سہارنپور میں بھی ’’محمد اسلام دمکوی ہی تھا۔ ساجدؔ ۔مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں درجہ سوم تک کی کتابوں کی تدریس وابستہ کی گئی۔ نور الایضاح،قدوری،میزان و منشعب، نحومیر، گلستاں اور بوستاں کا درس بہت زیادہ مقبول تھا۔ تا دم وفات تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں ایک استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ناظمدارالاقامہ بھی تھے، جس کے ذریعے بچوں کی تربیت پر خاص نگاہ رکھتے تھے ۔ مطبخ کی ذمہ داری بھی وابستہ تھی، جس سے تہذیبی و سماجی تربیت پر بھی خصوصی توجہ فرماتے تھے۔ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ وہ ایک باکمال خطیب بھی تھے اور جمعہ کے دن جامع مسجد میں خصوصیت کے ساتھ خطاب فرمایا کرتے تھے۔ وہ کم گو تھے، لیکن طبیعت میں ظرافت تھی۔ساتھ ہی وہ قابل تقلید اخلاق کے بھی مالک تھے۔نرم خوئی ان کی خاص صفت تھی، اس لیے مدرسے کے بچے آپ سے بہت زیادہ بے تکلف رہا کرتے تھے۔ تدریس سے فراغت کے بعد بالعموم تحریر و کتابت میں مصروف رہتے تھے۔اور کئی کتابیں ان کی علمی وراثت کی یادگار ہیں۔ گاؤں میں دو بڑے سیلاب کے حادثے، وارثین کی نااہلی اور کتابوں کے تعلق سے بے حسی کی وجہ سے مولانا مرحوم کی ذاتی لائبریری فنا کے حوالے ہوگئی، تاہم ان حوادث کے باوجود جو سرمایہ محفوظ رہا ہے، اس میں مولانا کے کتابوں کا کچھ مسودہ موجود ہے، جس کا تعارف پیش ہے۔
۱۔ دل کی راہ سےاس کتاب میں اخباری تراشے ہیں ، تراشوں میں چھپے مضامین اور خبروں پر تبصرے کیے گئے ہیں ، جس میں مولانا ؒ نے حالات حاضرہ پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے ، اپنی قیمتی رائے پیش کی ہے ۔ اپنے وقت کا سب سے مشہور اور معیاری اخبار الجمعیۃ کے مضامین بکثرت موجود ہیں۔ جا بجا منظر کشی کے لیے لائنوں کے خاکے بھی بنے ہوئے ہیں، جس میں اشارے اورطنز و مزاح پائے جاتے ہیں۔ اس کا مسودہ اب تک راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے۔۲۔اشعار برجستہاس میں مولانا مرحوم نے اپنی یاد داشت کی بنیاد پر ایک سو تین مختلف عناوین پر بڑے بڑے شاعروں کے شعروں کاانتخاب پیش کیا ہے۔اس کا پورا مسودہ صحیح و سالم ملا۔ الحمد اللہ اس کی کمپوزنگ بھی مکمل ہوگئی ہے اور عن قریب چھپ کر منظر عام پر آجائے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ۳۔ حرف آخراس کتاب میں مولانا مرحوم نے مختلف ممالک کا نقشہ پیش کیا ہے ۔ اور قدیم و جدید جغرافیائی حدود پر عالمانہ و محققانہ بحث کی ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جہاں تحقیق و مراجع کا کوئی جدید ذریعہ موجود نہیں تھا، اور معلومات کا کوئی بھی فاسٹ وسائل مہیا نہیں تھے، ایسے بے سروسامانی کے عالم میں اتنا تحقیقی کام کیسے کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے مسودے میں صرف تین چار صفحات ہی دستیاب ہوسکے۔اور سر دست وہ بھی ناقابل استفادہ ہوچکے ہیں۔ ۴۔ فیض القدیر لمولانا امیرؒ مظاہر علوم سہارنپور کے استاذ حدیث حضرت مولانا امیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ ترمذی کا درس دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد اسلام صاحب نے درس کی تقریر قلم بند کی ہے۔ راقم کے پاس جو کاپی موجود ہے، اس میں کتاب السیر کے باب ما جاء فی الطیرۃ تک کی تقریر موجود ہے۔ اور مسودہ پر پانی نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن بہ مشکل اسے پڑھا جاسکتا ہے۔ اور اسے شائع بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسلوب تحریرمولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ بہت ہی سادہ اور سلیس نثر لکھتے تھے ،جس میں انشا نگاری کا عکس جھلکتا تھا۔ اسلوب میں رنگینی فکر غالب تھی اور کسی بات کو دلچسپ پیرایہ میں بیان کرنے کے ہنر میں کمال رکھتے تھے ۔ ان کے اسلوب کا اندازہ لگانے کے لیے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں: جمعہ کی رات(شب اول) سہانی، خوشگوار پرفضا چاند کی کوثر تسنیم میں دہلی ہوئی چاندنی اور اس پرہولے ہولے جھکولے کھاتی ہوا، کتنا پرسکون ہوتا ہے اور پھر اس پر سونے پر سہاگہ کیوں نہ ہوجائے، جب کہ ایسی حالت میں دوست اور یار غار آجائے!۔ا س پر فضا ماحول میں ہم بیٹھے ہوئے تھے، بعد نماز مغرب کے آدھ گھنٹے گفتگو میں گذر جانے کے بعد اچانک دروازے کی جانب سے السلام علیکم کی آواز آئی۔ سر اٹھا کر دیکھا، آواز جانی پہچانی تھی۔ خوشی دوبالا ہوگئی۔ رات گفتگو میں گذری۔صبح کو بعد ناشتہ جب مہمان اپنے میزبان کے ساتھ تنہا تھے، نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ بات پیش کی: ’’مولوی اسلام! آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں، اکثر چاہا، مگر بھول جاتا ہوں۔ ابھی پھر خیال آیا، دیکھیے آج ہماری، آپ کی اور نہ جانے کتنے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ نہ وہ گھر کا گنا جاتا ہے اور نہ باہر کا۔ اور ان میں سے اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں، جو مدارس نظامیہ سے تعلیم حاصل کرکے آتے ہیں اور معمولی سی تنخواہ میں بچوں کو تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اول پیسے کی کمی۔ دوئم وقت سے فراغت کم ہونے کی وجہ سے وہ گھر کے کسی اور کام کو انجام دے نہیں پاتا۔ اور گھر سے ایک قسم کی بے تعلقی ہوجاتی ہے۔ اور پھر گھر والے اس کو علاحدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا گھاٹ کا‘‘ والی مثال ہوجاتی ہے۔ ایسے عالم میں وہ جاہل مزدور سے بھی گیا گذرا ہوجاتا ہے، جو روزانہ کم از کم دو سیر مزدوری کرلیتا ہے۔ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنستے ہیں اور تماشائی بنتے ہیں۔آج ہمیں ضرورت ہے کہ ایک ایسی انجمن ہو، جس کی کچھ مالی حیثیت ہو اور وہ ایسے لوگوں نیز اور دوسرے غربا و مفلسوں کی وقتی امداد کرسکے اور جب فراغت ہوجائے، وہ شخص اس قرض حسنہ کو ادا کردے۔ میں اس چیز کی اہمیت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ تم کیا کہتے ہو؟؟!‘‘۔اور محمد اسلام نے اپنے دوست کو اپنا دلی ترجمان دیکھ ہاں کہہ کر اپنا وہ منصوبہ پیش کردیا جو ایک مدت سے اپنے دل میں پال رکھا تھا۔ اور۔۔۔ اسی وقت ان دونوں ’’میزبان اور مہمان‘‘ نے ایک انجمن کی داغ بیل ڈال دی! خدا کرے ان دو دوستوں کی دلی تمنا پوری ہو۔ اور دونوں کی کوشش بار آور ہو!!!!۔ملی کارنامےتصنیف و تالیف اور خطابت کے علاوہ مولانا ملی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے ۔ اور سماجی مسائل کے حل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا کرتے تھے۔ علاقہ میں بے پناہ غربت کے پیش نظر ملی و سماجی کاموں کو سہارا دینے کے لیے مولانا نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسے ’’تنظیم ملت‘‘ کا نام دیا۔ اس میں لوگوں کو جوڑ کر ملت کے وہ تمام کام انجام دیتے تھے، جو وقت کی ضرورت ہوتی تھی، جو بالیقین مولانا مرحوم کی ملی خدمات پر شاہد عدل ہیں۔ مولانا کے شاگردمولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ تقریبا آٹھ سال تک مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے استاذ رہے۔ درجہ سوم تک تعلیم تھی، آپ سے سبھی درجات کی کتابیں متعلق تھیں، اس لیے آپ کے بہت سے شاگرد تھے، چند مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد یونس صاحب کیتھپورہ، محمد اسلام، فیض الرحمان، محمد عرفان، محمد فاروق رجون، حافظ ظفیر الدین، رحمت علی تلوائی، شوکت علی مرنئی، محمد اکرام الحق صاحبان۔حادثہ فاجعہ مولانا کا شب و روز درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گذر رہا تھا کہ اچانک مولانا مرحوم کو پہلے سردی والا بخار آیا، جو رفتہ رفتہ میعادی بخار میں تبدیل ہوگیا۔گاؤں کے ڈاکٹر جناب ثمیر الدین صاحب نے علاج شروع کیا، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، جس کے پیش نظر جھپنیاں کے ڈاکٹراکرام صاحب سے رجوع کیا گیا، لیکن یہاں بھی کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے کیا گیا کہ حکیمی علاج شروع کیا جائے، چنانچہ گاؤں کے حکیم جناب محمد حسین مرحوم نے علاج شروع کیا، لیکن یہاں بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آیا، بالآخر علاقے کے سب سے مشہور ڈاکٹر جناب شہید پچوا قطعہ سے رابطہ کیا گیا۔ انھوں نے خصوصی توجہ کے ساتھ تقریبا بارہ تیرہ ایام تک علاج کیا اور اپنے گھر پر ہی اپنی نگرانی میں رکھا، لیکن مرضی مولیٰ برہمہ اولیٰ ہوتا ہے، اس لیے اس بیماری سے وہ جاں بر نہ ہوسکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ کر واصل بحق ہوگئے۔والد محترم کی ملی ایک تحریر کے مطابق تاریخ وفات ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ تقریبا دو بجے دن ہے۔ اس کے اگلے دن آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔ پسماندگان میں ایک لڑکا جناب محمد اطہر اور ایک لڑکی مَسُودہ (مسعودہ) خاتون ہے ، جو تا دم تحریر با حیات اور صاحب اولاد ہیں۔ ان کے انتقال کے وقت لڑکی ابھی کچھ ہی مہینوں کی تھی اور بڑی اولاد لڑکے کی عمر کچھ سال کی تھی۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردو س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، آمین۔

12 Apr 2019

Meri Aankhen Faqa Kash hin

اک چھوٹا سا وہ لمحہ، جو کاٹے نہیں کٹتا
میری آنکھیں فاقہ کش ہیں 

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

سماجیات کے ماہرین انسان اور جانور میں ایک فرق یہ بھی بتاتے ہیں کہ جانور صرف جھنڈ بناتا ہے، خاندان اور معاشرہ نہیں، جب کہ یہ دونوں خصوصیات انسان کے ساتھ مخصوص ہیں اور اسی وجہ سے اسے ’’سماجی حیوان‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔ 
سماج و معاشرہ میں زندگی گذارنے کے رجحانات کے لیے ایک اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ انسان کے خمیر میں انسیت کا عنصر شامل ہے اور انسیت سوشل لائف گذارنے کی محرک ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو سماجی بائکاٹ اور قید تنہائی کی سزا دی جاتی ہے۔ 
تعلیمی و معاشی ؛ یہ دو ضرورتیں ایسی ہیں، جن کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان سماج و معاشرہ میں رہنے کے باوجود بائکاٹ اور تنہائی کی مجرمانہ قید میں زندگی گذار رہا ہے۔ناچیز جب علم و معرفت کے لیے محو سفر ہوا، تو لاشعوری عہد تھا ۔ تحصیل علم کے مکمل دس برس کے بعد خیال آیا کہ والدین اور اپنے سماج سے اتنے طویل عرصے الگ تھلگ رہنے کے بعد اب اپنے سماج میں اور والدین کے زیر سایہ عاطفت زندگی گذارنی چاہیے؛ لیکن تعلیمی مجبوری کی طرح معاشی مجبوری نے اتنا موقع ہی نہیں دیاکہ اس تجویز پر عمل درآمد کرسکوں۔ اور اس طرح سے تقریباچھ سال کا عرصہ بھی غریب الوطنی کی نذر ہوگیا۔ 
اس کے بعد زندگی میں ایک نجی معاشرتی ذمہ داری کا اضافہ ہوا اور جدائی کے غم میں شریک غم یعنی بیگم بھی شریک ہوگئی۔ پہلے صرف والدین اور معاشرے سے جدائی کا غم تھا ، اب یہ تیسرا غم بھی پابہ رکاب ہوگیا۔ کافی کوشش کی کہ معاشرہ اور والدین نہ سہی، تودنیاوی دستور اور تقاضہ فطرت کے تحت کم از کم شریک زندگی کو ہی ساتھ رکھ لیں؛ لیکن یہ کوشش تا ہنوز بار آور نہیں ہوپائی؛ حتیٰ کہ تا حال دو اورایسے وجود کا اضافہ ہوگیا، جن کی آنکھیں میری دید کے لیے اور میری آنکھیں ان کے دیدار کے لیے مضطرب رہتی ہیں؛ لیکن نوشتہ تقدیر شاید یہی ہے کہ ناچیز سے منسوب ہر آنکھوں کے لیے فاقہ کشی مقدر ہوچکی ہے۔
زمانہ طالب علمی میں چھٹی کا تصور مژدہ جاں فزا ہوا کرتا تھا۔ جمعرات آنے سے ایک دو روز قبل ہی رخصت کی فرحت کا احساس شروع ہوجایا کرتا تھا۔ شب و روز درس و تدریس کے دورانیہ کے تسلسل سے جب آزادی ملتی تھی، تو ایسا لگتا تھا کہ خوشی کا کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہے؛ لیکن جب سے جمعرات اتوار میں تبدیل ہوگئی ہے اور اقتصادی زندگی کا آغاز ہوا ہے، تب سے یہ احساس بالکل برعکس کیفیت پیدا کرتا ہے۔ اس زندگی میں چھٹی کا دن آتے ہی خوفناک تنہائی ستانے لگتی ہے۔ روز مرہ کے معمولات کا تسلسل ٹھہرتا ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے نبض حیات ٹھہر گئی ہو۔ آفس اور کمرے کے درودیوار بھی سناٹے کے مجسمے نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ ہر روز وہی آفس اور وہی کرسی ہوتی ہے، لیکن چھٹے کے دن آفس آنے سے ایسا لگتا ہے کہ کرسی اور آفس دونوں ہمارے نوشتہ تقدیر پر ہنس رہے ہوں، جس کی برداشت کی تاب نہ لاکر باہر چلا جاتا ہوں، جہاں ہمیں ہزاروں چہرے نظر آتے ہیں، لیکن ان کے بیچ بھی اکیلا پن کی کیفیت دور نہیں ہوتی، کیوں کہ ان ہزاروں چہروں میں ایک بھی چہرہ شناسائی کا چہرہ نہیں ہوتا ہے۔ ؂ 
آئینہ کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھے ہیں
ایک میں بھی تنہا تھے، سو میں بھی اکیلے ہیں 
اس دن کا چھوٹا لمحہ بھی صدیاں بتانے جیسا لگتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے تصور سے محروم افراد تنہائی میں تفریح طبع کے لیے گانوں ، فلموں، لیونگ ان ریلیشن شپ، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ،کلچرل پروگرام وغیرہ کو ضروریات زندگی میں شمار کرتے ہیں اور غریب الوطنی میں وقت گذارنے کا بہترین ذریعہ حیات سمجھتے ہیں۔ 
حصول تعلیم کے تحت اپنے گھر معاشرے سے دور رہناایک ایسی وجہ ہے، جو سنہرے مستقبل کی ضامن ہے، لیکن معاشی اور ملازمت کی مجبوری کے تحت زندگی کو تنہائی کی سزا دینا انسان کے خمیر انسیت اور سماجی فطرت کے خلاف ہے ، اس لیے یہاں چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں، جن کو عملہ جامہ پہناکر فطری سماجی زندگی گذار سکتے ہیں: 
(۱) تعلیم کے بعد ملازمت کے بجائے تجارت کو ذریعہ معاش بنانے کی کوشش کریں۔
(۲) سرمایہ یا تجربہ ، یا اور کسی مجبوری کی وجہ سے تجارت کرنا ممکن نہ ہو، تو صلاحیت کے مطابق قرب و جوار میں جوب تلاش کریں۔
(۳) آپ کی صلاحیت کے اعتبار سے گاوں معاشرے کے قریب ملازمت نہ ملے، تو دوردراز بھی ملازمت کرنے سے گریزاں نہیں ہونا چاہیے، البتہ ایسی صورت میں درج ذیل مقاصد کو فراموش نہ کریں: 
(الف) اگر مستحکم ملازمت ہے، تو وطن ملازمت کو ہی وطن اصلی بنالیں۔ 
(ب) بصورت دیگروطن ملازمت کو فیملی کے لیے بھی وطن اقامت بنائیں۔
(۴) اگر درج بالا دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں، جس کی بنیادی وجہ ’’کم تنخواہ‘‘ ہوسکتی ہے، تو وطن اصلی آمد و رفت کرنے کی تعداد بڑھادیں، جو شرعی اعتبار سے ایک سال میں کم از کم تین مرتبہ ہے، یعنی ہر چار ماہ کے اندر ایک مرتبہ والدین کی زیارت اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ضرور سفر کریں۔ 
(۵) اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو، جس کے تین بنیادی اسباب ہوسکتے ہیں، یعنی کم تنخواہ، کم رخصت، یا پھر موقع بہ موقع کام کا اضافی بوجھ، تو ایسی صورت میں ناچیز کا مشورہ یہ ہے کہ رزق کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے ملازمت، چھوٹنے، تنخواہ کٹنے اور اس جیسے اندیشے سے باہر آکر دل اور ارادے کو مضبوط رکھیں اور حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے تھوڑی بہت آگے پیچھے کرکے اپنا کام نکالنے کی کوشش کریں۔ یاد رہے کہ حکمت عملی اور آگے پیچھے کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ضمیر فروشی اور خصیہ برداری تک گر جائیں؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آمدو رفت کے دورانیہ میں کم و بیشی سے کام چلائیں۔ 
(۶) اس موقع پر ، مدارس کے مہتمم، مساجد کے ذمہ داران، اداروں کے نگراں اور کمپنیوں کے مالکان سے بھی یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ اپنے ملازمین کے ساتھ اسلامی تعلیمات و ہدایات کے مطابق معاملہ کریں، انھیں سیلری نہیں؛ بلکہ اپنی ضروریات کی طرح تن خواہ دیں، ان کی گھریلو ضروریات ، فیملی کی خواہشات اور عید و تہوار جیسے مواقع پر چھٹی، تحفہ وغیرہ کا خصوصی خیال رکھیں۔ اور یہ بھی خیال رکھیں کہ آپ کی زندگی کو کامیاب و شاندار بنانے میں آپ کے ملازم کا خون پسینہ بھی شامل ہے، اس لیے اس کے خونی رشتوں کے ساتھ کچھ لمحات گذارنے اور فیملی کے لیے پسینہ بہانے کے لیے مواقع فراہم کرنا آپ کا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلنا آسان فرمائے، اور اپنے ملازمین کے حقوق و ضروریا ت کا خاص خیال رکھنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔ 

5 Apr 2019

Dustbin of knowledge

معلومات کا ڈسٹبن

محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

سوشل میڈیا کے ایزی ایکسس کی وجہ سے آج ہر شخص واٹس ایپ کالج اور فیس بک یونی ورسٹی میں داخل ہوکراپنے مبلغ فکر کے اعتبار سے گیان بانٹنے اور بٹورنے کوپیدائشی حق سمجھ رہا ہے۔چوں کہ یہاں معلومات کو فلٹر کرنے، یا صحیح یا غلط بتانے والا کوئی استاذ نہیں ہوتا، اس لیے ضروری، غیر ضروری، یا درست اور غلط میں تفریق کیے بغیر ہر قسم کی معلومات ہمارے دماغ میں بھر جاتی ہیں۔ اور ہمارا حافظہ خانہ معلومات کا ڈسٹبن بن جاتا ہے۔ 
ایک مسیج آتا ہے کہ جو شخص رمضان کی آمد کی سب سے پہلے اطلاع دے گا، وہ ایک سال پہلے جنت میں جائے گا۔ اس مسیج میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایسا حدیث میں کہا گیا ہے۔ 
ایک ایسا ویڈیو آتا ہے،جس میں خزاں سے متاثر ایک درخت سے بڑا ناگ لپٹا ہوا ہے، اور ساتھ میں آواز آتی ہے کہ جو شخص اس ویڈیو کو دس گروپ میں نہیں بھیجے گا تو اسے سخت نقصان پہنچے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک صاحب نے اسے جھوٹ سمجھ کر ڈیلیٹ کردیا اور آگے فارورڈ نہیں کیا تو اس کا بیٹا مرگیا ۔ 
ایک آڈیو آتا ہے کہ مدینہ کے شیخ نے ایک خواب دیکھا کہ اس آڈیوکو دس گروپ میں بھیجنے والے کو رسول اللہ ﷺ کی زیارت نصیب ہوگی۔ اور جو نہیں بھیجے گا وہ ایمان سے محروم ہوجائے گا۔ 
مکہ کے شیخ کا فرمان لکھا ہوا ٹیکسٹ آتا ہے کہ رسول اللہ نے انھیں پابند کیا ہے کہ بیس گروپ میں اس بات کو پھیلادو ، نہیں تو روز قیامت میری شفاعت سے محروم رہو گے۔ 
ایک شخص یہ پوسٹ وائرل کرتا ہے کہ جو کوئی شب براتمیں روزہ رکھے گا، تو ایک سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا ۔ اور جو کوئی اس مسیج کو آگے بھیجے گا، تواس کو دو سال تک روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ 
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو تین سال پہلے ایک بچہ لاپتہ ہوگیا تھا، جس کو تلاش کرنے کی خبر پر مشتمل کوئی امیج بنائی گئی تھی۔ دو تین سال بعد کسی نے ایک شخص کو کسی گروپ میں شامل کردیا ، تو اب وہ شخص قدیم و جدید خبر کی تصدیق کیے بغیر لگاتار اسے فارورڈ کرتا رہتا ہے اور اپیل بھی کرتا ہے کہ اسے سارے گروپ میں شئیر کریں، تاکہ کسی کو اپنا گم کردہ لعل مل سکے۔ 
ایک مقرر نے کسی خاص پس منظر میں کوئی تقریر کی تھی۔ کئی سالوں بعد ایک شخص واٹس ایپ کالج میں نیا نیا داخلہ لیتا ہے، تو وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ تقریر حال کی ہے اور اسے آگے بھیجنا ہمارے اوپر فرض ہے۔ 
کہیں گستاخانہ حرکت کی جاتی ہے، تو اس سے باز رہنے یا اس پر لعنت بھیجنے کے لیے ایسے مسیج کواتنا فارورڈ کیا جاتا ہے کہ جتنا تخلیقی سورس سے گستاخی نہیں پھیلتی، اس سے کہیں زیادہ لعنت بھیجنے کی اپیل سے گستاخی پھیل جاتی ہے۔
سالوں پہلے کہیں ٹرین حادثہ ہوا تھا، جس کی تصویریں وائرل ہوئی تھیں۔ ایک نیا شخص یا فارورڈ کے شوقین ان کو سالوں بعد شئیر کرنے کو نیک کام سمجھتا ہے ، جس سے یہ گمراہی پھیلتی ہے کہ شاید یہ کوئی نیا حادثہ پیش آگیا ہے ۔ یا کوئی نیا حادثہ پیش آتا ہے، تو لوگ اول مرحلہ میں یہ سمجھنے پر آمادہ ہوتے ہیں کہ شاید یہ کوئی پرانہ حادثہ ہو۔ 
ایک شخص دنگا فساد برپا کرنے کے مقصد سے جان بوجھ کر تاریخی حقائق سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اور اسے فرقہ وارانہ ذہنیت کے ساتھ پیش کرتا ہے، جس سے قاری یا تو متعصب بن جائے یا نفرت کے پجاری۔ تاریخ سے نا انجان فیس بکیہ اور واٹس ایپیہ ایسے پیغامات سے بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور اپنے دماغ میں غلط معلومات بھر لیتے ہیں۔
کچھ پیغامات کی تمہید میں لکھا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان ہو تو شئیر کرو۔ ۔۔۔ اگر نبی کے سچے عاشق ہو، تو اسے آگے بھیجو۔ کوئی کافر ہی ہوگا، جس اس تصویر کو لائک یا شئیر نہیں کرے گا۔ ۔۔۔ تجھے قسم ہے رب کعبہ کی ، اس مسیج کو ضرور آگے بھیجنا ، وغیرہ وغیرہ۔
یہ جو کچھ بھی پیش کیا گیا ہے، ’’مشتے نمونے از خروارے‘‘ ہے۔ اس قسم کے لاتعداد مسیج اور معلومات اسکرین کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہیں ۔ اور ہمارا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی طرح کی تحقیق کیے بغیر ہم سبھی معلومات کو اپنے دماغ میں جگہ دے رہے ہیں، جس سے ہمارا دماغ حافظہ خانہ نہیں، بلکہ معلومات کے کچرے کا ڈبہ بن جاتا ہے۔ جس سے برین واش ضروری ہے۔
اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ احادیث کی کتابوں میں متن احادیث کے ساتھ ساتھ سندیں بھی ہوتی ہیں۔ سند کا سلسلہ نبی اکرم ﷺ تک ملنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر متن حدیث کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ سند کی ضرورت و اہمیت بتاتے ہوئے حضرت عبد اللہ ابن المبارک فرماتے ہیں کہ ’’ سند بھی دین کا حصہ ہے، کیوں کہ اگر سند نہ ہوتی، تو جس کے جی میں جو آتا، وہ کہہ دیتا کہ یہ رسول اللہ کا فرمان ہے۔ اور پھر ہر شخص اپنے مفاد کی بات کو آگے رکھنے کے لیے رسول اللہ کا فرمان گھڑ لیتا اور ذخیرہ احادیث شکو ک و شبہات اور تحریفات کا پلندہ بن کر رہ جاتے۔ 
الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّینِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ۔( مقدمۃ الإمام مسلم رحمہ اللہ، بَابُ في أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّینِ)
اس سے بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی بلا سند بات مان لینا اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے۔ 
آج سوشل میڈیاجھوٹ ، جعلی خبروں اور افواہوں کو پھیلانے کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن چکا ہے ، اس لیے کوئی بھی بات خواہ وہ قرآن و احادیث کے حوالے سے ہی کیوں نہ کہی گئی ہو ، بلا تحقیق اس کو اپنے دماغ میں محفوظ رکھنا اور اس کو پھیلانا ، خود اپنی نگاہ میں جھوٹا اور بے اعتبار ہونے کے لیے کافی ہے ۔ ایسے ہی مواقع کے لیے نبی اکرم ﷺ کی ہدایت موجود ہے کہ 
کَفی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔(مقدمۃالإمام مسلم رحمہ اللہ بَابُ النّھْيِ عَنِ الْحَدیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)
انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان کردے۔ 
یاد رکھیے کہ ہماری ایک جعلی اور جھوٹی معلومات بانٹنے یا بٹورنے سے ہماری جان بھی جاسکتی ہے۔ جان کیا چیز ہے، ہم ایمان سے بھی محروم ہوسکتے ہیں یا کرسکتے ہیں، جس کے باعث دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت بھی تباہ و برباد کرنے کے مجرم ٹھہریں گے۔ اس سے یہ سبق لینا ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کو معلومات کا کچڑا دان نہ بنائیں اور صرف حقیقی ، مستند اور سچی معلومات کو ہی اپنے حافظہ کے نہاخانہ میں محفوظ رکھیں۔