19 May 2018

قسط نمبر (3) قربانی کا بیان

قربانی کا بیان

قسط نمبر (3) 
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

ایام قربانی میں چھ قسم کے جانوروں میں سے کسی جانور کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے۔
قربانی کرنا واجب ہے
قربانی کے دن جو شخص نصاب کی مقدار یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس مالیت کی کوئی دوسری چیز رکھتا ہو اور وہ مال قرض اور دوسری ضروری حاجتوں سے زائد ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
مَنْ کَانَ لَہُ سَعَۃٌ وَ لَمْ یُضَحِّ۔ فَلایَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا (رواہ احمد و وابن ماجۃ والحکم و صححہ الحاکم)
جس شخص کو مالی وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ جائے۔
علامہ عینی نے فرمایا کہ ایسی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوسکتی ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس سال تک مدینہ میں قیام فرمایا ااور ہر سال قربانی کی۔ (ترمذی۔ اس سے بھی وجوب سمجھا جاتا ہے ۔ (مرقاۃ)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ( الکوثرآیۃ :۲)
اپنے رب کے لیے عید کی نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے ۔
قربانی صرف اپنی ذات پر واجب ہے ۔ اپنی چھوٹی بڑی اولاد اور بیوی ، غلام کی طر ف سے قربانی واجب نہیں ہے۔ (مالابد منہ)
مسافر اور نادار پر قربانی واجب نہیں ہے۔
قربانی کا رکن
قربانی کا رکن مخصوص چوپائے کا ذبح کرنا ہے۔ قرآن میں ہے :
وَ مِنْ بَھِیْمَۃِ الْأنْعَامِ (الحج، آیۃ:۲۸)
اورچوپائے جانوروں میں سے ۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف چوپائے کی ہوسکتی ہے۔ جو چوپایہ نہیں، جیسے مرغ، بٹیر وغیرہ پرندے، اس کی قربانی درست نہیں۔ اسی طرح چوپائے میں بھی مخصوص چوپائے کی قربانی درست ہے اور وہ چھ قسم کے جانور ہیں : اونٹ۔ گائے۔ بھینس۔ بکری۔ بھیڑ۔ دنبہ۔ ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی درست نہیں۔
قربانی کا حکمدنیا میں قربانی کرنے والا واجب کی ذمہ داری سے نکل آتا ہے اور آخرت میں بڑے ثواب کا حق دار ہوتا ہے۔
قربانی کی فضیلت
حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 
قَالَ أصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ! مَا ھٰذہِ الأضَاحِیْ؟ قَالَ: سُنَّۃُ أبِیْکُمْ ا8بْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلامُ۔ قَالُوْا: فَمَا لَنَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ۔ قَالُوْا: فَالصُّوْفُ یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ، قَالَ: بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنَ الصُّوفِ حَسَنَۃٌ۔ (رواہ احمد وابن ماجۃ)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ (ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی اطاعت میں سب سے پہلے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا ؛ مگر اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش کے بعد اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ایک دنبہ قربان کیا۔ جب ہی سے یہ سلسلہ قربانی جاری ہوا)۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم کو اس میں کیا ثواب ملے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا : ہر بال پر ایک نیکی۔ عرض کیا یا رسول اللہ! بھیڑاور دنبہ کے بالوں کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے بالوں کا بھی یہی حکم ہے؛ ہر بال پر ایک نیکی۔
یعنی بال ہو یا اون؛ دونوں کا ایک حکم ہے ۔ رواں رواں پر نیکی ، خواہ کسی قدر ہوں۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ذی الحجہ کے دسویں تاریخ کو خدا کے نزدیک تمام اعمال سے بہتر خون بہانا ہے۔ یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں وغیرہ کے ساتھ آئے گی۔ یہ نہایت ہی خوش ہونے کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پیشتر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ائے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس آکر کھڑی ہو، اس کا جو قطرہ زمین پر گرے گا، اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تیرے تمام پچھلے گناہ بخش دے گا۔ حضرت بتولؓ نے دریافت کیا : یہ خوش خبری صرف میرے لیے ہے یا تمام امت کے لیے؟ فرمایا: تمھارے لیے بھی اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔ (بزار) 
حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے حسن اعتقاد اور ثواب کی نیت سے قربانی کی تو یہ قربانی اس کے لیے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ (طبرانی)۔
قربانی کا جانور
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَ لِکُلِّ أمَّۃٍ جَِعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوْا اسْمَ اللّٰہِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْأنْعَامِ (الحج،آیۃ ۳۴ )
اور جتنے شریعت والے گذرے ہیں ، ان میں سے ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھاکہ وہ مخصوص چوپاؤں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے ان کو عطا فرمائے تھے۔ (ترجمہ تھانوی)
وہ مخصوص جانور جن کی قربانی درست ہے ، وہ یہ ہیں: 
(۱) اونٹ۔ (۲) گائے ۔ (۳)بھینس۔ (۴) بھیڑ۔ (۵) دنبہ۔ (۶) بکری۔خواہ نر ہو یا مادہ بشرطیکہ پالتو ہو ۔ اور اونٹ پورے پانچ سال ، گائے ، بھینس پورے دو سال، بکری، خصی پورے ایک سال کے ہوں۔ بھیڑ، دنبہ چھ ماہ کا بھی درست ہے، جب کہ خوب فربہ ہو اور سال بھر کا معلوم ہوتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
لَاتَذْبَحُوْا ا8لَّا مُسِنَّۃً، ا8لَّا أنْ یَّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوْا جِذْعَۃً مِّنَ الضَّانِ ۔ (رواہ مسلم)۔
مت ذبح کرو، مگر ثنی؛ مگر یہ کہ تم پر دشوار ہو پس ذبح کرو بھیڑ کا بچہ ششماہ۔ 
معلوم ہوا قربانی کے جانور کا ثنی ہونا ضروری ہے۔ ثنی وہ جانور ہے، جس کے سامنے کے دانت گرگئے ہوں۔ ثنی اونٹ پانچ سال میں، گائے ، بھینس دو سال میں، اور بکری پورے ایک سال میں ہوتی ہیں۔
اون والا جانور ضان کہلاتا ہے ، جو بھیڑ دنبہ دونوں کو شامل ہے۔ بھیڑ، دنبہ اگر ایک سالہ نہ ملے اور کوئی دوسرا جانور بھی نہ ملے ، تو اس صورت میں چھ ماہ کا بھی درست ہے۔
جنگلی جانور کی قربانی درست نہیں، یعنی پہاڑی بکری اور جنگلی گائے، بھینس کی قربانی درست نہیں۔ اگر کوئی جانور پالتو اور وحشی سے پیدا ہوا ہو، تو اس وقت ماں کا اعتبار ہوگا۔ اگر ماں پالتو ہے تو قربانی درست ہے؛ ورنہ جائز نہیں۔ (مالابد منہ)
افضل کیا ہے
بالاتفاق دنبہ بھیڑ سے افضل ہے ۔ اور بکری بکرا سے، اگر قیمت اور گوشت میں برابر ہو۔ اور بکری گائے کے ساتویں حصہ سے افضل ہے، جب کہ قیمت میں برابر ہو ۔ اور بعض کے نزدیک اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے۔ (مالابد منہ)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: قربانی میں بہتر قربانی بکری کی ہے ۔ (ابو داود)
اور بعض روایت میں مینڈھے کی قربانی افضل بتایا گیا ہے۔
(جنت کی کنجی)
عیب دار جانور
عیب دار جانور کی قربانی درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَاءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔ 
( الحج، آیۃ ۳۲)
جو شخص خدا کے دین کی یادگاروں کی تعظیم کرے گا، تو ان کی تعظیم دل کے تقویٰ سے ہوگی۔
قربانی دین کی یادگاروں میں سے ایک ہے۔ اس کی تعظیم یہ ہے کہ جانور موٹا ، تازہ، بے عیب ہو، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے سینگوں والے موٹے تازے مینڈھے کی قربانی کی تھی ، جو سیاہی میں دکھتا ، سیاہی میں کھاتا اور سیاہی میں چلتا، یعنی سر سے پاؤں تک سیاہ تھا۔ (ترمذی، ابو داود، نسائی ، ابن ماجہ)
اور عیب دار جانوروں کی قربانی سے منع فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت براء ابن عاذب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 
قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ، فَقالَ: أرْبَعٌ لَاتَجُوزُ فِی الضَّحَایَا الْعَوْرَآءُ الْبَیِّنُ عَوْرَھَا، وَالْمَرِیْضَۃُ الْبَیِّنُ مَرَضُھَا، وَالْعَرْجَآءُ الْبَیِّنُ ضِلْعُھَا، وَالْکَبِیْرَۃُ الَّتِیْ لَاتُنْقِیْ۔ (رواہ احمد، والاربعۃ، و صححہ الترمذی وابن حبان)۔ 
رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان میں کھڑے ہوئے ، پس فرمایا : چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں: 
(۱) کانا جس کا کانا ہونا ظاہر ہو۔ (اس میں اندھا بھی آگیا)۔
(۲) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔ (یعنی مرض سے بہت دبلا ہوگیا ہو)۔
(۳) لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ (یعنی چوتھا قدم زمین پر بالکل نہ دھرے اور مذبح تک نہ جاسکے)
(۴) بہت بڈھا ہو کہ بدن میں گوشت نہ ہو۔
معلوم ہو کہ اندھے، کانے ، ایسے لنگڑے کی جو مذبح تک نہ جاسکے، بہت بڈھے کی، بہت بیمار کی کہ بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے بدن میں گوشت نہ رہا ہو، اسی طرح جس کا سینگ جڑ سے ٹوٹ جائے، یا دم پیدائشی نہ ہو، یا پیدائشی کان نہ ہو، یا دم تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو، یا تہائی سے زیادہ کان کٹ گیا ہو، کل یا اکثر دانت ٹوٹ گئے ہوں، تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے ۔ (مالابدمنہ)
محض نجاست خور کہ نجاست کے سوا کوئی دوسری چیز نہ کھاتا ہو۔ خنثیٰ اور جس کا پستان کٹ گیا یا سوکھ گیا ہو؛ ان سب کی قربانی درست نہیں ۔ (مالابد منہ)
یہ عیب قربانی سے مانع نہیں
جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہو، یا درمیان سے ٹوٹ گیا ، گھاس کھاتا ہوا پاگل، موٹا تازہ خارشی، اکثر دانت والا، تہائی سے کم کان یا دم کٹا ہوا، چھوٹے چھوٹے پیدائشی کان والا، مذبح تک جاسکنے والا لنگڑا اور خصی بدھیا کی قربانی درست ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 
ذَبَحَ النَّبِیُّ ﷺ یَوْمَ الذَّبْحِ کَبْشَیْنِ أقْرَنَیْنِ أمْلَحَیْنِ مَرْجُوْءَیْنِ (احمد)
نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے دن دو مینڈھے بڑے بڑے سینگوں والے ، سیاہ سفید رنگ والے خصیوں کی قربانی کی۔ 
حضرت جحیفہ ابن عدیؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : ایک گائے سات شخصوں کی طرف سے جائز ہے ۔ میں نے پوچھا: اگر بچہ نکلے، تو فرمایا: اس کے ساتھ اس کے بچہ کو بھی ذبح کرے۔ پھر میں نے عرض کیا : اور سینگ ٹوٹے کی؟ فرمایا: کچھ حرج نہیں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے آنکھ کان دیکھ لینے کو فرمایا۔ اس حدیث کو دارمی، نسائی، ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی، ابو داود طیالسی، ترمذی اور حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے اور ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔ (زجاجۃ المصابیح)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مینڈھا قربانی کے لیے خریدا۔ بھیڑیا نے اس کی چکتی اور کان کو زخمی کردیا۔ ہم نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا ، آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کی قربانی کر۔ (ابن ماجہ)۔
قربانی کے دنحضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :
اَلْأضْحَیٰ ثَلٰاثَۃُ أیَّامٍ یَوْمَانِ بَعْدَ یَوْمِ النَّحْرِ۔
(رواہ الطحاوی بسند جید)
قربانی کے تین دن ہیں: دسویں دن کے بعد دو دن یعنی گیارھویں بارھویں ۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بارھویں کے سورج چھپنے سے پہلے تک رہتا ہے۔ اس درمیان میں جب چاہے، قربانی کرسکتا ہے؛ البتہ رات کو ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ دسویں کو نماز سے پہلے قربانی درست نہیں ۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا: 
مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ أنْ یُّصَلِّیَ فَلْیَذْبَحْ أُخْرَیٰ مَکَانَھَا، وَ مَنْ لَّمْ یَذْبَحْ فَلْیَذْبَحْ بِاِسْمِ الْلّٰہِ (متفق علیہ)
جس شخص نے نماز پڑھنے سے پہلے قربانی کی ہے ، اس کو اس کی جگہ میں دوسرا کرنا چاہیے اور جس نے قربانی نہیں کی ہے، اس کو اللہ کے نام سے ذبح کرنا چاہیے۔
البتہ اگر دسویں کو کسی وجہ سے نماز نہیں پڑھی، تو گیارھویں کو نماز سے پہلے قربانی جائز ہے۔ اسی طرح جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی، یا شہر میں فتنہ کی وجہ سے نماز کی توقع نہیں ، تو وہاں دسویں کو صبح صادق کے بعد قربانی درست ہے۔ (مالابد منہ)
اس لیے کہ جب نماز ہی نہیں ہے، تو پھر انتظار کس کا ۔ اگر امام نماز میں تاخیر کرے، تو زوال تک قربانی میں بھی تاخیر کرے۔البتہ اگر مسجد میں عیدگاہ سے پہلے نماز ہوجائے، تو اب سب کے لیے قربانی کرنا جائز ہوگا، خواہ نماز میں شریک ہوا ہویا نہ ہوا ہو، یا عیدگاہ میں مسجد سے پہلے نماز ہوجائے، تو قربانی جائز ہے، الغرض کسی ایک جگہ نماز ہوجانی چاہیے، جہاں بھی نماز ہوئی ، قربانی درست ہوگی۔ نماز کے بعد خطبہ سے پہلے قربانی درست ہے ؛ مگر خلاف اولیٰ ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ نماز اور خطبہ ؛ دونوں سے فارغ ہوکر قربانی کرے ۔ (مالابد منہ)
اگر قربانی کے دن گذر گئے اور اس پر قربانی واجب تھی اور اس سے کسی وجہ سے قربانی نہ ہوسکی، تو اگر جانور موجود ہے ، تو اسی کو صدقہ کردے، ورنہ اس کی قیمت صدقہ کرے۔
قربانی میں شرکت
بھیڑ، بکری اور دنبہ میں شرکت درست نہیں۔ صرف ایک شخص کی جانب سے درست ہے ۔ گائے، بھینس اور اونٹ میں ایک سے سات تک شریک ہوسکتے ہیں ۔ سات سے زائد درست نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ 
البَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ وَ الْجَزُوْرُ عَنْ سَبْعَۃٍ۔ (مسلم)
گائے سات شخصوں کی طرف سے اور اونٹ سات شخصوں کی جانب سے ۔
سات شخصوں کا ہونا ضروری نہیں ، صرف دو آدمی مل کر قربانی کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح تین یا چار یا پانچ یا چھ آدمی مل کر کریں، یہ بھی درست ہے؛ البتہ کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔(یعنی ایک حصہ مکمل ہو۔ حصہ میں تقسیم نہ ہو)۔ زیادہ ہونے میں کچھ حرج نہیں۔ اور سب کی نیت تقرب کی ہو، یعنی ثواب کی ۔ اگر نیت تقرب میں اختلاف ہو، تو کچھ حرج نہیں، جیسے کسی نے عقیقہ کی نیت کی ، کسی نے قربانی واجب کی، کسی نے نفل کی کسی نے منت کی ، تو اس اختلاف نیت سے قربانی میں کچھ حرج نہیں ہے، قربانی صحیح ہوگی۔
لیکن اگر کسی نے محض گوشت کھانے کی نیت سے شرکت کی ، تو کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی۔ (مالابد منہ)
سات شخصوں نے مل کر گائے خریدی اور قربانی کرنے سے پہلے کسی ایک نے انتقال کیا، اگر اس کے کل وارثوں سے اجازت قربانی کی دی ، تو صحیح ہوگی، ورنہ قربانی کسی کی بھی نہیں ہوگی۔
غریب کی قربانی
جس پر قربانی واجب نہ تھی ؛ مگر اس نے ثواب کی نیت سے قربانی کا جانور خریدا، تو اب اس پر اس جانور کی قربانی کرنا واجب ہوگیا۔ البتہ اگر وہ جانور قربانی کرنے سے پہلے مرجائے یا چو رڈکیت لے جائے، تو اس پر دوسرا خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں ؛ لیکن اگر عیب دار ہوجائے ، خواہ وہ عیب ایسا ہو کہ اس کی موجودگی میں اس کی قربانی جائز نہیں، تو اسی کو قربانی کر ڈالے، دوسرے خریدنے کی حاجت نہیں۔ اگر خریدے گا تو دونوں کی قربانی کرنا ہوگا۔
امیر کی قربانی
جس پر قربانی کرنا واجب تھا، اس نے ایک جانور خریدا، اس کے بعد وہ مرگیا، یا کھوگیا، یا چور لے گیا، یا ایسا عیب دار ہوگیا جو قربانی سے مانع ہو تو اس پر دوسرا خرید کر قربانی کرنا واجب ہے، اگرچہ خریدنے کے بعد پہلا بھی مل جائے تو اس پر کسی ایک کی قربانی کرنا واجب ہے، دونوں کا نہیں۔
میت کی قربانی
اگر مرنے والے نے قربانی کی وصیت کی اور اس نے اتنا مال چھوڑا ہے کہ اس کے تہائی مال سے اس کی وصیت پوری ہوسکتی ہے ، تو ورثہ پر لازم ہے کہ اس کی طرف سے قربانی کرے ۔ اور اس کا تمام گوشت پوست صدقہ کردے،اس گوشت میں سے ورثہ کو کھانا درست نہیں؛ لیکن اگر کسی نے میت کی وصیت کے بغیر ثواب پہنچانے کے لیے اس کے نام سے قربانی کی ، تو اس گوشت کا کھانا اور دوسروں کو کھلانا ہر طرح جائز ہے ، انسان کو چاہیے اپنے مرنے والوں کو یاد رکھیں اور ان کے نام سے قربانی کرکے ان کو ثواب پہنچائیں۔ حضرت حَنَش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے ان سے عرض کیا: یہ کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں، اس لیے ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ (ابو داود)
یعنی ایک اپنی طرف سے اور ایک سرکار دوجہاں احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف سے کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس پر قربانی واجب ہو، وہ ایک جانور اپنی طرف سے ضرور کرے اور دوسرے جانور سے دوسرے کو ثواب پہنچائے۔ 
منت کی قربانی
اگر کسی نے نذر مانی کہ اگر ہمارا فلاں کام ہوگیا، یامیں بیماری سے اچھا ہواتو قربانی کروں گا۔ اس کے بعد اس کی حاجت پوری ہوگئی، تو اب اس پر قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا واجب ہے۔ اور اس کا گوشت نہ خود کھائے ، نہ امیروں کو کھلائے؛ بلکہ گوشت پوست؛ سب غریبوں کو دیدے۔ اگر خود کھائے یا امیروں کو کھلائے تو جتنا کھایا یا کھلایاہے، اس کی قیمت غریبوں کو خیرات کرے؛ ورنہ اس کے ذمہ اتنا واجب رہ جائے گا۔
منت کی قربانی کی وہی شرطیں ہیں جو اور قربانی کی ہیں۔ کم عمر یا عیب دار کی قربانی کرنا منت پوری کرنے کے لیے درست نہیں ۔
اگر کسی خاص جانور کی قربانی کی منت مانی ، تو اس خاص جانور کی قربانی کرنا ضروری نہیں ، اس کے بدلے میں دوسری کرنے سے بھی منت پوری ہوجائے گی۔ اگر منت جان کے بدلے جان کی ہو، تو حاجت پوری ہونے کے بعد کسی جانور کو ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کردے، اپنے مصرف میں نہ لائے ۔اور نہ اس کے لیے قربانی کے دنوں کا انتظار کرے۔ 

قربانی کرنے کا طریقہ
پہلے چھری تیز کرے اور کوئی دوسرا جانور اس جگہ نہ رہنے دے ۔ پھر اس کو قبلے کی رخ پر لٹائے ۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھے:
إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفَاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکینَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِی وَمَحْیايَ وَمَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَٰلکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمینَ أللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ۔ 
پھر بِسمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے۔ ذبح کرنے کے بعد کہے:
ألْلّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ ا8بْرَاھِیْمَ وَ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَا الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ۔ 
اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو مِنِّیْ کی جگہ پر مِنْ فُلان ابنِ فلاں کہے، یعنی مِنْ کے بعد اس کا ولدیت کے ساتھ نام لے۔ اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا بہتر ہے ،جب کہ جانتا ہو ، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے کیا؛ لیکن اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا ہو، تو وہاں پر کھڑا رہے ، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ائے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس آکر کھڑی ہو۔ (بزار)
قربانی کا گوشت
اگر میت اور منت کی وصیت کی قربانی نہ ہو ، تو اس کا گوشت خود کھاسکتا ہے اور دوسروں کو بھی دے سکتا ہے ہے ، خواہ امیر ہویا غریب، مسلمان ہو یا کافر۔ یہ بھی جائز ہے کہ کل گوشت خیرات کردے، یا کل کو اپنے کام میں لائے ؛ البتہ گوشت کا بیچنا جائز نہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ ایک تہائی گوشت غریبوں میں بانٹے اور ایک تہائی گوشت دوستوں ، رشتہ داروں کو دے اور ایک تہائی اپنے کام میں لائے۔
میت اور وصیت والی قربانی کا گوشت غریبوں کو دیدے۔ نہ خود کھائے ، نہ امیروں اور کافروں کو دے۔
چرم قربانی
چرم قربانی کا صدقہ کرنا افضل ہے ۔ 
أَنَّ عَلِیَّاً رَضِيَ اللّٰہُ عَنہُ أَخْبَرہَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَہُ أَنْ یَّقُوْمَ عَلیٰ بُدْنہِ وَأَنْ یَّقْسِمَ بُدْنَہُ کُلَّھَا لُحُوْمَھَا وَجُلُوْدَھَا وَجِلَالَھَا وَلَا یُعْطِيَ فِيْ جِزَارَتِھا شَیْءَاً۔ (بخاری،کتاب الحج، باب یُتصدَّقُ بِجلودِ الھدیِ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانیوں کا انتظام کروں اور اس کا گوشت، کھال اور جھول سب مسکینوں پر تقسیم کروں اور اس کی ذبح کی اجرت میں اس میں سے کچھ بھی نہ دیا جائے۔
لیکن اگر کوئی کھال صدقہ نہ کرے اور اس کو اپنے مصرف میں لائے تو لاسکتا ہے۔ یعنی اس سے کوئی چیز الگ سے مزدوری دے کر بنوالے یا خود بناکر استعمال کرے جائز ہے، لیکن اس کو بیچ کر اس کا پیسہ اپنے کام میں لانا، یا مسجد میں لگانا، یا مدرسین، یا ملازمین، یا امام و مؤذن کی تنخواہ میں دینا، یا مدرسہ کی عمارت میں لگانا، یا کوئی اجمالی کام کرنا ، یا کوئی چیز خریدنا درست نہیں۔ بیچنے کے بعد اس کے پیسے مستحقینِ زکوٰۃ پر خرچ کرنا ضروری ہے ۔ مدرسہ میں غریب طلبہ کی امداد کے لیے دینا بھی درست ہے۔ 
گوشت بنانے والے کو اجرت میں گوشت یا کھال کا دینا جائز نہیں۔ اس کو الگ سے مزدوری دے۔

قسط نمبر (2) بچہ کے کان میں اذان و اقامت کا بیان

قسط نمبر (2) 
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

الحمدُ للّٰہِ ربِّ العٰلمین، الرَّحمٰنِ الرَّحیم، والصَّلوٰۃُ والسَّلامُ علیٰ رسولہِ الکریمِ۔
بچہ کے کان میں اذان و اقامت کا بیان
جب بچہ پیدا ہو تو مستحب ہے کہ پہلے اس کو غسل دے اور پاک، سفید کپڑے میں لپیٹ کر قوم کا بزرگ آدمی اس کے دائیں کان میں اذان اور اس کے بائیں کان میں اقامت (تکبیر) کہے۔ (کنز العباد)
ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، تو آں حضرت ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان دی۔ (ترمذی و ابوداؤد)
اور مفتاح النجاۃ میں صاف لکھا ہے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما کی پیدائش کے بعد آں حضرت ﷺ نے ان کے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
اور سیوطی نے جامع صغیر میں مسند ابی یعلی سے نقل کیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس کسی کو لڑکا پیدا ہو، پھر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے، تو اس لڑکے کو ام الصبیان کی بیماری نقصان نہ کرے گی۔ ام الصبیان مختلف قسم کی ہوتی ہے، جس میں اکثر بچے مر جاتے ہیں۔ 
اذان کے الفاظ وہی ہوں گے، جو اذان میں کہے جاتے ہیں اور حیَّ علیٰ الصلاۃ کہتے وقت دائیں طرف منھ پھیرے اور حیَّ علیٰ الفلاح کہتے ہوئے منھ بائیں طرف پھیرے ۔ اور اقامت میں حیَّ علیٰ الفلاح کے بعد قد قامت الصلاۃ بھی کہے۔ (رفاہ المسلمین)
اور اقامت کے بعد یہ دعا پڑھے:
أللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ بَراً تَقِیِّاً وَّ أنْبَتَہُ فِی الْاِسلامِ نَباتاً حَسَناً 
اور اس دعا کی کثرت کرے:
أعِیذُہُ بِاللّٰہِ الصَّمَدِ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ ا8ذا حَسَدَ (شرعۃ الاسلام)
اور نو زائدہ کے کان میں اس آیت کا پڑھنا بھی مستحب ہے ، اگرچہ لڑکا ہو: 
أللّٰھُمَّ ا8نِّی أعِیذُھا بِکَ وَ ذُرِّیَتَھَا مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجِیْمِ (سفر السعادۃ)
اور( رزین میں) سورہ اخلاص کا پڑھنا بھی آیا ہے۔
تحنیک کا بیان
چھوہارا یا کوئی میٹھی چیز چبا کر یا پیس کر بچے کے تالو میں ملنا مستحب ہے ؛ لیکن چھوہارا افضل ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ 
أنَّ رَسولَ اللّٰہِ ﷺ کانَ یُؤتیٰ بِالصِّبیانِ، فَیُبَرِّکُ عَلَیْھِمْ وَ یُحَنِّکُھُمْ۔ (مسلم، کتاب الادب، باب استحباب تحنیک المولود)
جب کسی کے لڑکا پیدا ہوتا، تو اس کو پیغمبر خدا ﷺ کی خدمت میں لاتے ۔ آپ ﷺ اس کو برکت کی دعا دیتے اور چھوہارا چباکر اس کے تالو میں ملتے۔حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنھما پیدا ہوئے، تو اس وقت آں حضرت ﷺ نے چھوہارا چبا کر اس کے تالو میں ملا۔ (جامع شتی)
اس طرح سب چیز سے پہلے ان کے شکم میں حضور اکرم ﷺ کا لعاب مبارک پہنچا ۔ اور بخاری کی شرح عینی میں ہے کہ جب لڑکا پیدا ہو، تو اس کو کسی مرد صالح کے پاس لے جائے ۔ وہ چھوہارہ چباکر اس کے تالو میں ملے کہ یہ مستحب ہے ۔ اور سب چیز سے بہتر تمر ہے ، یعنی سوکھی کھجور۔ اور یہ نہ ہو، تو تر کھجور ۔ حضور اکرم ﷺ نے کھجور کو ایمان دار آدمی کے ساتھ تشبیہ دی ہے ،ا س طرح بچے کے پیٹ میں ایمان کی حلاوت داخل ہوگی ۔ اور کھجور نہ ہوتو شہد۔ اور یہ نہ ہوتو کوئی ایسی چیز جو میٹھی ہو اور آگ کا اثر نہ پہنچا ہو، تالو میں ملے۔
نام رکھنے کا بیان
ساتویں دن نام رکھنا مستحب ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکوں کا نام اس کی پیدائش سے ساتویں دن رکھا کرو۔ (ترمذی)
محمد اور احمد نام رکھنا مستحب ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکوں کا نام میرے نام پر رکھو۔ (بخاری و مسلم)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کا نام محمد ہوگا، آں حضرت ﷺ قیامت کے دن اس کی شفاعت فرماکر جنت میں داخل کریں گے ۔ (حاشیہ رفاہ المسلمین)
اشرف الوسائل شرح الشمائل میں لکھا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا نام قصداً و تاکیداً آں حضرت ﷺ کے ناموں سے رکھے، اس لیے کہ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھ کو اپنی عزت اور جلال کی قسم ، میں اس کو ہرگز آگ میں عذاب نہ دوں گا، جس کا نام تیرے نام کے مثل ہوگا۔ (ابو نعیم)
اور ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک ذات پر عہد کرلیا ہے کہ جس کسی کا نام محمد اور احمد ہوگا، میں اس کو ہرگز دوزخ میں نہ ڈالوں گا۔
اور طبرانی نے جامع کبیر اور عدی نے کامل میں بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : جس شخص کے تین لڑکے ہوں، پھر ان میں سے ایک کابھی نام محمد نہ رکھا، تو بڑی نادانی کی، یعنی اپنی نادانی سے اتنی بڑی نعمت سے محروم رہا۔
اور سنن ابی داؤود میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ لڑکوں کا نام پیغمبروں کے نام پر رکھا کرو یعنی : محمد، احمد، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یوسف، موسیٰ ، عیسیٰ وغیرہ۔
اور مشکوٰۃ میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبد اللہ اور عبد الرحمٰن سب ناموں سے زیادہ محبوب ہے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ سب ناموں میں بہتر وہ نام ہے جو حمد سے مشتق ہو، اور وہ نام جو منسوب بعبدیت ہو، یعنی محمد، احمد، حامد، محمود، عبداللہ ، عبد الرحمٰن ، عبد الکریم، عبد الرحیم، عبد القدوس، عبد السلام وغیرہ۔
اور سنن نسائی اور ابو داؤد میں وھب جُشمی سے منقول ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے لڑکوں کا نام انبیاء علیھم السلام کے نام پر رکھو۔ 
احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ جس لڑکے کا نام انبیاء اور ملائکہ علیھم السلام کے نام پر رکھا ہوتو کسی کو جائز نہیں کہ اس لڑکے پر لعنت کرے ، یا گالی دے یا چھوٹا نام حقارت سے زبان پر لائے ؛ البتہ اگر تنبیہہ کے طور پر کچھ کہنا ہی ضروری ہو تو اس کے سامنے کہے :’’ تو ایسا ہے ویسا ہے ‘‘۔ نام لے کر برا نہ کہے کہ فلاں ایسا ہے ویسا ہے ۔ اور جس لڑکے کا نام محمد ہو، اس کی تعظیم و تکریم کرنا چاہیے ، کیوں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس لڑکے کا نام محمد رکھو، تو اس کی تعظیم کیا کرو۔
پس ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا اچھا نام رکھے ، اس لیے کہ قیامت کے دن انھیں ناموں کے ساتھ پکارے جائیں گے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
تُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأسْمَاءِکُمْ وَ أسْمَاءِ أبَآءِکُمْ، فَأحْسِنُوْا أسْمَاءَکُمْ (أبو داؤد، کتاب الادب، فی تغیر الاسماء)
قیامت کے دن تم اپنے ناموں اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤگے، اس لیے اچھے نام رکھا کرو۔
لیکن ایسا نام ہرگز نہ رکھے، جس سے شان یا تکبر ظاہر ہوتا ہے، جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
أخْنَیٰ الأسْمَاءِ یَوْمَ الْقِیَامِۃِ عِنْدَ اللّٰہِ رَجُلٌ تُسَمَّیٰ مَلِکَ الأمْلاکِ (بخاری، کتاب الادب، باب ابغض الاسماء الیٰ اللّٰہ)
قیامت کے دن بد ترین نام اللہ کے نزدیک اس کا ہوگا، جس کا شہنشاہ نام دھرا جائے۔
اور مسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک تمام آدمیوں میں سب سے زیادہ مغضوب اور خبیث وہ شخص ہوگا، جس نے اپنا نام شہنشاہ رکھا، اس لیے کہ شہنشاہ خدا کے سوا کوئی نہیں۔ (مسلم)
اور ایسے نام بھی نہ رکھے، جس کے معنی برے ہوں۔ اور اگر کسی نے غلطی سے رکھاہو، تو اس کو بدل ڈالے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک لڑکی کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا۔ حضور ﷺ نے اس کا نام جمیلہ رکھا۔ (مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ 
اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ یُغَیِّرُ الْاِسْمَ الْقَبِیْحَ (ترمذی)
نبی اکرم ﷺ برے ناموں کو بدل دیتے تھے۔
اور ایسے نام رکھنا قطعا جائز نہیں ہے، جس سے شرک ظاہر ہوتا ہو، جیسے عبد کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرنا ، جیسے عبد الشمس، عبد اللات، عبد العزیٰ وغیرہ۔ ان کے حرام ہونے میں علماء کا اتفاق ہے۔ (رفاہ المسلمین)
عقیقہ کا بیان
ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے۔ اور اگر اس دن میسر نہ ہوتو چودھویں دن یا اکیسویں دن عقیقہ کرے۔ یا پھر جب میسر ہو، اس دن کرے؛ مگر ساتویں دن کا خیال رکھنا بہتر ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ پیدائش کا دن یا د رکھے۔ اور جس دن پید اہوا ہے، اس سے ایک دن پہلے عقیقہ کرے، ساتویں ہی دن ہوگا، خواہ جب کرے؛ مثلااگر جمعہ کو پیدا ہوا ہے، تو جمعرات کو کرے ۔ اوراگر جمعرات کو پیدا ہوا ہے، تو بدھ کو کرے ۔ اور اگر بدھ کو پید اہوا ہے، تو منگل کو کرے، علیٰ ھذا القیاس اور دن سمجھو۔
(عجالۃ الدقیقۃ فی مسائل العقیقہ)
علما ء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر عقیقہ ساتویں دن یا چودھویں دن یا اکیسویں دن مسیر نہ ہو، تو جب میسر ہو، کرے؛ اگرچہ ستر برس گذر جائیں، اس لیے کہ پیغمبر خدا ﷺ نے اپنا عقیقہ پچاس برس کی عمر میں کیا تھا۔ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا عقیقہ نبوت کے بعد کیا ۔ (فتاویٰ خانیہ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
کلُّ غُلامٍ مُرْتَھِنٌ بِعقیقَتِہِ تُذبحُ عنہُ یومَ سابِعِہِ، و یُحَلَّقُ وَ یُسمَّیٰ (أبو داؤد، نسائی، ابن ماجۃ، ترمذی)
ہر لڑکا اپنے عقیقے کے ساتھ گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں روز ذبح کیا جائے اور سر منڈوا دیا جائے اور نام رکھا جائے۔
مطلب یہ ہے کہ جب تک لڑکے کا عقیقہ نہیں ہولیتا، اس وقت تک والدین لڑکے سے پورا فائدہ نہیں اٹھاسکتے، جس طرح گروی رکھی ہوئی چیز سے مالک فائدہ نہیں اٹھاسکتا ہے، جب تک کہ اس کو چھڑا نہ لے۔
جامع المتفرقات میں لکھا ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ جو کوئی لڑکے کا عقیقہ نہ کرے، تو وہ اس لڑکے کی شفاعت سے محروم رہے گا۔ 
اور بعضوں نے لکھاہے کہ اگر قدرت ہوتے ہوئے عقیقہ نہ کرے، تو شفاعت سے محروم رہے گا، لہذا ہر ذی حیثیت انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے لڑکے کا عقیقہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
مَعَ الْغُلامِ عَقِیْقَۃٌ فَاَھْرِیْقُوْا عَنْہُ دَمَاً وَ اَمِیْطُوا عَنْہُ الاذی۔
لڑکے کی طرف سے عقیقہ ہے،پس اس کی طرف سے خون بہاؤ۔ اور اس سے تکلیف کی چیز دور کرو، یعنی سر منڈواؤ۔(بخاری)
یہاں امر استحباب کے لیے ہے، یعنی مستحب ہے کہ عقیقہ کرے اور سر منڈوائے، اس لیے کہ مؤطا امام مالک میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ 
مَنْ وُلِدَ وَلَدٌ فَاَحَبَّ أنْ یَّنْسَکَ عَنْ وَلَدِہِ، فَلْیَفْعَلْ۔ 
جس کو اولاد ہو اور وہ اپنی اولاد کی طرف سے عقیقہ کرنا پسند کرتا ہو، تو وہ عقیقہ کرے ۔ 
معلوم ہوا کہ عقیقہ کرنا ضروری نہیں ؛ بلکہ ایک پسندیدہ فعل ہے۔
عقیقہ کا جانور
اگر لڑکا ہوتو بہتر ہے کہ دو بکری ذبح کرے اور لڑکی ہوتو ایک۔ نر،مادہ بھیڑ، دنبہ ؛ سب ہی درست ہے۔ ام کُرز رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : 
عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ وَ عَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ وَلایَضُرُّکُم ذَکْرَاناً کُنَّ أوْ ا8نَاثَاً۔ (نسائی)
لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے اور تم کو نقصان نہیں کرتا کہ وہ نر ہو یا مادہ ۔
شاۃ کا اطلاق بکری، بھیڑ، دنبہ ؛ سب ہی پر ہوتا ہے ، جس سے واضح ہوگیا کہ عقیقہ نہ صرف بکری سے ؛ بلکہ بھیڑ، دنبہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ اور ذَکْراناً کُنَّ أو ا8ناثا کی قید سے معلوم ہوا کہ نر ، مادہ کی بھی تخصیص نہیں ہے۔ ہر دو نوع جائز ہے؛ مگر سال بھر کا ہونا چاہیے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ 
أنْ یَّعُقَّ عَنِ الغُلامِ شَاتَانِ مُکَافِیَتَانِ، وَ عَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ۔ (رواہ الترمذی و صححہ)
لڑکے کی طرف سے دو بکریاں پورے سال بھر کی ذبح کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک۔ 
شرح المقدمہ میں لکھا ہے کہ گائے اور اونٹ بھی عقیقہ میں درست ہے اور اس کا ساتواں حصہ ایک بکری کے برابر ہے، بشرطیکہ سب حصہ داروں کی نیت عقیقہ یا قربانی کرنے کی ہو۔
لڑکے کے عقیقہ میں اگر دو بکریاں میسر نہ ہوں، تو ایک بھی درست ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ 
أنَّ النَّبِیَّ ﷺ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشَاً کَبْشَاً۔ (ابو داؤد، و صححہ ابن خزیمہ وابن الجار و عبدالحق)
نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ایک ایک مینڈھے سے کیا ۔ 
عقیقہ کا گوشتمستحب ہے کہ سر حجام کو دے۔ اور ایک پوری ران دائی کو دے، جس نے بچہ جنایا ہے ۔ اور باقی گوشت کے تین حصے کرے، تو ل کر یا اندازہ سے۔ اور پھر ایک حصہ محتاجوں اور مسکینوں کو دے۔ اور دو حصے جو باقی رہیں، ان کو پکا کر رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو کھلائے یا کچا گوشت بانٹ دے ۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ کل گوشت اپنے کام میں لائے ، اس لیے کہ قربانی اور عقیقہ کا ایک حکم ہے۔ 
شرح المقدمہ میں لکھا ہے کہ عقیقہ کا حکم قربانی کی طرح ہے ۔ جو شرطیں قربانی میں ہیں، وہ سب شرطیں عقیقہ میں بھی ہیں۔ اور جیسا کہ قربانی کا گوشت خود کھانا اور دوسروں کو کھلانا اور صدقہ کرنا اور رکھنا درست ہے ، اسی طرح عقیقہ کا بھی درست ہے۔ 
اور فتاویٰ خانیہ میں لکھا ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے چار حصے کرے : ایک حصہ فقیروں کو صدقہ کرے اور تین حصے اپنے رشتے داروں کو کھلائے اور اگر کسی کو نہ کھلائے ؛ بلکہ سب آپ ہی کھائیں، یہ بھی جائز ہے۔ 
اور فتاویٰ رحمانی میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے کسی کو جواب میں فرمایا کہ عقیقہ قربانی کی طرح ہے : خود کھاؤ اور دوسروں کو کھلاؤ۔ 
جب عقیقہ قربانی کی طرح ٹھہرا، تو عقیقہ کا گوشت لڑکے کے ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی؛ سب کو کھانا درست ہوا۔ اگرچہ مشہور اس کے خلاف ہے؛ مگر جس مشہور کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو، تو اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ (رفاہ المسلمین)
اور مستحب ہے کہ عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں۔ اور اگر ٹوٹ جائے تو کوئی قباحت نہیں، اس لیے کہ قربانی کی ہڈیاں توڑنا درست ہے ۔ اور ان ہڈیوں کو کپڑے میں لپیٹ کر ایسی جگہ دفن کردینا ، جہاں لوگوں کا گذر نہ ہو، بہتر ہے۔ نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں؛ لیکن اس کے پایوں کا دفن کرنا درست نہیں، کیوں کہ یہ مال ہے اور مال کا ضائع کرنا درست نہیں۔
چرم عقیقہ
چمڑے کو اپنے کام میں لانا درست ہے اور چمڑہ بیچ کر اس کی قیمت کا صدقہ کرنا مستحب ہے۔ اگر کوئی اپنے مصرف میں لائے، وہ بھی جائز ہے ۔ چنانچہ تھانوی صاحبؒ فرماتے ہیں :
’’ چوں کہ شرائط واجبہ فی الاضحیۃ عقیقہ میں مستحب ہیں، اس لیے تصدق بالقیمۃ بھی مستحب ہوگا۔ اور انتفاع بالجلد کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔
(امداد الفتاویٰ جلد دوم)

ذبح کرنالڑکے کا باپ اگر خود ذبح کرنا جانتا ہو، تو بہتر یہ ہے کہ وہ خود ذبح کرے ، ورنہ اس کا چچا یا اس کا نائب ذبح کرے ۔ اور اگر یہ نہ ہو تو جو چاہے ذبح کرے۔
سرمنڈوانا
ذبح کے بعد یا ذبح سے قبل لڑکے کا سرمنڈوائے ۔ چھری اور استرا کا ایک ساتھ چلنا ضروری نہیں ،ہر طرح جائز ہے۔ اور اس کے بال کو سونا یا چاندی سے وزن کرکے صدقہ کرے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسنؓ کا ایک بکری سے عقیقہ کیا اور فرمایا : ائے فاطمہ! اس کا سر مونڈ، اور اس کے بال کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کر، پس اس کا وزن ایک درہم یا بعض درہم نکلا۔ (ترمذی)یعنی ایک درہم سے کچھ کم۔
اور لڑکے کے سر پر زعفران یا صندل یا کوئی اور خوشبو دار چیز ملے۔ عقیقہ کے جانور کا خون سر پر ملنا درست نہیں۔ یہ جہالت کی رسم تھی، جس کو شریعت محمدی نے اٹھا دی۔ چنانچہ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایام جاہلیت میں ہم لوگوں میں سے جب کسی کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا تو ایک بکری ذبح کرتے اور اس کا خون لڑکے کے سر میں لگاتے ۔ پھر جب اسلام آیا، تو ہم ساتویں دن بکری ذبح کرتے ہیں اور اس کا سر منڈتے ہیں۔ اور اس کے سر میں زعفران لگاتے ہیں۔ (ابو داود)
اور( رزین میں) اتنا اور زیادہ ہے کہ اور اسی دن اس کا نام رکھتے ہیں۔
عقیقہ کی دعا
یہ دعا پڑھنا مستحب ہے ۔ اگر یاد نہ ہوتو صرف: 
بِسْمِ اللّٰہِ وَ الْلّٰہُ أکْبَرُ 
کہہ کر ذبح کرے ، عقیقہ ہوجائے گا۔ دعا یہ ہے :
ألْلّٰھُمَّ ھٰذِہَ عَقِیْقَۃُ ابْنِ فُلانٍ، دَمُھَا بِدَمِہِ، وَ لَحْمُھَا بِلَحْمِہِ وَ عَظْمُھَا بِعَظْمِہ، وَ جِلْدُھا بِجِلْدِہِ، وَ شَعْرُھَا بِشَعْرِہِ۔ ألْلّٰھُمَّ تَقَبَّلْھَا مِنِّی وَ اجْعَلْھَا فِدآءً لِاِبْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ 
اور عجالہ الدقیقہ فی مسائل العقیقہ میں لکھا ہے کہ اس دعا کے بعد یہ بھی پڑھے:
إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفَاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکینَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِی وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَٰلکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمینَ أللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ۔ 
پھر بِسْمِ الْلّٰہِ وَ الْلّٰہُ أکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے۔
اگر باپ ذبح کرے، تو یہ دعا بعینہ پڑھے ۔ صرف فلاں کی جگہ پر بیٹے کا نام لے ۔ اور اگر کوئی دوسرا ذبح کرے تو ابن فلان کی جگہ پر لڑکے اور لڑکے کے باپ کا نام لے ۔ مثلا اگر لڑکے کا نام عبد اللہ ہے اور باپ کا نام عبد الرحمان ہو تو یوں کہے :
ألْلّٰھُمَّ ھٰذِہَ عَقِیْقَۃُ عَبْدِ الْلّٰہِ بْنِ عَبدِ الرَّحْمٰن 
اور منی کی جگہ پر منہ اور لابنی کی جگہ پر لابنہ کہے۔ اور اگر لڑکی کا عقیقہ ہو اور اس کا باپ ذبح کرے تو یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ ھٰذِہَ عَقِیْقَۃُ بِنْتِیْ فُلانَۃٍ، دَمُھَا بِدَمِہا، وَ لَحْمُھَا بِلَحْمِہَا وَ عَظْمُھَا بِعَظْمِہَا، وَ جِلْدُھَا بِجِلْدِہَا، وَ شَعْرُھَا بِشَعْرِھا۔ أللّٰھُمَّ تَقَبَّلْھَا مِنِّی وَ اجْعَلْھَا فِدآءً لِبِنْتی مِنَ النَّارِ۔ 
اور فلانۃ کی جگہ پر لڑکی کا نام لے۔اور اگر کوئی دوسرا آدمی ذبح کرے، تو بنتی کی جگہ پر بنت کے ساتھ باپ کا نام لے۔ اور فلانۃ کی جگہ پر لڑکی کا نام لے اور منی کی جگہ پر من کے بعد لڑکی کے باپ کا نام لے اور لبنتی کی جگہ پر لبنت فلاں یعنی باپ کا نام لے۔
ذبح کرتے وقت دعا نہ پڑھے؛ بلکہ پہلے پڑھے، ورنہ ذبیحہ مکروہ ہوگا۔ ذبح کے وقت صرف بِسْمِ الْلّٰہِ وَ الْلّٰہُ أکْبَرُ کہے۔
عقیقہ میں جانور کے ذبح کی مناسبت سے یہاں قربانی کے مسائل بھی لکھے جارہے ہیں۔
قسط نمبر (3) کے لیے کلک کریں

قسط نمبر (1) تقریظ، دعائیہ کلمات مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے حال احوال

قسط نمبر (1) رہ نمائے مسلم 

(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے  موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

تقریظ 
حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی صاحب نور اللہ مرقدہ
استاذ دارالعلوم دیوبند
بسم اللہ الرحمان الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علیٰ آلہ و صحبہ اجمعین
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات کی رہنمائی اسلام میں موجود ہے ۔ موجودہ دور میں جب بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے ، لیکن یہ ذمہ داری والدین پر ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد سے لے کر سن شعور تک پہنچنے کی حد تک اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی تربیت کا فریضہ انجام دیں۔
ابتدائے زندگی میں والدین کی کیا ذمہ داریاں ہیں، اور وہ کن کن مراحل سے گذر کر حد بلوغ تک پہنچتا ہے اور کس کس مرحلہ میں اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے ، کتاب و سنت اور فقہ میں ساری تفصیلات پائی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب مرحوم کو کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’رہنمائے مسلم‘‘ میں یہ ساری چیزیں حوالہ جات کے ساتھ مرتب فرمادی ہیں۔
یہ کتاب مولانا مرحوم کی زندگی میں طبع نہیں ہوسکی، اب ان کے لائق اور ہونہار شاگرد مولانا عبدالجبار صاحب فاضل دیوبند اپنی نگرانی میں اس کی کتابت و طباعت کا انتظام فرما رہے ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ یہ کتاب شائع ہوکر بچوں کے والدین کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگی۔ اگر تمام بچوں کے ماں باپ نے اس کتاب کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کی ، تو ان شاء اللہ ان کا بچہ کامیاب زندگی کا مالک بن جائے گا۔
چوں کہ اس کتاب کا تعلق بچوں کی تربیت سے ہے ، اس لیے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور دوسروں تک اس کو پہنچانے کی سعی کریں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی یہ خدمت قبول فرمائیں اور ان کے لیے زاد آخرت ثابت ہو۔
طالب دعا
(مفتی) محمد ظفیر الدین غفرلہ (نور اللہ مرقدہ)
مفتی دارالعلوم دیوبند
۱۰؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۶ھ ؁ 
دعائیہ کلمات
حضرت مولانا قاری و کاتب عبدالجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ
صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند
حامی سنت، ماحی بدعت، حضرت الاستاذ،استاذالاساتذہ، عم محترم حضرت مولانامحمد منیرالدین قدس سرہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ گوناگوں خصوصیات اور علمی وعملی صفات کے حامل ایک پاک نفس عالم ومعلم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی صفات حمیدہ سے نوازاتھا،جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہو تی ہے۔ وہ معلم بھی تھے اور مربی بھی تھے۔ آپ کی پوری زندگی سنت کی اشاعت اور بدعات کی روک تھام میں گزری۔ ہمیشہ اسی کوشش میں گھلتے رہتے کہ کس طرح انسان کا تعلق خالق سے مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے۔ حضرت والا ہمہ وقت زبان وبیان اور قلم سے لوگوں کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے ۔ انھیں کوششوں میں یہ کتاب’’ رہنمائے مسلم‘‘ بھی ہے، جس میں پیدائش سے لے کر بلوغ تک اور مرض و بڑھاپے سے لے کر موت تک، کن کن اوقات اور حالات میں ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہیے، حضرت والانے وسائل کی قلت کے باوجود بڑی عرق ریزی سے کتاب کی ترتیب دے کر رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ کتاب سالہا میرے پاس رہی اور میں اس کوشش میں رہا کہ کسی طرح حضرت والا کی یہ امانت آپ تک پہونچ سکے؛ مگر وسائل کی قلت مانع رہی ۔اللہ جزائے خیر عطا فرمائیں مولانا محمد یاسین قاسمی اور مفتی نظام الدین صاحبان کو کہ ان کی کوششوں سے یہ کتاب منظر عام پر آئی۔ اللہ کرے یہ کتاب مقبول عام ہو اور حضرت والا کی روح کو سکون ابدی میسر ہواور ہم سب کے لیے مشعل راہ ہو۔
حضرت نے کئی کتاب تالیف فرمائی اور اکثر ضائع ہو گئی اور بعض موجود بھی ہے؛ مگر اب تک منظر عام پر نہیں آ سکی۔ اگر آپ نے حوصلہ افزائی کی تو دیگرتالیفات کو بھی آپ کے ہاتھوں میں لانے کی کوشش کی جائے گی ، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(حضرت مولانا قاری و کاتب ) عبدالجبار قاسمی (صاحب) 
صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند
۲۴؍ اپریل ۲۰۱۸، مطابق ۷؍ شعبان ۱۴۳۹ھ
تصنیف اور صاحب تصنیف
مولانا اظہر الحق صاحب جہازی
استاذ مدرسہ رحمانیہ روڑکی اتراکھنڈ
حامدا و مصلیا و مسلما امابعد
از آدم تا ایں دم، اربوں کھربوں اور خدا معلوم کتنے انسان اس دنیائے ناپید میں آکر یہاں سے جاچکے ہیں۔ اور صبح قیامت تک آمدو رفت کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ لیکن ان مسافروں میں کچھ مخصوص ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اپنے ملی کارنامے اور علمی خدمات ، ذہنی تعمیرات اور مردم ساز قابلیتوں ، تخلیقی صلاحتیوں اور اعلیٰ سیرتوں و کردار کی بدولت اپنی راہ نوردی کے کچھ ایسے انمٹ نقوشِ قدم اور آثار سفر چھوڑ جاتی ہیں، جو زمانے کی دست و برد کے باوجود محفوظ رہتی ہیں ۔ ؂
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
ایسی ہی ایک درویشی خدا پرست، بے نفس، نابغۂ روزگاراور عبقری شخصیت حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی گذری ہے ۔
وطن عزیز کی آزادی سے کوئی ایک دہائی قبل مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑہ ضلع میرٹھ سے تدریسی زندگی کا آغاز ہوا، یہاں آپ سے حدیث و فقہ اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں متعلق رہیں۔غالباً ۱۹۴۸ ؁ء میں وہاں سے مستعفی ہوکر وطن عزیز کا قصد کیا اور اپنے گاؤں جہاز قطعہ میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے نام سے ایک دینی درس گاہ کی داغ بیل ڈالی۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اجراڑہ میں ملازمت ، اور پھر ملازمت سے مستعفی ہوکر خدمت دین کے لیے اپنے علاقہ کو اختیار کرنا بلا مشورہ استاذ و مربی خاص حضرت مولانا اعزاز رحمۃ اللہ علیہ شیخ الادب والفقہ دارالعلوم دیوبند محض حادثاتی و اتفاقی طور پر نہیں ہوا ہوگا؛ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وقفہ وقفہ سے ان بندوں کو جو غفلت کی نیند میں دیر سے سو رہے ہوں، ان کے کانوں میں اذان حق دے کر بیدا ر کرنے کے لیے اور اس امت اور ملت کے بکھرے ہوئے بال و پر کی شیرازہ بندی اور بگڑے ہوئے نظام مے خانہ کو بدلنے کے لیے جن مردان خدا آگاہ اور رندوں کا انتخاب کرتا ہے، ان میں سے ایک حضرت مولانا بھی ہوں۔ اس لیے کہ جو خطہ اور علاقہ علم و فن میں شورہ اور بنجر زمین کی طرح پڑا ہواتھا، اس جگر سوختہ مرد حق کی انتھک کدو کاوش اور جہد مسلسل کے نتیجہ میں ایک لہلہاتا ہوا شاداب چمن بن گیا ۔ اور اس چمن میں نہ جانے کتنے لالہ و گل اگے۔ میری اس تحریر کے حق میں وہ لوگ شہادت دیں گے، جنھوں نے ماضی کی جہالت دیکھی ہے ، یا علم اور تاریخ کی راہ سے یہ جانا ہے کہ ۱۸۵۷ ؁ء کے انگریزوں نے خاص طور سے مسلمانوں کو اپنا حریف سمجھ کر ہدف بنایا اور ہر میدان میں مات دینے کی ٹھان لی۔ چنانچہ علمی، تمدنی، اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کو ثریا سے پاتال میں پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ فطری طور پر یہ علاقہ بھی استعماری قوت کی پامالی سے محفوظ نہیں رہ سکا، جب کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی جاں بلب تھا۔
مولانا مرحوم نے جس پر آشوب دور اور جہالت و نا خواندگی کے تاریک زمانہ اور مایوس حوصلہ شکن عہد میں ہوا کے رخ پر علم کا چراغ روشن کرنے کی کوشش شروع کی ہے، کون کہہ سکتا تھا کہ اتنی جلدی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ لیکن واقعاتی دنیا میں ایسا ہی ہوا ، حالاں کہ جہاز قطعہ کوئی بہت شہرت یافتہ مقام نہیں تھا اور نہ ہی رقبہ و عمارت کے لحاظ سے مدرسہ اسلامیہ ہی اتنا بڑا تھا ؛ لیکن خاص افضال خداوندی سے دیکھتے ہی دیکھتے دور و نزدیک سے جوق در جوق طالبان دین اور جویان حق آتے رہے اور حضرت والا طلبہ کی کھیپ در کھیپ تیار کرکے بڑے بڑے مدارس؛ خصوصا دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم روانہ فرماتے رہے ۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم فاضل نظر آنے لگے۔ اسی طرح چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ جہالت اور ناخواندگی کی تاریکی چھٹتی رہی اور علم کی روشنی پھیلتی رہی۔ اور آج ہر قابل ذکر علوم و فنون کے لوگ اس علاقہ میں صرف موجود ہی نہیں؛ بلکہ ملک کے تقریبا ہر حصہ اور دنیا کے بہت سے گوشوں میں علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یقیناًاسی تعلیمی بیداری اور پاکیزہ انقلاب میں حضرت مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا حصہ و دخل ہے، جس کا انھیں اجر وصلہ مل رہا ہوگا۔ حضرت والا جید عالم ، سادہ مزاج، ولی صفت ، خدا ترس اور قوم وملت کے لیے شب و روز بے انتہا مخلصانہ اور صبرو عظیمت کے ساتھ محنت کرنے والے انسان تھے۔
قسام ازل کی طرف سے حضرت مولانا مرحوم کو تعلیمی ، تدریسی اور تدریبی مہارت وملکہ کے ساتھ ذوق تحریر وتالیف بھی عطا ہوا تھا ۔ خیا ل کیا جاتا ہے کہ مولانا نے اپنے پیچھے اچھا خاصا تحریری سرمایہ چھوڑا تھا، لیکن وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ منجملہ تصانیف اور ترکہ علمی میں سے ’’رہنمائے مسلم‘‘ کتاب ہے۔کتاب کے تعارف کے حوالے سے صرف اتنی سی بات عرض ہے کہ کتاب اسم با مسمیٰ ہے۔ ایک مسلمان کو پیدائش سے لے کر موت تک کس طرح زندگی گذارنی چاہیے ، یا یوں کہیے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اپنے نام لیواؤں کے لیے، اس خاکدان ارضی پر چلنے کے لیے جو شاہراہ قائم فرمائی ہے، اسی کی بزبان اردو تعبیر وتشریح اور ترجمانی ہے۔ 
حضرت الاستاذ کس قدر کثیر المطالعہ اور وسیع العلم عالم تھے، اس کتاب کے حوالجات کو دیکھنے ہی سے پتہ چلتا ہے۔ اور ایسے دور افتادہ علاقہ میں جہاں نہ بجلی کی سہولت تھی ، نہ دوسری آسانیاں، دن میں سورج اور رات میں لالٹین اور دیا کے سوا کوئی تیسری روشنی نہیں ہوتی ۔ 
الغرض مولانا مرحوم بہت سی صلاحیتوں اور قابلیتوں ، کمالات اور خوبیوں کے مالک تھے ۔ جن کی گواہی نسلاً بعد نسلٍ لوگ دیتے رہیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے پیچھے اپنے اوصاف وکمالات اور علوم وفنون کے ہزاروں بلا واسطہ اور بالواسطہ شاگرد اور علمی وارثین چھوڑے ہیں۔ خدا بھلا کرے مولانا مرحوم کے برادرزادہ جناب مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی کا ، جنھوں نے سالہا سال تک اپنے نامور مورث کے قیمتی ورثہ کی حفاظت کی ۔ اور یہ خاص فضل ربی ہوا کہ مولانا کی یہ قیمتی تصنیف قاری صاحب موصوف کے قدر داں ہاتھوں میں آگئی، ورنہ دیگر تصانیف کی طرح یہ بھی خرد برد ہوکر ضائع ہوجاتی ؛ بلکہ اس کتاب کے مسودوں کے بھی کچھ اجزا ضائع ہوگئے تھے، جس کو قاری صاحب نے اپنی زر بفت تحریر کے ذریعے انتہائی سلیقہ کے ساتھ مخمل میں ایسی پیوند کاری کی ہے کہ پڑھنے والے کو اس پیوند کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ 
اللہ کرے کہ یہ کتاب جلد از جلد طبع ہوکر عوام و خواص کے ہاتھوں میں پہنچے اور قبول عام حاصل کرے اور مؤلف مرحوم کی روح جنت میں مزید مسرور ہو۔ 
(مولانا ) اظہر الحق (صاحب ) جہازی
استاذ مدرسہ عربیہ رحمانیہ روڑکی 

مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہازقطعہ
ماضی سے حال تک
محمد مفتی نظام الدین صاحب قاسمی
مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ
سورج کی تپش، چاند کی میٹھی روشنی اور جگمگاتے ستاروں کی طرح یہ بات ہرکس و ناکس پر عیاں ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا راز اور خوش حالی کا دارومدار وہاں کے تعلیمی معیار پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس ملک اور قوم میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے ، وہ ہمیشہ زندگی میں لوگوں اور ان کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں ، گویا کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کا بنیادی سبب تعلیم ہے، لہذا کسی بھی قوم یا معاشرے کا تعلیم یافتہ ہونا ان کی ترقی کا ضامن ہے ۔ چوں کہ علم ہی کی وجہ سے انسان جہاں دیگر حیوانی مخلوقات سے ممتاز ہوتا ہے ، وہیں ناخواندہ لوگوں اور قوموں سے مرتبہ عظیمی کا پروانہ لیے رہتا ہے ، اور اسی علم کی وجہ سے انسان کی زندگی میں خدا پرستی، عبادت، محبت، خلوص، ایثار، خدمت خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات سے سرشار ہوتا ہے۔
چنانچہ مذہب اسلام میں بھی حصول علم کو بہترین علم قرار دیتے ہوئے ، معاشرتی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالنے اور عملی جامہ پہنانے کے لیے بقدر ضرورت تحصیل علم کو ضروری اور لازمی قرار دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ منشاء رب نے ضعیف الخلقت مخلوق انسانی میں اشرف کے دوش ناتواں پر منصب نبوی کے بار گراں کو رکھنے سے قبل غار حرا کی شکل میں دور محمدی اور تکمیل اسلامیہ کا پہلا مکتب اور پہلی یونی ورسیٹی بناکر تعلیم کی ضرورت و اہمیت کو نامٹنے والے نقوش کی طرح تا قیام قیامت قرآن و حدیث کے الفاظ میں ثابت فرمادیا ہے۔اور آقا ﷺ نے بھی بلغوا عنی ولو آیۃ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے آغاز اقراء کو الیوم اکملت لکم دینکم پر انتہا کرنے، بذریعہ وحی حاصل کردہ نور ربی سے سینہ صحابی کو منور کرنے اور وارثین انبیاء کی جماعت کو تیار کرنے کے لیے مسجد نبوی میں چبوترہ ’’اصحاب صفہ‘‘ کا سہارا لیا، تاکہ وحی متلو اور غیر متلو کی ضیا پاش کرنیں دار فانی کی جہالت و گمراہی اور بت پرستی کی تاریکیوں کو ختم کرکے دنیا گیتی کو مینارہ نور بناسکے۔ چنانچہ اسی طرز عمل کو اپناتے ہوئے جگہ جگہ پر مساجد میں مکاتب کا انتظام کیا گیا اور صدیوں تک نور الٰہی کو عام کرنے کا یہی سلسلہ اسی طرزعمل پر چلتا رہا اور مساجد ہی تعلیمی آماجگاہیں بن گئیں۔
لیکن جب مرور ایام کے ساتھ امتداد زمانہ ہوا، لیل و نہار کی گردشوں نے کروٹیں لیں، حصول علم کے طریقۂ کار بدلنے لگے، طریقہ تعلیم کا دامن وسیع ہونے لگا، بحث و مناظرہ کی صدائے بازگشت گونجنے لگی، تو ان وجوہات کی بنا پر مدارس نے مساجد سے نکل کر اپنی شناخت بنالی، اور تاریخ اسلام میں موجودہ عمارتی ڈھانچہ ، اساتذہ اور طلبہ پر خاص تعلیمی نظام کے تحت سب سے پہلے اہل نیشاپور نے وجودی شکل دیتے ہوئے ، وہاں کے مؤقر علمائے کرام کے ہاتھوں مدرسہ بیہقیہ کے نام سے پانچویں صدی ہجری اور گیارھویں عیسوی کی ابتدا میں مدرسہ کی بنیاد رکھوائی اور افادیت کے پیش نظر مدارس اسلامیہ تین قسموں پر مشتمل ہوگئے: پہلا بادشاہوں اور امراء کا ۔ دوسرا: مخیر علمائے کرام کا اور تیسرا عوام کے تعاون سے چلنے والا مدرسہ ۔ آج یہ مدارس اسلامیہ ہدایت کے سرچشمے اور دین کی پناہ گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ جہاں اشاعت دین کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، وہیں یہ دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز بھی ہے کہ جہاں لاکھوں طلبہ اور طالبات کو بلا معاوضہ تعلیمی ، تہذیبی اور اخلاقی زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش، خوراک اور مفت طبی سہولیات فراہم کرنے میں ہمہ وقت مصروف عمل ہے ۔ چنانچہ موجودہ طریقۂ کار اور رہائشی نظم و انتظام کے ساتھ جن مدارس اسلامیہ کا آغاز آج سے ایک ہزار سال قبل سرزمین نیشاپور سے ہوا تھا ، وہ مختلف ملکوں، صوبوں اور علاقوں میں اپنی زریں زنجیری کڑی کو پھیلاتے ہوئے آسمان کی بلندی کو چھوتا جارہا تھا کہ اسی دوران آج سے سات دہائی قبل تعلیم سے کوسوں دور ہندستانی نقشہ کے مطابق مشرقی بھارت کے اس خطہ پر پڑی،جو اس وقت ۷۹؍ ہزار ۷۱۴ مربع کلو میٹر اور ۳۰ ہزار ۷۷۸ مربع میل پر پھیلی ریاست صوبہ جھارکھنڈ کے نام سے معروف و مشہور ہے۔ صوبہ جھارکھنڈ کے ضلعوں میں سے ایک ضلع شمال مشرق میں ضلع گڈا ہے ، جس کی کل آبادی ۳۱۳۵۵ اور مسلم آبادی ۵۲،۲۳؍ فی صد ہے اور اس سے ۲۱؍ کلو میٹر کے فاصلہ پر بسنت رائے بلاک میں ایک گاوں ’’جہاز قطعہ ‘‘ ہے، جہاں کی نئی نسلوں کے قلب و جگر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی تھی کہ گاوں میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جائے، جس کے لیے انھیں علاقے کی ناگفتہ بہ حالات، جہالت و تاریکی ، رسم و رواج میں غرق، بدعات و خرافات ، نامساعد حالات اور وسائل سے کٹے ہوئے بنجر علاقے کے لیے فرشتہ صفت انسان اور صلاحیت و صالحیت سے لبریز کسی فرد کامل کی ضرورت تھی۔
چنانچہ سب کی نگاہیں مذکورہ صفات کے حامل یکتائے زمانہ، نابغہ روزگار شخصیت، مجددانہ صفات کے حامل حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی اور دعوتی مکتوب کے ذریعہ ہندستان کی مقدس سرزمین دیوبند سے جہاز قطعہ بلا لیے گئے اوریکم ربیع الاول۱۳۶۹ھ، مطابق ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ء بروز جمعرات مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۵۴ء کے حالات سے دلبرداشتہ ہوکر مستعفی ہوگئے؛ لیکن اہل جہازی کے اصرار پردوبارہ مدرسہ کا آغاز ہوااور اسی مناسبت سے رحمانیہ بڑھا کر مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کردیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے قلیل مدت میں قاسمی افکار و خیالات کے اس پیکر نے اپنی خداداد صلاحیت اور نور نبوی کی ایمانی بصیرت سے گراں مایہ خدمات کو انجام دیتے ہوئے ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۳ء تک ، ۲۴؍ سالہ زندگی میں متبحر علمائے کرام پر مشتمل اصحاب صفہ کی شکل میں ایک بہت بڑی ٹیم تیار کردی کہ جس سے پورا علاقہ پر نور ہوگیا اور لوگوں کو تاریکی، بدعات، خرافات، سماجی برائیوں اور بد عقیدگی سے نکالنے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ حضرت مسلسل اپنی کوشش میں رو بترقی تھے کہ اچانک ۱۹۷۳ء میں فالج کا اثر ہوا، جس کی وجہ سے ہفتہ دس دن کے لیے مدرسہ بالکل بند سا ہوگیا کہ اسی اثنا حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری بعد نماز عصر بغرض عیادت حضرت کی خدمت جلیلہ میں پہنچے، تو حضرت نے روتے ہوئے فرمایا کہ جب میری زندگی میں ہی مدرسہ پر پرخطر حالات آگئے، تناور درخت کی پتیاں مرجھانے لگی ہیں،تو بعد کے حالات کا تصور کرکے ہی روح کانپنے لگتی ہے ۔ اس درد اور فکر انگیز باتوں کو سن کر کبیدہ خاطر ہوئے ، ان کے دل پر یہ بات چھب سی گئی اور شاگرد ہونے کے ناطے استاذ محترم کی وراثت نسل نو کے مابین تقسیم کرنے کا عزم مصمم کیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بند نہیں ہونے دیں گے۔ چنانچہ ۱۹۷۴ء میں مدرس اول کے طور پر حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری کا تقرر ہوا، باضابطہ مدرسہ کو کھلے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ شان کریمی ابر رحمت بن کے برسی اور آں حضرت کی طبیعت بالکل سابقہ حالت پر لوٹ آئی۔ اور مدرسہ کی مکمل ذمہ داری خود ہی انجام دینے لگے، لیکن دوبارہ پہلی حالت پر لوٹ گئے، اس مرتبہ پہلے سے کہیں زیادہ حالت خراب ہوگئی، کبھی افاقہ ہوتا، لیکن اس قدر نہیں کہ زینت مسند بن سکیں، بادل ناخواستہ اس مرتبہ آپ کی نظر عنایت فارسی سے کافیہ تک آں حضرت کے پاس پڑھنے والے اور موجودہ وقت میں مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر کے شیخ ثالث کے عہدہ پر فائز حضرت مولانا غلام رسول صاحب اسناہاں پر پڑی اور اپنی حیات میں ہی ۱۹۷۵ء میں مدرسہ کی مکمل ذمہ داری ان کی طرف منتقل فرمادی، اس طرح سے یہ مدرسہ آں حضرت کی سرپرستی اور مولانا غلام رسول صاحب کی نیابت میں ڈگمگاتے قدموں کے سہارے آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک ماہ جون ۱۹۷۶ء میں شدید فالج کا اثر ہوا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے۔ ماہ جون ۱۹۷۶ء میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ جہاں اپنے حقیقی باغباں اور مجازی مربی کی سرپرستی و نگرانی سے محروم ہوگیا تھا ، وہیں اہل علاقہ اورجہازی ایک اچھے منتظم ، مفکر، مدبر اور مصنف کے سایہ عاطفت سے یتیم بھی ہوگئے، گویا کہ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۶ء تک ڈھائی دھائی پر مشتمل تقریبا ۲۶؍ بہاریں دیکھ کر پہلا عہد مکمل کرچکا ہے ، اور ۱۹۷۷ء سے اپنے دوسرے عہد کا آغاز کرتا ہے، ماہ نومبر ۱۹۷۶ء میں مولانا غلام رسول صاحب بھی ذاتی و وجوہات و اسباب کی بنیاد پر دست بردار ہوجاتے ہیں اور ۱۹۷۷ ء میں اہل بستی مکمل ذمہ داری حضرت قطب الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ حضرت قاری صاحب نے بھی بحسن و خوبی تقریبا تین سال تک خاموش طبیعت کے ساتھ مکمل ذمہ داری نبھائی اور تعلیمی معیار کو بھی گرنے نہیں دیا، تاہم وہ بھی ۱۹۷۹ ء میں مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ منتقل ہوگئے اور مدرسہ ایک مرتبہ پھر آگے بڑھنے کے بجائے زوال کی طرف جانے لگا، اہل بستی متفکر ہوگئے، ہنگامی طور پر اتفاقی میٹنگ بلائی گئی اور ۱۹۸۰ء میں حضرت مولانا شمس الحق صاحب کے کاندھے پر سکریٹری کی ذمہ داری دی گئی اور مولانا ہاشم صاحب کے سر تعلیمی اور تعمیری ذمہ داری سپرد کردی گئی۔ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک وہ اپنی بساط کے بقدر یکسوئی کے ساتھ محنت کرتے رہے اور تعلیمی معیار کو بھی ہر ممکن بچانے کی کوشش میں لگے رہے ، لیکن اخیر میں پیرانہ سالی اور ناسازیۂ طبع میں گرفتار ہونے کی وجہ سے گوشہ نشیں ہوگئے۔
اس وقت کے سکریٹری حاجی حضرت مولانا شمس الحق صاحبؒ نے دیگر لوگوں سے مشورہ کرکے حضرت مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری سے درخواست کی کہ مدرسہ خستہ حالی کا شکار ہے ، شجر منیری کو ایک مرتبہ پھر آب پاشی کی سخت ضرورت ہے ، لہذا آپ تشریف لاکر مکمل ذمہ داری قبول کریں ، چنانچہ ۱۹۸۹ء میں مہتمم کی حیثیت سے مسند اہتمام کو زینت بخشی، علاقائی طور پر تقریر کے ذریعے سے لوگوں کو جوڑنے اور انتظامی صلاحیت سے مدرسہ کو ترقی دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ، اسی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ۱۹۹۲ء میں دیوگھر کی جامع مسجد سے حضرت مولانا خورشید صاحب کو لاکر گلشن منیری کا ایک حصہ بنادیا، جوانی کا عالم تھا ، اپنی صلاحیت سے مقامی بچوں میں تہذیبی طور پر تعلیم دینے کی کوشش کی ، چوں کہ جس وقت یہ مدرسہ میں جلوہ نما ہوئے تھے، اس وقت جہاں تعمیری ڈھانچہ نہ کے درجہ میں تھا ، وہیں اقامتی بچے بالکل بھی نہیں تھے، صرف چند مقامی طلبہ و طالبات آکر چلے جانے پر اکتفا کیا کرتے تھے، لیکن مولانا خورشید صاحب نے اپنے تعمیری ذوق، تعلیمی صلاحیت اور انتظامی دلچسپی سے دو سال کی مدت میں جہاں عمارتی ڈھانچہ بنوانے میں کامیابی حاصل کی ، وہیں تعلیمی اعتبار سے بھی عارضی طور پر ہی سہی ، لیکن کافیہ تک کی تعلیم کرانے میں کامیاب ہوئے ۔ یہ تشریف فرما تو ۱۹۹۲ء میں ہوئے تھے ، لیکن باضابطہ صدر مدرس ۱۴؍ جنوری ۱۹۹۳ء میں بنے تھے، جس کے حالات کچھ اس طرح بنے تھے کہ مولانا محمد عرفان صاحب ان کو لانے کے بعد دہلی کے سفر پر نکل گئے، ۶؍ دسمبر۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت کا قضیہ پیش آیا، جس کی وجہ سے سفر سے واپسی کرنے میں تاخیر ہوگئی، لیکن ماہ جنوری ۱۹۹۳ء میں واپس ہوئے تو اس سے قبل ہی ۱۴؍ جنوری کو مولانا خورشید صاحب نے ایک ہنگامی میٹنگ بلالی تھی، جس میں اہل جہازی کے علاوہ قرب و جوار کی بستیوں کے لوگ بھی موجود تھے، جس میں قاری عبد الجبار صاحب صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند صدر مدرسہ، مولانا علیم الدین صاحب قاسمی نائب صدر ، جناب نصیرالدین صاحب سکریٹری ، جناب طاہر حسین صاحب مرحوم نائب سکریٹری ، جناب پردھان خورشید صاحب خزانچی اور مولانا خورشید صاحب کا نام صدر مدرس کے طور پر عمل میں آیا، گو کہ ۱۹۹۳ء میں مدرسہ اپنے تیسرے عہد کا آغاز کر رہا تھا، یہاں سے تیسری مرتبہ اپنی پٹری پر سوار ہوکر کامیابی کی طرف رواں دواں ہوتا ہے کہ اچانک ایک طوفان برپا ہوتا ہے ، جس کی رو میں مولانا خورشید صاحب بہہ کر خون کے آنسو روتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ دوسری میٹنگ ۲۲؍ ۱۹۹۷ء میں ہوئی ہے، جس میں قاری عبدالجبار صاحب صدر، حافظ شفیق صاحب نائب صدر، مولانا علیم الدین صاحب سکریٹری، مکھیا ظہیر صاحب مرحوم نائب سکریٹری اور ماسٹر مقبول صاحب کپیٹا خزانچی منتخب ہوئے ، لیکن غالبا مکھیا ظہیر صاحب کے انتقال کی وجہ سے ۲۶؍ اپریل ۱۹۹۸ء میں ایک عمومی میٹنگ ہوئی، جس میں ان کی جگہ پر مولانا اختر حسین صاحب قاسمی نائب سکریٹری بنائے گئے ۔ ۶؍ دسمبر ۲۰۰۴ء کی میٹنگ میں جزوی ترمیم کے ساتھ محمد نصیر الدین صاحب سکریٹری ، مولانا اختر حسین صاحب قاسمی نائب سکریٹری اور ماسٹر نسیم صاحب لوچنی خزانچی کے عہدے کے لیے منتخب ہوئے ۔۱۹۹۳ء سے ۲۰۰۹ء تک کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انتظامی شخصیات میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی، تاہم عزل و نصب اور دیگر انتظامی امور کو ضابطے کی روشنی میں عملی جامہ پہنانے کے لیے ، حضرت مولانا منیر الدین صاحب عثمانی سین پوراستاذ دارالعلوم دیوبند، قاری عبدالجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند اور مولانا اظہر الحق صاحب جہازی استاذ مدرسہ رحمانیہ روڑکی اتراکھنڈ نے مل کر دستوری نظام پر مشتمل ایک کتابچہ تیار کیا، جو ۱۷؍ مئی ۲۰۱۰ء کی عمومی میٹنگ میں پیش ہوا۔اس میٹنگ میں قاری عبدالجبار صاحب صدر ، ماسٹر عزیز اللہ صاحب نائب صدر، نصیر الدین صاحب سکریٹری، ڈاکٹر نسیم صاحب نائب سکریٹری اور ماسٹر نسیم صاحب خزانچی بنائے گئے۔ ناگہانی حالات کے پیش نظر نصیر الدین صاحب مستعفی ہوگئے اور اس ٹرم کی بقیہ مدت کی تکمیل کے لیے ۱۳؍ نومبر ۲۰۱۱ء میں ڈاکٹر نسیم صاحب کپیٹا سکریٹری اور مولانا اختر حسین صاحب نائب سکریٹری بنائے گئے ۔ دوسرے ٹرم کی میٹنگ میں تمام ذمہ داریاں علیٰ حالہ باقی رکھی گئیں، جو ۸؍ سمتبر ۲۰۱۷ء بروز جمعہ تک وہی کمیٹی باقی رہی۔ 
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی تاریخی ادوار پر تجزیاتی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تاریخ تین ادوار پر مشتمل ہیں: پہلا دور بانی مبانی حضرت مولانامحمد منیر الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جو ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۴ء تک کا ہے۔ حضرت علمی اعتبار سے بہت بھاری بھرکم شخصیت کے عامل تھے، علمی رتبہ اتنا بلند تھا کہ آپ کو مستقل زمین کی ضرورت نہیں تھی۔آپ جہاں کہیں اپنا جسمانی وزن رکھ دیتے، وہ جگہ خود مدرسہ کی شکل اختیار کرلیتی۔ یہی وجہ ہے کہ تعمیری ڈھانچہ نہ ہونے کے باوجود مشکوٰۃ تک کے طلبہ ہوتے تھے۔
آں حضرت روحانی اعتبارسے حضرت مدنی ؒ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے ، اس لیے دنیا و مافیھا سے بے رغبتی یقینی ہے، گویا کہ روحانیت اور علمیت کی وجہ سے چہرہ اس قدر با رعب تھا اور ذاتی طور پر اس قدر باوزن تھے کہ کوئی فرد واحد لڑکھڑاتی زبان بھی حرکت دینے سے قبل سوچتا تھا ، لہذا ان کی ۲۶؍ سالہ خدماتی زندگی میں کوئی حرف شکایت زباں پہ نہ لاسکا۔ دوسرا دور ۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۲ء تک کا ہے، اس میں یکے بعد دیگرے حضرت مولانا غلام رسول صاحب اسنہاں ، حضرت مولانا قاری قطب الدین صاحب، حضرت مولانا ہاشم صاحب اور حضرت مولانا محمد عرفان صاحب ہیں۔ مولانا ہاشم صاحب کے اخیر زمانہ میں جب تعلیمی اعتبار سے کمزوری آئی، تومولانا عرفان صاحب نے ذمہ داری قبول کی، لیکن ذاتی مصروفیت کی وجہ سے مولانا خورشید صاحب کو ذمہ دارکی حیثیت سے لائے تاکہ تعلیمی نظام بہتر ہوسکے۔ چنانچہ تیسرا دور ۱۹۹۳ء سے ۲۰۱۸ء تک کا ہے۔ یہ دور دو حصوں پر مشتمل ہے : پہلا حصہ مولانا خورشید صاحب کا ہے ، جو ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۵ء تک رہے۔ اس میں تعلیمی اور تعمیری دونوں اعتبار سے عارضی طور پر ہی سہی کچھ حد تک ترقی ملی۔ دوسرا حصہ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۶ء تک کا ہے، جس میں مولانا رئیس عالم صاحب قاسمی عارضی طور پر رہے ، جبکہ غیر استقلالی طریقے پر مولانا ابوالکلام قاسمی مدھورا، مولانا احسان کرما، مولانا صدیق صاحب قاسمی پکڑیا اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب رہے، تاہم ۱۰؍ نومبر ۲۰۰۶ء سے لے کر ۸؍ ستمبر ۲۰۱۷ ء تک مولانا رئیس عالم صاحب باضابطہ صدر مدرس رہے ۔ اگر ہم ۱۹۹۳ء سے ۲۰۱۸ء تک پر نگاہ ڈالتے ہیں ، تو معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ۲۵؍ یا ۲۱؍ سالہ زندگی میں صدر مدرسہ اور صدر مدرس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ، جب کہ سکریٹری اور خزانچی میں جزوی تبدیلی ہوتی رہی ہے ، تاہم تعلیمی اعتبار سے موجودہ وقت میں مدرسہ کافی انحطاط کا شکار ہے ، جہاں اقامتی طالب علم نہ کے درجے میں ہیں، وہیں مقامی بچوں کی تعداد بھی گاوں کے اعتبار سے کم ہے۔ 
ایسے میں جہاں اہل علاقہ متفکر ہیں، وہیں اراکین عاملہ کے ساتھ ساتھ اہل بستی بھی ضرورت محسوس کر رہے تھے کہ کسی ایسے عالم دین کا انتخاب عمل میں آئے جو ڈوبتی کشتی کو سہارا دے کر ساحل تک اور حضرت مولانا منیر الدین صاحب کے وراثتی یادگارکی حفاظت کرسکے۔ چنانچہ اتفاقی طور پر اندرونی حالات کی وجہ سے خزانچی ماسٹر نسیم صاحب لوچنی نے اپنا استعفیٰ سکریٹری ڈاکٹر نسیم صاحب کو پیش کردیا ، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نسیم صاحب نے بھی صدر مدرسہ قاری عبدالجبار صاحب کے پاس عذر کے ساتھ اپنا استعفیٰ پیش کیا، تاہم قاری صاحب نے اسی استعفیٰ نامہ کے پشت پر یہ لکھ کر واپس کردیا کہ آپ کو سکریٹری کمیٹی نے بنایا ہے ، لہذا استعفیٰ نامہ بھی اہل کمیٹی کے مابین ہی پیش کریں۔ 
چنانچہ ۸؍ ستمبر ۲۰۱۷ء بروز جمعہ بعد نماز مغرب ڈاکٹر نسیم صاحب کی دعوت پر مجلس عاملہ کی ایک اہم میٹنگ بلائی گئی، جس میں مجلس عاملہ کی ۲۶؍ اراکین میں سے قاری عبدالجبار صاحب، مولانا محمد یونس صاحب، نصیرالدین مکھیا صاحب، پردھان خورشید صاحب، جناب سلیم الدین صاحب، جناب مبارک صاحب، جناب حافظ شفیق صاحب، جناب ماسٹر ظفر الدین صاحب، جناب ماسٹر صدیق صاحب، جناب رئیس اعظم صاحب، جناب ڈاکٹر علیم الدین صاحب، جناب عبدالقیوم صاحب، جناب الحاج طاہر حسن صاحب، جناب ڈاکٹر نسیم صاحب، نمائندہ مدرسہ ہذا کے علاوہ خصوصی طور پر مولانا محمد یاسین قاسمی، مفتی زاہد امان قاسمی، مولانا سرفراز قاسمی، مولانا طلحہ قاسمی، مولانا عبداللہ قاسمی، مفتی نظام الدین قاسمی اور حاجی شمس الحق صاحب وغیرہ شریک مجلس تھے۔ اس میں اتفاق رائے سے سکریٹری ڈاکٹر نسیم صاحب کا استعفیٰ نامہ قبول ہوا ، جب کہ ماسٹر نسیم صاحب کے استعفیٰ نامہ کو نامنظور کرتے ہوئے خزانچی کے عہدے پر باقی رکھا گیا ۔ میٹنگ میں نئے سکریٹری کو منتخب کرنے کی بات چل ہی رہی تھی کہ سکریٹری نظام کو بدل کر اہتمام کے طرز عمل پر چلانے کی بات آئی ، جس پر صدر مدرسہ نے احقر کا نام پیش کیا، جس پر اہل کمیٹی نے اپنی اپنی رائے دے کر صدر مدرسہ کی رائے کواجتماعی طور پر قبول کیا۔ احقر فی الحال سلسلہ تھانوی سے منسلک معروف و مشہور ادارہ جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد ضلع شاملی یوپی میں گذشتہ ۹؍ سال سے استاذ الفقہ و التفسیر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا ، بااختیار اور آزاد ہوکر کام کرنے کی شرط کے ساتھ شعبان میں آکر مکمل ذمہ داری قبول کرنے کی بات کہی، چنانچہ اراکین نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ روایت کے مطابق عارضی طور پر جب تک کام کریں، چنانچہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عارضی طور پر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دی گئی، جس کے ممبران مولانا محمد یاسین قاسمی، مولانا سرفراز قاسمی، مولانا طلحہ قاسمی اور احقر کے علاوہ ماسٹر نسیم صاحب قرار دیے گئے ۔ اب جب کہ شعبان آچکا ہے ، تو ان شاء اللہ عنقریب ہی اپنی تحویل میں لے کر با ضابطہ کام شروع کردیا جائے گااور اہتمام کے طرز عمل پر شوریٰ بھی تشکیل دے دی جائے گی۔ 
جملہ قارئین سے خصوصی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل کام کو آسان بنائے اور غیبی مدد سے کامیابی کی بلندی عطا کرتے ہوئے حاسدین کی حسد اور نظر بد سے حفاظت فرمائے ۔آمین۔
(مفتی)محمد نظام الدین قاسمی 
سابق استاذ الفقہ والتفسیر جامعہ مفتاح العلوم 
قصبہ جلال آباد ضلع شاملی یوپی
۲۸؍ اپریل ۲۰۱۸، مطابق ۱۱؍ شعبان المعظم ۱۴۳۹ بروز ہفتہ
مختصر حالات مصنفؒ 
محمد یاسین جہازی قاسمی
شعبہ دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
حضرت مصنف مرحوم کی زندگی کے حالات سے متعلق کوئی تحریری دستاویز موجودنہیں ہے۔ معاصرین سے ملی زبانی روایات پر مبنی معلومات کے مطابق آپ اپنے گھر کی بھینس چرانے گئے تھے کہ اسی دوران بھینس کو ساتھیوں کے حوالے کرکے وہاں سے نکل گئے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آپ علاقے کے ایک قدیم ادارہ مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ بھاگل پور پہنچ گئے ہیں۔ یہاں آپ نے درجہ دوم تک تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند آئے۔ دارالعلوم دیوبند میں موجود ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۴؍ مئی ۱۹۱۹ ؁ء، مطابق ۳؍ شعبان ۱۳۳۷ھ ؁ بروز اتوار ہے۔ دارالعلوم میں آپ نے ۳۰؍ نومبر ۱۹۳۸ ؁ء، مطابق ۷؍ شوال ۱۳۵۷ھ ؁ بروز بدھ درجہ سوم میں داخلہ لیااور مکمل چھ سال کی تعلیم کے بعد اگست ۱۹۴۳ ؁ء، مطابق شعبان۱۳۶۲ ؁ھ میں سند فضیلت حاصل کی۔ آپؒ دیوبند میں حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہ کے زیر تربیت تھے۔ فراغت کے بعد انھیں کے حکم و ارشاد پر مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑھ میرٹھ تشریف لے گئے اور صدر مدرسی کے عہدے پر فائز ہوکر تعلیمی و انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر یہاں سے مستعفی ہوکر دوبارہ اپنے شیخ کی خدمت میں دیوبند لوٹ گئے۔ حضرت شیخ کی محنت سے قریب تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے کسی شعبہ میں آپ کا تقرر عمل میں آتا کہ گاؤں والوں کی طرف سے ایک دعوتی خط موصول ہوا۔ یہ خط آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کیا اور مشورہ طلب کیا۔ حضرت ؒ نے علاقے کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضرت کے حکم و ارشاد پر آپ اپنے آبائی وطن جہاز قطعہ گڈا، جھارکھنڈ لوٹ آئے۔ اور یکم ربیع الاول ۱۳۶۹ ؁ھ، مطابق ۲۲؍ دسمبر ۱۹۴۹ ؁ء ، بروز جمعرات مدرسہ اسلامیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ 
از روز قیام تا ۱۹۵۴ ؁ء، آپ کی نظامت میں مدرسہ بحسن و خوبی چلتا رہا ۔ لیکن اسی سال کچھ لوگوں کی گھٹیا قسم کی مخالفت سے دلبراشتہ ہوکر آپ نے اسعفیٰ دیدیا اور مکمل طور پر یکسوئی اختیار کرلی۔ لیکن غیور اہل جہازی کے اصرار و حوصلہ پر گاؤں کے اتری حصے میں جناب عبدالرحمان صاحب کے دروازے پر ایک دوسرے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس کا نام مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ رکھا گیا۔ مولانا کے خلوص و للہیت اوراشاعت دین کے لیے خود کو وقف کردینے کے بے لوث جذبہ کی وجہ سے یہ مدرسہ بہت ترقی کرگیا اور دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی۔ ادھر دوسری طرف قدیم مدرسہ روز بروز زوال پذیر ہوتا رہا، حتیٰ کہ دستیاب دستاویز کے مطابق ۳؍ ستمبر ۱۹۵۷ء ؁ کو بعد نماز جمعہ ایک آخری میٹنگ ہوئی، جس میں مدرسہ کے مکمل حساب و کتاب کرنے کے بعد بقیہ سامان کو گاؤں کے ایک نہایت شریف و امین اور بزرگ شخصیت حضرت مولانا شرافت حسین صاحب نور اللہ مرقدہ کے حوالے کرکے مدرسہ بند کردیا گیا ۔
اس اختلاف کو علاقے کے ارباب دانش و بینش نے ایک قضیہ نامرضیہ قرار دیا اور ۲۶؍ دسمبر ۱۹۵۷ء ؁ میں ۱۳؍ افرادپر مشتمل ایک مفاہمت کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ چنانچہ یہ کمیٹی مسلسل جدوجہد کے بعد اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی اور فروری ۱۹۶۹ء ؁ میں دونوں مدرسوں کو ضم کرتے ہوئے دوبارہ مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے حوالے کردیا گیا ۔ انضمام کے بعد مدرسہ کا وقار مزید بلند ہوا۔ طالب علوم نبویہ کے رجوع میں اضافہ ہوگیا اور حضرت کی وفات تک مشکوٰۃ شریف تک تعلیم ہونے لگی۔ اور پورے علاقے کے لیے ایک عظیم علمی آماجگاہ بن گیا۔
مصنف مرحوم مدرسے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیتے تھے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ چنانچہ دستیاب معلومات کے مطابق ’رہنمائے مسلم‘،’ رہنمائے حج‘، نمازوں کے مسائل و فضائل، اور زجاج المصابیح جیسی علمی کتابیں تصنیف کیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ۲۷؍ ستمبر ۱۹۹۵ء ؁ کو بھیانک سیلاب اور پھر دوبارہ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء ؁ کو آئے قیامت خیز سیلاب نے پورے گاؤں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ، جس سے جہاں امیر ترین، غریب ترین فرد بن گیا، وہیں جہازی اکابرین کی ذاتی لائبریریاں، تواریخ اور تصنیفات بھی فنا کی شکار ہوگئیں۔ ان میں سے حضرت مصنف ؒ کی صرف اول الذکر دو کتابیں ہی، حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی جدوجہد سے محفوظ رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔
مولانا کی بیماری اور انتقال پرملال
آپ پر آخری عمر میں تین مرتبہ فالج کا حملہ ہوا۔ پہلی مرتبہ جسم کے مکمل آدھے حصہ پر حملہ ہوا، جس میں آپ صحت یاب ہوگئے، پھر دوبارہ اسی طرح کا حملہ ہوا، اس میں بھی صحت یاب ہوگئے، لیکن تیسری مرتبہ دماغ پر حملہ ہوا، اس حملہ میں آپ جاں بر نہ ہوسکے اور اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔وفات کے اگلے دن اپنے آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔حلقہ ارادت مندوں کا جم غفیر نماز جنازہ میں شریک تھا ، جو مولانا کی مقبولیت پر خلق خدا کی گواہی تھی ۔ تاریخ وفات ماہ جون ۱۹۷۶ ؁ تھی۔
مولانا کی ذات نابغہ روزگار ہستی تھی
مولانا کی ذات گرامی ایک نابغہ روزگار ہستی تھی۔ علمی مرتبت بہت بلند تھا۔ دیہات میں جہاں کتابوں کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا، ایک نہیں؛ بلکہ کئی کئی مستند کتابیں لکھنا کسی کرامت سے کم نہیں ہوسکتا۔ وہ مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے، اس لیے تقویٰ و طہارت پر شبہ کرنا ناممکن ہے۔ معاملہ کی صفائی، خوش اخلاقی اور نرم گوئی ان کی خاص شان تھی جن کی گواہی آج بھی ان کو دیکھنے اور جاننے والے دے رہے ہیں۔ باطلانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی اصلاح کے لیے وہ ہمیشہ پابہ جولاں رہتے تھے اور بڑی حکمت عملی سے کام لیتے تھے کہ لوگوں کو برا بھی نہیں لگتا تھا اور مقصد بھی حاصل ہوجاتاتھا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود ، اہل ہنر اور اہل قدر لوگوں کے تعلق سے لوگوں کا جو بے قدری والا رویہ ہوتا ہے، وہ مولانا کے ساتھ بھی رہا، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تسلسل ہے۔ ایسا بڑے بڑوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے؛ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ جہاں دنیا اہل قدر کے مرنے کے بعد ان کی اہلیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتی ہے، وہاں مولانا کے مرحوم ہونے کے بعد بھی ناقدری کی گئی اور ان کے سارے کارناموں کو فراموش کردیا گیا۔اس لیے قبل ازمرگ اور بعد از مرگ دونوں کے مرثیہ کے لیے مولانا مرحوم ہی کے شعر پر مضمون مکمل کیا جاتا ہے کہ ؂
تیرے ہنر کا کوئی نہیں قدر داں منیرؔ 
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے 
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی تمام خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین ۔ ثم آمین۔

احوال واقعی
کسی بھی تصنیف و تالیف کی اہمیت اور قدروقیمت کا اندازہ دو باتوں سے لگایا جاتا ہے ۔ پہلی تو یہ کہ تصنیف کے مشمولات میں جامعیت و قطعیت ہے اور جو کچھ اس میں پیش کیاگیا ہے ، وہ آخری درجہ کی تحقیق کے بعد ہی شامل کیا گیاہے۔ اور دوسری یہ کہ صاحب تصنیف کی شخصیت ہی جامعیت اور ہمہ گیریت کا عنوان ہے۔ ایسی شخصیت کی طرف رطب و یابس جمع کرنے کی نسبت ہی نہیں کی جاسکتی۔ اور اگر یہ دونوں باتیں کسی تصنیف میں جمع ہوجائیں، تو وہ ایک لازوال شاہکار بن جاتی ہے۔ اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ’’ رہنمائے مسلم‘‘ کو یہ دونوں خصوصیتیں حاصل ہیں۔ اس کے مشمولات میں ۶۵؍ کتابوں کے حوالے شامل ہیں، جن کی فہرست آپ کتاب کے آخر میں دیکھ سکتے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ ایک ایسے دیہات میں جہاں نہ بجلی تھی اور نہ لائبریری، اور نہ ہی تحقیق کے دیگر ذرائع موجود تھے، اس کے باوجود اتنی کتابوں سے استفادہ کرکے ایک حسین اور جامع گلدستہ کیسے تیار کردیا؛ اسے حضرت والا کی کرامت کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔اور صاحب تصنیف کی ہمہ جہت شخصیت کا اندازہ ان کے ایک شاگرد حضرت مولانا اظہر الحق صاحب کے اس قول سے لگاسکتے ہیں کہ ’مولانا اپنے عہد میں کسی بھی مسئلے میں ایک حوالہ اور سند کا درجہ رکھتے تھے؛ حتیٰ کہ علماء میں بھی کسی بات پر اختلاف ہوتا، تو وہ کہتے کہ چلو اس کا فیصلہ اب حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب ہی کریں گے۔ اور اگر کسی بات میں آپ کی طرف سے کوئی وضاحت آجاتی، تو پھر کسی اور کی بات تسلیم کرنے کے لیے لوگ تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔ 
مولانا محمد منیر الدین صاحب نور اللہ مرقدہ نے کئی ایک کتاب تصنیف کی، لیکن گاؤں میں آئے پے درپے کئی قیامت خیز سیلاب کی وجہ سے حضرت والا کی ذاتی لائبریری اور سبھی تصنیفات ضائع ہوگئیں، البتہ حضرت کے ہونہار اور قابل رشک شاگرد حضرت مولانا قاری و کاتب عبدالجبار صاحب حفظہ اللہ صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند کی کوششوں سے مولانا کی دو تصنیف اب تک محفوظ ہیں، جن میں سے ایک تو یہی رہ نمائے مسلم ہے اور دوسری رہنمائے حج ہے۔اللہ تعالیٰ قاری صاحب کو بھی جزائے خیر دے۔ 
’رہنمائے مسلم‘ کے مسودے کے کچھ صفحات ضائع ہوگئے تھے، جو بسیار تلاش کے باوجود نہ مل سکے، اس لیے اس خلا کو پر کرنے اور مضمون کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ’نماز جنازہ کا بیان‘ سے لے کر’جناز اٹھانے اور دفنانے کا بیان‘ تک ، پھر آخر میں ’میت پر رونے کا بیان‘ میں سورہ قصص کی آیت کی دو چار سطروں کے بعد’ اس لیے اگر ہماری اولاد مرجائے تو اس پر نوحہ کرنا‘ سے لے کر آخر کتاب تک حضرت قاری صاحب حفظہ اللہ کی پیوند کاری ہے ۔ اس پیوندکاری کا کمال یہ ہے کہ استاذ اور شاگرد کے اسلوب بیان میں فرق کرنا مشکل ہے۔ اور کتاب کے آخر میں حوالہ جات کی فہرست راقم کا اضافہ ہے۔ 
یہ کتاب انیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی میں لکھی گئی ہے۔ حضرت مصنف ؒ کے پاس وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب اس وقت اشاعت پذیر نہ ہوسکی، لیکن مفتی نظام الدین صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی جدوجہد کی وجہ سے اب یہ شائع ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی کاوش کو قبولیت سے نوازے۔ اس اشاعت میں اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے درج ذیل کوششیں کی گئی ہیں۔
(الف) مسودہ میں رموز و اوقاف کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا، لیکن اس میں اس کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
(ب) قواعد املا کی جدید سفارشات کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے۔ 
(ج) ارادہ یہ تھا کہ حضرت مصنف کے دیے گئے حوالے کے قدیم طرز کو جدید طرز کے مطابق کردیا جائے ۔ اور کتابوں کے نام کے ساتھ ساتھ، ابواب کا بھی اضافہ کردیا جائے، لیکن قلت وقت اور حوالوں کی کثرت کی بنیاد پر یہ ارادہ ملتوی کردیا گیا ۔ سردست کتاب میں مولانا ہی کے دیے حوالے موجود ہیں۔ 
ان کوششوں کے ساتھ یہ کتاب اب آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔ یہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوئی ہے، اس کی شہادت تو آپ ہی دیں گے ؛ البتہ خوشی کا مقام یہ ہے کہ حضرت مصنف ؒ کی زندگی میں نہ سہی، بعد ازوفات تقریبا چالیس سال بعد شائع ہورہی ہے۔ یہ جہاں حضرت کے لیے اہل جہازی کی طرف سے بہترین خراج عقیدت ہے ،وہیں حضرت مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہے ۔کتاب کو کتابت کے اغلاط سے پاک کرنے میں مولانا محمد سرفراز صاحب قاسمی نے انتھک محنت کی ہے، ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو جنت الفرود س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اس کتاب کے ان کے لیے ذریعہ نجات بنائے ، آمین۔ 
محمد یاسین جہازی قاسمی 
دعوت اسلام ، جمعیۃ علماء ہند
۱۳؍ اپریل ۲۰۱۸ء، مطابق ۲۶؍ رجب ۱۴۳۹ھ بروز جمعہ 
پانچ بج کر پندرہ منٹ شام
قسط نمبر (2) پڑھنے کے لیے کلک کریں

18 May 2018

اس فارمولہ پر عمل کریں گے، تو آپ کوکبھی بھی روزہ نہیں لگے گا

اس فارمولہ پر عمل کریں گے، تو آپ کوکبھی بھی روزہ نہیں لگے گا
محمد یاسین جہازی
9871552408
رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سے حکیم اور ڈاکٹرہمارے روزہ کے متعلق فکرمند ہوجاتے ہیں۔ انھیں یہ خوف ستانے لگتاہے کہ گرمیوں میں روزہ رکھنا ایک دشوار کام ہے، گرمی کی شدت بھوک پیاس کو بھڑکا دے گی اور روزہ دار کو روزہ لگ جائے گا، اس لیے وہ اپنے خزانہ علم و حکمت سے ہمارے لیے نایاب اور بیش قیمت نسخے تلاش کرکے لاتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ چیز اس طرح کھاو گے، تو بھوک پیاس نہیں لگے گی۔ 
راقم کا عندیہ ہے کہ اگر کوئی شخص روزے کے مقصد کو پیش نظر رکھ کر حصول تقویٰ کی نیت سے روزہ رکھے اور روزہ کے لغوی معنی پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے آداب کو بھی ملحوظ رکھے، تو کبھی بھی روزہ نہیں لگ سکتا ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھے اور اس کے تمام تقاضوں کو انجام دے اور پھر روزہ لگ جائے۔ روزہ اسی کو لگتا ہے، جو اپنا روزہ پھاڑ دیتا ہے۔ پھٹا ہوا روزہ ہمیشہ روزہ دار کو بھوک اور پیاس کی پریشانی میں ڈال دیتا ہے۔ 
نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں دو عورتوں نے روزہ رکھا۔ روزہ میں اس شدت سے بھوک لگی کہ ناقابل برداشت ہو گئیاور مرنے کے قریب پہنچ گئیں۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺ کو خبر دی ۔ حضورﷺ نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجوایا اور ان دونوں کو اس میں قے کرنے کا حکم دیا۔ دونوں نے قے کی تو اس میں گوشت کے ٹکڑے اور جما ہوا بدبودارخون نکلا۔ لوگوں کو حیرت ہوئی کہ روزہ کی حالت میں گوشت کے ٹکڑے کیوں نکل رہے ہیں، تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انھوں نے حلال روزی سے تو روزہ رکھالیکن دن بھر یہ دونوں عورتیں لوگوں کی غیبت کرتی رہیں۔ 
ایک حدیث میں ہے کہ
الصیام جنۃ مالم یخرقہا۔ قیل بما یخرقہ؟ قال: بکذب او غیبۃ
روزہ ڈھال ہے ، جب تک کہ اسے پھاڑ نہ دے۔ پوچھا گیا کہ ڈھال کس سے پھٹتا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ جھوٹ اور غیبت سے ۔ 
یہ نبوی فارمولہ ہمیں بتاتا ہے کہ ورزہ تو خود ایک تحفظ کا ذریعہ ہے۔ روزہ خود انسان کی حفاظت کرتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس تحفظ کے آلہ کو ہم توڑ پھوڑ نہ دیں۔ جب ہم حفاظت کرنے والے ہتھیار ہی توڑ دیں گے، تو وہ ہمارا تحفظ کیسے کرپائے گا۔ اور یہ ہتھیار جھوٹ بولنے اور غیبت کرنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ 
اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہمارا روزہ ہی بھوک پیاس سے ہماری حفاظت کرے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم جھوٹ اور غیبت کرنے سے بچیں اور روزے کے دیگر تمام تقاضوں پر عمل کریں۔ اگر کسی دن ہمیں روزہ لگ جاتا ہے، تو اپنا محاسبہ کریں کہ آج ہم سے کونسا گناہ ہوگیا ہے، جس سے ہماری حفاظت کرنے والا ہتھیار روزہ ٹوٹ گیا ہے اور ہماری حفاظت نہیں کر پارہا ہے۔ 
آج جھوٹ بولنا اور غیبت کرنا ہم نے اپنے روزہ کاٹنے کا ذریعہ بنالیا ہے، جس سے ہمیں روزہ بھی بہت لگتا ہے اور اس مشقت کا کوئی حاصل بھی نہیں نکلتا ، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ 
من لم یدع قول الزور والعمل بہ، فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ و شرابہ
جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹی باتوں پر عمل نہیں چھوڑا، تو اللہ کواپنے نام پر کھانا پینا چھوڑ دینے والے کی کیا ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں روزہ کو اس کے تقاضے کے مطابق رکھنے اوربالخصوص روزہ کی حالت میں جھوٹ اور غیبت سے ہماری حفاظت فرمائے ، آمین۔