کیبنٹ مشن کا پلان اور جمعیت علمائے ہند
محمد یاسین جہازی
دسمبر 1945سے جنوری 1946کے درمیان مرکزی قانون ساز اسمبلی اور صوبائی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن کرائے گئے۔ یہ الیکشن جداگانہ طریقہ انتخاب پر مبنی تھا، یعنی مسلمان مسلمانوں کو ووٹ دیں گے اور ہندو ہندووں کو۔ مسلم لیگ نے پاکستان کے نعرے کے ساتھ الیکشن لڑا، جب کہ جمعیت علمائے ہند نے آزادی ہند کے نام پرمسلم پارلیمنٹری بورڈ کے تحت کانگریس کی حمایت کی۔اور براہ راست بھی اپنے امیدوار کھڑا کیے۔ مرکزی اسمبلی کا انتخاب دسمبر1945میں ٹوٹل 102نشستوں پر ہوا۔ آوائل جنوری 1946میں نتیجہ سامنے آیا، جس میں 30/ نشستیں مسلمانوں کے لیے مخصوص تھیں،ان سب نشستوں پر مسلم لیگ نے جیت درج کرائی، جب کہ کانگریس کو کل 57نشستیں ملیں۔
اس کے بعد فروری اور مارچ 1946میں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوئے۔
”دستور ساز اسمبلی میں برطانی ہند اور ریاستوں کے نمائندوں کے لیے 389نشستیں رکھی گئی تھیں،ان میں سے 207نشستوں پرکانگریس کے امیدوار کامیاب ہوگئے ہیں۔ اور 73نشستوں پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا ہے۔“(روزنامہ انجام دہلی، 27/ جولائی 1946)
اس الیکشن میں مسلمانوں کے لیے 78نشستیں مخصوص تھیں، جن میں سے 73نشستوں پر مسلم لیگ نے جیت درج کراکر دوسری بڑی پارٹی کا درجہ حاصل کرلیا، یعنی اس نے مرکزی اسمبلی کے تمام مسلم حلقوں کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے زیادہ تر مسلم حلقوں پر قبضہ کر لیا۔اور اسی انتخاب نے پاکستان کا راستہ کھول دیا۔
الیکشن سے پہلے وائسرائے ہند لارڈ واویل نے اعلان کیا تھا کہ الیکشن کے بعد ایک ایگزیکیٹو کونسل تشکیل دی جائے گی اور ساتھ ہی قانون ساز اسمبلی بھی بنائی جائے گی۔ چنانچہ انتخابات کے بعد انگریزوں سے ہندستانیوں کو حکومتی اختیارات منتقل کرنے کے لیے 17/ فروری 1946کو ایک کیبنٹ مشن(Cabinet Mission) بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اسے وزارتی مشن بھی کہاجاتا ہے۔
”17/ فروری1946: 17/ فروری1946کو لارڈ پیتھک لارنس سکریٹری آف اسٹیٹس نے لندن میں دارالعوام میں اعلان کیا کہ برٹش حکومت نے ہندستان میں تین وزرا پر، یعنی سکریٹری آف اسٹیٹس لارڈ پیتھک لارنس(Pethick-Lawrenc)، بحریہ کے پہلے لارڈ مسٹر اے وی الیگزنڈر(A.V.Alexander) اور پریسیڈنٹ بورڈ آف ٹریڈ سر اسٹیفورڈ کرپس(Sir Stafford Cripps) پر مشتمل ایک کیبنٹ مشن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ وہ ہندستان کے نمائندوں سے گفتگو کرکے ملک میں اس پروگرام کے متعلق -جس کا وائسرائے نے اپنی 17/ فروری کی تقریر میں ذکر کیا ہے- قدم بڑھائیں۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/60)
حکومت برطانیہ کا بڑا اعلان
”20فروری 1946: حکومت برطانیہ نے ایک بڑا قدم اٹھایا۔ 20/ فروری 1946کو ایٹلی (Clement Attlee)نے اعلان کیا کہ برطانیہ ”جون 1948تک اقتدار ہندستان کے ذمہ دار ہاتھوں میں منتقل کرنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت برطانیہ اس پر بھی غور کرے گی کہ برطانوی ہند کا اقتدار مقررہ تاریخ پر کس کو سونپا جائے، کسی مرکزی حکومت،یا کچھ علاقوں میں موجود صوبائی حکومتوں کو، یا کسی اور طریقے سے جو نہایت معقول نظر آئے۔“ (مسلم افکار، ص/256۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/64)
یہ تین رکنی مشن 23/ مارچ 1946کو ہندستان پہنچا اور 25/ مارچ کو ایک کانفرنس کرکے اپنی آمد کا مقصد بتایا کہ
”ہم کوئی تجویز یا فارمولہ لے کر نہیں آئے، ہم یہ ارادہ لے کر ضرور آئے ہیں کہ ہندستانی لیڈروں سے مذاکرات کے بعد ایسا خاکہ بنایا جائے گا، جس کے تحت ہندستان کے مکمل ڈومینن اسٹیٹس کا انتظام ہوسکے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس ہسٹری کو جلد مرتب کریں اور درمیانی عرصے کے لیے انتظامات فی الفور کیے جائیں۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/81)
مشن نے اور مشن سے وائسرائے ہند،صوبائی گورنروں، ایگزیکیٹو کونسل کے ممبران اور کانگریس و مسلم لیگ کے لیڈروں کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا۔ 4/ اپریل 1946کو مسٹر جناح نے مشن سے ملاقات کی۔ ویول کے مطابق یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔
”4/ اپریل 1946: مسٹر جناح مشن سے ملاقات کرنے پہنچے۔ یہ سلسلہ تین گھنٹے تک جاری رہا۔ ویول کا کہنا ہے کہ ”میرے خیال میں دو گھنٹے تو بالکل ضائع ہوئے۔“ …… ویول کہتا ہے کہ میں نے پاکستان کی سرحدات کے بارے میں پوچھا تو آدھ گھنٹے کی دل چسپ گفتگو کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہ لگا۔ اس ملاقات کی جو خفیہ رپورٹ تیار ہوئی، اس میں جناح کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سے وہ شخص یاد آتا ہے، جس پر اپنے ماں باپ کو ماردینے کا الزام تھا اور اس نے عدالت سے اس بنا پر رحم کی استدعا کی تھی وہ یتیم ہے۔“ (مولانا ابوالکلام آزادؒ اور قوم پرور مسلمانوں کی سیاست، ص/325۔ بحوالہ: شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/94)
بعد ازاں 6/ اپریل 1946کو کانگریس کے صدر حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے کیبنٹ مشن سے ملاقات کی اور بالخصوص فرقہ وارانہ گتھی کو سلجھانے کے لیے حل پیش کیے۔ اس گفتگو کے نتیجے کے متعلق بتاتے ہوئے مولانا آزاد ؒ لکھتے ہیں کہ
”سر اسٹیفورڈ کرپس نے خاص طور پر میری تجویز میں دل چسپی لی اور بڑی دیر تک مجھ سے جرح کرتے رہے۔ آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ میرے نقطہ نظر سے مطمئن ہوگئے ہیں۔“ (انڈیا ونس فریڈم، ص/224۔ بحوالہ: شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/101)
مسلم لیگ کے مطالبات
4/ اپریل 1946کو مسٹر جناح کی مشن سے ملاقات ناکام ہونے کے بعد 8-9/ اپریل 1946کو مسلم لیگ کے مرکزی و صوبائی ممبروں پر مشتمل ایک اجتماع کیا گیا۔ اور اس میں مشن کے سامنے پیش کرنے کے لیے چند مطالبات مرتب کیے۔اس کا ضروری حصہ درج ذیل ہے:
۱۔ ہندستان کے شمال مشرق میں بنگال اور آسام، شمال مغرب میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ کے پاکستانی علاقوں میں - جہاں کہ مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں - ایک آزاد خود مختار ریاست کی بنیاد ڈالی جائے اور پاکستان کے قیام کی فوری گارنٹی دی جائے۔
۲۔ کہ پاکستان اور ہندستان کے عوام اپنے اپنے آئین مرتب کرنے کے سلسلہ میں دو علاحدہ علاحدہ آئین ساز ادارے قائم کریں۔
۳۔ کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی 23/ مارچ 1940والی قرار داد کی شرائط کے مطابق پاکستان اور ہندستان کی اقلیتوں کے لیے تحفظات مقرر کیے جائیں۔
۴۔ کہ مرکز میں کسی عارضی حکومت کی تشکیل، یا اس میں شرکت کی گارنٹی اس وقت دے سکتی ہے، جب مسلم لیگ کا مطالبہ پاکستان فوری طورپر تسلیم کرلیا جائے اور اس کی شرائط کو بغیر مزید تاخیر کے عملی جامہ پہنایا جائے۔
یہ کنونشن زور دار لہجے میں اس امر کا اعلان کرتی ہے کہ اگر اکھنڈ ہندستان کی بنیادوں پر کوئی آئین ٹھونسنے کی کوشش کی گئی، یا مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی شرائط کے خلاف مرکز میں کوئی عارضی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی گئی، تو مسلمانان ہندکے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہ جائے گا کہ وہ تمام وسائل کو کام میں لاکر اور اپنے قومی وجود اور تحفظ و بقا کے لیے اس سے پوری مزاحمت کریں گے۔“ (خلافت بمبئی، 10/ اپریل 1946، جلد 25، ص/86۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/103)
مولانا ابوالکلام آزادؒ کا تبصرہ
مسلم لیگ کے ان مطالبات پر 15/ اپریل 1946کو مولانا ابوالکلام آزادؒ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ
”مسلم لیگ نے پاکستان کی جو اسکیم تجویز کی ہے، اس پر میں نے ہر پہلو سے غور کیاہے۔ ایک ہندستانی ہونے کی حیثیت سے میں نے سوچا ہے کہ پورے ہندستان کے مستقبل پر اس کا کیا اثر ہوگا۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے مستقبل پر کی اثر پڑسکتا ہے۔
اسکیم کے تمام پہلووں پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ نہ صرف بہ حیثیت مجموعی پورے ہندستان کے لیے؛ بلکہ خاص طور پر مسلمانوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوگی۔ اور دراصل جتنے مسئلے اس کے ذریعہ حل ہوں گے، ان سے زیادہ نئے مسئلے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
مجھے اس کا اعتراف ہے کہ پاکستان کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اترتا۔ اس سے یہ خیال پیدا کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصہ پاک اور کچھ حصہ ناپاک ہیں اور پاک اور ناپاک علاقوں کی یہ تقسیم سراسر غیر اسلامی ہے؛ بلکہ اسلام سے انحراف ہے۔ اسلام کسی ایسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔ آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں: خدا نے ساری زمین میرے لیے مسجد بنایا ہے۔“ (انڈیا ونس فریڈم، ص/225۔ بحوالہ: شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/114)
جمعیت کی مجلس عاملہ کا اجلاس
وزارتی مشن نے جہاں کانگریس، مسلم لیگ اور دیگر لیڈروں سے ملاقات کی؛ وہیں یہ بھی ضروری تھا کہ وہ مختلف فرقوں اور مذاہب کے قوم پرور لیڈران سے بھی ملاقات کرتا؛ لیکن مشن نے ایسے کسی بھی لیڈران کو دعوت نہیں دی؛ حتیٰ کہ جمعیت علمائے ہند کے قائدین کو بھی دعوت نہیں دی۔ ان حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے مورخ ملت ؒ رقم طراز ہیں کہ
”مارچ 1946میں کیبنٹ مشن (وزارتی وفد) ہندستان آیا، تاکہ رہنمایان ہند سے اور ہندستان کی مختلف مفادات کی پارٹیوں کے زعما سے ملاقات کرکے دستور ہند کے متعلق ان کی رائیں اور ان کے نظریات معلوم کرے۔ اور پھر تجاویز کرپس کی روشنی میں دستور ہند کے متعلق بنیادی خاکہ مرتب کردے۔
اس موقع پر ضروری تھا کہ قوم پرور مسلمان بھی آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے صحیح موقف کے متعلق اپنا فارمولہ پیش کریں؛ مگر بدقسمتی یہ تھی کہ قوم پرور جماعتوں کو مشن کی طرف سے دعوت نہیں دی گئی تھی۔ اور برطانوی سامراج کی سابق روایات کے پیش نظر قوم پرور مسلمانوں کو بجا طور پر یہ خیال ہوگیا تھا کہ جس طرح گول میز کانفرنس منعقدہ 1931و 1932اور شملہ کانفرنس 1945وغیرہ کے موقع پر قوم پررو مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا اور توجہ دہانی کے باوجود کوئی التفات نہیں کیا گیا تھا، (تاکہ لیگ کی واحد نمائندگی کے دعوے پر جس کو برطانوی ایجنٹوں نے سالہا سال کی جدوجہد سے پروان چڑھایا ہے، کوئی زد نہ پڑے اور بین الاقوامی طور پر نہایت کامیابی سے اس پروپیگنڈے کا موقع ملتا رہے کہ مسلمان من حیث القوم کانگریس کے مخالف اور ہندو سے غیر مطمئن اور خائف ہیں) اسی طرح اس موقع پر قوم پرور مسلمانوں کو نظر انداز کردیا جائے گا۔ تقاضائے وقت کے بموجب بہی خواہان ملت اور بالخصوص ان حضرات کی (جو سالہا سال کی قیدو بند، ضبطی جائداد اور جلاوطنی، حراست اور نظر بندی کی بے پناہ مصائب برداشت کرکے اپنی قربانیوں سے اپنی مخلصانہ بہی خواہی اور ہمدردی ملت کا ثبوت دے چکے ہیں) یہ خواہش فطری اور طبعی تھی کہ ”ہندستان نو“ کی تعمیر کا نقشہ بنانے والے انجنیر اس خاکہ کو بھی کم از کم ایک نظر ضرور دیکھ لیں، جو ان ایثار شیوہ مفکرین نے تیار کیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند نے قوم پرور افراد اور جماعتوں کے اس جذبہ اور وقت کے اس شدید تقاضے کا احساس کرتے ہوئے اپنے اس فرض کی ادائیگی کے لیے- جو قوم پرور جماعتوں کے قائد اور رہنما ہونے کی حیثیت سے اس پر عائد ہوتا ہے- مجلس عاملہ کے اجلاس کا اعلان کیا۔ اور مجلس عاملہ کے اراکین کے علاوہ ہندستان کے دوسرے قوم پرور رہ نماوں کو بھی شرکت اجلاس کی دعوت دی۔ چنانچہ 23/ ربیع الثانی 1365، 28/ مارچ 1946کو مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا۔ اور حسب ذیل تجویز منظور کی:
”جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس برطانوی وزارتی مشن کے اس طرز عمل کو کہ اس نے اپنی ملاقاتوں کے پروگرام میں قوم پرور مسلمانوں کے مشترکہ پارلیمنٹری بورڈ کے نمائندوں کو شامل نہیں کیا، برطانوی حکومت کے ان دیرینہ روایات کے عین مطابق سمجھتا ہے، جن کے ماتحت حکومت مسلمانوں میں ہمیشہ ان جماعتوں کو آگے بڑھاتی رہی ہے، جو اس کے مفاد کی تائید کرتی رہی ہیں۔ اور حکومت پر یہ واضح کردینا چاہتا ہے کہ اگر ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ہندستانی دستور کے بنیادی مسائل کے متعلق کوئی ایسا نظریہ قائم کیا گیا، جو جمعیت علمائے ہند کے نزدیک اسلامی مفاد کے خلاف ہو، تو مسلمان اس کی انتہائی مخالفت کریں گے۔“ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/28-29)
اس کے بعد مولانا لکھتے ہیں کہ
”احساس خطا
اس اجلاس کی کاروروائی ابھی مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ کیبنٹ مشن کے ارکان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور مشترکہ پارلیمنٹری بورڈ کے صدر حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ؒ صدر جمعیت علمائے ہند کے نام دعوت نامہ بھیج دیا۔ اور اس بنا پر کہ جمعیت علمائے ہند کے قائم کردہ ”مسلم پارلیمنٹری بورڈ“ میں دوسری جماعتیں بھی شریک تھیں، جناب صدر کو اجازت دی کہ وہ مزید تین حضرات کو بھی اپنے ہمراہ لاسکتے ہیں۔
چنانچہ 16/ اپریل کو حضرت صدر صاحب جمعیت علمائے ہند و کل ہند مسلم پارلیمنٹری بورڈ، بمعیت عبد المجید صاحب خواجہ صدر کل ہند مسلم مجلس، شیخ حسام الدین صدر کل ہند مجلس احرار اسلام، شیخ ظہیر الدین صاحب صدر کل ہند مومن کانفرنس نے کرپس مشن سے ملاقات کی۔ جناب حافظ محمد ابراہیم صاحب وزیر صوبہ یوپی،بحیثیت ترجمان، جناب صدر مدظلہ العالی کے ہمراہ تشریف لے گئے۔
اس ملاقات سے بیشتر ضرورت محسوس ہوئی کہ جمعیت علمائے ہند کے فارمولے کے بنیادی اصولوں کے پیش نظر مسلم پارلیمنٹری بورڈ اور دوسری مسلم آزاد خیال جماعتوں نے جو مسودے تیار کیے ہیں، ان پر ایک مرتبہ پھر غور کرلیا جائے۔ چنانچہ 12/ جمادیٰ الاول 1365ھ، مطابق 15/ اپریل 1946کو مجلس عاملہ کا دوبارہ اجلاس طلب کیا گیا اور مجلس احرار، و مومن کانفرنس وغیرہ دوسری آزاد خیال مسلم جماعتوں کے ذمہ دار حضرات کو بھی اس اجلاس میں مدعو کیا گیا۔ ذیل میں اس اجلاس کی کارروائی ملاحظہ ہو۔“ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/29-30)
کارروائی اجلاس عاملہ
12-13/ جمادیٰ الاول 1365ھ، مطابق 15-16/ اپریل 1946بروز سوموار ومنگل بمقام دفتر مرکزیہ جمعیت علمائے ہند، زیر صدارت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا ایک اجلاس ہوا۔
”جمعیت علمائے ہند کے فارمولے کے بنیادی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے -جو متعدد فارمولے مختلف آزاد خیال جماعتوں کی طرف سے پیش کئے گئے تھے- اس اجلاس میں ان پر غور کیا گیا اور اگرچہ تمام زیر بحث مسائل متفقہ طور پر طے ہوچکے تھے؛ مگر احتیاطا مناسب نہ سمجھا گیا کہ تحریری طور پر تمام مسائل کومشن کے سامنے پیش کردیا جائے؛ بلکہ تجویز کیا گیا کہ مشن کو اپنا فارمولہ اور اس کے بنیادی نظریات سمجھا دیے جائیں۔نیز طے کیا گیا کہ مشن کو اپنا فارمولا میں دفعہ (د) کی تشریح کرتے ہوئے جو تین متبادل صورتیں پیش کی گئی ہیں، ان میں سے سردست صرف مساوات کی صورت معین طور پر پیش کی جائے۔ یعنی یہ کہ مرکزمیں ہندو 45، مسلمان 45، دیگر اقلیتیں 10دس۔
یہ بھی طے ہوا کہ عارضی حکومت میں بھی ہندو مسلم مساوات کا مطالبہ کیا جائے۔ نیز طے ہوا کہ مطالبہ کیا جائے کہ نمائندہ و اسمبلی کا انتخاب عاقل، بالغ کی رائے سے ہو۔ البتہ جداگانہ یا مخلوط انتخاب کا معاملہ سردست اپنی جانب سے پیش نہ کیا جائے۔
مفصل بحث و تمحیص کے بعد مشن سے گفتگو کے لیے مندرجہ ذیل نکات تجویز کیے گئے:
(۱) آزادی ملک۔
(۲) برطانیہ سے مطالبہ کہ وہ کسی درجہ تک بھی تفصیل میں جائے بغیر محض نمائندہ اسمبلی بناکر اور عارضی حکومت قائم کرکے کل معاملہ ہندستان کے باشندوں پر چھوڑ دے، وہ خود طے کریں کہ ملک تقسیم ہو یا نہ ہو۔ اور اگر ملک متحد رہے، تو کس صورت میں۔
(۳) لیکن اگر اس وقت تفصیلات کی طرف قدم بڑھایا جائے، تو حسب ذیل امور کا اختیار کیا جانا ضروری ہے:
(الف) آزادی مذہب، کلچر، ثقافت، زبان، رسم الخط، مذہبی تعلیم، مذہبی تبلیغ،پرسنل لا، مذہبی عقائد و اعمال، عبادت گاہیں، اوقاف۔ یہ امور بطور فنڈا منٹل رائٹس (بنیادی حقوق) ہوں۔ حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت نہ ہو۔
(ب) صرف ایک وفاق۔
(ج) صوبوں کی مکمل آزادی مع تفویض اختیارات زائدہ غیر مصرحہ۔
(د) صوبوں کا حق خود ارادیت۔
(ھ) مساوات تعداد، یعنی ہندو 45، مسلمان45، دیگر اقلیتیں دس۔
(نوٹ) اس سلسلہ میں باہمی سوال و جواب کے بعد یہ واضح کیا گیا کہ ہمارا مطالبہ جمعیت علمائے ہند کے فارمولے کی روشنی میں یہ لچک رکھتا ہے کہ عارضی حکومت اور مستقل لیجسلیچر میں مسلمانوں کی نمائندگی ایسے اصول پر مبنی ہونا از بس ضروری ہے، جو مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دے اور ملک کی بڑی اکثریت ثانوی کو تعداد کے بل بوتے پر نقصان نہ پہنچا سکے۔
(و) موجودہ مرکزی حکومت کا خاتمہ اور عارضی حکومت میں ہندو مسلم مساوات۔
(ز) نمائندہ اسمبلی پر بنائے رائے دہندگی ہر عاقل و بالغ۔
جمعیت کیکیبنٹ مشن سے ملاقات کا نتیجہ
”وزارتی مشن سے ملاقات کے نتیجے اور اس فارمولے کی اہمیت کے بارے میں مولانا سید محمد میاں ؒ فرماتے ہیں کہ:
16/ اپریل 1946کو شام چار بجے سے سوا پانچ بجے تک وزارتی مشن کے ارکان سے ملاقات ہوئی۔ وزارتی مشن کے ارکان نے جمعیت علما کے فارمولے سے خاص دل چسپی لی۔ حتیٰ کہ ملاقات کے مقررہ وقت (یعنی نصف گھنٹہ) سے زائد پینتالیس منٹ تک ارکان مشن فارمولا کے مضمرات اور اس کے مختلف پہلووں کے متعلق سوالات کرتے رہے اور ان کے جوابات پر مسرت و اطمینان ظاہر کرتے رہے۔ اس فارمولے کے ساتھ وزارتی مشن کی دل چسپی کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ بجنسہ جمعیت علمائے ہند کا فارمولا تھا۔ صرف پیرٹی اور مساوات کی شرط تشنہ تکمیل تھی اور کانگریس اور کیبنٹ مشن نے قولا اس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس فارمولا کے بموجب عارضی حکومت کی تشکیل کی جارہی تھی، تو اگر مسلم لیگ کی ناعاقبت اندیشانہ ضد آڑے نہ آتی، اور 14/ ممبران میں سے 6/ مسلمان ہوتے، یعنی ۵ لیگ کے نامزد اور ایک مسلم ممبر کانگریس کی طرف سے اور اس عارضی گورنمنٹ میں مسلمانوں کا تناسب تقریبا 45ٰٖ فی صد ہوتا۔ اور اس رواج کے قائم ہوجانے کے بعد یقین تھا کہ پیرٹی کا مسئلہ بھی مناسب صورت سے حل ہوجاتا۔ اور اگر بالفرض مسلمانوں کو مرکز میں تینتیس فی صد نشستیں بھی دی جاتیں، تو نقصان صرف اتنا ہی تھا کہ ممبری کے خواہش مند حضرات زیادہ تعداد میں اسمبلی میں نہ پہنچ سکتے۔ اس کے برمقابل فائدہ یہ تھا کہ
(۱) ہر فرقہ وارانہ مسئلے میں ان کو حق استرداد دے دیا گیا تھا، یعنی آئینی طور پر یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ جس مسئلے کو مسلم ممبران اسمبلی کی اکثریت فرقہ وارانہ قرار دے دے، وہ اسمبلی یا پارلیمنٹ میں پیش نہ ہوسکے گا۔ اور اگر پیش ہوچکا،تو وہ پاس نہ کیا جائے گا۔
(۲)اگر یہ اختلاف ہوتا کہ یہ مسئلہ فرقہ وارانہ ہے یا نہیں، تو ایک فیڈرل کورٹ مقرر کیا گیا تھا، جو اس بحث کا فیصلہ کرتا۔
(۳) اس طرح تمام فرقہ وارانہ امور کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی اور اس طرح اکثریت، اقلیت کے تابع ہوکر زندگی بسر کرتی۔
مذکورہ بالاتفصیلات کے علاوہ اس فارمولے کا مفاد یہ تھا کہ
(الف) صوبہ سرحد، صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور جب ریاست کشمیر کو یونین کے ایک صوبے کی حیثیت دے دی جاتی، تو پورا صوبہ کشمیر مذہبی، معاشی اور کلچرل امور میں قطعا خود مختار ہوتے۔
(ب) پورا صوبہ پنجاب اور پورا صوبہ بنگال، جس کا دارالحکومت (دنیا کا دوسرا بڑا شہر) کلکتہ تھا، مسلم اکثریت کے زیر اقتدار رہتا اور
(ج) صوبہ دہلی اور بہ شمول سلہٹ صوبہ آسام کی سیاست اور حکومت میں مسلمانوں کا حصہ تقریبا مساوی ہوتا؛ کیوں کہ صوبہ دہلی میں مسلمان تقریبا 45فی صد تھے۔ اور صوبہ آسام میں تقریبا 35فی صد۔
(د) ہندستان کے باقی صوبوں میں مسلمان لاوارث یتیم کی طرح نہ ہوتے، کیوں کہ
۱۔ ملازمتوں اور اسمبلیوں میں ان کا حصہ کم از کم تیس فی صد ہوتا۔
۲۔ وزارتوں میں ان کی موثر شمولیت ہوتی۔
۳۔ وہ ایسے مرکز کے ماتحت ہوتے، جن میں ان کی تعداد پیرٹی نہ ملنے کی شکل میں 33/ فی صد ہوتی اور فرقہ وارانہ امور کی زمام ان کے ہاتھ میں ہوتی۔
لیکن افسوس مسلمانوں کی اکثریت کا مزاج بگڑچکا تھا۔ کھرے کھوٹے کی تمیز جاتی رہی تھی۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں؛ مگر دماغ معطل ہوگئے تھے۔ اور وہ چراغ گل ہوگئے تھے، جو قلب مومن کے نہاں خانے میں روشن ہوا کرتے ہیں اور جس کی روشنی سے وہ مستقبل کو حال کی طرح دیکھا کرتا ہے۔“ (حیات شیخ الاسلام، ص/179-181۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/123)
مجلس عاملہ کا اجلاس
مختلف ہندستانی لیڈروں سے ملاقات کے بعد وزارتی مشن نے 24نکات پر مشتمل تجاویز پیش کیں اور رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے اخبارات میں شائع کردیا، تو اس کا جائزہ لینے کے لیے، 10-11-12/ جون 1946، بروز سوموار، منگل، بدھ، بمقام دفتر جمعیت علمائے ہند دہلی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحب صدر جمعیت علمائے ہند کی صدارت میں مجلس عاملہ مرکزیہ کا اجلاس ہوا۔ مجلس عاملہ نے طویل بحث و تمحیص کے بعد وزارتی مشن کی تجاویز پر حسب ذیل تجویز منظور کی:
تجویز نمبر۱۔ جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا یہ جلسہ وزارتی مشن کی شائع کردہ تجاویز پر اپنے خیالات کا حسب ذیل اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہے:
وزارتی مشن نے ہندستان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی حسب منشا قانون بنانے کے بعد آزاد ہے کہ چاہے برطانوی کامن ویلتھ میں شریک رہے اور چاہے اپنی مکمل علاحدگی کا اعلان کردے۔ یہ اعلان واظہار وزارتی مشن کی طرف سے اس کی نیک نیتی کا اطمینان دلانے کے لیے کافی تھا، مگر مشن کی طرف سے ہندستان کی مختلف جماعتوں کو قانون بنانے کا موقع دینے میں جو صورت اختیار کی گئی اور جو راستہ تجویز کیا گیا، وہ مختلف و متعدد شبہات کا مرکز ہے۔ ہم مشن کے اعلان کے متعلق بعض ضروری چیزیں کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں:
۱۔ وزارتی مشن اسکیم میں ہندستانی حکومت کی تقسیم قبول نہیں کی گئی اور پاکستانی و غیر پاکستانی علاقے قائم نہیں کیے گئے۔ یہ بات ہندستان اور مسلمانوں کے لیے مفید ہے۔ نیز مشن کی اسکیم میں مرکز کے پاس صرف ضروری اور لازمی مضامین کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے، جو جمعیت علما کی رائے تھی اور جو مناسب اور صحیح ہے؛ مگر اس کے ساتھ گروپنگ سسٹم کا قیام اور صوبوں کے حق خود ارادیت کے خلاف صوبوں کو جو باہمی عارضی جوڑ لگایا گیا ہے، یہ بات خواہ قابل عمل قرار پائے یا نہ پائے، اور مستقل حیثیت اختیار کرے یا نہ کرے، لیکن اس سے صرف ایک بات حاصل ہوسکتی ہے کہ یہ حیلہ جو طبیعتوں کے لیے فتنہ کا ذریعہ بن سکتا ہے اور اس کے ذریعہ افتراق انگیزی کو مدد مل سکتی ہے۔
۲۔ رائے دہی بالغان کے طریقے سے انتخاب کرکے منتخب شدہ اشخاص کی کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی بنانے کو ترک کردیا گیا۔ حالاں کہ بہتر اور منصفانہ طریقہ وہی تھا اور اس کے لیے جو عذر بیان کیا گیا، وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔
۳۔ عارضی حکومت ایسے اصول و اختیارات کے ساتھ قائم ہونی چاہیے، جو مکمل حکومت خود اختیاری کا نمونہ ہو۔
۴۔ عارضی حکومت کی نمائندگی میں ہندو مسلم مساوات کا اصول اختیار کرنا چاہیے۔ پارٹیوں یا جماعتوں کی نمائندگی کا اصول اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
۵۔ اہم فرقہ وارانہ معاملات کے بارے میں مشن نے تحفظ کی جو صورت تجویز کی ہے، اس کے متعلق یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ چوں کہ یہ بنیادی معاملہ ہے، اس لیے اس کا نفاذ مرکزی مجلس اور صوبہ جاتی مجالس میں یک ساں ہونا چاہیے۔
۶۔ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جب چئیرمین کسی فرقہ وارانہ اختلافی مسئلے میں فیڈرل کورٹ سے مشورہ کرے گا، تو وہ کورٹ کے فیصلے کا پابند ہوگا۔ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/34)
مشن سے گفتگو کی دعوت
24/ اپریل 1946کو وزارتی مشن شملہ سے دہلی آیا اور اسی دن ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ
”بڑی پارٹیوں کے درمیان باہمی رضا مندی سے معاہدہ کرنے کے لیے گفتگو کرنا مناسب ہوگا، اس لیے مشن نے کانگریس اور مسلم لیگ کے صدور کو دعوت دی کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کی ورکنگ کمیٹی کے نمائندے شملہ میں مشن سے مل کر گفتگو کرنے کے لیے نامزد کریں۔“ (انڈیا ونس فریڈم، ص/230۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/127)
مشن کا منصوبہ اور لیگ،کانگریس کے نمائندوں کا انتخاب
”27/ اپریل 1946: لارڈ پیتھک لارنس نے مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مسٹر جناح سے درخواست کی کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں کے چار چار نمائندے نامزد کریں، جن سے مشن کے منصوبے پر گفتگو کی جاسکے۔ مشن کا منصوبہ یہ ہے:
۱۔ پورا ہندستان ایک یونین گورنمنٹ کے ماتحت ہوگا، جس کے پاس صرف امور خارجہ، دفاع اور مواصلات کے محکمے ہوں گے۔
(۲) صوبوں کے دو وگروہ ہوں گے:
(الف) وہ صوبے، جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
(ب) وہ صوبے، جن میں ہندووں کی اکثریت ہے۔
(۳) حکومت کے تمام شعبے صوبوں کی حکومت کے ماتحت ہوں گے۔ غیر متعنہ شعبے بھی صوبوں ہی کے ماتحت ہوں گے۔
(۴) ملک کے دستوری ڈھانچے میں دیسی ریاستیں بھی مفاہمت کے بعد اپنی جگہ پائیں گی۔
(۵) مرکز کے پاس تین محکمے ہوں گے، لیکن اگر کوئی صوبہ اپنے شعبوں میں سے کوئی شعبے مرکزی حکومت کے حوالے کرنا چاہے، تو یہ اسے اختیار ہوگا۔
لارڈ پیتھک لارنس کے کے خط کے جواب میں کانگریس نے نمائندوں کی فہرست بھیج دی ہے، جو یہ ہے:
۱۔ مولانا ابوالکلام آزاد صدر آل انڈیا کانگریس کمیٹی
۲۔ پنڈت جواہر لال نہرو رکن مجلس عاملہ کانگریس
۳۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل رکن مجلس عاملہ کانگریس
۴۔ خان عبد الغفار خان رکن مجلس عاملہ کانگریس
اگر چہ مسلم لیگ نے لارڈ موصوف کے خط کے جواب میں کئی سوالات اٹھائے؛ لیکن اس نے ذیل کے نمائندے نامزد کردیے:
۱۔ مسٹر محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ
۲۔ نواب زیادہ لیاقت علی خان سکریٹری مسلم لیگ
۳۔ نواب محمد اسماعیل خاں رکن مجلس عاملہ مسلم لیگ
۴۔ سردار عبد الرب نشتر رکن مجلس عاملہ مسلم لیگ۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/136)
چنانچہ ۵/ مئی 1946کو شملہ میں دوسری شملہ کانفرنس کا آغاز ہوا اور مختلف مسائل پر گرما گرمی بحث و گفتگو ہوئی۔ گاندھی جی نے یہ تجویز پیش کی کہ مشن اپنا مجوزہ منصوبہ تحریر طور پر کانگریس اور مسلم لیگ کو دے دے، تاکہ اس پر غوروفکر کیا جاسکے۔ چنانچہ مشن نے اپنا وہ منصوبہ کانگریس اور لیگ کے صدور کوحوالے کرتے ہوئے کانفرنس کو ۸/ مئی 1946پر ملتوی کردیا۔
مشن کا مجوزہ منصوبہ
”(۱) کل ہند یونین کی ایک حکومت اور قانون ساز ادارہ ہوگا، جس کی تحویل میں امور خارجہ،دفاع، مواصلات، بنیادی حقوق کے شعبے ہوں گے اور ان شعبوں کے لیے درکار ذرائع آمدن کے لازمی اختیارات حاصل ہوں گے۔
(۲) بقایا تمام اختیارات صوبوں کی تحویل میں ہوں گے۔
(۳) صوبوں کی گروپ بندی کی جاسکے گی اور انھیں اختیارات حاصل ہوگا کہ وہ صوبائی شعبوں میں اپنی حسب پسند شعبے مشترک رکھیں۔
(۴) گروپس اپنی ایگزیکیٹو اور قانون ساز ادارے قائم کرسکیں گے۔
(۵) یونین قانون ساز ادارے مسلمانوں کے اکثریتی اور ہندووں کے اکثریتی صوبوں سے مساوی تعداد میں نمائندگان کی تعداد سے تشکیل پائیں گے۔ خواہ یہ صوبے باہم مل کر گروپ بنائیں یا نہ بنائیں۔ علاوہ بریں ریاستوں کے نمائندے بھی اس میں شام ہوں گے۔
(۶) یونین کی حکومت بھی اسی تناسب سے تشکیل پائے گی، جس طرح کہ قانون ساز ادارہ۔
(۷) یونین اور گروپوں کے دستوروں میں یہ شق شامل کی جائے گی کہ کوئی صوبہ اپنے قانون ساز ادارے کی اکثریت کی رائے سے ابتدائی دس برس کے بعد دستور کی شرائط پر نظر ثانی کا مطالبہ کرسکتا ہے اور اسے ایسا ہر دس سال کے وقفے کے بعد کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ نظر ثانی کے مقصد کے لیے ابتدائی بنیاد کے مطابق ادارہ تشکیل دیا جائے گا اور اس میں رائے دہی کا وہی طریق کار ہوگا اور اسے دستور میں ہر طریقے سے ترمیم کرنے کا اختیار ہوگا۔
(۸) متذکرہ بالا بنیادوں پر دستور واضح کرنے کے لیے دستور سازی کا نظام مندرجہ ذیل طریقے پر کیا جائے گا:
(الف) ہر صوبائی اسمبلی میں موجود مختلف پارٹیوں کی قوت کے تناسب سے نمائندے منتخب کیے جائیں گے، وہ اپنی تعداد کا دسواں حصہ ہوں گے۔
(ب) ریاستوں کے نمائندگان ان کی آبادی کی بنیاد پر اور اسی تناسب سے لیے جائیں گے، جس اصول پر برطانوی ہند سے لیے جائیں گے۔
(ج) اس طریقے سے معرض وجود میں آنے والی دستور ساز اسمبلی کا نئی دہلی میں ممکن حد تک جلد از جلد اجلاس منعقد ہوگا۔
(د) اپنے ابتدائی اجلاس میں عمومی نوعیت کے معاملات طے کرنے کے بعد یہ تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گی: ایک حصہ ہندو اکثریتی صوبوں کا نمائندہ ہوگا۔ ایک حصہ مسلم اکثریتی صوبوں کا نمائندہ ہوگا اور ایک حصہ ریاستوں کا نمائندہ ہوگا۔
(ھ) پہلے دو حصوں کا الگ الگ اجلاس منعقد ہوگا، جس میں وہ اپنے گروپ میں شامل صوبوں کے دستور وضع کریں گے اور اس کے بعد اگر وہ چاہیں، تو گروپ کا دستور بھی بناسکتے ہیں۔
(و) جب یہ طے پاجائے گا، تب ہر صوبے کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ چاہے تو اپنے ابتدائی گروپ سے نکل کر دوسرے گروپ میں شامل ہوجائے، یا گروپوں سے باہر رہے۔
(ز) اس کے بعد تینوں اداروں کا پھر مشترکہ اجلاس ہوگا، جس میں متذکرہ بالا نمبر ایک تا سات پیراگرافوں کے خطوط پر یونین کا دستور تشکیل دیں گے۔
(ح) یونین کے دستور میں کوئی اہم نکتہ، جس سے فرقہ وارانہ مسئلہ متاثر ہوتا ہو، اسمبلی اس وقت تک منظور نہیں کرے گی، جب تک دونوں بڑے فرقوں کی اکثریت اس کے حق میں رائے ظاہر نہ کردے۔“ (مولانا ابوالکلام آزاد اور قوم پرور مسلمانوں کی سیاست، ص/350-351 بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/141-142)
مسلم لیگ کی تجاویز
وزارتی مشن کے اس پلان پر غور و فکر کرنے کے بعد مسلم لیگ نے 12/ مئی 1946کو درج ذیل تجاویز مشن کے سامنے پیش کیں:
”(۱) چھ مسلم صوبوں: پنجاب، صوبہ سرحد،بلوچستان، سندھ، بنگال اور آسام کو ملاکر ایک گروپ بنادیا جائے، جو دفاع، امور خارجہ،مواصلات-جو دفاعی مقاصد کے لیے ضروری ہوں -کے علاوہ دیگر تمام شعبہ جات اور معاملات میں بااختیار ہوگا۔مسلم صوبوں کا گروپ (جو پاکستان کہلائے گا) اور ہندو صوبوں کا گروپ آئین ساز اسمبلی میں اکٹھے بیٹھ کر آئین بنائیں گے۔
(۲) ان چھ مسلمان صوبوں کی ایک علاحدہ آئین ساز اسمبلی ہوگی، جو اس کے گروپ اور اس میں شامل صوبوں کا آئین وضع کرے گی اور صوبہ اور مرکز (فیڈریشن آف پاکستان) کے شعبہ جات کا تعین کرے گی اور صوبوں کے لیے بقیہ خود مختاری کا تعین بھی کرے گی۔
(۳) آئین ساز ادارے کے لیے انتخاب اس طرح عمل میں آئے گا کہ پاکستان گروپ کے ہر صوبے کے مختلف فرقوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے صحیح نمائندگی ملے۔
(۴) جب پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبوں کا آئین تیار ہوجائے، تو کسی بھی صوبے کو گروپ سے علاحدہ ہونے کا اختیار حاصل ہوگا، بہ شرطے کہ ریفرینڈم کے ذریعے اس صوبے کے عوام کی خواہش معلوم کرلی جائے۔
(۵) آئین ساز اسمبلیوں کے مشترکہ اجلاس میں بحث ہوسکتی ہے کہ یونین کا آئین ساز ادارہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ یونین کے لیے مالیات کے حصول کا مسئلہ بھی مشترکہ اجلاس کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے؛ لیکن اس سے کسی طرح بھی ٹیکس لاگو کرنا مراد نہیں ہوگا۔
(۶)یونین ایگزیکیٹو اور قانون ساز ادارہ (اگر کوئی ہو) میں دونوں گروپوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی۔
(۷) یونین کے آئین میں کوئی بھی ایسا بڑا نکتہ - جس سے فرقہ وارانہ مسئلہ متاثر ہوتا ہو- اس وقت تک منظور نہیں کیا جائے گا، جب تک کہ ہندو گروپ اور پاکستان گروپ کے آئین ساز اداروں کے ممبران کی اکثریت موجود نہ ہو اور وہ علاحدہ علاحدہ اس کے حق میں رائے ظاہر نہ کردیں۔
(۸)یونین میں کوئی اختلافی مسئلہ، خواہ اس کا تعلق قانون سازی، ایگزیکیٹو یا انتظامیہ سے ہو، تین چوتھائی اکثریت کی تائید سے پیش کیا جائے گا۔
(۹) گروپ اور صوبے کے دساتیر میں مختلف فرقوں کے مذہب، کلچر اور دیگر معاملات کے لیے تحفظات اور بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں گے۔
(۰۱) یونین کے آئین میں یہ شق بھی رکھی جائے گی، جس کی رو سے کوئی صوبہ اپنی قانون ساز اسمبلی کے اکثریتی ووٹ کے ذریعہ آئین کی شرائط پر نظر ثانی کا مطالبہ کرسکے اور ابتدائی دس سال گزرنے کے بعد اسے کسی بھی وقت یونین سے علاحدگی اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
آخر میں کہا گیا ہے کہ ہم ان اصولوں کو پر امن اور دوستانہ طور پر طے کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ساری پیش کش اور مذکورہ بالا معاملات باہمی طور پر مربوط ہیں۔“ (شاہ راہ پاکستان، چودھری خلیق الزماں۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/142)
کانگریس کی تجاویز
کانگریس نے درج ذیل تجاویز وزارتی مشن کو پیش کیا:
”(۱)آئین ساز اسمبلی درج ذیل طریقے سے تشکیل پائے گی:
(الف) آئین ساز اسمبلی کے لیے نمائندگان ہر صوبائی اسمبلی متناسب نمائندگی کے اصول پر واحد قابل انتقال ووٹ کے ذریعے چنے گی۔ یہ نمائندے اسمبلی کے جملہ ممبران کا 1/5تناسب ہوگا اور یہ اسمبلیوں کے ممبر یا دیگر ہوسکتے ہیں۔
(ب) ریاستوں کی نمائندگی آبادی کی بنیاد کے تناسب سے برطانوی ہند کے طرز پر دی جائے گی۔ ان کے انتخاب کے مسئلے پر بعد میں غور کیا جائے گا۔
(۲) آئین ساز اسمبلی فیڈرل یونین کے لیے آئین وضع کرے گی۔ یہ آل انڈیا فیڈرل گورنمنٹ اور قانون ساز ادارے پر مشتمل ہوگی۔ خارجہ، ڈیفنس، مواصلات، بنیادی حقوق، کرنسی، کسٹم اور منصوبہ بندی کے شعبے اس کی تحویل میں ہوں گے۔ اسی طرح ایسے دیگر شعبے - جو بہ غور جانچ پڑتال کے بعد ان سے قریبی تعلق رکھنے والے ہوں - فیڈرل یونین کو ان شعبہ جات کے لیے ریونیو اکٹھا کرنے کا ضروری اختیار ہوگا اور بہ طور استحقاق ریونیو اکٹھا کرے گی۔ فیڈرل یونین کو یہ حق حاصل ہوگا کہ آئین کے تعطل اور ہنگامی حالت کی عمومی صورت میں تدارک کے لیے قدم اٹھائے۔
(۳) بقیہ تمام اختیارات صوبوں،یا یونٹ کو حاصل ہوں گے۔
(۴) صوبوں کے گروپس تشکیل پاسکیں گے۔ یہ گروپس صوبائی شعبہ جات کا تعین کرسکیں گے، جن کو باہمی طور پر وہ مشترکہ رکھنے کے خواہش مند ہوں۔
(۵) جب آئین ساز اسمبلی آل انڈیا فیڈرل یونین کا آئین وضع کرلے، جیسا کہ مذکورہ بالا پیرا نمبر ۲ میں کہا گیا ہے، تب صوبوں کے نمائندگان گروپس تشکیل دے سکتے ہیں، اپنے گروپ میں شامل صوبوں کے آئین وضع کرسکتے ہیں، اگر چاہیں، تو گروپ کا آئین بھی بناسکتے ہیں۔
(۶) کوئی بڑکا نکتہ- جس سے فرقہ وارانہ مسئلہ متاثر ہوتا ہو- آئین ساز اسمبلی میں زیر غور نہیں آئے گا اور نہ ہی منظوری حاصل کرے گا، جب تک کہ متعلقہ فرقہ یا فرقوں کے ممبران کی اکثریت اسمبلی میں حاضر نہ ہو، اور اس کے حق میں علاحدہ علاحدہ رائے ظاہر نہ کردے۔ اگر اس پر اتفاق نہ ہوگا کہ یہ اہم فرقہ وارانہ مسئلہ ہے،تو اسے ثالث کے سپرد کردیا جائے گا۔ شک کی صورت میں کہ آیا کوئی نکتہ بڑا فرقہ وارانہ مسئلہ ہے، اسپیکر فیصلہ کرے گا اور خواہش ظاہر کی جائے، تو اس مسئلے کو فیڈرل کورٹ کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔
(۷) آئین سازی کے دوران میں اختلافات رونما ہونے کی صورت میں خاص مسئلے کو ثالث کے سپرد کردیا جائے گا۔
(۸) آئین میں کسی وقت نظر ثانی کے لیے نظام کی گنجائش موجود ہوگی۔ا گر اس کے لیے خواہش ہو،تو اسے خاص طور پر شامل کیا جاسکتا ہے کہ دس سال کے بعد سارے آئین پر نظر ثانی کرلی جائے۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/144)
کانفرنس ناکام ہوگئی
مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کی تجاویز پر غورو خوض کے لیے 12/ مئی 1946کو شملہ میں پانچویں اور آخری دور کی کانفرنس شروع ہوئی۔ چوں کہ مسلم لیگ کا مطالبہ یہ تھا کہ ہندستان کو آزاد اور خود مختار پاکستان اور ہندستا ن میں تقسیم کردیا جائے۔ اسی طرح مسلم لیگ یہ بھی چاہتی تھی کہ آئین بنانے والی جماعتیں بھی دو ہونی چاہییں، تاکہ دونوں خو دمختار حکومتوں کا آئین بیک وقت تیار کیا جاسکے۔ جب کہ اس کے بالمقابل کانگریس کا مطالبہ یہ تھا کہ ہندستان اکھنڈ رہے اور اسے کسی بھی قیمت پر تقسیم نہ کیا جائے؛ اس لیے دونوں میں کوئی مفاہمت نہ ہوسکی اور کانفرنس ناکام ہوگئی۔
”برطانوی وزارتی نمائندے اور وائسرائے بڑے افسوس کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ شملہ کے مذاکرات میں مسلم لیگ اور کانگریس کے رہ نماوں کے درمیان کوئی مفاہمت نہ ہوسکی؛ لیکن ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اس ناکامی کے باوجود فریضہ ختم نہیں ہوا، جس کے لیے ہم اپنی حکومت اور اپنی قوم کی طرف سے ذمہ دار بناکر بھیجے گئے ہیں؛ لہذا مشن اپنی طرف سے مناسب تجاویز ملک کے سامنے پیش کرے گا۔“ (مولانا ابوالکلام آزاد اور قوم پرور مسلمانوں کی سیاست، ص/366۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/146)
وزارتی مشن کا پلان
شملہ کانفرنس کی ناکامی کے باوجود وزارتی مشن نے اپنا مشن نہیں چھوڑا اور 16/ مئی 1946کو چوبیس نکات پر مشتمل ایک پلان پیش کیا۔ یہ مکمل پلان انڈیا ونس فریڈم کی تیسری اشاعت، شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، از ص/147تا 161پر اور علمائے حق اور ن کے مجاہدانہ کارنامے، جلد دوم، از ص/354تا 372پر موجود ہے۔ اس پلان میں وزارتی مشن نے، واضح اور دوٹوک انداز میں پاکستان کا اصول تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود ۶/ جون 1946کو دہلی میں مسلم لیگ کونسل کا اجلاس ہوا، تو اس میں اس اسکیم کو قبول کرتے ہوئے آئین ساز اسمبلی میں شرکت کی تجویز منظور کی۔پھر 26جون 1946کو کانگریس نے بھی اس مشن کو قبول کرلیا۔ اس قبولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا آزاد ؒ لکھتے ہیں کہ
”کانگریس اور مسلم لیگ کا کیبنٹ مشن پلان کو منظور کرلینا، ہندستان کی آزادی کی تاریخ کا ایک شان دار واقعہ تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا تھا کہ ہندستانی آزادی کا پیچدہ مسئلہ گفتگو اور مفاہمت کے ذریعہ طے پایا، نہ کہ تشدد اور جنگ کے ذریعہ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ فرقہ وارانہ مشکلات کا قطعی طور پر ماضی کی داستان بن گئی ہیں۔ سارے ملک میں شادمانی کا احساس تھا اور تمام لوگ آزادی کے مطالبے میں متحد ہوگئے تھے۔“ (ابوالکلام آزاد اور قوم پرور مسلمانوں کی سیاست، ص/353۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/196)
اسی طرح مسلم لیگ کے پرجوش لیڈر مولانا حسرت موہانی ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ
26/ جون 1946کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے کیبنٹ مشن کی تجویز کو منظوری دے دی۔ اس طرح اس پلان کو لیگ کانگریس کا منظور کرنا ہندستان کی آزادی کی تاریخ کا ایک شان دار واقعہ تھا، جو تشدد اور جنگ کے بغیر طے پایا۔“ (حسرت موہانی- ایک سیاسی ڈائری، ص/252۔بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/208)
وزارتی مشن کی تجاویز پر جمعیت کا تبصرہ
جمعیت علمائے ہند نے وزارتی مشن کے پلان کا جائزہ لینے کے لیے 10تا 12/ جون 1946کو مجلس عاملہ کی میٹنگ بلائی اور مشن کی اسکیم پر چھ نکاتی تبصرے کیے، تجویز درج ذیل ہے:
تجویز نمبر۱۔ جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کا یہ جلسہ وزارتی مشن کی شائع کردہ تجاویز پر اپنے خیالات کا حسب ذیل اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہے:
وزارتی مشن نے ہندستان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی حسب منشا قانون بنانے کے بعد آزاد ہے کہ چاہے برطانوی کامن ویلتھ میں شریک رہے اور چاہے اپنی مکمل علاحدگی کا اعلان کردے؛ یہ اعلان واظہار وزارتی مشن کی طرف سے اس کی نیک نیتی کا اطمینان دلانے کے لیے کافی تھا، مگر مشن کی طرف سے ہندستان کی مخلتف جماعتوں کو قانون بنانے کا موقع دینے میں جو صورت اختیار کی گئی اور جو راستہ تجویز کیا گیا، وہ مختلف و متعدد شبہات کا مرکز ہے۔ ہم مشن کے اعلان کے متعلق بعض ضروری چیزیں کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں:
۱۔ وزارتی مشن اسکیم میں ہندستانی حکومت کی تقسیم قبول نہیں کی گئی اور پاکستانی و غیر پاکستانی علاقے قائم نہیں کیے گئے۔ یہ بات ہندستان اور مسلمانوں کے لیے مفید ہے۔ نیز مشن کی اسکیم میں مرکز کے پاس صرف ضروری اور لازمی مضامین کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے، جو جمعیت علما کی رائے تھی اور جو مناسب اور صحیح ہے؛ مگر اس کے ساتھ گروپنگ سسٹم کا قیام اور صوبوں کے حق خود ارادیت کے خلاف صوبوں کو جو باہمی عارضی جوڑ لگایا گیا ہے، یہ بات خواہ قابل عمل قرار پائے یا نہ پائے، اور مستقل حیثیت اختیار کرے یا نہ کرے، لیکن اس سے صرف ایک بات حاصل ہوسکتی ہے کہ یہ حیلہ جو طبیعتوں کے لیے فتنہ کا ذریعہ بن سکتا ہے اور اس کے ذریعہ افتراق انگیزی کو مدد مل سکتی ہے۔
۲۔ رائے دہی بالغان کے طریقے سے انتخاب کرکے منتخب شدہ اشخاص کی کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی بنانے کو ترک کردیا گیا۔ حالاں کہ بہتر اور منصفانہ طریقہ وہی تھا اور اس کے لیے جو عذر بیان کیا گیا، وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔
۳۔ عارضی حکومت ایسے اصول و اختیارات کے ساتھ قائم ہونی چاہیے جو مکمل حکومت خود اختیاری کا نمونہ ہو۔
۴۔ عارضی حکومت کی نمائندگی میں ہندو مسلم مساوات کا اصول اختیار کرنا چاہیے۔ پارٹیوں یا جماعتوں کی نمائندگی کا اصول اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
۵۔ اہم فرقہ وارانہ معاملات کے بارے میں مشن نے تحفظ کی جو صورت تجویز کی ہے، اس کے متعلق یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ چوں کہ یہ بنیادی معاملہ ہے، اس لیے اس کا نفاذ مرکزی مجلس اور صوبہ جاتی مجالس میں یک ساں ہونا چاہیے۔
۶۔ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جب چئیرمین کسی فرقہ وارانہ اختلافی مسئلے میں فیڈرل کورٹ سے مشورہ کرے گا، تو وہ کورٹ کے فیصلے کا پابند ہوگا۔ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/34)
مشن پلان سے مسلم لیگ کی بیزاری کا اعلان
پاکستان کے عدم تسلیم پر مبنی وزارت مشن پلان کو جب مسلم لیگ نے قبول کرلیا، تو عام طور پر مسلم لیگ کے حلقے میں پسند نہیں کیا گیا۔ اور پاکستان کے مطالبے سے جناح صاحب کی غیر سنجیدگی اور فرار قرار دیاگیا۔ مولانا حسرت موہانی نے لیگ کے اس طرز عمل کو قوم کے ساتھ دھوکا قرار دیا:
ہم نے اسلام کو دھوکا دیا ہے، ہم نے مسلمانوں کو دھوکا دیا ہے، ہم نے قرآن کو دیکھا دیا ہے۔ ہم نے اپنے نفس اور اور پروردگار کو دھوکا دیا ہے۔ کیا یہی پاکستان ہے، جس کا حلف دہلی میں اٹھایا گیا تھا۔“ (حضرت شیخ الاسلام ؒ کا بیان، قومی آواز، 18/ جون1946۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/202)
شاید یہی وجہ رہی کہ مسلم لیگ نے وزارتی مشن پلان کی منظوری سے دستبرداری کا فیصلہ کردیا:
”27/ جولائی1946: مسلم لیگ کونسل کا اجلاس 27جولائی کو بمبئی میں منعقد ہوا۔ مسٹر جناح نے اپنی افتتاحی تقریر میں پاکستان کے مطالبے کو دہرایا اور کہا کہ مسلم لیگ کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے۔ تین روز کی بحث کے بعد کونسل نے ایک ریزولیوشن منظور کیا، جس میں کیبنٹ مشن پلان کو مسترد کردیا گیا تھا۔ اس نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے ڈائریکٹ ایکشن کی پالیسی پر عمل کرے۔“ (انڈیا ونس فریڈم، ص/241۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/212)
عارضی حکومت کے قیام کی دعوت
جب کانگریس نے وزارتی مشن کے پلان کو منظوری دے دی، تو 12/ اگست 1946کووائسرائے ہند نے کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہروکو عارضی حکومت (Interim Government) بنانے کی دعوت دی۔
”12/ اگست1946: 29جولائی کے لیگ ریزولیوشن اور اگست کی کانگریس قرار داد کے بعد 12/ اگست 1946کو وائسرائے ہند لارڈ ویول نے اعلان کیا کہ
”ہز ایکس لینسی وائسرائے نے ملک معظم کی حکومت کی منظوری سے کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو کو دعوت دی ہے کہ وہ عارضی حکومت کی فوری تشکیل کے بارے میں تجویز پیش کریں اور اس سلسلے میں بہت جلد آکر وائسرائے سے ملیں۔ چنانچہ کانگریس پریسیڈنٹ نے یہ دعوت منظور کرلی ہے۔ نیز یہ بھی ہدایت کی ہے کہ وہ مسٹر جناح کا تعاون حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں۔“ (ہفت روزہ خلافت، بمبئی، 14/ اگست 1946۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/221)
چنانچہ 15/ اگست 1946کو پنڈت نہرو نے ممبئی جاکر مسٹر جناح سے ملاقات کی۔ لیکن مسٹر جناح نے عارضی حکومت میں شمولیت سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ
”……یہ وہ پلان ہے، جس کا اظہار جواہر لال نہرو نے مجھ سے کیا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ میں اس قسم کی تجاویز کو قطعا منظور نہیں کرسکتا تھا؛ کیوں کہ اس کو منظور کرنے کے بعد مسلم مطالبہ اور ہماری منزل پاکستان پر گفتگو کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔“ (ہفت روزہ اجمل، بمبئی،19/ اگست1946۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/222)
مسلم لیگ نے نہ صرف عارضی حکومت میں شامل ہونے سے انکار کیا؛ بلکہ حصول پاکستان کے لیے 16/ اگست 1946کو یوم راست اقدام (Direct Action Day)منانے کا اعلان کیا، اوراس ایکشن کو پاکستان حاصل کرنے اور اسلامی حکومت بنانے کے لیے جہاد کا عنوان دیا، جس سے کلکتہ میں زبردست ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ فسادات کا سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ کلکتہ کے بعد نوا کھالی بنگال میں، نواکھالی سے بہار میں، بہار سے گڑھ مکتیشر میں اور گڑھ مکتیشر سے پورے ہندستان میں پھیل گیا۔
اجلاس مجلس عاملہ
ایسے پرآشوب حالات میں دفتر جمعیت علمائے ہند نے 24تا 27/ شوال 1365ھ،مطابق 21تا 24/ ستمبر 1946، از سنیچرتا منگل مجلس عاملہ کا اجلاس کیا۔
”عارضی حکومت کے قیام اور اس کے بعد سیاسی حالات نے جو نازک صورت اختیار کرلی تھی۔ا س کے اور بعض دوسرے اہم مسائل کے پیش نظر مجلس عاملہ کے اجلاس کا فوری انعقاد از بس ضروری تھا۔
ان مسائل کی اہمیت نے یہ بھی ضروری قرار دیا کہ اراکین مجلس عاملہ کے علاوہ ملک کے مقتدر رہنما اور جمعیت علمائے ہند کی ہموا جماعتوں کے ذمہ دار حضرات کو بھی دعوت دی جائے اور ان کے قیمتی مشورہ سے فائدہ حاصل کیا جائے۔
چنانچہ 24/ شوال 1365مطابق، 21/ ستمبر 1946کو مجلس عاملہ کا اجلاس شروع ہوا۔ اور 22/ ستمبر کو تقریبا پانچ گھنٹے متواتر مجلس مشاورت کا اجلاس ہوتا رہا۔ اس کے بعد 23اور 24/ کو مجلس عاملہ نے اپنے متعدد اجلاسوں میں حسب ذیل تجاویز منظور کیں:
تجویز نمبر ۱۔ مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اگرچہ اس اعلان کو جو برطانوی حکومت نے ہندستان کی آزادی کے متعلق کیا ہے، نیز اس کاروائی کو جو ہندستانیوں کی طرف اختیارات منتقل کرنے کے متعلق کی گئی ہے، بڑی حد تک قابل اطمینان سمجھتا ہے؛ مگر اس امر کو واضح کردینا چاہتا ہے کہ آزادی وطن کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی اور آزادی طلب جماعتوں کی منزل مقصود ابھی دور ہے۔
اجلاس ہذا کی رائے میں یہ امر نہایت افسوس ناک ہے کہ مسلم لیگ کی غلط قیادت کے باعث عارضی حکومت میں مسلمانوں کو اب تک وہ درجہ حاصل نہیں ہوسکا، جو ان کی قومی ووطنی اہمیت کے اعتبار سے ان کا جائز حق ہے۔
مجلس عاملہ اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کرسکتی کہ عارضی حکومت کی تشکیل کے موقع پر کانگریس ہائی کمانڈ نے قوم پرور مسلمانوں کے ساتھ وہ طرز اختیار نہیں کیا، جو اس کا فرض تھا۔ا گر مسلم لیگ کی غیر موجودگی کی صورت میں مسلم نشستوں کا پر کرنا ضروری سمجھا گیا تھا، تو اس کے لیے وہی ممبر مسلمانوں کو مطمئن کرسکتے تھے، جو قوم پرور مسلم جماعتوں کے منتخب کردہ ہوتے۔
مزید برآں حکومت کے ممبروں میں اہم محکمے مساویانہ طریقہ پر تقسیم نہ کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا،و ہ بھی مسلمانوں کے نزدیک تسلی بخش نہیں ہے۔
مجلس عاملہ مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر کانگریس ہائی کمانڈ کے طریق کار کو قومی نقطہ نگاہ سے قابل اعتراض سمجھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ عارضی حکومت کو پوری طرح مفید اور نمائندہ بنانے کے لیے جلد از جلد موثر طریقے اختیار کیے جائیں گے۔
عارضی حکومت کا قیام
کانگریس نے ۲ /ستمبر1946کو کیبنٹ مشن کے پلان کے مطابق ہندستان میں پہلی بار آزاد عارضی قومی حکومت کی تشکیل کی۔ادھر دوسری طرف یوم راست اقدام منانے کے باوجود مسلم لیگ کو کوئی اہمیت نہیں مل سکی، اس لیے وہ نہ صرف مایوسی کا شکار تھی، بلکہ اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا؛ اس نے بھی بالآخر مجبور ہوکر 15/ اکتوبر 1945کو عارضی حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔وزارتی مشن کے پلان کے مطابق عارضی حکومت کے قیام کے لیے چھ نام کانگریس نے، پانچ نام مسلم لیگ نے اور تین نام دیگرفرقوں نے پیش کیے۔
”کانگریس چھ ممبر:
(۱) جواہر لال نہرو (وزارت خارجہ و دولت مشترکہ)
(۲) سردار ولبھ بھائی پٹیل (ہوم انفارمیشن و براڈ کاسٹنگ)
(۳) ڈاکٹر راجندر پرشاد (خوراک وزاعت)
(۴) آصف علی (کمیونی کیشن و ریلوے)
(۵) راج گوپال آچاریہ (تعلیم و فن کاری)
(۶) مسٹر جگ جیون رام (لیبر)
مسلم لیگ کے پانچ ممبر
(۱) لیاقت علی خاں (فنانس)
(۲) چندریگر (تجارت)
(۳) سردار عبدالرب نشتر (مواصلات، ڈاک خانے، ہوائی پرواز)
(۴) راجہ غضنفر علی خاں (صحت)
(۵) جوگندر ناتھ منڈل (قانون سازی)
سکھ: سردار بلدیو سنگھ (دفاع)
پارسی: بھبیا (ورکس، مائنس اینڈ پاور)
عیسائی: جان میتھائی (انڈسٹریز و سپلائی)۔“ (نامہ اعمال، ص/99۔ بحوالہ شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/268)
مسلم لیگ کے ناموں میں منڈل کا نام؟
مسلمانوں کی واحد نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی اور اسلامی حکومت کے لیے ”پاکستان“ کا حسین خواب دکھانے والی مسلم لیگ نے اپنے پانچ ناموں میں ایک نام جوگندر ناتھ منڈل کا پیش کردیا،جو مسلمانوں کے ساتھ سراسر دھوکہ اور فریب تھا،آخر مسٹر جناح نے ایسا کیوں کیا؟
”سر محمد یامین خاں کی روایت کے مطابق ایک لیگی کے بہ قول جناح صاحب نے منڈل کی نامزدگی کا فیصلہ کانگریس کے جواب میں ضد میں آکر کیا تھا۔ اگر جناح صاحب ضد سے کام نہ لیتے اور منڈل کے بجائے بھی کسی مسلمان کو نامزد کرتے، تو کیبنٹ میں ۵/ مسلمان، ۶/ ہندو، اور ۳/سکھ، پارسی اور عیسائی وغیرہ دیگر اقلیتوں کے ممبر ہوتے۔ اس طرح حکومت میں مسلمانوں کی تعداد کانگریس کے ہندو ممبران سے زیادہ اور پوزیشن بہت مستحکم ہوتی۔ یہ بھی سوچیے کہ اگر کانگریس کے ایک مسلمان ممبر بھی شمار کرلیا جائے، تو صورت حال یک سر تبدیل ہوجاتی۔ مسلمان ۶، کانگریسی ممبر۵/ رہ جاتے اور اقلیتیں ۳۔ لیکن افسوس کہ ضد کہیے، دشمنی یا تعصب کہیے، عقل پر کیسے پردے پڑگئے تھے کہ اتنی صاف، روشن اور واضح بات بھی انھیں نہ سوجھی، جن پر اعتماد کرکے فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/268)
وزارتی مشن کے سامنے پیش کردہ اس فارمولہ کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے مورخ ملت حاشیہ میں رقم طراز ہیں کہ
”مولانا ابوالکلام آزادؒ کے حسن تدبر سے یہ مطالبہ پورا ہوگیا تھا؛ بلکہ ایسی صورت ہوگئی تھی کہ اعلا ہندو کے مقابلہ میں مسلمان دو چند ہوگئے تھے؛ کیوں کہ مسلم لیگ کو پانچ مسلمانوں کے نامزدگی کا حق دیا گیا تھا اور کانگریس کو اگرچہ ۶/ ارکان کی نامزدگی کا حق دیا گیا تھا؛ مگر کانگریس نے اپنے کوٹے کو اس طرح تقسیم کیا تھا کہ اعلا ہندو تین، سکھ ایک، اچھوت ایک، مسلمان ایک۔ اس طرح انٹرم گورنمنٹ میں تین اعلا ذات ہندووں کے مقابلہ میں ۶/ مسلمان ہوگئے تھے۔ اور انٹرم گورنمنٹ کے 14/ ممبروں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے تقریبا پینتالیس فی صدی مسلمان ہوگئے تھے۔ مگر مسٹر جناح صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس حسن تدبر کی قدر نہیں کی؛ بلکہ لیگ کے کوٹے میں ایک اچھوت کو داخل کرکے 45/ فی صدی سے ہٹاکر صرف 35/ فی صد یعنی تقریبا ایک تہائی مسلمان کردیے“۔ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/31)
گروپ بندی پر جمعیت کا نقطہ نظر
”کینٹ مشن نے اپنی سفارشات میں صوبائی گروپ بندی کا ایک شاخسانہ بھی لگادیا تھا، جس کا حاصل یہ تھا کہ
(الف) ہر ایک سیکشن ماتحت صوبوں کے لیے صوبائی کانسٹی ٹیوشن (صوبائی دستور حکومت) طے کرے گا۔
(ب) ہر ایک سیکشن یہ طے کرے گا کہ ان صوبوں کے لیے کوئی گروپ کانسٹی ٹیوشن (اجتماعی دستور حکومت) کی ضرورت سمجھی جائے، تو یہ سیکشن طے کرے گا کہ کن صوبائی صیغوں کا کام گروپ کو کرنا ہوگا اور کون سے صیغے صوبجات کے حوالے رہیں گے۔
جس وقت نئے انتظامات عمل میں آجائیں گے، تو صوبائی اسمبلے کے جدید انتخاب کے بعد ہر صوبہ کو اختیار مل جائے گا کہ جس گروپ میں وہ شامل کیا گیا ہے، وہ اس سے اپنی علاحدگی کا فیصلہ کرلے۔ ……
مسٹر جناح وزارتی مشن کی دفعہ 19، ضمن 5و ضمن8کا مفاد یہ بتاتے تھے کہ ہر صوبہ کو گروپ میں داخل ہونا ضروری ہے۔ پھر سیکشن کی اکثریت جو کچھ فیصلہ کرے، اس کا ماننا لازم ہے۔
چوں کہ انھیں سفارشات میں ان مخصوص اور محدود اختیارات کے علاوہ جو مرکز کے حوالے کیے گئے تھے، باقی تمام امور میں صوبجات کو خود مختار قرار دیا تھا، لہذا کانگریس کا دعویٰ یہ تھا کہ مجموعی طور پر سفارشات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ:
”گروپ میں شامل ہونا لازم نہیں؛ بلکہ ہر ایک صوبہ کو حق ہے کہ وہ گروپ میں شامل ہونے سے انکار کردے اور اپنا آئین خود مرتب کرے“
اسی تضاد کے پیش نظر مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند نے اپنے اجلاس مورخہ 9-10-11رجب 1365ھ، 10-11-12/ جون 1946کی ایک تجویز میں سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
”یہ بات(گروپنگ سسٹم) خواہ قابل عمل قرا ر پائے یا نہ پائے، اور مستقل حیثیت اختیار کرے یا نہ کرے؛ لیکن اس سے صرف ایک ہی بات حاصل ہوسکتی ہے کہ یہ حیلہ جو طبیعتوں کے لیے فتنہ کا ذریعہ بن سکتا ہے اور اس کے ذریعہ سے افتراق انگیزی کو مدد مل سکتی ہے۔“
چنانچہ یہ پیشن گوئی صادق ہوئی اور‘گروپ بندی“ کا مسئلہ لیگ اور کانگریس کے مابین نقطہ اختلاف بن گیا۔ انتہا یہ کہ لندن میں ایک گول میز کانفرنس کی نوبت آئی، اس کانفرنس کا اگر کوئی نتیجہ برآمد ہوا، تو صرف یہ کہ ۶/ دسمبر 1946کو برطانوی حکومت کی طرف سے ایک اعلان کیا گیا، جس میں لیگ کے نظریہ کی حمایت کرتے ہوئے یہ خواہش کی گئی تھی:
”کانگریس بھی اسی نظریہ کو منظور کرلے، تاکہ مسلم لیگ کو اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنے کی راہ نکل آئے؛ لیکن اگر کیبنٹ مشن کی پیش کردہ وضاحت کے بعد کانگریس یہ چاہتی ہے کہ یہ بنیادی معاملہ فیڈرل کورٹ سے طے ہونا چاہیے تو اس معاملہ میں جلد از جلد فیڈرل کورٹ کے حوالے کردیا جائے، تاکہ کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی کے سیکشنوں کی نشست سے پہلے ہی فیڈرل کورٹ کا فیصلہ معلوم ہوجائے۔“ (تیج مورخہ ۹/ دسمبر1946)
مذکورہ بالا اعلان میں کانگریس کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ اس مسئلہ کو فیڈرل کورٹ میں پیش کردے؛ مگر اس اعلان سے ۸/ روز بعد مسٹر جناح نے لندن میں ایک پریس کانفرنس میں بیان دیتے ہوئے فرمایا:
”میں بتائے دیتا ہوں کہ اس نکتہ پر میں کسی عدالت کے فیصلہ پر بھروسہ نہیں کروں گا۔“ (قومی آواز ص/۴، مورخہ 16/ دسمبر1946۔ بحوالہ علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، جلد دوم، ص/451-454)
چوں کہ کیبنٹ مشن میں شرکت کے لیے مسلم لیگ نے گروپ بندی کو لازم قرار دیا تھا، اس لیے حیلہ جو طبیعتوں کے لیے فتنہ کا دروازہ کھولنے کے باوجود جمعیت علمائے ہند نے اس سے انحراف مناسب نہیں سمجھا اور مجلس عاملہ نے 14-15-16/ دسمبر1946کو منعقد اپنے اجلاس میں درج ذیل تجویز منظور کی:
جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ اپنی اس رائے کا اظہار ضروری سمجھتی ہے کہ گروپنگ سسٹم کا قیام مسلمانوں کے لیے اس کے خیال میں کچھ مفید نہیں ہے، تاہم چوں کہ ہندستان کے لیے دستور اساسی کی مجلس میں مسلم لیگ کی شرکت اسی مسئلہ پر مرکوز ہورہی ہے، اس لیے جمعیت علمائے ہند کی رائے ہے کہ کانگریس کو یہ موقع ہاتھ سے نہ دینا چاہیے اور گروپنگ سسٹم کی جو تشریح کیبنٹ مشن نے کی ہے، اس کو تسلیم کرلینا چاہیے، تاکہ ہندستان کی آزادی میں تمام ہندستانی متفقہ طور پر شریک ہوکر اصلی مقصد حاصل کرسکیں۔ (ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/46)
عارضی حکومت پر اظہار اطمینان لیکن مسلم لیگ کی قیادت پر اظہار افسوس
”عارضی حکومت کے قیام اور اس کے بعد سیاسی حالات نے جو نازک صورت اختیار کرلی تھی۔ا س کے اور بعض دوسرے اہم مسائل کے پیش نظر مجلس عاملہ کے اجلاس کا فوری انعقاد از بس ضروری تھا۔
ان مسائل کی اہمیت نے یہ بھی ضروری قرار دیا کہ اراکین مجلس عاملہ کے علاوہ ملک کے مقتدر رہنما اور جمعیت علمائے ہند کی ہموا جماعتوں کے ذمہ دار حضرات کو بھی دعوت دی جائے اور ان کے قیمتی مشورہ سے فائدہ حاصل کیا جائے۔
چنانچہ 24/ شوال 1365مطابق، 21/ ستمبر 1946کو مجلس عاملہ کا اجلاس شروع ہوا۔ اور 22/ ستمبر کو تقریبا پانچ گھنٹے متواتر مجلس مشاورت کا اجلاس ہوتا رہا۔ اس کے بعد 23اور 24/ کو مجلس عاملہ نے اپنے متعدد اجلاسوں میں حسب ذیل تجاویز منظور کیں:
تجویز نمبر ۱۔ مجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اگرچہ اس اعلان کو جو برطانوی حکومت نے ہندستان کی آزادی کے متعلق کیا ہے، نیز اس کاروائی کو جو ہندستانیوں کی طرف اختیارات منتقل کرنے کے متعلق کی گئی ہے، بڑی حد تک قابل اطمینان سمجھتا ہے؛ مگر اس امر کو واضح کردینا چاہتا ہے کہ آزادی وطن کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی اور آزادی طلب جماعتوں کی منزل مقصود ابھی دور ہے۔
اجلاس ہذا کی رائے میں یہ امر نہایت افسوس ناک ہے کہ مسلم لیگ کی غلط قیادت کے باعث عارضی حکومت میں مسلمانوں کو اب تک وہ درجہ حاصل نہیں ہوسکا، جو ان کی قومی ووطنی اہمیت کے اعتبار سے ان کا جائز حق ہے۔
مجلس عاملہ اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کرسکتی کہ عارضی حکومت کی تشکیل کے موقع پر کانگریس ہائی کمانڈ نے قوم پرور مسلمانوں کے ساتھ وہ طرز اختیار نہیں کیا، جو اس کا فرض تھا۔ا گر مسلم لیگ کی غیر موجودگی کی صورت میں مسلم نشستوں کا پر کرنا ضروری سمجھا گیا تھا، تو اس کے لیے وہی ممبر مسلمانوں کو مطمئن کرسکتے تھے، جو قوم پرور مسلم جماعتوں کے منتخب کردہ ہوتے۔
مزید برآں حکومت کے ممبروں میں اہم محکمے مساویانہ طریقہ پر تقسیم نہ کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا،و ہ بھی مسلمانوں کے نزدیک تسلی بخش نہیں ہے۔
مجلس عاملہ مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر کانگریس ہائی کمانڈ کے طریق کار کو قومی نقطہ نگاہ سے قابل اعتراض سمجھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ عارضی حکومت کو پوری طرح مفید اور نمائندہ بنانے کے لیے جلد از جلد موثر طریقے اختیار کیے جائیں گے۔”(ضمیمہ جمعیت علما کیا ہے، جلد دوم، ص/39-40)
کانگریس ہائی کمانڈ کی غلطی پر جمعیت کی تنبیہہ
جمعیت علمائے ہند نے مجلس عاملہ کی اس تجویز میں انتقال اختیارات کے لیے اس قومی عارضی حکومت پر اطمینان کا اظہار تو کیا؛ لیکن ساتھ ہی مسلم لیگ کی غلط قیادت پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ساتھ ہی کانگریس کے ہائی کمانڈ کے غلط طریقے پر تنبیہہ بھی کی۔ کانگریس کے ہائی کمانڈ کی غلطی کیا تھی؟ اس حوالے سے مولانا سید محمد میاں صاحبؒ لکھتے ہیں کہ
”جب کہ پنڈت جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزادؒ او روائسرائے ہند کی جانب سے عارضی گورنمنٹ کی تشکیل کے وقت لیگ کو پانچ نشستوں کے پیش کش کی جاچکی تھی، اور لیگ کی طرف سے واضح طور پر اس پیش کش کی تردید نہیں ہوئی تھی، تو ایسی صورت میں کاکانگریس نے یہ تو مناسب نہ سمجھا کہ مسلمانوں کی نشستوں کو مستقل طور پر پر کردے۔ نیز مولانا آزادؒ نے یہ بھی پسند نہ کیا کہ عارضی حکومت میں دفاتر کو اس حالت میں سنبھالے کہ ایک مسلمان بھی شریک حکومت نہ ہو۔
لہذا کانگریس کے پارلیمنٹری بورڈ نے طے کیا کہ ”تاوقتیکہ لیگ کی جانب سے کوئی قطعی فیصلہ ہو، ان نشستوں کو عارضی طور پر پر کردیا جائے۔“ کانگریس کے لیے آخری چارہ کارہ کار یہی تھا؛ مگر دشواری یہ تھی کہ جمعیت علمائے ہند یا کوئی اور باوقار جماعت اس کو بھی پسند نہ کرسکتی تھی کہ وہ اس مذبذب صورت حال کے لیے اپنے معزز نمائندوں کو پیش کرے؛ لہذا کانگریس نے جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار اسلام وغیرہ قوم پرور جماعتوں کے توسط کے بغیر براہ راست قوم پرور مسلمانوں سے گفتگو شروع کی۔ مگر یہی دشواری یہاں بھی درپیش تھی کہ حاجی مولانا بخش صاحب ایم ایل اے (سندھ)، ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب، پرنسپل جامعہ ملیہ (دہلی)، مولوی محمد احمد صاحب کاظمی، خان بہادر محمد جان (کلکتہ)، مولوی عبد المجید صاحب حریری (بنارس)، وغیرہ قوم پرور حضرات نے اس عارضی شرکت کو اپنی خود داری کے خلاف سمجھا۔
اس میں شک نہیں کہ بہتر صورت یہ تھی کہ کانگریس کا پارلیمنٹری بورڈ اس پیچیدہ صورت حال کو قو پرور جماعتوں کے سامنے رکھ کر ان سے درخواست کرتا کہ مشکل کشائی کے لیے کانگریس کی امداد کریں اور اپنے خود دار اور موقر نمائندوں کو اس ایثار پر مجبور کردیں؛ مگر کانگریس پارلیمنٹری بورڈ نے اس بہتر راہ عمل کو چھوڑکر براہ راست سر شفاعت احمد خاں اور مسٹر علی ظہیر کو نامزد کردیا اور پھر ارکان حکومت کی قابلیت کا موازنہ کرتے ہوئے قلم دان وزارت بھی اس طرح تقسیم کیے گئے کہ اہم محکمے مسلمانوں کو نہ مل سکے۔ اگر چہ مسلمانوں کی دو نشستیں اب بھی خالی تھیں؛ مگر اس طرز عمل نے ایک تنبیہہ کی ضرورت پیداکردی تھی، لہذا جمعیت علمائے ہند نے اس ضرورت کی طرف بروقت توجہ کی۔
چنانچہ 24/ شوال، 1365ھ، مطابق 21/ ستمبر1946کو مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، اس میں مجلس احراراسلام وغیرہ دوسری قوم پرور جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ اور 23/ ستمبر کو مندرجہ ذیل تجویز پاس کرکے تنبیہہ کے اس فریضہ کو انجام دیا۔
اگر چہ چند روز بعد لیگ کے داخلہ کے باعث اس تنبیہہ پر عمل نہ ہوسکا۔ مگر خود کانگریسی حلقوں میں جمعیت علمائے ہند کی اس صاف گوئی کی قدر کی۔
اسی تاریخ (23/ستمبر) کو آل انڈیا کانگری کمیٹی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند نے اس تجویز کی روشنی میں کانگریس ہائی کمانڈ پر سخت نکتہ چینی کی۔ نیشنلسٹ پریس نے مولانا کی اس تنقید کو سراہا اور کانگریس ہائی کمانڈ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ (علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، جلد دوم، ص/ 399-400)
یوم حلف برداری
وزارتی مشن کے چودہ رکنی پلان کے مطابق ۲/ ستمبر1946کو وائسرائے ہاوس میں عارضی حکومت کی حلف برداری تقریب منعقد ہوئی اور ارکان نے حلف اٹھایا:
”ضروری امور طے کرنے میں تقریبا دو ہفتہ صرف ہوئے۔ پھر اگست کی آخری تاریخوں میں ارکان حکومت اور ان کے متعلق محکموں کا اعلان کردیا گیا۔ اور ۲/ ستمبر1946، مطابق ۵/ شوال المکرم 1365ھ، یوم دو شنبہ کو نامزد ارکان نے اپنے محکموں کا چارج لے کر کام شروع کردیا۔“ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد چہارم، ص/235)
دستور ساز اسمبلی کا افتتاح
غلام بھارت میں آزاد قومی حکومت کے قیام کے لیے ۲/ستمبر1946کو تشکیل کردہ عارضی حکومت کی پہلی دستور سازاسمبلی کا افتتاح ۹/ دسمبر1946کو کیا گیا۔ اس کا پہلا مستقل صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد کو منتخب کیا گیا۔ اور پھر 13/ دسمبر1946کو عارضی حکومت کے نائب صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے جدید دستور ساز اسمبلی میں پہلی قرارداد پیش کی۔ اور اس طرح ہندستان مکمل آزادی کی طرف بڑھنے لگا۔