قربانی کا بیان
قسط نمبر (3)
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
ایام قربانی میں چھ قسم کے جانوروں میں سے کسی جانور کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے۔
قربانی کرنا واجب ہے
قربانی کے دن جو شخص نصاب کی مقدار یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس مالیت کی کوئی دوسری چیز رکھتا ہو اور وہ مال قرض اور دوسری ضروری حاجتوں سے زائد ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
مَنْ کَانَ لَہُ سَعَۃٌ وَ لَمْ یُضَحِّ۔ فَلایَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا (رواہ احمد و وابن ماجۃ والحکم و صححہ الحاکم)
جس شخص کو مالی وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ جائے۔
علامہ عینی نے فرمایا کہ ایسی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوسکتی ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس سال تک مدینہ میں قیام فرمایا ااور ہر سال قربانی کی۔ (ترمذی۔ اس سے بھی وجوب سمجھا جاتا ہے ۔ (مرقاۃ)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ( الکوثرآیۃ :۲)
اپنے رب کے لیے عید کی نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے ۔
قربانی صرف اپنی ذات پر واجب ہے ۔ اپنی چھوٹی بڑی اولاد اور بیوی ، غلام کی طر ف سے قربانی واجب نہیں ہے۔ (مالابد منہ)
مسافر اور نادار پر قربانی واجب نہیں ہے۔
قربانی کا رکن
قربانی کا رکن مخصوص چوپائے کا ذبح کرنا ہے۔ قرآن میں ہے :
وَ مِنْ بَھِیْمَۃِ الْأنْعَامِ (الحج، آیۃ:۲۸)
اورچوپائے جانوروں میں سے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف چوپائے کی ہوسکتی ہے۔ جو چوپایہ نہیں، جیسے مرغ، بٹیر وغیرہ پرندے، اس کی قربانی درست نہیں۔ اسی طرح چوپائے میں بھی مخصوص چوپائے کی قربانی درست ہے اور وہ چھ قسم کے جانور ہیں : اونٹ۔ گائے۔ بھینس۔ بکری۔ بھیڑ۔ دنبہ۔ ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی درست نہیں۔
قربانی کا حکمدنیا میں قربانی کرنے والا واجب کی ذمہ داری سے نکل آتا ہے اور آخرت میں بڑے ثواب کا حق دار ہوتا ہے۔
قربانی کی فضیلت
حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
قَالَ أصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ! مَا ھٰذہِ الأضَاحِیْ؟ قَالَ: سُنَّۃُ أبِیْکُمْ ا8بْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلامُ۔ قَالُوْا: فَمَا لَنَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ۔ قَالُوْا: فَالصُّوْفُ یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ، قَالَ: بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنَ الصُّوفِ حَسَنَۃٌ۔ (رواہ احمد وابن ماجۃ)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ (ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی اطاعت میں سب سے پہلے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا ؛ مگر اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش کے بعد اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ایک دنبہ قربان کیا۔ جب ہی سے یہ سلسلہ قربانی جاری ہوا)۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم کو اس میں کیا ثواب ملے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا : ہر بال پر ایک نیکی۔ عرض کیا یا رسول اللہ! بھیڑاور دنبہ کے بالوں کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے بالوں کا بھی یہی حکم ہے؛ ہر بال پر ایک نیکی۔
یعنی بال ہو یا اون؛ دونوں کا ایک حکم ہے ۔ رواں رواں پر نیکی ، خواہ کسی قدر ہوں۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ذی الحجہ کے دسویں تاریخ کو خدا کے نزدیک تمام اعمال سے بہتر خون بہانا ہے۔ یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں وغیرہ کے ساتھ آئے گی۔ یہ نہایت ہی خوش ہونے کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پیشتر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ائے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس آکر کھڑی ہو، اس کا جو قطرہ زمین پر گرے گا، اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تیرے تمام پچھلے گناہ بخش دے گا۔ حضرت بتولؓ نے دریافت کیا : یہ خوش خبری صرف میرے لیے ہے یا تمام امت کے لیے؟ فرمایا: تمھارے لیے بھی اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔ (بزار)
حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے حسن اعتقاد اور ثواب کی نیت سے قربانی کی تو یہ قربانی اس کے لیے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ (طبرانی)۔
قربانی کا جانور
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَ لِکُلِّ أمَّۃٍ جَِعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوْا اسْمَ اللّٰہِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْأنْعَامِ (الحج،آیۃ ۳۴ )
اور جتنے شریعت والے گذرے ہیں ، ان میں سے ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھاکہ وہ مخصوص چوپاؤں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے ان کو عطا فرمائے تھے۔ (ترجمہ تھانوی)
وہ مخصوص جانور جن کی قربانی درست ہے ، وہ یہ ہیں:
(۱) اونٹ۔ (۲) گائے ۔ (۳)بھینس۔ (۴) بھیڑ۔ (۵) دنبہ۔ (۶) بکری۔خواہ نر ہو یا مادہ بشرطیکہ پالتو ہو ۔ اور اونٹ پورے پانچ سال ، گائے ، بھینس پورے دو سال، بکری، خصی پورے ایک سال کے ہوں۔ بھیڑ، دنبہ چھ ماہ کا بھی درست ہے، جب کہ خوب فربہ ہو اور سال بھر کا معلوم ہوتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
لَاتَذْبَحُوْا ا8لَّا مُسِنَّۃً، ا8لَّا أنْ یَّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوْا جِذْعَۃً مِّنَ الضَّانِ ۔ (رواہ مسلم)۔
مت ذبح کرو، مگر ثنی؛ مگر یہ کہ تم پر دشوار ہو پس ذبح کرو بھیڑ کا بچہ ششماہ۔
معلوم ہوا قربانی کے جانور کا ثنی ہونا ضروری ہے۔ ثنی وہ جانور ہے، جس کے سامنے کے دانت گرگئے ہوں۔ ثنی اونٹ پانچ سال میں، گائے ، بھینس دو سال میں، اور بکری پورے ایک سال میں ہوتی ہیں۔
اون والا جانور ضان کہلاتا ہے ، جو بھیڑ دنبہ دونوں کو شامل ہے۔ بھیڑ، دنبہ اگر ایک سالہ نہ ملے اور کوئی دوسرا جانور بھی نہ ملے ، تو اس صورت میں چھ ماہ کا بھی درست ہے۔
جنگلی جانور کی قربانی درست نہیں، یعنی پہاڑی بکری اور جنگلی گائے، بھینس کی قربانی درست نہیں۔ اگر کوئی جانور پالتو اور وحشی سے پیدا ہوا ہو، تو اس وقت ماں کا اعتبار ہوگا۔ اگر ماں پالتو ہے تو قربانی درست ہے؛ ورنہ جائز نہیں۔ (مالابد منہ)
افضل کیا ہے
بالاتفاق دنبہ بھیڑ سے افضل ہے ۔ اور بکری بکرا سے، اگر قیمت اور گوشت میں برابر ہو۔ اور بکری گائے کے ساتویں حصہ سے افضل ہے، جب کہ قیمت میں برابر ہو ۔ اور بعض کے نزدیک اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے۔ (مالابد منہ)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: قربانی میں بہتر قربانی بکری کی ہے ۔ (ابو داود)
اور بعض روایت میں مینڈھے کی قربانی افضل بتایا گیا ہے۔
(جنت کی کنجی)
عیب دار جانور
عیب دار جانور کی قربانی درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَاءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔
( الحج، آیۃ ۳۲)
جو شخص خدا کے دین کی یادگاروں کی تعظیم کرے گا، تو ان کی تعظیم دل کے تقویٰ سے ہوگی۔
قربانی دین کی یادگاروں میں سے ایک ہے۔ اس کی تعظیم یہ ہے کہ جانور موٹا ، تازہ، بے عیب ہو، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے سینگوں والے موٹے تازے مینڈھے کی قربانی کی تھی ، جو سیاہی میں دکھتا ، سیاہی میں کھاتا اور سیاہی میں چلتا، یعنی سر سے پاؤں تک سیاہ تھا۔ (ترمذی، ابو داود، نسائی ، ابن ماجہ)
اور عیب دار جانوروں کی قربانی سے منع فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت براء ابن عاذب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ، فَقالَ: أرْبَعٌ لَاتَجُوزُ فِی الضَّحَایَا الْعَوْرَآءُ الْبَیِّنُ عَوْرَھَا، وَالْمَرِیْضَۃُ الْبَیِّنُ مَرَضُھَا، وَالْعَرْجَآءُ الْبَیِّنُ ضِلْعُھَا، وَالْکَبِیْرَۃُ الَّتِیْ لَاتُنْقِیْ۔ (رواہ احمد، والاربعۃ، و صححہ الترمذی وابن حبان)۔
رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان میں کھڑے ہوئے ، پس فرمایا : چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں:
(۱) کانا جس کا کانا ہونا ظاہر ہو۔ (اس میں اندھا بھی آگیا)۔
(۲) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔ (یعنی مرض سے بہت دبلا ہوگیا ہو)۔
(۳) لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ (یعنی چوتھا قدم زمین پر بالکل نہ دھرے اور مذبح تک نہ جاسکے)
(۴) بہت بڈھا ہو کہ بدن میں گوشت نہ ہو۔
معلوم ہو کہ اندھے، کانے ، ایسے لنگڑے کی جو مذبح تک نہ جاسکے، بہت بڈھے کی، بہت بیمار کی کہ بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے بدن میں گوشت نہ رہا ہو، اسی طرح جس کا سینگ جڑ سے ٹوٹ جائے، یا دم پیدائشی نہ ہو، یا پیدائشی کان نہ ہو، یا دم تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو، یا تہائی سے زیادہ کان کٹ گیا ہو، کل یا اکثر دانت ٹوٹ گئے ہوں، تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے ۔ (مالابدمنہ)
محض نجاست خور کہ نجاست کے سوا کوئی دوسری چیز نہ کھاتا ہو۔ خنثیٰ اور جس کا پستان کٹ گیا یا سوکھ گیا ہو؛ ان سب کی قربانی درست نہیں ۔ (مالابد منہ)
یہ عیب قربانی سے مانع نہیں
جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہو، یا درمیان سے ٹوٹ گیا ، گھاس کھاتا ہوا پاگل، موٹا تازہ خارشی، اکثر دانت والا، تہائی سے کم کان یا دم کٹا ہوا، چھوٹے چھوٹے پیدائشی کان والا، مذبح تک جاسکنے والا لنگڑا اور خصی بدھیا کی قربانی درست ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ذَبَحَ النَّبِیُّ ﷺ یَوْمَ الذَّبْحِ کَبْشَیْنِ أقْرَنَیْنِ أمْلَحَیْنِ مَرْجُوْءَیْنِ (احمد)
نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے دن دو مینڈھے بڑے بڑے سینگوں والے ، سیاہ سفید رنگ والے خصیوں کی قربانی کی۔
حضرت جحیفہ ابن عدیؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : ایک گائے سات شخصوں کی طرف سے جائز ہے ۔ میں نے پوچھا: اگر بچہ نکلے، تو فرمایا: اس کے ساتھ اس کے بچہ کو بھی ذبح کرے۔ پھر میں نے عرض کیا : اور سینگ ٹوٹے کی؟ فرمایا: کچھ حرج نہیں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے آنکھ کان دیکھ لینے کو فرمایا۔ اس حدیث کو دارمی، نسائی، ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی، ابو داود طیالسی، ترمذی اور حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے اور ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔ (زجاجۃ المصابیح)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مینڈھا قربانی کے لیے خریدا۔ بھیڑیا نے اس کی چکتی اور کان کو زخمی کردیا۔ ہم نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا ، آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کی قربانی کر۔ (ابن ماجہ)۔
قربانی کے دنحضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :
اَلْأضْحَیٰ ثَلٰاثَۃُ أیَّامٍ یَوْمَانِ بَعْدَ یَوْمِ النَّحْرِ۔
(رواہ الطحاوی بسند جید)
قربانی کے تین دن ہیں: دسویں دن کے بعد دو دن یعنی گیارھویں بارھویں ۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بارھویں کے سورج چھپنے سے پہلے تک رہتا ہے۔ اس درمیان میں جب چاہے، قربانی کرسکتا ہے؛ البتہ رات کو ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ دسویں کو نماز سے پہلے قربانی درست نہیں ۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ أنْ یُّصَلِّیَ فَلْیَذْبَحْ أُخْرَیٰ مَکَانَھَا، وَ مَنْ لَّمْ یَذْبَحْ فَلْیَذْبَحْ بِاِسْمِ الْلّٰہِ (متفق علیہ)
جس شخص نے نماز پڑھنے سے پہلے قربانی کی ہے ، اس کو اس کی جگہ میں دوسرا کرنا چاہیے اور جس نے قربانی نہیں کی ہے، اس کو اللہ کے نام سے ذبح کرنا چاہیے۔
البتہ اگر دسویں کو کسی وجہ سے نماز نہیں پڑھی، تو گیارھویں کو نماز سے پہلے قربانی جائز ہے۔ اسی طرح جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی، یا شہر میں فتنہ کی وجہ سے نماز کی توقع نہیں ، تو وہاں دسویں کو صبح صادق کے بعد قربانی درست ہے۔ (مالابد منہ)
اس لیے کہ جب نماز ہی نہیں ہے، تو پھر انتظار کس کا ۔ اگر امام نماز میں تاخیر کرے، تو زوال تک قربانی میں بھی تاخیر کرے۔البتہ اگر مسجد میں عیدگاہ سے پہلے نماز ہوجائے، تو اب سب کے لیے قربانی کرنا جائز ہوگا، خواہ نماز میں شریک ہوا ہویا نہ ہوا ہو، یا عیدگاہ میں مسجد سے پہلے نماز ہوجائے، تو قربانی جائز ہے، الغرض کسی ایک جگہ نماز ہوجانی چاہیے، جہاں بھی نماز ہوئی ، قربانی درست ہوگی۔ نماز کے بعد خطبہ سے پہلے قربانی درست ہے ؛ مگر خلاف اولیٰ ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ نماز اور خطبہ ؛ دونوں سے فارغ ہوکر قربانی کرے ۔ (مالابد منہ)
اگر قربانی کے دن گذر گئے اور اس پر قربانی واجب تھی اور اس سے کسی وجہ سے قربانی نہ ہوسکی، تو اگر جانور موجود ہے ، تو اسی کو صدقہ کردے، ورنہ اس کی قیمت صدقہ کرے۔
قربانی میں شرکت
بھیڑ، بکری اور دنبہ میں شرکت درست نہیں۔ صرف ایک شخص کی جانب سے درست ہے ۔ گائے، بھینس اور اونٹ میں ایک سے سات تک شریک ہوسکتے ہیں ۔ سات سے زائد درست نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
البَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ وَ الْجَزُوْرُ عَنْ سَبْعَۃٍ۔ (مسلم)
گائے سات شخصوں کی طرف سے اور اونٹ سات شخصوں کی جانب سے ۔
سات شخصوں کا ہونا ضروری نہیں ، صرف دو آدمی مل کر قربانی کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح تین یا چار یا پانچ یا چھ آدمی مل کر کریں، یہ بھی درست ہے؛ البتہ کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔(یعنی ایک حصہ مکمل ہو۔ حصہ میں تقسیم نہ ہو)۔ زیادہ ہونے میں کچھ حرج نہیں۔ اور سب کی نیت تقرب کی ہو، یعنی ثواب کی ۔ اگر نیت تقرب میں اختلاف ہو، تو کچھ حرج نہیں، جیسے کسی نے عقیقہ کی نیت کی ، کسی نے قربانی واجب کی، کسی نے نفل کی کسی نے منت کی ، تو اس اختلاف نیت سے قربانی میں کچھ حرج نہیں ہے، قربانی صحیح ہوگی۔
لیکن اگر کسی نے محض گوشت کھانے کی نیت سے شرکت کی ، تو کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی۔ (مالابد منہ)
سات شخصوں نے مل کر گائے خریدی اور قربانی کرنے سے پہلے کسی ایک نے انتقال کیا، اگر اس کے کل وارثوں سے اجازت قربانی کی دی ، تو صحیح ہوگی، ورنہ قربانی کسی کی بھی نہیں ہوگی۔
غریب کی قربانی
جس پر قربانی واجب نہ تھی ؛ مگر اس نے ثواب کی نیت سے قربانی کا جانور خریدا، تو اب اس پر اس جانور کی قربانی کرنا واجب ہوگیا۔ البتہ اگر وہ جانور قربانی کرنے سے پہلے مرجائے یا چو رڈکیت لے جائے، تو اس پر دوسرا خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں ؛ لیکن اگر عیب دار ہوجائے ، خواہ وہ عیب ایسا ہو کہ اس کی موجودگی میں اس کی قربانی جائز نہیں، تو اسی کو قربانی کر ڈالے، دوسرے خریدنے کی حاجت نہیں۔ اگر خریدے گا تو دونوں کی قربانی کرنا ہوگا۔
امیر کی قربانی
جس پر قربانی کرنا واجب تھا، اس نے ایک جانور خریدا، اس کے بعد وہ مرگیا، یا کھوگیا، یا چور لے گیا، یا ایسا عیب دار ہوگیا جو قربانی سے مانع ہو تو اس پر دوسرا خرید کر قربانی کرنا واجب ہے، اگرچہ خریدنے کے بعد پہلا بھی مل جائے تو اس پر کسی ایک کی قربانی کرنا واجب ہے، دونوں کا نہیں۔
میت کی قربانی
اگر مرنے والے نے قربانی کی وصیت کی اور اس نے اتنا مال چھوڑا ہے کہ اس کے تہائی مال سے اس کی وصیت پوری ہوسکتی ہے ، تو ورثہ پر لازم ہے کہ اس کی طرف سے قربانی کرے ۔ اور اس کا تمام گوشت پوست صدقہ کردے،اس گوشت میں سے ورثہ کو کھانا درست نہیں؛ لیکن اگر کسی نے میت کی وصیت کے بغیر ثواب پہنچانے کے لیے اس کے نام سے قربانی کی ، تو اس گوشت کا کھانا اور دوسروں کو کھلانا ہر طرح جائز ہے ، انسان کو چاہیے اپنے مرنے والوں کو یاد رکھیں اور ان کے نام سے قربانی کرکے ان کو ثواب پہنچائیں۔ حضرت حَنَش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے ان سے عرض کیا: یہ کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں، اس لیے ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ (ابو داود)
یعنی ایک اپنی طرف سے اور ایک سرکار دوجہاں احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف سے کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس پر قربانی واجب ہو، وہ ایک جانور اپنی طرف سے ضرور کرے اور دوسرے جانور سے دوسرے کو ثواب پہنچائے۔
منت کی قربانی
اگر کسی نے نذر مانی کہ اگر ہمارا فلاں کام ہوگیا، یامیں بیماری سے اچھا ہواتو قربانی کروں گا۔ اس کے بعد اس کی حاجت پوری ہوگئی، تو اب اس پر قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا واجب ہے۔ اور اس کا گوشت نہ خود کھائے ، نہ امیروں کو کھلائے؛ بلکہ گوشت پوست؛ سب غریبوں کو دیدے۔ اگر خود کھائے یا امیروں کو کھلائے تو جتنا کھایا یا کھلایاہے، اس کی قیمت غریبوں کو خیرات کرے؛ ورنہ اس کے ذمہ اتنا واجب رہ جائے گا۔
منت کی قربانی کی وہی شرطیں ہیں جو اور قربانی کی ہیں۔ کم عمر یا عیب دار کی قربانی کرنا منت پوری کرنے کے لیے درست نہیں ۔
اگر کسی خاص جانور کی قربانی کی منت مانی ، تو اس خاص جانور کی قربانی کرنا ضروری نہیں ، اس کے بدلے میں دوسری کرنے سے بھی منت پوری ہوجائے گی۔ اگر منت جان کے بدلے جان کی ہو، تو حاجت پوری ہونے کے بعد کسی جانور کو ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کردے، اپنے مصرف میں نہ لائے ۔اور نہ اس کے لیے قربانی کے دنوں کا انتظار کرے۔
قربانی کرنے کا طریقہ
پہلے چھری تیز کرے اور کوئی دوسرا جانور اس جگہ نہ رہنے دے ۔ پھر اس کو قبلے کی رخ پر لٹائے ۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھے:
إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفَاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکینَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِی وَمَحْیايَ وَمَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَٰلکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمینَ أللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ۔
پھر بِسمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے۔ ذبح کرنے کے بعد کہے:
ألْلّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ ا8بْرَاھِیْمَ وَ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَا الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ۔
اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو مِنِّیْ کی جگہ پر مِنْ فُلان ابنِ فلاں کہے، یعنی مِنْ کے بعد اس کا ولدیت کے ساتھ نام لے۔ اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا بہتر ہے ،جب کہ جانتا ہو ، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے کیا؛ لیکن اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا ہو، تو وہاں پر کھڑا رہے ، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ائے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس آکر کھڑی ہو۔ (بزار)
قربانی کا گوشت
اگر میت اور منت کی وصیت کی قربانی نہ ہو ، تو اس کا گوشت خود کھاسکتا ہے اور دوسروں کو بھی دے سکتا ہے ہے ، خواہ امیر ہویا غریب، مسلمان ہو یا کافر۔ یہ بھی جائز ہے کہ کل گوشت خیرات کردے، یا کل کو اپنے کام میں لائے ؛ البتہ گوشت کا بیچنا جائز نہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ ایک تہائی گوشت غریبوں میں بانٹے اور ایک تہائی گوشت دوستوں ، رشتہ داروں کو دے اور ایک تہائی اپنے کام میں لائے۔
میت اور وصیت والی قربانی کا گوشت غریبوں کو دیدے۔ نہ خود کھائے ، نہ امیروں اور کافروں کو دے۔
چرم قربانی
چرم قربانی کا صدقہ کرنا افضل ہے ۔
أَنَّ عَلِیَّاً رَضِيَ اللّٰہُ عَنہُ أَخْبَرہَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَہُ أَنْ یَّقُوْمَ عَلیٰ بُدْنہِ وَأَنْ یَّقْسِمَ بُدْنَہُ کُلَّھَا لُحُوْمَھَا وَجُلُوْدَھَا وَجِلَالَھَا وَلَا یُعْطِيَ فِيْ جِزَارَتِھا شَیْءَاً۔ (بخاری،کتاب الحج، باب یُتصدَّقُ بِجلودِ الھدیِ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانیوں کا انتظام کروں اور اس کا گوشت، کھال اور جھول سب مسکینوں پر تقسیم کروں اور اس کی ذبح کی اجرت میں اس میں سے کچھ بھی نہ دیا جائے۔
لیکن اگر کوئی کھال صدقہ نہ کرے اور اس کو اپنے مصرف میں لائے تو لاسکتا ہے۔ یعنی اس سے کوئی چیز الگ سے مزدوری دے کر بنوالے یا خود بناکر استعمال کرے جائز ہے، لیکن اس کو بیچ کر اس کا پیسہ اپنے کام میں لانا، یا مسجد میں لگانا، یا مدرسین، یا ملازمین، یا امام و مؤذن کی تنخواہ میں دینا، یا مدرسہ کی عمارت میں لگانا، یا کوئی اجمالی کام کرنا ، یا کوئی چیز خریدنا درست نہیں۔ بیچنے کے بعد اس کے پیسے مستحقینِ زکوٰۃ پر خرچ کرنا ضروری ہے ۔ مدرسہ میں غریب طلبہ کی امداد کے لیے دینا بھی درست ہے۔
گوشت بنانے والے کو اجرت میں گوشت یا کھال کا دینا جائز نہیں۔ اس کو الگ سے مزدوری دے۔
قربانی کرنا واجب ہے
قربانی کے دن جو شخص نصاب کی مقدار یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس مالیت کی کوئی دوسری چیز رکھتا ہو اور وہ مال قرض اور دوسری ضروری حاجتوں سے زائد ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
مَنْ کَانَ لَہُ سَعَۃٌ وَ لَمْ یُضَحِّ۔ فَلایَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا (رواہ احمد و وابن ماجۃ والحکم و صححہ الحاکم)
جس شخص کو مالی وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ جائے۔
علامہ عینی نے فرمایا کہ ایسی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوسکتی ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس سال تک مدینہ میں قیام فرمایا ااور ہر سال قربانی کی۔ (ترمذی۔ اس سے بھی وجوب سمجھا جاتا ہے ۔ (مرقاۃ)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ( الکوثرآیۃ :۲)
اپنے رب کے لیے عید کی نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے ۔
قربانی صرف اپنی ذات پر واجب ہے ۔ اپنی چھوٹی بڑی اولاد اور بیوی ، غلام کی طر ف سے قربانی واجب نہیں ہے۔ (مالابد منہ)
مسافر اور نادار پر قربانی واجب نہیں ہے۔
قربانی کا رکن
قربانی کا رکن مخصوص چوپائے کا ذبح کرنا ہے۔ قرآن میں ہے :
وَ مِنْ بَھِیْمَۃِ الْأنْعَامِ (الحج، آیۃ:۲۸)
اورچوپائے جانوروں میں سے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف چوپائے کی ہوسکتی ہے۔ جو چوپایہ نہیں، جیسے مرغ، بٹیر وغیرہ پرندے، اس کی قربانی درست نہیں۔ اسی طرح چوپائے میں بھی مخصوص چوپائے کی قربانی درست ہے اور وہ چھ قسم کے جانور ہیں : اونٹ۔ گائے۔ بھینس۔ بکری۔ بھیڑ۔ دنبہ۔ ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی درست نہیں۔
قربانی کا حکمدنیا میں قربانی کرنے والا واجب کی ذمہ داری سے نکل آتا ہے اور آخرت میں بڑے ثواب کا حق دار ہوتا ہے۔
قربانی کی فضیلت
حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
قَالَ أصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ! مَا ھٰذہِ الأضَاحِیْ؟ قَالَ: سُنَّۃُ أبِیْکُمْ ا8بْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلامُ۔ قَالُوْا: فَمَا لَنَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ۔ قَالُوْا: فَالصُّوْفُ یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ، قَالَ: بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنَ الصُّوفِ حَسَنَۃٌ۔ (رواہ احمد وابن ماجۃ)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ (ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی اطاعت میں سب سے پہلے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا ؛ مگر اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش کے بعد اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ایک دنبہ قربان کیا۔ جب ہی سے یہ سلسلہ قربانی جاری ہوا)۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم کو اس میں کیا ثواب ملے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا : ہر بال پر ایک نیکی۔ عرض کیا یا رسول اللہ! بھیڑاور دنبہ کے بالوں کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے بالوں کا بھی یہی حکم ہے؛ ہر بال پر ایک نیکی۔
یعنی بال ہو یا اون؛ دونوں کا ایک حکم ہے ۔ رواں رواں پر نیکی ، خواہ کسی قدر ہوں۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ذی الحجہ کے دسویں تاریخ کو خدا کے نزدیک تمام اعمال سے بہتر خون بہانا ہے۔ یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں وغیرہ کے ساتھ آئے گی۔ یہ نہایت ہی خوش ہونے کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پیشتر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ائے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس آکر کھڑی ہو، اس کا جو قطرہ زمین پر گرے گا، اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تیرے تمام پچھلے گناہ بخش دے گا۔ حضرت بتولؓ نے دریافت کیا : یہ خوش خبری صرف میرے لیے ہے یا تمام امت کے لیے؟ فرمایا: تمھارے لیے بھی اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔ (بزار)
حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے حسن اعتقاد اور ثواب کی نیت سے قربانی کی تو یہ قربانی اس کے لیے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ (طبرانی)۔
قربانی کا جانور
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَ لِکُلِّ أمَّۃٍ جَِعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوْا اسْمَ اللّٰہِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْأنْعَامِ (الحج،آیۃ ۳۴ )
اور جتنے شریعت والے گذرے ہیں ، ان میں سے ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھاکہ وہ مخصوص چوپاؤں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے ان کو عطا فرمائے تھے۔ (ترجمہ تھانوی)
وہ مخصوص جانور جن کی قربانی درست ہے ، وہ یہ ہیں:
(۱) اونٹ۔ (۲) گائے ۔ (۳)بھینس۔ (۴) بھیڑ۔ (۵) دنبہ۔ (۶) بکری۔خواہ نر ہو یا مادہ بشرطیکہ پالتو ہو ۔ اور اونٹ پورے پانچ سال ، گائے ، بھینس پورے دو سال، بکری، خصی پورے ایک سال کے ہوں۔ بھیڑ، دنبہ چھ ماہ کا بھی درست ہے، جب کہ خوب فربہ ہو اور سال بھر کا معلوم ہوتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
لَاتَذْبَحُوْا ا8لَّا مُسِنَّۃً، ا8لَّا أنْ یَّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوْا جِذْعَۃً مِّنَ الضَّانِ ۔ (رواہ مسلم)۔
مت ذبح کرو، مگر ثنی؛ مگر یہ کہ تم پر دشوار ہو پس ذبح کرو بھیڑ کا بچہ ششماہ۔
معلوم ہوا قربانی کے جانور کا ثنی ہونا ضروری ہے۔ ثنی وہ جانور ہے، جس کے سامنے کے دانت گرگئے ہوں۔ ثنی اونٹ پانچ سال میں، گائے ، بھینس دو سال میں، اور بکری پورے ایک سال میں ہوتی ہیں۔
اون والا جانور ضان کہلاتا ہے ، جو بھیڑ دنبہ دونوں کو شامل ہے۔ بھیڑ، دنبہ اگر ایک سالہ نہ ملے اور کوئی دوسرا جانور بھی نہ ملے ، تو اس صورت میں چھ ماہ کا بھی درست ہے۔
جنگلی جانور کی قربانی درست نہیں، یعنی پہاڑی بکری اور جنگلی گائے، بھینس کی قربانی درست نہیں۔ اگر کوئی جانور پالتو اور وحشی سے پیدا ہوا ہو، تو اس وقت ماں کا اعتبار ہوگا۔ اگر ماں پالتو ہے تو قربانی درست ہے؛ ورنہ جائز نہیں۔ (مالابد منہ)
افضل کیا ہے
بالاتفاق دنبہ بھیڑ سے افضل ہے ۔ اور بکری بکرا سے، اگر قیمت اور گوشت میں برابر ہو۔ اور بکری گائے کے ساتویں حصہ سے افضل ہے، جب کہ قیمت میں برابر ہو ۔ اور بعض کے نزدیک اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے۔ (مالابد منہ)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: قربانی میں بہتر قربانی بکری کی ہے ۔ (ابو داود)
اور بعض روایت میں مینڈھے کی قربانی افضل بتایا گیا ہے۔
(جنت کی کنجی)
عیب دار جانور
عیب دار جانور کی قربانی درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَاءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔
( الحج، آیۃ ۳۲)
جو شخص خدا کے دین کی یادگاروں کی تعظیم کرے گا، تو ان کی تعظیم دل کے تقویٰ سے ہوگی۔
قربانی دین کی یادگاروں میں سے ایک ہے۔ اس کی تعظیم یہ ہے کہ جانور موٹا ، تازہ، بے عیب ہو، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے سینگوں والے موٹے تازے مینڈھے کی قربانی کی تھی ، جو سیاہی میں دکھتا ، سیاہی میں کھاتا اور سیاہی میں چلتا، یعنی سر سے پاؤں تک سیاہ تھا۔ (ترمذی، ابو داود، نسائی ، ابن ماجہ)
اور عیب دار جانوروں کی قربانی سے منع فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت براء ابن عاذب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ، فَقالَ: أرْبَعٌ لَاتَجُوزُ فِی الضَّحَایَا الْعَوْرَآءُ الْبَیِّنُ عَوْرَھَا، وَالْمَرِیْضَۃُ الْبَیِّنُ مَرَضُھَا، وَالْعَرْجَآءُ الْبَیِّنُ ضِلْعُھَا، وَالْکَبِیْرَۃُ الَّتِیْ لَاتُنْقِیْ۔ (رواہ احمد، والاربعۃ، و صححہ الترمذی وابن حبان)۔
رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان میں کھڑے ہوئے ، پس فرمایا : چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں:
(۱) کانا جس کا کانا ہونا ظاہر ہو۔ (اس میں اندھا بھی آگیا)۔
(۲) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔ (یعنی مرض سے بہت دبلا ہوگیا ہو)۔
(۳) لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ (یعنی چوتھا قدم زمین پر بالکل نہ دھرے اور مذبح تک نہ جاسکے)
(۴) بہت بڈھا ہو کہ بدن میں گوشت نہ ہو۔
معلوم ہو کہ اندھے، کانے ، ایسے لنگڑے کی جو مذبح تک نہ جاسکے، بہت بڈھے کی، بہت بیمار کی کہ بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے بدن میں گوشت نہ رہا ہو، اسی طرح جس کا سینگ جڑ سے ٹوٹ جائے، یا دم پیدائشی نہ ہو، یا پیدائشی کان نہ ہو، یا دم تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو، یا تہائی سے زیادہ کان کٹ گیا ہو، کل یا اکثر دانت ٹوٹ گئے ہوں، تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے ۔ (مالابدمنہ)
محض نجاست خور کہ نجاست کے سوا کوئی دوسری چیز نہ کھاتا ہو۔ خنثیٰ اور جس کا پستان کٹ گیا یا سوکھ گیا ہو؛ ان سب کی قربانی درست نہیں ۔ (مالابد منہ)
یہ عیب قربانی سے مانع نہیں
جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہو، یا درمیان سے ٹوٹ گیا ، گھاس کھاتا ہوا پاگل، موٹا تازہ خارشی، اکثر دانت والا، تہائی سے کم کان یا دم کٹا ہوا، چھوٹے چھوٹے پیدائشی کان والا، مذبح تک جاسکنے والا لنگڑا اور خصی بدھیا کی قربانی درست ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ذَبَحَ النَّبِیُّ ﷺ یَوْمَ الذَّبْحِ کَبْشَیْنِ أقْرَنَیْنِ أمْلَحَیْنِ مَرْجُوْءَیْنِ (احمد)
نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے دن دو مینڈھے بڑے بڑے سینگوں والے ، سیاہ سفید رنگ والے خصیوں کی قربانی کی۔
حضرت جحیفہ ابن عدیؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : ایک گائے سات شخصوں کی طرف سے جائز ہے ۔ میں نے پوچھا: اگر بچہ نکلے، تو فرمایا: اس کے ساتھ اس کے بچہ کو بھی ذبح کرے۔ پھر میں نے عرض کیا : اور سینگ ٹوٹے کی؟ فرمایا: کچھ حرج نہیں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے آنکھ کان دیکھ لینے کو فرمایا۔ اس حدیث کو دارمی، نسائی، ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی، ابو داود طیالسی، ترمذی اور حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے اور ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔ (زجاجۃ المصابیح)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مینڈھا قربانی کے لیے خریدا۔ بھیڑیا نے اس کی چکتی اور کان کو زخمی کردیا۔ ہم نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا ، آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کی قربانی کر۔ (ابن ماجہ)۔
قربانی کے دنحضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :
اَلْأضْحَیٰ ثَلٰاثَۃُ أیَّامٍ یَوْمَانِ بَعْدَ یَوْمِ النَّحْرِ۔
(رواہ الطحاوی بسند جید)
قربانی کے تین دن ہیں: دسویں دن کے بعد دو دن یعنی گیارھویں بارھویں ۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بارھویں کے سورج چھپنے سے پہلے تک رہتا ہے۔ اس درمیان میں جب چاہے، قربانی کرسکتا ہے؛ البتہ رات کو ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ دسویں کو نماز سے پہلے قربانی درست نہیں ۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ أنْ یُّصَلِّیَ فَلْیَذْبَحْ أُخْرَیٰ مَکَانَھَا، وَ مَنْ لَّمْ یَذْبَحْ فَلْیَذْبَحْ بِاِسْمِ الْلّٰہِ (متفق علیہ)
جس شخص نے نماز پڑھنے سے پہلے قربانی کی ہے ، اس کو اس کی جگہ میں دوسرا کرنا چاہیے اور جس نے قربانی نہیں کی ہے، اس کو اللہ کے نام سے ذبح کرنا چاہیے۔
البتہ اگر دسویں کو کسی وجہ سے نماز نہیں پڑھی، تو گیارھویں کو نماز سے پہلے قربانی جائز ہے۔ اسی طرح جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی، یا شہر میں فتنہ کی وجہ سے نماز کی توقع نہیں ، تو وہاں دسویں کو صبح صادق کے بعد قربانی درست ہے۔ (مالابد منہ)
اس لیے کہ جب نماز ہی نہیں ہے، تو پھر انتظار کس کا ۔ اگر امام نماز میں تاخیر کرے، تو زوال تک قربانی میں بھی تاخیر کرے۔البتہ اگر مسجد میں عیدگاہ سے پہلے نماز ہوجائے، تو اب سب کے لیے قربانی کرنا جائز ہوگا، خواہ نماز میں شریک ہوا ہویا نہ ہوا ہو، یا عیدگاہ میں مسجد سے پہلے نماز ہوجائے، تو قربانی جائز ہے، الغرض کسی ایک جگہ نماز ہوجانی چاہیے، جہاں بھی نماز ہوئی ، قربانی درست ہوگی۔ نماز کے بعد خطبہ سے پہلے قربانی درست ہے ؛ مگر خلاف اولیٰ ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ نماز اور خطبہ ؛ دونوں سے فارغ ہوکر قربانی کرے ۔ (مالابد منہ)
اگر قربانی کے دن گذر گئے اور اس پر قربانی واجب تھی اور اس سے کسی وجہ سے قربانی نہ ہوسکی، تو اگر جانور موجود ہے ، تو اسی کو صدقہ کردے، ورنہ اس کی قیمت صدقہ کرے۔
قربانی میں شرکت
بھیڑ، بکری اور دنبہ میں شرکت درست نہیں۔ صرف ایک شخص کی جانب سے درست ہے ۔ گائے، بھینس اور اونٹ میں ایک سے سات تک شریک ہوسکتے ہیں ۔ سات سے زائد درست نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
البَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ وَ الْجَزُوْرُ عَنْ سَبْعَۃٍ۔ (مسلم)
گائے سات شخصوں کی طرف سے اور اونٹ سات شخصوں کی جانب سے ۔
سات شخصوں کا ہونا ضروری نہیں ، صرف دو آدمی مل کر قربانی کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح تین یا چار یا پانچ یا چھ آدمی مل کر کریں، یہ بھی درست ہے؛ البتہ کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔(یعنی ایک حصہ مکمل ہو۔ حصہ میں تقسیم نہ ہو)۔ زیادہ ہونے میں کچھ حرج نہیں۔ اور سب کی نیت تقرب کی ہو، یعنی ثواب کی ۔ اگر نیت تقرب میں اختلاف ہو، تو کچھ حرج نہیں، جیسے کسی نے عقیقہ کی نیت کی ، کسی نے قربانی واجب کی، کسی نے نفل کی کسی نے منت کی ، تو اس اختلاف نیت سے قربانی میں کچھ حرج نہیں ہے، قربانی صحیح ہوگی۔
لیکن اگر کسی نے محض گوشت کھانے کی نیت سے شرکت کی ، تو کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی۔ (مالابد منہ)
سات شخصوں نے مل کر گائے خریدی اور قربانی کرنے سے پہلے کسی ایک نے انتقال کیا، اگر اس کے کل وارثوں سے اجازت قربانی کی دی ، تو صحیح ہوگی، ورنہ قربانی کسی کی بھی نہیں ہوگی۔
غریب کی قربانی
جس پر قربانی واجب نہ تھی ؛ مگر اس نے ثواب کی نیت سے قربانی کا جانور خریدا، تو اب اس پر اس جانور کی قربانی کرنا واجب ہوگیا۔ البتہ اگر وہ جانور قربانی کرنے سے پہلے مرجائے یا چو رڈکیت لے جائے، تو اس پر دوسرا خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں ؛ لیکن اگر عیب دار ہوجائے ، خواہ وہ عیب ایسا ہو کہ اس کی موجودگی میں اس کی قربانی جائز نہیں، تو اسی کو قربانی کر ڈالے، دوسرے خریدنے کی حاجت نہیں۔ اگر خریدے گا تو دونوں کی قربانی کرنا ہوگا۔
امیر کی قربانی
جس پر قربانی کرنا واجب تھا، اس نے ایک جانور خریدا، اس کے بعد وہ مرگیا، یا کھوگیا، یا چور لے گیا، یا ایسا عیب دار ہوگیا جو قربانی سے مانع ہو تو اس پر دوسرا خرید کر قربانی کرنا واجب ہے، اگرچہ خریدنے کے بعد پہلا بھی مل جائے تو اس پر کسی ایک کی قربانی کرنا واجب ہے، دونوں کا نہیں۔
میت کی قربانی
اگر مرنے والے نے قربانی کی وصیت کی اور اس نے اتنا مال چھوڑا ہے کہ اس کے تہائی مال سے اس کی وصیت پوری ہوسکتی ہے ، تو ورثہ پر لازم ہے کہ اس کی طرف سے قربانی کرے ۔ اور اس کا تمام گوشت پوست صدقہ کردے،اس گوشت میں سے ورثہ کو کھانا درست نہیں؛ لیکن اگر کسی نے میت کی وصیت کے بغیر ثواب پہنچانے کے لیے اس کے نام سے قربانی کی ، تو اس گوشت کا کھانا اور دوسروں کو کھلانا ہر طرح جائز ہے ، انسان کو چاہیے اپنے مرنے والوں کو یاد رکھیں اور ان کے نام سے قربانی کرکے ان کو ثواب پہنچائیں۔ حضرت حَنَش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے ان سے عرض کیا: یہ کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں، اس لیے ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ (ابو داود)
یعنی ایک اپنی طرف سے اور ایک سرکار دوجہاں احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف سے کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس پر قربانی واجب ہو، وہ ایک جانور اپنی طرف سے ضرور کرے اور دوسرے جانور سے دوسرے کو ثواب پہنچائے۔
منت کی قربانی
اگر کسی نے نذر مانی کہ اگر ہمارا فلاں کام ہوگیا، یامیں بیماری سے اچھا ہواتو قربانی کروں گا۔ اس کے بعد اس کی حاجت پوری ہوگئی، تو اب اس پر قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا واجب ہے۔ اور اس کا گوشت نہ خود کھائے ، نہ امیروں کو کھلائے؛ بلکہ گوشت پوست؛ سب غریبوں کو دیدے۔ اگر خود کھائے یا امیروں کو کھلائے تو جتنا کھایا یا کھلایاہے، اس کی قیمت غریبوں کو خیرات کرے؛ ورنہ اس کے ذمہ اتنا واجب رہ جائے گا۔
منت کی قربانی کی وہی شرطیں ہیں جو اور قربانی کی ہیں۔ کم عمر یا عیب دار کی قربانی کرنا منت پوری کرنے کے لیے درست نہیں ۔
اگر کسی خاص جانور کی قربانی کی منت مانی ، تو اس خاص جانور کی قربانی کرنا ضروری نہیں ، اس کے بدلے میں دوسری کرنے سے بھی منت پوری ہوجائے گی۔ اگر منت جان کے بدلے جان کی ہو، تو حاجت پوری ہونے کے بعد کسی جانور کو ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کردے، اپنے مصرف میں نہ لائے ۔اور نہ اس کے لیے قربانی کے دنوں کا انتظار کرے۔
قربانی کرنے کا طریقہ
پہلے چھری تیز کرے اور کوئی دوسرا جانور اس جگہ نہ رہنے دے ۔ پھر اس کو قبلے کی رخ پر لٹائے ۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھے:
إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفَاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکینَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِی وَمَحْیايَ وَمَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَٰلکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمینَ أللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ۔
پھر بِسمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے۔ ذبح کرنے کے بعد کہے:
ألْلّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ ا8بْرَاھِیْمَ وَ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَا الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ۔
اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو مِنِّیْ کی جگہ پر مِنْ فُلان ابنِ فلاں کہے، یعنی مِنْ کے بعد اس کا ولدیت کے ساتھ نام لے۔ اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا بہتر ہے ،جب کہ جانتا ہو ، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے کیا؛ لیکن اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا ہو، تو وہاں پر کھڑا رہے ، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ائے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس آکر کھڑی ہو۔ (بزار)
قربانی کا گوشت
اگر میت اور منت کی وصیت کی قربانی نہ ہو ، تو اس کا گوشت خود کھاسکتا ہے اور دوسروں کو بھی دے سکتا ہے ہے ، خواہ امیر ہویا غریب، مسلمان ہو یا کافر۔ یہ بھی جائز ہے کہ کل گوشت خیرات کردے، یا کل کو اپنے کام میں لائے ؛ البتہ گوشت کا بیچنا جائز نہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ ایک تہائی گوشت غریبوں میں بانٹے اور ایک تہائی گوشت دوستوں ، رشتہ داروں کو دے اور ایک تہائی اپنے کام میں لائے۔
میت اور وصیت والی قربانی کا گوشت غریبوں کو دیدے۔ نہ خود کھائے ، نہ امیروں اور کافروں کو دے۔
چرم قربانی
چرم قربانی کا صدقہ کرنا افضل ہے ۔
أَنَّ عَلِیَّاً رَضِيَ اللّٰہُ عَنہُ أَخْبَرہَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَہُ أَنْ یَّقُوْمَ عَلیٰ بُدْنہِ وَأَنْ یَّقْسِمَ بُدْنَہُ کُلَّھَا لُحُوْمَھَا وَجُلُوْدَھَا وَجِلَالَھَا وَلَا یُعْطِيَ فِيْ جِزَارَتِھا شَیْءَاً۔ (بخاری،کتاب الحج، باب یُتصدَّقُ بِجلودِ الھدیِ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانیوں کا انتظام کروں اور اس کا گوشت، کھال اور جھول سب مسکینوں پر تقسیم کروں اور اس کی ذبح کی اجرت میں اس میں سے کچھ بھی نہ دیا جائے۔
لیکن اگر کوئی کھال صدقہ نہ کرے اور اس کو اپنے مصرف میں لائے تو لاسکتا ہے۔ یعنی اس سے کوئی چیز الگ سے مزدوری دے کر بنوالے یا خود بناکر استعمال کرے جائز ہے، لیکن اس کو بیچ کر اس کا پیسہ اپنے کام میں لانا، یا مسجد میں لگانا، یا مدرسین، یا ملازمین، یا امام و مؤذن کی تنخواہ میں دینا، یا مدرسہ کی عمارت میں لگانا، یا کوئی اجمالی کام کرنا ، یا کوئی چیز خریدنا درست نہیں۔ بیچنے کے بعد اس کے پیسے مستحقینِ زکوٰۃ پر خرچ کرنا ضروری ہے ۔ مدرسہ میں غریب طلبہ کی امداد کے لیے دینا بھی درست ہے۔
گوشت بنانے والے کو اجرت میں گوشت یا کھال کا دینا جائز نہیں۔ اس کو الگ سے مزدوری دے۔