جمعیت علمائے ہند کے سو سال…… قدم
بہ قدم
1921 ء تیسرا سال
امارت شرعیہ کا قیام، اکابرین جمعیت
کی گرفتاری،فتویٰ ترک موالات کی ضبطی کے خلاف احتجاج،تیسرے اجلاس عام کا انعقاد
امارت
شرعیہ کا قیام
”ہند میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد،مسلمانوں کے مسائل کا شرعی حل
ممکن نہیں رہ گیا تھا، اس لیے عدالتوں میں مسلم جج نہیں رہ گئے تھے اور جو تھے وہ شرعی
نظام کو پیش نظر نہیں رکھتے تھے، اس لیے شرعی درالقضا کا قیام ایک ناگزیر ضرورت تھا،یہ
بھی اللہ کی خاص توفیق کہ اس سلسلہ میں اجتماعی و انفرادی طور پر، حضرت مولانا محمد
سجادؒ کو ہی سبقت اور اولیت حاصل تھی، انھوں نے سب سے پہلے بہار میں دارالقضا قائم
فرمایا۔“ (تذکرہ ابوالمحاسنؒ، ص/252)
”چنانچہ23و24شعبان 1339ھ کو جمعیت علمائے بہار کے اجلاس میں قیام امارت
کی تجویز منظورہوگئی اور انتخاب کے لیے ایک خصوصی اجلاس منعقد کرنا طے پاگیا، مولانا
نے بہار واڑیسہ کے تمام ممتاز علما اور ذمہ داران کے نام ایک مفصل خط لکھا، جس میں
امارت کی اہمیت، شرعی حیثیت اور امیر کے اوصاف بیان کرتے ہوئے جلسہ میں شرکت کی دعوت
دی گئی اور 18و19شوال 1339ھ مطابق 25و26 جون 1921ء کو پتھر کی مسجد پٹنہ میں زیر صدارت
مولانا ابو الکلام آزادؒ یہ اجلاس منعقد ہوا، صد رمجلس استقبالیہ مولانا شاہ حبیب الحق
عمادی(1268ھ 1343ھ)تھے، شاہ بدر الدین پھلوارویؒ سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری
شریف کو امیر شریعت اور مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب ؒ کو نائب امیر شریعت منتخب
کیا گیا۔“ (تذکرہ ابو المحاسن، ص/253)
”25، 26/ جون 1921ء: مولانا ابوالکلام آزاد کی صدارت میں جمعیت علمائے
صوبہ بہار کا ایک جلاس پٹنہ میں ہوا۔ اس میں صوبائی امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا۔
پھلواری شریف کے مولانا شاہ بدر الدین کو امیر شریعت اور مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد
کو نائب امیر شریعت منتخب کیا گیا۔“ (سیاسی ڈائری، ج/ دوم، ص/254)
اکابرین
جمعیت کی گرفتاری
”10/ جولائی 1921ء کومجلس عاملہ جمعیت علمائے ہند کے اجلاس میں جمعیت
علمائے ہند کے اس نقطہ نگاہ کو دوہرا یا گیا، جس میں حکومت برطانیہ سے تعاون کو حرام
کہا گیا تھا، اسی تجویز کی بنا پر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی پر کراچی کا مشہور
مقدمہ چلایا گیا۔ اس تجویز کی تائید کرنے والوں میں مولانا نثار احمد، مولانا محمد
علی، مولانا شوکت علی بھی تھے، اس لیے ان لوگوں پر بھی ایک ساتھ ہی مقدمہ چلایا گیا۔
اس مقدمہ میں ان تمام حضرات کو دو دو سال کی قید بامشقت ہوئی۔“ (تاریخ جمعیت علمائے
ہند، ج/ اول، ص/58)
فتویٰ
ترک موالات کی ضبطی
”8/ اگست 1921ء کو پولیس نے جمعیت علمائے صوبہ دہلی کے دفتر میں چھاپا
مارا اور ترک موالات کا فتویٰ جو پانچ سو علمائے دین کے دستخطوں سے شائع کیا گیا تھا،
ضبط کرلیا۔“ (سیاسی ڈائری، ج/ دوم، ص/258)
جمعیت
علمائے صوبہ دہلی کا اجلاس
”23/ اگست 1921ء: دہلی میں جمعیت علمائے صوبہ دہلی کے زیر اہتمام حضرت
مولانا سید حسین احمد مدنی کے زیر صدارت پٹودی ہاوس میں ایک جلسہ ہوا۔ حضرت مدنی نے
ایک مفصل خطبہ صدارت پیش فرمایا۔ اپنے خطبہ صدارت میں حضرت مولانانے اسلامی ممالک پر
برطانیہ کے مظالم، ان کی عہد شکنیوں او روعدہ خلافیوں اور خلافت اسلامیہ ترکیہ کے خلاف
ریشہ دوانیوں کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔“ (سیاسی ڈائری، ج/دوم، ص/162)
”18/ ستمبر1921ء کو جب حضرت
دیوبند میں حضرت شیخ الہندؒ کے آستانہ پر مقیم تھے، وارنٹ گرفتاری آپہنچا۔“ (شیخ الاسلام
مولانا حسین احمد مدنی، ص/263)
”شیخ الاسلام ؒ کے ساتھ ساتھ ترک موالات کے فتویٰ کی تائید کرنے والے
دوسرے لیڈران: مولانا حافظ احمد سعید ناظم جمعیت علمائے ہند،مولانا محمد علیؒ، ڈاکٹر
سیف الدین کچلوامرتسری، پیر غلام مجدد سندھی، مولانا عبد العزیز انصاری، مولانا لقاء
اللہ عثمانی اورمولانا نثار احمد کانپوری صاحبان کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ (جمعیت علمائے
ہند کی دو سالہ روداد، ص/ 14۔شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، ص/263)
اجلاس
مجلس منتظمہ لکھنو
6ستمبر1921 کو لکھنو میں جمعیت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کا اجلاس
ہوا، جس میں حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کو تیسرے سالانہ اجلاس تک کے لیے مستقل
صدر بنایا گیا۔ پھر تیسرے سالانہ اجلاس میں بھی آپ کی صدارت کی توسیع کردی گئی اور
آپ 1940تک جمعیت علمائے ہند کے مسلسل صدر رہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: حسن حیات، ص53
اور حیات ابوالمحاسن، ص/562)
21/ ستمبر1921ء کو مجلس منتظمہ جمعیت علمائے ہند کا ایک اجلاس دہلی
میں ہوا، اس میں ترک موالات کے فتویٰ کو ضبط کرنے کے خلاف تجویز پاس کی گئی۔ (جمعیۃ
العلماء کیا ہے، ص/ 42)
تیسرا
سالانہ اجلاس اور اس کی تجاویز
18،19،20/ نومبر1921ء کو جمعیت علمائے ہند کا تیسرا سالانہ اجلاس لاہور
میں ہوا، جس کی صدارت امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے کی۔اس میں درج ذیل تجاویز
منظور کی گئیں:
----------- تجویز نمبر-1 -----------
جمعیت
علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ جمعیت کے جس فتوے کو چیف کمشنر
دہلی (کلاڈ الیگزندڈر بارون)کے اعلان مورخہ 13/ جولائی کی بنا پر دہلی میں اور بعض
دیگر صوبوں میں بھی ضبط کیا گیا ہے وہ تمام تر شریعت اسلامیہ کے اُن احکام پر مشتمل
ہے، جو تیرہ سو برس سے اپنی یکساں اور غیر متبدل قطعیت کے ساتھ موجود ہیں اور جن کا
اعتقاد و عمل اور اعلان ہر مسلمان پر فرض اور ضروری ہے۔ بنابریں علمائے اسلام کسی حالت
میں بھی کسی ایسی صورت کو برداشت نہیں کرسکتے جس سے کوئی رکاوٹ ان احکام کی تبلیغ اور
اعلان میں پیدا کی جائے۔ علمائے اسلام احکامِ شرعیہ کی بنا پر مسلمانوں کا فرض قرار
دیتے ہیں کہ ضبطی کی مداخلت سے بے پروا ہوکر بدستور اس فتویٰ کی طباعت و اشاعت و تبلیغ
و دعوت میں مشغول رہیں اور ارکانِ انتظامیہ جمعیت علما کی جانب سے بھی برابر اس کی
تبلیغ و اشاعت جاری رکھی جائے۔
----------- تجویز نمبر-2
-----------
جمعیت
علمائے ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ گورنمنٹ نے مولانا شوکت علی،
مولانا محمد علی، مولانا حسین احمد، پیر غلامی مجدد، ڈاکٹر کچلو اور مولانا نثار احمد
کو خلافت کانفرنس منعقدہ 8/9/10/جولائی1921ء کی جس تجویز کی بنا پر گرفتار کیا ہے وہ
اسلام کے ان قطعی و مسلم احکام میں سے ہے جو تیرہ سو برس سے موجود ہیں اور خود ہندستان
میں بھی ان کا ہمیشہ اعلان ہوتا رہا ہے۔ مسلمان کسی حالت میں بھی ان کے اعلان و دعوت
سے باز نہیں رہ سکتے اور جب تک اسلام باقی ہے اس کے احکام کا اعلان بھی ہوتا رہے گا۔
جمعیت علما تمام مسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ اس امتحان طلب موقع پر ادائے فرض کے لیے
مستعد ہوجائیں اور جہاں تک بھی ممکن ہو، ہر صورت و ہر عنوان سے اس حکم شریعت کا نشر
و اعلان کرکے اعلائے کلمۃ اللہ میں ساعی رہیں۔
----------- تجویز نمبر-3 -----------
جمعیت
علمائے ہند کا یہ جلسہ پولیس اور فوج کی ملازمت کی نسبت اعلان کرتا ہے کہ:
الف: انگریزی گورنمنٹ کی فوجی اور پولیس کی ملازمت
کا حرام ہونا صرف اسی حالت پر مبنی نہیں ہے کہ فعلاً مسلمانوں کا قتل بھی اس وقت درپیش
ہو؛ بلکہ شرعاً اس کے لیے اس قدر کافی ہے کہ انگریزی فوج مسلمان حکومتوں اور آبادیوں
کے قتل کے لیے ظلم و فساد کی تقویت کے لیے، پامالی حقوقِ انسانیت و عدالت کے لیے استعمال
میں لائی جاتی یا لائی جاسکتی ہو۔
ب: مسلمانوں کا کسی غیر مسلم کے ساتھ ہوکر مسلمانوں
سے جنگ کرنا جس سے کفر کی شوکت بڑھتی ہے اور اسلام کی قوت کو صدمہ پہنچتا ہے قطعاً
حرام ہے اور اس صورت کی حرمت متفق علیہ ہے اِس کے جواز کے لیے حیلے ڈھونڈنا (اور مسلمانوں
کی باہمی جنگوں سے استدلال کرنا) کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔
----------- تجویز نمبر-4
-----------
جمعیت
علمائے ہند کا یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ ہندستان کو موجودہ حکومت کے تسلط و استبداد
سے آزاد کرانے کی سعی مسلمانوں کے مذہبی فرائض میں داخل ہے اور اس کے حصول کے لیے تمام
صحیح و مناسب مدلل وسائل کو عمل میں لانا اور آخر تک جدوجہد جاری رکھنا ہمارا مذہبی
نصب العین ہے۔ جمعیت اس کا بھی اعلان کرتی ہے کہ ہندستان کی آزادی کا جو نصب العین
ہمارے سامنے ہے، اس کے لیے اسلامی احکام کی روسے ضروری ہے کہ:
الف: مسلمان اپنی مذہبی و شرعی زندگی میں بالکل خود
مختار اور آزاد ہوں۔
ب: مسلمانوں کے لیے احکام وحدود و تعزیراتِ اسلامیہ
کے اجرا و تنفیذ میں کوئی قوت مانع اور مزاحم نہ ہو۔ جمعیت تسلیم کرتی ہے کہ ہندستان
کی اقوام کے ساتھ متفق ہوکر بہ تحفظ حدود شرعیہ ایسی آزادی ہم حاصل کرسکتے ہیں اور
حاصل کریں گے۔
----------- تجویز نمبر-5
-----------
جمعیت
علمائے ہند کا یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ جلد از جلد تبلیغ کے لیے وفود مرتب کیے جائیں
جو اندرونِ ہند مختلف صوبوں میں خلافتِ اسلامیہ و اعانت غازی مصطفی کمال پاشا و اجرائے
دارالقضا وغیرہ اغراضِ اسلامیہ کا نشر و ابلاغ کریں اور صدر و ناظم جمعیت کو اختیار
دیتا ہے کہ وہ وفود کو ترتیب دے کر روانہ کریں۔
----------- تجویز نمبر-6-----------
جمعیت
علمائے ہند کا یہ اجلاس غازی مصطفی کمال پاشا کی اسلامی خدمات کاصدق دل سے اعتراف کرتا
ہے اور جمعیت علمائے ہند کی جانب سے اِن کی خدمت میں ہدیہئ تہنیت و تبریک پیش کرتا
ہے اور مسلمانانِ ہند کو ان کے اسلامی فرض سے آگاہ کرتا ہے کہ اس وقت اس غازی اسلام
کی امداد و اعانت کرنا افضل ترین عبادت اور جہاد مالی ہے۔
----------- تجویز نمبر-7
-----------
جمعیت
علمائے ہند کا یہ اجلاس مسلمانوں کو یہ حکم شرعی دوبارہ یاد دلاتا ہے جو گذشتہ سال
کے اجلاس جمعیت میں بیان کیا جاچکا ہے کہ موجودہ حالات میں ولایتی مال بالخصوص دلایتی
کپڑے کا استعمال تمام زن و مرد قطعاً چھوڑ دیں۔ جو لوگ اس وقت ولایتی کپڑے خریدتے ہیں
وہ دشمنانِ اسلام کی اعانت کرکے تخریبِ اسلام کے فعل میں شریک ہوتے ہیں۔ جن کے پاس
پہلے سے خریدے ہوئے کپڑے موجود ہیں اِن کو جمعیت مشورہ دیتی ہے کہ سمرنا فنڈ میں دے
دیں اور عام کھلے طور پر استعمال کرنا یقینا قومی فیصلہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل
مواخذہ ہے۔
----------- تجویز نمبر-
8-----------
جمعیت
علمائے ہند کا یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ تنظیم جماعت مسلمین کے لیے ضروری ہے کہ امیر
الہند کا انتخاب کرلیا جائے۔امیر شریعت کے اختیارات و فرائض کے تعین کے لیے ایک سب
کمیٹی بنا دی جائے جو جلد از جلد اس کا مسودہ تیار کرکے جمعیت علما کے اجلاس مجوزہ
دسمبر میں بمقام بدایوں پیش کرے۔ سب کمیٹی کے ارکان یہ ہوں گے:
مولانا
خلیل احمد صاحب،مولانا حبیب الرحمن صاحب،مولانا شبیر احمد صاحب، مولانا عبدالماجد صاحب،
مولانا محمد سجاد صاحب،مولانا محمد ابراہیم صاحب، مولانا محمد فاخر صاحب، مولانا انور
شاہ صاحب، مولانا محمد کفایت اللہ صاحب، مولانا مرتضیٰ حسن صاحب،مولانا عبدالباری صاحب،
مولانا ثناء اللہ صاحب، مولانا سبحان اللہ صاحب، مولانا حمد اللہ صاحب، مولانا محمد
داؤد صاحب۔
----------- تجویز نمبر-9-----------
10/11/دسمبر کو بدایوں میں جمعیت کا ایک عام اجلاس خصوصی منعقد ہو،
جو سب کمیٹی کی رپورٹ پر غور کرنے کے بعد انتخابِ امیر کی کارروائی عمل میں لائے۔
----------- تجویز نمبر-
10-----------
جمعیت
علمائے ہند کا یہ اجلاس اِن افواہوں کی تصدیق کرنے کی اس وقت تک جرأت نہیں کرتا، جب
تک باوثوق ذرائع سے ان کی صحت ثابت نہ ہوجائے، جو موپلوں کے متعلق اخباروں میں شائع
ہوئی ہیں کہ انھوں نے اپنے ہمسایہ ہندو بھائیوں کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں اور بعض ہندوؤں
کو جبراً مسلمان بنایا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ اگر یہ افواہیں سچی ثابت ہوجائیں تو
موپلوں کا یہ فعل اسلامی تعلیم کے خلاف اور قابلِ ملامت ہے۔
----------- تجویز نمبر-11-----------
جمعیت
علمائے ہند کا یہ عام اجلاس تجویز کرتا ہے کہ جمعیت کے محترم صدر حضرت شیخ الہند کی
وفات کے بعد جمعیت کی مجلسِ منتظمہ کے اجلاس منعقدہ 6/ستمبر1921ء لکھنؤ نے جو فیصلہ
کیا تھا کہ نائب صدر مولانا کفایت اللہ صاحب انعقادِ اجلاس تک صدارت کی خدمات انجام
دیں گے۔ اس فیصلہ کو اجلاس منظور کرتا ہے اور آئندہ کے لیے مولانا کفایت اللہ صاحب
کو ہی ایک سال تک صدارت کے لیے منتخب کرتا ہے۔
----------- تجویز نمبر-12-----------
جمعیت
علمائے ہند کا یہ اجلاس اس امر کو کہ مولانا حافظ احمد سعید ناظم جمعیت علمائے ہند
دہلی اور عبدالعزیز صاحب انصاری کو حکومت دہلی نے اور مقتدایان قوم مرید حسین صاحب،
مولانا شوکت علی صاحب، مولانا محمد علی صاحب، مولانا نثار احمد صاحب، پیر غلام مجدد
سندھی، ڈاکٹر کچلووسیٹھ یعقوب حسن صاحب کو حکومت کراچی نے محض مذہبی احکام کے نشر و
تبلیغ کے سلسلہ میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور اس طرح مذہبی احکام کی تبلیغ کو جرم
و بغاوت قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ان کی مذہبی آزادی کے خلاف ایک اعلان جنگ سمجھتا
ہے اور اعلان کرتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنا مذہب اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز ہے اور
کسی عزیز سے عزیز اور محترم سے محترم پیشوا کی گرفتاری و قید سے وہ مرعوب اور مذہبی
احکام کی نشرو تبلیغ سے باز نہیں آسکتے۔
جمعیت
علمائے ہند کا یہ اجلاس اُن گرفتاروں کو ان کی ایمانی جرأت پر مبارکباد دیتا ہے اور
ان کی اسلامی خدمات کا اعتراف کرتا ہے۔ اسی سلسلہ میں صوبہ سرحد کے حکام کے جابرانہ
طرزِ عمل پر اظہارِ نفرت کرتا ہے اور ان دین فروش علما کے قول کو سخت مذموم اور حلافِ
شریعت سمجھتا ہے جو گورنمنٹ کی موالات کا فتویٰ دے کر مخلوق خدا کو گمراہ کررہے ہیں۔
تجاویز پر ایک نظر
تجویز
نمبر2۔ 8/9/10/جولائی 1921ء کو کراچی کے مولوی
مسافرخانہ کے میدان میں آل انڈیا خلافت کانفرنس کا سالانہ اجلاس ہوا۔ 9/ جولائی
1921ء کو شام کی نشست میں ایک تجویز کو مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے پڑھ کر سنایا، جس
کے نتیجے میں اس تجویز میں مذکور تمام اکابرین کو گرفتار کرلیا گیا۔ تجویز کا متن پیش
ہے:
”آل انڈیا خلافت کانفرنس کا یہ جلسہ غازی مصطفیٰ کمال پاشا اور حکومت
انگورہ کو تہہ دل سے ان کی شاندار فتوحات اور بقائے حکومت اسلامیہ کے لیے سرفروشانہ
کوششوں کی کامیابی پر مبارک باد دیتا ہے۔ اور رب العزت کی بارگاہ میں دعا کرتا ہے کہ
وہ جلد سے جلد غیر حکومتوں کی تمام افواج کو سلطنت ترکی کے ہر گوشہ سے خارج کردینے
میں کامیاب ہوں۔ (آمین) اس کے ساتھ یہ جلسہ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ ہر مسلمان پر
انگریزی فوج میں اس وقت نوکر رہنا، بھرتی ہونا یا اس میں دوسروں کو بھرتی کرانا شرعا
قطعی حرام ہے اور مسلمانوں کا بالعموم اور علماکا بالخصوص یہ فرض ہے کہ اس باب میں
شریعت کے احکام فوج کے مسلمانوں تک پہنچادیں۔ علاوہ ازیں یہ جلسہ اس امر کا بھی اعلان
کرتا ہے کہ اگر انگریزی حکومت، حکومت انگورا کے خلاف بالواسطہ علانیہ یا خفیہ طور پر
کوئی جنگی کار روائی کرے گی، تو مسلمانان ہندستان مجبور ہوں گے کہ کانگریس کو اپنی
معیت میں لے کر قانون شکنی شروع کردیں اور آئندہ کانگریس کے سالانہ جلسہ میں جو احمدآباد
میں منعقد ہونا قرار پایا ہے، ہندستان میں ہندستان کی کامل آزادی اور ہندستان میں جمہوری
حکومت کا اعلان کردیں۔“ (کراچی کا تاریخی مقدمہ: مرتبہ مرزا عبد القادر بیگ، ص/18،
و59، تا 70، بحوالہ سیاسی ڈائری، ج/2، ص/256)
تجویز
نمبر5۔
”جمعیت
نے تمام ہندستان میں تبلیغی دورہ کے لیے وفد مرتب کرکے روانہ کرنے کی تجویز سالانہ
عام اجلاس میں منظور کی تھی؛ لیکن سرمایہ اس کا متحمل نہ ہوسکا، اس وجہ سے پورے ہندستان
کا دورہ ملتوی رہا۔ صرف صوبہ پنجاب میں دو وفد روانہ کیے گئے۔ ارکان وفد کے اسما حسب
ذیل ہیں:
رئیس
وفد مولوی عبد الجبار صا، مولوی ذکاء اللہ صاحب، مولوی محمد حنیف صاحب اٹاوی، مولوی
عبد اللہ صاحب۔ اس وفد نے مقامات ذیل میں تبلیغ کی: فیروز پور، لاہور، چنیوٹ، سانگہ،
وزیر آباد، جہلم، روالپنڈی، فتح جھنگ، جالندھر، لدھیانہ، انبالہ۔
ارکان
وفد نمبر2۔ مولوی قاری عبدالحلیم انصاری، مولوی عبد الرحیم پانی پتی۔ مقامات جہاں دورہ
کیا: منٹگمری(موجودہ نام: ساہیوال پاکستان)، پٹن شریف وغیرہ۔…… خود جناب مولانا حافظ
احمد سعید صاحب ناظم جمعیت نے مختلف مقامات کا دورہ فرمایا، جزاہ اللہ خیر الجزاء۔“(جمعیت
علمائے ہند کی دو سالہ روداد بابت 38-1339ء(20،1921ء)، ص/18،19)
تجویز
نمبر6۔
امام
الہند نے جمعیت کے تیسرے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبہ میں کہا تھا کہ
”میں یہ بھی کہے دیتا ہوں کہ اب جب کہ حالات نے پلٹا کھایا، واقعات
نے اپنا ورق اُلٹا اور حضرت غازی مصطفی کمال پاشا کی فوجوں نے یقینا موجودہ جنگ کے
میدان ہی کو؛ نہیں بلکہ وسط ایشیا کے میدان کو ہمیشہ کے لیے فتح کرلیا تو اس کا نتیجہ
یہ ہے کہ ہمارے سامنے بار بار اس طرح کی چیزیں لائی جاتی ہیں اور ظاہرکیا جاتا ہے کہ
آج مسلمانوں کے مطالبات خلافت کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز تھریس اور سمرنا ہے۔“
”ترکی کا ایک صوبہ تھریس ہے…… یہیں پر اگست1922ء میں یونانیوں نے قسطنطنیہ
پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھا تھا، جس کا پردہ غازی مصطفی کمال پاشا نے اپنی شمشیر خاراشگاف
کے نوک سے چاک کردیا۔“ (تحریک خلافت، ص/149)
”گذشتہ چند سالوں میں ایک طرف تو غازی نے اسلامی حکومتوں کا اتحاد قائم
کیا، جس میں ایران، افغانستان، عراق اور مصر شامل ہیں، دوسری طرف1934ء میں ریاستہائے
بلقان سے معاہدہ کیا کہ وہ آئندہ بڑی قوتوں کا آلہ کار نہ بن سکیں۔ بالشوک روس کے ساتھ
دوستانہ مراسم پیدا کیے، مگر بڑی حد تک ترکی کو اشتراکیت کے اصولوں سے محفوظ رکھا۔
اس کے علاوہ دیگر ممالک: فرانس، اٹلی، جرمنی سے دوستانہ معاہدے کیے۔“(اتاترک، غازی
مصطفی کمال پاشا کی مکمل سوانح حیات، مرتبہ: محمد اشفاق علی خاں صاحب بی اے، ص/111)
تجویز
نمبر 7۔
غازی
مصطفی کمال پاشا کی مالی اعانت کے مقصد سے سمرنا(Smyrna)
اور انگورہ (Ankara)
فنڈقائم کیا گیا تھا۔ جس کے لیے جمعیت علمائے ہند نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
”غالبا اس وقت تک دس لاکھ روپیہ فراہم ہوگیا ہے۔ پہلے آخر دسمبر تک
کا زمانہ قرار پایا تھا، اب بہتر ہوگا کہ ایک ماہ کی مدت اور بڑھا دی جائے اور جنوری
کے آخر تک فراہمی کا سلسلہ جاری رہے۔“ (پیغام کلکتہ، 16/ دسمبر 1921، ص/7۔ سیاسی ڈائری،
ج/2، ص/298)
سمرنا،
اناطولیہ ترکی کا ایک قدیم شہر ہے۔ اس کا موجودہ نام اضمیر(Izmir)
ہے۔ اور انگورہ یا انقرہ، ترکی کا دارالحکومت اور استنبول کے بعد ملک کا دوسرا سب سے
بڑا شہر ہے۔ تفصیلات کے لیے آزاد ویکی پیڈیا دیکھیں۔
تجویز
نمبر9 / پر عمل در آمد کرنے کے لیے مقررہ تاریخ پر بدایوں میں ایک اجلاس طے کیا گیا۔
”12،13/ دسمبر1921ء:جمعیت علمائے ہند کے اجلاس لاہور کے مطابق 12،13/
دسمبر1921ء کو بدایوں میں مرکزیہ جمعیت علمائے ہند کے اجلاس میں سب کمیٹی کو مسودہ
پیش کرنا تھا؛ لیکن اس اجلاس کے بارے میں اخبارات کے ذریعے ایسا تاثر دیا گیا اور غلط
فہمی پیدا کردی گئی کہ اجلاس ملتوی ہوگیا ہے۔ نتیجۃ بہت سے ارکان بدایوں نہ پہنچے اور
اجلاس کا کورام پورا نہ ہوا، اس لیے اجلاس ہوا، نہ مسودہ منظور ہوا اور اسی لیے انتخاب
امیر کا مرحلہ بھی پیش نہ آیا۔“ (سیاسی ڈائری، ج/دوم، ص/285)
بدایوں
کا اجلاس
بدایوں
میں اجلاس عام تو نہ ہوسکا، البتہ فرائض و اختیارات امیر شریعت کا مسودہ تیار کرنے
کے لیے جو سب کمیٹی بنائی گئی تھی،اس کی میٹنگ ہوئی۔13/ دسمبر1921ء بعد نماز جمعہ میٹنگ
کا آغاز ہوا، جس میں امیر الہند کے فرائض و اختیارات پر مشتمل ایک مسودہ تیار کیا گیا۔
اسی موقع پر ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد صاحب قدس سرہ نے ”نظام نامہ امیر الشریعۃ
فی الہند“ کے نام سے ایک مستقل مسودہ تیار کیا۔یہ دونوں مسودے یہاں درج کیے جارہے ہیں:
امیر
الہند کے فرائض
دفعہ1- فرائض اسلامیہ کی تعمیل کرانا۔ منہیات شرعیہ سے روکنا،
یعنی احکام شرعیہ کو بقدر استطاعت عملاً نافذ کرنا۔
تشریح
فرائض
اور منہیات اور احکام شرعیہ سے مراد وہ فرائض اور منہیات اور احکام ہیں، جو متفق علیہا
ہوں۔
دفعہ2- اقامت بیوت مال۔
دفعہ3- اقامت محکمہ جات قضا۔
دفعہ4- اقامت نظارۃ اوقاف اسلامیہ۔
دفعہ5- اقامت نظارۃ التبلیغ والارشاد۔
دفعہ6- اقامت نظارۃ منافع عمومیہ۔
دفعہ7- اقامت محکمہئ احتساب۔
نوٹ:
امیر کو ان تمام فرائض میں سے کل یا بعض
کو جاری کرنے یا مقدم مؤخر کرنے کا حسب تفویض جمعیت علمائے ہند اختیار ہوگا۔
اختیارات
امیر الہند
دفعہ8- امیر اپنے فرائض میں سے اُن فرائض کو جن کی تنقیذ
اصولاً جمعیت علمائے ہند اس کے سپرد کرے گی، نافذ کرنے کا مجاز ہوگا۔
دفعہ9- صوبہ جات کے امرائے شریعت اور محاکم شرعیہ کے نظار
و اعلیٰ افسر مقرر کرنے یا معزول کرنے کا اختیار امیر الہند کو ہوگا۔
دفعہ10- امیر الہند بشرکت جماعت انتظامیہ جمعیت
علمائے ہند سالانہ بجٹ تیار کرے گا۔ اس کے موافق خرچ کرنے کا مجاز ہوگا۔
دفعہ11- امیر الہند اپنے تمام اختیارات کو اس مجلس
شوریٰ کے مشورے کے مطابق استعمال کرے گا، جو جمعیت علمائے ہند معین کرے گی۔
دستخط
محمد
کفایت اللہ غفرلہ
محمد سبحان اللہ گورکھپور، فقیر سید محمد
فاخر بے خود محمدی الٰہ آبادی غفرلہ
بندہ محمد مرتضیٰ عفی عنہ۔ امیر کی مدت امارت مقرر ہونی چاہیے۔
(2)
فرائض
و اختیارات کے بعد بغرض سہولت کار سب کمیٹی مناسب سمجھتی ہے کہ امارت شرعیہ کے دیگر
متعلقات کی نسبت بھی اپنے خیالات کا اظہار کردے۔
امیر
الہند کے اوصافِ لازمہ
دفعہ1- امیر الہند کی منزلت شرعیہ امیر الناجیۂ کی ہوگی
اور مسلمانانِ ہند پر ان کی اطاعت لازم ہوگی۔
دفعہ2- علوم شرعیہ بالخصوص تفسیر و حدیث و فقہ میں متبحر
عالم ہو۔
دفعہ3- اعمال و اخلاص کے لحاظ سے امت کے لیے اسوہئ حسنہ
بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
دفعہ4- سیاسیات میں حسب ضرورت وقت واقفیت رکھتا ہو۔
دفعہ5- اس کی انتظامی قابلیت اور ایمانی جرأت کا تجربہ ہوچکا
ہو۔
دفعہ6- ذاتی قابلیت اور اسلامی خدمات کی وجہ سے عوام و خواص
کے اکثر طبقات کی معتد بہ جماعت پر اس کا اثر ہو۔
نصب
و عزل امیر الہند
جمعیت
علمائے ہند کا اجلاس عام ہی امیر الہند کا تقرر و عزل کرسکتا ہے۔
امیر
الہند کی مجلس شوریٰ
جمعیت
علمائے ہند ایک مجلس منتخب کرے گی، جس کے ارکان کی تعداد کم از کم سات ہوگی۔ اور جس
میں پانچ عالم اور دو غیر عالم ماہرین سیاست ہوں گے۔ یہ مجلس امیر الہند کی مجلس شوریٰ
کہلائے گی۔ اور امیر الہند اس کے مشورہ کے مطابق کام کرنے کے پابند ہوں گے۔
(3)
یہ
صرف اصولی طور پر خاکہ مرتب کیا گیا ہے۔ فرعیات کے ابواب جداگانہ جمعیت علمائے ہند
کی ہدایت کے بہ موجب جمعیۃ التشریح مرتب کرے گی۔
مسوّدہ
نظام نامہ امیر الشریعۃ فی الھند
(از حضرت مولانا محمد سجاد صاحب قدس اللہ سرہ العزیز)
تمام
مسلمانان ہند خصوصاً اہل سنت والجماعت کی سیادت و قیادت و تنفیذ و اجرائے احکام شرعیہ
و انتظام و انصرام امور مذہبی کے لیے ایک شخص واحد والی بااختیار (امیر الشریعۃ للہند
ہونا ضروری ہے، جس کا منصب امیر الہند ہوگا اور اس کی تمام مسلمانوں پر پابندیِ اصول
مقررہ پیروی لازم ہوگی اور اس سے انحراف معصیت؛ لیکن اس کے ہر خیال اور ہر عمل کی اتباع
ہر شخص کے لیے ضروری نہیں۔
امیر
کے لیے حسب ذیل صفات کا ہونا لازمی ہے اور یہی صفات اس کے شرائط ہوں گے۔
شرائط
امیر الہند
الف: مسلم، مرد، عاقل، بالغ، آزاد ہو۔
ب: عالم با عمل ہو یعنی کتاب اللہ و سنت رسول اللہﷺ
کے معانی اور حقائق کا معتد بہ علم رکھتا ہو۔ اغراض و مصالح شریعت اسلامیہ و علم الفقہ
وغیرہ سے واقف ہو اور احکام شرعیہ پر عمل کرنا اس کا شیوہ ہو۔
ج: سیاسیات ہند،و سیاست عالم اسلامیہ سے واقفیت
تامہ رکھتا ہو اور حتی الامکان تجربہ سے اکثر صائب الرائے ثابت ہوچکا ہو۔
د: ذاتی قابلیت و وجاہت کی وجہ سے عوام و خواص
کے اکثر طبقات کی ایک معتد بہ جماعت پر اس کا اثر ہو۔
ھ: حق گو، حق شنو، قوی القلب، صاحب عزیمت ہو،
اور اس کی ذات سے مادی طاقتوں سے کسی حال میں مرعوب ہونے کا اور حکومت کافرہ سے سازباز
کرنے کا بظاہر اندیشہ نہ ہو، جس کا اندازہ اس کے گزشتہ و موجودہ زندگی سے کیا جائے
گا۔
و: سیئ الخلق، غلیظ القلب، سریع الغیظ نہ ہو۔
فرائض
امیر الہند
(2)
امیر
الہند حقیقتاً شرعاً نائب خلیفۃ المسلمین ہوگا۔ اس لیے از روئے احکامِ شرع جتنے فرائض
خلیفۃ المسلمین کے ہیں، وہ سب امیر الہند کے ہوں گے اور اس طرح اس کی تفصیل و تجدید
کی کوئی ضرورت نہیں تھی؛ مگر ہندستان کے مسلمانوں کی حدیث النوعیت زندگی اور باہم مختلف
الخیال فرق کا اجتماع حکومت کافرہ کا تسلط غیر مذہبوں کی بحالت بے چارگی ہمسائیگی اس
امر کی مقتضی ہے کہ نظر بحالت موجودہ بغرض حصول مقصود شرعی و سد باب مفاسد و فتن فرائض
امیر الہند اصولاً حسب ذیل امور تک محدود رہیں گے۔
الف: اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے مناسب تدابیر اختیار
کرنا، اور اس کے لیے اصلح و مسائل اسباب مہیا کرنا۔
ب: عالم اسلامی کے داخلی و خارجی تغیرات احوال
کے وقت مذہبی نقطہئ نظر سے بہ مشاورہئ اہل شوریٰ ایسے احکام جاری کرنا، جس سے مسلمانانِ
ہند اور اسلام کا فائدہ متصور ہو اور جس کا مآخذ کتاب و سنت و آثارِ صحابہ کرام و فقہ
ائمہ عظام ہوگا۔
ج: مسلمانان ہند کو (باوجود مذہباً مختلف الخیال
ہونے کے ان کی مذہبی آزادی کو قائم رکھتے ہوئے) متحد رکھنا۔
د: حقوق مسلمین و احکام شرع و وقار اسلام کو
کلیتہً محفوظ رکھتے ہوے بہ نظر تکمیل مقاصد شریعت ہندستان کی دیگر اقوام کے ساتھ صلح
و آشتی کا برتاؤ کرنا۔
ھ: بشرط امکان غیر مسلم مختلف المذاہب جماعتوں
کے ذمہ دار قائم مقاموں سے موافق سنت اسلام تحریری موادعت نامہ مکمل کرنا۔
و: بنا بر اخوت اسلامی و احکام شرع ممالک اسلامیہ
کے ذمہ دار اصحاب کے ساتھ موثق و مستحکم طریقہ پر ارتباط و تعلقات قائم کرنا۔
ز: مسلمانوں کی مذہبی و اخلاقی و تعلیمی و اقتصادی
حالت کے درست ہونے کی کوشش کرنا۔
ح: مسلمانوں کو احکام منصوصہ متفق علیہا پر عمل
کرنے کے لیے مجبور کرنا۔
ط: جن احکام شرع کا نفاذ حکومت کافرہ کی وجہ
سے اس وقت تک مسدود ہے، ان سب کو جاری کرنے کی کوشش کرنا۔
ی: مسلمانوں کے باہمی مذہبی مناظرات تحریری و
تقریری جس سے محض اظہار حق ہو جاری رکھتے ہوئے اس کے ان عنوانوں و کارروائیوں کو روکنا
جن سے نفاق و شقاق بین المسلمین پیدا ہو اور تفریق جماعت ہو۔
یا
نظام
محکمہ شرعیہ قائم کرنا، جس کے مفصلہئ ذیل شعبے ہوں گے اور حسب ضرورت دیگر شعبے قائم
کیے جائیں گے۔
1-
بیت المال المرکزی للہند، جس کے ماتحت صوبہ دار بیت المال ہوگا۔
2-
انفصال خصومات کے لیے محکمہ دار القضاء قائم کرنا۔
3-
نظارت التعلیمات۔
4-
دائرۃ التبلیغ والاشاعت۔
5-
دائرۃ الاحتساب۔
6-
نظارۃ الاوقاف۔
7-
نظارۃ المساجد والائمہ۔
8-
دائرہئ منافع عامہ۔
ب: آزادی ہند و جمہوریت ہند کے قائم ہونے کے بعد
ملکی انتظام میں صدور جمہوریت سے کامل اتحاد و اتفاق کے ساتھ مل کر کام کرنا۔ اور اسلامی
محکمہ شرعیہ کے نظام کو مستقلاً محض مسلمانوں کے اختیار میں رہنے کو جمہوریت سے تسلیم
کرانا۔
اصول
کار
(3)
محکمہئ
امارت میں تین قسم کی مجلسیں ہوں گی:
الف: مجلس دار الخواص، جس کے اندر کم از کم چار ارکان
ہوں گے۔ تین جید عالم متورع مدبر، اور ایک انگریزی داں قابل دین دار۔
ب: مجلس دار العوام جو جمعیت علمائے ہند کے ارکان
منتظمہ و اصحاب الرائے صوبہ ہائے ہندو وزرائے شعبہ ہائے دوائر سے مرکب ہوگی۔
ج: مجلس قوانین جس کے پانچ ارکان ہوں گے۔
(4)
ہر
صوبہ میں ماتحت امیر الہند ایک ایک حاکم شریعت ہوگا، بطریق امیر البلد، امیر الناحیہ،
جس کا لقب امیر صوبہ ہوگا اور اس کے تمام کام بھی انھیں اصولوں پر مبنی ہوں گے، جو
امیر الہند اور اس کے نظام کے متعلق طے پاچکے ہیں،یا آئندہ طے پائیں۔
(5)
نظام
محکمہئ شرعیہ کے ہر شعبہ میں ایک ایک افسر ہوگا، جس کا لقب وزیر (ناظر) ہوگا اور ہر
وزیر کی وزارت اسی شعبہ کی طرف منسوب ہوگی۔
(6)
ارکان
مجلس دار الخواص و مجلس قوانین کو جمعیت علما اپنے اجلاس میں منتخب کرے گی اور ان دونوں
مجلسوں کو اختیار ہوگا کہ حسب اجازت امیرالہند کسی اہل الرائے والعلم کو اپنی مجلس
میں اضافہ کرلیں۔
(7)
جب
تک امرائے صوبہ و وزرا کا تعین نہ ہو، صرف ارکان منتظمہ جمعیت علما، مجلس دار العوام
رہے گی اور جن جن صوبوں میں امرا کا تعین اور وزرا کا تقرر ہوتا جائے گا، دار العوام
کے ارکان میں وہ شامل ہوتے جائیں گے۔
(۸)
تقرر
قضات میں حنفی المذہب کے علاوہ جس علاقہ میں اہل حدیث وغیرہ کی ایک معتد بہ جماعت ہوگی،
وہاں حسب ضرورت اہل حدیث وغیرہ بھی قاضی مقرر کیے جائیں گے۔
طریق
کار
(9)
مجلس
قوانین، شعبہ ہائے محکمہ شرعیہ کے لیے مفصل قواعد و ضوابط مرتب کرے گی۔
(10)
مجلس
قوانین کے مرتب کردہ قوانین مجلس دار العوام میں پیش ہوں گے۔ اور دار العوام کی رائے
ظاہر ہونے کے بعد دار الخواص میں پیش ہوں گے اور وہاں جو فیصلہ ہوگا وہی منظور شدہ
سمجھا جائے گا اور اسی پر عمل درآمد ہوگا۔
(11)
تمام
شعبوں اور تمام قومی ومذہبی کاموں کے مصارف کا متحمل صرف بیت المال ہوگا؛ حتی کہ جمعیت
علما کے مصارف بھی اسی سے ہوں گے۔
(12)
جس
مقام میں دار الامارات شرعیہ للہند ہوگا، امیر الہند و ارکانِ مجلس دار الخواص کا قیام
بھی وہیں رہے گا۔ اور جہاں جہاں حسب ضرورت امیر کی نقل و حرکت ہو، ارکان دار الخواص
اس کے ساتھ ہوں گے۔
اختیارات
(13)
امیر
الہند تمام کام حسب قواعد و اصول مجلس دار الخواص سے مشورہ کر کے انجام دیں گے اور
احکام صادر فرمائیں گے۔ لیکن مہمات امور میں دار العوام سے بھی مشاورہ کے بعد احکام
صادر فرمائیں گے۔
(14)
مجلس
دار الخواص و دارا لعوام کے اندر مسائل شرعیہ کا فیصلہ کثرت رائے سے نہ ہوگا؛ بلکہ
دلائل کے بعد قوت یا ترجیح دلیل کی بنا پر جو فیصلہ ہوگا وہی قول فیصل ہوگا اور حق
فیصلہ صدر مجلس کو ہوگا۔
(15)
انتظامی
قواعد و مصالح کے متعلق بنا بر کثرت آرا صدر مجلس کو حق فیصلہ ہوگا۔
(16)
امیر
الہند کو اختیار ہوگا کہ مجلس دار الخواص کے علاوہ جمعیت علمائے صوبہ وار سے مشورہ
کر کے اس صوبہ کا والی کسی کو مقرر کردے یا مقرر شدہ کو معزول کردے لیکن اگر جمعیت
علمائے صوبہ باتفاق کسی کے عزل سے اختلاف کرے یا کسی کو والی مقرر کرنے کے خلاف ہوتو
اس صورت میں امیر الہند جمعیت علمائے صوبہ کے مشورہ پر عمل کریں گے۔
(17)
شعبہائے
محاکم شرعیہ کے تمام ملازمین کا تقرر و برخواست مجلس دار الخواص سے مشورہ کر کے کلیتہً
امیر الہند اور ان کے نائبین (امرائے صوبہ) کے اختیار میں ہوگا۔
(18)
اگر
کسی مختلف فیہ مسئلہ کے متعلق کلیتہً حکم صادر کرنے کی ضرورت ہو تو مجلس دار العوام
میں کامل گفتگو اور بحث کے بعد امیر الہند باصول نمبر ۴۱/ فیصلہ
کر کے حکم دیں گے۔
(19)
امیر
الہند اگر منصب امارت سے علاحدہ ہونا چاہیے، تو اعلان عزل سے پہلے دار العوام سے مشاورت
ضروری ہوگی۔ اگر دار العوام باتفاق یا بکثرت آرا عدم عزل کی رائے قائم کرے، یا بصورتِ
تعلقات خلافت خلیفہ بھی عزل پر رضامند نہ ہوں، تو امیر کو اپنا ارادہ فسخ کرنا ہوگا۔
(20)
اگر
امیر الہند خود اپنے عزل کا فیصلہ کرے اور دار العوام اس میں متفق ہوجائے (اور خلافت
سے تعلقات قائم نہ ہوں) اور عزل سے پہلے اپنا قائم مقام کسی جامع الشروط کو امیر الہند
نامزد کرنا چاہیں تو یہ اختیار ہوگا؛ مگر جمعیت علما و دار العوام سے مشورہ لینا ضروری
ہوگا۔
حق
انتخاب و نصب و عزل
(21)
امیر
الہند کے انتخاب و نصب و عزل کا حق کلیتہً جمعیت علمائے ہند کو حاصل ہوگا اور اس وقت
تک رہے گا جب تک کہ خلیفۃ المسلمین کلیتہً غیروں کے اثر سے آزاد اور بااقتدار خود مختار
نہ ہو۔
(22)
جس
وقت خلیفۃ المسلمین غیروں کے اثر سے آزاد و بااختیار و اقتدار ہوجائیں گے اور جمعیت
علمائے ہند براہ راست ان سے تعلقات قائم کرلے گی، اس وقت خلیفۃ المسلمین جمعیت علمائے
ہند کے مشورہ سے جس شخص کو نامزد کردیں گے اور اس کے نام سند امارت عطا فرمائیں گے،
وہی شخص امیر الہند ہوگا اور اس صورت میں امیر الہند کا عزل بھی خلیفۃ المسلمین کے
اختیار میں ہوگا۔ جس کو حضرت خلیفۃ المسلمین بہ مشاورہئ جمعیۃ العلماء للہند عمل میں
لائیں گے۔
وجوہ
عزل
(23)
امیر
الہند بوجوہ ذیل معزول یا مستحق عزل ہوگا:
الف: اگر امیر الہند سے خدانخواستہ کفر لواح کا ظہور
ہو (نعوذ باللہ منہ) تو فی الفور معزول ہوگا۔
ب: امیر الہند کے ذاتی اعمال میں اس حد تک تغیر
ہوجائے کہ محارم متفقہ علیہ کا ارتکاب کرنے لگے تو مستحق عزل ہوگا۔ تنبیہ کے بعد بھی
اس سے باز نہ آئے تو اس صورت میں معزول کیا جائے گا۔
ج: اگر امیر الہند کے رویہ و طریق عمل سے فسادِ
دین یا افتراق جماعت مسلمین کا نہایت سخت اندیشہ ہو تو ان صورتوں میں اصلاح نہ ہونے
پر مستحق عزل ہوگا۔
د: اگر امیر الہند اپنے فرائض کے انجام دہی سے
قاصر و عاجز ثابت ہو بہ سبب عدم اہلیت یا بہ سبب غفلت اور اس سے بہتر شخص ملک کے اندر
متصف بجمیع صفات مذکورہ دفعہ نمبر الف یا واؤ موجود ہو، تو اس صورت میں بھی مستحق عزل
ہوگا، بشرطیکہ اس کے عزل میں اثارتِ فتنہ و اختلال جماعت مسلمین کا غالب اندیشہ نہ
ہو۔
ھ: جو اختیارات شریعت اسلامیہ سے امیر کو حاصل
ہیں اگر اس سے تجاوز کرے یا جو طریق کار جماعت علما نے اصولاً اس کے لیے متعین کردیے
ہیں، اُن کی خلاف ورزی خودرائی سے کرے اور بعد تنبیہ بھی اس سے باز نہ آئے تو اس صورت
میں بھی مستحق عزل ہوگا۔
و: اگر امیر الہند خدانخواستہ حکومت کافرہ متسلطہ
سے مرعوب ہوکر یا کسی طمع میں آکر اپنے فرائض کے ادا کرنے میں کوئی کوتاہی کرے یا خلاف
مصالح شریعت و اُمت کوئی کام کرے تو اس صورت میں بھی مستحق عزل ہوگا۔
طریق
عزل
(24)
امیر
الہند منتخب یا نامزد ہونے کے بعد خدانخواستہ عزل کے وجوہات میں سے کوئی وجہ پائی جائے
تو حسب ذیل طریق پر اس کا عزل عمل میں آئے گا:
الف: جس وقت تک امیر الہند کا عزل و نصب کلیتہً مستقلاً
جمعیت علما کے اختیار میں ہے، اس وقت تک جمعیت علما اس کے عزل کا یہ طریق اختیار کرے
گی کہ وہ عزل کے محقق و مبرہن ہونے کے بعد جمعیت علمائے ہند ایک خاص اجلاس کسی مقام
پر منعقد کرے گی اور کامل غور و خوض کے بعد اگر اس کے عزل کا فیصلہ علما کے خاص اجلاس
میں ہو، تو اجلاس عام میں اس کا اعلان کردے گی اور اسی اجلاس میں کسی دوسرے شخص کو
حسب شرائط امیر الہند منتخب کر کے اس کا اعلان کردے گی۔
ب: جس وقت عزل و نصب کا اختیار خلیفۃ المسلمین
کو بہ مشاورت جمعیت علما حاصل ہوگا، تو اس وقت بصورت تحقّق وجوہ عزل بہ مشاورت جمعیت
علما، خلیفۃ المسلمین معزول فرمائیں گے۔
(25)
جس
وقت خلیفۃ المسلمین کو عزل و نصب کا اختیار ہوگا،تو اس صورت میں بغیر وجوہات عزل متذکرہئ
صدر بھی کسی مصلحت یا کسی ضرورت سے خلیفۃ المسلمین معزول کرسکتے ہیں، مگر اس وقت بھی
حضرت خلیفۃ المسلمین کو جمعیت علما للہند سے مشورہ کرلینا مناسب ہوگا۔
انتخاب
یا تقرر امیر
(26)
جس
وقت تک جمعیۃ العلماء کو حق انتخاب امیر کلیتہً حاصل ہے اس وقت تک جمعیت علمائے ہند
انتخاب امیر کے لیے ایک خاص (اسپیشل) اجلاس منعقد کرے گی اور اس اجلاس کی مجلس شوریٰ
میں غور و خوض کے بعد جس شخص کو انتخاب کرے گی، اس کا نام اجلاس عام میں ظاہر کیا جائے
گا اور تمام اراکین جمعیت علما و اعیان جو اس وقت موجود ہوں و دیگر حاضرین کو اسی وقت
بیعت سمع و طاعت کرنی ہوگی۔
(27)
جمعیت
علمائے ہند کی مجلس شوریٰ میں جس شخص کے متعلق اکثر رائیں ہوں گی، وہی شخص منتخب ہوگا
اور اس صورت میں بعد انتخاب اختلاف کرنے والوں پر بھی اس امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا
ضروری ہوگا۔
(28)
اجلاس
انتخاب امیر کا اعلان، تاریخ اجلاس سے کم از کم پندرہ روز قبل ہوگا۔
(29)
جب
جمعیت کا اجلاس عزل امیر پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوگا، تو اس کا اعلان بھی پندرہ
روز قبل ہوگا اور اس وقت اس امر کا بھی اعلان کرنا ضروری ہوگا کہ بشرط فیصلہ عزل امیر
کا جدید انتخاب بھی ہوگا۔
(30)
امیر
الہند از خود معزول ہونے کے پہلے یا مرض الموت میں کسی جامع الشروط کو حسب دفعہ ۰۲/ امیر الہند نامزد کردیں تو وہی شخص امیر الہند
ہوگا۔
(31)
جس
وقت امیر الہند کا عزل، نصب خلیفۃ المسلمین کے اختیار میں ہوگا تو اس وقت جمعیت علما
کے مقرر کردہ امیر الہند کے لیے جمعیت کی سفارش کی درخواست پر خلیفۃ المسلمین سند امارت
مرحمت فرمائیں گے اور جدید تقرری کے وقت (حسب ضرورت) جمعیت علما اپنے اجلاس میں حسب
قاعدہ کسی ایک شخص کو متعین کر کے خلیفۃ المسلمین سے تقرر امیر الہند کی سفارش کرے
گی اور سند آنے پر جمعیت اس کا اعلان کرے گی۔
جمعیت
علما کا منصب
(32)
جمعیت
علما، امارت کی ایک زبردست طاقت ہوگی اس کا طریق عمل بعد انعقاد امارت حسب ذیل ہوگا:
الف: فرامین و احکام امیر پر عمل در آمد کرانے میں
اپنی تمام اجتماعی قوت صرف کرے گی۔
ب: ضروریات دینی و ملکی پر غور کر کے امیر الہند
کے سامنے تجاویز پیش کرتی رہے گی۔
ج: ابواب عبادات و معاملات میں جدید تالیفات کا
سلسلہ بہ زبان عربی اس طرح پر شروع کرے گی کہ ہر باب کے مسائل نمبروار ہوں۔
(جمعیۃ العلماء کیا ہے، صفحات:
از 80، تا93)
امارت شرعیہ کی تاریخ پر ایک نظر
جمعیت علمائے ہند کے دوسرے سالانہ
اجلاس منعقدہ19، 20، و21/ نومبر1920ء دہلی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی
ؒ نے شدید علالت کے باوجود انتخاب امیر کا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہاتھا کہ
”میری چارپائی اٹھا کر جلسہ گاہ لے چلو، میں پہلا شخص ہوں گا، جو امیر
کے ہاتھ پر بیعت کرے گا۔“لیکن برا ہو ہم عصری کی چشمک اور منافست کا کہ غیروں نے نہیں،
بلکہ خود اپنوں نے اس صدائے حیات افزا کو سنی ان سنی کردیا۔“ (اسلام میں امامت و امارت
کا تصور، مولانا حبیب الرحمان قاسمی، ص/ 85)
”قصہ مختصر جب جمعیت علما کے دوسرے اجلاس میں حضرت شیخ الہند ؒ جیسی
عظیم و ہمہ گیر شخصیت کی موجودگی اور ان کی شدید خواہش کے باوجود علمائے ذی مراتب امیر
الہند کے انتخاب پر آمادہ نہیں ہوئے تو مولانا ابوالمحاسن ؒ نے اپنی بصیرت سے اسی وقت
بھانپ لیا کہ امیر الہند کا مسئلہ جلد طے ہونے والا نہیں ہے، اس لیے انھوں نے صوبائی
پیمانے پر نظام امارت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اپنے صوبہ بہار میں اس کی داغ
بیل ڈالنے کی مہم شروع کردی۔ چنانچہ23،24/ شعبان، 1339ھ مطابق 2،3/ مئی 1921ء کو دربھنگہ
کے جمعیت علمائے صوبہ کے اجلاس عام کے موقع پر یہ تجویز منظور کی گئی۔“ (اسلام میں
امامت و امارت کا تصور، مولانا حبیب الرحمان قاسمی، ص/86)
”صوبہ بہار و اڑیسہ (اس وقت اڑیسہ مستقل صوبہ نہیں تھا؛ بلکہ بہار ہی
کا ایک جزو تھا) کے محکمہ شرعیہ کے لیے ایک عالم مقتدر شخص امیر منتخب کیا جائے، جس
کے ہاتھ میں تمام محکمہ شرعیہ کی باگ ڈور ہو۔ اور اس کا ہر حکم مطابق شریعت ہر مسلمان
کے لیے واجب العمل ہو، نیز تمام علما و مشائخ اس کے ہاتھ پر خدمت و حفاظت اسلام کے
لیے بیعت کریں جو سمع و طاعت کی بیعت ہوگی، جو بیعت طریقت سے الگ ایک ضروری اور اہم
چیز ہے۔ جمعیت علما متفقہ طور پر تجویز کرتی ہے کہ انتخاب امیر کے لیے ایک خاص اجلاس
علمائے بہار کا بمقام پٹنہ وسط شوال میں کیا جائے۔“ (تاریخ امارت، ص/58)
”19/ شوال 1339ء (26/ جون1921ء) میں بانکی پور محلہ پتھر کی مسجد میں
بہ غرض انتخاب امیر الشریعۃ علما کا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ اور علما کے اتفاق
سے ہمارے پیرو مرشد مولانا شاہ محمد بدر الدین صاحب نفعنا اللہ والمسلمین ببرکات روحہ
و قدس سرہ، امیر الشریعۃ منتخب ہوئے۔ حاضرین نے نیابۃ مولوی محمد سجاد صاحب مہتمم مدرسہ
انوار العلوم گیا کے ہاتھ پر بیعت امارت کی، جن میں علما کی کثیر تعداد اس کا رخیر
میں سبقت لے گئی۔“ (تذکرہ ابوالمحاسن، ص/ 489)
مولانا
محمد سجاد ؒ ریاستی سطح پر امارت شرعیہ قائم کرنے کے بعد مرکزی سطح پر بھی قیام کی
کوشش کرتے رہے، جس کے نتیجے میں،19/ نومبر1921ء کو لاہور میں منعقد جمعیت علمائے ہند
کے تیسرے سالانہ اجلاس میں امارت شرعیہ فی الہند کی تجویز منظور کی گئی۔ اور امیر الہند
کے فرائض و اختیارات کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک سب کمیٹی بنائی گئی اور امیر الہند
کے انتخاب کے لیے ایک خصوصی اجلاس کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ 13/ دسمبر1921ء کو بدایوں
میں ایک جلسہ کیا گیا۔ لیکن اسی موقع پر مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر اکابرین گرفتار
کر لیے گئے۔ اور دوسری طرف یہ مشہور کردیا گیا کہ بدایوں کا اجلاس ملتوی کردیا گیا
ہے، جس سے مطلوبہ تعداد میں اراکین نہیں پہنچ سکے اور امیر الہند کا انتخاب عمل میں
نہیں آسکا۔
”اس
کے بعد کچھ ایسے حالات پیش آتے رہے کہ اس مشورہ پر جمعیت علمائے ہند کی مجلس منتظمہ
کو غور کرنے کا موقع نہیں ملا، اس بنا پر جمعیت علمائے ہند کے اجلاس اجمیر 3،4،5/ رجب1340ء
(مطابق3-4-5/مارچ 1922ء) میں اس مسئلہ پر غور کیا گیااور یہ تجویز منظور کی گئی کہ:
جمعیت علمائے ہند کے اجلاس منعقدہ لاہور نے طے کر دیا ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کی
تنظیم و اقامت محاکم شرعیہ و بیت المال کے لیے امیر الہند کا انتخاب کیا جائے، چوں
کہ امیر الہند کا انتخاب بظاہر اس وقت تک مشکل ہے، جب تک صوبہ وار امرا منتخب نہ ہوجائیں،
لہٰذا جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ تجویز کرتا ہے کہ جلد امرائے صوبہ کا انتخاب عمل
میں آئے اور ہر صوبہ کی جمعیت کو توجہ دلاتا ہے کہ جلد از جلد اس غرض کے لیے جمعیت
صوبہ کے عام اجلاس کر کے اپنے صوبہ کے واسطے امیر الشریعۃ انتخاب کرلے۔انتخاب امیر
سے قبل اس کے فرائض و اختیارات و قواعد مرتب کر کے جمعیت علمائے ہند سے منظور کرا لیے
جائیں۔“ (تاریخ امارت، ص/55،مولانا عبد الصمد رحمانی۔ ایک تاریخی دستاویز، جمعیت و
امارت تاریخ کے آئینہ میں، ص/3)
بعد
ازاں 7،8،9/ جون 1940ء،کو جمعیت علمائے ہند کے بارھویں سالانہ اجلاس میں بھی مرکزی
سطح پر انتخاب امیر کا مسئلہ درپیش ہوا اور جس میں حسب ذیل تجویز پاس کی گئی:
”جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس ہندستان میں مسلمانوں کی مذہبی ترقی
اور اقتصادی اصلاح اور ہر نوع کی فوزو فلاح کے لیے ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیم
کے ماتحت اپنا امیر منتخب کرکے اس کے ہاتھ پر سمع و طاعت کی بیعت کریں۔ یہ ایک اہم
فریضہ ہے جس کی طرف جمعیت علمائے ہند 1921ء سے مسلمانوں کو توجہ دلارہی ہے اور اس کے
ایک مخصوص اجلاس منعقدہ بدایوں میں تشکیل امارتِ شرعیہ کا ابتدائی خاکہ بھی مرتب کرکے
شائع کیا گیا تھا۔“(جمعیت العلما کیا ہے، ج/2،ص/214)
جمعیت
علمائے ہند کی ان تجاویز کے باوجود مرکزی سطح پر امارت کا قیام نہ ہوسکا۔ ناظم جمعیت
علمائے ہند مولانا احمد سعید صاحب نور اللہ مرقدہ اس کی وجہ تحریر فرماتے ہیں کہ
”اگر علما میں مداہنت و منافست نہ ہوتی اور صوفیا میں ارباب من دون
اللہ بننے کا شوق نہ ہوتا، تو آج تمام ہندستان ایک شرعی امیر کے تحت زندگی بسر کر رہا
ہوتا اور اسلام کی حقیقی برکات سے متمتع ہوتا، ان کی روح حکومت کی غلامی سے آزاد ہوتی،
اگرچہ جسم غلامی میں مقید ہوتا۔“ (حیات سجاد، ص/107)
وہ
منافست کیا تھی؟
”دوسری طرف حضرت شیخ الہند کے نزدیک امیر الہند کے لیے مولانا آزاد
کا نام موزوں تھا۔ جب اس وقت بعض اشخاص کی طرف سے حضرت شیخ الہند کا نام برائے امیر
الہند پیش کیا گیا تو حضرت شیخ الہند، مولانا آزاد کے حق میں امام الہند کی دعویداری
سے دست بردار ہوگئے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مولانا آزاد نے ہمیں بھولا ہواسبق یاد دلایا
ہے اور ہم قاعد تھے اور مولانا آزاد قائم تھے؛ لیکن مولانا آزاد کا اصل مقابلہ مولانا
عبد الباری فرنگی محلی سے تھاجو نوجوانوں اور رئیسوں کے پیرو مرشد تھے۔ ان کا مقابلہ
بہت سخت تھا، جس کا ذکر مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی نے اپنی کتاب ذکر آزاد میں کیا
ہے۔“ (تذکرہ ابوالمحاسن، ص/536)۔ تفصیلات کے لیے دیکھیں؛ ذکر آزاد: از ص/24: بعنوان:امامت
کے امید وار۔
امیر
شریعت ثانی کا انتخاب
ادھر ریاستی سطح پر امیر شریعت
اول مولانا شاہ بدر الدین کے انتقال کے بعد،19/ صفر1343 ھ (19/ ستمبر1924ء) کو منعقد
جمعیت علمائے بہار کی مجلس منتظمہ میں امیر شریعت ثانی کے انتخاب کے لیے 8، و 9/ ربیع
الاول1343ھ (مطابق 7/ اکتوبر1924ء) کو پھلواری شریف پٹنہ میں ایک اجلاس عام کرنے کا
فیصلہ کیا۔ چنانچہ انتخاب امیر کے اس جلسہ میں:
”تقریبا ڈیڑھ سو علما کے اسما پیش کیے گئے کہ وہ امیر شریعت کو منتخب
کریں۔ چنانچہ انتخاب کنندگان کی مجلس 3/ بجے دن سے منعقد ہوئی اور عشا تک ہوتی رہی
اور حضرت مولانا شاہ محی الدین صاحب امیر شریعت ثانی منتخب کیے گئے۔“ (جمعیت و امارت
تاریخ کے آئینہ میں، ص/7)
امیر
شریعت ثالث کا انتخاب
”26، 27/ جون1947ء کو ڈھاکہ ضلع چمپارن میں جمعیت علمائے صوبہ بہار
کا عظیم الشان اجلاس عام ہوا۔ مولانا محمد میاں صاحب ناظم جمعیت علمائے ہند نے اجلاس
عام کی صدارت کی۔ خطبہ استقبالیہ و خطبہ صدارت کے علاوہ مزید تقریریں ہوئیں۔ 27/ جون 1947ء کو 8/ بجے صبح سے مجلس منتظمہ جمعیت علمائے
بہار کا اجلاس عام ہوا۔ تین گھنٹے کے کامل آزادانہ غوروفکر کے بعد حضرت مولانا شاہ
قمر الدین صاحب کو ارباب حل و عقد اور مجلس منتظمہ کے ارکان و مدعوین نے باتفاق صوبہ
کا امیر شریعت منتخب کرلیا۔“ (جمعیت و امارت تاریخ کے آئینہ میں، ص/8)
امیر
شریعت رابع کا انتخاب
”24/ مارچ 1957ء کو سوپول ضلع دربھنگہ میں ارکان جمعیت علمائے بہاراور
ارکان شوریٰ امارت شرعیہ کا اجتماع مولانا ریاض احمد صاحب کی صدارت میں ہوا۔ مجلس نے
بحث و تمحیص کے بعد مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کا نام امیر شریعت کے لیے منتخب
کیا۔“ (جمعیت و امارت تاریخ کے آئینہ میں، ص/9)
امیر
شریعت کاانتخاب جمعیت علمائے بہار کی مجلس منتظمہ، یا پھر اس کے ساتھ ساتھ ارکان شوریٰ
امارت شرعیہ کے مشترکہ اجلاس کرتا تھا۔ چنانچہ چوتھے امیر شریعت کے انتقال کے بعد جمعیت
علمائے صوبہ بہار کے صدر مولانا سید شاہ عون احمد قادری کے حکم پر ناظم اعلیٰ جمعیت
علمائے بہار مولانا ازہر صاحب رانچوی نے 24/ اپریل 1991ء کو جمعیت علمائے بہار کی مجلس
منتظمہ کا اجلاس طلب کیا۔ ادھر دوسری طرف اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا نظام الدین
صاحب نے انتخاب امیر کے لیے 31/ مارچ1991ء کو امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب
کرلیا گیا۔ جمعیت علمائے بہار کی طرف سے اجلاس طلب کرنے کے باوجود ناظم امارت شرعیہ
کی طرف سے دوسرا اجلاس طلب کرنے کے پیچھے شکوہ یہ تھا کہ جمعیت نے امارت شرعیہ سے مشورہ
نہیں کیا۔ بہر کیف بعد میں 30/ مارچ 1991ء کو دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوکر دونوں
نے اپنے اپنے اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پھر کچھ وجوہات کی بنا پر اتفاق
پیدا نہیں ہوسکا۔ اور امارت شرعیہ والوں نے جمعیت علمائے بہار کو اپنے اعتماد میں لیے
بغیر31/ مارچ 1991ء کو امیر شریعت خامس کو منتخب کرلیا۔ اس کے بعد جمعیت علمائے بہار،
امیر شریعت کے انتخاب سے بالکل علاحدہ ہوگئی۔ پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبد الرحمان
ؒ کے بعد یکم نومبر 1998ء کو مولانا نظام الدین صاحب کو چھٹا امیر بنایا گیا۔ سردست
مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ساتویں امیر شریعت ہیں۔ جن کا انتخاب19/ نومبر2015ء کو
ارریہ کے ایک اجلاس میں کیا گیا۔
امیر
الہند کا انتخاب
جمعیت
علمائے ہند نے ایک طویل خاموشی کے بعد بالآخر امیر الہند کے انتخاب کا فیصلہ کیا۔ اور
معاصرین علمائے کرام کی رائے جاننے اور ان سے تبادلہ خیالات کرنے کے لیے مولانا محمد
اسرارالحق قاسمی ؒ نے سات صوبوں کا دورہ کیا اور پھر 2/ نومبر1986ء کو نئی دہلی میں
انتخاب امیر کے لیے ایک نمائندہ اجتماع کیا گیا، جس میں چودہ صوبوں کے تین ہزار سے
زائد علمائے کرام نے شرکت کی۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیں: اسلام میں امامت و امارت کا
تصور، ص89، تا 92)
”صدر جمعیت علمائے ہند مولانا سید اسعد مدنی نے امیر الہند کے منصب
کے لیے محدث اعظم مولانا حبیب الرحمان اعظمی کا نام نامی پیش کیا۔ اور اجتماع نے اتفاق
رائے سے ان کو امیر الہند منتخب کرلیا۔ مولانا شاہ عون احمد قادری نے نائب امیر الہند
کے منصب کے لیے مولانا اسعد مدنی کا نام پیش کیا۔ تمام شرکا نے باتفاق ان کو نائب امیر
الہند منتخب کرلیا۔“(امیر الہند اور نائب امیر الہند کا انتخاب، ص/ 4،5: مرتب: مولانا
محمد اسرارالحق قاسمی ؒ)
بعد
ازاں 9/ مئی 1992ء کو دہلی میں منعقد ایک اجتماع میں فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی
صاحب کو امیر الہند ثانی منتخب کیا گیا۔ ان کے انتقال کے بعد 27/فروری2006ء کو مولانا
مرغوب الرحمان صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کو تیسرے امیر الہند، اور پھر ان کے انتقال
کے بعد 30/ ستمبر2010ء میں مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری صدر جمعیت علمائے
ہند کو چوتھا امیر الہند بنا یا گیا، جو تا دم تحریرامیر الہند ہیں۔
تجویز
نمبر 10کا پس منظر یہ ہے کہ
”21/ اگست 1921ء: جنوبی ہند مالابار کے (جو فی الحال کیرالا کہلاتا
ہے) موپلے مسلمانوں نے تحریک خلافت کی حمایت اور فتویٰ کی تبلیغ میں حکومت کے خلاف
ہتھیار اٹھالیے اور انگریزوں کی مسلسل زیادتیوں اور اہانتوں کا ترکی جواب دینا شروع
کردیا۔ اور یہ سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا۔“ (حسرت موہانی ایک سیاسی ڈائری، / 103)
”21/ اگست 1921ء کو مالابار میں مارشل لا ء لگادیا گیا۔ پوکو ٹور کے
مقام پر دس ہزار موپلے جمع تھے۔ ان میں سے پانچ صد پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔
…… حکومت نے غلط فہمیاں پھیلانے کے لیے اسے فرقہ وارانہ فسادات کی شکل دینے کی بہت
کوشش کی۔“ (سیاسی ڈائری، ج/ دوم، ص/261)
حکومت
نے یہی غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں نے ہندووں کو جبرا مسلمان بنانے کی
کوشش کی ہے، جس کے پیش نظر جمعیت علمائے ہند نے یہ تجویز پیش کی۔
خدمات
پر ایک نظر
مولانا
ابو عامر عبد الحلیم صدیقی صاحب قائم مقام ناظم جمعیت علمائے ہند اس کے ابتدائی دو
سالہ خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”جمعیت نے اپنی چھوٹی سی عمر میں مذہب و ملک کے لیے جو مفید کام کیے
ان کا مختصر خاکہ یہ ہے:
1- مختلف الخیال والعقائد
علما کو مشترک اغراض اسلامیہ میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دینا،جو بارہا کے تجربہ کی
رو سے نہ صرف مشکل؛ بلکہ عادتاً محال معلوم ہوتا تھا۔
2- مذہبی احساس قوم میں
پیدا کیا اور تقلید یورپ سے نکال کر مذہب کے اتباع کی طرف مائل کر دیا جو عام طور پر
مشاہدہ ہو رہا ہے۔
3- مذہب اور علما کا وقار
قائم کیا، جس کی وجہ سے اتباعِ مذہب کی جانب عملا رغبت اور میلان ہوگیا۔
4- ملکی سیاست کومذہب
کے دائرہ کے اندر محدود کر دیا اور مذہب سے ناواقف ماہرین سیاست کے اعمال و افعال کی
اصلاح کی۔
5- یورپ کی مسلم کش پالیسی
سے مسلمانوں کو واقف کیا اور اس کا کلّہ بکلّہ جواب دیا۔
6- مذہب و ملک کی نجات
کے اسباب پر غور کیا اور ان کو عمل کے ذریعے سے وجود میں لانے کی کوشش کی۔
7- مفید قوم و ملک تجاویز
کی تبلیغ و اشاعت کی۔
8- بیرونِ ہند کے مسلمان
بھائیوں کے مذہبی حقوق کی حفاظت کے لیے کافی جدوجہد کی۔
9- خلافت کمیٹی اور کانگریس
کے صحیح اصول سے مسلمانوں کو واقف کر کے ان کی امداد و شرکت کی ترغیب دی، جس کی وجہ
سے ان دونوں مجلسوں کی جانب سے جو اجنبیت تھی وہ جاتی رہی۔
10- متفقہ فتوے کی ضبطی کو
مذہب کی توہین قرار دیتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کی اجازت دی، جس کی تعمیل میں تمام ہندستان
نے حصہ لیا۔ اور بالخصوص دہلی کے تمام محلوں کے مسلمانوں نے اپنی ذمہ داری پر اپنے
اپنے نام سے بے شمار تعداد میں اس فتوے کو شائع کیا۔
غرض
یہ اور اسی جیسے اور بھی کارنامے ہیں، جو جمعیت علمائے ہند کے قیام کے شیریں ثمرات
ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ ترک موالات اور سودیشی کی تحریک مسلمانوں میں عام مقبولیت اس وقت
تک حاصل نہ کرسکی،جب تک جمعیت علمائے ہند نے مذہبی طریقہ سے ان کا فیصلہ نہ کر دیا۔
جمعیت کی آواز بلند ہوتے ہی تمام مسلمان لبیک کہہ کر عمل کے لیے تیار ہوگئے۔(جمعیت
علمائے ہند کی دو سالہ روداد، بابت38،1339ھ مطابق 19، 1920) ص/20،21۔ جمعیت علما کیا
ہے،ج/2، ص/43، 45)
جمعیت
علمائے ہند انگریز حکومت کی نظر میں
”8/ اگست 1921ء کو متفقہ فتویٰ اور اس کا خلاصہ گورنمنٹ نے ضبط کرلیا
اور وسط ستمبر 1921ء کو رہنمایانِ ملک وملت کو مختلف مقامات سے گرفتار کر کے اسی فوج
پولیس والی تجویز کی تحریک یا تائید کے جرم میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور دو دو سال
قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ فیصلہ میں اور اس سے قبل شیشن جج نے متفقہ فتویٰ کو نام نہاد
علما کا فتویٰ کہا ہے اور جیوری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملزموں کے مذہبی جذبات و
عقائد کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ ”یہ اندرون ہند اسلام نوازی ہے۔“
اس
تمام کارروائی سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ دراصل موجودہ اضطراب و بے چینی کا اصلی باعث
نام نہاد علما کی سازشی جماعت (جمعیت علمائے ہند) ہے، جو خفیہ سازشیں نہیں عظیم الشان
جلسے طلب کر کے بڑے بڑے پنڈالوں میں کھلم کھلا سازش کرتی ہے۔ حکومت کی اس سند کے بعد
تحریکات کی کامیابی کو اگر جمعیت اپنی ناچیز خدمات میں شمار کرے تو حق بجانب سمجھنا
چاہیے۔“ (جمعیت علمائے ہند کی دو سالہ روداد، بابت38،1339ھ مطابق 19، 1920) ص/13،
14)
خلاصہ1921ء
کفرستان
ہند میں شرعی مسائل کے حل اور ایک امیر کے ما تحت اسلامی زندگی گذارنے کے لیے 25،26/
جون1921ء کو پتھر کی مسجد پٹنہ بہار میں امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت شاہ
بدر الدین صاحب پھلواریؒ کو امیر شریعت اور اس فکر کے عملی بانی مبانی حضرت مولانا
ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب ؒ کو نائب امیر منتخب کیا گیا۔10/ جولائی1921ء کو مجلس عاملہ
جمعیت علمائے ہند کے اجلاس میں ترک موالات کے نقطہ نگاہ کو دہرایا گیاجس کی پاداش میں
اکابرین جمعیت کو گرفتار کرلیا گیا۔ 8/ اگست 1921ء کو پولیس نے جمعیت علمائے صوبہ دہلی
کے دفتر میں چھاپا مارکر فتویٰ ترک موالات کو ضبط کرلیا۔23/ اگست 1921ء کو جمعیت علمائے
صوبہ دہلی نے عظیم الشان اجلاس کیا، جس میں انگریزوں کی مکاریوں اور ریشہ دوانیوں سے
عوام الناس کو روشناس کرایا۔ 21/ستمبر1921ء کو دہلی میں جمعیت علمائے ہند کا ایک اجلاس
ہوا، جس میں فتویٰ ضبطی کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا۔ 18،19،20/ نومبر1921ء کو لاہور
میں تیسرا سالانہ اجلاس عام کیا گیا، جس میں دیگر تجاویز کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے
ذریعہ موپلے مسلمانوں کے متعلق لوگوں کو جبرا مسلمان بنانے کی افواہ کی سازش سے پردہ
اٹھایا، کیوں کہ حکومت اسے ہندو مسلم فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتی تھی۔ جمعیت نے خلافت
اسلامیہ اور غازی مصطفی کمال پاشا کے تعاون کے لیے اندرون ہند تبلیغی وفود بھیجے اور
سمرنا و انگورہ فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔13/ دسمبر1921ء کو بدایوں میں منعقد اجلاس
میں امیر الہند کے اختیارات و فرائض کا مسودہ پیش کیا گیا۔ اس اجلاس کے ملتوی ہونے
کی افواہ کی وجہ سے کورم پورا نہ ہونے اور اس سے قبل اکابرین کی گرفتاری ہوجانے کی
وجہ سے کل ہند سطح پر امیر کا انتخاب نہ ہوسکا۔مجموعی اعتبار سے مختلف المسالک علما
کو متحد، قوم میں مذہبی احساس بیدار، مذہب و سیاست میں ہم آہنگی، بیرون ہند مسلمانوں
کے مذہبی حقوق کے تحفظ،مسلمانوں کو خلافت کمیٹی اور کانگریس کی امدادو شرکت کی ترغیب
اور ان جیسے بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے۔