نکاح کا بیان
قسط نمبر (5)
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
نکاح کرنا سنت ہے
نکاح کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ نکاح انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی سنت ہے ۔ نکاح ایسی چیز ہے، جو آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر اب تک برابر سنت چلی آتی ہے۔ ترمذی)
جو شخص نکاح کے حقوق کو ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور شہوت کا غلبہ بھی نہیں ہے ، اس کے لیے نکاح کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ
مَنْ کَانَ عَلَیٰ دِیْنِیْ أوْ دِینِ دَاؤدَ وَ سُلَیْمَانَ وَ ابْرَاھِیْمَ فَلْیَتَزَوَّجْ انْ وَجَدَ الیٰ النِّکَاحِ سَبِیْلاً (کنز العمال)
جو شخص میرے دین اور داود وسلیمان وابراہیم علیہم السلام کے دین پر ہو ، وہ نکاح کرے، اگر نکاح کرنے کی راہ پائے۔
یعنی اگر نکاح کے حقوق ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو وہ نکاح کرے۔
نکاح کرنا واجب ہے
اگر شہوت غالب ہو اور نفس طالب زنا میں مبتلا ہونے کا خوف ہو، نکاح کے حقوق ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہو، اس صور ت میں اس پر نکاح کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنکُمُ الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہُ اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَ اَحْصَنُ لِلْفَرَجِ وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَانَّہُ لَہُ وِجَاءٌ (متفق علیہ)
ائے نوجوانوں کے گروہ! تم سے جو نان و نفقہ کی قدرت رکھتا ہے، وہ نکاح کرے کہ یہ آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کا صحیح علاج ہے ۔ اور جو طاقت نہیں رکھتا ہے، وہ اپنے اوپر روزہ کو لازم سمجھ لے اور یہ ایسا ہے، جیسے کوئی اپنے کو خصی کرالے۔
مطلب یہ ہے کہ بیوی کو روٹی کپڑا اور مہر دینے کی طاقت نہ ہو، تو روزوں سے اپنی شہوانی قوت کا علاج کرے۔
ایمان کی حفاظت
نکاح کا سب سے بڑا فائدہ ایمان کی حفاظت ہے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا :
اذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الاِیْمَانِ، فَلْیَتَّقِ الْلّٰہَ فِیْ نِصْفِ الْباقِیْ (بیھقی فی شعب الایمان)
جب بچہ نے نکاح کرلیا تو اس کا نصف دین محفوظ ہوگیا۔ باقی نصف کو بچانے کے لیے خدا سے تقویٰ اختیار کرے۔
معلوم ہوا کہ نکاح سے بہت سے ظاہری اور باطنی فوائد حاصل ہوتے ہیں، اور دین و دنیا کے سنورنے کا بڑا ذریعہ ہے ۔ اسی کے ذریعہ سے نسل باقی رہتی ہے ۔ اسی کے ذریعے سے صنف نازک کی حفاظت اور پرورش ہوتی ہے ۔ نکاح حصول تقویٰ میں بڑا مدد گار ہے۔
کیسی عورت سے نکاح کرے
سرکار دوجہاں ﷺ نے عورت کو دنیا کا بہترین سرمایہ کہا ہے۔ ارشا د ہے کہ:
اَلدُّنْیَا کُلُّھَا مَتَاعٌ وَ خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرْأۃُ الصَّالِحَۃ.ُ(مسلم)
پوری دنیا ایک سرمایہ ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر عورت ہے ، لیکن ہر عورت نہیں؛ بلکہ وہ عورت جو نیک ہو۔ صالحہ ایک ایسی صفت ہے، جو تمام خوبیوں کو اپنے اندر داخل کرلیتی ہے ۔ زنِ صالحہ وہی ہوسکتی ہے، جو خدا کی فرماں بردار ہو۔ نماز روزے کی پابند ہو۔ اخلاق جمیلہ سے آراستہ ہو۔ شوہر کی تابعدار ہو۔ بچوں کی شفیق ماں ہو۔ گھر کی منتظمہ ہو۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت رکھتی ہو۔ زبان اس کے قابو میں ہو۔ کسی کو ایذا و تکلیف نہ دیتی ہو۔ اپنے پر دوسروں کے آرام کو مقدم رکھتی ہو۔ پاک دامن ہو۔ عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والی ہو۔ اور بھی دوسری اچھی باتوں سے آراستہ ہو۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں نیک عورت کی یہ تعریف آئی ہے کہ جب اس کو حکم دیا جائے، تو اس کی تعمیل کرے ۔ جب خاوند اس کی طرف دیکھے، تو اس کو خوش کردے۔ اور اگر کبھی اس کو قسم دی جائے، تو اس کو پوری کردے۔ اگر خاوند کہیں چلا جائے، تو خاوند کے پیچھے اپنی عصمت اور خاوند کے مال کی حفاظت کرے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’ نیک عورت رات کا تارا اورصبح کا ہیرا ہے‘۔
عورت اگر ہے نیک تو جنت میں ہے مقیم
کونین کی دولت لیے رہتی ہے وہ نعیم
اگر نیک کے ساتھ حسین بھی ہو تو اور بھی بہتر ہے۔
زنِ خوب فرماں برو پارسا
کند مرد درویش را بادشاہ
صلاحِ دنیا و دین ست صحبت زنِ نیک
زہے سعادت آں کس کہ زن حسین دارد
نیک عورت کی صحبت دین و دنیا کی بناؤ ہے ۔ اس شخص کی کیا ہی نیک بختی ہے جو حسین عورت رکھتا ہے۔ یعنی نیک عورت سے دین و دنیا دونوں بنتی ہے ۔ اگر اس پر حسین ہو، تو اس شخص کی خوش قسمتی کا کیا کہنا۔
ز ہمنیشنِ نکو کام دل تواند یافت
کسیکہ طالع فرخندہ ہم چنیں دارد
جوشخص مبارک قسمت رکھتا ہے ، وہی اچھی عورت سے دلی مقصد حاصل کرسکتا ہے ؛ لیکن اگر عورت نیک نہیں، بد خصلت و نافرمان ہے، تو موذی مار آستین ہے ۔ گو وہ کتنی ہی حسین کیو ں نہ ہو، مرد کے لیے وبال جان ہے ۔
بری عورت بھلے انسان کے گھر
سزا دوزخ کی ہے دنیا کے اندر
بچا ائے رب بری عورت سے ہم کو
ہمیں کر تو عطا اک نیک ہمسر
اس لیے نکاح کے اندر اس کا بڑا خیال رہے کہ عورت نیک، خوش اخلاق ہو، پاکدامن ، سمجھد ار ہو، گو حسن و جمال میں یکتائے روزگار نہ ہو۔
سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا
باپ سے کہیں زیادہ ماں کے اخلاق و کردار کا بچوں کے اندر اثر ہوتا ہے ، اس لیے دھن دولت کا قطعا خیال نہ کریں، جیسا کہ اس زمانہ میں کیا جاتا ہے ؛ بلکہ سیرت اور کردار کا پُتلا تلاش کریں ، چاہے جہاں ملے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں میں چار باتیں تلاش کی جاتی ہیں :
مال ۔ نسب۔ جمال اور دین۔لیکن ائے مخاطب!
فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ۔ (بخاری و مسلم)
تو دین والی کو اختیار کر۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
اذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَہُ وَ خُلُقَہُ فَزَوَّجُوْہُ۔
(ترمذی)
جب تم کو نکاح کا پیغام ایسا آدمی دے، جس کی دینداری اور عادت تم کو پسند ہو تو اس سے نکاح کرلو۔
اس لیے کہ نکاح سے جو مقصد ہے ، ایسی عورت سے بحسن و خوبی انجام پاسکتا ہے۔ شوہر کی اطاعت، بچوں کی خدمت ، عزت و آبرو کی حفاظت ، حسن معاشرت، مال کی حفاظت، دکھ تکلیف پر صبر ایسی ہی عورت کرسکتی ہے۔
اگر دینداری اور خوب سیرتی نہیں تو مال کا غرور، حسن کا غرور، خاندانی غرور آئے دن جنگ برپا کرے گا اور خادم مخدوم بننے کی کوشش کرے گا ، جس سے مرد، یا تو غلام بن کر رہے گا، یا پھر نفاق کی خندق اس قدر وسیع ہوگی کہ پھر اسے پاٹ نہ سکے گااور تفرقہ کی نوبت آئے گی ۔ اسی لیے حضور پر نور ﷺ نے فرمایا :
ایک کالی نکمی مگر دین دار عورت زیادہ بہتر ہے بد دین خوب صورت عورت سے ۔ (ابن ماجہ)
کسی شاعر نے کہا ہے ۔
سیرت نہیں ہے جس میں وہ صورت فضول ہے
جس گل میں بو نہیں ہے وہ کاغذ کا پھول ہے
حسن صورت چند روزہ حسن سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں، اس سے خوش ہوتا ہے دل
البتہ اگر یہ خوبیاں کسی شریف خاندان کی عورت میں ہوں، تو بہت خوب۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ
تَخَیَّرُوْا لِنُطَفِکُم، فَا8نَّ النِّسَاءَ یَلِدْنَ أشْبَاہَ ا8خْوَانِھِنَّ وَ أخْوَاتِھِنَّ (ابن عدی وابن عساکر)
اپنے نطفوں کے لیے عمدہ محل پسند کرو، اس لیے کہ عورتیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے مانند بچے جنتی ہیں۔
یعنی خاندانی اثرات بچوں میں ہوتے ہیں، اس لیے اچھے خاندان کے اچھے اثرات بچوں میں آئیں گے۔ اچھے خاندان وہی ہیں، جس میں دینداری اور اخلاق مندی ہیں۔
نکاح سے جہاں مقصد تعلقات کی خوشگواری کے ساتھ اپنے دین اور شرمگاہ کی حفاظت اور گھر کا انتظام ہے ، وہاں نکاح سے اہم مقصد حصول اولاد بھی ہے ۔ اس لیے اس خاندان کی عورت سے نکاح کرنا چاہیے، جس خاندان کی عورتیں اولاد کثیر جنتی ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
دوست رکھنے والی، کثیر اولاد جننے والی عورت سے نکاح کرو۔ میں امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔ (ابو داود و نسائی)
کیسے مرد سے نکاح کرے
اسی طرح اگر کوئی اپنی لڑکی کا نکاح کسی لڑکے سے کرنا چاہے، تو اس لڑکے کے اندر بھی دیند اری، خوش اخلاقی اور فیاضی کا لحاظ رکھے۔ اس لیے کہ نیک مرد ہی عورتوں کے حقوق کو خوش اسلوبی سے ادا کرسکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حقیقت میں اچھے اخلاق کے وہ لوگ ہیں، جن کے تعلقات اپنی بیویوں سے اچھے ہیں۔ (ترمذی)
اس زمانہ میں اکثر لوگ ایسے لڑکے کو پسند کرتے ہیں جو مالدار کی اولاد ہوتی ہے۔ زمین جائداد کا مالک ہوتا ہے ۔ اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے اندر دین داری ہے یا بد دینی کا پتلا ہے ۔ اخلاق اچھے ہیں، یا بد خلقی کا مجسمہ ہے ۔ اسی لیے اس بے اعتدالی کا نتیجہ فوراً سامنے آتا ہے۔ لڑکا اپنی بد دینی کی وجہ سے غیر عورت سے آشنائی پیدا کرتا ہے اور اپنی منکوحہ کو یا تو چھوڑ دیتا ہے، یا انتہائی اذیت میں رکھتا ہے ۔ اس بے راہ روی کی وجہ سے کچھ دنوں کے بعد مفلس ابن مفلس ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے ، جس کا آئے دن تجربہ ہوتا رہتا ہے ۔ اس لیے نکاح کے اندر ہر دو جانب دینداری اور خوش اخلاقی اور خاندانی خوبیوں کا بڑا خیال رکھنا چاہیے۔ ان خوبیوں کے ساتھ اگر دھن دولت کی کثرت ہو، جاہ و مرتبہ ہو، بڑی اچھی بات ہے ۔ اور اگر اصل جوہر نہ ہو، تو دولت کی ٹپ ٹاپ بیکار؛ بلکہ وہ ایک زہریلا ناگ ہے ۔ اس کو لات مارنا چاہیے۔
برے ہو اچھی صورت پربھی گر اچھے نہیں خو میں
وہی اچھا ہے گل، جو ہو رنگت میں اور بو میں
دن تاریخ
بہر کیف جب جانبین سے نکاح کا پیغام منظور ہوجائے، تو عقد نکاح کے لیے ایک تاریخ مقرر کی جائے ۔ اور اس تاریخ کے اندر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مدعو کیا جائے ، تاکہ نکاح کی پوری شہرت ہوجائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
اعْلَنُوْا النِّکَاحَ ۔ (رواہ احمد و صححہ الحاکم)
نکاح کا اعلان کرو۔
اس اعلان کے لیے جمعہ کا دن اور جامع مسجد اختیار کیا جائے، تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ
وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ۔
مسجدوں میں عقد نکاح باندھو۔
ابن ہمام نے فرمایا کہ نکاح مسجدوں میں کرنا مستحب ہے، اس لیے نکاح عبادت ہے ۔ اگر جمعہ کا دن ہو تو اور بہتر ہے۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ)
مہینے کے اعتبار سے ماہ شوال میں نکاح کرنا مستحب ہے ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ماہ شوال میں نکاح کیا اور رخصتی بھی شوال ہی میں ہوئی اور میں حضور ﷺ کی سب سے زیادہ چہیتی ہوئی۔
(مسلم)
دف کا بجانا
اعلان کے لیے بغیر سُر و تال کے دف کا بجانا جائز ہے ، مسنون نہیں۔ اگر سنت ہوتا تو صحابۂ کرام نہ چھوڑتے اور نہ ہی حضور اکرم ﷺ کے کسی نکاح میں دف کا بجانا ثابت ہے ؛ البتہ حضور ﷺ نے اعلان کے لیے بجانے کی اجازت دی ہے ۔ مگر تال و سر سے بجانا درست نہیں۔ چنانچہ فتاویٰ حمادیہ میں لکھا ہے کہ حضرت معلی نے بیان کیا کہ ابوالمہاجر نے فرمایا کہ ابان ابن ایاس نے حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے تمھارے واسطے شراب اور جوا اور بانسری اور ڈھول اور دف مکروہ اور حرام کیا ۔ حضرت معلی کہتے ہیں کہ میں نے ابوالمہاجر سے پوچھا کہ ( جب دف بجانا حرام ہے تو ) آں حضرت ﷺ کے عہد شریف میں دف کو کس طرح بجاتے تھے ؟ ابوالمہاجر نے فرمایا کہ ایک عورت تھی ، جس کسی کی شادی ہوتی، تو وہ عورت ایک چھلنی اور چوب لے کر ایک اونچے مکان پر چڑھ کر چوب کو چھلنی پر مارتی، تاکہ لوگ اس کی آواز سن کر جانیں کہ یہ شادی ہے۔
اس طرح دف بجانے کو اب بھی فقہا جائز کہتے ہیں ۔ چنانچہ تنبیہ الانام میں فتاویٰ سراجیہ سے نقل کیا ہے کہ نکاح کی رات کو نکاح کے اعلان کے واسطے صرف دف بجانا مضائقہ نہیں؛ بشرطیکہ دف میں جلاجل یعنی جھانجھ نہ لگے ہوں۔ اور اس کا بجانا کھیل اور خوشی کی نیت سے بھی نہ ہو، اس لیے کہ کھیل اور راگ دونوں ممنوع اور مکروہ ہیں ۔ اور مالابدمنہ میں لکھا ہے کہ ملاہی، مزامیر، طنبور، ڈھول اور نقارہ اور دف وغیرہ سب بالاتفاق حرام ہیں؛ مگر غازیوں کا نقارہ اور اعلان نکاح کے واسطے دف مباح ہے۔
اور ہدایہ میں لکھا ہے کہ جہاد میں نقارہ بجانا اور نکاح کو مشہور کرنے کے لیے دف بجانا؛ یہ دونوں بالاتفاق مباح ہیں۔ اگر کوئی شخص غازی کے نقارہ کو، یا نکاح کے دف کو ضائع کرے، تو اس پر بالاتفاق تاوان ہے۔
اور یہ اسی وقت تک جائز ہے جب کہ اعلان کی ضرورت سے بجایا جائے۔اگر کھیل اور خوشی کی نیت سے، یا تال و سر سے، یا جھانجھ وغیرہ لگا کر بجایا جائے، تو پھر حرام ہوگا۔ اس لیے کہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ
نَھَیٰ رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ عَنْ ضَرْبِ الدُّفِّ و لَعْبِ الصَّنْجِ وَ ضَرْبِ الزَّمَّارِ (رواہ الخطیب)
رسول اللہ ﷺ نے دف بجانے، اور چنگ سے کھیلنے، اور بانسری کے بجانے سے منع فرمایا ہے۔
اسی طرح دوسرے باجوں کے بجانے سے بھی منع فرمایا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
اَلْجَرْسُ مَزامِیْرُ الشَّیْطَانِ (رواہ مسلم)
گھنٹیال شیطان کا باجا ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
انَّ الْلّٰہَ تَعَالَیٰ حَرَّمَ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوْبَۃَ وَ قَالَ کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ ۔ قِیْل:َ اَلْکُوْبَۃُ الطِّبْلُ۔ (رواہ البیھقی)
اللہ تعالیٰ نے شراب، جوا اور نقارہ کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حضرت مکحول بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِسْتِماعُ الْمَلاھِیْ مَعْصِیَۃٌ، وَالْجُلُوْسُ عَلَیْھَا فِسْقٌ وَ التَّلَذُّذُ بِھَا مِنَ الکُفْرِ (قاضی خاں)
باجوں کا سننا گناہ ہے اور اس پر بیٹھنا (یعنی بیٹھ کر باجا سننا) فسق ہے اور اس سے لذت لینا کفر ہے۔
اسی لیے رسول اللہ ﷺ راہ چلتے بھی باجوں کا سننا پسند نہ کرتے تھے ۔ کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔ چنانچہ حضرت نافعؓ فرماتے ہیں کہ
میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ راستے میں تھا ، تو آپ ﷺ نے باجے کی آواز سنی۔ آپ ﷺ نے فوراً انگلیاں دونوں کانوں میں کرلیں اور اس راستہ سے دوسری طرف ہٹ گئے ۔ پھر جب دور نکل گئے تو مجھ سے فرمایا ائے نافع! کچھ آواز سنائی دیتی ہے؟ میں نے کہا نہیں، تو انھوں نے انگلیاں کانوں سے اٹھائیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ ﷺ نے بانسری کی آواز سنی، تو حضور ﷺ نے اسی طرح کانوں میں انگلیاں دے لیں، جس طرح میں نے دیں۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں اس وقت چھوٹا تھا۔
(ابو داود)
سماع کا بیان
موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت، جب کہ اشعار نہ پڑھے جائیں اور اس میں کوئی برا مضمون نہ ہو اور پڑھنے والا نہ مرد ہو نہ عورت، تو ایسے اشعار کا سننا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا تھانویؒ فرماتے ہیں کہ
رہا حضرت شارع علیہ الصلاۃ والسلام کا فعل ، سو ہر چند کہ مدعیان جواز قصہ عروسی ربیع بنت معوذ اور قصۂ غناء جاریتین فی یوم الفطر و قصۂ نذر وقت رجوع غزوہ کو اثبات مدعا کے لیے پیش کرتے ہیں اور اہل ظاہر سرسری نظر میں اس کو جواز کی دلیل بھی مان لیتے ہیں ؛ مگر انصاف یہ ہے کہ ان روایات میں غناء لغوی مذکور ہے اور اس میں کہ گفتگوہورہی ہے، وہ صرف اس کا نام نہیں کہ کوئی شعر ذرا آواز بناکر پڑھ دیا ؛ بلکہ خاص نغمات و تحریک صوت برعایت قواعد موسیقی کا نام ہے ۔ اور ان روایات میں کہیں اس کا نام و نشاں بھی نہیں۔ (حق السماع، ص؍ ۷)
مطلب یہ ہوا کہ احادیث میں جو حضور ﷺ کے گانا سننے کا ثبوت ہے وہ غناء لغوی ہے ۔ غناء لغوی یہ ہے کہ اشعار موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت نہ پڑھے جائیں۔ اگرچہ بلند آواز سے قدرے آواز بناکر پڑھا جائے، ایسے غناء کے سننے میں کوئی کلام نہیں، یہ بالاتفاق جائز ہے۔کلام اس غناء میں ہے، جو موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت ہو ، یہی اصطلاحی غناء ہے ۔ اسی غناء کے بارے میں احادیث میں مذمت آئی ہے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلْغِنَاءُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ۔
(رواہ البیھقی)
گانا دل میں نفاق اسی طرح پیدا کرتا ہے، جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔
ایک دوسری روایت حضرت انسؓ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اَلْغِِنَاءُ وَالْلَّھْوُ یُنْبِتانِ النِّفاقَ کَمَا یُنْبِتُُ الْمَاءُ الْعُشْبَ۔ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ أنَّ الْقُرْآنَ وَالذِّکْرَ یُنْبِتَانِ الا8یْمَانَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الْعُشْبَ۔ (دیلمی)
گانا اور باجا نفاق پیدا کرتے ہیں ، جیسا کہ پانی گھاس اگاتا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، قرآن اور ذکر دل میں ایمان پیدا کرتے ہیں جیسا کہ پانی گھاس اگاتا ہے۔
اور بھی ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
قسم ہے اس ذات پاک کی، جس نے مجھ کو دین حق دے کر بھیجا، نہیں بلند کیا کسی شخص نے اپنی آواز کو گانے میں ، مگر مسلط فرماتا ہے اس پراللہ تعالیٰ دو شیطانوں کو ، کہ سوار ہوتے ہیں ان کے کندھوں پر اور پھر اس کے سینے پر لاتیں مارتے ہیں ، جب تک وہ خاموش نہ ہوجائے۔
(ابن ابی الدنیا، طبرانی، ابن مردویہ)۔
’’رسالہ نصیحت‘‘ میں مبسوط سے نقل کیا ہے کہ ملاہی کا سننا اور گانا؛ سب حرام ہے۔ اور محیط سے لکھا ہے کہ گانا اور تالیاں بجانا اور ان چیزوں کو سننا سب حرام ہے۔ مضمرات میں ہے کہ جس شخص نے مباح کیا غناء کو ، وہ فاسق ہوگیا۔ معلوم ہوا یہ اصطلاحی غناء امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اور ان کے متبعین کے نزدیک حرام ہے۔
رہا غنا ء ساز کے ساتھ اس کے حرام ہونے میں، تو کسی امام کا اختلاف نہیں ہے ۔ رسالہ ابطال میں حرمت آلات کو جمہور کا مذہب قرار دیا ہے ۔اوربوارق میں مزمار( بانسری) کو حرام لکھا ہے۔ ان دونوں رسالوں کے مصنف حنبلی و شافعی ہیں ۔ امام غزالی جو شافعی مذہب ہیں، احیاء العلوم میں مزامیر اور اوتاد جس میں ستار وغیرہ بھی داخل ہیں، اور طبل کو جو ڈھولک کو بھی شامل ہے ، ان سب کو حرام فرماتے ہیں ۔ احادیث کے اندر بھی اس کی بڑی مذمت آئی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے، جو خز (ریشم) اور حریر اور شراب اور معازف (باجے) کو حلال سمجھیں گے۔ (بخاری)
اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ
بعضے لوگ شراب کا نام بدل کر پئیں گے ۔ اور ان کے سروں پر معازف (گانے بجانے کے آلے) اور گانے والیوں سے ، گو ریاءً بجایا جائے گا، اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسا دے گا اور بندر اور سور بنا دے گا۔
(ابن ماجہ)
اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:
ایک قوم اس امت کی آخر زمانہ میں بندر اور خنزیر بن جائے گی ۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا وہ لوگ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل نہ ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، وہ لوگ نماز ، روزہ و حج سب کچھ کریں گے ۔ کسی نے عرض کیا کہ پھر اس سزا کی کیا وجہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھوں نے باجے اور گانے والیوں کا مشغلہ اختیار کیا ہوگا۔ (مسند ابن ابی الدنیا)
اسی قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں ، جن سے گانے بجانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، لہذا شادی کے موقعوں پر اس کی جرأت نہ کریں۔
مَہَر کا بیان
جب جانبین کے لوگ اکٹھے ہوجائیں، تو اس کے بعد مہر طے کرلینا چاہیے ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں مہر دس درہم سے کم درست نہیں ، جس کا وزن اکتیس ماشے چار رتی چاندی ہوتا ہے ۔ حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا مَھْرَ أقَلُّ مِنْ عَشْرَۃِ دَرَاھِمَ (رواہ ابن ابی حاتم و قال الحافظ بن حجر انہ بھذا الاسناد حسن)
دس درہم سے کم مہر نہیں ہے۔
اور مہر کی زیادتی کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جس قدر بھی طے ہوجائے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو زیادہ مہر مقرر کرنے سے روکا، تو ایک قریشی عورت نے کہا کہ:
ائے امیر المؤمنین ! اللہ کی کتاب اتباع کی زیادہ مستحق ہے، یا آپ کی بات؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب۔ اس عورت نے کہا کہ ابھی آپ نے عورتوں کے مہر میں غلو کرنے سے منع فرمایا ، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ:
وَ اٰتَیْتُمْ احْدٰھُنَّ قِنْطَاراً فَلَا تَأخُذُوْا مِنْہُ شَیْءَاً
(النساء آیۃ:۲۰ )
اور تم ان میں سے ایک کو ڈھیر کا ڈھیر مال دے چکے ہو ، تو تم اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو۔
اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا : عمر سے ہر شخص زیادہ سمجھ دار ہے ۔ اور پھر ممبر پر چڑھے اور فرمایا: میں نے زیادہ مہر باندھنے سے منع کیا تھا، اب ہر شخص اپنے مال میں جو چاہے کرے۔ (بیہقی) ۔
لیکن زیادہ مہر مقرر کرنا استحباب کے خلاف ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
انَّ أعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَۃً أیْسَرُ مَؤُنَۃً (بیھقی)
سب سے زیادہ بابرکت وہ نکاح ہے، جس میں کم خرچ ہو۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ :
خَیْرُ الصِّداقِ أیْسَرُہُ۔ (اخرجہ ابو داود، و صححہ الحاکم)
بہترین مہر آسان مہر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
خبردار عورتوں کا زیادہ مہر مقرر مت کرو، اس لیے کہ زیادہ مہر مقرر کرنا اگر دنیا میں کوئی کرامت کی چیز ہوتی، اور خدا کے نزدیک کوئی تقویٰ کی بات ہوتی، تو مہر کی زیادتی میں اللہ کے نبی ﷺ تم سے زیادہ لائق تھے۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر کسی عورت سے نکاح کیا ہو، یا کسی لڑکی کا نکاح کیا ہو۔
(ترمذی، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ، یعنی چار سو اسی درہم ۔ اور حضرت عائشہؓ کی روایت میں ساڑھے بارہ اوقیہ آیا ہے، یعنی پانچ سو درہم۔ چنانچہ حضرت ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی عورتوں کا مہر کیا مقرر کیا تھا؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بارہ اوقیہ اور نُش۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہونُش کیا ہے؟ حضرت ابو سلمہ نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا آدھا اوقیہ، پس یہ پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ (مسلم)
مہروں میں اولیٰ اور مسنون پانچ سو درہم ہیں، یعنی ایک سو اکتیس تولے تین ماشہ چاندی، جیسا کہ ازواج مطہراتؓ کا تھا ۔ یا چار سو مثقال چاندی، یعنی ڈیڑھ سو روپیے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کی صاحبزادیوں کا مہر تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی چار سو مثقال چاندی تھا، یعنی ایک سو پچاس تولے، کیوں کہ ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو دینار تھا، یعنی ایک ہزار پچاس روپیے، جو شاہ حبش نجاشی نے آں حضور ﷺ کی طرف سے نکاح کے وقت مقرر کرکے اسی وقت ادا کردیا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مہر پانچ سو درہم، یا اس قیمت کے اونٹ تھے، جو ابو طالب نے اپنے ذمہ رکھے۔ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مہر کوئی برتنے کی چیز تھی جو دس درہم کی تھی۔ اور حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو درہم تھا۔ اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو درہم تھا۔
مہر مثل میں باپ کی قوم کا اعتبار ہوتا ہے اور اس میں عمر، حسن، مال، عقل و دین ، نکاح کا وقت اور زمانہ اور شہر ایک ہو۔
(نور الہدایہ، ج؍ ۲، ص؍۲۴)
نکاح کا خطبہ
ایجاب و قبول سے پہلے خطبہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔ چنانچہ ابو داود کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امامہ بنت عبدالمطلب کا نکاح بنی سلیم کے ایک شخص سے کیا ؛ مگر آپ ﷺ نے خطبہ نہیں پڑھا؛ البتہ خطبہ پڑھنا مسنون ہے ۔ اگر منکوحہ کا ولی خود پڑھا لکھا ہو تو اس کو چاہیے کہ خود خطبہ پڑھے اور اس کے بعد ایجاب کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدۃ النساء فاطمہ الزہرا کا کیا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں بزرگوں نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اپنے لیے نکاح کی درخواست کی، تو رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اور کسی کو کچھ جواب نہیں دیا۔ پھر ان دونوں بزرگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اپنے لیے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں درخواست کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حضرات کے اشارہ سے میں اپنی چادر گھسیٹتا ہوارسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! فاطمہ کو میرے نکاح میں دیدیجیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیرے پاس کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا گھوڑا اور زرہ موجود ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا : تجھ کو گھوڑے کی ہر وقت حاجت رہتی ہے۔ زرہ کو بیچ ڈال۔ تو میں نے چار سو اسی درہم میں زرہ کو بیچ کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے وہ درہم گود میں لے لیے۔ پھر ان میں سے ایک مٹھی بھر درہم اٹھاکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دے کر فرمایا کہ ہمارے واسطے خوشبو لاؤ ۔ اور اہل بیت کو اشارہ کیا کہ فاطمہ کے واسطے جہیز تیار کر۔ تب ان کے واسطے ایک چار پائی کھجور کی رسیوں سے تیار کی اور کھجور کی چھال بھر کر توشک تیار ہوئی ۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ جب فاطمہ تمھارے پاس آئے، تو جب تک کہ میں تمھارے پاس نہ پہنچوں، تم فاطمہ سے کلام نہ کیجیو۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ اندر آئیں اور گھر کے ایک کنارہ میں بیٹھیں۔ اور میں علاحدہ دوسرے کنارے میں بیٹھا۔ اسی عرصہ میں جناب سرکار دو عالم ﷺ نے تشریف لاکر فرمایاکہ یہاں میرا بھائی ہے؟ حضرت ام ایمنؓ نے کہا کہ آپ کا بھائی موجود ہے ؟ کیا آپ ﷺ نے اپنی بیٹی اس کے ساتھ بیاہ دی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یقینا۔ پھر آپ ﷺ اندر تشریف لائے ۔ اور فاطمہ سے کہا تھوڑا پانی لاؤ۔ فاطمہ اٹھ کر گئیں اور گھر سے لکڑی کے پیالہ میں پانی لائیں۔ آں حضرت ﷺ نے وہ پانی لے کر تھوڑا لعاب دہن مبارک اس میں ڈال کر فاطمہ کو اپنے پاس بلایا۔ جب فاطمہ پاس آئیں، تو آپ ﷺ نے تھوڑا پانی اپنے ہاتھ میں لے کر فاطمہ کے سینے اور سر پر چھڑکا اور فرمایا: الٰہی میں اس کو اور اس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، شیطان مردود سے۔ پھر فاطمہ سے فرمایا کہ اپنی پیٹھ میری طرف کر۔ فاطمہ نے اپنی پیٹھ آپﷺ کی طرف پھیرد ی۔ آپ ﷺ نے تھوڑا پانی ان کے دونوں مونڈھوں کے درمیان میں چھڑکا۔ پھر یہی معاملہ میرے ساتھ کیا۔ پھر مجھ سے فرمایا: اب تو اپنی بیوی کے پاس اللہ تعالیٰ کا پاک نام لے کر اور اس کی برکت کے ساتھ داخل ہو۔ (ابو حاتم و احمد بحوالہ مواہب لدنیہ)
دوسری روایت بھی حضرت انسؓ ہی سے اس طرح ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی درخواست کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیغمبر خدا ﷺ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام اپنے واسطے دیا، تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: میرے رب نے بھی مجھے یہی حکم دیا ہے ۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر مجھ کو آں حضرت ﷺ نے کئی روز بعد بلاکر فرمایا: ائے انس! تم ابوبکر، عمر، عثمان، عبدالرحمان اور کچھ لوگ انصار میں سے بلا لاؤ۔ پھر جب یہ حضرات تشریف لائے اور اپنے اپنے مقام پر بیٹھے اور حضرت علیؓ وہاں موجود نہ تھے ، تو آں حضرت ﷺ نے یہ خطبہ پڑھا:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَحْمُودِ بِنِعْمَتِہِ، الْمَعْبُودِ بِقُدْرَتِہِ، الْبَالِغِ سُلْطَانُہُ، الْمَرْھُوبِ مِنْ عَذَابِہِ، الْمَرْغُوبِ إِلَيِ فِیْمَا عِنْدَہُ، النَّافِذِ أَمْرُہُ فِي سَمَاۂِ وَأَرْضِہِ، الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِہِ، وَمَیَّزَھُمْ بِأَحْکَامِہِ، وَأَحْکَمَھُمْ بِعِزَّتِہِ، وَأَعَزَّھُمْ بِدِیْنِہِ، وَأکْرَمَھُمْ بِنَبِیِّہِ مُحَمَّدﷺ، ثُمَّ إِنَّ الْلّٰہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الْمُصَاھَرَۃَ نَسَبَاً لَاحِقَاً وَأَمْرَاً مُفْتَرَضَاً، وَشَبَّحَ بِہِ الأَرْحَامَ، وَأَلْزَمَ الأَنَامَ، فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: وَھُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرَاً فَجَعَلَہُُ نَسَبَاً وَصِھْرَاً وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیْرَاً ۔ فَأَمْرُ الْلّٰہِ تَعَالَیٰ یَجْرِي إِلَیٰ قَضَاءِہِ، وَقَضَاؤُہُ یَجْرِیْ إِلیٰ قَدَرِہِ، وَقَدَرُہُ یَجْرِيْ إِلیٰ أَجَلِہِ، وَ لِکُلِّ قَضَاءٍ قَدَرٌ، وَ لِکُلِّ قَدَرٍ أَجَلٌ، وَلِکُلِّ أَجََلٍ کِتَابٌ، یَمْحُوالْلّٰہُ مَا یَشَاءُ وَ یُثْبِتُ، وَعِنْدَہُ أُمُّ الْکِتَابِ۔ (الرعد آیۃ۳۹)
اس کے بعد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو فاطمہ کا نکاح علی کے ساتھ کردینے کا حکم دیا ہے ، سو تم لوگ اس بات پر گواہ رہو کہ میں نے اس کا نکاح علی کے ساتھ کردیا ۔ اور چار سو مثقال چاندی اس کا مہر ٹھہرایا۔ بشرطیکہ علی بھی اس پر راضی ہو۔ اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے ایک طباق بھر کر خشک چھوہارے منگوائے اور حاضرین مجلس سے فرمایا کہ ان کو لوٹ لو۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے آں حضرت ﷺ کے ارشاد کی وجہ سے وہ چھوہارے لوٹ لیے۔ اتنے میں حضرت علیؓ بھی آ پہنچے ، تو آں حضرت ﷺ علیؓ کے روبرو مسکرائے ، پھر فرمایا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے حکم بھیجا ہے کہ فاطمہ کا نکاح تمھارے ساتھ چار سو مثقال چاندی کے مقابلہ میں کردوں، کیا علی تم اس پر راضی ہو؟انھوں نے کہا کہ بے شک یا رسو ل اللہ ، میں اس پر راضی ہوں۔ پھر آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
جَمَعَ الْلّٰہُ شَمْلَکُمَا وَ أعَزَّ جَدَّکُمَا، وَ بَارَکَ عَلَیْکُمَا وَ اَخْرَجَ مِنْکُمَا کَثِیْرَاً طَیِّبَاً
اللہ تم دونوں کی پراگندگی دور کرے۔ اور تمھاری کوشش کو عزیز کرے اور تم پر برکت نازل کرے اور تم کو اچھی پاکیزہ اولاد دے۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم ان دونوں سے اللہ تعالیٰ نے بہت پاکیزہ اور بہتر اولاد پیدا کیں۔ (ابوالخیر قزوینی حاکمی بحوالہ مواھب لدنیہ)
اگر ولی پڑھا لکھا نہ ہو تو اس کا وکیل یا قاضی جس کو ایجاب و قبول کی اجازت ملی ہو ، وہ خطبہ مسنونہ پڑھے ، پھر ایجاب و قبول کرے ۔ نکاح کا وکیل وہ شخص ہے ، جس کو دوسرے کے نکاح کرانے کا اختیار ملا ہو۔ نکاح میں وکیل بنانا درست ہے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے شاہ حبش نجاشیؓ کو اپنا وکیل ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا بنایا تھا۔چنانچہ مواہب لدنیہ میں اس کے احوال بھی مفصل منقول ہیں۔ یہاں پر اس کا خلاصہ لکھا جاتا ہے:
جب ام حبیبہ کا شوہر عبدا للہ بن جحش ان کو لے کر ملک حبش کو ہجرت کرگیا اور وہاں پہنچ کر بد قسمتی سے نصرانی ہوگیا اور اسی حالت میں مرگیا، تو رسول اللہ ﷺ کو کسی صحابی نے خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے ایمان اور اسلام پر بدستور قائم ہیں۔ آں حضرت ﷺ نے یہ بات سن کر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اپنا نکاح کا پیغام نجاشی کے پاس عمرو بن امیہ کے ہاتھ بھیجا ۔ نجاشی نے اسی وقت اپنی باندی ابرھ کو ام حبیبہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ ان سے کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تمھارے ساتھ اپنا نکاح کرنے کا پیغام بھیجا ہے ، اگر تم کو منظور ہو تو تمھارا نکاح آں حضرت ﷺ کے ساتھ پڑھ دوں؟ یہ خبر سنتے ہی وہ بہت خوش ہوئیں اور اپنے ہاتھ کے دونوں کنگن اور ایک انگوٹھی اس خوش خبری کے انعام میں ابرھ کو دیے اور نکاح کے معاملہ میں خالد بن سعید کو اپنی طرف سے وکیل کرکے نجاشی کے پاس بھیجا۔ اس نے شام کے وقت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت مہاجرین رضی اللہ عنہم سمیت بلواکر حقیقت حال بیان کی پھر یہ خطبہ پڑھا:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ السَّلَامِ الْمُؤمِنِ الْمُھّیْمِنِ الْعَزِیْزِ الْجَبَّارِ، أشْھَدُ أنْ لَّا الٰہَ الَّا اللّٰہُ وَ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ أرْسَلَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ۔
اس خطبہ کے بعد نجاشی رضی اللہ عنہ نے کہاکہ سننا چاہیے کہ جس کام کا رسول کریم ﷺ نے مجھ کو پیغام بھیجا تھا ، سو میں نے اس کو قبول کیا۔ پھر چار سو اشرفی سونے کے سکے ان حضرات کے آگے ڈال دیے۔ اور فرمایا: اس قدر مہر میں نے مقرر کیا۔ اس کے بعد خالد بن سعید رضی اللہ عنہ ام حبیبہؓ کے وکیل نے کہا :
الْحَمْدُ لِلّٰہِ أحْمَدُہُ وَ اَسْتَعِینُہُ وَ اسْتَغْفِرُہُ ، أشْھَدُ أنْ لَّا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ أرْسَلَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ،أمَّا بعدُ۔
میں نے اس امر کو قبول کیا، جس کو پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے ۔ اور میں نے پیغمبر خدا ﷺ کا نکاح ام حبیبہ بنت ابی سفیان کے ساتھ کردیا۔ اللہ تعالیٰ یہ نکاح پیغمبر خدا ﷺ کو مبارک کرے ۔ اس کے بعد نجاشی رضی اللہ عنہ نے وہ سب دینار حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیے۔ حضرت خالد نے لے کر گانٹھ باندھ لی ۔ اب لوگوں نے چاہا کہ اٹھ کر اپنے اپنے مکان کو جائیں، تو نجاشی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ حضرات ذرا دیر اور تشریف رکھیے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ اور ان کی سنت یہ ہے کہ نکاح کے بعد کچھ کھانا دوستوں کو کھلاتے ہیں ۔ پھر کھانا منگواکر سب حضرات کو کھلایا اور رخصت کیا۔ پھر نجاشی رضی اللہ عنہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکو شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیغمبر خدا ﷺ کی خدمتِ مبارک میں روانہ کیا۔
ایک خطبہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کو عام طور پر حضرات علمائے کرام پڑھتے ہیں ، وہ یہ ہے:
اِن اَلحَمدَ لِلّٰہِ نَحمَدُہٗ وَ نَستَعِینُہٗ وَ نَستَغفِرہٗ وَ نَعَوذُ بِالْلّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سِیَّءَاتِ أعْمَالِنَا، مَنْ یَھْدِ ہِ الْلّٰہُ فَلا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہُ، وَأشْھَدُ أنْ لَّا اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، وَ أشْھَدُ أنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ یَاایُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا الْلّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُمْ مُّسْلِمُونَ۔یَااَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّن نَّفْسٍ وَّاحِدۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْراً وَّ نِسَاءً ۔ وَاتَّقُوْا الْلّٰہَ الَّذِيْ تَسَاءَلُوْنَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ، إِنَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبَاً، یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا الْلّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدَاً، یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ الْلّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظیْمَاً ۔ (مشکوٰۃ)
ایجاب و قبول
خطبہ کے بعد قاضی یا جو شخص عقد نکاح کے واسطے مقرر ہو حاضرین کے سامنے دولہا سے کہ: فلاں کی بیٹی فلانی کو میں نے اس قدر مہر کے عوض میں تیرے نکاح میں دی ۔ دولہا اس کے جواب میں کہے : میں نے قبول کیا۔ اس طرح ایجاب و قبول سے نکاح ہوجاتا ہے ۔ پہلی بات کو ایجاب اور دوسری بات کو قبول کہتے ہیں ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ دولہن ہی کی طرف سے ایجاب ہو اور دولہا کی طرف سے قبول؛ بلکہ اس کا برعکس بھی ہوسکتا ہے ، یعنی دولہا کی طرف سے ایجاب اور دولہن کی طرف سے قبول، بہر صورت جائز ہے ، لیکن پہلی صورت مستحب ہے۔
ایجاب و قبول نکاح کا رکن ہے ۔ اور دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہوں میں ہونا شرط ہے ۔ یعنی کم از کم دو مسلمان بالغ عاقل کے سامنے اتنی آواز سے ایجاب و قبول ہونا چاہیے کہ وہ دونوں گواہ ایک مرتبہ میں سن لیں۔ اگر ایک نے سنا اور دوسرے نے نہیں سنا تو پھر نکاح نہ ہوگا۔ صرف عورتوں کی یا نابالغ بچوں کی یا کافر کی گواہی معتبر نہیں۔ اور ایجاب و قبول میں سے کسی ایک کا لفظ ماضی کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اس یجاب و قبول کی چند صورتیں ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ ایجاب و قبول دونوں بالاصالت ہو۔ یعنی دلہن ایجاب کرے اور دولہا قبول کرے ، یا دولہا ایجاب کرے اور دولہن قبول کرے۔ یوں کہے کہ میں نے اتنے روپیے مہر کے عوض اپنا نکاح تم سے کیا اور دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ دولہن کی طرف سے ولی یا وکیل ہو اور دولہا اصیل ہو اور اسی کا زیادہ رواج ہے۔ اس میں اس طرح کہے: میں نے اپنی لڑکی یا فلاں کی فلانی لڑکی کا نکاح اتنے مہر میں تم سے کیا ۔ دولہاکہے کہ: میں نے قبول کیا۔مثلا زید کی لڑکی بی بی زینب کا نکاح ڈیڑھ سو روپیے مہر فاطمی میں تم سے کیا۔ دولہا نے کہا : قبول کیا۔
تیسیری صورت یہ ہے کہ دولہن اصیل ہو اور دولہا کی طرف سے ولی یا وکیل ہو، تو وکیل کہے : میں نے اپنے لڑکے کا۔ اور وکیل کہے : میں نے فلاں کے لڑکے فلاں کا نکاح اتنے مہر میں تم سے کیا۔ اور دولہن کہے : میں نے قبول کیا۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے ولی یا وکیل ہو۔ یا ایک طرف سے ولی اور دوسری طرف سے وکیل ہو۔ ولی کہے : میں نے اپنی لڑکی فلانی کا نکاح فلاں کی لڑکی فلانی سے اتنے دین مہر میں کیا۔ دوسرا کہے: میں نے اپنے لڑکے یا اپنے مؤکل کی طرف سے قبول کیا۔اور وکیل کہے کہ میں نے فلاں کی لڑکی فلانی کا نکاح تمھارے لڑکے فلاں سے ، یا فلاں کے لڑکے فلاں سے اتنے مہر میں کیا۔ دوسرا کہے اپنے لڑکے فلاں کی طرف سے ۔ اور وکیل کہے: فلاں کے لڑکے فلاں کی طرف سے قبول کیا، نکاح ہوگیا۔
پانچویں صورت یہ ہے کہ ایک ہی شخص دولہا دولہن؛ دونوں طرف سے ولی یا وکیل ہو، یا ایک طرف سے ولی اور دوسری طرف سے وکیل ہو، تو اس صورت میں ایک ہی کلمہ ایجاب و قبول کا قائم مقام ہوگا۔ الگ الگ ایجاب وقبول نہ ہوگا۔ صرف اتنا کہنا کافی ہوگا: میں نے اپنی لڑکی فلانی کا نکاح ، یا فلاں کی لڑکی فلانی کا نکاح، اتنے مہر میں فلاں کے لڑکے فلاں سے کیا، بس نکاح ہوگیا۔
جب ایجاب و قبول ہوجائے تو زوجین کے لیے دعا کرے کہ :
بَارَکَ الْلّٰہُ لَکَ وَ فِیْکَ وَ عَلَیْکَ وَ جَمَعَ شَمْلَکُمَا عَلٰی خَیْرٍ۔
اللہ تعالیٰ اس نکاح کو بابرکت کرے اور دونوں کی پراگندگی کو خیر پر جمع کرے۔
اس کے بعد چھوہارے، بادام، کشمش وغیرہ جو کچھ شیرنی ہو، لٹائے اور حاضرین مجلس میں تقسیم کردے۔
رفاہ المسلمین میں لکھا ہے کہ اگر اس وقت نکاح کے اعلان کے واسطے دف بغیر جھانجھ کے بجایا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اور خوشی کو ظاہر کرنے کے واسطے اگر گانا بغیر مزامیر (باجے) کے واقع ہو، بشرطیکہ امرد یا جوان مشتہات عورت کی زبان سے نہ ہو، اور کسی مسلم یا ذمی کی برائی نہ ہو، اور نماز کے حضور کا وقت بھی نہ ہو، اور غناء کی اجرت بھی مشروط نہ ہوتو بالاتفاق جائز ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک انصاری لڑکی تھی، جس کا میں نے نکاح کرادیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
ألَّا تُغَنِّیَنَّ، فَانَّ ھَذَا الْحَیَّ مِنَ الْأنْصَارِ یُحِبُّوْنَ الْغِنَاءَ
( رواہ ابن حبان فی صحیحہ)
کیا تم گاتی نہیں ہو، انصار کا یہ قبیلہ گانے کو پسند کرتا ہے۔
اور ابن عباس کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ کسی ایسے آدمی کو بھیج دیتے جو کہتا کہ :
اَتَیْنَاکُمْ اَتَیْنَاکُمْ فَحَیَّانَا وَ حَیَّاکُمْ (ابن ماجہ)
مطلب یہ ہے کہ مبارک بادی کے کچھ اشعار موسیقی کے اصول و قواعد کی رعایت کے بغیر سنا دیے جائیں، تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اور باجے کے ساتھ گانا بالاتفاق حرام ہے۔ اس کی مفصل تحقیق پہلے گذر چکی ہے۔
جہیز کا بیان
جہیز میں ضرورت کی چیز دینا مناسب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ چیزیں دی تھیں: د ویمنی چادریں، جو سوسی کی طرح ہوتی تھیں۔ دو نہالی، جس میں اسی کی چھال بھری تھی اور دو گدے، دو چاندی کے بازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ، ایک گھڑا، اور بعض روایت میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ (ازالۃ الخفا)
رخصتی
جب دولہن کو گھر لائے تو اس کی پیشانی کا بال پکڑکر یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ انِّیْ أسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ ۔
(زاد المعاد بحوالہ امداد الفتاوٰیٰ، ج؍ ۲)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نکاح کرو یا خادم خریدو تو اس کی پیشانی کا بال پکڑ کر دعائے برکت کرو اور کہو:
ألْلّٰھُمَّ انِّیْ أسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ (رواہ ابو داود وابن ماجہ)
دعائے مباشرت
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنی بیوی کے پاس آؤ اور یہ دعا پڑھو:
بِسْمِ الْلّٰہِ ألْلّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا
تو اگر اس صحبت سے کوئی بچہ مقدر ہوا تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم)
شیخ عبدالحقؒ فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ اگر جماع کے وقت یہ دعا نہ پڑھے، تو شیطان اپنا دخل جماتا ہے ، جس کی وجہ سے اولاد کے اندر خرابی آتی ہے۔
قسط نمبر(6) کے لیے کلک کریں
نکاح کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ نکاح انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی سنت ہے ۔ نکاح ایسی چیز ہے، جو آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر اب تک برابر سنت چلی آتی ہے۔ ترمذی)
جو شخص نکاح کے حقوق کو ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور شہوت کا غلبہ بھی نہیں ہے ، اس کے لیے نکاح کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ
مَنْ کَانَ عَلَیٰ دِیْنِیْ أوْ دِینِ دَاؤدَ وَ سُلَیْمَانَ وَ ابْرَاھِیْمَ فَلْیَتَزَوَّجْ انْ وَجَدَ الیٰ النِّکَاحِ سَبِیْلاً (کنز العمال)
جو شخص میرے دین اور داود وسلیمان وابراہیم علیہم السلام کے دین پر ہو ، وہ نکاح کرے، اگر نکاح کرنے کی راہ پائے۔
یعنی اگر نکاح کے حقوق ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو وہ نکاح کرے۔
نکاح کرنا واجب ہے
اگر شہوت غالب ہو اور نفس طالب زنا میں مبتلا ہونے کا خوف ہو، نکاح کے حقوق ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہو، اس صور ت میں اس پر نکاح کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنکُمُ الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہُ اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَ اَحْصَنُ لِلْفَرَجِ وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَانَّہُ لَہُ وِجَاءٌ (متفق علیہ)
ائے نوجوانوں کے گروہ! تم سے جو نان و نفقہ کی قدرت رکھتا ہے، وہ نکاح کرے کہ یہ آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کا صحیح علاج ہے ۔ اور جو طاقت نہیں رکھتا ہے، وہ اپنے اوپر روزہ کو لازم سمجھ لے اور یہ ایسا ہے، جیسے کوئی اپنے کو خصی کرالے۔
مطلب یہ ہے کہ بیوی کو روٹی کپڑا اور مہر دینے کی طاقت نہ ہو، تو روزوں سے اپنی شہوانی قوت کا علاج کرے۔
ایمان کی حفاظت
نکاح کا سب سے بڑا فائدہ ایمان کی حفاظت ہے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا :
اذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الاِیْمَانِ، فَلْیَتَّقِ الْلّٰہَ فِیْ نِصْفِ الْباقِیْ (بیھقی فی شعب الایمان)
جب بچہ نے نکاح کرلیا تو اس کا نصف دین محفوظ ہوگیا۔ باقی نصف کو بچانے کے لیے خدا سے تقویٰ اختیار کرے۔
معلوم ہوا کہ نکاح سے بہت سے ظاہری اور باطنی فوائد حاصل ہوتے ہیں، اور دین و دنیا کے سنورنے کا بڑا ذریعہ ہے ۔ اسی کے ذریعہ سے نسل باقی رہتی ہے ۔ اسی کے ذریعے سے صنف نازک کی حفاظت اور پرورش ہوتی ہے ۔ نکاح حصول تقویٰ میں بڑا مدد گار ہے۔
کیسی عورت سے نکاح کرے
سرکار دوجہاں ﷺ نے عورت کو دنیا کا بہترین سرمایہ کہا ہے۔ ارشا د ہے کہ:
اَلدُّنْیَا کُلُّھَا مَتَاعٌ وَ خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرْأۃُ الصَّالِحَۃ.ُ(مسلم)
پوری دنیا ایک سرمایہ ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر عورت ہے ، لیکن ہر عورت نہیں؛ بلکہ وہ عورت جو نیک ہو۔ صالحہ ایک ایسی صفت ہے، جو تمام خوبیوں کو اپنے اندر داخل کرلیتی ہے ۔ زنِ صالحہ وہی ہوسکتی ہے، جو خدا کی فرماں بردار ہو۔ نماز روزے کی پابند ہو۔ اخلاق جمیلہ سے آراستہ ہو۔ شوہر کی تابعدار ہو۔ بچوں کی شفیق ماں ہو۔ گھر کی منتظمہ ہو۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت رکھتی ہو۔ زبان اس کے قابو میں ہو۔ کسی کو ایذا و تکلیف نہ دیتی ہو۔ اپنے پر دوسروں کے آرام کو مقدم رکھتی ہو۔ پاک دامن ہو۔ عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والی ہو۔ اور بھی دوسری اچھی باتوں سے آراستہ ہو۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں نیک عورت کی یہ تعریف آئی ہے کہ جب اس کو حکم دیا جائے، تو اس کی تعمیل کرے ۔ جب خاوند اس کی طرف دیکھے، تو اس کو خوش کردے۔ اور اگر کبھی اس کو قسم دی جائے، تو اس کو پوری کردے۔ اگر خاوند کہیں چلا جائے، تو خاوند کے پیچھے اپنی عصمت اور خاوند کے مال کی حفاظت کرے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’ نیک عورت رات کا تارا اورصبح کا ہیرا ہے‘۔
عورت اگر ہے نیک تو جنت میں ہے مقیم
کونین کی دولت لیے رہتی ہے وہ نعیم
اگر نیک کے ساتھ حسین بھی ہو تو اور بھی بہتر ہے۔
زنِ خوب فرماں برو پارسا
کند مرد درویش را بادشاہ
صلاحِ دنیا و دین ست صحبت زنِ نیک
زہے سعادت آں کس کہ زن حسین دارد
نیک عورت کی صحبت دین و دنیا کی بناؤ ہے ۔ اس شخص کی کیا ہی نیک بختی ہے جو حسین عورت رکھتا ہے۔ یعنی نیک عورت سے دین و دنیا دونوں بنتی ہے ۔ اگر اس پر حسین ہو، تو اس شخص کی خوش قسمتی کا کیا کہنا۔
ز ہمنیشنِ نکو کام دل تواند یافت
کسیکہ طالع فرخندہ ہم چنیں دارد
جوشخص مبارک قسمت رکھتا ہے ، وہی اچھی عورت سے دلی مقصد حاصل کرسکتا ہے ؛ لیکن اگر عورت نیک نہیں، بد خصلت و نافرمان ہے، تو موذی مار آستین ہے ۔ گو وہ کتنی ہی حسین کیو ں نہ ہو، مرد کے لیے وبال جان ہے ۔
بری عورت بھلے انسان کے گھر
سزا دوزخ کی ہے دنیا کے اندر
بچا ائے رب بری عورت سے ہم کو
ہمیں کر تو عطا اک نیک ہمسر
اس لیے نکاح کے اندر اس کا بڑا خیال رہے کہ عورت نیک، خوش اخلاق ہو، پاکدامن ، سمجھد ار ہو، گو حسن و جمال میں یکتائے روزگار نہ ہو۔
سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا
باپ سے کہیں زیادہ ماں کے اخلاق و کردار کا بچوں کے اندر اثر ہوتا ہے ، اس لیے دھن دولت کا قطعا خیال نہ کریں، جیسا کہ اس زمانہ میں کیا جاتا ہے ؛ بلکہ سیرت اور کردار کا پُتلا تلاش کریں ، چاہے جہاں ملے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں میں چار باتیں تلاش کی جاتی ہیں :
مال ۔ نسب۔ جمال اور دین۔لیکن ائے مخاطب!
فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ۔ (بخاری و مسلم)
تو دین والی کو اختیار کر۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
اذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَہُ وَ خُلُقَہُ فَزَوَّجُوْہُ۔
(ترمذی)
جب تم کو نکاح کا پیغام ایسا آدمی دے، جس کی دینداری اور عادت تم کو پسند ہو تو اس سے نکاح کرلو۔
اس لیے کہ نکاح سے جو مقصد ہے ، ایسی عورت سے بحسن و خوبی انجام پاسکتا ہے۔ شوہر کی اطاعت، بچوں کی خدمت ، عزت و آبرو کی حفاظت ، حسن معاشرت، مال کی حفاظت، دکھ تکلیف پر صبر ایسی ہی عورت کرسکتی ہے۔
اگر دینداری اور خوب سیرتی نہیں تو مال کا غرور، حسن کا غرور، خاندانی غرور آئے دن جنگ برپا کرے گا اور خادم مخدوم بننے کی کوشش کرے گا ، جس سے مرد، یا تو غلام بن کر رہے گا، یا پھر نفاق کی خندق اس قدر وسیع ہوگی کہ پھر اسے پاٹ نہ سکے گااور تفرقہ کی نوبت آئے گی ۔ اسی لیے حضور پر نور ﷺ نے فرمایا :
ایک کالی نکمی مگر دین دار عورت زیادہ بہتر ہے بد دین خوب صورت عورت سے ۔ (ابن ماجہ)
کسی شاعر نے کہا ہے ۔
سیرت نہیں ہے جس میں وہ صورت فضول ہے
جس گل میں بو نہیں ہے وہ کاغذ کا پھول ہے
حسن صورت چند روزہ حسن سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں، اس سے خوش ہوتا ہے دل
البتہ اگر یہ خوبیاں کسی شریف خاندان کی عورت میں ہوں، تو بہت خوب۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ
تَخَیَّرُوْا لِنُطَفِکُم، فَا8نَّ النِّسَاءَ یَلِدْنَ أشْبَاہَ ا8خْوَانِھِنَّ وَ أخْوَاتِھِنَّ (ابن عدی وابن عساکر)
اپنے نطفوں کے لیے عمدہ محل پسند کرو، اس لیے کہ عورتیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے مانند بچے جنتی ہیں۔
یعنی خاندانی اثرات بچوں میں ہوتے ہیں، اس لیے اچھے خاندان کے اچھے اثرات بچوں میں آئیں گے۔ اچھے خاندان وہی ہیں، جس میں دینداری اور اخلاق مندی ہیں۔
نکاح سے جہاں مقصد تعلقات کی خوشگواری کے ساتھ اپنے دین اور شرمگاہ کی حفاظت اور گھر کا انتظام ہے ، وہاں نکاح سے اہم مقصد حصول اولاد بھی ہے ۔ اس لیے اس خاندان کی عورت سے نکاح کرنا چاہیے، جس خاندان کی عورتیں اولاد کثیر جنتی ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
دوست رکھنے والی، کثیر اولاد جننے والی عورت سے نکاح کرو۔ میں امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔ (ابو داود و نسائی)
کیسے مرد سے نکاح کرے
اسی طرح اگر کوئی اپنی لڑکی کا نکاح کسی لڑکے سے کرنا چاہے، تو اس لڑکے کے اندر بھی دیند اری، خوش اخلاقی اور فیاضی کا لحاظ رکھے۔ اس لیے کہ نیک مرد ہی عورتوں کے حقوق کو خوش اسلوبی سے ادا کرسکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حقیقت میں اچھے اخلاق کے وہ لوگ ہیں، جن کے تعلقات اپنی بیویوں سے اچھے ہیں۔ (ترمذی)
اس زمانہ میں اکثر لوگ ایسے لڑکے کو پسند کرتے ہیں جو مالدار کی اولاد ہوتی ہے۔ زمین جائداد کا مالک ہوتا ہے ۔ اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے اندر دین داری ہے یا بد دینی کا پتلا ہے ۔ اخلاق اچھے ہیں، یا بد خلقی کا مجسمہ ہے ۔ اسی لیے اس بے اعتدالی کا نتیجہ فوراً سامنے آتا ہے۔ لڑکا اپنی بد دینی کی وجہ سے غیر عورت سے آشنائی پیدا کرتا ہے اور اپنی منکوحہ کو یا تو چھوڑ دیتا ہے، یا انتہائی اذیت میں رکھتا ہے ۔ اس بے راہ روی کی وجہ سے کچھ دنوں کے بعد مفلس ابن مفلس ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے ، جس کا آئے دن تجربہ ہوتا رہتا ہے ۔ اس لیے نکاح کے اندر ہر دو جانب دینداری اور خوش اخلاقی اور خاندانی خوبیوں کا بڑا خیال رکھنا چاہیے۔ ان خوبیوں کے ساتھ اگر دھن دولت کی کثرت ہو، جاہ و مرتبہ ہو، بڑی اچھی بات ہے ۔ اور اگر اصل جوہر نہ ہو، تو دولت کی ٹپ ٹاپ بیکار؛ بلکہ وہ ایک زہریلا ناگ ہے ۔ اس کو لات مارنا چاہیے۔
برے ہو اچھی صورت پربھی گر اچھے نہیں خو میں
وہی اچھا ہے گل، جو ہو رنگت میں اور بو میں
دن تاریخ
بہر کیف جب جانبین سے نکاح کا پیغام منظور ہوجائے، تو عقد نکاح کے لیے ایک تاریخ مقرر کی جائے ۔ اور اس تاریخ کے اندر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مدعو کیا جائے ، تاکہ نکاح کی پوری شہرت ہوجائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
اعْلَنُوْا النِّکَاحَ ۔ (رواہ احمد و صححہ الحاکم)
نکاح کا اعلان کرو۔
اس اعلان کے لیے جمعہ کا دن اور جامع مسجد اختیار کیا جائے، تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ
وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ۔
مسجدوں میں عقد نکاح باندھو۔
ابن ہمام نے فرمایا کہ نکاح مسجدوں میں کرنا مستحب ہے، اس لیے نکاح عبادت ہے ۔ اگر جمعہ کا دن ہو تو اور بہتر ہے۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ)
مہینے کے اعتبار سے ماہ شوال میں نکاح کرنا مستحب ہے ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ماہ شوال میں نکاح کیا اور رخصتی بھی شوال ہی میں ہوئی اور میں حضور ﷺ کی سب سے زیادہ چہیتی ہوئی۔
(مسلم)
دف کا بجانا
اعلان کے لیے بغیر سُر و تال کے دف کا بجانا جائز ہے ، مسنون نہیں۔ اگر سنت ہوتا تو صحابۂ کرام نہ چھوڑتے اور نہ ہی حضور اکرم ﷺ کے کسی نکاح میں دف کا بجانا ثابت ہے ؛ البتہ حضور ﷺ نے اعلان کے لیے بجانے کی اجازت دی ہے ۔ مگر تال و سر سے بجانا درست نہیں۔ چنانچہ فتاویٰ حمادیہ میں لکھا ہے کہ حضرت معلی نے بیان کیا کہ ابوالمہاجر نے فرمایا کہ ابان ابن ایاس نے حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے تمھارے واسطے شراب اور جوا اور بانسری اور ڈھول اور دف مکروہ اور حرام کیا ۔ حضرت معلی کہتے ہیں کہ میں نے ابوالمہاجر سے پوچھا کہ ( جب دف بجانا حرام ہے تو ) آں حضرت ﷺ کے عہد شریف میں دف کو کس طرح بجاتے تھے ؟ ابوالمہاجر نے فرمایا کہ ایک عورت تھی ، جس کسی کی شادی ہوتی، تو وہ عورت ایک چھلنی اور چوب لے کر ایک اونچے مکان پر چڑھ کر چوب کو چھلنی پر مارتی، تاکہ لوگ اس کی آواز سن کر جانیں کہ یہ شادی ہے۔
اس طرح دف بجانے کو اب بھی فقہا جائز کہتے ہیں ۔ چنانچہ تنبیہ الانام میں فتاویٰ سراجیہ سے نقل کیا ہے کہ نکاح کی رات کو نکاح کے اعلان کے واسطے صرف دف بجانا مضائقہ نہیں؛ بشرطیکہ دف میں جلاجل یعنی جھانجھ نہ لگے ہوں۔ اور اس کا بجانا کھیل اور خوشی کی نیت سے بھی نہ ہو، اس لیے کہ کھیل اور راگ دونوں ممنوع اور مکروہ ہیں ۔ اور مالابدمنہ میں لکھا ہے کہ ملاہی، مزامیر، طنبور، ڈھول اور نقارہ اور دف وغیرہ سب بالاتفاق حرام ہیں؛ مگر غازیوں کا نقارہ اور اعلان نکاح کے واسطے دف مباح ہے۔
اور ہدایہ میں لکھا ہے کہ جہاد میں نقارہ بجانا اور نکاح کو مشہور کرنے کے لیے دف بجانا؛ یہ دونوں بالاتفاق مباح ہیں۔ اگر کوئی شخص غازی کے نقارہ کو، یا نکاح کے دف کو ضائع کرے، تو اس پر بالاتفاق تاوان ہے۔
اور یہ اسی وقت تک جائز ہے جب کہ اعلان کی ضرورت سے بجایا جائے۔اگر کھیل اور خوشی کی نیت سے، یا تال و سر سے، یا جھانجھ وغیرہ لگا کر بجایا جائے، تو پھر حرام ہوگا۔ اس لیے کہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ
نَھَیٰ رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ عَنْ ضَرْبِ الدُّفِّ و لَعْبِ الصَّنْجِ وَ ضَرْبِ الزَّمَّارِ (رواہ الخطیب)
رسول اللہ ﷺ نے دف بجانے، اور چنگ سے کھیلنے، اور بانسری کے بجانے سے منع فرمایا ہے۔
اسی طرح دوسرے باجوں کے بجانے سے بھی منع فرمایا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
اَلْجَرْسُ مَزامِیْرُ الشَّیْطَانِ (رواہ مسلم)
گھنٹیال شیطان کا باجا ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
انَّ الْلّٰہَ تَعَالَیٰ حَرَّمَ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوْبَۃَ وَ قَالَ کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ ۔ قِیْل:َ اَلْکُوْبَۃُ الطِّبْلُ۔ (رواہ البیھقی)
اللہ تعالیٰ نے شراب، جوا اور نقارہ کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حضرت مکحول بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِسْتِماعُ الْمَلاھِیْ مَعْصِیَۃٌ، وَالْجُلُوْسُ عَلَیْھَا فِسْقٌ وَ التَّلَذُّذُ بِھَا مِنَ الکُفْرِ (قاضی خاں)
باجوں کا سننا گناہ ہے اور اس پر بیٹھنا (یعنی بیٹھ کر باجا سننا) فسق ہے اور اس سے لذت لینا کفر ہے۔
اسی لیے رسول اللہ ﷺ راہ چلتے بھی باجوں کا سننا پسند نہ کرتے تھے ۔ کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔ چنانچہ حضرت نافعؓ فرماتے ہیں کہ
میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ راستے میں تھا ، تو آپ ﷺ نے باجے کی آواز سنی۔ آپ ﷺ نے فوراً انگلیاں دونوں کانوں میں کرلیں اور اس راستہ سے دوسری طرف ہٹ گئے ۔ پھر جب دور نکل گئے تو مجھ سے فرمایا ائے نافع! کچھ آواز سنائی دیتی ہے؟ میں نے کہا نہیں، تو انھوں نے انگلیاں کانوں سے اٹھائیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ ﷺ نے بانسری کی آواز سنی، تو حضور ﷺ نے اسی طرح کانوں میں انگلیاں دے لیں، جس طرح میں نے دیں۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں اس وقت چھوٹا تھا۔
(ابو داود)
سماع کا بیان
موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت، جب کہ اشعار نہ پڑھے جائیں اور اس میں کوئی برا مضمون نہ ہو اور پڑھنے والا نہ مرد ہو نہ عورت، تو ایسے اشعار کا سننا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا تھانویؒ فرماتے ہیں کہ
رہا حضرت شارع علیہ الصلاۃ والسلام کا فعل ، سو ہر چند کہ مدعیان جواز قصہ عروسی ربیع بنت معوذ اور قصۂ غناء جاریتین فی یوم الفطر و قصۂ نذر وقت رجوع غزوہ کو اثبات مدعا کے لیے پیش کرتے ہیں اور اہل ظاہر سرسری نظر میں اس کو جواز کی دلیل بھی مان لیتے ہیں ؛ مگر انصاف یہ ہے کہ ان روایات میں غناء لغوی مذکور ہے اور اس میں کہ گفتگوہورہی ہے، وہ صرف اس کا نام نہیں کہ کوئی شعر ذرا آواز بناکر پڑھ دیا ؛ بلکہ خاص نغمات و تحریک صوت برعایت قواعد موسیقی کا نام ہے ۔ اور ان روایات میں کہیں اس کا نام و نشاں بھی نہیں۔ (حق السماع، ص؍ ۷)
مطلب یہ ہوا کہ احادیث میں جو حضور ﷺ کے گانا سننے کا ثبوت ہے وہ غناء لغوی ہے ۔ غناء لغوی یہ ہے کہ اشعار موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت نہ پڑھے جائیں۔ اگرچہ بلند آواز سے قدرے آواز بناکر پڑھا جائے، ایسے غناء کے سننے میں کوئی کلام نہیں، یہ بالاتفاق جائز ہے۔کلام اس غناء میں ہے، جو موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت ہو ، یہی اصطلاحی غناء ہے ۔ اسی غناء کے بارے میں احادیث میں مذمت آئی ہے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلْغِنَاءُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ۔
(رواہ البیھقی)
گانا دل میں نفاق اسی طرح پیدا کرتا ہے، جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔
ایک دوسری روایت حضرت انسؓ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اَلْغِِنَاءُ وَالْلَّھْوُ یُنْبِتانِ النِّفاقَ کَمَا یُنْبِتُُ الْمَاءُ الْعُشْبَ۔ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ أنَّ الْقُرْآنَ وَالذِّکْرَ یُنْبِتَانِ الا8یْمَانَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الْعُشْبَ۔ (دیلمی)
گانا اور باجا نفاق پیدا کرتے ہیں ، جیسا کہ پانی گھاس اگاتا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، قرآن اور ذکر دل میں ایمان پیدا کرتے ہیں جیسا کہ پانی گھاس اگاتا ہے۔
اور بھی ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
قسم ہے اس ذات پاک کی، جس نے مجھ کو دین حق دے کر بھیجا، نہیں بلند کیا کسی شخص نے اپنی آواز کو گانے میں ، مگر مسلط فرماتا ہے اس پراللہ تعالیٰ دو شیطانوں کو ، کہ سوار ہوتے ہیں ان کے کندھوں پر اور پھر اس کے سینے پر لاتیں مارتے ہیں ، جب تک وہ خاموش نہ ہوجائے۔
(ابن ابی الدنیا، طبرانی، ابن مردویہ)۔
’’رسالہ نصیحت‘‘ میں مبسوط سے نقل کیا ہے کہ ملاہی کا سننا اور گانا؛ سب حرام ہے۔ اور محیط سے لکھا ہے کہ گانا اور تالیاں بجانا اور ان چیزوں کو سننا سب حرام ہے۔ مضمرات میں ہے کہ جس شخص نے مباح کیا غناء کو ، وہ فاسق ہوگیا۔ معلوم ہوا یہ اصطلاحی غناء امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اور ان کے متبعین کے نزدیک حرام ہے۔
رہا غنا ء ساز کے ساتھ اس کے حرام ہونے میں، تو کسی امام کا اختلاف نہیں ہے ۔ رسالہ ابطال میں حرمت آلات کو جمہور کا مذہب قرار دیا ہے ۔اوربوارق میں مزمار( بانسری) کو حرام لکھا ہے۔ ان دونوں رسالوں کے مصنف حنبلی و شافعی ہیں ۔ امام غزالی جو شافعی مذہب ہیں، احیاء العلوم میں مزامیر اور اوتاد جس میں ستار وغیرہ بھی داخل ہیں، اور طبل کو جو ڈھولک کو بھی شامل ہے ، ان سب کو حرام فرماتے ہیں ۔ احادیث کے اندر بھی اس کی بڑی مذمت آئی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے، جو خز (ریشم) اور حریر اور شراب اور معازف (باجے) کو حلال سمجھیں گے۔ (بخاری)
اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ
بعضے لوگ شراب کا نام بدل کر پئیں گے ۔ اور ان کے سروں پر معازف (گانے بجانے کے آلے) اور گانے والیوں سے ، گو ریاءً بجایا جائے گا، اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسا دے گا اور بندر اور سور بنا دے گا۔
(ابن ماجہ)
اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:
ایک قوم اس امت کی آخر زمانہ میں بندر اور خنزیر بن جائے گی ۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا وہ لوگ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل نہ ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، وہ لوگ نماز ، روزہ و حج سب کچھ کریں گے ۔ کسی نے عرض کیا کہ پھر اس سزا کی کیا وجہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھوں نے باجے اور گانے والیوں کا مشغلہ اختیار کیا ہوگا۔ (مسند ابن ابی الدنیا)
اسی قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں ، جن سے گانے بجانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، لہذا شادی کے موقعوں پر اس کی جرأت نہ کریں۔
مَہَر کا بیان
جب جانبین کے لوگ اکٹھے ہوجائیں، تو اس کے بعد مہر طے کرلینا چاہیے ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں مہر دس درہم سے کم درست نہیں ، جس کا وزن اکتیس ماشے چار رتی چاندی ہوتا ہے ۔ حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا مَھْرَ أقَلُّ مِنْ عَشْرَۃِ دَرَاھِمَ (رواہ ابن ابی حاتم و قال الحافظ بن حجر انہ بھذا الاسناد حسن)
دس درہم سے کم مہر نہیں ہے۔
اور مہر کی زیادتی کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جس قدر بھی طے ہوجائے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو زیادہ مہر مقرر کرنے سے روکا، تو ایک قریشی عورت نے کہا کہ:
ائے امیر المؤمنین ! اللہ کی کتاب اتباع کی زیادہ مستحق ہے، یا آپ کی بات؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب۔ اس عورت نے کہا کہ ابھی آپ نے عورتوں کے مہر میں غلو کرنے سے منع فرمایا ، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ:
وَ اٰتَیْتُمْ احْدٰھُنَّ قِنْطَاراً فَلَا تَأخُذُوْا مِنْہُ شَیْءَاً
(النساء آیۃ:۲۰ )
اور تم ان میں سے ایک کو ڈھیر کا ڈھیر مال دے چکے ہو ، تو تم اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو۔
اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا : عمر سے ہر شخص زیادہ سمجھ دار ہے ۔ اور پھر ممبر پر چڑھے اور فرمایا: میں نے زیادہ مہر باندھنے سے منع کیا تھا، اب ہر شخص اپنے مال میں جو چاہے کرے۔ (بیہقی) ۔
لیکن زیادہ مہر مقرر کرنا استحباب کے خلاف ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
انَّ أعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَۃً أیْسَرُ مَؤُنَۃً (بیھقی)
سب سے زیادہ بابرکت وہ نکاح ہے، جس میں کم خرچ ہو۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ :
خَیْرُ الصِّداقِ أیْسَرُہُ۔ (اخرجہ ابو داود، و صححہ الحاکم)
بہترین مہر آسان مہر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
خبردار عورتوں کا زیادہ مہر مقرر مت کرو، اس لیے کہ زیادہ مہر مقرر کرنا اگر دنیا میں کوئی کرامت کی چیز ہوتی، اور خدا کے نزدیک کوئی تقویٰ کی بات ہوتی، تو مہر کی زیادتی میں اللہ کے نبی ﷺ تم سے زیادہ لائق تھے۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر کسی عورت سے نکاح کیا ہو، یا کسی لڑکی کا نکاح کیا ہو۔
(ترمذی، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ، یعنی چار سو اسی درہم ۔ اور حضرت عائشہؓ کی روایت میں ساڑھے بارہ اوقیہ آیا ہے، یعنی پانچ سو درہم۔ چنانچہ حضرت ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی عورتوں کا مہر کیا مقرر کیا تھا؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بارہ اوقیہ اور نُش۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہونُش کیا ہے؟ حضرت ابو سلمہ نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا آدھا اوقیہ، پس یہ پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ (مسلم)
مہروں میں اولیٰ اور مسنون پانچ سو درہم ہیں، یعنی ایک سو اکتیس تولے تین ماشہ چاندی، جیسا کہ ازواج مطہراتؓ کا تھا ۔ یا چار سو مثقال چاندی، یعنی ڈیڑھ سو روپیے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کی صاحبزادیوں کا مہر تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی چار سو مثقال چاندی تھا، یعنی ایک سو پچاس تولے، کیوں کہ ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو دینار تھا، یعنی ایک ہزار پچاس روپیے، جو شاہ حبش نجاشی نے آں حضور ﷺ کی طرف سے نکاح کے وقت مقرر کرکے اسی وقت ادا کردیا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مہر پانچ سو درہم، یا اس قیمت کے اونٹ تھے، جو ابو طالب نے اپنے ذمہ رکھے۔ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مہر کوئی برتنے کی چیز تھی جو دس درہم کی تھی۔ اور حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو درہم تھا۔ اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو درہم تھا۔
مہر مثل میں باپ کی قوم کا اعتبار ہوتا ہے اور اس میں عمر، حسن، مال، عقل و دین ، نکاح کا وقت اور زمانہ اور شہر ایک ہو۔
(نور الہدایہ، ج؍ ۲، ص؍۲۴)
نکاح کا خطبہ
ایجاب و قبول سے پہلے خطبہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔ چنانچہ ابو داود کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امامہ بنت عبدالمطلب کا نکاح بنی سلیم کے ایک شخص سے کیا ؛ مگر آپ ﷺ نے خطبہ نہیں پڑھا؛ البتہ خطبہ پڑھنا مسنون ہے ۔ اگر منکوحہ کا ولی خود پڑھا لکھا ہو تو اس کو چاہیے کہ خود خطبہ پڑھے اور اس کے بعد ایجاب کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدۃ النساء فاطمہ الزہرا کا کیا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں بزرگوں نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اپنے لیے نکاح کی درخواست کی، تو رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اور کسی کو کچھ جواب نہیں دیا۔ پھر ان دونوں بزرگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اپنے لیے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں درخواست کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حضرات کے اشارہ سے میں اپنی چادر گھسیٹتا ہوارسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! فاطمہ کو میرے نکاح میں دیدیجیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیرے پاس کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا گھوڑا اور زرہ موجود ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا : تجھ کو گھوڑے کی ہر وقت حاجت رہتی ہے۔ زرہ کو بیچ ڈال۔ تو میں نے چار سو اسی درہم میں زرہ کو بیچ کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے وہ درہم گود میں لے لیے۔ پھر ان میں سے ایک مٹھی بھر درہم اٹھاکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دے کر فرمایا کہ ہمارے واسطے خوشبو لاؤ ۔ اور اہل بیت کو اشارہ کیا کہ فاطمہ کے واسطے جہیز تیار کر۔ تب ان کے واسطے ایک چار پائی کھجور کی رسیوں سے تیار کی اور کھجور کی چھال بھر کر توشک تیار ہوئی ۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ جب فاطمہ تمھارے پاس آئے، تو جب تک کہ میں تمھارے پاس نہ پہنچوں، تم فاطمہ سے کلام نہ کیجیو۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ اندر آئیں اور گھر کے ایک کنارہ میں بیٹھیں۔ اور میں علاحدہ دوسرے کنارے میں بیٹھا۔ اسی عرصہ میں جناب سرکار دو عالم ﷺ نے تشریف لاکر فرمایاکہ یہاں میرا بھائی ہے؟ حضرت ام ایمنؓ نے کہا کہ آپ کا بھائی موجود ہے ؟ کیا آپ ﷺ نے اپنی بیٹی اس کے ساتھ بیاہ دی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یقینا۔ پھر آپ ﷺ اندر تشریف لائے ۔ اور فاطمہ سے کہا تھوڑا پانی لاؤ۔ فاطمہ اٹھ کر گئیں اور گھر سے لکڑی کے پیالہ میں پانی لائیں۔ آں حضرت ﷺ نے وہ پانی لے کر تھوڑا لعاب دہن مبارک اس میں ڈال کر فاطمہ کو اپنے پاس بلایا۔ جب فاطمہ پاس آئیں، تو آپ ﷺ نے تھوڑا پانی اپنے ہاتھ میں لے کر فاطمہ کے سینے اور سر پر چھڑکا اور فرمایا: الٰہی میں اس کو اور اس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، شیطان مردود سے۔ پھر فاطمہ سے فرمایا کہ اپنی پیٹھ میری طرف کر۔ فاطمہ نے اپنی پیٹھ آپﷺ کی طرف پھیرد ی۔ آپ ﷺ نے تھوڑا پانی ان کے دونوں مونڈھوں کے درمیان میں چھڑکا۔ پھر یہی معاملہ میرے ساتھ کیا۔ پھر مجھ سے فرمایا: اب تو اپنی بیوی کے پاس اللہ تعالیٰ کا پاک نام لے کر اور اس کی برکت کے ساتھ داخل ہو۔ (ابو حاتم و احمد بحوالہ مواہب لدنیہ)
دوسری روایت بھی حضرت انسؓ ہی سے اس طرح ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی درخواست کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیغمبر خدا ﷺ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام اپنے واسطے دیا، تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: میرے رب نے بھی مجھے یہی حکم دیا ہے ۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر مجھ کو آں حضرت ﷺ نے کئی روز بعد بلاکر فرمایا: ائے انس! تم ابوبکر، عمر، عثمان، عبدالرحمان اور کچھ لوگ انصار میں سے بلا لاؤ۔ پھر جب یہ حضرات تشریف لائے اور اپنے اپنے مقام پر بیٹھے اور حضرت علیؓ وہاں موجود نہ تھے ، تو آں حضرت ﷺ نے یہ خطبہ پڑھا:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَحْمُودِ بِنِعْمَتِہِ، الْمَعْبُودِ بِقُدْرَتِہِ، الْبَالِغِ سُلْطَانُہُ، الْمَرْھُوبِ مِنْ عَذَابِہِ، الْمَرْغُوبِ إِلَيِ فِیْمَا عِنْدَہُ، النَّافِذِ أَمْرُہُ فِي سَمَاۂِ وَأَرْضِہِ، الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِہِ، وَمَیَّزَھُمْ بِأَحْکَامِہِ، وَأَحْکَمَھُمْ بِعِزَّتِہِ، وَأَعَزَّھُمْ بِدِیْنِہِ، وَأکْرَمَھُمْ بِنَبِیِّہِ مُحَمَّدﷺ، ثُمَّ إِنَّ الْلّٰہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الْمُصَاھَرَۃَ نَسَبَاً لَاحِقَاً وَأَمْرَاً مُفْتَرَضَاً، وَشَبَّحَ بِہِ الأَرْحَامَ، وَأَلْزَمَ الأَنَامَ، فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: وَھُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرَاً فَجَعَلَہُُ نَسَبَاً وَصِھْرَاً وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیْرَاً ۔ فَأَمْرُ الْلّٰہِ تَعَالَیٰ یَجْرِي إِلَیٰ قَضَاءِہِ، وَقَضَاؤُہُ یَجْرِیْ إِلیٰ قَدَرِہِ، وَقَدَرُہُ یَجْرِيْ إِلیٰ أَجَلِہِ، وَ لِکُلِّ قَضَاءٍ قَدَرٌ، وَ لِکُلِّ قَدَرٍ أَجَلٌ، وَلِکُلِّ أَجََلٍ کِتَابٌ، یَمْحُوالْلّٰہُ مَا یَشَاءُ وَ یُثْبِتُ، وَعِنْدَہُ أُمُّ الْکِتَابِ۔ (الرعد آیۃ۳۹)
اس کے بعد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو فاطمہ کا نکاح علی کے ساتھ کردینے کا حکم دیا ہے ، سو تم لوگ اس بات پر گواہ رہو کہ میں نے اس کا نکاح علی کے ساتھ کردیا ۔ اور چار سو مثقال چاندی اس کا مہر ٹھہرایا۔ بشرطیکہ علی بھی اس پر راضی ہو۔ اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے ایک طباق بھر کر خشک چھوہارے منگوائے اور حاضرین مجلس سے فرمایا کہ ان کو لوٹ لو۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے آں حضرت ﷺ کے ارشاد کی وجہ سے وہ چھوہارے لوٹ لیے۔ اتنے میں حضرت علیؓ بھی آ پہنچے ، تو آں حضرت ﷺ علیؓ کے روبرو مسکرائے ، پھر فرمایا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے حکم بھیجا ہے کہ فاطمہ کا نکاح تمھارے ساتھ چار سو مثقال چاندی کے مقابلہ میں کردوں، کیا علی تم اس پر راضی ہو؟انھوں نے کہا کہ بے شک یا رسو ل اللہ ، میں اس پر راضی ہوں۔ پھر آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
جَمَعَ الْلّٰہُ شَمْلَکُمَا وَ أعَزَّ جَدَّکُمَا، وَ بَارَکَ عَلَیْکُمَا وَ اَخْرَجَ مِنْکُمَا کَثِیْرَاً طَیِّبَاً
اللہ تم دونوں کی پراگندگی دور کرے۔ اور تمھاری کوشش کو عزیز کرے اور تم پر برکت نازل کرے اور تم کو اچھی پاکیزہ اولاد دے۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم ان دونوں سے اللہ تعالیٰ نے بہت پاکیزہ اور بہتر اولاد پیدا کیں۔ (ابوالخیر قزوینی حاکمی بحوالہ مواھب لدنیہ)
اگر ولی پڑھا لکھا نہ ہو تو اس کا وکیل یا قاضی جس کو ایجاب و قبول کی اجازت ملی ہو ، وہ خطبہ مسنونہ پڑھے ، پھر ایجاب و قبول کرے ۔ نکاح کا وکیل وہ شخص ہے ، جس کو دوسرے کے نکاح کرانے کا اختیار ملا ہو۔ نکاح میں وکیل بنانا درست ہے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے شاہ حبش نجاشیؓ کو اپنا وکیل ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا بنایا تھا۔چنانچہ مواہب لدنیہ میں اس کے احوال بھی مفصل منقول ہیں۔ یہاں پر اس کا خلاصہ لکھا جاتا ہے:
جب ام حبیبہ کا شوہر عبدا للہ بن جحش ان کو لے کر ملک حبش کو ہجرت کرگیا اور وہاں پہنچ کر بد قسمتی سے نصرانی ہوگیا اور اسی حالت میں مرگیا، تو رسول اللہ ﷺ کو کسی صحابی نے خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے ایمان اور اسلام پر بدستور قائم ہیں۔ آں حضرت ﷺ نے یہ بات سن کر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اپنا نکاح کا پیغام نجاشی کے پاس عمرو بن امیہ کے ہاتھ بھیجا ۔ نجاشی نے اسی وقت اپنی باندی ابرھ کو ام حبیبہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ ان سے کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تمھارے ساتھ اپنا نکاح کرنے کا پیغام بھیجا ہے ، اگر تم کو منظور ہو تو تمھارا نکاح آں حضرت ﷺ کے ساتھ پڑھ دوں؟ یہ خبر سنتے ہی وہ بہت خوش ہوئیں اور اپنے ہاتھ کے دونوں کنگن اور ایک انگوٹھی اس خوش خبری کے انعام میں ابرھ کو دیے اور نکاح کے معاملہ میں خالد بن سعید کو اپنی طرف سے وکیل کرکے نجاشی کے پاس بھیجا۔ اس نے شام کے وقت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت مہاجرین رضی اللہ عنہم سمیت بلواکر حقیقت حال بیان کی پھر یہ خطبہ پڑھا:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ السَّلَامِ الْمُؤمِنِ الْمُھّیْمِنِ الْعَزِیْزِ الْجَبَّارِ، أشْھَدُ أنْ لَّا الٰہَ الَّا اللّٰہُ وَ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ أرْسَلَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ۔
اس خطبہ کے بعد نجاشی رضی اللہ عنہ نے کہاکہ سننا چاہیے کہ جس کام کا رسول کریم ﷺ نے مجھ کو پیغام بھیجا تھا ، سو میں نے اس کو قبول کیا۔ پھر چار سو اشرفی سونے کے سکے ان حضرات کے آگے ڈال دیے۔ اور فرمایا: اس قدر مہر میں نے مقرر کیا۔ اس کے بعد خالد بن سعید رضی اللہ عنہ ام حبیبہؓ کے وکیل نے کہا :
الْحَمْدُ لِلّٰہِ أحْمَدُہُ وَ اَسْتَعِینُہُ وَ اسْتَغْفِرُہُ ، أشْھَدُ أنْ لَّا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ أرْسَلَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ،أمَّا بعدُ۔
میں نے اس امر کو قبول کیا، جس کو پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے ۔ اور میں نے پیغمبر خدا ﷺ کا نکاح ام حبیبہ بنت ابی سفیان کے ساتھ کردیا۔ اللہ تعالیٰ یہ نکاح پیغمبر خدا ﷺ کو مبارک کرے ۔ اس کے بعد نجاشی رضی اللہ عنہ نے وہ سب دینار حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیے۔ حضرت خالد نے لے کر گانٹھ باندھ لی ۔ اب لوگوں نے چاہا کہ اٹھ کر اپنے اپنے مکان کو جائیں، تو نجاشی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ حضرات ذرا دیر اور تشریف رکھیے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ اور ان کی سنت یہ ہے کہ نکاح کے بعد کچھ کھانا دوستوں کو کھلاتے ہیں ۔ پھر کھانا منگواکر سب حضرات کو کھلایا اور رخصت کیا۔ پھر نجاشی رضی اللہ عنہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکو شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیغمبر خدا ﷺ کی خدمتِ مبارک میں روانہ کیا۔
ایک خطبہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کو عام طور پر حضرات علمائے کرام پڑھتے ہیں ، وہ یہ ہے:
اِن اَلحَمدَ لِلّٰہِ نَحمَدُہٗ وَ نَستَعِینُہٗ وَ نَستَغفِرہٗ وَ نَعَوذُ بِالْلّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سِیَّءَاتِ أعْمَالِنَا، مَنْ یَھْدِ ہِ الْلّٰہُ فَلا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہُ، وَأشْھَدُ أنْ لَّا اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، وَ أشْھَدُ أنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ یَاایُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا الْلّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُمْ مُّسْلِمُونَ۔یَااَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّن نَّفْسٍ وَّاحِدۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْراً وَّ نِسَاءً ۔ وَاتَّقُوْا الْلّٰہَ الَّذِيْ تَسَاءَلُوْنَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ، إِنَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبَاً، یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا الْلّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدَاً، یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ الْلّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظیْمَاً ۔ (مشکوٰۃ)
ایجاب و قبول
خطبہ کے بعد قاضی یا جو شخص عقد نکاح کے واسطے مقرر ہو حاضرین کے سامنے دولہا سے کہ: فلاں کی بیٹی فلانی کو میں نے اس قدر مہر کے عوض میں تیرے نکاح میں دی ۔ دولہا اس کے جواب میں کہے : میں نے قبول کیا۔ اس طرح ایجاب و قبول سے نکاح ہوجاتا ہے ۔ پہلی بات کو ایجاب اور دوسری بات کو قبول کہتے ہیں ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ دولہن ہی کی طرف سے ایجاب ہو اور دولہا کی طرف سے قبول؛ بلکہ اس کا برعکس بھی ہوسکتا ہے ، یعنی دولہا کی طرف سے ایجاب اور دولہن کی طرف سے قبول، بہر صورت جائز ہے ، لیکن پہلی صورت مستحب ہے۔
ایجاب و قبول نکاح کا رکن ہے ۔ اور دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہوں میں ہونا شرط ہے ۔ یعنی کم از کم دو مسلمان بالغ عاقل کے سامنے اتنی آواز سے ایجاب و قبول ہونا چاہیے کہ وہ دونوں گواہ ایک مرتبہ میں سن لیں۔ اگر ایک نے سنا اور دوسرے نے نہیں سنا تو پھر نکاح نہ ہوگا۔ صرف عورتوں کی یا نابالغ بچوں کی یا کافر کی گواہی معتبر نہیں۔ اور ایجاب و قبول میں سے کسی ایک کا لفظ ماضی کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اس یجاب و قبول کی چند صورتیں ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ ایجاب و قبول دونوں بالاصالت ہو۔ یعنی دلہن ایجاب کرے اور دولہا قبول کرے ، یا دولہا ایجاب کرے اور دولہن قبول کرے۔ یوں کہے کہ میں نے اتنے روپیے مہر کے عوض اپنا نکاح تم سے کیا اور دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ دولہن کی طرف سے ولی یا وکیل ہو اور دولہا اصیل ہو اور اسی کا زیادہ رواج ہے۔ اس میں اس طرح کہے: میں نے اپنی لڑکی یا فلاں کی فلانی لڑکی کا نکاح اتنے مہر میں تم سے کیا ۔ دولہاکہے کہ: میں نے قبول کیا۔مثلا زید کی لڑکی بی بی زینب کا نکاح ڈیڑھ سو روپیے مہر فاطمی میں تم سے کیا۔ دولہا نے کہا : قبول کیا۔
تیسیری صورت یہ ہے کہ دولہن اصیل ہو اور دولہا کی طرف سے ولی یا وکیل ہو، تو وکیل کہے : میں نے اپنے لڑکے کا۔ اور وکیل کہے : میں نے فلاں کے لڑکے فلاں کا نکاح اتنے مہر میں تم سے کیا۔ اور دولہن کہے : میں نے قبول کیا۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے ولی یا وکیل ہو۔ یا ایک طرف سے ولی اور دوسری طرف سے وکیل ہو۔ ولی کہے : میں نے اپنی لڑکی فلانی کا نکاح فلاں کی لڑکی فلانی سے اتنے دین مہر میں کیا۔ دوسرا کہے: میں نے اپنے لڑکے یا اپنے مؤکل کی طرف سے قبول کیا۔اور وکیل کہے کہ میں نے فلاں کی لڑکی فلانی کا نکاح تمھارے لڑکے فلاں سے ، یا فلاں کے لڑکے فلاں سے اتنے مہر میں کیا۔ دوسرا کہے اپنے لڑکے فلاں کی طرف سے ۔ اور وکیل کہے: فلاں کے لڑکے فلاں کی طرف سے قبول کیا، نکاح ہوگیا۔
پانچویں صورت یہ ہے کہ ایک ہی شخص دولہا دولہن؛ دونوں طرف سے ولی یا وکیل ہو، یا ایک طرف سے ولی اور دوسری طرف سے وکیل ہو، تو اس صورت میں ایک ہی کلمہ ایجاب و قبول کا قائم مقام ہوگا۔ الگ الگ ایجاب وقبول نہ ہوگا۔ صرف اتنا کہنا کافی ہوگا: میں نے اپنی لڑکی فلانی کا نکاح ، یا فلاں کی لڑکی فلانی کا نکاح، اتنے مہر میں فلاں کے لڑکے فلاں سے کیا، بس نکاح ہوگیا۔
جب ایجاب و قبول ہوجائے تو زوجین کے لیے دعا کرے کہ :
بَارَکَ الْلّٰہُ لَکَ وَ فِیْکَ وَ عَلَیْکَ وَ جَمَعَ شَمْلَکُمَا عَلٰی خَیْرٍ۔
اللہ تعالیٰ اس نکاح کو بابرکت کرے اور دونوں کی پراگندگی کو خیر پر جمع کرے۔
اس کے بعد چھوہارے، بادام، کشمش وغیرہ جو کچھ شیرنی ہو، لٹائے اور حاضرین مجلس میں تقسیم کردے۔
رفاہ المسلمین میں لکھا ہے کہ اگر اس وقت نکاح کے اعلان کے واسطے دف بغیر جھانجھ کے بجایا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اور خوشی کو ظاہر کرنے کے واسطے اگر گانا بغیر مزامیر (باجے) کے واقع ہو، بشرطیکہ امرد یا جوان مشتہات عورت کی زبان سے نہ ہو، اور کسی مسلم یا ذمی کی برائی نہ ہو، اور نماز کے حضور کا وقت بھی نہ ہو، اور غناء کی اجرت بھی مشروط نہ ہوتو بالاتفاق جائز ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک انصاری لڑکی تھی، جس کا میں نے نکاح کرادیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
ألَّا تُغَنِّیَنَّ، فَانَّ ھَذَا الْحَیَّ مِنَ الْأنْصَارِ یُحِبُّوْنَ الْغِنَاءَ
( رواہ ابن حبان فی صحیحہ)
کیا تم گاتی نہیں ہو، انصار کا یہ قبیلہ گانے کو پسند کرتا ہے۔
اور ابن عباس کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ کسی ایسے آدمی کو بھیج دیتے جو کہتا کہ :
اَتَیْنَاکُمْ اَتَیْنَاکُمْ فَحَیَّانَا وَ حَیَّاکُمْ (ابن ماجہ)
مطلب یہ ہے کہ مبارک بادی کے کچھ اشعار موسیقی کے اصول و قواعد کی رعایت کے بغیر سنا دیے جائیں، تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اور باجے کے ساتھ گانا بالاتفاق حرام ہے۔ اس کی مفصل تحقیق پہلے گذر چکی ہے۔
جہیز کا بیان
جہیز میں ضرورت کی چیز دینا مناسب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ چیزیں دی تھیں: د ویمنی چادریں، جو سوسی کی طرح ہوتی تھیں۔ دو نہالی، جس میں اسی کی چھال بھری تھی اور دو گدے، دو چاندی کے بازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ، ایک گھڑا، اور بعض روایت میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ (ازالۃ الخفا)
رخصتی
جب دولہن کو گھر لائے تو اس کی پیشانی کا بال پکڑکر یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ انِّیْ أسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ ۔
(زاد المعاد بحوالہ امداد الفتاوٰیٰ، ج؍ ۲)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نکاح کرو یا خادم خریدو تو اس کی پیشانی کا بال پکڑ کر دعائے برکت کرو اور کہو:
ألْلّٰھُمَّ انِّیْ أسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ (رواہ ابو داود وابن ماجہ)
دعائے مباشرت
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنی بیوی کے پاس آؤ اور یہ دعا پڑھو:
بِسْمِ الْلّٰہِ ألْلّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا
تو اگر اس صحبت سے کوئی بچہ مقدر ہوا تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم)
شیخ عبدالحقؒ فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ اگر جماع کے وقت یہ دعا نہ پڑھے، تو شیطان اپنا دخل جماتا ہے ، جس کی وجہ سے اولاد کے اندر خرابی آتی ہے۔
قسط نمبر(6) کے لیے کلک کریں