20 Aug 2018

Ibne Yateem

ابن یتیم
پیدائش اور تاریخ پیدائش
آج ہم جسے ناچیز کہتے اور سمجھتے ہیں، کل وہی قدر و قیمت والی چیز بن جاتی ہے۔ اس نظریہ کا پہلا حصہ ہمیں بے رخی اور بے اعتنائی کا سبق دیتا ہے، لیکن دوسرا حصہ ہمیں حال کو ماضی کے نظریے سے دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ بس یہی نظریہ درج ذیل چند سطروں کا محرک ہے۔ 
بھارت میں انسان سرکاری کاغذوں اور تعلیم گاہوں کے سرٹیفکٹ میں اتنے ہی بار پیدا ہوتا ہے، جتنے اس کے پاس سرکاری کاغذات ہوتے ہیں۔ یہ حادثہ ناچیز کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ تعلیمی اداروں کی سند میں کچھ اور ہے، جب کہ دیگر سرکاری کاغذات میں کچھ اور؛ لیکن والد صاحب کی ڈائری میں لکھی تاریخ پیدائش ہی اصل جنم تاریخ ہے۔مقام پیدائش کا نام جہاز قطعہ ہے  جو بھارت کے مشرقی کنارے ضلع گڈا جھارکھنڈ میں واقع ہے  8 جنوری 1984بروز اتور بوقت صبح صادق اصلی تاریخ پیدائش ہے۔والد محترم کا نام محمد مظفر ابن نصیر الدین ابن تاج علی ابن شیخ پھیکو ابن شیخ لوری ہے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب محفوظ نہیں ہے۔ 
بچپن
گھر میں پہلے ایک گائے تھی جو دودھ کے مقصد سے زیر پرورش رہتی تھی۔ بعد میں اس کی جگہ بکریوں نے لے لی۔ ناچیزنے دونوں کی نگہبانی کا فریضہ انجام دیا۔ اور اس طرح لاشعوری عمر میں ایک نبوی سنت ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ دن بھر کھیتوں میں بکریاں چراتا تھا اور رات کو دروازے پر بے نام مکتب میں تعلیم بھی حاصل کرتا تھا۔
مکتب کی تعلیم
جب سے حصول تعلیم کا سلسلہ یاد ہے، وہ یہ ہے کہ گھر کے دروازے پر بعد نماز مغرب جناب اختر صاحب بنیادی اردو، ہندی اور حساب پڑھایا کرتے تھے، جس میں محلہ کے درجنوں بچے پڑھتے تھے۔ ناچیز کی تعلیم کا پہلا مکتب یہی بے ترتیب سلسلہ ہے، جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ اس میں بنیادی حروف تہجی، اکچھر بودھ اور الفابیٹ سیکھے۔ اس تعلیم کا سلسلہ غالبا ایک ڈیڑھ سال چلا۔ 
ایک ڈیڑھ سال کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا ، تو محلہ کا سرکاری مدرسہ : مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ اسکول جامع مسجد میں اور کبھی مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں تعلیمی سلسلہ چلا۔ بچوں کی فطرت کے مطابق کبھی اس مدرسہ میں چلا گیا اور کبھی ادھر کا رخ کرلیا۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۳ء تک جاری رہا۔یہاں کے اساتذہ میں مولانا حضرت علی صاحب، پنڈت صاحب اور دیگر تھے، جن کے نام بالکل بھی یاد نہیں آرہے ہیں۔
تعلیمی سفر
جب والدین نے یہ محسوس کیا کہ گاوں کے مکتب و مدرسہ میں جہاں تک اور جتنی تعلیم تھی،وہ سب سمیٹ چکا ہوں، تو اس سے آگے کی تعلیم کے لیے دوسرے مدرسہ کی تلاش شروع ہوئی۔ چنانچہ گاوں کے ماحول کے مطابق ۱۹۹۴ء میں ناچیز کو بھی علاقہ کا مشہور تعلیمی ادارہ مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر بھاگلپور میں داخلہ کرادیا گیا، جہاں ناظرہ کی تکمیل کی اور ساتھ ہی فارسی کی پہلی کتاب بھی پڑھی۔ 
چمپانگر کی زندگی
گاوں کے نیک طینت عالم دین مولانا محمد نعمان صاحب مد ظلہ العالی،استاذ مدرسہ اصلاح المسلمین ہمارے مربی اور سرپرست تھے۔ چمپانگر کی سبھی تعلیم حضرت سے ہی وابستہ تھی ۔ اس لاشعوری دور میں شعور پیدا کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوں گے، وہ بالیقین انھوں نے ہمیں سکھائے ہوں گے، جو صغر سنی کی وجہ سے مجھے یاد نہیں ہے. البتہ یہ زمانہ بہار لوٹنے کا زمانہ ہوتا ہے، اس لیے اس میں کبھی بھی کمی آنے نہیں دی۔ یہاں کے نہر میں نہانا ہو، چمپانگر لوہے والے پل سے کودنا ہویا مدنی نگر کی درگاہ کا چکر لگانا ہو، اس کا تسلسل کبھی بھی ٹوٹنے نہیں دیا گیا۔ 
چمپانگر سے متصل مدنی نگر ہے۔ یہاں ایک صاحب تھے، جن کے نام سے واقف نہیں ہوں، البتہ وہ پیدل حاجی سے مشہور تھے، ان کا ایک لڑکا تھا، جن کا نام عبداللہ تھا۔ یہ صاحب ہمارے بڑے بھائی جناب فاروق اعظم صاحب کے زمانہ طالب علمی میں دوست ہوا کرتے تھے۔ بھائی کے بعد جب ناچیز یہاں آیا، تو دوستی کا یہ رشتہ ادھر منتقل ہوگیا۔ عبداللہ صاحب واقعی دلدار آدمی تھے، خود انھوں نے اور ان کے والدین نے اس غریب الدیار میں ہمیں غریبی کا احساس ہونے نہیں دیا؛ لیکن رونا اس بات کا ہے کہ یہ احساس اس وقت نہیں ہوا، آج جب کہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں، تو ان کی رواداریاں ذہن میں گردش کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے والدین کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین۔
علاقے کے والدین اس عقیدے کیپختے ہیں کہ وہی بچہ کامیاب تعلیم پاسکتا ہے، جسے باہر بھیج دیا جائے۔ چنانچہ اس عقیدے کی زد میں ناچیز بھی تھا۔ والدین باہر بھیجنے کی کوشش میں تھے ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ محلے کے جناب حافظ الیاس صاحب پوہانہ روڑکی ، ہریدوار کے ایک مدرسہ میں استاذ تھے۔ ان کے یہاں اقامت پذیر بچوں کی تلاش رہتی تھی، یہ صاحب اپنے گاوں سے بچوں کی ٹولی لے جایا کرتا تھے۔ چنانچہ جب اس ٹولی کی روانگی کا وقت آیا، تو میرے والد بزرگوار نے بھی ان سے ٹولی میں شامل کرنے کی گذارش کی؛ لیکن انھوں نے میرے متعلق انکار کرتے ہوئے کہا کہ امسال کسی کو نہیں لے جارہے ہیں۔ لیکن روانگی کے وقت دیکھا گیا کہ محلے کے تقریبا سبھی ذی حیثیت کے بچے شریک سفر تھے۔ کچھ دنوں بعد انھیں کے الفاظ میرے والد تک پہنچے کہ ’’ان کے بچے کو لے جاتے، تو پورا سال ہمیں کچھ نہیں ملتا‘‘۔ بہر کیف رضائے مولیٰ برہمہ اولیٰ کے پیش اس بات کو نظر انداز کردیا گیا۔ اور کسی دوسرے رہبر کی تلاش شروع ہوئی۔ چنانچہ جھپنیاں کے جناب جہاں گیر صاحب نے میرا انٹرویو لیا اور کہا کہ اگر اسے لے جائیں گے، تو ہمیں داخلہ کرانے میں پریشانی نہیں ہوگی۔ چنانچہ انھوں نے ہمیں اپنا شریک سفر بنایا اور ہمیں ویٹ غازی آباد میں لاکر مدرسہ اعزازالعلوم میں داخلہ کرادیا۔ اللہ تعالیٰ جناب جہاں گیر صاحب کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔ 
ویٹ کی زندگی
۱۹۹۵ء میں یہاں درجہ فارسی میں داخلہ لیا۔ یہ زندگی کچھ شعور اور کچھ لاشعور پر مبنی تھی۔ اس زمانے کے دو یادگار واقعے تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلا واقعہ تو یہ ہے کہ جب یہاں کی پہلی آمد تھی، تو دہلی سے بس پر سوار ہوئے ۔ اس سفر میں ہمارے کچھ ساتھی ہاپوڑ بھی اترنے والے تھے۔ بس میں سبھی کا سامان ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔ رات ہوگئی تھی، جب ہاپوڑ والے ساتھی بس سے اترنے لگے تو میرا بکسہ بھی انھوں نے اتار لیا۔ جب ہم اپنی منزل پر اترنے لگے تو بکسہ ندارد تھا۔ یہ جان کر ایسا لگا کہ میرا تو سب سامان ہی چوری ہوگیا ، اب آگے کی زندگی کا نقشہ کیا ہوگا۔ بہر کیف ہمارے مشفق جناب جہاں گیر صاحب اگلی صبح ہی ہاپوڑ گئے اور میرا سامان لے آئے۔ اس طرح بے چین دل کو تسلی ملی۔ یہ تو شروع کا واقعہ تھا اور آخر سال کا واقعہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ میں ایک استاذ محترم جناب ۔۔۔ صاحب بھی تھے۔ ان سے مالابد منہ متعلق تھی۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ متن کے معانی کو زبانی سنتے تھے، جس میں کبھی کبھار سنانے سے قاصر رہتے تھے، تو سخت پٹائی کرتے تھے، حتیٰ کہ اکثر پٹائی میں ہاتھ سوجھ جاتا تھا۔ یہ سلسلہ آخری سال تک جاری رہا؛ بالآخر رجب میں ایک دن ایسا آیا کہ تاب شدت نہ لاسکا اور ناچیز ویٹ سے بھاگ گیا۔ اور اس گاوں سے پورب کچھ کلو میٹر پر واقع ایک گاوں ہے، جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ہے، وہاں کے مدرسہ میں میرے گاوں کے جناب مولانا شمیم صاحب زیر تعلیم تھے، ان کو سارا ماجرا بتایا۔ بھاگنے کا خوف اس قدر تھا کہ وہاں بھی ڈر پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا، کیوں کہ طلبہ میں یہ مشہور تھا کہ جو لوگ بھاگ جاتے ہیں اور پھر پکڑے جاتے ہیں، تو انھیں سخت اذیت ناک سزا دی جاتی ہے۔ چنانچہ اس نظریے نے خوف ستایا اور تقریبا تین ہفتے نظربند جیسی زندگی گذاری۔ پھر جب چھٹی ہوگئی، تو گاوں کے ہی ویٹ کے مدرسہ میں زیر تعلیم جناب مولانا اساعد الاسلام قاسمی صاحب کے توسط سے اپنا سامان اسٹیشن منگوایا اور وہاں سے وطن مالوف کے لیے روانہ ہوا۔ہمارے فارسی کے اساتذہ میں سے مولانا مرغوب الرحمان صاحب، مولانا اعزاز صاحب، مولانا کلیم صاحب اور دیگر حضرات کرام تھے۔ 
مدرسہ مظہر العلوم کانپور میں
چوں کہ ویٹ سے بھاگ کر نکلے تھے اور بھاگنے والوں کے لیے عبرت ناک سزا سے بھی واقف تھے، اس لیے وہاں لوٹنے کا کوئی مطلب نہیں تھا، اس لیے امی کی ننہالی رشتے سے ماموں مولانا مجیب الحق صاحب موکل چک کی سرپرستی میں مدرسہ مظہر العلوم دادا میاں چوراہا بیگم گنج کانپور پہنچا اور عربی اول میں داخلہ لیا۔ یہ ۱۹۹۶ء کا سن تھا۔ عربی اول کے اساتذہ میں سے مولانا شفیع الدین صاحب، مولانا ابوبکر صاحب، مولانا قمر الحسن صاحب، مفتی اقبال صاحب اور دیگر حضرات تھے۔ 
دادامیاں چوراہا سے کچھ فاصلہ پر جاجمو واقع ہے۔ یہاں ہمارے درج بالا رشتے سے ماموں مولانا ریاض الحسن قاسمی و ندوی صاحب مدرسہ دارالتعلیم والصنعۃ جاجمو میں استاذ تھے۔ لاشعوری دور تھا ، اس لیے ایسی کچھ حرکتیں سرزد ہونا ضروری تھا، چنانچہ ناچیز ہر جمعہ کی چھٹی میں دو روپیے گھنٹے کے کرایہ پر سائکل لیتا تھا اور ماموں کے پاس ملنے جاتا تھا۔ یہاں ممانی بھی رہتی تھیں۔ جب وہاں پہنچتاتو ممانی کھلانے پلانے کا کافی اہتمام کیا کرتیں۔ پہلی مرتبہ کا واقعہ ہے کہ سائکل لے کر گیا اور کھانے پینے کی مصروفیت کی وجہ سے بہت دیر ہوگئی اور سائکل والے کا بل بہت زیادہ ہوگیا۔ بہرکیف اس وقت جو ہمارے پاس تھا، وہ اور ساتھ میں عذر پیش کیا، تو بچہ اور طالب علم سمجھ کر اور سمجھا کر معاف کردیا۔ اس واقعہ کے عملی تجربے کے باوجود سائکل سے ہی ممانی کے پاس جاتا تھا ؛ لیکن اس کے بعد جاتے ہی ممانی پوچھتیں کہ سائکل لے کر آئے ہو، اگر ہاں میں جواب آتا، تو فورا ماحضر کھلاکر واپس بھیج دیتیں اور کہتیں کہ سائکل لے کر مت آیا کرو؛ لیکن لاشعوری شوق کی تکمیل کا جذبہ بھی کسی نصیحت سے باز رکھ سکتا ہے! جو کبھی نہیں ہوا اور جب بھی جاتا سائکل سے ہی جاتا۔ حالاں کہ اس سے عام سواری سے کرایا بھی زیادہ ہوجاتا تھا اور محنت الگ سے ۔ المختصر تعلیم اور لاشعوری حرکتوں سے لبریز یہ پورا سال گذر گیا اور پھر چھٹی کے بعد مادر وطن لوٹ آیا۔ 
روڑکی
محلے کے کچھ لڑکے روڑکی میں زیر تعلیم تھے۔ چنانچہ ان لوگوں کے ہمراہ ناچیز بھی روڑکی آیا اور مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ روڑکی میں داخل ہوا۔ داخلہ امتحان میں کامیابی کے بعد عربی دوم میں داخلہ ہوا۔ یہ سن ۱۹۹۷ء کا واقعہ ہے۔ یہاں ناچیز نے جن اساتذہ کے سامنے زانو تلمذ طے کیا، ان میں مولانا اظہر الحق جہازی صاحب، مولانا محمد ارشد صاحب، مولانا محبوب الحق صاحب، مولانا اسحق صاحب، مفتی سلیم الدین صاحب اور دیگر حضرات تھے۔ الحمد اللہ سبھی اساتذہ بہت محنتی تھے اور انتہائی شفقت و محبت سے تعلیم دیتے تھے۔ 
اس شہر کے بیچوں بیچ ایک صاف شفاف نہر بہتی ہے ، طالب علمانہ ترنگ کا یہ جلوہ ہمیشہ دکھاتا رہا کہ نہر میں خوب نہاتاتھا۔ حتیٰ کہ گرمیوں میں رات کو بھی نہانے جاتا تھا۔ نہر کی پٹی پر ایک سڑک گذرتی ہے، جو کلیر جاتی ہے۔ چنانچہ کلیر کی گلیوں کا سیر بھی طالب علمانہ شوق کی تکمیل میں شامل رہا۔ اور برابر وہاں جانا ہوتا رہا۔ 
۱۹۹۸ء میں آگرہ میں
ناچیز کی طالب علمانہ زندگی کا ایک اتفاق یہ رہا کہ جس مدرسہ میں بھی رہا، ایک سال سے زائد نہیں رہا، اس کی کئی وجوہات تھیں اور سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ صغر سنی کی وجہ سے تنہا آمدو رفت دشوار تھی، اس لیے عید کے بعد جو بھی رہبر ملتا، اس کے ہمراہ طلب علم کے سفر پر نکل پڑتا۔ چنانچہ اس سے اگلے سال ۱۹۹۸ء میں دیوبند آیا۔ چوں کہ فارم بھرنے کا وقت نکل چکا تھا، اس لیے جناب کاتب مظفر صاحب کی رہبری میں دیوبند سے دارالعلوم آگرہ پیر جیلانی آگرہ آگیا۔ اور داخلہ امتحان دیا۔ داخلہ امتحان میں پاس نہ ہوسکنے کی وجہ سے سوم کے بجائے دوبارہ عربی دوم ہی میں داخلہ منظور کیا گیا۔ چنانچہ بوجہ مجبوری مجھے بھی منظور کرنا پڑا اور درجہ دوم کو دوبارہ پڑھا۔ یہاں کے اساتذہ میں مفتی عبدالقدوس صاحب، مولانا صلاح الدین صاحب، مفتی عبدالمجید صاحب، مولانا علی صاحب، مولانا کاتب مظفر حسین صاحب، مولانا بسم اللہ صاحب و دیگر صاحبان تھے۔ 
دارالعلوم دیوبند میں
علوم نبویہ کے طالب علموں کی سب سے بڑی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اس کی آخری تعلیمی منزل دارالعلوم دیوبند ہو۔ یہی تمنا مجھے بھی دارالعلوم دیوبند لے آئی اور داخلہ امتحان دیا۔الحمد للہ اس میں کامیابی ملی اور ۱۹۹۹ء میں درجہ عربی سوم میں داخلہ ہوگیا۔اس درجے کی درسیات میں،شرح شذور الذہب اور شرح تہذیب مولانا مزمل صاحب مظفر نگری، ترجمہ قرآن کریم اورنفحۃ الادب مولانا مصلح الدین صاحب سدھارتھ نگری، القراۃ الواضحہ مولانا سعد حصیری اور دیگر کتابیں دیگر موقر اساتذہ کرام سے متعلق تھیں۔ درجہ چہارم میں شرح وقایہ مولانا بلال اصغر صاحب، قطبی مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب، دوروس البلاغۃ مولانا خضر کشمیری صاحب، ترجمہ قرآن مولانا مزمل صاحب مظفر نگری اور اصول الشاشی مولانا جمال صاحب سے پڑھی۔ پنجم میں نور الانوار امام المنطق والفلسفہ مولانا عبدالرحیم صاحب، سلم العلوم مولانا عثمان صاحب، مختصر المعانی مولانا خضر کشمیری صاحب، مقامات مولانا محمد جمال صاحب، ہدایہ مولانا نسیم صاحب بارہ بنکوی پڑھاتے تھے۔ عربی ششم میں جلالین مولانا شوکت صاحب بستوی، دیوان متنبی مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سے وابستہ تھی۔ ہفتم میں ہدایہ مولانا محمد احمد صاحب و مولانا مجیب الحق گوونڈی صاحب، مشکوۃ مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری سے پڑھی۔ دورہ حدیث میں بخاری اول مولانا نصیر احمد خاں صاحبؒ ، بخاری ثانی مولانا عبدالحق صاحبؒ ، مسلم مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی (جلد اول) و مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری (جلد ثانی) ،طحاوی و ترمذی مولانا سعید صاحب پالنپوری (جلد اول) و مولانا سید ارشد مدنی صاحب (جلد ثانی)، سنن ابی داود مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی و مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی،سنن ابن ماجہ مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوریؒ ،موطا امام مالک مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری،موطا امام محمد مفتی محمد امین صاحب پالن پوری، شمائل ترمذی مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی ، سنن نسائی مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری سے پڑھی۔ 
فراغت و تدریس
۲۰۰۵ء میں دورہ حدیث شریف سے فراغت ہوئی اور۲۰۰۶ء میں تکمیل ادب عربی میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں ۲۰۰۷ء میں تکمیل علوم کیا۔ اور پھر دیوبند کو الوداع کہتے ہوئے اسی سال اور ۲۰۰۸ء کے آواخر تک مکمل دو سال جامعہ عربیہ بیت العلوم جعفرآباد دہلی میں تدریسی خدمات سے وابستہ رہا۔
ملی خدمات سے وابستگی
اسی دوران ملی خدمات کا شوق پیدا ہوا، جس کے لیے مولانا عبدالحمیدنعمانی صاحب مد ظلہ سے رابطہ کیا، انھوں نے تحریری ذوق کی بنیاد پر جمعیۃ علماء ہند سے وابستگی کی پیش کش کی، جسے ناچیز نے مولانا کے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ جمعیۃ سے ناچیز کی وابستگی حضرت کی مرہون منت ہے اور اس کے لیے ہمیشہ مشکور و ممنون رہے گا۔ ۲۰۰۹ء سے تادم تحریر جمعیۃ علماء ہند کے مختلف شعبوں کے توسط سے ملی خدمات انجام دے رہا ہے۔ ابتدائی دور میں شعبہ میڈیا میں مولانا نعمانی صاحب کا معاون کار رہا۔ بعد ازاں مباحثہ فقہیہ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ دم تحریر مرکز دعوت اسلام کا انچارج ہے۔ اور اس کا تسلسل باقی ہے۔ 
فاصلاتی تعلیمات
بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے وسطانیہ، فوقانیہ، مولوی، عالم اور فاضل کی سند حاصل کی۔ اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے بی اے اور ایم اے اردوکی ڈگری لی۔ اسی دوران قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے ڈی ٹی پی اور ڈپلوما ان عربک کی سرٹفیکٹ حاصل کی۔بعد ازاں دہلی یونی ورسیٹی سے ٹرانسلیشن اور ماس میڈیا کا کورس مکمل کیا۔ تعلیم کا یہ سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے دعا فرمائیں طلب علم کا یہ سفر جاری و ساری رہے۔
تالیفات
دارالعلوم دیوبند کی زندگی میں قلم پکڑنے کی کوشش کی۔ طلبہ ضلع گڈا کی انجمن آئینہ اسلاف کا ماہانہ پرچہ ’’پرواز‘‘ سے اس سفر کی شروعات کی۔ بعد ازاں بزم سجاد کے ہفت روزہ’’ آئینہ ایام‘‘ کی ادارت سنبھالی۔تحریری سفر کا سلسلہ جاری ہے، جس میں کچھ کاوشیں اشاعت پذیر ہوچکی ہیں، جب کہ کچھ ابھی زیر اشاعت اور زیر تکمیل ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تذکرہ پیش ہے: 
(۱) رہ نمائے اردو ادب: اس میں اردو ادب کی مختلف اصناف کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور تحریر کے مختلف اسلوب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں مشہور اسلامی اہل قلم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ 
(۲) رہ نمائے خطابت: یہ کتاب تقریر کے اسرار و رموز اور فن خطابت کے مضامین پر مشتمل ہے اور شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ 
(۳) نظامت ، خطابت اور مکالمہ نگاری: اس کتاب میں ان تینوں موضوعات پر معلومات پیش کی گئی ہیں۔ سردست یہ کتاب اشاعت کے مراحل میں ہے۔
(۴) آسان عربی قواعد: یہ کتاب تدریسی تجربات کا ماحصل ہے، جس میں مبتدی طلبہ کو ان کے نفسیات کے مطابق انتہائی آسان انداز میں عربی زبان سکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ 
(۵)آسان انگریزی قواعد: اردو اور عربک بیک گراونڈ والے طلبہ کے لیے اردو قواعد کے طرز پر آسان انداز میں انگریزی گرامر کو پیش کیا گیا ہے۔ الحمد للہ یہ کتاب شائع ہوتے ہی مقبول ہوگئی اور کچھ ہی مہینے میں پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا۔ اب اضافہ کے ساتھ دوسرا ایڈیشن شائع ہوا چاہتا ہے۔ مختلف مکاتب و مدارس اور تعلیم گاہوں میں یہ کتاب داخل درس ہے۔ 
(۶) حق اطلاعات: آر ٹی آئی کے متن کا ترجمہ اور اس ایکٹ سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ سپریم کورٹ کے چار وکیلوں سے نظر ثانی کرائی گئی ہے، جن کے اصلاحات کے ساتھ یہ کتاب اشاعت پذیر ہونے والی ہے۔ 
(۷) فلسفہ اسلام: مسائل و احکام کے اسرار و رموز پر یہ کتاب مشتمل ہے، جو ابھی زیر ترتیب ہے۔ 
(۸) مقالات جہازی جلد اول: ناچیز کے مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ سب وہ مضامین ہیں، جو کسی ضرورت، یا کسی کی طلب پر لکھے گئے ہیں اور بیشتر مضامین روزنامہ، سہ روزہ، ہفت روزہ ،ماہانہ جرائد و رسائل اور ویب پر شائع ہوچکے ہیں۔ دوسری جلد کا سفر جاری ہے۔ 
تعلیقات و تصحیحات
جمعیۃ علماء ہند کے شعبہ مرکز دعوت اسلام سے وابستگی کے بعد ، مختلف کتابوں پر تعلیقات و تصحیحات کا کام کرنے کا موقع ملا جس کی فہرست پیش ہے: 
(۱) مرکزی دینی تعلیمی بورڈ: اس کتاب میں سید الملت حضرت مولانا محمد میاں صاحب کی تین نایاب کتابوں: مسئلہ تعلیم اور طریقہ تعلیم، دینی تعلیمی تحریک اور دستور العمل، طریقہ تقریر جلد اول کو ایک ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ 
(۲) شریعت الٰہیہ اور انسانی قوانین۔ (۳) اسلام اور دعوت عمل۔ (۴) ہماری دعا کیسے قبول ہو۔ (۵) انجام گداگری۔ (۶) اخلاق نبوی۔ (۷) اسلام کا تصور امانت پر تعلیقات و اصلاحات کے کام کیے گئے ہیں اور اشاعت پذیر ہوچکی ہیں۔ 
(۸) تاریخ جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ: سنتھال پرگنہ کی کمشنری میں واقع: دیوگھر، دمکا، گڈا، صاحب گنج، پاکوڑ اور جامتاڑا کی ضلعی جمعیۃ کی تاریخ پیش کی گئی ہے۔ اس میں ناچیز نے مختلف دستیاب دستاویزات کو مرتب کرنے کا کام کیا ہے۔ 
(۹) رہ نمائے مسلم: پیدائش سے موت تک کے ضروری مسائل پر مشتمل حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی یہ نایاب تصنیف تھی، جس پر نظر ثانی کا کام کیا گیا ہے اور شائع ہوچکی ہے۔ اسی طرح مولانا مرحوم کی دو دیگر تصنیفات: (۱۰) مسائل حج۔ اور (۱۱) مسائل نماز پر تحقیق و تخریج کا کام جاری ہے۔ 
ابن یتیم
اب تک آپ نے ’’ابن یتیم‘‘ کے بارے میں یہ سب معلومات حاصل کیں، لیکن ایک سوال آپ کے ذہن میں ضرور گردش کر رہا ہوگا کہ یہ ابن یتیم ہے کون ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یتیم کا نام جناب محمد مظفر صاحب ہیں۔ ان کے والد محترم جناب نصیر الدین صاحب کا سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے اسی وقت انتقال ہوگیا تھا، جب یہ چودہ سال کے تھے۔ اور مدرسہ کاشف العلوم چھٹمل پور میں زیر تعلیم تھے۔ والد کا انتقال صاعقہ الٰہی سے کم نہیں ہوتا۔ اس احساس کا صحیح ادراک وہی کرسکتا ہے، جو بنفس نفیس اس حادثہ سے گذرا ہو۔چنانچہ اس حادثہ فاجعہ نے جناب محمد مظفر صاحب کو ہلاکر رکھ دیا۔ خبر وفات سن کر گھر کا رخ کیا۔ گھر پہنچے تو گھریلو حالات کی وجہ سے پھر دوبارہ تعلیم کی طرف رخ نہ کرسکے، کیوں کہ والد محترم کی وراثت میں ایک چار سال کی معصوم بہن، کچھ مہینے کا ایک بھائی اور گاوں کے مکھیا کے دجل و فریب کی وجہ سے والد صاحب کے نام پر بینک کا بھاری لون کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ علاوہ ازیں بینک لون کی وجہ سے گھر کی قرقی و ضبطی نے بقیہ سرمایہ حیات بھی چھین لیا۔پھر گھر کی وہ حالت ہوگئی کہ صبح کو یہ معلوم نہیں رہتا تھا کہ شام کو بھی کچھ پک سکے گا بھی یا نہیں۔ گویا ان کی زندگی شکیل بدایونی کے الفاظ میں
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
ناچیز کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ گاوں میں ایک صاحب چاول فروشی کا کام کرتے تھے، انھیں کے یہاں سے ماہانہ چاول آیا کرتا تھا۔ دادی صاحبہ مرحومہ ان کے یہاں جب چاول لانے جاتیں، تو پہلے دینے سے انکار کرتے اور یہ کہتے کہ سابقہ بقیہ جمع کرو، تب دیں گے۔ دادی مرحومہ کہتیں کہ بیٹا ابھی میرا گھر حالات سے دوچار ہے،ہم اللہ کی آزمائش سے گذر رہے ہیں ۔ ایک دن بالیقین وسعت ہوگی اور آپ کا سارا بقیہ بے باق کردیا جائے گا۔
گر گر کر مصیبت میں سنبھلتے ہی رہیں گے
جل جائے مگر آگ پہ چلتے ہی رہیں گے
غم جس نے دیے ہیں وہی دور کرے گا 
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
المختصر کچھ کہا سنی کے بعد وہ بھی خودکو نہیں روک پاتے تھے اور کچھ نہ کچھ چاول دے دیا کرتے تھے۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ اس قسم کے درجنوں واقعات ناچیز کی لاشعوری آنکھوں نے دیکھا اور محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اس ’’یتیم‘‘ کی وکوہ کن کی کہانی ان شاء اللہ کبھی ضرور لکھیں گے، جن کی ہمت و حوصلہ اور زندگی کے لیے جہد مسلسل ایک مثالی اور تقلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ 
المختصر ان حالات کے باوجود یہ ’’یتیم‘‘ کبھی بھی ہمت نہیں ہارتے اور مسلسل زندگی سے جنگ لڑتے رہے۔ گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اپنے بھائی بہن کے ساتھ ساتھ اپنی چھ اولاد کی پرورش و پرداخت کی پوری کوشش کی اور ان میں سے دو اولاد کو قاسمی النسبت دلانے میں بھی کامیاب رہے۔
زندہ ہے جو عزت سے وہ عزت سے مرے گا
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
مالک ہے تیرے ساتھ نہ ڈر غم سے تو اے دل
محنت کرے انسان تو کیا کام ہے مُشکل
جیسا جو کرے گا یہاں ویسا ہی بھرے گا 
دُنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
درج بالا سطریں اسی یتیم کے ایک لڑکے کی داستان بے ستون ہے۔ جب یہاں تک آپ نے پڑھ لیا ہے تو اس ابن یتیم کا نام بھی پڑھتے چلیے۔ 
نام
تاریخ پیدائش کی طرح نام بھی اختلافی حادثہ کا شکار ہوگیا ہے۔ کہیں پر محمد سابقہ ہے تو کسی جگہ عالم لاحقہ ہے، کسی کاغذمیں محمداور عالم سابقہ لاحقہ دونوں ہیں، تو کسی میں صرف لاحقہ احمد ہے ، جب کہ بعض جگہ سابقہ محمد بھی ہے اور لاحقہ احمد بھی وغیرہ وغیرہ۔ پھر انگریزی میں اس پیلنگ کا بھی لمبا جھگڑا ہے۔ ان اختلافات سے بچنے کے لیے ناچیز نے اس کی تعیین کرتے ہوئے سابقہ میں’ محمد‘رکھاہے، جو نام کا جزو ہے، اور اسی کے مطابق سرکاری کاغذات میں بھی اصلاح کرائی گئی ہے۔ لاحقہ میں علمی و وطنی نسبت شامل کیا ہے ،جس کے پیش نظرقاسمی النسبت کی وجہ سے قاسمی لکھتا ہے اور جہاز قطعہ گاوں کا نام ہے جس کی نسبت سے جہازی لاحقہ لگاتا ہے۔ نام اور دونوں نسبتوں کے بعد اس ابن یتیم کا پورا نام ہوتا ہے: محمد یاسین قاسمی جہازی۔ 

18 Aug 2018

zamzam pene ka tareeqa

زمزم کے پانی پینے کا طریقہ


قسط نمبر (29)  

تصنیف: 

 حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

طواف کی نماز کے بعد آب زمزم پر آئے اور اپنے ہاتھ سے پانی کھینچے۔ اگر سہولت سے پانی کھینچنا ممکن نہ ہو تو دوسرے کا کھینچا ہوا پانی لے اور بسم اللہ پڑھ کر کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر قبلہ رو ہوکر یہ دعا پڑھ کر پیے اور خوب ڈٹ کر پیے۔ 
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ عِلْمَاً نَافِعَاً وَ رِزْقَاً واسِعَاً و شِفَا ءً مِنْ کُلِّ داءٍ
اور تین مرتبہ سانس لے کر پیے اور پھر خدا کی حمد کرے اور سر اور منھ کو بھی پانی ملے اور باقی بدن پر ڈالے ۔ اور جو پانی بچ رہے اس کو کنویں میں ڈال دے یا بدن پر ڈال لے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عباسؓ سے زمزم کا پانی طلب کیا ۔ انھوں نے عرض کیا کہ اس پانی میں (جس میں پانی کا رکھا ہوا تھا) سب لوگ ہاتھ ڈال دیتے ہیں، گھر میں صاف پانی رکھا ہوا ہے ، اس میں سے لاؤں؟ حضورﷺ نے فرمایا: نہیں، جس میں سے سب پیتے ہیں، اسی میں سے لاؤ۔ انھوں نے پیش کیا۔ حضورﷺ نے پیا اور آنکھوں پر ڈالا، پھر دوبارہ لے کر پیا اور اپنے اوپر دوبارہ ڈالا۔ (کنز)
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ ہم میں اور منافقین میں یہ فرق ہے کہ وہ زمزم کے پانی خوب سیراب ہوکر نہیں پیتے۔ (اتحاف)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ ڈول بھرنے کا حکم فرمایا۔ ڈول بھر کر کنویں کے کنارے پر رکھا گیا ۔ حضور ﷺ نے اس ڈول کو ہاتھ سے پکڑ کر بسم اللہ کہہ کر دیر تک پیا ، پھر فرمایا: الحمد للہ اس کے بعد پھر بسم اللہ کہہ کر دیر تک پیا ، پھر فرمایا: الحمد للہ،پھر ارشاد فرمایا کہ ہم میں اور منافقوں میں یہی فرق ہے کہ وہ خوب سیر ہوکر اس کو نہیں پیتے۔ (اتحاف)
مسائل متفرقہ
مسئلہ: مریض معذور کو طواف کرانے کے لیے اجرت پر اٹھانا جائز ہے ۔ 
مسئلہ: اگر اٹھانے والے نے طواف کی نیت نہیں کی اور معذور بے ہوش نہیں تھا ، اس نے خود طواف کی نیت کرلی تو طواف ہوگیا ۔ اور اگر بیہوش تھا تو طواف نہیں ہوا۔ 
مسئلہ: طواف میں اگر عورت مرد کے ساتھ ہوجائے تو طواف فاسد نہیں ہوتا، نہ مرد کا نہ عورت کا ۔ 
مسئلہ: معذور جس کا وضو نہیں ٹھہرتا، چوں کہ اس کا وضو وقت تک رہتا ہے اور وقت کے نکلنے کے بعد وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اس لیے ایسے آدمی کا اگر چار شوط کے بعد وقت نکل جائے تو دوبارہ وضو کرکے طواف پورا کرے اور اگر چار شوط سے کم ہی کیے تھے کہ وقت نکل گیا ، جب بھی وضو کرکے باقی شوط پورے کرسکتا ہے ، لیکن از سر نو طواف کرنا افضل ہے۔ 
مسئلہ: طواف کی جگہ جس کو مطاف کہتے ہیں ، خانہ کعبہ کے چاروں طرف اور مسجد حرام کے اندر اندر ہے، چاہے بیت اللہ سے قریب ہو یا بعید، اور چاہے ستون اور زمزم وغیرہ کو درمیان میں لے کر طواف کرے ، طواف ہوجائے گا۔ 
مسئلہ: اگر کوئی مسجد کی چھت پر چڑھ کر طواف کرے ، اگرچہ بیت اللہ سے اونچا ہوجائے، تب بھی طواف ہوجائے گا۔ 
مسئلہ: مسجد حرام سے باہر نکل کر اگر طواف کرے گا تو طواف نہ ہوگا۔ 
مسئلہ: اگر کوئی طواف میں حطیم کی دیوار پر چڑھ کر طواف کرے، تو طواف ہوجائے گا، لیکن مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: طواف میں بالکل خاموش رہنا اور کچھ نہ پڑھنا بھی جائز ہے۔ 
مسئلہ: طواف میں دعا پڑھنا قرآن پڑھنے سے افضل ہے، لیکن دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے۔ 
مسئلہ: طواف میں ناجائز امور سے نہایت اہتمام سے بچنا چاہیے ۔ لڑکوں اور عورتوں کی طرف نہ دیکھے اور فضول بات بھی نہ کرے۔ 
مسئلہ: اگر کوئی مسئلہ سے ناواقف ہو تو اس کو حقیر مت سمجھو ، اس کو نرمی سے مسئلہ بتادو۔ 
مسئلہ: عورتوں کو مردوں کے ساتھ مل کے طواف کرنا اور خوب دھکم دھکا کرنا جیسا کہ اکثر عورتیں آج کل کرتی ہیں ، حرام ہے۔ عورتوں کو رات یا دن کو ایسے وقت طواف کرنا چاہیے کہ مردوں کا ہجوم نہ ہو اور طواف میں مردوں سے جہاں تک ہوسکے علاحدہ رہنا چاہیے۔ 
مسئلہ: بادشاہ ، امرااور بڑے لوگ جب طواف کے لیے آتے ہیں، تو ان کے خدام اور ملازمین عام مسلمانوں کو روکتے ہیں اور مطاف سے باہر نکال دیتے ہیں، یہ ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔
طواف کی دعائیں
طواف کی نیت دل سے کرے اور زبان سے یہ کہے:
اَلْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ طَوافَ بَیْتِکَ الْحَرامِ، فَیَسِّرْہُ لِیْ وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ۔ 
جس وقت ملتزم کے سامنے آئے تو یہ پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَ تَصْدِیْقَاً بِکِتَابِکَ وَ وَفَاء اً بِِعَھْدِکَ وَ اِتِّباعَاً لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ محمَّدٍ ﷺ ۔
اور جب حجر اسود سے آگے بڑھے اور دروازہ کے سامنے آئے تو یہ دعا پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اِنَّ ھذا البیتَ بیتُک والحَرَمَ حرَمُکَ والامنَ اَمَنُکَ و ھذا مقامُ العاءِذِ بکَ مِنَ النَّارِ فاَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
اور جب رکن شامی(شمالی مشرقی گوشہ) کے برابر آئے تو یہ دعا پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُ بِکَ من الشَّکِّ وا لشرْکِ والشِّقاقِ والنِّفاقِ و سُوءِ الاخلاقِ و سُوءِ المُنْقَلَبِ فی الاھْلِ والمالِ والوَلَدِ
اور جب میزاب رحمت (بیت اللہ کے پرنالے) کے برابر آئے تو یہ پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اَظِلِّنِی تحتَ ظِلِّ عرْشِکَ یومَ لا ظِلَّ الَّا ظِلُّکَ ولا باقی الا وجْھُکَ و اسْقِنِیْ مِنْ حَوْضٍ نَبِِیََّکَ ﷺ شُرْبَۃً ھَنِیْءَۃً لا اَظْمَاُ بَعْدَھَا اَبَدَاً۔ 
اور جب رکن یمانی سے نکل جائے تو یہ دعا پڑھے:
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
یہ سب دعائیں سلف سے مروی ہیں جناب رسول اللہ ﷺ سے کوئی خاص دعا ثابت نہیں ہے کہ وہی دعا پڑھے اور دوسری نہ پڑھے۔ طواف کرتے ہوئے تلبیہ نہ کہے۔ جو دعا یاد ہو، وہی پڑھے اور جو ذکر چاہے، کرے۔ 
عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال: من طافَ بالبیتِ سبعاً لایتکلمُ الا ب سبحان اللّٰہ، والحمدُ للّٰہِ، ولا الٰہ الا اللّٰہُ، واللّٰہ اکبرُ، ولا حولَ ولا قوۃَ الا باللّٰہِ مُحِیتْ عنہ عشَرُ سیئاتٍ و کُتبَ لہ عشرُ حسناتٍ و رُفع لہ عشرُ درجات۔ (روہ ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص خانہ کعبہ کا سات پھیرا طواف کرے اور اس میں سبحان اللہ، والحمدُ للہ، ولا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبر، ولا حولَ ولا قوۃَ الا باللہ کے سوا کو ئی کلام نہ کرے، تو اس کے دس گناہ مٹائے جائیں گے۔ اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے۔ 
اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان رسول اللہ ﷺ پڑھا کرتے تھے: 
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال: و کل بہ سبعون ملکا یعنی الرکن الیمانی فمن قال: اللھم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا والاٰخرۃ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِقالوا آمین۔ (رواہ ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رکن یمانی پر ستر فرشتے متعین ہیں، جو شخص اَلْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّار کہتا ہے، تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ 
اور رسول اللہ ﷺ سے یہ پڑھنا بھی طواف میں ثابت ہے : 
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الرَّاحَۃَ عِنْدَ الْمَوتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الحِسَابِ۔ 
اور رکن یمانی پر پہنچ کر یہ پڑھنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے:
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الُکُفْرِ والْفَاقَۃِ وَ مَواقِفِ الْخِزْیِ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ۔ 
اور ملتزم پر کھڑے ہوکر جو دعا چاہے مانگے، اس جگہ دعا قبول ہوتی ہے اور یہ دعا پڑھے:
الْلّٰھُمَّ رَبَّ ھَذَا البیْتِ العَتیقِ اَْعتِقْ رِقابَنا مِنَ النارِ و اَعِدْنَا مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجِیْمِ وَ بارِکْ لنا فیما اعْطَیْنَا الْلّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ اَکْرِمِ وَفْدِکَ عَلَیْکَ، الْلّٰھُمَّ لَکَ الْحَمدُ علیٰ نِعْماءِکَ وَ أفْضَلَ صَلَوتِکَ عَلٰی سَیِّدِ اَنْبِیَاءِکَ وَ جَمِیْعِ رُسُلِکَ وَ أصْفِیَاءِکَ وَ عَلیٰ اٰلِہ وَ صَحْبِہِ و اَوْلِیَاءِکَ۔ 
طواف قدوم کے احکام
مسئلہ: طواف قدوم آفاقی کے لیے جو صرف حج کا احرام باندھے ہوئے ہو یا قران کا اس کے لیے سنت ہے ۔ متمتع مکی اور حلی کے لیے مسنون نہیں ہے۔ البتہ اگر مکی اور حلی میقات سے باہر جاکر مکہ آئے تو اس کے لیے بھی مسنون ہے ، جب کہ مفرد یا قارن ہو۔ عمرہ کرنے والوں پر طواف قدوم نہیں ہے۔ 
مسئلہ: طواف قدوم کا وقت مکہ میں داخل ہونے کے وقت سے وقوف عرفہ تک ہے۔ اگر وقوف عرفہ کرلیا اور طواف نہیں کیا تو اس کا وقت ختم ہوگیا۔ اس کے بعد طواف قدوم ساقط ہوگیا ۔ 
مسئلہ: آفاقی سیدھا عرفہ چلا جائے اور وقوف عرفہ کے بعد مکہ آئے تو اس سے طواف قدوم ساقط ہوجاتا ہے۔ 
مسئلہ: طواف قدوم پر قدرت کے باوجود طواف چھوڑ کرعرفات چلا گیا اور وہاں جاکر طواف قدوم کا خیال ہوا۔ اگر نویں کے زوال سے پہلے لوٹ کر طواف کرلیا تو طواف قدوم ہوگیا ، ورنہ طواف قدوم نہیں ہوا۔ 
مسئلہ: طواف قدوم کے بعد اگر صفا و مروہ کے درمیان سعی کا بھی ارادہ ہو تو اس طواف میں اضطباع اور تین شوط میں رمل بھی کرے ، ورنہ اضطباع و رمل نہ کرے۔ 
مسئلہ: مفرد کے لیے سعی طواف زیارت کے بعد افضل ہے اور قارن کے لیے طواف قدوم کے ساتھ سعی کرنا افضل ہے۔ اور جو شخص طواف زیارت سے پہلے حج کی سعی کرلے وہ طواف زیارت کے بعد نہ کرے۔
مسئلہ: وقوف عرفہ سے پہلے اگر کوئی نفلی طواف کرلیا اور طواف قدوم کی نیت نہیں کی، تو بھی طواف قدوم ہوگیا ۔ طواف قدوم کی خاص طور سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ 
صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا بیان
صفا و مروہ کے درمیان مخصوص طریقے سے سات چکر لگانے کا نام سعی ہے۔ سعی کے معنی دوڑنے کے ہیں۔ 
صفا ومروہ دو پہاڑیاں ہیں، جو مسجد حرام سے متصل ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 
اِنَّ الصَّفا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِ اللّٰہِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ أنْ یَّطُوَّفَ بِھِمَا و مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرَاً فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ۔ 
بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ (کے دین) کی یادگاروں میں سے ہیں، سو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ تو اس پر ذرا بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرنے پر۔
تمت بالخیر

17 Aug 2018

Arkane Tawaaf

ارکان طواف
قسط نمبر (28)  
تصنیف: 

حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
طواف کے تین رکن ہیں : 
(۱) طواف خانہ کعبہ سے باہر اور مسجد حرام کے اندر ہونا۔ 
(۲) چار یا چار سے زیادہ شوط کا پورا کرنا۔ 
(۳) اپنے سے طواف کرنا خواہ چل کر یا سواری پر؛ البتہ بیہوش کی طرف سے دوسرا شخص بھی طواف کرسکتا ہے۔ 
عن ابن عباسؓ ان رسولَ اللّٰہِ ﷺ قَدِمَ مکۃَ ھو یشتکی فطافَ علیٰ راحلتہِ کلما اتیٰ علیٰ الرکن استلمَ الرکن بمحجنٍ فلما فرغَ من طوافِہِ اناخَ فصلّٰی رکعتین۔ (رواہ ابو داود)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو آپﷺ بیمار تھے۔ آپ ﷺ نے سواری پر طواف کیا اور جب جب حجر اسود کے پاس آتے تو حجر اسود کو چھڑی سے چھوتے (اور چھڑی کو چومتے جیسا کہ دوسری روایت میں ہے) پھر جب طواف سے فارغ ہوئے تو اونٹ کو بیٹھایا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ 
اس حدیث سے تین باتیں معلوم ہوئیں: 
(۱) سوار ہوکر طواف کرنا۔ 
(۲) جب ہاتھ سے حجر اسود کو نہ چھو اور چوم سکے تو چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو چھوئے اور چومے۔ 
(۳) ضرورت کے وقت میں جانور مطاف میں لے جانا درست ہے۔ 
شرائط طواف
تین شرطیں تمام طواف کے لیے ہیں، خواہ حج کا طواف ہو یا نہ ہو۔ 
(۱) طواف کرنے والے کے اندر اسلام کا ہونا۔ 
(۲) طواف کی نیت کرنا۔ 
(۳) مسجد حرام کے اندر مطاف میں طواف کرنا اور حج کے طواف کے لیے تین شرطیں زائد ہیں: 
(۱) خاص وقت کا ہونا یعنی حج کا موسم ہونا۔ 
(۲) طواف سے پہلے احرام کا ہونا۔ 
(۳) وقوف عرفہ کا ہونا۔ 
یہ شرطیں طواف زیارت کی ہیں جو حج کا دوسرا رکن ہے۔ 
مسئلہ: بغیر نیت اگر کسی نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے تو وہ طواف نہیں ہوا، اس لیے کہ نیت شرط ہے۔ 
مسئلہ: بیت اللہ کی خبر نہ تھی کہ یہی بیت اللہ ہے اور بے خبری میں سات چکر لگادیے تو طواف نہ ہوا۔
مسئلہ: خواہ کسی قسم کا طواف ہو اس میں صرف طواف کی نیت کرلینا کافی ہے ، تعیین طواف کی حاجت نہیں؛ البتہ تعیین کرلینا مستحب ہے ۔ طواف قدوم، یا طواف زیارت، یا طواف وداع یا عمرہ کا طواف کرتا ہوں ، اس طرح نیت متعین کرلینا مسنون ہے۔ اگر تعیین نہ کیا ، جب بھی طواف ہوجائے گا، مثلا دسویں کو صبح صادق کے بعد مطلق طواف کی نیت سے طواف کیا ، تو وہ طواف زیارت ہوجائے گی۔ 
واجبات طواف
طواف کے اندر چھ چیزیں واجب ہیں: 
(۱) وضو و غسل دونوں کا ہونا، یعنی پوری طہارت طواف کے لیے واجب ہے۔ 
عن ابن عباسؓ ان النبی ﷺ قال: الطوافُ حولَ البیتِ مثلُ الصلوٰۃِ الا انکم تتکلمون فیہ فمن تکلم فیہ فلایتکلمن الا بخیر۔ (رواہ الترمذی والنسائی والدارمی، و ذکر الترمذی جماعۃ وقفوہ علیٰ ابن عباس)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیت اللہ کے گرد گھومنا نماز کی طرح ہے؛ مگر یہ کہ تم اس میں کلام کرتے ہو تو جو شخص طواف میں کلام کرے تو بہتر ہی کلام کرے۔ 
یعنی نماز میں سلام کلام جائز نہیں، مگر طواف میں جائز ہے ؛ لیکن بلا ضرورت کلام نہ کرے اور کرے تو بہتر کلام کرے اور دوسری باتوں میں نماز کی طرح ہے ۔ اور نماز میں دونوں حدیثوں سے طہارت فرض ہے اس لیے کہ دلیل قطعی سے ثابت ہے اور طواف میں واجب ہے اس لیے کہ دلیل ظنی سے ثابت ہے ، اس لیے کہ اس کو ترمذی نے کہا کہ ایک جماعت نے اس حدیث کو ابن عباسؓ پر موقوف کیا ہے، یعنی یہ رسول اللہﷺ کا قول نہیں؛ بلکہ ابن عباسؓ کا قول ہے۔
(۲) ستر عورت کا ہونا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں جو حج ۹ ء میں ادا ہوا تھا، اس میں رسول اللہ ﷺ نے اعلان کردیا تھا کہ: 
لایطوفن بالبیت عریانٌ (متفق علیہ)
ہر گز بیت اللہ کا طواف ننگے ہوکر نہ کریں۔ 
(۳) جو شخص پیدل چل سکتا ہے ، اس کو پیادہ طواف کرنا۔
(۴) داہنی طرف سے شروع کرنا، جیسا کہ حدیث میں گذرا کہ 
ثم مشیٰ علیٰ یمینہ
آپ ﷺ نے دائیں جانب سے طواف شروع کیا۔ 
(۵) حطیم کو شامل کرکے طواف کرنا، اس لیے کہ وہ بھی خانہ کعبہ کا ایک ٹکڑا ہے۔ 
(۶) پورا طواف کرنا، یعنی ساتوں چکر کا پورا کرنا۔ چار شوط رکن ہے اور باقی واجب۔ 
واجبات کا حکم
کسی واجب کے چھوٹنے یا چھوڑ دینے سے طواف کا دوبارہ کرنا واجب ہوگا۔ اگر دوبارہ طواف نہیں کیا تو اس پر جزا واجب ہوگی، جس کا بیان جنایات میں آئے گا۔ 
نوٹ
طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے، جیسا کہ حضور ﷺ نے پڑھا۔ مگر طواف میں داخل نہیں اور بعض نے اس کو طواف میں داخل کرکے سات واجب بتاتے ہیں۔ اور بعض نے حجر اسود سے طواف کا ابتدا کرنا بھی واجب کہا ہے۔ ان کے نزدیک آٹھ واجب ہیں، مگر ظاہر روایت یہی ہے کہ حجر اسود سے ابتدا سنت ہے ، یہی اکثر مشائخ کا قول ہے۔
طواف کی سنتیں

(۱) حجر اسود کا استلام یعنی چھونا اور بوسہ لینا۔ 
(۲) چادر کو دائیں بغل میں سے نکال کر بائیں مونڈھے پر ڈالنا۔ 
(۳) تین پھیرے میں اکڑ کر چلنا۔ 
(۴) باقی میں اپنی رفتار سے چلنا۔ 
(۵) طواف کے بعد اور سعی سے پہلے دوبارہ حجر اسود کا استلام کرنا، جب کہ طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے۔ 
(۶) حجر اسود کے مقابل میں کھڑے ہوکر تکبیر کہتے وقت ہاتھ اٹھانا۔ 
(۷) حجر اسود سے طواف شروع کرنا۔ 
(۸) طواف کے شروع میں حجر اسود کی طرف منھ کرنا۔ 
(۹) لگاتارتمام چکر پورے کرنا۔ 
(۱۰) کپڑے اور بدن کو نجاست حقیقیہ سے پاک رکھنا سنت ہے۔ 
طواف کے مستحبات
(۱) طواف حجر اسود کی داہنی طرف سے اس طرح شروع کرنا کہ طواف کرنے والے کا پورا بدن حجر اسود کے سامنے گذرتے ہوئے محاذی ہوکر گذرے۔ حجر اسود کی داہنی طرف سے مراد اس کی شرقی جانب ہے، جو بیت اللہ کے دروازے کے طرف ہے۔ اس کی غربی جانب مراد نہیں ہے۔ 
(۲) حجر اسود پر تین مرتبہ بوسہ دینا اور تین مرتبہ اس پر سر رکھنا۔ 
(۳) طواف کرتے ہوئے ماثور دعاؤں کا پڑھنا۔ 
(۴) مرد کو بیت اللہ سے قریب ہوکر طواف کرنا، بشرطیکہ ہجوم اور کسی کو تکلیف نہ ہو۔ 
(۵) عورت کو رات میں طواف کرنا۔ 
(۶) طواف میں بیت اللہ کے پشتہ کو شامل کرلینا۔ 
(۷) اگر طواف بیچ میں چھوڑ دیا ہو یا مکروہ طریقہ پر کیا ہو تو اس کو پھر سے کرنا۔ 
(۸) مباح گفتگو کا ترک کرنا۔ 
(۹) جو چیز خشوع میں حارج ہو اس کو چھوڑ دینا۔ 
(۱۰) دعا اور اذکار کو طواف میں آہستہ پڑھنا۔ 
(۱۱) رکن یمانی (مغربی جنوبی گوشہ) کا استلام کرنا، یعنی چھونا۔ 
(۱۲) جو چیز دل کو مشغول کرنے والی ہو، اس سے نظر بچانا۔ 
مباحات طواف
طواف میں یہ چیزیں مباح ہیں: 
(۱) سلام کرنا۔ 
(۲) چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا۔ 
(۳) مسائل شرعیہ کا بتانا اور دریافت کرنا۔ 
(۴) کسی ضرورت سے کلام کرنا۔
(۵) کچھ پینا۔ 
(۶) دعاوں کا ترک کرنا۔ 
(۷) اچھا شعر پڑھنا۔ 
(۸) پاک جوتے وغیرہ پہن کر طواف کرنا۔ 
(۹) کسی عذر کی وجہ سے سوار ہوکر طواف کرنا۔ 
(۱۰) دل دل میں قرآن پڑھنا۔ 
محرمات طواف
یہ سب چیزیں طواف کرنے والوں کے لیے حرام ہیں: 
(۱) جنابت یا حیض و نفاس کی حالت میں طواف کرنا۔ 
(۲) بلا عذر کسی پر چڑھ کر یا سوار ہوکر طواف کرنا۔ 
(۳) بے وضو طواف کرنا۔
(۴) بلا عذر گھٹنوں کے بل یا الٹا ہوکر طواف کرنا۔ 
(۵) طواف کرتے ہوئے حطیم کے بیچ میں کو نکلنا۔ 
(۶) طواف کا کوئی چکر یا اس سے کم چھوڑ دینا۔ 
(۷) حجر اسود کے علاوہ کسی اور جگہ سے طواف شروع کرنا۔ 
(۸) طواف میں بیت اللہ کی طرف منھ کرنا؛ البتہ شروع طواف میں حجر اسود کے استقبال کے وقت جائز ہے ۔ 
(۹) جو چیزیں طواف میں واجب ہیں، ان میں سے کسی کو ترک کرنا۔ 
مکروہات طواف
یہ چیزیں طواف میں مکروہ ہیں: 
(۱) فضول بیہودہ باتیں کرنا۔ 
(۲) خریدو فروخت کرنا یا اس کی بات چیت کرنا۔
(۳) کوئی ایسا شعر پڑھنا جو حمد وثنا سے خالی ہو۔ اور بعض نے مطلق شعر پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ 
(۴) دعا یا قرآن بلند آواز سے پڑھنا جس سے طواف کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کو تشویش ہو۔ 
(۵) جس طواف میں رمل اور اضطباع ہو اس کو بلا عذر ترک کرنا۔ 
(۶) حجر اسود کا استلام چھوڑ دینا۔ 
(۷) طواف کے پھیروں میں زیادہ فاصلہ کرنا۔ 
(۸) دو طواف اس طرح اکٹھے کرنا کہ بیچ میں دو رکعت بھی نہ پڑھے؛ لیکن اگر نماز کا مکروہ وقت ہو تو جائز ہے۔ 
(۹) طواف کی نیت کے بغیر تکبیر کے دونوں ہاتھ اٹھانا۔ 
(۱۰) خطبہ اور فرض نماز کی جماعت کھڑی ہوجانے کے وقت طواف کرنا۔ 
(۱۱) طواف کے درمیان کھانا کھانا۔ بعض نے پینے کو بھی مکروہ لکھا ہے۔ 
(۱۲) پیشاب، پاخانے کے تقاضے کے وقت طواف کرنا۔ 
(۱۳) بھوک اور غصہ کی حالت میں طواف کرنا۔ 
(۱۴) طواف کرتے ہوئے نماز کی طرح ہاتھ باندھنا۔ 
(۱۵) کولھے اور گردن پر ہاتھ رکھنا۔ 
طواف کے اقسام
طواف کی سات قسمیں ہیں: 
(۱) طواف قدوم: یعنی آنے کے وقت کا طواف ۔ اس کو طواف تحیہ ، طواف اللقاء اور طواف الورود بھی کہتے ہیں۔ یہ ان آفاقی کے لیے سنت ہے جو صرف حج یا قران کرے۔ تمتع اور عمرہ کرنے والے کے لیے مسنون نہیں ہے ، اگرچہ آفاقی ہو۔ اسی طرح مکہ والوں کے لیے بھی مسنون نہیں ہے؛ البتہ اگر کوئی مکی میقات سے باہر جاکر افراد کا قران کا احرام باندھے اور حج کرے تو اس کے لیے مسنون ہے ۔ اور اس کا وقت مکہ میں داخل ہونے کا وقت ہے۔ 
(۲) طواف زیارت: اس کو طواف رکن اور طواف حج اور طواف فرض بھی کہتے ہیں ۔ یہ حج کا رکن ہے ، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا ہے ۔ اور اس کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور ایام نحر یعنی بارھویں تک کرلینا واجب ہے ۔ اس میں رمل ہوتا ہے اگر اس کے بعد سعی ہو۔ اور احرام کھول کر سلے ہوئے کپڑے پہن لیے ہوں تو اضطباع نہیں ہوتا۔ اور اگر احرام کے کپڑے نہیں اتارے تو پھر اضطباع کرنا چاہیے۔ اگر طواف قدوم کے بعد سعی کرچکا ہے تو دوبارہ سعی نہ کرے اور نہ اس طواف میں رمل اور اضطباع کرے۔ 
(۳) طواف صدر: یعنی بیت اللہ سے واپسی کا طواف ۔ اس کو طواف وداع بھی کہتے ہیں ۔ یہ آفاقی پر واجب ہے ، مکی پر واجب نہیں۔ اسی طرح جو مکہ کو ہمیشہ کے لیے وطن بنالے اس پر واجب نہیں۔ اس طواف میں رمل اور اضطباع نہیں کیا جاتا اور اس کے بعد سعی بھی نہیں ہے۔ یہ تینوں طواف حج کے ساتھ مخصوص ہیں۔ 
(۴) طواف عمرہ: یہ عمرہ کا رکن ہے ۔ اس میں رمل اور اضطباع کرے اور اس کے بعد سعی کرے۔ 
(۵) طواف نذر: یہ نذر ماننے والے پر واجب ہے۔ 
(۶) طواف تحیہ: یہ مسجد حرام میں داخل ہونے والے کے لیے مستحب ہے ، لیکن اگر کوئی دوسرا طواف کرلے تو وہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔ 
(۷) طواف نفل: یہ جس وقت جی چاہے کرے۔ 
طواف کے مسائل

مسائل استلام
مسئلہ: ہجوم کی وجہ سے اگر استلام نہ کرسکے تو ہاتھ یا چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرے اور اسی کو چوم لے اور طواف شروع کردے۔ (ہدایہ) 
عن ابی الطفیل قال: رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یطوفُ بالبیتِ ویستلمُ الرکنَ بمحجنٍ و یُقَبِّلُ (رواہ مسلم)
حضرت ابو الطفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اور حجر اسود کو چھڑی سے چھوتے ہیں اور چومتے ہیں جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی۔ 
مسئلہ: حجر اسود کو ہاتھ لگانا اور چومنا اس وقت مسنون ہے کہ جب کسی کو تکلیف نہ ہو۔ کسی مسلمان کو سنت کی وجہ سے تکلیف دینا حرام ہے، اس لیے دھکے دے کر استلام نہ کرے۔ (ہدایہ)
عن عمر ان رسولَ اللّٰہِ ﷺ قال لہ انک رجل قوی لاتزاحم علی الحجر فتوذی الضعیف، ان وجدت خلوۃ فاستلمہ الا فاستقبلہ و کبر و ھلل۔ (رواہ احمد) 
حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: تو طاقتور آدمی ہے ۔ حجر اسود پر ہجوم نہ کرنا کہ کمزور کو تکلیف پہنچائے ۔ اگر جگہ خالی ہو تواس کا استلام کرے ورنہ صرف اس کا استقبال کر اور تکبیر و تہلیل کر۔
معلوم ہوا کہ تکلیف دے کر استلام کرنا درست نہیں ہے؛ بلکہ ایسے وقت میں صرف دونوں ہاتھ کو حجر اسود پر رکھے اور ہاتھ چوم لے۔ اگر اس میں بھی دوسرے کو تکلیف پہنچے تو چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو چھوئے اور چھڑی کو چوم لے۔ اگر یہ بھی بلا ایذا کے نہ ہوسکے تو صرف حجر اسود کا استقبال کرے اور تکبیر اور لاالٰہ الا اللہ کہہ لے اور دونوں ہاتھوں کو حجر اسود کی طرف اس طرح کرے کہ حجر اسود پر رکھی ہے اور پھر ہاتھ چوم لے۔ (ہدایہ)
مسئلہ: حجر اسود پر اگر خوشبو لگی ہو اور طواف کرنے والا احرام میں ہو تو اس کا استلام جائز نہیں ؛بلکہ ہتھیلیوں سے اشارہ کرکے اس کو بوسہ دے لے۔ 
مسئلہ: حجر اسود پر چاندی کا حلقہ لگا ہوا ہے ۔ استلام کے وقت اس کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔ 
مسئلہ: حجر اسود اور بیت اللہ کی چوکھٹ یعنی دہلیز کے علاوہ بیت اللہ کے اور کسی گوشہ یا دیوار کو بوسہ دینا منع ہے ۔ صرف رکن یمانی کو ہاتھ لگائے ، بوسہ نہ دے ۔ اگر ہاتھ نہ لگاسکے تو اشارہ نہ کرے، اس کا صرف چھونا مسنون ہے ۔ اس کی طرف اشارہ وغیرہ مسنون نہیں۔ 
مسئلہ: استلام کے وقت بیت اللہ کی طرف منھ کرنا درست ہے ؛ لیکن طواف کی حالت میں اس کے علاوہ اور وقت میں بیت اللہ کی طرف منھ کرنا منع ہے ۔ 
استلام کے وقت دونوں پاؤں اپنی جگہ پر رکھے اور استلام کرکے سیدھا کھڑا ہوجائے اور طواف شروع کردے ۔ پیچھے نہ ہٹے۔ اس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ 
مسائل نماز و طواف
مسئلہ: ہر طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اور افضل یہ ہے کہ مقام ابراہیم میں پڑھے۔ (ہدایہ) مسلم کی طویل حدیث میں گذر چکا ہے کہ طواف کے بعد رسول اللہ ﷺ مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور آپ ﷺ نے پڑھا: 
واتخذوا من مقام ابراھیم مصلیٰ
پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی اور بعد میں اتنا ہجوم ہوگیا کہ رمل نہیں کرسکتا ہے تو رمل موقوف کردے اور طواف پورا کرے۔ 
مسئلہ: اگر رمل کرنا بھول گیا اور ایک چکر کے بعد یاد آیا تو صرف دو میں رمل کرے اور اگر اول کے تین چکر کے بعد یاد آئے تو پھر رمل نہ کرے ، کیوں کہ جس طرح اول کے تین چکروں میں رمل مسنون ہے اسی طرح اخیر کے چار میں رمل نہ کرنا مسنون ہے۔ 
عن ابن عمرؓ قال: کانَ رسولُ اللّٰہ ﷺ اذا طافَ فی الحج او العمرۃ اول ما یقدم سعیٰ ثلاثۃ اطواف و مشیٰ اربعۃ ثم سجد سجدتین ثم یطوف بین الصفا والمروۃ۔ (متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب حج یا عمرہ میں طواف کرتے، تو سب سے پہلے تین طواف میں تیزی سے چلتے یعنی رمل کرتے اور چار میں اپنی رفتار سے چلتے۔ پھر دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر صفا ومروہ کے درمیان چکر لگاتے۔ 
مسئلہ: پورے طواف میں رمل کرنا مکروہ ہے، لیکن کرنے سے کوئی جزا واجب نہ ہوگی۔ 
مسئلہ: کسی مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے رمل نہیں کرسکے تو کچھ حرج نہیں۔ 
مسئلہ: رمل کرتے ہوئے بیت اللہ کے قریب چلنا افضل ہے ۔ لیکن اگر قریب ہوکر رمل نہ کرسکتا ہو تو پھر فاصلہ سے رمل کے ساتھ طواف کرنا افضل ہے ۔ محض قریب کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو تکلیف دینا گناہ ہے ۔ اسی طرح بلا رمل بھی مرد کو بیت اللہ کے قریب طواف کرنا افضل ہے ، لیکن اگر قریب ہونے میں دوسروں کو تکلیف ہوتو پھر افضل دور ہی ہے۔
طواف کے پھیروں میں کمی زیادتی کے مسائل
مسئلہ: کسی نے قصدا آٹھ چکر طواف کرلیے تو اس پر واجب ہے کہ چھ چکر اور ملا کر دو طواف پورے کرلے۔ 
مسئلہ: ساتویں چکر کے بعد وہم یا وسوسہ سے آٹھویں چکر کرلیا، تب بھی اس کو دوسرا طواف پورا کرنا لازم ہے۔
مسئلہ: اگر آٹھویں چکر کیا اور یہ گمان تھا کہ ساتواں ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ آٹھواں ہے تو دوسرا طواف پورا کرنا واجب نہیں ۔ 
مسئلہ: اگر طواف رکن یعنی طواف زیارت میں شک ہوجائے تو اس کو دوبارہ کرلے۔ اور اگر طواف فرض یا واجب کے پھیروں کی تعداد میں شبہ ہوجائے تو جس پھیرے میں شک ہو اسی کو لوٹائے۔ 
مسئلہ: طواف سنت اور نفل میں شک ہو تو غلبہ ظن پر عمل کرے ۔ 
مسئلہ: اگر کوئی عادل شخص طواف کرنے والے کے ساتھ ہو اور وہ تعداد پھیروں کی کم بتائے تو اس کے قول پر احتیاطا عمل کرنا مستحب ہے اور اگر دو عادل شخص بتائیں تو ان کے قول پر عمل کرنا واجب ہے۔ 
تنبیہ: مریض اور بیہوش کے طواف کا حکم بیہوش کے احرام میں گذرچکا ہے ۔ 
آخری قسط نمبر 29 کے لیے کلک کریں

16 Aug 2018

tawaf ka bayan

طواف کا بیان

قسط نمبر (27)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

لغت میں کسی چیز کے چاروں طرف چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں اور شریعت میں خانہ کعبہ کے چاروں طرف سات مرتبہ گھومنے کو طواف کہتے ہیں ۔ خانہ کعبہ کو دیکھنا اور اس کا طواف کرنا بڑے ثواب کی بات ہے۔ 
عن بن عباسؓ قال: قال رسولُ اللّٰہ ﷺ ان للّٰہِ فی کل یوم و لیلۃ عشرین و ماءۃ رحمۃ تنزل علیٰ ھذا البیتِ ستون للطائفین ا ربعون للمصلین، و عشرون للناظرین۔ (کذا فی الدر عن ابن عدی والبیہقی و ضعفہ و ھما وحسنہ المندری ، و فی الکنز بالفاظ اٰخر وھو فی المسلسلات للشاہ ولی اللّٰہ الدھلوی)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک سو بیس رحمتیں روزانہ اس گھر پر نازل ہوتی ہیں، جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر اور چالیس نماز پڑھنے والوں پر اور بیس بیت اللہ کو دیکھنے والوں پر ہوتی ہیں ۔
بیت اللہ شریف کا صرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حضرت سعید بن المسیب تابعیؒ فرماتے ہیں کہ جو ایمان و تصدیق کے ساتھ کعبہ کو دیکھے، وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے ، جیسا آج ہی پیدا ہو۔ ابو السائب مدنی کہتے ہیں : جو ایمان و تصدیق کے ساتھ کعبہ کو دیکھے، اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں ، جیسے پتے درخت سے جھڑ جاتے ہیں ۔ اور جو شخص مسجد میں بیٹھ کر بیت اللہ کو صرف دیکھتا رہے، چاہے طواف و نماز نفل نہ پڑھتا ہو، وہ افضل ہے اس شخص سے جو اپنے گھر میں نفلیں پڑھے اور بیت اللہ کو نہ دیکھے۔ حضرت عطا کہتے ہیں کہ بیت اللہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے اور بیت اللہ کو دیکھنے والا ایسا ہے جیسا کہ رات کو جاگنے والا، دن میں روزہ رکھنے والا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے واالا۔ اور حضرت عطا ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ ایک مرتبہ بیت اللہ کو دیکھنا ایک سال کی نفلی عبادت کے برابر ہے۔ (در منثور)۔ 
اور طواف کرنے والوں پر جس قدر رحمتیں نازل ہوتی ہیں، وہ اس حدیث سے ظاہر ہے ، اسی واسطے علما نے لکھا ہے کہ مسجد حرام میں تحیۃ المسجد سے طواف افضل ہے۔ 
عن ابی ھریرۃؓ ان النبی ﷺ قال: من طافَ بالبیت سبعا ولایتکلم الا ب سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الٰہ الا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر، ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ، مُحِیتْ عنہ عشر سیئات و کتب لہ عشر حسنات و رفع لہ عشر درجات، و من طاف فتکلمَ وھو فی تلک الحال خاض فی الرحمۃ برجلیہ کخائض الماء برجلیہ (رواہ ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیت اللہ کا سات پھیرا طواف کرے اور اس میں سبحان اللہ،والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبرکے سواکوئی کلام نہ کرے، تو اس کے دس گناہ مٹیں گے اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے ۔ اور جو شخص طواف کرے ، پھر اس حالت میں کلام کرے تو وہ خدا کی رحمت میں پاؤں سے گھسنے والا ہے ، جیسے کوئی پانی میں دونوں پاؤں سے گھسے۔ 
طواف کرنے کا طریقہ
بیت اللہ کے سامنے جس طرف حجر اسود ہے، اس طرح کھڑا ہو کہ داہنا مونڈھا حجر اسود کے مغربی کنارے کے مقابل ہو اور سارا حجر اسود داہنی طرف رہے ۔ اس کے بعد طواف کی نیت کرکے داہنی طرف کو اتنا ہٹے کہ حجر اسود بالکل مقابل ہوجائے ۔ا ور حجر اسود کی طرف منھ کرکے حجر اسود کے قریب سامنے کھڑا ہوکر دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائے ، جس طرح نماز کے لیے کانوں تک اٹھاتے ہیں ۔ اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰہُ أکْبَرُ، وَ لِلّٰہِ الحَمْدُ وَ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلامُ علیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ الْلّٰھُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَ وَفَاء اً بِِعَھْدِکَ وَ اِتِّباعَاً لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ محمَّدٍ ﷺ ۔
اس کے بعد ہاتھ چھوڑ کر حجر اسود پر آئے اور دونوں ہاتھ حجر اسود پر رکھے اور منھ دونوں کے بیچ میں رکھ کر بوسہ دے؛ لیکن آہستہ آہستہ دے ، چٹاخے کی آواز نہ پیدا ہو۔ اور بعض کے نزدیک یہ بھی مستحب ہے کہ بوسہ دینے کے بعد حجر اسود پر سر رکھے اور اس کے بعد دوسرا بوسہ دے ، پھر سررکھے۔ پھر تیسرا بوسہ دے اور سر رکھے ۔ اس کے بعد داہنی طرف یعنی بیت اللہ کے دروازے کی طرف چلے اور بیت اللہ بائیں مونڈھے کی طرف رہے۔ اور طواف میں حطیم کو بھی شامل کرلے۔ جب طواف کرتا ہوا رکن یمانی (کعبہ کا جنوبی مغربی گوشہ) پر پہنچے، تو اس کا استلام کرے، یعنی دونوں ہاتھ یا صرف داہنا ہاتھ اس کو لگائے ، بوسہ نہ دے اور اس پر پیشانی وغیرہ نہ رکھے۔ پھر جب حجر اسود پر آئے تو حجر اسود کا استلام کرے، جیسا کہ اول مرتبہ کیا تھا، لیکن ہاتھ نہ اٹھائے۔ ہاتھ صرف پہلی مرتبہ اٹھائے جاتے ہیں اور حجر اسود تک پھر آنے کوشوط (ایک چکر) کہتے ہیں ۔ اسی طرح سات چکر پوری کرے۔ (ہدایہ)
اور ساتویں شوط کے بعد آٹھویں مرتبہ پھر حجر اسود کا استلام کرے۔ اب طواف پورا ہوگیا۔ اس کے بعد دو رکعت طواف مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھے ، پہلی رکعت میں قل یا ایہا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھے۔اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے؛ لیکن دعائے آدم علیہ السلام اس مقام پر ماثور ہے۔ وہ یہ ہے:
اللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ سِرِّی و علانِیَتیْ فاقْبِلْ معْذِرَتِی، وَ تَعْلَمُ حاجَتِیْ فاعْطِنِی سُؤلِیْ و تعلَمُ ما فی نفسیْ فاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ، الْلّٰھُمَّ اِنِّی اَسْءَلُکَ اِیْمانَاً یُّبَاشِرُ قَلْبِیْ وَ یَقِیْنَاً صادِقَاً حَتّٰی اَعْلَمُ أنَّہُ لایُصِیْبُنِیْ اِلَّا مَا کَتَبَ لِی و رِضاً بِما قَسَمْتَ لِیْ یا أرْحمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ 
پھر دوگانہ طواف پڑھ کر مستحب ہے کہ چاہ زمزم پر جائے اور آب زمزم پیے اور دعا مانگے اس وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ 
عن جابرؓ یقولُ: سمعتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یقولُ: ماءُ زمزمَ لما شرِبَ لہ (رواہ ابن ماجہ و بسط صاحب الاتحاف فی تخریجہ و قال شیخنا الشاہ الغنی ھذا الحدیث مشھور علیٰ الالسنۃ کثیرا واختلف الحفاظ فیہ، فمنھم من حسنہ و منھم من ضعفہ والمعتمد الاول الخ۔ و قال ابن حجر فی شرح مناسک النووی قد کثر کلام المحدثین فی ھذا الحدیث والذی استقر علیہ امر محققیھم انہ حسن او صحیح و قول الذھبی انہ باطل وابن الجوزی انہ موضوع مردود)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرمارہے تھے کہ زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے، وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے ۔ 
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ اگر تو اس کو پیاس بجھانے کے واسطے پیے تو اس کا کام دے ۔اور اگر کھانے کی جگہ پیٹ بھرنے کے لیے پیے تو اس کا کام دے۔ اور اگر کسی مرض سے صحت کی نیت سے پیے تو اس کا کام دے۔ یہ حضرت جبرئیل کی خدمت ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سبیل ہے۔ (اتحاف)
حضرت عمرؓ نے زمزم کا پانی پیتے ہوئے کہا : یا اللہ! میں قیامت کے دن کی پیاس بجھانے کے لیے پیتا ہوں۔ (کنز)
پانی پی کر ملتزم پر آئے۔ ملتزم حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازہ کے درمیان کی دیوار کو کہتے ہیں۔ ملتزم سے لپٹ کر دعا مانگے، یہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ 
عن ابن عباسؓ یقول: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ ﷺ الملتزمُ موضعٌ یستجاب فیہ الدعاءُ۔ ما دعَا اللّٰہَ فیہ عبدٌ الا استجَابَ بھا۔ (کذا فی المسلسلات للشاہ ولی اللّٰہ الدھلوی و ذکرہ الجزری فی الحصن مجملا)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا: آپ ﷺ فرماتے تھے: ملتزم ایسی جگہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے ۔ کسی بندہ نے وہاں ایسی دعا نہیں کی جو قبول نہ ہوئی ہو۔ 
حضرت ابن عباسؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے اس جگہ کھڑے ہوکر اپنے سینہ اور چہرہ کو دیوار سے چمٹا دیا اور دونوں ہاتھوں کو دیوار پر پھیلادیا اور یہ کہا کہ میں نے اسی طرح حضوراقدس ﷺ کو کرتے دیکھا۔ (ابوداود)
حضرت مولانا زکریاصاحب محدث سہارنپوریؒ فضائل حج میں بیان فرماتے ہیں کہ میرے حضرت نور اللہ مرقدہ سے لے کر حضور ﷺ تک ہر استاذ حدیث سناتے وقت اپنا ذاتی تجربہ یہ بتاتے ہیں کہ میں نے اس جگہ دعا کی اور وہ قبول ہوئی اور اس ناپاک کا بھی یہی ذاتی تجربہ ہے ۔اور بعض کہتے ہیں کہ طواف کے بعد اول ملتزم پر آئے ۔ پھر دوگانہ پڑھے ۔ پھر زمزم پر آئے۔ 
تنبیہات
(۱) جس طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ہو ، اس طواف کے پہلے تین شوط (پھیرے) میں رمل کرے، یعنی اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے ہوئے چلے۔ (ہدایہ)
عن جابرؓ قال: ان رسولَ اللّٰہِ ﷺ لما قدمَ مکۃَ اتیٰ الحجرَ فاستلمَہُ ثم مشیٰ علیٰ یمینہِ فرملَ ثلاثا و مشیٰ اربعا۔ (رواہ مسلم)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو حجر اسود کے پاس آئے ، پھر اس کا استلام کیا ۔ پھر دائیں جانب چلے اور تین شوط میں رمل کیا اور چار شوط میں اپنی چال چلے۔ 
(۲) اور اس طواف میں شروع سے آخر تک چادر کو دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر دونوں چھور کو ڈال لے اور داہنا کندھا کھلا رہنے دے۔ (ہدایہ)
عن یعلی ابن امیۃ قال: ان رسولَ اللّٰہ ﷺ طافَ بالبیتِ مضطجعاً بِبُردٍ اخْضَرَ۔ (رواہ الترمذی و ابو داود وابن ماجہ والدارمی و حسنہ الترمذی)
یعلی ابن امیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سبز چادر سے اضطباع کرتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا۔ 
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک طواف میں اضطباع کرنا۔ دوسری یہ کہ احرام کا کپڑا سفید ہونا ضروری نہیں ، اس لیے کہ حضور ﷺ کی چادر سبز تھی۔ اضطباع کی صورت وہی ہے جو بیان ہوا۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ 
عن ابن عباسؓ ان رسولَ اللّٰہ ﷺ و اصحابَہ اعتمروا من الجعرانۃ فرملوا بالبیت ثلاثا و جعلوا أردِیتَھُمْ تحتَ اِبْطِھِمْ، ثُمَّ قَذَفُوا علیٰ عَوَاتِقِھِمِ الیُسْرَیٰ۔ (رواہ ابو داود)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب نے جعرانہ سے عمرہ کیا تو بیت اللہ کے طواف میں تین شوط میں رمل کیا اور اپنی چادروں کو اپنی بغلوں میں کیں، پھر بائیں کندھوں پر اس کو ڈال لیں۔ 
(۳) طواف کے بعد جو دو رکعت نماز پڑھے اس میں چادر سے دونوں مونڈھوں کو چھپالے، نماز میں اضطباع نہ کرے۔ اضطباع صرف طواف میں ہوتا ہے۔ 
(۴) شروع طواف میں جو ہاتھ اٹھایا جاتا ہے، وہ اس وقت اٹھائے جب حجر اسود کا استبقال کرے اور تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھائے۔ حجر اسود کے استقبال سے پہلے ہاتھ اٹھانا بدعت ہے۔ 
(۵) اکثر طواف کرنے والے حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان میں کھڑے ہوکر نیت کرتے ہیں ، یہ مکروہ ہے ۔ طواف کی نیت کے لیے اس طرح کھڑا ہو کہ داہنا کندھا حجر اسود کے مغربی کنارے کے مقابل میں ہو۔