19 May 2018

قسط نمبر (10) آخری قسط میت کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا بیان

میت کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا بیان
قسط نمبر (10)

(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں 
پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
دفن کے بعد تھوڑی دیر قبر پر ٹھہرنا اور میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا، یا قرآن شریف پڑھ کر اس کو ثواب پہنچانا مستحب ہے (شامی، عالمگیری)۔
حضرت عبدالرحمان اپنے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ لجلاج نے فرمایا
یَا بُنَیَّ اذَا أنَا مِتُّ فَالْحِدْنِیْ ، فَاِذَا وَضَعْتَنِیْ فِیْ لَحْدِی فَقُلْ: بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلَیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہِ، ثُمَّ سَنَّ عَلَیَّ التُّرابَ سَنَّاً ثُمَّ اقْرَأ عِنْدَ رَأسِی بِفَاتِحَۃِ الْبَقْرَۃِ وَ خَاتِمِھَا، فَانِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ الْلّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ ذٰالِکَ۔ (رواہ الطبرانی و اسنادہ صحیح قال الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد و رجالہ موثوقون)
ائے میرے بیٹے! جب میں مرجاؤں ، تو میرے لیے بغلی قبر کھودو۔ پھر جب مجھے قبر میں رکھو تو کہو بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہ۔ پھرمجھ پر آہستہ سے مٹی ڈالنا۔ پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کا شروع اور اس کا آخری حصہ پڑھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے ۔
سورہ بقرہ کا شروع الم سے مفلحون تک اور اس کا آخری آمن الرسول سے ختم سورہ تک ۔ (امداد الفتاویٰ)
حضرت شعبی نے بیان کیا کہ انصار کا قاعدہ تھا کہ جب ان میں سے کسی کا انتقال ہوتا،تو وہ لوگ قبروں کی طرف سے متفرق ہوجاتے اور ان کے لیے قرآن پڑھتے ۔ (شرح الصدور للسیوطی) ۔ ابو محمد سمرقندی نے قل ھو اللہ احد کے فضائل میں حضرت علیؓ سے مرفوعا روایت بیان کی ہے کہ جو شخص قبرستان سے گذرے اور گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھے ، پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشے، تو مردوں کی گنتی کے برابر اس کو ثواب عطا ہوگا۔ (شرح الصدور)
ابوالقاسم سعید بن علی زنجانی نے اپنے فوائد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعا روایت لائے ہیں کہ: 
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتابِ، وَ قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحَدٌ، وَ ألْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ، ثُمَّ قَالَ: ألْلّٰھُمَّ ا8نِّیْ جَعَلْتُ ثَوَابَ مَا قَرَأتُ مِنْ کََلَامِکَ لَأھْلِ الْمَقابِرِ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ، کَانُوْا شُفَعَاءَ لَہُ ا8لَیٰ الْلّٰہِ تَعَالیٰ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں داخل ہو۔ پھر سورہ فاتحہ اور قل ھو اللہ احد اور الھٰکم التکاثر پڑھے اور کہے کہ ائے اللہ! جو کچھ میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب قبرستان کے مسلمان مردوں اور عورتوں کے بخشا، تو وہ مردے اللہ کے حضور سفارشی ہوں گے۔
یعنی وہ تمام مردے جن کوبخشا ہے ، ثواب بخشنے والے کی سفارش کریں گے ۔  
اتنا تو رحم کرتا مرے حال زار پر
آتا کبھی تو فاتحہ پڑھنے مزار پر
اور عبد العزیز صاحب خلال نے اپنی سند سے حضرت انس کی روایت بیان کی ہے :
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأ سُوْرَۃَ یٰسٓ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ کَانَ لَہُ بِعَدَدِ مَنْ فِیْھَا حَسَنَاتٌ۔ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں آئے ، پھر سورہ یٰسٓ پڑھے ، تو اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کرے گا ۔ اور اس کو اس قبرستان کے مردوں کی گنتی کے مطابق ثواب ملے گا۔ 
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن مجید پڑھ کر بخشنے سے میت کو ثواب پہنچتا ہے ۔ اور ساتھ ہی پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے۔ اور مردے اس کے لیے خدا کے پاس سفارشی ہوں گے۔ اس لیے قبرستان پہنچ کر وقت ضائع نہ کریں؛ بلکہ تلاوت قرآن کا ثواب پہنچا ئیں اور ا ن کے لیے دعائے مغفرت مانگیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اِسْتَغْفِرُوا لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ، فَا8نَّ الا8نْسَانَ یُسْءَلُ۔
(ابو داود)
اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت مانگو، اس لیے کہ وہ ابھی پوچھا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
انَّ الْلّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ!أنّٰی لِیْ ھٰذِہِ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ۔
(احمد)
بے شک اللہ جل شانہ جنت میں اپنے نیک بندہ کا درجہ بلند فرمائے گا، تو بندہ کہے گاکہ ائے پروردگار! یہ کہاں سے مجھ کو ملا؟ (اتنی نیکیاں تو میری نہیں تھیں) پروردگار فرمائے گا کہ یہ تیرے لیے تیری اولاد کے استغفار کی وجہ سے ہے۔
یعنی تیرے لیے تیری اولاد نے دعائے مغفرت کی جس کی وجہ سے تیرا یہ درجہ بلند ہوا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَا الْمَیِّتُ فِي الْقَبَرِ إلَّا کَالْغَرِیْقِ الْمُتَغَوِّثِ، یَنْتَظِرُ دَعْوَۃً تَلْحَقُہُ مِنْ أبٍ، أوْ أمٍ، أوْ أخٍ، أوْ صَدِیْقٍ، فَإذَا لَحِقَتْہُ کَانَ أحَبَّ إلَیْہِ مِنَ الدُّنْیا وَمَا فِیْھَا، وَإنَ الْلّٰہَ تَعَالَیٰ لَیَدْخُلُ عَلَیٰ أھْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أھْلِ الأرْضِ أمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإنَّ ھَدْیَۃَ الأحْیَاءِ إلَیٰ الأمْوَاتِ الاسْتِغْفَارُ لَھُمْ ۔
(رواہ البیھقي في شعب الإیمان)
میت قبر میں ڈوبنے والے غوطہ کھانے والے کے مثل ہوتے ہیں ۔ وہ دعا کا انتظار کرتے ہیں کہ اس کا باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچے۔ پھر جب اس کو کوئی دعا پہنچتی ہے ، تو وہ اس کے لیے دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے ۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ قبر والوں کو زمین والوں کی دعا کی وجہ سے پہاڑ کے مانند ثواب پہنچاتا ہے ۔ اور بے شک مردوں کے لیے زندوں کا تحفہ ان کے لیے استغفار کی دعا مانگنا ہے۔
اسی طرح اللہ کی راہ میں روپیہ پیسہ وغیرہ دے کر ثواب پہنچانے سے اس کو ثواب پہنچتا ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ نے جامع البرکات میں جو مشکوٰۃ شریف کی شرح کا منتخب ہے ، شیخ ابن الہمام ؒ کا قول لکھا ہے کہ عبادت مالی کا ثواب اور اس کا فائدہ جو کوئی کسی میت کو پہنچائے تو بالاتفاق پہنچتا ہے ۔ اور عبادت بدنی کے ثواب پہنچنے میں اختلاف ہے ۔ اور قول اصح یہ ہے کہ پہنچتا ہے ، جیسا کہ احادیث سے ثابت کیا جاچکا ہے ۔ اب عبادت مالی کے ثواب پہنچنے کے بارے میں چند حدیثیں درج کرتے ہیں ۔
حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جو شخص مرجاتا ہے اور اس کے بعد اس کے وارث اس کی طرف سے کچھ صدقہ و خیرات کرتے ہیں، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کے ثواب کو ایک نور کے طبق میں رکھ کر اس میت کی قبر کے کنارے پر کھڑے ہوکر کہتے ہیں : ائے گہری قبر والے! یہ تحفہ تجھ کو تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے، تو اس کو قبول کر۔ پھر وہ ہدیہ اس میت کے پاس پہنچتا ہے ، تو وہ خوش ہوتا ہے اور خوش خبری پاتا ہے ۔ اور وہ مردے جو اس کے ہمسائے ہیں اور ان کے وارثوں نے کچھ ہدیہ تحفہ نہیں بھیجا ہوتا ہے ، وہ مردے اس کو دیکھ کر غم ناک اور دل گیر ہوتے ہیں۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)۔
ایک شخص نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں اچانک مرگئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کلام کرتی، تو صدقہ کرتی:
فَھَلْ لَھَا أجْرٌ انْ تَصَدَّقْتُ عَنْھَا؟ قَالَ:نَعَمْ۔
(بخاری و مسلم)
اگر میں ماں کی طرف سے صدقہ کروں، تو کیا اس کو ثواب ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔حضرت سعد ابن عبادہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ ام سعد مرگئی ۔
فَأیُّ الصَّدَقَۃِ أفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَاءُ ۔ (ابو داود ، نسائی)
یعنی پس کونسا صدقہ بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی، تو انھوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ ام سعد کے لیے ہے ۔ 
مدینہ میں پانی کی قلت تھی ۔ آپ ﷺ نے اس کو افضل کہا۔ معلوم ہوا کہ صدقہ جاریہ میں اس کو فضیلت رہے گی ، جس کی لوگوں کو زیادہ ضرورت پڑتی ہے ۔ نفلی نمازروزے کا بھی ثواب میت کو پہنچانا درست ہے ۔ چنانچہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ جب میرے ماں باپ زندہ تھے ، تو میں ان کے ساتھ سلوک کیا کرتا تھا۔ اب ان کے مرنے کے بعدان کے ساتھ میرا سلوک کیسے ہوگا؟ ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی روزے رکھ (دار قطنی)
یعنی نفلی نماز روزے کا ان دونوں کو ثواب پہنچا۔حضرت مالک بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ !ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کی کوئی خدمت اولاد کے ذمہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہاں نماز پڑھنا اور ماں باپ کے لیے استغفار کرنا۔ اگر انھوں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو، تو اس کو پورا کرنا۔ ماں باپ کے واسطے سے جن لوگوں کی رشتہ داری ہوتی ہو، ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ماں باپ کے دوستوں کی عزت کرنا، یہ سب باتیں ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی خدمت میں شامل ہیں۔ (ابو داود)
تلقین بعد الموت
موت کے بعد تلقین ظاہر روایت میں منع لکھا ہے ، جیسا کہ عینی شرح ہدایہ میں ہے ۔ اور سراج الدرایہ میں مضمرات سے نقل کیا ہے کہ ہم تو قریب موت کے اور وقت دفن کے دونوں وقت تلقین کیا کرتے ہیں۔ (عالمگیری)
اور شرح برزخ میں نقل کیا ہے کہ نزع کے وقت تلقین کرنا بالاتفاق مسنون ہے۔ اور دفن کے بعد اکثر مشائخ بدلائل احادیث آئندہ کے مستحب کہتے ہیں ۔ اور اسی پر اعتماد ہے۔
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مرجائے اور اس کو قبر میں تم دفن کرچکو، تو تم میں سے کوئی اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : یا فلان ابن فلانہ، یعنی ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سنتا ہے ، لیکن جواب نہیں دے سکتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سیدھا اٹھ بیٹھتا ہے۔ پھر تیسری مرتبہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے! تو وہ مردہ کہتا ہے : 
أیْ شِدْنَا، رَحِمَکَ اللّٰہُ
پھر آں حضرت ﷺ نے فرمایا: اس مردہ کے بولنے کی تم کو خبر نہیں ہوتی۔ پھر اس سے مخاطب ہو کر کہے:
مَا خَرَجْتَ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃُ أنْ لَّا ا8لٰہَ ا8لَّا اللّٰہُ وَ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ وَ أنَّکَ رَضِیْتَ بِاللّٰہِ رَبَّاً وَّ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ نَبِیَّاً وَّ بِالْقُرْاٰنِ ا8مَامَاً ۔ 
اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے فرمایا : جب وہ کہنے والا یہ تلقین کہہ چکتا ہے ، تو منکر نکیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ چل ہمارے ساتھ ۔ اب تو کیا کرے گا ، اس شخص سے اس کو تو یاروں نے تلقین کردی ۔ پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر میت کی ماں کا نام معلوم نہ ہو تو کیا کہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: حضرت حوا ؑ کی طرف نسبت کرکے کہیں: ائے فلاں حوا کے بیٹے۔ (طبرانی)۔
اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن حجر نے بلوغ المرام میں فرمایا :
و للطبرانی نحوہ من حدیث ابی امامۃ مرفوعا مطولا
حضرت ضمرہ ابن خبیب ؒ جو ایک تابعی ہیں ان سے روایت ہے کہ 
کَانُوْا اذَا سُوِّیَ عَلیٰ الْمَیِّتِ قَبْرُہُ وَ انْصَرَفَ النَّاسُ عَنْہُ أنْ یُّقَالَ عِنْدَ قَبْرِہ: یا فُلانُ قُلْ لَا الٰہَ الَّا اللّٰہُ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، یا فُلانُ قُلْ: رَبِّیَ اللّٰہُ وَ دِیْنِی الاسْلَامُ وَ نَبِیِّ مُحَمَّدٌ۔ (رواہ ابو سعید ابن منصور مرفوعا بحوالہ بلوغ المرام)
جب قبر میت پر ٹھیک کردی جاتی اور لوگ لوٹ جاتے تو صحابہ کرام مستحب سمجھتے تھے کہ اس کی قبر کے پاس کہا جائے : ائے فلاں کہہ: لا الٰہ الا اللہ۔ تین مرتبہ۔ ائے فلاں کہہ: میرا پروردگار اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرا نبی محمد ہے ﷺ ۔ 
حضرت عثمان غنی ﷺ سے مروی ہے کہ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے، تو رسول اللہ ﷺ ٹھہرجاتے اور فرماتے:
اِسْتَغْفِرُوْ لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ فَانَّہُ الآنَ یُسْءَلُ (رواہ ابو داود و صححہ الحاکم)
یعنی اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا مانگو، اس لیے کہ ابھی اس سے پوچھا جائے گا۔ 
میت پر رونے کا بیان
کیوں غل ہے مری نعش پہ نوحے کی صدا کا 
رونے کا نہیں وقت یہ ہے وقت دعا کا 
انسان غور کرے تو کوئی چیز اپنی نظر نہ آئے گی ، خواہ اولاد ہو ، یا مال؛ سب خدا کا انعام ہے، حتیٰ کہ خود اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی ایک بخشی ہوئی نعمت ہے ۔ انسان گمان کرتا ہے کہ یہ دولت ہماری ہے اور ہم نے اپنی قوت بازو سے حاصل کیا ہے۔ یہ اس کا غلط گمان ہے ۔اگر دولت قوت بازو سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے شہزور بڑے دولت مند ہوتے ۔ مگر ان کو دوسرے کی خاطر ہی شہ زوری کرنی پڑتی ہے ۔ اور چند ٹکوں میں ان کی طاقت بک جاتی ہے ۔ طاقت کا دھنی دولت کا دھنی کم ہوتا ہے۔
اگر دولت عقل و ہنر سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے عقل مند اور دانش مند بڑے دولت مند ہوتے؛ مگر وہاں بھی معاملہ برعکس نظر آتا ہے ۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ؂
بنا دانا چناں روزی ساند
کہ دانایاں دراں حیران بماند
یعنی اللہ تعالیٰ نادانوں کو اس طرح روزی دیتا ہے کہ دانا اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ، اس لیے سب کو اللہ کی دین سمجھیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَیْکَأنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَ یَقْدِرُ۔
(القصص، آیۃ:۸۲)
تیرا برا ہو، اللہ جس کی روزی چاہتا ہے اپنے بندے میں سے فراخ کرتا ہے اور جس کی چاہتا ہے ، تنگ کرتا ہے ۔ 
یہی حال اولاد کا ہے ۔ خدا جس کو عطا کرتا ہے ، اسے اولاد ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے دولت مند اولاد کے لیے ترستے ہیں اور غربا اولاد کی کثرت سے بھوک سے مرتے ہیں ۔ اس لیے ہم اپنے کو اور اپنے مال اور اولاد کو خدا کی دین سمجھیں۔ اس لیے اگر ہماری کوئی اولاد مرجائے تو اس میت پر نوحہ کرنا ، یعنی زور زور سے ، چیخ چیخ کر رونا ، واویلا کرنا ممنوع اور حرام ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ، جو مصیبت کے وقت گریبان چاک کرے اور رخسار پیٹے اور زمانہ جاہلیت کا سا نوحہ و ماتم کرے ۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا ممنوع ہے۔ اور اس کا مرتکب قابل ملامت ہے ۔ اور اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نوحہ و ماتم کرنے سے میت کو عذاب ہوتا ہے ۔ کیوں کہ اگر کسی مرد مومن کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اکرام کے ساتھ رکھتے ہیں، جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ سچے پکے مومن کے کے لیے قبر سے ہی اللہ کی نعمتیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ اور اگر مرنے والا خدا نخواستہ گناہ گار ہے تو جہاں تک ممکن ہو اس کے لیے جلد ایصال ثواب کرے، تاکہ اس کو فائدہ پہنچے ۔ نیز صبر کرنے میں آدمی کا فائدہ ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
الصَّبْرُ عِنْدَ صَدْمَۃِ الْأوْلیٰ
صبر صدمہ کی ابتدا سے ہی ہو، یہی صبر کا اصل مقام ہے، جس پر اللہ تعالیٰ ثواب عطا کرتا ہے۔
میت کی تعریف کرنے کا بیان
کسی بھی ایسے آدمی کی برائی نہیں کرنی چاہیے ، جس کا انتقال ہوچکا ہو۔ چاہے ان کے اعمال کیسے ہی رہے ہوں ، کیوں کہ مردہ انسان کی غیبت کرنا نہایت ہی قابل گرفت جرم ہے ، چوں کہ اگر زندہ انسان کی غیبت کی تو ممکن ہے کہ اس سے معافی تلافی کرالے؛ لیکن مردہ سے تویہ بھی ممکن نہیں۔ اور یہ بھی بات ہے کہ کسی انسان کی کامیابی اور ناکامی اس کے اعمال سے براہ راست نہیں؛ بلکہ رحمت حق بہانہ می جوید ۔ نہ جانے اللہ تبارک و تعالیٰ کو کس انسان کی کون سی ادا پسند آجائے، جس سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں، اس لیے کسی مردہ انسان پر لعنت کرنا جائز نہیں؛ الا یہ کہ قطعی طور پر یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے۔
اہل میت کے لیے کھانا تیار کرنا
حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفرؓ کی شہادت کی خبر آئی، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، کیوں کہ ان کو وہ رنج و غم پہنچا ہے ، جو ان کو کھانا پکانے سے مشغول رکھے گا۔ اس لیے بہت سے علماء کا یہ قول ہے کہ اہل میت کے لیے ایک دن ایک رات کا کھانا تیار کرنا مستحب ہے ۔ اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ تین دن تک مستحب ہے ، لہذا جس کے گھر موت ہوگی، پڑوسی اور اپنے رشتہ داروں کو کھانا پکواکر بھیجنا چاہیے۔ بہرحال پریشان حال کی دلداری اور غمزدہ انسان کی غمخواری تو ایک فطری چیز ہے ، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اہل میت کے صدمہ کے پیش نظر ان کی تسلی کی جائے، ان کو دلاسہ دیا جائے اور ان کو صبرو ضبط کی تلقین کی جائے ، ان کے ساتھ نہایت نرمی کا برتاؤ کیا جائے ، تاکہ ان کا غم غلط ہوسکے اور ان کو زندگی میں سکون و اطمینان حاصل ہوسکے۔

حوالہ جات
۱۔ قرآن کریم
۲۔ بخاری
۳۔ مسلم۔
۴۔ نسائی
۵۔ ابن ماجہ
۶۔ مؤطا امام مالک
۷۔ کنز العباد فی شرح الاوراد
۸۔ الجامع الصغیر
۹۔ رفاہ المسلمین فی شرح مسائل الاربعین
۱۰۔ شِرعۃ الاسلام
۱۱۔ سفر السعادۃ وسفیر الافادۃ
۱۲۔ رزین العرب
۱۳۔ جامع شتیٰ
۱۴۔ اشرف الوسائل الیٰ فہم الشمائل
۱۵۔ الجامع الکبیر
۱۶۔ الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی
۱۷۔ احیاء علوم الدین
۱۸۔ الحصن الحصین فی کلام سید المرسلین
۱۹۔ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر
۲۰۔ مسند احمد ابن حنبل
۲۱۔ خزانۃ الفتاویٰ
۲۲۔ ادب القاضی
۲۳۔ عین العلم و زین الحلم
۲۴۔ فتاویٰ قاضی خاں
۲۵۔ مجمع البرکات لابی البرکات بن حسام الدین الدمنوی
۲۶۔ تفسیر الزاہدی
۲۷۔ شرح السعادۃ
۲۸۔ فتاویٰ عالم گیری
۲۹۔ مطالب المومنین
۳۰۔ جواہر الفتاویٰ
۳۱۔ تفسیر فتح العزیز المعروف بہ تفسیر عزیزی
۳۲۔ فتاویٰ حمادیہ
۳۳۔ تنبیہ الانام
۳۴۔ فتاویٰ سراجیہ
۳۵۔ مالابد منہ
۳۶۔ انیس الواعظین
۳۷۔ تفسیر الخازن
۳۸۔ کنز الدقائق
۳۹۔ مواھب الرحمان فی تفسیر القرآن
۴۰۔ تحفۃ الملوک
۴۱۔ عینی (ہدایہ
۴۲۔ سراج الہدایہ
۴۳۔ ہدایہ
۴۴۔ شرح برزخ
۴۵۔ بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام
۴۶۔ حق السماع
۴۷۔ الدیلمی
۴۸۔ رسالہ نصیحت
۴۹۔ مبسوط
۵۰۔ رسالہ ابطال
۵۱۔ بوارق
۵۲۔ المواھب اللدنیہ
۵۳۔ نور الہدایہ
۵۴۔ وصایا
۵۵۔ رد محتار
۵۶۔ در مختار
۵۷۔ فتاویٰ تاتارخانیہ
۵۸۔ الکفایہ للشعبی
۵۹۔ خزانہ جلالی
۶۰۔ رحمۃ الامہ فی اختلاف الائمہ
۶۱۔ بنایہ شرح ہدایہ
۶۲۔ شرح وقایہ
۶۳۔الملتقط فی الفتاویٰ الحنفیہ
۶۴۔ تحفۃ الزوجین
۶۵۔ مشکوٰۃ المصابیح

قسط نمبر (9) نماز جنازہ کا بیان

نماز جنازہ کا بیان

قسط نمبر (9)
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
تکفین کے بعد حتیٰ الامکان نماز جنازہ کی تیاری میں جلدی کرے اور محلہ یا گاؤں میں سے ہر شخص جنازہ میں شرکت کی کوشش کرے ، کیوں کہ مومن میت کا حق ہے ۔ اور ادائیگیِ حق میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ۔ یاد رہے کہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے ، یعنی اگر ایک جماعت نے اس پر نماز پڑھ لی تو بقیہ لوگوں سے فرض ساقط ہوجائے گا۔ ورنہ گاؤں یا محلہ کے سارے لوگ ترک فرض کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔( کنز الدقائق)
نماز جنازہ کے لیے میت کا مسلمان اور پاک ہونا شرط ہے ۔ اور نماز جنازہ میں قیام اور چار تکبیریں فرض ہیں۔ (کنز الدقائق، مؤطا امام مالک)
عَنْ أبِیْ ھُرَیْرَۃؓ أنَّ رَسُوْلَ الْلّٰہِ ﷺ نَعیٰ النَّجَّاشِیْ فِی الْیَوْمِ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ وَ خَرَجَ بِھِمْ ا8لَیٰ الْمُصَلّٰی فَصَفَّ بِھِمْ وَ کَبَّرَ أرْبَعَ تَکْبِیْراتٍ ۔(مؤطا ا8مام مالک)
حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ جس دن نجاشی کی وفات ہوئی، حضور ﷺ نے صحابہ کرام کو اس کی اطلاع دی اور اپنے اصحاب کو لے کر میدان میں نکلے اور صف درست کرائی اور نماز میں چار تکبیریں کہیں۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ کے جنازہ کی نماز میں آپ ﷺنے چار تکبیریں کہیں۔(سنن ابن ماجہ)
نجاشی کی نماز جنازہ میں آپ ﷺنے چار ہی تکبیریں کہیں اور فرشتوں نے بھی حضرت آدم علیہ السلام کے جنازہ میں چار تکبریں کہیں اور فرشتوں نے کہا : ائے بنی آدم! یہ تمھاری سنت ہے ۔ (حاکم فی المستدرک و سنن بیہقی طبرانی) 
کسی روایت میں پانچ پانچ، چھ چھ اور سات سات تکبیرات کا تذکرہ بھی آیا ہے ؛ لیکن یہ ابتدا کی بات ہے، آخر زمانہ میں چار ہی تکبیرات رہ گئیں اور اسی پر صحابہ کرام کا اتفاق اور اجماع ہوگیا ۔ا ور تمام صحابہ کرام کو حضرت عمرؓ نے چار تکبیروں پر جمع کیا ۔ چنانچہ حضرت ابو وائلؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ عہد رسالت میں چار چار، پانچ پانچ، چھ چھ اور سات سات تکبیریں کہا کرتے تھے ؛ لیکن حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو چار تکبیروں پر جمع کیا۔ (سنن بیہقی ) تو گویا باجماع صحابہ کرام نماز جنازہ میں آخر میں صرف چار تکبیریں فرض رہ گئیں۔ 
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جس آخری جنازے کی نماز پڑھائی، اس میں چار ہی تکبیریں کہی ہیں۔ (سنن بیہقی) 
جنازہ کی نماز میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شریک ہونا چاہیے، پتہ نہیں،جماعت میں کون خدا کا مقبول بندہ ہو، جس کی دعا میت کے حق میں خدا کے نزدیک مقبول ہوجائے اور اس کی مغفرت ہوجائے اور جنت واجب ہوجائے۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جس میت پر سو مسلمانوں نے نماز پڑھی، اس کی مغفرت ہوگئی ۔ ایک روایت میں چالیس ہے۔ مراد زیادتی ہے یا سائلین کے جواب میں مختلف تعداد کا ذکر فرمایا۔ 
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنازہ کے پیچھے پیچھے چلا اور اس کی نماز پڑھی، تو اس کو ایک قیراط کے برابر ثواب ملے گا اور جو نماز کے بعد دفن کرکے فارغ ہوگئے ، اس کو دو قیراط کے برابر ثواب ملے گا ۔ (ابو داود) ۔
حاضرین جنازہ کو تین صفوں میں تقسیم کردیا جائے۔
قَالَ مَالِکُ بْنُ ھُبَیْرَۃَ الشَّامِیْ اِذَا اُتِیَ بِجَنَازَۃٍ، فَتَقَالَ مَنْ تَبِعَھَا جَزَّاھُمْ ثَلَاثَۃَ صُفُوْفٍ ثُمَّ صَلَّیٰ عَلَیْھَا وَ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ الْلّٰہِ ﷺ قَالَ: مَا صَفَّ صُفُوْفَ ثَلَاثَۃٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلَّا وَاجِبٌ ۔(سنن ابن ماجہ)
مالک بن ہبیرہ فرماتے ہیں کہ جب ان کے پاس جنازہ آیا ، تو آپ نے حاضرین کو کم سمجھ کر تین صفوں میں تقسیم کیا اور نماز پڑھائی اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جب بھی تین صفیں ہوتی ہیں ، میت کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
نماز پڑھانے میں اول درجہ کا حق سلطان کو ہے ، پھر قاضی کو ، پھر محلہ کے امام کو، پھر ولی میت کو ۔ سلطان کے علاوہ کسی اور کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد اگر ولی اعادہ کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے ، غیر مستحق کو مستحق کے نماز پڑھانے کے بعد اعادہ کا حق نہیں ہوگا۔ (کنز، ہدایہ)
اگر بغیر نماز کے میت کو دفن کردیا گیا ہے، تو بعد میں قبر کے پاس آکر نماز پڑھی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ میت کا جسم پھٹا پھولا نہ ہو۔ (ہدایہ ، کنز)۔
رسول اللہ ﷺ نے میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس آکر نماز پڑھی۔
امام کو میت (مردہویا عورت) کے سینے کے مقابلہ میں کھڑا ہونا چاہیے ، کیوں کہ وہ عضو ایمان کا مرکز ہے ۔ (ہدایہ ، کنز)
اگر مستحق نے غیر مستحق کو نماز پڑھانے کی اجازت دیدی، تو وہ نماز پڑھا سکتا ہے ۔ ایسی مسجد جس میں باقاعدہ جماعت ہوتی ہو، وہاں جنازے کی نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ (ہدایہ، کنز)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی، اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔ (ابوداود)
نومولود بچہ پر بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ، بشرطیکہ بوقت پیدائش حیات کی کوئی علامت معلوم ہوچکی ہو۔ حضور ﷺ نے حضرت ابراہیم پر نماز پڑھی ہے ۔ (ابو داود، ابن ماجہ) اور آپ ﷺ نے فرمایا:
اَلطِّفْلُ یُصَلَّیٰ عَلَیْہِ
دوسری جگہ ہے کہ 
اِذَا اسْتَھَلَّ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَوَرِثَ، قَالَ النَّبِیُّ ﷺ صَلُّوْا عَلَیٰ أطْفَالِکُمْ فَا8نَّھُمْ مِنْ أفْرَاطِکُمْ 
اور جو بچہ مردہ پیدا ہو اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر بغیر نماز پڑھے ہوئے دفن کرے۔ (ہدایہ)
دارالحرب سے کوئی بچہ اگر تنہا (بغیر والدین کے ) قید ہوکر دارالاسلام آیا ہے ، یا والدین کے ساتھ قید ہوکر آیا ، ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہوگیا یا مسلمان تو نہیں ہوئے ؛ لیکن صرف بچہ نے اپنے اسلام کا اقرار کیا، بشرطیکہ وہ بچہ عاقل ہو، ان تینوں صورتوں میں ایسے بچہ پر اس کے مرنے کے بعد نماز جنازہ پڑھی جائے گی ، بصورت دیگر نہیں پڑھی جائے گی ۔ اگر دارالاسلام میں کوئی بچہ کہیں پایا گیا ؛ لیکن اس بچہ کا مسلمان ہونا معلوم نہیں ہے، تو اس پر نماز پڑھی جائے گی ۔ (ہدایہ)
شہید کو بغیر غسل دیے ان کے کپڑوں میں (جو اس کے بدن پر ہے) دفن کیا جائے گا۔ شہید کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ اگر سنت سے زائد کپڑا ہے ، تو علاحدہ کرلیا جائے گا۔ اور اگر کم ہے تو پورا کیا جائے گا۔ اور شہید وہ ہے جسے ظلما قتل کیاگیا ہو اور ان کے قتل سے دیت واجب نہ ہوئی ہو۔ جس شخص کو کسی حربی یا باغی حکومت یا ڈاکو نے قتل کر ڈالا، چاہے جس چیز سے ہو ، اسے غسل دیے بغیر ، نماز پڑھ کر دفنایا جائے گا ۔ ہاں اگر جنبی تھاتو چاہے وہ شہید ہو، لیکن اسے غسل دیا جائے گا کہ بغیر اس کے نماز جنازہ نہیں ہوتی ہے۔ یہی حکم حائضہ اور نفساء کا ہے ۔ حداً یا قصاصاً مقتول کو غسل دے کر اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ (ہدایہ) 
نماز کی ترکیب
سب سے پہلے نیت کرے۔ اور تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کان کے لو تک اٹھاکر باندھ لے ۔ اور ثنا پڑھے ۔ دوسری دفعہ بغیر ہاتھ اٹھائے تکبیر کہے اور کوئی درود شریف پڑھے ، لیکن بہتر درود، درود ابراہیمی ہے ، جسے نمازی نماز کے قعدہ اولیٰ میں پڑھتے ہیں۔ تیسری تکبیر کہہ کر بالغ مرد اور عورت کے کے لیے یہ دعا پڑھے :
ألْلّٰھُمَ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیَّتِنَا وَ شَاھِدِنَا وَ غَاءِبِنَا وَ صَغِیْرِنَا وَ کَبِیْرِنَا وَ ذَکَرِنَا وَ أنْثَانَا۔ ألْلّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہُ مِنَّافَاَحْیِہِ عَلٰی الاسْلَامِ وَ مَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلٰی الایْمَانِ۔ 
اور نابالغ لڑکا کے لیے یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ اجْعلْہُ لَنَا فَرَطَاً وَ اجْعَلْہُ لَنَا أجْرَاً وَّ ذُخْرَاً وَاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعاً وَّ مُشَفَّعَاً 
اور نابالغ لڑکی کے لیے یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرَطَاً وَ اجْعَلْھَا لَنَا أجْرَاً وَّ ذُخْرَاً وَّاجْعَلْہَا لَنَا شَافِعَۃً وَّ مُشَفَّعَۃً۔ 
یہ دعا پڑھ کر تکبیر کہے ۔ پھر دونوں طرف سلام پھیرے۔
جس شخص کی کچھ تکبیریں چھوٹ جائیں، تو اسے چاہیے کہ امام کی اگلی تکبیر کے ساتھ نماز میں داخل ہوجائے اور چوتھی تکبیر کے بعد بغیر سلام پھیرے اپنی فوت شدہ تکبیریں پوری کرلے ، کیوں تکبیرات فرض ہیں ، ان کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (ہدایہ)
البتہ جو شخص شروع سے جماعت میں حاضر ہے ، اس کے باوجود اس کی تکبیر چھوٹ گئی ہو، تو وہ امام کی اگلی تکبیر کا انتظار نہیں کرے گا، بلا انتظار تکبیر کہہ ڈالے اور اخیر میں امام کی چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے اپنی فوت شدہ تکبیریں پوری کرے۔ 
جن اوقات مکروہ میں پنجوقتہ نماز مکروہ ہے ، ان اوقات میں نماز جنازہ بھی مکروہ ہے ۔ سورج نکلنے کے وقت، اس کے ڈوبنے کے وقت اور زوال کے وقت نماز جنازہ نہ پڑھے؛ لیکن اگر جنازہ اسی وقت تیار ہوکر آیا ہے ، ایسی صورت میں بلاکراہت نماز پڑھی جاسکتی ہے اور نماز ہوجائے گی۔ حضرت عقبہ ابن عامرؓ فرماتے ہیں کہ تین وقتوں میں نبی اکرم ﷺ نے مردوں کی نماز اور ان کو دفن کرنے سے منع فرمایا ہے : (۱)طلوع شمس سے رفع شمس تک ۔ (۲) ٹھیک جب سورج سر پر آجائے، اس وقت سے لے کر زوال تک۔ (۳) سورج ڈوبنے کے وقت سے غروب شمس تک (ابو داود)
محمد ابن ابی حرملہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے سنا کہ وہ متوفیہ حضرت زینب بنت سلمہ کے رشتہ داروں سے کہنے لگے : یا تو تم جنازے کی نماز اس وقت پڑھ لو، یا اس وقت چھوڑ دو، سورج بلند ہونے کے بعد پڑھنا۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عمرؓ عصر اور صبح کی نماز کے بعد جب کہ دونوں وقتوں کی نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھ لی جاتی تھیں، نماز جنازہ ادا کرتے تھے ، یعنی اوقات مکروہہ میں ادا نہیں کرتے تھے ۔ (مؤطا امام مالک)
جنازہ اٹھانے اوردفنانے کا بیان
آئے ہیں تا قبر دوشا دوش ائے ریاض
کچھ نہ کچھ عزت تو کی یاروں نے مرجانے کے بعد
جنازہ اٹھانا اور لے جانا
اگر میت کوئی شیر خوار بچہ یا اس سے کچھ بڑا ہو ، جو ہاتھوں پر جاسکے ، تو اس کو دست بدست لے جائیں ، یعنی ایک آدمی اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھالے، پھر اس سے دوسرا،اور دوسرا سے تیسرا ، اسی طرح بدلتے ہوئے لے جائیں۔ (عالمگیری)
اگر میت کوئی بڑا آدمی ہوتو اس کو کسی چارپائی وغیرہ پر رکھ کر لے جائیں ۔اور اس کے چاروں پایوں کو ایک ایک آدمی اٹھائے ۔ چلتے وقت میت کی چارپائی کو ہاتھوں سے اٹھاکر کندھوں پر رکھے اور آگے بڑھے ۔ اب دوسرے آدمیوں کے لیے جنازہ کندھوں پر رکھنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کا اگلا داہنا پایا اپنے داہنے کندھے پر رکھ کر دس قدم چلے ۔ پھر پچھلا بایاں پایا پکڑ کر اپنے بائیں کندھے پر رکھ کر اسی طرح دس قدم چلے ۔ پھر اگلا بایاں پایا پکڑ کر اپنے بائیں کندھ پر رکھ رکھ کر اسی طرح دس قدم چلے ۔ پھر پچھلا بایاں پایا پکڑ کر اپنے کندھے پر رکھ کر دس قدم چلے ، تاکہ چاروں پایوں کو ملا کر چالیس قدم ہوجائے۔ (در مختار، عالمگیری)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
مَنْ حَمِلَ جَوانِبَ السَّرِیْرِ الْأرْبَعِ کَفَّرَ الْلّٰہُ عَنْہُ أرْبَعِیْنَ کَبِیْرَۃً ۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط، زجاجۃ، ص۴۷۱)
جو شخص جنازہ کے چاروں پایوں کو اٹھائے ، اللہ تعالیٰ اس کے چالیس گناہ کبیرہ کو معاف فرمائے گا۔
جنازہ تیزی سے لے جائے ؛ مگر اتنا تیز نہیں کہ جنازہ کو حرکت آجائے۔ (عالمگیری)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أسْرِعُوْا بِالْجَنازَۃِ فَانْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُوْنَھَا الَیْہِ وَ انْ تَکُ سِوَیٰ ذٰالِکَ فَشَرٌّ یَضَعُوْنَہُ عَنْ رِقَابِکُمْ ۔
(متفق علیہ)، زجاج ۴۵۶)
جنازہ لے کر تیزی سے چلو ، اگر نیک ہے تو خیر اس کے آگے کر رہے ہو۔ اور اگر اس کے علاوہ ہے تو شر ہے ، جس کو اپنے کندھوں سے اتار رہے ہو۔
یعنی اگر نیک ہے تو اس کے لیے قبر میں آسائش کا سامان ہے ، اس کو جلد آرام کی جگہ پر پہنچاؤ۔اور اگر بد ہے تو اس کی برائی سے بچنے کے لیے اپنے کندھے سے اس کو جلد دور کرو۔
اور بخاری کی روایت میں ہے کہ جب جنازہ رکھا جاتا ہے ۔ پھر اس کو مرد اپنی گردن پر اٹھاتے ہے ، تو اگر نیک ہے تو کہتا ہے : قَدِّمُوْنِیْ مجھے آگے لے چلو۔ اور اگر غیر صالح (بد) ہوتا ہے ، تو اپنے اہل سے کہتا ہے : تیری خرابی ہو، مجھے کہاں لیے جاتے ہو (اور اتنا واویلا کرتا ہے کہ) انسان کو چھوڑ کر باقی تمام مخلوق اس کی آواز کو سنتی ہے ۔ اگر انسان سن لے تو مرجائے۔ (زجاجہ، ص۴۵۶)اور باقی لوگ جنازہ کے پیچھے چلیں، اگرچہ آگے چلنا بھی درست ہے ، لیکن افضل پیچھے چلنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مسلم کے جنازہ کے پیچھے یقین اور ثواب کی نیت سے چلے اور اس کے ساتھ رہے ، یہاں تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے ۔ اور اس کے دفن سے فارغ ہوجائے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے ۔ ہر قیراط احد پہاڑ کے مثل ہوتا ہے ۔ اور جو صرف اس پر نماز پڑھے اور دفن کرنے سے پہلے لوٹ جائے، تو وہ صرف ایک قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے ۔ (بخاری مسلم)
جنازہ کے پیچھے چلنے کو آگے چلنے پر وہی فضیلت ہے ، جو فرض نماز کو نفل پر ہے ، یا جماعت کی نماز کو تنہا نماز پر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
أمَا انَّ فَضْلَ الرَّجُلِ یَمْشِیْ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ عَلَیٰ الَّذِیْ یَمْشِیْ أمَامَھَا کَفَضْلِ صَلَوٰۃِ الْجَمَاعَۃِ عَلیٰ صَلَوٰۃِ الْفَذِّ ۔(رواہ الطحاوی وعبدالرزاق وابن ابی شیبہ واسنادہ صحیح)
بہرحال جو شخص جنازے کے پیچھے چلتا ہے ، اس کی فضیلت آگے چلنے والے پر ایسی ہے جیسے کہ جماعت کی نماز کی فضیلت تنہا نماز پر۔ 
یہ حدیث گرچہ موقوف ہے ؛ مگر حکم مرفوع کا رکھتی ہے ، اس لیے کہ صحابی ایسی باتیں اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے ۔ 
بہتر ہے کہ جنازہ کے ساتھ چلنے والے اللہ کا ذکر کرتے جائیں اور ان ذکروں میں سب سے بہتر ذکر لا الٰہ الا اللہ کا ذکر ہے ، کیوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ: 
أفْضَلُ الذِّکْرِ لَا اِلٰہَ اِلَّا الْلّٰہُ (ترمذی ابن ماجہ)
دوسری حدیث میں ہے کہ جنازہ کے ساتھ کثرت سے لا الٰہ الا اللہ پڑھو۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جنازہ کے ساتھ دینے والوں میں افضل وہ شخص ہے ، جو اس جنازہ کے ساتھ (اللہ کا) ذکر کرے اور جو نہ بیٹھے ، یہاں تک کہ جنازہ زمین پر رکھ دیا جائے ۔ اور (ثواب کا ) پیمانہ پورا کرنے والا وہ ہے، جو تین بار اس پر مٹھی بھر خاک ڈالے۔
لیکن ذکر آہستہ کرے ۔ جنازہ کے ساتھ زور سے ذکر کرنے کو شامی نے مکروہ لکھا ہے ۔ عالمگیری میں فتاوٰیٰ قاضی خاں سے منقول ہے کہ جو کوئی جنازہ کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا چاہے، تو اپنے جی میں آہستہ پڑھے ۔ جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھنا مکروہ ہے ۔ جنازہ زمین پر رکھنے کے بعد بیٹھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِذَا اتَّبَعْتُمُ الْجَنَازَۃَ فَلَا تَجْلِسُوْا حَتّیٰ تُوضَعَ ۔
(رواہ ابو اداود و فی روایۃ لہ حتیٰ توضع فی الارض) 
جب جنازہ کے ساتھ جاؤ تو تم مت بیٹھو، یہاں تک کہ جنازہ رکھ دیا جائے ۔
یعنی زمین پر جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے ۔ 
جنازہ کے پیچھے عورتیں نہ جائیں۔ ام عطیہ سے روایت ہے کہ :
کُنَّا نُنْھیٰ عَنِ اتِّبَاعِ الْجِنَاءِزِ (بخاری، جلد دوم ص۸۰۴) 
جنازہ کے پیچھے چلنے سے ہم سب عورتوں کو منع کیا جاتا تھا۔
قبر
صدا یہ قبر سے بیدار دل کو آتی ہے 
عمل جو نیک ہوں تو ایسی خواب گاہ نہیں
کم از کم میت کا نصف قد اور زیادہ سے زیادہ ایک قد گہری قبر کھودے ۔ اس سے زیادہ گہری نہ کھودے اور لمبائی اس کے قد کے موافق ہونی چاہیے ۔ بغلی قبر صندوقی قبر سے افضل ہے ۔ جائز دونوں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی قبر بغلی تھی۔حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ نے مرض الموت میں فرمایا : میرے لیے بغلی قبر کھودو اور مجھ پر کچی اینٹ چن دو، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا گیا ۔ (مسلم)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
الْلّحْدُ لَنَا وَالشِّقُّ لِغَیْرِنَا (ترمذی، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ)
بغلی قبرہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر غیر کے لیے ہے ، یعنی مسلمانوں کی قبر بغلی اور غیر مسلموں کی قبر صندوقی ہوتی ہے۔
دفنانے کا بیان
جب قبر تیار ہوجائے، تو میت کو قبلہ کی طرف سے قبر میں اتار دیں ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جنازہ قبر سے قبلہ کی جانب رکھا جائے اور اتارنے والے قبلہ رو کھڑے ہوکر میت کو اٹھاکر قبر میں رکھ دیں۔ (بحرالرائق، در مختار) ۔ ؂
پہنچے مرمر کر لحد تک پہلی منزل طے ہوئی
عرصۂ محشر کی باقی اب مسافت رہ گئی
عنْ أبِیْ سَعِیْدٍ أنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ أخِذَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَۃِ وَاسْتَقْبَلَ اِسْتَقْبَالَاً (ابن ماجہ)
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبلہ کی طرف سے اتارے گئے اور آپ ﷺ نے قبلہ کا استقبال کیا۔
مستحب ہے کہ قبر میں اتارنے والایہ دعا پڑھے:
بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہِ 
قبر میں اتارتے وقت نبی کریم ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے (احمد، ابن ماجہ، ترمذی)۔میت کو قبر میں داہنے پہلو پر قبلہ رو کردینا مسنون ہے ۔ (عالمگیری)
اس کے بعد وہ گرہیں کھول دیں جو کفن کے کھلنے کے خوف سے لگائی گئی تھیں۔
جیسے منزل پہ مسافر کی کمر کھلتی ہے 
قبر میں یاروں نے وا بند کمر چھوڑ دیا
اس کے بعد کچی اینٹوں یا بانس نرکل وغیرہ سے بند کردیں ۔ پختہ اینٹ اور تختوں سے بند کرنا مکروہ ہے ۔ البتہ اگر نرم زمین ہو اور قبر کے بیٹھنے کا خوف ہو، تو تختہ اور اینٹ یا صندوق میں بند کرکے رکھنا درست ہے ۔ (شامی)
قبر میں مٹی ڈالتے وقت مستحب یہ ہے کہ سرہانے کی طرف سے شروع کریں ۔ اور ہر شخص اپنے دونوں ہاتھوں سے قبر میں مٹی ڈالے۔ پہلے لپ میں پڑھے :
مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ 
اور دوسرے لپ میں 
وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ 
اور تیسرے میں
وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أخْرَیٰ 
پڑھے ۔ یہ تین لپ مٹی ہوئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی، پھر قبر کے پاس تشریف لائے۔ اور اس پر سر کی طرف سے تین لپ مٹی ڈالی ۔ (ابن ماجہ)۔ پھر جس قدر مٹی قبر سے نکلی ہو، اس پر وہ سب ڈال دیں۔ اس سے زیادہ مٹی ڈالنا مکروہ ہے ۔ (بحر الرائق) ؂
مرتے ہی جتنے یار تھے ، اغیار ہوگئے
سب خاک میں ملانے کو تیار ہوگئے
اور قبر کو کوہان شتر کی طرح کردے ۔ اس کو مربع کرنا مکروہ ہے۔
عَنْ سُفْیَانٍ التَّمَّارِ دَخَلْتُ الْبَیْتَ الَّذِیْ فِیْہِ قَبْرُ النَّبِیِّ ﷺ، فَرَأیْتُ قَبْرَ النَّبِیِّ ﷺ وَ قَبْرَ اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ مُسَنَّۃً ۔
(رواہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ)
حضرت سفیان تمار کا بیان ہے کہ میں اس گھر میں داخل ہوا، جس میں نبی کریم ﷺ کی قبر تھی ، تو میں نے آپ ﷺ کی اور حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبریں کوہان نما دیکھی۔ حضرت سفیان جلیل القدر تابعی ہیں۔
قبرکو پختہ کرنا اور اس پر گنبد بنانا اور گردو پیش قبر کے چار دیواری اور چبوترا تعمیر کرنا جائز نہیں۔ 
نَھَیٰ رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ أنْ یُّجَصَّصَ الْقَبْرُوَ أنْ یُبْنیٰ عَلَیْہِ وَ أنْ یُّقْعَدَ عَلَیْہِ ۔(مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے قبر کو پختہ کیے جانے اور اس پر عمارت بنائے جانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ 
زیادہ اونچی قبر کرنا بھی مکرو ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اس بات کے لیے بھیجا کہ جس تصویر کو دیکھوں اسے مٹادوں اور جس اونچی قبر کو دیکھوں اسے برابر کردوں۔ (مسلم)
مواہب الرحمان میں لکھا ہے کہ زینت کے واسطے قبر پر عمارت بنانا حرام ہے۔ اور میت کے دفن کے بعد اس کو مضبوط کرنا مکروہ ہے ۔ اور فتاویٰ عالمگیری میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ اور تحفۃ الملوک میں لکھا ہے کہ پانی کے صدمہ سے بچنے کے واسطے قبر کے گرد چونے سے بنانا مکروہ ہے ۔ اس واسطے کہ قبر اور جو چیز قبر کے تابع ہے وہ استحکام اور مضبوط کرنے کی جگہ نہیں ہے ۔ پس جیسا کہ قبر کو کچا رکھنا بہتر ہے ، ویسا ہی اس کے گرد بھی کچا رکھنا بہتر ہے ۔ لیکن ٹوٹی ہوئی قبر کو مٹی سے مرمت کردینے میں کچھ حرج نہیں۔(عالمگیری)
قبر کی شناخت کے لیے پتھر رکھنا درست ہے۔جب حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور وہ دفنائے گئے، تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو پتھر لانے کا حکم دیا ۔ وہ پتھر نہیں اٹھاسکا، تو حضور ﷺ خود اس پتھر کی طرف تشریف لے گئے اور اپنی آستین سمیٹی اور اس کو اٹھا کرحضرت عثمان بن مظعون ؓ کے سرہانے رکھ دیا اور فرمایا : اسی کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر پہچانوں گا۔ اور میرے اہل میں جس کا انتقال ہوگا ، اس کو اس کے پاس دفن کروں گا۔ (ابو داود)
دفن کرنے کے بعد قبر کے اوپر پانی چھڑکنا مستحب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا اور اس پر کنکریاں رکھیں۔ (شرح السنۃ)
اگر قبر زمین کے برابر ہوجائے، تو اس صورت میں اس پر چلنا پھرنا درست ہے ، لیکن اگر قبر نمایاں ہو، تو اس پر چڑھنا یا بیٹھنا یا اس پر سے گذرنا درست نہیں۔
نَھَیٰ رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ أنْ یُّجَصَّصَ الْقُبُوْرُ وَ أنْ یُّکْتَبَ عَلَیْھَا وَأنْ تُؤطَأ ۔(ترمذی) 
رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پختہ کیے جانے اور اس پر لکھے جانے اور اس کو روندے جانے سے منع کیا ہے ۔ ؂
مرمٹوں کی قبر کو پامال تونے کیوں کیا
ٹوٹا پھوٹا بھی نشاں ائے پر جفا جاتا جارہا
آخری قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں

قسط نمبر (8) موت کا بیان

موت کا بیان
قسط نمبر (8)
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
ہم دام غم سے موت کے بعد مرکر
روتے ہیں کیوں احیا موقع ہے یہ خوشی کا 
مومن کی موت
جیل خانہ سے باہر نکلنے کا وقت ہے۔ دنیا کی کلفتوں سے ، اس کے رنج و غم سے نجات پانے کی اولین فرصت ہے۔
الْعَبْدُ المؤمِنُ یَسْتَرِیْحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْیَا وَ اٰذَاھَا ا8لٰی رَحْمَۃِ الْلّٰہِ (متفق علیہ)
ایمان والا بندہ اللہ کی رحمت کی طرف چلتے ہوئے دنیا کے دکھ تکلیف سے نجات پاتا ہے۔ ؂
تن زیر خاک چھپ گیا جاں خلد کو گئی
بحر فنا میں ڈوب کے ہم پار ہوگئے
خدا کی رضامندی اور اس کی کرامت کی خوش خبری سنائی جاتی ہے ، جس سے وہ خدا کی ملاقات کو دوست رکھتا ہے، اور خدا اس کی ملاقات کو دوست رکھتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
ملک الموت خدا کا پیغام سلام پہنچاتا ہے اور کہتا ہے کہ السلام علیکم یا ولی اللہ ، اس خالی گھر سے آباد گھر کی طرف چلو۔ائے جان! جس کو خدا کے حکموں پر اطمئنان تھا، اللہ کی مغفرت اور رضامندی کی طرف چل۔
اس خوش خبری اور خوش کن باتوں کو سن کر روح آسانی سے نکل آتی ہے، جیسے مشک سے پانی کا قطرہ ڈھلک آتا ہے یا آٹے سے بال۔ چنانچہ براء ابن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری مرد کے جنازہ میں نکلے اور قبر تک پہنچے۔ ابھی تک قبر کی کھدائی پوری نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم لوگ نہایت خاموشی کے ساتھ آپ ﷺ کے چاروں طرف بیٹھ گئے۔ حضورﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، اس سے زمین کریدنے لگے ۔ پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ قبر کے عذاب سے پناہ مانگو۔ اس طرح آپ ﷺ نے تین بار فرمایا۔ پھر فرمایا : جب ایمان دار بندہ دنیا سے تعلق توڑنے لگتا ہے اور آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، تو آسمان سے روشن چہرے والے فرشتے اس کی طرف اترتے ہیں ، جن کے چہرے سورج کی طرح چمکتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ میں جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن اور جنت کی خوشبوؤں میں سے خوشبو ہوتی ہے۔ اور منتہائے نظر پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ پھر ملک الموت آتا ہے اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ائے پاکیزہ روح! اللہ کی مغفرت اور اس کی رضامندی کی طرف چل۔تو وہ روح نہایت آسانی کے ساتھ نکل پڑتی ہے ، جیسے مشک سے پانی کا قطرہ ڈھلک پڑتا ہے ۔ اس کو ملک الموت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ، لیکن پلک جھپکنے کی دیر نہیں لگتی کہ اس کے ہاتھ سے وہ فرشتے لے لیتے ہیں اور اس کو کفن اور خوشبو میں رکھ لیتے ہیں۔ پھر اس سے بہترین مشک کی خوشبو آنے لگتی ہے ۔ پھر اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں ۔ اور جب کسی فرشتوں کی جماعت کے پاس سے گذرتے ہیں ، تو وہ پوچھتے ہیں کہ یہ پاکیزہ روح کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں : فلاں کا بیٹا ہے ، یعنی دنیا میں جس اچھے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا، وہی نام بتاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آسمان دنیا تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھلواتے ہیں ، وہ دروازہ کھولتا ہے ۔ پھر ہر آسمان کے مقربین دوسرے آسمان تک ساتھ چلتے ہیں اور اسی جلوس کے ساتھ ساتویں آسمان تک جا پہنچتے ہیں۔ اللہ بزرگ برتر حکم دیتا ہے کہ میرے بندہ کی کتاب علیین میں لکھ لو۔ اور اس کو لوٹا کر زمین پر لے جاؤ، اس لیے کہ میں نے اسی سے پید اکیا ہے اور اسی میں لوٹاتا ہوں اور دوبارہ اسی سے نکالوں گا۔ پس اس کی روح اس کے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ پھر وہ فرشتے آتے ہیں اور اس کو بیٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تمھارا پروردگار کون ہے؟ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ تمھارا دین کیا ہے؟ کہتا ہے کہ میرادین اسلام ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ تمھارے اندر جو یہ شخص مبعوث ہوئے تھے، وہ کون ہیں؟ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ کہتے ہیں کہ تجھے کس نے بتایا؟ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور میں نے اس کی تصدیق کی ۔ اس پر آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے کہ میرے بندہ نے سچ کہا ۔ اس کے لیے جنت کا فرش بچھادو۔ اس کو جنت کا لباس پہناؤ اور جنت کی طرف اس کا دروازہ کھول دو۔ پھر جنت کی ہوا اور خوشبو آنے لگتی ہے ۔ اور اس کی قبر تاحد نگاہ کشادہ کردی جاتی ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : پھر ایک شخص خوش لباس خوشبو دار اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کچھ تجھ کو میسر ہوا، اس پر خوش ہوجا۔ یہی وہ دن ہے ، جس کا تجھ سے وعدہ ہوا تھا ۔ وہ کہے گا کہ تم کون ہو؟ تمھارا چہرہ حقیقت میں چہرہ کہنے کے لائق ہے اور اس لائق ہے کہ اچھی خبر لائے ۔ وہ کہے گا کہ میں تیرا عمل صالح ہوں۔اس کے بعد وہ خوشی میں کہے گا: ائے رب ! قیامت قائم فرما، ائے رب! قیامت قائم فرما، تاکہ میں اپنے اہل و عیال اور مال میں پہنچ جاؤں۔
کافر کی موت
اور جب کافر بندہ دنیا سے تعلق توڑنے لگتا ہے اور آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو سیاہ چہرے والے فرشتے اس کی طرف اترتے ہیں ، ان کے ہاتھ میں ٹاٹ ہوتے ہیں اور منتہائے نظر پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ پھر ملک الموت آتا ہے اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ائے خبیث جان! اللہ کی ناراضگی کی طرف چل۔ ملک الموت کا یہ حکم سن کر روح اس کے جسم میں ادھر ادھر بھاگنے لگتی ہے ، تو ملک الموت اس کی روح کو سختی کے ساتھ کھینچ لیتا ہے ، جیسے سیخ کو بھیگے ہوئے اون سے صاف کیا جاتا ہے ، پھر ملک الموت اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ، لیکن پلک جھپکنے کی دیر نہیں لگتی کہ اس کے ہاتھ سے وہ فرشتے لے لیتے ہیں اور ٹاٹوں میں لپیٹ لیتے ہیں، جو ان کے پاس ہوتے ہیں ۔ ان ٹاٹوں سے سڑی ہوئی نعش کی بدبو آتی ہے ۔ پھر اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں ۔ اور جب کسی فرشتوں کی جماعت کے پاس سے گذرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ یہ خبیث روح کون ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے ، یعنی دنیا میں جس برے سے برے نام سے پکارا جاتا ہے، وہی نام بتاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آسمان دنیا تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں ، مگر دروازہ نہیں کھولا جاتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: 
لَا تُفَتَّحُ أبْوَابُ السَّماءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّیٰ یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخَیَاطِ(الأعراف،آیۃ ۴۰)
ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں نہ گھس جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اس کو کتاب سجین میں لکھ لو، جو سب سے نیچی زمین میں ہے ۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: 
مَنْ یُّشْرِکْ بِالْلّٰہِ فَکَأنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أوْ تَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیقٍ۔ (الحج،آیۃ۳۱)
اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر پڑاہو،پھر پرندوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں یا اس کو ہوا نے دور دراز جگہ میں لے جاکر پھینک دیا۔
پس اس کی روح اس کے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بیٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : تمھارا پروردگار کون ہے؟ وہ کہتا ہے : ہائے ہائے ، مجھے پتہ نہیں۔ پھر کہتے ہیں : تمھارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے : ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں۔ اس کے بعد آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے کہ اس شخص نے جھوٹ کہا ، اس کے لیے آگ کا فرش بچھاؤ اور دوزخ کا دروازہ کھول دو۔ دوزخ کی تپش اور سخت گرم لو آتی رہتی ہے ۔ اور اس پر قبر تنگ کردی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں ۔ پھر ایک شخص بد صورت برے کپڑے والا بدبودار اس کے پاس آتا ہے ۔ اور وہ کہتا ہے کہ بری خبر سن لے۔ یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ ہوا تھا ۔ وہ کہے گا : تو کون ہے؟ تیری صورت بری خبر سنانے کے لائق ہے۔ وہ کہے گا : میں تیرا عمل ہوں ۔ یہ سن کر وہ کہے گا: ائے اللہ قیامت قائم نہ کر۔ (مرقاۃ) 
مرض الموت کا بیان
جب انسان انتہائی بیمارے ہوجائے اور اندازہ یہ ہو کہ یہ آخری وقت ہے ، تو اس کے پاس بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے تاکہ اللہ کا ذکر سن کر اس کا دل بھی ذکر اللہ کی طرف مائل ہوجائے ۔ اور وہ بھی ذکر کرنے لگے، تاکہ اگر انتقال ہوجائے ، تو اس کا خاتمہ خیر پر ہو، چوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ: 
الْعِبْرَۃُ لِلْخَوَاتِیْمِ 
خاتمہ کا اعتبارہے ۔
اور اگر مرض کا اضافہ دیکھے اور موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں، تو پھر زور سے کلمہ پڑھے، تاکہ وہ بھی کلمہ پڑھ لے ، تاکہ اس کا آخری کلام لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ کَانَ اٰخِرُ کَلَامِہِ لَا الَہَ الَّا الْلّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ۔(ابو داود)
جس کا آخری کلام لا الٰہ الا اللہ ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔
اور یہ بھی فرمایا :
مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ ، ثُمَّ مَاتَ عَلَیٰ ذٰالِکَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (متفق علیہ)
جس بندہ نے بھی لا الٰہ اللہ کہا پھر اسی کلمہ پر موت ہوئی ، تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ 
اس لیے مرنے والے کا آخری کلام یہی کلمہ ہونا چاہیے ۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ لَا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ (مسلم)
اپنے مرنے والوں کو لا الٰہ اللہ کی تلقین کرو۔
لیکن اس کلمہ کو کہنے کے لیے اسے تنگ نہ کیا جائے ، اور اس طرح نہ کہا جائے کہ کہو لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ؛ بلکہ اس کے سامنے کلمہ پڑھے ، تاکہ سن کر وہ بھی پڑھنے لگے۔ زیادہ تنگ کرنے سے ممکن ہے کہ وہ انکار کردے ، کیوں کہ وہ حالت بہت سخت ہوتی ہے ۔ اور سختی میں تنگ کرنا درست نہیں۔ تمھارے پڑھنے پر وہ نہ پڑھے اور مرجائے تو اس کو کافرنہ سمجھو، اس لیے کہ وہ ایمان کا اقرار اپنی زندگی میں کرچکا ہے۔ اور اس وقت کلمہ پڑھنا ضروری نہیں ہے ؛ بلکہ مستحب ہے ۔ ضروری صرف خدا کی وحدانیت وغیرہ جو ضروریات دین میں ہے ، اس پر ایمان رکھنا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ ماتَ وَھُوَ یَعْلَمُ أنَّہُ لَا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ (مسلم)
جو شخص ایسی حالت میں مرے کہ وہ جانتاہے ہو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ 
اور اس کے پاس سورہ یٰسٓ پڑھے، تاکہ اس کی برکت سے موت آسان ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے مرنے والے کے پاس سورہ یٰسٓ پڑھو۔ (رواہ احمد و ابو داود وابن ماجہ و صححہ ابن حبان) اور مراقی الفلاح میں ایک حدیث ہے کہ :
مَامِنْ مَرِیْضٍ یُقْرَأُ عِنْدَہُ یٰسٓ الَّا ماتَ رَیَّانَ و اُدْخِلَ فی قَبْرِہِ رَیَّانَ 
جس مریض کے پاس یٰسٓ پڑھا جاتا ہے، وہ سیراب ہوکر مرتا ہے اور سیراب ہی قبر میں داخل کیا جاتا ہے۔
مرنے کے بعد جب تک اس کو غسل نہ دیا جائے ، اس کے پاس قرآن مجید پڑھنا درست نہیں ہے۔ (عالمگیری)
مرنے والے کے بال بچوں کو یا جس سے اس کو زیادہ محبت ہو، اس کے سامنے نہ لاؤ تاکہ دنیا کی طرف مائل نہ ، کیوں کہ یہ وقت دنیا سے جدائی اور اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں حاضری کا وقت ہے ۔ اس کے پاس ایسی باتیں کرو، کہ دل دنیا سے پھر کر اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہوجائے۔ اللہ کی رحمت اور مومن کی موت کی فضیلت اس کے سامنے بیان کرو تاکہ وہ خد اسے پر امید ہوکر مرے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی موت سے تین روز قبل فرمایا تھا:
لَایَمُوْتَنَّ أحَدُکُمْ الَّا وھُوَ یُحْسِنُ الظَّنَ بِاللّٰہِ۔ (رواہ مسلم)
اللہ سے اچھے گمان رکھتے ہوئے جان دو۔
رسول اللہ ﷺ ایک جوان کے پاس پہنچے، جو نزع کی حالت میں تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے کو کیسے پاتے ہو؟ اس جوان نے کہا : یا رسول اللہ ! میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں۔ حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: ایسے موقع پر جس بندہ کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوں گی، اللہ اس کی امید کو پوری کرے گا۔ اور اس کو خوف سے مامون رکھے گا۔ (ترمذی)
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تم کو خبر دوں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے اللہ تعالیٰ بندوں سے کیا کہے گا اور بندے پہلے کیا جواب دیں گے۔صحابہ کرام نے عرض کیا : ہاں یا رسول اللہ ﷺ فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ مومن سے کہے گا کہ :
ھَلْ اَحْبَبتُمْ لِقائی؟
تونے میری ملاقات کو محبوب سمجھا تھا؟ بندے کہیں گے : 
نَعَمْ یَا رَبَّنَا
ہاں ائے ہمارے پروردگار۔
اللہ تعالیٰ کہے گا : کیوں؟ بندے کہیں گے : ہم آپ کی معافی اور مغفرت کی امید رکھتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : تمھارے لیے میری مغفرت واجب ہوگئی ۔ (ابو نعیم فی الحلیۃ)۔ایک حدیث میں ہے کہ: 
أنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ 
میں اپنے بندوں کے گمان کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں۔
اس قسم کی باتوں سے اس کو پرامید کرے ، تاکہ اچھے گمان خدا سے رکھ کر جان جاں آفریں کے سپرد کرے۔ 
آتی ہیں ٹھہر ٹھہر کے سانسیں
اب موت سے لو لگارہا ہوں
منزل ہے قریب ، خوف غالب
رک رک کے قدم اٹھارہا ہوں
بہر حال جب سانس اکھڑ جائے اور جلدی جلدی چلنے لگے ، اور ٹانگیں ڈھیلی پڑ جائیں اور کھڑی نہ ہوسکیں، اور ناک ٹیڑھی ہوجائے اور کنپٹیاں بیٹھ جائیں، تو سمجھو کہ اس کی موت آگئی۔ اس وقت کلمہ زور زور سے پڑھنے لگو ۔ جب مرجائے تو سب عضو درست کردو۔ ہاتھ پہلو میں سیدھا کرکے رکھو ۔ سینے پر نہ رکھو۔ ایک کپڑے سے تھوڑی کو سر سے باندھ دو، تاکہ منہ کھلا نہ رہ جائے ۔ اور آنکھیں بند کردو ۔ اور پیر کے دونوں انگوٹھوں کو ملاکر باندھ دو، تاکہ ٹانگیں پھیلنے نہ پائیں۔ آنکھ بند کرتے ہوئے کہو:
بِسْمِ اللّٰہِ وَ عَلٰیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ 
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کی آنکھیں پھٹی ہوئی ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی آنکھیں بند کردیں اور فرمایا کہ جب روح قبض کی جاتی ہے ، تو آنکھیں اس کا پیچھا کرتی ہیں ۔ (مسلم)
پھر کوئی چادر اڑھادو۔ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، تو آپ ﷺ کو ایک دھاری دار یمنی چادر سے ڈھانک دیا گیا تھا ۔ (بخاری و مسلم)
اور اس کے پاس لوبان وغیرہ کی خوشبو سلگادی جائے۔ ناپاک آدمی وہاں نہ جائے اور نہلانے ، کفنانے میں جلدی کرو۔ ؂
پہلو سے دو گھڑی جو سرکتے نہ تھے کبھی 
گھبرا گئے وہ دفن میں تاخیر دیکھ کر
غسل و کفن کا بیان
ہائے کل سب آشنا میرے مریض عش کے
تھے علاج ضعف دل اور ضعف تن کی فکر میں
آج گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں با چشم پر آب 
گاہ تدبیر لحد میں گہ کفن کی فکر میں
غسل و کفن کا سامان
سب سے پہلے قبر کا سامان کرو۔ اور کفن دفن کے لیے سامان ذیل کی فراہمی کرلو، جس کو اپنے اپنے موقع پر صرف کرو: 
(۱) گھڑے دوعدد(اگر گھر میں برتن ہوں تو کورے کی حاجت نہیں)
(۲) لوٹا۔ (۳) غسل کا تختہ۔ (۴) لوبان۔ (۵) روئی۔ (۶) گل خیرو (صابن)۔ (۷) کافور۔ (۸) قبر پاٹنے کے لیے تختہ یا لکڑی ، قبر کی پیمائش کے مطابق۔ (۹) چٹائی ایک عدد قبر کی مقدار کے برابر۔ (۱۰) کفن ، جس کی ترکیب مرد کے لیے یہ ہے کہ مردہ کی قد کے برابر ایک لکڑی لو اور اس میں ایک نشان کندھے کے مطابق لگالو۔ اور ایک تاگا سینے کے مقابل رکھ کر جسم کی گولائی میں کو نکال لو کہ اس تاگے کے دونوں سرے ، دونوں پسلیوں پر پہنچ جائیں۔ اور اس کو وہاں سے توڑ لو۔ پھر ایک کپڑا لو، جس کا عرض اسی تاگے کے برابر یا اس کے قریب ہو۔ اگر اس قدر عرض نہ ہو تو اس میں جوڑ لگاکر پورا کرلو۔ اور اس لکڑی کے برابر ایک چادر پھاڑ لو۔ اس کو ازار کہتے ہیں ۔ اسی طرح دوسری چادر پھاڑو، جو عرض میں تو اسی قدر ہو؛ البتہ طول میں ازار سے چار گرہ زیادہ ہو۔ اس کو لفافہ کہتے ہیں ۔ پھر ایک کپڑا لو، جس کا عرض بقدر چوڑائی جسم مردہ کے ہو۔ اور لکڑی کے نشان سے اخیر تک جس قدر طول ہو، اس کا دوگنا پھاڑ لو۔ اور دونوں سرے کپڑے کے ملاکر بیچ سے اتنا چاک کھولوکہ سر کی طرف سے گلے میں آجائے ۔ ا س کو قمیص یا کفنی کہتے ہیں۔ یہ تین کپڑے مرد کے لیے مسنون کفن ہیں۔
اور عورت کے لیے ان تین کپڑوں کے علاوہ اور دو کپڑے ہیں: ایک سینہ بند۔ دوسرا سربند ، جس کو اوڑھنی کہتے ہیں ۔ سینہ بند بغل کے نیچے سے گھٹنے تک اور تاگے مذکور کے بقدر چوڑائی۔ سربند نصف ازارسے تین گرہ زیادہ لمبائی اور بارہ گرہ چوڑائی ۔ یہ پانچ کپڑے عورت کے لیے کفن مسنون ہیں۔ اور بعض چیزیں کفن کے متعلقات ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے : 
(۱) تہ بند: جو غسل دیتے وقت ستر چھپانے کا کام دیتا ہے ۔ بدن کی موٹائی سے تین گرہ زیادہ، بڑے آدمی کے لیے سوا گز لمبائی کافی ہے ۔ اور عرض میں ناف سے پنڈلی تک، چودہ گرہ عرض کافی ہے ۔ یہ دو ہونے چاہیے: ایک غسل میں ۔ دوسرا غسل کے بعد کفن سے پہلے استعمال ہوتا ہے۔ 
(۲) دستانہ: چھ گرہ طول اور تین گرہ عرض ہو۔ بقدر پنجۂ دست بنالیں۔ یہ بھی دو عدد ہوں ۔
(۳) چادر: عورت کے گہوارہ کی جو بڑی عورت کے لیے ساڑھے تین گز طول اور دو گز عرض کافی ہے۔ 
تنبیہہ: تخمینا مرد کے کفن مسنون میں ایک گز عرض کا کپڑا دس گز صرف ہوتا ہے اور عورت کے لیے مع چادر گہوارہ ساڑھے اکیس گز ۔ اور تہ بند اور دستانہ اس سے جدا ہیں اور بچہ کا کفن اس کے حال کے مناسب لو۔
کفن کو دھونی دینے کا بیان
کفن جب تیار ہوجائے، تو اس کو اولالوبان وغیرہ خوشبو دار چیز جلاکر اس کا دھواں تین بار یا پانچ بار کفن کو پہنچائے ، یہ مستحب ہے۔ 
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ : أجْمِرُوْا کَفَنَ الْمَیِّتِ ثَلَاثَاً 
(رواہ البیھقی)
میت کے کفنوں کو تین بار دھونی دو۔
نور الہدایہ میں ہے کہ اس کی سند صحیح ہے ۔
غسل اور کفنانے کا طریقہ
ایک گھڑے میں دو میٹھی بیری کے پتے ڈال کر پانی کو ابالو اور اس کے دو گھڑے بنالو۔ اور ایک گڑھا اتر دکھن کھود لو۔ اگر پہلے سے کوئی نالی وغیرہ پانی بہنے کے لیے ہے، تو پھر گڑھا کھودنے کی ضرورت نہیں ۔ اب اس نالی پر تختہ رکھو اور اس تختے کو تین مرتبہ لوبان کی دھونی دے لو۔ پھر مردہ کو اس تختہ پر لٹاؤ۔ اور کرتا وغیرہ کو چاک کرکے نکال لو اور تہ بند ستر پر ڈال کر استعمالی کپڑے نکال لو۔ اور پیٹ پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرو۔ نجاست نکلے تو اس کو دھو دو۔ پھر سر اور داڑھی کو گل خیرو یا صابون سے دھوؤ۔ پھر دستانہ پہن کر وضو کے ارادے سے اول دونوں ہاتھ پہنچوں تک دھوؤ ۔ پھر روئی کا پھایا تر کرکے ہونٹوں اور دانتوں پر پھیر کر پھینک دو۔ اس طرح تین دفعہ کرو۔ اسی طرح تین دفعہ ناک اور رخساروں پر پھیرو۔ اور منہ اور ناک اور کان میں روئی لگا دو کہ پانی نہ جائے ۔ پھر کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کو دھوؤ ۔ پھر سر کا مسح ، پھر دونوں پاؤں دھو دو۔ پھر سارے بدن پر پانی بہاؤ۔ پھر بائیں کروٹ لٹا کر پانی بہاؤ۔ پھر داہنی کروٹ پر ایسا ہی کرو۔ پھر دوسرا دستانہ پہن کر بدن کو صاف کرو۔ اور دوسرا تہ بند بدل دو۔پھر چار پائی بچھاکر اس پر اول لفافہ ، اس پر ازار ، پھر اس پر کفنی کا نچلا حصہ بچھاکر باقی حصہ اوپر والا سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دو۔ پھر مردے کو تختہ سے آہستہ سے اٹھاکر اس پر رکھ دو۔اور کفنی کے حصہ کے سر کی طرف سے الٹ دو تاکہ گلے میں آجائے اور پیروں کی طرف بڑھادو۔ اور تہ بند نکال دو اور کافور سر اور داڑھی اور سجدہ کے موقعوں پر ، یعنی پیشانی ، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں کہنیوں، دونوں پنجوں پر مل دو۔ پھر ازار کا بایاں پلہ لوٹ کر اس پر دایاں پلہ لوٹ دو۔ اور لفافہ کو بھی اسی طرح لپیٹو۔ اور ایک کتر لے کر سرہانے اور پائنتی چادر کے گوشہ کو چن کر باندھ دو اور ایک بند سے کمر کے پاس بھی باندھ دو تاکہ راستہ میں کھل نہ جائے۔
اگر میت عورت ہے تو کفنی یعنی قمیص پہناکر اس کے بالوں کے دو حصے کرو: ایک حصۃ داہنی طرف اور ایک حصہ بائیں طرف قمیص کے اوپر سینہ پر ڈال دو۔ اس کے بعد سر بند سر پر اور بالوں پر ڈال دو ۔ اس کو نہ باندھو اور نہ لپیٹو۔ پھر ازار لپیٹو ۔ پہلے بائیں طرف سے ، پھر دائیں طرف سے ۔ پھر اس پر سینہ بند لپیٹ دو۔ پھر چادر لپیٹو ۔ پہلے بائیں طرف ، پھر دائیں طرف سے ۔ (عالمگیری)
غسل کے لیے بیری کے پتے ڈال کر پانی کو گرم کرلینا مستحب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینت رضی اللہ عنہا کے غسل کے موقع پر فرمایا تھا: 
اغْسِلْھَا ثَلَاثاً أوْ خَمْساً أوْ أکْثَرَ مِنْ ذالِکَ انْ رَأیْتُنَّ ذالِکَ بِمَاءٍ و سِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِی الْاٰخِرَۃِ کَافُوْرَاً أوْ شَیْءَاً مِنْ کَافُوْرٍ
(متفق علیہ)
تین یا پانچ بار یا اس سے زیادہ ۔ اگر ضرورت سمجھو تو پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو اور اخیر میں کافور یا کچھ نہ کچھ کافو رمیں سے ہو۔
اگر بیری کے پتے میسر نہ ہوں تو خالص پانی ہی گرم کرلو اور نیم گرم پانی سے غسل دو۔ (ہدایہ)
کفن کا کپڑا اسی حیثیت کا ہونا چاہیے ، جیسا کہ مردہ اپنی زندگی میں استعمال کیا کرتا تھا۔ زیادہ تکلفات فضول ہیں ۔ سرکار دو جہاں ﷺ نے فرمایا کہ :
لَا تَغَالُوْا فِی الْکَفَنِ فَانَّہُ یُسْلَبُ سَلْبَاً سَرِیْعَاً (ابو داود)
کفن میں مبالغہ مت کرو۔ اس لیے کہ وہ بہت جلد چھین لیا جاتا ہے ۔
یعنی زیادہ بیش قیمت کفن دینے کی حاجت نہیں ، وہ باقی رہنے والا نہیں ہے۔
مادر جسے عریاں نہیں کرتی تہہ افلاک
وہ قبر میں سوتا ہے دھری رہتی ہے پوشاک
لیکن اس کے باوجود کفن اچھا ہونا چاہیے ۔ مسلم کی روایت میں ہے :
فَلْیُحْسِنْ کَفْنَہُ
اس کو اچھا کفن دینا چاہیے کہ اس میں میت کی تعظیم ہے ۔ 
یوں تو ہر رنگ کا کفن دینا جائز ہے ، لیکن سفید کپڑا کفن میں دینا مسنون ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ألْبِسُوْا مِنْ ثِیَابِکُمُ الْبَیَاضَ فَانَّھَا مِنْ خَیْرِ ثِیَابِکُمْ وَ کَفِّنُوْا فِیْھَا مَوْتَاکُمْ ۔
(رواہ الخمسۃ الا النسائی و صححہ الترمزی) 
تم سفید کپڑے پہنو، اس لیے کہ سب کپڑوں میں اچھا ہے ۔ اور اسی رنگ کے کپڑے میں اپنے مردوں کو دفن کرو۔ 
کفن میں تین کپڑے مسنون ہے۔
کُفِّنَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِیْ ثَلاثۃِ أثْوابٍ قَمِیْصٍ وَ ا8زَارٍ و لِفَافَۃٍ ۔(رواہ ابن عدی فی الکامل)
رسول اللہ ﷺ تین کپٹروں میں کفنائے گئے : (۱) قمیص(۲) ازار (۳) لفافہ۔
اگر تین نہ ہوں تو دو ، ورنہ ایک کفن بنالے ، جس سے اس کا بدن ڈھک جائے فرض ہے ۔ (عالمگیری، ص۵۳۳)۔ لیکن یہ مجبوری کی حالت میں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
خَیْرُ الْکَفَنِ الْحُلَّۃُ ( ابو داود)
بہتر کفن جوڑا ہے ، یعنی ازار اور لفافہ۔ 
جنگ احد کے اندر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہما شہید ہوئے تو ان کے کفن کے لیے ایک چادر کے سوا کچھ نہ پایا گیا ۔ اور وہ چادر بھی ایسی کہ اگر سر چھپائیں تو پیر کھل جائے اور پیر ڈھانپیں تو سر کھل جائے ۔ آخر حضور پر نور ﷺ نے فرمایا : ان کا سر چھپاؤ اور پیر پر گھاس رکھ دو۔