19 Apr 2018

خودی کی شناخت


محمد یاسین جہازی قاسمی، شعبہ مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علمائے ہند

خودی کی شناخت
انسان کے اندر دو چیزیں ہیں: ایک ذات، دوسری صفات۔ اور ان دنوں کے اعتبار سے اس کی دو کٹیگری ہیں۔ ذات کے اعتبار سے اولو الالباب اور غیر اولوالالباب میں تقسیم ہے۔ اور صفات کے اعتبارسے وہ عالم اور جاہل کہلاتا ہے۔ 
ذات سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز انسان اپنے اندر خود سے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ مرد و عورت کی صنف اس کی واضح مثال ہے، کیوں کہ انسان اپنی خواہش یا مرضی سے لڑکا یا لڑکی کی ذات بن کر جنم نہیں لے سکتا ۔ ہندووں کے یہاں تو بھگوان تک پیدا ہوتے ہیں، جس سے ان کا سراسر خلاف فطرت ہونا واضح ہوجاتا ہے ، کیوں کہ جو بھگوان دوسروں کو پیدا کرنے کا مالک و مختار ہوتا ہے، خود اس کو کسی انسان سے جنم لے کر بچپن اور انسانوں کی تمام کمزوریاں مول لینے کی کیا ضرورت ہے۔ صفات کا مطلب یہ ہے کہ انسان بعد از پیدائش اپنے اندر کچھ صلاحتیں پیدا کرنے میں مالک و مختار ہے۔ اگر کسب و کوشش کرے گا تو وہ چیز اسے حاصل ہوجائے گی، نہیں کرے گا، تو محروم رہے گا۔ عالم ، جاہل، بے ہنر، باکمال ؛ یہ سب اس صفت کے مظاہر ہیں۔ 
شریعت اسلامی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان ذاتیات کی حیثیت کے مطابق فرائض کا مکلف ہوتا ہے ۔ اگر وہ صاحب عقل و دانش ہے، تو اس کے ساتھ سبھی فرائض وابستہ ہیں؛ لیکن اگر وہ سفیہ العقل ہے تو وہ کسی بھی فرائض کا ذمہ دار نہیں۔ اور اگر کوئی درمیانی درجہ کا سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو وہ اسی اعتبار سے مکلف ہوتا ہے ۔ اور صفات کا کام یہ ہوتا ہے کہ اسے مقام و منزلت بخشتی ہیں۔ چنانچہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ عالم کا مقام و مرتبہ اس سے جدا ہوتا ہے جو جاہل اور گنوار کا ہوتا ہے ۔
اس قاعدہ کلیہ کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے خود کی ذات و صفات پر غور کرے اورپھر یہ طے کرے کہ ہمارے فرائض و واجبات کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ اور پھر اسی اعتبار سے اپنے دائرہ کار کا تعین کرے۔ تدبر و تفکر کے بعد اپنا مقام و مرتبہ اور فرائض سمجھ میں آجائے ،تو ان کی انجام پذیری میں لگ جائے، اس حوالے سے نہ تو اپنے فرض منصبی سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی اپنے دائرہ کار کو لانگھنے کی کوشش کرے۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض کو پہچان کر اپنے اپنے دائرہ عمل میں محدود رہے، تو یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ اس کائنات کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکے گا، لیکن اگر جہاں وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے حد پار کرتا ہے، تو وہ خودبھی گرفتار بلا ہوتا ہے اور دوسروں کے بھی چین و سکون کو غارت کرتا ہے۔ 
قیادت کے مسئلے میں نااہل کے مشورے، نا اہل فرد سے قیادت کی توقع، اپنی اوقات سے باہر کی لاف زنی اور لاف زنی میں بے وجہ الجھنا ، عملی زندگی میں زیرو اور سوشل میڈیا پر ہیرو بننے کی کوشش، کرکٹ میں مہارت پیدا کرلینے پر ادب پر نقد کا حق جتانا اور ڈانس کی تعلیم حاصل کرلینے پر ماہر اسلامیات کہلانا اور اس قسم کے سیکڑوں حادثات کے پیچھے یہی اصول کار فرما ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذات کے مطابق فرائض و حدود کا تعین کیے بغیر دوسرے کے عملی میدان میں ٹانگے اڑانے لگتا ہے ۔ پھر اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے ، اسے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
راقم کا عندیہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند، مسلم پر سنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی ہند، ملی کونسل، مسلم پاپولر فرنٹ آف انڈیا، امارت شرعیہ ، مجلس علماء ہند اور اس طرح درجنوں ملی تنظیموں کی طرف سے کیے گئے کاموں پر بیجا تنقید و تبصرے؛ یہ سب اس کے عملی مظاہر ہیں۔ دین بچاؤ، دیش بچاؤ کانفرنس کی تازہ مثال آپ حضرات کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل فہیم اور فہم رشید عطا فرمائیں، تاکہ ہم اپنی ذات و صفات میں غوروفکر کرکے اپنے فرائض کو سمجھ سکیں اور اپنے ہی دائرہ میں رہ کر صرف اپنے فرائض کو ادا کریں اور دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑاکر چین و سکوت غارت کرنے کا سبب نہ بنیں۔ اللہم آمین یا رب۔

مآخذ و مصادر
۱۔ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوْ الْاَلْبَابِ (الزمر آیۃ ۹)
۲۔ رفع القلمُ عن ثلاثۃ: عن النائم حتیٰ یستیقظ، وعن المبتلیٰ حتیٰ یبرأ و عن الصبی حتیٰ یکبر (سنن ابی داود، کتاب الحدود،باب فی المجنون یسرق او یصیب حدا)


13 Apr 2018

خیر وشراور سنگم۔۔۔جنت جہنم اور دنیا۔۔۔ فرشتے، شیطان اور انسان۔۔۔ اورانجام؟

خیر وشراور سنگم۔۔۔جنت جہنم اور دنیا۔۔۔ فرشتے، شیطان اور انسان۔۔۔ اورانجام؟ 
محمد یاسین جہازی قاسمی
اس کائنات خداوندی میں اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا اور اخروی دنیا میں تین الگ الگ کیفتیں ہیں ۔ اور انھیں تین کیفیتوں کے لحاظ سے مخلوقات کی بھی تین قسمیں ہیں۔ اور نتیجہ کے اعتبارسے ان کے ٹھکانے بھی تین ہی ہیں۔ 
پہلی کیفیت کا نام خیر ہے۔ اس کی خاصیت بھلائی، امن و سکون اور چین و اطمئنان ہے۔ دوسری کیفیت شر ہے۔ یہ خیر کی ضد ہے، لہذا اس کی خصوصیات میں وہ تمام چیزیں پائی جائیں گی، جو خیر کے برعکس ہیں، یعنی جہاں بھی شر ہوگا، وہاں فتنہ و فساد اور امن و سکون کا فقدان ہوگا۔ تیسری کیفیت خیر و شر کا سنگم ہے۔ اور یہ کیفیت اپنے وجود میں اپنے دو نوں پہلووں کی خصوصیات پر مشتمل ہوگی ۔
ان کیفیات ثلاثہ کی مناسبت سے مقامات بھی تین ہیں: (۱) جنت : یہ کیفیت خیر کا مظہر جمیل ہے۔جس کے اندر خیر ہوگا، وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ اور جو جنت کا مستحق ہوگا، وہ خیر کی تمام خصوصیات سے لطف اندوز ہوگا۔ (۲) جہنم: یہ شر کی صفات سے متصف ہے ، لہذا یہ مقام شر اور شریروں کے لیے موزوں و مناسب ٹھکانہ ہے۔ (۳) خیرو شر کا سنگم: اس مقام کا دوسرا نام دنیا ہے۔ دنیا میں خیر کا وجود بھی ہے اور شر کا بھی۔اسی وجہ سے دنیا کو سراسر جنت بھی نہیں کہہ سکتے اور اسے جہنم کا بھی نام نہیں دے سکتے۔ 
پھر ان کیفیات و مقامات کی مناسبت سے مخلوقات بھی تین ہیں: 
(۱) فرشتے: تمام فرشتوں کی خمیر میں خیر محض ہے، ان کے اندر شر کی ذرا بھی صلاحیت نہیں ہے، لہذا یہ مقام خیر اور کیفیت خیر سے وابستہ مخلوق ہے۔ اگر کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ فرشتہ کی طرف سے یہ شر کا کام ہورہا ہے، تو دراصل وہ شر نہیں ہوتا، بلکہ اس کے پیچھے بہت بڑا خیر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ملک الموت روح قبض کرتے ہیں، جس سے ظاہر میں ایسا لگتا ہے کہ موت ایک مصیبت اور شر ہے، لیکن درحقیقت یہ خیر کے دروازے کھولنے کا سبب ہوتا ہے ۔ کیوں کہ اگر کسی انسان کو کبھی موت نہیں آئے گی، تو انسان حصول جنت اور رضائے الٰہی کے لیے جو عبادات و ریاضات انجام دیتے ہیں ، وہ سب لاحاصل اور فضول ہوجائیں گی۔ اسلام کے تمام اوامر و نواہی بھی لایعنی اور بیکار قرار پائیں گے۔ لہذا موت دراصل اللہ تعالیٰ سے ملاقات، اپنے اعمال کا پھل اور انعام پانے کا واحد ذریعہ ہے ، جو سراسر خیر ہے۔ اور یہی کار خیر ملک الموت انجام دیتے ہیں۔ المختصر فرشتے سے کبھی کسی شر کا سرزد ہونا محال ہے، لہذا تمام فرشتے جنتی ہیں۔ 
(۲) شیطان: اس کی سرشت میں شر شامل ہے، اس لیے اس کے اندر خیر کا کوئی بھی مادہ نہیں پایا جاتا۔ اگر کہیں شیطان کی کی طرف سے کوئی خیر نظر بھی آئے تو دراصل اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی اس سے بڑا شر اور ضرر پوشیدہ ضرور ہوگا، جیسا کہ حضرت امیر معاویہؓ کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ نماز کے سخت پابند تھے، حتیٰ کہ تہجد کی نماز بھی کبھی فوت نہیں ہوئی۔ ایک رات کا واقعہ ہے کہ وہ سوئے تو آنکھ نہیں کھلی اور تہجد کا وقت نکل گیا۔ جب بیدار ہوئے ، تو بہت نادم ہوئے اور فوت شدہ تہجد کے بدلے اس سے کئی گنا عبادت کی اور خوب توبہ تلہ کیا۔ اور ساتھ ہی عزم بھی کیا کہ اب آئندہ کبھی فوت نہیں ہونے دیں گے۔ اس کی اگلی رات اپنے محل میں سو رہے تھے ، تہجد کا وقت ہوا چاہتا تھا کہ ایک شخص آیا اور حضرت کے پیر ہلاکر کہنے لگے کہ اٹھیے اٹھیے، تہجد کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ بیدار ہوئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں میرے محل میں کیا کر رہے ہو، تو اس نے جواب دیا کہ میں آپ کا شبھ چنتک ہوں، تہجد کے لیے بیدار کرنے آیا ہوں کہ کہیں کل کی طرح آج پھر آپ کی تہجد نہ چھوٹ جائے۔ حضرت امیرؓ نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ سچ بتاؤ تم کون ہو؟ اگر تم میرے خیر خواہ ہوتے، تو کل بھی جگاتے ، آج ہی جگانے کیوں آئے ہو؟ تب اس نے بتایا کہ میں شیطان ہوں۔ آپ کی فرض نماز تو ہم چھڑوانے سے رہے، تہجد کی نماز چھڑوانے میں کل کامیاب ہوگئے تھے، لیکن اس کے بدلے آپ نے اتنی عبادات اوراس قدر توبہ تلہ کیا کہ تہجد کے ثواب سے کئی گنا مقام اور ثواب آپ کا بڑھ گیا، تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ آج خود ہی آکر آپ کو جگادوں ۔ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ آج بھی تہجد چھوٹ جائے اور اس کے بدلے اس سے کہیں زیادہ عبادات اور توبہ کرکے مزید ثواب کمالیں۔تب حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا کہ میں تبھی سمجھ گیا تھا کہ ایک شیطان کی طرف سے خیر کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر لعنت و ملامت کرکے اسے دھتکار دیا۔ بہر کیف ایک شیطان مجسم شر ہے اور مقام شر جہنم ہے، اس لیے تمام شیطان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (۳) انسان: اس کے اندر خیر و شر دونوں مادے موجود ہیں ۔ انسان کار خیر بھی انجام دیتا ہے اور کبھی کبھار شر کے کام بھی اس سے سرزد ہوجاتے ہیں۔
یہ قاعدہ کلیہ اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیتا ہے کہ انسانوں کا وجود ڈائریکٹ جنت یا جہنم میں کیوں نہیں ہوتا، اسے پہلے دنیا میں کیوں بھیجا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ دنیا میں ہمیں فرشتے یا شیطان ہماری مرضی کے مطابق ہمیں کیوں نظر نہیں آتے۔
بہر کیف کیفیت و مقام کی مناسبت سے انسان کو پہلے دنیا میں بھیجا جاتا ہے ، کیوں کہ یہی مقام اس کے خیر وشر کی صلاحیت کے اعتبار سے موزوں جگہ ہے۔ گویا دنیا کو اس کے لیے امتحان گاہ بنایا گیا ہے ۔ یہاں انسان ہر گھڑی امتحان میں ہے ۔ اس امتحان میں آزمائش اور پاس ہونے کے لیے اسے تین چیزیں دی گئی ہیں: عقل، دل اور نفس۔ نفس خواہشات پیدا کرکے دل کوعمل کے لیے برانگیختہ کرتا ہے۔ دل عموما جذباتی ہوتا ہے اور نفس کی پیدا کردہ خواہشات پر عمل درآمد کی کوشش کرتا ہے ؛ لیکن اس پر عمل کرنے سے پہلے عقل تدبر و تفکر کی دعوت دیتی ہے ۔ اگر دل عقل کی باتوں پر عمل کرتا ہے، تو دل نفس کی انھیں خواہشات پر عمل آوری کرتا ہے، جوملکیت اور خیر کے تحت ہوتا ہے اور اس طرح قوت شر و بہیمیت مغلوب ہوکر کار خیر انجام پاتے ہیں۔اور انسان اس امتحان میں کامیاب ہوتا چلا جاتا ہے۔اور کیفیت خیر کی مناسبت سے جنت ا س کا استقبال کرتی ہے۔ لیکن اگر نفس کے ابھارنے پر دل عقل سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام انجام دیتا ہے ، تو دل پر قوت بہیمیت غالب آجاتی ہے اور قوت خیر مغلوب ہوجاتی ہے، جس سے محض برے کام سرزد ہوتے ہیں اور اس طرح انسان برائیوں اور گناہوں کے دلدل میں پھنس جاتا ہے اور اس دنیاوی امتحان میں ناکام و نامراد ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں شر کی مناسبت سے اس کا ٹھکانہ جہنم قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے عقل و شعور سے کام لینے کی توفیق ارزانی کرے اور قوت خیر کو غالب کرتے ہوئے مقام خیر کا مستحق بنائے آمین۔ 
مصادر مضمون
۱۔ قرآن کریم 
وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً، وَإِلَیْنَا تُرْجَعُونَ۔ (الانبیاء، آیۃ ۳۵)
۲۔ حدیث پاک
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّیٰ اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ الْعَقْلَ قَالَ لَہُ: أَقْبِلْ، فَأَقْبَلَ، ثُمَّ قَالَ لَہُ: أَدْبِرْ، فَأَدْبَرَ، فَقَالَ: وَعِزَّتِي مَا خَلَقْتُ خَلْقًا ھُوَ أَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْکَ، بِکَ أُعْطِي، بِکَ الثَّوَابُ وَعَلَیْکَ الْعِقَابُ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،رقم الحدیث۸۰۱۲) 
۳۔ حجۃ اللہ البالغہ۔

مختصر حالات حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ

محمد یاسین جہازی
حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی مرحوم کی زندگی کے حالات سے متعلق کوئی تحریری دستاویز موجود ہے۔ معاصرین سے ملی زبانی روایات پر مبنی معلومات کے مطابق آپ اپنے گھر کی بھینس چرانے گئے تھے کہ اسی دوران بھینس کو ساتھیوں کو حوالے کرکے وہاں سے نکل گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آپ علاقے کے ایک قدیم ادارہ مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ بھاگل پور پہنچ گئے ہیں۔ یہاں آپ نے درجہ دوم تک تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند آئے۔ دارالعلوم دیوبند میں موجود ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۴؍ مئی ۱۹۱۹ ؁ء، مطابق ۳؍ شعبان ۱۳۳۷ھ ؁ بروز اتوار ہے۔ دارالعلوم میں آپ نے ۳۰؍ نومبر ۱۹۳۸ عیسوی مطابق ۷؍ شوال ۱۳۵۷ھ ؁ بروز بدھ درجہ سوم میں داخلہ لیااور مکمل چھہ سال کی تعلیم کے بعد اگست ۱۹۴۳ ؁ء، مطابق شعبان۱۳۶۲ ؁ھ میں سند فضیلت حاصل کی۔ آپؒ دیوبند میں حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہ کے زیر تربیت تھے۔ فراغت کے بعد انھیں کے حکم و ارشاد پر مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑھ میرٹھ تشریف لے گئے اور صدر مدرسی کے عہدے پر فائز ہوکر تعلیمی و انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر یہاں سے مستعفی ہوکر دوبارہ اپنے شیخ کی خدمت میں دیوبند لوٹ گئے۔ حضرت شیخ کی محنت سے قریب تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے کسی شعبہ میں آپ کا تقرر عمل میں آتا کہ گاؤں والوں کی طرف سے ایک دعوتی خط موصول ہوا۔ یہ خط آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کی اور مشورہ طلب کیا۔ حضرت ؒ نے علاقے کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت کے حکم و ارشاد پر آپ اپنے آبائی وطن جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ لوٹ آئے۔ اور یکم ربیع الاول ۱۳۶۹ ؁ھ، مطابق ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ ؁ء ، بروز جمعرات مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ 
از روز قیام تا ۱۹۵۴ ؁ء، آپ کی نظامت میں مدرسہ بحسن و خوبی چلتا رہا ۔ لیکن اسی سال کچھ لوگوں کی گھٹیا قسم کی مخالفت سے دلبراشتہ ہوکر آپ نے اسعفیٰ دیدیا اور مکمل طور پر یکسوئی اختیار کرلی۔ لیکن غیور اہل جہازی کے اصرار و حوصلہ پر گاؤں کے اتری حصے میں جناب عبدالرحمان صاحب کے دروازے پر ایک دوسرے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس کا نام مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ رکھا گیا۔ مولانا کے خلوص و للہیت اوراشاعت دین کے لیے خود کو وقف کردینے کے بے لوث جذبہ کی وجہ سے یہ مدرسہ بہت ترقی کرگیا اور دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی۔ ادھر دوسری طرف قدیم مدرسہ روز بروز زوال پذیر ہوتا رہا، حتیٰ کہ دستیاب دستاویز کے مطابق ۳؍ ستمبر ۱۹۵۷ء ؁ کو بعد نماز جمعہ ایک آخری میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ کے مکمل حساب و کتاب کرنے کے بعد بقیہ سامانوں کو گاؤں کے ایک نہایت شریف و امین اور بزرگ شخصیت حضرت مولانا شرافت حسین صاحب نور اللہ مرقدہ کے حوالے کرکے مدرسہ بند کردیا گیا ۔
اس اختلاف کو علاقے کے ارباب دانش و بینش نے ایک قضیہ نامرضیہ قرار دیا اور ۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۷ء ؁ میں ۱۳؍ افراد مشتمل ایک مفاہمت کمیٹی تشکیل دی  ۔ چنانچہ یہ کمیٹی مسلسل جدوجہد کے بعد اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی اور فروری ۱۹۶۹ء ؁ میں دونوں مدرسوں کو ضم کرتے ہوئے دوبارہ مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے حوالے کردیا گیا ۔ انظمام کے بعد مدرسہ کا وقار مزید بلند ہوا۔ طالب نبویہ کے رجوع میں اضافہ ہوگیا اور حضرت کی وفات تک مشکوٰۃ شریف تک تعلیم ہونے لگی۔ اور پورے علاقے کے لیے ایک عظیم علمی آماجگاہ بن گیا۔
مولانا مرحوم مدرسے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیتے تھے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ چنانچہ دستیاب معلومات کے مطابق ’رہنمائے مسلم‘،’ رہنمائے حج‘، نمازوں کے مسائل و فضائل، اور زجاج المصابیح جیسی علمی کتابیں تصنیف کیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۹۵ء ؁ کو بھیانک سیلاب اور پھر دوبارہ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء ؁ کو آئے قیامت خیز سیلاب نے پورے گاؤں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ، جس سے جہاں امیر ترین غریب ترین فرد بن گیا، وہیں جہازی اکابرین کی ذاتی لائبریریاں، تواریخ اور تصنیفات بھی فنا کی شکار ہوگئیں۔ ان میں سے حضرت مصنف ؒ کی صرف اول الذکر دو کتابیں ہی، حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی جدوجہد سے محفوظ رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔
مولانا کی بیماری اور انتقال پرملال
آپ کو آخری عمر میں تین مرتبہ فالج کا حملہ ہوا۔ پہلی مرتبہ جسم کے مکمل آدھے حصہ پر حملہ کیا، جس میں آپ صحت یاب ہوگئے، پھر دوبارہ اسی طرح کا حملہ ہوا، اس میں بھی صحت یاب ہوگئے، لیکن تیسری مرتبہ دماغ پر حملہ ہوا، اس حملہ میں آپ جاں بر نہ ہوسکے اور اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔وفات کے اگل دن اپنے آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔حلقہ ارادت مندوں کا جم غفیر نماز جنازہ میں شریک تھا ، جو مولانا کی مقبولیت پر خلق خدا کی گواہی تھی ۔ تاریخ وفات ماہ جون ۱۹۷۶ ؁ تھی۔
مولانا کی ذات نابغہ روزگار ہستی تھی
مولانا کی ذات گرامی ایک نابغہ روزگار ہستی تھی۔ علمی مرتبت بہت بلند تھا۔ دیہات میں جہاں کتابوں کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا، ایک نہیں؛ بلکہ کئی کئی مستند کتابیں لکھنا کسی کرامت سے کم نہیں ہوسکتا۔ وہ مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے، اس لیے تقویٰ و طہارت پر شبہ کرنا ناممکن ہے۔ معاملہ کی صفائی، خوش اخلاقی اور نرم گوئی ان کی خاص شان تھی جن کی گواہی آج بھی کو دیکھنے اور جاننے والے دے رہے ہیں۔ باطلانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی اصلاح کے لیے وہ ہمیشہ پابہ جولاں رہتے تھے اور بڑی حکمت عملی سے کام لیتے تھے کہ لوگوں کو برا بھی نہیں لگتا تھا اور مقصد بھی حاصل ہوجاتاتھا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود ، اہل ہنر اور اہل قدر لوگوں کے تعلق سے لوگوں کا جو بے قدری والا رویہ ہوتا ہے، وہ مولانا کے ساتھ بھی رہا، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تسلسل ہے۔ ایسا بڑے بڑوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے؛ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ جہاں دنیا اہل قدر کے مرنے کے بعد ان کی اہلیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتی ہے، وہاں مولانا کے مرحوم ہونے کے بعد بھی ناقدری کی گئی اور ان کے سارے کارناموں کو فراموش کردیا گیا۔اس لیے قبل ازمرگ اور بعد از مرگ دونوں کے مرثیہ کے لیے مولانا مرحوم ہی کے شعر پر مضمون مکمل کیا جاتا ہے کہ ؂
تیرے ہنر کا کوئی نہیں قدر داں منیرؔ 
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے 
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی تمام خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین ۔ ثم آمین۔

8 Apr 2018

تحقیق وتصنیف کے زریں اصول


قسط نمبر (20)آخری قسط۔ محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
تحقیق وتصنیف کے زریں اصول 
کسی بھی فن یا علمی موضوع پر نہایت شرح وبسط اور تفصیل کے ساتھ مدلل ومبرہن انداز میں تحریری سرمایہ کو جمع کرنے کا نام ’تحقیق وتصنیف‘ہے۔ 
تحقیق وتصنیف انتہائی مشکل اور محنت طلب کام ہے ، یہ کام ہر شخص انجام نہیں دے سکتا۔ امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؔ فرماتے ہیں کہ: 
’’تصنیف وتالیف کا مذاق بہت سی چیزوں کا طالب ہے، طرز تعلیم کے بعد علمی صحبت ومجامع، مذاکرات ومباحث علمیہ ، مطالعہ ونظر، شوق ومزاولت اور سب سے زیادہ کسی مصنف کے زیر نظر کام کرنے سے قدرتی قابلیتوں کو تربیت میسر آتی ہے ، قدیم مدارس میں اس کا سامان ناپید ہے، خود مدرسین ہی کو ذوق نہیں ، تابہ دیگر چہ رسد؟ ۔ وسعت مطالعہ ونظر کا جب سامان ہی نہ ہو؛ تو دماغ میں استعداد ، اخذ وترتیب وبحث کیوں کر کام دے؟ اسی کا نتیجہ ہے کہ صدہا متخرجین مدارس عربیہ میں دو چار صاحب نظر مصنف بھی نظر نہیں آتے ‘‘۔ (بہ اقتباس مطالعہ کیوں اور کیسے ؟ ص؍۸۱و۸۲)
تحقیق وتصنیف کے لیے لازمی صلاحیتیں 
ایک انسان یہ عظیم الشان کارنامہ اسی وقت انجام دے سکتاہے، جب کہ وہ جنرل مطالعہ کا حامل ہو، اس کے اندر تحقیقی ذوق اور تنقیدی شعور پایا جاتاہو،منتخبہ موضوع کے حوالے سے پوری واقفیت اور اس پر غور وفکر کر کے خود اپنا کوئی نقطۂ نظر متعین کر سکتاہو، محنت ومشقت اور انہماک اس کے رگ وپے میں رچ بس گئے ہوں، اکتا ہٹ وبیزاری سے وہ کوسوں دورہو، عجلت یاتعطل سے اسے سخت نفرت ہو، مبالغہ آرائی اور حقائق کو مسخ کرنے کی قبیح عادت اس کے اندر نہ پائی جاتی ہو۔ 
تحقیق وتصنیف کے مقاصد 
یہ کام مختلف اغراض ومقاصد کے پیش نظر کیا جاتاہے، کبھی کسی کم یاب یا نایاب چیزوں کو وجود میں لانا مقصود ہوتا ہے؛ تو کبھی منتشر ومتفرق اشیا کو یکجا کرنا ۔ کبھی ناقص اور نامکمل کام کو اپنی کوشش کی حد تک مکمل کرنے کی غرض سے یہ کام کیا جاتاہے ، تو کبھی مجمل ومبہم کی تفصیل وتوضیح مقصود ہوتی ہے ۔ کبھی تطویل کی تلخیص پیش نظر ہوتی ہے، تو کبھی کسی موضوع پر اہل علم سے سرزد ہوئی کسی سہو وخطا کی علمی انداز میں نشاندہی کی جاتی ہے۔ 
تحقیق وتصنیف کے طریقۂ کار
ہر چند کہ تحقیق وتصنیف کے لیے کچھ ایسے اصول وضوابط نہیں ہیں، جن میں اس قدر قطعیت ہو کہ ان سے سر موتجاوزنہ کیا جاسکے، تاہم کچھ ایسے رہ نما اصول ضرورہیں، جن کو اس راہ کے مسافروں اور تحقیق وتصنیف کے رہ نماؤں نے علمی تجربوں کے بعد مفید پا یا ہے ، انھیں سطور ذیل میں اختصار کے ساتھ لکھا جارہا ہے۔ 
موضوع کا انتخاب 
تحقیق وتصنیف کے لیے موضوع کا انتخاب سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جب تک موضوع کی تعیین نہیں کی جائے گی ، اس راہ کا مسافر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتا۔ اس لیے موضوع منتخب کرنے کے وقت، ایک محقق ومصنف کو اپنے ذوق وشوق، ذاتی دل چسپی اور میلان طبع کا خیال رکھنا ضروری ہے، تاکہ وہ آگے چل کر اس کام میں بے کیفی یا اکتاہٹ محسوس نہ کرے۔ 
موضوع منتخب کرتے وقت اس امر کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ موضوع بالکل فرسودہ اور گھسا پٹا نہ ہو؛ بلکہ موضوع ایسا ہو جو نت نئے حالات کی پیدا وار ہو اور خاص وعام سب میں موضوع بحث بنا ہوا ہو یا پھر علمی ضرورت اس کا متقاضی ہو۔ 
موضوع کا خاکہ
موضوع متعین کرلینے کے بعداس کی حد بندی اور خاکہ تیار کرنے کا مرحلہ آتا ہے ، کیوں کہ اس سے موضوع کے تمام پہلو اجاگر ہوجاتے ہیں، جن کی روشنی میں تحقیق وبصارت کے ساتھ یہ کام انجام دیا جاسکتا ہے ، ورنہ دیکھنے میں یہ آیاہے کہ خاکہ تیار کیے بغیر لکھنے سے موضوع کے بہت سارے پہلو گوشۂ تاریکی میں رہ جاتے ہیں۔ اور کبھی کبھار اجزائے موضوع میں بے ربطی وبے آہنگی بھی پیدا ہوجاتی ہے، جس سے کتا ب کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب کی طرف بھی انگلی اٹھنے لگتی ہے۔ 
خاکہ اس طور پر تیار کیا جاسکتاہے کہ سب سے پہلے موضوع کے ہر چہار پہلو پر خوب غور وفکر کیا جائے کہ اس کے تحت کون کون سی باتیں اور بحثیں آسکتی ہیں؟ ان تمام بحثوں کو نوٹ کے طور پر ایک کا غذپر لکھ لیا جائے ، بعدازاں ان میں ترتیب وضعی قائم کر کے اسی کے مطابق کام کیا جائے۔ 
مآخذ ومراجع کی تلاش
خاکہ تیار کر لینے کے بعد تحقیق وتصنیف کا تیسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور وہ ہے مآخذ ومراجع کی تلاش ، اس کے لیے درج ذیل طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں: 
(۱)تجارتی اداروں اور کتب خانوں کی طرف سے شائع ہونے والی فہرست کتب پر نظر دوڑانی چاہیے اور اس میں جو کتابیں موضوع سے متعلق معلوم ہوں، ان سب کا نام نوٹ کرلینا چاہیے اور ان کو حاصل کرنا چاہیے۔ 
(۲)اگر تحقیق وتصنیف کا کام ایسی جگہ انجام دیا جارہاہے، جہاں کوئی بڑی لائبریری یا کوئی بڑا کتب خانہ ہے، تو صرف اول الذکر شکل ہی پر اکتفا نہ کرنا چاہیے ؛ بلکہ لائبریری کی فہرستوں کا بھی سہارا لینا چاہیے اور اس کی کتابوں سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ 
(۳)آج کل کی کتابوں کے آخر میں مراجع کی فہرست دی جاتی ہے، اس کا دیکھنا بھی مفیدہے۔ 
(۴)ان کے علاوہ اہل علم خصوصاً مصنفین حضرات سے صلاح ومشورہ اور ان سے استفسار سے بھی اس راہ کی بہت ساری مشکلیں حل ہوسکتی ہیں۔ 
مراجع کا مطالعہ اور مواد کا انتخاب 
یہ تحقیق وتصنیف کا چوتھا مرحلہ ہے ، اسی مرحلے پرکتا ب کی حیثیت کا دارومدار ہوتا ہے ، مراجع کا مطالعہ جتنی گہرائی وگیرائی سے کیا جائے گا، کتاب بھی اتنی ہی تحقیقی اور مواد سے لبریز ہوگی، اور اس میں جس درجہ کمی پائی جائے گی، اسی درجہ کتاب کی قدر وقیمت میں بھی کمی آجائے گی۔ اس لیے مراجع کے مطالعے کے وقت ماقبل میں بیان کردہ اصول مطالعہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ساتھ ہی درج ذیل باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے: 
(۱)تیار کردہ خاکہ میں اجزائے موضوع کی ترتیب وضعی کے مطابق مواد جمع کرنا چاہیے ، اور کتب مراجع کے صرف انھیں بحثوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، جو موضوع سے متعلق ہوں۔ پوری کتاب کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ 
(۲)دوران مطالعہ جو باتیں کام کی ملیں، اگر ذاتی کتا ب ہے ؛ تو اس پر کچی پنسل سے نشان لگا کر کام چلا یا جاسکتا ہے؛ لیکن یہ محتاط طریقہ نہیں ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ کو بعینہ نقل کر لینا چاہیے ، ساتھ ہی صفحہ نمبر بھی لکھ لینا چاہیے۔اور اگر دوسرے کی کتاب ہے؛ تو صفحہ نمبر کے ساتھ ساتھ مصنف ، پریس، سن اشاعت اور تعداد ایڈیشن غرض سب کچھ لکھ لینا چاہیے ۔ 
(۳)اخذکردہ عبارتوں اور مواد پر عنوان کی وضاحت بھی ضروری ہے، تاکہ تسوید وتبییض کے وقت کسی دقت وپریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 
(۴)مراجع کے مطالعے کے دوران اگر کچھ ایسے مواد ہاتھ آجائیں، جن کی خاکے میں وضاحت نہ ہو، اور وہ موضوع سے پوری طرح میل بھی کھاتے ہوں، بلکہ ان کو شامل کیے بغیر موضوع کے تشنہ رہ جانے کا اندیشہ ہو، تو ان کو بھی جزو کتاب بنا لیناچاہیے۔ 
(۵)جب مراجع کا مطالعہ مکمل ہوجائے، اور مطلوبہ مواد اکھٹا ہوجائے، تو اب اس کو خاکے کی ترتیب کے مطابق لکھنا شروع کریں؛ لیکن یہ یا د رکھنا نہیں بھولیں کہ ترتیب اسی انداز کی ہونی چاہیے جیسا کہ مضمون کی طبعی ترتیب تقاضا کرتی ہو۔اس کے برخلاف لکھنا حکمت اور اصول تصنیف کے منافی ہے۔ 
(۶)اپنی بات کی تائید وتوثیق میں صرف انھیں اصحاب علم کی رائے پیش کرنی چاہیے، جو اس موضوع پر سند کا درجہ رکھتے ہوں، ہر کس وناکس کی آرا اور غیر ضروری حوالوں کو نقل کر کے مضمون کو بوجھل نہیں کرنا چاہیے ، کیوں کہ اس سے کتاب کی قدر وقیمت گھٹ جاتی ہے۔ 
(۷)موضوع کے مناسب اسلوب نگارش اختیار کرنا چاہیے، اگر علمی موضوع ہو، تو اسلوب بھی عالمانہ ہوناچاہیے ، اسی طرح اگر ادبی موضوع ہو، تو اسلوب بھی ادبی نوعیت کا ہونا چاہیے اور سی طرح وغیرہ وغیرہ ۔ نیز تحریر میں سنجیدگی وشائستگی اور متانت ہونی چاہیے۔ غیر مہذب طرز نگارش، یاایسا اسلوب اختیار نہیں کرنا چاہیے، جس سے غرور علمی کی بو آتی ہو: بلکہ ہر حرف سے تواضع وانکساری ٹپکنا چاہیے ، ساتھ ہی زبان وبیان خشک نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ان میں ایسی حلاوت وچاشنی ہو کہ ایک پڑھنے والا متأثر ہونے کے ساتھ ساتھ مرعوب بھی ہوتا چلا جائے اور مضمون اس کے ذہن ودماغ میں اتر تا چلا جائے ۔ 
(۸)مراجع کے مطالعے کے دوران کبھی قیمتی علمی سرمایہ ہاتھ لگ جاتا ہے،جو درحقیقت منتخبہ موضوع سے مکمل اٹیچ نہیں ہوتا، لیکن باربار یہ خواہش ابھر تی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کو بھی شامل کرلیا جائے، ایسی صورت میں یہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے ضمنی مباحث شامل کرنے سے مقالہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا جاتاہے جس سے مضمون گنجلک ہو جاتا ہے اور اس کا معیار بلند ہونے کے بجائے اور پست ہوجاتا ہے ، اس لیے خواہ کتنی ہی دلی خواہش کیوں نہ ہو، اس کو شامل کر کے مضمون کو ادق اور گنجلک نہیں بنانا چاہیے ۔ 
(۹)جب خاکے کے مطابق اکٹھا کردہ مواد ومیٹر کو مضمون کے قالب میں ڈھالنے کا کام مکمل ہوجائے ، تو اسے باربار بغور پڑھنا چاہیے ، اور جہاں کہیں ترتیب کی تبدیلی اور الفاظ کی ترمیم وتحریف کی ضرورت محسوس ہو، وہاں رد وبدل کردینا چاہیے، اور اس وقت تک کرتے رہنا چاہیے، جب تک کہ دل مطمئن نہ ہوجائے۔ جب دل مطمئن ہوجائے، اور مزید رد وبدل کی ضرورت محسوس نہ ہو، تو اب تحقیق وتصنیف کا چوتھا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا، اس کے بعد اب صرف ایک مرحلہ باقی رہتا ہے اور وہ ہے مقالے کی حتمی شکل کی تشکیل۔ 
مقالے کی حتمی شکل کی تیاری 
یہ تحقیق وتصنیف کی آخری منزل ہے ،اس منزل کوپارکرلینے کے بعد آپ کسی کتاب کے مؤلف یا مصنف بن جائیں گے ، مقالے کو حتمی شکل دیتے وقت مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے : 
(۱)مقا لے کو حتمی شکل دینے یعنی مسودہ بنا نے کے لیے ایسا کا غذ منتخب کرنا چاہیے ، جس پر لکھنے میں کسی قسم کی دقت ودشواری پیش نہ آئے، جیسے سیاہی کا پھیلنا، قلم کا کاغذ سے الجھنا وغیرہ ۔ اسی طرح اس کی لائن کا فاصلہ اور سائز کچھ اس طرح ہو کہ بہ آسانی لکھا جا سکے اور تحریر میں گخلط ملط کی صورت پیدا نہ ہو۔ آج کل بازار میں ’فل اسکیپ ‘ کے نام سے ملنے والا کا غذ عموماً ان تمام خوبیوں کا حامل ہوتا ہے ،اس لیے زیادہ بہتر ہے کہ تصنیف کے لیے اسی کاغذ کا انتخاب کیاجائے ۔یا جو آپ کی نگاہ میں زیادہ موزوں معلوم ہو،اس کو منتخب کرلیں۔ 
(۲)کاغذ کی صرف ایک ہی جانب لکھنا چاہیے، دونوں جانب نہیں لکھنا چاہیے۔اسی طرح ایک سطر چھوڑ کر لکھنا چاہیے تاکہ گنجلک کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ 
(۳)املا کے تمام قواعد کی رعایت کرتے ہوئے لکھنا چاہیے ، بطور خاص نئے پیرا گراف کا آغاز نئی سطر سے کرنا چاہیے اور اس نئی سطر کو دگر سطروں کی بہ نسبت پانچ نقطے کے بقدر آگے سے لکھنا چاہیے ،اسی طرح تحریر نہایت واضح اور خوشخط ہونی چاہیے ، اور مرکزی عنوان کو جلی ورنگین قلم سے سطر کے وسط میں لکھنا چاہیے۔ 
(۴)جہاں تک ہوسکے مسودہ میں کاٹ چھانٹ سے بچنا چاہیے اور اگرتسویدکے وقت ردو بدل کی ضرورت محسوس ہو، تو مسودہ میں لکھنے سے پہلے خاکے کی مضمونی کاپی ہی میں غور وفکرکر کے رد وبدل کرلینا چاہیے،پھر اس کے بعد مسودہ میں نقل کرنا چاہیے کیوں کہ اگر یہ طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا، تو پھر مسودہ ، مسودہ نہیں بن پائے گا؛ بلکہ وہ پھر سے مضمونی کاپی بن جائے گا۔ 
(۵)مسودہ لکھنے کا آغاز اسی ترتیب سے کرنا چاہیے، جو کتاب کی اصل ترتیب ہونی ہے ، ایسا نہیں ہوناچاہیے کہ پہلے آخر یا بیچ کے مضامین کا مسودہ بنا یا لیا جائے ، پھر بعد میں شروع حصہ کا بنایا جائے ،کیوں کہ بسا اوقات اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ترتیب میں الٹ پھیر واقع ہوجاتی ہے اور سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ 
(۶)جب تسوید کے کام سے فراغت ہوجائے،تواب’’تحقیق و تصنیف ‘‘ کا پورا کام مکمل ہوگیا۔ اس پر بارگاہ ایزدی میں حمد و سپاس کے نذرانے پیش کرنا چاہیے، کہ اس نے آپ کو اس کام کی توفیق دی اور اسے پائے تکمیل تک پہنچا دیااور آپ کو کسی کتاب کا ’مصنف ومؤلف‘بنادیا۔ 
مبیضہ تیار کرنے کے حوالے سے زریں باتیں 
تصنیف وتالیف کے تمام مراحل تو مسودہ تیار کر لینے ہی پر مکمل ہو جاتے ہیں ، اس عنوان کا اضافہ بایں مقصد ہے کہ ایک مؤلف ومصنف کا منتہائے مقصودصرف مسودہ کی تکمیل نہیں ہوتا ؛ بلکہ اسے منصہ شہود پر لانا بھی ہوتا ہے ، اور اس کے لیے بسا اوقات بڑی بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس لیے اس حوالے سے بھی چند زریں باتیں حوالۂ قلم کی جارہی ہیں: 
آج کل کمپیوٹر کا دور دورا ہونے کی وجہ سے ہاتھ کی کتابت تقریباً معدوم ہوچکی ہے اور چھوٹی بڑی ہر چیز کی کتابت کے لیے کمپیوٹر ہی کا سہارا لیا جارہا ہے ، اس لیے اپنے مسودے کی کتابت کے لیے ایسے کمپیوٹر آپریٹر کا انتخاب کرنا چاہیے ، جو درج ذیل خصوصیات کا حامل ہو: 
(۱)وعدے کا مکمل پابند ہو۔ 
(۲)قواعد املا سے مکمل طور پر واقف ہو، اسی طرح رموز اوقاف اور ان کے مواقع استعمال سے بھی اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو۔ 
(۳)عبارت فہمی کی اس کے اندر اتنی صلاحیت پائی جاتی ہو کہ مسودہ کے گنجلک مقامات کو بھی سیاق وسباق سے خود حل کرسکتاہو ۔ 
(۴)بخیلانہ مزاج کا حامل نہ ہواور نہ ہی اکتاہٹ وبیزاری محسوس کرتا ہو؛ بلکہ محنت ولگن اور جد وجہد اس کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو۔ 
(۵)نرم گفتار،اچھے کرداراوران جیسی صفات حسنہ سے متصف ہواور صاف و شفاف معاملات رکھنے والا ہونا ضروری ہے۔ 
(۶)اگر ایسا آپریٹر میسر آجائے جو کم از کم چند مسودوں کی کتابت کا تجربہ رکھتا ہو ، تو یہ زیادہ بہتر ہے ؛بلکہ تجربہ کار آپریٹر ہی سے کتابت کرانی چاہیے۔
آخر میں یہ عرض کردینا نامناسب نہ ہوگا کہ اگر آپ اپنی کتاب خود سے چھپوانے کا حوصلہ رکھتے ہیں، تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ کسی ناشر سے چھپوائیں ، کیوں کہ بعض ناشر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے معاملات ٹھیک ٹھاک نہیں ہوتے اور نہ ہی مؤلف کو صحیح حق المحنت دیتے ہیں۔ ان سے معاملات کرنے کے بعد کف افسوس ہی ملنا پڑتاہے ، اس لیے ناشر کے انتخاب میں کافی غورو فکر سے کام لینا چاہیے۔ 
تم بعون اللہ تعالیٰ ، فالحمد للہ اولا وآخرا ۔ 

مختلف اسالیب



قسط نمبر (19) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
مختلف اسالیب
’’انگریزی لفظ اسٹائل (style)کے لیے ہماری زبان میں لفظ اسلوب استعمال ہوتا ہے۔اردومیں اسلوب کے لیے طرز ، روش، انداز ، طریق اور پیرایہ جیسے لفظ بھی استعمال ہوتے آئے ہیں ۔ مثلاً:’’ محمد حسین آزادؔ ایک صاحب طرز ادیب تھے ‘‘ یا کہتے ہیں کہ : ع ’’غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور‘‘۔ نظیر اکبر آبادی کی روش شاعری سب سے جدا ہے ‘‘۔ ’’اپنے ہم عصروں میں غالبؔ کا طریق قابل غور ہے ‘‘اور ’’جو ش کے پیراےۂ اظہار میں ایک گھن گرج ہے ‘‘ وغیرہ ۔ اب عام طور پر اسلوب یا طرز زیادہ استعمال ہونے لگا ہے‘‘۔ (اردو ادب ، ص؍۲۱۹ ) 
اسلوب سے مراد کسی لکھنے والے کا وہ انفرادی طرز نگارش ہے، جس میں وہ اپنی علمی واقفیت اور فکری رجحان کے مطابق خیالات ، جذبات اور تجربات کو اپنے مخصوص انداز اور منفرد اسلوب میں بیان کرتاہے ۔ او ر چوں کہ ہر انسان کے جذبات اور تجربات مختلف ہوتے ہیں ، اس لیے ان کے طریقۂ اظہار اور اسلوب ادا میں اختلاف کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے ۔ ان تمام اسالیب کو سات حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : 
(۱)سلیس اور سادہ اسلوب ۔ 
(۲) بے تکلف اسلوب ۔ 
(۳)موجزاسلوب ۔ 
(۴) مصورانہ اسلوب ۔ 
(۵)پر شکوہ اسلوب ۔ 
(۶)رنگین اسلوب ۔ 
(۷)پر زور اسلوب ۔ 
سلیس اور سادہ اسلوب 
سادہ اسلوب سے مراد وہ اسلوب ہے ،جس کی زبان سادہ سلیس ، شستہ وشگفتہ اور روز مرہ استعمال ہونے والی ہوتی ہے ۔ اس اسلوب میں پیچیدہ فقرے ، طویل سے طویل جملے ، الجھی ہوئی گنجلک اور ادق ترکیبیں نہیں ہوتیں ، اور نہ ہی نامانوس الفاظ ، دشوار گذار کلمات استعمال کیے جاتے ہیں ۔نیز اس اسلوب میں قواعد زبان اور اصول بیان کے خلاف بھی کوئی بات نہیں ہوتی ۔نظم ونثر دونوں صنفوں میں اس اسلوب کو برتا جاتا ہے ۔ 
نثر کی مثال :
’’عزیزی سلمہ ! اب جا کے تم نے ایسی چپ سادھی کی کہ میں سمجھا، کہیں اور چل دیے ۔ میں بھی خاموش تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ رمضان گذر جائے ؛ تو مزاج پر سی کروں ۔ روزوں میں مزاج ہاتھ میں نہیں رہتااور ایمان میں فرق آجاتا ہے ، اس لیے ان دنوں میں میں نے چھیڑنا مصلحت نہ سمجھا۔ شکر ہے کہ رمضان ختم ہونے سے پہلے ہی تمھارا خط آگیا‘‘ ۔(مولوی عبد الحق) 
نظم کی مثال : ؂ 
تہمتیں چند اپنے ذمہ دھر چلے 
کس لیے آئے تھے ہم کیا کر چلے 
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے 
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے 
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ 
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے 
بسا اوقات ایسا ہو تا ہے کہ لکھنے والا ’سادہ اسلوب‘ میں کچھ لکھنا چاہتا ہے ، لیکن وہ لکھتے لکھتے اس اسلوب کی صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے ۔اس کی چند وجوہات ہیں، جو ذیل کی سطروں میں درج ہیں: 
(۱)تکےۂ کلام: بعض لوگوں کی زبان قلم اور زبان لحم دونوں پر کچھ مخصوص الفاظ چڑھ جاتے ہیں، جن کو وہ بار بار استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی ہے کہ وہ نفس مضمون کے مطابق اوربر محل ہوتے ہیں؛بلکہ وہ اپنی عادت اور طبیعت سے مجبور ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے وہ الفاظ خود بخود اور لاشعوری طور پر نوک قلم پر آجاتے ہیں اور بے ساختہ لکھے چلے جاتے ہیں، جیسے: 
’’ اللہ کے دربار میں ان دونوں میں زیادہ مقبول کون ہو سکتا ہے؟۔ اپنے دل میں خود سوچیے اور فیصلہ کیجیے کہ اللہ کے یہاں مقبولیت پیدا کرنے والی کون سی چیز ہو سکتی ہیں؟ پر تکلف لباس؟ لذیذ غذائیں؟ عمدہ کوٹھیاں؟ اعلیٰ سامان آرائش ؟ نمائشی چندے؟ رسمی جلسے؟ بناوٹی تقریریں اور تحریریں؟ یا اس کے برعکس زندگی کی سادگی؟دل کی شکستگی؟ایثار وخدمت گذاری؟انکساری وخاکساری؟عاجزی وفروتنی؟صبر وقناعت؟زہد وعبادت؟ تقویٰ وطہارت؟ ‘۔ (مولاناعبدا لماجد دریا بادیؒ )
اس مضمون میں استفہامیہ جملے ’تکےۂ کلام‘ کے طور پر اس کثرت سے استعمال ہوئے ہیں کہ تحریر سادگی کی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔ 
(۲)آورد: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مضمون لکھتے وقت بسیار کو شش کے باوجود ذہن میں موادکی آمد نہیں ہوتی ہے ۔ایسی صورت میں مضمون نگار ’آمد‘ کی کمی کو چھپا نے کے لیے متوازن جملوں ، مسجع ومقفیٰ عبارتوں ، دور دراز اور متضاد تشبیہوں کو بہ کثر ت استعمال کرنے لگتاہے، جیسے: 
’’آج قلم کا دماغ پھول کی خوشبو سے معطر ہے ، صفحۂ کاغذ آنکھ کی سفیدی کی طرح منور ہے ، نظر کا ڈورا راگ گل کے طور پر رنگین ہے، نگاہ کا تاررشتۂ گلدستہ کی مانند نہاریں ہے ، کس واسطے کہ مجھے ایک باغ اور ایک مکان کی صفت لکھنی منظور ہے؟ جس کی میرے چشم مردم میں نور ہے اس کے صحن اور دالان میں خدا کی قدرت کا گل کھلا ہے ، چمن اور میدان صانع کی صنعت کا تماشہ ہے۔وہ کون مکاں ؟ اور کیسا مکاں؟ جو شاہ جہاں ایسے بادشاہ عا لی جاہ کا قیام گاہ ہے ۔ کون اور کیسا ایوان ؟ جو جناب عالیہ بادشاہ بیگم کی آرام گاہ ہے۔ ‘‘ (مولانا غلام امام شہید ) 
اس میں ’آورد‘ پا یا جاتاہے ،جو’آمد‘ کی کمی پر غماز ہے اور سادہ اسلوب کے لیے ایک قسم کی خامی ہے۔ 
(۳)نمود علمیت : کبھی مضمون نگار اپنی علمی قابلیت دکھانے کے لیے بڑے بڑے انتہائی زور دار اور پر رعب جملوں اور عجیب وغریب فقروں کا بے محل استعمال کرنے لگتا ہے ، جن میں نہ تو نفس مضمون کے حوالے سے گہرے خیالات ہوتے ہیں او ر نہ ہی مضمون سے اٹیچ معلومات ، بلکہ وہ بے جوڑ اور غیر متعلق ہوتے ہیں ، جیسے: ؂ 
اے دبدبۂ نظم ! دوعالم کو ہلا دے 
اے طنطنۂ طبع ! جزو کل کو ملادے 
اے معجزۂ فکر! فصاحت کو چلا دے 
اے زمزمۂ نطق! بلاغت کا صلہ دے 
اے بائے بیاں!معنیئ تسخیر کو حل کر 
اے سین سخن ! قاف تا قاف عمل کر 
(مرزادبیر)
ان اشعار کے جملے تو بہت زور دار اور پررعب ہیں؛ مگر معنوی اعتبار سے ان میں بالکل بھی ہم آہنگی نہیں ہے؛کیوں کہ طنطنہ کو جزو کل کے ملادینے سے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟ زمزمۂ نطق سے بلاغت کا صلہ مانگنے کا کیا مطلب ہو سکتاہے ؟ بیان کی ب کو تسخیر سے کیا تعلق ؟ اسی طرح سخن کے سین کو قاف سے تاقاف عمل کرنے کے لیے کیا خصوصیت ہوسکتی ہے؟ 
(۴)تک بندی: کبھی مضمون نگار رسمی اور فرسودہ خیالات کو سادگی کے طور پر اتنے ہلکے اور پھیکے الفاظ میں ادا کرتاہے کہ تحریر سادگی کے معیار سے گر کر تک بندی کی صف میں داخل ہو جاتی ہے ، اور اس میں جذبات کو متأثر کرنے کی قوت باقی نہیں رہتی ۔ یہ خامی زیادہ تر نظم میں پائی جاتی ہے، جیسے: ؂
(الف) میں نے اپنے سرپہ اک ٹوپی دھری 
اور اٹھ کر آگرے کی راہ لی 
راہ میں اک دوست یوں کہنے لگا 
کیوں نہ موٹر پر سفر تم نے کیا 
(ب) ہاتھی کو بڑا کیا، بڑا ہے 
لٹھے کو کھڑا کیا، کھڑا ہے، 
ان اشعار میں ایک تو مضامین پیش پا افتاد ہ ہیں۔ دوسرے یہ کہ الفاظ بھی رکیک ہیں، اس لیے ان کو تک بندی کے سوا اور کیا کہا جاسکتاہے ؟ ۔
(۵)عامیانہ پن: کبھی مضمون نگار ایسے بازاری اور گرے ہوئے الفاظ کا استعمال کرتا ہے، جو معتبر لوگوں اور ارباب سخن کے حلقوں میں استعمال نہیں کیے جاتے ، جیسے:’’کسی نے کیا جچی تلی ہوئی، باون تولہ پاؤرتی بات کہی ہے کہ من عرف نفسہ ؛ فقد عرف ربہ‘‘۔(مولانا نذیر احمد)
اس میں خط کشیدہ الفاظ ارباب سخن کے یہاں اس طرح مستعمل نہیں ہوتے، جن کی وجہ سے تحریر عامیانہ اسلوب کاحامل ہوگئی ہے ۔
نظم کی مثال: ؂ 
ادا جان لیتی ہے جانی تمھاری 
ستم ڈھا رہی ہے جوانی تمھاری 
اس میں کس قدر سوقیانہ ا ورعامیانہ پن دکھائی دے رہا ہے، اسی مضمون کو حضرت داغؔ دہلوی نے کس شرافت اورخوبی کے ساتھ ادا کیا ہے کہ : ؂ 
ہر ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی 
اف تیری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی 
بے تکلف اسلوب 
اپنے مطلوب و مقصود اور ما فی الضمیرکو سیدھے سادے اور صریح انداز میں بے تکلفی وبرجستگی کے ساتھ ادا کرنے کا نام ’بے تکلف اسلوب‘ ہے، جیسے:
نثر کی مثال: 
’’جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا۔ خجستہ یا س بھری ہوئی رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے طوطے! میں ہر شب تیرے پاس آتی ہوں اور احوال اپنی بے قراری کا سناتی ہوں، پر تو کچھ نمک کا حق ادا نہیں کرتا اور مجھے ٹھنڈے جی سے رخصت نہیں کرتا‘‘۔ (حیدر بخش حیدری ؔ )
نظم کی مثال: 
(الف) اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
(ب) ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا 
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا 
(میر تقی میرؔ )
بعض مضمون نگار اپنی بات سیدھی سادی اور صریح انداز میں بے تکلفی کے ساتھ کہنے کے بجائے دور دراز کنایات وتلمیحات کا سہارا لے کر گول مول الفاظ میں خوب گھماپھرا کر کہتے ہیں۔ اس سے دو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں: یا تو اسلوب گنجلک اور اس میں پھیر پیدا ہو جاتاہے ، یاپھر کلام سے بے ربطی جھلکنے لگتی ہے ۔
پھیر کی مثال:
’’سورج نکل آیا ‘ کے مفہوم کو اس طرح ادا کرنا کہ ’’شا ہ زادۂ مشرق نے اپنے آتشیں چہرے سے افق کی رنگین نقاب الٹ دی‘‘ ۔ یا شام کی شفق کو دیکھ کر کہنا کہ’’جام فلک خون سے چھلک رہا ہے ، نہیں ؛ مغرب کے ایوانوں میں آگ لگ گئی ہے‘‘۔ 
بے ربطی کی مثال : ؂ 
ٹوٹی دریا کی کلائی ، زلف الجھی بام میں 
مورچہ مخمل میں دیکھا ، آدمی بادام میں 
(انشا)
اس شعر کے دونوں مصرعوں میں کوئی ربط نہیں پایا جارہا ہے۔ 
موجز اسلوب 
اس کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ اور مختصرسے مختصر جملے میں زیادہ سے زیادہ معانی ادا کر دیے جائیں؛ لیکن الفاظ اتنے بھی کم نہ ہوں کہ مطلب ہی خبط ہوجائے ، اور مقصود ہی واضح نہ ہو؛بلکہ وہ قلیل الفاظ اس قدر جامع ہوں کہ ان سے مقصد کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہو، جیسے: 
نثر کی مثال: ؂ 
’’محسن الملک کے خطوں میں جوانی،بے چینی اور تلون ہے ، اور وقار الملک کے خطوں میں بڑھاپے کی دانائی اور دور اندیشی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ محسن الملک ہمیشہ جوان رہے ، اور وقار الملک سدا کے بڈھے تھے‘‘ ۔ 
نظم کی مثال: ؂ 
ناداں کہوں دل کو کہ خرد مند کہوں 
یا سلسلۂ وضع کا پابند کہوں 
اک روز خدا کو منھ دکھا نا ہے دبیرؔ 
بندوں کو میں کس منھ سے خدا کہوں 
(مرزادبیرؔ )
ایک دوسرے شاعر نے اسی مضمون کو موجز اسلوب میں صرف دو مصرعوں میں بیان کردیا ہے کہ :
دل کو ناداں کہوں یا وضع کا پابند کہوں 
مجھ سے ہوتا نہیں بندوں کو خداوند کہوں 
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مضمون کو مختصر الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے ؛ لیکن مضمون نگار اس میں ضرورت سے زائد الفاظ استعمال کرتا اور غیر ضروری طوالت سے کام لیتا ہے ، یہ موجز اسلوب کے لیے ایک قسم کا نقص ہے، جس سے پر ہیز ضروری ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مضمون تفصیل طلب ہوتاہے ؛ لیکن مضمون نگار اس کے اختصار میں اس حد تک اتر جا تا ہے کہ درمیان سے متعدد کڑیاں غائب ہو جاتی ہیں اور مضمون ادق بن جاتاہے۔اس لیے اس سے بھی اجتناب لازم ہے ۔ اول الذکر شکل کو ’اطناب‘ اور آخر الذکر شکل کو’ اخلال‘ کہا جاتاہے ۔ 
اطناب کی مثال توواضح ہے۔ اخلال کی مثال: ؂ 
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا 
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا 
اس شعر میں پہلے مصرعے کے بعد یہ متعدد کڑیاں غائب ہیں: مگس کا باغ میں جانے کے بعد چھتہ بنانا ، چھتہ سے موم نکلنا، موم سے شمع بنانا، پھر شمع کا جلنا ، آخر میں شمع کے عاشق زار پروانوں کا اس کے گرد ہجوم کا ہونا اور ان کا جان دے کر مرجانا ۔ 
مصورانہ اسلوب
اس اسلوب کی وضاحت یہ ہے کہ ایک مصورِواقعہ، واقعہ کی اس طرح تصویر کشی کرتا ہے کہ اس کا ہوبہ ہو نقشہ آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتا ہے اور قاری یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ واقعہ خود اس کی نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے ۔ اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جو کچھ بیان کیا جاتاہے ،وہ مبنی بر حقیقت اور نوعیت واقعہ کے حسب حال ہوتا ہے اور اجزائے واقعہ کو فطری اوروجودی ترتیب کے مطابق اس طرح ربط وتسلسل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ خواہ وہ فرضی ہی کیوں نہ ہوں ، لیکن فرضی ہونے کاشک وشبہ تک نہیں ہوتا۔ 
اس اسلوب میں ابہام وتعمیم سے گریز کیا جاتاہے اور وضاحت وتخصیص سے کام لیا جاتاہے۔اسی طرح گنجلک طرز نگارش کے بجائے بے تکلف اسلوب اختیار کیا جاتاہے ۔ اس میں صنائع وبدائع کا بھی خوب استعمال کیا جاتاہے۔اس کا نمونہ دیکھیے۔
نثرکی مثال : 
’’مہرالنسا جوان بیوہ کی حیثیت سے شاہی محل میں رہنے لگی ؛ لیکن ہائے وہ حسن افسردہ جو خود اپنی قوتوں سے واقف نہ ہو، خوب جانتی تھی کہ بجلی کدھر گرے گی؟ جہا ں گیر ایک روز اس کمرے کی طرف جانکلا ، جو ضیائے حسن سے شیش محل ہورہا تھا ۔ حوروش کنیزوں کے حلقے میں زرق برق لباس آنکھوں کو خیرہ کیے دیتے تھے۔ فطرت کی لاڈلی ہمہ غمزہ وہمہ عشوہ وہمہ ناز نہایت سادے باریک سفید لباس میں تھی، لیکن شیشہ کی طرح شفاف جسم جھلک رہا تھا ۔ مقیاس الشباب کی سر کشی بتا رہی تھی کہ وہ دستانے کی طرح چھپی ہوئی محرم سے زیادہ اودی اودی لوگوں کے پیچ وخم اور اعصاب کی قدرتی کھینچ تان کی ممنون ہے ۔ اس پر وہ کافوری بر ہنہ ، برہنہ حصہ افقی خیال کے لیے باقی رہا، مہرالنسا عالم تصویر بنی ہوئی تھی ۔ شاہی نگاہیں جم کر حسن عریانی کا جائزہ بھی نہ لینے پائی تھی کہ ایک کہر بائی قوت نے بجلی کے تاروں میں نہیں ؛ زلف عنبریں کے پیچ وخم میں جکڑ نا شروع کیا ۔ شاہانہ تمکنت نے دیکھتے دیکھتے حسن گلو سوز سے شکست کھائی ‘‘۔(مہدی حسن )
نظم کی مثال: ؂
اک ہوک جگر میں اٹھتی ہے، اک درد سا دل میں ہوتا ہے 
ہم رات کو اٹھ کر روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے 
(میر تقی میرؔ )
نکلے تھے منھ چھپائے ہوئے گھر سے غیر کے 
تصویر بن گئے جو میراسامنا ہوا 
(ریاض خیرآبادی)
کبھی واقعہ نگار جو واقعہ بیان کرنا چاہتا ہے اس میں’ تخصیص‘کے بجائے ’تعمیم‘اور’ صراحت‘کے بجائے ’ابہام‘ پیدا کردیتا ہے، جس سے واقعہ کا پر دۂ تصویر اس قدر ہلکا ، سادہ اور بے رنگ ہو جاتا ہے کہ پڑھنے والے کو کچھ پلے نہیں پڑتا ، جیسے اس طرح کہ : 
’’حیدرآباد سے مولوی صاحب کا گہرا اور قریبی تعلق رہاہے اور ان کی زندگی کا بہترین زمانہ یہیں بسر ہوا ، جہاں مختلف حیثیتوں سے انھوں نے اعلیٰ سے اعلیٰ ترین خدمات انجام دیں‘‘۔ 
ان خط کشیدہ جملوں میں’ابہام‘ پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے واقعہ بالکل بے رنگ ہو گیا ہے۔ یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس قسم کا تعلق تھا۔ بہترین زمانہ سے عمر کی کون سی منزل مراد ہے، مختلف حیثیتیں کیا ہیں اور اعلیٰ ترین خدمات کس نوعیت کی ہیں؟۔ 
کبھی واقعہ نگار ایک ہی واقعہ میں مختلف جزوی واقعات کے اتنے تخیلات پیش کردیتا ہے کہ ایک نقشہ ذہن ودماغ پر پوری طرح جمنے نہیں پا تا کہ فوراً دوسرا سامنے آجاتا ہے ، پھر تیسرا ، اسی طرح سلسلہ درسلسلہ چلتا رہتا ہے، جس سے تحریر میں گنجلک پن پیدا ہو جاتا ہے ، جیسے: 
’’(۱)کیا سمندر سوکھ گئے جو بادل نہیں آتے ؟ سوکھ گئے ۔ سمندر بھی سوکھ گئے ۔ (۲)سمندر ! سات سمندر پار سے آئے ۔ (۳) ہماری لٹیا بھی ڈوب گئی،غڑپ غڑپ۔(۴)غوطے لگا رہے ہیں،اپنے ہی خون میں نہا رہے ہیں۔(۵)دھوپ تو اتنی تیز ہے،بھاپ بھی نہیں بنتی۔(۶)کاہے کی بھاپ بنے؟خون تو خشک ہو گیا،جل کے راکھ ہو گیا۔(۷)کیا سچ مچ بادل بھاپ کے بنتے ہیں؟‘‘ ۔
(احمد علی صاحب ’بادل نہیں آتے‘)
اس مضمون میں ایک پریشان حال عورت کی فکری پراگندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے،لیکن ہرنمبر میں الگ الگ واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس سے مضمون پیچیدہ ہو کر رہ گیا ہے ۔
پر شکوہ اسلوب 
پر شکوہ اسلوب اس اسلوب کو کہاجاتاہے، جس میں رفیع الشان خیالات، پر شوکت الفاظ اور دل کش اسلوب میں اس طرح بیان کیے جاتے ہیں کہ پڑھنے والا متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا اور مضامین اس کے دل ودماغ میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ 
خیال کی رفعت وبلندی سے یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی ایسی عجیب وغریب اور انوکھی بات کہی جائے، جو معمولی سمجھ سے بالاتر ہو، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ خیال رکیک اور عامیانہ نہ ہو،بلکہ لطیف اور شریفانہ ہو، جیسے:
نثرکی مثال : 
’’انسانی ضمیر کی روشنی جب کہ ظلمت و ضلالت سے چھپ گئی تھی ، فطرت کے حسن ازلی پر جب انسان نے بداعمالیوں کے پردے ڈال دیے تھے، تو زمین الہی کا احترام اٹھ گیا تھا اور طغیان وسرکشی میں خدا کے رسولوں کی بنائی ہوئی عمارتیں بہہ رہی تھیں’ظہرالفساد فی البر والبحر بما کسبت أیدی الناس‘ اس وقت یہ پیغام صداقت دنیا کے لیے نجات اور ہدایت کی ایک بشارت بن کر آیا۔ اس نے جہل وباطل پرستی کی غلامی سے دنیا کو دائمی نجات دلائی ۔افضال وانعام الہیہ کے فتح باب کا مژدہ سنایا‘‘۔ (مولانا ابو الکلام آزادؔ ) 
نظم کی مثال: ؂ 
یکا یک ہوئی غیرت حق کو حرکت 
بڑھا جانب بو قبیس ابر رحمت 
ادا خاک بطحا نے کی وہ و دیعت 
چلے آئے تھے جس کی دیتے شہادت 
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہو یدا 
دعائے خلیل اور نوید مسیحا 
(مولاناحالی)
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مضمون نگار ابتدائے مضمون میں رفیع الشان خیالات کو پر شکوہ اسلوب میں بیان کر تاہے لیکن وہ جو ں جوں آگے بڑھتا ہے، توں توں تخیل کی رفعت میں پستی آتی جاتی ہے اور طرز نگارش کی بلندی گھٹتی چلی جاتی ہے ، جیسے: 
’’ان سب شاعر وں کو سامنے سے ہٹاؤ ، جو گلاب کے پھولوں پر مرتے ہیں۔سینکڑوں برس سے ایک ہی چیز کے طلب گار ہیں، یہ سب لکیر کے فقیر ہیں،مقلد ہیں، سنی سنائی باتوں پر جان دیتے ہیں ۔ میں کچھ اور دیکھتا ہوں، مجھ کو ایک اور آنکھ ملی ہے، جو ان سب سے اونچی ہے ۔ میرے دل کی ہم نشینی اور ہم سری کے ان میں سے ایک بھی قابل نہیں ۔ میں بندہ ہوں ، سب بندوں کے مثل ، میں بشر ہوں، تمام بنی آدم کے برابر درجہ لے کر آیا ہوں‘‘۔ (خواجہ حسن نظامیؔ ) 
اس مضمون میں ابتدائی تخیل نہایت بلندہے،جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مضمون نگار انسانیت کے مرتبے سے کہیں زیادہ بلند ہے؛ لیکن آخر میں اتنی پستی آگئی ہے کہ ’’میں بندہ ہوں، سب بندوں کے مثل ، میں بشر ہوں ، تمام بنی آدم کے برابر درجہ لے کر آیا ہوں‘‘۔ 
اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تخیل میں کوئی خاص رفعت نہیں ہوتی؛ مگر مضمون نگار عبارت آرائی اور جادو بیانی سے اس میں سحر آفرینی کی کوشش کرتا ہے، جس سے مضمون مواد سے خالی ہوجاتا ہے اور صرف عبارتوں اور لفظوں کا مجموعہ بن جاتا ہے ، جیسے: 
’’اے میری بلبل ہزارداستاں! اے میری طوطیِ شیوہ بیاں! اے میری قاصد! اے میری ترجمان! اے میری وکیل! اے میری زبان! سچ بتا، تو کس درخت کی ٹہنی ہے اور کس چمن کا پودا ہے کہ تیرے ہر پھول کا رنگ اور تیرے ہر پھل میں مزا ہے ، کبھی تو ایک ساحر فسوں ساز ہے جس کے سحر کا رد، نہ جادو کا اتار ۔ کبھی تو ایک افعی جاں گداز ہے، جس کے زہر کی دوا، نہ کاٹے کا منتر‘‘۔ (مولاناحالیؔ )
لہذا پر شکوہ اسلوب میں ان دونوں خامیوں (پستی وعبارت آرائی) سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہے۔ 
رنگین اسلوب 
اس کا مطلب یہ ہے کہ جملوں کی ترکیب میں ایسے حروف اور کلمات کا انتخاب کیا جائے؛ جن کو پڑھتے وقت نہ تو قاری کی زبان لڑکھڑائے اور نہ ہی اس کے ذہن ودماغ کو جھٹکا لگے ۔بہ الفاظ دیگر اس میں لفظی روانی بھی پائی جاتی ہو اور معنوی روانی بھی موجود ہو۔ 
رنگین اسلوب میں (۱)نامانوس الفاظ(۲)قواعد زبان اور اصول بیان کے خلاف تراکیب استعمال نہیں کی جاتیں، اور الفاظ ومعانی کی روانی کو ختم کرنے والی چیزوں مثلاً: (۳)یکساں آواز والے حروف کے اکٹھا ہونے،(۴)توالی اضافات،(۵)تتابع حروف عطف،(۶)تعقید لفظی اور(۷) معنوی سے بھی یہ اسلوب پاک ہوتا ہے ۔(۸)اسی طرح مضمون کے بیچ بیچ میں طویل طویل تشریحی اقوال اور معترضہ جملے بھی نہیں لائے جاتے۔ نیز اس میں(۹)تصنع اور (۱۰)رنگ آمیزی سے بھی اجتناب کیا جاتا ہے، جیسے: 
’’ہلکی شفقی روشنی ہے، کرۂ زمین تاریک ہے، فضا میں صرف ایک سیارہ جھلملا رہا ہے ۔ ایک لڑکی جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے اور ہاتھ میں بربط ، سارے کرۂ ارض پر چھائی ہوئی ہے ، بربط کے تمام تار ٹوٹ چکے ہیں؛ مگر ایک، جس میں وہ برابر لرزش پیدا کر رہی ہے‘‘۔ (نیاز فتح پوری)
نظم کی مثال: ؂ 
بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی لا حاصل میں ہے
(غالب)
وہ دل سے یوں گذرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی 
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
(جگرمرادآبادی)
ذیل میں اس اسلوب میں پائے جانے والی خامیوں کی نمبر کی ترتیب سے مثالیں دی جارہی ہیں، تاکہ صحیح وغلط دونوں پہلو اجاگر ہوجائیں۔
(۱)نامانوس الاستعمال کی مثال : 
’’ابن الوقت تو اس مزاج کا آدمی نہ تھا کہ بات کو اٹکا رکھے؛ مگر موقعہ ہی بونگا آپڑا تھا ‘‘۔ 
(مولانا نذیر احمد)
اس میں لفظ ’بونگا‘ نا مانوس الاستعمال لفظ ہے۔ 
(۲)قواعد زبان کے خلاف استعمال کی مثال: 
’’میں نے عزم مصمم کرلیا ہے کہ ہم روزانہ پابندی سے مطالعہ کیا کریں گے‘‘۔ 
اس میں متکلم واحد کی جگہ متکلم جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جو اصول بیان کے خلاف ہے ۔ 
(۳)یکساں آواز والے حروف کے اکٹھا ہونے کی مثال: 
’’مگر درد سر روز زور پکڑ تا جاتا تھا ‘‘۔ (مولوی نذیر احمد) 
ہم نے تو پر فشانی نہ جانی کہ ایک بار 
پرواز کی چمن سے سو صیاد کی طرف 
(میرتقی میرؔ )
ان جملوں میں’روز زور‘ اور ’سے سو‘ یکساں آواز والے حروف یکجا ہوگئے ہیں۔ 
(۴)توالی اضافات کی مثال: 
’’میں آپ کے نانا کے بیٹے کے پوتے کے ماموں کے ساتھ چمنستان کی سیر کو نکلا تھا‘‘ ۔ 
اس میں پے بہ پے متعدد اضافتیں جمع ہوگئیں ہیں۔ 
(۵) تتابع حروف عطف کی مثال: 
’’سب نے مل کر منتوں اور نیازوں اور چلوں اور عملوں اور دعاؤں کی بھر مار کر دی‘‘۔ 
(نظیر آبادی) 
اس میں لگا تا ر چار حروف عطف لائے گئے ہیں۔ 
(۶)تعقید معنوی کی مثال: ؂ 
فلک پر جامع مسجد ہے زمیں پر عکس پڑتا ہے 
نمازی کافروں کا خون شہیدوں پر ٹپکتا ہے 
اس شعر میں’تعقید معنوی‘ پائی جاتی ہے ؛ کیوں کہ ’جامع مسجد‘سے مراد آفتاب ہے ، جو انتہائی بعید استعارہ ہے۔ اسی طرح ’نمازی کافر‘ کسان کو کہا گیاہے، یہ بھی ایک نامانوس تشبیہ ہے۔’ خون‘ سے پسینہ اور’ شہید‘سے کٹی ہوئی کھیتی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، جس کی طرف ذہن جلدی منتقل نہیں ہوتا ۔ ان عیوب کی وجہ سے کلام کی معنوی روانی ختم ہوگئی ہے۔ 
(۷)تعقید لفظی کی مثال: 
ذبح وہ کرتا توہے پر چاہیے اے مرغ دل
دم پھڑک جائے تڑپنا دیکھ کر صیاد کا 
اس شعر کے دوسرے مصرعے کامطلب یہ ہے کہ مرغ کا دل تڑپنا دیکھ کر صیاد کا دم پھڑک جائے، لیکن الفاظ کی نشست میں الٹ پھیر ہونے کی وجہ سے’ تعقید لفظی ‘پیدا ہوگئی ہے؛ کیوں کہ فوری طور پر ذہن اس معنی کی طرف منتقل نہیں ہوتا ؛ بلکہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اے مرغ دل ! صیاد کا تڑپنا دیکھ کر تیرا دم پھڑک جائے۔ 
(۸)طویل تشریحی اقوال کی مثال : 
’’فلاسفۂ جدید اجزائے لایتجزیٰ (مادہ کو تقسیم کرتے چلے جائیے، وہ منقسم ہوتا چلا جائے گا۔ آخر میں ایک ایسی حد پر یہ تقسیم پہنچ جائے گی کہ مادہ کے ذرات انقسام قبول نہ کریں گے ، مادہ کے ایسے ذرات کا نام اجزائے لایتجزیٰ ہے) کا اثبات کرتے ہیں‘‘۔ 
(۹)تصنع کی مثال: 
’’خلوت کے چمن میں حکم ہوا کہ مشورت کی بلبلیں آئیں کہ ہنگامہ کے لیے کیا صلاح ہے؟ بعض کا زمزمہ ہوا کہ برسات میں ملک مقبوضہ کا بند وبست ہو، جاڑے کی آمد میں ہنگامہ پر خوں ریزی سے گلزار کا خاکہ ڈالا جائے۔ بعض نے نغمہ سرائی کی کہ غنیم کو دم نہ لینے دو ، اڑجائیں اور چھری کٹاری ہوجائے کہ یہی بہار ہے ۔ فتح کے گلیچیں اور سلطنت کے باغبان نے کہا کہ ہاں یہی ہانک سچ ہے‘‘۔ 
(مولانا محمد حسین آزادؔ ) 
اس مضمون میں تصنع سے کام لیا گیا ہے ۔ 
(۱۰)رنگ آمیزی کی مثال: 
’’سینے قبلۂ عالم! یہاں سے برس دن کی راہ شمال میں ایک ملک ہے ، عجائب زرنگار، ایسا خطر ہے کہ مرقع خیال مانی وبہزادنہ کھینچا ہوگا ، اور پھر دہقان فلک نے مزرعۂ عالم میں نہ دیکھا ہوگا ۔ شہر خوب ، آبادی مرغوب ، رنڈی، مرد حسین طرحدار، مکان بلور کے ؛ بلکہ نور کے ، جواہر نگار؛ عقل باریک ، بنیان مشاہدہ سے دنگ ہو، خلقت اس کثرت سے بستی ہے کہ اس بستی میں وہم وفکر کو عرصۂ تنگ ہو ، خورشید سحر اس کے دروازے سے ضیا پاتا ہے ، بدر کامل اس شہر میں غیرت سے کا ہیدہ ہو؛ ہلال نظر آتا ہے ‘‘۔
(از طوطاکہانی) 
اس میں حد سے زیادہ رنگینی پیدا کردی گئی ہے، جس سے بھدا پن پیدا ہوگیا ہے۔
پرزور اسلوب 
پر زور اسلوب اس اسلوب کا نام ہے، جو انسان کے فہم کو اپیل کر تا ہے ، اس کے ذہن ودماغ کو متوجہ اور جذبات خفتہ کو بیدار کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اندر جوش کی کیفیت بھی پیدا کردیتا ہے ۔اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مضامین اور الفاظ دونوں پر زور ہوتے ہیں ، جیسے: 
’’سیاست ایک آگ ہے،جو پہلے خود بھڑکتی ہے پھر بھڑکا ئی جاتی ہے ۔ اور دل جب تک لذت آشنائے درد نہ ہو، برف کی ایک قاش ہے، جو پانی تو بن سکتی ہے ؛ لیکن آگ میں جلا نہیں کرتی ۔ اب جو قدم اٹھ چکے ہیں ، انھیں بیاباں نہیں روک سکتے کہ ہم نے تلوے سہلالیے ہیں اور خار مغیلاں کی مدارات کے لیے آبلے حاضر ہیں۔ اب سمندروں کی موجوں میں ہمارے لیے کوئی خوف نہیں ، ہم ان سے کھیل سکتے ہیں ۔پہاڑوں کی چوٹیاں، ہمارے عزم کے سامنے خاک کا تودہ ہیں۔جب قوم سر بکف ہوکر آزادی کے سفر کو نکلتی ہے، تو اس کے لیے موانعات کے انبار، پرکاہ ہوکر رہ جاتے ہیں، اور نصب العین کی سچائی، منزل تک پہنچ کر رہتی ہے‘‘۔ (مولانا ابو الکلام آزادؔ )
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مضمون نگار پر زور اسلوب اختیار کرتا ہے ، لیکن مضامین بھی کچھ کمزور ہوتے ہیں اور الفاظ کی بندش بھی کچھ ڈھیلی رہ جاتی ہے، جن سے کلا م میں ’پھسپھسا پن‘پیدا ہو جاتا ہے اوراس تحر یر کو پڑھ کر قاری کے جذ با ت بھی نہیں ابھر تے ۔اسی طرح مضمو ن نگا ر اس اسلوب کے سہا رے مضا مین کی ادا ئیگی میں غیر ضروری طوالت ، لفا ظی اور مبا لغہ آرا ئی سے کا م لیتا ہے ،جیسے: ؂ 
بجلیاں میری اگر کھینچ آئیں میرے راگ میں 
ناطقہ تبدیل ہو جائے دہکتی آگ میں 
سننے والے جل اٹھیں شورفغاں اٹھنے لگے
پڑھنے والے کی رگ و پے سے دھواں اٹھنے لگے 
نقطہ نقطہ بر ق خا طف بن کے ضود ینے لگے
حرف گل جا ئیں ،لب گفتار لو دینے لگے
اس اسلو ب میں یہ دونوں(پھسپھسا پن اور لفا ظی کی) خامیاں عمو ما در آتی ہیں، اس لیے ان سے بچنے کی کوشش کرنی چا ہیے۔ 
کلام میں زور پیدا کرنے کے طریقے 
متعدد طریقوں سے کلام میں زور پیدا کیا جاتا ہے ۔ ان میں سے چندطریقے ذیل کی سطروں میں درج ہیں: 
(۱)الفاظ کی عمومی ترکیب کو اس طرح بدل دینا کہ نہ تو اس سے معنی کی کوئی خرابی لازم آئے اور نہ ہی جملوں کی بندش ڈھیلی پڑے، جیسے:
’’مکان کی چھت کا نہیں؛ بلکہ بنیاد کا سوال ہے، پھر دیواریں جتنی ٹیڑھی ہیں، اس لیے جب تک ازسر نو تعمیر نہ ،ہوگی، درستگی کی امید نہیں‘‘ ۔ (مولاناابو الکلام آزادؔ ) 
اسی جملے کو صرف الفاظ کی نشست تبدیل کر کے اس طرح لکھا جائے کہ ’’مکان کی بنیاد کا سوال ہے، چھت کا سوال نہیں ہے، پھر دیواریں جتنی ٹیڑھی ہیں، اس لیے درستگی کی(جب تک تعمیر از سرے نو نہ ہوگی) امید نہیں‘‘۔ تو کلام کا سارا ز ورخاک میں مل جاتا ہے، حالاں کہ الفاظ بھی وہی ہیں اور خیالات بھی وہی ہیں۔ 
(۲)کلام میں ربط وتسلسل برقرار رکھنے کے لیے کثرت سے حروف ربط لانے سے بھی کلام میں زور پیدا ہوتا ہے، جیسے:
’’اے مغرور انسان ! یاتو خدا بن جا ،یا خدائے حقیقی کے آگے سرنگوں ہو جا‘‘۔ 
(مولاناابوالکلام آزداؔ ) 
(۳)تکرار لفظی اور تکرار معنوی سے بھی کلام پر زور ہوتا ہے ، جیسے:
تکرار لفظی کی مثال : 
’’ہندستان لرزتا ہے ، کون ہے جو اس کو تھامے ؟ ہندستا ن مضطرب ہے، کون ہے، جو اس کو تسکین دے؟ ہندستان وقف فریادہے، کون ہے، جو اس کی فریاد رسی کو آمادہ ہو‘‘؟ (مولانا ابواکلام آزادؔ ؔ )
تکرار معنوی کی مثال: 
’’ربانی خم خانۂ عشق کا آخری ہو ش مند سرشار ، ریاض محبت کی بہار جاوداں کا آخری نغمہ خواں عندلیب ، نظارۂ جمال حقیقت کا پہلا مشتاق ، مستور ازل کے چہرۂ زیر نقاب کا پہلا بند کشا؛ زندگی کے آخری گھنٹوں میں ہے‘‘۔ (جناب مولانا سید سلیمان ندویؒ ) 
(۴)مرصع زبان، تشبیہات واستعارات کے مناسب استعمال سے بھی کلام پرزور بن جاتاہے : 
’’شاید ہماری جوانی کا عہد ختم ہو چکا ، اب’صد عیب پیری‘کی منزل سے گذر رہے ہیں۔ ہمارا بچپن جس قدر حیرت انگیز اور جوانی کی طاقتیں جس درجہ زلزلہ انگیز تھیں، دیکھتے ہیں ، تو بڑھاپے کے ضعف ونقاہت کو بھی اتنا ہی تیز پاتے ہیں ۔شاید اب اس کے بعد منزل فنا درپیش ہے۔ چراغ تیل سے خالی ہوتا چلا جاتا ہے ، اور چولہا خاکستر سے بھر تا چلا جاتا ہے ۔ گذشتہ باتوں کی صرف ایک بات یاد رہ گئی ہے، اور جوانی کے افسانے خواب وخیال معلوم ہوتے ہیں؛ لیکن اگر ہمیں مٹنا ہی ہے، تو مٹنے میں دیر کیوں؟ صبح فنا آگئی ہے، تو شام سحر کو بجھ ہی جانا ہے ۔ جس بزم اقبال وعظمت میں اب ہمارے لیے جگہ نہیں رہی، بہتر ہے کہ اوروں کے لیے اسے خالی کردیں‘‘۔ (مولانا ابو الکلام آزادؔ ) 
نظم کی مثال: ؂ 
کشور ہندوستاں میں رات کو ہنگام خواب 
کروٹیں رہ رہ کے لیتا ہے فضا میں انقلاب 
گرم ہے سوز بغاوت سے جوانوں کا دماغ 
آندھیاں آنے کو ہیں اے بادشاہی کے چراغ 
تندرو دریا کے دھارے کو دبا سکتے نہیں 
نوجوانوں کی امنگوں کو دبا سکتے نہیں 
مدح اب ڈر ڈر کے کرتے ہیں یوں سرکار کی 
جیسے کوئی دھار چھوتا ہو اُپی تلوار کی 
(جوش ملیح آبادی)
(۵)طنزسے بھی کلام میں زور پیدا ہوتا ہے ۔ طنز کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ کچھ بولے جائیں اور مطلب کچھ اور لیا جائے، جیسے:
’’میں مانتا ہوں کہ وہ احمق ہے ، میں یہ بھی مانتا ہوں کہ وہ بزدل ہے ، اور اگر آپ کہیں تو میں یہ بھی ماننے کے لیے تیارہوں کہ وہ باغی ہے ، لیکن ہمیں اپنے مخالفوں کے ساتھ انصاف کر نا چاہیے، ہمیں یہ بات فراموش نہ کرنی چاہیے کہ وہ ایک اول درجے کا بدمعاش بھی ہے‘‘ ۔ (رشید احمد صدیقیؔ )
نظم کی مثال: ؂ 
شیخ جی پر یہ قول صادق ہے 
چاہ زمزم کے آپ مینڈک ہے
شیخ جی کو جو آگیا غصہ 
لگے کہنے یہ پھینک کر وہسہ 
تم ہو شیطان کے مطیع و مرید 
تم کو ہر ایک جانتا ہے پلید 
ہے تمھاری نمود بس اتنی 
جس طرح ہو پڑی پریڈ پہ لید 
(۶)طنزکے ساتھ مزاحیہ عنصر شامل کرنے سے بھی کلام پر زور ہوتاہے ، جیسے: ؂ 
لیٹے ہوئے تھے ریل کے ڈبے میں ایک بزرگ 
گویا کہ پوری برتھ وہی لے چکے تھے مول 
ٹوکا کسی نے ان کو تو کہنے لگے جناب 
نہرو نے کہہ دیاہے کرو ’’برتھ کنٹرول‘‘
(دلاورفگارؔ پاکستانی)
(۷)یکساں ترکیب والے متوازن جملے استعمال کرنے سے بھی کلام میں زور پیدا ہوتا ہے، جیسے:
’’آج کی صبح وہی صبح جاں نواز ، وہی ساعت ہمایوں، وہی دور فرخ فال ہے ۔ارباب سیر اپنے محدود پیراےۂ بیان میں لکھتے ہیں کہ آج کی رات ایوان کسرہ کے چودہ کنگرے گر گئے ، آتش کدۂ فارس بجھ گیا ، دریائے سادہ خشک ہوگیا؛ لیکن سچ یہ ہے کہ ایوان کسریٰ نہیں؛بلکہ شان عجم، شوکت روم، اوج چین کے قصرہائے فلک بوس گرپڑے ، آتش فارس نہیں؛ بلکہ حجیم شر، آتش کدۂ کفر، آذر کدۂ گمراہی سرد ہوگئے، صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی، بت کدے خاک میں مل گئے، شیرازۂ مجوسیت بکھر گیا، نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے ۔ توحید کا غلغلہ اٹھا ، چمنستان سعادت میں بہار آگئی، آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں، اخلاق انسانی کا آئینہ پر تو قدس سے چمک اٹھا‘‘۔ 
(مولانا شبلی نعمانی) 
(۸)کلام میں زور پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ شروع میں ایک مختصر سا جامع جملہ لکھ دیا جائے، جس میں پورے مضمون کا نچوڑ ہو ، پھر اس کے بعد اس کی تفصیل و توضیح کی جائے، جیسے:
’’قومی زندگی کی مثال بالکل افراد واشخاص کی سی ہے ، بچپنے سے لے کر عہد شباب تک کا زمانہ ترقی اور عیش ونشاط کا دور ہوتاہے ۔ ہر چیز بڑھتی ہے ۔ہر قوت میں افزائش ہوتی ہے۔ جو دن آتا ہے ، طاقت وتوانائی کا ایک نیا پیام لاتا ہے ۔ طبیعت جوش وامنگ کے نشہ میں ہر وقت مخمور رہتی ہے ، اور اس سرخوشی وسرور میں جس طرف نظر اٹھتی ہے ، فرحت وانبساط کا ایک بہشت زار سامنے آجاتاہے ۔ اس طلسم زار ہستی میں انسان سے باہر نہ غم کا وجود ہے اور نہ نشاط کا، البتہ ہمارے پاس دو آنکھیں ضرور ہیں، جو اگر غمگین ہوں، تو کائنات کا ہرظہور غم آلود ہے، اور اگر مسرور ہوں، تو ہر منظر مرقع انبساط ہے۔ عہدِ شباب وجوانی میں آنکھیں سرمست ہوتی ہیں ، اور دل جوش وامنگ سے متوالا۔ غم کے کانٹے بھی تلوے میں چبھتے ہیں، تو یہ معلوم ہوتاہے کہ صبح بہار سامنے آکھڑی ہوگئی ہے ، لیکن بڑھاپے کی حالت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے ۔پہلے جو چیزیں بڑھتی تھیں ، اب روز بروز گٹھنے لگتی ہے ۔ جن قوتوں میں ہر روز افزائش ہوتی تھی ، اب روز بروز ان میں اضمحلال ہوتاہے ، طاقت جو اب دے دیتی ہے ، اور عیش ومسرت کنارہ کش ہوجاتے ہیں ، جو دن آتا ہے، موت وفنا کا نیا پیغام لاتا ہے ۔ 
قوموں کی زندگی کا بھی یہی حال ہے ، ایک قوم پیدا ہوتی ہے ، بچپنے کا عہد بے فکری کاٹ کر جوانی کی طاقت آزمائیوں میں قدم رکھتی ہے، یہ وقت کاروبار زندگی کا دور اور قومی صحت وتندرستی کا عہدبے نشاط ہوتا ہے ، جہاں جاتی ہے ، اوج و اقبال اس کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اور جس طرف قدم اٹھاتی ہے ، دنیا اس کے استقبال کے لیے دوڑتی ہے ؛ لیکن اس کے بعد جو زمانہ آتا ہے ، اس کو پیری وصد عیب کا زمانہ سمجھیے کہ قومیں ختم ہونے لگتی ہیں، اور چراغ میں تیل کم ہونا شروع ہوتا ہے ، طرح طرح کے اخلاقی وتمدنی عوارض روز بروز پیدا ہونے لگتے ہیں، جمعیت واتحاد کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ، اجتماعی قوتوں کا اضمحلال ، نظام ملت کو ضعیف وکمزور کردیتا ہے‘‘۔ (مولانا ابو الکلام آزادؔ ) 
(۹)موقعہ بہ موقعہ ضرب الامثال ، اقوال زریں اور کہاوتوں کے استعمال سے بھی کلام میں زورپیدا ہوتا ہے ۔
’’ہر چند کہ تعصبات لغو کی کوئی حدنہ تھی ، بایں ہمہ انگریزی حکومت جیسی ان دنوں کی مطمئن تھی ، آئندہ تابقائے سلطنت انگریزوں کو خواب میں بھی نصیب ہونے والی نہ تھی، لوگوں کو مفید ومضر کے تفرقے، برے بھلے کا امتیاز کا سلیقہ نہ تھا ، سرکار بمنزلہ مہربان باپ کے تھی ، اور بھولی بھالی رعیت بجائے معصوم بچوں کے ، انگریزی کا پڑھنا ہمارے بھائی بندوں کے لیے کچھ ایسا ناسزا وار ہوا ، جیسے آدمی اور اس کی نسل کے حق میں گیہوں کا کھانا ، گئے تھے نماز بخشوانے، الٹے روزے اور گلے پڑے، انگریزی زبان کو اوڑھنا بچھونا بنایا تھا، اس غرض سے کہ انگریزوں کے ساتھ لگاوٹ ہو، مگر دیکھتے ہیں تو لگاوٹ کے عوض رکاوٹ ہے اور اختلاط کی جگہ نفرت ، حاکم و محکوم میں کشیدگی ہے کہ بڑھتی چلی جاتی ہے ، دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر ، دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے ‘‘۔ (مولوی نذیراحمد)۔
منزل قوت میں شاید آج تم رہتے نہیں 
جس کی لاٹھی اس کی بھینس اب کس لیے کہتے نہیں
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں 
ناؤ کی کاغذ سدا چلتی نہیں
(جوش ملیح آبادی)
(۱۰)جملے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے پہلے حصے میں پر زورالفاظ، دوسرے حصے میں خفیف اور تیسرے حصے میں پر زور ترین الفاظ لانے سے بھی کلام میں حد درجہ کا زور پیدا ہوتاہے ، جیسے: 
نثر کی مثال ؂
پرزور
خفیف 
پر زور ترین
اے مجروحین کانپور!
تم نے
گولیاں کھائی ہیں ،
نیزوں سے 
تمھارے سینوں میں 
سوراخ کیا گیا ہے، 
تمھاری آنکھوں میں 
سنگینیں 
بھونکی گئی ہیں، 
تمھارے ایک ایک عضو کو 
زخموں سے 
چور چور کیا گیا ہے۔ 
(مولانا ابو الکلام آزادؔ )
نظم کی مثال ؂
ّٖپر زور 
خفیف 
پر زور ترین
نکل کے صحرا سے
جس نے روما کی
سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدوسیوں سے
میں نے
وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا 
سفینۂ برگ گل 
بنالے گا قافلہ
مور ناتواں کا 
ہزار موجوں کی ہو کشا کش 
مگر یہ 
دریاکے پار ہوگا 
(علامہ اقبال )