30 Mar 2020

جمعیت علمائے ہندکے سو سال…… قدم بہ قدم 1920ء دوسرا سال

جمعیت علمائے ہندکے سو سال…… قدم بہ قدم
1920ء دوسرا سال
پہلی مجلس منتظمہ کی تشکیل،شیخ الہند و امام الہند کی رہائی کیتجویز، فتویٰ ترک موالات،دوسرا اجلاس عام، پہلے مستقل صدر کا انتخاب
جمعیت علمائے ہند کا پہلا اجلاس اور تجاویز
جمعیت علمائے ہند کے پہلے اجلاس عام کی تیسری نشست یکم جنوری 1920ء کو امرتسر کے مسلم اسلامیہ ہائی اسکول کے ہال میں ہوئی،جس میں مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ کو صدر جلسہ بنانے کے بعد مفتی صاحب نے ضوابط و قواعد کا مسودہ پڑھ کر سنایا۔ بعد ازاں درج ذیل تین تجاویز پاس ہوکر منظور ہوئیں:
(1) ضوابط و قواعد کا مسودہ اسی زیر تجویز حالت میں چھپوالیا جائے اور اراکین جمعیۃ و دیگر علما کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ اور بعد حصول آرائے اراکین و علمائے کرام آئندہ مجلس انتظامیہ کے جلسہ میں پیش کیا جائے۔ اورپھر مجلس انتظامیہ اسے مرتب و مہذب کرکے، منظوری کے لیے مجلس عام میں پیش کرے۔
(2) جمعیت علما کا یہ جلسہ باوجود اعلان شاہی ہوجانے کے، حضرت مولانا محمود حسن صاحب و مولانا ابوالکلام آزاد صاحب و دیگر علما کی عدم رہائی پر سخت اضطراب و بے چینی کا اظہار کرتا ہے۔ صدر جلسہ کو اختیار دیا جائے کہ وہ بذریعہ تار اس تجویز کو وائسرائے ہند (چیمس فورڈ)کی خدمت میں روانہ کریں۔
(3) جمعیت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کے ارکان کا انتخاب کرلیا جائے۔ اور جو حضرات کہ اس انتخاب میں آجائیں، ان سے رکنیت اور اس انتخاب کی منظوری بذریعہ تحریر حاصل کی جائے۔
 اس تجویز پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسی میٹنگ میں پہلی مجلس منتظمہ کی تشکیل عمل میں آئی، اور تئیس درج ذیل اراکین منتخب کیے گئے:
(1)مولانامحمد کفایت اللہ صاحب                  دہلی
(2)مولانا احمد سعید صاحب                                    دہلی
(3)حاذق الملک حکیم محمد اجمل خاں صاحب  دہلی
(4)مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی  ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
(5)مولانا محمد فاخر صاحب الٰہ آبادی            ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
            (6)مولانا محمد سلامت اللہ صاحب   ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
            (7)مولانا حسرت موہانی صاحب       ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
            (8)مولانا مظہر الدین صاحب         ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
            (9)مولانا محمداکرم خاں صاحب       بنگال
            (10)مولوی منیر الزماں صاحب     بنگال
            (11)مولوی محمد سجاد صاحب         بہار
            (12)مولوی خدا بخش صاحب        بہار
            (13) مولانا رکن الدین صاحب دانا بہار
            (14)مولوی پیر تراب علی صاحب  سندھ
            (15)مولوی عبد اللہ صاحب          سندھ
            (16)مولوی محمد صادق صاحب       سندھ
            (17)مولوی سید داؤد صاحب         پنجاب
            (18)مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی         پنجاب
            (19) مولانا ثناء اللہ صاحب           پنجاب
            (20)مولوی عبد اللہ صاحب          بمبئی
            (21)مولوی عبد المنعم صاحب        بمبئی
            (22)مولوی سیف الدین صاحب    بمبئی
            (23)حکیم ابو یوسف صاحب اصفہانی            بمبئی
اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔
            محمد کفایت اللہ غفرلہ، بقلم خود
            یکم جنوری 1920ء
اغراض و مقاصد
اجلاس مذکور میں اصول اساسی کا ایک مسودہ مرتب کیا گیا۔ مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد تجویز ہوئے۔
نام:
دفعہ1- اس انجمن کا نام جمعیت علمائے ہند ہوگا۔
اغراض و مقاصد:
دفعہ2- اِس جمعیت کے اغراض و مقاصد حسب ذیل ہوں گے:
(الف) ہر قسم کے خارجی اثرات کی (جن سے مذہب اسلام یا مشترکہ اسلامی قومیت کی تضعیف یا توہین ہوتی ہو) آئینی حدود کے اندر رہ کر مدافعت کرنا۔
(ب) مشترکہ مذہبی حقوق کی نگہ داشت اور مشترکہ مذہبی و ملکی ضروریات کی تحصیل میں کوشش کرنا۔
(ج) عامہ اہل اسلام کی مذہبی نقطہئ نظر سے آئینی طریق پر سیاسی رہنمائی کرنا۔
(د) مشترکہ مذہبی و قومی اغراض میں مسلمانوں کے متفق رہنے کی کوشش کرنا۔
(ھ) دیگر غیر مسلم برادران وطن کے ساتھ بمقتضائے فطرت و اتباع احکامِ شریعت ہمدردی و اتفاق کو ترقی دینا۔(مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، ص/14، تا 16)
تجاویز پر ایک نظر
حضرت شیخ الہندؒ کی رہائی اور استقبال
اس اجلاس کی تجویز نمبر ایک میں دستور کے مسودہ کی چھپائی کی تجویز منظور کی گئی تھی، چنانچہ ’مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند‘کے آخر میں یہ مسودہ شامل ہے۔
 تجویز نمبر دو کے تحت کی جانے والی کوششوں سے 12/ مارچ1920ء کو مالٹا جیل سے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ  کورہا کردیا گیا۔ آپ 8/ جون 1920ء کو بمبئی کے ساحل پر پہنچے، جہاں بھارت کے بڑے لیڈروں کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کے رکن مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒ نے پرزور استقبال کیا۔ اور سیاست حاضرہ پر تنہائی میں بات چیت کی۔ (تذکرہ شیخ الہند، ص/312، و313)
اور مولانا ابو الکلام آزادکو اس سے قبل27/ دسمبر1919ء کو رانچی جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔ پہلے اجلاس عام کے تقریبا دس ماہ بعد جمعیت علمائے ہندنے کلکتہ میں ایک خاص اجلاس منعقد کیا۔
جمعیت کا اگلا سفر
 مولانا عبدالحلیم صدیقی قائم مقام ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند لکھتے ہیں کہ
”بہرحال جمعیت کی دو سالہ زندگی کا اجمالی نقشہ یہ ہے: وسط نومبر(23)1919ء بمقام دہلی جمعیت علمائے ہند کا وجود خارج میں آیا۔ تقریبا چند ہفتے کے بعد آخر (28)دسمبر(19)19ء، بہ مقام امرتسر جمعیت نے اپنے وجود کا اعلان کیا اور جیسا کہ اوپر گزرا، چند تجاویز ابتدائی منظور کرکے آغاز عمل کو غیر موقت زمانہ کے لیے کسی عام جلسہ پر اٹھا رکھا اور جمعیت بالکل ابتدائی اور کٹھن منزل کو طے کرنے میں مشغول ہوئی۔ کامل دس ماہ کی طویل خموشی کے بعد اس دشوار گزار گھاٹی سے نکل کر جس میں قدم قدم پر اس کا وجود معرض خطر میں تھا، 6/ ستمبر1920ء کو کلکتہ میں ایک خاص اجلاس منعقد کیا اور اس میں نہایت اہم تجاویز پاس کیں۔ (جمعیت علمائے ہند کی دو سالہ روداد، بابت38،1339ء (مطابق 20،1921ء)، ص/9،10) 
کلکتہ میں خصوصی اجلاس اور ترک موالات کا فتویٰ
”6/ستمبر(1920ء) کو جمعیت علما کا ایک اجلاس کلکتہ میں زیر صدارت مولانا تاج محمود صاحب سندھی (امروٹی) منعقد ہوا، اور8/ ستمبر1920ء کو پانچ سو علما کے دستخط سے ترک موالات کا فتویٰ شائع ہوا۔ یہ فتویٰ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب نائب امیر شریعت بہار نے تحریر فرمایا تھا۔“ (سیاسی ڈائری، ج/ دوم، ص/152۔ تحریک خلافت، ص/161)
اس اجلاس میں ترک موالات کے حوالے سے درج ذیل تجویز پاس کی گئی:
”جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ چوں کہ ٹرکی کے ساتھ صلح کرنے میں دول یورپ نے صریح طور پر نا انصافی کی اور اسلامی جذبات کو پامال کیا ہے، اور وزرائے برطانیہ نے اپنے صاف و صریح وعدوں کی علانیہ خلاف ورزی کی ہے اور خلافت کے اقتدار کو زائل کرنے اور خلیفۃ المسلمین کی مذہبی طاقت کی بیخ کنی کرنے میں اسلام کے ساتھ صریح طور پر مذہبی تعصب کا ثبوت دیا ہے، اس لیے مسلمانوں پر بحیثیت متبع اسلام ہونے کے لازم ہوگیا ہے کہ وہ ان اعدائے اسلام سے ترک موالات کریں۔
محرک: مولانا ابوالکلام آزاد۔مؤید: مولانا عبد الصمد صاحب مقتدری بدایونی۔ مولانا مظہر الدین صاحب۔ مولانا عبد القیوم، عرف نور احمد صاحب۔“ (متفقہ فتویٰ علمائے ہند، ص/14)
ٹرکی کے ساتھ صلح کو معاہدہ سیورے کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ 12/ شرائط پر مشتمل تھا۔12/ شرائط پر مشتمل معاہدہ کی عبارت نقل کرنے کے بعد قاضی محمد عدیل عباسی صاحب لکھتے ہیں کہ
”اس اعلان صلح نے دنیائے اسلام میں ہلچل مچا دی، حتیٰ کہ یورپین مورخ ہیمس پرواہم جن اپنی کتاب”اتاترک“ میں لکھتا ہے کہ اس کو دیکھ کر سلطان وحید الدین خاں کے چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا۔“ (تحریک خلافت، ص152۔ سیاسی ڈائری ج/2، ص136)
فتویٰ ترک موالات
ترک موالات کا پہلا فتویٰ ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد ؒ نے دیا تھا، جو ”متفقہ فتویٰ علمائے ہند“ کے نام سے شائع کیا گیا۔  بعد ازاں طلبہ علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی کے استفسار پر شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحبان نے بھی الگ الگ استفسارات کے جوابات تحریر فرمائے تھے۔
حضرت شیخ الہندؒ کی صدارت
دہلی میں منعقد جمعیت کے تاسیسی اجلاس میں مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کو عارضی صدر بنایا گیا تھا اور مستقل صدر کے لیے ابھی تک کسی نام کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس کے لیے کسی ایسی شخصیت کی تلاش تھی، جو تمام مسالک کے نزدیک معتبر اور قابل تسلیم رہنما ہو۔ چنانچہ حضرت شیخ الہند ؒ کی مالٹا جیل سے رہا ہوکر آنے کے بعد یہ تلاش مکمل ہوگئی۔
”اس لیے اہل الرئے حضرات نے ضروری سمجھا کہ اب اس کا دوسرا اجلاس دہلی میں بڑے پیمانے پر حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں منعقد کیا جائے، تاکہ احوال حاضرہ میں علمائے اسلام کا زیادہ سے زیادہ اتفاق ہوسکے؛ کیوں کہ حضرت کو عام مقبولیت حاصل ہے۔ مسلمان سب سے زیادہ آپ کے گرویدہ اور آپ کے ساتھ حسن اعتقاد رکھتے ہیں اور آپ پر پورا اعتماد کرتے ہیں۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے استدعا کی گئی، تو آپ نے قبول فرمایااور7،8،9/ ربیع الاول1339ھ(مطابق 19،20،21/ نومبر1920ء) اجلاس کی تاریخ مقرر کی گئی۔“ (سیاسی ڈائری، ج/ دوم، ص/177، 178)
مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رقم طراز ہیں کہ
”حضرت شیخ قدس اللہ سرہ العزیز اگرچہ حیات مقدسہ کے بالکل آخری دور میں تھے، مگر علمائے امت کی آرزو یہی تھی کہ جمعیت علما حضرت شیخ الہند کی صدارت کا تاریخی امتیاز حاصل کرے اور آپ کے فیوض سے وطنی اور ملی سیاست کے ایسے بنیادی اصول معلوم کرلے، جس پر کاربند ہوکر اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرتی رہے۔“ (علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، ص/215۔ سیاسی ڈائری، ص/178)
دوسرا اجلاس عام اور تجاویز
19، 20، و21/ نومبر1920ء بمقام دہلی، جمعیت علمائے ہند کا دوسرا اجلاس عام ہوا۔
”اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جس شان و شوکت اور امن و اطمینان سے ہوا، وہ دیکھنے والوں کے دل خوب جانتے ہوں گے۔ ہندستان، بنگال، صوبہ سرحدی؛ غرض کہ ہر گوشہ ملک کے نمائندے علمائے کرام موجود تھے۔ پانچ سو سے زیادہ صرف علما حضرات شریک جلسہ ہوئے۔“  (جمعیۃ العلماء کیا ہے، ج/ دوم، ص/ 36)
 اس میں درج ذیل تجاویز پاس کی گئیں:
(1)جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ احکامِ شرعیہ کا پورا احترام اور عمل کرنے کی دل سے سعی کیا کریں۔ وضع، لباس، اخلاق، برتاؤ بالخصوص فرائض میں اس کا التزام نہایت ضروری سمجھیں۔
(2) جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس کامل غور کے بعد مذہبی احکام کے مطابق اعلان کرتا ہے کہ موجودہ حالت میں گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ موالات اور نصرت کے تمام تعلقات اور معاملات رکھنے حرام ہیں، جس کے ماتحت حسبِ ذیل امور بھی واجب العمل ہیں۔
(1)      خطابات اور اعزازی عہدے چھوڑ دینا۔
(2)      کونسلوں کی ممبری سے علاحدگی اور امیدواروں کے لیے رائے نہ دینا۔
(3)      دشمنانِ دین کو تجارتی نفع نہ پہنچانا۔
(4)      کالجوں، اسکولوں میں سرکاری اِمداد قبول نہ کرنا اور سرکاری یونیورسٹیوں سے تعلق قائم نہ رکھنا۔
(5)      دشمنانِ دین کی فوج میں ملازمت نہ کرنا اور کسی قسم کی فوجی امداد نہ پہنچانا۔
(6)      عدالتوں میں مقدمات نہ لے جانا اور وکیلوں کے لیے ان مقدمات کی پیروی نہ کرنا۔
(3) جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ ترک موالات کے سلسلہ میں طلبہ کے ان اسکولوں اور کالجوں کے چھوڑنے کو جو گورنمنٹ سے امداد حاصل کرتے اور سرکاری یونیورسٹی سے الحاق رکھتے ہیں۔ شرعی حیثیت سے ضروری سمجھتا ہے اور جن طلبا نے ایسے کالجوں اور اسکولوں کو چھوڑ دیا ہے ان کے اس فعل کو اسلامی احکام کی تعمیل سمجھتا ہے۔
(4)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اپنے ملکی بھائیوں کی خلافت کے مسئلہ میں شرکت عمل کو بنظر امتنان دیکھتا ہے اور مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے ہم وطن بھائیوں سے حدودِ شرعیہ کے اندر رہ کر اور زیادہ خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
(5)جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ تجویز کرتا ہے کہ خلافتِ اسلامیہ کی حمایت اور دوسری قومی وملی ضروریات کی کثرت کا لحاظ کرتے ہوئے ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کا ایک قومی بیت المال قائم کیا جائے اور سردست اس کا نظام مرتب کرنے کے لیے ایک خصوصی جماعت معین کردی جائے۔ جو اپنی رپورٹ تین ماہ کے اندر جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں ارسال کردے۔
خصوصی جماعت کے ارکان یہ ہوں گے: مولانا عبدالباری صاحب، مولانا آزاد سبحانی صاحب، مولانا محمد عبدالماجد صاحب، مولوی مرتضیٰ حسن صاحب، حکیم حافظ محمد اجمل خاں صاحب۔
(6)جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ تجویز کرتا ہے کہ ترکِ موالات کے سلسلہ میں تبلیغ کا شعبہ خاص اہتمام سے جاری کیا جائے اور تمام اطراف میں وفود بھیجے جائیں اور مجلسِ منتظمہ مبلغین و دعاۃ کا جلد انتخاب عمل میں لائے۔
(7)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس علی گڑھ کالج کی ذمہ دار جماعت کے اس فعل کو کہ مسجد میں قومی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا نماز پڑھنے سے تعرض کرتے ہیں، اسلامی احکام کی صریح خلاف ورزی اور مسجد کی حرمت کو زائل کرنے والا سمجھتا ہے۔
(8)جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ حکام کی اس جابرانہ کارروائی پر جو اس نے علمائے کرام اور خدامِ خلافت کے ساتھ روا رکھی ہے حقارت و نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ نیز جو تکلیفیں کہ ان بے گناہوں کو جیل خانہ میں دی جاتی ہیں ان کو انسانی اور اخلاقی شرافت کے خلاف سمجھتا ہے اور ان مظلوموں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اِن مصائب کا پورے استقلال اور استقامت سے مقابلہ کریں گے۔
(9)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس نہایت افسوس اور درد کے ساتھ بعض علمائے زمانہ کے اس طرزِ عمل سے مخالفت اور بریت کا اظہار کرتا ہے، جنھوں نے ترکِ موالات جیسے صریح و واضح حکم شرعی کے وجوب اور نفاذ سے انکار کیا ہے، یا اس بارے میں شکوک و شبہات عارض کیے ہیں۔ نیز اعلان کرتا ہے کہ علمائئ ہند اِن کے اس فعل کے ذمہ دار نہیں ہیں اور عام مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ اِن افراد کے قول و فعل کو عام علما کا حکم تصور نہ کریں۔
(10)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اِن تمام قومی درس گاہوں کے منتظمین اور ارکان کی نسبت جنھوں نے سرکاری اعانت اور سرکاری یونیورسٹیوں کے ساتھ الحاق کے ترک کرنے اور اس بارے میں احکام شرعیہ کی سماعت و اطاعت سے انکار کردیا ہے، یہ اعلان کرتا ہے کہ انھوں نے اہلِ اسلام کو چھوڑ کر اعدائے اسلام کا ساتھ دیا ہے۔ پس جب تک وہ اپنے اس فعل سے رجوع نہ کریں، تمام مسلمانوں کو ان کی اعانت و امداد سے دست بردار ہونا چاہیے، نیز طلبا اور ان کے سرپرست اور اساتذہ کو ان کالجوں، اسکولوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھنا چاہیے۔
(11)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس ارکانِ ندوۃ العلماء کے اس کمال جذبہئ حق و صداقت کو جس کی وجہ سے سرکاری امدار لینے سے انھوں نے انکار کردیا ہے، نہایت استحسان کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے قومی و ملّی ایثار کا شکریہ ادا کرتا ہے۔
یہ تمام تجاویز علما کے اجلاس میں باتفاق رائے منظور کی گئیں۔
(جمعیۃ العلماء کیا ہے، ج/ دوم، ص/37، تا/39)
مستقل صدر کا انتخاب
”(جمعیت کے اساسی اصول اور قواعد و ضوابط کے مسودہ کی) اجلاس دہلی کی منظوری کے بعد جمعیت کے مستقل عہدے دار مندرجہ ذیل حضرات قرار پائے تھے:
(1) حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی          صدر
(2) مولانا مفتی محمد کفایت اللہ شاہ جہان پوری ثم دہلوی          نائب صدر
(3) مولانا حافظ احمد سعید دہلوی      ناظم
(4) ہر صوبے کی جمعیت کے صدر،اعزازی نائب صدر
(5) مولانا عمر دراز بیگ مرادآبادی، و مولانا عقیل الرحمان ندوی سہارنپوری،معین ناظم
(6) شیخ فضل الرحمان سودا گر دہلی امین (خزانچی)“۔
(جمعیت علمائے ہند کے اساسی اصول و آئین و ضوابط، بحوالہ سیاسی ڈائری، ج/دوم، ص/ 197)
حضرت شیخ الہندؒ جمعیت علمائے ہند کے پہلے مستقل صدر بنائے گئے؛ لیکن اس کے دس دن بعد یعنی 30/ نومبر1920ء کو حضرت کا انتقال ہوگیا۔ اور اس طرح جمعیت علمائے ہند، محض دس دن کے بعد ہی ان کی صدارت و سرپرستی سے محروم ہوگئی۔
خدمات و تجاویز پر ایک نظر
تجویز نمبر3۔
”تحریک خلافت کا زور تھا۔ انگریزوں کی غداری سے لوگوں میں سخت برہمی تھی۔ ترک موالات کا جوش تھا۔ اس لیے چاہتے تھے کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی برطانیہ سے ترک تعلق کرلے؛ مگر پرانے سرکار پرست ٹرسٹیان یونی ور سیٹی کب اس کو گوارا کرسکتے تھے۔ انھوں نے سخت مخالفت کی، جس کے نتیجے میں مولانا علی احمد مرحوم اور ان کے ہم خیال لوگوں کے ساتھ طلبائے یونی ورسیٹی کی ایک بڑی معتدد بہ جماعت یونی ور سیٹی سے جدا ہوگئی اور آزاد درس گاہ قائم کرنے کے لیے، جس میں کوئی مداخلت حکومت برطانیہ کی نہ ہو تیاری کرنے لگی۔“ (سیاسی ڈائری، ج/2، ص/165)
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام
”تحریک خلافت کا زور تھا۔ حضرت شیخ الہندؒ سے علی گڑھ کے طلبہ نے ترک موالات پر ایک فتویٰ حاصل کیا تھاجو کہ اجلاس عام میں پڑھ کر بھی سنایا گیا تھا۔ …… آپ یہاں کے لوگوں کے اصرار پر علی گڑھ تشریف لائے اور ایک آزاد قومی یونی ور سیٹی کی بنیاد ڈالی۔“ (تذکرہ شیخ الہند، ص/316)
علی گڑھ میں ہونے والے اس اجلاس کی تاریخ16/ صفر1339ھ، مطابق 29/ اکتوبر 1920ء تھی۔ اس اعتبار سے جامعہ ملیہ کی تاریخ تاسیس بھی یہی ہے۔ اس کا پہلا پتھر حضرت شیخ الہندؒ نے رکھا۔1925ء میں جامعہ علی گڑھ سے قرول باغ دہلی منتقل کردیا گیا۔ بعد ازاں یکم مارچ 1935ء کو قرول باغ سے اوکھلا شفٹ کردیا گیا۔ انڈین پارلیمنٹری قانون 1988ء کی رو سے ابھی اسے سینٹرل یونی ور سیٹی کا درجہ حاصل ہے۔
تجویز نمبر 4۔
ترک موالات کا فتویٰ گاندھی جی کی تحریک ”عدم تعاون“ میں شرکت کا اعلان تھا۔ گاندھی جی نے پہلی مرتبہ پبلک پلیٹ فارم سے 23/ مارچ 1920ء کو میرٹھ میں ہورہی خلافت کانفرنس میں اس نظریہ کو پیش کیا۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ
”ہمیں حکومت کی تائید کرنے اور تقویت پہنچانے سے ہر طرح پرہیز کرنا چاہیے۔ یہی طریقہ حکومت کو آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ ہم سے معاملہ کرے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ تمام سرکاری خطابات واپس کردیے جائیں۔ عدالتوں اور درس گاہوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہندستانی سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیں اور جو نئے قانون ساز ادارے بننے والے ہیں، ان میں ہر طرح سے حصہ لینے سے انکار کریں۔“ (سیاسی ڈائری، ج/دوم، ص/ 103)
بعد میں جمعیت علمائے ہند نے کلکتہ کے اپنے خصوصی اجلاس منعقدہ 6/ستمبر1920ء میں ترک موالات کا فتویٰ دیا۔
اس نظریہ کو ہندستانی عوام نے دل و جان سے قبول کیا اور حکیم اجمل خاں رکن مجلس منتظمہ جمعیت علمائے ہندنے پہل کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو ایک خط لکھ کر تمام سرکاری اعزازات واپس کردیے۔ خط کے آخر میں انھوں نے لکھا ہے کہ
”ایسی حالت میں بحیثت ایک حقیر مسلمان کے ان عزتوں سے (سلطنت عثمانیہ کے خلاف برٹش گورنمنٹ کے طریقہ عمل کو قابل اعتراض سمجھتے ہوئے) دست کش ہوتا ہوں، جو مجھے گورنمنٹ کی طرف سے عطا کی گئی ہیں۔ میں قیصر ہند کو گولڈ مڈل اور دو انگلستان اور ہندستان کی تاج پوشی کے درباروں کے تمغوں کے ساتھ جنھیں میں آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں، آج کی تاریخ سے حاذق الملک کے خطاب سے بھی اپنے آپ کو سبکدوش سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ میرا نام درباریوں کی فہرست سے خارج کردیا جائے۔“ (مشرق، مورخہ 18/ اپریل 1920، ص/15۔ بحوالہ تحریک خلافت، ص/ 140۔ سیاسی ڈائری، ج/2، ص/117)
اسی طرح
 ”حضرت مولانا حافظ احمد صاحب صاحب زادہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مرحوم اور مہتمم دارالعلوم دیوبند کو گورنمنٹ کی طرف سے شمس العلما کا خطاب سر جیمس مسٹن گورنر یوپی نے دلوایا تھا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو واپس کروایا۔“ (سیاسی ڈائری، ج/2، ص/ 167) 
 تجویز نمبر9۔
”تحریک خلافت کے باعث مسلمانوں کے تمام مسالک اور اعتقاد کے علما حضرات میں بھی اتحاد و اتفاق کی بنیادیں پڑ چکی تھیں اور وہ فقہی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئے تھے۔…… اگر چہ کئی علما نے انفرادی طور پر مخالفت کی۔ مولانا احمد رضا خان نے بڑی سرگرمی دکھائی۔ تحریک کی مخالفت میں زبردست مہم چلائی اور ہندووں کے ساتھ مل کر استخلاص وطن کی جدوجہد میں حصہ لینا از روئے اسلام حرام قرار دیا۔ ان کے نزدیک ہندستان میں انگریزی راج کے قیام سے امن و امان کا مسئلہ حل ہوگیا تھا۔ مسلمانوں کو ارکان دین ادا کرنے کی آزادی تھی، اس بنا پر ہندستان دارالحرب نہیں رہا تھا، بلکہ دارالاسلام ہوگیا تھا، اس لیے مسلمانوں کو انگریزوں کی اطاعت و فرماں برداری کرنی چاہیے۔ ان کے خلاف جدوجہد کرنا جہاد و قتال کے ضمن میں آتا ہے اور ہندستان کے مسلمانوں پر از روئے اسلام جہاد فرض نہیں ہے۔“ (ابو الکلام آزاد اور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست، ص89، 88۔ سیاسی ڈائری، ص/129، 120)
اسی طرح4/ سے 9/ ستمبر1920ء کو کلکتہ میں کانگریس کا اسپیشل اجلاس ہوا۔ اور اسی کے ساتھ 7/ ستمبر1920ء کو مسلم لیگ اور خلافت کانفرنس منعقد ہوئی۔ ان سبھی اجلاسوں میں ترک تعاون کی تجویز کی تائید کی گئی۔
 ”البتہ کانگریس کے اجلاس میں مسٹر جناح نے تنہا اس کی مخالفت میں آواز بلند کی۔“ (سیاسی ڈائری، ج/2، ص/159۔ ابوالکلام آزاد اور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست، ص/102)
 تجویز نمبر11۔
”نومبر 1920ء میں ندوۃ العلماء لکھنو نے پانچ سو روپیے ماہوار کی سرکاری امداد بند کردی۔ اس وقت اگرچہ سید سلیمان ندوی ندوۃ العلماء کے ناظم تھے، لیکن حبیب الرحمان خان شیروانی ندوۃ العلماء کی مجلس منتظمہ کے ایک اہم رکن تحریک ترک موالات کے سخت مخالف تھے۔ اس وقت ندوۃ العلماء کا خرچ ایک ہزار روپیہ ماہوار تھا۔ جس میں سے اب صرف 450/ روپیہ ماہوار نواب بھوپال کا رہ جاتا تھا۔ ان حالات میں بھی امداد بند کرنے کی تجویز کا پاس ہوجانا اس بات کی علامت تھی کہ جو لوگ بھی اب تحریک ترک موالات کے ہم نوا نہ تھے، وہ اپنی پوزیشن اور اپنا اثر کھوچکے تھے۔“ (سیاسی ڈائری، ج/2،/304)
خلاصہ کلام 1920
یکم جنوری 1920ء کو منعقدجمعیت علمائے ہند کے پہلے اجلاس عام کی تیسری نشست میں شیخ الہند اور امام الہند کی رہائی کی تجویز منظور کی گئی۔ اور اسی اجلاس میں پہلی مجلس منتظمہ تشکیل دی گئی، جس میں مختلف ریاستوں سے23/ اراکین منتخب کیے گئے۔اور اغراض و مقاصد و دستور اساسی کا مسودہ پیش کیا گیا۔ اس کا ایک خصوصی اجلاس 6/ ستمبر1920ء کو کلکتہ میں ہوا، جس میں ترک موالات کا سب سے پہلا فتویٰ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے دیا، جسے بطور تجویز پاس کیا گیا۔  اور 8/ ستمبر1920ء کو پانچ سو علما کے دستخط سے یہ فتویٰ شائع ہوا۔اس فتویٰ کی وجہ سے علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی کے کچھ طلبہ نے یونی ورسیٹی چھوڑ دی، جس کی تعلیم کے لیے16/ صفر1339ھ، مطابق 29/ اکتوبر1920ء کو شیخ الہندؒ کے ہاتھوں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 19،20، و21/ نومبر1920ء بمقام دہلی، جمعیت علمائے ہند کا دوسرا اجلاس عام ہوا، جس میں گیارہ اہم تجاویز پاس کی گئیں۔ اسی اجلاس میں مستقل عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا، جس کے تحت مستقل عہدے دار مندرجہ ذیل حضرات قرار پائے تھے:
(1) حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی          صدر
(2) مولانا مفتی محمد کفایت اللہ شاہ جہان پوری ثم دہلوی          نائب صدر
(3) مولانا حافظ احمد سعید دہلوی      ناظم
(4) ہر صوبے کی جمعیت کے صدر  اعزازی نائب صدر
لیکن شیخ الہندؒکا 30/ نومبر1920ء کو وفات ہوگئی، جس سے محض دس دن بعد ہی جمعیت حضرت کی صدارت سے محروم ہوگئی۔ ترک موالات کے فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے حکیم اجمل خاں صاحب، حافظ احمد صاحب اور دیگر قائدین جمعیت نے سرکاری خطابات واپس کردیے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو نے ماہانہ سرکاری امداد قبول کرنے سے انکار کردیا۔گرچہ مسٹر جناح، مولانا احمد رضا خاں اور کچھ دیگر حضرات نے ترک موالات کی مخالفت کی؛ لیکن عوام پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا، اور جمعیت علمائے ہند اپنی تحریک میں مکمل طور پر کامیاب رہی۔

جمعیت علمائے ہندکے سو سال…… قدم بہ قدم 1919ء پہلا سال

جمعیت علمائے ہندکے سو سال…… قدم بہ قدم
1919ء پہلا سال
منظر، پس منظر، تاسیس اور تنظیم جمعیت علمائے ہند
بیسویں صدی کے آوائل میں بھارت اور مسلمان
انگریزوں نے  بھارت پر، سیاسی اور اقتصادی طور پر مکمل جابرانہ قبضہ کے ساتھ ساتھ مذہبی تسلط قائم کرنے اور مختلف مذاہب کو ختم کرکے عیسائیت کے فروغ کے لیے باقاعدہ انگلینڈ سے تربیت یافتہ پادریوں کو بلایا،جنھوں نے گلی چوراہوں سے لے کر اندرون خانہ تک عیسائیت کی تبلیغ کی انتھک کوشش کی۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیں: تاریخ جمعیت علمائے ہند)
ادھر دوسری طرف علما کے باہمی مسلکی اختلافات سے ملت اسلامیہ کو عظیم نقصان پہنچ رہا تھا۔ علمائے کرام فروعی مسائل میں آپسی اختلافات سے اس قدر دور ہوگئے تھے کہ بقول صاحب تحریک خلافت:
”بعض بعض کی تکفیر بھی کرنے لگے تھے اور گروہ بندی اور مناظروں کے اکھاڑے روز مرہ کی زندگی بن گئے تھے؛ حتیٰ کہ مسجدوں میں لوگوں سے مارپیٹ اور کہیں کہیں کشت و خون کی بھی نوبت آئی“۔ (تحریک خلافت، ص/40)
جمعیت علما کی فکری تخم ریزی
بیرونی سازش اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ کئی لوگوں کے دلوں میں یہ خیالپیدا ہوا ہو کہ مختلف العقائد و مسالک کے علماکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ خطبہ صدارت میں تحریر فرماتے ہیں کہ
”1911ء سے لے کر آج تک یہ مقصد میرے دل کی تمنّاؤں اور آرزوؤں کا مطلوب اور میری روح کی عشق و شیفتگی کا محبوب رہا ہے۔ خدا کی کوئی صبح مجھ پر ایسی طلوع نہیں ہوئی جب اس مقصد کی طلب سے میرا دل خالی ہوا ہو، اور کوئی شام مجھ پر ایسی نہیں گزری، جب میں نے اس کی تمنّا میں اپنے بستر غم واندوہ پر بیقراری کی کروٹیں نہ بدلی ہوں۔ میں نے اپنی آزادی کی تمام فرصت اسی کے عشق میں بسر کی، اور نظر بندی و قید کے چار سال بھی اسی کے فراق میں کاٹے:
یذکرنی طلوع الشمس صخرا
واذکرہ بکل غروب شمس!
            پس اے بزرگانِ ملّت! اگر آج علمائے اُمت کی یہ نہضتہ مبارکہ جمعیت علما کی شکل میں طالع و نظر افروز ہوئی ہے، تو مجھے کہنے دیجیے کہ یہ میرے دہ سالہ سوالوں کا جواب ہے، میری تمنّاؤں اور آرزوؤں کا ظہور ہے، میری فریادوں اور التجاؤں کی قبولیت ہے، میرے لیے ماتشتہیہ الانفس و تلذ الاعینہے، اور یقینا میری امیدوں کے خواب قدیم کی تعبیر ہے: ہذا تاویل رؤیای من قبل، قد جعلہا ربی حقا!۔“ (خطبہ صدارت، تیسرا اجلاس عام، منعقدہ: 19-20-21/نومبر1921ء، بمقام: لاہور)
 قاضی محمد عدیل عباسی صاحبلکھتے ہیں کہ
”علمائے کرام کے باہمی افتراق سے ملت کو جو عظیم نقصان پہنچ رہا تھا اور دنیا میں امت مسلمہ کی حالت اس درجہ نازک تھی کہ یہ بہت ممکن ہے کہ ہرطبقہ خیال کے علما کو یک جا کرنے کا خیال بہت سے اصحاب فہم و بصیرت کے دماغ میں آیا ہو؛ لیکن سب سے پہلے مولانا عبدالباریؒ  نے1919ء میں دلی کی ایک مشہور درسگاہ سید حسن رسولنما میں چند علما کو جمع کرکے وقت کی نزاکت و ضرورت کے پیش نظراتفاق و اتحاد کی اہم ضرورت بتلائی۔ (تحریک خلافت، ص/ 39)
 اور مولانا حفیظ الرحمان واصف صاحب کے بقول
”آپ (مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ) جب 1918ء میں رسالہ ”شیخ الہند“ کی تالیف فرمارہے تھے، اس وقت سے آپ کی یہ خواہش تھی کہ شیخ الہندؒ کی رہائی کے لیے جو کوشش کی جائے، وہ ایسے پلیٹ فارم سے کی جائے، جو تمام علمائے ہندستان کا مشترکہ پلیٹ فارم ہو“۔ (مختصر تاریخ مدرسہ امینیہ اسلامیہ شہر دلی، ص/44)۔
یہاں محاسن التذکرہ کا ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے، جس میں دو اور شخصیات کے حوالے سے جمعیت علمائے ہند کے بانی ہونے کا حوالہ ملتا ہے۔
”فرنگی محل حلقہ سے مولانا عنایت اللہ فرنگی محلی ؒتلمیذ رشید حضرت مولانا عبد الباری گرنگی محلیؒ اور مولانا قطب الدین  عبد الوالی فرنگی محلیؒ کا (بھی تقریبا) دعویٰ یہ ہے کہ
’حضرت مولانا عبد الباری ؒ نے خدام کعبہ، خلافت کمیٹی اور جمعیت علما کا سنگ بنیاد رکھا اور یہ ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ جمعیۃ العلما اور خدام کعبہ کے بانی وموسس حضرت استاذ ہی تھے۔“ (جمعیت العلما پر تاریخی تبصرہ، ص/52، 72، بحوالہ تذکرہ علمائے فرنگی محل، ص/111)
نیز حسرۃ الآفاق میں لکھتے ہیں: ’امرتسر پہنچ کر مولانا موصوف(حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ) نے ان علما سے جو تمام ہندستان سے وہاں جمع ہوئے تھے، مشورہ کیا،اور پہلے پہل علما کی سیاسی انجمن جمعیت علما قائم ہوئی۔‘(حسرۃ الآفاق بوفاۃ مجمع الاخلاق (سوانح حیات حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلؒ) ص/26، مولفہ جناب عنایت اللہ فرنگی محلیؒ، شائع کردہ: اشاعت العلوم برقی پریس فرنگی محل لکھنو، سن تصنیف1929۔)
حلقہ اہل حدیث مولانا حلقہ اہل حدیث مولاناابوالوفاثناء اللہ امرتسری ؒ کی ایک تحریرکی بنیادپرمولانا امرتسری کواس کابانی تصورکرتاہے،مولاناثناء اللہ امرتسری صاحب ؒ کا ایک مضمون اخباراہل حدیث میں شائع ہواتھا،اس میں وہ لکھتے ہیں: ’دہلی میں ایک تبلیغی جلسہ ہواجس میں میں بھی شریک تھا،بعدفراغت خاص احباب کی مجلس میں میں نے یہ تحریک کی کہ ہمیشہ کے لیے علماکی ایک جماعت منظم ہونی چاہیے،اس جلسہ میں مولاناابراہیم سیالکوٹی کے علاوہ اورکئی اصحاب میرے ہم رائے شریک تھے، انھوں نے میری تائیدکی، جس کانتیجہ یہ ہواکہ جمعیۃ العلماء کاایک خام ساڈھانچہ تیارہوگیا،جس  کے صدر مولانا کفایت اللہ صاحب اورناظم مولوی احمدسعیدصاحب مقررہوئے)……یہ تھی جمعیۃالعلماء کی پہلی میٹنگ اورپہلاریزولیشن جودراصل آئندہ کے لیے ایک بنیادی پتھرتھا۔“  (جمعیۃ علماء پرتاریخی تبصرہ ص 35 بحوالہ اخباراہل حدیث امرتسرمورخہ26/محرم الحرام 1361ھ مطابق 13/فروری1942۔بحوالہ حیات ابوالمحاسن (محاسن التذکرہ) ص/ 379-380)
 لیکن تاریخی شواہد گواہ ہیں کہ عملی طور پر اولیت کا یہ فخر ابو المحاسن حضرت مولانا محمد سجاد علیہ الرحمہ کو حاصل ہوا۔تفصیلات پیش ہیں:
مولانا مفتی اختر امام عادل قاسمی صاحب نے جمعیت علمائے ہند کے زیر اہتمام بسلسلہ تقریبات صد سالہ جمعیت علمائے ہند،بتاریخ 15، و16/ دسمبر2018ء، منعقد سیمینار بر مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد علیہ الرحمہ میں پیش کردہ مقالات کا مجموعہ ”تذکرہ ابوالمحاسن“ میں اپنا مقالہ ”مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن سید محمد سجاد صاحب اور جمعیت علمائے ہندمیں لکھتے ہیں کہ:
”مولانا سجاد صاحب غیر اسلامی ہندستان میں نصب امیر کو مسلمانوں کا ملی فریضہ تصور کرتے تھے، مگر اس کے لیے علما کا اتحاد ضروری تھا،چنانچہ1917ء سے بہت قبل ہی مولانا نے جمعیت علمائے ہند کی تاسیس کا پروگرام بنایا، علما کو خطوط لکھے اور ملک کے مختلف حصوں کے دورے کیے، اور اس تعلق سے پیدا ہونے والے شبہات کے جوابات دیے۔ ان مراسلات و اسفار کے اخراجات آپ کے خصوصی مسترشد اور شہر گیا (بہار) کی متمول شخصیت مولانا قاضی احمد حسین صاحبؒ نے برداشت کیے۔ مگر علما کے مسلکی اور نظریاتی اختلافات کی بنا پر کافی دشواریوں کا سامنا ہوا۔ مختلف الخیال اور مختلف المشرب علماکو ایک جگہ جمع کرنا آسان نہیں تھا۔ علاوہ اکثر علما کو سیاست سے دلچسپی نہیں تھی۔ بعض کے نزدیک تو یہ شجر ممنوعہ تھا اور علما کی شان کے منافی تصور کیا جاتا تھا۔ (ص/433)
اس کی تائید و توثیق کے لیے مفتی صاحب نے درج ذیل تین حوالے پیش کیے ہیں:
(1)  ایک اقتباس از: حسن حیات، ص/ 44، مرتبہ شاہ محمد عثمانی۔
(2) ایک اقتباس از: حیات سجاد، ص/68، 69، مضمون حضرت امیر شریعت ثانی مولانا شاہ محی الدین پھلواری۔
(3) حیات سجاد، ص/2، تا/5، تصنیف: مولانا عظمت اللہ صاحب ملیح آبادی۔
 جمعیت علمائے بہار کی تاسیس
اس عنوان کے تحت مفتی اختر امام عادل صاحب رقم طراز ہیں کہ:
”آخر ایک روز مولانا محمد سجاد صاحبؒ نے قاضی احمد حسین صاحبؒ سے کہا کہ ”علمائے ہند کو جمعیت علماکے قیام پر انشراح نہیں ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ گیا میں علمائے بہار کا جلسہ بلاؤں“۔ قاضی صاحب نے اتفاق کیا اور اجلاس کے انعقاد میں اپنا پورا تعاون پیش کیا۔ چنانچہ 30/ صفر المظفر1336ھ، مطابق 15/ دسمبر 1917ء کو مدرسہ انوارالعلوم گیا کے سالانہ اجلاس کے موقع پر جمعیت علمائے بہار کی بنیاد پڑی۔ اور اس کا صدر مقام مدرسہ انوارالعلوم قرار پایا۔ اس کا ابتدائی نام ”انجمن علمائے بہار“ رکھا گیا۔ (کتاب الفسخ والتفریق، ص/43، مصنفہ مولانا عبد الصمد رحمانیؒ۔ تاریخ امارت شرعیہ، ص/41، مصنفہ مولانا عبد الصمد رحمانی۔ حسن حیات، ص/45، مرتبہ شاہ محمد عثمانی ؒ۔ حیات سجاد، ص/68،مضمون حضرت امیر شریعت ثانی مولانا شاہ محی الدین پھلواریؒ، بحوالہ:تذکرہ ابو المحاسن، ص/434)
درج بالا حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ 1911ء سے ہی علما کی جمعیت کی ضرورت محسوس کر رہے تھے، لیکن عمل کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔ مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ کے ذہن میں کل ہند سطح پر ایک مشترک پلیٹ فارم بنانے کا خیال1918ء میں آیا۔ اور مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ کے دماغ میں 1919ء میں آیا، جب کہ حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد علیہ الرحمہ نے پہلے کل ہند سطح پر جمعیت علمائے ہند کو قائم کرنے کی کوشش کی، جن کے لیے انھوں نے بقول حضرت مولانا شاہ محی الدین پھلواری: ”جمعیت علمائے ہند کے قیام کے لیے اکثر صوبوں میں سفر کرکے علما میں اس کی تبلیغ کی اور لوگوں کو آمادہ کیا“۔ (حیات سجاد، ص/ 68، 69)
لیکن علما نے مولانا کی باتوں پر توجہ نہیں دی۔ مولانا شاہ محمد عثمانی لکھتے ہیں کہ
”مولانا سجادؒ کی کوششوں اور افہام و تفہیم سے ضرورت تو بہت سے علما محسوس کرنے لگے تھے؛ لیکن قابل عمل نہیں سمجھتے تھے۔ (حسن حیات، ص/ 44)۔
جب کل ہند سطح پر جمعیت علما کی تنظیم قائم کرنے پر مولانا سجاد ؒ کا کسی نے ساتھ نہیں دیا، تو انھوں نے ریاستی سطح پر سب سے پہلے بہار میں 15/ دسمبر1917ء کو ”جمعیت علمائے بہار“ کی داغ بیل ڈالی۔ مولانا مناظر احسن گیلانی رقم طراز ہیں کہ
”ابھی (مونگیرمیں) چند مہینے ہوئے تھے کہ وہی استھاواں کا الکن خطیب مونگیر اسی غرض سے آیا ہوا تھا کہ علما کی منتشر اور پراگندہ جماعت کو ایک نقطہ پر خاص سیاسی حالات کے ساتھ جمع کیا جائے، اس وقت تک دلی کی جمعیۃ العلماء کا خواب بھی نہ دیکھا گیا تھا۔ طے ہوا کہ صوبہ بہار کے علما کو پہلے ایک نقطہ پر متحد کیا جائے، پھر بتدریج اس کا دائرہ بڑھایا جائے۔“ (حیات سجاد، ص/ 51۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، ص/63، مرتبہ: مولانا طلحہ نعمت ندوی۔ مفکر حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد ؒ اور جمعیۃ علماء ہند، ص/5، تذکرہ ابوالمحاسن، ص435)
مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
”بیسویں صدی عیسوی کا بیسواں سال(1919ء) ہمیشہ آزاد ہندستان کی تاریخ میں ”صبح صادق“ تسلیم کیا جائے گا؛ کیوں کہ اسی 1919ء کے مارچ میں ستیہ گرہ کی تجویز منظور کی گئی۔ اسی سال جمعیت علمائے ہند کے نظام جدید کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔“ (الجمعیۃ،مجاہد ملت نمبر، ص/41، مطبوعہ26/فروروی1963ء، مطابق یکم شوال المکرم 1362ھ)۔
ظاہر سی بات ہے کہ نظام جدید اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ اس کا سلسلہ پہلے سے جاری ہو، تو گویا جمعیت علمائے ہند، جمعیت علمائے بہار کا جدیداور توسیعی نظام ہے۔ حیات سجاد میں ہے کہ
”پہلا اجلاس ہندستان میں جمعیت کا بنام انجمن علمائے بہار شہر بہار میں بزمانہ عرس حضرت مخدوم الملکؒ منعقد ہوا۔ اس کے بعد جمعیت علمائے ہند قائم ہوئی اور اس کے بعد مختلف صوبوں میں شاخیں قائم ہوئیں۔ اور پھر علما نے مستعد ہوکر کام شروع کردیا۔ اور الحمد للہ کہ آج ہندستان کے ہر صوبہ میں جمعیت علما قائم ہے۔“ (ص/69۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، ص/ 55، تذکرہ ابوالمحاسن، ص435)
یہ تمام شواہد گواہ ہیں کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ ہی وہ پہلی شخصیت تھی، جنھوں نے سب سے پہلے جمعیت علمائے ہند کے نظریہ کی تخم ریزی کی اور بہار کی سرزمین سے عملی طور پر اس کا آغاز کیا۔
جمعیت علمائے بہار سے جمعیت علمائے ہند کی طرف
چوں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورا عرب ترکوں کے زیر حکومت تھا، اس لیے عالم اسلام کی نگاہوں میں ترکی حکومت کو ’حکومت اسلامیہ‘ اور اس کے خلیفہ کو ’خلیفۃ المسلمین‘ کہاجاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم (28/ جولائی 1914ء، 11/ نومبر1918ء)میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ترکی کے جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کو تشویش ہوئی کہ اگر برطانیہ کامیاب ہو گیا، تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی مسلمانوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی؛ لیکن برطانیہ نے فتح ملنے کے بعد وعدہ خلافی کرتے ہوئے عربوں کو ترکی کے خلاف جنگ پر اکسایا، جس کے نتیجے میں بہت سے عرب مقبوضات ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے، جس پر بعد میں انگریزوں نے قبضہ کرلیا اور پھر ترکی کو تقسیم کرکے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کردیا۔ انگریزوں کی اس بد عہدی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو غم و غصہ سے بھر دیا،جس کے نتیجے میں ’تحریک خلافت‘ رونما ہوئی۔ اسی تحریک کا پہلا اجلاس”آل انڈیا خلافت کانفرنس“ کے نام سے بروز اتوار، پیر،23/24/ نومبر1919ء مطابق 29/ صفر و یکم ربیع الاول 1338ھ کرشنا تھیٹر، پتھر والا کنواں دہلی میں ہورہا تھا، جس میں بھارت کے کونے کونے سے مختلف مسلک و مشرب کے علمائے کرام شریک تھے۔
علمائے کرام کے باہمی مسلکی اختلاف،عالمی منظر نامے اور خود غلام بھارت کے پر آشوب حالات نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر ہم یوں ہی عقیدہ و فرقہ کا کھیل کھیلتے رہے، اورایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوئے، تووہ دن دور نہیں، جب ہمارا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے22/ نومبر1919ء بروز سنیچرحضرت مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی ہدایت کے مطابق مولانا احمد سعید اور مولانا آزاد سبحانی صاحبان نے خلافت کانفرنس میں تشریف لائے علمائے کرام کی قیام گاہوں پر جاکر فردا فردا ملاقات کی اوربڑی راز داری کے ساتھ انھیں ایک تنظیم کی نیو رکھنے کی دعوت دی۔ حکومت برطانیہ چوں کہ علما پر بہت گہری نظر رکھے ہوئے تھی، اس لیے خطرہ تھا کہ اگر کہیں انگریزوں کو بھنک بھی پڑ گئی تو علما پر حکومت کے قہر و جبر کی قیامت ٹوٹ پڑے گی، اس لیے 23/ نومبر1919 بروز اتوار بعد نماز فجرپچ کوئیاں روڈ دہلی میں واقع سید حسن رسول نما کے مزار پرحاضر ہوکر سب نے رازداری کا حلف لیتے ہوئے یہ عہد لیا کہ
”ہم سب دہلی کے مشہور ومقدس بزرگ کے مزار کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ مشترک قومی و ملی مسائل میں ہم سب آپس میں متحد ومتفق رہیں گے اور فروعی و اختلافی مسائل کی وجہ سے اپنے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں کریں گے، نیز قومی و ملکی جدوجہد کے سلسلے میں گورنمنٹ کی طرف سے جو سختی اور تشدد ہوگا، اس کو صبرو رضا کے ساتھ برداشت کریں گے اور ثابت قدم رہیں گے۔ جماعت کے معاملہ میں پوری پوری رازداری اورامانت سے کام لیں گے۔ (تحریک خلافت، ص/40: قاضی محمد عدیل عباسی)
مولانا حفیظ الرحمان  واصف صاحب اس خفیہ اجتماع کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”اس میں بہار سے صوبائی ذمہ دار کی حیثیت سے حضرت مولانا محمد سجادؒ بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر چند مخصوص علما کا خفیہ اجتماع بوقت صبح دہلی کے مشہور بزرگ سید حسن رسول نماؒ کی درگاہ پر مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ کے زیر قیادت منعقد ہوا۔ تمام حاضرین نے جن کی تعداد دس بارہ (12) سے زائد نہ تھی، جمعیت کے قیام سے اتفاق کیا۔ جلسہ کا آغاز مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسریؒ کی تحریک اور مولانا منیر الزماں اسلام آبادی وغیرہ کی تائید سے ہوا۔“ (جمعیت علمائے ہند پر ایک تاریخی تبصرہ، ص/44)
جو علمائے کرام فروعی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس قدر دور ہوگئے تھے کہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے نہیں تھکتے تھے اور ایک دوسرے کو سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے تھے؛ حلف راز داری کے بعد اسی روز، یعنی23/ نومبر1919ء مطابق یکم ربیع الاول بروز پیر بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں ایک ساتھ ایک دل اور ایک جان ہوکر بیٹھے اور پوری قوت کے ساتھ میدان عمل تیار کرنے کے لیے درج ذیل پانچ  فیصلے کیے:
(1) جشن صلح کے مقاطعہ کا فیصلہ کیا اور اس میں شرکت کے عدم جواز پر ایک فتویٰ بھی دیا گیا۔
(2) جمعیت علمائے ہند کے قیام پر کافی بحث و مباحثہ ہوا اور بالآخر اس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
(3) تمام حاضرین جمعیت کے رکن بنے اور آواخر دسمبر میں امرتسر میں جلسہ کرنے کی تجویز پاس کی۔
(4)  حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کوعارضی صدر اور حافظ احمد سعید صاحب کو عارضی ناظم بنایا گیا۔
(5) جمعیت کے مقاصد و ضوابط کا مسودہ تیار کرنے کا فیصلہ لیا اور مفتی محمد کفایت اللہ صاحب اور مولانا محمد اکرام خاں صاحب ایڈیٹر اخبار محمدی کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی۔
 اس تاسیسی اجلاس میں مختلف العقائد کے درج ذیل25/علمائے کرام شریک تھے:
(1) حضرات مولانا عبد الباری،(2) مولانا سلامت اللہ، (3)مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ، (4) پیر محمد امام سندھی،(5) مولانا اسد اللہ سندھی،(6) مولانا سید محمد فاخر، (7) مولانا محمد انیس، (8)مولانا خواجہ غلام نظام الدین،(9) مولانا محمد کفایت اللہ، (10) مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، (11) مولانا احمد سعیددہلوی،(12) مولانا سید کمال الدین،(13) مولانا قدیر بخش، (14)مولانا تاج محمود،(15)مولانا محمد ابراہیم دربھنگوی،(16) مولانا خدا بخش مظفر پوری، (17)مولانا مولا بخش امرتسری،(18) مولانا عبد الحکیم گیاوی،(19) مولانا محمد اکرام،(20) مولانا محمد منیرالزماں،(21) مولانا محمد صادق،(22) مولانا سید محمد داؤد،(23) مولانا سید محمد اسماعیل،(24) مولانا محمد عبداللہ،(25) مولانا آزاد سبحانی۔(مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، از ص/2، تا5)۔
اس فہرست میں گرچہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ کا نام نہیں ہے؛ لیکن اس میٹنگ میں شریک مولانا احمد سعید صاحبؒ کی شہادت یہ ہے کہ وہ سید حسن رسول نما کے مزار پر حلف راز داری کی اس خفیہ میٹنگ میں شریک تھے اور انھوں نے ایک دل پذیر تقریر بھی فرمائی۔ (حیات سجاد، ص/ 101)۔ اور بعد عشا کی میٹنگ میں مولانا عبد الحکیم گیاوی کو اپنا نمائندہ بناکر بھیجا۔ (تذکرہ ابو المحاسن،ص/424، مطبوعہ جمعیت علمائے ہند)
جمعیت علمائے ہند کا پہلا اجلاس اور تجاویز
جمعیت علمائے ہند کے قیام کے محض 35/ دن بعد،28، 31/ دسمبر1919ء اور یکم جنوری 1920ء کی الگ الگ تاریخوں میں تین نشستوں پر مشتمل اسلامیہ مسلم ہائی اسکول امرتسر میں اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔28/ دسمبر1919ء بعد نمازعصر کی پہلی نشست میں باون علمائے کرام شریک ہوئے اور جمعیت علمائے ہند کے قیام کی ضرورت و اہمیت پر بحث و گفتگو ہوئی۔
(1) مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے انعقاد جمعیت اور جلسہ دہلی کی مختصر کیفیت بیان کی۔
(2) مولانا ابو تراب محمد عبد الحق صاحب نے سیاست و مذہب کی یگانگت پر تقریر کی۔
(3) مولانا عبد الرزاق صاحب نے انعقاد جمعیت کی ضرورت پر زور دیا۔
(4)جناب سید جالب صاحب ایڈیٹر اخبار ہمدم نے اپنے خطاب میں کہا کہ مختلف صوبائی انجمنوں کی طرح آل انڈیا جمعیت علما کا قیام ضروری ہے۔
(5) مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ نے جمعیت علمائے ہند کے قیام کی ضرورت پر خطاب کیا۔اور اس کے اغراض و مقاصد کا اجمالی خاکہ بھی پیش کیا۔ 
(6) جناب غازی محمود صاحب نے مفتی صاحب کی باتوں سے مکمل اتفاق کا اعلان کیا۔
(7) حاذق الملک حکیم حافظ محمد اجمل خاں صاحب نے جمعیت کے انعقاد پر اپنے دلی اتفاق کا اظہار کیا۔ (مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، ص/ از 6، تا /11)۔
اس میں گرچہ مولانا محمد سجاد صاحبؒ کا نام نہیں ہے؛ لیکن مولانا احمد سعید صاحب ناظم اول جمعیت علمائے ہند لکھتے ہیں کہ
”جمعیت علمائے ہند کے اس پہلے اجلاس میں بھی حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد مرحوم شریک ہوئے اور انھوں نے اپنے خیالات کا پھر اعادہ فرمایا۔“ (حیات سجاد، ص/102)
ظاہر سی بات ہے کہ یہ خیالات وہی تھے، جن کے لیے پہلے مولانا مرحوم نے بھارت کے اکثر صوبوں میں سفر کیا، لیکن علما نے ضرورت سمجھنے کے باوجود عمل کی طرف قدم نہیں اٹھایا، اور بالآخر انھوں نے ریاست بہار سے اس کی شروعات کردی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ فائدہ سے خالی نہیں ہوگا کہ علمائے ہند کی جمعیت کی پہلی کوششحضرت ابو المحاسنؒ نے کی ہے؛ لیکن جمعیت علمائے ہند کی تاسیسی میٹنگ میں شریک تھے یا نہیں؛ اس حوالے سے مورخین دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ مولانا ابوالمحاسنؒ تاسیس کی میٹنگ میں شریک رہے ہیں۔ اس نظریہ پر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شریک تھے، تو جمعیت کی ابتدائی دو سالہ رپورٹ پر مبنی بنیادی کتاب ”مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند“ میں مولانا کا نام کیوں نہیں ہے۔ تو اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اسے مورخین کی تعصب پرستی کہنا تو خلاف واقعہ ہوگا؛ بات دراصل یہ ہے کہ وہ نام و نمود سے بہت دور بھاگتے تھے اور پس پردہ رہ کر ہر کام کو انجام دیا کرتے تھے، جیسا کہ15، 16/ دسمبر2018ء میں مولانا مرحوم پر ہوئے سیمینار کے تقریبا اکثر مقالہ نگاروں نے اس خصوصیت کا تذکرہ کیا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جمعیت علمائے ہند کا دماغ ہونے اور کہلانے کے باوجود انھوں نے کسی بھی تاریخ میں اپنے نام کو لکھنا یا لکھوانا گنوارا نہیں فرمایا۔ ہمارے اکابرکا یہی اخلاص ان کی دوامی شہرت اورانھیں عقیدت و محبت کا مرکز بنانے پر مجبور کرتا ہے۔ مولانا عطاء الرحمان قاسمی مشہور مورخ اور ادیب محمد اسحاق بٹھی کی کتاب: بزم ارجمنداں کا ایک اقتباس نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
”محمد اسحاق بٹھی ایک محقق عالم اور دیانت دار صاحب قلم ہیں۔ انھوں نے جمعیت علمائے ہند کے ابتدائی قیام میں شریک بعض قابل ذکر علما کا ذکر ضرور کیا ہے۔ لیکن اس تاسیسی اجلاس  جمعیت دہلی میں شریک بعض اہم علما کا نام ان کے قلم سے غیر شعوری طور پر رہ گیا ہے، ان میں ایک اہم نام ابوالمحاسن محمد سجاد بانی امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کا ہے، جو کہ 23/ نومبر1919ء کو قیام جمعیت علمائے ہند میں شریک ہوئے تھے۔“ (تذکرہ ابو المحاسن، ص/ 527)
محقق عصر مفتی اختر امام عادل قاسمی صاحب نے اپنی کتاب ’حیات ابوالمحاسن (محاسن التذکرہ) میں از صفحات 378تا 390، میں مختلف ثبوت و شواہد سے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مولانا ابوالمحاسن ہی جمعیت علمائے ہند کے اولین بانی اور موسس اول ہیں۔
اجلاس عام اول کی دوسری نشست
31/ دسمبر1919 کو دوسری نشست ہوئی، جس میں تیس علمائے کرام نے شرکت کی۔ اس میں درج ذیل تین تجویزیں منظور ہوئیں:
تجویز نمبر1: جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ کامل ارادت مندی اور خلوص کے ساتھ اظہار کرتا ہے کہ حضرت سلطان المعظم مسلمانوں کے مسلم خلیفہ اور امیر المؤمنین ہیں، اس لیے آپ کے نام کا خطبہ پڑھا جائے۔ محرک مولانا محمد اکرم خاں صاحب مؤید مولانا پیر تراب علی صاحب سندھی۔ یہ تجویز بالاتفاق منظور ہوئی۔
تجویز نمبر2: جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ ملک معظم سے استدعا کرتا ہے کہ خلافت و مسائل متعلقہ ٹرکی کا تصفیہ کرنے کے لیے مسٹر لائڈ جارج کے ہمراہ صاحب وزیر ہندو مسلم نمائندے مسٹر اصفہانی و مسٹر بھرگری، مشیر حسین صاحب قدوائی لازمی طور پر صلح کا نفرنس میں بھیجے جائیں؛ ورنہ ہم کو اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملات مذکورہ کا فیصلہ مسلمانوں کے متفقہ مذہبی مطالبات کے خلاف ہوجائے اور ملک معظم کی کروڑوں رعایائے ہند کی سخت بے چینی کا باعث ہو۔ محرک مولوی عبد الرزاق صاحب، مؤید مولوی محمد مبین صاحب۔ یہ تجویز بھی باتفاق منظور ہوئی۔
تجویز نمبر۳: جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ تجویز کرتا ہے کہ یہ تجویز نمبر2، بذریعہ تار ملک معظم کی خدمت میں روانہ کی جائے۔ اور جلسہ کی کاروائی اخبارات میں بھیجی جائے۔ محرک مولوی محمد منیر الزماں صاحب، مؤید مولوی احمد سعید صاحب۔ بالاتفاق منظور ہوئی اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔“ (مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، ص/12)
تجاویز پر ایک نظر
31/ دسمبر1919ء کی دوسری نشست کی پہلی تجویز میں ’سلطان المعظم‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مراد سلطان محمد وحید الدین ہیں۔ ان کے متعلق مختصر معلومات درج ذیل ہیں:
”محمد سادس یا محمد وحید الدین (پیدائش: 14 جنوری 1861ء – انتقال: 16 مئی 1926ء) سلطنت عثمانیہ کے 36 ویں اور آخری فرماں روا تھے جو اپنے بھائی محمد پنجم کے بعد 1918ء سے 1922ء تک تخت سلطانی پر متمکن رہے۔ انھیں 4 جولائی 1918ء کو سلطنت کے بانی عثمان اول کی تلوار سے نواز کر 36/ ویں سلطان کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔ ان کے دور حکومت کا سب سے اہم اور بڑا واقعہ جنگ عظیم اول تھا جو سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ جنگ میں شکست کے نتیجے میں برطانوی افواج نے بغداد اور فلسطین پر قبضہ کر لیا اور سلطنت کا بیشتر حصہ اتحادی قوتوں کے زیر قبضہ آ گیا۔ اپریل 1920ء کی سان ریمو کانفرنس کے نتیجے میں شام پر فرانس اور فلسطین اور مابین النہرین پر برطانیہ کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔ 10 اگست 1920ء کو سلطان کے نمائندوں نے معاہدہ سیورے پر دستخط کیے، جس کے نتیجے میں اناطولیہ اور ازمیر سلطنت عثمانیہ کے قبضے سے نکل گئے اور ترکی کا حلقہ اثر مزید سکڑ گیا، جب کہ معاہدے کے نتیجے میں انھیں حجاز میں آزاد ریاست کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ ترک قوم پرست سلطان کی جانب سے معاہدے کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر سخت ناراض تھے اور انھوں نے 23/ اپریل 1920ء کو انقرہ میں مصطفٰی کمال اتاترک کی زیر قیادت ترک ملت مجلس عالی (ترکی زبان: ترک بیوک ملت مجلسی) کا اعلان کیا۔ سلطان محمد سادس کو تخت سلطانی سے اتار دیا گیا اور عارضی آئین نافذ کیا گیا۔ قوم پرستوں نے جنگ آزادی میں کامیابی کے بعد یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کیا اور سلطان کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدر کر دیا گیا جو 17/ نومبر کو بذریعہ برطانوی بحری جہاز مالٹا روانہ ہو گئے اور بعد ازاں انھوں نے زندگی کے آخری ایام اطالیہ میں گزارے۔ 19 نومبر 1922ء کو اُن کے قریبی عزیز عبد المجید آفندی (عبد المجید ثانی) کو نیا خلیفہ چنا گیا جو 1924ء میں خلافت کے خاتمے تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ محمد سادس کا انتقال 16 مئی 1926ء کو سان ریمو، اٹلی میں ہوا اور انھیں دمشق کی سلطان سلیم اول مسجد میں سپرد خاک کیا گیا۔“(ویکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف، محمد وحید الدین)
تجویز نمبر2میں ملک معظم سے مراد جارج پنجم ہے۔
”جارج پنجم (George V) کا مکمل نام جارج فریڈرک ارنسٹ البرٹ (George Frederick Ernest Albert) ہے۔ مئی 1910 سے اپنی وفات20جنوری 1936 تک برطانیہ اور برطانوی دولت مشترکہ کا بادشاہ اور شہنشاہ ہندستان تھا۔ اس کا پیش رو ایڈورڈ ہفتم اور جانشیں ایڈورڈ ہشتم تھا۔“ (ویکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف، جارج پنجم)
 اسی تجویز میں ’صلح کانفرنس‘ کا لفظ آیا ہے، جس سے مراد معاہدہ سیورے (Treaty of Sevray) ہے، جو10/ اگست 1919 ء کو سیورے کے مقام پر کیا گیا تھا۔ اس معاہدہ سے متعلق مرتضیٰ احمد خاں لکھتے ہیں کہ
”فاتح اقوام کے نمائندوں نے جو معاہدہ تیار کیا تھا، ترکی کے نمائندے کو بلاکر بزور شمشیر اس پر دستخط حاصل کرلیے۔ اس عہد کے نام کی رو سے ترکی پر بھاری تاوان جنگ ڈال دیا گیا۔ اور اس کی وصولی کے لیے ترکی کے ذرائع آمدنی کو اپنے قبضے میں لینا طے کرلیا گیا تھا۔ اور ترکی کے علاقوں پر اس طرح قبضہ طے کیا گیا کہ عراق، فلسطین اور شرق اردن برطانیہ کی عمل داری میں چلے گئے۔ شام و لبنان پر فرانس کا قبضہ مان لیا گیا۔ شریف مکہ حسین کو جس نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے اتحادیوں کی مدد کی تھی، یہ انعام دیا گیا کہ اسے حجاز کا بادشاہ تسلیم کرلیا گیا۔ اس کے بیٹے امیر فیصل کو عراق کا کٹھ پتلی حکمراں بنا دیا گیا۔ ترکی سے تاوان جنگ وصول کرنے کے لیے برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی فوجوں نے قسطنطنیہ پر اپنا قبضہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔“ (تاریخ اقوام عالم، بحوالہ سیاسی ڈائری، ج/2، ص/78)
ہندو مسلم نمائندہ مسٹر اصفہانی سے مراد غالبا ابوالحسن اصفہانی ہے۔
”ابو الحسن اصفہانی (انگریزی: Abul Hassan Isphani) ایک پاکستانی قانون ساز اور سفارت کار تھے۔ ان کا تعلق اصفہانی خاندان سے تھا اور وہ سینٹ جانز کالج، کیمبرج سے تعلیم یافتہ تھے۔ ان کا شمار تحریک پاکستان کے اہم رہنماوں میں کیا جاتا ہے۔ ستمبر 1947ء سے فروری 1952ء تک ریاستہائے متحدہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔“(آزاد دائرۃ المعارف ویکی پیڈیا، ابوالحسن اصفہانی)
مسٹر بھرگری اور مشیر حسن قدوائی کے بار میں معلومات نہیں مل سکیں۔
جمعیۃ العلماء ہندیا جمعیت علمائے ہند
جمعیت علمائے ہند کے قدیم و جدید مورخین نے کہیں پر اس کا نام جمعیۃ العلماء لکھا ہے اور کہیں پر جمعیۃ علماء ہند۔ اور بعض حضرات کی تحریروں میں جمعیۃ العلماء ہند بھی لکھا ملتا ہے۔ مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب سابق ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء ہند نے اس کی تاریخ پر لکھی کتاب کا نام”جمعیۃ العلماء کیا ہے“  رکھا ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر لوکیشن نام کا حصہ نہیں ہے، تو جمعیۃ العلماء اصل نام ہوگا۔ اور ہند لوکیشن ہوگا۔ لیکن ہند نام کا حصہ ہے، اس لیے یہ ترکیب کسی بھی صورت درست نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اگر اسے عربی جملہ مان لیا جائے، تو مبتدا خبر کی ترکیب ہوگی، جو بالکل بھی بے معنی جملہ ہوگا۔ اور اگر فارسی ترکیب تسلیم کیا جائے، تو ایسی ترکیب فارسی زبان و ادب میں ندارد ہے؛ اس لیے بہر صورت جمعیۃ العلماء ہند لکھنا خلاف قاعدہ ہے۔
تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا اصل اور پورا نام جمعیت علمائے ہندہے؛ کیوں کہ جمعیت کی تاریخ پر سب سے پہلی اور مستند کتاب  ”مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند“ میں ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ صدر اول جمعیت علمائے ہند نے اس کے پہلے اجلاس میں قواعد و ضوابط کا جو مسودہ پیش کیا ہے۔ اس میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ
”دفعہ نمبر۔۱: اس انجمن کا نام جمعیۃ علمائے ہند ہوگا۔“ (ص/۶۱)
جمعیت علمائے ہند کا صحیح املا کیا ہونا چاہیے
جمعیۃ: عربی لفظ ہے، اس لیے عربی زبان و تحریر میں بالیقین اسے تائے مدورہ سے لکھا جائے گا، لیکن اس کی تہنید کردینے کے بعد لمبی تا سے لکھنا ضروری ہوجاتا ہے، جیسے کہ ہم محبت، خدمت، قدرت، رحمت اور ان جیسے ہزاروں الفاظ کو لکھتے ہیں؛ اس لیے ناچیز کی رائے یہی ہے کہ اسے جمعیۃ کے بجائے ”جمعیت“ لکھنا زیادہ موزوں ہے۔
اسی طرح ”علماء“ کی اضافت میں بعض جگہ ایسے ہی لکھا گیا ہے، جب کہ کہیں کہیں ”علمائے“ لکھا ملتا ہے۔ چوں کہ اس کے تینوں الفاظ  فارسی ترکیب اضافی پر مشتمل ہیں، اور اضافت کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر اسم کے آخر میں الف ہو، تو اس کی اضافت ”ہمزہ اور ے“ سے ہوگی، اس لیے قاعدہ  کے مطابق”علمائے“لکھا جانا چاہیے۔جمعیت کی تاریخ کی بنیادی کتاب کا نام بھی  ”جمعیت علمائے ہند“ کے املا کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح دستور اساسی کے مسودہ کی دفعہ نمبر ایک میں بھی ”علمائے“ ہی لکھا ہوا ہے؛ اس لیے جمعیت کو مکمل نام اور صحیح املا کے ساتھ ”جمعیت علمائے ہند“ لکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
جمعیت علمائے ہند کا پہلادفتر
حضرت مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نو راللہ مرقدہ چوں کہ صدر منتخب کیے گئے تھے اور آپ اس وقت مدرسہ امینیہ اسلامیہ کشمیری گیٹ سے وابستہ تھے، اس لیے”اس کا سب سے پہلا دفتر مدرسہ امینیہ کے ایک کمرے میں قائم ہوا۔“ (مختصر تاریخ مدرسہ امینیہ اسلامیہ، ص46)۔ 
یہ کمرہ آج تک موجود ہے، جس میں سردست مدرسہ کا دفتر اہتمام ہے۔
 خلاصہ کلام
انگریزوں نے بھارت پر جابرانہ قبضہ کرکے، یہاں کی عوام بالخصوص مسلمانوں کو سیاسی، اقتصادی اور مذہبی طور پر تباہ کرنے کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ ادھر دوسری طرف علمائے امت کے مسلکی اختلافوں نے انھیں اور بھی بے جان کردیا تھا۔ ایسے پرآشوب حالات میں مفکر قوم و ملت حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمۃ اٹھے اور بھارت کے اکثر صوبوں میں دورہ کرکے علمائے کرام کو ایک متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دینے کی دعوت دی، لیکن کسی نے بھی ان کی آواز پر لبیک نہیں کہا؛ بالآخر مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے آل انڈیا کے بجائے ریاستی سطح پر15/ دسمبر 1917ء میں ”جمعیت علمائے بہار“ کی داغ بیل ڈالی۔بعد ازاں آل انڈیا خلافت کانفرنس کے موقع پر بھارت کے کونے کونے سے علمائے کرام دہلی میں جمع ہوئے تھے، اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، مختلف مسالک کے علما سید حسن رسول نما کے مزار پر حاضر ہوکر پہلے رازداری کا حلفیہ لیا۔ پھر اسی روز23/ نومبر1919ء بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں ایک میٹنگ کی اور ”جمعیت علمائے ہند ”کی تشکیل کی۔ یہ تشکیل ”جمعیت علمائے بہار“ کا نظام جدید اور توسیعی نظام کا حصہ تھا۔ اس کا پہلا اجلاس 28،31/ دسمبر 1919ء و یکم جنوری 1920ء امرتسر میں کیا گیا، جس میں  خلافت اسلامیہ کے خلیفہ محمد وحید الدین خاں کے نام کا خطبہ پڑھنے، صلح کانفرنس میں بھارتی مسلمانوں کے وفد کے بھیجنے اور اس تجویز کو برطانوی بھارتی بادشاہ جارج پنجمکوبھیجنے کی تجاویزمنظور کی گئیں اور پہلی مجلس منتظمہ بنائی گئی۔ اس کا پہلا دفتر مدرسہ امینیہ اسلامیہ کشمیری گیٹ دہلی میں قائم کیا گیا۔ املا کے قاعدہ کی رو سے ”جمعیت علمائے ہند“ لکھنا چاہیے۔