15 Sept 2021

مرکزی مسلم پارلیمنٹری بورڈ

مرکزی مسلم پارلیمنٹری بورڈ

محمد یاسین جہازی

9891737350

19/ ستمبر1945کو وائسرائے ہند لارڈ واویل نے اعلان کیا کہ دسمبر 1945سے جنوری 1946کے درمیان مرکزی اور صوبائی لیجس لیٹیو کونسل کے انتخابات ہوں گے۔ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ انتخابات کے بعد ایک ایگزکیٹو کونسل تشکیل دی جائے گی اوراس کے بعد آئین سازی کے لیے اجلاس بلایا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد جمعیت علمائے ہند نے انتخابات کے حوالے سے کل جماعتی متفقہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک مجلس مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا۔

دہلی۶/ ستمبر۔ حکومت ہند کی جانب دے مرکزی اور صوبائی مجالس قانون ساز کے جدید انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔ اور ملکی سیاسی مجالس نے اس سلسلے میں کام کرنا شروع کردیا ہے۔

جمعیت علمائے ہند ضروری سمجھتی ہے کہ جلد سے جلد اس سلسلے میں جماعتی فیصلے کا اعلان کردے۔ لہذا مجلس عاملہ (ورکنگ کمیٹی) اور جمعیت مرکزیہ (کونسل آل انڈیا جمعیت علما) کے اجلاس بالترتیب 18-17/ ستمبر اور 18-19/ستمبر 1945کو دہلی میں ہونے قرار پائے ہیں، تاکہ قطعی فیصلہ کیا جاسکے کہ جمعیت علمائے ہند کو اس مسئلے میں ملی اور ملکی مفاد کے پیش نظر کونسی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ جمعیت علمائے ہند نے معاملہ کی اہمیت کا لحاظ کرتے ہوئے آزادی پسند جماعتوں، مثلا آل انڈیا مسلم مجلس، آل انڈیا مجلس احراراسلام، آل انڈیا مومن کانفرنس، کرشک پرجا پارٹی بنگال، انڈی پنڈنٹ پارٹی بہار، خدائی خدمت گار سرحد، انجمن وطن بلوچستان، مسلم نیشنلسٹ پارٹی سندھ وغیرہ اور بعض آزاد خیال مسلم زعمائے ملک کو بھی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ دعوت نامے جاری کردیے گئے ہیں۔ ارکان مجلس عاملہ اور جلسہ مجلس عاملہ کے دیگر مدعوین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ 16/ ستمبر کی صبح نو بجے سے پہلے دہلی تشریف لے آئیں اور ارکان جمعیت مرکزیہ 18/ ستمبر کی صبح کو نو بجے سے پہلے دہلی پہنچیں۔

جمعیت علمائے صوبہ دہلی کی جانب سے مجلس استقبالیہ بن رہی ہے، جو مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام کرے گی۔ (محمد وحید الدین قاسمی، دفتر جمعیت علمائے ہند دہلی)۔“ (مدینہ بجنور، 9/ ستمبر1945۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/757)

مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا قیام

چنانچہ 18-17/ ستمبر1945کی نشستوں میں لمبی بحث و گفتگو کے بعد ”کل ہند مسلم پارلیمنٹری بورڈ“ قائم کیا گیا۔

آل انڈیا مسلم پارٹیز کانفرنس کا اجلاس ہوا۔ جس میں جمعیت علمائے ہند کے علاوہ کل ہند احرار اسلام،…… اور قوم پرور خیالات کی حامل کئی اور جماعتیں شامل تھیں۔ اجلاس آئندہ انتخابات میں حصہ لینے اور دیگر امور کی انجام دہی اور قیام نظم کے لیے ایک ”کل ہند مسلم پارلیمنٹری بورڈ“ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔

پارلیمنٹری بورڈ کی صدارت کے لیے حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کا اسم گرامی بہ اتفاق رائے طے پاگیا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/772)

اس اجلاس میں شرکت کرنے والے اراکین اور نمائندگان کی کل تعداد دو سو چھ تھی۔ اجلاس نے سب سے پہلے ایک تجویز میں ورکنگ کمیٹی کی کارروائی کو قابل مبارک باد قراردیا کہ اس نے وقت کی نزاکتوں پر نظر کرکے ملک کی متعدد آزادی خواہ جماعتوں اور افراد کی شرکت سے ایک آل انڈیا مسلم پارلیمنٹری بورڈ بنایا ہے، تاکہ متحدہ طور پر سب آزادی خواہ مسلمان مرکزی اور صوبجاتی انتخابات میں حصہ لے سکیں۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/787)

تجویز کا متن درج ذیل ہے:

مرکزیہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس مجلس عاملہ کی اس کارروائی کو قابل مبارکباد سمجھتا ہے کہ اس نے وقت کی نزاکتوں پر نظر کرکے ملک کی متعدد آزادی خواہ جماعتوں اور افراد کی شرکت سے ایک آل انڈیا مسلم پارلیمنٹری بورڈ بنایا ہے، تاکہ متحدہ طور پر سب آزادی خواہ مسلمان مرکزی اور صوبجاتی انتخاب میں حصہ لے سکیں۔ مرکزی جمعیت علما کا یہ جلسہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔

مولانا بشیر احمد صاحب کی تائید کے بعد بالاتفاق ریزولیوشن پاس ہوا۔“(جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/271)

جمعیت کی اراکین مرکزیہ کی مسلمانوں سے اپیل

مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے قیام کے بعد جمعیت کی اراکین مرکزیہ نے آئندہ انتخابات میں حریت پسند مسلمانوں کو ان کا فرض بتلاتے ہوئے ان سے درج ذیل اپیل کی:

دہلی25/ ستمبر۔ چوں کہ حکومت کے اعلان کے مطابق مرکزی اور صوبائی انتخابات عنقریب ہونے والے ہیں اور چوں کہ اس کی ضرورت ہے کہ مسلمان اس کا فیصلہ کریں کہ آزادی ملک اور پانی موجودہ حالت بہتر بنانے کے لیے، انھیں کسی قسم کے نمائندہ اجتماع جمعیت علمائے ہند کی دعوت پر دہلی میں ہوا، جس میں جمعیت علمائے ہند، آل انڈیا مومن کانفرنس، آل انڈیا مسلم مجلس، کرشک پرجا پارٹی بنگال، خدائی خدمت گار سرحد، انڈی پنڈنٹ پارٹی بہار اور دوسرے آزادی پسند مسلمانوں نے نہایت غورو خوض کے بعد متفقہ طور پر فیصلہ کیاکہ مسلم لیگ کی موجودہ پالیسی اور اس کا نصب العین نہ صرف ملک کے لیے؛ بلکہ خود مسلمانان ہند کے لیے نہایت غلط، ضرر رساں اور تباہ کن ہے۔ اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ ایک متحدہ پلیٹ فارم قائم کرکے ایک مرکزی پارلیمنٹری بورڈ کی نگرانی میں مسلمانوں کے صوبائی اور مرکزی الیکشن لڑانے کا انتظام کیا جائے اور اپنے اپنے نمائندے اس بورڈ کے لیے منتخب کردیں۔ چنانچہ اس تجویز کے کے مطابق ایک مسلم پارلیمنٹری بورڈ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی کی صدارت میں قائم کیا گیا ہے۔

پس جمعیت مرکزیہ علمائے ہند تمام مسلمانوں سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ وہ صرف ان امیدواروں کو اپنے ووٹ دیں اور انھیں کو کامیاب بنانے کی پوری جدوجہد کریں، جنھیں مسلم پارلیمنٹری کی تائید و حمایت حاصل ہو۔ ایسے امید واروں کو کامیاب بنانا اس لیے ضروری ہے کہ انھیں نمائندگان کے ذریعہ ہندستان کے مقصد آزادی کے لیے کوشش اور مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور معاشرت وغیرہ کی مکمل حفاظت کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سرکار پرست اور جاہ طلب افراد کی غلط پروپیگنڈہ سے محفوظ رکھیں۔ مسئلہ اتنا نازک اور اہم ہے کہ جذبات کی رو میں بہہ کر نمائشی نعروں سے متاثر ہوکر اگر انھوں نے کوئی غلط قدم اٹھایا، تو یقینا انھیں اتنا سخت نقصان پہنچے گا، جس کی تلافی ناممکن ہوجائے گی۔

مرکزیہ جمعیت علمائے ہند تمام مسلمانوں سے کامل توقع رکھتی ہے کہ وہ اپنی ملی غیرت اور فرض شناسی کا پورا ثبوت دیں گے۔“ (روزنامہ شہباز، لاہور، 26/ ستمبر1945)

مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا پیغام

۶/ اکتوبر1945: دہلی آزاد مسلم پارلیمنٹری بورڈکے دفتر نے حسب ذیل احکام جاری کیے ہیں:

ہم آزادی کی خواہ مسلمان اور انگریزی شہنشاہیت اور اس کی سیاسی فوجوں کو شکست دینے اور اپنی زندگی کو بچانے کے لیے آخری جدوجہد میں حصے لے رہے ہیں۔ ہمیں انتخابی محاذ پر بہت سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔ اس وقت تمام دنیاوی مصروفیتوں کو چھوڑ دینا چاہیے اور اپنا اولیں فرض یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر حلقہ میں زیادہ سے زیادہ غریب مسلمان - جو ہمارے ہمدرد ہوں - ووٹر بن جائیں۔ ایک منٹ ضائع کیے بغیر ووٹر بنانے کی کوشش شروع کردینی چاہیے۔ ذراسی غفلت تباہ کن ہوگی۔ حکومت نے مسلم لیگ کی آرزو کے مطابق یہ طے کیا تھا کہ صرف امیروں کے ووٹوں سے نیا انتخاب ہو؛ مگر مولانا ابوالکلام آزاد نے اس پالیسی پر ضرب رسید کی اور حکومت کو مجبور کردیا کہ غریبوں کو ووٹر بنایا جائے۔ اس حق سے ضرور فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔“ (مدینہ، بجنور، ۹/ اکتوبر 1945۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/807)

الیکشن کی ہنگامہ آرائیاں

جمعیت علمائے ہند اور آزادی خواہ تنظیموں نے ہندستان کی آزادی اور مسلم لیگ نے مطالبہ پاکستان اور حکومت اسلامی کے قیام کے نعرے کے ساتھ الیکشن میں سرگرم حصہ لیا۔

وائسرائے کے اس (مرکزی و صوبائی انتخابات کے)اعلان کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں سرگرم عمل ہوگئیں اور پورے ملک میں جلسوں اور جلوسوں کا سیلاب آگیا اور فلک شگاف نعروں کی دھوم مچ گئی۔ یہ الیکشن درحقیقت ہندستان میں آزادی کی پہلی منزل ہے، تھی اور یہی الیکشن آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والا تھا۔ یہ الیکشن کسوٹی تھی مسلم لیگ کی واحد نمائندگی اور کانگریس کے اس دعویٰ کی: وہ ہندستان کے ہر فرقہ کی نمائندہ ہے۔ الیکشن فرقہ وارانہ بنیاد پر تھا۔ مسلمانوں کو صرف مسلم امیدواروں کو منتخب کرنا۔ اس طرح براہ راست مقابلہ مسلم لیگ اور جمعیت علمائے ہند اور دوسری قوم پرور جماعتوں کے درمیان ہوگیا۔ اگر مسلم لیگ اس الیکشن کے میدان میں سرخ روہوکر نکلتی ہے، تو کوئی طاقت اس کو پاکستان حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی ہے۔ اس لیے مسلم لیگ نے اپنی ساری طاقت اور اپنے سارے حربے اس الیکشن میں استعمال کیے۔“ (تاریخ جمعیت علمائے ہند، جلد اول، ص/155)

مسلم لیگ کے ہتھکنڈے

مسلم لیگ نے ہر جگہ ”مسلم نیشنل گارڈ“ کے نام سے نوجوانوں کو بارودی رضاکار کی شکل دے دی تھی، جس میں کچی عمر کے نواجوان شامل تھے۔ راقم الحروف کے وطن میں ہر جمعہ کو بعد نماز جمعہ ان کا بارودی جلوس نکلتا تھا۔ پاکستان زندہ باد، سینہ پر گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے، ہندی ہندو ہندستان،لے کے رہیں گے، پاکستان، کے نعرے اس جوش و جذبے سے لگاتے تھے، جیسے سچ مچ نوجوانوں کا یہ دستہ محاذ جنگ پر ہے۔ یہ جلوس پورے قصبہ میں گشت کرتا تھا۔ اس کے ساتھ پرجوش عوام کی بھیڑ ہوتی تھی۔ مسلمانوں کے بعض فرقے، جو علمائے دیوبند کے سخت دشمن ہیں، ان کی دشمنی اور ضد میں سو فی صدی اور بعض خانقاہوں سے وابستہ مریدین کا ایک زبردست حلقہ مسلم لیگ اور پاکستان کا زبردست حمایتی تھا۔ اور قصبہ کے اکثر مال دار افراد بھی ہمنوا تھے۔ اس طرح کے سارے لوگوں کا مجمع اس جلوس میں شامل ہوتا تھا۔ یہ جلوس ہمارے جیسے لوگوں کے سامنے سے گذرتا تھا، تو وہ ناشائستہ  حرکتیں کرتا تھا کہ دل و دماغ دونوں کھول جاتے تھے۔ شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ اور مولانا آزادؒ پر تبرہ بازی ہوتی اور سارا جلوس قہقہے لگاتا تھا۔……

علما ومشائخ کا ادب و احترام تو دور کی بات تھی، ان کے ساتھ انسانیت و شرافت کا بھی سلوک کرنا مسلم لیگ والوں کے لیے حرام تھا۔ عوام میں غنڈہ گردی کی ایک لہر چل پڑی تھی۔ سماج میں باوقار لوگ کس طرح انسانیت کی سطح سے بھی نیچے اتر آئے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا اس کے سوا کیا کہا جائے کہ پاکستان کے سحر نے ان کو مسحور کردیا تھا اور وہ دیوانوں کی طرح ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے تھے۔ غنڈوں اور بازاری لوگوں کی طرح حرکتیں کرتے تھے۔ سید پور میں مولانا حسین مدنیؒ کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ علی گڑھ میں مولانا آزادؒ پر حملہ کیا گیا۔ کلکتہ میں مولانا رعبد الرزاق ملیح آبادی پر اور مولانا محمد نصیر صاحب پر فیض آباد میں چھرے سے حملہ کرکے زخمی کیا گیا۔ بھاگلپور میں مولانا مدنیؒ پر کار میں پیچھے سے حملہ کیا گیا۔ گیا میں مولانا محمد قاسم شاہ جہاں پوری اور مولانا محمد اسماعیل سنبھلی کی ایک مسجد میں گھیر کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ استصواب رائے کا یہ الیکشن اسی ماحول میں ہورہا تھا۔

اسی الیکشن کے زمانہ میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی ملتان سے واپس ہورہے تھے۔ لاہور سے پنجاب میل میں سوار ہوئے۔ لاہور اسٹیشن کے لیگی عناصر نے ریلوے کے ٹیلیفون سے آگے والے اسٹیشنوں کو فون کردیا کہ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمان اس ٹرین سے جارہے ہیں، ان کے خلاف شان دار مظاہرہ ہونا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امرتسر، جالندھر، لدھیانہ وغیرہ پنجاب کے جن جن اسٹیشنوں پر پنجاب میل رکنے والا تھا؛ ہرجگہ آبرو باختہ لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہواگیا اور ڈبے کو گھیر کر نہایت گندے اور فحش نعرے لگائے۔ مغلظات گالیاں دیں۔ ہندووں کا دلال، زر خرید غلام، عوام کے چندہ کا حرام خور مردہ باد اور سب کی تان ٹوٹتی تھی”پاکستان زندہ باد“، ”لے کے رہیں گے پاکستان“پر، اور جب نعروں سے تسلی نہیں ہوئی، تو ریلوے لائن سے پتھروں کے ٹکڑے لے کر ڈبے پر برسانان شروع کردیا۔ صرف ۲ نفر عمر رسیدہ مقدس مظلوم ایک، سیکڑوں اور ہزاروں کی بے قابو بھیڑ دوسری طرف اور ہر حرکت پر آمادہ۔ اللہ محافظ تھا۔ ان دونوں بزرگوں کو کوئی خاص چوٹ نہیں آئی؛ البتہ مجاہد ملت کے ایک ہاتھ پر چوٹ آئی۔ کھڑکیوں کے شیشے چور ہوگئے۔ پھر لکڑی اور جالیوں والی کھڑکیاں چڑھادی گئیں، تو وہ بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ گئیں۔

مولانا آزادؒ شملہ سے کلکتہ جارہے تھے، اسی ٹرین سے لیگی لیڈروں کی ایک ٹیم بھی سفر کررہی تھی۔ روانگی کے وقت یونی ور سیٹی میں ٹیلیفون کردیا گیا کہ طلبہ اسٹیشن پر آجائیں۔ مولانا آزاد اسی ٹرین سے چل رہے ہیں۔ یونی ورسیٹی میں خبر پھیل گئی۔ طلبا کا ایک جم غفیر ٹرین پہنچنے سے پہلے ہی اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ جوہر تعلیم سے آراستہ مسلمان گھرانوں کے چشم و چراغ، مہذب خاندانوں کی اولاد نے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر اپنی شرافت و تہذیب کا وہ مظاہرہ کیا کہ شرافت و انسانیت نے اس طرف سے نگاہیں پھیرلیں؛ کیوں کہ ان کی پتلونیں کھلی ہوئی تھیں۔ اور جب ٹرین چلنے لگی تو زنجیر کھینچ کر ٹرین کو روک دیا گیا۔ اس طرح ایک گھنٹہ مسلسل اور بار بار ٹرین کو روک کر مولانا آزاد کے ڈبے کے سامنے ننگا ناچ ہوتا رہا۔ غلاظت سے بھرے ہوئے جملے، گالیاں، فحش نعرے اس رقص بے محاباکے لیے تال سر کا کام دے رہے تھے۔“ (تاریخ جمعیت علمائے ہند، جلد اول، ص/1958-60)

شیخ الاسلام کو قتل کرنے کی کوششیں

جمعیت علمائے ہند اور مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے صدر شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کو متعدد بار قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ چنانچہ 29/ ستمبر1945کو سید پور بنگال میں ایک بے ہنگم بھیڑ نے آپ پر حملہ کردیا۔

سید پور بنگال میں قتل کی کوشش

29/ ستمبر۔ دوسرے روز ناشتہ کے بعد علمی مجلس رہی۔ عصر کے بعد نماز عصر ڈومر میں تقریر فرمائی۔ بعد مغرب سید پور روانہ ہوئے۔ وہاں لیگی غنڈوں کے ایک جم غفیر نے حضرت اور ان کے رفقا کو گھیر لیا اور راستہ روک دیا۔بمشکل تمام پلیٹ فارم سے باہر نکلے۔ لیگی بلوائی حضرت کو کسی صورت سے آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے۔ سیاہ جھنڈیاں لیے ہوئے مردہ باد کے نعرے لگارہے تھے۔ اکثر غنڈے شراب کے نشے میں مست تھے۔ایک لیگی نے حضرت مدنی مدظلہ کے سر سے ٹوپی اتارلی۔ لیگیوں نے رفقائے سفر کو پوری سرگرمی سے گھونسوں اور مکوں سے زود کوب کیا۔ گاڑی بان کو زخمی کردیا۔ پولیس کو خبر دی گئی، لیکن منزل مقصود یعنی اس گاوں تک پہنچانے کی ذمہ داری نہ لے سکی۔ اس لیے آگے بڑھنا لیگیوں نے ناممکن کردیا تھا۔شب بھر اسٹیشن ہی پر واپس ہوکر قیام فرمایا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/798)

کٹیہار بہار میں حملہ

30/ ستمبر1945: صبح کو واپس کٹیہار تشریف لائے۔ یہاں کا واقعہ اپنی نوعیت میں سب سے زیادہ شرمناک اور افسوس ناک ہے۔ لیگیوں نے (جن میں شہر کے غنڈوں کے علاوہ اسکو کے طلبہ زیادہ تھے) ایک گھڑے میں کیچڑ گھولا اور ایک ہار بوسیدہ جوتوں کا، ایک شہد کا چھتہ نالی کی غلاظت میں ڈبوکر لائے۔ سیاہ جھنڈیاں دکھا کر مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔

حضرت بھاگلپور جانے والی گاڑی میں سکنڈ کلاس کے ڈبہ میں تشریف فرما تھے۔ ڈبے کے پاس آکر نہایت فحش اور گندی گالیاں اور نعرہ لگالگا کر شور مچارہے تھے۔ ان کی تعداد بہت کافی تھی۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/798)

بھاگلپور بہار میں حملہ

یکم اکتوبر1945: دن کو ناتھ نگر میں، پھر چمپا نگر میں عظیم الشان جلسے ہوئے۔ …… سہ پہر کو جلسہ گاہ جاتے وقت لیگیوں نے شور برپا کیا، جو بیان سے باہر ہے۔ یہاں حضرت کو غنڈوں نے گھیر لیا۔ یہاں بھی شہر کے غنڈوں کے علاوہ مسلم ہائی اسکول کے طلبا کے ایک جم غفیر نے حضرت کے رفقا کو گھیر لیا۔ اور جلسہ گاہ جانے سے روکنے لگا۔ تیس چالیس لڑکے سیاہ جھنڈیاں لیے ہوئے تھے۔ غدار قوم مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، مکے گھونسے چلانے لگے۔ خدا کے فضل سے حضرت کو ضرب نہیں آئی۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/799)

لیگیوں کی شرم ناک حرکتوں پر مولانا مدنیؒ کا جواب

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی مد ظلہ نے حسب ذیل بیان شائع کیا ہے:

جو بدعنوانیاں میرے ساتھ سید پور، کٹیہار، بھاگلپور میں اور حضرت مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالوفا، مولانا محمد قاسم شاہ جہاں پوری اور مولانا عبد الرزاق صاحب ملیح آبادی کے ساتھ علی گڑھ، گیا اور کلکتہ میں مسلم لیگیوں نے جو خلاف انسانیت اور اسلامیت سوز بد عنوانیاں کی ہیں، یا دہلی اور کان پور میں آزادی پسند مسلم جماعتوں کے ساتھ عمل میں لائی جارہی ہیں، وہ یقینا ملت اسلامیہ کے لیے شرم ناک ہیں؛ مگر میں تمام مسلمانوں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ صبرو استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور ان بدنام کنندگان ملت اسلامیہ کے جواب میں کسی بد تہذیبی کو عمل میں نہ لائیں۔

حقیقی جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے امن و سکون کے ساتھ مہذب طور پر پوری جدوجہد کی جائے، تاکہ مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے نامزد امیدوار کامیاب ہوں۔ اگر آپ ایسا کرنے میں فائز المرام ہوگئے، تو لیگ اور اس کی مجرمانہ شوخیاں خود بخود مرجائیں گی اور ہندستان آزادی کے کنارے پر پہنچ جائے گا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد سوم، ص/962)

مرکزی اسمبلی الیکشن کا نتیجہ

آوائل جنوری 1946میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کانتیجہ سامنے آیا۔اس انتخاب میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے مخصوص سبھی تیسوں نشستیں جیت لیں اور بہت سی جگہوں پہ مسلم نیشنلسٹوں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں - غیر مسلم حلقہ ہائے انتخاب میں کانگریس کی کامیابی بھی اسی طرح حیرت انگیز تھی-مسلم لیگ نے کل مسلم نشستوں میں سے 86.6 فی صد اور کانگریس نے کل عام نشستوں میں 91.3 فی صد حاصل کیں -مرکزی قانون ساز مجلس کے حتمی اعداد و شمار حسب ذیل تھے:کانگرس: 57۔مسلم لیگ: 30۔آزاد:5۔اکالی سکھ:2۔ یورپی: 8۔ میزان:102۔اس جیت کی خوشی میں مسلم لیگ نے ۱۱/ جنوری کو یوم فتح منانے کا اعلان کیا۔

بمبئی۔ 30/ دسمبر۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ مرکزی اسمبلی کے نتائج سے سبق لے کر ہمارے مخالفین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کی بے سود کوششوں سے باز آجائیں۔ آپ نے دعویٰ کیا کہ یہ نتائج پاکستان اور مسلم لیگ کی واحد نمائندگی کے حق میں مسلمانوں کے واضح فیصلے ہیں۔

اس غیر معمولی اور عدیم النظیر کامیابی پر خوشیاں منانے کے لیے قائد اعظم نے ہدایت فرمائی کہ ہم 11/ جنوری (1947)بروز جمعہ پہلے مقابلہ میں اپنی شان دار فتح کا دن منائیں۔“ (روزنامہ منشور دہلی،یکم جنوری 1947)

صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات

مرکزی اسمبلیوں کے بعد فروری 1946سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات شروع ہوئے، جس میں سبھی پارٹیوں نے اپنی اپنی جیت درج کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ حتیٰ کہ نفرت و عداوت، مار دھاڑ اور غنڈہ گردی سے بھی کام لیا گیا۔ 

مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب کی عداوت

مسلم لیگ کی کانفرنس منعقدہ لاہور میں مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مولانا حسین احمد صاحب مدنی کی محبت میں مجھے جنت بھی ملے، تو میں جنت میں نہ جاوں گا۔“ (شہباز لاہور، 17/ فروری1946)

مسلم لیگ کے الیکشنی فتوے

مسلم لیگ نے الیکشن میں جیت حاصل کرنے کے لیے جہاں غنڈہ گردی اور ماردھاڑ سے کام لیا، وہیں مسلمانوں کے مختلف مسالک کے علمائے کرام اور صوفیائے عظام سے حمایت حاصل کرنے کے لیے فتوے بھی حاصل کیے:

 حضرت دیوان سید آل رسول علی خاں مدظلہ آستانہ علیہ اجمیر شریف کا ارشاد ہے …… مسلم لیگ نے حصول پاکستان کے لیے انتخابات لڑنے کا اعلان کردیا ہے، اس لیے ہر مسلمان دل و جان کے ساتھ مسلم لیگ کے ساتھ ہوجائے۔

حضرت پیر لاڈلے حسین شاہ مد ظلہ سجادہ نشین گلبرگہ شریف دکن نے فرمایا …… کہ صرف مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی جماعت ہے۔

مولانا حافظ خوانہ غلام سدید الدین مدظلہ سجاد نشین تونسہ شریف نے ایک خاص اعلان میں فرمایا …… مریدان باصفا اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ مسلم لیگ کا ساتھ دیں۔

حضرت سجادہ نشین صاحب مدظلہ دربارپاک پٹن شریف کا ارشاد ہے کہ ……مسلمانوں کے ووٹ کے حق دار صرف مسلم لیگی نمائندے ہیں۔

مولانا الحاج سید شاہ غلام محی الدین چشتی نظامی مد ظلہ سجادہ نشین گولڑہ شریف نے فرمایا  ……مسلمانو! اس معرکہ حق و باطل میں مسلم لیگ کا ساتھ دو۔

مولانا حافظ شاہ محمد قمر الدین چشتی نظامی مدظلہ سجادہ نشین سیال شریف کا ارشاد ہے …… ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جنگ پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دے۔

زبدۃ العارفین قدوۃ السالکین حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری مدظلہ نے فرمایا …… محمد علی جناح ہمارا بہترین وکیل ہے اور مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔

حضرت مولانا سید فضل شاہ مد ظلہ امری حزب اللہ جلال پور شریف کا ارشاد ہے …… مسلمانو! وحدت امت کو قائم رکھو اور مسلم لیگ کا ساتھ دو۔ (شعبہ نشرواشاعت پنجاب مسلم لیگ)۔“ روزنامہ منشور،۶/ جنوری 1946)

دربار امام ربانی مجدد الف ثانی سرہند شریف کا پیغام مسلمانان بنگالہ کے نام: تمام مسلمان ذاتیات کو چھوڑ کر مسلم لیگ کی خدمت کریں۔…… دعا گو خلیفہ سید مقبول احمد سجادہ نشین دربار عالیہ مجددیہ سرہند شریف۔“ (روزنامہ منشور دہلی، 20/ مارچ1946)

صدر مسلم لیگ یوپی کا بیان

صوبائی الیکشن کے وقت صدر مسلم لیگ محمد اسماعیل خاں نے مسلمانان یوپی کے نام درج ذیل پیغام دیا

یہ انتخابات پاکستان کی بنیادکا ستون اول ہے۔ ان کے نتائج مسلمان قوم پرور اور صاحب حکومت و اختیار زندگی کی تعمیر کا باعث ہوں گے۔ مسلم لیگ وزارتوں یا موجودہ صوبائی اختیارات کے حصول کے لیے جدوجہد نہیں کر رہی ہے؛ بلکہ وہ پاکستان حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اور اس کے لیے الگ مجلس آئین ساز منواکر رہے گی۔ اور دنیا پر یہ ثابت کردے گی کہ مسلمان اپنی آزادی کی تشکیل و تعمیر خود ہی اپنی منشا کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ مسلمانان یوپی اپنے فرض کو بخوبی ادا کریں گے۔ اور اس شر انگیز مداخلت کو -جو مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے کانگریس کر رہی ہے، بالکل ناکام کردیں گے اور اپنا ایک ایک ووٹ صرف مسلم لیگو کے امیدواروں کو دے کر یہ ثابت کردیں گے کہ وہ کسی ایسے آئین کو ہرگز منظور نہیں کرسکتے، جو پاکستان کی بنیاد نہ نی بنایا گیاہو، خدا تمھارا مدد گار ہے۔ محمد اسماعیل خاں صدر مسلم لیگ۔“ (روزنامہ منشور دہلی،6/ مارچ 1946)

جمعیت علما کے امیدوار کے گھر کو جلا دیا گیا

مسلم لیگ نے فتووں کے علاوہ مار دھاڑ اور غنڈہ گردی سے بھی کام لیا۔

کلکتہ، 25/ مارچ سید پور کانگریس کمیٹی کے سکریٹری نے ذیل کا تار صدر کانگریس مولانا ابوالکلام صاحب آزادؒ کے نام بھیجا ہے:

22/ تاریخ کی شب کو لیگی شورش پسندوں نے مولوی ریاض الدین احمد کے مکان کو آگ لگادی۔ آپ جمعیت علما کے ٹکٹ پر نیلفادی مسلم دیہی حلقہ سے انتخاب لڑرہے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ مولوی صاحب کا ایک لاکھ کا نقصان ہوگیا۔

نو اشخاص بری طرح زخمی ہوگئے ہیں۔ مولوی صاحب کا مکان مدرسہ ملٹری کیمپ کے متصل واقع ہے۔“ (روزنامہ اجمل ممبئی، 26/ مارچ 1946)

مسلم لیگ فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے میں کامیاب رہی اور جمعیت علمائے ہند اور قوم پرور مسلمانوں کو جتنی سیٹیں ملنی چاہیے، وہ نہ مل سکیں؛ حتیٰ کہ مسلم اکثریتی حلقے میں بھی جمعیت علمائے ہند کے امیدوار ہار گئے۔ چنانچہ جمعیت کے ٹکٹ سے انتخاب لڑنے والے ڈاکٹر مرتضی علی سلہٹ آسام میں ہار گئے اور آپ کے بالمقابل مسلم لیگ کے امید واردیوان عبد الرب چودھری جیت گئے۔(روزنامہ منشوردہلی، 28/ جنوری 1946) اور مسٹر مقبول احمد نواکھالی سنٹرل مسلم حلقے سے ہار گئے، ان کو 3555ہی ووٹ مل سکے۔(روزنامہ اجمل ممبئی، 29 مارچ 1946)

اسمبلی الیکشن کے نتائج

انتخابات کے فورا بعد  صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے نتائج سامنے آگئے۔

دستور ساز اسمبلی میں برطانی ہند اور ریاستوں کے نمائندوں کے لیے 389نشستیں رکھی گئی تھیں،ان میں سے 207نشستوں پرکانگریس کے امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں۔ اور 73نشستوں پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا ہے۔“(روزنامہ انجام دہلی، 27/ جولائی 1946)

اس الیکشن میں مسلمانوں کے لیے 78نشستیں مخصوص تھیں، جن میں سے 73نشستوں پر مسلم لیگ نے جیت درج کراکر دوسری بڑی پارٹی کا درجہ حاصل کرلیا، یعنی اس نے مرکزی اسمبلی کے تمام مسلم حلقوں کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے زیادہ تر مسلم حلقوں پر قبضہ کر لیا۔اور اسی انتخاب نے پاکستان کا راستہ کھول دیا۔

الیکشن کے بعد صدر جمعیت کا بیان

اب جب کہ تمام صوبوں کے انتخابات ختم ہوچکے ہیں اور ان کے نتائج کا اعلان بھی بڑی حد تک کیا جاچکا ہے، میں جمعیت علمائے ہند کی جانب سے ان تمام رائے دہندگان کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں، جنھوں نے جمعیت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے امیدواروں کے حق میں رائے دی اور ان اہم اسلامی مقاصد کو تقویت پہنچانے کے لیے پوری جدوجہد کی، جن کے لیے جمعیت نے اس مرتبہ انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ انتہائی بے سروسامانی اور عدم تیاری کے باوجود کم از کم وقت میں ہمیں امید ہے کہ کہیں زیادہ کامیانی حاصل ہوئی۔ جس نے مستقبل کے متعلق ہماری توقعات کو نہایت روشن بنادیا۔ اور اپنے جدید تجربات کے بعد ہم قوی امید رکھتے ہیں کہ جوں جوں حق رائے دہندگی کو وسعت ہوتی جائے گی اور عامۃ المسلمین اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے میں آزاد ہوتے جائیں گے، توں توں جمعیت علما اور دوسری آزاد خیال جماعتوں کی مکمل کامیابی کے امکانات پڑھتے چلے جائیں گے۔

میں جس وقت ان مسلمانوں کے جوش و خروش اور ایثار و قربانی کا اندازہ لگاتا ہوں، جنھوں نے زبردست اشتعال اور بے پناہ تشدد کے باوجود نہایت خاموشی اور استقلال کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھا، تو میرے دل میں ان مسلمانوں کی عزت وعظمت بہت بڑھ جاتی ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کو عمدا گمراہ نہ کیا جائے اور غلط پروپیگنڈا کے ذریعہ انھیں صحیح مقصد سے ہٹانے کی کوشش نہ کی جائے، تو آزادی کے لیے ان کی تڑپ اور جذبہ عمل کا مقابلہ اور کوئی قوم نہیں کرسکتی۔ حکومت نے انتخابات کا اعلان اچانک کیا تھا۔ اور اس جماعت کے اشارے سے کیا تھا، جو سالہا سال سے مسلمانوں کو ایک خاص طریقہ پر تحریک آزادی کے خلاف ابھارتی رہی ہے۔ مگر جوں ہی مسلم پارلیمنٹری بورڈ کی تشکیل ہوئی، ہمارے سارے کارکن اور ہماری مقامی جماعتیں فورا اس طرف متوجہ ہوگئیں اور کام شروع کردیا۔ میں اس مستعدی اور ہمت کے لیے جمعیت علما کی ماتحت مجالس اور دیگر آزد خیال جماعتوں اور کارکنوں کا خاص طور پر شکر گذار ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ اپنے تجربوں کے بعد آئندہ کام کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھیں گے۔ میرے دل میں عام مسلمانوں کے خلاف کوئی جذبہ نفرت نہیں، جنھیں جان بوجھ کر مخصوص اغراض کے استعمال کیا گیا اور جن سے اسلامی روایات اور اسلامی اخلاق کے بالکل خالف ایسی حرکات سرزد کرائی گئیں، جو کسی مذہب میں جائز نہیں ہیں۔

آزاد خیال امیدواروں پر قاتلانہ حملے اور ان کے املاک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے آتش زدگی کی وارداتیں ایسے سیاہ کارنامے ہیں، جو ہندستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھے جائیں گے۔ جو افراد یا جماعتیں ان افعال کی ذمہ دار ہیں، انھیں شرم آنی چاہیے کہ اس سب کچھ کے باوجود جمعیت سے وابستگی رکھنے والوں نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں ان حضرات کا جنھیں اس قسم کے حادثات میں کوئی نقصان پہنچا، جمعیت کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حق تعالیٰ انھیں اجر عظیم عطا فرمائے۔

بہت سے حلقوں میں مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے امیدواروں کا کامیاب ہوجانا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ واحد نمائندگی کے جو دعوے کیے جارہے ہیں، وہ باطل ثابت ہوچکے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ان کارکنوں اور رائے دہندگان کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جنھوں نے دن رات ایک کرکے اس مہم کو کامیاب بنایا۔

میں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتا کہ انتخابی مہم کو حکومت اور رجعت پسند جماعتوں کی باہمی سازش کے ذریعہ ہر قسم کے غلط اور مکروہ پیروپیگنڈہ کے باوجود جمعیت الانصار کے پرجوش ارکان اور عربی و انگریزی داں آزادی پسند طلبہ نے جس جرات و ہمت سے اس مہم کو سرکیا ہے، وہ لائق صد ہزار تبریک و تحسین ہے۔

میں ان شہدا کے ورثائے کرام کی خدمت میں اپنی اور تمام آزادی خواہ جماعتوں کی جانب سے پوری ہمدردی اور دل سوزی کا اظہار کرتے ہوئے مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔

آخر میں ہندستان کے آزادی طلب مسلمانوں کو اس موقع پر یہ انتباہ کرتا ہوں کہ انھیں انتخابات کے خاتمہ پر یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کے سامنے اب اور کوئی مہم نہیں ہے۔ اصل مہم اب آرہی ہے۔ ہمیں ہندستان کی آزادی کے لیے ہر وقت براہ راست جدوجہد کے لیے آمادہ رہنا چاہیے اور آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے لیے باعزت مقام کے حصول میں جمعیت علمائے ہند کے نقطہ نظر کوکامیاب بنانا چاہیے۔“ (روزنامہ شہباز لاہور، ۲/ اپریل 1946)

لیگیوں کی حرکت پر مولانا ابوالکلام آزادؒ کا بیان

الیکشن جیتنے کے لیے مسلم لیگیوں کے سیاہ کارنامے کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا آزادؒ نے ایک بیان دیا۔

دہلی، ۴/ اپریل۔ آج مولانا آزاد صدر کانگریس نے ایک طویل بیان دیتے ہوئے کہا کہ بنگال کے انتخابات ایک مذاق تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انتخابات پر صحیح معنوں میں انتخابات نہ تھے؛ بلکہ انھوں نے جہاد کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ان انتخابات میں لوگوں کو مذہب کے نام پر برانگیختہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کی گئی۔ انتخابات عموما سیاسی پروگرام کی بنا پر لڑے جاتے ہیں؛ لیکن بنگال میں مسلم لیگیوں نے ان پڑھ پیروں اور مذہبی پیشواوں کا سہارا لیا۔ ان کا اثر رو رسوخ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ان کے باپ داد بھی پیر اور مذہبی پیشوا تھے۔ وہ انجان اور ان پڑھ لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنا کام نکالتے تھے ان پیروں اور مذہبی پیشواوں نے فتوے پر فتویٰ دیا اور یہ اعلان کای اگر مسلم لیگ کے امیدواروں کو وو ٹ نہ دیے گئے تو ہندستان میں اسلام ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ مسلم لیگ کے مخالفین کو کافر تک کہا گیا۔

مسلم لیگیوں نے ماردھاڑ بھی کی، جس کی ثانی ملنی مشکل ہے۔ حکومت امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام رہی۔…… مولانا آزاد نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ مسلم لیگیوں نے انتخابات میں غنڈوں سے کام لیا۔ انھوں نے غیر لیگیوں کو زود کوب کیا اور انھیں لوٹا۔ …… اگر انتخابات آزادانہ فجا میں ہوتے، تو بہت سی ایسی نشستیں جو اس وقت مسلم لیگیوں کے قبضہ میں ہیں، غیر لیگی مسلمانوں کے قبضہ میں ہوتیں۔

مولانا آزاد نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر جبروتشدد ہوا۔ غیر لیگی پارٹیوں کے ایجنٹوں کو اپنا کام جاری رکھنے سے روکا گیا۔ غیر لیگی امدی وارں اور ان کے حامیوں کے مکانوں کو نذر آتش کردیاگیا۔ غیر لیگیوں کی جان و مال محفوظ نہ تھی۔ دوسری پارٹیوں نے اپنے حامیوں کو پرامن رہنے کی تلقین کی؛ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ کے غنڈوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ جہاں غیر لیگی مسلمانوں نے مقابلہ کیا، وہاں غیر لیگی مسلمانوں نے مقابلہ کیا،وہاں غیر لیگی امیدوار بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ کی بدعنوانیوں کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:

۱۔ پیروں اور مذہبی پیشواوں کو یہ فتویٰ دینے پر مجبور کیا گیا کہ اگر کسی نے غیر لیگی امیدوار کو ووٹ دیا، تو موت کے بعد اس پر عذاب الٰہی نازل ہوگا۔

۲۔ مسٹر جلال الدین ڈپٹی اسپیکر بنگال اسمبلی نے ایک سب ڈویژن افسر پر الزام لگایا کہ انھوں نے ایک ہجوم کو ان کی کار پر حملہ کرنے کی انگیخت کی۔

۳۔ مسٹر فضل الحق، سرعبد الحلیم غزنوی اور مسٹر محی الدین خاں پر مسلم لیگ کے حمایتوں کے حملوں کی اطلاعات اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ ۵/ دسمبر کو سید جلال الدین پر حملہ ہوا، ان کی کار کو شدید نقصان پہنچا۔ 27/ دسمبر کو ان پر دوبارہ حملہ ہوا۔ یہ دوسرا حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔ سید بدر الدجیٰ کو لیگ کے حامیوں نے ایک پولنگ اسٹیشن پر نہ جانے دیا۔ ۵/ مارچ کو ڈاکٹر ثناء اللہ پر حملہ کیا گیا۔ ان کی کار پاش پاش کردی گئی۔ مسٹر حبیب الرحمان چودھری کو اغوا کرلیا گیا۔ اور انھیں بند رکھا گیا۔ آخر پولیس نے موقع پر پہنچ کر انھیں آزاد کرایا۔ ایک اور غیر لیگی امیدوار مسٹر قاسم علی کو ان کے مکان پر بند رکھا گیا۔ مسٹر برات علی کو اغوا کرلیا گیا۔ انھیں مجبور ہوکر انتخاب سے اپنا نام واپس لینا پڑا۔ مسٹر محی الدین انصاری کو ان کے مکان میں قید رکھا گیا۔مولانا اسلام آبادی کا مکان جلادیا گیا۔ لیگیوں نے تشدد کی داستان اس قدر طویل ہے کہ اس مختصر سے بیان میں ان کا ذکر کرنا مشکل ہے۔“ (روزنامہ شہباز ۶/ اپریل1946)

مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا اجلاس

الیکشن کے ان حالات سے فرقہ ورانہ فضا مکدر ہوتی جارہی تھی، چنانچہ اس کی گتھی سلجھانے اور وزارتی مشن میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مشتمل فارمولا پیش کرنے کے لیے مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا ایک اجلاس کیا گیا۔

نئی دہلی، ۳/ اپریل۔ مرکزی مسلم پارلیمنٹری بورڈ کا اجلاس کل سے مولانا حسین احمد مدنی کی زیر صدارت ہورہا ہے۔ فرقہ وارانہ سمجھوتہ کے لیے اس فارمولا پر غور کر رہا ہے، جسے جمعیت علما کے لیڈروں نے پیش کیا ہے،تاکہ اسے وزارتی وفد کے سامنے پیش کیا جاسکے۔

آج کے جلسہ میں اس کے ممبران کے علاوہ مسٹر جی۔ ایم۔ سید، شیخ عبدالمجید اور سید عبداللہ بریلوی نے بھی شرکت کی۔ پارلیمنٹری بورڈ کے جو ممبران آج کے جلسہ میں شریک تھے، ان میں ممتاز اشخاص مولانا حفظ الرحمان، مولانا احمد سعید، مولانا محمد میاں اور مولانا داؤد غزنوی تھے۔

جلسے نے ایک تجویز منظور کی، جس میں بنگال میں حامیان مسلم لیگ کی غنڈہ گردی کی مذمت کی، جس کی وجہ سے جمعیت علما کے تین لیڈروں کے گھر جلا ڈالے گئے تھے۔ تجویزیں مقامی پولیس کے جانب دارانہ رویہ کی بھی مذمت کی گئی، جس کی وجہ سے ان لیڈروں کی حفاظت نہ ہوسکی۔ یہ لیڈران چٹاگاوں کے مولوی ریاض الدین، نظیر آباد کے مولوی اسلام الدین اور مولانا منیر الزماں ہیں۔ اول الذکر کی ایک لاکھ روپے کی جائداد جلا ڈالی گئی اور نظیر آباد میں ایک لائبریری اور مدرسہ میں آگ لگادی گئی۔

پارلیمنٹری بورڈ نے مولانا حسین احمد مدنی، مسٹر ظہیر الدین انصاری اور ڈاکٹر شوکت اللہ انصاری پر مشتمل ایک سب کمیٹی مقرر کی ہے، جو بورڈ کے پروگرام کے ماتحت صوبہ جاتی اسمبلیوں میں اس کے ممبران کی ہدایت کرے گی۔“ (روزنامہ اجمل بمبئی،۴/ اپریل 1946)

صدر جمعیت کی ہدایات

اس اجلاس کے بعد صدر جمعیت نے وابستگان جمعیت کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا:

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نے جمعیت علمائے ہند سے تعلق رکھنے والے جملہ حضرات کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات صادر فرمائی ہیں۔ ہر ایک ہمدرد جمعیت علما کا فرض منصبی ہے کہ بسرو چشم ان ہدایات کو تسلیم کرلے اور جان و دل سے ان پر عمل کرے۔

جمعیت علمائے ہند کے تمام اراکین، ممبران، عہدیداران اور تمام ہمدردان جمعیت علما سے میری پرزور استدعا ہے کہ وہ جمعیت علما کی مکمل تنطیم، اس کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے اور اس کے رضاکارانہ نظام یعنی انصار اللہ کو مستحکم کرنے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کریں۔ اور جس جفاکشی، ایثار اور خلوص کے ساتھ انھوں نے انتخابات میں حصہ لیا ہے، اسی تندہی، ایثار اور خلوص کے ساتھ جمعیت علما کی مکمل تنظیم اور اس کی مالی مدد اور اس کے مقاصد کی اشاعت اور اس کے نصب العین کی تبلیغ میں حصہ لیں۔

دوران الیکشن مخالفین جمعیت علما کی جانب سے جس جبرو تشدد کا مظاہرہ کیا گیا اور ان جمعیت علما کے غریب اور کمزور ہمدردوں پر جو زیادتیاں انتخابات کے بعد کی جارہی ہیں، ان کے انسداد کی صورت بھی صرف یہی ہے کہ جمعیت علما کے نظام کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے اور اس مبارک مسعود و مقصود کے لیے مندرجہ ذیل چند نقائص کی طرف توجہ دلاتا ہوں، جو ہر بہی خواہ جمعیت علما، بہی خواہ ملت، بہی خواہ نفوس اسلام پر عائد ہوتے ہیں اور استدعا کرتا ہوں کہ ان فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنی سعی اور جدوجہد کو وقف کردیا جائے۔

فرائض:

(۱) جمعیت علما کے ابتدائی ممبر زیادہ سے زیادہ بنائے جائیں اور ہر مسلم آبادی میں اس کی شاخیں قائم کردی جائیں۔

(۲) ہر ابتدائی ممبر سے ۲/ فیس ممبری کے ساتھ تنظیم جمعیت علما کے لیے کم ازکم مزید ۲/ کی درخواست کی جائے۔ (یہ زائد رقم مرکز جمعیت علمائے ہند کے لیے مخصوص ہوگی)

(۳) جگہ جگہ سے فرقہ وارانہ فسادات کی خبریں آرہی ہیں۔ اور خطرہ ہے کہ یہ سلسلہ متعدی ہوگا۔ جمعیت علما کے ہر ایک ہمدرد کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ اس کے زیر اثر حلقہ کی فضا درست رہے۔

کوئی اشتعال انگیز صورت اس کے حلقہ میں پیدا نہ ہو اور امن وامان قائم رکھنے کے لیے کسی بھی ممکن سعی اور قربانی سے دریغ نہ کرے۔

(۴) خلق خدا کی خدمت جمعیت علما کے ہر ایک ممبر اور ہر ایک رضاکار کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے۔ تبلیغ دین اور اشاعت علم سب سے افضل اور ابتدائی مذہبی تعلیم کی طرف خصوصیت سے توجہ کی جائے۔ تعلیم بالغان کے لیے محلہ وار شبینہ مکاتب قائم کیے جائیں اور ان میں اردو اور دینیات کی تعلیم دی جائے۔ نماز اور جماعت کا پابند بنایا جائے۔

(۵) انتخابات کے سلسلے میں جن پر مظالم کیے گئے اور جن کے نقصانات ہوئے، جمعیت علما کا فرض ہے کہ ان کی امداد میں پورا حصہ لے۔“ (روزنامہ اجمل ممبئی، 23/ اپریل 1946)

  الیکشن میں جمعیت کا ووٹ فی صد

مرکزی اسمبلی الیکشن اور صوبائی اسمبلی الیکشن میں آزاد مسلم پارلیمنٹری بورڈ اور جمعیت علمائے ہند نے کتنے امیدوار کھڑے کیے تھے، اس کی لسٹ مجھے نہیں مل سکی، تاہم جمعیت علمائے ہند کو کتنا ووٹ ملا، اس حوالے سے سید الملتؒ لکھتے ہیں کہ

اس قسم کی غنڈہ گردی اور منظم سازشوں نے الیکشن کی کامیابی کو قطعا ناممکن بنادیا تھا؛ مگر تاہم

(الف) صوبائی اسمبلیوں میں مجموعی حیثیت سے 16/ فی صدی نشستیں قوم پروروں نے حاصل کرلیں۔

(ب) ووٹوں کے اعداد و شمار نے ظاہر کیا کہ تقریبا چالیس فی صدی ووٹ جمعیت علما کے حق میں پڑے۔

(ج) ہندستان کی سیاست میں جمعیت علمائے ہند نے ایک آئینی حیثیت حاصل کرلی۔

(د) دہریت اور لادینی کے اس طوفانی دور میں مذہبی طبقہ بھی ہندستانی سیاست کا ایسا اہم عنصر بن گیا، جس کو کسی وقت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

(ھ) وہ علما جن کے اقتدار کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا تھا، خود اعلان کرنے والوں کو ان کے دامن میں پناہ لینی پڑی اور لیگ کے جن زعما نے 1937کے الیکشن کی کامیابی کو اپنے مینو فسٹو کو کمال گردانا تھا، ان کو اس مرتبہ کامیابی کے بعد علمائے کرام کا شکریہ ادا کرنا پڑا۔“ (علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، جلد دوم، ص/211)

الیکشن کے بعد

الیکشن کے بعد کیبنٹ مشن ہندستان آیا اورکانگریس، مسلم لیگ اور جمعیت علمائے ہند کے لیڈروں سے ملاقات کی۔ جمعیت علمائے ہند نے کیبنٹ مشن کے سامنے درج ذیل مطالبات رکھے:

مولانا حسین احمد صاحب مدنی اور دوسرے قوم پرور مسلم زعمائے نے وزارتی مشن سے جو ملاقات کی تھی، اس کی تفصیلات شائع نہیں ہوئی ہیں۔ اب یہ معلوم ہوا ہے کہ مولانا حسین احمد صاحب نے وفد کے سامنے جمعیت علما کی جانب سے حسب ذیل مطالبات پیش کیے تھے:

(۱) تمام سیاسی طاقت ہندستان کے ہاتھوں میں منتقل کردی جائے اور ہندستان کو مکمل آزادی دے دی جائے۔

(۲) ہمیں موقع دیا جائے کہ باہر کی مداخلت ختم ہونے کے بعد ہندستانی عناصر آزادی کے ساتھ اپنے معاملوں کو آپ حل کرسکیں۔

(۳) ہندستان میں مکمل آزاد اور فاقی حکومت ہونی چاہیے۔ وفاق کے اجزا صوبے  اپنی جگہ مکمل آزاد اور خود مختار ہوں، تاکہ مرکز وفاقی ریاستوں کی آزادی میں مداخلت نہ کرسکے اور مسلمان اپنے صوبوں میں اپنی قسمت کے خود مالک ہوں۔ ہر نیا اختیار صوبہ کو حاصل ہو۔ مرکز صوبوں کی مرضی کے ماتحت ہو۔ صوبے اپنی مرضی سے اور اپنی بھلائی کے لیے ہو، اختیار اس کو سپرد کردیں، وہ صرف اس پر قائم رہے۔

(۴) وفاق میں شرکت اور وفاق سے علاحدگی کا حق صوبوں کو حاصل ہونا چاہیے۔ اس طرح مرکزی کی بالادستی کا شبہ دور ہوجائے گا۔ جب ایک صوبہ اپنی حکومت کے ہر معاملہ میں آزاد ہوگا، اور اسے یہ حق ہوگا کہ چاہے تو مرکز سے وابستہ رہے اور چاہے تو وابستگی کے بعد علاحدہ ہوکر آزاد ہوجائے؛ تو یہ الزام باطل ہوجائے گا کہ متحدہ ہندستان کا مقصد مسلم صوبوں کی غلامی ہے۔

(۵) مولانا نے مطالبہ کیا کہ وعدے کے مطابق مرکز میں فورا قومی حکومت قائم کی جائے اور ہندو مسلم وزرا کی تعداد برابر ہو۔

(۶) مولانا نے فرمایا کہ انتخابات رائے دہندگی کے محدود و معیار کے ماتحت ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے ہندستان کے معاملہ کا فیصلہ نمائندہ اسمبلی کے ذریعہ کیا جائے، جس کے ماتحت تمام ملک کے بالغ رائے دہندے اپنا ووٹ استعمال کریں۔

آخر میں مولانا مدنی نے فرمایا: جمعیت علمائے ہند اس ملک کی منظم تاریخٰ جماعت ہے، اس کے لاکھوں ممبر ہیں اور تمام ہندستان میں اس کی شاخیں موجود ہیں۔“ (روزنامہ اجمل، بمبئی، 29/ اپریل 1946)

 کافی جدوجہد کے بعد انٹیرم گورنمنٹ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔


2 Sept 2021

کیبنٹ مشن کا پلان اور جمعیت علمائے ہند

 کیبنٹ مشن کا پلان اور جمعیت علمائے ہند

محمد یاسین جہازی

دسمبر 1945سے جنوری 1946کے درمیان مرکزی قانون ساز اسمبلی اور صوبائی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن کرائے گئے۔ یہ الیکشن جداگانہ طریقہ انتخاب پر مبنی تھا، یعنی مسلمان مسلمانوں کو ووٹ دیں گے اور ہندو ہندووں کو۔ مسلم لیگ نے پاکستان کے نعرے کے ساتھ الیکشن لڑا، جب کہ جمعیت علمائے ہند نے آزادی ہند کے نام پرمسلم پارلیمنٹری بورڈ کے تحت کانگریس کی حمایت کی۔اور براہ راست بھی اپنے امیدوار کھڑا کیے۔ مرکزی اسمبلی کا انتخاب دسمبر1945میں ٹوٹل 102نشستوں پر  ہوا۔ آوائل جنوری 1946میں نتیجہ سامنے آیا، جس میں 30/ نشستیں مسلمانوں کے لیے مخصوص تھیں،ان سب نشستوں پر مسلم لیگ نے جیت درج کرائی، جب کہ کانگریس کو کل 57نشستیں ملیں۔ 

اس کے بعد فروری اور مارچ 1946میں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوئے۔

”دستور ساز اسمبلی میں برطانی ہند اور ریاستوں کے نمائندوں کے لیے 389نشستیں رکھی گئی تھیں،ان میں سے 207نشستوں پرکانگریس کے امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں۔ اور 73نشستوں پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا ہے۔“(روزنامہ انجام دہلی، 27/ جولائی 1946) 

اس الیکشن میں مسلمانوں کے لیے 78نشستیں مخصوص تھیں، جن میں سے 73نشستوں پر مسلم لیگ نے جیت درج کراکر دوسری بڑی پارٹی کا درجہ حاصل کرلیا، یعنی اس نے مرکزی اسمبلی کے تمام مسلم حلقوں کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے زیادہ تر مسلم حلقوں پر قبضہ کر لیا۔اور اسی انتخاب نے پاکستان کا راستہ کھول دیا۔ 

الیکشن سے پہلے وائسرائے ہند لارڈ واویل نے اعلان کیا تھا کہ الیکشن کے بعد ایک ایگزیکیٹو کونسل تشکیل دی جائے گی اور ساتھ ہی قانون ساز اسمبلی بھی بنائی جائے گی۔ چنانچہ انتخابات کے بعد انگریزوں سے ہندستانیوں کو حکومتی اختیارات منتقل کرنے کے لیے 17/ فروری 1946کو ایک کیبنٹ مشن(Cabinet Mission) بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اسے وزارتی مشن بھی کہاجاتا ہے۔

”17/ فروری1946: 17/ فروری1946کو لارڈ پیتھک لارنس سکریٹری آف اسٹیٹس نے لندن میں دارالعوام میں اعلان کیا کہ برٹش حکومت نے ہندستان میں تین وزرا پر، یعنی سکریٹری آف اسٹیٹس لارڈ پیتھک لارنس(Pethick-Lawrenc)، بحریہ کے پہلے لارڈ مسٹر اے وی الیگزنڈر(A.V.Alexander) اور پریسیڈنٹ بورڈ آف ٹریڈ سر اسٹیفورڈ کرپس(Sir Stafford Cripps) پر مشتمل ایک کیبنٹ مشن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ وہ ہندستان کے نمائندوں سے گفتگو کرکے ملک میں اس پروگرام کے متعلق -جس کا وائسرائے نے اپنی 17/ فروری کی تقریر میں ذکر کیا ہے- قدم بڑھائیں۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/60)

حکومت برطانیہ کا بڑا اعلان 

”20فروری 1946: حکومت برطانیہ نے ایک بڑا قدم اٹھایا۔ 20/ فروری 1946کو ایٹلی (Clement Attlee)نے اعلان کیا کہ برطانیہ ”جون 1948تک اقتدار ہندستان کے ذمہ دار ہاتھوں میں منتقل کرنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت برطانیہ اس پر بھی غور کرے گی کہ برطانوی ہند کا اقتدار مقررہ تاریخ پر کس کو سونپا جائے، کسی مرکزی حکومت،یا کچھ علاقوں میں موجود صوبائی حکومتوں کو، یا کسی اور طریقے سے جو نہایت معقول نظر آئے۔“ (مسلم افکار، ص/256۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/64) 

 یہ تین رکنی مشن 23/ مارچ 1946کو ہندستان پہنچا اور 25/ مارچ کو ایک کانفرنس کرکے اپنی آمد کا مقصد بتایا کہ 

”ہم کوئی تجویز یا فارمولہ لے کر نہیں آئے، ہم یہ ارادہ لے کر ضرور آئے ہیں کہ ہندستانی لیڈروں سے مذاکرات کے بعد ایسا خاکہ بنایا جائے گا، جس کے تحت ہندستان کے مکمل ڈومینن اسٹیٹس کا انتظام ہوسکے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس ہسٹری کو جلد مرتب کریں اور درمیانی عرصے کے لیے انتظامات فی الفور کیے جائیں۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/81) 

مشن نے اور مشن سے وائسرائے ہند،صوبائی گورنروں، ایگزیکیٹو کونسل کے ممبران اور کانگریس و مسلم لیگ کے لیڈروں کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا۔ 4/ اپریل 1946کو مسٹر جناح نے مشن سے ملاقات کی۔ ویول کے مطابق یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔ 

”4/ اپریل 1946: مسٹر جناح مشن سے ملاقات کرنے پہنچے۔ یہ سلسلہ تین گھنٹے تک جاری رہا۔ ویول کا کہنا ہے کہ ”میرے خیال میں دو گھنٹے تو بالکل ضائع ہوئے۔“ …… ویول کہتا ہے کہ میں نے پاکستان کی سرحدات کے بارے میں پوچھا تو آدھ گھنٹے کی دل چسپ گفتگو کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہ لگا۔ اس ملاقات کی جو خفیہ رپورٹ تیار ہوئی، اس میں جناح کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سے وہ شخص یاد آتا ہے، جس پر اپنے ماں باپ کو ماردینے کا الزام تھا اور اس نے عدالت سے اس بنا پر رحم کی استدعا کی تھی وہ یتیم ہے۔“ (مولانا ابوالکلام آزادؒ اور قوم پرور مسلمانوں کی سیاست، ص/325۔ بحوالہ: شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/94) 

بعد ازاں 6/ اپریل 1946کو کانگریس کے صدر حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے کیبنٹ مشن سے ملاقات کی اور بالخصوص فرقہ وارانہ گتھی کو سلجھانے کے لیے حل پیش کیے۔ اس گفتگو کے نتیجے کے متعلق بتاتے ہوئے مولانا آزاد ؒ لکھتے ہیں کہ

”سر اسٹیفورڈ کرپس نے خاص طور پر میری تجویز میں دل چسپی لی اور بڑی دیر تک مجھ سے جرح کرتے رہے۔ آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ میرے نقطہ نظر سے مطمئن ہوگئے ہیں۔“ (انڈیا ونس فریڈم، ص/224۔ بحوالہ: شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/101)

مسلم لیگ کے مطالبات

 4/ اپریل 1946کو مسٹر جناح کی مشن سے ملاقات ناکام ہونے کے بعد 8-9/ اپریل 1946کو مسلم لیگ کے مرکزی و صوبائی ممبروں پر مشتمل ایک اجتماع کیا گیا۔ اور اس میں مشن کے سامنے پیش کرنے کے لیے چند مطالبات مرتب کیے۔اس کا ضروری حصہ درج ذیل ہے: 

۱۔ ہندستان کے شمال مشرق میں بنگال اور آسام، شمال مغرب میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ کے پاکستانی علاقوں میں - جہاں کہ مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں - ایک آزاد خود مختار ریاست کی بنیاد ڈالی جائے اور پاکستان کے قیام کی فوری گارنٹی دی جائے۔ 

۲۔ کہ پاکستان اور ہندستان کے عوام اپنے اپنے آئین مرتب کرنے کے سلسلہ میں دو علاحدہ علاحدہ آئین ساز ادارے قائم کریں۔ 

۳۔ کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی 23/ مارچ 1940والی قرار داد کی شرائط کے مطابق پاکستان اور ہندستان کی اقلیتوں کے لیے تحفظات مقرر کیے جائیں۔ 

۴۔ کہ مرکز میں کسی عارضی حکومت کی تشکیل، یا اس میں شرکت کی گارنٹی اس وقت دے سکتی ہے، جب مسلم لیگ کا مطالبہ پاکستان فوری طورپر تسلیم کرلیا جائے اور اس کی شرائط کو بغیر مزید تاخیر کے عملی جامہ پہنایا جائے۔ 

یہ کنونشن زور دار لہجے میں اس امر کا اعلان کرتی ہے کہ اگر اکھنڈ ہندستان کی بنیادوں پر کوئی آئین ٹھونسنے کی کوشش کی گئی، یا مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی شرائط کے خلاف مرکز میں کوئی عارضی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی گئی، تو مسلمانان ہندکے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہ جائے گا کہ وہ تمام وسائل کو کام میں لاکر اور اپنے قومی وجود اور تحفظ و بقا کے لیے اس سے پوری مزاحمت کریں گے۔“ (خلافت بمبئی، 10/ اپریل 1946، جلد 25، ص/86۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/103) 

مولانا ابوالکلام آزادؒ کا تبصرہ

مسلم لیگ کے ان مطالبات پر 15/ اپریل 1946کو مولانا ابوالکلام آزادؒ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 

”مسلم لیگ نے پاکستان کی جو اسکیم تجویز کی ہے، اس پر میں نے ہر پہلو سے غور کیاہے۔ ایک ہندستانی ہونے کی حیثیت سے میں نے سوچا ہے کہ پورے ہندستان کے مستقبل پر اس کا کیا اثر ہوگا۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے مستقبل پر کی اثر پڑسکتا ہے۔ 

اسکیم کے تمام پہلووں پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ نہ صرف بہ حیثیت مجموعی پورے ہندستان کے لیے؛ بلکہ خاص طور پر مسلمانوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوگی۔ اور دراصل جتنے مسئلے اس کے ذریعہ حل ہوں گے، ان سے زیادہ نئے مسئلے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ 

مجھے اس کا اعتراف ہے کہ پاکستان کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اترتا۔ اس سے یہ خیال پیدا کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصہ پاک اور کچھ حصہ ناپاک ہیں اور پاک اور ناپاک علاقوں کی یہ تقسیم سراسر غیر اسلامی ہے؛ بلکہ اسلام سے انحراف ہے۔ اسلام کسی ایسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔ آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں: خدا نے ساری زمین میرے لیے مسجد بنایا ہے۔“ (انڈیا ونس فریڈم، ص/225۔ بحوالہ: شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/114)

جمعیت کی مجلس عاملہ کا اجلاس

وزارتی مشن نے جہاں کانگریس، مسلم لیگ اور دیگر لیڈروں سے ملاقات کی؛ وہیں یہ بھی ضروری تھا کہ وہ مختلف فرقوں اور مذاہب کے قوم پرور لیڈران سے بھی ملاقات کرتا؛ لیکن مشن نے ایسے کسی بھی لیڈران کو دعوت نہیں دی؛ حتیٰ کہ جمعیت علمائے ہند کے قائدین کو بھی دعوت نہیں دی۔ ان حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے مورخ ملت ؒ رقم طراز ہیں کہ

”مارچ 1946میں کیبنٹ مشن (وزارتی وفد) ہندستان آیا، تاکہ رہنمایان ہند سے اور ہندستان کی مختلف مفادات کی پارٹیوں کے زعما سے ملاقات کرکے دستور ہند کے متعلق ان کی رائیں اور ان کے نظریات معلوم کرے۔ اور پھر تجاویز کرپس کی روشنی میں دستور ہند کے متعلق بنیادی خاکہ مرتب کردے۔

اس موقع پر ضروری تھا کہ قوم پرور مسلمان بھی آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے صحیح موقف کے متعلق اپنا فارمولہ پیش کریں؛ مگر بدقسمتی یہ تھی کہ قوم پرور جماعتوں کو مشن کی طرف سے دعوت نہیں دی گئی تھی۔ اور برطانوی سامراج کی سابق روایات کے پیش نظر قوم پرور مسلمانوں کو بجا طور پر یہ خیال ہوگیا تھا کہ جس طرح گول میز کانفرنس منعقدہ 1931و 1932اور شملہ کانفرنس 1945وغیرہ کے موقع پر قوم پررو مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا اور توجہ دہانی کے باوجود کوئی التفات نہیں کیا گیا تھا، (تاکہ لیگ کی واحد نمائندگی کے دعوے پر جس کو برطانوی ایجنٹوں نے سالہا سال کی جدوجہد سے پروان چڑھایا ہے، کوئی زد نہ پڑے اور بین الاقوامی طور پر نہایت کامیابی سے اس پروپیگنڈے کا موقع ملتا رہے کہ مسلمان من حیث القوم کانگریس کے مخالف اور ہندو سے غیر مطمئن اور خائف ہیں) اسی طرح اس موقع پر قوم پرور مسلمانوں کو نظر انداز کردیا جائے گا۔ تقاضائے وقت کے بموجب بہی خواہان ملت اور بالخصوص ان حضرات کی (جو سالہا سال کی قیدو بند، ضبطی جائداد اور جلاوطنی، حراست اور نظر بندی کی بے پناہ مصائب برداشت کرکے اپنی قربانیوں سے اپنی مخلصانہ بہی خواہی اور ہمدردی ملت کا ثبوت دے چکے ہیں) یہ خواہش فطری اور طبعی تھی کہ ”ہندستان نو“ کی تعمیر کا نقشہ بنانے والے انجنیر اس خاکہ کو بھی کم از کم ایک نظر ضرور دیکھ لیں، جو ان ایثار شیوہ مفکرین نے تیار کیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند نے قوم پرور افراد اور جماعتوں کے اس جذبہ اور وقت کے اس شدید تقاضے کا احساس کرتے ہوئے اپنے اس فرض کی ادائیگی کے لیے- جو قوم پرور جماعتوں کے قائد اور رہنما ہونے کی حیثیت سے اس پر عائد ہوتا ہے- مجلس عاملہ کے اجلاس کا اعلان کیا۔ اور مجلس عاملہ کے اراکین کے علاوہ ہندستان کے دوسرے قوم پرور رہ نماوں کو بھی شرکت اجلاس کی دعوت دی۔ چنانچہ 23/ ربیع الثانی 1365، 28/ مارچ 1946کو مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا۔ اور حسب ذیل تجویز منظور کی:

”جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس برطانوی وزارتی مشن کے اس طرز عمل کو کہ اس نے اپنی ملاقاتوں کے پروگرام میں قوم پرور مسلمانوں کے مشترکہ پارلیمنٹری بورڈ کے نمائندوں کو شامل نہیں کیا، برطانوی حکومت کے ان دیرینہ روایات کے عین مطابق سمجھتا ہے، جن کے ماتحت حکومت مسلمانوں میں ہمیشہ ان جماعتوں کو آگے بڑھاتی رہی ہے، جو اس کے مفاد کی تائید کرتی رہی ہیں۔ اور حکومت پر یہ واضح کردینا چاہتا ہے کہ اگر ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ہندستانی دستور کے بنیادی مسائل کے متعلق کوئی ایسا نظریہ قائم کیا گیا، جو جمعیت علمائے ہند کے نزدیک اسلامی مفاد کے خلاف ہو، تو مسلمان اس کی انتہائی مخالفت کریں گے۔“ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/28-29) 

اس کے بعد مولانا لکھتے ہیں کہ 

”احساس خطا

اس اجلاس کی کاروروائی ابھی مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ کیبنٹ مشن کے ارکان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور مشترکہ پارلیمنٹری بورڈ کے صدر حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ؒ صدر جمعیت علمائے ہند کے نام دعوت نامہ بھیج دیا۔ اور اس بنا پر کہ جمعیت علمائے ہند کے قائم کردہ ”مسلم پارلیمنٹری بورڈ“ میں دوسری جماعتیں بھی شریک تھیں، جناب صدر کو اجازت دی کہ وہ مزید تین حضرات کو بھی اپنے ہمراہ لاسکتے ہیں۔ 

چنانچہ 16/ اپریل کو حضرت صدر صاحب جمعیت علمائے ہند و کل ہند مسلم پارلیمنٹری بورڈ، بمعیت عبد المجید صاحب خواجہ صدر کل ہند مسلم مجلس، شیخ حسام الدین صدر کل ہند مجلس احرار اسلام، شیخ ظہیر الدین صاحب صدر کل ہند مومن کانفرنس نے کرپس مشن سے ملاقات کی۔ جناب حافظ محمد ابراہیم صاحب وزیر صوبہ یوپی،بحیثیت ترجمان، جناب صدر مدظلہ العالی کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ 

اس ملاقات سے بیشتر ضرورت محسوس ہوئی کہ جمعیت علمائے ہند کے فارمولے کے بنیادی اصولوں کے پیش نظر مسلم پارلیمنٹری بورڈ اور دوسری مسلم آزاد خیال جماعتوں نے جو مسودے تیار کیے ہیں، ان پر ایک مرتبہ پھر غور کرلیا جائے۔ چنانچہ 12/ جمادیٰ الاول 1365ھ، مطابق 15/ اپریل 1946کو مجلس عاملہ کا دوبارہ اجلاس طلب کیا گیا اور مجلس احرار، و مومن کانفرنس وغیرہ دوسری آزاد خیال مسلم جماعتوں کے ذمہ دار حضرات کو بھی اس اجلاس میں مدعو کیا گیا۔ ذیل میں اس اجلاس کی کارروائی ملاحظہ ہو۔“ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/29-30) 

 کارروائی اجلاس عاملہ

12-13/ جمادیٰ الاول 1365ھ، مطابق 15-16/ اپریل 1946بروز سوموار ومنگل بمقام دفتر مرکزیہ جمعیت علمائے ہند، زیر صدارت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا ایک اجلاس ہوا۔ 

”جمعیت علمائے ہند کے فارمولے کے بنیادی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے -جو متعدد فارمولے مختلف آزاد خیال جماعتوں کی طرف سے پیش کئے گئے تھے- اس اجلاس میں ان پر غور کیا گیا اور اگرچہ تمام زیر بحث مسائل متفقہ طور پر طے ہوچکے تھے؛ مگر احتیاطا مناسب نہ سمجھا گیا کہ تحریری طور پر تمام مسائل کومشن کے سامنے پیش کردیا جائے؛ بلکہ تجویز کیا گیا کہ مشن کو اپنا فارمولہ اور اس کے بنیادی نظریات سمجھا دیے جائیں۔نیز طے کیا گیا کہ مشن کو اپنا فارمولا میں دفعہ (د) کی تشریح کرتے ہوئے جو تین متبادل صورتیں پیش کی گئی ہیں، ان میں سے سردست صرف مساوات کی صورت معین طور پر پیش کی جائے۔ یعنی یہ کہ مرکزمیں ہندو 45، مسلمان 45، دیگر اقلیتیں 10دس۔ 

یہ بھی طے ہوا کہ عارضی حکومت میں بھی ہندو مسلم مساوات کا مطالبہ کیا جائے۔ نیز طے ہوا کہ مطالبہ کیا جائے کہ نمائندہ و اسمبلی کا انتخاب عاقل، بالغ کی رائے سے ہو۔ البتہ جداگانہ یا مخلوط انتخاب کا معاملہ سردست اپنی جانب سے پیش نہ کیا جائے۔ 

مفصل بحث و تمحیص کے بعد مشن سے گفتگو کے لیے مندرجہ ذیل نکات تجویز کیے گئے: 

(۱) آزادی ملک۔ 

(۲) برطانیہ سے مطالبہ کہ وہ کسی درجہ تک بھی تفصیل میں جائے بغیر محض نمائندہ اسمبلی بناکر اور عارضی حکومت قائم کرکے کل معاملہ ہندستان کے باشندوں پر چھوڑ دے، وہ خود طے کریں کہ ملک تقسیم ہو یا نہ ہو۔ اور اگر ملک متحد رہے، تو کس صورت میں۔ 

(۳) لیکن اگر اس وقت تفصیلات کی طرف قدم بڑھایا جائے، تو حسب ذیل امور کا اختیار کیا جانا ضروری ہے: 

(الف) آزادی مذہب، کلچر، ثقافت، زبان، رسم الخط، مذہبی تعلیم، مذہبی تبلیغ،پرسنل لا، مذہبی عقائد و اعمال، عبادت گاہیں، اوقاف۔ یہ امور بطور فنڈا منٹل رائٹس (بنیادی حقوق) ہوں۔ حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت نہ ہو۔ 

(ب) صرف ایک وفاق۔ 

(ج) صوبوں کی مکمل آزادی مع تفویض اختیارات زائدہ غیر مصرحہ۔

(د) صوبوں کا حق خود ارادیت۔

(ھ) مساوات تعداد، یعنی ہندو 45، مسلمان45، دیگر اقلیتیں دس۔ 

(نوٹ) اس سلسلہ میں باہمی سوال و جواب کے بعد یہ واضح کیا گیا کہ ہمارا مطالبہ جمعیت علمائے ہند کے فارمولے کی روشنی میں یہ لچک رکھتا ہے کہ عارضی حکومت اور مستقل لیجسلیچر میں مسلمانوں کی نمائندگی ایسے اصول پر مبنی ہونا از بس ضروری ہے، جو مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دے اور ملک کی بڑی اکثریت ثانوی کو تعداد کے بل بوتے پر نقصان نہ پہنچا سکے۔ 

(و) موجودہ مرکزی حکومت کا خاتمہ اور عارضی حکومت میں ہندو مسلم مساوات۔ 

(ز) نمائندہ اسمبلی پر بنائے رائے دہندگی ہر عاقل و بالغ۔

 جمعیت کیکیبنٹ مشن سے ملاقات کا نتیجہ

”وزارتی مشن سے ملاقات کے نتیجے اور اس فارمولے کی اہمیت کے بارے میں مولانا سید محمد میاں ؒ فرماتے ہیں کہ: 

16/ اپریل 1946کو شام چار بجے سے سوا پانچ بجے تک وزارتی مشن کے ارکان  سے ملاقات ہوئی۔ وزارتی مشن کے ارکان نے جمعیت علما کے فارمولے سے خاص دل چسپی لی۔ حتیٰ کہ ملاقات کے مقررہ وقت (یعنی نصف گھنٹہ) سے زائد پینتالیس منٹ تک ارکان مشن فارمولا کے مضمرات اور اس کے مختلف پہلووں کے متعلق سوالات کرتے رہے اور ان کے جوابات پر مسرت و اطمینان ظاہر کرتے رہے۔ اس فارمولے کے ساتھ وزارتی مشن کی دل چسپی کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ بجنسہ جمعیت علمائے ہند کا فارمولا تھا۔ صرف پیرٹی اور مساوات کی شرط تشنہ تکمیل تھی اور کانگریس اور کیبنٹ مشن نے قولا اس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس فارمولا کے بموجب عارضی حکومت کی تشکیل کی جارہی تھی، تو اگر مسلم لیگ کی ناعاقبت اندیشانہ ضد آڑے نہ آتی، اور 14/ ممبران میں سے 6/ مسلمان ہوتے، یعنی ۵ لیگ کے نامزد اور ایک مسلم ممبر کانگریس کی طرف سے اور اس عارضی گورنمنٹ میں مسلمانوں کا تناسب تقریبا 45ٰٖ فی صد ہوتا۔ اور اس رواج کے قائم ہوجانے کے بعد یقین تھا کہ پیرٹی کا مسئلہ بھی مناسب صورت سے حل ہوجاتا۔ اور اگر بالفرض مسلمانوں کو مرکز میں تینتیس فی صد نشستیں بھی دی جاتیں، تو نقصان صرف اتنا ہی تھا کہ ممبری کے خواہش مند حضرات زیادہ تعداد میں اسمبلی میں نہ پہنچ سکتے۔ اس کے برمقابل فائدہ یہ تھا کہ 

(۱) ہر فرقہ وارانہ مسئلے میں ان کو حق استرداد دے دیا گیا تھا، یعنی آئینی طور پر یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ جس مسئلے کو مسلم ممبران اسمبلی کی اکثریت فرقہ وارانہ قرار دے دے، وہ اسمبلی یا پارلیمنٹ میں پیش نہ ہوسکے گا۔ اور اگر پیش ہوچکا،تو وہ پاس نہ کیا جائے گا۔

(۲)اگر یہ اختلاف ہوتا کہ یہ مسئلہ فرقہ وارانہ ہے یا نہیں، تو ایک فیڈرل کورٹ مقرر کیا گیا تھا، جو اس بحث کا فیصلہ کرتا۔ 

(۳) اس طرح تمام فرقہ وارانہ امور کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی اور اس طرح اکثریت، اقلیت کے تابع ہوکر زندگی بسر کرتی۔ 

مذکورہ بالاتفصیلات کے علاوہ اس فارمولے کا مفاد یہ تھا کہ 

(الف) صوبہ سرحد، صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور جب ریاست کشمیر کو یونین کے ایک صوبے کی حیثیت دے دی جاتی، تو پورا صوبہ کشمیر مذہبی، معاشی اور کلچرل امور میں قطعا خود مختار ہوتے۔ 

(ب) پورا صوبہ پنجاب اور پورا صوبہ بنگال، جس کا دارالحکومت (دنیا کا دوسرا بڑا شہر) کلکتہ تھا، مسلم اکثریت کے زیر اقتدار رہتا اور 

(ج) صوبہ دہلی اور بہ شمول سلہٹ صوبہ آسام کی سیاست اور حکومت میں مسلمانوں کا حصہ تقریبا مساوی ہوتا؛ کیوں کہ صوبہ دہلی میں مسلمان تقریبا 45فی صد تھے۔ اور صوبہ آسام میں تقریبا 35فی صد۔ 

(د) ہندستان کے باقی صوبوں میں مسلمان لاوارث یتیم کی طرح نہ ہوتے، کیوں کہ 

۱۔ ملازمتوں اور اسمبلیوں میں ان کا حصہ کم از کم تیس فی صد ہوتا۔ 

۲۔ وزارتوں میں ان کی موثر شمولیت ہوتی۔ 

۳۔ وہ ایسے مرکز کے ماتحت ہوتے، جن میں ان کی تعداد پیرٹی نہ ملنے کی شکل میں 33/ فی صد ہوتی اور فرقہ وارانہ امور کی زمام ان کے ہاتھ میں ہوتی۔ 

لیکن افسوس مسلمانوں کی اکثریت کا مزاج بگڑچکا تھا۔ کھرے کھوٹے کی تمیز جاتی رہی تھی۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں؛ مگر دماغ معطل ہوگئے تھے۔ اور وہ چراغ گل ہوگئے تھے، جو قلب مومن کے نہاں خانے میں روشن ہوا کرتے ہیں اور جس کی روشنی سے وہ مستقبل کو حال کی طرح دیکھا کرتا ہے۔“ (حیات شیخ الاسلام، ص/179-181۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/123) 

مجلس عاملہ کا اجلاس

مختلف ہندستانی لیڈروں سے ملاقات کے بعد وزارتی مشن نے 24نکات پر مشتمل تجاویز پیش کیں اور رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے اخبارات میں شائع کردیا، تو اس کا جائزہ لینے کے لیے، 10-11-12/ جون 1946، بروز سوموار، منگل، بدھ، بمقام دفتر جمعیت علمائے ہند دہلی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحب صدر جمعیت علمائے ہند کی صدارت میں مجلس عاملہ مرکزیہ کا اجلاس ہوا۔ مجلس عاملہ نے طویل بحث و تمحیص کے بعد وزارتی مشن کی تجاویز پر حسب ذیل تجویز منظور کی: 

تجویز نمبر۱۔ جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا یہ جلسہ وزارتی مشن کی شائع کردہ تجاویز پر اپنے خیالات کا حسب ذیل اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہے: 

وزارتی مشن نے ہندستان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی حسب منشا قانون بنانے کے بعد آزاد ہے کہ چاہے برطانوی کامن ویلتھ میں شریک رہے اور چاہے اپنی مکمل علاحدگی کا اعلان کردے۔ یہ اعلان واظہار وزارتی مشن کی طرف سے اس کی نیک نیتی کا اطمینان دلانے کے لیے کافی تھا، مگر مشن کی طرف سے ہندستان کی مختلف جماعتوں کو قانون بنانے کا موقع دینے میں جو صورت اختیار کی گئی اور جو راستہ تجویز کیا گیا، وہ مختلف و متعدد شبہات کا مرکز ہے۔ ہم مشن کے اعلان کے متعلق بعض ضروری چیزیں کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں: 

۱۔ وزارتی مشن اسکیم میں ہندستانی حکومت کی تقسیم قبول نہیں کی گئی اور پاکستانی و غیر پاکستانی علاقے قائم نہیں کیے گئے۔ یہ بات ہندستان اور مسلمانوں کے لیے مفید ہے۔ نیز مشن کی اسکیم میں مرکز کے پاس صرف ضروری اور لازمی مضامین کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے، جو جمعیت علما کی رائے تھی اور جو مناسب اور صحیح ہے؛ مگر اس کے ساتھ گروپنگ سسٹم کا قیام اور صوبوں کے حق خود ارادیت کے خلاف صوبوں کو جو باہمی عارضی جوڑ لگایا گیا ہے، یہ بات خواہ قابل عمل قرار پائے یا نہ پائے، اور مستقل حیثیت اختیار کرے یا نہ کرے، لیکن اس سے صرف ایک بات حاصل ہوسکتی ہے کہ یہ حیلہ جو طبیعتوں کے لیے فتنہ کا ذریعہ بن سکتا ہے اور اس کے ذریعہ افتراق انگیزی کو مدد مل سکتی ہے۔

۲۔ رائے دہی بالغان کے طریقے سے انتخاب کرکے منتخب شدہ اشخاص کی کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی بنانے کو ترک کردیا گیا۔ حالاں کہ بہتر اور منصفانہ طریقہ وہی تھا اور اس کے لیے جو عذر بیان کیا گیا، وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ 

۳۔ عارضی حکومت ایسے اصول و اختیارات کے ساتھ قائم ہونی چاہیے، جو مکمل حکومت خود اختیاری کا نمونہ ہو۔ 

۴۔ عارضی حکومت کی نمائندگی میں ہندو مسلم مساوات کا اصول اختیار کرنا چاہیے۔ پارٹیوں یا جماعتوں کی نمائندگی کا اصول اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ 

۵۔ اہم فرقہ وارانہ معاملات کے بارے میں مشن نے تحفظ کی جو صورت تجویز کی ہے، اس کے متعلق یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ چوں کہ یہ بنیادی معاملہ ہے، اس لیے اس کا نفاذ مرکزی مجلس اور صوبہ جاتی مجالس میں یک ساں ہونا چاہیے۔ 

۶۔ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جب چئیرمین کسی فرقہ وارانہ اختلافی مسئلے میں فیڈرل کورٹ سے مشورہ کرے گا، تو وہ کورٹ کے فیصلے کا پابند ہوگا۔ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/34) 

مشن سے گفتگو کی دعوت

24/ اپریل 1946کو وزارتی مشن شملہ سے دہلی آیا اور اسی دن ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ

”بڑی پارٹیوں کے درمیان باہمی رضا مندی سے معاہدہ کرنے کے لیے گفتگو کرنا مناسب ہوگا، اس لیے مشن نے کانگریس اور مسلم لیگ کے صدور کو دعوت دی کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کی ورکنگ کمیٹی کے نمائندے شملہ میں مشن سے مل کر گفتگو کرنے کے لیے نامزد کریں۔“ (انڈیا ونس فریڈم، ص/230۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/127) 

مشن کا منصوبہ اور لیگ،کانگریس کے نمائندوں کا انتخاب

”27/ اپریل 1946: لارڈ پیتھک لارنس نے مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مسٹر جناح سے درخواست کی کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں کے چار چار نمائندے نامزد کریں، جن سے مشن کے منصوبے پر گفتگو کی جاسکے۔ مشن کا منصوبہ یہ ہے: 

۱۔ پورا ہندستان ایک یونین گورنمنٹ کے ماتحت ہوگا، جس کے پاس صرف امور خارجہ، دفاع اور مواصلات کے محکمے ہوں گے۔ 

(۲) صوبوں کے دو وگروہ ہوں گے: 

(الف) وہ صوبے، جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ 

(ب) وہ صوبے، جن میں ہندووں کی اکثریت ہے۔

(۳) حکومت کے تمام شعبے صوبوں کی حکومت کے ماتحت ہوں گے۔ غیر متعنہ شعبے بھی صوبوں ہی کے ماتحت ہوں گے۔ 

(۴) ملک کے دستوری ڈھانچے میں دیسی ریاستیں بھی مفاہمت کے بعد اپنی جگہ پائیں گی۔ 

(۵) مرکز کے پاس تین محکمے ہوں گے، لیکن اگر کوئی صوبہ اپنے شعبوں میں سے کوئی شعبے مرکزی حکومت کے حوالے کرنا چاہے، تو یہ اسے اختیار ہوگا۔ 

لارڈ پیتھک لارنس کے کے خط کے جواب میں کانگریس نے نمائندوں کی فہرست بھیج دی ہے، جو یہ ہے: 

۱۔ مولانا ابوالکلام آزاد صدر آل انڈیا کانگریس کمیٹی

۲۔ پنڈت جواہر لال نہرو رکن مجلس عاملہ کانگریس

۳۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل رکن مجلس عاملہ کانگریس

۴۔ خان عبد الغفار خان رکن مجلس عاملہ کانگریس

اگر چہ مسلم لیگ نے لارڈ موصوف کے خط کے جواب میں کئی سوالات اٹھائے؛ لیکن اس نے ذیل کے نمائندے نامزد کردیے: 

۱۔ مسٹر محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ

۲۔ نواب زیادہ لیاقت علی خان سکریٹری مسلم لیگ

۳۔ نواب محمد اسماعیل خاں رکن مجلس عاملہ مسلم لیگ

۴۔ سردار عبد الرب نشتر رکن مجلس عاملہ مسلم لیگ۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/136) 

چنانچہ ۵/ مئی 1946کو شملہ میں دوسری شملہ کانفرنس کا آغاز ہوا اور مختلف مسائل پر گرما گرمی بحث و گفتگو ہوئی۔ گاندھی جی نے یہ تجویز پیش کی کہ مشن اپنا مجوزہ منصوبہ تحریر طور پر کانگریس اور مسلم لیگ کو دے دے، تاکہ اس پر غوروفکر کیا جاسکے۔ چنانچہ مشن نے اپنا وہ منصوبہ کانگریس اور لیگ کے صدور کوحوالے کرتے ہوئے کانفرنس کو ۸/ مئی 1946پر ملتوی کردیا۔

مشن کا مجوزہ منصوبہ

 ”(۱) کل ہند یونین کی ایک حکومت اور قانون ساز ادارہ ہوگا، جس کی تحویل میں امور خارجہ،دفاع، مواصلات، بنیادی حقوق کے شعبے ہوں گے اور ان شعبوں کے لیے درکار ذرائع آمدن کے لازمی اختیارات حاصل ہوں گے۔ 

(۲) بقایا تمام اختیارات صوبوں کی تحویل میں ہوں گے۔

(۳) صوبوں کی گروپ بندی کی جاسکے گی اور انھیں اختیارات حاصل ہوگا کہ وہ صوبائی شعبوں میں اپنی حسب پسند شعبے مشترک رکھیں۔ 

(۴) گروپس اپنی ایگزیکیٹو اور قانون ساز ادارے قائم کرسکیں گے۔ 

(۵) یونین قانون ساز ادارے مسلمانوں کے اکثریتی اور ہندووں کے اکثریتی صوبوں سے مساوی تعداد میں نمائندگان کی تعداد سے تشکیل پائیں گے۔ خواہ یہ صوبے باہم مل کر گروپ بنائیں یا نہ بنائیں۔ علاوہ بریں ریاستوں کے نمائندے بھی اس میں شام ہوں گے۔ 

(۶) یونین کی حکومت بھی اسی تناسب سے تشکیل پائے گی، جس طرح کہ قانون ساز ادارہ۔

(۷) یونین اور گروپوں کے دستوروں میں یہ شق شامل کی جائے گی کہ کوئی صوبہ اپنے قانون ساز ادارے کی اکثریت کی رائے سے ابتدائی دس برس کے بعد دستور کی شرائط پر نظر ثانی کا مطالبہ کرسکتا ہے اور اسے ایسا ہر دس سال کے وقفے کے بعد کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ نظر ثانی کے مقصد کے لیے ابتدائی بنیاد کے مطابق ادارہ تشکیل دیا جائے گا اور اس میں رائے دہی کا وہی طریق کار ہوگا اور اسے دستور میں ہر طریقے سے ترمیم کرنے کا اختیار ہوگا۔ 

(۸) متذکرہ بالا بنیادوں پر دستور واضح کرنے کے لیے دستور سازی کا نظام مندرجہ ذیل طریقے پر کیا جائے گا: 

(الف) ہر صوبائی اسمبلی میں موجود مختلف پارٹیوں کی قوت کے تناسب سے نمائندے منتخب کیے جائیں گے، وہ اپنی تعداد کا دسواں حصہ ہوں گے۔

(ب) ریاستوں کے نمائندگان ان کی آبادی کی بنیاد پر اور اسی تناسب سے لیے جائیں گے، جس اصول پر برطانوی ہند سے لیے جائیں گے۔ 

(ج) اس طریقے سے معرض وجود میں آنے والی دستور ساز اسمبلی کا نئی دہلی میں ممکن حد تک جلد از جلد اجلاس منعقد ہوگا۔ 

(د) اپنے ابتدائی اجلاس میں عمومی نوعیت کے معاملات طے کرنے کے بعد یہ تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گی: ایک حصہ ہندو اکثریتی صوبوں کا نمائندہ ہوگا۔ ایک حصہ مسلم اکثریتی صوبوں کا نمائندہ ہوگا اور ایک حصہ ریاستوں کا نمائندہ ہوگا۔ 

(ھ) پہلے دو حصوں کا الگ الگ اجلاس منعقد ہوگا، جس میں وہ اپنے گروپ میں شامل  صوبوں کے دستور وضع کریں گے اور اس کے بعد اگر وہ چاہیں، تو گروپ کا دستور بھی بناسکتے ہیں۔ 

(و) جب یہ طے پاجائے گا، تب ہر صوبے کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ چاہے تو اپنے ابتدائی گروپ سے نکل کر دوسرے گروپ میں شامل ہوجائے، یا گروپوں سے باہر رہے۔ 

(ز) اس کے بعد تینوں اداروں کا پھر مشترکہ اجلاس ہوگا، جس میں متذکرہ بالا نمبر ایک تا سات پیراگرافوں کے خطوط پر یونین کا دستور تشکیل دیں گے۔ 

(ح) یونین کے دستور میں کوئی اہم نکتہ، جس سے فرقہ وارانہ مسئلہ متاثر ہوتا ہو، اسمبلی اس وقت تک منظور نہیں کرے گی، جب تک دونوں بڑے فرقوں کی اکثریت اس کے حق میں رائے ظاہر نہ کردے۔“ (مولانا ابوالکلام آزاد اور قوم پرور مسلمانوں کی سیاست، ص/350-351  بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/141-142) 

مسلم لیگ کی تجاویز

وزارتی مشن کے اس پلان پر غور و فکر کرنے کے بعد مسلم لیگ نے 12/ مئی 1946کو درج ذیل تجاویز مشن کے سامنے پیش کیں: 

”(۱) چھ مسلم صوبوں: پنجاب، صوبہ سرحد،بلوچستان، سندھ، بنگال اور آسام کو ملاکر ایک گروپ بنادیا جائے، جو دفاع، امور خارجہ،مواصلات-جو دفاعی مقاصد کے لیے ضروری ہوں -کے علاوہ دیگر تمام شعبہ جات اور معاملات میں بااختیار ہوگا۔مسلم صوبوں کا گروپ (جو پاکستان کہلائے گا) اور ہندو صوبوں کا گروپ آئین ساز اسمبلی میں اکٹھے  بیٹھ کر آئین بنائیں گے۔ 

(۲) ان چھ مسلمان صوبوں کی ایک علاحدہ آئین ساز اسمبلی ہوگی، جو اس کے گروپ اور اس میں شامل صوبوں کا آئین وضع کرے گی اور صوبہ اور مرکز (فیڈریشن آف پاکستان) کے شعبہ جات کا تعین کرے گی اور صوبوں کے لیے بقیہ خود مختاری کا تعین بھی کرے گی۔ 

(۳) آئین ساز ادارے کے لیے انتخاب اس طرح عمل میں آئے گا کہ پاکستان گروپ کے ہر صوبے کے مختلف فرقوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے صحیح نمائندگی ملے۔ 

(۴) جب پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبوں کا آئین تیار ہوجائے، تو کسی بھی صوبے کو گروپ سے علاحدہ ہونے کا اختیار حاصل ہوگا، بہ شرطے کہ ریفرینڈم کے ذریعے اس صوبے کے عوام کی خواہش معلوم کرلی جائے۔ 

(۵) آئین ساز اسمبلیوں کے مشترکہ اجلاس میں بحث ہوسکتی ہے کہ یونین کا آئین ساز ادارہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ یونین کے لیے مالیات کے حصول کا مسئلہ بھی مشترکہ اجلاس کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے؛ لیکن اس سے کسی طرح بھی ٹیکس لاگو کرنا مراد نہیں ہوگا۔

(۶)یونین ایگزیکیٹو اور قانون ساز ادارہ (اگر کوئی ہو) میں دونوں گروپوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی۔

(۷) یونین کے آئین میں کوئی بھی ایسا بڑا نکتہ - جس سے فرقہ وارانہ مسئلہ متاثر ہوتا ہو- اس وقت تک منظور نہیں کیا جائے گا، جب تک کہ ہندو گروپ اور پاکستان گروپ کے آئین ساز اداروں کے ممبران کی اکثریت موجود نہ ہو اور وہ علاحدہ علاحدہ اس کے حق میں رائے ظاہر نہ کردیں۔ 

(۸)یونین میں کوئی اختلافی مسئلہ، خواہ اس کا تعلق قانون سازی، ایگزیکیٹو یا انتظامیہ سے ہو، تین چوتھائی اکثریت کی تائید سے پیش کیا جائے گا۔ 

(۹) گروپ اور صوبے کے دساتیر میں مختلف فرقوں کے مذہب، کلچر اور دیگر معاملات کے لیے تحفظات اور بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں گے۔ 

(۰۱) یونین کے آئین میں یہ شق بھی رکھی جائے گی، جس کی رو سے کوئی صوبہ اپنی قانون ساز اسمبلی کے اکثریتی ووٹ کے ذریعہ آئین کی شرائط پر نظر ثانی کا مطالبہ کرسکے اور ابتدائی دس سال گزرنے کے بعد اسے کسی بھی وقت یونین سے علاحدگی اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔

آخر میں کہا گیا ہے کہ ہم ان اصولوں کو پر امن اور دوستانہ طور پر طے کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ساری پیش کش اور مذکورہ بالا معاملات باہمی طور پر مربوط ہیں۔“ (شاہ راہ پاکستان، چودھری خلیق الزماں۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/142) 

کانگریس کی تجاویز

کانگریس نے درج ذیل تجاویز وزارتی مشن کو پیش کیا: 

”(۱)آئین ساز اسمبلی درج ذیل طریقے سے تشکیل پائے گی: 

(الف) آئین ساز اسمبلی کے لیے نمائندگان ہر صوبائی اسمبلی متناسب نمائندگی کے اصول پر واحد قابل انتقال ووٹ کے ذریعے چنے گی۔ یہ نمائندے اسمبلی کے جملہ ممبران کا 1/5تناسب ہوگا اور یہ اسمبلیوں کے ممبر یا دیگر ہوسکتے ہیں۔ 

(ب) ریاستوں کی نمائندگی آبادی کی بنیاد کے تناسب سے برطانوی ہند کے طرز پر دی جائے گی۔ ان کے انتخاب کے مسئلے پر بعد میں غور کیا جائے گا۔

(۲) آئین ساز اسمبلی فیڈرل یونین کے لیے آئین وضع کرے گی۔ یہ آل انڈیا فیڈرل گورنمنٹ اور قانون ساز ادارے پر مشتمل ہوگی۔ خارجہ، ڈیفنس، مواصلات، بنیادی حقوق، کرنسی، کسٹم اور منصوبہ بندی کے شعبے اس کی تحویل میں ہوں گے۔ اسی طرح ایسے دیگر شعبے - جو بہ غور جانچ پڑتال کے بعد ان سے قریبی تعلق رکھنے والے ہوں - فیڈرل یونین کو ان شعبہ جات کے لیے ریونیو اکٹھا کرنے کا ضروری اختیار ہوگا اور بہ طور استحقاق ریونیو اکٹھا کرے گی۔ فیڈرل یونین کو یہ حق حاصل ہوگا کہ آئین کے تعطل اور ہنگامی حالت کی عمومی صورت میں تدارک کے لیے قدم اٹھائے۔ 

(۳) بقیہ تمام اختیارات صوبوں،یا یونٹ کو حاصل ہوں گے۔ 

(۴) صوبوں کے گروپس تشکیل پاسکیں گے۔ یہ گروپس صوبائی شعبہ جات کا تعین کرسکیں گے، جن کو باہمی طور پر وہ مشترکہ رکھنے کے خواہش مند ہوں۔

(۵) جب آئین ساز اسمبلی آل انڈیا فیڈرل یونین کا آئین وضع کرلے، جیسا کہ مذکورہ بالا پیرا نمبر ۲ میں کہا گیا ہے، تب صوبوں کے نمائندگان گروپس تشکیل دے سکتے ہیں، اپنے گروپ میں شامل صوبوں کے آئین وضع کرسکتے ہیں، اگر چاہیں، تو گروپ کا آئین بھی بناسکتے ہیں۔ 

(۶) کوئی بڑکا نکتہ- جس سے فرقہ وارانہ مسئلہ متاثر ہوتا ہو- آئین ساز اسمبلی میں زیر غور نہیں آئے گا اور نہ ہی منظوری حاصل کرے گا، جب تک کہ متعلقہ فرقہ یا فرقوں کے ممبران کی اکثریت اسمبلی میں حاضر نہ ہو، اور اس کے حق میں علاحدہ علاحدہ رائے ظاہر نہ کردے۔ اگر اس پر اتفاق نہ ہوگا کہ یہ اہم فرقہ وارانہ مسئلہ ہے،تو اسے ثالث کے سپرد کردیا جائے گا۔ شک کی صورت میں کہ آیا کوئی نکتہ بڑا فرقہ وارانہ مسئلہ ہے، اسپیکر فیصلہ کرے گا اور خواہش ظاہر کی جائے، تو اس مسئلے کو فیڈرل کورٹ کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ 

(۷) آئین سازی کے دوران میں اختلافات رونما ہونے کی صورت میں خاص مسئلے کو ثالث کے سپرد کردیا جائے گا۔ 

(۸) آئین میں کسی وقت نظر ثانی کے لیے نظام کی گنجائش موجود ہوگی۔ا گر اس کے لیے خواہش ہو،تو اسے خاص طور پر شامل کیا جاسکتا ہے کہ دس سال کے بعد سارے آئین پر نظر ثانی کرلی جائے۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/144)

کانفرنس ناکام ہوگئی

 مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کی تجاویز پر غورو خوض کے لیے 12/ مئی 1946کو شملہ میں پانچویں اور آخری دور کی کانفرنس شروع ہوئی۔ چوں کہ مسلم لیگ کا مطالبہ یہ تھا کہ ہندستان کو آزاد اور خود مختار پاکستان اور ہندستا ن میں تقسیم کردیا جائے۔ اسی طرح مسلم لیگ یہ بھی چاہتی تھی کہ آئین بنانے والی جماعتیں بھی دو ہونی چاہییں، تاکہ دونوں خو دمختار حکومتوں کا آئین بیک وقت تیار کیا جاسکے۔ جب کہ اس کے بالمقابل کانگریس کا مطالبہ یہ تھا کہ ہندستان اکھنڈ رہے اور اسے کسی بھی قیمت پر تقسیم نہ کیا جائے؛ اس لیے دونوں میں کوئی مفاہمت نہ ہوسکی اور کانفرنس ناکام ہوگئی۔ 

”برطانوی وزارتی نمائندے اور وائسرائے بڑے افسوس کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ شملہ کے مذاکرات میں مسلم لیگ اور کانگریس کے رہ نماوں کے درمیان کوئی مفاہمت نہ ہوسکی؛ لیکن ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اس ناکامی کے باوجود فریضہ ختم نہیں ہوا، جس کے لیے ہم اپنی حکومت اور اپنی قوم کی طرف سے ذمہ دار بناکر بھیجے گئے ہیں؛ لہذا مشن اپنی طرف سے مناسب تجاویز ملک کے سامنے پیش کرے گا۔“ (مولانا ابوالکلام آزاد اور قوم پرور مسلمانوں کی سیاست، ص/366۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/146)

وزارتی مشن کا پلان

شملہ کانفرنس کی ناکامی کے باوجود وزارتی مشن نے اپنا مشن نہیں چھوڑا اور 16/ مئی 1946کو چوبیس نکات پر مشتمل ایک پلان پیش کیا۔ یہ مکمل پلان انڈیا ونس فریڈم کی تیسری اشاعت، شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، از ص/147تا 161پر اور علمائے حق اور ن کے مجاہدانہ کارنامے، جلد دوم، از ص/354تا 372پر موجود ہے۔ اس پلان میں وزارتی مشن نے، واضح اور دوٹوک انداز میں پاکستان کا اصول تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود ۶/ جون 1946کو دہلی میں مسلم لیگ کونسل کا اجلاس ہوا، تو اس میں اس اسکیم کو قبول کرتے ہوئے آئین ساز اسمبلی میں شرکت کی تجویز منظور کی۔پھر 26جون 1946کو کانگریس نے بھی اس مشن کو قبول کرلیا۔ اس قبولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا آزاد ؒ لکھتے ہیں کہ 

”کانگریس اور مسلم لیگ کا کیبنٹ مشن پلان کو منظور کرلینا، ہندستان کی آزادی کی تاریخ کا ایک شان دار واقعہ تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا تھا کہ ہندستانی آزادی کا پیچدہ مسئلہ گفتگو اور مفاہمت کے ذریعہ طے پایا، نہ کہ تشدد اور جنگ کے ذریعہ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ فرقہ وارانہ مشکلات کا قطعی طور پر ماضی کی داستان بن گئی ہیں۔ سارے ملک میں شادمانی کا احساس تھا اور تمام لوگ آزادی کے مطالبے میں متحد ہوگئے تھے۔“ (ابوالکلام آزاد اور قوم پرور مسلمانوں کی سیاست، ص/353۔ بحوالہ  شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/196) 

اسی طرح مسلم لیگ کے پرجوش لیڈر مولانا حسرت موہانی ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ

26/ جون 1946کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے کیبنٹ مشن کی تجویز کو منظوری دے دی۔ اس طرح اس پلان کو لیگ کانگریس کا منظور کرنا ہندستان کی آزادی کی تاریخ کا ایک شان دار واقعہ تھا، جو تشدد اور جنگ کے بغیر طے پایا۔“ (حسرت موہانی- ایک سیاسی ڈائری، ص/252۔بحوالہ  شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/208) 

وزارتی مشن کی تجاویز پر جمعیت کا تبصرہ

 جمعیت علمائے ہند نے وزارتی مشن کے پلان کا جائزہ لینے کے لیے 10تا 12/ جون 1946کو مجلس عاملہ کی میٹنگ بلائی اور مشن کی اسکیم پر چھ نکاتی تبصرے کیے، تجویز درج ذیل ہے: 

تجویز نمبر۱۔ جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا یہ جلسہ وزارتی مشن کی شائع کردہ تجاویز پر اپنے خیالات کا حسب ذیل اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہے: 

وزارتی مشن نے ہندستان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی حسب منشا قانون بنانے کے بعد آزاد ہے کہ چاہے برطانوی کامن ویلتھ میں شریک رہے اور چاہے اپنی مکمل علاحدگی کا اعلان کردے؛ یہ اعلان واظہار وزارتی مشن کی طرف سے اس کی نیک نیتی کا اطمینان دلانے کے لیے کافی تھا، مگر مشن کی طرف سے ہندستان کی مخلتف جماعتوں کو قانون بنانے کا موقع دینے میں جو صورت اختیار کی گئی اور جو راستہ تجویز کیا گیا، وہ مختلف و متعدد شبہات کا مرکز ہے۔ ہم مشن کے اعلان کے متعلق بعض ضروری چیزیں کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں: 

۱۔ وزارتی مشن اسکیم میں ہندستانی حکومت کی تقسیم قبول نہیں کی گئی اور پاکستانی و غیر پاکستانی علاقے قائم نہیں کیے گئے۔ یہ بات ہندستان اور مسلمانوں کے لیے مفید ہے۔ نیز مشن کی اسکیم میں مرکز کے پاس صرف ضروری اور لازمی مضامین کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے، جو جمعیت علما کی رائے تھی اور جو مناسب اور صحیح ہے؛ مگر اس کے ساتھ گروپنگ سسٹم کا قیام اور صوبوں کے حق خود ارادیت کے خلاف صوبوں کو جو باہمی عارضی جوڑ لگایا گیا ہے، یہ بات خواہ قابل عمل قرار پائے یا نہ پائے، اور مستقل حیثیت اختیار کرے یا نہ کرے، لیکن اس سے صرف ایک بات حاصل ہوسکتی ہے کہ یہ حیلہ جو طبیعتوں کے لیے فتنہ کا ذریعہ بن سکتا ہے اور اس کے ذریعہ افتراق انگیزی کو مدد مل سکتی ہے۔

۲۔ رائے دہی بالغان کے طریقے سے انتخاب کرکے منتخب شدہ اشخاص کی کانسٹی ٹیونٹ  اسمبلی بنانے کو ترک کردیا گیا۔ حالاں کہ بہتر اور منصفانہ طریقہ وہی تھا اور اس کے لیے جو عذر بیان کیا گیا، وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ 

۳۔ عارضی حکومت ایسے اصول و اختیارات کے ساتھ قائم ہونی چاہیے جو مکمل حکومت خود اختیاری کا نمونہ ہو۔ 

۴۔ عارضی حکومت کی نمائندگی میں ہندو مسلم مساوات کا اصول اختیار کرنا چاہیے۔ پارٹیوں یا جماعتوں کی نمائندگی کا اصول اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ 

۵۔ اہم فرقہ وارانہ معاملات کے بارے میں مشن نے تحفظ کی جو صورت تجویز کی ہے، اس کے متعلق یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ چوں کہ یہ بنیادی معاملہ ہے، اس لیے اس کا نفاذ مرکزی مجلس اور صوبہ جاتی مجالس میں یک ساں ہونا چاہیے۔ 

۶۔ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جب چئیرمین کسی فرقہ وارانہ اختلافی مسئلے میں فیڈرل کورٹ سے مشورہ کرے گا، تو وہ کورٹ کے فیصلے کا پابند ہوگا۔ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/34) 

مشن پلان سے مسلم لیگ کی بیزاری کا اعلان

پاکستان کے عدم تسلیم پر مبنی وزارت مشن پلان کو جب مسلم لیگ نے قبول کرلیا، تو عام طور پر مسلم لیگ کے حلقے میں پسند نہیں کیا گیا۔ اور پاکستان کے مطالبے سے جناح صاحب کی غیر سنجیدگی اور فرار قرار دیاگیا۔ مولانا حسرت موہانی نے لیگ کے اس طرز عمل کو قوم کے ساتھ دھوکا قرار دیا: 

ہم نے اسلام کو دھوکا دیا ہے، ہم نے مسلمانوں کو دھوکا دیا ہے، ہم نے قرآن کو دیکھا دیا ہے۔ ہم نے اپنے نفس اور اور پروردگار کو دھوکا دیا ہے۔ کیا یہی پاکستان ہے، جس کا حلف دہلی میں اٹھایا گیا تھا۔“ (حضرت شیخ الاسلام ؒ کا بیان، قومی آواز، 18/ جون1946۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/202)

شاید یہی وجہ رہی کہ مسلم لیگ نے وزارتی مشن پلان کی منظوری سے دستبرداری کا فیصلہ کردیا:

”27/ جولائی1946: مسلم لیگ کونسل کا اجلاس 27جولائی کو بمبئی میں منعقد ہوا۔ مسٹر جناح نے اپنی افتتاحی تقریر میں پاکستان کے مطالبے کو دہرایا اور کہا کہ مسلم لیگ کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے۔ تین روز کی بحث کے بعد کونسل نے ایک ریزولیوشن منظور کیا، جس میں کیبنٹ مشن پلان کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اس نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے ڈائریکٹ ایکشن کی پالیسی پر عمل کرے۔“ (انڈیا ونس فریڈم، ص/241۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/212) 

عارضی حکومت کے قیام کی دعوت

جب کانگریس نے وزارتی مشن کے پلان کو منظوری دے دی، تو 12/ اگست 1946کووائسرائے ہند نے کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہروکو عارضی حکومت (Interim Government) بنانے کی دعوت دی۔

”12/ اگست1946: 29جولائی کے لیگ ریزولیوشن اور اگست کی کانگریس قرار داد کے بعد 12/ اگست 1946کو وائسرائے ہند لارڈ ویول نے اعلان کیا کہ 

”ہز ایکس لینسی وائسرائے نے ملک معظم کی حکومت کی منظوری سے کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو کو دعوت دی ہے کہ وہ عارضی حکومت کی فوری تشکیل کے بارے میں تجویز پیش کریں اور اس سلسلے میں بہت جلد آکر وائسرائے سے ملیں۔ چنانچہ کانگریس پریسیڈنٹ نے یہ دعوت منظور کرلی ہے۔ نیز یہ بھی ہدایت کی ہے کہ وہ مسٹر جناح کا تعاون حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں۔“ (ہفت روزہ خلافت، بمبئی، 14/ اگست 1946۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/221) 

چنانچہ 15/ اگست 1946کو پنڈت نہرو نے ممبئی جاکر مسٹر جناح سے ملاقات کی۔ لیکن مسٹر جناح نے عارضی حکومت میں شمولیت سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ 

”……یہ وہ پلان ہے، جس کا اظہار جواہر لال نہرو نے مجھ سے کیا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ میں اس قسم کی تجاویز کو قطعا منظور نہیں کرسکتا تھا؛ کیوں کہ اس کو منظور کرنے کے بعد مسلم مطالبہ اور ہماری منزل پاکستان پر گفتگو کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔“ (ہفت روزہ اجمل، بمبئی،19/ اگست1946۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/222) 

مسلم لیگ نے نہ صرف عارضی حکومت میں شامل ہونے سے انکار کیا؛ بلکہ حصول پاکستان کے لیے 16/ اگست 1946کو یوم راست اقدام (Direct Action Day)منانے کا اعلان کیا، اوراس ایکشن کو پاکستان حاصل کرنے اور اسلامی حکومت بنانے کے لیے جہاد کا عنوان دیا، جس سے کلکتہ میں زبردست ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ فسادات کا سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ کلکتہ کے بعد نوا کھالی بنگال میں، نواکھالی سے بہار میں، بہار سے گڑھ مکتیشر میں اور گڑھ مکتیشر سے پورے ہندستان میں پھیل گیا۔ 

اجلاس مجلس عاملہ

ایسے پرآشوب حالات میں دفتر جمعیت علمائے ہند نے 24تا 27/ شوال 1365ھ،مطابق 21تا 24/ ستمبر 1946، از سنیچرتا منگل مجلس عاملہ کا اجلاس کیا۔ 

”عارضی حکومت کے قیام اور اس کے بعد سیاسی حالات نے جو نازک صورت اختیار کرلی تھی۔ا س کے اور بعض دوسرے اہم مسائل کے پیش نظر مجلس عاملہ کے اجلاس کا فوری انعقاد از بس ضروری تھا۔ 

ان مسائل کی اہمیت نے یہ بھی ضروری قرار دیا کہ اراکین مجلس عاملہ کے علاوہ ملک کے مقتدر رہنما اور جمعیت علمائے ہند کی ہموا جماعتوں کے ذمہ دار حضرات کو بھی دعوت دی جائے اور ان کے قیمتی مشورہ سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ 

چنانچہ 24/ شوال 1365مطابق، 21/ ستمبر 1946کو مجلس عاملہ کا اجلاس شروع ہوا۔ اور 22/ ستمبر کو تقریبا پانچ گھنٹے متواتر مجلس مشاورت کا اجلاس ہوتا رہا۔ اس کے بعد 23اور 24/ کو مجلس عاملہ نے اپنے متعدد اجلاسوں میں حسب ذیل تجاویز منظور کیں: 

تجویز نمبر ۱۔ مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اگرچہ اس اعلان کو جو برطانوی حکومت نے ہندستان کی آزادی کے متعلق کیا ہے، نیز اس کاروائی کو جو ہندستانیوں کی طرف اختیارات منتقل کرنے کے متعلق کی گئی ہے، بڑی حد تک قابل اطمینان سمجھتا ہے؛ مگر اس امر کو واضح کردینا چاہتا ہے کہ آزادی وطن کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی اور آزادی طلب جماعتوں کی منزل مقصود ابھی دور ہے۔ 

اجلاس ہذا کی رائے میں یہ امر نہایت افسوس ناک ہے کہ مسلم لیگ کی غلط قیادت کے باعث عارضی حکومت میں مسلمانوں کو اب تک وہ درجہ حاصل نہیں ہوسکا، جو ان کی قومی ووطنی اہمیت کے اعتبار سے ان کا جائز حق ہے۔ 

مجلس عاملہ اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کرسکتی کہ عارضی حکومت کی تشکیل کے موقع پر کانگریس ہائی کمانڈ نے قوم پرور مسلمانوں کے ساتھ وہ طرز اختیار نہیں کیا، جو اس کا فرض تھا۔ا گر مسلم لیگ کی غیر موجودگی کی صورت میں مسلم نشستوں کا پر کرنا ضروری سمجھا گیا تھا، تو اس کے لیے وہی ممبر مسلمانوں کو مطمئن کرسکتے تھے، جو قوم پرور مسلم جماعتوں کے منتخب کردہ ہوتے۔ 

مزید برآں حکومت کے ممبروں میں اہم محکمے مساویانہ طریقہ پر تقسیم نہ کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا،و ہ بھی مسلمانوں کے نزدیک تسلی بخش نہیں ہے۔ 

مجلس عاملہ مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر کانگریس ہائی کمانڈ کے طریق کار کو قومی نقطہ نگاہ سے قابل اعتراض سمجھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ عارضی حکومت کو پوری طرح مفید اور نمائندہ بنانے کے لیے جلد از جلد موثر طریقے اختیار کیے جائیں گے۔ 

عارضی حکومت کا قیام

کانگریس نے ۲ /ستمبر1946کو کیبنٹ مشن کے پلان کے مطابق ہندستان میں پہلی بار آزاد عارضی قومی حکومت کی تشکیل کی۔ادھر دوسری طرف یوم راست اقدام منانے کے باوجود مسلم لیگ کو کوئی اہمیت نہیں مل سکی، اس لیے وہ نہ صرف مایوسی کا شکار تھی، بلکہ اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا؛ اس نے بھی بالآخر مجبور ہوکر 15/ اکتوبر 1945کو عارضی حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔وزارتی مشن کے پلان کے مطابق عارضی حکومت کے قیام کے لیے چھ نام کانگریس نے، پانچ نام مسلم لیگ نے اور تین نام دیگرفرقوں نے پیش کیے۔

”کانگریس چھ ممبر: 

(۱) جواہر لال نہرو (وزارت خارجہ و دولت مشترکہ)

(۲) سردار ولبھ بھائی پٹیل (ہوم انفارمیشن و براڈ کاسٹنگ)

(۳) ڈاکٹر راجندر پرشاد (خوراک وزاعت)

(۴) آصف علی (کمیونی کیشن و ریلوے)

(۵) راج گوپال آچاریہ (تعلیم و فن کاری)

(۶) مسٹر جگ جیون رام (لیبر)

مسلم لیگ کے پانچ ممبر

(۱) لیاقت علی خاں (فنانس)

(۲) چندریگر (تجارت) 

(۳) سردار عبدالرب نشتر (مواصلات، ڈاک خانے، ہوائی پرواز)

(۴) راجہ غضنفر علی خاں (صحت)

(۵) جوگندر ناتھ منڈل (قانون سازی)

سکھ: سردار بلدیو سنگھ (دفاع)

پارسی: بھبیا (ورکس، مائنس اینڈ پاور)

عیسائی: جان میتھائی (انڈسٹریز و سپلائی)۔“ (نامہ اعمال، ص/99۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/268)

مسلم لیگ کے ناموں میں منڈل کا نام؟

مسلمانوں کی واحد نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی اور اسلامی حکومت کے لیے ”پاکستان“ کا حسین خواب دکھانے والی مسلم لیگ نے اپنے پانچ ناموں میں ایک نام جوگندر ناتھ منڈل کا پیش کردیا،جو مسلمانوں کے ساتھ سراسر دھوکہ اور فریب تھا،آخر مسٹر جناح نے ایسا کیوں کیا؟ 

”سر محمد یامین خاں کی روایت کے مطابق ایک لیگی کے بہ قول جناح صاحب نے منڈل کی نامزدگی کا فیصلہ کانگریس کے جواب میں ضد میں آکر کیا تھا۔ اگر جناح صاحب ضد سے کام نہ لیتے اور منڈل کے بجائے بھی کسی مسلمان کو نامزد کرتے، تو کیبنٹ میں ۵/ مسلمان، ۶/ ہندو، اور ۳/سکھ، پارسی اور عیسائی وغیرہ دیگر اقلیتوں کے ممبر ہوتے۔ اس طرح حکومت میں مسلمانوں کی تعداد کانگریس کے ہندو ممبران سے زیادہ اور پوزیشن بہت مستحکم ہوتی۔ یہ بھی سوچیے کہ اگر کانگریس کے ایک مسلمان ممبر بھی شمار کرلیا جائے، تو صورت حال یک سر تبدیل ہوجاتی۔ مسلمان ۶، کانگریسی ممبر۵/ رہ جاتے اور اقلیتیں ۳۔ لیکن افسوس کہ ضد کہیے، دشمنی یا تعصب کہیے، عقل پر کیسے پردے پڑگئے تھے کہ اتنی صاف، روشن اور واضح بات بھی انھیں نہ سوجھی، جن پر اعتماد کرکے فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/268)

 وزارتی مشن کے سامنے پیش کردہ اس فارمولہ کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے مورخ ملت حاشیہ میں رقم طراز ہیں کہ 

”مولانا ابوالکلام آزادؒ کے حسن تدبر سے یہ مطالبہ پورا ہوگیا تھا؛ بلکہ ایسی صورت ہوگئی تھی کہ اعلا ہندو کے مقابلہ میں مسلمان دو چند ہوگئے تھے؛ کیوں کہ مسلم لیگ کو پانچ مسلمانوں کے نامزدگی کا حق دیا گیا تھا اور کانگریس کو اگرچہ ۶/ ارکان کی نامزدگی کا حق دیا گیا تھا؛ مگر کانگریس نے اپنے کوٹے کو اس طرح تقسیم کیا تھا کہ اعلا ہندو تین، سکھ ایک، اچھوت ایک، مسلمان ایک۔ اس طرح انٹرم گورنمنٹ میں تین اعلا ذات ہندووں کے مقابلہ میں ۶/ مسلمان ہوگئے تھے۔ اور انٹرم گورنمنٹ کے 14/ ممبروں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے تقریبا پینتالیس فی صدی مسلمان ہوگئے تھے۔ مگر مسٹر جناح صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس حسن تدبر کی قدر نہیں کی؛ بلکہ لیگ کے کوٹے میں ایک اچھوت کو داخل کرکے 45/ فی صدی سے ہٹاکر صرف 35/ فی صد یعنی تقریبا ایک تہائی مسلمان کردیے“۔ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/31)

گروپ بندی پر جمعیت کا نقطہ نظر 

”کینٹ مشن نے اپنی سفارشات میں صوبائی گروپ بندی کا ایک شاخسانہ بھی لگادیا تھا، جس کا حاصل یہ تھا کہ 

(الف) ہر ایک سیکشن ماتحت صوبوں کے لیے صوبائی کانسٹی ٹیوشن (صوبائی دستور حکومت) طے کرے گا۔

(ب) ہر ایک سیکشن یہ طے کرے گا کہ ان صوبوں کے لیے کوئی گروپ کانسٹی ٹیوشن (اجتماعی دستور حکومت) کی ضرورت سمجھی جائے، تو یہ سیکشن طے  کرے گا کہ کن صوبائی صیغوں کا کام گروپ کو کرنا ہوگا اور کون سے صیغے صوبجات کے حوالے رہیں گے۔ 

جس وقت نئے انتظامات عمل میں آجائیں گے، تو صوبائی اسمبلے کے جدید انتخاب کے بعد ہر صوبہ کو اختیار مل جائے گا کہ جس گروپ میں وہ شامل کیا گیا ہے، وہ اس سے اپنی علاحدگی کا فیصلہ کرلے۔ ……

مسٹر جناح وزارتی مشن کی دفعہ 19، ضمن 5و ضمن8کا مفاد یہ بتاتے تھے کہ ہر صوبہ کو گروپ میں داخل ہونا ضروری ہے۔ پھر سیکشن کی اکثریت جو کچھ فیصلہ کرے، اس کا ماننا لازم ہے۔ 

چوں کہ انھیں سفارشات میں ان مخصوص اور محدود اختیارات کے علاوہ جو مرکز کے حوالے کیے گئے تھے، باقی تمام امور میں صوبجات کو خود مختار قرار دیا تھا، لہذا کانگریس کا دعویٰ یہ تھا کہ مجموعی طور پر سفارشات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ: 

”گروپ میں شامل ہونا لازم نہیں؛ بلکہ ہر ایک صوبہ کو حق ہے کہ وہ گروپ میں شامل ہونے سے انکار کردے اور اپنا آئین خود مرتب کرے“

اسی تضاد کے پیش نظر مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند نے اپنے اجلاس مورخہ 9-10-11رجب 1365ھ، 10-11-12/ جون 1946کی ایک تجویز میں سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: 

”یہ بات(گروپنگ سسٹم) خواہ قابل عمل قرا ر پائے یا نہ پائے، اور مستقل حیثیت اختیار کرے یا نہ کرے؛ لیکن اس سے صرف ایک ہی بات حاصل ہوسکتی ہے کہ یہ حیلہ جو طبیعتوں کے لیے فتنہ کا ذریعہ بن سکتا ہے اور اس کے ذریعہ سے افتراق انگیزی کو مدد مل سکتی ہے۔“ 

چنانچہ یہ پیشن گوئی صادق ہوئی اور‘گروپ بندی“ کا مسئلہ لیگ اور کانگریس کے مابین نقطہ اختلاف بن گیا۔ انتہا یہ کہ لندن میں ایک گول میز کانفرنس کی نوبت آئی، اس کانفرنس کا اگر کوئی نتیجہ برآمد ہوا، تو صرف یہ کہ ۶/ دسمبر 1946کو برطانوی حکومت کی طرف سے ایک اعلان کیا گیا، جس میں لیگ کے نظریہ کی حمایت کرتے ہوئے یہ خواہش کی گئی تھی: 

”کانگریس بھی اسی نظریہ کو منظور کرلے، تاکہ مسلم لیگ کو اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنے کی راہ نکل آئے؛ لیکن اگر کیبنٹ مشن کی پیش کردہ وضاحت کے بعد کانگریس یہ چاہتی ہے کہ یہ بنیادی معاملہ فیڈرل کورٹ سے طے ہونا چاہیے تو اس معاملہ میں جلد از جلد فیڈرل کورٹ کے حوالے کردیا جائے، تاکہ کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی کے سیکشنوں کی نشست سے پہلے ہی فیڈرل کورٹ کا فیصلہ معلوم ہوجائے۔“ (تیج مورخہ ۹/ دسمبر1946)

مذکورہ بالا اعلان میں کانگریس کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ اس مسئلہ کو فیڈرل کورٹ میں پیش کردے؛ مگر اس اعلان سے ۸/ روز بعد مسٹر جناح نے لندن میں ایک پریس کانفرنس میں بیان دیتے ہوئے فرمایا: 

”میں بتائے دیتا ہوں کہ اس نکتہ پر میں کسی عدالت کے فیصلہ پر بھروسہ نہیں کروں گا۔“ (قومی آواز ص/۴، مورخہ 16/ دسمبر1946۔ بحوالہ علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، جلد دوم، ص/451-454) 

چوں کہ کیبنٹ مشن میں شرکت کے لیے مسلم لیگ نے گروپ بندی کو لازم قرار دیا تھا، اس لیے حیلہ جو طبیعتوں کے لیے فتنہ کا دروازہ کھولنے کے باوجود جمعیت علمائے ہند نے اس سے  انحراف مناسب نہیں سمجھا اور مجلس عاملہ نے  14-15-16/ دسمبر1946کو منعقد اپنے اجلاس میں  درج ذیل تجویز منظور کی: 

جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ اپنی اس رائے کا اظہار ضروری سمجھتی ہے کہ گروپنگ سسٹم کا قیام مسلمانوں کے لیے اس کے خیال میں کچھ مفید نہیں ہے، تاہم چوں کہ ہندستان کے لیے دستور اساسی کی مجلس میں مسلم لیگ کی شرکت اسی مسئلہ پر مرکوز ہورہی ہے، اس لیے جمعیت علمائے ہند کی رائے ہے کہ کانگریس کو یہ موقع ہاتھ سے نہ دینا چاہیے اور گروپنگ سسٹم کی جو تشریح کیبنٹ مشن نے کی ہے، اس کو تسلیم کرلینا چاہیے، تاکہ ہندستان کی آزادی میں تمام ہندستانی متفقہ طور پر شریک ہوکر اصلی مقصد حاصل کرسکیں۔ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/46) 

عارضی حکومت پر اظہار اطمینان لیکن مسلم لیگ کی قیادت پر اظہار افسوس

”عارضی حکومت کے قیام اور اس کے بعد سیاسی حالات نے جو نازک صورت اختیار کرلی تھی۔ا س کے اور بعض دوسرے اہم مسائل کے پیش نظر مجلس عاملہ کے اجلاس کا فوری انعقاد از بس ضروری تھا۔ 

ان مسائل کی اہمیت نے یہ بھی ضروری قرار دیا کہ اراکین مجلس عاملہ کے علاوہ ملک کے مقتدر رہنما اور جمعیت علمائے ہند کی ہموا جماعتوں کے ذمہ دار حضرات کو بھی دعوت دی جائے اور ان کے قیمتی مشورہ سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ 

چنانچہ 24/ شوال 1365مطابق، 21/ ستمبر 1946کو مجلس عاملہ کا اجلاس شروع ہوا۔ اور 22/ ستمبر کو تقریبا پانچ گھنٹے متواتر مجلس مشاورت کا اجلاس ہوتا رہا۔ اس کے بعد 23اور 24/ کو مجلس عاملہ نے اپنے متعدد اجلاسوں میں حسب ذیل تجاویز منظور کیں: 

تجویز نمبر ۱۔ مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اگرچہ اس اعلان کو جو برطانوی حکومت نے ہندستان کی آزادی کے متعلق کیا ہے، نیز اس کاروائی کو جو ہندستانیوں کی طرف اختیارات منتقل کرنے کے متعلق کی گئی ہے، بڑی حد تک قابل اطمینان سمجھتا ہے؛ مگر اس امر کو واضح کردینا چاہتا ہے کہ آزادی وطن کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی اور آزادی طلب جماعتوں کی منزل مقصود ابھی دور ہے۔ 

اجلاس ہذا کی رائے میں یہ امر نہایت افسوس ناک ہے کہ مسلم لیگ کی غلط قیادت کے باعث عارضی حکومت میں مسلمانوں کو اب تک وہ درجہ حاصل نہیں ہوسکا، جو ان کی قومی ووطنی اہمیت کے اعتبار سے ان کا جائز حق ہے۔ 

مجلس عاملہ اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کرسکتی کہ عارضی حکومت کی تشکیل کے موقع پر کانگریس ہائی کمانڈ نے قوم پرور مسلمانوں کے ساتھ وہ طرز اختیار نہیں کیا، جو اس کا فرض تھا۔ا گر مسلم لیگ کی غیر موجودگی کی صورت میں مسلم نشستوں کا پر کرنا ضروری سمجھا گیا تھا، تو اس کے لیے وہی ممبر مسلمانوں کو مطمئن کرسکتے تھے، جو قوم پرور مسلم جماعتوں کے منتخب کردہ ہوتے۔ 

مزید برآں حکومت کے ممبروں میں اہم محکمے مساویانہ طریقہ پر تقسیم نہ کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا،و ہ بھی مسلمانوں کے نزدیک تسلی بخش نہیں ہے۔ 

مجلس عاملہ مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر کانگریس ہائی کمانڈ کے طریق کار کو قومی نقطہ نگاہ سے قابل اعتراض سمجھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ عارضی حکومت کو پوری طرح مفید اور نمائندہ بنانے کے لیے جلد از جلد موثر طریقے اختیار کیے جائیں گے۔”(ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/39-40)  

کانگریس ہائی کمانڈ کی غلطی پر جمعیت کی تنبیہہ

جمعیت علمائے ہند نے مجلس عاملہ کی اس تجویز میں انتقال اختیارات کے لیے اس قومی عارضی حکومت پر اطمینان کا اظہار تو کیا؛ لیکن ساتھ ہی مسلم لیگ کی غلط قیادت پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ساتھ ہی کانگریس کے ہائی کمانڈ کے غلط طریقے پر تنبیہہ بھی کی۔ کانگریس کے ہائی کمانڈ  کی غلطی کیا تھی؟ اس حوالے سے مولانا سید محمد میاں صاحبؒ لکھتے ہیں کہ 

”جب کہ پنڈت جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزادؒ او روائسرائے ہند کی جانب سے عارضی گورنمنٹ کی تشکیل کے وقت لیگ کو پانچ نشستوں کے پیش کش کی جاچکی تھی، اور لیگ کی طرف سے واضح طور پر اس پیش کش کی تردید نہیں ہوئی تھی، تو ایسی صورت میں کاکانگریس نے یہ تو مناسب نہ سمجھا کہ مسلمانوں کی نشستوں کو مستقل طور پر پر کردے۔ نیز مولانا آزادؒ نے یہ بھی پسند نہ کیا کہ عارضی حکومت میں دفاتر کو اس حالت میں سنبھالے کہ ایک مسلمان بھی شریک حکومت نہ ہو۔ 

لہذا کانگریس کے پارلیمنٹری بورڈ نے طے کیا کہ ”تاوقتیکہ لیگ کی جانب سے کوئی قطعی فیصلہ ہو، ان نشستوں کو عارضی طور پر پر کردیا جائے۔“ کانگریس کے لیے آخری چارہ کارہ کار یہی تھا؛ مگر دشواری یہ تھی کہ جمعیت علمائے ہند یا کوئی اور باوقار جماعت اس کو بھی پسند نہ کرسکتی تھی کہ وہ اس مذبذب صورت حال کے لیے اپنے معزز نمائندوں کو پیش کرے؛ لہذا کانگریس نے جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار اسلام وغیرہ قوم پرور جماعتوں کے توسط کے بغیر براہ راست قوم پرور مسلمانوں سے گفتگو شروع کی۔ مگر یہی دشواری یہاں بھی درپیش تھی کہ حاجی مولانا بخش صاحب ایم ایل اے (سندھ)، ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب، پرنسپل جامعہ ملیہ (دہلی)، مولوی محمد احمد صاحب کاظمی، خان بہادر محمد جان (کلکتہ)، مولوی عبد المجید صاحب حریری (بنارس)، وغیرہ قوم پرور حضرات نے اس عارضی شرکت کو اپنی خود داری کے خلاف سمجھا۔ 

اس میں شک نہیں کہ بہتر صورت یہ تھی کہ کانگریس کا پارلیمنٹری بورڈ اس پیچیدہ صورت حال کو قو پرور جماعتوں کے سامنے رکھ کر ان سے درخواست کرتا کہ مشکل کشائی کے لیے کانگریس کی امداد کریں اور اپنے خود دار اور موقر نمائندوں کو اس ایثار پر مجبور کردیں؛ مگر کانگریس پارلیمنٹری بورڈ نے اس بہتر راہ عمل کو چھوڑکر براہ راست سر شفاعت احمد خاں اور مسٹر علی ظہیر کو نامزد کردیا اور پھر ارکان حکومت کی قابلیت کا موازنہ کرتے ہوئے قلم دان وزارت بھی اس طرح تقسیم کیے گئے کہ اہم محکمے مسلمانوں کو نہ مل سکے۔ اگر چہ مسلمانوں کی دو نشستیں اب بھی خالی تھیں؛ مگر اس طرز عمل نے ایک تنبیہہ کی ضرورت پیداکردی تھی، لہذا جمعیت علمائے ہند نے اس ضرورت کی طرف بروقت توجہ کی۔ 

چنانچہ 24/ شوال، 1365ھ، مطابق 21/ ستمبر1946کو مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، اس میں مجلس احراراسلام وغیرہ دوسری قوم پرور جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ اور 23/ ستمبر کو مندرجہ ذیل تجویز پاس کرکے تنبیہہ کے اس فریضہ کو انجام دیا۔ 

اگر چہ چند روز بعد لیگ کے داخلہ کے باعث اس تنبیہہ پر عمل نہ ہوسکا۔ مگر خود کانگریسی حلقوں میں جمعیت علمائے ہند کی اس صاف گوئی کی قدر کی۔ 

اسی تاریخ (23/ستمبر) کو آل انڈیا کانگری کمیٹی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند نے اس تجویز کی روشنی میں کانگریس ہائی کمانڈ پر سخت نکتہ چینی کی۔ نیشنلسٹ پریس نے مولانا کی اس تنقید کو سراہا اور کانگریس ہائی کمانڈ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ (علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، جلد دوم، ص/ 399-400) 

یوم حلف برداری

وزارتی مشن کے چودہ رکنی پلان کے مطابق ۲/ ستمبر1946کو  وائسرائے ہاوس میں عارضی حکومت کی حلف برداری تقریب منعقد ہوئی اور ارکان نے حلف اٹھایا:

”ضروری امور طے کرنے میں تقریبا دو ہفتہ صرف ہوئے۔ پھر اگست کی آخری تاریخوں میں ارکان حکومت اور ان کے متعلق محکموں کا اعلان کردیا گیا۔ اور ۲/ ستمبر1946، مطابق ۵/ شوال المکرم 1365ھ، یوم دو شنبہ کو نامزد ارکان نے اپنے محکموں کا چارج لے کر کام شروع کردیا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/235) 

دستور ساز اسمبلی کا افتتاح

غلام بھارت میں آزاد قومی حکومت کے قیام کے لیے ۲/ستمبر1946کو تشکیل کردہ عارضی حکومت کی پہلی دستور سازاسمبلی کا افتتاح ۹/ دسمبر1946کو کیا گیا۔ اس کا پہلا مستقل صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد کو منتخب کیا گیا۔ اور پھر 13/ دسمبر1946کو عارضی حکومت کے نائب صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے جدید دستور ساز اسمبلی میں پہلی قرارداد پیش کی۔ اور اس طرح ہندستان مکمل آزادی کی طرف بڑھنے لگا۔