30 Mar 2020

جمعیت علمائے ہندکے سو سال…… قدم بہ قدم 1920ء دوسرا سال

جمعیت علمائے ہندکے سو سال…… قدم بہ قدم
1920ء دوسرا سال
پہلی مجلس منتظمہ کی تشکیل،شیخ الہند و امام الہند کی رہائی کیتجویز، فتویٰ ترک موالات،دوسرا اجلاس عام، پہلے مستقل صدر کا انتخاب
جمعیت علمائے ہند کا پہلا اجلاس اور تجاویز
جمعیت علمائے ہند کے پہلے اجلاس عام کی تیسری نشست یکم جنوری 1920ء کو امرتسر کے مسلم اسلامیہ ہائی اسکول کے ہال میں ہوئی،جس میں مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ کو صدر جلسہ بنانے کے بعد مفتی صاحب نے ضوابط و قواعد کا مسودہ پڑھ کر سنایا۔ بعد ازاں درج ذیل تین تجاویز پاس ہوکر منظور ہوئیں:
(1) ضوابط و قواعد کا مسودہ اسی زیر تجویز حالت میں چھپوالیا جائے اور اراکین جمعیۃ و دیگر علما کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ اور بعد حصول آرائے اراکین و علمائے کرام آئندہ مجلس انتظامیہ کے جلسہ میں پیش کیا جائے۔ اورپھر مجلس انتظامیہ اسے مرتب و مہذب کرکے، منظوری کے لیے مجلس عام میں پیش کرے۔
(2) جمعیت علما کا یہ جلسہ باوجود اعلان شاہی ہوجانے کے، حضرت مولانا محمود حسن صاحب و مولانا ابوالکلام آزاد صاحب و دیگر علما کی عدم رہائی پر سخت اضطراب و بے چینی کا اظہار کرتا ہے۔ صدر جلسہ کو اختیار دیا جائے کہ وہ بذریعہ تار اس تجویز کو وائسرائے ہند (چیمس فورڈ)کی خدمت میں روانہ کریں۔
(3) جمعیت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کے ارکان کا انتخاب کرلیا جائے۔ اور جو حضرات کہ اس انتخاب میں آجائیں، ان سے رکنیت اور اس انتخاب کی منظوری بذریعہ تحریر حاصل کی جائے۔
 اس تجویز پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسی میٹنگ میں پہلی مجلس منتظمہ کی تشکیل عمل میں آئی، اور تئیس درج ذیل اراکین منتخب کیے گئے:
(1)مولانامحمد کفایت اللہ صاحب                  دہلی
(2)مولانا احمد سعید صاحب                                    دہلی
(3)حاذق الملک حکیم محمد اجمل خاں صاحب  دہلی
(4)مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی  ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
(5)مولانا محمد فاخر صاحب الٰہ آبادی            ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
            (6)مولانا محمد سلامت اللہ صاحب   ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
            (7)مولانا حسرت موہانی صاحب       ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
            (8)مولانا مظہر الدین صاحب         ممالک متحدہ آگرہ و اودھ
            (9)مولانا محمداکرم خاں صاحب       بنگال
            (10)مولوی منیر الزماں صاحب     بنگال
            (11)مولوی محمد سجاد صاحب         بہار
            (12)مولوی خدا بخش صاحب        بہار
            (13) مولانا رکن الدین صاحب دانا بہار
            (14)مولوی پیر تراب علی صاحب  سندھ
            (15)مولوی عبد اللہ صاحب          سندھ
            (16)مولوی محمد صادق صاحب       سندھ
            (17)مولوی سید داؤد صاحب         پنجاب
            (18)مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی         پنجاب
            (19) مولانا ثناء اللہ صاحب           پنجاب
            (20)مولوی عبد اللہ صاحب          بمبئی
            (21)مولوی عبد المنعم صاحب        بمبئی
            (22)مولوی سیف الدین صاحب    بمبئی
            (23)حکیم ابو یوسف صاحب اصفہانی            بمبئی
اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔
            محمد کفایت اللہ غفرلہ، بقلم خود
            یکم جنوری 1920ء
اغراض و مقاصد
اجلاس مذکور میں اصول اساسی کا ایک مسودہ مرتب کیا گیا۔ مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد تجویز ہوئے۔
نام:
دفعہ1- اس انجمن کا نام جمعیت علمائے ہند ہوگا۔
اغراض و مقاصد:
دفعہ2- اِس جمعیت کے اغراض و مقاصد حسب ذیل ہوں گے:
(الف) ہر قسم کے خارجی اثرات کی (جن سے مذہب اسلام یا مشترکہ اسلامی قومیت کی تضعیف یا توہین ہوتی ہو) آئینی حدود کے اندر رہ کر مدافعت کرنا۔
(ب) مشترکہ مذہبی حقوق کی نگہ داشت اور مشترکہ مذہبی و ملکی ضروریات کی تحصیل میں کوشش کرنا۔
(ج) عامہ اہل اسلام کی مذہبی نقطہئ نظر سے آئینی طریق پر سیاسی رہنمائی کرنا۔
(د) مشترکہ مذہبی و قومی اغراض میں مسلمانوں کے متفق رہنے کی کوشش کرنا۔
(ھ) دیگر غیر مسلم برادران وطن کے ساتھ بمقتضائے فطرت و اتباع احکامِ شریعت ہمدردی و اتفاق کو ترقی دینا۔(مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، ص/14، تا 16)
تجاویز پر ایک نظر
حضرت شیخ الہندؒ کی رہائی اور استقبال
اس اجلاس کی تجویز نمبر ایک میں دستور کے مسودہ کی چھپائی کی تجویز منظور کی گئی تھی، چنانچہ ’مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند‘کے آخر میں یہ مسودہ شامل ہے۔
 تجویز نمبر دو کے تحت کی جانے والی کوششوں سے 12/ مارچ1920ء کو مالٹا جیل سے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ  کورہا کردیا گیا۔ آپ 8/ جون 1920ء کو بمبئی کے ساحل پر پہنچے، جہاں بھارت کے بڑے لیڈروں کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کے رکن مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒ نے پرزور استقبال کیا۔ اور سیاست حاضرہ پر تنہائی میں بات چیت کی۔ (تذکرہ شیخ الہند، ص/312، و313)
اور مولانا ابو الکلام آزادکو اس سے قبل27/ دسمبر1919ء کو رانچی جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔ پہلے اجلاس عام کے تقریبا دس ماہ بعد جمعیت علمائے ہندنے کلکتہ میں ایک خاص اجلاس منعقد کیا۔
جمعیت کا اگلا سفر
 مولانا عبدالحلیم صدیقی قائم مقام ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند لکھتے ہیں کہ
”بہرحال جمعیت کی دو سالہ زندگی کا اجمالی نقشہ یہ ہے: وسط نومبر(23)1919ء بمقام دہلی جمعیت علمائے ہند کا وجود خارج میں آیا۔ تقریبا چند ہفتے کے بعد آخر (28)دسمبر(19)19ء، بہ مقام امرتسر جمعیت نے اپنے وجود کا اعلان کیا اور جیسا کہ اوپر گزرا، چند تجاویز ابتدائی منظور کرکے آغاز عمل کو غیر موقت زمانہ کے لیے کسی عام جلسہ پر اٹھا رکھا اور جمعیت بالکل ابتدائی اور کٹھن منزل کو طے کرنے میں مشغول ہوئی۔ کامل دس ماہ کی طویل خموشی کے بعد اس دشوار گزار گھاٹی سے نکل کر جس میں قدم قدم پر اس کا وجود معرض خطر میں تھا، 6/ ستمبر1920ء کو کلکتہ میں ایک خاص اجلاس منعقد کیا اور اس میں نہایت اہم تجاویز پاس کیں۔ (جمعیت علمائے ہند کی دو سالہ روداد، بابت38،1339ء (مطابق 20،1921ء)، ص/9،10) 
کلکتہ میں خصوصی اجلاس اور ترک موالات کا فتویٰ
”6/ستمبر(1920ء) کو جمعیت علما کا ایک اجلاس کلکتہ میں زیر صدارت مولانا تاج محمود صاحب سندھی (امروٹی) منعقد ہوا، اور8/ ستمبر1920ء کو پانچ سو علما کے دستخط سے ترک موالات کا فتویٰ شائع ہوا۔ یہ فتویٰ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب نائب امیر شریعت بہار نے تحریر فرمایا تھا۔“ (سیاسی ڈائری، ج/ دوم، ص/152۔ تحریک خلافت، ص/161)
اس اجلاس میں ترک موالات کے حوالے سے درج ذیل تجویز پاس کی گئی:
”جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ چوں کہ ٹرکی کے ساتھ صلح کرنے میں دول یورپ نے صریح طور پر نا انصافی کی اور اسلامی جذبات کو پامال کیا ہے، اور وزرائے برطانیہ نے اپنے صاف و صریح وعدوں کی علانیہ خلاف ورزی کی ہے اور خلافت کے اقتدار کو زائل کرنے اور خلیفۃ المسلمین کی مذہبی طاقت کی بیخ کنی کرنے میں اسلام کے ساتھ صریح طور پر مذہبی تعصب کا ثبوت دیا ہے، اس لیے مسلمانوں پر بحیثیت متبع اسلام ہونے کے لازم ہوگیا ہے کہ وہ ان اعدائے اسلام سے ترک موالات کریں۔
محرک: مولانا ابوالکلام آزاد۔مؤید: مولانا عبد الصمد صاحب مقتدری بدایونی۔ مولانا مظہر الدین صاحب۔ مولانا عبد القیوم، عرف نور احمد صاحب۔“ (متفقہ فتویٰ علمائے ہند، ص/14)
ٹرکی کے ساتھ صلح کو معاہدہ سیورے کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ 12/ شرائط پر مشتمل تھا۔12/ شرائط پر مشتمل معاہدہ کی عبارت نقل کرنے کے بعد قاضی محمد عدیل عباسی صاحب لکھتے ہیں کہ
”اس اعلان صلح نے دنیائے اسلام میں ہلچل مچا دی، حتیٰ کہ یورپین مورخ ہیمس پرواہم جن اپنی کتاب”اتاترک“ میں لکھتا ہے کہ اس کو دیکھ کر سلطان وحید الدین خاں کے چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا۔“ (تحریک خلافت، ص152۔ سیاسی ڈائری ج/2، ص136)
فتویٰ ترک موالات
ترک موالات کا پہلا فتویٰ ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد ؒ نے دیا تھا، جو ”متفقہ فتویٰ علمائے ہند“ کے نام سے شائع کیا گیا۔  بعد ازاں طلبہ علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی کے استفسار پر شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحبان نے بھی الگ الگ استفسارات کے جوابات تحریر فرمائے تھے۔
حضرت شیخ الہندؒ کی صدارت
دہلی میں منعقد جمعیت کے تاسیسی اجلاس میں مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کو عارضی صدر بنایا گیا تھا اور مستقل صدر کے لیے ابھی تک کسی نام کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس کے لیے کسی ایسی شخصیت کی تلاش تھی، جو تمام مسالک کے نزدیک معتبر اور قابل تسلیم رہنما ہو۔ چنانچہ حضرت شیخ الہند ؒ کی مالٹا جیل سے رہا ہوکر آنے کے بعد یہ تلاش مکمل ہوگئی۔
”اس لیے اہل الرئے حضرات نے ضروری سمجھا کہ اب اس کا دوسرا اجلاس دہلی میں بڑے پیمانے پر حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں منعقد کیا جائے، تاکہ احوال حاضرہ میں علمائے اسلام کا زیادہ سے زیادہ اتفاق ہوسکے؛ کیوں کہ حضرت کو عام مقبولیت حاصل ہے۔ مسلمان سب سے زیادہ آپ کے گرویدہ اور آپ کے ساتھ حسن اعتقاد رکھتے ہیں اور آپ پر پورا اعتماد کرتے ہیں۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے استدعا کی گئی، تو آپ نے قبول فرمایااور7،8،9/ ربیع الاول1339ھ(مطابق 19،20،21/ نومبر1920ء) اجلاس کی تاریخ مقرر کی گئی۔“ (سیاسی ڈائری، ج/ دوم، ص/177، 178)
مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رقم طراز ہیں کہ
”حضرت شیخ قدس اللہ سرہ العزیز اگرچہ حیات مقدسہ کے بالکل آخری دور میں تھے، مگر علمائے امت کی آرزو یہی تھی کہ جمعیت علما حضرت شیخ الہند کی صدارت کا تاریخی امتیاز حاصل کرے اور آپ کے فیوض سے وطنی اور ملی سیاست کے ایسے بنیادی اصول معلوم کرلے، جس پر کاربند ہوکر اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرتی رہے۔“ (علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، ص/215۔ سیاسی ڈائری، ص/178)
دوسرا اجلاس عام اور تجاویز
19، 20، و21/ نومبر1920ء بمقام دہلی، جمعیت علمائے ہند کا دوسرا اجلاس عام ہوا۔
”اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے جس شان و شوکت اور امن و اطمینان سے ہوا، وہ دیکھنے والوں کے دل خوب جانتے ہوں گے۔ ہندستان، بنگال، صوبہ سرحدی؛ غرض کہ ہر گوشہ ملک کے نمائندے علمائے کرام موجود تھے۔ پانچ سو سے زیادہ صرف علما حضرات شریک جلسہ ہوئے۔“  (جمعیۃ العلماء کیا ہے، ج/ دوم، ص/ 36)
 اس میں درج ذیل تجاویز پاس کی گئیں:
(1)جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ احکامِ شرعیہ کا پورا احترام اور عمل کرنے کی دل سے سعی کیا کریں۔ وضع، لباس، اخلاق، برتاؤ بالخصوص فرائض میں اس کا التزام نہایت ضروری سمجھیں۔
(2) جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس کامل غور کے بعد مذہبی احکام کے مطابق اعلان کرتا ہے کہ موجودہ حالت میں گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ موالات اور نصرت کے تمام تعلقات اور معاملات رکھنے حرام ہیں، جس کے ماتحت حسبِ ذیل امور بھی واجب العمل ہیں۔
(1)      خطابات اور اعزازی عہدے چھوڑ دینا۔
(2)      کونسلوں کی ممبری سے علاحدگی اور امیدواروں کے لیے رائے نہ دینا۔
(3)      دشمنانِ دین کو تجارتی نفع نہ پہنچانا۔
(4)      کالجوں، اسکولوں میں سرکاری اِمداد قبول نہ کرنا اور سرکاری یونیورسٹیوں سے تعلق قائم نہ رکھنا۔
(5)      دشمنانِ دین کی فوج میں ملازمت نہ کرنا اور کسی قسم کی فوجی امداد نہ پہنچانا۔
(6)      عدالتوں میں مقدمات نہ لے جانا اور وکیلوں کے لیے ان مقدمات کی پیروی نہ کرنا۔
(3) جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ ترک موالات کے سلسلہ میں طلبہ کے ان اسکولوں اور کالجوں کے چھوڑنے کو جو گورنمنٹ سے امداد حاصل کرتے اور سرکاری یونیورسٹی سے الحاق رکھتے ہیں۔ شرعی حیثیت سے ضروری سمجھتا ہے اور جن طلبا نے ایسے کالجوں اور اسکولوں کو چھوڑ دیا ہے ان کے اس فعل کو اسلامی احکام کی تعمیل سمجھتا ہے۔
(4)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اپنے ملکی بھائیوں کی خلافت کے مسئلہ میں شرکت عمل کو بنظر امتنان دیکھتا ہے اور مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے ہم وطن بھائیوں سے حدودِ شرعیہ کے اندر رہ کر اور زیادہ خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
(5)جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ تجویز کرتا ہے کہ خلافتِ اسلامیہ کی حمایت اور دوسری قومی وملی ضروریات کی کثرت کا لحاظ کرتے ہوئے ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کا ایک قومی بیت المال قائم کیا جائے اور سردست اس کا نظام مرتب کرنے کے لیے ایک خصوصی جماعت معین کردی جائے۔ جو اپنی رپورٹ تین ماہ کے اندر جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں ارسال کردے۔
خصوصی جماعت کے ارکان یہ ہوں گے: مولانا عبدالباری صاحب، مولانا آزاد سبحانی صاحب، مولانا محمد عبدالماجد صاحب، مولوی مرتضیٰ حسن صاحب، حکیم حافظ محمد اجمل خاں صاحب۔
(6)جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ تجویز کرتا ہے کہ ترکِ موالات کے سلسلہ میں تبلیغ کا شعبہ خاص اہتمام سے جاری کیا جائے اور تمام اطراف میں وفود بھیجے جائیں اور مجلسِ منتظمہ مبلغین و دعاۃ کا جلد انتخاب عمل میں لائے۔
(7)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس علی گڑھ کالج کی ذمہ دار جماعت کے اس فعل کو کہ مسجد میں قومی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا نماز پڑھنے سے تعرض کرتے ہیں، اسلامی احکام کی صریح خلاف ورزی اور مسجد کی حرمت کو زائل کرنے والا سمجھتا ہے۔
(8)جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ حکام کی اس جابرانہ کارروائی پر جو اس نے علمائے کرام اور خدامِ خلافت کے ساتھ روا رکھی ہے حقارت و نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ نیز جو تکلیفیں کہ ان بے گناہوں کو جیل خانہ میں دی جاتی ہیں ان کو انسانی اور اخلاقی شرافت کے خلاف سمجھتا ہے اور ان مظلوموں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اِن مصائب کا پورے استقلال اور استقامت سے مقابلہ کریں گے۔
(9)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس نہایت افسوس اور درد کے ساتھ بعض علمائے زمانہ کے اس طرزِ عمل سے مخالفت اور بریت کا اظہار کرتا ہے، جنھوں نے ترکِ موالات جیسے صریح و واضح حکم شرعی کے وجوب اور نفاذ سے انکار کیا ہے، یا اس بارے میں شکوک و شبہات عارض کیے ہیں۔ نیز اعلان کرتا ہے کہ علمائئ ہند اِن کے اس فعل کے ذمہ دار نہیں ہیں اور عام مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ اِن افراد کے قول و فعل کو عام علما کا حکم تصور نہ کریں۔
(10)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس اِن تمام قومی درس گاہوں کے منتظمین اور ارکان کی نسبت جنھوں نے سرکاری اعانت اور سرکاری یونیورسٹیوں کے ساتھ الحاق کے ترک کرنے اور اس بارے میں احکام شرعیہ کی سماعت و اطاعت سے انکار کردیا ہے، یہ اعلان کرتا ہے کہ انھوں نے اہلِ اسلام کو چھوڑ کر اعدائے اسلام کا ساتھ دیا ہے۔ پس جب تک وہ اپنے اس فعل سے رجوع نہ کریں، تمام مسلمانوں کو ان کی اعانت و امداد سے دست بردار ہونا چاہیے، نیز طلبا اور ان کے سرپرست اور اساتذہ کو ان کالجوں، اسکولوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھنا چاہیے۔
(11)جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس ارکانِ ندوۃ العلماء کے اس کمال جذبہئ حق و صداقت کو جس کی وجہ سے سرکاری امدار لینے سے انھوں نے انکار کردیا ہے، نہایت استحسان کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے قومی و ملّی ایثار کا شکریہ ادا کرتا ہے۔
یہ تمام تجاویز علما کے اجلاس میں باتفاق رائے منظور کی گئیں۔
(جمعیۃ العلماء کیا ہے، ج/ دوم، ص/37، تا/39)
مستقل صدر کا انتخاب
”(جمعیت کے اساسی اصول اور قواعد و ضوابط کے مسودہ کی) اجلاس دہلی کی منظوری کے بعد جمعیت کے مستقل عہدے دار مندرجہ ذیل حضرات قرار پائے تھے:
(1) حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی          صدر
(2) مولانا مفتی محمد کفایت اللہ شاہ جہان پوری ثم دہلوی          نائب صدر
(3) مولانا حافظ احمد سعید دہلوی      ناظم
(4) ہر صوبے کی جمعیت کے صدر،اعزازی نائب صدر
(5) مولانا عمر دراز بیگ مرادآبادی، و مولانا عقیل الرحمان ندوی سہارنپوری،معین ناظم
(6) شیخ فضل الرحمان سودا گر دہلی امین (خزانچی)“۔
(جمعیت علمائے ہند کے اساسی اصول و آئین و ضوابط، بحوالہ سیاسی ڈائری، ج/دوم، ص/ 197)
حضرت شیخ الہندؒ جمعیت علمائے ہند کے پہلے مستقل صدر بنائے گئے؛ لیکن اس کے دس دن بعد یعنی 30/ نومبر1920ء کو حضرت کا انتقال ہوگیا۔ اور اس طرح جمعیت علمائے ہند، محض دس دن کے بعد ہی ان کی صدارت و سرپرستی سے محروم ہوگئی۔
خدمات و تجاویز پر ایک نظر
تجویز نمبر3۔
”تحریک خلافت کا زور تھا۔ انگریزوں کی غداری سے لوگوں میں سخت برہمی تھی۔ ترک موالات کا جوش تھا۔ اس لیے چاہتے تھے کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی برطانیہ سے ترک تعلق کرلے؛ مگر پرانے سرکار پرست ٹرسٹیان یونی ور سیٹی کب اس کو گوارا کرسکتے تھے۔ انھوں نے سخت مخالفت کی، جس کے نتیجے میں مولانا علی احمد مرحوم اور ان کے ہم خیال لوگوں کے ساتھ طلبائے یونی ورسیٹی کی ایک بڑی معتدد بہ جماعت یونی ور سیٹی سے جدا ہوگئی اور آزاد درس گاہ قائم کرنے کے لیے، جس میں کوئی مداخلت حکومت برطانیہ کی نہ ہو تیاری کرنے لگی۔“ (سیاسی ڈائری، ج/2، ص/165)
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام
”تحریک خلافت کا زور تھا۔ حضرت شیخ الہندؒ سے علی گڑھ کے طلبہ نے ترک موالات پر ایک فتویٰ حاصل کیا تھاجو کہ اجلاس عام میں پڑھ کر بھی سنایا گیا تھا۔ …… آپ یہاں کے لوگوں کے اصرار پر علی گڑھ تشریف لائے اور ایک آزاد قومی یونی ور سیٹی کی بنیاد ڈالی۔“ (تذکرہ شیخ الہند، ص/316)
علی گڑھ میں ہونے والے اس اجلاس کی تاریخ16/ صفر1339ھ، مطابق 29/ اکتوبر 1920ء تھی۔ اس اعتبار سے جامعہ ملیہ کی تاریخ تاسیس بھی یہی ہے۔ اس کا پہلا پتھر حضرت شیخ الہندؒ نے رکھا۔1925ء میں جامعہ علی گڑھ سے قرول باغ دہلی منتقل کردیا گیا۔ بعد ازاں یکم مارچ 1935ء کو قرول باغ سے اوکھلا شفٹ کردیا گیا۔ انڈین پارلیمنٹری قانون 1988ء کی رو سے ابھی اسے سینٹرل یونی ور سیٹی کا درجہ حاصل ہے۔
تجویز نمبر 4۔
ترک موالات کا فتویٰ گاندھی جی کی تحریک ”عدم تعاون“ میں شرکت کا اعلان تھا۔ گاندھی جی نے پہلی مرتبہ پبلک پلیٹ فارم سے 23/ مارچ 1920ء کو میرٹھ میں ہورہی خلافت کانفرنس میں اس نظریہ کو پیش کیا۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ
”ہمیں حکومت کی تائید کرنے اور تقویت پہنچانے سے ہر طرح پرہیز کرنا چاہیے۔ یہی طریقہ حکومت کو آمادہ کرسکتا ہے کہ وہ ہم سے معاملہ کرے۔ انھوں نے تجویز کیا کہ تمام سرکاری خطابات واپس کردیے جائیں۔ عدالتوں اور درس گاہوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہندستانی سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیں اور جو نئے قانون ساز ادارے بننے والے ہیں، ان میں ہر طرح سے حصہ لینے سے انکار کریں۔“ (سیاسی ڈائری، ج/دوم، ص/ 103)
بعد میں جمعیت علمائے ہند نے کلکتہ کے اپنے خصوصی اجلاس منعقدہ 6/ستمبر1920ء میں ترک موالات کا فتویٰ دیا۔
اس نظریہ کو ہندستانی عوام نے دل و جان سے قبول کیا اور حکیم اجمل خاں رکن مجلس منتظمہ جمعیت علمائے ہندنے پہل کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو ایک خط لکھ کر تمام سرکاری اعزازات واپس کردیے۔ خط کے آخر میں انھوں نے لکھا ہے کہ
”ایسی حالت میں بحیثت ایک حقیر مسلمان کے ان عزتوں سے (سلطنت عثمانیہ کے خلاف برٹش گورنمنٹ کے طریقہ عمل کو قابل اعتراض سمجھتے ہوئے) دست کش ہوتا ہوں، جو مجھے گورنمنٹ کی طرف سے عطا کی گئی ہیں۔ میں قیصر ہند کو گولڈ مڈل اور دو انگلستان اور ہندستان کی تاج پوشی کے درباروں کے تمغوں کے ساتھ جنھیں میں آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں، آج کی تاریخ سے حاذق الملک کے خطاب سے بھی اپنے آپ کو سبکدوش سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ میرا نام درباریوں کی فہرست سے خارج کردیا جائے۔“ (مشرق، مورخہ 18/ اپریل 1920، ص/15۔ بحوالہ تحریک خلافت، ص/ 140۔ سیاسی ڈائری، ج/2، ص/117)
اسی طرح
 ”حضرت مولانا حافظ احمد صاحب صاحب زادہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مرحوم اور مہتمم دارالعلوم دیوبند کو گورنمنٹ کی طرف سے شمس العلما کا خطاب سر جیمس مسٹن گورنر یوپی نے دلوایا تھا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو واپس کروایا۔“ (سیاسی ڈائری، ج/2، ص/ 167) 
 تجویز نمبر9۔
”تحریک خلافت کے باعث مسلمانوں کے تمام مسالک اور اعتقاد کے علما حضرات میں بھی اتحاد و اتفاق کی بنیادیں پڑ چکی تھیں اور وہ فقہی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئے تھے۔…… اگر چہ کئی علما نے انفرادی طور پر مخالفت کی۔ مولانا احمد رضا خان نے بڑی سرگرمی دکھائی۔ تحریک کی مخالفت میں زبردست مہم چلائی اور ہندووں کے ساتھ مل کر استخلاص وطن کی جدوجہد میں حصہ لینا از روئے اسلام حرام قرار دیا۔ ان کے نزدیک ہندستان میں انگریزی راج کے قیام سے امن و امان کا مسئلہ حل ہوگیا تھا۔ مسلمانوں کو ارکان دین ادا کرنے کی آزادی تھی، اس بنا پر ہندستان دارالحرب نہیں رہا تھا، بلکہ دارالاسلام ہوگیا تھا، اس لیے مسلمانوں کو انگریزوں کی اطاعت و فرماں برداری کرنی چاہیے۔ ان کے خلاف جدوجہد کرنا جہاد و قتال کے ضمن میں آتا ہے اور ہندستان کے مسلمانوں پر از روئے اسلام جہاد فرض نہیں ہے۔“ (ابو الکلام آزاد اور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست، ص89، 88۔ سیاسی ڈائری، ص/129، 120)
اسی طرح4/ سے 9/ ستمبر1920ء کو کلکتہ میں کانگریس کا اسپیشل اجلاس ہوا۔ اور اسی کے ساتھ 7/ ستمبر1920ء کو مسلم لیگ اور خلافت کانفرنس منعقد ہوئی۔ ان سبھی اجلاسوں میں ترک تعاون کی تجویز کی تائید کی گئی۔
 ”البتہ کانگریس کے اجلاس میں مسٹر جناح نے تنہا اس کی مخالفت میں آواز بلند کی۔“ (سیاسی ڈائری، ج/2، ص/159۔ ابوالکلام آزاد اور قوم پرست مسلمانوں کی سیاست، ص/102)
 تجویز نمبر11۔
”نومبر 1920ء میں ندوۃ العلماء لکھنو نے پانچ سو روپیے ماہوار کی سرکاری امداد بند کردی۔ اس وقت اگرچہ سید سلیمان ندوی ندوۃ العلماء کے ناظم تھے، لیکن حبیب الرحمان خان شیروانی ندوۃ العلماء کی مجلس منتظمہ کے ایک اہم رکن تحریک ترک موالات کے سخت مخالف تھے۔ اس وقت ندوۃ العلماء کا خرچ ایک ہزار روپیہ ماہوار تھا۔ جس میں سے اب صرف 450/ روپیہ ماہوار نواب بھوپال کا رہ جاتا تھا۔ ان حالات میں بھی امداد بند کرنے کی تجویز کا پاس ہوجانا اس بات کی علامت تھی کہ جو لوگ بھی اب تحریک ترک موالات کے ہم نوا نہ تھے، وہ اپنی پوزیشن اور اپنا اثر کھوچکے تھے۔“ (سیاسی ڈائری، ج/2،/304)
خلاصہ کلام 1920
یکم جنوری 1920ء کو منعقدجمعیت علمائے ہند کے پہلے اجلاس عام کی تیسری نشست میں شیخ الہند اور امام الہند کی رہائی کی تجویز منظور کی گئی۔ اور اسی اجلاس میں پہلی مجلس منتظمہ تشکیل دی گئی، جس میں مختلف ریاستوں سے23/ اراکین منتخب کیے گئے۔اور اغراض و مقاصد و دستور اساسی کا مسودہ پیش کیا گیا۔ اس کا ایک خصوصی اجلاس 6/ ستمبر1920ء کو کلکتہ میں ہوا، جس میں ترک موالات کا سب سے پہلا فتویٰ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے دیا، جسے بطور تجویز پاس کیا گیا۔  اور 8/ ستمبر1920ء کو پانچ سو علما کے دستخط سے یہ فتویٰ شائع ہوا۔اس فتویٰ کی وجہ سے علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی کے کچھ طلبہ نے یونی ورسیٹی چھوڑ دی، جس کی تعلیم کے لیے16/ صفر1339ھ، مطابق 29/ اکتوبر1920ء کو شیخ الہندؒ کے ہاتھوں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 19،20، و21/ نومبر1920ء بمقام دہلی، جمعیت علمائے ہند کا دوسرا اجلاس عام ہوا، جس میں گیارہ اہم تجاویز پاس کی گئیں۔ اسی اجلاس میں مستقل عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا، جس کے تحت مستقل عہدے دار مندرجہ ذیل حضرات قرار پائے تھے:
(1) حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی          صدر
(2) مولانا مفتی محمد کفایت اللہ شاہ جہان پوری ثم دہلوی          نائب صدر
(3) مولانا حافظ احمد سعید دہلوی      ناظم
(4) ہر صوبے کی جمعیت کے صدر  اعزازی نائب صدر
لیکن شیخ الہندؒکا 30/ نومبر1920ء کو وفات ہوگئی، جس سے محض دس دن بعد ہی جمعیت حضرت کی صدارت سے محروم ہوگئی۔ ترک موالات کے فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے حکیم اجمل خاں صاحب، حافظ احمد صاحب اور دیگر قائدین جمعیت نے سرکاری خطابات واپس کردیے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو نے ماہانہ سرکاری امداد قبول کرنے سے انکار کردیا۔گرچہ مسٹر جناح، مولانا احمد رضا خاں اور کچھ دیگر حضرات نے ترک موالات کی مخالفت کی؛ لیکن عوام پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا، اور جمعیت علمائے ہند اپنی تحریک میں مکمل طور پر کامیاب رہی۔