ابن یتیم
پیدائش اور تاریخ پیدائش
آج ہم جسے ناچیز کہتے اور سمجھتے ہیں، کل وہی قدر و قیمت والی چیز بن جاتی ہے۔ اس نظریہ کا پہلا حصہ ہمیں بے رخی اور بے اعتنائی کا سبق دیتا ہے، لیکن دوسرا حصہ ہمیں حال کو ماضی کے نظریے سے دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ بس یہی نظریہ درج ذیل چند سطروں کا محرک ہے۔
بھارت میں انسان سرکاری کاغذوں اور تعلیم گاہوں کے سرٹیفکٹ میں اتنے ہی بار پیدا ہوتا ہے، جتنے اس کے پاس سرکاری کاغذات ہوتے ہیں۔ یہ حادثہ ناچیز کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ تعلیمی اداروں کی سند میں کچھ اور ہے، جب کہ دیگر سرکاری کاغذات میں کچھ اور؛ لیکن والد صاحب کی ڈائری میں لکھی تاریخ پیدائش ہی اصل جنم تاریخ ہے۔مقام پیدائش کا
نام جہاز قطعہ ہے جو بھارت کے مشرقی کنارے
ضلع گڈا جھارکھنڈ میں واقع ہے 8 جنوری 1984بروز اتور بوقت صبح
صادق اصلی تاریخ پیدائش ہے۔والد محترم کا نام محمد مظفر ابن نصیر الدین ابن تاج
علی ابن شیخ پھیکو ابن شیخ لوری ہے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب محفوظ نہیں ہے۔
بچپن
گھر میں پہلے ایک گائے تھی جو دودھ کے مقصد سے زیر پرورش رہتی تھی۔ بعد میں اس کی جگہ بکریوں نے لے لی۔ ناچیزنے دونوں کی نگہبانی کا فریضہ انجام دیا۔ اور اس طرح لاشعوری عمر میں ایک نبوی سنت ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ دن بھر کھیتوں میں بکریاں چراتا تھا اور رات کو دروازے پر بے نام مکتب میں تعلیم بھی حاصل کرتا تھا۔
مکتب کی تعلیم
جب سے حصول تعلیم کا سلسلہ یاد ہے، وہ یہ ہے کہ گھر کے دروازے پر بعد نماز مغرب جناب اختر صاحب بنیادی اردو، ہندی اور حساب پڑھایا کرتے تھے، جس میں محلہ کے درجنوں بچے پڑھتے تھے۔ ناچیز کی تعلیم کا پہلا مکتب یہی بے ترتیب سلسلہ ہے، جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ اس میں بنیادی حروف تہجی، اکچھر بودھ اور الفابیٹ سیکھے۔ اس تعلیم کا سلسلہ غالبا ایک ڈیڑھ سال چلا۔
ایک ڈیڑھ سال کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا ، تو محلہ کا سرکاری مدرسہ : مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ اسکول جامع مسجد میں اور کبھی مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں تعلیمی سلسلہ چلا۔ بچوں کی فطرت کے مطابق کبھی اس مدرسہ میں چلا گیا اور کبھی ادھر کا رخ کرلیا۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۳ء تک جاری رہا۔یہاں کے اساتذہ میں مولانا حضرت علی صاحب، پنڈت صاحب اور دیگر تھے، جن کے نام بالکل بھی یاد نہیں آرہے ہیں۔
تعلیمی سفر
جب والدین نے یہ محسوس کیا کہ گاوں کے مکتب و مدرسہ میں جہاں تک اور جتنی تعلیم تھی،وہ سب سمیٹ چکا ہوں، تو اس سے آگے کی تعلیم کے لیے دوسرے مدرسہ کی تلاش شروع ہوئی۔ چنانچہ گاوں کے ماحول کے مطابق ۱۹۹۴ء میں ناچیز کو بھی علاقہ کا مشہور تعلیمی ادارہ مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر بھاگلپور میں داخلہ کرادیا گیا، جہاں ناظرہ کی تکمیل کی اور ساتھ ہی فارسی کی پہلی کتاب بھی پڑھی۔
چمپانگر کی زندگی
گاوں کے نیک طینت عالم دین مولانا محمد نعمان صاحب مد ظلہ العالی،استاذ مدرسہ اصلاح المسلمین ہمارے مربی اور سرپرست تھے۔ چمپانگر کی سبھی تعلیم حضرت سے ہی وابستہ تھی ۔ اس لاشعوری دور میں شعور پیدا کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوں گے، وہ بالیقین انھوں نے ہمیں سکھائے ہوں گے، جو صغر سنی کی وجہ سے مجھے یاد نہیں ہے. البتہ یہ زمانہ بہار لوٹنے کا زمانہ ہوتا ہے، اس لیے اس میں کبھی بھی کمی آنے نہیں دی۔ یہاں کے نہر میں نہانا ہو، چمپانگر لوہے والے پل سے کودنا ہویا مدنی نگر کی درگاہ کا چکر لگانا ہو، اس کا تسلسل کبھی بھی ٹوٹنے نہیں دیا گیا۔
چمپانگر سے متصل مدنی نگر ہے۔ یہاں ایک صاحب تھے، جن کے نام سے واقف نہیں ہوں، البتہ وہ پیدل حاجی سے مشہور تھے، ان کا ایک لڑکا تھا، جن کا نام عبداللہ تھا۔ یہ صاحب ہمارے بڑے بھائی جناب فاروق اعظم صاحب کے زمانہ طالب علمی میں دوست ہوا کرتے تھے۔ بھائی کے بعد جب ناچیز یہاں آیا، تو دوستی کا یہ رشتہ ادھر منتقل ہوگیا۔ عبداللہ صاحب واقعی دلدار آدمی تھے، خود انھوں نے اور ان کے والدین نے اس غریب الدیار میں ہمیں غریبی کا احساس ہونے نہیں دیا؛ لیکن رونا اس بات کا ہے کہ یہ احساس اس وقت نہیں ہوا، آج جب کہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں، تو ان کی رواداریاں ذہن میں گردش کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے والدین کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین۔
علاقے کے والدین اس عقیدے کیپختے ہیں کہ وہی بچہ کامیاب تعلیم پاسکتا ہے، جسے باہر بھیج دیا جائے۔ چنانچہ اس عقیدے کی زد میں ناچیز بھی تھا۔ والدین باہر بھیجنے کی کوشش میں تھے ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ محلے کے جناب حافظ الیاس صاحب پوہانہ روڑکی ، ہریدوار کے ایک مدرسہ میں استاذ تھے۔ ان کے یہاں اقامت پذیر بچوں کی تلاش رہتی تھی، یہ صاحب اپنے گاوں سے بچوں کی ٹولی لے جایا کرتا تھے۔ چنانچہ جب اس ٹولی کی روانگی کا وقت آیا، تو میرے والد بزرگوار نے بھی ان سے ٹولی میں شامل کرنے کی گذارش کی؛ لیکن انھوں نے میرے متعلق انکار کرتے ہوئے کہا کہ امسال کسی کو نہیں لے جارہے ہیں۔ لیکن روانگی کے وقت دیکھا گیا کہ محلے کے تقریبا سبھی ذی حیثیت کے بچے شریک سفر تھے۔ کچھ دنوں بعد انھیں کے الفاظ میرے والد تک پہنچے کہ ’’ان کے بچے کو لے جاتے، تو پورا سال ہمیں کچھ نہیں ملتا‘‘۔ بہر کیف رضائے مولیٰ برہمہ اولیٰ کے پیش اس بات کو نظر انداز کردیا گیا۔ اور کسی دوسرے رہبر کی تلاش شروع ہوئی۔ چنانچہ جھپنیاں کے جناب جہاں گیر صاحب نے میرا انٹرویو لیا اور کہا کہ اگر اسے لے جائیں گے، تو ہمیں داخلہ کرانے میں پریشانی نہیں ہوگی۔ چنانچہ انھوں نے ہمیں اپنا شریک سفر بنایا اور ہمیں ویٹ غازی آباد میں لاکر مدرسہ اعزازالعلوم میں داخلہ کرادیا۔ اللہ تعالیٰ جناب جہاں گیر صاحب کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
ویٹ کی زندگی
۱۹۹۵ء میں یہاں درجہ فارسی میں داخلہ لیا۔ یہ زندگی کچھ شعور اور کچھ لاشعور پر مبنی تھی۔ اس زمانے کے دو یادگار واقعے تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلا واقعہ تو یہ ہے کہ جب یہاں کی پہلی آمد تھی، تو دہلی سے بس پر سوار ہوئے ۔ اس سفر میں ہمارے کچھ ساتھی ہاپوڑ بھی اترنے والے تھے۔ بس میں سبھی کا سامان ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔ رات ہوگئی تھی، جب ہاپوڑ والے ساتھی بس سے اترنے لگے تو میرا بکسہ بھی انھوں نے اتار لیا۔ جب ہم اپنی منزل پر اترنے لگے تو بکسہ ندارد تھا۔ یہ جان کر ایسا لگا کہ میرا تو سب سامان ہی چوری ہوگیا ، اب آگے کی زندگی کا نقشہ کیا ہوگا۔ بہر کیف ہمارے مشفق جناب جہاں گیر صاحب اگلی صبح ہی ہاپوڑ گئے اور میرا سامان لے آئے۔ اس طرح بے چین دل کو تسلی ملی۔ یہ تو شروع کا واقعہ تھا اور آخر سال کا واقعہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ میں ایک استاذ محترم جناب ۔۔۔ صاحب بھی تھے۔ ان سے مالابد منہ متعلق تھی۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ متن کے معانی کو زبانی سنتے تھے، جس میں کبھی کبھار سنانے سے قاصر رہتے تھے، تو سخت پٹائی کرتے تھے، حتیٰ کہ اکثر پٹائی میں ہاتھ سوجھ جاتا تھا۔ یہ سلسلہ آخری سال تک جاری رہا؛ بالآخر رجب میں ایک دن ایسا آیا کہ تاب شدت نہ لاسکا اور ناچیز ویٹ سے بھاگ گیا۔ اور اس گاوں سے پورب کچھ کلو میٹر پر واقع ایک گاوں ہے، جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ہے، وہاں کے مدرسہ میں میرے گاوں کے جناب مولانا شمیم صاحب زیر تعلیم تھے، ان کو سارا ماجرا بتایا۔ بھاگنے کا خوف اس قدر تھا کہ وہاں بھی ڈر پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا، کیوں کہ طلبہ میں یہ مشہور تھا کہ جو لوگ بھاگ جاتے ہیں اور پھر پکڑے جاتے ہیں، تو انھیں سخت اذیت ناک سزا دی جاتی ہے۔ چنانچہ اس نظریے نے خوف ستایا اور تقریبا تین ہفتے نظربند جیسی زندگی گذاری۔ پھر جب چھٹی ہوگئی، تو گاوں کے ہی ویٹ کے مدرسہ میں زیر تعلیم جناب مولانا اساعد الاسلام قاسمی صاحب کے توسط سے اپنا سامان اسٹیشن منگوایا اور وہاں سے وطن مالوف کے لیے روانہ ہوا۔ہمارے فارسی کے اساتذہ میں سے مولانا مرغوب الرحمان صاحب، مولانا اعزاز صاحب، مولانا کلیم صاحب اور دیگر حضرات کرام تھے۔
مدرسہ مظہر العلوم کانپور میں
چوں کہ ویٹ سے بھاگ کر نکلے تھے اور بھاگنے والوں کے لیے عبرت ناک سزا سے بھی واقف تھے، اس لیے وہاں لوٹنے کا کوئی مطلب نہیں تھا، اس لیے امی کی ننہالی رشتے سے ماموں مولانا مجیب الحق صاحب موکل چک کی سرپرستی میں مدرسہ مظہر العلوم دادا میاں چوراہا بیگم گنج کانپور پہنچا اور عربی اول میں داخلہ لیا۔ یہ ۱۹۹۶ء کا سن تھا۔ عربی اول کے اساتذہ میں سے مولانا شفیع الدین صاحب، مولانا ابوبکر صاحب، مولانا قمر الحسن صاحب، مفتی اقبال صاحب اور دیگر حضرات تھے۔
دادامیاں چوراہا سے کچھ فاصلہ پر جاجمو واقع ہے۔ یہاں ہمارے درج بالا رشتے سے ماموں مولانا ریاض الحسن قاسمی و ندوی صاحب مدرسہ دارالتعلیم والصنعۃ جاجمو میں استاذ تھے۔ لاشعوری دور تھا ، اس لیے ایسی کچھ حرکتیں سرزد ہونا ضروری تھا، چنانچہ ناچیز ہر جمعہ کی چھٹی میں دو روپیے گھنٹے کے کرایہ پر سائکل لیتا تھا اور ماموں کے پاس ملنے جاتا تھا۔ یہاں ممانی بھی رہتی تھیں۔ جب وہاں پہنچتاتو ممانی کھلانے پلانے کا کافی اہتمام کیا کرتیں۔ پہلی مرتبہ کا واقعہ ہے کہ سائکل لے کر گیا اور کھانے پینے کی مصروفیت کی وجہ سے بہت دیر ہوگئی اور سائکل والے کا بل بہت زیادہ ہوگیا۔ بہرکیف اس وقت جو ہمارے پاس تھا، وہ اور ساتھ میں عذر پیش کیا، تو بچہ اور طالب علم سمجھ کر اور سمجھا کر معاف کردیا۔ اس واقعہ کے عملی تجربے کے باوجود سائکل سے ہی ممانی کے پاس جاتا تھا ؛ لیکن اس کے بعد جاتے ہی ممانی پوچھتیں کہ سائکل لے کر آئے ہو، اگر ہاں میں جواب آتا، تو فورا ماحضر کھلاکر واپس بھیج دیتیں اور کہتیں کہ سائکل لے کر مت آیا کرو؛ لیکن لاشعوری شوق کی تکمیل کا جذبہ بھی کسی نصیحت سے باز رکھ سکتا ہے! جو کبھی نہیں ہوا اور جب بھی جاتا سائکل سے ہی جاتا۔ حالاں کہ اس سے عام سواری سے کرایا بھی زیادہ ہوجاتا تھا اور محنت الگ سے ۔ المختصر تعلیم اور لاشعوری حرکتوں سے لبریز یہ پورا سال گذر گیا اور پھر چھٹی کے بعد مادر وطن لوٹ آیا۔
روڑکی
محلے کے کچھ لڑکے روڑکی میں زیر تعلیم تھے۔ چنانچہ ان لوگوں کے ہمراہ ناچیز بھی روڑکی آیا اور مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ روڑکی میں داخل ہوا۔ داخلہ امتحان میں کامیابی کے بعد عربی دوم میں داخلہ ہوا۔ یہ سن ۱۹۹۷ء کا واقعہ ہے۔ یہاں ناچیز نے جن اساتذہ کے سامنے زانو تلمذ طے کیا، ان میں مولانا اظہر الحق جہازی صاحب، مولانا محمد ارشد صاحب، مولانا محبوب الحق صاحب، مولانا اسحق صاحب، مفتی سلیم الدین صاحب اور دیگر حضرات تھے۔ الحمد اللہ سبھی اساتذہ بہت محنتی تھے اور انتہائی شفقت و محبت سے تعلیم دیتے تھے۔
اس شہر کے بیچوں بیچ ایک صاف شفاف نہر بہتی ہے ، طالب علمانہ ترنگ کا یہ جلوہ ہمیشہ دکھاتا رہا کہ نہر میں خوب نہاتاتھا۔ حتیٰ کہ گرمیوں میں رات کو بھی نہانے جاتا تھا۔ نہر کی پٹی پر ایک سڑک گذرتی ہے، جو کلیر جاتی ہے۔ چنانچہ کلیر کی گلیوں کا سیر بھی طالب علمانہ شوق کی تکمیل میں شامل رہا۔ اور برابر وہاں جانا ہوتا رہا۔
۱۹۹۸ء میں آگرہ میں
ناچیز کی طالب علمانہ زندگی کا ایک اتفاق یہ رہا کہ جس مدرسہ میں بھی رہا، ایک سال سے زائد نہیں رہا، اس کی کئی وجوہات تھیں اور سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ صغر سنی کی وجہ سے تنہا آمدو رفت دشوار تھی، اس لیے عید کے بعد جو بھی رہبر ملتا، اس کے ہمراہ طلب علم کے سفر پر نکل پڑتا۔ چنانچہ اس سے اگلے سال ۱۹۹۸ء میں دیوبند آیا۔ چوں کہ فارم بھرنے کا وقت نکل چکا تھا، اس لیے جناب کاتب مظفر صاحب کی رہبری میں دیوبند سے دارالعلوم آگرہ پیر جیلانی آگرہ آگیا۔ اور داخلہ امتحان دیا۔ داخلہ امتحان میں پاس نہ ہوسکنے کی وجہ سے سوم کے بجائے دوبارہ عربی دوم ہی میں داخلہ منظور کیا گیا۔ چنانچہ بوجہ مجبوری مجھے بھی منظور کرنا پڑا اور درجہ دوم کو دوبارہ پڑھا۔ یہاں کے اساتذہ میں مفتی عبدالقدوس صاحب، مولانا صلاح الدین صاحب، مفتی عبدالمجید صاحب، مولانا علی صاحب، مولانا کاتب مظفر حسین صاحب، مولانا بسم اللہ صاحب و دیگر صاحبان تھے۔
دارالعلوم دیوبند میں
علوم نبویہ کے طالب علموں کی سب سے بڑی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اس کی آخری تعلیمی منزل دارالعلوم دیوبند ہو۔ یہی تمنا مجھے بھی دارالعلوم دیوبند لے آئی اور داخلہ امتحان دیا۔الحمد للہ اس میں کامیابی ملی اور ۱۹۹۹ء میں درجہ عربی سوم میں داخلہ ہوگیا۔اس درجے کی درسیات میں،شرح شذور الذہب اور شرح تہذیب مولانا مزمل صاحب مظفر نگری، ترجمہ قرآن کریم اورنفحۃ الادب مولانا مصلح الدین صاحب سدھارتھ نگری، القراۃ الواضحہ مولانا سعد حصیری اور دیگر کتابیں دیگر موقر اساتذہ کرام سے متعلق تھیں۔ درجہ چہارم میں شرح وقایہ مولانا بلال اصغر صاحب، قطبی مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب، دوروس البلاغۃ مولانا خضر کشمیری صاحب، ترجمہ قرآن مولانا مزمل صاحب مظفر نگری اور اصول الشاشی مولانا جمال صاحب سے پڑھی۔ پنجم میں نور الانوار امام المنطق والفلسفہ مولانا عبدالرحیم صاحب، سلم العلوم مولانا عثمان صاحب، مختصر المعانی مولانا خضر کشمیری صاحب، مقامات مولانا محمد جمال صاحب، ہدایہ مولانا نسیم صاحب بارہ بنکوی پڑھاتے تھے۔ عربی ششم میں جلالین مولانا شوکت صاحب بستوی، دیوان متنبی مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سے وابستہ تھی۔ ہفتم میں ہدایہ مولانا محمد احمد صاحب و مولانا مجیب الحق گوونڈی صاحب، مشکوۃ مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری سے پڑھی۔ دورہ حدیث میں بخاری اول مولانا نصیر احمد خاں صاحبؒ ، بخاری ثانی مولانا عبدالحق صاحبؒ ، مسلم مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی (جلد اول) و مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری (جلد ثانی) ،طحاوی و ترمذی مولانا سعید صاحب پالنپوری (جلد اول) و مولانا سید ارشد مدنی صاحب (جلد ثانی)، سنن ابی داود مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی و مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی،سنن ابن ماجہ مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوریؒ ،موطا امام مالک مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری،موطا امام محمد مفتی محمد امین صاحب پالن پوری، شمائل ترمذی مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی ، سنن نسائی مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری سے پڑھی۔
فراغت و تدریس
۲۰۰۵ء میں دورہ حدیث شریف سے فراغت ہوئی اور۲۰۰۶ء میں تکمیل ادب عربی میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں ۲۰۰۷ء میں تکمیل علوم کیا۔ اور پھر دیوبند کو الوداع کہتے ہوئے اسی سال اور ۲۰۰۸ء کے آواخر تک مکمل دو سال جامعہ عربیہ بیت العلوم جعفرآباد دہلی میں تدریسی خدمات سے وابستہ رہا۔
ملی خدمات سے وابستگی
اسی دوران ملی خدمات کا شوق پیدا ہوا، جس کے لیے مولانا عبدالحمیدنعمانی صاحب مد ظلہ سے رابطہ کیا، انھوں نے تحریری ذوق کی بنیاد پر جمعیۃ علماء ہند سے وابستگی کی پیش کش کی، جسے ناچیز نے مولانا کے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ جمعیۃ سے ناچیز کی وابستگی حضرت کی مرہون منت ہے اور اس کے لیے ہمیشہ مشکور و ممنون رہے گا۔ ۲۰۰۹ء سے تادم تحریر جمعیۃ علماء ہند کے مختلف شعبوں کے توسط سے ملی خدمات انجام دے رہا ہے۔ ابتدائی دور میں شعبہ میڈیا میں مولانا نعمانی صاحب کا معاون کار رہا۔ بعد ازاں مباحثہ فقہیہ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ دم تحریر مرکز دعوت اسلام کا انچارج ہے۔ اور اس کا تسلسل باقی ہے۔
فاصلاتی تعلیمات
بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے وسطانیہ، فوقانیہ، مولوی، عالم اور فاضل کی سند حاصل کی۔ اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے بی اے اور ایم اے اردوکی ڈگری لی۔ اسی دوران قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے ڈی ٹی پی اور ڈپلوما ان عربک کی سرٹفیکٹ حاصل کی۔بعد ازاں دہلی یونی ورسیٹی سے ٹرانسلیشن اور ماس میڈیا کا کورس مکمل کیا۔ تعلیم کا یہ سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے دعا فرمائیں طلب علم کا یہ سفر جاری و ساری رہے۔
تالیفات
دارالعلوم دیوبند کی زندگی میں قلم پکڑنے کی کوشش کی۔ طلبہ ضلع گڈا کی انجمن آئینہ اسلاف کا ماہانہ پرچہ ’’پرواز‘‘ سے اس سفر کی شروعات کی۔ بعد ازاں بزم سجاد کے ہفت روزہ’’ آئینہ ایام‘‘ کی ادارت سنبھالی۔تحریری سفر کا سلسلہ جاری ہے، جس میں کچھ کاوشیں اشاعت پذیر ہوچکی ہیں، جب کہ کچھ ابھی زیر اشاعت اور زیر تکمیل ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تذکرہ پیش ہے:
(۱) رہ نمائے اردو ادب: اس میں اردو ادب کی مختلف اصناف کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور تحریر کے مختلف اسلوب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں مشہور اسلامی اہل قلم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کے تاثرات بھی شامل ہیں۔
(۲) رہ نمائے خطابت: یہ کتاب تقریر کے اسرار و رموز اور فن خطابت کے مضامین پر مشتمل ہے اور شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔
(۳) نظامت ، خطابت اور مکالمہ نگاری: اس کتاب میں ان تینوں موضوعات پر معلومات پیش کی گئی ہیں۔ سردست یہ کتاب اشاعت کے مراحل میں ہے۔
(۴) آسان عربی قواعد: یہ کتاب تدریسی تجربات کا ماحصل ہے، جس میں مبتدی طلبہ کو ان کے نفسیات کے مطابق انتہائی آسان انداز میں عربی زبان سکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
(۵)آسان انگریزی قواعد: اردو اور عربک بیک گراونڈ والے طلبہ کے لیے اردو قواعد کے طرز پر آسان انداز میں انگریزی گرامر کو پیش کیا گیا ہے۔ الحمد للہ یہ کتاب شائع ہوتے ہی مقبول ہوگئی اور کچھ ہی مہینے میں پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا۔ اب اضافہ کے ساتھ دوسرا ایڈیشن شائع ہوا چاہتا ہے۔ مختلف مکاتب و مدارس اور تعلیم گاہوں میں یہ کتاب داخل درس ہے۔
(۶) حق اطلاعات: آر ٹی آئی کے متن کا ترجمہ اور اس ایکٹ سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ سپریم کورٹ کے چار وکیلوں سے نظر ثانی کرائی گئی ہے، جن کے اصلاحات کے ساتھ یہ کتاب اشاعت پذیر ہونے والی ہے۔
(۷) فلسفہ اسلام: مسائل و احکام کے اسرار و رموز پر یہ کتاب مشتمل ہے، جو ابھی زیر ترتیب ہے۔
(۸) مقالات جہازی جلد اول: ناچیز کے مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ سب وہ مضامین ہیں، جو کسی ضرورت، یا کسی کی طلب پر لکھے گئے ہیں اور بیشتر مضامین روزنامہ، سہ روزہ، ہفت روزہ ،ماہانہ جرائد و رسائل اور ویب پر شائع ہوچکے ہیں۔ دوسری جلد کا سفر جاری ہے۔
تعلیقات و تصحیحات
جمعیۃ علماء ہند کے شعبہ مرکز دعوت اسلام سے وابستگی کے بعد ، مختلف کتابوں پر تعلیقات و تصحیحات کا کام کرنے کا موقع ملا جس کی فہرست پیش ہے:
(۱) مرکزی دینی تعلیمی بورڈ: اس کتاب میں سید الملت حضرت مولانا محمد میاں صاحب کی تین نایاب کتابوں: مسئلہ تعلیم اور طریقہ تعلیم، دینی تعلیمی تحریک اور دستور العمل، طریقہ تقریر جلد اول کو ایک ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
(۲) شریعت الٰہیہ اور انسانی قوانین۔ (۳) اسلام اور دعوت عمل۔ (۴) ہماری دعا کیسے قبول ہو۔ (۵) انجام گداگری۔ (۶) اخلاق نبوی۔ (۷) اسلام کا تصور امانت پر تعلیقات و اصلاحات کے کام کیے گئے ہیں اور اشاعت پذیر ہوچکی ہیں۔
(۸) تاریخ جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ: سنتھال پرگنہ کی کمشنری میں واقع: دیوگھر، دمکا، گڈا، صاحب گنج، پاکوڑ اور جامتاڑا کی ضلعی جمعیۃ کی تاریخ پیش کی گئی ہے۔ اس میں ناچیز نے مختلف دستیاب دستاویزات کو مرتب کرنے کا کام کیا ہے۔
(۹) رہ نمائے مسلم: پیدائش سے موت تک کے ضروری مسائل پر مشتمل حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی یہ نایاب تصنیف تھی، جس پر نظر ثانی کا کام کیا گیا ہے اور شائع ہوچکی ہے۔ اسی طرح مولانا مرحوم کی دو دیگر تصنیفات: (۱۰) مسائل حج۔ اور (۱۱) مسائل نماز پر تحقیق و تخریج کا کام جاری ہے۔
ابن یتیم
اب تک آپ نے ’’ابن یتیم‘‘ کے بارے میں یہ سب معلومات حاصل کیں، لیکن ایک سوال آپ کے ذہن میں ضرور گردش کر رہا ہوگا کہ یہ ابن یتیم ہے کون ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یتیم کا نام جناب محمد مظفر صاحب ہیں۔ ان کے والد محترم جناب نصیر الدین صاحب کا سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے اسی وقت انتقال ہوگیا تھا، جب یہ چودہ سال کے تھے۔ اور مدرسہ کاشف العلوم چھٹمل پور میں زیر تعلیم تھے۔ والد کا انتقال صاعقہ الٰہی سے کم نہیں ہوتا۔ اس احساس کا صحیح ادراک وہی کرسکتا ہے، جو بنفس نفیس اس حادثہ سے گذرا ہو۔چنانچہ اس حادثہ فاجعہ نے جناب محمد مظفر صاحب کو ہلاکر رکھ دیا۔ خبر وفات سن کر گھر کا رخ کیا۔ گھر پہنچے تو گھریلو حالات کی وجہ سے پھر دوبارہ تعلیم کی طرف رخ نہ کرسکے، کیوں کہ والد محترم کی وراثت میں ایک چار سال کی معصوم بہن، کچھ مہینے کا ایک بھائی اور گاوں کے مکھیا کے دجل و فریب کی وجہ سے والد صاحب کے نام پر بینک کا بھاری لون کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ علاوہ ازیں بینک لون کی وجہ سے گھر کی قرقی و ضبطی نے بقیہ سرمایہ حیات بھی چھین لیا۔پھر گھر کی وہ حالت ہوگئی کہ صبح کو یہ معلوم نہیں رہتا تھا کہ شام کو بھی کچھ پک سکے گا بھی یا نہیں۔ گویا ان کی زندگی شکیل بدایونی کے الفاظ میں
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
ناچیز کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ گاوں میں ایک صاحب چاول فروشی کا کام کرتے تھے، انھیں کے یہاں سے ماہانہ چاول آیا کرتا تھا۔ دادی صاحبہ مرحومہ ان کے یہاں جب چاول لانے جاتیں، تو پہلے دینے سے انکار کرتے اور یہ کہتے کہ سابقہ بقیہ جمع کرو، تب دیں گے۔ دادی مرحومہ کہتیں کہ بیٹا ابھی میرا گھر حالات سے دوچار ہے،ہم اللہ کی آزمائش سے گذر رہے ہیں ۔ ایک دن بالیقین وسعت ہوگی اور آپ کا سارا بقیہ بے باق کردیا جائے گا۔
گر گر کر مصیبت میں سنبھلتے ہی رہیں گے
جل جائے مگر آگ پہ چلتے ہی رہیں گے
غم جس نے دیے ہیں وہی دور کرے گا
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
المختصر کچھ کہا سنی کے بعد وہ بھی خودکو نہیں روک پاتے تھے اور کچھ نہ کچھ چاول دے دیا کرتے تھے۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ اس قسم کے درجنوں واقعات ناچیز کی لاشعوری آنکھوں نے دیکھا اور محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اس ’’یتیم‘‘ کی وکوہ کن کی کہانی ان شاء اللہ کبھی ضرور لکھیں گے، جن کی ہمت و حوصلہ اور زندگی کے لیے جہد مسلسل ایک مثالی اور تقلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
المختصر ان حالات کے باوجود یہ ’’یتیم‘‘ کبھی بھی ہمت نہیں ہارتے اور مسلسل زندگی سے جنگ لڑتے رہے۔ گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اپنے بھائی بہن کے ساتھ ساتھ اپنی چھ اولاد کی پرورش و پرداخت کی پوری کوشش کی اور ان میں سے دو اولاد کو قاسمی النسبت دلانے میں بھی کامیاب رہے۔
زندہ ہے جو عزت سے وہ عزت سے مرے گا
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
مالک ہے تیرے ساتھ نہ ڈر غم سے تو اے دل
محنت کرے انسان تو کیا کام ہے مُشکل
جیسا جو کرے گا یہاں ویسا ہی بھرے گا
دُنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
درج بالا سطریں اسی یتیم کے ایک لڑکے کی داستان بے ستون ہے۔ جب یہاں تک آپ نے پڑھ لیا ہے تو اس ابن یتیم کا نام بھی پڑھتے چلیے۔
نام
تاریخ پیدائش کی طرح نام بھی اختلافی حادثہ کا شکار ہوگیا ہے۔ کہیں پر محمد سابقہ ہے تو کسی جگہ عالم لاحقہ ہے، کسی کاغذمیں محمداور عالم سابقہ لاحقہ دونوں ہیں، تو کسی میں صرف لاحقہ احمد ہے ، جب کہ بعض جگہ سابقہ محمد بھی ہے اور لاحقہ احمد بھی وغیرہ وغیرہ۔ پھر انگریزی میں اس پیلنگ کا بھی لمبا جھگڑا ہے۔ ان اختلافات سے بچنے کے لیے ناچیز نے اس کی تعیین کرتے ہوئے سابقہ میں’ محمد‘رکھاہے، جو نام کا جزو ہے، اور اسی کے مطابق سرکاری کاغذات میں بھی اصلاح کرائی گئی ہے۔ لاحقہ میں علمی و وطنی نسبت شامل کیا ہے ،جس کے پیش نظرقاسمی النسبت کی وجہ سے قاسمی لکھتا ہے اور جہاز قطعہ گاوں کا نام ہے جس کی نسبت سے جہازی لاحقہ لگاتا ہے۔ نام اور دونوں نسبتوں کے بعد اس ابن یتیم کا پورا نام ہوتا ہے: محمد یاسین قاسمی جہازی۔