16 Aug 2018

Masjide Haram min Dakhil hone ka Bayan

مسجد حرام میں داخل ہونے کے آداب کا بیان

قسط نمبر (26)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
خانہ کعبہ کے چاروں طرف جو مسجد ہے، وہی مسجد حرام ہے۔بیت اللہ مسجد حرام کے بالکل بیچ میں ہے۔
مسئلہ: مکہ میں داخل ہوتے ہی مسجد حرام میں حاضر ہونا مستحب ہے۔ اگر فورا ممکن نہ ہو تو اسباب وغیرہ کا بندوبست کرکے سب سے اول مسجد میں حاضر ہونا چاہیے، کیوں کہ اس سفر کا مقصد ہی بیت اللہ کی زیارت ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: مسجد حرام میں داخل ہونے سے پہلے وضو کرلینا چاہیے، تاکہ اس کے بعد جو افعال کریں، وہ باوضو کریں، جیسے طواف اور نماز ۔ 
عن عروۃ بن الزبیرؓ قال: حجَّ النبیُ ﷺ فاخبرتْنیْ عائشۃؓ أنَّ أوَّلَ شئیٍ بدأَ بہِ حین قدِمَ مکۃَ أنَّہُ توضَّأ ثُمَّ طافَ بالبیتِ (متفق علیہ)
حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حج کیا ، تو حضرت عائشہؓ نے مجھے خبر دی کہ جس وقت آپ ﷺ مکہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلا کام آپ ﷺ نے یہ کیا کہ آپ ﷺ نے وضو کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ 
مسئلہ: اس مسجد میں باب السلام سے داخل ہونا مستحب ہے۔
مسئلہ: تلبیہ پڑھتے ہوئے نہایت خشوع خضوع کے ساتھ دربار الٰہی کی عظمت و جلال کا لحاظ کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہو۔ اور پہلے داہنا پاؤں رکھے اور یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللّٰہِ وَ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلامُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ أبْوَابَ رَحْمَتِکَ۔ 
مسئلہ: مسجد میں اندر داخل ہونے کے بعد جب بیت اللہ پر نظر پڑے تو تین مرتبہ کہے:
الْلّٰہُ أکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا الْلّٰہُ ۔
اور بیت اللہ کو دیکھتے وقت ہاتھ اٹھاکر یہ دعا پڑھے، جو مسند شافعی میں ابن جریج سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بیت اللہ کو دیکھتے تو ہاتھ اٹھاتے اور کہتے:
ألْلّٰھُمَّ زِدْ ھَذا الْبَیْتِ تَشْرِیْفَاً وَّ تَعْظِیْمَاً وَّ تَکْرِیْمَاً وَّ مَھَابَۃً وَّ زِدْ مِنْ شَرَفِہِ وَ کَرَمِہِ مِمَّنْ حَجَّہُ أوْ اعْتَمَرَہُ تَشْرِیْفَاً وَّ تَعْظِیْمَاً وَّ تَکْرِیْمَاً ۔ (فتح القدیر)
اور بیہقی نے سعید بن مسیبؓ سے بیان کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ سے ایک کلمہ سنا ہے ، جس کے سننے والوں میں سے میرے سوا کوئی باقی نہیں رہا۔ جب بیت اللہ دیکھتے تو کہتے:
ألْلّٰھُمَّ أنْتَ السَّلامُ وَ مِنْکَ السَّلامُ فَحَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ (فتح القدیر)
بہتر ہے کہ دونوں ہی دعا کو پڑھ لے ۔ اس کے بعد درود پڑھے اور جو دعا چاہے مانگے۔اور اس وقت یہ دعا بھی مستحب ہے جو حضرت عطا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے بیت اللہ کی زیارت کی تو فرمایا : 
أعُوْذُ بِرَبِّ الْبَیْتِ مِنَ الدَّیْنِ وَالْفَقْرِ وَ مِنْ ضَیْقِ الصَّدْرِِ وَ عَذَابِ الْقَبْرِ (زیلعی)
مسئلہ: بیت اللہ کے دیکھتے وقت کھڑے ہوکر دعا مانگنا مستحب ہے ، جو دعائیں جناب رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں اگر وہ یاد ہوں، تو ان کا پڑھنا افضل ہے ؛ لیکن اگروہ دعا یاد نہ ہو، تو جو چاہے دعا مانگے۔ کسی جگہ کوئی خاص دعا معین نہیں ہے کہ اس کا پڑھنا ضروری ہو ، جس دعا میں خشوع حاصل ہو، وہ پڑھے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: مسجد حرام میں داخل ہوکر تحیۃ المسجد نہ پڑھے۔ اس کا تحیہ طواف ہے ، اس لیے دعا مانگنے کے بعد طواف کرے ؛ البتہ اگر طواف کرنے کی وجہ سے فرض نماز کے قضا ہونے یا مستحب وقت نکل جانے یا جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو طواف کے بجائے تحیۃ المسجد پڑھنا چاہیے ، بشرطیکہ وقت مکروہ نہ ہو۔ 
مسئلہ: نماز جنازہ ، سنت مؤکدہ ، وتر کو طواف تحیہ سے پہلے پڑھے اور اشراق و تہجد، چاشت وغیرہ کو طواف سے پہلے نہ پڑھے۔ 
مسئلہ: مسجد حرام میں ؛ بلکہ ہر مسجد میں داخل ہونے کے وقت نفلی اعتکاف کی نیت کرنا مستحب ہے اور نفل اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی جائز ہے۔ 
مسئلہ: مسجد حرام میں نماز پڑھنے والے کے آگے طواف کرنے والوں کو گذرنا جائز ہے اور طواف نہ کرنے والوں کو بھی جائز ہے، مگر سجدہ کی جگہ میں نہ گذرے۔
مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا بیان
مسجد حرام تمام مسجدوں سے افضل ہے ، اس میں نماز پڑھنے کا بڑا ثواب ہے۔ ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہوتا ہے۔
عن أنس بن مالکؓ قال: قال رسولُ اللّٰہِ ﷺ صلوٰۃُ الرجلِ فی بیتِہ صلوٰۃٌ، و صلوٰتُہ فی مسجد القبائل بخمس و عشرین صلوٰۃً، و صلوٰتُہ فی المسجدِ الذی یجمع فیہ بخمس ماءۃ صلوٰۃ، و صلوٰتہ فی المسجد الاقصیٰ بخمسین ألف صلوٰۃ، و صلوٰتہ فی مسجدی بخمسین ألف صلوۃ و صلوٰتہ فی المسجد الحرام بماءۃ ألف صلوٰۃ۔ (رواہ ابن ماجہ)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی کی نماز اپنے گھر میں ایک نماز ہے۔ اور اس کی نماز محلہ کی مسجد میں پچیس نماز کے برابر ہے ۔ اور اس کی نماز جامع مسجد میں پانسو نماز کے برابر ہے ۔ اور اس کی نمازمسجد اقصیٰ میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے۔ اور اس کی نماز میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے اور اس کی نما ز مسجد حرام میں ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ 
متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہے کہ مکہ مکرمہ کی مسجد (یعنی مسجد حرام) میں ایک لاکھ نماز کا ثواب ہے ۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ مکہ میں ایک دن کا روزہ مکہ سے باہر ایک لاکھ روزوں کے برابر ہے ۔ اسی طرح وہاں ایک درم کا ثواب باہر کے لاکھ درم کے برابر ہے ۔ اسی طرح وہاں کی ہر نیکی باہر کی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہے۔ (اتحاف)
بہت سی احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی کا ثواب مسجد اقصیٰ سے زائد ہے ؛ لیکن اس حدیث میں دونوں کا ثواب پچاس ہزار آیا ہے، اس لیے علما نے ان روایات کی وجہ سے اس حدیث میں یہ توجیہہ فرمائی ہے کہ یہاں ہر مسجد کا ثواب اس سے پہلی مسجد کے اعتبار سے ہے ، یعنی جامع مسجد کا ثواب محلہ کی مسجد کے ثواب سے پانچ سو مرتبہ سے زائد ہے۔ اس صورت میں جامع مسجد کا ثواب بارہ ہزار پانسو ہوگیا ۔ اور مسجد اقصیٰ کا ثواب باسٹھ کروڑ پچاس لاکھ ہوگیا اور مسجد مدینہ کا تین نیل بارہ کھرب پچاس ارب ہوا ۔ اور مسجد حرام کا اکتیس سنکھ پچیس پدم ہوا۔ اس صورت میں مسجد مدینہ کا ثواب مسجد اقصیٰ سے بہت زائد ہوگیا۔ (فضائل حج) 
لہذا مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے ۔ سیرو تفریح میں اس مسجد کی نماز نہ چھوٹ جائے ۔ مسجد حرام میں اگر صرف ایک دن پانچوں وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے، تو اس کا ثواب ساری عمر کی نمازوں سے بڑھ کر ہے ۔ مسجد حرام میں خاص ان مقامات میں بھی نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے ، جن مقامات میں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی ہے ۔ اور وہ یہ ہیں: مقام ابراہیم کے پیچھے۔ حجر اسود کے سامنے مطاف کے کنارے پر۔ رکن شامی کے قریب کعبہ کے دروازے کے پاس۔ بیت اللہ کے سامنے جو گڑھا ہے ، جن کو مقام جبرئیل بھی کہتے ہیں ۔ بیت اللہ کے سامنے حطیم میں۔ بیت اللہ کے اندر اور حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان ۔ رکن غربی کے سامنے اس طرح کہ باب العمرہ پیچھے ہو۔ مصلی آدم علیہ السلام۔ رکن یمانی کی جانب۔ 
مسئلہ: جس طرح کعبہ سے باہر اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا جائز ہے ، اسی طرح کعبہ کے اندر بھی نماز پڑھنا جائز ہے ۔ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کی صورت میں چاروں طرف قبلہ ہے ۔ جدھر کو چاہو نماز پڑھو۔ 
عن ابن عمرؓ قال: دَخَلَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ الکعبۃَ والفضلُ و اسامۃُ و زیدٌ و عثمانُ بن طلحۃَ، فکانَ أول من لقیتُ بلالاً فقلتُ أینَ صلَّی النبی ﷺ؟ قالَ: بین ھاتین الساریتین (رواہ ابن ابی شیبۃ و رویٰ الطحاوی والبخاری مسلم نحوہ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ، فضل، اسامہ ابن زید اور عثمان ابن طلحہ کعبہ میں داخل ہوئے ، تو سب سے پہلے میں نے حضرت بلالؓ سے ملاقات کی، تو میں نے کہا : نبی کریم ﷺ نے کہاں نماز پڑھی؟ فرمایا: ان دونوں ستونوں کے درمیان میں۔ 
مسئلہ: آج کل عورتیں مردوں کی جماعت میں یا آگے پیچھے اس طرح کھڑی ہوجاتی ہیں کہ ان کی محاذات سے یعنی برابر میں کھڑی ہونے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ، اس لیے عورتوں کے برابر میں کھڑے ہونے سے بچے۔ 
مسئلہ: اگر عورتوں کی صف آگے اور مردوں کی صف پیچھے ہو تو مردوں کی نماز نہیں ہوگی۔ 
مسئلہ: محاذات کی صورت میں نماز کے فاسد ہونے کی چند شرطیں ہیں: 
اول: عورت کا قابل جماع ہونا، بالغ ہو یا نابالغ۔
دوسری: دونوں کا ایک نماز میں شریک ہونا۔
تیسری: درمیان میں حائل یا ایک آدمی کی جگہ خالی نہ ہونا۔
چوتھی: عورت میں نماز صحیح ہونے کی شرط پایا جانا، یعنی مجنونہ اور حیض و نفاس والی نہ ہونا۔
پانچویں: کم از کم ایک رکن کی مقدار نماز میں شریک رہنا۔
چھٹی: دونوں کا تحریمہ ایک ہونا، یعنی دونوں کسی تیسرے کے مقتدی ہوں یاعورت مرد کی مقتدی ہو۔
ساتویں: امام کا عورت کی امامت کی نیت نماز شروع کرتے وقت کرنا۔ اگر نیت نہ کی ہو، تو مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔ عورت کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ 
مسئلہ: بیت اللہ کی مسجد میں کعبہ کے چاروں طرف نماز پڑھنی جائز ہے ، لیکن بیت اللہ کا سامنے ہونا ضروری ہے ۔ اگر بیت اللہ سامنے نہ ہوگا تو نماز نہ ہوگی ۔ بیت اللہ سے دوری کی صورت میں تو بیت اللہ کی سیدھ کافی ہوجاتی ہے ۔ مگر قریب ہونے کی صورت میں استقبال عین قبلہ کا ضروری ہے ۔ اگر ذرا بھی قبلہ سے انحراف ہوا تو نماز نہ ہوگی۔ 
مسئلہ: صرف حطیم کا استقبال نماز میں کافی نہیں ہے ؛ بلکہ کعبہ کا استقبال ضروری ہے، چاہے حطیم بیچ میں آجائے۔ 
مسئلہ: جب امام بیت اللہ سے باہر مسجد حرام میں کھڑا ہوکر نماز پڑھا رہا ہے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ چاروں طرف سے حلقہ بناکر اقتداء کرے ، یہ درست ہے۔ البتہ جس طرف امام کھڑا ہو، اس طرف مقتدی امام سے آگے کھڑا نہ ہو، ورنہ اس کی نماز نہ ہوگی۔ 
قسط 27 کے لیے کلک کریں

Makka min dakhil bone ka bayan

مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کا بیان
قسط نمبر (25)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

مکہ مکرمہ میں قبرستان مکہ یعنی باب المعلیٰ کی طرف سے داخل ہونا اور باب السفلیٰ سے نکلنا مستحب ہے اگر سہولت سے ممکن ہو ۔ ورنہ جس طرف سے چاہے داخل ہوجائے اور نکل جائے ۔ (بحر الرائق)
عن عائشۃؓ ان النبی ﷺ لما جاء الیٰ مکۃ دخلَھا اعلاھا و خرجَ مِن أسفلِھا (متفق علیہ)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ میں داخل ہوتے تو باب معلیٰ سے داخل ہوتے اور باب سفلیٰ سے باہر نکلتے۔ 
مسئلہ: مکہ میں داخل ہونے کے وقت غسل کرنا مسنون ہے ۔ حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ جب بھی مکہ تشریف لاتے تو رات ذی طویٰ میں گذارتے، یہاں تک کہ صبح ہوجاتی اور غسل کرتے اور نماز پڑھتے۔ پھر مکہ میں دن کو داخل ہوتے۔ اور جب مکہ سے کوچ کرتے تو ذی طویٰ سے گذرتے اور رات وہیں گذارتے، یہاں تک کہ صبح ہوجاتی اور تذکرہ کرتے کہ نبی کریم ﷺ ایسا کرتے تھے۔ (بخاری مسلم)
بحرالرائق میں ہے کہ مسنون غسلوں میں سے ایک مکہ میں داخل ہونے کا بھی ہے اور یہ غسل نظافت کے لیے ہے، اس لیے حیض و نفاس والی بھی غسل کرے۔ 
چوں کہ اب زیادہ تر جدہ سے موٹر میں جانا ہوتا ہے، اس لیے جدہ ہی میں غسل کرلے، بعد کو موقع نہیں ملتا ہے۔ 
فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ مکہ میں دن کو داخل ہونا مستحب ہے۔ اور لباب المناسک میں ہے کہ مکہ میں دن کو داخل ہو، یا رات کو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن دن کو داخل ہونا افضل ہے۔ 
مسئلہ: جب مکہ نظر آئے تو یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ اجْعَلْ لِّیْ بِھَا قَرَارَاً وَّ ارْزُقْنِیْ فِیْھَا رِزْقَاً حَلَالَاً۔ 
مسئلہ: مکہ میں نہایت خشوع خضوع کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے نہایت ادب و تعظیم کے ساتھ داخل ہو اور داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھے: 
ألْلّٰھُمَّ أنْتَ رَبِّیْ وَ أنَا عَبْدُکَ جِءْتُ لِاُؤدِّیَ فَرْضَکَ وَ اَطْلُبُ رَحْمَتَکَ وَ اَلْتَمِسُ رِضَاکَ مُتَتَبِّعَاً لِّاَمْرِکَ رَاضِیَاً بِقَضَاءِکَ، أسْءَلُکَ مَسْءَلَۃَ الْمُضْطَرِّیْنَ اِلَیْکَ، الْمُشْفِقِیْنَ مِنْ عَذَابِکَ الْخَاءِنِیْنَ مِنْ عِقَابِکَ أنْ تَسْتَقْبِلَنِیْ الْیَوْمَ بِعَفْوِکَ وَ تَحْفِظْنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَ تَجَاوَزَ عَنِّیْ بِمَغْفِرَتِکَ وَ تَعِیْنَنِیْ عَلیٰ أداءِ فَرْضِکَ، ألْلّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ أبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَ ادْخِلْنِیْ فِیْھَا وَ اَعِذْنِیْ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ 
مسئلہ: مکہ کے قبرستان اور مسجد حرام کے درمیان ایک جگہ ہے ، جس کا نام مدعیٰ ہے ، یعنی دعا کرنے کی جگہ۔ پہلے اس جگہ سے بیت اللہ نظر آتا تھا اور حضرت عمرؓ نے اس کو خوب اونچا کرادیا تھا، تاکہ اس پر سے بیت اللہ نظر آئے، لیکن اب مکانات بن جانے کی جہ سے وہاں سے بیت اللہ نظر نہیں آتا ہے ، لیکن اس جگہ دعا مانگنا اب بھی مستحب ہے ، جب مدعی پر پہنچے تو یہ دعا پڑھے:
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ، ألْلّٰھُمَّ اِنِّی أسْءَلُکَ مِمَّا سَءَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّداً ﷺ وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدَاً ﷺ ۔ 
اور مناقب میں مذکور ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو فرمایا : جو مکہ کے سفر کا ارادہ رکھتا تھا: بیت اللہ شریف کے مشاہدہ کے وقت مستجاب الدعوات ہونے کی دعا کرنا۔ اگر دعا قبول ہوئی تو مستجاب الدعوات ہوجائے گا۔ (بحر الرائق)
قسط 26 کے لیے کلک کریں

15 Aug 2018

Makroohate Ehram ka bayan

مکروہات احرام کا بیان

قسط نمبر (24)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

مسئلہ: بدن سے میل دور کرنا ، سر داڑھی اور بدن کو صابون وغیرہ سے دھونا مکروہ ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: بالوں میں کنگھی کرنا یا اس کو اس طرح سے کھجلاناکہ بال یا جوں گر پڑے، مکروہ ہے۔ اس طرح کھجلانا کہ بال یا جوں نہ گرے جائز ہے ۔ اگر بال گرنے کا ڈر نہ ہو تو زور سے بھی کھجلاسکتا ہے۔ 
مسئلہ: داڑھی میں خلال کرنا بھی مکروہ ہے، اگر کرے تو اس طرح کہ بال نہ گرے۔ 
مسئلہ: لنگی کے دونوں پلوں کو آگے سے سینا مکروہ ہے ۔ اگر کسی نے ستر عورت کی حفاظت کے لیے سی لیا تو دم واجب نہ ہوگا، اس لیے کہ یہ بدن کی ہیئت پر سلی ہوئی نہیں ہے۔ 
مسئلہ: چادر میں گرہ دے کر گردن پر باندھنا ، چادر اور لنگی میں گرہ لگانا یا سوئی اور پن وغیرہ لگانا، تاگے یا رسی سے باندھنا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: خوشبو کو چھونا یا سونگھنا، خوشبو والے کی دوکان پر خوشبو سونگھنے کے لیے بیٹھنا، خوشبو دارمیوہ اور خوشبو دار گھاس سونگھنا اور چھونا مکروہ ہے۔ اگر بلا ارادہ خوشبو آجائے تو کچھ حرج نہیں۔ 
مسئلہ: سر اور منھ کے علاوہ اور بدن پر بلا وجہ پٹی باندھنا مکروہ ہے ۔ ضرورت کے وقت باندھ سکتا ہے ۔ 
مسئلہ: کعبہ کے پردہ کے نیچے اس طرح کھڑا ہونا کہ منھ کو یا سر کو لگے مکروہ ہے ۔ اگر سریا منھ کو نہ لگے تو جائز ہے ۔
مسئلہ: لنگی میں نیفہ موڑ کر کمربند ڈالنا جیسا کہ پاجامہ میں کرتے ہیں ، مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: ناک، تھوڑی اور رخسار کو کپڑے سے چھپانا مکروہ ہے ۔ ہاتھ سے چھپانا جائز ہے۔
مسئلہ: تکیہ پر منھ کے بل لپٹنا مکروہ ہے ۔ سر یا رخسارے کا تکیہ پر رکھنا جائز ہے ۔
مسئلہ: خوشبو دار کھانا بلا پکا ہوا مکروہ ہے ۔ خوشبو دار پکا ہوا کھانا مکروہ نہیں۔ 
مسئلہ: اپنی عورت کی شرمگاہ شہوت سے دیکھنا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: چوغہ اور قبا وغیرہ کو صرف کندھوں پر ڈالنا بھی مکروہ ہے، اگرچہ ہاتھ آستینوں میں نہ ڈالے ہوں۔ ہاتھ آستینوں میں ڈالنے سے جنایت لازم آئے گی۔ 
مسئلہ: احرام باندھنے کے بعد دھونی دیا ہوا کپڑا پہننا مکروہ ہے۔ 
مباحات احرام کا بیان
ضرورت کی وجہ سے ٹھنڈے یا گرم پانی سے غسل کرنا جائز ہے۔ (ہدایہ)
عن ابی ایوبؓ ان النبی ﷺ کانَ یغسِلُ رأسَہُ وھو محرِمٌ۔ (متفق علیہ)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ احرام کی حالت میں سر دھوتے تھے۔ 
سر کا بال اس طرح دھونا کہ بال نہ ٹوٹے بالاتفاق جائز ہے، لیکن خطمی وغیرہ سے دھونے سے اما م صاحب کے نزدیک دم واجب ہے اور صاحبین کے نزدیک صدقہ ۔ (فتاویٰ قاضی خان)
حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ حاجی کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
أشعث التفل(ابن ماجہ)
جن کا بال پراگندہ ہو، خوشبو نہ لگائے۔ شعث کے معنی بال کے پراگندگی کے اور تفل کے معنی ترک خوشبو کے ہیں ، یعنی تیل خوشبو ترک کرے صابون وغیرہ سے بال کو صاف نہ کرے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے یا گردوغبار دور کرنے کے لیے نہانا جائز ہے ، مگر میل دور نہ کرے۔ پانی میں غوطہ لگانا، حمام میں داخل ہونا، کپڑا پاک کرنا، انگوٹھی پہننا، ہتھیار باندھنا، دشمن سے شریعت کے مطابق جنگ کرنا جائز ہے۔
مسئلہ: ہمیانی (تھیلی) اور پیٹی لنگی کے اوپر یا نیچے باندھنا جائز ہے ، اگرچہ اس میں اپنا یا کسی دوسرے کا روپیہ ہو۔ (ہدایہ)
مسئلہ: گھر یا خیمے کے اندر داخل ہونا ، چھتری لگانا، شغدف و عماری میں بیٹھنا، ریل ، موٹر میں بیٹھنا، یا کسی اور چیز کے سایہ میں بیٹھنا جائز ہے۔ 
عن ام الحصین قالتْ: رأیتُ أسامۃ و بلالا، احدھما اخذَ بخطامِ ناقۃِ رسولِ اللّٰہِ والاٰخرُ رفَعَ ثوبَہُ یستُرُہُ مِنَ الحرِّ حتّٰی رمیٰ جمرۃَ العقْبَۃِ (رواہ مسلم)
ام حصین بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت اسامہ اور بلال رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑی اور دوسرے نے اپنا کپڑا اٹھایا، تاکہ آپ ﷺ کو گرمی سے بچائے۔ (اسی طرح سایہ کیے رہے) یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جمرۂ عقبہ کی رمی کی۔ 
عالمگیری میں ہے کہ گھر اور محمل کے سایہ میں کچھ حرج نہیں ۔ اور قاضی خان میں ہے کہ خیمہ کے سایہ میں کچھ حرج نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ سایہ میں بیٹھنے میں کچھ حرج نہیں۔ حضورﷺ کے لیے عرفات میں خاص طور سے خیمہ نصب ہوا تھا، جس میں آپ ﷺ آرام کرتے تھے۔ 
مسئلہ: آئینہ دیکھنا، مسواک کرنا، دانت اکھاڑنا، ٹوٹے ہوئے ناخن کاٹنا، پچھنے لگانا، پڑبال نکالنا، بلا خوشبو کا سرمہ لگانا، ختنہ کرانا، آبلہ کو توڑنا، ٹوٹے ہوئے عضو پر پٹی باندھنا جائز ہے۔ 
مسئلہ: بال دور کیے بغیر فصد لینا، ہیضہ وغیرہ کا انجشکن لینا اور چیچک کا ٹیکہ لگوانا جائز ہے۔ 
عن ابن عباسؓ قال: احتجمَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ وھو محرمٌ (متفق علیہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے احرام کی حالت میں سینگی لگوائی ہے۔ 
عالمگیری میں ہے کہ سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور لباب میں ہے کہ جب کہ بال دور نہ کرے۔ اور در مختار میں ہے کہ بال کے ازالہ کی صورت میں دم واجب ہوگا۔ اسی سے انجکشن اور ٹیکہ کا حال معلوم ہوگیا۔ 
مسئلہ: لنگی میں روپیہ یا گھڑی کے لیے جیب لگانا جائز ہے ۔ 
مسئلہ: سر اور منھ کے علاوہ دوسرے بدن کو ڈھانکنا، کان، گردن، پیروں کو چادر، رومال وغیرہ سے چھپانا جائز ہے۔ 
مسئلہ: جو داڑھی تھوڑی سے نیچے لٹکی ہوئی ہے، اس کو چھپانا جائز ہے۔ 
مسئلہ: دیگ، طباق، رکابی، چارپائی، سبزہ وغیرہ سر پر اٹھانا جائز ہے۔ 
مسئلہ: خشکی کے اس شکار کا گوشت کھانا جس کو کسی حلال شخص نے حل میں شکار کیا ہواور اسی نے ذبح کیا ہو، محرم نے کسی قسم کی شرکت نہ کی ہو جائز ہے۔ 
مسئلہ: اونٹ، گائے، بکری، مرغی، گھریلو بطخ کو ذبح کرنا اور گوشت کھانا؛ سب جائز ہے۔ جنگلی بطخ کا ذبح کرنا، محرم کو جائز نہیں۔ 
مسئلہ: موذی جانوروں کا مارنا جائز ہے ، جیسے سانپ، بچھو، پسو، چھپکلی، گرگٹ، بھڑ، کھٹمل، مکھی، مردار خور کوا وغیرہ ۔
عن ابن عمرؓ عن النبی ﷺ قال: خمسٌ لاجناحَ علیٰ مَنْ قَتَلَھُنَّ فی الحرمِ والاِحرام، الفارۃُ، والغرابُ، والحداۃُ، والعقربُ، والکلبُ العقورُ۔ (متفق علیہ)
حضرت ابن عمرؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو کسی نے حرم میں یا حالت احرام میں مار ڈالا، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے: (۱) چوہا۔ (۲) کوا۔ (۳) چیل۔ (۴) بچھو۔ (۵) کاٹنے والا کتا۔ 
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بچھو کے بجائے سانپ ہے اور غراب کی جگہ میں غراب ابقع ہے یعنی مردار خور کوا۔ (بخاری و مسلم)۔
پہلی حدیث میں بھی کوا سے مرادمردار خور کوا ہے۔ 
عن ابی سعید الخُدری عن النبی ﷺ قال: یقتلُ المحرمُ السبُعُ العادی۔ (رواہ الترمذی و ابو داود و ابن ماجہ) 
ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حملہ کرنے والے درندہ کو مار ڈالے۔ 
در مختار میں ہے کہ حملہ کرنے والے جانور کے مار ڈالنے میں کچھ نہیں ، جب کہ اس کا دفع کرنا قتل کے سوا ممکن نہ ہو۔ اور اگر قتل کے بغیر اس کا دفع کرنا ممکن ہواور پھر بھی قتل کر ڈالے تو اس پر جزا لازم آئے گی۔ 
مسئلہ: لونگ، الائچی اور خوشبو دار تمباکو کے بغیر پان کھانا جائز ہے ۔ اور لونگ،الائچی اور خوشبو دار تمباکو ڈال کر پان کھانا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: ایسا شعر پڑھنا جس میں گناہ کی بات نہ ہوجائز ہے ، ورنہ ناجائز ہے۔ 
مسئلہ: بدن میں گھی یا چربی لگانا مکروہ ہے۔
مسئلہ: گھی، تیل اور چربی کا کھانا جائز ہے۔
مسئلہ: زخم، یا ہاتھ پاؤں کی بوائی اور پٹھن میں تیل لگانا جائز ہے ، بشرطیکہ خوشبو دار نہ ہو۔ 
مسئلہ: مسائل اور دینی امور میں گفتگو کرنا جائز ہے۔ 
مسئلہ: احرام کی حالت میں اپنا یا کسی دوسرے کا نکاح کرنا جائز ہے، لیکن صحبت کرنا جائز نہیں ۔ 
عن بن عباسؓ ان النبی ﷺ تزوجَ میمونۃَ وھو محرمٌ (متفق علیہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔ 
مسئلہ: کپڑوں کی گیٹھری اگر خوب بندھی ہوئی ہے تو اس کا اٹھانا جائز ہے ، ورنہ مکروہ ہے۔

14 Aug 2018

مقالات جہازی جلد اول

تقریظ

حضرت مولانا محمد سالم جامعی صاحب حفظہ اللہ
ایڈیٹر ہفت روزہ الجمعیۃ نئی دہلی

قلم اور زبان پروردگار عالم کی دو بڑی نعمتیں ہیں۔ قلم آلہ علم ہے اور زبان اس علم کی ترجمان ہے۔ جس کسی کو یہ دونوں نعمتیں میسر آجائیں ، اسے خیر کثیر کا حامل کہاجاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں اس لیے عطا فرمائیں تاکہ ہم ان کا حامل ان کا صحیح استعمال کرے۔ 

بلاشبہ اسلام دین فطرت ہے اور زندگی کے تمام پہلووں پر محیط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے واسطے سے پوری انسانیت کو عطا فرمایا۔ اس دین نے دنیائے انسانیت کو امن دیا، انصاف دیا اور سعادت سے نوازا اور اخلاق عالیہ کے حسین زیور سے آراستہ کیا۔ پھر شروع سے ہی اس دین کو ایسے حاملین ملتے رہے، جو دین و شریعت کے ماہر اور دشمنان اسلام کی دسیسہ کاریوں کا ادراک رکھتے تھے۔ انھوں نے اسلام کے آفاقی پیغام اور اس کی علمی ، فکری اور انسانی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اور اپنی علمی و دینی تصنیفات و تالیفات اور تخلیقات کے ذریعہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح کردی کہ اسلام کسی انسانی ذہن و دماغ کی تخلیق نہیں؛ بلکہ صرف اور صرف اللہ کا نازل کردہ دین ہے ۔ یہ بھی ایک امر مسلمہ ہے کہ چوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ آخری نبی ہیں، اس لیے آپ کی امت بھی آخری امت ہے ، جسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ 
اس وقت امت میں دعوت اور اشاعت اسلام کے متعدد طریقے پائے جاتے ہیں ، جن میں تصنیف و تالیف، تقریر و خطابت اور تعلیم و تذکیر وغیرہ شامل ہیں۔ الحمد للہ اس وقت دعوت و اشاعت اسلام کا کام ان تمام جہات سے ہورہا ہے ۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ تمام طریقے اسلام کی تعلیمات مزاج نبوت اور امت محمدیہ کی اجتماعی فکر کے عین مطابق ہے ؛ تاہم یہ ضروری ہے کہ دعوت اور طریق دعوت طریق نبوت کے مطابق ہو، خالص اسلام اور عمل صالح کی دعوت دی جائے اور طریق دعوت وہی اختیار کیا جائے جو داعی اسلام ﷺ نے اختیار فرمایا تھا۔ اس لیے کہ جس حد تک دعوت اور طریق دعوت میں عہد مبارک کے ساتھ قربت و مناسبت ہوگی، اتنی ہی اس میں برکت و تاثیر اور کشش ہوگی۔ گذشتہ چودہ سو سالوں کے دوران جن بزرگوں اور اسلاف کے اصلاحی و تحریری کارناموں کو امت نے سند قبولیت سے نوازا ہے، وہ بھی اسی اصول کی شہادت دے رہے ہیں ۔ 
بر صغیر ہندو پاک میں مسلمانوں کے دینی و سماجی لحاظ سے بحیثیت مسلمان زندگی گذارنے کی جو دینی و فکری راہ اختیار کی، اس کے نتیجہ میں ایک بڑی تعداد میں ایسی ممتاز شخصیتیں وجود میں آئیں، جنھوں نے اپنے علم و فضل اور دینی و علمی رہنمائی سے نہ صرف ملت کو فیض بخشا؛ بلکہ علمی و دینی میدان میں وہ امتیاز بھی حاصل کیا، جس کے ذریعہ وہ اس بر صغیر میں علم و دین کے اثرات اور مفید کار گذاری کے حامل ثابت ہوئے۔ 
مقالہ نگاری کا فن ایک مشکل ترین فن سمجھا جاتا ہے ، اس لیے کہ اس میں مقالہ نگار کو اپنی پسند ، ناپسند سے بالاتر ہوکر انسانی احتیاط کے ساتھ سوچ سمجھ کر قلم اٹھانا اور افراط و تفریط کا شکار ہوئے بغیر واقعی حقائق و واقعات کو خوب صورت الفاظ میں بیان کرنا ہوتا ہے، جس کے لیے وسعت نظر، گہرا مطالعہ، ذکاوت و ذہانت، الفاظ کا انتخاب اور موضوع سے مکمل واقفیت جیسے بنیادی و موثر عناصر درکار ہوتے ہیں۔ 
ہمارے محترم فاضل و عالم، علم و اخلاق، اور مئے خانہ قاسمی سے بھرپور فیض یافتہ مولانا محمد یاسین صاحب قاسمی جہازی گڈاوی کو پروردگار عالم نے اپنی خصوصی رحمت کے سایہ میں مذکورہ بالا اوصاف وکمالات سے حصہ وافر عطا فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں علمی تحقیق و تدقیق کے ساتھ زبان و قلم کی شہ سواری سے بھی نوازا ہے ۔ وہ اپنے دور طالب علمی سے ہی تصنیف و تالیف اور مقالہ نگاری کے ذوق کے حامل رہے ہیں ۔ ان کی متعدد مطبوعہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ تصنیف و تالیف ، قلم و کتاب کے حوالے سے ایک بے حد پسندیدہ اور دل چسپ موضوع ہے ، جس کا خصوصی ذوق پروردگار عالم نے مولانا موصوف کو خوب خوب عطا کیا ہے ۔ زیر نظر ’’مقالات جہازی‘‘ اس کا ایک اعلیٰ اور خوب صورت نمونہ ہے۔ 
مولانا محمد یاسین قاسمی دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور علمی و ادبی ذوق کے حامل عالم دین ہیں۔ تا دم تحریروہ جمعیۃ علماء ہند کے ’’مرکز دعوت اسلام‘‘ سے وابستہ اور دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر میں مقیم ہیں ۔ ان کا وطن جھارکھنڈ کے ضلع گڈا کا ایک معروف قریہ ’’جہاز قطعہ‘‘ ہے۔ 
مولانا موصوف کے مقالہ جات کا یہ مجموعہ سر دست ویب سائٹ کی زینت بن رہا ہے ، جو دینی تعلیم و تبلیغ اور اشاعت اسلام کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایک اچھی مثال ہے۔ راقم الحروف کے سامنے اس وقت مضامین و مقالات کے عنوانات کی تقریبا ستر موضوعات پر مشتمل ایک فہرست ہے ، جس سے مولانا قاسمی کے ذہنی و فکری اور علمی رجحان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو قائم رکھے اور اسے مزید وسعت دینے کی توفیق ارزانی فرمائے اور اس سے امت کو استفادہ کا موقع عطا فرمائے ، آمین۔ 
(مولانا) محمد سالم جامعی ( صاحب حفظہ اللہ) 
ایڈیٹر ہفت روزہ الجمعیۃ نئی دہلی
۱۳؍ اگست ۲۰۱۸ء 
پیر

دل کی بات
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
دارالعلوم دیوبند کے طالب علمی کے زمانہ میں لاشعوری طور پر قلم پکڑنے کی کوشش کی۔ یہی کوشش لگن اور شوق میں تبدیل ہوگئی ۔ اور شوق کا یہ سفر تا ہنوز جاری و ساری ہے۔ اس سفر شوق و طلب میں جن راہوں سے گذارا ، انھیں غبار راہ کو اس میں یکجا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ امید ہے کہ یہ کوشش نو وارد اہل قلم کے حوصلوں کو مہمیز کرنے کا فریضہ انجام دے گی اور پھر وہ بھی اپنی پرواز کو جاری و ساری رکھیں گے۔
اس میں کچھ مقالات وہ ہیں جو زمانہ طالب علمی کی لاشعوری کوششیں ہیں، انھیں’’ کاوشیں زمانہ طالب علمی کی‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جارہا ہے۔ اور جو مقالات دارالعلوم سے فراغت کے بعد کے ہیں، انھیں اس کے بعد شامل کتاب کیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ مطالعہ میں زمانہ کے امتیاز کا خیال رکھتے ہوئے مقالہ سے استفادہ و افادہ کی کوشش کی جائے گی۔
دوسرے دور کے مقالات وہ ہیں، جو کسی ویب پورٹل ، اخبار یا کسی موقع کی طلب پر لکھے گئے ہیں اور اکثر مقالات مختلف ویب سائٹوں، روزنامہ، سہ روزہ اور ہفت روزہ اخبارات و رسائل میں اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مقالات قارئین کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ دعوات صالحات میں فراموش نہ کریں، جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء۔
محمد یاسین قاسمی 
جمعیۃ علماء ہند
۴؍ اگست ۲۰۱۸ء

13 Aug 2018

ممنوعات احرام کا بیان

ممنوعات احرام کا بیان

قسط نمبر (23)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

ان چیزوں کا بیان ، جس کا احرام کی حالت میں کرنا منع ہے۔ 
مسئلہ: احرام کے بعد عورتوں کے سامنے جماع کا ذکر کرنا ، شہوت سے چھونا، بوسہ لینا؛ سب منع ہے۔ قرآن میں ہے : 
فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (سورۃ البقرۃ، آیۃ: )
سو جو شخص ان مہینوں میں حج مقرر کرلے، تو پھر ( اس کو) نہ کوئی فحش بات (جائز) ہے اور نہ کوئی بے حکمی (درست) ہے اور نہ کسی قسم کا نزاع (زیبا) ہے۔ (ترجمہ تھانوی)
یعنی احرام باندھنے کے بعد نہ رفث جائز ہے اور نہ فسوق و جدال درست ہے ۔ رفث، جماع اور فحش کلام اور عورتوں کے سامنے جماع کے ذکر کرنے کو کہتے ہیں ۔ (ہدایہ)
فسوق ہر قسم کا گناہ ؛ کسی وقت جائز نہیں ہے ، لیکن احرام کے بعد اس کا کرنا اور سخت گناہ ہے اور اس سے بچنے کی سخت تاکید ہے۔ جدال یعنی جھگڑا کرنا۔ اگرچہ فسوق میں جدال بھی داخل تھا، لیکن اس کو خاص طورپر الگ ذکرکرنے کا مقصد یہ ہے کہ رفیق سفر سے خاص طور پر جھگڑا نہ کرے اور اس سے بچنے کی بڑی کوشش کرے۔ 
مسئلہ: احرام کی حالت میں کوئی گناہ کرنا خاص طور سے منع ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا۔ (ہدایہ)
مسئلہ: ساتھیوں کے ساتھ یا دوسرے لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرنا منع ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا۔ 
مسئلہ: خشکی کے جانور کا شکار کرنا یا کسی شکاری کو بتانا اور اشارہ کرنا منع ہے ۔ شکاری کی مدد کرنا ، تیر، تلوار، چھری ، چاقو وغیرہ دینا بھی منع ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یَاأیُّھا النَّاسُ اٰمَنُوا لاتَقْتُلُوْا الصَّیْدَ وَ أنْتُمْ حُرُمٌ ۔ (سورۃ المائدۃ، آیہ:)
ائے ایمان والو! وحشی شکار کو قتل مت کرو، جب کہ تم حالت احرام میں ہو۔ (ترجمہ تھانوی)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ابھی تک احرام نہیں باندھا تھا کہ ایک گورخر کا شکار کیا اور اس کے کھانے کے بارے میں سوال کیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا: 
أأحدٌ منکم أمرَہُ أن یحملَ علیھا أو أشارَ علیھا (بخاری و مسلم)
کیا کسی نے تم میں سے اس کو حکم دیا کہ اس پر حملہ کرے یا اس کی طرف اشارہ کیا؟ 
اور مسلم اور نسائی کی ایک روایت میں ہے :
ھلْ أشرْتُمْ ھلْ اعَنْتُمْ
یعنی کیا تم نے اشارہ کیا تھا؟ کیا تم نے مدد کی تھی؟ صحابہ کرام نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو کھاؤ۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ شکار کرنا، یا اس کی طرف اشارہ کرنا، اس کا نشان ، پتہ دینا، اس کے شکار کا حکم دینا، اس کی مدد کرنا ، یعنی گھوڑا کوڑا دینا، تیر، تلوار، چھری دینا وغیرہ ؛ اگر محرم کی طرف سے ان باتوں میں سے کوئی بات نہ ہو اور حلال نے شکارکیا ہو تو اس کا گوشت کھانا سب کے لیے جائز ہے۔ 
مسئلہ: خشکی کے شکار کو بھگانا، اس کا انڈا توڑنا، پر اور بازو اکھاڑنا، انڈا یا شکار بیچنا، خریدنا، شکار کا دودھ نکالنا، اس کے انڈے یا گوشت کو بھوننا، پکانا، جوں مارنا،یا دھوپ میں ڈالنا، یا کپڑے کو جوں مارنے کے لیے ڈھونا یا دھوپ میں ڈالنا، یا کسی دوسرے سے جوں مروانا، یا مارنے کے لیے اشارہ کرنا ، خضاب کرنا، تلبید یعنی بالوں کو گوند وغیرہ سے اس طرح جمانا کہ بال چھپ جائیں؛ منع ہے۔ اگر بال نہ چھپیں تو مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: محرم کا شکار کیا ہوا جانور حرام ہے ، اس کا محرم اور غیر محرم کسی کو کھانا جائز نہیں ۔ 
مسئلہ: اگر کسی غیر محرم نے حل میں اپنے مطلب سے شکار کیا۔ نہ کسی محرم نے حکم دیا، نہ شکار کو بتایا، نہ نشان، پتہ دیا، نہ اس کی اعانت کی تو اس کا کھانا سب کے لیے جائز ہے خواہ محرم ہو یا غیر محرم۔ 
مسئلہ: خوشبو لگانا، ناخن اور بال کاٹنے، کٹوانے ، سر یا منھ کو ڈھانکنا خواہ سارا یا تھوڑا منع ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: سلے ہوئے کپڑے جیسے کرتہ، پاجامہ، ٹوپی، عمامہ، اچکن،واسکوٹ،دستانے، موزہ وغیرہ منع ہیں۔ (ہدایہ)
قالَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ : لاتلبسوا القمصَ، ولاالعمائمَ، ولا السراویلات، ولا البرانس، و لا الخفافَ، الا احد لایجد نعلَین، فیلْبِس خفین، ولیقطعھما أسفلَ مِنَ الکعْبَیْنِ وَلا تلْبِسُوا مِنَ الثِّیابِ شیئا مسَّہُ زعفرانٌ ولا ورسٌ۔ (متفق علیہ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمامے، پاجامے،باران کوٹ اور موزے مت پہنو؛ مگر یہ کہ کوئی نعلین نہ پائے تو موزے کو کعبین کے نیچے سے کاٹ کر پہنے اور زعفران اور کسم کے رنگے ہوئے کپڑے مت پہنو۔ 
یہاں کعب سے مراد ٹخنہ نہیں ہے ؛ بلکہ وہ ہڈی ہے جو وسط قدم میں ابھری ہوئی ہے ، اسی طرح ہشام نے امام محمدؒ سے روایت کی ہے ۔ (ہدایہ)
اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ احرام والی عورت نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔ اور امام شافعی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ اپنی بیٹیوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے کا حکم دیتے تھے۔ یہی مذہب حضرت علی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھما کا ہے اور یہی مذہب امام ابو حنیفہؒ کا ہے کہ عورتوں کو حالت احرام میں دستانے پہننا جائز ہے ؛ مگر خلاف سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ نہ پہنے۔ 
مسئلہ: اگر جوتا نہ ہو تو موزوں کو کاٹ کر جوتے کی طرح بناکر پہننا جائز ہے، لیکن اتنا کاٹنا ضروری ہے کہ پیر کے بیچ میں جو ہڈی اٹھی ہوئی ہے ،وہ کھل جائے۔ 
مسئلہ: ایسا جوتا پہنا بھی منع ہے جس میں بیچ کی ہڈی چھپ جائے ، اس لیے ایسے جوتے اور سلیپر کو یاتو کاڈ ڈالے یا اوپر کپڑا وغیرہ کوئی ٹھوس چیز دے، جس سے بیچ کی ہڈی نکل جائے۔ 
مسئلہ : کرتا وغیرہ کو چادر کی طرح اوڑھنا جائز ہے ؛ مگر بہتر اس سے بھی بچنا ہے۔ 
مسئلہ: سر اور منھ پر پٹی باندھنا منع ہے۔ اگر کسی نے بیماری کی وجہ سے ایک دن یا ایک رات باندھ رکھی تو صدقہ واجب ہوگا، بشرطیکہ سر یا منھ چوتھائی سے کم ڈھنکا ہو۔ اگر چوتھائی سے زیادہ ڈھکا رہا تو قربانی واجب ہوگی۔ البتہ اگر ایک دن ایک رات سے کم ڈھکارہا تو صدقہ واجب ہوگا، خواہ چوتھائی سے کم ڈھکا ہو یا چوتھائی سے زیادہ۔ (غنیہ)
مسئلہ: مرد نہ سر چھپائے اور نہ منھ ڈھانکے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: زعفران اور کسم اور خوشبو دار چیز سے رنگا ہوا کپڑا پہننا منع ہے، البتہ اگر دھلا ہوا ہو اور خوشبو نہ آتی ہو تو جائز ہے ۔
عن ابن عمرؓ عن النبی ﷺ قال: لاتلبسوا ثوبا مسَّہُ ورسٌ و زعفرانٌ یعنی فی الاحرام الا أن یکونَ غسیلا۔ (رواہ الطحاوی و قال العینی رجالہ ثقات)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کسم اور زعفران کے رنگے ہوئے کپڑے مت پہنو، یعنی احرام کی حالت میں مگر یہ کہ دھلا ہوا ہو۔ 
مسئلہ: جو شخص احرام کی حالت میں مرجائے، اس کی تجہیز و تکفین غیر محرم کی طرح کی جائے، اس کا سر ڈھانکا جائے ، کافور اور خوشبو وغیرہ لگائے جائے۔ 
ان ابن عمرؓ: لما مات ابنہ واقد وھو محرم کفنَہُ و خمرَ رأسَہُ و وجھَہُ و قالَ: لولا انا محرمون لحنَّطناکَ یا واقدُ۔ (رواہ مالک)
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا لڑکا واقد کی جب احرام کی حالت میں وفات ہوئی تو ابن عمر نے ان کو کفنایااور اس کے سر اور چہرہ کو ڈھانکا اور فرمایا: اگر ہم احرام میں نہ ہوتے تو ائے واقد! ہم تم کو خوشبو لگاتے۔ 
یعنی احرام کی حالت میں محرم کو خوشبو کا چھونا جائز نہیں ہے، اس لیے اپنے ہاتھ سے خوشبو نہ لگانے کا عذر فرمایا۔ 
حضرت عائشہؓ نے فرمایا: 
اصنعوا بہ ماتصنعون بموتاکم (رواہ مالک)
اپنے میت کے ساتھ جو تم کرتے ہو، وہی اس محرم میت کے ساتھ کرو۔ 
قسط (24) کے لیے کلک کریں

12 Aug 2018

عورت کے احرام کا بیان

عورت کے احرام کا بیان

قسط نمبر (22)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
مرد کی طرح عورت کا بھی احرام ہوتا ہے ، بس فرق اتنا ہے کہ مرد کو سلا ہوا کپڑا پہننا اور سر ڈھانکنا ناجائز ہے ۔ اور عورت کو سلا ہوا کپڑا پہننا اور سرچھپانا واجب ہے اور چہرہ کا چھپانا ناجائز ہے۔ 
عن ابن عمرؓ ان النبی ﷺ قالَ: اِنَّ اِحرامَ الرَّجُلِ فی رأسِہِ و اِحرامَ المرأۃِ فی وجھِھا۔ (رواہ الدارقطنی والبیھقی)
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مرد کا احرام اس کے سر میں ہے اور عورت کا احرام اس کے چہرے میں ، یعنی مرد سر نہ چھپائے اور عورت چہرہ نہ چھپائے۔ 
عورت کو چاہیے کہ احرام کی حالت میں چھوٹا سا رومال سر میں باندھ لے تاکہ سر نہ کھلے جس کا چھپانا عورت پر واجب ہے۔ اگر غیر محرم کا اس کے پاس سے گذر ہو تو چہرہ کو اس طرح سے چھپائے کہ منھ پر کپڑا نہ لگنے پائے۔ 
عن عائشۃَؓ قالتْ: کانَ یَمُرُّونَ بِنا و نحنُ معَ رسولِ اللّٰہِ ﷺ محرمات، فاذا جاوزوا بِنا سَدَلتْ اِحدانا جِلبابِھا مِنْ رأسِھا علیٰ وجْھِھَا فاِذا جاوزونا کَشَفْنَا۔ (رواہ ابو داود)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ لوگ ہمارے پاس سے گذرتے تھے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام میں تھے تو جب لوگوں کا گذر ہمارے پاس سے ہوتا تو ہم میں سے ایک اپنی چادر کو سر سے چہرہ پر لے آتے ۔ پھر جب آگے بڑھ جاتے تو چہرہ کو کھول دیتے۔ 
اور بخاری کی روایت میں ہے :
وَلاتنتَقِبُ المرأۃُ الْمحرمۃَ 
احرام والی عورت نقاب نہ لگائے۔ 
جس کا مطلب یہ ہوا کہ برقع وغیرہ اس طرح نہ لگائے کہ منھ پر کپڑا لگے ۔ عورت کو اجنبی مرد کے سامنے بے پردہ ہونا منع ہے ، اس لیے کوئی ایسی چیز پیشانی کے اوپر اس طرح لگاکر کپڑا ڈالے کہ کپڑا چہرہ کو نہ لگے۔ 
مسئلہ: عورت کو احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے پہننا جائز ہے ، خواہ رنگین ہو یا بلا رنگ؛ لیکن زعفران اور کسنبہ کا رنگا ہوا نہ ہو۔ اگر اس سے رنگا ہوا ہو تو اتنا دھو دے کہ اس کی خوشبو جاتی رہے۔ 
مسئلہ: عورت کو احرام میں زیور، موزے، دستانے پہننا جائز ہے اس لیے کہ یہ سلے ہوئے کپڑوں کے حکم میں ہے اور سلا ہوا کپڑا عورتوں کو پہننا جائز ہے ۔ 
عن سعد بن ابی وقاصٍ انہ کانَ یامر بناتِہِ بِلُبسِ القفازینِ فی الاحرام (رواہ الشافعی) 
حضرت سعد بن وقاصؓ اپنی بیٹیوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے کا حکم دیتے تھے۔ لیکن نہ پہننا اولیٰ ہے۔ اس لیے کہ بخاری کی روایت میں ہے کہ 
ولاتلبس القفازین 
یعنی عورت دستانے نہ پہنے۔ 
مسئلہ: عورت کو تلبیہ زور سے پڑھنا منع ہے، اتنی آواز بلند کرے کہ خود کو سنائی دے۔ 
مسئلہ: عورت طواف میں نہ اضطباع کرے اور نہ رمل۔ یعنی نہ تو چادر داہنی بغل میں کو نکال کر بائیں کندھے پر ڈالے اور نہ سینہ نکال کر اکڑ کر چلے ۔ اور نہ سعی میں میلین اخضرین کے درمیان دوڑے؛ بلکہ اپنی چال سے چلے۔ ہجوم کے وقت صفا و مروہ پر بھی نہ چڑھے اور نہ ہجوم کے وقت حجر اسود کو چھوئے، نہ ہاتھ لگائے ، نہ بوسہ دے اور طواف کے بعد دو رکعت مقام ابراہیم میں بھی نہ پڑھے؛ بلکہ جہاں میسر ہو ، وہیں پڑھے۔ 
مسئلہ: عورت کو بالوں کو منڈوانامنع ہے ، اس لیے احرام کھولتے وقت تمام بال کو پکڑ کر ایک انگلی سے کچھ زیادہ بال اپنے ہاتھ سے قینچی سے کاٹ ڈالے، تاکہ سر کے بالوں کا اکثر حصہ کٹ جائے۔ 
مسئلہ: حیض کی حالت میں عورت کو طواف کے علاوہ باقی تمام افعال کرنا جائز ہیں۔ 
عن عائشۃؓ قالت: خرجنا مع النبی ﷺ لانذکُرُ الا الحجَ، فلما کُنَّا بِسَرِفٍ طمثتُ فدخلَ النبی ﷺ و أنا ابکی، فقال: لعلکِ نفستِ؟ قلتُ: نعم، قال: فان ذالک شئی کتب اللّٰہُ علیٰ بناتِ اٰدمَ فافعلی ما یفعلُ الحاجُّ غیرَ أن لاتطوفی بالبیتِ حتّٰی تطھری۔ (متفق علیہ)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہم حج ہی کا ذکر کرتے تھے ، پس جب موضع سرف پہنچے تو مجھے حیض آگیا۔ میرے پاس نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں رو رہی تھی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ شاید تم کو حیض آگیا ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر مقرر کردیا ہے ۔ سو جو حاجی کرتے ہیں وہ سب کرو ؛مگر یہ کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرو ، یہاں تک کہ پاک ہوجاؤ۔
اگر احرام سے پہلے حیض آجائے، تو غسل کرکے احرام باندھ لے جیسا کہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ سے آپ ﷺ نے فرمایا : اور سب افعال کرے ؛ البتہ طواف اور سعی نہ کرے ۔ پاک ہونے کے بعد طواف اور سعی کرے، اس لیے کہ سعی بغیر طواف کے درست نہیں ہے؛ البتہ اگر طواف سے فارغ ہونے کے بعد حیض آیا تو اب سعی کرسکتی ہے۔ 
مسئلہ: حیض کی وجہ سے طواف زیارت اگر اپنے وقت سے متاخر ہوجائے تو دم واجب نہ ہوگا۔
مسئلہ: اگر واپسی کے وقت حیض آگیا اور طواف ووداع نہ کرسکی، تب بھی دم واجب نہ ہوگا۔ 
عن ابن عباسؓ قال: أمَرَ الناسَ أن یکونَ أخرعھدھم بالبیت الا انہ خفف عن المرأۃ الحائض (متفق علیہ)
حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ لوگوں کو حکم دیا کہ ان کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو، مگر یہ کہ حائضہ عورت سے اس کی تخفیف ہوگی (بخاری ، مسلم)
یعنی حائضہ پر طواف وداع واجب نہیں اور باقی تمام آفاقیوں پر واجب ہے۔ بہتر ہے کہ حائضہ بھی پاک ہوکر طواف کرے۔ 
خنثیٰ مشکل کا احرام
خنثیٰ مشکل یعنی جس کا مرد اور عورت ہونا معلوم نہ ہوتا ہو ، تمام احکام میں عورت کی طرح ہے ، اس کو کسی اجنبی مرد یا عورت کے ساتھ تنہائی جائز نہیں ہے۔ 

11 Aug 2018

بالغ اور مجنون کے احرام کا بیان


بالغ اور مجنون کے احرام کا بیان

قسط نمبر (21)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
اگر نابالغ بچہ ہوشیار اور سمجھ دار ہے تو وہ خود احرام باندھے اور افعال حج ادا کرے ۔ اور اگر چھوٹا ناسمجھ ہے تو اس کا ولی اس کی طرف سے احرام باندھے۔ 
مسئلہ: ناسمجھ بچہ اگر اپنے سے احرام باندھے اور افعال حج ادا کرے تو اس کا نہ احرام صحیح ہے اور نہ افعال حج؛ البتہ سمجھ دار بچہ کا احرام باندھنا بھی صحیح ہے اور افعال حج بھی۔ 
مسئلہ: سمجھ دار بچہ کی طرف سے ولی احرام نہیں باندھ سکتا ہے ۔ 
مسئلہ: سمجھ دار بچہ جو افعال خود کرسکتا ہے وہ خود کرے اور جو خود نہیں کرسکتا ہے، اس کو اس کا ولی کردے؛ البتہ نماز ، طواف بچہ خود پڑھے ، ولی نہ پڑھے۔ 
مسئلہ: سمجھ دار بچہ خود طواف کرے اور ناسمجھ کو ولی گود میں لے کر طواف کرائے ۔ یہی حکم وقوف عرفات اور سعی و رمی وغیرہ کا ہے۔ 
مسئلہ: ولی کو چاہیے کہ بچہ کو ممنوعات احرام سے بچائے ؛ لیکن اگر کوئی فعل ممنوع بچہ کرے تو اس کی جزا کسی پر واجب نہ ہوگی، نہ بچہ پر ، نہ ولی پر۔ 
مسئلہ: جب بچہ کی طرف سے احرام باندھا جائے تو اس کے بدن سے سلے ہوئے کپڑے نکال دیے جائیں اور چادر اور لنگی اس کو پہنائی جائے۔ 
مسئلہ: بچہ پر حج فرض نہیں ہے ، اس لیے یہ حج نفلی ہوگا۔ 
مسئلہ: بچہ کا احرام لازم نہیں ہوتا۔ اگر تمام افعال چھوڑ دے یا بعض چھوڑ دے تو اس پر کوئی جزا اور قضا لازم نہ ہوگی۔ 
مسئلہ: جو ولی اقرب ساتھ ہو وہ بچہ کی طرف سے احرام باندھے، مثلا باپ اور بھائی دونوں ساتھ ہیں تو باپ کو احرام باندھنا اولیٰ ہے ۔ بھائی وغیرہ باندھ لے گا تب بھی جائز ہے۔ 
مسئلہ: مجنون کا حکم تمام احکام میں ناسمجھ بچہ کی طرح ہے ۔ اگر کوئی احرام کے بعد مجنون ہوا ہے تو ممنوعات احرام کے ارتکاب سے اس پر جزا لازم ہونے میں اختلاف ہے ۔ احتیاطا جزا دیدے، تو بہتر ہے، اس کا حج بلا خلاف صحیح ہوجائے گا۔ اگر احرام سے پہلے مجنون تھا اور اس کے ولی نے اس کی طرف سے احرام باندھا اور پھر وہ ہوش میں آگیا، تواگر اس نے ہوش میں آکر خود دوبارہ احرام باندھ لیااور افعال حج ادا کیاتو حج فرض ادا ہوجائے گا۔
قسط نمبر (22) کے لیے کلک کریں

10 Aug 2018

حج

حج
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
mediajahazi.blogspot.com
شریعت اسلامی میں مقررہ عبادتوں کی ہیئتوں پر غور کیا جائے، تو تین طرح کی عبادتیں نظر آتی ہیں: (۱) بدنی عبادت، جیسے کہ نماز، ورزہ، ذکر تلاوت وغیرہ۔ (۲) مالی عبادت، جیسے کہ زکوٰۃ، صدقات، فطرہ وغیرہ۔ (۳) بدنی و مالی عبادت، جیسے کہ حج۔ حج ایک ایسی عبادت ہے، جس میں اپنا وجود بھی لگانا پڑتا ہے اور اس میں مال بھی خرچ ہوتا ہے۔ حج کے ستر ایام ہیں، جس کی شروعات یکم شوال سے ہوتی ہے اور دس ذی الحجہ کو تکمیل پذیر ہوتا ہے۔ حج سن ۹ ؍ ہجری میں فرض ہوا ہے۔ اس کے فرض ہونے کی پانچ شرطیں ہیں: (۱) مسلمان ہونا۔ (۲) عقل مند ہونا۔ (۳) بالغ ہونا۔ (۴) آزاد ہونا۔ (۵) استطاعت ہونا۔ مرد و عورت دونوں کے لیے استطاعت میں چار چیزیں شامل ہیں: (۱) اخراجات سفر کا ہونا۔ (۲) تندرست ہونا۔ (۳) راستہ مامون ہونا۔ (۴) جانا ممکن ہونا۔ اور صرف عورتوں کے لیے دو چیزیں اور استطاعت میں شامل ہیں: (۱) محرم ساتھ میں ہونا۔ (۲) حالت عدت میں نہ ہونا۔ 
فضائل حج
حج کی فضیلتوں پر مشتمل احادیث کا خلاصہ کیا جائے، تو تقریبا آٹھ قسم کے فضائل سامنے آتے ہیں، جن میں : 
(۱)سابقہ تمام گناہ یک بیک معاف ہوجاتے ہیں۔ 
(۲) حج زندگی کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ 
(۳) حاجی کے تلبیہ میں دیگر مخلوق بھی ہم نوائی کرتی ہے۔ 
(۴) ایک حاجی کو چار سو لوگوں تک کی سفارش کا حق ملتا ہے۔ 
(۵) حج میں خرچ کرنے کا ثواب جہاد میں خرچ کرنے کے برابر ملتا ہے، یعنی ایک کا بدلہ سات سو ملتا ہے۔ 
(۶) حج کرنے والا کبھی غریب نہیں ہوسکتا۔ 
(۷) حج بوڑھے، کمزور اور عورتوں کے لیے جہاد ہے۔ 
(۸) حج و عمرہ کے لیے جاتے ہوئے راستے میں انتقال ہوجائے، تو بلاحساب جنت میں جائے گا۔ 
فضیلت نمبر(۱) 
ابنشماسہ مَہری فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرو ابن العاصؓ بستر مرگ پر تھے، تو میں عیادت کے لیے حاضر ہوا۔میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کیا ہوا ہے اور زارو قطار رو رہے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر ان کے بیٹے نے پوچھا کہ ابا جان! آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے ایسی ایسی خوش خبری نہیں دی ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارا سب سے افضل عمل تو یہ ہے کہ ہم نے گواہی دی کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ پھر فرمایا کہ میری زندگی کے تین حصے ہیں۔
پہلا حصہ تو یہ ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سخت نفرت کرتا تھا اور میری دلی تمنا تھی کہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ مجھے مل جائیں، تو میں انھیں قتل کردوں۔ اگر ایسی حالت میں موت آجاتی، تو بالیقین میں جہنمی ہوتا۔ 
دوسرا حصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عظمت اور محبت کو میرے دل میں ڈال دیا۔ تومیں کاشانہ نبوی ﷺ پر حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھایا، لیکن میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ یہ دیکھ کر سرکار کائنات ﷺ نے فرمایا کہ عمرو کیا ہوا؟ تو میں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ نبی امی فداہ امی و ابی نے فرمایا کہ کیا شرط رکھنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا کہ میرے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، تبھی میں اسلام قبول کروں گا۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
اما علمت یا عمرو! ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ، و ان الھجرۃ تھدم ماکان قبلھا، و ان الحج یھدم ماکان قبلہ۔ (شرح السنۃ،کتاب الایمان،باب من مات ولایشرک باللہ شیئا)
ائے عمرو کیا تمھیں پتہ نہیں ہے کہ اسلام پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، ہجرت بھی سابقہ تمام گناہ معاف کردیتی ہے اور حج سے بھی سابقہ تمام گناہ ختم کردیے جاتے ہیں۔
چنانچہ میں نے اسلام قبول کرلیا۔ جس وقت اسلام قبول کیا، تو میری نگاہ میں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی اور محبوب نہیں رہ گیا تھا۔ کلمہ پڑھتے ہی آپ ﷺ کی عظمت و جلال میرے وجود پر اس قدر چھا گیا کہ میرے اندر رسول اللہ ﷺ کو نگاہ بھر دیکھنے کی بھی سکت نہیں رہ گئی۔ اگر اس حالت میں مجھے موت آجاتی، تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔ 
میری زندگی کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد ہمارے اوپر کچھ ذمہ داریاں دی گئیں، جن کے ادا کرنے میں کوتاہیاں سرزد ہوئیں، اس لیے اب پتہ نہیں کہ میرا کیا ہوگا۔ 
پھر آپؓ نے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر مرجاؤں تو رونے والی اور آگ میرے جنازے کے ساتھ نہ ہو۔ اور دفن کے بعد میری قبر پر اتنی دیر ٹھہرنا، جتنی دیر میں ایک اونٹ کو ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کردیا جاتا ہے تاکہ تمھاری قربت سے مجھے انسیت ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ حج کرنے سے پچھلی زندگی کے سبھی گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ 
فضیلت نمبر (۲) 
عن ابی ھریرۃؓ قال: سمعتُ رسول اللّٰہ ﷺ یقول: من حج للّٰہ، فلم یرفث، ولم یفسق، رجع کیوم ولدتہ امہ۔ (بخاری، کتاب الحج، باب فضل حج مبرور)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کا ارشاد سنا کہ جو شخص صرف اللہ کے لیے حج کرے، جس میں نہ توفحش گوئی کرے اور نہ ہیلڑائی جھگڑا،تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسے کہ وہ آج ہی پید اہوا ہو۔ جس طرح ایک دن کا بچہ کوئی گناہ نہیں کرسکتا، نہ ہاتھ سے ، نہ پیر سے اور نہ ہی جسم کے کسی دوسرے اعضا سے، اسی طرح حاجی کی زندگی معصومیت کا عکس بن جاتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ حج کو درج بالا تینوں شرطوں کے ساتھ کیا ہو۔ اس حدیث کی تشبیہ پر غور کریں، تو یہ پہلو سامنے آتے ہیں کہ 
(۱) انسانی زندگی میں سب سے زیادہ مشکل کام زچگی کا عمل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج بھی تمام عبادتوں میں سب سے مشکل کام ہے۔ 
(۲) پیدائش کے وقت زچہ بچہ دونوں زندگی اور موت کے مرحلے سے گذرتے ہیں۔ اسی طرح حج کا بھی معاملہ ہے کہ کیا پتہ کہ بری، بحری اور فضائی سفر حادثہ سے مامون رہے گا یا نہیں، یا حج کو زندگی ملے گی یا نہیں، یعنی قبول ہوگا کہ نہیں۔ 
(۳) پیدائش کے بعد زچہ بچہ دونوں کی طرز زندگی بدل جاتی ہے۔ اسی طرح حج کے بعد ایک حاجی کی زندگی میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی، تبھی حج مقبول ہونے کی امید ہے۔ 
(۴) ایک دن کا بچہ اپنے کسی بھی عضو سے گناہ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ حاجی کی بھی شان یہی ہونی چاہیے کہ اسے گناہوں سے سخت نفرت ہوجائے۔ 
(۵) زچہ بچہ دونوں انتہائی نگہ داشت کے محتاج ہوتے ہیں۔ حاجی کو بھی اپنے حج کے تعلق سے قدم قدم پر محتاط اور ہر عمل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
(۶) زچہ بچہ کی سلامتی کے بعد ساتویں دن عقیقہ کیا جاتا ہے۔ حج سے لوٹنے کے بعد مقبول حج کی تین علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ مہمان نواز بن جاتا ہے۔
یہ تمام اشارات شاہد ہیں کہ حج انسانی زندگی کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ اور نقطہ انقلاب ہے، جہاں سے حاجی کی زندگی کی ایک نئی شروعات ہوتی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو گناہوں کی کثافت سے پاک و صاف ہو اور اس کی رحمت و برکت سے دوسرے لوگ بھی بہرہ مند ہوں۔ 
فضیلت نمبر (۳) 
جب ایک حاجی حج کے لیے تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں بائیں اینٹ پتھر درخت جو مخلوق بھی ہوتی ہے زمین کی آخری حد تک اس کے تلبیہ کی ہم نوائی کرتی ہے۔ حضرت سہل ابن سعدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ 
ما من مسلم یُلبی الا لبّٰی من عن یمینیہ او عن شمالہ من حجراو شجر او مدر، حتیّٰ تنقطع الارض من ھٰھنا و ھٰھنا۔ (سنن الترمذی، باب ما جاء فی فضل التلبیۃ)
فضیلت نمبر(۴)
حاجیوں کو اپنی قوم کے چار سو لوگوں کی سفارش کا حق مل جاتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ 
الحاج یشفع فی اربع مءۃ من قومہ۔ (مصنف عبد الرزاق، ج؍۵، ص؍ ۷)
فضیلت نمبر(۵) حج میں خرچ کرنے کااتنا ہی ثواب ہے ، جتنا کہ جہاد میں خرچ کرنے کا ثواب ہے، یعنی ایک کا بدلہ سات سو گنا ملتا ہے۔ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ 
النفقۃ فی الحج، کالنفقۃ فی سبیل اللّٰہ بسبع مءۃ ضعف۔ (مسند احمد، حدیث بریدۃ الاسلمی)
اس سے معلوم ہوا کہ حج کے سفر میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اور اخراجات سے طبیعت پر گرانی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے کہ آدمی کے کریم ہونے کے آثار میں سے یہ ہے کہ اس کے سفر کا توشہ عمدہ ہو یا سفر میں خرچ کرنے سے طبیعت پر بوجھ محسوس نہ ہو۔
فضیلت نمبر(۶)
حدیث میں وعدہ ہے کہ جو شخص حج کر لے گا وہ شخص کبھی بھی غریب نہیں ہوسکتا، اس لیے جمع پونجی کو سفر حج میں خرچ کرنے سے اس لیے گریز نہ کرے کہ یہ ختم ہوجائے گا ہم غریب ہوجائیں گے، بلکہ اس سفر میں حصول ثواب کے لیے خرچ اور بڑھا دینا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ
عن جابر بن عبدا للہ یرفعہ: ما امعر حاج قط، فقیل لجابر: ما الامعار؟ قال: ما افتقر۔ (شعب الایمان للبیہقی، باب ما امعر حاج قط)
فضیلت نمبر(۷) 
بوڑھوں ، کمزوروں اور عورتوں کا جہاد حج ہے۔ ان حضرات کو حج کرنے سے جہاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔ 
عن عائشۃؓ استاذنتُ النبی ﷺ فی الجھاد، فقال: جھادکن الحج۔ (بخاری، جہاد النساء)
فضیلت نمبر(۸)
حج کے لیے جارہا تھا کہ راستے میں ہی انتقال ہوگیا تو قیامت تک اس کے لیے حج کا اجر لکھا جائے گا۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ 
من خرج حاجا فمات، کتب لہ اجر الحاج الیٰ یوم القیامۃ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، قطعۃ من المفقود)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حج کی سعادت سے نوازے ، آمین۔ 

بیہوش اور مریض وغیرہ کے احرام کا بیان

بیہوش اور مریض وغیرہ کے احرام کا بیان

قسط نمبر (20)  

تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
احرام باندھنے کے وقت اگر کوئی شخص بیہوش ہوجائے، جیسا کہ جہاز میں ہوجاتا ہے، تو ساتھی کو چاہیے کہ اپنا احرام باندھ کر یا اس سے پہلے بیہوش کی طرف سے بھی احرام کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ لے ۔ جب ساتھی نے اس کی طرف سے احرام کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ لیا تو بیہوش کا احرام بندھ گیا۔ 
مسئلہ: بیہوش کی طرف سے احرام باندھنے کے لیے اس کے کپڑے نکالنا ضروری نہیں، کپڑے نکالے بغیر بھی احرام صحیح ہوجائے گا ؛ مگر اس کے کپڑے نکال لینا چاہیے تاکہ اس پر جزا لازم نہ آئے۔ 
مسئلہ: بیہوش کو جس کا احرام اس کے ساتھی نے باندھا ہے، جس وقت ہوش آجائے تو تعیین احرام کرکے باقی افعال حج خود ادا کرے۔ اور ممنوعات احرام سے بچے۔ اور اگر ہوش نہ آئے تو جس شخص نے اس کی طرف سے احرام کی نیت کی ہے ، وہ یا اور کوئی دوسرا شخص وقوف عرفہ اور طواف وغیرہ اس کی طرف سے نیت کرکے ادا کرے گاتو حج ہوجائے گا۔ بیہوش کو ساتھ لے جانا ضروری نہیں ؛ مگر بہتر یہ ہے کہ ساتھ لے جائے ۔ اور جو شخص ایسے بیہوش کی طرف سے طواف اور سعی کرے ، اس کو اپنا طواف اور سعی علاحدہ کرنی ہوگی۔ ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی دونوں کی طرف سے کافی نہ ہوگی۔ البتہ اگر بیہوش کو ساتھ اٹھا کر لے جائے اور اپنی اور اس کی دونوں کی نیت کرے تو اس صورت میں ایک ہی طواف اور سعی کافی ہوگی، اس لیے کہ جب بیہوش پیٹھ پر سوار ہے تو وہ خود طواف کر رہا ہے ، اسی طرح سعی میں شریک ہے۔ 
مسئلہ: اگر بیہوش سے کوئی فعل ممنوعات احرام میں سے ہوگیا ، اگرچہ بلا ارادہ اور بے خبری میں ہوا ہے، اس کی جزا بیہوش پر ہی لازم آئے گی ۔ اس پر لازم نہیں آئے گی جس نے اس کی طرف سے احرام باندھا ہے ۔ 
مسئلہ: جو شخص اپنا احرام باندھے اور بیہوش کی طرف سے بھی احرام باندھے، اگر وہ ممنوعات احرام کرے گا، تو صرف ایک ہی جزا اس پر واجب ہوگی ، اور وہ اپنے احرام کی ہوگی۔ 
مسئلہ: اگر احرام کے بعد کوئی شخص بیہوش ہوجائے، تو اس کو عرفات اور طواف وغیرہ میں ساتھ لے جانا ضروری ہے ، دوسرے شخص کی نیابت کافی نہ ہوگی۔ اور جب ایسے بیہوش کو کوئی دوسرا شخص طواف کرائے تو کرانے والے کے لیے طواف کی نیت کرنی شرط ہے ۔ 
مسئلہ: اگر بیہوش کو خود اٹھا کر طواف کرایا اور نیت طواف کی اپنی طرف سے کرلی تو دونوں کو ایک طواف کافی ہوجائے گا۔ 
مسئلہ: اگر اٹھانے والے حج کا طواف کرتا ہے اور بیہوش کو عمرہ وغیرہ کا طواف کراتا ہے تب بھی جائز ہے، نیت مختلف ہونے کا کچھ مضائقہ نہیں۔ 
مسئلہ: کوئی مریض بیہوش نہ ہواور وہ احرام کے وقت سو جائے اور کسی دوسرے کو احرام باندھنے کے لیے کہہ دے اور دوسرا اس کی طرف سے احرام باندھ لے تو احرام صحیح ہوجائے گا۔ جاگنے کے بعد باقی افعال حج خود ادا کرے اور ممنوعات احرام سے بچے ۔ اور اگر اس کے حکم کے بغیر دوسرے نے احرام باندھ لیا تو اس کا احرام صحیح نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر ایسے مریض کو کوئی دوسرا شخص طواف سونے کی حالت میں کرائے تو اس کے لیے بھی اس کا حکم اور فورا طواف کرانا شرط ہے ۔ اگر اس کے حکم کے بغیر یا کچھ دیر کے بعد طواف کرایا تو طواف نہ ہوگا۔ 
قسط نمبر(21) کے لیے کلک کریں

9 Aug 2018

تلبیہ کے مسائل


تلبیہ کے مسائل

قسط نمبر (19)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
تلبیہ یعنی لبیک کا زبان سے کہنا شرط ہے ، صرف دل سے کہنا کافی نہیں ہے۔ 
مسئلہ: گونگے کو زبانی ہلانی چاہیے اگرچہ الفاظ ادا نہ ہو۔ 
مسئلہ: ہر ایسا ذکر جس سے حق تعالیٰ کی تعظیم مقصود ہو، تلبیہ کے قائم مقام ہوسکتا ہے، جیسے لا الٰہ الا اللہ ۔ الحمد للہ۔ سبحان اللہ۔ اللہ اکبر وغیرہ۔ 
مسئلہ: تلبیہ اردو، فارسی، ترکی وغیرہ سب زبانوں میں جائز ہے۔ اگرچہ عربی میں بھی کہہ سکتا ہے ، مگر عربی میں کہنا افضل ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: تلبیہ کے خاص الفاظ جو پہلے بیان ہوئے ، ان کا کہنا سنت ہے شرط نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا ذکر احرام کے وقت کرے گا، تو احرام صحیح ہوجائے گا، لیکن تلبیہ کا چھوڑنا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: احرام باندھتے وقت تلبیہ یا تلبیہ کے قائم مقام کا ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے اور تکرار سنت۔ جب تلبیہ پڑھے ، تین مرتبہ پڑھے۔ 
مسئلہ: زمان و مکان اور حالات کے تغیر کے وقت تلبیہ پڑھنا مستحب ہے ، اس لیے صبح، شام، نماز کے بعد، کسی سے ملتے، جدا ہوتے وقت، اوپر نیچے ہوتے ہوئے، سوار ہوتے ہوئے، اترتے ہوئے تلبیہ پڑھنا چاہیے۔ (ہدایہ)
حضرت سفید ابن زبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت احرام باندھا، تو آپﷺ کے تلبیہ کے بارے میں صحابہ کرام کے اختلاف سے حیران ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا میں اس کو سب سے اچھا جانتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے تو صرف ایک حج کیا ہے اور یہیں سے وہ لوگ مختلف ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ حج کے لیے نکلے ، جب ذوالحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھی، تو آپ ﷺ نے اسی مجلس میں احرام باندھا۔ آپ ﷺجب دو رکعت سے فارغ ہوئے، تو آپ ﷺنے حج کا تلبیہ پڑھا، تو بہت سے لوگوں نے اس کو سنا اور میں نے بھی اس کو یاد رکھا ۔ پھر آپ ﷺسوار ہوئے اور اونٹنی کھڑی ہوئی، تو پھر آپ ﷺنے تلبیہ پڑھا۔اور ایک قوم نے اس کو آپ ﷺ سے محفوظ کیا۔ اور یہ اس لیے کہ لوگ گروہ در گروہ آرہے تھے ، تو جب آپﷺ کو اونٹنی لے کر کھڑی ہوئی اور آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھا،تو لوگوں نے سنا اور انھوں نے کہنا شروع کیا کہ جس وقت اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوئی، اس وقت آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ چلے۔ جب میدان کی بلندی پر چڑھے ،تو پھر آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھا، اس کو ایک قوم نے آپ ﷺ سے سنا اور انھوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ﷺ نے احرام کا تلبیہ اس وقت پڑھا جب کہ میدان کی بلندی پر چڑھے۔ خدا کی قسم ! آپ ﷺ نے احرام کا تلبیہ تو نماز کی جگہ ہی پر پڑھا اور اس وقت بھی پڑھا جب کہ اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوئی۔ اور اس وقت بھی پڑھا جب میدان کی بلندی پر چڑھے، تو جس نے ابن عباسؓ کے قول کو لیا، تو اس نے مصلیٰ ہی پر احرام کا تلبیہ پڑھا، جب کہ دو رکعتوں سے فارغ ہوئے۔ (ابو داود ، حاکم)
مسئلہ: تلبیہ پڑھنے کے درمیان کسی نے سلام کیا، تو اس درمیان میں جواب دینا جائز ہے ، واجب نہیں ؛ مگر بہتر یہ ہے کہ تلبیہ ختم کرکے جواب دے ، بشرطیکہ سلام کرنے والا چلا نہ جائے۔ 
مسئلہ: فرض اور نفل نماز کے بعد بھی تلبیہ پڑھنا چاہیے ۔ ایام تشریق میں پہلے تکبیر تشریق کہے۔ پھر تلبیہ پڑھے۔ اگر تلبیہ پڑھا تو تکبیر ساقط ہوجائے گی ۔ مگر تلبیہ دسویں تاریخ کی رمی کے ساتھ ساقط ہوجاتا ہے ، اس لیے باقی ایام تشریق میں صرف تکبیر ہوگی۔ 
مسئلہ: اگر مسبوق امام کے ساتھ تلبیہ کہہ لے گاتو نماز فاسد ہوجائے گی ۔ 
مسئلہ: تلبیہ کی کثرت مستحب ہے۔ 
مسئلہ: اگر چند آدمی ساتھ ہوں تو ایک ساتھ مل کر تلبیہ نہ کہیں، علاحدہ علاحدہ کہیں۔ 
مسئلہ: تلبیہ میں آواز بلند کرنا مسنون ہے، لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ خود کو یا دوسرے نمازیوں اور سونے والوں کو نقصان پہنچے۔ 
قالَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ: أتانی جبرئیلُ فاَمَرَنی أن اٰمُرَ أصحابی أن یرفعوا أصواتَھُم بالاِھلالِ أو التلبیۃِ (رواہ مالک والترمذی و ابو داود والنسائی وابن ماجہ والدارمی و صححہ الترمذی وابن حبان)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے ، پس انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے اصحاب کو حکم دوں کہ تلبیہ پڑھنے میں اپنی آواز کو بلند کریں۔ 
عنایہ میں ہے کہ ہمارے نزدیک دعا اور اذکار میں اخفا مستحب ہے، لیکن اگر اس کے اعلان میں دینی مقصد ہو، جیسے اذان ، خطبہ اور ان کے علاوہ ۔ تلبیہ سے بھی مقصد دین اسلام کی سربلندی کا اظہار ہے ، اس لیے زور سے پڑھنا مستحب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
افضلُ الحج والعمرۃ العَجُّ والثَّجُّ۔ (متفق علیہ)
بہترین حج بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا اور خون بہانا یعنی قربانی کرنا ہے۔ 
مسئلہ: مسجد حرام ، منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں بھی تلبیہ پڑھو، لیکن مسجد میں زور سے نہ پڑھو۔ 
مسئلہ: طواف اور سعی میں تلبیہ نہ پڑھو۔
مسئلہ: تلبیہ کے الفاظ میں زیادتی کرنا مستحب ہے ، لیکن زیادہ درمیان میں نہ کریں؛ بلکہ بعد میں کریں۔ 
کانَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ یرکعُ بذی الحلیفۃَ اَھَلَّ بِھٰؤلاءِ الکلماتِ و یقولُ: لَبَّیْکَ ألْلّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرَ فِیْ یَدَیْکَ والرَّغْبِاءُ اِلَیکَ والْعَمَلُ۔ (متفق علیہ)
رسول اللہ ﷺ ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھتے اور 
لَبّیکَ أللّٰھُمَّ لَبّیکَ، لَبَّیکَ لا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ۔
کے ساتھ کہتے: 
لَبَّیْکَ ألْلّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرَ فِیْ یَدَیْکَ والرَّغْبِاءُ اِلَیکَ والْعَمَلُ۔
مسئلہ: تلبیہ کے الفاظ میں کمی کرنا مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: جب کوئی عجیب چیز نظر آئے تو یہ کہے:
لَبَّیْکَ اِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْاٰخِرَۃُ۔ 
مسئلہ: عورت کو تلبیہ زور سے پڑھنا کہ اجنبی مرد سن لے، منع ہے ۔ 
مسئلہ: تلبیہ حج میں رمی کرنے کے وقت تک پڑھا جاتا ہے۔ دسویں ذی الحجہ کو جب جمرہ عقبیٰ کی رمی شروع کرے تو تلبیہ بند کردے، اس کے بعد نہ پڑھے۔ 
اِنَّ النبیَ ﷺ مازالَ یُلَبِّی حتّٰی رَمی جمرۃَ العَقْبَۃِ (متفق علیہ و زاد ابن ماجہ فلما رماھا قطع التلبیۃ) 
نبی کریم ﷺ ہمیشہ تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ کی رمی کی یہ تو بخاری مسلم میں ہے اور ابن ماجہ نے اتنا زیادہ کیا ہے کہ پھر جب اس کی رمی کی تو تلبیہ بند کردیا ۔ اور عمرہ میں طواف شروع کرنے تک پڑھا جاتا ہے۔ 
تلبیہ کی فضیلت کا بیان
تلبیہ پڑھنے کا بڑا ثواب ہے۔ حضرت سہل ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 
ما مِنْ مُسْلِمٍ یُلبِّی اِلَّا لَبّٰی مَنْ عَنْ یَمِینِہِ و شِمالِہِ مِنْ حَجَرٍ وَ شَجَرٍ اوْ مَدَرٍ حَتّٰی تَنقِطِعُ الارضُ مِن۔ ھٰھُنا وَ ھٰھُنا۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجۃ)
جب کوئی مسلمان تلبیہ پڑھتا ہے ، پتھر یا درخت یا ڈھیلا جو بھی دائیں بائیں ہوتا ہے، وہ بھی تلبیہ پڑھتا ہے؛ یہاں تک کہ زمین ادھر سے ادھر منقطع ہوجاتی ہے ، یعنی تلبیہ کا سلسلہ دائیں سے بائیں زمین کی آخری حد کو پہنچ جاتی ہے ۔ 
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تلبیہ پڑھنے والے ، تکبیر کہنے والے جنتی ہیں ۔ جب کوئی بندہ حج میں تلبیہ پڑھتا ہے اور تکبیر کہتا ہے تو اس کو بشارت دی جاتی ہے ۔ کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا یہ بشارت جنت کی ہوتی ہے ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ، جنت کی۔ (طبرانی)
احرام کی نماز کا بیان
دو رکعت نفل احرام کی نیت سے ایسے وقت میں پڑھنا مسنون ہے کہ وقت مکروہ نہ ہو۔
مسئلہ: فرض نماز کے بعد اگر احرام کی نیت کرلی تو یہ بھی کافی ہے ؛ لیکن مستقل دو رکعت نفل پڑھنا افضل ہے۔ 
مسئلہ: جس میقات سے احرام باندھنا ہے، اگر اس جگہ کوئی مسجد ہے تو اس میں نماز پڑھ کر احرام باندھنا مستحب ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے ذوالحلیفہ کی مسجد میں نماز پڑھی تھی۔ 
مسئلہ: بغیر نماز پڑھے احرام باندھنا جائز ہے، لیکن مکروہ ہے ۔ اگر وقت مکروہ ہے تو پھر مکروہ نہیں ۔ بغیر نماز کے احرام باندھ لے۔ 
مسئلہ: عورت کو حیض و نفاس کی صورت میں غسل یا وضو کرکے قبلہ رو بیٹھ کر کے تلبیہ پڑھ لینا چاہیے، نماز نہ پڑھے۔ 
مسئلہ:احرام سے پہلے جو نماز احرام باندھنے کے لیے پڑھے، وہ کھلے سر نہ پڑھے؛ البتہ احرام باندھ کر جو نماز پڑھے، وہ کھلے سر پڑھے اور جب تک احرام رہے ، اسی طرح پڑھے۔ احرام کی حالت میں نماز میں بھی سر ڈھانکنا منع ہے۔