دارلعلوم دیوبند سے جدائی پر مبنی زمانہ طالب علمی کی تحریر
اگر یہ حقیقت ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع اور مشرق میں غروب نہیں ہوسکتا، مچھلی خشکی میں اور پرندے دریا میں زندہ نہیں رہ سکتے ، نباتات پانی کے بغیر سرسبزو شاداب اور انسان زمین چھوڑ کر سمندر کی تہہ میں آباد نہیں ہوسکتے اور دودو چار ہی ہوتا ہے ، پانچ کبھی نہیں ہوسکتا ، تو یہ بھی ایک اٹل صداقت ہے اور سراپا حقیقت ہے کہ سچے تشنگان علوم نبویہ (خواہ وہ کہیں بھی ہوں، وہ کتنے ہی ناز و نعم اور عیش و آرام میں کیوں نہ پل رہے ہوں، زیبائش کے لیے عمدہ سے عمدہ حریر و ریشم اور افزائش کے لیے لذیذ ترین کھانے کیوں نہ دی جاتی ہوں) ازہر ہند کے سوا ایشیا کے کسی بھی دینی ادارے سے کما حقہ سیراب نہیں ہوسکتے اور نہ ہی کوئی معہد یا دینی ادارہ اور مدرسہ ان کی اس علمی پیاس کو بجھاسکتا ہے، اس لیے کہ ہر طالب علم کی سب سے بڑی آرزو اور دیرینہ تمنا یہ ہوتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند ہی اس کے تعلیمی سفر کی آخری منزل ہو۔ ع
چوں طالباں شنیدند از ہر طرف دویدند
باغ وبہار ایں جا، ایں گلشن دوامی
چنانچہ اسی دیرینہ آرزو اور تمنا کی تکمیل کے لیے ایام رمضان کے پورے ہونے سے قبل ہی اپنے عزیز و اقارب کی شفقت و محبت کو الوداع کہہ کر ماں باپ کے والہانہ عشق و الفت سے منھ موڑ کر اور وطن عزیز سے رخت سفر باندھ کر عازم دیوبند ہوجاتے ہیں ؛ کیوں کہ دارالعلوم دیوبند کی عظمت و رفعت اور علم و حکم کی مقناطیسی جاذبیت انھیں یہاں کھینچ لاتی ہے، وہ یہاں آکر جہاں ایک طرف محنت و مشقت کا بار گراں سر پر اٹھائے رہتے ہیں وہیں بمقتضائے انسانی فطرت ان کی زندگی دو ملی جلی متضاد کیفیتوں سے دوچار ہوکر گذرتی ہے ، کبھی آفتاب رجا کی شعاعوں سے ان کے آشیانہ دل کے تاریک گوشے یک دم منور ہوجاتے ہیں ، ان کے عزائم بلنداور امنگیں جواں ہوجاتی ہیں اور خوشیوں کے تمام چراغ روشن ہوجاتے ہیں ، توکبھی وحشت امتحان اور اس میں ناکامی کے خوف سے دل و دماغ کے خلیات تاریکیوں سے بھر جاتے ہیں ، امید و ولولے کے تمام چراغ یکا یک گل ہونے لگتے ہیں اور ان پر مایوسیوں اور اداسیوں کے بادل چھا جاتے ہیں۔
پھر وسط شوال میں ان کی قسمت کی عدالت قائم ہوتی ہے، اور وقت اس عدالت کا منصف ہوتا ہے، جو بالکل ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرتا ہے، چنانچہ جو طلبہ خوش نصیب ہوتے ہیں اور سچی لگن اور تڑپ لے کر اس مرکز علم و عرفان پر حاضری دیتے ہیں تو ان کے متعلق منصف اعظم کا یہ فیصلہ صادر ہوتا ہے کہ مادر علمی کی آغوش میں ان فرزندوں کے استراحت اور استقامت کی اجازت ہے ۔ اور جن کی قسمت ہی ساتھ نہیں دیتی، تو ان کے متعلق فیصلہ آئندہ سال کے لیے ملتوی کردیا جاتا ہے، اور اس طرح ایک امید کی راہ ان کے لیے ہموار رہتی ہے ۔
تمام تشنگان علوم نبویہ اسی راستے دارالعلوم دیوبند آئے اور آتے رہیں گے اور اس بحر بیکراں سے فیضیاب ہوتے رہیں گے؛ مگر یہاں سے محرومی کا فیصلہ نہ تو کبھی لکھا گیا اور نہ لکھا جائے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ)
جب ہمارا یہاں داخلہ ہوجاتا ہے، تو ہمارے لاشعور میں یہ خیال بس جاتا ہے کہ اب ہماری دنیا بس یہی چہار دیواری ہے ، اسی میں جینا ہے اور اسی میں مرنا ہے۔
ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا
ہمارے ذہنوں سے یہ خیال وراء الوریٰ تھا کہ کسی دن ہم یہاں سے خود ہی نہیں نکلیں گے؛ بلکہ نکالے جائیں گے ۔ کبھی ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس احاطہ کے علاوہ بھی دنیا ہے اور وہ بھی ایسی دنیا جو دارالعلوم کی دنیا سے بالکل مختلف اور بدلی ہوئی ہے ، ماحول بدلا ہوا ہے، حالات بدلے ہوئے ہیں ، سب کچھ بدلا ہوا ہے؛ بلکہ کیا کچھ نہیں بدلا ہوا ہے۔یہی وجہ تھی کہ ہم دنیا سے منھ موڑ کر صرف کتابوں سے جڑے رہتے تھے۔ہمیں کتابوں کی محفل قوس و قزح کی رنگینیوں سے زیادہ بھلی معلوم ہوتی تھی ، اس گنبد بیضا کے آگے بڑے بڑے شاہی قصورات و محلات ہیچ اور کمتر دکھائی دیتے تھے (جیسا کہ حقیقت بھی یہی ہے ) اس طلسم کدہ کی نت نئی رنگینیاں اور دل فریبیاں بے سود لگتی تھیں؛ جب کہ درس و تدریس کی مجلس کا ہر لمحہ اور اساتذہ کی پند ونصائح کا ایک ایک حرف قیمتی اور سونے سے زیادہ گراں محسوس ہوتا تھا ، کتاب اور کاپی قلم ہمار اوڑھنا بچھونا تھا، تحقیق و تدقیق ہمارا خاص مشغلہ رہتا تھا ، علم و حکم کے دربار میں غوطہ زنی ہمارا خصوصی امتیاز تھا ، محنت و عرق ریزی اور انتہائی کدو کاوش ہمارے روز کے معمولات تھے ، احکام شرعیہ پر عمل اور اس پر مداومت ہماری زندگی کا جزولاینفک تھا ، گناہوں سے اجتناب ہمارے لیے ایک معمولی امر تھا اور حرام وغیرہ کو ہم جانتے بھی نہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دارالعلوم جو کہ آسمان علم ہے، ہم اس کے چمکتے ستارے تھے ۔ ازہر ہند جوعلوم و فنون کا آفتاب و ماہتبا ہے ، ہم اس کی شعاعیں تھے۔ یہ قلعہ اسلام جو گلشن بہار ہے ، ہم اس کے معطر پھول تھے۔ یہ مرکز اسلام جو باغ ہے ، ہم اس میں عندلیب بن کر چہکتے پھدکتے تھے اور مسکراتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسی دنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دنیا کا تصور ہم کیسے کرسکتے تھے۔
وقت کا پہیا تیزی سے گھومتا رہا۔ اس گلشن میں پھلنے پھولنے کے لمحات اس سرعت سے برف کی طرح پگھلتے رہے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ قدرت کے غیبی ہاتھوں نے گھڑیوں کی رفتار بڑھا دی تھی ، جس کی وجہ سے گھنٹوں کی سوئی منٹوں اور منٹوں کی سوئی سکنڈوں کی رفتار سے چل رہی تھی اور بالآخر وہ وقت بھی آہی گیا، جس میں ہمیں یہ احساس دامن گیر ہوگیا کہ ہم اس جامعہ کے بس چند روز کے مہمان رہ گئے ہیں۔
لیکن دوستو! آج یہ کونسی گھڑی آگئی ہے کہ روح بے چینی محسوس کر رہی ہے ، دل تڑپ رہا ہے، جگر لہولہان اور آنکھیں خوں چکاں ہیں ، گلشن قاسمیہ کے عندلیبان مغموم مغموم، ان کے چہرے اداس اداس اور یارو احباب روٹھے روٹھے سے لگ رہے ہیں ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مادر علمی ہم سے روٹھ گئی ہے اور گلشن اسلام میں کوئی طوفان آگیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں ، الوداع الوداع کہہ رہے ہیں ، غم فرقت کی شکوہ و شکایت کر رہے ہیں اور آنکھیں ساون بن کے برس رہی ہیں۔
آخر ہم کیوں نہ روئیں؟ ہمیں رنج و غم کیوں نہ ہوَ جب کہ ہماری مادر علمی ہم سے چھوٹ رہی ہے ، جس کو پانے کے لیے ہم نے لاکھوں جتن کیے تھے ۔ ہمارا چہرہ مغموم کیوں نہ نظر آئے ، جب کہ ہماری آنکھیں قلعہ اسلام کی دیدار سے محروم ہوجائیں گی۔ ہمارا دل زخموں سے پارہ پارہ ؛ بلکہ ریزہ ریزہ کیوں نہ ہوجائے ، جب کہ ہمارے کان اب دارالحدیث کی پر کیف و مقدس صداوں اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پیارے پیارے نغموں کے لیے ترس جائیں گے ۔ ہاں ! ہمارے تمام شکوے و گلے اسی لیے ہیں کہ اب تمام احباب کی فرقت بھی نصیب نہیں ہوسکے گی ، جن کے ساتھ ہنستے بولتے تھے اور زندگی کے حسین ترین لمحات ان کے مابین گزارتے تھے ۔ ہماری روحوں کی بے چینی کا سبب یہی ہے کہ ساقی کوثر صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اس میخانے ، میخانہ کے جام و سبو اور ساقیان میخانہ کی عنایتوں اور نوازشوں سے ہم محروم ہونے والے ہیں۔ہمارا جگر لہولہان اسی لیے ہے کہ اس چمن کے پھولوں ، رات رانی کی مہکتی تیزخوشبووں، گل گلاب کی عطر بیزیوں، چمیلی کی معصوم اداوں اور کلیوں کے حسین منظروں کا نظارہ ہمارے لیے ایک مشکل امر ہوجائے گا؛ بلکہ اس چمن قاسم ہی میں آمدو رفت کوئی آسان نہیں رہ جائے گی۔ ہمیں کبھی دارالعلوم کی یاد یں رلائیں گی ،کبھی اساتذہ کی جدائی کا خیال جھنجھوڑے گا، کبھی احباب کا فراق ستائے گا اور کبھی قال اللہ و قال الرسول کے پرکیف نغموں کی یاد آئے گی۔
ساتھیو! یہ اجتماع و تفریق، یہ جدائی و جفائی ، یہ شادمانی و ناشادی، یہ وصال و فراق اور یہ دوری و مجبوری تو صرف تقدیر الٰہی کی کرشمہ سازیاں ہیں اور مقدرات الٰہی کے آگے ارسطو کی حکمت کام آتی ہے اور نہ ہی فارابی کی دانش مندی۔ لقمان کی دانائی کام دیتی ہے اور نہ ہی سکندر کے عزائم اور رستم کی جواں مردی سے کچھ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کی قوت و طاقت سے کچھ فرق پڑسکتا ہے۔لیکن ایک مرد مومن تو مشیت الٰہی کے آگے اپنا سر تسلیم خم کردیتا ہے اور سراپا رضا بتقدیر کا نمونہ بن جاتا ہے۔لہذا یہ کیسا گلہ اورکس کا گلہ؟ اور کیسا شکوہ؟ یہ کیسا غم اور کس کا غم؟ یہ کیسا درد اور کیسا صدمہ؟ یہ کیسی مایوسی اور کیسی اداسی؟ چھوڑیے ان باتوں کو اور بھلادیجیے ماضی کی یادوں کو۔ اور ان تمام باتوں کو ذہنوں سے یوں فراموش کردیجیے جیسے ان کا کبھی تصور ہی نہیں آیا تھا۔ اور میری جانب سے مبارک بادی قبول کیجیے کہ آج کے یہ لمحات اور گھڑیاں آپ کی زندگی کے تاریخی لمحات ہیں کہ آج آپ اس گلشن اسلام سے ان گنت علوم و فنون کے پھول اپنے دامن میں بھر کر لے جارہے ہیں ، نہر قاسمی سے سیراب ہوکر ، قاسمی کا خطاب حاصل کرکے اور قوم مسلم کے قائدین بن کر یہاں سے نکل رہے ہیں ۔ اور ایک ایسی عظیم نسبت حاصل کرکے جارہے ہیں ،جو سیدھے ساقی کوثر علیہ السلام تک جاتا ہے اور یہ نسبت دنیا کی سب سے قیمتی شئی ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایک عظیم سرمایہ بھی ہے ، لہذا اتنی عظیم نعمت اور زندگی کا بہترین سرمایا حاصل کرنے کے بعد شکوے شکایت اور نمناک آنکھوں سے نہیں؛ بلکہ آئے ان اشعار کے ساتھ جدا ہوتے ہیں کہ ع
تم گلے جو مل گئے سارا گلہ جاتا رہا