مولانا محمد منیر الدین جہازیؒ
(4مئی 1919-جون1976)
محمد یاسین جہازی، خادم جمعیت علمائے ہند
لاشعوری ذہن و دماغ میں سب سے پہلے جس بزرگ ہستی کے قدسی
اوصاف کے ترانے گونجے اور گونجتے رہے، ان کا اسم گرامی مولانا محمد منیر الدین نور
اللہ مرقدہ تھا۔ گاوں کے عمر رسید افراد کو اپنی پرائیویٹ گفتگو اور محفلوں کے مکالموں
میں بارہا مولانا کے اقوال و کردار کو کوڈ کرتے سنا اور دیکھا۔ ان تمام مناظر نے لاشعوری
احساس میں یہ تجسس پیدا کردیا کہ بالیقین مولانا کوئی بڑی شخصیت گذری ہے، جن کے کارنامے
لوگوں کے دل و دماغ پر تا ہنوز نقش ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے دور طالب علم میں طلبہ گڈا کی انجمن
”آئینہ اسلاف“ سے وابستگی کے بعد علاقے کے مشاہیر پر لکھی کتاب”یاد وطن“ پڑھنے کا اتفاق
ہوا۔ یہ دوسرا موقع تھا، جب مولانا موصوف کے بارے میں قدرے تفصیلی جان کاری ملی؛ تاہم
لاشعوری ذہن پر عقیدت و محبت کا جتنا گہرا رنگ چڑھا ہوا تھا، معلومات کی یہ مقدار تشفی
کے لیے کافی نہ تھی؛ البتہ اس مطالعہ نے ذوق جستجو کو مزید مہمیز کردیا۔ کبھی ان کے
معاصرین سے ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا تو کبھی شاگردان رشید سے استفسار۔ اور
یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا۔ ان معلومات سے عقیدت کو تو تسکین مل جاتی تھی؛ لیکن ایک تحقیق
کے متلاشی ذہن کو جن جانکاریوں کی طلب تھی، وہ طلب تاہنوز تشنہ بلب رہی۔
میرے والد محترم (جناب محمد مظفر صاحب حفظہ اللہ) کتابوں
سے بڑی محبت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دو رقہر بار سیلابوں کے باوجود کچھ کتابوں کو
محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ وطن معیشت دہلی سے گھر پہنچا
تو گٹھریوں میں لپٹی کتابوں کو دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ جب انھیں کھولا تو کئی نایاب
رجسٹر اور مسودے ملے۔ ان میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کا پہلا رجسٹر، مولانا
محمد اسلام ساجد کی تحریریں، کتابیں اور مہر وغیرہ ملیں۔ ان نایاب قیمتی ورثے نے، مولانا
مرحوم سے لاشعوری عقیدت کو پھر سے جگادیا اور ساتھ ہی ذہن و دماغ کو اس بات پر آمادہ
کیا کہ مولانا کے کارناموں اور ان کی تاریخ سے نئی نسلوں کو آگاہ کیا جائے۔ چنانچہ
اسی وقت سے مولانا مرحوم کے متعلق معلومات کو اکٹھا کرنے اور انھیں تحریری شکل دینے
کا سلسلہ شروع کردیا اور احباب کو بھی متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ ذیل کی سطروں میں انھیں
کوششوں کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ بالیقین خلاف واقعہ ہوگا کہ یہ تحقیق حرف
آخر ہے، تاہم اسے نقش اولین کہنا بھی مبالغہ نہیں ہوگا۔
ولادت اور ابتدائی تعلیم و تربیت
ضلع گڈا سے شمال مگرب می ں تقریبا بیس کلو میٹر کے فاصلہ
پر واقع گاوں جہازقطعہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ تاریخ ولادت کے حوالے سے مولانا مرحوم
کے اہل خانہ سے استفار کے باوجود کوئی جان کاری نہیں مل سکی؛ البتہ دارالعلوم دیوبند
کے داخلہ فارم میں مولانا نے خود جو تاریخ پیدائش لکھی ہے، وہ 4مئی 1919ہے۔ آپ ایک
ایسے دور میں پیدا ہوئے، جب پورا بھارت انگریزوں کی غلامی اور اسلام دشمنی سے جوجھ
رہا تھا۔ یہاں کی بیشتر آبادی آدی واسیوں کی وجہ سے تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے حد
درجہ بجھڑا ہوا تھا۔ اور آج سو سال ہونے کے باوجود حالات میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی
ہے۔ یہاں کے تعلیمی حالات کے بارے میں ماسٹر محمد شمس الضحیٰ صاحب لکھتے ہیں کہ:
”سنتھال پرگنہ قبائلی آبادی والا ضلع سمجھا جاتا
ہے، گرچہ غیر قبائلیوں کی بڑی آبادی بھی موجود ہے۔ یہ تصور اس علاقے کو جہالت و ضلالت
کی تاریکی میں رکھنے کے لیے کافی تھا۔ چنانچہ آج بھی اس علاقہ میں اس تصور کی حکمرانی
ہے اور جہالت و ناخواندگی اور پسماندگی اس کی شناخت بن چکی ہے۔ آزادی سے قبل سرکاری
اسکول تو بالکل ندارد تھے، مدارس کا وجود بھی آٹے میں نمک کے برابر تھا۔ انتہائی قدیم
مدارس میں مدرسہ شمسیہ گورگاواں (سن قیام1901) اور مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ (سن قیام:1929ء)
تھا۔ اول الذکر ضلع سے تقریبا پچاس کلو میٹر اور آخر الذکر بھی تقریبا اتنے ہی فاصلے
پر دوسری سمت واقع ہے۔ اور ظاہر ہے کہ دو ادارے پورے ضلع کی تعلیمی کفالت کرنے سے قاصر
تھے۔ اس لیے یہاں کے باشندگان دینی اور دنیوی دونوں تعلیم سے نابلد تھے۔“ (تاریخ جمعیت
علمائے سنتھال پرگنہ، ص/8)
ظاہر سی بات ہے جب تعلیمی ادارے ہی نہیں تھے، تو سماجی ماحول
میں بچوں کو تعلیم دینے، دلانے کا کیا رجحان رہا ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مولانا کی
نہ تو رسمی طور پر بسم اللہ کرائی گئی اور نہ ہی ان کے بچپن نے کسی مکتب کا چہرہ دیکھا۔
البتہ گھر اور سماج کے اقتصادی حالات کے پیش نظر بچپن کا ایک بڑا حصہ بھینس کی نگہبانی
میں گذر گیا۔
بھینس کی نگہبانی سے تعلیم کی طرف
مولانا کے مشاہدین کا بیان ہے کہ حسب معمول آپ بھینس چرانے
گئے تھے، اسی دوران اچانک آپ کے ذہن و دماغ میں تعلیم حاصل کرنے کا خیال پیدا ہوا۔
پھر کیا تھا، خیال کو ارادے میں تبدیل کیا اور اپنے ساتھی کو لاٹھی تمھاتے ہوئے کہا
کہ بھائی! میں چلتا ہوں، میری بھینس کی نگرانی کرنا۔ یہ کہہ کر نکلے اور گاوں سے غائب
ہوگئے۔ شام میں پورے گاوں میں چرچہ ہونے لگا کہ منیر کہیں غائب ہوگیا ہے۔گھر والوں
کے ساتھ گاوں والوں نے بھی تلاش شروع کی۔ لیکن پتہ نہیں چلا۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا
کہ آپ گاوں سے تقریبا بیس کلو میٹر دور ضلع بھاگلپور میں واقع مدرسہ اسلامیہ سنہولہ
ہاٹ پہنچ گئے ہیں۔ اہل خانہ نے تعلیم کی طرف اچانک رجحان دیکھ کر پڑھنے کی اجازت دے
دی اور آپ نے یہاں سے اپنی تعلیم کی شروعات کی۔
مدرسہ سلیمانیہ میں آپ نے کب تک اور کیا کیا تعلیم حاصل
کی؛ یہ جان کاری حاصل کرنے کے لیے اس مدرسہ کے ایک ذمہ دار شخص مفتی محمد اسامہ صاحب
سے رابطہ کیا، تو انھوں نے چند روز کے بعد بتلایا کہ مدرسہ میں سابقہ دستاویزات کی
حفاظت کا کائی اہتمام نہیں کیا گیا ہے، جس کے باعث اس دور کی کوئی بھی معلومات دستیاب
نہیں ہے۔
مدرسہ اعزاز العلوم ویٹ میں
دارالعلوم دیوبند میں درج ریکارڈ میں صراحت ہے کہ آپ نے
دیوبند آنے سے پہلے مدرسہ اعزاز العلوم ویٹ ہاپوڑ یوپی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس مدرسہ
کے موجودہ مہتمم قاری شوکت علی صاحب سے راقم نے رابطہ کیا، تو انھوں نے بتایا کہ ہم
نے ان کا تذکرہ تو بہت سنا ہے۔ ہمارے یہاں کے پرانے اساتذہ ان کی ذہانت اور شیر دلی
کے کئی قصے سنایا کرتے تھے۔ داخلہ، تعلیم اور تعلیمی مدت کے حوالے سے استفسار کرنے
پر مہتمم صاحب نے بتایا کہ جس کمرے میں ریکارڈ محفوظ تھے، وہ بارش کی زد میں آنے کی
وجہ سے ضائع ہوچکے ہیں، اس لیے ان حوالوں سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی جاسکتی؛ لیکن
یہ یقینی ہے کہ وہ یہاں کے طالب علم رہے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ”تاریخ اعزاز
العلوم ویٹ“ میں جہاں فیض یافتگان کی فہرست ہے، وہاں مولانا محمد منیر الدین ؒ کا نام
درج نہیں ہے۔دارالعلوم دیوبند کے ریکارڈ سے سابقہ تاریخ کی تعین کی جائے، تو آپ نے
یہاں 1938تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند چلے
گئے۔
دارالعلوم دیوبند میں
آزادی سے پہلے مدارس اسلامیہ کی نظامیہ تعلیم درجہ بندی
کے اعتبار سے نہیں ہوتی تھی اور طلبہ دارالعلوم دیوبند کا رخ بالعموم شرح جامی (درجہ
سوم یا چہارم) کے لیے کیا کرتے تھے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ آپ نے ویٹ میں درجہ دوم کی
تعلیم مکمل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور 7شوال المکرم 1357، مطابق
30نومبر 1938کو درجہ عربی سوم میں داخلہ لیا۔ اور شعبان 1362ھ، مطابق اگست 1943تک اس
بحر علم سے فیضیاب ہوتے رہے۔ دورہ حدیث سے سند فراغت حاصل کی۔ بخاری شریف مولانا فخر
الدین صاحبؒ، ترمذی شریف مولانا اعزاز علی صاحبؒ، ابو داود شریف مولانا محمد ادریس
صاحبؒ، نسائی اور شمائل ترمذی مولانا عبد الشکور صاحبؒ، ابن ماجہ مولانا عبد الحق قدیم
صاحبؒ، طحاوی شریف،مولانا عبد الحق جدیدصاحبؒ اور مسلم شریف مولانا بشیر احمد صاحبؒ
سے پڑھی۔ دارالعلوم دیوبند کی چھ سالہ زندگی کا بیشتر حصہ شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز
علی صاحب نور اللہ مرقدہ کے زیر تربیت گذری۔
تدریس سے وابستگی
دارالعلوم دیوبند میں شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی
نور اللہ رمقدہ کے زیر تربیت رہے۔ اس لیے فراغت کے بعد انھیں کے حکم پر یوپی کے ضلع
میرٹھ میں جامع جامعہ اسلامیہ گلزار حسینیہ اجراڑہ میرٹھ یوپی پہنچے اور بحیثت صدر
مدرس آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ آپ نے یہاں دو سال تک تعلیمی خدمات انجام دیں اور درجہ
سوم تک کی کتابیں آپ سے متعلق رہیں۔
کاروان مغیثی جلد اول م ص/48پر جامعہ کے صدور المدرسین کی
ایک فہرست دی گئی ہے، اس کے ترتیبی سلسلے میں نمبر 6پر آپ کا اسم گرامی موجود ہے اور
ساتھ ہی تاریخ درج ہے کہ از 1340ھ، تا 1342۔ اس سے بھی اور معاصرین کی شہادت سے بھی
یہی پتہ چلتا ہے کہ آپ نے یہاں دو سال خدمات انجام دیں، البتہ کاروان مغیثی میں درج
تاریخ صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ اس تاریخ کو جب عیسوی میں بدلتے ہیں، تو یہ 1921بنتی ہے
اور دارالعلوم دیوبند کے ریکارڈ کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش4/ مئی 1919اور سن فراغت
اگست1943 ہے۔ اس لحاظ سے 1921میں آپ کی عمر محض تین سال اور فراغت سے بائیس سال قبل
کا زمانہ ہوجاتا ہے؛ اور یہ ناممکن ہے کہ تین سال کا بچہ دارالعلوم دیوبند میں چھ سال
تعلیم بھی حاصل کرلے اور اس کے بعد دو سال تک ایک ادارہ کا صدر مدرس بھی رہے۔
کاروان مغیثی کے مرتب مولانا منقاد احمد قاسمی صاحب سے اس
حوالے سے راقم نے بات کی، تو انھوں نے کہا کہ یہ تاریخیں غلط ہوسکتی ہیں؛ کیوں کہ یہ
جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، اس میں بنیادی مآخذ محض اندازے اور قیاس ہیں۔
اجراڑہ سے استعفیٰ
بتایا جاتا ہے کہ مولانا کو کسی خانگی ضرورت کی بنیاد پر
اچانک گھر آنا پڑا۔ عجلت میں جامعہ کے خزانے کی ذمہ داری ایک شخص کے حوالے کردیا۔ واپسی
پر جب اس شخص سے حساب طلب کیا گیا، تو اس میں کافی خرد و برد نظر آیا۔ مولانا نے مواخذہ
کرنے کی کوشش کی، تو الٹا مولانا ہی پر خرد و برد کا الزام لگادیا، جس سے آپ بہت دل
برداشتہ ہوئے اور آپ نے محض الزام سے بری الذمہ ہونے کے لیے گھر واپس آکر اپنی جائیدادیں
اور اہلیہ کے زیورات فروخت کیے اور جناب مصطفی صاحب سیری چک اور مولانا خلیل الرحمان
صاحب سیری چک کو ساتھ لے کر جامعہ اجراڑہ پہنچے اور سارا حساب بے باق کراکر استعفیٰ
پیش کردیا۔ اور اپنے مشفق مربی حضرت مولانا اعزاز علی صاحب کی خدمت میں دیوبند رہنے
لگے۔
مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ کی تاسیس
مولانا محمد منیر الدینؒ کی صالحیت اور صلاحیت کے پیش نظر
شیخ الادب مولانا اعزازؒ اس کوشش میں تھے کہ آپ کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں ہوجائے۔
اور یہ کوشش اتنی بار آور ہوچکی تھی کہ کچھ دن اور دیوبند رک جاتے، تو تقرری ہوجاتی؛
لیکن اس سے قبل جہاز قطعہ والوں نے مولانا کی خدمت میں ایک خط بھیجا، جس میں یہ گذارش
کی کہ علاقہ میں دینی کام کے لیے آہ کی سخت ضرورت ہے، آپ گاوں تشریف لے آئیں۔ اس حوالے
سے مولانا نے اپنے مربی محترم سے مشورہ کیا اور حسب الحکم آپ نے جہاز قطعہ آنے کا فیصلہ
کیا۔ مولانا محمد اسلام ساجد لکھتے ہیں کہ:
”کیوں نہ مولانا منیر الدین صاحب مدظلہ کو دیوبند
سے بلوالیا جائے اور جہاز قطعہ میں مدرسہ کھول دیا جائے۔ چنانچہ اہل دل اور صاحب حیثیت
لوگوں نے آپس میں گفتگوئیں کیں اور مولانا کے پاس دیوبند خط لکھا۔ حضرت مولانا محمد
منیر الدین صاحب اس وقت اپنے مربی اعظم اور استاذ شفیق حضرت مولانا اعزاز علی صاحب
امروہی کے پاس مقیم تھے۔ اور خود شیخ الادب ہی کی کفالت میں تھے۔ قریب تھا کہ آپ دارالعلوم
کے کسی شعبہ میں فائز ہوتے کہ آپ کو اہل جہاز قطعہ کی طرف سے دعوتی خط موصول ہوا۔ آپ
وہاں سے حضرت شیخ الادب کی اجازت سے تشریف لائے۔ اہل دل لوگوں نے اپنی پیشکش کی۔ دیگر
اکابرین کو خصوصی دعوت دی گئی۔اور اس دعوت کے ساتھ مدرسہ کی تاسیس خود روداد1369 ھ
(مطابق 21/ دسمبر1949ء بروز بدھ) مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ کی زبان سے سنیے!
”یکم ربیع الاول (1369ھ مطابق22/ دسمبر1949ء بروز
جمعرات)کو مدرسہ کی بنیاد قائم کرنے کے لیے علاقہ کے سربرآوردہ لوگوں کو دعوت دی گئی۔
داعی کی آواز پر عمائدین علاقہ نے گرم جوشی کے ساتھ شرکت فرمائی۔ حضرت مولانا انور
علی صاحب نیموہاوی کی صدارت میں مغرب کے بعد جلسہ ہوا۔ دینی تعلیم کی ضرورت پر روشنی
ڈالی گئی۔ سبھوں نے اس ضرورت کو سراہا۔ اور مدرسہ کے قائم کرنے پر زور دیا۔ عشا کے
بعد عمائدین کا مولانا موصوف کی صدارت میں دوسرا اجلاس ہوا۔ حضرت مولانا محمد اعزاز
علی صاحب مدظلہ العالی شیخ الادب دارالعلوم دیوبند کی سرپرستی، مولانا محمد انور علی
صاحب نیموہاوی کی صدارت اور شیخ الفت حسین صاحب پردھان کی نظامت میں مدرسہ اسلامیہ
جہاز قطعہ کے نام سے دوسری ہی تاریخ سے تجویز پاس ہوئی اور محمد منیر الدین مدرس بحال
ہوئے۔ دوسری تاریخ سے مدرسہ کا کام باقاعدہ جاری ہوا (روداد مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ
1369ھ، مطابق1949)“۔
مدرسہ کی پہلی میٹنگ کی روداد بتاتی ہے کہ مورخہ یکم ربیع
الاول1369ھ (مطابق 22 / دسمبر 1949) بروز جمعرات مولانا انور صاحب کی صدارت میں بمقام
جہاز قطعہ ایک میٹنگ ہوئی۔ اور اس میٹنگ میں ذمہ داران کا انتخاب عمل میں آیا۔ (1)مولانا
محمد انور صاحب نیموہاں صدر، (2) مولانا محمد سلیمان صاحب کیتھپورا نائب صدر، (3)جناب
محمد الفت حسین صاحب ناظم،(4) مولانا انوارالحق صاحب جہاز قطعہ، (5)جناب محمد امیر
الدین صاحب ریسمانائب ناظم، (6)جناب عبداللطیف صاحب کپیٹا خازن،(7) مولانا محمد منیر
الدین صاحب ممبر (8) محمد وارث علی صاحب پڑوا ممبر،(9) پیر محمد صاحب پڑوا ممبر،(10)
محمد شریف الدین صاحب دھپرا ممبر، (11)صابر علی صاحب پھنسیا ممبر،(12) شمس الدین صاحب
کمرھا کول ممبر،(13) عبدالرحمان صاحب بسمبر
چک ممبر کل تیرہ افراد پر مشتمل ایک ورکنگ باڈی بنائی گئی۔ اسی میٹنگ میں درج ذیل چار
تجاویز پاس ہوئیں:
(1)مدرسہ کا نام باتفاق رائے ”مدرسہ اسلامیہ“
رکھا گیا۔
(2)کمیٹی نے باتفاق رائے طے کیا کہ مولانا محمد
منیر الدین صاحب مدرسہ بحیثیت مدرس تعلیم کا کام انجام دیں گے، جن کی تنخواہ فی الوقت
مبلغ تیس روپیے ماہوار مقرر ہوئی۔ یکم ربیع الاول کو مولانا کی بحالی سمجھی گئی۔
اس روداد کی شہادت کے مطابق کمیٹی نے مدرسہ کی بنیاد ڈالی
اور مولانا محمد منیر الدین ؒ کو مدرس اول مقرر کیا؛ لیکن اہل گاوں کی متواتر شہادت
یہی ہے کہ کمیٹی نے مدرسہ بناکر چھوڑ دیا؛ البتہ مولانا محمد منیر الدین نور اللہ رمرقدہ
نے ہی اپنیخون جگر سے اسے سینچا اور پروان چڑھایا۔ مولانا کے معاصر مولانا ثمیر الدین
قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ:
”مکمل آٹھ سال کی غربت ومسافرت کے بعد گھر تشریف
لائے تو علاقائی ابتری کو دیکھ کردل ابلنے لگا، لوگوں کو دیکھا کہ وہ علم سے کورے اور
تہذیب اسلامی سے نابلد ہیں، ان کی اصلاح اور راہ راست پرلانے کے لیے کسی مرد کامل سے
بھی میدان خالی ہے، اس لیے آپ نور علم کی ضیا پاشیوں کے لیے کمر بستہ ہو گئے اور مدرسہ
رحمانیہ جہازقطعہ کی بنیاد ڈالی، خودہی منتظم
اور خودہی مدرس تھے۔
خود کو زہ خود کو زہ گر و خود گل کوزہ
آپ کے درسی لگاؤ اور انہماک کی اتنی شہرت ہوئی کہ مدرسہ
منارہ نوربن گیا،جس سے سینکڑوں پروانوں نے روشنی حاصل کی۔“ (یاد وطن، ص/ 29)
یہی وجہ ہے کہ گاوں کے سبھی حضرات مولانا ہی کو مدرسہ کے
مدرس اول کے ساتھ ساتھ بانی بھی سمجھتے ہیں۔
مدرسہ اسلامیہ، مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کیسے بنا؟
روز اول سے مدرسہ ترقی کی راہ پر گامزن تھا، اور محض چار
سال کے اندر مدرسہ نے تعلیمی وتعمیری ترقی میں نام کمالیا۔ مولانا محمد اسلام ساجد
صاحب نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں کہ
”مدرسہ کی تعلیمی کام شروع ہوا۔ دوسرے لوگوں نے
اقتصادی ضروریات کے لیے حتیٰ الامکان کوششیں کیں اور پوری کوشش کی۔ طلبا بھی مدرسہ
کے اندر رہنے لگے۔ باہر سے طلبہ آئے اور مطبخ کی ضرورت پڑگئی۔ اب تک طلبا کی تعلیم
زیر آسمان ہورہی تھی، با خانہئ خدا میں، لیکن ارباب ہمت اور اراکین نے صرف چار ماہ
میں دو کمرہ اور ایک درس گاہ کی دیوار پختہ تیار کرادیا، اس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی
ہے کہ اینٹ تیار کراکے پکانا، پھر دیوار کھڑا کرنا کتنا وقت لیتا ہے اور اہل دل لوگوں
نے صرف چار ماہ میں تیار کرادیا اور چھت کے لیے تیسری کمیٹی میں رائے پاس ہوگئی۔
فی الجملہ مدرسہ ترقی کے عروج پر تھا۔ خدا کی مرضی اور لوگوں
کی کوششیں ”دن دگنی رات چوگنی“ کے مصداق ہورہی تھیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں مدرسہ میں وہ
ترقی ہوئی کہ دور دور تک اس کی شہرت ہوگئی۔“
مدرسہ ترقی کی راہ پر گامزن تھا کہ ایک چھوٹے سے اختلاف
کی وجہ سے مدرسہ کو نظر بد لگ گئی۔ وہ اختلاف محض اس بات کا تھا کہ مہیش پور کے سراج
الدین صاحب کے یہاں سے مولانا محمد انور صاحب نیموہاں ؒ چندہ کی کچھ رقم لے کر آئے،
جسے انھوں نے رجسٹر میں اندراج نہیں کرایا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انھوں نے کچھ
کا اندراج کرایا تھا اور کچھ باقی تھا۔ اسی
معاملہ کو لے کر ایک میٹنگ ہوئی، جس میں حساب و کتاب پر بحث و تمحیص کے دوران لڑائی
ہوگئی۔ اور لڑائی اتنی بڑھ گئی کہ قلم کی لڑائی ہاتھا پائی میں تبدیل ہوگئی۔ لڑائی
کے ماحول میں ایک شخص نے مولانا نور اللہ مرقدہ کا کرتا پھاڑ دیا۔ اس بد تمیزی سے مولانا
کو بہت زیادہ صدمہ پہنچا۔ جس کے باعث 3اکتوبر 1954کو منعقد ایک میٹنگ میں استعفیٰ پیش
کر کے مدرسہ کے نظام سے علاحدگی اختیار کرلی۔
اس جھگڑے
سے مولانا کی عالی مرتبت شخصیت کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا، کیوں کہ دوست و دشمن سبھی
آپ کی دیانت اور نیک طینت سے بھالی بھانتی واقف تھے، البتہ قوم و ملت کا نقصان یہ ہوا
کہ مولانا مرحوم کے مدرسہ سے علاحدہ ہوتے ہی مدرسہ زوال پذیر ہوگیا اور مدرسہ کی شہرت
و عظمت پر ٹھپہ لگ گیا۔ حاسدین نے مدرسہ پر قبضہ کرلیا؛ لیکن خوش قسمتی کی بات یہ رہی
کہ گاؤں کی اکثریت مولانا مرحوم کے ساتھ تھی، اس لیے علیٰ الفور جہازیوں نے مولانا
سے اصرار کیا کہ آپ دوسرا مدرسہ قائم کریں۔ اول وہلہ میں مولانا اس کے لیے تیار نہ
تھے، لیکن مدرسہ کی زوال پذیری اور اس کے تئیں لوگوں کی نفرت کی وجہ سے تیار ہوگئے
اور اپنے بھائی جناب عبدالرحمٰن صاحب کے دروازے پر مدرسہ کی شروعات کی۔ اورقدیم مدرسہ
کی بدنامی سے بچنے کے لیے اسلامیہ کے ساتھ رحمانیہ کا لاحقہ لگا دیا، جو جناب عبدالرحمٰن
صاحب کی قربانی کی طرف اشارہ تھا۔
ایک ہی گاوں میں دو دو مدرسے کو ارباب دانش نے غیر مناسب
سمجھا اور دونوں میں مفاہمت پیدا کرنے کے لیے 26 دسمبر 1954کو اتوار کے روز ایک خصوصی
میٹنگ رکھی گئی۔، جس کی صدارت مولانا شمس الحق صاحب لوچنی نے کی۔ اس میں تیرہ افراد
پر مشتمل ایک مفاہمت کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی کی کوششوں سے فروری 1969میں دونوں مدرسے
کو ضم کردیا گیا اور مولانا محمد منیر الدین نور اللہ رمرقدہ کو دوبارہ ذمہ داری سونپی
گئی۔ مصالحت کی خوشی میں پورے گاوں والوں نے مل کر ایک بڑا جلسہ کیا، جس میں اپنے وقت
کے بڑے بڑے حضرات تشریف لائے، جس میں مولانا ابوالوفا شاہ جہاں پوریؒ، مولانا محمد
سالم صاحب دامتؒ مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند، فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی
نور اللہ مرقدہ اور مشہور شاعر جناب ساجد لکھنوی نے شرکت کی اور جہازی ان کے دیدار
سے بہرہ مند ہوئے۔
اس جلسے کے بعد مدرسہ مزید ترقی کے منازل طے کرتا رہا، حتیٰ
کہ مولانا مرحوم کی وفات تک مشکوٰۃ تک تعلیم ہونے لگی اور پورے علاقے کے لیے ایک عظیم
علمی آماجگاہ بن گیا۔ مولانا کی وفات کے بعد یہ مدرسہ عروج و زوال کی مختلف کہانیوں
کے ساتھ تا دم تحریر دینی تعلیمات کی خدمات میں مصروف ہے۔
تصانیف
مولانا کی ذات علمی شخصیت کا مظہر جمیل تھی۔ مطالعہ کا شوق
ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ تدریس کی فراغت کے بعد بالعموم اپنا سارا وقت کتب بینی
میں گذارا کرتے تھے۔ اس لیے ان کے قلم گہر بار سے کئی تصانیف معرض وجود میں آئیں۔ اب
تک جو کتابیں دستیاب ہوئی ہیں، ان کا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔
۱۔رہ
نمائے مسلم
اس کتاب میں
پیدائش سے لے کر موت تک اسلامی زندگی گذارنے کے لیے جن ہدایات اور طریق کار کی ضرورت
ہے، ان کا جامع خلاصہ پیش کیا گیاہے۔ اور ہر موقع کے لیے رسالت مآب ﷺ سے جن دعاوں کا
ثبوت ہے، ان کو بھی لکھ دیا گیا ہے۔ کتاب بہت مختصر ہے، لیکن اپنے موضوع پر بہت ہی
جامع کتاب ہے اور سیکڑوں کتابوں کا خلاصہ و نچوڑ اس میں آگیا ہے۔ مسائل کے حوالے سے
بنیادی معلومات کے لیے یہ ایک کتاب درجنوں کتابوں کی ورق گردانی سے بے نیاز کردیتی
ہے۔
۲۔مسائل
حج
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کتاب میں مسائل حج کو بیان کیا
گیا ہے اور حج کے حوالے سے کافی رہ نمائی موجود ہے۔ دستیاب مسودے سے پتہ چلتا ہے کہ
یہ کتاب پائے تکمیل تک نہیں پہنچ پائی تھی۔ کتاب میں سعی تک بیان ہے۔
۳۔ نمازاور پاکی کے مسائل
اس کتاب میں پاکی اورنمازوں کے مسائل و فضائل پر سیر حاصل
بحث کی گئی ہے اور ہر موضوع کو تفصیل سے بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، لیکن وائے
ناکامی کہ یہ کتاب چوہوں کی نذر ہوگئی۔ کئی جلدوں پر مشتمل اس کتاب کاکچھ ہی حصہ قابل
استفادہ بچا، جس کی اشاعت کی کوشش جاری ہے۔
ایک دیہات میں جہاں وسائل تحقیق بالکل ناپید تھے، تصنیف
و تالیف کا کام کرنے کو کرامت سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ہر کتاب حوالہ سے مزین ہے
اور جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، وہ محقق و مدلل ہے۔ یہ مولانا مرحوم کی علمی جلالت اور
صلاحیت کی روشن علامات ہیں۔
تصانیف کی تعداد
ناچیز کی تحقیق کے مطابق مولانا کی درج بالا یہی تین مسودے
ملے۔ مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب کی تحریر سے ایک اور کتاب کا اشارہ ملتا ہے۔ مولانا
لکھتے ہیں کہ
”آپ کے دور نارسا میں علاقے میں تصنیفی کام کا
کوئی تصور نہیں تھا اور یہ دیہاتی علماء کی دستریں سے بالاتر چیز سمجھی جاتی تھی، لیکن
آ پ علاقے میں پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے تصنیفی کام کا آغاز کیا اور لوگوں کو باور کرایا
کہ محنت ولگن سے ثریاپر بھی کمندیں ڈالی جا سکتی ہیں،آپ نے مسلمانوں کی اصلاح حال اور
سنتوں کی ترویج کے لیے ”رہنمائے مسلم“ اور ”زجاج المصابیح“ تصنیف فرمایا۔“ (یاد وطن،
ص/30)
اس میں ایک کتاب زجاج المصابیح کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس تعلق
سے براہ راست مولانا قاسمی صاحب سے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے کوئی ذاتی
تحقیق نہیں کیا ہے؛ البتہ یہ معلومات ان کے بھتیجے قاری عبد الجبار صاحب قاسمی صدر
شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند سے ہوئی زبانی گفتگو پر مبنی ہیں۔ راقم نے قاری صاحب سے
رابطہ کیا، تو انھوں نے بتایا کہ زجا ج المصابیح کے نام سے تو کوئی کتاب نہیں ہے؛ البتہ
انھوں نے اس نام سے موجود کتاب کی طرز پر سوال و جواب کے انداز میں ایک کتاب لکھی تھی۔
لیکن بسیار تلاش کے باوجود مسودہ نہیں مل سکا۔ رہ نمائے مسلم نامی کتاب 2018میں شائع
ہوچکی ہے۔
اصلاحی تعلق
سلوک و تصوف میں آپ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی
نور اللہ مرقدہ کے دامن سے وابستہ تھے۔ البتہ آپ حضرت کی جانب سے مجاز نہیں تھے؛ کیوں
کہ سنتھال پرگنہ کے مجازین کی فہرست میں آپ کا نام نہیں ہے، تاہم مولانا مرحوم کی مقبولیت،
اصلاح و صلاح کے تسلسل اور آپ کی ذات گرامی سے اہل علاقہ کی حد درجہ عقیدت و وابستگی،
آپ کے عند اللہ مقبول و محبوب ہونے کی کھلی دلیل ہے۔ مولانا ثمیر الدین صاحب قاسمی
رقم طراز ہیں کہ
”آپ خاموش طبع اورعزلت پسند واقع ہوئے تھے،رزم
وبزم،شوروہنگامہ سے آپ کی طبعی دوری تھی،آپ دل کی دنیا کو آبقد ومعمور رکھنا چاہتے
تھے، یہی وجہ تھی کہ راہ سلوک میں بہت سے مدکامل کے لئے مشعل راہ ورشک نگاہ بنے ہو
ئے تھے،آپ سالک بے مثال حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ کے دامن سے وابستہ تھے۔“
(یاد وطن، ص/30)
شاگردان رشید
مولانا نور اللہ مرقدہ کی زندگی کے پینتیس سال کا عرصہ تعلیمی
خدمات میں گذرا۔اس طویل عرصہ میں نہ جانے کتنے آفتاب و مہتاب کو آپ نے تیار کیا؛ لیکن
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ حضرت کے تعلق سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، جس کی بنیاد پر
شاگردوں کی جامع فہرست بنائی جاسکے۔ بالخصوص میرٹھ کی تدریسی حالات بالکل بھی معلوم
نہیں ہیں، تاہم جہاز قطعہ کے مدرسہ سے فیضیاب ہونے والے چند اہم ناموں کی فہرست پیش
کی جارہی ہے۔
(1) مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ
خطاطی دارالعلوم دیودبند۔
(2) مولانا خلیل الرحمان صاحب کیتھ پورہ مرحوم۔
(3) مولانا محمد یونس صاحب کیتھ پورا۔
(4) مولانا عبد الحفیظ صاحب پڑوا۔
(5) مولانا زین العابدین صاحب۔
(6) مولانا غلام رسول صاحب اسناہا۔
(7) جناب عالم گیر صاحب بکوا چک۔
(8) مولانا اسلام صاحب بیلڈیہا۔
(9) مولانا فضل الرحمان صاحب رجون۔
(10) مولانا محمد عرفان صاحب رجون۔
(11) مولانا عمر فاروق صاحب رجون۔
(12) مولانا بشیر الدین صاحب پنڈرا۔
(13) مولانا ذکیر الدین صاحب پنڈرا۔
(14) مولانا عبدالقیوم صاحب پنڈرا۔
(15) مولانا محمد اسحاق پنڈرا۔
(16) حافظ معین الدین کدرچالا کدمہ۔
(17) مولانا حدیث کھگڑا۔
(18) حافظ جنید صاحب ڈنگا پاڑا دمکا۔
(19) مولانا محمد شوکت علی پلواہی۔
(20) حافظ رحمت اللہ پلواہی۔
(21) حافظ شعیب احمد مورنئے۔
(22) جناب عبدالجبار صاحب مورنئے۔
(23) مولانا عبد القیوم مورنئے۔
(24) حافظ منصور احمد گوپی چک۔
(25) مولانا عبدالحنان بڑی سانکھی۔
(26) مولانا ابراہیم صاحب بھیرو چک۔
(27) حافظ محبوب صاحب انجنا۔
(28) مولانا عبدالمجید صاحب رگھوناتھ پور۔
(29) مولانا ہدایت اللہ صاحب رگھوناتھ پور۔
(30) قاری قطب الدین صاحب جہازی۔
(31) مولانا نور الدین جہازی۔
(32) مولانا علیم الدین جہازی۔
(33) مولوی مقبول جہازی۔
(34) مولانا مظہر الحق قاسمی جہازی۔
(35) مولانا ابراہیم جہازی۔
(36) مولانا یونس جہازی۔
(37) مولانا اظہر الحق صاحب جہازی۔
(38) مولانا اسلام صاحب کیتھ پورہ۔
(39) مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری جہازی۔
(40) مولانا منصور الحق بیلسر
(41) مولانا عبد الحفیظ صاحب جہازی
(42) مولانا مسعود عالم صاحب جہازی
(43)مولانا شفیق احمد صاحب بڑی سانکھی
(44) قاری ظفیر الدین صاحب جہازی
(45) قاری رمضان علی صاحب جہازی
(46) مولانا نعیم الدین صاحب جہازی
(47)حافظ قطب الدین صاحب جے پوری
(48)مولانا مستقیم صاحب بڑی سانکھی
(49) مولانا عبد الرزاق صاحب قاسمی مدھوبن سارواں
حسب نسب
شیخ لوری کا بیٹا شیخ فخر الدین، فخر الدین شیخ کا بیٹ نصیر
الدین، نصیر الدین شیخ کے والا تبار صاحب زادہ کا نام ہے: نمونہ اسلام حضرت مولانا
منیر الدین نور اللہ مرقدہ۔ یہ تو مولانا نور اللہ مرقدہ کے اصول تھے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسبمحفوظ نہیں ہے۔ اور فروع کی
بات کریں، تو مولانا نور اللہ مرقدہ سمیت تین بھائی اور ایک بہن تھی۔ دوسرے بھائی کا
نام عبد الرحمان اور تیسرے کا نام کرامت علی تھا۔بہن کا نام مریم تھا، ان کی شادی بیلڈھیہا
میں ہوئی تھی۔ مولانا محمد منیر الدین ؒ کی شادی کی تاریخ معلوم نہ ہوسکی، البتہ اہلیہ
کا نام تقدیرہ خاتون تھا، جو شاہ پور بیلڈیہا کے جناب اکبر صاحب کی صاحب زادی تھیں۔
ان کا انتقال 1994میں ہوا۔ مولانا کے سات لڑکے تھے، کوئی لڑکی نہیں تھی۔ لڑکوں کے نام
علیٰ الترتیب اس طرح ہیں: عبد السلام، سلیم، سالم، شمیم، نسیم، مختار اور عبد الغفار
صاحبان۔
خدوخال
مولانا کو بذات خود دیکھنے والے لکھتے ہیں کہ
”1967ء کی کسی صبح کو تبلیغی جماعت کے ساتھ یہ
کفش بردار جہاز قطعہ پہنچا،مدرسہ رحمانیہ جہازقطعہ کے احاطے میں قدم رکھاتوایک فرشتہ
صفت بزرگ سے ملاقات ومصافحہ ہوا،میانہ قد،گدازبدن،نورانی چہرہ،متبسم پیشانی،درازکرتا
اور لنگی میں ملبوس عارف باللہ حضرت مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ تھے۔“ (یاد وطن،
ص/29)
دراز قد، گندمی رنگت اور لحیم و شحیم جسم کے مالک تھے۔ چہرے
پر موٹے فریم والا کالا چشمہ عموما پہنے رہتے تھے۔ رعب و دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ جب
مولانا کسی راستے سے گزرتے تھے تو کسی میں سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، مولانا
کو آتا دیکھ کر عموما چھپنے کی کوشش کرتے تھے۔ عورتوں کا یہ عالم تھا کہ مولانا کی
طرف نگاہ بھی اٹھا کر نہیں دیکھ سکتی تھیں، اس زمانے میں عورتوں کی اپنی بچیوں کی تعلیم
کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ مولانا کی نگاہ میں مت آجانا۔ چنانچہ بچیوں کے پردے کا اہتمام مولانا کے سامنے بڑھ جاتا
تھا۔
مولانا بہت کم گو تھے۔ کسی سے گفتگو کی ضرورت پڑتی تھی تو
بقدر ضرورت ہی باتیں کیا کرتے تھے۔ آپ اپنا زیادہ تر وقت اپنے گھر کی لائبریری میں
مطالعہ میں گذارا کرتے تھے۔ گلی کوچوں میں بلا ضرورت گھومنا آپ کو بالکل بھی پسند نہیں
تھا۔ اگر ضرورت سے آپ باہر تشریف لے جاتے تو ہمیشہ نگاہیں نیچی رکھ کر چلا کرتے تھے۔
زندگی کے ہر پہلو میں کوشش یہ رہتی تھی کہ کسی متروک سنت کو زندہ کیا جائے، اس لیے
اتباع سنت کا خاص خیال فرماتے۔ اگر کسی شخص کو خلاف سنت عمل کرتے دیکھتے، تو اصلاح
کا تدریجی طریقہ اختیار فرماتے، ڈانٹ ڈپٹ یا ناراضگی کا اظہار کبھی نہیں فرماتے، بلکہ
سمجھانے کے انداز میں بتاتے تھے۔ جناب عبد الرشید صاحب مرحوم نے مولانا کے اصلاحی طریقے
پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ محرم کے موقع پر یہاں بہت ڈھول تاشا ہوتا تھا۔ جب مولانا
یہاں رہنے لگے، تو انھوں نے فرمایا کہ اس طریقے سے ڈھول مت بجاؤ اگر بجانا ہی ہے تو
اس طرح سے بجاؤ کہ اس میں تال سے تال نہ ملے۔مولانا کے بارے میں چل رہی گفتگو کے ایک
موقع پر جناب ظفیر الدین صاحب عرف تیلی ظفیر نے کہا کہ مولانا محرم کے موقع پر بجائے
جانے والے ڈھول اور جھرنی کو سخت ناپسند کرتے تھے، البتہ جب گاوں کا کوئی اجتماعی معاملہ
ہوتا تھااور لوگوں کو ایک جمع کرنے کی ضرورت پیش آتی، تو انھیں کے بتائے طریقے کے مطابق
چھت پر چڑھ کر ڈھول بجایا جاتا، جس سے آنا فانا لوگ ایک جگہ جمع ہوجایا کرتے تھے۔
مولانا کی مخلی طبیعت کے باوجود بچوں سے بے حد پیار کیا
کرتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب مطالعہ گاہ میں ہوتے جہاں آپ کسی غیر ضروری معاملہ کے
تعلق سے کسی سے بھی ملنا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن کسی بچے پر نظر پڑجاتی، تو اسے پاس
بلاکر بیٹھا لیتے تھے اور پھر اسے کچھ سکھانے کی کوشش کرتے۔
بیماری اور
انتقال پرملال
آپ کو آخری عمر میں تین مرتبہ فالج کا حملہ ہوا۔ پہلی مرتبہ
جسم کے مکمل آدھے حصہ پر حملہ کیا، جس میں آپ صحت یاب ہوگئے، پھر دوبارہ اسی طرح کا
حملہ ہوا، اس میں بھی صحت یاب ہوگئے، لیکن تیسری مرتبہ دماغ پر حملہ ہوا، اس حملہ میں
آپ جاں بر نہ ہوسکے اور اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ اپنے آبائی قبرستان جہاز قطعہ
میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کا انتقال جون 1976 ء میں ہوا۔
مولانا کی ذات نابغہ روزگار ہستی تھی
مولانا کی ذات گرامی ایک نابغہ روزگار ہستی تھی۔ علمی مرتبت
بہت بلند تھا۔ دیہات میں جہاں کتابوں کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا، ایک نہیں؛
بلکہ کئی کئی مستند کتابیں لکھنا کسی کرامت سے کم نہیں ہوسکتا۔ وہ مولانا حسین احمد
مدنی نور اللہ مرقدہ کے دامن سلوک سے وابستہ تھے، اس لیے تقویٰ و طہارت پر شبہ کرنا
ناممکن ہے۔ معاملہ کی صفائی، خوش اخلاقی اور نرم گوئی ان کی خاص شان تھی جن کی گواہی
آج بھی کو دیکھنے اور جاننے والے دے رہے ہیں۔ باطلانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی اصلاح
کے لیے وہ ہمیشہ پابہ جولاں رہتے تھے اور بڑی حکمت عملی سے کام لیتے تھے کہ لوگوں کو
برا بھی نہیں لگتا تھا اور مقصد بھی حاصل ہوجاتاتھا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود، اہل
ہنر اور اہل قدر لوگوں کے تعلق سے لوگوں کا جو بے قدری والا رویہ ہوتا ہے، وہ مولانا
کے ساتھ بھی رہا، اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ انسانی فطرت کا تسلسل ہے۔
ایسا بڑے بڑوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے؛ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ جہاں دنیا اہل قدر کے
مرنے کے بعد ان کی اہلیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتی ہے، وہاں مولانا کے مرحوم ہونے
کے بعد بھی ناقدری کی گئی اور ان کے سارے کارناموں کو فراموش کردیا گیا۔اس لیے قبل
ازمرگ اور بعد از مرگ دونوں کے مرثیہ کے لیے مولانا مرحوم ہی کے شعر پیش کیا جاتا ہے
کہ ؎
تیرے ہنر کا کوئی نہیں قدر داں منیرؔ
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں
اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی تمام خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین۔ ثم آمین۔