6 Jun 2017

کچھ یادیں سہانے ماضی کی

کچھ یادیں سہانے ماضی کی



زمانہ طالب علمی کی کچھ لاشعوری کاوشیں(زمانہ طالب علمی دارالعلوم دیوبند کی ضلعی انجمن :انجمن آئینہ اسلام طلبہ ضلع گڈا جھارکھنڈ کا ماہانہ دیواری پرچہ ’’ پرواز‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری دی گئی تھی، اس مناسبت سے لکھی گئی راقم کی پہلی تحریر پیش خدمت ہے۔ یہ تحریر من و عن پیش کی جارہی ہے، کیوں کہ اس میں کوئی بھی تبدیلی ایسی ہی ہوگی جیسے کہ کسی بڑے شخص کے بچپن کی تصویر میں داڑھی اور مونچھ بنادی جائے)اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑجائیں گی










آج قلم کی روح بے چین ہے، کاغذ کا دل ماتم کناں ہے، خامہ فرسا نمدیدہ ہے ، اس کا چہرہ رنجیدہ، جبیں افسردہ، سر شوریدہ، دل گرفتہ، جاں سوختہ، سوچ و خیال کا سراپا اور غم و اندوہ کا مجسم بنا ہوا ہے، اس کے آئینہ فکرو خیال میں ماضی کی یادوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ؛ لیکن کیوں؟ ؂دلِ ناداں ! تجھے ہوا کیا ہےآخر اس درد کی دوا کیا ہےقلم کی روح کیا اس لیے بے چین ہے کہ وہ افسانۂ ہجرو فراق کی خامہ فرسائی کررہا ہے ؟ دلِ قرطاس کیا اس لیے ماتم آسا ہے کہ حکایت بر ق خرمن کی منظر آرائی سے کرب و کسک محسوس ہورہی ہےَ ۔۔۔ ہاں! وقت نے گیت ہی ایسا گایا ہے کہ قلم اشک افشانی اور قرطاس احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے لمحات کی کسک بیان کرنے پر مجبور و بے بس ہے۔ہم طالبان علوم نبویہ کی یہ فطری تمنا ہوتی ہے کہ ہمارے سفر علم کی آخری منزل ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ ہو؛ بلکہ شروع ہی سے گلشن قاسمیہ میں بلبل بن کر چہکتے رہیں۔ ؂چوں طالباں شنیدند از ہر طرف دویدندباغ و بہار ایں جا، ایں گلشن دوامیچنانچہ ہم اپنی فطری تمنا کی تکمیل کے لیے عازم دیوبند ہوجاتے ہیں اور شوال میں ’’امتحان داخلہ‘‘ دے کر اپنی تقدیر کے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں ، وقت اس عدالت کا منصف اعظم ہوتا ہے ، جو بالکل صحیح فیصلہ کرتا ہے ۔ اگر ہم زندگی کے سابقہ لمحات کی قدر کیے ہوئے ہوتے ہیں ، تو منصف اعظم کا فیصلہ ہوتا ہے کہ تمھاری آرزو پوری ہوگی۔ اور افر سابقہ زندگی کے اوقات کو یوں ہی لاابالی پن اور لایعنی کاموں میں ضائع کیے ہوئے ہوتے ہیں ، تو تقدیر کا شکوہ کرتے ہوئے خائب و خاسر لوٹ جاتے ہیں۔ جب ہماری آرزو پوری ہوجاتی ہے ، تو ہماری خوشیوں کی کوئی انتہا نہیں رہتی اور ہم مسرتوں سے پھولے نہیں سماتے ۔ اس جشن مسرت میں ہم مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور پھر عزم مصمم کرتے ہیں کہ دیگر مدرسوں کی زندگی کو جیسے گزار دیا ، گزار دیا؛ لیکن اب دارالعلوم کی زندگی صرف جدوجہد اور سعی پیہم میں گزاریں گے۔ پھر سب اس وعدے کی تکمیل میں مصروف طلب ہوجاتے ہیں ۔ یہاں تک ہم تمام کی دارالعلوم کی ابتدائی زندگی کی کیفیت یہی ہوتی ہے اور ایسی ہی رہتی ہے ۔لیکن اس موڑ سے آگے صرف میری زندگی تمام ہی طلبا سے الگ راہ اختیار کرلیتی ہے ، ہر ایک کو وسعت طلب کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور ناچیز ادنیٰ طلب سے بھی ناآشنا۔ وہ علم و حکمت کے خزانے لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں ؛ لیکن بندہ ناتواں علم و حکمت کے حصولِ ذرہ سے بھی لاپرواہ۔ وہ شب و روز درس و تدریس کی ہر گھڑی کی قدر کرتے ہیں؛ مگر خاکسار ضیاع اوقات کے احساس سے بھی بے حس۔ وہ میدان علم و معرفت میں سبقت کے لیے کوشاں رہتے ہیں ؛ پر احقر ذوق طلب سے بھی انجان۔ وہ اپنی زندگی سنت و شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ؛ پر ہیچ مداں فکر آراستگی سے ہی بے خبر۔وہ کامیابی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں اور نیاز مند بربادی کی راہ پر رواں دواں۔ چنانچہ چھ سالے کا لمبا عرصہ گزرگیا اور ناچیز بربادی، بے فکری اور بے ذوقی کی راہ پر سرپٹ دوڑتا رہا ۔ اتنے لمبے عرصے میں کبھی بھی فکر طلب و عمل پیدا نہیں ہوئی ۔ دورۂ حدیث میں قدم رکھا، پھر بھی ذوق طلب نہیں پھڑکا اور جب کہ یہ آخری سال بھی اختتام پذیر ہے ، پھر بھی احساس طلب نہیں۔ بس جو کچھ احساس ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ ساحل سمندر پر بھی تشنہ کا تشنہ ہی رہا۔ اب یہاں سے جانا پڑے گا۔ اس چہار دیواری سے باہر قدم رکھنا پڑے گا، جو یہاں کے حالات و ماحول سے یکسر مختلف اور جدا ہے۔ قصہ مختصر وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ ’’بخاری شریف‘‘ مکمل کرادی گئی ۔ شیخ زمن نصیحت فرماچکے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے ، دعائے سری کا دور تھا ۔ ہر طرف سراسیمگی اور سناٹا چھایا ہوا تھا ، دل کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ہوتی گئیں، قبل از وقت جدائی کی کسک محسوس ہورہی تھی۔ ہم دعا کر رہے تھے ، پر ہماری نظریں شیخ صاحب کی طرف تھیں، خموشی کا یہی عالم تھا کہ شیخ صاحب درد بھری آواز اور ماتم سرا لہجہ میں بول اٹھے کہ ’’ یا اللہ! آپ نے ہمیں یہ امانت سپرد کی تھی، لیکن ہم امانت کا حق ادا نہ کرسکے۔ ائے رحیم! تو معاف فرما۔ یا بار الٰہ! یہ امانت اب تیرے حوالے ہے، تو ان کی کفالت فرما‘‘۔ بس کیا تھا : دارالحدیث آہ و بکا کی چیخ سے گونج اٹھا، ہر شخص کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، چہروں کا رنگ فق ہوگیا، آنسووں کا سیل رواں ہوگیا، جو تھمتے نہ تھے، کچھ غم فراق کے آنسو تھے تو کچھ غم احساس کے آنسو تھے۔ایک طرف درد فرقت سے تڑپ رہے تھے تو دوسری طرف احساس تہی دامن سے شرمندہ شرمندہ ، ذہن و دماغ پر بس ایک ہی جملہ رقص کر رہا تھا کہ ’الآن کما کان‘ یعنی آٹھ سال پہلے جس جہالت کی حالت میں گھر سے نکلے تھے ، آج آٹھ سال بعد بھی ہماری وہی کیفیت ہے کہ ہاتھ خالی اور علم سے عاری گھر جارہے ہیں۔ علم و فن کا دریا موجزن تھا ؛ لیکن ہائے ہماری بدبختی کہ ہم نے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا۔ علم و حکمت کا سیل رواں تھا ؛ لیکن آہ ہماری غفلت! ہم اپنے دامن کو بچاتے ہی رہ گئے۔ مسند درس بیٹھنے والے میراث رسول علیہ السلام تقسیم کرتے رہے، لیکن آہ! ہماری شقاوت کہ حصول میراث سے لاپرواہی برتنے رہے۔ مادر علمی کا فیضان عام مسلسل جاری رہا؛ لیکن وائے ہماری نادانی کہ ہم کسب فیض سے باز رہے ۔ دارالعلوم نے اپنی داد و دہش اور عطیہ و بخشش میں کچھ بھی کمی نہ کی؛ لیکن جس کا دست طلب ہی شل ہوگیا ہو اور جو لینا ہی نہ چاہے، تو اس میں دارالعلوم کا کیا قصور؟ آفتاب اپنی شعاعوں سے پوری دنیا کو منور کردیتا ہے ؛ لیکن اگر چمگادڑ کو نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور؟ ؂حسرت سے اس مسافر بے کس پہ روئیےجو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے جدائی کی اس گھڑی میں سب کی روح بے چین ، دل کشیدہ، چہرے غم زدہ، جبیں افسردہ اور آنکھیں نمدیدہ ہیں ۔ تمام ساتھی دو ملی و جلی متضاد کیفیتوں میں کشمکش نظر آرہے ہیں ، خیال فراق میں غم کی تصویر بنیہوئے ہیں، درد و فرقت سے تڑپ رہے ہیں ، احساس جدائی سے مضطرب و بے چین ہیں،کسک فراق سے نالاں وپریشان ہیں، ایک دوسرے کو رخصت کر رہے ہیں، الوداع الوداع کہہ رہے ہیں اور اپنی تقدیر پر شکوہ کناں ہیں کہ آج ہم سے یہ مادر علمی چھوٹ رہا ہے، ہم اپنے اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں سے محروم ہورہے ہیں ، بزم احباب سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہے ہیں، اب ہم اس طرح کبھی جمع نہیں ہوسکیں گے۔ درس و تدریس کے لمحہ لمحہ کی یاد ہمیں ستائے گی ، ہم ان درودیوار کی دیدار کے لیے ترستے رہیں گے ، یہ دارالحدیث کا گنبد بیضا، مسجد رشید کی حسین میناریں،مسجد چھتہ کی روحانیت، مسجد قدیم کی نورانیت، ساقی کوثر کا مے خانہ ، میکدہ قاسم کا جام و سبو، گہوارۂ طیب، چمن نصیری، قلزم مدنی، مینائے مدراسی، صہبائے سعیدی، بزم قمری، بہار حبیبی، درس نعمتی، بئر زمزم کا پرتو، دار جدید کی پرشکوہ عمارتیں، اس چمن میں بیتے ہوئے لمحات، احاطہ مولسری میں گزری ہوئی زندگی کی صبح و شام، یہاں سے وابستہ سنہری یادیں، شب و روز کے مشاغل، تعلیم وتعلم کے معمولات، پند و وعظ کی قیمتی باتیں، تقریر و تکرار میں گزری ہوئی باتیں، اساتذہ کی نصیحتیں، صدائے قال قال کی باز گشت ، دوست و احباب کے میل ملاپ، یاران ہم نوا کے اجتماع و اختلاف باہمی الفت و لگن، آپسی خلش و چپقلش، ایک دوسرے سے روٹھنا منانا، پڑھنا لکھنا، کھیلنا کودنا، رفقا کے ساتھ مستیاں واٹھکھیلیاں، انجمن کی بزم آرائیاں اور احباب کی طرب انگیزیاں ، ان سب کی یادیں ہمیں تڑپائیں گی۔دوستو ! یہ اجتماع و اختلاف، یہ اتحادو اتفاق، یہ وصال و فراق، یہ جمع و تفریق، یہ جدائیو جفائی، یہ بے کسی و بے بسی، یہ ہماری آمدورفت سب قدرت کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ یہاں کسی کو بقا و دوام نہیں۔ خود دنیا کی کیا حقیقت ہے کہ کلی پھول بنی اور مرجھا گئی ، گلاب میں چمک آئی اور ماند پڑگئی، چمبیلی مہکی اور ختم ہوگئی، کنول کھلا اور کمھلا گیا،نرگس شہلا مسکرائی اور خاموش ہوگئی، چمپا میں تازگی آئی اور پژمردگی چھا گئی، بلبل شاخ پر چہکا اور اڑگیا، چاندی آئی اور غائب ہوگئی، سورج طلوع ہوا اور ذوب گیا، دن رخصت ہوا اور رات کی تاریکی چھاگئی، رات کافور ہوئی اور دن آگیا، صبح ہوئی اور شام ہوگئی۔ بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میںثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میںتو جب دنیا ہی کو بقا ودوام نہیں ہے ، تو ہم کب تک اس گلشن میں رہتے ؟ زندگی کا اور کتنا حصہ یہاں بتاتے ہیں ؟ اور کب تک زندگی کی بہار لوٹتے؟ چلے گا بزم میں جام شراب مشک و بو کب تکرہیں گے زینت محفل بتان شعلہ رو کب تککریں گے بزم قاسم میں سکون آرزو کب تکہماری کروفرکب تک رہے گی اور ہم کب تکیقیناًہمیں یہاں سے کسی دن نکلنا ہی پڑتا اورہ ہمیں رخت سفر باندھنا ہی پڑتا، آج وہی رخصت کی گھڑی ہے، تو پھر یہ کیسا شکوہ اور کس کا شکوہ؟ یہ کیسا گلہ اور کس کا گلہ؟ یہ کیسا غم اور کس کا غم ؟ یہ کیسی کسک اور کیسا درد؟ یہ کیسی رنجش اور کیسا رونا؟ اور کیوں کر رونا؟ ارے غم تو غذائے روح ہے اس سے گریز کیاجس کو ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملےلہذا چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے ماضی کی حسین یادوں کو ، جس کو دہراکر ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں، اگرچہیہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیںاوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹانا کھیل نہیںلیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دوجو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاوٌ رہنے دوپس جدائی کی اس جاں سوز گھڑی میں نمناک آنکھوں اور غم ناک چہروں سے نہیں؛ بلکہ انتہائی بہجت و سرور اور ہشاش بشاش چہروں سے ایک دوسرے کو الوداع کہیے اور یہ تسلی دیجیے کہ اگرچہ فی الوقت ہم ایک دوسرے سے بچھڑ رہے ہیں اور جدا ہورہے ہیں اور یہ شعر زبان زد ہے کہ جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی،جہاں نغمے ہی نغمے تھےوہ گلشن اور وہ یاران غزل خواں یاد آئیں گےلیکن زندگی کے ہر موڑ پر ، جہاں بھی موقع ملے گا۔۔۔ان شاء اللہ ملاقات کرتے رہیں گے اور ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے۔شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تکتمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگیاور اگر زندگی نے وفا نہ کی اور قبل از وصال وفات ہوگئے ، تو ان شاء اللہ ایک وقت سایہ عرش میں ضرور ملاقات ہوگی، جس وقت اگرچہ نفسی نفسی کا عالم ہوگا، لیکن ہماری یہ سچی دوستی ضرور کام آئے گی، الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدوا الا المتقین۔علیکم سلام اللہ انی راحلو عینای من خوف التفرق تدمعان نحن عشنا فھو یجمع بینناو ان نحن متنا فالقیامۃ تجمعدل حکایت غم سے لبریز ہے، جی چاہتا ہے کہ یوں ہی ساز غم کو چھیڑتا رہوں اور اشک بہاتا رہوں، لیکن اپنے جذبات کے اس قدر اظہار سے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں جھوٹا نہ سمجھ لیا جاؤں کہ کہیں دوست تم سے نہ ہوجائیں بد ظنجتاؤ نہ حد سے محبت زیادہاس لیے اپنے جذبات کو ضبط کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ان درو دیوار پر حسرت کی نظر کرتے ہیں خوش رہو اہل چمن ہم تو سفر کرتے ہیں۔

2 Oct 2011

عورت فطرت کے آئینے میں

عورت فطرت کے آئینے میں
خالق ارض و سما نے اپنی تمام مخلوقات کو اپنی اپنی نوع میں دو الگ الگ فطری تقاضے اور مختلف فکری رجحانات ودیعت فرماکر پیدا کیا ہے۔ چنانچہ اگر اس خالق نے پھول بنائے ہیں تو ساتھ ہی کانٹوں کو بھی وجود بخشا ہے۔ دن بنایا ہے تو رات بھی بنائی ہے۔ زمین تخلیق کی ہے تو آسمانوں کو بھی پھیلایا ہے۔ اسی طرح آگ پانی، گرمی سردی، خوشی غم، خوبصورتی بدصورتی، کالا گورا، رنگ بے رنگ وغیرہ وغیرہ۔ نوعِ انسانی میں مرد و عورت کے دو الگ الگ رُوپ، قدرت کے اسی نظام تخلیق کا کرشمہ ہے۔
یہ اختلافی کرشمہ جہاں اس خلاق عالم کے حقیقی خالق ہونے پر واضح دلیل ہے،وہیں اس کائنات کی بوقلمونی ،رنگ برنگی اور زیب و زینت کا راز بھی ہے، کیوں کہ اگر صرف رات کی تاریکی ہوتی، تو دن کے اُجالے کی اہمیت کا کسے پتہ ہونا۔ صرف اگر پھولوں کی خوشبوں سے سارا چمن معطر رہتا، تو کانٹوں کی چبھن سے کون آشنا ہوتا۔ اگر صرف شمع جلاکرتی، تو پروانے کے جل جانے کی لذت کیسے میسر آتی۔ اگر صرف بے رنگی ہوتی، تو قوس و قزح کی رنگینیاں بے معنی نظر آتیں۔ اگر صرف یک رنگی ہوتی، تو تتلیوں کی رنگت بے رغبت ہوجاتی۔ قصہ مختصر اگر ہر مخلوق میں اس کا صنف مخالف نہ ہوتا تو نہ ترنم میں مزہ آتا، نہ سرسنگیت کے لیے راگ راگنی وجود میں آتی، نہ پھولوں میں دل کشی ہوتی، نہ چڑیوں کی چہچہاہٹ باعث خوشی ہوتی، نہ کوئل کی کوک فرحت و انبساط کا سامان بہم پہنچاتی، نہ کوئی دل بے قرار ہوتا، نہ ہی عشق و شیفتگی کا شرارہ اُڑتا، نہ زلف گھٹا بن کر لہراتی، نہ بادل برسنے کی کوشش کرتا، نہ پلکیں جھپکتیں ،نہ کسی کے دل پر قیامت گزرتی، نہ نقاب اُٹھتا اور نہ ہی کسی کے شباب میں آگ لگ جاتی:
گلہائے رنگارنگ سے ہی زینتِ چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
اللہ تعالیٰ حکیم ہے، اس کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔ اس حکیم نے اپنی جملہ مخلوقات کی تمام نوعوں کو جو دو الگ الگ صنفوں میں تقسیم کیا ہے وہ بھی ایک عظیم حکمت پر مبنی ہے۔ انسانوں کو مرد و عورت کی صنفوں میں تقسیم کرکے انھیں اپنی اپنی صنف کے مطابق جسمانی صلاحیت، ساختیاتی شکل و ہیئت، فطری میلان اور زاویۂ فکر دے کر ان کی فطری ذمہ داریوں کو واضح کیا ہے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا ہے کہ زندگی کے میدان میں گاڑی کے دو پہیے کی مانند دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور معاشرتی و مادّی زندگی میں دونوں صنفوں کے لیے الگ الگ طریقۂ کار فطری طور پر متعین کردیے گئے ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر دونوں اپنی فطری ذمہ داری سے ہٹ جائیں، تو سماجی و معاشرتی ڈھانچے کا تانابانا بکھر جائے گا اور زندگی کا حقیقی لطف اور چین و سکون غارت ہوجائے گا۔
نوعِ انسانی کی ایک صنف مخالف :عورت ہے، اسے صنف نازک بھی کہا جاتا ہے۔ اس صنفِ نازک کی تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی یہ تمام مصیبتوں کا جڑ قرار دی گئی ہے تو کبھی سانپ کا دوسرا روپ سمجھا گیا ہے۔ کبھی برائیوں کی علامت کا نام دیا گیا ہے، تو کبھی گناہوں کا مجمسہ کہہ کر پکاری گئی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خود کو روشن خیال سمجھنے والے کچھ نام نہاد مفکروں نے اسے ذی روح اور شعور و احساس رکھنے والی مخلوق ماننے سے ہی انکار کردیا ہے، جب کہ بعض دیگر مورخوں نے اس کی زندگی کو تسلیم تو کیا ہے، لیکن اس کا فطری مقصد تخلیق کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ مرد و عورت دونوں برابر ہیں۔ دونوں میں کسی بھی اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
مختلف ادوار میں عورتوں کے متعلق ان نظریاتی اختلاف کے اثرات براہِ راست ان کی زندگیوں پر پڑے۔ چنانچہ اوّل الذکر نظریے کے تناظر میں اس صنف نازک پر ہر طرح کا نظم و نسق روا رکھا گیا اور اتنی ستائی گئی کہ اس سے اس کے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا، لیکن جب مغربی مورخین نے موخرالذکر نظریہ پیش کرکے عورتوں کی آزادی کا نعرہ لگایا تو وہ اپنی فطری ذمہ داری سے بغاوت پر اُتر آئی اور گھر آنگن کی محفوظ چہاردیواری سے نکل کر محفل محفل بے آبرو پھرنے لگی، اپنے حسن و جوانی کی نمائش اپنی آزادی کا حصہ تصور کرنے لگی، قلعۂ عزت و آبرو :گھر آنگن کو قیدخانہ سمجھنے لگی، زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کو حالات سے سمجھوتہ اور خود کو مردوں سے کسی چیز میں پیچھے نہ رہنے والی ذات باور کرانے لگی اور تجارتی اشیا کے بجائے خود اپنی شکل و ہیئت کو ہی ایک مارکیٹ کی چیز بناکر دُنیا والوں کے سامنے پیش کیا:
پھول جو کونے میں کھل کر رہ گیا، بے کار ہے
پھول وہ ہے جو نگاہوں کے گلے کا ہار ہے
عورت بھی انسان ہے، مرد بھی انسان ہے ۔دونوں صنفوں کے انسان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اس لیے دونوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے ایک صنف کو انسان اور ذی روح ہونے سے خارج ماننا، اس صنف پر صریح ظلم ہے، کیوں کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی کھاتی پیتی ہیں، محبت و نفرت کا جذبہ دونوں کے اندر پایا جاتا ہے، افہام و تفہیم کی صلاحیت سے دونوں ہی لیس ہیں، جس طرح کپڑا، مکان، سواری اور زندگی کی دیگر ضروریات مردوں سے متعلق ہیں، اسی طرح یہ سب چیزیں عورت کی زندگی سے بھی وابستہ ہیں، لہٰذا انسانی بنیاد پر فرق و امتیاز کی باتیں کرنا سراسر فضول اور لایعنی ہے۔ البتہ یہ سوال بجا ہے کہ جب دونوں انسان ہیں تو کوئی مرد اور کوئی عورت کیوں ہیں؟ انسانی معاشرہ میں ایسا کیوں نہیں ہے کہ سبھی مرد ہوں یا سبھی صرف عورتیں ہوں، وہ کون سی ضرورت تھی، جس کی بنیاد پر نوعِ انسان کو دو الگ الگ صنفوں میں بانٹ دیا گیا اور کسی کو مرد اور کسی کو عورت بنادیا۔
مرد و عورت کے تخلیقی عمل، فطری عوارضات اور جسمانی ساختیار پر غور کرنے سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ انسانی معاشرے کی بقا و تحفظ اور نسل انسانی کی افزائش کے لیے ان دونوں صنفوں کا وجود انتہائی ناگزیر ہے، جس کے لیے ان دونوں صنفوں کے الگ الگ کردار متعین کردیے گئے ہیں۔ کردار کی یہ تعیین فطری ہے اور خود خالق فطرت نے یہ کردار متعین کیے ہیں۔ عورتوں کو نسل انسانی کی بقا کے لیے بچوں کی تولید، ان کی نشوونما اور ان کی پرورش و پرداخت کے فرائض سپرد کیے گئے ہیں اور ان فرائض کی ادائیگی کے لیے جو صلاحیتیں درکار تھیں فطرت نے انھیں فطری طور پر ودیعت فرمادیا ہے۔ اس کے برعکس مردوں کو انسانی معاشرہ میں ایک نگراں کا رول دیا گیا ہے، اسی کے پیش نظر مضبوط قوتِ ارادی، فکری ہم آہنگی، پختہ عزم و حوصلہ، جدوجہد کی لگن اور کسب معاش کے لیے ضروری صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ ان فطری کرداروں کے تناظر میں عورتوں کا رول ایک معاشرہ میں صرف اتنا ہے کہ وہ ماں بنیں، بچوں کی پرورش و پرداخت کریں۔ ایک مثالی معاشرہ کے لیے نونہالانِ نسل کو تیار کریں۔ اگر عورت ایک ماں کے کردار میں ہے تو اسے اپنی ممتا کے فرائض کی ادائیگی میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اگر عورت بیوی کی شکل میں کسی خاندان کا ایک فرد ہے تو اپنی بے لوث محبت و وفاداری اور لازوال عشق و شیفتگی سے گھر کو جنت نشاں بنانا اس کا لازمی فریضہ ہے۔ اگر عورت کسی کی بہن ہے، تو اپنے گھر کی عزت و آبرو کی حفاظت اپنا نصب العین جانے اور اگر عورت کسی کی بیٹی ہے تو اپنے والدین کی نگاہ میں نورِ نظر بنی رہنا اس کا اصلی معاشرتی رول ہے۔ اسی طرح اگر مرد کسی کا باپ ہے تو اپنے بچوں پر شفقت کے پھول نچھاور کرے، اگر کسی کا بیٹا ہے تو اپنے باپ کے نام کو روشن کرنا اس کا نصب العین ہونا چاہیے، اگر وہ کسی کا شوہر ہے تو اپنی بیوی کی نگاہ میں سب سے اچھا شوہر ثابت ہونا ایک معاشرتی ذمہ داری ہے اور اگر وہ کسی کا داماد ہے تو اپنے متعلقین کی نظر میں مثالی رشتہ داری بننا اس کا معاشرتی و اخلاقی فریضہ ہے۔ اب جس طرح مرد اپنے خاندان کی معاشی اور فطری ذمہ داری ادا کرنے کے لیے نوکری کرتا ہے، ملازمت کے خلاف پابندی تصور نہیں کی جاتی ہے، اسی طرح اگر عورت ماں بنتی ہے، بچوں کی پرورش کرتی ہے، ان پر ممتا کے پھول نچھاور کرتی ہے، اپنے گھر کے محفوظ پناہ گاہ میں رہ کر نونہالان کو ایک مثالی معاشرہ کے لیے بہتر افراد بنانے کی کوشش میں شب و روز مصروف رہتی ہے، جس کے باعث باہر کی زندگی میں قدم نہیں بڑھاتی ہے، تو اسے بھی غلامی اور آزادی پر پابندی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس صنف کے لیے کوئی شرم و عار کی بات ہے۔
جب دونوں صنفیں جدا جدا ہیں، دونوں کا مقصد تخلیق الگ الگ ہے، دونوں جسمانی ساختیات، ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتیں تو ظاہر ہے کہ معاشرہ میں دونوں کا کردار بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوگا، دونوں کا میدانِ کار ایک دوسرے سے جدا ہوں گے۔ اس میں نہ مرد عورت کی جگہ لے سکتا ہے اور نہ ہی عورت مرد کے تمام فرائض کو بحسن و خوبی انجام دے سکتی ہے۔
اس اکیسویں صدی میں سائنسی و ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کے باعث جہاں علوم و فنون سیاسیات و اقتصادیات، المختصر تمام شعبۂ حیات میں جو نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے وہیں افکار و نظریات اور سوچ و فکر کے زاویے میں بھی زبردست انقلاب آیا ہے۔ آج کا انسان ماضی کے انسانوں کی فکر و نظر کی ہنسی اُڑا رہا ہے، ان کی سادہ طرزِ زندگی آج کے لوگوں کے لیے ناقابل یقین بنتی جارہی ہے۔ یہ اسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے کہ آج کے زمانے کی خود کو ماڈرن سمجھنے والی عورتیں اپنی فطری ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں شرم و جھجک محسوس کررہی ہیں، اپنی اصل ذمہ داری کو دقیانوسی اور پراگندہ خیالی سمجھ رہی ہیں اور مردوں کے کردار میں زندگی گزارنے میں خود کو ترقی یافتہ اور روشن خیال تصور کررہی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ انسانی معاشرہ تباہ و برباد ہوتا جارہا ہے۔ خاندانی نظام ختم ہوتا جارہا ہے اور لوگوں کی زندگی چین و سکون سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ یا درکھنا چاہیے کہ جس طرح پھول کبھی کانٹا نہیں بن سکتا اور نہ ہی کانٹا کبھی پھول کا روپ دھار کر کسی کے لیے کشش کا سامان بہم پہنچا سکتا ہے، اسی طرح عورت خواہ کتنی ہی ماڈرن بن جائے اور اپنی فطری اصولوں سے بغاوت کرنے کی کوشش کرتی ر ہے تاہم زندگی کی حقیقی لطف کے لیے اسے اپنے فطری کردار میں آنا ہوگا اور اسی ذمہ داری کو ادا کرنا نصب العین بنانا ہوگا جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے۔