5 Apr 2018

روح بے چین ہے ، اس دل کی اذیت کیا ہے

دارلعلوم دیوبند سے جدائی پر مبنی زمانہ طالب علمی کی تحریر
اگر یہ حقیقت ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع اور مشرق میں غروب نہیں ہوسکتا، مچھلی خشکی میں اور پرندے دریا میں زندہ نہیں رہ سکتے ، نباتات پانی کے بغیر سرسبزو شاداب اور انسان زمین چھوڑ کر سمندر کی تہہ میں آباد نہیں ہوسکتے اور دودو چار ہی ہوتا ہے ، پانچ کبھی نہیں ہوسکتا ، تو یہ بھی ایک اٹل صداقت ہے اور سراپا حقیقت ہے کہ سچے تشنگان علوم نبویہ (خواہ وہ کہیں بھی ہوں، وہ کتنے ہی ناز و نعم اور عیش و آرام میں کیوں نہ پل رہے ہوں، زیبائش کے لیے عمدہ سے عمدہ حریر و ریشم اور افزائش کے لیے لذیذ ترین کھانے کیوں نہ دی جاتی ہوں) ازہر ہند کے سوا ایشیا کے کسی بھی دینی ادارے سے کما حقہ سیراب نہیں ہوسکتے اور نہ ہی کوئی معہد یا دینی ادارہ اور مدرسہ ان کی اس علمی پیاس کو بجھاسکتا ہے، اس لیے کہ ہر طالب علم کی سب سے بڑی آرزو اور دیرینہ تمنا یہ ہوتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند ہی اس کے تعلیمی سفر کی آخری منزل ہو۔ ع
چوں طالباں شنیدند از ہر طرف دویدند
باغ وبہار ایں جا، ایں گلشن دوامی
چنانچہ اسی دیرینہ آرزو اور تمنا کی تکمیل کے لیے ایام رمضان کے پورے ہونے سے قبل ہی اپنے عزیز و اقارب کی شفقت و محبت کو الوداع کہہ کر ماں باپ کے والہانہ عشق و الفت سے منھ موڑ کر اور وطن عزیز سے رخت سفر باندھ کر عازم دیوبند ہوجاتے ہیں ؛ کیوں کہ دارالعلوم دیوبند کی عظمت و رفعت اور علم و حکم کی مقناطیسی جاذبیت انھیں یہاں کھینچ لاتی ہے، وہ یہاں آکر جہاں ایک طرف محنت و مشقت کا بار گراں سر پر اٹھائے رہتے ہیں وہیں بمقتضائے انسانی فطرت ان کی زندگی دو ملی جلی متضاد کیفیتوں سے دوچار ہوکر گذرتی ہے ، کبھی آفتاب رجا کی شعاعوں سے ان کے آشیانہ دل کے تاریک گوشے یک دم منور ہوجاتے ہیں ، ان کے عزائم بلنداور امنگیں جواں ہوجاتی ہیں اور خوشیوں کے تمام چراغ روشن ہوجاتے ہیں ، توکبھی وحشت امتحان اور اس میں ناکامی کے خوف سے دل و دماغ کے خلیات تاریکیوں سے بھر جاتے ہیں ، امید و ولولے کے تمام چراغ یکا یک گل ہونے لگتے ہیں اور ان پر مایوسیوں اور اداسیوں کے بادل چھا جاتے ہیں۔
پھر وسط شوال میں ان کی قسمت کی عدالت قائم ہوتی ہے، اور وقت اس عدالت کا منصف ہوتا ہے، جو بالکل ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرتا ہے، چنانچہ جو طلبہ خوش نصیب ہوتے ہیں اور سچی لگن اور تڑپ لے کر اس مرکز علم و عرفان پر حاضری دیتے ہیں تو ان کے متعلق منصف اعظم کا یہ فیصلہ صادر ہوتا ہے کہ مادر علمی کی آغوش میں ان فرزندوں کے استراحت اور استقامت کی اجازت ہے ۔ اور جن کی قسمت ہی ساتھ نہیں دیتی، تو ان کے متعلق فیصلہ آئندہ سال کے لیے ملتوی کردیا جاتا ہے، اور اس طرح ایک امید کی راہ ان کے لیے ہموار رہتی ہے ۔ 
تمام تشنگان علوم نبویہ اسی راستے دارالعلوم دیوبند آئے اور آتے رہیں گے اور اس بحر بیکراں سے فیضیاب ہوتے رہیں گے؛ مگر یہاں سے محرومی کا فیصلہ نہ تو کبھی لکھا گیا اور نہ لکھا جائے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ)
جب ہمارا یہاں داخلہ ہوجاتا ہے، تو ہمارے لاشعور میں یہ خیال بس جاتا ہے کہ اب ہماری دنیا بس یہی چہار دیواری ہے ، اسی میں جینا ہے اور اسی میں مرنا ہے۔ ؂
ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا
ہمارے ذہنوں سے یہ خیال وراء الوریٰ تھا کہ کسی دن ہم یہاں سے خود ہی نہیں نکلیں گے؛ بلکہ نکالے جائیں گے ۔ کبھی ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس احاطہ کے علاوہ بھی دنیا ہے اور وہ بھی ایسی دنیا جو دارالعلوم کی دنیا سے بالکل مختلف اور بدلی ہوئی ہے ، ماحول بدلا ہوا ہے، حالات بدلے ہوئے ہیں ، سب کچھ بدلا ہوا ہے؛ بلکہ کیا کچھ نہیں بدلا ہوا ہے۔یہی وجہ تھی کہ ہم دنیا سے منھ موڑ کر صرف کتابوں سے جڑے رہتے تھے۔ہمیں کتابوں کی محفل قوس و قزح کی رنگینیوں سے زیادہ بھلی معلوم ہوتی تھی ، اس گنبد بیضا کے آگے بڑے بڑے شاہی قصورات و محلات ہیچ اور کمتر دکھائی دیتے تھے (جیسا کہ حقیقت بھی یہی ہے ) اس طلسم کدہ کی نت نئی رنگینیاں اور دل فریبیاں بے سود لگتی تھیں؛ جب کہ درس و تدریس کی مجلس کا ہر لمحہ اور اساتذہ کی پند ونصائح کا ایک ایک حرف قیمتی اور سونے سے زیادہ گراں محسوس ہوتا تھا ، کتاب اور کاپی قلم ہمار اوڑھنا بچھونا تھا، تحقیق و تدقیق ہمارا خاص مشغلہ رہتا تھا ، علم و حکم کے دربار میں غوطہ زنی ہمارا خصوصی امتیاز تھا ، محنت و عرق ریزی اور انتہائی کدو کاوش ہمارے روز کے معمولات تھے ، احکام شرعیہ پر عمل اور اس پر مداومت ہماری زندگی کا جزولاینفک تھا ، گناہوں سے اجتناب ہمارے لیے ایک معمولی امر تھا اور حرام وغیرہ کو ہم جانتے بھی نہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دارالعلوم جو کہ آسمان علم ہے، ہم اس کے چمکتے ستارے تھے ۔ ازہر ہند جوعلوم و فنون کا آفتاب و ماہتبا ہے ، ہم اس کی شعاعیں تھے۔ یہ قلعہ اسلام جو گلشن بہار ہے ، ہم اس کے معطر پھول تھے۔ یہ مرکز اسلام جو باغ ہے ، ہم اس میں عندلیب بن کر چہکتے پھدکتے تھے اور مسکراتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسی دنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دنیا کا تصور ہم کیسے کرسکتے تھے۔
وقت کا پہیا تیزی سے گھومتا رہا۔ اس گلشن میں پھلنے پھولنے کے لمحات اس سرعت سے برف کی طرح پگھلتے رہے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ قدرت کے غیبی ہاتھوں نے گھڑیوں کی رفتار بڑھا دی تھی ، جس کی وجہ سے گھنٹوں کی سوئی منٹوں اور منٹوں کی سوئی سکنڈوں کی رفتار سے چل رہی تھی اور بالآخر وہ وقت بھی آہی گیا، جس میں ہمیں یہ احساس دامن گیر ہوگیا کہ ہم اس جامعہ کے بس چند روز کے مہمان رہ گئے ہیں۔
لیکن دوستو! آج یہ کونسی گھڑی آگئی ہے کہ روح بے چینی محسوس کر رہی ہے ، دل تڑپ رہا ہے، جگر لہولہان اور آنکھیں خوں چکاں ہیں ، گلشن قاسمیہ کے عندلیبان مغموم مغموم، ان کے چہرے اداس اداس اور یارو احباب روٹھے روٹھے سے لگ رہے ہیں ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مادر علمی ہم سے روٹھ گئی ہے اور گلشن اسلام میں کوئی طوفان آگیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں ، الوداع الوداع کہہ رہے ہیں ، غم فرقت کی شکوہ و شکایت کر رہے ہیں اور آنکھیں ساون بن کے برس رہی ہیں۔
آخر ہم کیوں نہ روئیں؟ ہمیں رنج و غم کیوں نہ ہوَ جب کہ ہماری مادر علمی ہم سے چھوٹ رہی ہے ، جس کو پانے کے لیے ہم نے لاکھوں جتن کیے تھے ۔ ہمارا چہرہ مغموم کیوں نہ نظر آئے ، جب کہ ہماری آنکھیں قلعہ اسلام کی دیدار سے محروم ہوجائیں گی۔ ہمارا دل زخموں سے پارہ پارہ ؛ بلکہ ریزہ ریزہ کیوں نہ ہوجائے ، جب کہ ہمارے کان اب دارالحدیث کی پر کیف و مقدس صداوں اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پیارے پیارے نغموں کے لیے ترس جائیں گے ۔ ہاں ! ہمارے تمام شکوے و گلے اسی لیے ہیں کہ اب تمام احباب کی فرقت بھی نصیب نہیں ہوسکے گی ، جن کے ساتھ ہنستے بولتے تھے اور زندگی کے حسین ترین لمحات ان کے مابین گزارتے تھے ۔ ہماری روحوں کی بے چینی کا سبب یہی ہے کہ ساقی کوثر صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اس میخانے ، میخانہ کے جام و سبو اور ساقیان میخانہ کی عنایتوں اور نوازشوں سے ہم محروم ہونے والے ہیں۔ہمارا جگر لہولہان اسی لیے ہے کہ اس چمن کے پھولوں ، رات رانی کی مہکتی تیزخوشبووں، گل گلاب کی عطر بیزیوں، چمیلی کی معصوم اداوں اور کلیوں کے حسین منظروں کا نظارہ ہمارے لیے ایک مشکل امر ہوجائے گا؛ بلکہ اس چمن قاسم ہی میں آمدو رفت کوئی آسان نہیں رہ جائے گی۔ ہمیں کبھی دارالعلوم کی یاد یں رلائیں گی ،کبھی اساتذہ کی جدائی کا خیال جھنجھوڑے گا، کبھی احباب کا فراق ستائے گا اور کبھی قال اللہ و قال الرسول کے پرکیف نغموں کی یاد آئے گی۔
ساتھیو! یہ اجتماع و تفریق، یہ جدائی و جفائی ، یہ شادمانی و ناشادی، یہ وصال و فراق اور یہ دوری و مجبوری تو صرف تقدیر الٰہی کی کرشمہ سازیاں ہیں اور مقدرات الٰہی کے آگے ارسطو کی حکمت کام آتی ہے اور نہ ہی فارابی کی دانش مندی۔ لقمان کی دانائی کام دیتی ہے اور نہ ہی سکندر کے عزائم اور رستم کی جواں مردی سے کچھ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کی قوت و طاقت سے کچھ فرق پڑسکتا ہے۔لیکن ایک مرد مومن تو مشیت الٰہی کے آگے اپنا سر تسلیم خم کردیتا ہے اور سراپا رضا بتقدیر کا نمونہ بن جاتا ہے۔لہذا یہ کیسا گلہ اورکس کا گلہ؟ اور کیسا شکوہ؟ یہ کیسا غم اور کس کا غم؟ یہ کیسا درد اور کیسا صدمہ؟ یہ کیسی مایوسی اور کیسی اداسی؟ چھوڑیے ان باتوں کو اور بھلادیجیے ماضی کی یادوں کو۔ اور ان تمام باتوں کو ذہنوں سے یوں فراموش کردیجیے جیسے ان کا کبھی تصور ہی نہیں آیا تھا۔ اور میری جانب سے مبارک بادی قبول کیجیے کہ آج کے یہ لمحات اور گھڑیاں آپ کی زندگی کے تاریخی لمحات ہیں کہ آج آپ اس گلشن اسلام سے ان گنت علوم و فنون کے پھول اپنے دامن میں بھر کر لے جارہے ہیں ، نہر قاسمی سے سیراب ہوکر ، قاسمی کا خطاب حاصل کرکے اور قوم مسلم کے قائدین بن کر یہاں سے نکل رہے ہیں ۔ اور ایک ایسی عظیم نسبت حاصل کرکے جارہے ہیں ،جو سیدھے ساقی کوثر علیہ السلام تک جاتا ہے اور یہ نسبت دنیا کی سب سے قیمتی شئی ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایک عظیم سرمایہ بھی ہے ، لہذا اتنی عظیم نعمت اور زندگی کا بہترین سرمایا حاصل کرنے کے بعد شکوے شکایت اور نمناک آنکھوں سے نہیں؛ بلکہ آئے ان اشعار کے ساتھ جدا ہوتے ہیں کہ ع
تم گلے جو مل گئے سارا گلہ جاتا رہا 



4 Apr 2018

صوفیا کی اصطلاح وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہودکی وضاحت

بسم اللہ الرحمان الرحیم
ماخوذ از: تاریخ دعوت و عزیمت: مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندویؒ ۔ 
وحدت الوجود کے جملے:سبحانی ما أعظم شانی (بایزید بسطامی) أنا الحق (حسین بن منصور حلاج) 
وحدت الوجود کے نظریے کے بانی : شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ہیں۔جس کی شرح یہ ہے ( جودو وجود کا قائل ہوا اور اس نے کہا کہ ایک اللہ کا وجود ہے اور ایک ممکن کا ، تو شرک کررہا ہے اور اس کا یہ شرک شرک خفی ہے اور جو صرف ایک وجود کا قائل ہواور اس نے کہا کہ وجود صرف اللہ کا ہے ، اس کے سوا جو کچھ ہے، وہ اس کے مظاہر ہیں اور مظاہر کی کثرت اس کی وحدت کے منافی نہیں، تو یہ شخص موحد ہے)۔اللہ تعالی اپنے ذاتی کمال میں قطعا غنی ہے، لیکن اسمائی کمال میں عالم کے وجود خارجی سے مستغنی نہیں۔یہی مطلب ہے حدیث قدسی : کنتُ کنزا مخفیا فأحببتُ أن أعرفَ فَخلقتُ الخلقَ (الفتوحات المکیۃ، الجزء الثامن والثمانون)۔ ا قتباسات از: رسالہ علامہ عبدالحی بحرالعلوم لکھنوی) م؍۱۲۲۵، دعوت و عزیمت، ج؍۴، ص؍۲۷۶)
عقیدہ وحدت الوجود کے غلو کے اثرات یہ تھے کہ تلسمانی شراب پیتے تھے اور محرمات کا ارتکاب کرتے تھے کہ جب وجود ایک ہے تو حلال و حرام کی تفریق کیسی؟ بعض لوگوں سے کہاگیا کہ جب وجود ایک ہے تو بیوی کیوں حلال اور ماں حرام ہے؟ اس محقق(تلسمانی) نے جواب دیا کہ ہمارے نزدیک سب ایک ہے؛ لیکن ان محجومین (جو توحید حقیقی سے نا آشنا ہیں)نے کہا کہ ماں حرام ہے تو میں نے بھی کہا ہاں تم محجومین پر حرام ہے۔(دعوت و عزیمت،ج؍۴، ص؍۲۸۰؍
شیخ شرف الدین یحی منیریؒ (م؍۷۸۲ھ) وحدت الوجو د کے متوازی وحدت الشہود کا ذکر فرما تے ہیں کہ عام طور پر جس کو وحدت الوجود اور غیر حق کا عدم محض اور فنائے کا مل سمجھا جا تا ہے وہ در اصل وجود حقیقی کے سامنے دوسرے موجو دات کا اس طرح ماند پڑ جا نا اور مغلوب ہو جانا ہے جس طرح آفتاب کی روشنی کے سامنے ستا روں کی روشنی ماند اور ذات کا وجود بے حقیقت ہو جاتا ہے، 146146نا بودن دیگر و نا دیدن دیگر145145 تاریخ دعوت و عزیمت، ج؍ ۴، ص؍۲۸۵) 
وحدت الوجود کے سلسلے میں تین نظریات ہیں:
۱۔ وحدت الوجود تحقیق و معرفت کی آخری منزل ہے۔
۲۔ وحدت الوجود قوت متخیلہ کی کارفرمائی اور باطنی مشاہدہ کے سوا کچھ نہیں، یعنی اس کا مکمل انکار ۔
۳۔ وحدت الشہود وہ وحدت الوجودکے متوازی شئی ہے کہ حقیقت میں سالک کوجو کچھ نظر آتا ہے، وہ یہ نہیں کہ وجودواحد ہے اور واجب الوجود کے سوا ہر وجود حقیقتا منتفی ومعدوم ہے؛ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ موجودات اپنی جگہ پر موجود اور قائم ہیں ، لیکن واجب الوجود کے وجود حقیقی کے نور نے ان پر ایسا پرد ہ ڈال دیا ہے کہ وہ معدوم نظر آتے ہیں اور جس طرح ستارے آفتاب کے طلوع کے بعد اس کے نور کے سامنے اس طرح ماند پڑجاتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ ستارے نہیں ہیں، تو وہ کاذب نہیں ہوگا، اسی طرح موجودات اس وجود کامل و حقیقی کے سامنے ایسے بے حقیقت نظر آتے ہیں کہ گویا ان کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔(دعوت و عزیمت، ج؍ ۴، ص؍۲۸۷)
حضرت مجدد ؒ سرہندی نے ان تین مسلکوں کے مقابلے میں ایک چوتھا مسلک اختیار کیا ، وہ یہ کہ وحدۃ الوجد سالک کے سیر وسلوک کی ایک منزل ہے ، اگر توفیق الٰہی شامل حال رہی اور شریعت کا چراغ رہنما ہوا اور سالک کی ہمت بلند ہوتی ہے، تو دوسری منزل بھی سامنے آتی ہے اور وہ وحدۃ الشہود کی منزل ہے۔ (دعوت و عزیمت، ج؍ ۴، ص؍۲۸۷)۔ اس طرح حضرت مجدد ؒ ، وحدۃ الوجود کے نفی اور اس کے سب سے بڑے علم بردار شارح شیخ اکبر محی الدین بن عربی (جن کے علوم و معارف، نکات و اسرار اور کمالات روحانی کا انکار مکابرہ ہے) کے علو مقام، مقبولیت عند اللہ اور اخلاص کا انکار کیے بغیر ؛ بلکہ بلند الفاظ میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے ایک اضافہ فرماتے ہیں اور ایک نئی دریافت کا اعلان کرتے ہیں ، جو ایک طرف عقیدۂ جمہور مسلمین، کتاب و سنت اور شریعت حقہ کے مطابق ہے اور دوسری طرف پیچھے کی طرف لے جانے اور بڑے گروہ کے علوم و تحقیقات پر خط نسخ پھیرنے کے بجائے ایک ایسی چیز کا اضافہ کیا ہے، جس کے نصوص شرعیہ، اصول قطعیہ اور سیر انفس وآفاق کے آخری مکشوفات و تحقیقات میں مطابقت پیدا ہوجاتی ہے۔(دعوت و عزیمت ، ج؍ ۴، ص؍۲۸۸)۔
حضرت مجدد صاحب شیخ فرید بخاری کو لکھتے ہیں:
146146وہ توحید، جو سلوک کے دوران حضرات صوفیا کو حاصل ہوتی ہے ، اس کی دو قسمیں ہیں: توحید شہودی و توحید وجودی۔ توحید شہودی نام ہے : ایک دیکھنے کا ، یعنی سالک کا مشہود سوائے ایک کے نہ ہو۔ اور توحید وجودی نام ہے : ایک کو موجود جاننے کا اور غیرکو معدوم سمجھنے کا145145۔(دعوت و عزیمت ، ج؍ ۴، ص؍۲۹۲)
حضرت مجددؒ صاحب نے توحیدی شہودی کے اثبات اور اس کی ترجیح پر کیوں زور دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ توحید وجودی کے قائلین نے اپنے کو قیود شرعی و واجبات اسلامی سے آزاد سمجھ لیا تھا اور یہ سمجھ کر کہ جب سب کچھ حق کی طرف سے ہے ؛ بلکہ سب حق ہے ، تو پھر حق و باطل کی تفریق اور کفرو ایمان کے امتیاز کا کیا سوال؟ حضرت مجدد صاحب کے زمانے ( دسویں صدی ہجری ) میں اس توحید وجودی کا رنگ ہندستان پر ایسا چھایا ہوا تھا کہ عارفانہ ذوق رکھنے والے شعرا اس کے گیت گاتے تھے اور کفرو ایمان کو مساوی قرار دیتے تھے ؛ بلکہ بعض اوقات کفر کو ایمان پر ترجیح دیتے تھے، مثلا ؂
کفرو ایمان قرین یک دگرند
ہر کہ را کفر نیست ایمان نیست
پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ 
146146 پس ازیں معنی اسلام در کفر ست و کفر در اسلام، یعنی : تولج اللیل فی النہار وتولج النہار فی اللیل، مراد از لیل کفر ست، و مراد از نہار اسلام145145َ
آگے چل کر لکھتے ہیں: 
146146 العلم حجاب اکبرگشت، مراد ازیں علم عبودیت کہ حجاب اکبر ست، ایں حجاب اکبر اگر از میاں مرتفع شود، کفر بہ اسلام و اسلام بہ کفر آمیزدوعبارت خدائی و بندگی برخیزد145145۔ (دعوت و عزیمت ، ج؍ ۴، ص؍۲۹۷)۔
اس غلو کی وجہ سے شریعت کی گرفت طبیعتوں پر سے ڈھیلی پڑتی جاتی تھی۔ 
مغربی مصنف پیٹر ہارڈی نے لکھا ہے کہ 
146146 شیخ احمد سرہندی کی بڑی کامیابی یہی ہے کہ انھوں نے ہندی اسلام کو متصوفانہ انتہاپسندی سے خود تصوف کے ذریعے نجات دلائی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جس نظریہ کی انھوں نے تردیدکی اس کے مطلب و مفہوم اور قدرو قیمت کا ان کو ذاتی طور پر عمیق ادراک تھا145145۔ (دعوت و عزیمت ، ج؍ ۴، ص؍۳۰۰)

خطابت کے ایک سو ساٹھ نکات،اشارات ،ہدایات

نکات،اشارات ،ہدایات 
(قسط نمبر ۱۱ آخری قسط ،محمد یاسین جہازی کی کتاب : رہ نمائے خطابت سے اقتباس
 
(۱)مقرر کو نہایت ذکی الطبع اور حساس ہونا چاہیے ۔
(۲)ہر چیز کی ماہیت سے بحث کرنے اور علم ریاضی کے مسلمہ اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے سے آدمی بہت جلد حساس اور زکی الطبع ہوجاتا ہے ۔
(۳)مقرر کو مہذب ،پر وقار اور با تمیز ہونا نہایت ضروری ہے ۔
(۴)مقرر کے ہر ہر لفظ سے تہذیب وشرافت مترشح ہونی چاہیے ۔
(۵)’’ہر چہ بر خود نہ پسندی بہ دیگراں نپسند‘‘،تہذیب کی تحصیل کا اصل الاصول ہے۔
(۶)جو بات کہنی ہو،پہلے اس سے خود متأثر ہونا ضروری ہے ۔کیوں کہ بعض اوقات محض تأثر کی وجہ سے اس قدر کامیابی ملتی ہے کہ اتنی کامیابی قزنی دلائل سے بھی نہیں ملتی ۔اس لیے کہ سامعین کا جوش ہمیشہ فہم و فراست پر غالب رہتا ہے ۔
(۷)اچھا مقرر سر سے پاوں تک جوش کا مرقع بن جاتا ہے ۔اس کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اگر ممکن ہو،تو تقریر کی شکل میں متشکل ہوکر حاضرین کے کانوں اور آنکھوں کے راستے ان کے دل ودماغ اور خیالات میں پیوست ہوجائیں۔
(۸)جب تک مقرر میں زبردست قوت متخیلہ نہ پائی جاتی ہو ،وہ با کمال مقرر نہیں ہوسکتا ۔
(۹)اگر مقرر نے اپنے تخیل کی اصلاح و درستی ملحوظ نہ رکھی ،تو گویا اس نے اپنے سرمائے کومعرض خطر میں ڈال دیا ۔
(۱۰)تقریر کا دوسرا نام اظہار خیالات ہے ۔جب متخیلہ ہی باطل ہو ،تو خیالات کی پاکیزگی کا نام لینا ہی فضول ہے ۔
(۱۱)کامیاب مقرر وہی ہے ،جس کی زبان میں تذبذب ہو اور نہ ہی تزلزل۔اور اس کی تقریر میں اول سے آخر تک ربط و تسلسل ۔
(۱۲)اعلیٰ مقرر بننے کے لیے منجملہ دیگر امور میں سے ایک عزم بالجزم بھی ہے ۔کسی مجلس میں کھڑاہونا اور پھر آزادی کے ساتھ خیالات کا اظہار کرنا بڑی دلیری اور جرأت کی بات ہے ۔خاص کر متنازع فیہ مسائل پر رائے زنی کرنے کیے لیے بڑی ہمت درکار ہے ۔
(۱۳)اگر ارادے میں استقلال اور طبیعت میں عزم کا مادہ ہو،تو مقرر ہمت و جرأت کی ایک زبردست طاقت اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے ۔ممکن ہے کہ وقت پر الفاظ یاد نہ آئیں،خیالات محو ہوجائیں، ہچکچاہٹ و لڑکھڑاہٹ کی کیفیت پیدا ہو جائے ؛لیکن جب ارادہ مضبوط ہوگا ،تو زبان کی لغزش ناممکن ہے ۔
(۱۴)مقرر کی شائستگی ،صداقت اور استقلال کامیابی کے ضامن ہیں ۔خود بینی و خود سرائی بے ہودگی ہے ، کیوں کہ اس سے سامعین متنفر ہوجاتے ہیں۔
(۱۵ )اعلیٰ درجے کی قوت گویائی کے بغیر کوئی شخص مقرر نہیں بن سکتا ۔
(۱۶)جو شخص فطری طور پر خوش بیان نہ ہو،وہ اپنے اندر ادبی لیاقت پیدا کرنے سے خوش بیان اور زبان آور ہوسکتا ہے،اس لیے مقرر کے لیے علم ادب کی تکمیل کرنی ضروری ہے ۔
(۱۷)عمدہ مقرر بننے کے لیے نیک چلنی اتنے ہی ضروری ہے ،جتنے کہ آئینے کے لیے صفائی۔ 
(۱۸)بد چلن آدمی کے دل میں وہ توانائی اور آزادی نہیں ہوتی ،جو خیالات کی پیدائش اور ان کے اظہار کے لیے لازمی ہے ،کیوں کہ وہ ہر لفظ پر چونک اٹھتا ہے ۔بات بات پر دل میں خفت پیدا ہوتی ہے۔ حوصلہ و ہمت کو وہ پھر اکٹھا کرتا ہے اور بیان کرنے کوشش کرتا ہے ؛مگر باطنی کمزوری پھر زبان پر تالا ڈال دیتی ہے ۔
(۱۹)جو شخص اپنے عیوب کی وجہ سے انگشت نما ہو ،وہ کبھی بھی ایک مقرر کی حیثیت سے لوگوں میں اثر پیدا نہیں کرسکتا ۔
(۲۰)جب بد چلن مقرر اسٹیج پر نماں ہوتا ہے ،تو پبلک میں اس کے متعلق چہ می گوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
(۲۱)جب کوئی نیک چلن مقرر تقریر کرتا ہے ،تو خواہ اس کے الفاظ کیسے ہی بے تکے ہوں ،تقریر کیسی ہی لغو ہو؛لیکن فقط اس کا نیک ہونا ہی پبلک کے لیے سب سے بڑی سفارش ثابت ہوتا ہے ۔اس کی نیکی کے خیال سے سامعین کے دلوں میں اس کی عزت و عظمت پیدا ہوجاتی ہے ۔
(۲۲)جب تک انسان تعلیم و تربیت اور عمدہ خصائل وفضائل کی تحصیل نہیں کرتا، اس وقت تک صرف ذاتی اوصاف اور قدرتی صلاحیت کی وجہ سے اعلیٰ درجے کا مقرر نہیں بن سکتا ۔
(۲۳)خوش بیانی اور علم باہمی رشتہ رکھتے ہیں ۔کسی بڑے شخص کا مقولہ ہے کہ فصاحت کو غذا درکا ر ہے اور یہ غذا علم ہے ۔
(۲۴)جب انسان کے پاس علم ہی نہ ہوگا ،توخیالات کہاں سے پیدا ہوں گے اور معلومات کے بغیر ایک مقرر کاکام نہیں چل سکتا ۔
(۲۵)سقراط کہتا ہے کہ کسی شئی پر بحث کرنے پہلے اس سے کما حقہ واقفیت رکھنا ضروری ہے ۔
(۲۶)مقرر کے لیے ضروری ہے کہ معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ اس کے ذہن و دماغ میں محفوظ ہو ۔
(۲۷)کائنات کا باریک بینی سے مطالعہ اور طبائع انسانی کے رجحانات کو پہچاننے کی استعداد پیدا کرنا ایک مقرر کے لیے ضروری ہے ۔
(۲۸) ایک فلاسفر کا مقولہ ہے کہ ایک مقرر کو انسانی زندگی کے عوارض و لواحق سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے۔ اور اس کے لیے علم النفس (سائکا لوجی )کا مطالعہ لازم ہے ۔
(۲۹)کوئی فن ہو یا ہنر؛اس کی تکمیل محنت پر منحصر ہے ۔بس تقریر کی مشق بہم پہنچانا بھی پوری محنت و مشق کے بغیر ناممکن ہے ۔
(۳۰)صرف چند روز کی محنت فن تقریر کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہے ؛بلکہ اس کے لیے سالہا سال کی جفا کشی اور مسلسل مشقت درکار ہے ۔
(۳۱)ایک کامیاب مقرر بننے کے لیے مطالعہ نہایت ضروری ہے ۔
(۳۲)تقریر کا ملکہ بعض کے اندر فطری ہوتا ہے اور بعض محنت و مشق سے حاصل کر لیتا ہے ۔اس راہ میں فطرت آڑے نہیں آتی ،لہذا فطری ملکۂ تقریر نہ ہونے پر سیکھنے کی کوشش نہ کرنا دانش مندی نہیں ؛بلکہ حماقت ہے ۔
(۳۳)تقریر کا موضوع خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ،جب تک الفاظ موزوں نہ ہوں گے ،بے لطفی و بے نمکی رہے گی ۔اس لیے ایک مقرر کو ایسی تصانیف کا مطالعہ کرنا ضروری ہے،جو اپنے موضوع پر ایک عظیم شاہ کار اور ہر اعتبار سے مقبول ومستند نہ ہوں ۔
(۳۴)عمدہ عمدہ جملے اور شان دار تعبیرات کو یاد کر لینا اور انھیں موقع بموقع تقریر میں استعمال کرنا کوئی عیب نہیں ؛ بلکہ ایک خوبی ہے ۔
(۳۵)کثرت مطالعہ سے ذوق کی نعمت حاصل ہوتی ہے ۔اس لیے مقرر کے لیے شعر وسخن اور ادبیات کا اتنا مطالعہ ضروری ہے ،جس سے اتنا ذوق پید اہوجائے کہ وہ یہ فیصلہ کرنے پر قادر ہو جائے کہ یہ غالب کا شعر ہے ،یہ اقبال کی نظم ہے ،یہ مومن کا مصرع ہے ۔
(۳۶)اس خیا ل سے کہ فکر میں غلطی واقع نہ ہو ،منطق کی پیروی بھی ایک مقرر کے لیے ضروری ہے اور چوں کہ مقرر کاکام اظہا ر فکر ہے ،اس لیے اس علم کی تحصیل بھی لازمی ہے ۔
(۳۷)منطق وفلسفہ کی کم سے کم اتنی معلو مات ضروری ہے کہ مقرر یہ جان سکے کہ حد و تعریف سے کیا مراد ہے؟دلیل و حجت کسے کہتے ہیں ؟بحث قضایا میں کس کس بات کا ہونا ضروری ہے ؟
(۳۸)انگلستان کے مشہور مقرر گلیڈاسٹون کی رائے میں مقرر کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کی تعلیم عمدہ ہو ، کیوں کہ اس سے دل کو ایک طرح کی تقویت اور قدرت حاصل ہوتی ہے ۔دوسرے یہ کہ اس میں غور وفکر و دقیقہ رسی کا مادہ موجود ہو ۔غور وفکر خود بخود الفاظ کا لباس پہن کر عمدہ تعلیم کے فقرات کی مدد سے ایک تقریر کا مضمون بن جا ئے گی ۔
(۳۹)مقرر کے لیے لازمی ہے کہ اسے انشا پردازی میں کافی دسترس حاصل ہو ۔
(۴۰)جب تک مقرر قاد رالکلام نہ ہوگا ،اس وقت تک وہ فن تقریر میں کمال حاصل نہیں کرسکتا ۔
(۴۱)جب تک ایک مضمون کو نئے طور سے ادا کرنے کا طریقہ ،الفاظ کی چست بندشیں اور رنگا رنگ فقرے ، مقرر کے حافظے میں نہ ہو ں ،تو اس وقت تک وہ اس فن میں ناقص ہے ۔ 
(۴۲)مقرر کو چاہیے کہ کو ئی عمدہ اور مستند کتاب اٹھالے اور اس میں سے چند الفاظ یا فقرے منتخب کرکے الٹ پھیر کے دیکھے اور کئی اسلوبوں میں بیان کرنے کی کوشش کرے ۔اس سے طرز ادا میں جدت اور زبان میں روانی پید اہوگی ۔
(۴۳)کسی کتاب کا کوئی مضمون مطالعہ کیجیے ۔پھر کتاببند کرکے اس مضمون کو اپنے انداز میں اور اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرو ۔پہلے تھوڑی سی عبارت مشق کے لیے اختیار کرو۔ پھر رفتہ رفتہ پورے پورے مضمون اور پوری پوری کتاب کا خلاصہ بیان کرنے کوشش کرو۔اس طرح کی مشق تقریری صلاحت اجا گر کرنے میں کافی ممد و معاون ہوتی ہے ۔ 
(۴۴)کسی مستند شاعر کی نظم لے کر ذرا اونچی آواز سے شعر پڑھنے اور اس کے مطلب کو نثر میں ضروری الفاظ زیادہ کرکے بیان کرنے سے قوت بیانیہ کو ترقی ملتی ہے۔ 
(۴۵)تنہائی میں تقریر کی مشق کرتے وقت یہ فرض کرلینا چاہیے کہ ہم ایک بڑے مجمع کے سامنے بیان کر رہے ہیں۔اس سے جہاں جرأت و خود اعتمادی پید اہوگی،وہیں اسلوب واظہار میں بھی نکھارپیداہوگا۔ 
(۴۶)صرف لفاظی و لسانی اور چرب بیانی ،بکواس و فضول گوئی کے ہم معنی ہے ۔ 
(۴۷)مقرر کو اس بات سے واقف ہونا ضروری ہے کہ کون سا لفظ کس شکل میں اور کس موقعے پر موزوں ہے۔’’ہر سخنے وقت و ہر نکتہ مکانے دارد‘‘پر عمل ضروری ہے ۔ 
(۴۸)عصبی مزاج کامیابی میں بڑی حد تک سد راہ ہوتا ہے ؛لیکن حتیٰ المقدور اس پر غالب آنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
(۴۹)جب ایک جملہ شروع کرنے کے بعدا لفاظ یا ترکیب میں کوئی صرفی یا نحوی غلطی واقع ہوجائے ، تو اس کے دو علاج ہیں :یا تواس جملے کی اصلاح کی غرض سے اسے دوبارہ بولنا چاہیے یا صرف ونحو کوکچلتے ہوئے بے تکلف آگے بڑھ جانا چاہیے ؛لیکن غلطی اگر معمولی قسم کی ہوئی ہو اور تکلم میں کوئی جھول یا جھجھک واقع نہ ہوئی ،تو دوسری صورت زیادہ بہتر ہے ،ورنہ پہلی صورت اختیار کرنی چاہیے ۔ 
(۵۰)یاد رکھنا چاہیے کہ سامعین جب جوش میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں ،تو انھیں صرف و نحو پر توجہ نہیں ہوتی۔ ہاں تقریر میں کوئی رکاوٹ پیداہونے سے ان کو ضرور الجھن ہوتی ہے ۔اس لیے اغلاط سے ممکنہ حد تک بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
(۵۱)ایک مقرر کواعلیٰ درجے کا حافظہ درکار ہے ۔ایک بے تکلف تقریر کرنے کو والے کو بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی تقریرکے مطالب اول سے آخر تک پیش نظر رکھے اور تقریرکا مکمل خاکہ ذہن میں مرتب کرے۔
(۵۲)حافظے کی ترقی کے لیے خیالات کا یک جا ہونا ،توجہ کا یکسو رہنا ،دل کا شیطانی وسوسوں اور باطل افکار ونظریات سے پاک ہونا ضروری ہے ۔
(۵۳)اگر حافظے کی مضبوطی کے لیے کسی طبی دوا کی ضرورت محسوس کریں ،تو ضرور استعمال کریں ۔ایک بہتر ترکیب یہ بھی ہے کہ بہ تدریج مشق سے حافظے کو بڑھانے کی کوشش کی جائے ۔
(۵۴)کسی تقریر کو یاد کرنے کا عمدہ طریقہ یہ ہے کہ اس کے کئی حصے کر لیے جائیں اور ہر حصے کو الگ الگ مجلس میں یاد کریں ۔اس کے لیے سب سے بہتر وقت رات اور فجر کے بعد کا ہے ؛کیوں کہ اس وقت معدہ خالی رہتا ہے ،جس کی وجہ سے مضامین بہت جلد ذہن میں منقش ہوجاتے ہیں
(۵۵)سسرو کا قول ہے کہ ایک مقرر کو منطقیوں کی تیزی ،فلسفیوں کی دانائی ،شاعروں کی زبان ،مقننوں کا حافظہ اور عمدہ ایکٹر کی وضاحت اور اشارے درکار ہیں ۔
(۵۶)کسی جلسے میں شرکت کرنے سے پہلے اس کی نوعیت پر غور وفکر کر لینی چاہیے ۔ 
(۵۷)عام تقریروں کا مضمون موقع اور وقت کے لحاظ سے ہمیشہ نیا ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے نئے دلائل اور جدید طرز ادا میسر آجاتا ہے ،لیکن ایک واعظ اور اپدیشک کو ہمیشہ ایک ہی مضمون پر تقریر کرنی ہوتی ہے اور بڑی فکر یہ ہوتی ہے کہ کہیں سامعین پرانی باتوں سے اکتانہ جائیں،اس لیے ایک واعظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پرانی باتوں میں دل چسپی پیدا کرنے کے لیے نئے نئے نکات اور مؤثر و دل کش اسلوب بیان اختیار کرے۔ 
(۵۸)مقرر کی طرح واعظ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ جس عنوان پر وعظ کہہ رہا ہے، اس سے تجاوز نہ کرے اور اول سے آخر تک اس کو مؤثر اور دل کش بنانے کی کوشش کرے۔
(۵۹)تقریر ہو یا وعظ ،دونوں میں ایسی طوالت سے بچنا چاہیے ،جس سے سامعین اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور بے لطفی کا احساس ہونے لگتا ہے ۔
(۶۰)پبلک تقریروں میں زبان بالکل عام فہم ہونی چاہیے اور اس مشہور مقولے کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ’’داناؤں کی طرح غور کرو اور عوام کی طرح بولو‘‘۔
(۶۱)بے شمار استعارات و کنایات اور حد سے زیادہ رنگین بیانی سے لوگ ضرور مائل و مخاطب ہوتے ہیں،لیکن ایسی تقریر اثر انگیز اورعمل کا جذبہ پیدا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔
(۶۲)پبلک تقریروں میں خواہ دلائل زیادہ ہوں، لیکن اس کے جذبات سے اپیل نہایت ضروری ہے ۔تا کہ سب لوگ مقرر کی جانب متوجہ ہوجائیں۔
(۶۳)عوام میں تقریر کرنے کے لیے ظرافت اور خوش طبعی نہایت ضروری ہے ۔اس کے بغیر رنگ نہیں جمتااور مجمع مقرر کے قبضے میں نہیں آتا ۔
(۶۴)تقریر نہ تو اتنی تیز کرنی چاہیے کہ کہیں کہیں الفاظ حذف ہونے لگیں ؛کیوں کہ اس سے تقریر کی شگفتگی جاتی رہتی ہے اور نہ اتنا ٹھہر ٹھہر کر بولنا چاہیے کہ بھولنے کا شبہ گذرنے لگے ؛کیوں کہ اس سے ا کتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے ۔
(۶۵)تقریر ایسی ہر گز نہ ہو کہ دلائل ہوں ،تو بے تکے اور بے وزن۔نفس مضمون سے الفاظ کا کچھ سروکار نہیں۔ دعویٰ کچھ ،ثبوت کچھ؛غرض تمام چیزیں انمل ،بے جوڑ۔
(۶۶)تقریر کی ترتیب بیانی بالکل صاف اور واضح ہونی چاہیے ،غرض تقریر کو ایک سڑک کی مانند ہونی چاہیے ، جس پر فرلانگ اور میلوں کے پتھر نصب ہوتے ہیں ،جس سے ہر وقت معلوم ہوسکتا ہے کہ منزل کتنی دور ہے۔
(۶۷)تقریر میں حتیٰ المقدور کتابی زبان سے احتراز کرنا چاہیے ۔
(۶۸)مقرر کو اپنے سامعین کی قابلیت کے مطابق کلام کرنا چاہیے اگر وہ معمولی عقل و فہم کے لوگ ہوں ،تو نہایت توضیح و تشریح کے ساتھ بیان کرنا چاہیے ۔اور اگر وہ تعلیم یافتہ ہوں ،تو عالمانہ اسلوب اختیار کرنا چاہیے اور غیرضروری تشریح سے بچنا چاہیے ۔
(۶۹)تقریر کو نہایت پرجوش ہونا چاہیے اور یہ تین باتوں پر منحصر ہے :بلند الفاظ،مترادف الفاظ اور ترتیب الفاظ ۔ لہذا ان کو تقریر کرتے وقت مد نظر رکھنا چاہیے ۔
(۷۰)جو الفاظ رکیک،بازاری اور گندے سمجھے جاتے ہیں ،اور اہل ذوق ان کے استعمال کو ناپسند کرتے ہیں، ان سے پرہیز لازم ہے۔
(۷۱)تقریر کی آراستگی سے مردانہ ہمت اور پاکیزگی مترشح ہونی چاہیے ۔زنانہ بناوچناو حسن طبعی کے سامنے ہیچ ہے۔ 
(۷۲)کوئی خاص جملہ یا مخصوص لفظ مقرر کا تکیۂ کلام نہ ہو۔ 
(۷۳)ظرافت تقریر میں چٹنی کی حیثیت رکھتی ہے ۔خشک مضامین سے جو خشکی اور تکان پیدا ہوتی ہے ، اسے دور کرنے کے لیے یہ نہایت مفید ہے ۔
(۷۴)ظرافت میں اعتدال ضروری ہے ،ورنہ وہ پھکڑ یا مذاق بن جاتی ہے ۔
(۷۵)عمدہ اور سلیس تقریر حسب ذیل پانچ اجزا پر مشتمل ہوتی ہے :تمہید،دعویٰ،اثبات مدعیٰ،مراجعت،نتیجہ و خلاصہ ۔لیکن موقع اور وقت کے ماتحت بعض اجزا تبدیل اور حذف کیے بھی کی لاسکتے ہیں ۔
(۷۶)تمہید ایک عنوان کی طرح ہونا چاہیے ۔جس طرح عنوان سے مضمون کی مکمل کیفیت معلوم ہوجاتی ہے،اسی طرح تمہید ہی سے تقریر کی مکمل نوعیت واضح ہوجانی چاہیے۔ 
(۷۷)تمہید کو حسب موقع بہترین مقولوں ،شان دار مثالوں اور اچھے اشعار سے شروع کرنا چاہیے ۔کیوں کہ ان سے سامعین کی توجہ حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے ؛لیکن مضحکہ خیز اور تمسخر انگیز امور سے بچنا ضروری ہے۔ 
(۷۸)تقریرکے باقی دیگر حصے میں صحت لفظی کی اس قدر ضرورت نہیں ہوتی ہے،جتنی کہ تمہید میں ہوتی ہے۔ کیوں کہ شروع شروع میں سامعین نکتہ چینی کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔جب شروع ہی میں انھیں اپنا ہم نوا بنا لیں گے ،تو پھر وہ نکتہ چینی کے بجائے آپ کی تائید کریں گے ۔
(۷۹)تمہید تقریر کے تناسب سے بڑی چھوٹی ہونی چاہیے ۔ایسا نہ ہوکہ تقریر کا سارا وقت تمہیدہی میں گذر جائے اور بقیہ اجزا کے لیے دوسری نشست کا انتظار کرنا پڑے ۔اسی طرح تمہید میں دوسرے اجزا کی تفصیل نہیں ہونی چاہیے ؛ ورنہ وہ اپنے موقعے پر بالکل سبک اور بے اثر نظر آئیں گے اور مضامین مکرر ہونے کی وجہ سے اکتاہٹ کا باعث بنے گی ۔ 
(۸۰)تمہید کے بعد دعویٰ پیش کرنا چاہیے ۔دعویٰ بالکل صاف،مکمل،بے ساختہ اور نہایت واضح ہونا چاہیے کہ سامعین کو نفس مضمون کے متعلق کوئی شبہ باقی نہ رہے۔
(۸۱)تمثیلات اور نظائر سے کسی مضمون یا مطلب کی تشریح میں بڑی مدد ملتی ہے ۔
(۸۲)دلائل وبراہین کے لیے اول تو یہ ضروری ہے کہ وہ منتخب اور قوی ہوں ۔دوسرے یہ کہ ان کی ترتیب عمدہ ہو ۔ اور تیسرے یہ کہ وہ پر زور الفاظ میں بیان کیے گئے ہوں ۔
(۸۳)اثبات مدعیٰ کے درجنوں طریقے ہیں ۔ان میں سے ایک استقرا و استخراج بھی ہے۔اس کی تشریح یہ ہے کہ بتدریج ایک واقعے سے دوسرے واقعے کو ثابت کرتے جائیے اور اپنے دعویٰ تک پہنچ جائیے یا اس کے برخلاف دعویٰ سے ابتدا کیجیے اور اس کے اثبات یا تردید میں دلائل پیش کیجیے ۔ دلائل بالکل صاف اور الگ الگ ہوں ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ بے شمار ہوں ؛البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ وزنی اور قطعی ہوں ۔ 
(۸۴)مراجعت سے تقریر کا وہ حصہ مرادہے ،جس میں مقرر اپنے دعوے کودلائل قاطع اور براہین ساطع سے پایۂ ثبوت تک پہنچا کر سامعین کو نہایت پر جوش الفاظ میں اپنا موئید اور ہم خیال بنا نے کی کوشش کرتا ہے ۔
(۸۵)جس موقعے پر کسی امر کا یقین دلانا ہو ،وہاں زور اور فصاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔ لیکن جب ترغیب دینا مقصود ہو،تو اس کے بغیر کام نہیں چلتا ۔
(۸۶)بعض اوقات مقرر کسی واقعے سے خود متأثر ہوتا ہے اور حاضرین کو متأثر کرنے کے لیے اپنی آواز میں رونے کی سی کیفیت پیدا کرلیتا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ اس سے مجمع میں خاص اثر پڑتا ہے ۔لیکن افراط و تفریط کو ملحوظ نہ رکھنا سخت غلطی ہے ۔
(۸۷)تقریر کا آخری حصہ یعنی نتیجہ و خلاصہ کی اہمیت مسلم ہے ،کیوں کہ تقریر کا اختتام اگر اطمینا ن بخش نہ ہو،تو ساری کوشش بے کار ہوسکتی ہے ۔
(۸۸)اگر ساری تقریر میں دلائل کی بھر مار رہی ہو ،تو اختتام پر ان کا خلاصہ بیان کرکے اور دعوے کو ثابت قرار دے کر خاموش ہوجانا چاہیے ۔
(۸۹)خاتمے کی کوئی بھی صورت اختیار کی جاسکتی ہے ،لیکن ایسے انداز میں نہ ہو کہ حاضرین اسے غیر متوقع اور قبل از وقت سمجھ لیں ۔
(۹۰)زبانی یاد کرکے تقریر کرنا گرچہ وقت پر کام نکال دیتا ہے ،لیکن در حقیقت اس سے کوئی شخص مقرر نہیں بن سکتا؛کیوں کہ کبھی اگر برجستہ بولنے کی ضرورت پیش آجائے ،تو ایسا شخص کچھ نہیں بول سکتا یا تقریر کے دوران بھول جائے ،تو اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا ۔البتہ ابتدائی طور پر مشق کے لیے یاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تاہم رفتہ رفتہ بے ساختہ تقریر کرنے کی مشق کرنا ضروری ہے ۔
(۹۱)یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ مقرر سامعین کو حقارت آمیز الفاظ سے خطاب کرے۔اس لیے کسی بھی مجمع کو خواہ اس میں صرف جہلا ہی کیوں نہ ہوں ،عزت و وقار کی نگا ہ سے دیکھنا چاہیے اور معزز الفاظ سے خطاب کرنا چاہیے۔
(۹۲)جب ایک مقرر تقریر شروع کرتا ہے ،تو اس کے دل میں تمام سامعین کی شرکت خیال پیدا ہوتا ہے ، جس سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ مجمع کا مقابلہ کر رہا ہے ،اس لیے ایسے موقعے پر بڑی ہمت اور دلیری سے کام لینا پڑتا ہے ۔
(۹۳)جس طرح ایک ایک بڑے مجمع میں نوآموز گھبراتا اور مرعوب ہوتا ہے ،اسی طرح ایک مشاق مقرر کو اعلیٰ درجے کا جوش پیدا ہوتا ہے اور یہی ایک ایسا موقع ہوتا ہے،جہاں وہ بہتر سے بہتر تقریر کر سکتا ہے۔
(۹۴)مجمع میں جب مقرر کو اپنے حسن بیان اور عمدہ خیالات کی داد ملنی شروع ہوجاتی ہے ،تو اس کی طبیعت میں روانی اور تقریر میں جوش پیدا ہوجاتا ہے ۔
(۹۵)مقرر کی آوز نہایت صاف و شفاف،شیریں و بے عیب،لوچ دار ،خوش لہجہ اور پر درد ہونی چاہیے ۔
(۹۶)تقریر کے لیے سب سے عمدہ وقت کھانا کھانے کے تین یا چار گھنٹے بعد کا ہوتا ہے ۔ 
(۹۷)خالی پیٹ،بھوک وپیاس کی شدت یا ممتلی معدے کی حالت میں تقریر کرنا نامناسب ؛بلکہ ممنوع ہے۔سب سے بہتر حالت یہ ہے کہ بھوک و پیاس اور آرام و تکان ؛ہر اعتبار سے معتدل ہو۔
(۹۸)علیٰ الصباح تقریر کرنا بھی غیر موزوں ہے ،اس لیے کہ اس وقت حلق رطوبت سے صاف نہیں ہوتا اور معدہ بالکل خالی ہونے کی وجہ سے طبیعت پر زبردست زور پڑتا ہے ۔
(۹۹)ہکلانا ،تتلانا ،دانت پیسنا ،ناگوار و کریہہ صورت بنانا ،ناک منھ چڑھانا ،بے موقع ہنسنا ،بے تحاشا قہقہے لگانا ، جلدی جلدی سانس لینا ،اور اتنے لمبے چوڑے جملے استعمال کرنا کہ ان کے پورا کرنے سے پہلے سانس لینے کے لیے کئی بار ٹھہرنا پڑجائے ،تلفظ ،لب ولہجہ ،جوش و گرج،سوز و گداز،اشاروں ،جنبشوں،حرکتوں اور طرز بیان کا خاص خیال نہ رکھنامقرر کے لیے سخت معیوب ہے۔
(۱۰۰)اگر سانس جلدی جلدی لینے کی عادت ہو ،تو منھ میں شفاف پتھر کے چند گول ٹکڑے رکھ کر دم لیے بغیر کچھ اشعار وغیرہ گنگنانے کی کوشش کیجیے ۔اسی طرح اونچے نیچے ڈھلوان اور ناقابل گذر راستوں پر چلنے کی مشق کیجیے ۔لوگوں کی چیخ و پکا ر اور شور غل سے پیدا ہونے والے خوف و گھبراہٹ کو دور کرنے کے لیے کسی پر شور سمندر ، ترنم آسا آبشاریا نغمہ ریز دریا کے کنارے بے قابو موجوں کو سامعین تصور کرکے تقریر کی مشق کیجیے ۔
(۱۰۱)آواز کو پر زور بنانے کی ایک اور ترکیب یہ ہے کہ ہوا کے رخ منھ کرکے زورزور سے چلائیںیا کسی دل کش قدرتی مناظر کے ارد گرد کھڑے ہوکر کچھ گائیں ۔
(۱۰۲)تقریر کرتے وقت بالکل سیدھا کھڑا رہنا چاہیے اس طرح کہ سینہ تنا ہوا رہے،لیکن اتنا تنا ہوا نہ ہو کہ لب کشائی میں دقت ہو ۔اور اگر بیٹھ کر تقریر کر رہے ہیں ،تو کرسی سے ٹیک لگا کر یا بغیر ٹیک لگا کر جو صورت آپ کے لیے آرام دہ ہو،اسی صورت و ہیئت میں بیٹھ کر تقریر کریں۔
(۱۰۳)زکام سے بچنا چاہیے اور حفظ ما تقدم کے طور پر مناسب تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔ 
(۱۰۴)گلا خراب کرنے والے مشروبات ،تمباکو ،کھینی،گٹکے ترش اور زیادہ گرم چیزوں کے استعمال سے آواز بگڑجاتی ہے ۔بکثرت پان کھانا بھی نقصان سے خالی نہیں ہے ،اس سے زبان موٹی ہوجاتی ہے اور تلفظ میں نقص آجاتا ہے ۔
(۱۰۵)دانتوں کی حفاظت ضروری ہے ؛کیوں کہ اس کے بغیر آواز درست نہیں نکل سکتی ۔ 
(۱۰۶)کسی قدر گانے اور ترنم کا شوق پیدا کرنے سے بھی آواز ترقی پاتی ہے ۔ 
(۱۰۷)تقریر کرتے وقت گردن اور سینے پر زیادہ چست کپڑے نہیں ہونا چاہیے ۔ 
(۱۰۸)آواز کی درستگی کے لیے طبی دواؤں کا استعمال اور اس سلسلے میں حکیم سے مشورہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ 
(۱۰۹)لکنت اور لہجے کا پھسلنا بھی آواز کے لیے ایک زبردست عیب ہے ؛لیکن دوؤں سے اس کا علاج ممکن ہے۔مثلابادام اور مصری کا متواتر استعمال کافی مفید ہے۔
(۱۱۰)زیادہ بولنے، حدسے زیادہ چیخنے چلانے ،خلاف عادت کافی دیر تک تقریر کرتے رہنے اور بری طرح آواز نکالنے سے بھی آواز متأثر ہوتی ہے ،اس سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
(۱۱۱)سانس پر ہمیشہ قابو رکھنا چاہیے اور حتیٰ الوسع تقریر میں اتنی ہی دفع سانس لینے کی کوشش کرنی چاہیے ، جتنی کہ ضرورت ہو ،ضرورت سے زیادہ سانس لینا تقریر میں بے لطفی پیدا کر دیتا ہے ۔
(۱۱۲)سانس کو نتھنوں سے کھینچنی چاہیے اور تقریر میں جس جملے پر وقفہ لازم ہو ،وہیں پر دم لینا چاہیے ۔سانس کی اصلاح کے لیے یوگا کا حبس دم کا عمل یا یہ کہ سانس کو آہستہ آہستہ لینا اور آہستہ آہستہ نکالنا بہت مفید ہے ۔
(۱۱۳)علما کی صحبت ،ان کی تقریروں کی سماعت و مشاہدہ اور زبان دانوں سے گفتگو سے عموما تلفظ صحیح اور لب و لہجہ درست ہوجاتا ہے ۔
(۱۱۴)الفاظ میں زیروزبر ،تشدیدومد،اور حرکات و سکنات کے اغلاط کا ارتکاب ،مقرر کی حیثیت کو مجروح کر دیتا ہے ۔
(۱۱۵)آواز کی بلندی اور پستی کے متعلق یہ خیال رکھنا کافی ہے کہ سامعین کے مقام اور حسب موقع بلند یا پست کیا جائے ۔
(۱۱۶)سامعین پر مقرر کی حرکات و سکنات کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے ۔
(۱۱۷)ہاتھوں اور سر کی جنبش میں بھدا پن اور بد تہذیبی نہیں ہونی چاہیے ،مثلا مونڈھے چڑھانا ، ہتھیلیاں پیٹنا ، تالیاں بجانا ،آنکھیں مٹکانا،چاروں طرف ناچناوغیرہ۔
(۱۱۸)تقریر کے وقت دل کی کیفیت چہرے سے عیاں ہونی چاہیے ،مثلا اگر تقریر کا موضوع غم ہے ،تو چہرے سے بھی غم ظاہر ہونا چاہیے ۔اگر غصے کا اظہار ہے ،تو چہرہ بھی تمتما رہا ہو۔لیکن منھ بنانا،چہرہ بسورنا ، آنکھیں گھمانا،گال پھلانا سخت معیوب ہے ۔ 
(۱۱۹)بعض مقرر تقریر کے دوران آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور بعض جلد جلد جھپکاتے ہیں ؛یہ دونوں باتیں عیب میں داخل ہیں۔
(۱۲۰) مقرر کا لباس سادگی کا نمونہ ہونا چاہیے ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ داغ دار ،میلے کچیلے ،پھٹے پرانے کپڑے زیب تن کرلے؛بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیا نہ ہو تو نہ صحیح ،لیکن دھلے دھلائے ،صاف ستھرے اور اجلے ہو ۔ اور ایسا بھی پر تکلف اور بھڑک دار نہ ہو کہ سب لوگ تقریر سننا چھوڑ کر مقرر کا لباس ہی دیکھنے میں رہ جائے ۔
(۱۲۱)تقریر کی سادگی اور جملوں کا اختصار نہایت مؤثر ثابت ہوتا ہے ؛لیکن نہ اتنی سادگی کہ مضمون بالکل عامیانہ ہوجائے اور نہ اتنا اختصار کہ مطلب فوت ہوجائے ۔
(۱۲۲)اگر تقریر کے دوران اپنے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت پیش آجائے ،تو اپنا تذکرہ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ کرنا چاہیے ۔اگر خود ستائی بھی عاجزانہ انداز میں کی جاتی ہے ،تو سامعین میں کچھ برا اثر پیدا نہیں ہوتا۔
(۱۲۳)تقریر میں اتنی مہارت پیدا کر لینی چاہیے کہ سامعین کو رلانا ہنسانا ،آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو ۔
(۱۲۴)اگر تقریر مناظرہ کا پہلو رکھتی ہو ،تو مخالفین کا نام نہایت ادب کے ساتھ لینا چاہیے اور کبھی اشتعال اور غصے سے مغلوب نہیں ہونا چاہیے ۔
(۱۲۵)مناظرہ میں کبھی ذاتیات پر حملہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ایسے الفاظ استعمال کرنا چاہیے، جن کی شریفانہ اخلاق اجازت نہیں دیتی ۔اور جو دوسروں کی دل آزاری کا باعث ہوں ۔
(۱۲۶)اگر جانب مخالف آپ کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرے،تو تحمل سے کام لینا چاہیے اور شائستگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے ۔
(۱۲۷)غصے سے عقل مغلوب ہوجاتی ہے اور ذہن اپنا کام کرنا بند کردیتا ہے ۔کبھی کبھار جانب مخالف اسی لیے غصہ دلانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ آپ کو غصہ دلا کر اپنی بازی مار لے جائے ،اس لیے جانب مخالف کی کسی باتوں پر غصے میں نہیں آنا چاہیے اور اس کی اس سازش کو سمجھنا چاہیے ۔
(۱۲۸)اگر کوئی بات بحث و تنقیح کے بعد ثابت ہوجائے ،تو کج بحثی اور کٹ حجتی سے پرہیز کرنا چاہیے اور اسے تسلیم کرتے ہوئے کوئی مناسب تاویل سے چھٹکارہ پانے کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔
(۱۲۹)دوران تقریر اس بات غورپر کرتے رہنا چاہیے کہ آپ کی تقریر سامعین پر کیا اثر مرتب کررہی ہے ۔ آپ کے کس انداز اور کن باتوں سے زیادہ متأثر ہورہے ہیں ۔اور آئندہ بھی وہی طریقہ اختیار کیجیے ،جو تجربے سے معقول ہو۔
(۱۳۰)ہمیشہ اپنی غلطیوں اور نا مناسب باتوں پر غور کرتے رہنا چاہیے۔
(۱۳۱)جب آپ کا مخاطب ایسا مجمع ہو،جس میں مرد وعورت دونوں ہوں ،تو اپنی تقریر میں دونوں کو مخاطب بنائیے ۔عورتوں کو فراموش نہ کیجیے ۔
(۱۳۲)سیاحت اور اسفارسے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے ،اس لیے مقرر کے لیے سیاحی اور اسفار کرنا مفید ہے ۔ اسی طرح ہر طرح کے علوم وفنون میں ماہر شخصیات سے تبادلۂ خیال کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہے ۔
(۱۳۳)صداقت اختیار کرنی چاہیے اور سامعین کا ہمدرد ہونا چاہیے ،کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ایک فصیح مقرر کے لیے بیش قیمت جوہر ہیں ۔
(۱۳۴)حتیٰ المقدور اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ آپ کو اپنے سے بالا اور بہتر مقرر کے بعد تقریر کرنی پڑے ؛کیوں کہ ایسی صورت میں مجمع پر کنٹرول کرنا بہت دشوار ہوتا ہے ۔اور اگر کبھی کرنی ہی پڑجائے ،تو اپنی پوری طاقت تقریر پر صرف کردینی چاہیے اور نہایت سلیقے کے ساتھ سامعین کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ایسے موقعے پر حتیٰ الامکان مختصر سے مختصر تقریر کرنی چاہیے ۔
(۱۳۵)کبھی چبا نہ کر نہ بولیے ۔الفاظ نوالہ نہیں ۔اس طرح بولیے کہ حلق سے نکلی اور حلق میں پہنچی ۔آوز ذریعۂ ابلاغ ہے ۔گلا صاف ہوگا ،تو آواز ستھری ہوگی۔
(۱۳۶)صبح و شام کی سیر میں کھلی ہوا ،آپ کی آواز کو پروان چڑھا سکتی ہے ۔آواز کے ساتھ ایک بنیادی چیز اظہار ہے کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں،وہ کس طرح کہتے ہیں ؟اظہار ایک ایسا وصف ہے ،جو ردو قبول کی فضا پیداکرتا ہے۔آپ کے اظہار میں دل آویزی نہیں ،تو آپ کی عمدہ سے عمدہ بات بھی غیر مؤثر ہوگی ۔آپ نے کئی دفعہ محسوس کیا ہوگا کہ ایک ہی بات مختلف زبانوں سے اظہار کی بدولت ،مختلف تاثیر پیدا کرتی اور اظہار کی مختلف لہروں سے گرم ،سرد ، مرطوب اور معتدل ہوجاتی ہے ۔جب تک آپ اظہار میں دست گاہ حاصل نہ کرلیں ،اس وقت تک آپ کا تأثر گہرا نہیں ہوسکتا اور نہ خطابت کا روپ ہی نکھر سکتا ہے۔اظہار کی آب و تاب آپ جید مقرروں ، نام ور شاعروں ،آپ کے مطالعے کی وسعت اور مشق و تمرین سے معلوم کر سکتے ہیں ۔
(۱۳۷)اشارات خیالات کے ترجمان ہیں ۔ہم زبان سے الفاظ بولتے اور ہاتھوں کی حرکت سے ان کا وزن قائم کرتے ہیں ۔ہمارے چہرے کی سلوٹیں ،باہوں کے زاویے اور آنکھوں کے ڈورے ہماری خطابت کا اعلامیہ ہیں ۔ عوام ان سے الفاظ ہی کی طرح مستفید ہوتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ اشارات حقیقی ہوں ، مصنوعی نہ ہوں ؛ورنہ تقریر کا تأثر تاراج ہوجاتا ہے ۔
(۱۳۸)آپ جس موضوع ،عنوان یا مضمون پر تقریر کرنا چاہتے ہیں ،اس کی تیاری ضرور کیجیے ۔کسی کاغذ کے پرزے پر اشاراتی نوٹ لینا کوئی عیب نہیں ۔ذہنی تیاری ضرور کیجیے ۔تیاری وزن بڑھاتی ہے ۔جو کچھ آپ کے ذہن میں ہوتا ہے ،اس میں اضافے کا موجب ہوتی اور زبان و بیان میں تسلسل و آرائش کا باعث بن جاتی ہے ۔ 
(۱۳۹)جس موضوع یا مضمون پر تیاری کریں ،اس کے عمومی دلائل کو اپنے لہجے میں بیان کریں ؛لیکن اصل خوبی یہ ہے کہ اپنے موضوع و مضمون کے لیے کوئی نئی بات ضرور پیدا کریں ۔
(۱۴۰)ایسے موضوع پر کبھی بھی نہ بولیں ،جس سے آپ کو دل چسپی نہ وہ، یا جس کے بارے میں آپ کو معلومات نہیں ہیں ۔محض طلاقت لسانی سے آپ کسی موضوع پر قادر نہیں ہوسکتے ۔
(۱۴۱)سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ تقریر کیسے شروع کریں ؟۔یاد رکھیے کہ ہر تقریر کا ابتدائیہ ہی سمع وبصر کو ملتفت کرتا ہے ۔ابتدائیہ کے بول اسی طرح اٹھائیے کہ اس کے الفاظ عوام کے سینے میں اس طرح کھب جائیں ، جس طرح شاعروں کے دل میں سرمئی نگاہیں اتر جاتی ہیں ۔آپ اسٹیج پر کھڑے ہوتی ہی اس طرح معلوم ہوں کہ آپ کوخود پر اعتماد ہے ۔آپ خوش چہرہ ہیں اور عوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم کلام ہونا چاہتے ہیں ۔ 
(۱۴۲)ابتدا ہی سے گرج گونج پیدا نہ کیجیے ۔نہ آواز میں جوش و خروش لائیے ۔ملائمت و سلاست سے چلیے ۔ جب لوگ ہمہ تن گوش ہوجائیں گے ،تو اظہار واسلوب کے زاویے اپنی حرارت خود قائم کر لیں گے ۔آپ کے ذہن میں یہ احساس ہونا چاہیے کہ آپ کا مقصد ان کے دماغوں پرفتح مندی حاصل کرنا ہے ۔ اور انھیں اس طرح اپنے ہاتھ میں لینا ہے کہ وہ آپ ہی کے ہوجائیں ۔
(۱۴۳)آپ مجمع کو اس وقت تک کسی ترغیب پر آمادہ نہ کریں ،یا عمل کی دعوت نہ دیں ،جب تک اس کو وحدت میں ڈھال کر اپنی مٹھی میں نہ کرلیں ۔عوام کبھی ایک نہیں ہوتے ،انھیں ایک کرنا ہی مقرر کا سب سے بڑا سحر ہے۔
(۱۴۴)ہمیشہ دوستانہ طریقے سے خطاب کیجیے ۔کبھی اجنبی انداز میں نہ بولیے ،اس غرض سے ایسا کوئی پہلو ضرور تلاش کریں ،جو آپ کے اور عوام کے مابین مشترک ہو ۔
(۱۴۵)اگر کوئی مقرر آپ سے پہلے اپنے خیا لات کی چھاپ لگا چکا ہے اور مجمع نے اس کی تحسین کی ہے ،تو اپنی تقریر کا آغاز اسی سے ملاکر اس طرح کیجیے ،گویا آپ اس کہانی کو آگے بڑھارہے ہیں ۔اس کے خلاف بولنے کی قطعا حماقت نہ کریں۔
(۱۴۶)خواہ مخواہ خطابت میں تموج پیدا نہ کیجیے ۔مصنوعی مدو جزر اور اختیاری گونج گرج کی مثال اس طرح ہے گویا آپ خواہ مخواہ ڈھولک پہ تھاپ لگا رہے ہیں اور بلاذوق بانسری بجا رہے ہیں ۔
(۱۴۷)خطیب کی واحد خوبی یہ ہے کہ اپنے سامعین میں اکتاہٹ پیدا نہ ہونے دے ۔اور جب اکتاہٹ پیدا ہونے لگے ،تو اپنے بیان میں اس طرح شگفتگی پیدا کرے کہ ان کے چہرے کھل جائیں ،اور ان کی توجہ ابھر آئے۔ یہی خطابت کی رعنائی ہے ۔
(۱۴۸)بعض مقرر شعروں کی بھر مار کرتے ہیں ۔ایک ایسا معاشرہ یا مجمع ،جو علمی طور پر ادھورا ہو ، اس میں شاعری کی برکھا واقعی لطف دے جاتی ہے ؛لیکن شاعری کی بہتا ت ہر موضوع اور مضمون کے لیے موزوں نہیں ۔یہ صحیح ہے کہ شعر سے خطابت میں کشش پیدا ہوتی ہے اور سامعین برجستہ اشعار پر جھومتے ہیں؛لیکن خطابت میں وہی شعر جوبن پیدا کرتا اور دلوں کو غنچوں کی طرح کھلاتا ہے ،جو تقریر سے اسی طرح منسلک ہو ،جس طرح ردیف کے ساتھ قافیہ۔ اور یہ محسوس ہو ،گویا کسی آہوِ چشم کا سحرِ نگاہ کاجل سے دہک اٹھاہے ۔اسی طرح ان کا استعمال بداہتا ہو، گویا حافظہ جاگ اٹھاہے اور فقروں کی تراش خراش کے ساتھ شعروں کا دریچہ کھل گیا ہے ۔ خطابت میں شعر آورد سے نہیں ،آمد سے تیر ونشتر ہوتے ہیں ۔
(۱۴۹)اپنے تخیل کی اڑانوں میں اضافہ کرتے رہیے ۔ان کی نشو نما اس طرح کیجیے کہ آپ خود محسوس کریں کہ آپ کوئی نئی چیز حاصل کر رہے ہیں اور آپ کے سامعین کو بھی احساس ہو کہ وہ خیالات کے نئے لالہ زاروں میں گل کشت کر رہے ہیں ۔ 
(۱۵۰)زبان سیکھتے رہیے ۔زبان سب سے بڑی دولت ہے ۔جس طرح اندھا بتا نہیں سکتا کہ اس کے گرد و پیش کیا ہے ،اسی طرح زبان سے محروم انسان اپنے خیالات پر روشنی نہیں ڈال سکتا ۔ایک بے زبان شخص علم کا مزار ہے ۔ زبان ہمیشہ سیکھیے ،ہر لحظہ سیکھیے اور آخر تک سیکھیے۔
(۱۵۱)کسی مقرر کے طرز(اسٹائل) کی نقل نہ کیجیے اور یہ کوشش کیجیے کہ وہ نقل آپ کی اصل ہوجائے ۔ اصل اصل ہے ،کاربن کاپی بننے سے کچھ فائدہ نہیں ۔دوسروں کے محاسن سے فائدہ ضرور اٹھائیے ۔ان کے اظہارو اسلوب اور بیان و زبان سے اپنی انفرادیت پیدا کیجیے ۔ایک نام ور مقرر کی تکنیک کا مطالعہ خود ایک تکنیک پیدا کرتا ہے ،لیکن اس کا چربہ اتارنا فنی علو کے لیے مفید نہیں ۔ناقل بہر حال ناقل ہی ہوتا ہے اور ان کا شعلہ بعجلت کجلاجاتا ہے ۔
(۱۵۲)کوئی ایک طرز خطابت کے لیے پائیدار نہیں ،کیوں کہ خطابت خیالوں کا میوزیم ہے ،جو آواز کی نیو پر قائم ہے ۔انسان مجموعہ ہے حواس خمسہ اور عناصر اربعہ کا ،اس کا سر ہے ،آنکھیں ہیں ،ناک ہے ،رخسار ہے ،منھ ہے، دانت ہے ،جگر ہے ،دل ہے وغیرہ ۔کسی ایک عضو کو خواہ وہ کتنا ہی اہم ہو ،ہم انسان نہیں کہہ سکتے ،اسی طر ح ہم کسی ایک طرز کو خطابت نہیں گردان سکتے ۔کئی طرزوں کی رنگا رنگی سے خطابت کی تصویر ابھرتی ہے ۔
(۱۵۳)ہمیشہ دوست کی حیثیت سے خطاب کیجیے اور عوام کو یہ تأثر کبھی نہ دیجیے کہ آپ ان سے کوئی ا لگ انسان ہیں یا ان کے ہدایت کار ہیں ۔آپ ان کے لیے معلم نہیں ؛بلکہ ان کے ہم سفر ہیں ۔وہ خود محسوس کریں کہ آپ ان کے میر کارواں اور سالار قافلہ ہیں ۔
(۱۵۴)انشا و شعر میں تکرار عیب ہے ؛لیکن تقریر و خطابت میں تکرار عیب نہیں؛بشر طیکہ آپ کسی نظریے یا مقصد کو عوام کے ذہنوں میں وحدت مقصد کی غرض سے اتارنا چاہتے ہیں اور آپ اس غرض سے الفاظ کو مختلف پیراہن پہنا سکتے ہیں ۔لیکن خواہ مخواہ تقریر کو طول دینے کے لیے مضامین کا تکرار سخت معیوب ہے ۔
(۱۵۵)جب مجمع بہت بڑا ہو ،تو آپ استدلال سے کہیں بڑھ کر جذبے سے کام لیں اور اپنے ذہن میں یہ بات نقش رکھیں کہ عوام جذبات کی مخلوق ہیں ؛کیوں کہ وہ استدلال کے نہیں، جذبے کے شیدائی ہوتے ہیں ۔
(۱۵۶)جس طرح صبح کی ہوا صحت کے لیے ضروری ہے ،اسی طرح صبح کا اخبار خطابت کے لیے لازم ہے ۔ آج کا انسان اخباری مطالعہ کے بغیر گھپ اندھیروں میں کھو جاتا ہے ۔ہر انسان علاقائی حدود کی شہریت کے باوجود ذہنی اعتبار سے عالمی ہوچکا ہے ۔
(۱۵۷)کبھی اس قسم کے صنائع و بدائع یا استعارے اور تشبیہیں استعمال نہ کیجیے ،جو عوام کی ذہنی استعداد کے لیے پہیلی ہوں ۔ان استعاروں اور تشبیہوں سے کام لیں ،جو عوام کے دماغ ،حلق سے نکلتے ہی اعادہ کرلیں اور وہ لطف محسوس کریں کہ آپ انھیں ساتھ لے کر چل رہے ہیں ۔
(۱۵۸)بسا اوقات اپنے سے برتر خطیب اور بلند تر شخصیت کا غیر شعوری دبدبہ آپ کو شعوری طور پر اس طرح مرعوب کرتا ہے کہ آپ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں ۔یہ ایک طبعی امر ہے ۔ہر مقرر کو اس حالت سے گذرنا پڑتا ہے ؛لیکن اس پر قابو پانا مشکل بھی ہے اور آسان بھی ۔اگر آپ کے پاس اپنے موضوع کا سرمایہ ہے اور آپ خطابت کے اور چھور سے واقف ہیں ،تو آپ خود اعتمادی سے اس حالت پر قابو پاسکتے ہیں اور اس کے خوف کو گرد کی طرح جھاڑ سکتے ہیں ۔جب تقریب و اجتماع اس انداز کا ہو ،تو اپنے موضوع کی ہمہ جہت تیاری کے بعد ہی خطاب کریں۔آپ کے حسن ابتدائیہ پر عوام کی تحسین آپ کے ذہن کو جگمگا دے گی اور آپ کا ذہنی راستہ کھلتا چلا جائے گا ۔
(۱۵۹)اپنی تقریر میں سامعین و حاضرین کو شریک کرنے کی غرض سے کسی بات پر تائیدو تو ثیق یا اقرارو عمل کا وعدہ کرنا کرانا کوئی عیب نہیں ؛البتہ زیادہ اصرار و الحاح نا مناسب ہے ۔
(۱۶۰)ایک با کمال خطیب بننے کے لیے ان نکات کا بار بار مطالعہ کرنا ،ان اشارات کا سمجھنا اور ان ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے ۔
بفضل ایزدی تعالیٰ اختتام شد

مبتدی خطیبوں سے چند گذارشات


(قسط نمبر (10) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

کسی بھی میدان کے نوواردوں کے سامنے سب سے بڑی پریشانی یہ در پیش ہوتی ہے کہ اپنے سفر کو کیسے شروع کریں ؟چنانچہ وہ اس مسئلے کو لے کراتنا حیران و سراسیمہ ہوجاتے ہیں کہ ہر کس ونا کس کی رائے و مشورے پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں ۔اس مرحلے پر اگر ان کی صحیح رہ نمائی نہیں ہو پاتی ہے ۔اور صلاح کار ان کی نفسیات کے مطابق اچھی صلاح نہیں دے پاتا ہے ،تو انھیں آگے چل کر ناکامی و نا مرادی کا منھ تک دیکھنا پڑ جاتاہے اور وہ یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ اس فن کا حصول میری ہمت و حوصلے سے باہر ہے ۔ اس لیے یہ مرحلہ جہاں نوواردوں کے لیے صبر آزما اور مشقت آمیز ہوتا ہے ،وہیں رہ نما ؤں کے لیے بھی محنت طلب اور آزمائش کن ہوتا ہے ؛ کیوں کہ اِنھیں کی نفسیاتی پرکھ کی صلاحیت اور ہر ہر طالب خطابت کے لیے جدا جدا مناسب ہدایات پر نوواردوں کی کامیابی و کامرانی اور ناکامی و نامرادی کا دارومدار ہوتا ہے ۔اس لیے اس مقام پر جہاں نوواردوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رہ نمائی کے لیے اُنھیں حضرات کو رہ نما بنائیں ،جو اس فن میں مکمل مہارت رکھتے ہوں اور ہر ایک کی نفسیات کے مطابق رہ نمائی کرسکتے ہوں ، وہیں رہ نماؤں سے یہ گذارش ہے کہ جو مبتدی آپ کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے آئیں ،ان کی صحیح اور مکمل رہ نمائی کریں ۔آپ ان کی زندگی سے کھلواڑ نہ کریں ۔اگر ان میں سے کسی کی اصلاح آپ کے بس کی بات نہ ہو،تو ان کے سامنے اپنی عاجز ی کا اظہار کردیں۔اور دوسروں سے رجوع کرنے کی نیک صلاح دے دیں۔خواہ مخواہ ان کا قیمتی وقت ضائع نہ کریں ۔ذیل میں عمومی ہدایات کے تحت ہم نوواردوں سے چند گذارشات کر رہے ہیں ۔
(۱)کسی بھی علم وفن سیکھنے کے لیے صرف دوہی طریقے ہیں :(الف)مطالعہ اور اس فن کی بنیادی باتوں سے واقفیت ۔(ب)مشق وتمرین۔ہرچند کہ فن سیکھنے کے لیے مطالعہ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ؛لیکن فنِ خطابت کے لیے سب سے زیادہ اہمیت مشق وتمرین کی ہے ۔اس لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ فنی نکتوں اور علمی موشگافیوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ وقت مشق و تمرین میں صرف کریں ۔
(۲)اگر چہ قدیم اساتذۂ فن نے سارا زور اس بات پرصرف کردیاہے کہ رٹ کر تقریر نہیں کرنی چاہیے ؛بلکہ ہمیشہ فی البدیہہ اور برجستگی کے ساتھ بولنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔یہ بات اس شخص کے حق میں تو قابل قبول ہوسکتی ہے ،جو خطبا کی فہرست میں آچکے ہیں ۔لیکن ایک مبتدی کے حق میں نہیں ۔کیوں کہ تجربہ بتلاتا ہے کہ ایک مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کی مشق جس قدر مفید اور سود مند ہے ،وہ بغیر رٹے کرنے میں نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مبتدی بحیثیت مبتدی اس درجہ خالی الذہن ہوتا اور اسٹیج کا خوف اس قدرمسلط ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی کہنے سے عاجز و قاصر رہتا ہے ۔ایسی صورت میں کوئی چیز اسے سہارا دے سکتی ہے ،تو وہ رٹی ہوئی بات ہی ہوسکتی ہے ،جو وہ اسٹیج کا خوف محسوس کرتے ہوئے بھی بول سکتا ہے ۔اور جب متعدد بار اس طرح سے رٹ کر تقریر کر لے گا ،تو اسٹیج کا خوف بھی دور ہوتا چلاجائے گا اور مواد ومیٹر کا ایک بڑا ذخیرہ اس کے سینے میں محفوظ ہوجائے گا ۔پھر وہ بلا خوف و تردد اپنے حافظے کے بھروسے پر خودبخود فی البدیہہ تقریر کرنے لگے گا اور رٹنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔اس لیے ایک مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کی مشق زیادہ مفید اور سود مند ہے ۔
(۳) آج کل طباعت کی سہولتوں اور رطب و یابس جمع کردینے والے مؤلفوں کی کثرت کی وجہ سے بری بھلی ہر طرح کی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں ،جس کی وجہ سے کتاب کے انتخاب کا مسئلہ ایک مبتدی کے لیے مشکل مسئلہ بن گیا ہے ۔اس لیے اس سلسلے میں راقم الحروف کا مشورہ یہ ہے کہ آپ انھیں خطیبوں اور ادیبوں کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ کریں ،جو اپنے فن میں سند کا درجہ اور اساتذۂ فن کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جیسے :مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شاہ عطاء اللہ بخاری ،مولانا علی جوہر ؒ ؒ مولانا حسین آزاد ،مولانا ڈپٹی نذیر احمد ،مولانا شبلی نعمانی ،ؒ مولانا الطاف حسین حالی ؒ ،علامہ اقبال ؒ ،مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ وغیرہ ۔ان کی رشحات و نگارشات کے مطالعہ کرنے سے جہاں آپ کی تقریری صلاحیت پروان چڑھے گی ،وہیں آپ کی زبان وبیان کی بھی اصلاح ہوگی اور طلاقت وسلاست بھی پیدا ہوگی۔
(۴)آپ ہر طرح کے جلسے جلوس میں شرکت کرنے کی کوشش کریں اور نام ور خطیبوں کے لب ولہجے ، اشارات وحرکات ،مدوجزر،زیروبم،اندازواسلوب ؛غرض ہر چیز پر نگاہ رکھیں اور ان سے کچھ حاصل کرنے کوشش کریں ۔
(۵)ٹیپ،سی۔ڈی اور موبائل جیسے جدید آلات و سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان خطیبوں کوبار بار سنیں اور دیکھیں ،جن کو بہ راہ راست اسٹیج پر سن چکے ہیں اور ان کو بھی جن کو بہ راہ راست نہیں سن سکیں ہیں۔ 
(۶)چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے،ملنے جلنے والے سبھی بے تکلف یارو احباب کے درمیان بے باکی کا مظاہرہ کریں اور جو کچھ بولیں ،قواعد زبان کی رعایت کرتے ہوئے بلا جھجھک اور انتہائی سلاست کے ساتھ بولیں۔اس میں کسی طرح کا خوف یا شرم کو مانع نہ بننے دیں ۔باقی مزید باتیں ’’مشق خطابت ‘‘کے زیر عنوان آرہی ہیں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ہوالموفق والمعین۔




مشقِ خطابت 
ماقبل میں یہ بات آچکی ہے کہ کسی بھی فن کے حصول کا سراسر دارومدارمطالعہ اور مشق پر ہے ۔گرچہ ہر فن میں مطالعہ کو اولیت حاصل ہے ؛لیکن فنِ خطابت میں سب سے زیادہ اہمیت مشق کی ہے اور مطالعہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ مشق وتمرین کا مسئلہ اگر زیادہ مشکل نہیں ہے ،تو اس قدر آسان بھی نہیں ہے کہ جس کا جس طرح جی چاہے ، اسی طرح مشق کرنا شروع کردے ؛بلکہ مشق خطابت کے بھی کچھ اصول اور زریں طریقے ہیں ،جن کو اپنا نااورصحیح طور پر برتنا ضروری ہے ۔ذیل میں وہ طریقے لکھے جارہے ہیں ،جنھیں خود مملکت خطابت کے بے تاج بادشاہوں نے عملی تجربے کے بعد مفید پایا ہے اور انھیں طریقوں پر چل کر وہ منزل مقصود تک پہنچے ہیں ۔
(۱)’’جو شخص خطابت سیکھنا چاہتا ہے ،اس کو چاہیے کہ بولنے سے پہلے لکھنے کی مشق کرے ۔مضمون لکھتے وقت کوئی سامنے نہیں ہوتا ،جس کا خوف ہو اور دماغ میں یکسوئی ہوتی ہے ۔مضمون لکھ کر کسی جلسے میں لوگوں کے سامنے پڑھے ۔اس کے عیب وہنر سوچے اور دوسروں سے دریافت کرے ۔پہلے چھوٹے اور سہل مضامین سے ابتدا کرے ۔جس قدر مشق بڑھتی جائے اور لکھنے کا سلیقہ آتا جائے ،اسی قدر بڑے اور مشکل مضامین لیتا رہے۔اسی طرح پہلے چھوٹے جلسوں میں پڑھے پھر بڑے جلسوں مین بیان کرے ۔‘‘(خطابت وتقریر،ص؍۴۴)
(۲)تقریر کی کوئی معیاری کتاب سامنے رکھ لیجیے اور تقریری انداز میں بآواز بلند پڑھیے ۔
(۳)تقریر کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ جانے نہ دیجیے اور چھوٹے بڑے سبھی جلسوں میں تقریر کرنے کی کوشش کیجیے ۔
(۴)کسی بھی مضمون کا ذہن میں ایک خاکہ تیار کر لیجیے اور تنہائی میں نا قابل خطاب اشیا کو مخاطب بنا کر تقریر کیجیے اور یہ تصور قائم کر لیجیے کہ وہ ہمارے سامعین ہیں اور ہماری گفتگو کو سن رہے ہیں ۔
(۵) تنہائی میں چوں کہ کوئی ناقد نہیں ہوتا ،جو اس کو اس کی خامیوں پر تنبیہہ کرے ،اس لیے جو خامیاں ہوتی ہیں ،ان کی اصلاح نہیں ہوپاتیں؛بلکہ وہ اور پروان چڑھ جاتی ہیں ،جو پھر بعد میں کبھی دور نہیں ہوپاتیں۔اس لیے ان کی اصلاح ضروری ہے ۔اور اس کے لیے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ آپ کسی ایسے کمرے کو مشق گاہ بنائیں، جس میں بڑے بڑے سائز کے شیشے فٹ ہوں ۔ان کے سامنے کھڑے ہو کر تقریر کریں اور ساتھ ہی یہ دیکھتے رہیں کہ ہماری کونسی حرکت نازیبا اور کونسا اشارہ نا مناسب ہے ؟پھر اس کی اصلاح کی کوشش کریں ۔اسی طرح اس پر بھی نگاہ رکھیں کہ ہم کسی مخصوص حرکتوں کا بار بار ارتکاب تو نہیں کر رہے ہیں ۔چہرے مہرے کی ہیئت ٹھیک ٹھاک رہتی ہے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ ان تمام چیزوں پر نگاہ رکھیں اور ان کی اصلاح کی فکر کریں ۔اور اپنی آواز ، انداز ، لب ولہجے،تکلم کا زیرو بم ،الفاظ کا مد جزر اور ان جیسے پہلووں کی خامیوں کو پکڑنے کے لیے ٹیپ وغیرہ کا سہارا لیں ۔
(۶)اگر کسی وجہ کر آپ کے لیے یہ صورت ممکن نہیں ہے ،تو پھر ایسے دوستوں کی ایک تنظیم بنائیں ،جو آپ ہی کی طرح تقریروخطابت سیکھنے کے شیدائی ہوں اور انھیں بھی کسی سہارے کی تلاش ہو ۔اور ہر ایک فرد اس بات کے لیے فکر مند ہو کہ کوئی ایسا دوست ملے ،جو اس کی غلطیوں کی نشاندھی کرے ۔
(۷)اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو،تو پھر آپ کسی قریبی مدرسے ،کالج اور یونی ورسٹیوں کی انجمنوں ۔جن کا بنیادی مقصد طلبہ میں تقریرو خطابت کی روح پھونکنی ہوتی ہے ۔سے جڑ جائیں اور ان کے ہفتہ واری ،پندرہ روزہ یا ماہانہ پروگرام میں پابندی کے ساتھ شرکت کریں ۔
(۸)ملک کے طول عرض میں کہیں بھی مسابقۂ خطابت ہو رہاہو ،تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کریں۔
(۹)اگر مذکورہ بالا تمام صورتیں آپ کے لیے نا پید ہوں ،تو پھر آپ اپنے گھر کے افراد کو اکٹھا کرکے تقریر کی مشق کرسکتے ہیں۔
(۱۰)اگر یہ تمام صورتیں بھی ممکن نہ ہوں ،توجنگل و بیابان میں نکل جائیں اور درخت ،پتھر اور ان جیسی بے جان چیزوں کو اپنا مخاطب بنا کر مشق کریں ۔ان شاء اللہ تعالیٰ کامیابی ضرور ملے گی ۔اور بہت جلد ایک باکمال و بے مثال خطیب بن کر ابھریں گے۔

تقریر کی تقسیم

(قسط نمبر (9) محمد یاسین جہازی کی کتاب: رہ نمائے خطابت سے اقتباس)

تقریر کی تقسیم

فنی حیثیت سے اگر چہ اساتذۂ فن میں سے کسی نے بھی اس کی کوئی حتمی و قطعی تقسیم نہیں کی ہے ،جس میں شکست نا ممکن ہو ،کیوں کہ یہ خود ناممکن ہے ۔اس لیے کہ تقریر احوال و واقعات کی پیدا وار ہوتی ہے اور ان میں اس قدر تنوع وتلون ہے کہ ان کی حدبندی نہ صرف مشکل ہے ؛بلکہ قوت بشریہ سے باہر ہے ۔المختصر تقریر کو کسی یقینی خانوں میں تقسیم کرنا ممکن نہیں ہے ۔نئے نئے حالات و واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شاخیں بھی نکلتی رہتی ہیں ۔ اس لیے اس کی درجنوں قسمیں ہوسکتی ہیں ۔ذیل میں چند قسموں کا تذکرہ کیا جارہا ہے ۔ 
مذہبی تقریریں
ان تقریروں میں مذہبیات و دینیات سے گفتگو کی جاتی ہے ۔ان میں کبھی دین و مذہب کے حوالے سے صرف مسائل و عقائد کی وضاحت کردی جاتی ہے اور جو کچھ صحیح یا غلط مقرر کے مذہب اور اس کے اعتقاد میں ہوتا ہے، اس کو اپنے انداز و بیان میں سامعین کے سامنے بیان کر دیتا ہے اور کبھی ان کے ساتھ ساتھ منفی پہلووں کی بھی نشاندھی کر کے ان سے بچنے کی ہدایت کرتا ہے ۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مقرر مذاہب عالم کا تجزیہ پیش کرتا ہے اور پھر اپنے مذہب کی برتری،آفاقیت اور عالم گیریت کو ثابت کرنے کوشش کرتا ہے ۔اس طرح کی جتنی بھی تقریریں ہیں ، سب مذہبی تقریروں میں شامل ہیں۔ 
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ مذہبی تقریروں کا انداز اور لب ولہجہ کیسا ہونا چاہیے ؟تو اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ انداز خطابت کا سراسر دارومدار موضوع پر ہے ۔اگر موضو ع جو ش وہنگامہ آمیز اور تحریک جذبات کا داعی ہے ،تو اس وقت جوشیلالب ولہجہ اور جذبات مشتعل کن انداز اختیار کرنا چاہیے ۔اور اگر موضوع سرد ہو یا پھر علمی عنوان ہو،تو ظاہر ہے کہ یہاں تحریک جذبات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،اس لیے اس کے لیے سمیل اور سادہ انداز ہی زیاد ہ موزوں ہے ۔
سیاسی تقریریں
ان تقریروں کا موضوع حالات حاضرہ ،ملک کی پالیٹکس پالیسیا ں،بین الاقوامی سیاسی رخ ،تاریخ کی روشنی میں قوموں کے عروج وزوال کا تجزیہ اور ہر وہ مسائل ہیں ،جو اس وقت موضوع بحث بنے ہوتے ہیں ۔ان میں حقائق کم اور پروپیگنڈا زیادہ بیان کیے جاتے ہیں ۔الزام تراشی ،عیب جوئی ،دروغ گوئی ان کی خاص خصوصیت سمجھی جاتی ہے ۔ ہنگامہ آرائی اور تحریک جذبات ان کی مقبولیت کا خاصہ ہے ۔سیاسی عنوان پر وہی تقریریں کامیاب ثابت ہوتی ہیں ،جن میں مقرر اپنی آتش بیانی سے سامعین کے جذبات کو بر انگیختہ کر دیتا ہے اور نفسیاتی طور پر اپنا ہم نوا و ہم خیال بنا لیتا ہے ۔ 
تعزیتی تقریریں
ان تقریروں میں دنیا سے گذر جانے والوں کے اوصافِ حمیدہ ،ان کے رہن سہن ،چال ڈھال ،لین دین ، ایک دوسرے کے ساتھ اچھے میل جول اور بہتر تعلقات کا تذکرہ کیاجاتاہے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی تلقین اور نعم البدل عطا کرنے کی دعا دی جاتی ہے ۔ایسی تقریروں کالب و لہجہ غم آمیز ہوتا ہے ،جوش وخروش ،تحریک جذبات اور ہنگامہ آرائی سے گریز کیا جاتا ہے ۔بس جو کچھ بیان کرنا ہوتا ہے ،خطیب اسے عام گفتگو کی طرح بیان کر دیتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حد سے زیادہ دردو غم کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی خوب زور زور سے رونا دھونا شروع کر دینا چاہیے ؛کیوں کہ ہر چیز اس کی حد تک ہی ٹھیک رہتی ہے ۔حد سے تجاوز کر جانے پر الٹا اثر ہونے لگتا ہے ۔ایسی صورت میں سامعین یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسے کچھ غم وم نہیں ہورہا ہے ؛بلکہ یہ تو ڈھونگ کر رہاہے ۔
خطبے
تقریر ہی کے قبیل سے جمعہ اور عیدین کے خطبے بھی ہیں ۔اسلام نے جمعہ و عیدین کی نما ز کے ساتھ خطبے کو بھی ضروری قرار دیا ہے ۔ان میں حمد و نعت ،شریعت کے احکام ،اوامر و نواہی اور حالات حاضرہ کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں ۔ان خطبوں سے اسلام کا مقصد یہ تھا کہ عام و خاص سبھی آدمی دین کی ضروری باتوں اور بر وقت پیش آنے والے مسائل سے واقف ہوسکیں ۔چنانچہ شروع عہدِاسلام سے لے کر تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ؛لیکن ان سے جو فوائد مطلوب تھے اور پہلے وہ حاصل بھی ہوتے تھے ،اب حاصل نہیں ہورہے ہیں ۔اس کی چند وجوہات ہیں،جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ خطبے عربی زبان میں دیے جاتے ہیں اور عربی سمجھنے والے خا ل خا ل ہی نظر آتے ہیں ۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں عصر حاضر سے اٹیچ مسائل بھی بیان نہیں کیے جاتے ہیں ؛بلکہ پرانے زمانے کے جو مقفیٰ و مسجع خطبے چھپے ہوئے ہیں ،انھیں کی تلاوت کر دی جاتی ہے ۔کوئی نیا مضمون بیان نہیں کیا جاتا ۔
بہر کیف ان کے افادی پہلو سے قطع نظر ان خطبوں کا انداز خطیبانہ ہونا چاہیے اور ایک دینی تقریر کے لیے جو لب ولہجہ اختیار کیا جا تا ہے اسی لب ولہجے میں خطبہ دینا چاہیے۔کتاب پڑھ کر سنانے یا تلاوت کے اندازمیں خطبے نہیں دینا چاہیے ۔
تقریر کرنے کی مختلف صورتیں
اگر چہ تقریر کا لفظ ہی سننے سے یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ وہ زبانی گفتگو ،جومخصوص طرز اورمنفرد لب ولہجے کے ساتھ اسٹیج کی کرسی پر بیٹھ کر کی جاتی ہے ۔لیکن عصر حاضر میں اس طریقے کے علاوہ اور بھی کئی طریقے اور صورتیں رائج ہیں ، جو درج ذیل ہیں :(۱)لکھے مضمون کو پڑھ کر سنانا (۲)لکھ کر زبانی یاد کرکے تقریر کرنا (۳)فی البدیہہ بیان کرنا ۔ان تین صورتوں میں سے آخر الذکر صورت ہی تقریر کی اصل صورت ہے ۔باقی اول الذکر دونوں صورتیں اگر چہ صورتا تقریر ہی ہیں؛ لیکن حقیقتا انھیں تقریر کے نام سے پکارناصحیح نہیں ہیں۔
اول الذکر صورت اس وقت اختیار کی جاتی ہے ،جب کوئی تجویز اور ریگولیشن وغیرہ پیش کی جاتی ہے یا پھر کسی بڑے آدمی کا لکھا ہو ا کوئی پیغام سامعین تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے ۔تقریر کی اس صورت میں حسب موضوع انداز اختیار کرنا چاہیے ،مثلااگر اس پیغام میں حکومت وقت سے کسی چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے اور مطالبہ پورا نہ کرنے پر منفی پہلو کی بھی نشاندھی کی گئی ہے،یا کسی تحریک کے چلانے وغیرہ کی دھمکی دی گئی ہے، تو اسے ایسے بھیانک انداز اور خوف ناک لب ولہجے میں پڑھنا چاہیے کہ کہ حکومت کے ایوان میں زلزلہ پیدا ہوجائے اور سامعین یہ محسوس کرنے لگیں کہ واقعی اس میں جن خدشات اور رد عمل کا اظہا ر کیا گیا ہے ،وہ واقعی ہو کر رہے گا ۔
تقریر کی دوسری صورت اگر چہ صورتا تقریر ہی محسوس ہوتی ہے ؛لیکن اس کا جو فطری اثر سامعین پر ہونا چاہیے اور عوام کو جو لذت وچاشنی محسوس ہونی چاہیے ،اس سے یہ تقریر محروم ہوتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو الفاظ فطری طور پر جس کی زبان سے نکلے ہوئے ہوتے ہیں ،وہ انھیں کی زبان سے اچھے لگتے ہیں اور سامعین پر جادو کی سی کیفیت پیدا کرتے ہیں ۔اس کے بر عکس جب کوئی کسی دوسرے کی تقریر رٹ کر کرتا ہے ،تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی کوا بلبل کی بولی بولنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اس سے نہ تو وہ خود متأثر ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو متأ ثر کر سکتا ہے۔ اس لیے اس طریقے سے گریز ہی بہتر ہے،البتہ مبتدی کے لیے رٹ کر تقریر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛بلکہ اس کے لیے شروعات میں یہی طریقہ سب سے زیادہ مفید ہے ۔رٹ کر تقریر کرنے کا ایک منشا یہ ہوتا ہے کہ جب ہم شستہ و شائستہ اور معیاری زبان کو اچھی طرح رٹ کر تقریر کریں گے ،تو لوگ ہماری تقریر سے مرعوب ہوں گے اور وہ یہ سمجھیں گے کہ مقرر موصوف کو زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل ہے ۔اس سے ہماری قدروں میں بلندی آئے گی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اونچے اونچے الفاظ کا استعمال کسی کی قدروں کو بلندی عطا نہیں کر سکتا،جب تک کہ وہ خود صاحب قدر نہ ہو؛بلکہ قدروں کی بلندی کا رازتو اس میں مضمر ہے کہ سامعین کی زبان میں گفتگو کی جائے اور جو کچھ کہا جائے ،وہ بالکل سیدھے سادے اور سمیل انداز میں کہا جائے۔ 
آخر الذکر صورت ہی تقریر کا اصل معراج ہے ،جس کسی کو فی البدیہہ تقریر کرنے کا ملکہ حاصل ہوگیا ،سمجھ لیجیے کہ وہ فنِ خطابت کا بے تاج بادشاہ بن گیا ۔ہر مبتدی کے لیے یہ ملکہ پیدا کرنا ایک با کمال خطیب بننے کے لیے ضرور ی ہے۔
تقریر کا سب سے عمدہ انداز
ہر مقرر اپنے طور پر یہی کوشش کرتا ہے کہ وہ سب سے عمدہ اور سب سے اچھی تقریر کرے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی تقریر سب سے عمدہ ااور کیسی تقریر سب سے اچھی سمجھی جاتی ہے ۔تو اس حوالے سے سب سے پہلے یہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ تقریر کی عمدگی اور بہتری کا سارا دارو مدار آواز،انداز،الفاظ کے زیرو بم ،کلمات کے مدو جزر ،موقع بہ موقع گھن گرج اور ساتھ ہی مناسب اشارات و حرکات پر ہے ۔اس لیے اگر ان چیزوں کو ان کے صحیح مقامات پر برتنے کے گر معلوم ہوجائیں ،تو سب سے عمدہ طریقۂ خطابت کا راز خود بخود معلوم ہوجائے گا ۔چنانچہ اس سلسلے میں ماہرین فن کا کہنا ہے کہ آوز کو بالکل صاف و شفاف رکھی جائے ،اس میں کسی بھی طرح کا کوئی عیب اور خامی نہ ہو۔آغاز میں آواز وانداز دونوں دھیمے ہوں۔ پھر جوں جوں تقریر آگے بڑھائی جائے ،توں توں رفتار بھی بڑھا ئی جائے ،یہاں تک کہ شباب پر پہنچ جائے اور پھر زور دار انداز کے ساتھ اچانک رک جائے ،پھر دھیمے دھیمے اور ٹھہر ٹھہر کے بولے اور بولتے بولتے رفتار وآوازمیں کرختگی پیدا کرتے ہوئے شباب پر پہنچ جائے ،پھر اچانک ٹھہر جائے۔ اور اسی انداز سے تقریر کرتا چلاجائے ۔لیکن ساتھ ہی یہ نہ بھولنا چاہیے کہ جہاں جہاں الفاظ میں مدو جزر اور تکلم میں زیرو بم ہونا چاہیے ،وہاں وہاں اسی طرح کا لب ولہجہ اختیار کرنا ضروری ہے ۔علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ پر زور کلام کیا جائے ۔کلام میں زور پیدا کرنے کی مختلف صورتیں ہیں ،جن میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہر جملے کو تین حصوں میں بانٹ دیا جائے ۔شروع حصے میں پرزور انداز اختیار کیا جائے ۔درمیانی حصے میں تھوڑی سی خفت پیدا کر لی جائے اور آخری حصے میں پرزور ترین اسلوب اپنا یا جائے۔اس طریقے کی بھر پور عکاسی کرتے ہوئے شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ 
’’۔۔۔مقرر یا خطیب جب مجمع سے خطاب کرتے ہیں ،تو ان کی آواز یکساں رفتار پر نہیں رہتی اور نہ ان کا لہجہ ہم وزن رہتا ہے ۔اس کے لیے ایک بحر نہیں ،کئی بحروں کا مجموعہ ہے۔ کہیں مقرر گفتگو کا لہجہ اخیار کرتا ہے ،کہیں نرم لہجہ ،کہیں زور دار ور کہیں ان کا حد اوسط۔۔مقرر اپنے الفاظ کا حسن زیروبم سے بڑھاتا ہے ،اس کو اظہار کے اتار چڑھاو سے گذرنا پڑتا ہے، ایکا ایکی گونج پیدا کرتا اور یکا یک گرج سے کام لیتا ہے ،کبھی اس کی آواز میں بوندا بوندی ہوتی اور کبھی وہ موسلا دھار انداز میں برسنے لگتا ہے ۔کبھی صباکی طرح چلتا اور کبھی صرصر ہوجاتا ہے۔آبشار کی طرح بہتا ہے۔اس میں چشمہ کا بہاو اور جھرنا کا غل بھی ہوتا ہے ۔وہ راگ نہیں جانتا ؛لیکن اس کی آواز کبھی دیپک راگ ہوجاتی ہے اور کبھی جل ترنگ۔وہ آواز میں آنسو پیدا کرتا اور قہقہہ اجالتا ہے ،وہ چشم زدن میں ہنسا اور رلا سکتا ہے ۔ وہ رعد کی طرح کڑکتا اور شعلے کی طرح بھڑکتا ہے ۔اس میں غنچے کی چٹک اور نغمے کی لٹک ہوتی ہے ۔وہ بادل کی کڑک اورہیرے کی ڈلک رکھتا ہے ۔کویل کی طرح کوکتا اور شیر کی طرح دھاڑتا ہے ۔خطیب کی آواز سمندر کی لہروں کی طرح ہے کہ اپنی سطح سے اٹکھیلیاں کرتی چلی جاتی ہیں۔‘‘(ص۱۰۹)
اپنی تقریر میں مذکورہ بالا خصوصیتیں آپ اسی وقت پیدا کرسکتے ہیں ،جب کہ آپ عملی مشق کے ساتھ ساتھ اکابر خطبا کی تقریریں سنیں ،ان کے لب ولہجے پر نگاہ رکھیں اور ان سے ان کی تقریر کی عمدگی و مقبولیت کا رازدریافت کریں۔ 
(کلام میں زور پیدا کرنے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے دیکھیے:رہ نما ئے اردو ادب، ازص؍ ۱۸۵ تا ۱۹۰ )۔