19 May 2018

قسط نمبر (5) نکاح کا بیان

نکاح کا بیان
قسط نمبر (5) 

(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
نکاح کرنا سنت ہے
نکاح کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ نکاح انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی سنت ہے ۔ نکاح ایسی چیز ہے، جو آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر اب تک برابر سنت چلی آتی ہے۔ ترمذی)
جو شخص نکاح کے حقوق کو ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور شہوت کا غلبہ بھی نہیں ہے ، اس کے لیے نکاح کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ 
مَنْ کَانَ عَلَیٰ دِیْنِیْ أوْ دِینِ دَاؤدَ وَ سُلَیْمَانَ وَ ابْرَاھِیْمَ فَلْیَتَزَوَّجْ انْ وَجَدَ الیٰ النِّکَاحِ سَبِیْلاً (کنز العمال)
جو شخص میرے دین اور داود وسلیمان وابراہیم علیہم السلام کے دین پر ہو ، وہ نکاح کرے، اگر نکاح کرنے کی راہ پائے۔
یعنی اگر نکاح کے حقوق ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو وہ نکاح کرے۔
نکاح کرنا واجب ہے
اگر شہوت غالب ہو اور نفس طالب زنا میں مبتلا ہونے کا خوف ہو، نکاح کے حقوق ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہو، اس صور ت میں اس پر نکاح کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنکُمُ الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہُ اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَ اَحْصَنُ لِلْفَرَجِ وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَانَّہُ لَہُ وِجَاءٌ (متفق علیہ)
ائے نوجوانوں کے گروہ! تم سے جو نان و نفقہ کی قدرت رکھتا ہے، وہ نکاح کرے کہ یہ آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کا صحیح علاج ہے ۔ اور جو طاقت نہیں رکھتا ہے، وہ اپنے اوپر روزہ کو لازم سمجھ لے اور یہ ایسا ہے، جیسے کوئی اپنے کو خصی کرالے۔
مطلب یہ ہے کہ بیوی کو روٹی کپڑا اور مہر دینے کی طاقت نہ ہو، تو روزوں سے اپنی شہوانی قوت کا علاج کرے۔
ایمان کی حفاظت
نکاح کا سب سے بڑا فائدہ ایمان کی حفاظت ہے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا :
اذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الاِیْمَانِ، فَلْیَتَّقِ الْلّٰہَ فِیْ نِصْفِ الْباقِیْ (بیھقی فی شعب الایمان)
جب بچہ نے نکاح کرلیا تو اس کا نصف دین محفوظ ہوگیا۔ باقی نصف کو بچانے کے لیے خدا سے تقویٰ اختیار کرے۔
معلوم ہوا کہ نکاح سے بہت سے ظاہری اور باطنی فوائد حاصل ہوتے ہیں، اور دین و دنیا کے سنورنے کا بڑا ذریعہ ہے ۔ اسی کے ذریعہ سے نسل باقی رہتی ہے ۔ اسی کے ذریعے سے صنف نازک کی حفاظت اور پرورش ہوتی ہے ۔ نکاح حصول تقویٰ میں بڑا مدد گار ہے۔
کیسی عورت سے نکاح کرے
سرکار دوجہاں ﷺ نے عورت کو دنیا کا بہترین سرمایہ کہا ہے۔ ارشا د ہے کہ: 
اَلدُّنْیَا کُلُّھَا مَتَاعٌ وَ خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرْأۃُ الصَّالِحَۃ.ُ(مسلم)
پوری دنیا ایک سرمایہ ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر عورت ہے ، لیکن ہر عورت نہیں؛ بلکہ وہ عورت جو نیک ہو۔ صالحہ ایک ایسی صفت ہے، جو تمام خوبیوں کو اپنے اندر داخل کرلیتی ہے ۔ زنِ صالحہ وہی ہوسکتی ہے، جو خدا کی فرماں بردار ہو۔ نماز روزے کی پابند ہو۔ اخلاق جمیلہ سے آراستہ ہو۔ شوہر کی تابعدار ہو۔ بچوں کی شفیق ماں ہو۔ گھر کی منتظمہ ہو۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت رکھتی ہو۔ زبان اس کے قابو میں ہو۔ کسی کو ایذا و تکلیف نہ دیتی ہو۔ اپنے پر دوسروں کے آرام کو مقدم رکھتی ہو۔ پاک دامن ہو۔ عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والی ہو۔ اور بھی دوسری اچھی باتوں سے آراستہ ہو۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں نیک عورت کی یہ تعریف آئی ہے کہ جب اس کو حکم دیا جائے، تو اس کی تعمیل کرے ۔ جب خاوند اس کی طرف دیکھے، تو اس کو خوش کردے۔ اور اگر کبھی اس کو قسم دی جائے، تو اس کو پوری کردے۔ اگر خاوند کہیں چلا جائے، تو خاوند کے پیچھے اپنی عصمت اور خاوند کے مال کی حفاظت کرے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’ نیک عورت رات کا تارا اورصبح کا ہیرا ہے‘۔ ؂
عورت اگر ہے نیک تو جنت میں ہے مقیم
کونین کی دولت لیے رہتی ہے وہ نعیم
اگر نیک کے ساتھ حسین بھی ہو تو اور بھی بہتر ہے۔ ؂
زنِ خوب فرماں برو پارسا
کند مرد درویش را بادشاہ
صلاحِ دنیا و دین ست صحبت زنِ نیک
زہے سعادت آں کس کہ زن حسین دارد
نیک عورت کی صحبت دین و دنیا کی بناؤ ہے ۔ اس شخص کی کیا ہی نیک بختی ہے جو حسین عورت رکھتا ہے۔ یعنی نیک عورت سے دین و دنیا دونوں بنتی ہے ۔ اگر اس پر حسین ہو، تو اس شخص کی خوش قسمتی کا کیا کہنا۔ ؂
ز ہمنیشنِ نکو کام دل تواند یافت
کسیکہ طالع فرخندہ ہم چنیں دارد
جوشخص مبارک قسمت رکھتا ہے ، وہی اچھی عورت سے دلی مقصد حاصل کرسکتا ہے ؛ لیکن اگر عورت نیک نہیں، بد خصلت و نافرمان ہے، تو موذی مار آستین ہے ۔ گو وہ کتنی ہی حسین کیو ں نہ ہو، مرد کے لیے وبال جان ہے ۔ ؂
بری عورت بھلے انسان کے گھر
سزا دوزخ کی ہے دنیا کے اندر
بچا ائے رب بری عورت سے ہم کو
ہمیں کر تو عطا اک نیک ہمسر
اس لیے نکاح کے اندر اس کا بڑا خیال رہے کہ عورت نیک، خوش اخلاق ہو، پاکدامن ، سمجھد ار ہو، گو حسن و جمال میں یکتائے روزگار نہ ہو۔ ؂
سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا
باپ سے کہیں زیادہ ماں کے اخلاق و کردار کا بچوں کے اندر اثر ہوتا ہے ، اس لیے دھن دولت کا قطعا خیال نہ کریں، جیسا کہ اس زمانہ میں کیا جاتا ہے ؛ بلکہ سیرت اور کردار کا پُتلا تلاش کریں ، چاہے جہاں ملے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں میں چار باتیں تلاش کی جاتی ہیں : 
مال ۔ نسب۔ جمال اور دین۔لیکن ائے مخاطب! 
فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ۔ (بخاری و مسلم)
تو دین والی کو اختیار کر۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ 
اذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَہُ وَ خُلُقَہُ فَزَوَّجُوْہُ۔
(ترمذی)
جب تم کو نکاح کا پیغام ایسا آدمی دے، جس کی دینداری اور عادت تم کو پسند ہو تو اس سے نکاح کرلو۔
اس لیے کہ نکاح سے جو مقصد ہے ، ایسی عورت سے بحسن و خوبی انجام پاسکتا ہے۔ شوہر کی اطاعت، بچوں کی خدمت ، عزت و آبرو کی حفاظت ، حسن معاشرت، مال کی حفاظت، دکھ تکلیف پر صبر ایسی ہی عورت کرسکتی ہے۔
اگر دینداری اور خوب سیرتی نہیں تو مال کا غرور، حسن کا غرور، خاندانی غرور آئے دن جنگ برپا کرے گا اور خادم مخدوم بننے کی کوشش کرے گا ، جس سے مرد، یا تو غلام بن کر رہے گا، یا پھر نفاق کی خندق اس قدر وسیع ہوگی کہ پھر اسے پاٹ نہ سکے گااور تفرقہ کی نوبت آئے گی ۔ اسی لیے حضور پر نور ﷺ نے فرمایا :
ایک کالی نکمی مگر دین دار عورت زیادہ بہتر ہے بد دین خوب صورت عورت سے ۔ (ابن ماجہ)
کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ؂
سیرت نہیں ہے جس میں وہ صورت فضول ہے 
جس گل میں بو نہیں ہے وہ کاغذ کا پھول ہے
حسن صورت چند روزہ حسن سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں، اس سے خوش ہوتا ہے دل
البتہ اگر یہ خوبیاں کسی شریف خاندان کی عورت میں ہوں، تو بہت خوب۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ 
تَخَیَّرُوْا لِنُطَفِکُم، فَا8نَّ النِّسَاءَ یَلِدْنَ أشْبَاہَ ا8خْوَانِھِنَّ وَ أخْوَاتِھِنَّ (ابن عدی وابن عساکر)
اپنے نطفوں کے لیے عمدہ محل پسند کرو، اس لیے کہ عورتیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے مانند بچے جنتی ہیں۔
یعنی خاندانی اثرات بچوں میں ہوتے ہیں، اس لیے اچھے خاندان کے اچھے اثرات بچوں میں آئیں گے۔ اچھے خاندان وہی ہیں، جس میں دینداری اور اخلاق مندی ہیں۔
نکاح سے جہاں مقصد تعلقات کی خوشگواری کے ساتھ اپنے دین اور شرمگاہ کی حفاظت اور گھر کا انتظام ہے ، وہاں نکاح سے اہم مقصد حصول اولاد بھی ہے ۔ اس لیے اس خاندان کی عورت سے نکاح کرنا چاہیے، جس خاندان کی عورتیں اولاد کثیر جنتی ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
دوست رکھنے والی، کثیر اولاد جننے والی عورت سے نکاح کرو۔ میں امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔ (ابو داود و نسائی)
کیسے مرد سے نکاح کرے
اسی طرح اگر کوئی اپنی لڑکی کا نکاح کسی لڑکے سے کرنا چاہے، تو اس لڑکے کے اندر بھی دیند اری، خوش اخلاقی اور فیاضی کا لحاظ رکھے۔ اس لیے کہ نیک مرد ہی عورتوں کے حقوق کو خوش اسلوبی سے ادا کرسکتا ہے۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حقیقت میں اچھے اخلاق کے وہ لوگ ہیں، جن کے تعلقات اپنی بیویوں سے اچھے ہیں۔ (ترمذی)
اس زمانہ میں اکثر لوگ ایسے لڑکے کو پسند کرتے ہیں جو مالدار کی اولاد ہوتی ہے۔ زمین جائداد کا مالک ہوتا ہے ۔ اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے اندر دین داری ہے یا بد دینی کا پتلا ہے ۔ اخلاق اچھے ہیں، یا بد خلقی کا مجسمہ ہے ۔ اسی لیے اس بے اعتدالی کا نتیجہ فوراً سامنے آتا ہے۔ لڑکا اپنی بد دینی کی وجہ سے غیر عورت سے آشنائی پیدا کرتا ہے اور اپنی منکوحہ کو یا تو چھوڑ دیتا ہے، یا انتہائی اذیت میں رکھتا ہے ۔ اس بے راہ روی کی وجہ سے کچھ دنوں کے بعد مفلس ابن مفلس ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے ، جس کا آئے دن تجربہ ہوتا رہتا ہے ۔ اس لیے نکاح کے اندر ہر دو جانب دینداری اور خوش اخلاقی اور خاندانی خوبیوں کا بڑا خیال رکھنا چاہیے۔ ان خوبیوں کے ساتھ اگر دھن دولت کی کثرت ہو، جاہ و مرتبہ ہو، بڑی اچھی بات ہے ۔ اور اگر اصل جوہر نہ ہو، تو دولت کی ٹپ ٹاپ بیکار؛ بلکہ وہ ایک زہریلا ناگ ہے ۔ اس کو لات مارنا چاہیے۔ ؂
برے ہو اچھی صورت پربھی گر اچھے نہیں خو میں
وہی اچھا ہے گل، جو ہو رنگت میں اور بو میں
دن تاریخ
بہر کیف جب جانبین سے نکاح کا پیغام منظور ہوجائے، تو عقد نکاح کے لیے ایک تاریخ مقرر کی جائے ۔ اور اس تاریخ کے اندر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مدعو کیا جائے ، تاکہ نکاح کی پوری شہرت ہوجائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
اعْلَنُوْا النِّکَاحَ ۔ (رواہ احمد و صححہ الحاکم)
نکاح کا اعلان کرو۔
اس اعلان کے لیے جمعہ کا دن اور جامع مسجد اختیار کیا جائے، تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ 
وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ۔ 
مسجدوں میں عقد نکاح باندھو۔
ابن ہمام نے فرمایا کہ نکاح مسجدوں میں کرنا مستحب ہے، اس لیے نکاح عبادت ہے ۔ اگر جمعہ کا دن ہو تو اور بہتر ہے۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ)
مہینے کے اعتبار سے ماہ شوال میں نکاح کرنا مستحب ہے ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ماہ شوال میں نکاح کیا اور رخصتی بھی شوال ہی میں ہوئی اور میں حضور ﷺ کی سب سے زیادہ چہیتی ہوئی۔
(مسلم)
دف کا بجانا
اعلان کے لیے بغیر سُر و تال کے دف کا بجانا جائز ہے ، مسنون نہیں۔ اگر سنت ہوتا تو صحابۂ کرام نہ چھوڑتے اور نہ ہی حضور اکرم ﷺ کے کسی نکاح میں دف کا بجانا ثابت ہے ؛ البتہ حضور ﷺ نے اعلان کے لیے بجانے کی اجازت دی ہے ۔ مگر تال و سر سے بجانا درست نہیں۔ چنانچہ فتاویٰ حمادیہ میں لکھا ہے کہ حضرت معلی نے بیان کیا کہ ابوالمہاجر نے فرمایا کہ ابان ابن ایاس نے حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے تمھارے واسطے شراب اور جوا اور بانسری اور ڈھول اور دف مکروہ اور حرام کیا ۔ حضرت معلی کہتے ہیں کہ میں نے ابوالمہاجر سے پوچھا کہ ( جب دف بجانا حرام ہے تو ) آں حضرت ﷺ کے عہد شریف میں دف کو کس طرح بجاتے تھے ؟ ابوالمہاجر نے فرمایا کہ ایک عورت تھی ، جس کسی کی شادی ہوتی، تو وہ عورت ایک چھلنی اور چوب لے کر ایک اونچے مکان پر چڑھ کر چوب کو چھلنی پر مارتی، تاکہ لوگ اس کی آواز سن کر جانیں کہ یہ شادی ہے۔
اس طرح دف بجانے کو اب بھی فقہا جائز کہتے ہیں ۔ چنانچہ تنبیہ الانام میں فتاویٰ سراجیہ سے نقل کیا ہے کہ نکاح کی رات کو نکاح کے اعلان کے واسطے صرف دف بجانا مضائقہ نہیں؛ بشرطیکہ دف میں جلاجل یعنی جھانجھ نہ لگے ہوں۔ اور اس کا بجانا کھیل اور خوشی کی نیت سے بھی نہ ہو، اس لیے کہ کھیل اور راگ دونوں ممنوع اور مکروہ ہیں ۔ اور مالابدمنہ میں لکھا ہے کہ ملاہی، مزامیر، طنبور، ڈھول اور نقارہ اور دف وغیرہ سب بالاتفاق حرام ہیں؛ مگر غازیوں کا نقارہ اور اعلان نکاح کے واسطے دف مباح ہے۔
اور ہدایہ میں لکھا ہے کہ جہاد میں نقارہ بجانا اور نکاح کو مشہور کرنے کے لیے دف بجانا؛ یہ دونوں بالاتفاق مباح ہیں۔ اگر کوئی شخص غازی کے نقارہ کو، یا نکاح کے دف کو ضائع کرے، تو اس پر بالاتفاق تاوان ہے۔
اور یہ اسی وقت تک جائز ہے جب کہ اعلان کی ضرورت سے بجایا جائے۔اگر کھیل اور خوشی کی نیت سے، یا تال و سر سے، یا جھانجھ وغیرہ لگا کر بجایا جائے، تو پھر حرام ہوگا۔ اس لیے کہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ 
نَھَیٰ رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ عَنْ ضَرْبِ الدُّفِّ و لَعْبِ الصَّنْجِ وَ ضَرْبِ الزَّمَّارِ (رواہ الخطیب)
رسول اللہ ﷺ نے دف بجانے، اور چنگ سے کھیلنے، اور بانسری کے بجانے سے منع فرمایا ہے۔
اسی طرح دوسرے باجوں کے بجانے سے بھی منع فرمایا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: 
اَلْجَرْسُ مَزامِیْرُ الشَّیْطَانِ (رواہ مسلم)
گھنٹیال شیطان کا باجا ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
انَّ الْلّٰہَ تَعَالَیٰ حَرَّمَ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوْبَۃَ وَ قَالَ کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ ۔ قِیْل:َ اَلْکُوْبَۃُ الطِّبْلُ۔ (رواہ البیھقی)
اللہ تعالیٰ نے شراب، جوا اور نقارہ کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حضرت مکحول بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اِسْتِماعُ الْمَلاھِیْ مَعْصِیَۃٌ، وَالْجُلُوْسُ عَلَیْھَا فِسْقٌ وَ التَّلَذُّذُ بِھَا مِنَ الکُفْرِ (قاضی خاں)
باجوں کا سننا گناہ ہے اور اس پر بیٹھنا (یعنی بیٹھ کر باجا سننا) فسق ہے اور اس سے لذت لینا کفر ہے۔
اسی لیے رسول اللہ ﷺ راہ چلتے بھی باجوں کا سننا پسند نہ کرتے تھے ۔ کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔ چنانچہ حضرت نافعؓ فرماتے ہیں کہ
میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ راستے میں تھا ، تو آپ ﷺ نے باجے کی آواز سنی۔ آپ ﷺ نے فوراً انگلیاں دونوں کانوں میں کرلیں اور اس راستہ سے دوسری طرف ہٹ گئے ۔ پھر جب دور نکل گئے تو مجھ سے فرمایا ائے نافع! کچھ آواز سنائی دیتی ہے؟ میں نے کہا نہیں، تو انھوں نے انگلیاں کانوں سے اٹھائیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ ﷺ نے بانسری کی آواز سنی، تو حضور ﷺ نے اسی طرح کانوں میں انگلیاں دے لیں، جس طرح میں نے دیں۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں اس وقت چھوٹا تھا۔
(ابو داود)
سماع کا بیان
موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت، جب کہ اشعار نہ پڑھے جائیں اور اس میں کوئی برا مضمون نہ ہو اور پڑھنے والا نہ مرد ہو نہ عورت، تو ایسے اشعار کا سننا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا تھانویؒ فرماتے ہیں کہ
رہا حضرت شارع علیہ الصلاۃ والسلام کا فعل ، سو ہر چند کہ مدعیان جواز قصہ عروسی ربیع بنت معوذ اور قصۂ غناء جاریتین فی یوم الفطر و قصۂ نذر وقت رجوع غزوہ کو اثبات مدعا کے لیے پیش کرتے ہیں اور اہل ظاہر سرسری نظر میں اس کو جواز کی دلیل بھی مان لیتے ہیں ؛ مگر انصاف یہ ہے کہ ان روایات میں غناء لغوی مذکور ہے اور اس میں کہ گفتگوہورہی ہے، وہ صرف اس کا نام نہیں کہ کوئی شعر ذرا آواز بناکر پڑھ دیا ؛ بلکہ خاص نغمات و تحریک صوت برعایت قواعد موسیقی کا نام ہے ۔ اور ان روایات میں کہیں اس کا نام و نشاں بھی نہیں۔ (حق السماع، ص؍ ۷)
مطلب یہ ہوا کہ احادیث میں جو حضور ﷺ کے گانا سننے کا ثبوت ہے وہ غناء لغوی ہے ۔ غناء لغوی یہ ہے کہ اشعار موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت نہ پڑھے جائیں۔ اگرچہ بلند آواز سے قدرے آواز بناکر پڑھا جائے، ایسے غناء کے سننے میں کوئی کلام نہیں، یہ بالاتفاق جائز ہے۔کلام اس غناء میں ہے، جو موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت ہو ، یہی اصطلاحی غناء ہے ۔ اسی غناء کے بارے میں احادیث میں مذمت آئی ہے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلْغِنَاءُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ۔ 
(رواہ البیھقی)
گانا دل میں نفاق اسی طرح پیدا کرتا ہے، جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔ 
ایک دوسری روایت حضرت انسؓ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اَلْغِِنَاءُ وَالْلَّھْوُ یُنْبِتانِ النِّفاقَ کَمَا یُنْبِتُُ الْمَاءُ الْعُشْبَ۔ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ أنَّ الْقُرْآنَ وَالذِّکْرَ یُنْبِتَانِ الا8یْمَانَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الْعُشْبَ۔ (دیلمی)
گانا اور باجا نفاق پیدا کرتے ہیں ، جیسا کہ پانی گھاس اگاتا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، قرآن اور ذکر دل میں ایمان پیدا کرتے ہیں جیسا کہ پانی گھاس اگاتا ہے۔ 
اور بھی ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
قسم ہے اس ذات پاک کی، جس نے مجھ کو دین حق دے کر بھیجا، نہیں بلند کیا کسی شخص نے اپنی آواز کو گانے میں ، مگر مسلط فرماتا ہے اس پراللہ تعالیٰ دو شیطانوں کو ، کہ سوار ہوتے ہیں ان کے کندھوں پر اور پھر اس کے سینے پر لاتیں مارتے ہیں ، جب تک وہ خاموش نہ ہوجائے۔
(ابن ابی الدنیا، طبرانی، ابن مردویہ)۔ 
’’رسالہ نصیحت‘‘ میں مبسوط سے نقل کیا ہے کہ ملاہی کا سننا اور گانا؛ سب حرام ہے۔ اور محیط سے لکھا ہے کہ گانا اور تالیاں بجانا اور ان چیزوں کو سننا سب حرام ہے۔ مضمرات میں ہے کہ جس شخص نے مباح کیا غناء کو ، وہ فاسق ہوگیا۔ معلوم ہوا یہ اصطلاحی غناء امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اور ان کے متبعین کے نزدیک حرام ہے۔ 
رہا غنا ء ساز کے ساتھ اس کے حرام ہونے میں، تو کسی امام کا اختلاف نہیں ہے ۔ رسالہ ابطال میں حرمت آلات کو جمہور کا مذہب قرار دیا ہے ۔اوربوارق میں مزمار( بانسری) کو حرام لکھا ہے۔ ان دونوں رسالوں کے مصنف حنبلی و شافعی ہیں ۔ امام غزالی جو شافعی مذہب ہیں، احیاء العلوم میں مزامیر اور اوتاد جس میں ستار وغیرہ بھی داخل ہیں، اور طبل کو جو ڈھولک کو بھی شامل ہے ، ان سب کو حرام فرماتے ہیں ۔ احادیث کے اندر بھی اس کی بڑی مذمت آئی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے، جو خز (ریشم) اور حریر اور شراب اور معازف (باجے) کو حلال سمجھیں گے۔ (بخاری) 
اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ
بعضے لوگ شراب کا نام بدل کر پئیں گے ۔ اور ان کے سروں پر معازف (گانے بجانے کے آلے) اور گانے والیوں سے ، گو ریاءً بجایا جائے گا، اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسا دے گا اور بندر اور سور بنا دے گا۔
(ابن ماجہ)
اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:
ایک قوم اس امت کی آخر زمانہ میں بندر اور خنزیر بن جائے گی ۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا وہ لوگ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل نہ ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، وہ لوگ نماز ، روزہ و حج سب کچھ کریں گے ۔ کسی نے عرض کیا کہ پھر اس سزا کی کیا وجہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھوں نے باجے اور گانے والیوں کا مشغلہ اختیار کیا ہوگا۔ (مسند ابن ابی الدنیا)
اسی قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں ، جن سے گانے بجانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، لہذا شادی کے موقعوں پر اس کی جرأت نہ کریں۔
مَہَر کا بیان
جب جانبین کے لوگ اکٹھے ہوجائیں، تو اس کے بعد مہر طے کرلینا چاہیے ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں مہر دس درہم سے کم درست نہیں ، جس کا وزن اکتیس ماشے چار رتی چاندی ہوتا ہے ۔ حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
لَا مَھْرَ أقَلُّ مِنْ عَشْرَۃِ دَرَاھِمَ (رواہ ابن ابی حاتم و قال الحافظ بن حجر انہ بھذا الاسناد حسن) 
دس درہم سے کم مہر نہیں ہے۔
اور مہر کی زیادتی کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جس قدر بھی طے ہوجائے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو زیادہ مہر مقرر کرنے سے روکا، تو ایک قریشی عورت نے کہا کہ:
ائے امیر المؤمنین ! اللہ کی کتاب اتباع کی زیادہ مستحق ہے، یا آپ کی بات؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب۔ اس عورت نے کہا کہ ابھی آپ نے عورتوں کے مہر میں غلو کرنے سے منع فرمایا ، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ: 
وَ اٰتَیْتُمْ احْدٰھُنَّ قِنْطَاراً فَلَا تَأخُذُوْا مِنْہُ شَیْءَاً
(النساء آیۃ:۲۰ ) 
اور تم ان میں سے ایک کو ڈھیر کا ڈھیر مال دے چکے ہو ، تو تم اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو۔
اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا : عمر سے ہر شخص زیادہ سمجھ دار ہے ۔ اور پھر ممبر پر چڑھے اور فرمایا: میں نے زیادہ مہر باندھنے سے منع کیا تھا، اب ہر شخص اپنے مال میں جو چاہے کرے۔ (بیہقی) ۔
لیکن زیادہ مہر مقرر کرنا استحباب کے خلاف ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
انَّ أعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَۃً أیْسَرُ مَؤُنَۃً (بیھقی)
سب سے زیادہ بابرکت وہ نکاح ہے، جس میں کم خرچ ہو۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ :
خَیْرُ الصِّداقِ أیْسَرُہُ۔ (اخرجہ ابو داود، و صححہ الحاکم)
بہترین مہر آسان مہر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
خبردار عورتوں کا زیادہ مہر مقرر مت کرو، اس لیے کہ زیادہ مہر مقرر کرنا اگر دنیا میں کوئی کرامت کی چیز ہوتی، اور خدا کے نزدیک کوئی تقویٰ کی بات ہوتی، تو مہر کی زیادتی میں اللہ کے نبی ﷺ تم سے زیادہ لائق تھے۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر کسی عورت سے نکاح کیا ہو، یا کسی لڑکی کا نکاح کیا ہو۔ 
(ترمذی، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ، یعنی چار سو اسی درہم ۔ اور حضرت عائشہؓ کی روایت میں ساڑھے بارہ اوقیہ آیا ہے، یعنی پانچ سو درہم۔ چنانچہ حضرت ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی عورتوں کا مہر کیا مقرر کیا تھا؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بارہ اوقیہ اور نُش۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہونُش کیا ہے؟ حضرت ابو سلمہ نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا آدھا اوقیہ، پس یہ پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ (مسلم)
مہروں میں اولیٰ اور مسنون پانچ سو درہم ہیں، یعنی ایک سو اکتیس تولے تین ماشہ چاندی، جیسا کہ ازواج مطہراتؓ کا تھا ۔ یا چار سو مثقال چاندی، یعنی ڈیڑھ سو روپیے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کی صاحبزادیوں کا مہر تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی چار سو مثقال چاندی تھا، یعنی ایک سو پچاس تولے، کیوں کہ ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو دینار تھا، یعنی ایک ہزار پچاس روپیے، جو شاہ حبش نجاشی نے آں حضور ﷺ کی طرف سے نکاح کے وقت مقرر کرکے اسی وقت ادا کردیا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مہر پانچ سو درہم، یا اس قیمت کے اونٹ تھے، جو ابو طالب نے اپنے ذمہ رکھے۔ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مہر کوئی برتنے کی چیز تھی جو دس درہم کی تھی۔ اور حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو درہم تھا۔ اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو درہم تھا۔
مہر مثل میں باپ کی قوم کا اعتبار ہوتا ہے اور اس میں عمر، حسن، مال، عقل و دین ، نکاح کا وقت اور زمانہ اور شہر ایک ہو۔ 
(نور الہدایہ، ج؍ ۲، ص؍۲۴)

نکاح کا خطبہ
ایجاب و قبول سے پہلے خطبہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔ چنانچہ ابو داود کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امامہ بنت عبدالمطلب کا نکاح بنی سلیم کے ایک شخص سے کیا ؛ مگر آپ ﷺ نے خطبہ نہیں پڑھا؛ البتہ خطبہ پڑھنا مسنون ہے ۔ اگر منکوحہ کا ولی خود پڑھا لکھا ہو تو اس کو چاہیے کہ خود خطبہ پڑھے اور اس کے بعد ایجاب کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدۃ النساء فاطمہ الزہرا کا کیا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں بزرگوں نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اپنے لیے نکاح کی درخواست کی، تو رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اور کسی کو کچھ جواب نہیں دیا۔ پھر ان دونوں بزرگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اپنے لیے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں درخواست کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حضرات کے اشارہ سے میں اپنی چادر گھسیٹتا ہوارسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! فاطمہ کو میرے نکاح میں دیدیجیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیرے پاس کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا گھوڑا اور زرہ موجود ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا : تجھ کو گھوڑے کی ہر وقت حاجت رہتی ہے۔ زرہ کو بیچ ڈال۔ تو میں نے چار سو اسی درہم میں زرہ کو بیچ کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے وہ درہم گود میں لے لیے۔ پھر ان میں سے ایک مٹھی بھر درہم اٹھاکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دے کر فرمایا کہ ہمارے واسطے خوشبو لاؤ ۔ اور اہل بیت کو اشارہ کیا کہ فاطمہ کے واسطے جہیز تیار کر۔ تب ان کے واسطے ایک چار پائی کھجور کی رسیوں سے تیار کی اور کھجور کی چھال بھر کر توشک تیار ہوئی ۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ جب فاطمہ تمھارے پاس آئے، تو جب تک کہ میں تمھارے پاس نہ پہنچوں، تم فاطمہ سے کلام نہ کیجیو۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ اندر آئیں اور گھر کے ایک کنارہ میں بیٹھیں۔ اور میں علاحدہ دوسرے کنارے میں بیٹھا۔ اسی عرصہ میں جناب سرکار دو عالم ﷺ نے تشریف لاکر فرمایاکہ یہاں میرا بھائی ہے؟ حضرت ام ایمنؓ نے کہا کہ آپ کا بھائی موجود ہے ؟ کیا آپ ﷺ نے اپنی بیٹی اس کے ساتھ بیاہ دی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یقینا۔ پھر آپ ﷺ اندر تشریف لائے ۔ اور فاطمہ سے کہا تھوڑا پانی لاؤ۔ فاطمہ اٹھ کر گئیں اور گھر سے لکڑی کے پیالہ میں پانی لائیں۔ آں حضرت ﷺ نے وہ پانی لے کر تھوڑا لعاب دہن مبارک اس میں ڈال کر فاطمہ کو اپنے پاس بلایا۔ جب فاطمہ پاس آئیں، تو آپ ﷺ نے تھوڑا پانی اپنے ہاتھ میں لے کر فاطمہ کے سینے اور سر پر چھڑکا اور فرمایا: الٰہی میں اس کو اور اس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، شیطان مردود سے۔ پھر فاطمہ سے فرمایا کہ اپنی پیٹھ میری طرف کر۔ فاطمہ نے اپنی پیٹھ آپﷺ کی طرف پھیرد ی۔ آپ ﷺ نے تھوڑا پانی ان کے دونوں مونڈھوں کے درمیان میں چھڑکا۔ پھر یہی معاملہ میرے ساتھ کیا۔ پھر مجھ سے فرمایا: اب تو اپنی بیوی کے پاس اللہ تعالیٰ کا پاک نام لے کر اور اس کی برکت کے ساتھ داخل ہو۔ (ابو حاتم و احمد بحوالہ مواہب لدنیہ)
دوسری روایت بھی حضرت انسؓ ہی سے اس طرح ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی درخواست کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیغمبر خدا ﷺ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام اپنے واسطے دیا، تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: میرے رب نے بھی مجھے یہی حکم دیا ہے ۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر مجھ کو آں حضرت ﷺ نے کئی روز بعد بلاکر فرمایا: ائے انس! تم ابوبکر، عمر، عثمان، عبدالرحمان اور کچھ لوگ انصار میں سے بلا لاؤ۔ پھر جب یہ حضرات تشریف لائے اور اپنے اپنے مقام پر بیٹھے اور حضرت علیؓ وہاں موجود نہ تھے ، تو آں حضرت ﷺ نے یہ خطبہ پڑھا:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَحْمُودِ بِنِعْمَتِہِ، الْمَعْبُودِ بِقُدْرَتِہِ، الْبَالِغِ سُلْطَانُہُ، الْمَرْھُوبِ مِنْ عَذَابِہِ، الْمَرْغُوبِ إِلَيِ فِیْمَا عِنْدَہُ، النَّافِذِ أَمْرُہُ فِي سَمَاۂِ وَأَرْضِہِ، الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِہِ، وَمَیَّزَھُمْ بِأَحْکَامِہِ، وَأَحْکَمَھُمْ بِعِزَّتِہِ، وَأَعَزَّھُمْ بِدِیْنِہِ، وَأکْرَمَھُمْ بِنَبِیِّہِ مُحَمَّدﷺ، ثُمَّ إِنَّ الْلّٰہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الْمُصَاھَرَۃَ نَسَبَاً لَاحِقَاً وَأَمْرَاً مُفْتَرَضَاً، وَشَبَّحَ بِہِ الأَرْحَامَ، وَأَلْزَمَ الأَنَامَ، فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: وَھُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرَاً فَجَعَلَہُُ نَسَبَاً وَصِھْرَاً وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیْرَاً ۔ فَأَمْرُ الْلّٰہِ تَعَالَیٰ یَجْرِي إِلَیٰ قَضَاءِہِ، وَقَضَاؤُہُ یَجْرِیْ إِلیٰ قَدَرِہِ، وَقَدَرُہُ یَجْرِيْ إِلیٰ أَجَلِہِ، وَ لِکُلِّ قَضَاءٍ قَدَرٌ، وَ لِکُلِّ قَدَرٍ أَجَلٌ، وَلِکُلِّ أَجََلٍ کِتَابٌ، یَمْحُوالْلّٰہُ مَا یَشَاءُ وَ یُثْبِتُ، وَعِنْدَہُ أُمُّ الْکِتَابِ۔ (الرعد آیۃ۳۹) 
اس کے بعد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو فاطمہ کا نکاح علی کے ساتھ کردینے کا حکم دیا ہے ، سو تم لوگ اس بات پر گواہ رہو کہ میں نے اس کا نکاح علی کے ساتھ کردیا ۔ اور چار سو مثقال چاندی اس کا مہر ٹھہرایا۔ بشرطیکہ علی بھی اس پر راضی ہو۔ اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے ایک طباق بھر کر خشک چھوہارے منگوائے اور حاضرین مجلس سے فرمایا کہ ان کو لوٹ لو۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے آں حضرت ﷺ کے ارشاد کی وجہ سے وہ چھوہارے لوٹ لیے۔ اتنے میں حضرت علیؓ بھی آ پہنچے ، تو آں حضرت ﷺ علیؓ کے روبرو مسکرائے ، پھر فرمایا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے حکم بھیجا ہے کہ فاطمہ کا نکاح تمھارے ساتھ چار سو مثقال چاندی کے مقابلہ میں کردوں، کیا علی تم اس پر راضی ہو؟انھوں نے کہا کہ بے شک یا رسو ل اللہ ، میں اس پر راضی ہوں۔ پھر آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
جَمَعَ الْلّٰہُ شَمْلَکُمَا وَ أعَزَّ جَدَّکُمَا، وَ بَارَکَ عَلَیْکُمَا وَ اَخْرَجَ مِنْکُمَا کَثِیْرَاً طَیِّبَاً 
اللہ تم دونوں کی پراگندگی دور کرے۔ اور تمھاری کوشش کو عزیز کرے اور تم پر برکت نازل کرے اور تم کو اچھی پاکیزہ اولاد دے۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم ان دونوں سے اللہ تعالیٰ نے بہت پاکیزہ اور بہتر اولاد پیدا کیں۔ (ابوالخیر قزوینی حاکمی بحوالہ مواھب لدنیہ)
اگر ولی پڑھا لکھا نہ ہو تو اس کا وکیل یا قاضی جس کو ایجاب و قبول کی اجازت ملی ہو ، وہ خطبہ مسنونہ پڑھے ، پھر ایجاب و قبول کرے ۔ نکاح کا وکیل وہ شخص ہے ، جس کو دوسرے کے نکاح کرانے کا اختیار ملا ہو۔ نکاح میں وکیل بنانا درست ہے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے شاہ حبش نجاشیؓ کو اپنا وکیل ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا بنایا تھا۔چنانچہ مواہب لدنیہ میں اس کے احوال بھی مفصل منقول ہیں۔ یہاں پر اس کا خلاصہ لکھا جاتا ہے: 
جب ام حبیبہ کا شوہر عبدا للہ بن جحش ان کو لے کر ملک حبش کو ہجرت کرگیا اور وہاں پہنچ کر بد قسمتی سے نصرانی ہوگیا اور اسی حالت میں مرگیا، تو رسول اللہ ﷺ کو کسی صحابی نے خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے ایمان اور اسلام پر بدستور قائم ہیں۔ آں حضرت ﷺ نے یہ بات سن کر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اپنا نکاح کا پیغام نجاشی کے پاس عمرو بن امیہ کے ہاتھ بھیجا ۔ نجاشی نے اسی وقت اپنی باندی ابرھ کو ام حبیبہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ ان سے کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تمھارے ساتھ اپنا نکاح کرنے کا پیغام بھیجا ہے ، اگر تم کو منظور ہو تو تمھارا نکاح آں حضرت ﷺ کے ساتھ پڑھ دوں؟ یہ خبر سنتے ہی وہ بہت خوش ہوئیں اور اپنے ہاتھ کے دونوں کنگن اور ایک انگوٹھی اس خوش خبری کے انعام میں ابرھ کو دیے اور نکاح کے معاملہ میں خالد بن سعید کو اپنی طرف سے وکیل کرکے نجاشی کے پاس بھیجا۔ اس نے شام کے وقت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت مہاجرین رضی اللہ عنہم سمیت بلواکر حقیقت حال بیان کی پھر یہ خطبہ پڑھا:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ السَّلَامِ الْمُؤمِنِ الْمُھّیْمِنِ الْعَزِیْزِ الْجَبَّارِ، أشْھَدُ أنْ لَّا الٰہَ الَّا اللّٰہُ وَ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ أرْسَلَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ۔
اس خطبہ کے بعد نجاشی رضی اللہ عنہ نے کہاکہ سننا چاہیے کہ جس کام کا رسول کریم ﷺ نے مجھ کو پیغام بھیجا تھا ، سو میں نے اس کو قبول کیا۔ پھر چار سو اشرفی سونے کے سکے ان حضرات کے آگے ڈال دیے۔ اور فرمایا: اس قدر مہر میں نے مقرر کیا۔ اس کے بعد خالد بن سعید رضی اللہ عنہ ام حبیبہؓ کے وکیل نے کہا :
الْحَمْدُ لِلّٰہِ أحْمَدُہُ وَ اَسْتَعِینُہُ وَ اسْتَغْفِرُہُ ، أشْھَدُ أنْ لَّا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ أرْسَلَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ،أمَّا بعدُ۔
میں نے اس امر کو قبول کیا، جس کو پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے ۔ اور میں نے پیغمبر خدا ﷺ کا نکاح ام حبیبہ بنت ابی سفیان کے ساتھ کردیا۔ اللہ تعالیٰ یہ نکاح پیغمبر خدا ﷺ کو مبارک کرے ۔ اس کے بعد نجاشی رضی اللہ عنہ نے وہ سب دینار حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیے۔ حضرت خالد نے لے کر گانٹھ باندھ لی ۔ اب لوگوں نے چاہا کہ اٹھ کر اپنے اپنے مکان کو جائیں، تو نجاشی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ حضرات ذرا دیر اور تشریف رکھیے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ اور ان کی سنت یہ ہے کہ نکاح کے بعد کچھ کھانا دوستوں کو کھلاتے ہیں ۔ پھر کھانا منگواکر سب حضرات کو کھلایا اور رخصت کیا۔ پھر نجاشی رضی اللہ عنہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکو شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیغمبر خدا ﷺ کی خدمتِ مبارک میں روانہ کیا۔
ایک خطبہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کو عام طور پر حضرات علمائے کرام پڑھتے ہیں ، وہ یہ ہے:
اِن اَلحَمدَ لِلّٰہِ نَحمَدُہٗ وَ نَستَعِینُہٗ وَ نَستَغفِرہٗ وَ نَعَوذُ بِالْلّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سِیَّءَاتِ أعْمَالِنَا، مَنْ یَھْدِ ہِ الْلّٰہُ فَلا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہُ، وَأشْھَدُ أنْ لَّا اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، وَ أشْھَدُ أنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ یَاایُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا الْلّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُمْ مُّسْلِمُونَ۔یَااَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّن نَّفْسٍ وَّاحِدۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْراً وَّ نِسَاءً ۔ وَاتَّقُوْا الْلّٰہَ الَّذِيْ تَسَاءَلُوْنَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ، إِنَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبَاً، یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا الْلّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدَاً، یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ الْلّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظیْمَاً ۔ (مشکوٰۃ)

ایجاب و قبول
خطبہ کے بعد قاضی یا جو شخص عقد نکاح کے واسطے مقرر ہو حاضرین کے سامنے دولہا سے کہ: فلاں کی بیٹی فلانی کو میں نے اس قدر مہر کے عوض میں تیرے نکاح میں دی ۔ دولہا اس کے جواب میں کہے : میں نے قبول کیا۔ اس طرح ایجاب و قبول سے نکاح ہوجاتا ہے ۔ پہلی بات کو ایجاب اور دوسری بات کو قبول کہتے ہیں ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ دولہن ہی کی طرف سے ایجاب ہو اور دولہا کی طرف سے قبول؛ بلکہ اس کا برعکس بھی ہوسکتا ہے ، یعنی دولہا کی طرف سے ایجاب اور دولہن کی طرف سے قبول، بہر صورت جائز ہے ، لیکن پہلی صورت مستحب ہے۔ 
ایجاب و قبول نکاح کا رکن ہے ۔ اور دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہوں میں ہونا شرط ہے ۔ یعنی کم از کم دو مسلمان بالغ عاقل کے سامنے اتنی آواز سے ایجاب و قبول ہونا چاہیے کہ وہ دونوں گواہ ایک مرتبہ میں سن لیں۔ اگر ایک نے سنا اور دوسرے نے نہیں سنا تو پھر نکاح نہ ہوگا۔ صرف عورتوں کی یا نابالغ بچوں کی یا کافر کی گواہی معتبر نہیں۔ اور ایجاب و قبول میں سے کسی ایک کا لفظ ماضی کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اس یجاب و قبول کی چند صورتیں ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ ایجاب و قبول دونوں بالاصالت ہو۔ یعنی دلہن ایجاب کرے اور دولہا قبول کرے ، یا دولہا ایجاب کرے اور دولہن قبول کرے۔ یوں کہے کہ میں نے اتنے روپیے مہر کے عوض اپنا نکاح تم سے کیا اور دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ دولہن کی طرف سے ولی یا وکیل ہو اور دولہا اصیل ہو اور اسی کا زیادہ رواج ہے۔ اس میں اس طرح کہے: میں نے اپنی لڑکی یا فلاں کی فلانی لڑکی کا نکاح اتنے مہر میں تم سے کیا ۔ دولہاکہے کہ: میں نے قبول کیا۔مثلا زید کی لڑکی بی بی زینب کا نکاح ڈیڑھ سو روپیے مہر فاطمی میں تم سے کیا۔ دولہا نے کہا : قبول کیا۔
تیسیری صورت یہ ہے کہ دولہن اصیل ہو اور دولہا کی طرف سے ولی یا وکیل ہو، تو وکیل کہے : میں نے اپنے لڑکے کا۔ اور وکیل کہے : میں نے فلاں کے لڑکے فلاں کا نکاح اتنے مہر میں تم سے کیا۔ اور دولہن کہے : میں نے قبول کیا۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے ولی یا وکیل ہو۔ یا ایک طرف سے ولی اور دوسری طرف سے وکیل ہو۔ ولی کہے : میں نے اپنی لڑکی فلانی کا نکاح فلاں کی لڑکی فلانی سے اتنے دین مہر میں کیا۔ دوسرا کہے: میں نے اپنے لڑکے یا اپنے مؤکل کی طرف سے قبول کیا۔اور وکیل کہے کہ میں نے فلاں کی لڑکی فلانی کا نکاح تمھارے لڑکے فلاں سے ، یا فلاں کے لڑکے فلاں سے اتنے مہر میں کیا۔ دوسرا کہے اپنے لڑکے فلاں کی طرف سے ۔ اور وکیل کہے: فلاں کے لڑکے فلاں کی طرف سے قبول کیا، نکاح ہوگیا۔ 
پانچویں صورت یہ ہے کہ ایک ہی شخص دولہا دولہن؛ دونوں طرف سے ولی یا وکیل ہو، یا ایک طرف سے ولی اور دوسری طرف سے وکیل ہو، تو اس صورت میں ایک ہی کلمہ ایجاب و قبول کا قائم مقام ہوگا۔ الگ الگ ایجاب وقبول نہ ہوگا۔ صرف اتنا کہنا کافی ہوگا: میں نے اپنی لڑکی فلانی کا نکاح ، یا فلاں کی لڑکی فلانی کا نکاح، اتنے مہر میں فلاں کے لڑکے فلاں سے کیا، بس نکاح ہوگیا۔
جب ایجاب و قبول ہوجائے تو زوجین کے لیے دعا کرے کہ :
بَارَکَ الْلّٰہُ لَکَ وَ فِیْکَ وَ عَلَیْکَ وَ جَمَعَ شَمْلَکُمَا عَلٰی خَیْرٍ۔ 
اللہ تعالیٰ اس نکاح کو بابرکت کرے اور دونوں کی پراگندگی کو خیر پر جمع کرے۔
اس کے بعد چھوہارے، بادام، کشمش وغیرہ جو کچھ شیرنی ہو، لٹائے اور حاضرین مجلس میں تقسیم کردے۔
رفاہ المسلمین میں لکھا ہے کہ اگر اس وقت نکاح کے اعلان کے واسطے دف بغیر جھانجھ کے بجایا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اور خوشی کو ظاہر کرنے کے واسطے اگر گانا بغیر مزامیر (باجے) کے واقع ہو، بشرطیکہ امرد یا جوان مشتہات عورت کی زبان سے نہ ہو، اور کسی مسلم یا ذمی کی برائی نہ ہو، اور نماز کے حضور کا وقت بھی نہ ہو، اور غناء کی اجرت بھی مشروط نہ ہوتو بالاتفاق جائز ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک انصاری لڑکی تھی، جس کا میں نے نکاح کرادیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: 
ألَّا تُغَنِّیَنَّ، فَانَّ ھَذَا الْحَیَّ مِنَ الْأنْصَارِ یُحِبُّوْنَ الْغِنَاءَ 
( رواہ ابن حبان فی صحیحہ) 
کیا تم گاتی نہیں ہو، انصار کا یہ قبیلہ گانے کو پسند کرتا ہے۔
اور ابن عباس کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ کسی ایسے آدمی کو بھیج دیتے جو کہتا کہ :
اَتَیْنَاکُمْ اَتَیْنَاکُمْ فَحَیَّانَا وَ حَیَّاکُمْ (ابن ماجہ)
مطلب یہ ہے کہ مبارک بادی کے کچھ اشعار موسیقی کے اصول و قواعد کی رعایت کے بغیر سنا دیے جائیں، تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اور باجے کے ساتھ گانا بالاتفاق حرام ہے۔ اس کی مفصل تحقیق پہلے گذر چکی ہے۔
جہیز کا بیان
جہیز میں ضرورت کی چیز دینا مناسب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ چیزیں دی تھیں: د ویمنی چادریں، جو سوسی کی طرح ہوتی تھیں۔ دو نہالی، جس میں اسی کی چھال بھری تھی اور دو گدے، دو چاندی کے بازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ، ایک گھڑا، اور بعض روایت میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ (ازالۃ الخفا)
رخصتی
جب دولہن کو گھر لائے تو اس کی پیشانی کا بال پکڑکر یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ انِّیْ أسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ ۔
(زاد المعاد بحوالہ امداد الفتاوٰیٰ، ج؍ ۲)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نکاح کرو یا خادم خریدو تو اس کی پیشانی کا بال پکڑ کر دعائے برکت کرو اور کہو:
ألْلّٰھُمَّ انِّیْ أسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ (رواہ ابو داود وابن ماجہ)
دعائے مباشرت
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنی بیوی کے پاس آؤ اور یہ دعا پڑھو:
بِسْمِ الْلّٰہِ ألْلّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا
تو اگر اس صحبت سے کوئی بچہ مقدر ہوا تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم)
شیخ عبدالحقؒ فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ اگر جماع کے وقت یہ دعا نہ پڑھے، تو شیطان اپنا دخل جماتا ہے ، جس کی وجہ سے اولاد کے اندر خرابی آتی ہے۔
قسط نمبر(6) کے لیے کلک کریں

قسط نمبر (4) اولاد کی تربیت کا بیان

اولاد کی تربیت کا بیان

قسط نمبر (4) 

(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

دودھ پلانے کا بیان
جب بچہ پیدا ہو تو اس کو دو سال تک ماں کا دودھ پلائے۔ بچہ کے حق میں ماں کا دودھ سب سے زیادہ مفید ہے ۔ اگر کسی وجہ سے ماں دودھ نہ پلاسکے، تو کسی نیک مزاج صحت مند شریف عورت کا دودھ پلائے ۔ دو سال سے زیادہ دودھ پلانا درست نہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلینِ کامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن یُتِمَّ الرَّضَاعَۃَ (البقر، آیۃ: ۲۳۳)
جن کو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنی ہو، وہ مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
لَا رِضَاعَ ا8لَّا مَا کَانَ فِی الْحَوْلَیْنِ (رواہ دار قطنی)
دودھ پلانا تو بس دو سال ہے۔ 
یعنی دو سال سے زیادہ دودھ پلانا درست نہیں ۔ اس درمیان میں اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا، پینا ، اٹھنا ، بیٹھنا، پیشاب پاخانہ کرنا، اپنے ہاتھ سے کپڑے پہننا سکھائے۔ اور دوسرے اخلاق و عادات کی تعلیم دے ۔ اور جب لڑکا بولنے اور باتیں کرنے لگے، تو اس کو 
لَا الٰہَ الَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ 
اور آیت کریمہ 
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیکٌ فِي الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً ( الا8سراء آیۃ: ۱۱۱)
سکھائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ عبد المطلب کی اولاد میں جب کوئی لڑکا بولنے لگتا، تو حضور اکرم ﷺ اس کو کلمہ توحید اور پچھلی آیت بنی اسرائیل کی 
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیکٌ فِي الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً 
سکھاتے ۔ (حصن حصین)
تعلیم کا بیان
جب لڑکا پڑھنے کے لائق ہو تو اس کو علم دین کی تعلیم دے، اس لیے کہ اشرف العلوم ہے ۔ اور اس کا سیکھنا سکھانا بقدر ضرورت ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ اس لیے اپنی اولاد کو سب سے پہلے علم دین سکھائے ۔ علم دین کی بڑی فضیلت ہے اور اس میں بڑی برکت ہے۔ 
حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ علم دین حاصل کرو۔ علم کا سیکھنا خدا سے ڈرنے کا موجب ہے ۔ اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ علم کا تذکرہ کرنا خدا کی پاکی بیان کرنے کے ہم معنی ہے۔ علم سے بحث کرنا جہاد ہے ۔ علم کو سکھانا ایسے شخص کو جو نہ جانتا ہو، صدقہ ہے۔ علم کا ضرورت کے موقع پر خرچ کرنا ثواب ہے ۔ علم حلال اور حرام کو پہچاننے کی علامت ہے ۔ علم اہل جنت اور نیک لوگوں کے راستہ کا نشان ہے۔ علم تنہائی میں ایک بات کرنے والا رفیق ہے ۔ راحت اور مصیبت دونوں حالتوں میں رہنما ہے۔ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے علم ایک مضبوط ہتھیارہے۔ دوستوں کے سامنے علم زینت ہے ۔ علم کی بدولت اللہ تعالیٰ پست اقوام کو بلند کرتا ہے ۔ ان کو پیشوا اور مقتدیٰ بناتا ہے ۔ لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں ۔پست اقوام کو علم کی بدولت یہ مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے کہ ان کی رائے ہر معاملہ میں آخری رائے سمجھی جاتی ہے ۔ ملائکہ ان کے دوست بننے کی تمنا کرتے ہیں اور اپنے پیروں کو عاجزی کے ساتھ مس کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے لیے عالم کی ہر تر و خشک چیز استغفار کرتی ہے ؛ یہاں تک کہ دریاؤں کی مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، جنگل کے درندے اور چوپائے بھی ان لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ علم دلوں کو جہالت کی موت سے نکال کر عزت کی زندگی بخشتا ہے۔ علم تاریکی میں روشنی اور چراغ کا کام دیتا ہے ۔ علم انسان کو بہترین حضرات کے مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے اور دنیا و آخرت کے بلند سے بلند مراتب پر انسان کو پہنچا دیتا ہے ۔علم کی بات میں فکر کرنا، روزہ رکھنے کے ثواب کے مانندہے ۔ اور علم کو پڑھنا ،پڑھانا رات کی عبادت کے مثل ہے۔ علم سے آدمی کو صلہ رحمی کا سلیقہ آجاتا ہے ۔ اور حلال و حرام کو پہچان جاتا ہے ۔ عمل علم کے تابع ہے اور علم عمل کا امام ہے۔ علم سعید اور نیک لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے ۔ بد بخت اور اشقیاء اس سے محروم رہتے ہیں ۔ (مختصر جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر)
اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں ، جو علم دین کی بزرگی اور اس کے اشرف ہونے پر روشنی ڈالتی ہیں۔ لیکن اس زمانہ میں دنیا کے حریص اپنے بچوں کو علم دین سے محروم رکھتے ہیں اور ایسے علوم میں ان کو منہمک رکھتے ہیں، جس سے دین اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔اس تجربہ کے بعد اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے کہا ہے کہ ؂
یوں قتل کی اولاد سے بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
علم دین کے ساتھ اپنے بچوں کو اس پر عمل بھی کراتے جاؤ ۔ جب بچہ سات برس کی عمر کا ہوجائے، تو اس کو نماز پڑھنے کے لیے کہے۔ اور اس سے نماز پڑھائے۔ اور جب دس برس کا ہوجائے، تو اس کو تاکید کے ساتھ نماز پڑھائے۔ اگر نماز پڑھنے میں سستی کرے، تو اس کو مارے ، تنبیہہ کرے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تمھارے لڑکے سات برس کی عمر کو پہنچیں، تو ان کو نماز پڑھنے کا حکم کرو اور جب دس برس کا ہوجائے، تو مار کر نماز پڑھاؤ۔ (ابو داود)
مقصد یہ ہے کہ نری تعلیم نہ ہو؛ بلکہ اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی ہونی چاہیے ۔ کالجوں کے لڑکے کے بگڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اچھی تربیت کے بجائے بری تربیت ہوتی ہے ؛ ورنہ نفس تعلیم میں اتنی خامی نہیں ہے۔ رفاہ المسلمین میں لکھا ہے کہ جب اولاد پیدا ہو، تو اولاد کی پرورش اور اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانا ، کپڑے پہنانا اور قضائے حوائج یعنی پاخانہ پیشاب کروانا اور شفقت و محبت سے تا حد بلوغ پالنا ماں کے ذمہ ہے۔ اور دودھ پلانا بھی ماں کا حق ہے۔ اگر وہ قبول نہ کرے تو باپ کو چاہیے کہ کسی اور عورت مسلمان، نیک بخت، پاک دامن سے دودھ پلوائے؛ لیکن ان سب چیزوں کا یعنی کھلانے پلانے کا اور دوا، لباس و پوشاک اور دودھ پلانے کا خرچ اور اسباب موجود کرنا باپ کے ذمہ ہے۔ اور اولاد کا اچھا نام رکھنا، اور عقیقہ، اور ختنہ کرانا، اور کلام اللہ وغیرہ دینی علوم پڑھانا، اور تربیت و تادیب، اور نماز و روزوں کی تاکید کرنا، اور کتاب اللہ، اور تیر اندازی، اور شناوری (پانی میں تیرنا) سکھانا، اور جس کتاب میں عشق کی باتیں ہوں، یا عورتوں کے حسن و خوبی و جوانی کے قصے ہوں ، اس کے پڑھنے سے روکنا، اور جو استاد ادیب کہ ان کو شعرو شاعری سکھائے ، اس کی صحبت سے بچانا، آخرش جب سولہ سترہ برس کا ہو تو کسی نیک بخت بھلی مانس سے نکاح کرادینا؛ یہ سب باتیں باپ پر واجب ہیں ۔ باپ نہ ہوتو دادا پر۔ وہ بھی نہ ہوتوبموجب ترتیب عصبات کے اور وارثوں پر واجب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
مَن وُلِدَ لَہُ وَلَدٌ فَلْیُحْسِنْ اِسْمَہُ وَأَدَبَہُ فَإذَا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْہُ فَإنْ بَلَغَ وَلَمْ یُزَوِّجْہُ فَأصَابَ إثْمَاً فَإنَّمَا إثْمُہُ عَلَیٰ أبِیْہِ۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب الولی فی النکاح استئذان المرأۃ الفصل الأول) 
جس کو اولاد ہو اس کو چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے ۔ اس کی اچھی تربیت کرے۔ پھر جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرادے، پس اگر وہ بالغ ہوا اور اس کا نکاح نہیں کردیا اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا ، تو اس کا گناہ اس کے باپ کے اوپر ہے۔
ختنہ کا بیان
ختنہ کرنا امام اعظم، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک سنت ہے اور شعار اسلام سے ہے ، یہاں تک کہ اگر کسی شہر کے تمام لوگ متفق ہوکر ختنہ چھوڑ دیں، تو حاکم وقت کو ان کے خلاف جہاد کرنا چاہیے ، جیسا کہ دوسری سنتوں کے ترک کرنے پر کرتا ہے۔ 
مسند امام احمد ابن حنبل میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ ختنہ کرنا مردوں کے لیے سنت ہے اور عورتوں کے لیے موجب کرامت۔ خزانۃ الفتاویٰ میں شرعۃ الاسلام سے منقول ہے کہ مردوں کا ختنہ کرنا مسنون ہے۔ اور عورتوں کے ختنہ کرنے میں اختلاف ہے۔ ادب القاضی میں مکروہ اور بعض علماء نے واجب اور بعض نے فرض لکھا ہے ۔ اور عین العلم میں لکھا ہے کہ عورتوں کا ختنہ کرنا مسنون ہے ، جیسا کہ حدیث میں آیا کہ عورتوں کا ختنہ کرنا موجب کرامت ہے کہ ختنہ کرنے سے ان کے چہرے میں تازگی اور خوب صورتی آتی ہے ۔ اور شہوت سست ہوتی ہے اور مجامعت میں زیادہ لذت آتی ہے ۔ اور خاوند اس کو بہت چاہتا ہے۔

ختنہ کا وقت
ختنہ کے لیے کوئی وقت متعین نہیں؛ البتہ بلوغ سے پہلے ختنہ ہوجانا چاہیے، اس لیے کہ بلوغت کے بعد کشف عورت جائز نہیں ۔ اور سنت کے ادا کرنے کے لیے فرض کا ترک کرنا کسی طرح درست نہیں ۔ چنانچہ قاضی خاں میں لکھا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو اس کے وقت کے تقرر کا کوئی علم نہیں۔ اور نہ کوئی دلیل قطعی اس کے تعیین پر قائم ہے۔ اور اس بارے میں صاحبینؒ سے بھی کچھ پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتا۔ اور شمس الائمہ حلوائی فرماتے ہیں کہ بالغ ہونے تک جس وقت لڑکے کو سختی اور درد کے برداشت کی طاقت حاصل ہو ، اس وقت اس کا ختنہ کردینا چاہیے۔
اور مجمع البرکات میں کنز العباد سے نقل کیا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ختنہ کرنے کا کوئی وقت متعین نہیں ، لیکن لڑکے کا حال دریافت کرے۔ اگر اس میں دکھ تکلیف اٹھانے کی طاقت ہے، تو تاخیر نہ کرے ۔ اور اگر کمزور ہے، تو طاقت آنے تک انتظار کرے اور یہی بات سب سے بہتر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ختنہ کا اتفاق اسی برس کی عمر میں ہوا۔ (بخاری و مسلم)
اور تفسیر زاہدی میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ختنہ اسی برس کی عمر میں ہوا ہے ۔اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے سے ساتویں دن اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تیرہ برس کی عمر میں ہوا۔ پس یہ سنت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ان کی اولاد میں جاری ہے کہ تیرہ برس کی عمر میں ختنہ کرتے ہیں ۔ (شرح السعادۃ)
کتنی کھال کٹنے سے ختنہ ہوتا ہے؟قاضی خاں میں لکھا ہے کہ جس شخص کا ختنہ ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ جس قدر کھال کاٹنی سنت ہے ، اس سے کم کٹی ، پس اگر آدھے سے زیادہ کٹی، تو اس کو مختون (ختنہ کیا ہوا) کا حکم دیا جائے گا۔ اور جو آدھے سے کم کٹی، تو اس کو مختون کا حکم نہ ہوگا۔ اور جس لڑکے کا ابھی ختنہ نہیں ہوا اور اس کی کھال حشفہ (سپاری) سے اوپر کو چڑھ گئی، جس سے حشفہ نمودار ہے ، یعنی دیکھنے میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ختنہ ہوچکا ہے اور اب اس کا ختنہ کرنا چاہتے ہیں تو بغیر ایذااور تکلیف کے اس کی کھال نیچے نہیں آتی ہے ، تو اس صورت میں اگر ماہر ختان (ختنہ کرنے والا) کہہ دے کہ اس کا ختنہ کرنے میں جس قدر کھال کاٹنا منظور ہے ، اس سے زیادہ کٹ جائے گی، تو اس صورت میں اس کا ختنہ نہ کرنا چاہیے۔ اور ختنہ کی سنت اس سے ساقط ہوجائے گی، جیساکہ حضور اکرم ﷺ دنیا میں مختون تشریف لائے تھے ۔ ایسوں کی پان لپیٹ کر کاٹنا محض لغو حرکت ہے۔
بالغ کا ختنہجو شخص ختنہ ہونے سے پہلے بالغ ہوگیا اور ختنہ کی تکلیف سہنے کی طاقت رکھتا ہے ، تو متقدمین حنفیہ اس کے ختنہ کرنے کو منع کرتے ہیں، اس لیے کہ کشف عورت جائز نہیں۔ اور سنت کے ادا کرنے کے لیے حرام کا ارتکاب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور عالم گیری میں لکھا ہے کہ جو شخص ختنہ ہونے سے پہلے بالغ ہوگیا، تو اس شخص کو اپنا ختنہ آپ کرنا چاہیے، اگر وہ ایسا کرسکتا ہو؛ ورنہ ایک باندی ختنہ کرنے والی خریدے اور اس کا ختنہ کرے، یا ختنہ کرنے والی عورت سے نکاح کرے اور وہ اس کا ختنہ کرے۔
خنثیٰ مشکل کا ختنہ
اسی طرح اگر کوئی خنثیٰ مشکل ہے، یعنی اس میں مرد اور عورت ہونے کی دونوں علامتیں موجود ہیں، اور ختنہ سے پہلے بالغ ہوجائے تو وہ تین بالا صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرے۔ بالغ خنثیٰ مشکل کا ختنہ مرد کو کرنا مکروہ ہے ، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ عورت ہو اور عورت کو کرنا بھی مکروہ ہے ، کیوں کہ ممکن ہے کہ مرد ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ کشف عورت حرام ہے، خواہ مرد کے سامنے مرد ہو، یا عورت کے سامنے۔ اور اگر نابالغ ہے تو اس کا ختنہ مرد کو کرنا درست ہے ، اس لیے کہ اگر وہ حقیقت میں لڑکا ہے تو مرد کو لڑکے کا ختنہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر لڑکی ہے تو پھر بھی کچھ قباحت نہیں کہ ابھی غیر مشتہات ہے اور حرمت کا سبب شہوت ہی ہے۔ (مطالب المومنین)
بڈھے کا ختنہ
ایسے بڈھے کا جو ختنہ کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا ہے، علاوہ ازیں کہ وہ ایسی ہی حالت میں اسلام قبول کیا ہو، یا وہ مسلمان بغیر ختنہ کے ایسی حالت میں پہنچ گیا ہو اور ماہر حجام اس کی تصدیق کردے، تو اس کا ختنہ نہ کیا جائے۔
ختنہ کا دنسوموار کے دن دو پہر کے بعد ختنہ کرنا مسنون ہے اور اتوار کو مکروہ۔
(جواہر الفتاویٰ)
ختنہ کی دعوت
پیغمبر ﷺ کے مبارک زمانہ میں بغیر دعوت ختنہ ہوجاتا تھا۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ابن ابی العاصؓ کو کسی نے ختنہ میں بلایا ۔ آپؓ نے تشریف لے جانے سے انکار کردیا۔ آپؓ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی ۔ آپؓ نے فرمایا کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہ جاتے تھے اور نہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے۔ (مسند احمد) ۔ 
البتہ اگر ادائے شکر کے طور پر ختنہ کے بعد اسی دن، یا اس کے بعد کسی دن دعوت دی جائے، یا کھانا، یا شیرینی تقسیم کی جائے تو اس کی گنجائش ہے ۔ چنانچہ شیخ عبد الحق ؒ نے مشکوٰۃ کی عربی شرح میں لکھا ہے کہ لڑکوں کے ختنہ کے بعد دعوت کرنا اور کھانا بانٹنا مستحب ہے ۔ تفسیر فتح العزیز میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ سیکھنے کے بعد ادائے شکر نعمت کی نیت سے ایک اونٹ ذبح کیا اور دوستوں یاروں کو کھلایا۔

قسط نمبر (3) قربانی کا بیان

قربانی کا بیان

قسط نمبر (3) 
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

ایام قربانی میں چھ قسم کے جانوروں میں سے کسی جانور کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے۔
قربانی کرنا واجب ہے
قربانی کے دن جو شخص نصاب کی مقدار یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس مالیت کی کوئی دوسری چیز رکھتا ہو اور وہ مال قرض اور دوسری ضروری حاجتوں سے زائد ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
مَنْ کَانَ لَہُ سَعَۃٌ وَ لَمْ یُضَحِّ۔ فَلایَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا (رواہ احمد و وابن ماجۃ والحکم و صححہ الحاکم)
جس شخص کو مالی وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ جائے۔
علامہ عینی نے فرمایا کہ ایسی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوسکتی ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس سال تک مدینہ میں قیام فرمایا ااور ہر سال قربانی کی۔ (ترمذی۔ اس سے بھی وجوب سمجھا جاتا ہے ۔ (مرقاۃ)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ( الکوثرآیۃ :۲)
اپنے رب کے لیے عید کی نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے ۔
قربانی صرف اپنی ذات پر واجب ہے ۔ اپنی چھوٹی بڑی اولاد اور بیوی ، غلام کی طر ف سے قربانی واجب نہیں ہے۔ (مالابد منہ)
مسافر اور نادار پر قربانی واجب نہیں ہے۔
قربانی کا رکن
قربانی کا رکن مخصوص چوپائے کا ذبح کرنا ہے۔ قرآن میں ہے :
وَ مِنْ بَھِیْمَۃِ الْأنْعَامِ (الحج، آیۃ:۲۸)
اورچوپائے جانوروں میں سے ۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف چوپائے کی ہوسکتی ہے۔ جو چوپایہ نہیں، جیسے مرغ، بٹیر وغیرہ پرندے، اس کی قربانی درست نہیں۔ اسی طرح چوپائے میں بھی مخصوص چوپائے کی قربانی درست ہے اور وہ چھ قسم کے جانور ہیں : اونٹ۔ گائے۔ بھینس۔ بکری۔ بھیڑ۔ دنبہ۔ ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی درست نہیں۔
قربانی کا حکمدنیا میں قربانی کرنے والا واجب کی ذمہ داری سے نکل آتا ہے اور آخرت میں بڑے ثواب کا حق دار ہوتا ہے۔
قربانی کی فضیلت
حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 
قَالَ أصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ! مَا ھٰذہِ الأضَاحِیْ؟ قَالَ: سُنَّۃُ أبِیْکُمْ ا8بْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلامُ۔ قَالُوْا: فَمَا لَنَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ۔ قَالُوْا: فَالصُّوْفُ یَا رَسُوْلَ الْلّٰہِ، قَالَ: بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنَ الصُّوفِ حَسَنَۃٌ۔ (رواہ احمد وابن ماجۃ)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ (ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی اطاعت میں سب سے پہلے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا ؛ مگر اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش کے بعد اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ایک دنبہ قربان کیا۔ جب ہی سے یہ سلسلہ قربانی جاری ہوا)۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم کو اس میں کیا ثواب ملے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا : ہر بال پر ایک نیکی۔ عرض کیا یا رسول اللہ! بھیڑاور دنبہ کے بالوں کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان کے بالوں کا بھی یہی حکم ہے؛ ہر بال پر ایک نیکی۔
یعنی بال ہو یا اون؛ دونوں کا ایک حکم ہے ۔ رواں رواں پر نیکی ، خواہ کسی قدر ہوں۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ذی الحجہ کے دسویں تاریخ کو خدا کے نزدیک تمام اعمال سے بہتر خون بہانا ہے۔ یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں وغیرہ کے ساتھ آئے گی۔ یہ نہایت ہی خوش ہونے کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پیشتر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ائے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس آکر کھڑی ہو، اس کا جو قطرہ زمین پر گرے گا، اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تیرے تمام پچھلے گناہ بخش دے گا۔ حضرت بتولؓ نے دریافت کیا : یہ خوش خبری صرف میرے لیے ہے یا تمام امت کے لیے؟ فرمایا: تمھارے لیے بھی اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔ (بزار) 
حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے حسن اعتقاد اور ثواب کی نیت سے قربانی کی تو یہ قربانی اس کے لیے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ (طبرانی)۔
قربانی کا جانور
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَ لِکُلِّ أمَّۃٍ جَِعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوْا اسْمَ اللّٰہِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْأنْعَامِ (الحج،آیۃ ۳۴ )
اور جتنے شریعت والے گذرے ہیں ، ان میں سے ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھاکہ وہ مخصوص چوپاؤں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے ان کو عطا فرمائے تھے۔ (ترجمہ تھانوی)
وہ مخصوص جانور جن کی قربانی درست ہے ، وہ یہ ہیں: 
(۱) اونٹ۔ (۲) گائے ۔ (۳)بھینس۔ (۴) بھیڑ۔ (۵) دنبہ۔ (۶) بکری۔خواہ نر ہو یا مادہ بشرطیکہ پالتو ہو ۔ اور اونٹ پورے پانچ سال ، گائے ، بھینس پورے دو سال، بکری، خصی پورے ایک سال کے ہوں۔ بھیڑ، دنبہ چھ ماہ کا بھی درست ہے، جب کہ خوب فربہ ہو اور سال بھر کا معلوم ہوتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
لَاتَذْبَحُوْا ا8لَّا مُسِنَّۃً، ا8لَّا أنْ یَّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْبَحُوْا جِذْعَۃً مِّنَ الضَّانِ ۔ (رواہ مسلم)۔
مت ذبح کرو، مگر ثنی؛ مگر یہ کہ تم پر دشوار ہو پس ذبح کرو بھیڑ کا بچہ ششماہ۔ 
معلوم ہوا قربانی کے جانور کا ثنی ہونا ضروری ہے۔ ثنی وہ جانور ہے، جس کے سامنے کے دانت گرگئے ہوں۔ ثنی اونٹ پانچ سال میں، گائے ، بھینس دو سال میں، اور بکری پورے ایک سال میں ہوتی ہیں۔
اون والا جانور ضان کہلاتا ہے ، جو بھیڑ دنبہ دونوں کو شامل ہے۔ بھیڑ، دنبہ اگر ایک سالہ نہ ملے اور کوئی دوسرا جانور بھی نہ ملے ، تو اس صورت میں چھ ماہ کا بھی درست ہے۔
جنگلی جانور کی قربانی درست نہیں، یعنی پہاڑی بکری اور جنگلی گائے، بھینس کی قربانی درست نہیں۔ اگر کوئی جانور پالتو اور وحشی سے پیدا ہوا ہو، تو اس وقت ماں کا اعتبار ہوگا۔ اگر ماں پالتو ہے تو قربانی درست ہے؛ ورنہ جائز نہیں۔ (مالابد منہ)
افضل کیا ہے
بالاتفاق دنبہ بھیڑ سے افضل ہے ۔ اور بکری بکرا سے، اگر قیمت اور گوشت میں برابر ہو۔ اور بکری گائے کے ساتویں حصہ سے افضل ہے، جب کہ قیمت میں برابر ہو ۔ اور بعض کے نزدیک اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے۔ (مالابد منہ)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: قربانی میں بہتر قربانی بکری کی ہے ۔ (ابو داود)
اور بعض روایت میں مینڈھے کی قربانی افضل بتایا گیا ہے۔
(جنت کی کنجی)
عیب دار جانور
عیب دار جانور کی قربانی درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَاءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔ 
( الحج، آیۃ ۳۲)
جو شخص خدا کے دین کی یادگاروں کی تعظیم کرے گا، تو ان کی تعظیم دل کے تقویٰ سے ہوگی۔
قربانی دین کی یادگاروں میں سے ایک ہے۔ اس کی تعظیم یہ ہے کہ جانور موٹا ، تازہ، بے عیب ہو، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے سینگوں والے موٹے تازے مینڈھے کی قربانی کی تھی ، جو سیاہی میں دکھتا ، سیاہی میں کھاتا اور سیاہی میں چلتا، یعنی سر سے پاؤں تک سیاہ تھا۔ (ترمذی، ابو داود، نسائی ، ابن ماجہ)
اور عیب دار جانوروں کی قربانی سے منع فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت براء ابن عاذب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 
قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ، فَقالَ: أرْبَعٌ لَاتَجُوزُ فِی الضَّحَایَا الْعَوْرَآءُ الْبَیِّنُ عَوْرَھَا، وَالْمَرِیْضَۃُ الْبَیِّنُ مَرَضُھَا، وَالْعَرْجَآءُ الْبَیِّنُ ضِلْعُھَا، وَالْکَبِیْرَۃُ الَّتِیْ لَاتُنْقِیْ۔ (رواہ احمد، والاربعۃ، و صححہ الترمذی وابن حبان)۔ 
رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان میں کھڑے ہوئے ، پس فرمایا : چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں: 
(۱) کانا جس کا کانا ہونا ظاہر ہو۔ (اس میں اندھا بھی آگیا)۔
(۲) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔ (یعنی مرض سے بہت دبلا ہوگیا ہو)۔
(۳) لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ (یعنی چوتھا قدم زمین پر بالکل نہ دھرے اور مذبح تک نہ جاسکے)
(۴) بہت بڈھا ہو کہ بدن میں گوشت نہ ہو۔
معلوم ہو کہ اندھے، کانے ، ایسے لنگڑے کی جو مذبح تک نہ جاسکے، بہت بڈھے کی، بہت بیمار کی کہ بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے بدن میں گوشت نہ رہا ہو، اسی طرح جس کا سینگ جڑ سے ٹوٹ جائے، یا دم پیدائشی نہ ہو، یا پیدائشی کان نہ ہو، یا دم تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو، یا تہائی سے زیادہ کان کٹ گیا ہو، کل یا اکثر دانت ٹوٹ گئے ہوں، تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے ۔ (مالابدمنہ)
محض نجاست خور کہ نجاست کے سوا کوئی دوسری چیز نہ کھاتا ہو۔ خنثیٰ اور جس کا پستان کٹ گیا یا سوکھ گیا ہو؛ ان سب کی قربانی درست نہیں ۔ (مالابد منہ)
یہ عیب قربانی سے مانع نہیں
جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہو، یا درمیان سے ٹوٹ گیا ، گھاس کھاتا ہوا پاگل، موٹا تازہ خارشی، اکثر دانت والا، تہائی سے کم کان یا دم کٹا ہوا، چھوٹے چھوٹے پیدائشی کان والا، مذبح تک جاسکنے والا لنگڑا اور خصی بدھیا کی قربانی درست ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 
ذَبَحَ النَّبِیُّ ﷺ یَوْمَ الذَّبْحِ کَبْشَیْنِ أقْرَنَیْنِ أمْلَحَیْنِ مَرْجُوْءَیْنِ (احمد)
نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے دن دو مینڈھے بڑے بڑے سینگوں والے ، سیاہ سفید رنگ والے خصیوں کی قربانی کی۔ 
حضرت جحیفہ ابن عدیؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : ایک گائے سات شخصوں کی طرف سے جائز ہے ۔ میں نے پوچھا: اگر بچہ نکلے، تو فرمایا: اس کے ساتھ اس کے بچہ کو بھی ذبح کرے۔ پھر میں نے عرض کیا : اور سینگ ٹوٹے کی؟ فرمایا: کچھ حرج نہیں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے آنکھ کان دیکھ لینے کو فرمایا۔ اس حدیث کو دارمی، نسائی، ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی، ابو داود طیالسی، ترمذی اور حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہے اور ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔ (زجاجۃ المصابیح)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مینڈھا قربانی کے لیے خریدا۔ بھیڑیا نے اس کی چکتی اور کان کو زخمی کردیا۔ ہم نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا ، آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کی قربانی کر۔ (ابن ماجہ)۔
قربانی کے دنحضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :
اَلْأضْحَیٰ ثَلٰاثَۃُ أیَّامٍ یَوْمَانِ بَعْدَ یَوْمِ النَّحْرِ۔
(رواہ الطحاوی بسند جید)
قربانی کے تین دن ہیں: دسویں دن کے بعد دو دن یعنی گیارھویں بارھویں ۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بارھویں کے سورج چھپنے سے پہلے تک رہتا ہے۔ اس درمیان میں جب چاہے، قربانی کرسکتا ہے؛ البتہ رات کو ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ دسویں کو نماز سے پہلے قربانی درست نہیں ۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا: 
مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ أنْ یُّصَلِّیَ فَلْیَذْبَحْ أُخْرَیٰ مَکَانَھَا، وَ مَنْ لَّمْ یَذْبَحْ فَلْیَذْبَحْ بِاِسْمِ الْلّٰہِ (متفق علیہ)
جس شخص نے نماز پڑھنے سے پہلے قربانی کی ہے ، اس کو اس کی جگہ میں دوسرا کرنا چاہیے اور جس نے قربانی نہیں کی ہے، اس کو اللہ کے نام سے ذبح کرنا چاہیے۔
البتہ اگر دسویں کو کسی وجہ سے نماز نہیں پڑھی، تو گیارھویں کو نماز سے پہلے قربانی جائز ہے۔ اسی طرح جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی، یا شہر میں فتنہ کی وجہ سے نماز کی توقع نہیں ، تو وہاں دسویں کو صبح صادق کے بعد قربانی درست ہے۔ (مالابد منہ)
اس لیے کہ جب نماز ہی نہیں ہے، تو پھر انتظار کس کا ۔ اگر امام نماز میں تاخیر کرے، تو زوال تک قربانی میں بھی تاخیر کرے۔البتہ اگر مسجد میں عیدگاہ سے پہلے نماز ہوجائے، تو اب سب کے لیے قربانی کرنا جائز ہوگا، خواہ نماز میں شریک ہوا ہویا نہ ہوا ہو، یا عیدگاہ میں مسجد سے پہلے نماز ہوجائے، تو قربانی جائز ہے، الغرض کسی ایک جگہ نماز ہوجانی چاہیے، جہاں بھی نماز ہوئی ، قربانی درست ہوگی۔ نماز کے بعد خطبہ سے پہلے قربانی درست ہے ؛ مگر خلاف اولیٰ ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ نماز اور خطبہ ؛ دونوں سے فارغ ہوکر قربانی کرے ۔ (مالابد منہ)
اگر قربانی کے دن گذر گئے اور اس پر قربانی واجب تھی اور اس سے کسی وجہ سے قربانی نہ ہوسکی، تو اگر جانور موجود ہے ، تو اسی کو صدقہ کردے، ورنہ اس کی قیمت صدقہ کرے۔
قربانی میں شرکت
بھیڑ، بکری اور دنبہ میں شرکت درست نہیں۔ صرف ایک شخص کی جانب سے درست ہے ۔ گائے، بھینس اور اونٹ میں ایک سے سات تک شریک ہوسکتے ہیں ۔ سات سے زائد درست نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ 
البَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ وَ الْجَزُوْرُ عَنْ سَبْعَۃٍ۔ (مسلم)
گائے سات شخصوں کی طرف سے اور اونٹ سات شخصوں کی جانب سے ۔
سات شخصوں کا ہونا ضروری نہیں ، صرف دو آدمی مل کر قربانی کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح تین یا چار یا پانچ یا چھ آدمی مل کر کریں، یہ بھی درست ہے؛ البتہ کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔(یعنی ایک حصہ مکمل ہو۔ حصہ میں تقسیم نہ ہو)۔ زیادہ ہونے میں کچھ حرج نہیں۔ اور سب کی نیت تقرب کی ہو، یعنی ثواب کی ۔ اگر نیت تقرب میں اختلاف ہو، تو کچھ حرج نہیں، جیسے کسی نے عقیقہ کی نیت کی ، کسی نے قربانی واجب کی، کسی نے نفل کی کسی نے منت کی ، تو اس اختلاف نیت سے قربانی میں کچھ حرج نہیں ہے، قربانی صحیح ہوگی۔
لیکن اگر کسی نے محض گوشت کھانے کی نیت سے شرکت کی ، تو کسی کی بھی قربانی درست نہ ہوگی۔ (مالابد منہ)
سات شخصوں نے مل کر گائے خریدی اور قربانی کرنے سے پہلے کسی ایک نے انتقال کیا، اگر اس کے کل وارثوں سے اجازت قربانی کی دی ، تو صحیح ہوگی، ورنہ قربانی کسی کی بھی نہیں ہوگی۔
غریب کی قربانی
جس پر قربانی واجب نہ تھی ؛ مگر اس نے ثواب کی نیت سے قربانی کا جانور خریدا، تو اب اس پر اس جانور کی قربانی کرنا واجب ہوگیا۔ البتہ اگر وہ جانور قربانی کرنے سے پہلے مرجائے یا چو رڈکیت لے جائے، تو اس پر دوسرا خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں ؛ لیکن اگر عیب دار ہوجائے ، خواہ وہ عیب ایسا ہو کہ اس کی موجودگی میں اس کی قربانی جائز نہیں، تو اسی کو قربانی کر ڈالے، دوسرے خریدنے کی حاجت نہیں۔ اگر خریدے گا تو دونوں کی قربانی کرنا ہوگا۔
امیر کی قربانی
جس پر قربانی کرنا واجب تھا، اس نے ایک جانور خریدا، اس کے بعد وہ مرگیا، یا کھوگیا، یا چور لے گیا، یا ایسا عیب دار ہوگیا جو قربانی سے مانع ہو تو اس پر دوسرا خرید کر قربانی کرنا واجب ہے، اگرچہ خریدنے کے بعد پہلا بھی مل جائے تو اس پر کسی ایک کی قربانی کرنا واجب ہے، دونوں کا نہیں۔
میت کی قربانی
اگر مرنے والے نے قربانی کی وصیت کی اور اس نے اتنا مال چھوڑا ہے کہ اس کے تہائی مال سے اس کی وصیت پوری ہوسکتی ہے ، تو ورثہ پر لازم ہے کہ اس کی طرف سے قربانی کرے ۔ اور اس کا تمام گوشت پوست صدقہ کردے،اس گوشت میں سے ورثہ کو کھانا درست نہیں؛ لیکن اگر کسی نے میت کی وصیت کے بغیر ثواب پہنچانے کے لیے اس کے نام سے قربانی کی ، تو اس گوشت کا کھانا اور دوسروں کو کھلانا ہر طرح جائز ہے ، انسان کو چاہیے اپنے مرنے والوں کو یاد رکھیں اور ان کے نام سے قربانی کرکے ان کو ثواب پہنچائیں۔ حضرت حَنَش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے ان سے عرض کیا: یہ کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں، اس لیے ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ (ابو داود)
یعنی ایک اپنی طرف سے اور ایک سرکار دوجہاں احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی طرف سے کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس پر قربانی واجب ہو، وہ ایک جانور اپنی طرف سے ضرور کرے اور دوسرے جانور سے دوسرے کو ثواب پہنچائے۔ 
منت کی قربانی
اگر کسی نے نذر مانی کہ اگر ہمارا فلاں کام ہوگیا، یامیں بیماری سے اچھا ہواتو قربانی کروں گا۔ اس کے بعد اس کی حاجت پوری ہوگئی، تو اب اس پر قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا واجب ہے۔ اور اس کا گوشت نہ خود کھائے ، نہ امیروں کو کھلائے؛ بلکہ گوشت پوست؛ سب غریبوں کو دیدے۔ اگر خود کھائے یا امیروں کو کھلائے تو جتنا کھایا یا کھلایاہے، اس کی قیمت غریبوں کو خیرات کرے؛ ورنہ اس کے ذمہ اتنا واجب رہ جائے گا۔
منت کی قربانی کی وہی شرطیں ہیں جو اور قربانی کی ہیں۔ کم عمر یا عیب دار کی قربانی کرنا منت پوری کرنے کے لیے درست نہیں ۔
اگر کسی خاص جانور کی قربانی کی منت مانی ، تو اس خاص جانور کی قربانی کرنا ضروری نہیں ، اس کے بدلے میں دوسری کرنے سے بھی منت پوری ہوجائے گی۔ اگر منت جان کے بدلے جان کی ہو، تو حاجت پوری ہونے کے بعد کسی جانور کو ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کردے، اپنے مصرف میں نہ لائے ۔اور نہ اس کے لیے قربانی کے دنوں کا انتظار کرے۔ 

قربانی کرنے کا طریقہ
پہلے چھری تیز کرے اور کوئی دوسرا جانور اس جگہ نہ رہنے دے ۔ پھر اس کو قبلے کی رخ پر لٹائے ۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھے:
إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفَاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکینَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِی وَمَحْیايَ وَمَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَٰلکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمینَ أللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ۔ 
پھر بِسمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے۔ ذبح کرنے کے بعد کہے:
ألْلّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ ا8بْرَاھِیْمَ وَ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَا الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ۔ 
اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو مِنِّیْ کی جگہ پر مِنْ فُلان ابنِ فلاں کہے، یعنی مِنْ کے بعد اس کا ولدیت کے ساتھ نام لے۔ اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا بہتر ہے ،جب کہ جانتا ہو ، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے کیا؛ لیکن اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا ہو، تو وہاں پر کھڑا رہے ، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ائے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس آکر کھڑی ہو۔ (بزار)
قربانی کا گوشت
اگر میت اور منت کی وصیت کی قربانی نہ ہو ، تو اس کا گوشت خود کھاسکتا ہے اور دوسروں کو بھی دے سکتا ہے ہے ، خواہ امیر ہویا غریب، مسلمان ہو یا کافر۔ یہ بھی جائز ہے کہ کل گوشت خیرات کردے، یا کل کو اپنے کام میں لائے ؛ البتہ گوشت کا بیچنا جائز نہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ ایک تہائی گوشت غریبوں میں بانٹے اور ایک تہائی گوشت دوستوں ، رشتہ داروں کو دے اور ایک تہائی اپنے کام میں لائے۔
میت اور وصیت والی قربانی کا گوشت غریبوں کو دیدے۔ نہ خود کھائے ، نہ امیروں اور کافروں کو دے۔
چرم قربانی
چرم قربانی کا صدقہ کرنا افضل ہے ۔ 
أَنَّ عَلِیَّاً رَضِيَ اللّٰہُ عَنہُ أَخْبَرہَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَہُ أَنْ یَّقُوْمَ عَلیٰ بُدْنہِ وَأَنْ یَّقْسِمَ بُدْنَہُ کُلَّھَا لُحُوْمَھَا وَجُلُوْدَھَا وَجِلَالَھَا وَلَا یُعْطِيَ فِيْ جِزَارَتِھا شَیْءَاً۔ (بخاری،کتاب الحج، باب یُتصدَّقُ بِجلودِ الھدیِ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانیوں کا انتظام کروں اور اس کا گوشت، کھال اور جھول سب مسکینوں پر تقسیم کروں اور اس کی ذبح کی اجرت میں اس میں سے کچھ بھی نہ دیا جائے۔
لیکن اگر کوئی کھال صدقہ نہ کرے اور اس کو اپنے مصرف میں لائے تو لاسکتا ہے۔ یعنی اس سے کوئی چیز الگ سے مزدوری دے کر بنوالے یا خود بناکر استعمال کرے جائز ہے، لیکن اس کو بیچ کر اس کا پیسہ اپنے کام میں لانا، یا مسجد میں لگانا، یا مدرسین، یا ملازمین، یا امام و مؤذن کی تنخواہ میں دینا، یا مدرسہ کی عمارت میں لگانا، یا کوئی اجمالی کام کرنا ، یا کوئی چیز خریدنا درست نہیں۔ بیچنے کے بعد اس کے پیسے مستحقینِ زکوٰۃ پر خرچ کرنا ضروری ہے ۔ مدرسہ میں غریب طلبہ کی امداد کے لیے دینا بھی درست ہے۔ 
گوشت بنانے والے کو اجرت میں گوشت یا کھال کا دینا جائز نہیں۔ اس کو الگ سے مزدوری دے۔

قسط نمبر (2) بچہ کے کان میں اذان و اقامت کا بیان

قسط نمبر (2) 
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

الحمدُ للّٰہِ ربِّ العٰلمین، الرَّحمٰنِ الرَّحیم، والصَّلوٰۃُ والسَّلامُ علیٰ رسولہِ الکریمِ۔
بچہ کے کان میں اذان و اقامت کا بیان
جب بچہ پیدا ہو تو مستحب ہے کہ پہلے اس کو غسل دے اور پاک، سفید کپڑے میں لپیٹ کر قوم کا بزرگ آدمی اس کے دائیں کان میں اذان اور اس کے بائیں کان میں اقامت (تکبیر) کہے۔ (کنز العباد)
ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، تو آں حضرت ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان دی۔ (ترمذی و ابوداؤد)
اور مفتاح النجاۃ میں صاف لکھا ہے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما کی پیدائش کے بعد آں حضرت ﷺ نے ان کے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
اور سیوطی نے جامع صغیر میں مسند ابی یعلی سے نقل کیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس کسی کو لڑکا پیدا ہو، پھر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے، تو اس لڑکے کو ام الصبیان کی بیماری نقصان نہ کرے گی۔ ام الصبیان مختلف قسم کی ہوتی ہے، جس میں اکثر بچے مر جاتے ہیں۔ 
اذان کے الفاظ وہی ہوں گے، جو اذان میں کہے جاتے ہیں اور حیَّ علیٰ الصلاۃ کہتے وقت دائیں طرف منھ پھیرے اور حیَّ علیٰ الفلاح کہتے ہوئے منھ بائیں طرف پھیرے ۔ اور اقامت میں حیَّ علیٰ الفلاح کے بعد قد قامت الصلاۃ بھی کہے۔ (رفاہ المسلمین)
اور اقامت کے بعد یہ دعا پڑھے:
أللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ بَراً تَقِیِّاً وَّ أنْبَتَہُ فِی الْاِسلامِ نَباتاً حَسَناً 
اور اس دعا کی کثرت کرے:
أعِیذُہُ بِاللّٰہِ الصَّمَدِ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ ا8ذا حَسَدَ (شرعۃ الاسلام)
اور نو زائدہ کے کان میں اس آیت کا پڑھنا بھی مستحب ہے ، اگرچہ لڑکا ہو: 
أللّٰھُمَّ ا8نِّی أعِیذُھا بِکَ وَ ذُرِّیَتَھَا مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجِیْمِ (سفر السعادۃ)
اور( رزین میں) سورہ اخلاص کا پڑھنا بھی آیا ہے۔
تحنیک کا بیان
چھوہارا یا کوئی میٹھی چیز چبا کر یا پیس کر بچے کے تالو میں ملنا مستحب ہے ؛ لیکن چھوہارا افضل ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ 
أنَّ رَسولَ اللّٰہِ ﷺ کانَ یُؤتیٰ بِالصِّبیانِ، فَیُبَرِّکُ عَلَیْھِمْ وَ یُحَنِّکُھُمْ۔ (مسلم، کتاب الادب، باب استحباب تحنیک المولود)
جب کسی کے لڑکا پیدا ہوتا، تو اس کو پیغمبر خدا ﷺ کی خدمت میں لاتے ۔ آپ ﷺ اس کو برکت کی دعا دیتے اور چھوہارا چباکر اس کے تالو میں ملتے۔حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنھما پیدا ہوئے، تو اس وقت آں حضرت ﷺ نے چھوہارا چبا کر اس کے تالو میں ملا۔ (جامع شتی)
اس طرح سب چیز سے پہلے ان کے شکم میں حضور اکرم ﷺ کا لعاب مبارک پہنچا ۔ اور بخاری کی شرح عینی میں ہے کہ جب لڑکا پیدا ہو، تو اس کو کسی مرد صالح کے پاس لے جائے ۔ وہ چھوہارہ چباکر اس کے تالو میں ملے کہ یہ مستحب ہے ۔ اور سب چیز سے بہتر تمر ہے ، یعنی سوکھی کھجور۔ اور یہ نہ ہو، تو تر کھجور ۔ حضور اکرم ﷺ نے کھجور کو ایمان دار آدمی کے ساتھ تشبیہ دی ہے ،ا س طرح بچے کے پیٹ میں ایمان کی حلاوت داخل ہوگی ۔ اور کھجور نہ ہوتو شہد۔ اور یہ نہ ہوتو کوئی ایسی چیز جو میٹھی ہو اور آگ کا اثر نہ پہنچا ہو، تالو میں ملے۔
نام رکھنے کا بیان
ساتویں دن نام رکھنا مستحب ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکوں کا نام اس کی پیدائش سے ساتویں دن رکھا کرو۔ (ترمذی)
محمد اور احمد نام رکھنا مستحب ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکوں کا نام میرے نام پر رکھو۔ (بخاری و مسلم)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کا نام محمد ہوگا، آں حضرت ﷺ قیامت کے دن اس کی شفاعت فرماکر جنت میں داخل کریں گے ۔ (حاشیہ رفاہ المسلمین)
اشرف الوسائل شرح الشمائل میں لکھا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا نام قصداً و تاکیداً آں حضرت ﷺ کے ناموں سے رکھے، اس لیے کہ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھ کو اپنی عزت اور جلال کی قسم ، میں اس کو ہرگز آگ میں عذاب نہ دوں گا، جس کا نام تیرے نام کے مثل ہوگا۔ (ابو نعیم)
اور ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک ذات پر عہد کرلیا ہے کہ جس کسی کا نام محمد اور احمد ہوگا، میں اس کو ہرگز دوزخ میں نہ ڈالوں گا۔
اور طبرانی نے جامع کبیر اور عدی نے کامل میں بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : جس شخص کے تین لڑکے ہوں، پھر ان میں سے ایک کابھی نام محمد نہ رکھا، تو بڑی نادانی کی، یعنی اپنی نادانی سے اتنی بڑی نعمت سے محروم رہا۔
اور سنن ابی داؤود میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ لڑکوں کا نام پیغمبروں کے نام پر رکھا کرو یعنی : محمد، احمد، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یوسف، موسیٰ ، عیسیٰ وغیرہ۔
اور مشکوٰۃ میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبد اللہ اور عبد الرحمٰن سب ناموں سے زیادہ محبوب ہے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ سب ناموں میں بہتر وہ نام ہے جو حمد سے مشتق ہو، اور وہ نام جو منسوب بعبدیت ہو، یعنی محمد، احمد، حامد، محمود، عبداللہ ، عبد الرحمٰن ، عبد الکریم، عبد الرحیم، عبد القدوس، عبد السلام وغیرہ۔
اور سنن نسائی اور ابو داؤد میں وھب جُشمی سے منقول ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے لڑکوں کا نام انبیاء علیھم السلام کے نام پر رکھو۔ 
احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ جس لڑکے کا نام انبیاء اور ملائکہ علیھم السلام کے نام پر رکھا ہوتو کسی کو جائز نہیں کہ اس لڑکے پر لعنت کرے ، یا گالی دے یا چھوٹا نام حقارت سے زبان پر لائے ؛ البتہ اگر تنبیہہ کے طور پر کچھ کہنا ہی ضروری ہو تو اس کے سامنے کہے :’’ تو ایسا ہے ویسا ہے ‘‘۔ نام لے کر برا نہ کہے کہ فلاں ایسا ہے ویسا ہے ۔ اور جس لڑکے کا نام محمد ہو، اس کی تعظیم و تکریم کرنا چاہیے ، کیوں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس لڑکے کا نام محمد رکھو، تو اس کی تعظیم کیا کرو۔
پس ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا اچھا نام رکھے ، اس لیے کہ قیامت کے دن انھیں ناموں کے ساتھ پکارے جائیں گے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
تُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأسْمَاءِکُمْ وَ أسْمَاءِ أبَآءِکُمْ، فَأحْسِنُوْا أسْمَاءَکُمْ (أبو داؤد، کتاب الادب، فی تغیر الاسماء)
قیامت کے دن تم اپنے ناموں اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤگے، اس لیے اچھے نام رکھا کرو۔
لیکن ایسا نام ہرگز نہ رکھے، جس سے شان یا تکبر ظاہر ہوتا ہے، جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
أخْنَیٰ الأسْمَاءِ یَوْمَ الْقِیَامِۃِ عِنْدَ اللّٰہِ رَجُلٌ تُسَمَّیٰ مَلِکَ الأمْلاکِ (بخاری، کتاب الادب، باب ابغض الاسماء الیٰ اللّٰہ)
قیامت کے دن بد ترین نام اللہ کے نزدیک اس کا ہوگا، جس کا شہنشاہ نام دھرا جائے۔
اور مسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک تمام آدمیوں میں سب سے زیادہ مغضوب اور خبیث وہ شخص ہوگا، جس نے اپنا نام شہنشاہ رکھا، اس لیے کہ شہنشاہ خدا کے سوا کوئی نہیں۔ (مسلم)
اور ایسے نام بھی نہ رکھے، جس کے معنی برے ہوں۔ اور اگر کسی نے غلطی سے رکھاہو، تو اس کو بدل ڈالے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک لڑکی کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا۔ حضور ﷺ نے اس کا نام جمیلہ رکھا۔ (مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ 
اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ یُغَیِّرُ الْاِسْمَ الْقَبِیْحَ (ترمذی)
نبی اکرم ﷺ برے ناموں کو بدل دیتے تھے۔
اور ایسے نام رکھنا قطعا جائز نہیں ہے، جس سے شرک ظاہر ہوتا ہو، جیسے عبد کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرنا ، جیسے عبد الشمس، عبد اللات، عبد العزیٰ وغیرہ۔ ان کے حرام ہونے میں علماء کا اتفاق ہے۔ (رفاہ المسلمین)
عقیقہ کا بیان
ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے۔ اور اگر اس دن میسر نہ ہوتو چودھویں دن یا اکیسویں دن عقیقہ کرے۔ یا پھر جب میسر ہو، اس دن کرے؛ مگر ساتویں دن کا خیال رکھنا بہتر ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ پیدائش کا دن یا د رکھے۔ اور جس دن پید اہوا ہے، اس سے ایک دن پہلے عقیقہ کرے، ساتویں ہی دن ہوگا، خواہ جب کرے؛ مثلااگر جمعہ کو پیدا ہوا ہے، تو جمعرات کو کرے ۔ اوراگر جمعرات کو پیدا ہوا ہے، تو بدھ کو کرے ۔ اور اگر بدھ کو پید اہوا ہے، تو منگل کو کرے، علیٰ ھذا القیاس اور دن سمجھو۔
(عجالۃ الدقیقۃ فی مسائل العقیقہ)
علما ء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر عقیقہ ساتویں دن یا چودھویں دن یا اکیسویں دن مسیر نہ ہو، تو جب میسر ہو، کرے؛ اگرچہ ستر برس گذر جائیں، اس لیے کہ پیغمبر خدا ﷺ نے اپنا عقیقہ پچاس برس کی عمر میں کیا تھا۔ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا عقیقہ نبوت کے بعد کیا ۔ (فتاویٰ خانیہ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
کلُّ غُلامٍ مُرْتَھِنٌ بِعقیقَتِہِ تُذبحُ عنہُ یومَ سابِعِہِ، و یُحَلَّقُ وَ یُسمَّیٰ (أبو داؤد، نسائی، ابن ماجۃ، ترمذی)
ہر لڑکا اپنے عقیقے کے ساتھ گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں روز ذبح کیا جائے اور سر منڈوا دیا جائے اور نام رکھا جائے۔
مطلب یہ ہے کہ جب تک لڑکے کا عقیقہ نہیں ہولیتا، اس وقت تک والدین لڑکے سے پورا فائدہ نہیں اٹھاسکتے، جس طرح گروی رکھی ہوئی چیز سے مالک فائدہ نہیں اٹھاسکتا ہے، جب تک کہ اس کو چھڑا نہ لے۔
جامع المتفرقات میں لکھا ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ جو کوئی لڑکے کا عقیقہ نہ کرے، تو وہ اس لڑکے کی شفاعت سے محروم رہے گا۔ 
اور بعضوں نے لکھاہے کہ اگر قدرت ہوتے ہوئے عقیقہ نہ کرے، تو شفاعت سے محروم رہے گا، لہذا ہر ذی حیثیت انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے لڑکے کا عقیقہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
مَعَ الْغُلامِ عَقِیْقَۃٌ فَاَھْرِیْقُوْا عَنْہُ دَمَاً وَ اَمِیْطُوا عَنْہُ الاذی۔
لڑکے کی طرف سے عقیقہ ہے،پس اس کی طرف سے خون بہاؤ۔ اور اس سے تکلیف کی چیز دور کرو، یعنی سر منڈواؤ۔(بخاری)
یہاں امر استحباب کے لیے ہے، یعنی مستحب ہے کہ عقیقہ کرے اور سر منڈوائے، اس لیے کہ مؤطا امام مالک میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ 
مَنْ وُلِدَ وَلَدٌ فَاَحَبَّ أنْ یَّنْسَکَ عَنْ وَلَدِہِ، فَلْیَفْعَلْ۔ 
جس کو اولاد ہو اور وہ اپنی اولاد کی طرف سے عقیقہ کرنا پسند کرتا ہو، تو وہ عقیقہ کرے ۔ 
معلوم ہوا کہ عقیقہ کرنا ضروری نہیں ؛ بلکہ ایک پسندیدہ فعل ہے۔
عقیقہ کا جانور
اگر لڑکا ہوتو بہتر ہے کہ دو بکری ذبح کرے اور لڑکی ہوتو ایک۔ نر،مادہ بھیڑ، دنبہ ؛ سب ہی درست ہے۔ ام کُرز رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : 
عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ وَ عَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ وَلایَضُرُّکُم ذَکْرَاناً کُنَّ أوْ ا8نَاثَاً۔ (نسائی)
لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے اور تم کو نقصان نہیں کرتا کہ وہ نر ہو یا مادہ ۔
شاۃ کا اطلاق بکری، بھیڑ، دنبہ ؛ سب ہی پر ہوتا ہے ، جس سے واضح ہوگیا کہ عقیقہ نہ صرف بکری سے ؛ بلکہ بھیڑ، دنبہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ اور ذَکْراناً کُنَّ أو ا8ناثا کی قید سے معلوم ہوا کہ نر ، مادہ کی بھی تخصیص نہیں ہے۔ ہر دو نوع جائز ہے؛ مگر سال بھر کا ہونا چاہیے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ 
أنْ یَّعُقَّ عَنِ الغُلامِ شَاتَانِ مُکَافِیَتَانِ، وَ عَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ۔ (رواہ الترمذی و صححہ)
لڑکے کی طرف سے دو بکریاں پورے سال بھر کی ذبح کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک۔ 
شرح المقدمہ میں لکھا ہے کہ گائے اور اونٹ بھی عقیقہ میں درست ہے اور اس کا ساتواں حصہ ایک بکری کے برابر ہے، بشرطیکہ سب حصہ داروں کی نیت عقیقہ یا قربانی کرنے کی ہو۔
لڑکے کے عقیقہ میں اگر دو بکریاں میسر نہ ہوں، تو ایک بھی درست ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ 
أنَّ النَّبِیَّ ﷺ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشَاً کَبْشَاً۔ (ابو داؤد، و صححہ ابن خزیمہ وابن الجار و عبدالحق)
نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ایک ایک مینڈھے سے کیا ۔ 
عقیقہ کا گوشتمستحب ہے کہ سر حجام کو دے۔ اور ایک پوری ران دائی کو دے، جس نے بچہ جنایا ہے ۔ اور باقی گوشت کے تین حصے کرے، تو ل کر یا اندازہ سے۔ اور پھر ایک حصہ محتاجوں اور مسکینوں کو دے۔ اور دو حصے جو باقی رہیں، ان کو پکا کر رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو کھلائے یا کچا گوشت بانٹ دے ۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ کل گوشت اپنے کام میں لائے ، اس لیے کہ قربانی اور عقیقہ کا ایک حکم ہے۔ 
شرح المقدمہ میں لکھا ہے کہ عقیقہ کا حکم قربانی کی طرح ہے ۔ جو شرطیں قربانی میں ہیں، وہ سب شرطیں عقیقہ میں بھی ہیں۔ اور جیسا کہ قربانی کا گوشت خود کھانا اور دوسروں کو کھلانا اور صدقہ کرنا اور رکھنا درست ہے ، اسی طرح عقیقہ کا بھی درست ہے۔ 
اور فتاویٰ خانیہ میں لکھا ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے چار حصے کرے : ایک حصہ فقیروں کو صدقہ کرے اور تین حصے اپنے رشتے داروں کو کھلائے اور اگر کسی کو نہ کھلائے ؛ بلکہ سب آپ ہی کھائیں، یہ بھی جائز ہے۔ 
اور فتاویٰ رحمانی میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے کسی کو جواب میں فرمایا کہ عقیقہ قربانی کی طرح ہے : خود کھاؤ اور دوسروں کو کھلاؤ۔ 
جب عقیقہ قربانی کی طرح ٹھہرا، تو عقیقہ کا گوشت لڑکے کے ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی؛ سب کو کھانا درست ہوا۔ اگرچہ مشہور اس کے خلاف ہے؛ مگر جس مشہور کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو، تو اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ (رفاہ المسلمین)
اور مستحب ہے کہ عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں۔ اور اگر ٹوٹ جائے تو کوئی قباحت نہیں، اس لیے کہ قربانی کی ہڈیاں توڑنا درست ہے ۔ اور ان ہڈیوں کو کپڑے میں لپیٹ کر ایسی جگہ دفن کردینا ، جہاں لوگوں کا گذر نہ ہو، بہتر ہے۔ نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں؛ لیکن اس کے پایوں کا دفن کرنا درست نہیں، کیوں کہ یہ مال ہے اور مال کا ضائع کرنا درست نہیں۔
چرم عقیقہ
چمڑے کو اپنے کام میں لانا درست ہے اور چمڑہ بیچ کر اس کی قیمت کا صدقہ کرنا مستحب ہے۔ اگر کوئی اپنے مصرف میں لائے، وہ بھی جائز ہے ۔ چنانچہ تھانوی صاحبؒ فرماتے ہیں :
’’ چوں کہ شرائط واجبہ فی الاضحیۃ عقیقہ میں مستحب ہیں، اس لیے تصدق بالقیمۃ بھی مستحب ہوگا۔ اور انتفاع بالجلد کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔
(امداد الفتاویٰ جلد دوم)

ذبح کرنالڑکے کا باپ اگر خود ذبح کرنا جانتا ہو، تو بہتر یہ ہے کہ وہ خود ذبح کرے ، ورنہ اس کا چچا یا اس کا نائب ذبح کرے ۔ اور اگر یہ نہ ہو تو جو چاہے ذبح کرے۔
سرمنڈوانا
ذبح کے بعد یا ذبح سے قبل لڑکے کا سرمنڈوائے ۔ چھری اور استرا کا ایک ساتھ چلنا ضروری نہیں ،ہر طرح جائز ہے۔ اور اس کے بال کو سونا یا چاندی سے وزن کرکے صدقہ کرے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسنؓ کا ایک بکری سے عقیقہ کیا اور فرمایا : ائے فاطمہ! اس کا سر مونڈ، اور اس کے بال کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کر، پس اس کا وزن ایک درہم یا بعض درہم نکلا۔ (ترمذی)یعنی ایک درہم سے کچھ کم۔
اور لڑکے کے سر پر زعفران یا صندل یا کوئی اور خوشبو دار چیز ملے۔ عقیقہ کے جانور کا خون سر پر ملنا درست نہیں۔ یہ جہالت کی رسم تھی، جس کو شریعت محمدی نے اٹھا دی۔ چنانچہ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایام جاہلیت میں ہم لوگوں میں سے جب کسی کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا تو ایک بکری ذبح کرتے اور اس کا خون لڑکے کے سر میں لگاتے ۔ پھر جب اسلام آیا، تو ہم ساتویں دن بکری ذبح کرتے ہیں اور اس کا سر منڈتے ہیں۔ اور اس کے سر میں زعفران لگاتے ہیں۔ (ابو داود)
اور( رزین میں) اتنا اور زیادہ ہے کہ اور اسی دن اس کا نام رکھتے ہیں۔
عقیقہ کی دعا
یہ دعا پڑھنا مستحب ہے ۔ اگر یاد نہ ہوتو صرف: 
بِسْمِ اللّٰہِ وَ الْلّٰہُ أکْبَرُ 
کہہ کر ذبح کرے ، عقیقہ ہوجائے گا۔ دعا یہ ہے :
ألْلّٰھُمَّ ھٰذِہَ عَقِیْقَۃُ ابْنِ فُلانٍ، دَمُھَا بِدَمِہِ، وَ لَحْمُھَا بِلَحْمِہِ وَ عَظْمُھَا بِعَظْمِہ، وَ جِلْدُھا بِجِلْدِہِ، وَ شَعْرُھَا بِشَعْرِہِ۔ ألْلّٰھُمَّ تَقَبَّلْھَا مِنِّی وَ اجْعَلْھَا فِدآءً لِاِبْنِیْ مِنَ النَّارِ۔ 
اور عجالہ الدقیقہ فی مسائل العقیقہ میں لکھا ہے کہ اس دعا کے بعد یہ بھی پڑھے:
إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفَاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکینَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِی وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَٰلکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمینَ أللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ لَکَ۔ 
پھر بِسْمِ الْلّٰہِ وَ الْلّٰہُ أکْبَرُ کہہ کر ذبح کرے۔
اگر باپ ذبح کرے، تو یہ دعا بعینہ پڑھے ۔ صرف فلاں کی جگہ پر بیٹے کا نام لے ۔ اور اگر کوئی دوسرا ذبح کرے تو ابن فلان کی جگہ پر لڑکے اور لڑکے کے باپ کا نام لے ۔ مثلا اگر لڑکے کا نام عبد اللہ ہے اور باپ کا نام عبد الرحمان ہو تو یوں کہے :
ألْلّٰھُمَّ ھٰذِہَ عَقِیْقَۃُ عَبْدِ الْلّٰہِ بْنِ عَبدِ الرَّحْمٰن 
اور منی کی جگہ پر منہ اور لابنی کی جگہ پر لابنہ کہے۔ اور اگر لڑکی کا عقیقہ ہو اور اس کا باپ ذبح کرے تو یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ ھٰذِہَ عَقِیْقَۃُ بِنْتِیْ فُلانَۃٍ، دَمُھَا بِدَمِہا، وَ لَحْمُھَا بِلَحْمِہَا وَ عَظْمُھَا بِعَظْمِہَا، وَ جِلْدُھَا بِجِلْدِہَا، وَ شَعْرُھَا بِشَعْرِھا۔ أللّٰھُمَّ تَقَبَّلْھَا مِنِّی وَ اجْعَلْھَا فِدآءً لِبِنْتی مِنَ النَّارِ۔ 
اور فلانۃ کی جگہ پر لڑکی کا نام لے۔اور اگر کوئی دوسرا آدمی ذبح کرے، تو بنتی کی جگہ پر بنت کے ساتھ باپ کا نام لے۔ اور فلانۃ کی جگہ پر لڑکی کا نام لے اور منی کی جگہ پر من کے بعد لڑکی کے باپ کا نام لے اور لبنتی کی جگہ پر لبنت فلاں یعنی باپ کا نام لے۔
ذبح کرتے وقت دعا نہ پڑھے؛ بلکہ پہلے پڑھے، ورنہ ذبیحہ مکروہ ہوگا۔ ذبح کے وقت صرف بِسْمِ الْلّٰہِ وَ الْلّٰہُ أکْبَرُ کہے۔
عقیقہ میں جانور کے ذبح کی مناسبت سے یہاں قربانی کے مسائل بھی لکھے جارہے ہیں۔
قسط نمبر (3) کے لیے کلک کریں