19 May 2018

قسط نمبر (7) مرض اور عیادت مریض کا بیان

مرض اور عیادت مریض کا بیان

قسط نمبر (7) 
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

بیماری کیا ہے؟ یہ مسلمان کے لیے ایک بڑی نعمت ہے ۔ یہ کوئی معمولی نعمت نہیں ہے، جو سب کو ملے۔ یہ دولت خدا کے خاص بندوں کو ہی ملتی ہے ۔ جس کا رتبہ جس قدر بلند ہوتا ہے، اس کے مطابق اس کو دکھ تکلیف پہنچائی جاتی ہے ۔ ؂
زمانہ رنج دیتا ہے بقدر حال انساں کو 
گدا کو فکر ناں اندیشۂ عالم ہے سلطاں کو
سب سے بڑا مرتبہ سرکار دوجہاں احمد مجتبیٰ محمد مصظفیٰ ﷺ کا ہے، تو آپ کو ایذائیں بھی اسی طرح سب سے زیادہ پہنچائی گئیں۔ چنانچہ پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جس قدر مجھے دین کے بارے میں تکلیفیں پہنچائی گئیں ہیں، اتنی تکلیفیں کسی کو نہیں پہنچائی گئی ہیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ سے پوچھا کہ 
أیُّ النَّاسِ أشَدُّبَلاءً؟
سب سے شدید ترین بلا کس پر آئی؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ فَیُبْتَلَیٰ الرَّجُلُ عَلیٰ حَسَبِ دِیْنِہِ فَإِنْ کَانَ دِیْنُہُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلاؤُہُ، وَإِنْ کَانَ فِي دِیْنِہِ رِقَّۃٌ ھَوَّنَ عَلَیْہِ فَمَا زَالَ کَذٰالِکَ حَتّٰی یَمْشِیْ عَلَیٰ الْأرْضِ مَا لَہُ ذَنْبٌ۔
(رواہ الترمذی، و قال ھذا حدیث حسن صحیح، رواہ ابن ماجہ والدارمی)
یعنی پیغمبر پر ، پھر جو ان کے مثل ہیں، پھر جو ان کے مثل ہیں۔ انسان اپنے دین کے مطابق مصائب میں مبتلا ہوتا ہے ۔ پس اگر وہ اپنے دین میں سخت ہے، تو اس پر بلاء بھی سخت ہے اور اگر وہ دین میں نرم ہے، تو اس پر مصائب بھی آسا ن ہیں۔ اور وہ برابر اسی طرح مصائب پر رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ بے گناہ زمین پر چلنے لگتا ہے ۔
اس لیے ہم کو چاہیے کہ بلاؤں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کریں۔ اور چہرہ مہرہ پر شکن نہ آنے دیں۔ اور یہ سمجھیں کہ ہم خدا کے محبوب بندے ہیں ، جب ہی تو یہ مصائب آئے ہیں ۔ خدا ہم کو بہت بڑے ثواب کا حق دار بنانا چاہتا ہے۔ پھر ہم ان بلاؤں پر کیوں نہ صبر کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
إنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاء وَإنَّ الْلّٰہَ إذَا أحَبَّ قَوْمَاً ابْتَلاہُمْ فَمَنْ رَضِيَ فَلَہُ الرَّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَہُ السُّخْطُ۔
(ترمذی، وابن ماجہ)
بڑی مصیبت کے ساتھ بڑا ثواب ہے۔ لا ریب جب اللہ جل شانہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کومصیبت میں مبتلا کرتا ہے ۔ پس جو شخص خوش رہا اس کے لیے خدا کی رضا مندی ہے ، اور جو ناخوش ہوا اس کے لیے خدا کی ناراضگی ہے۔ ؂
شکوہ اچھا ہے کسی سے نہ شکایت اچھی 
صبر کی خو ہے بھلی، شکر کی عادت اچھی
اس لیے ہم کو مقدورات الٰہی پر راضی ہونا چاہیے ۔ اور یہ سوچنا چاہیے کہ شاید اللہ نے ہمارے لیے عظیم الشان مرتبہ مقدر کر رکھا ہے اور ہم اس کو اپنے عمل سے حاصل نہیں کرسکتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ اس دکھ اور تکلیف کے ساتھ ہم کو اس بلندی پر پہنچانا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَہُُ مِنَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃٌ، لَمْ یَبْلُغْھَا بِعَمَلِہِ، ابْتَلَاہ اللَّہُ فِيْ جَسَدِہِِ، أَوْ فِي مَالِہِ، أَوْ فِيْ وَلَدِہِ،ثُمَّ صَبَّرَہُ عَلَیٰ ذَلِکَ، حَتَّیٰ یُبْلِغَہُ الْمَنْزِلَۃَ الَّتِي سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللَّہِ تَعَالَیٰ۔ ( رواہ احمد و ابو داود)
بے شک بندہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی سے کوئی ایسا مرتبہ مقدر ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم میں، یا اس کے مال میں آفت ڈالتا ہے ۔ پھر اس پر صبر دلاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے پہلے سے مقدر کر رکھا ہے۔ ؂
مقام شکر ہے غافل مصیبت دنیا
اسی بہانے سے رتبہ بلند ہوتا ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجر کا انحصار صبر پر ہے ۔ اگر ہم نے صبر کے حصول میں کامیابی حاصل کرلی، تو ہم بے شمار اجر کے حق دار ہوں گے ، جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآ ن میں وعدہ فرمایا ہے ۔ سورہ زمر میں ہے رکوع ۲ میں ہے کہ 
انَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
(آیۃ: ۱۰)
بلاشبہ صبر کرنے والوں ہی کو اجر بے شمار ملے گا۔
اس بے شمار اجرکو دیکھ کر دنیا میں آرام و چین سے زندگی گذارنے والے کہیں گے : ائے کاش! ہماری کھال قینچیوں سے کاٹی جاتی ، تو ہم بھی اس اجر کے حق دار ہوتے۔ (ترمذی)
پھر ہم آج اس دکھ تکلیف پر حرف شکایت کیوں لائیں اور اس نعمت عظمیٰ کی بے قدری کیوں کریں؟ سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ہر طرح کی بھلائی کا ارادہ کیا اور ہم کو اسی دنیا میں پاک صاف کر رہا ہے ، تاکہ دوزخ کی بھٹی میں ہم کو تپانے کی نوبت نہ آئے اور اس معمولی تکلیف کے بہانے اس بڑی مصیبت سے بچ جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: 
إِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدِہِ الْخَیْرَ عَجَّلَ لَہُ الْعُقُوْبَۃَ فِي الدُّنْیَا وَإِذَا أَرَادَ الْلَّہُ بِعَبْدِہِ الشَّرَّ أَمْسَکَ عَنْہُ بِذَنْبِہِ حَتَّیٰ یُوَافِيَ بِہِ یَوْمَ الْقِیامَۃِ۔ (ترمذی)
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے ، تو اس کو دنیا میں جلدی سے عذاب دے دیتا ہے ۔ اور جب اپنے بندہ کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھتا ہے، تو اس گناہ کی سزا اس سے روک لیتا ہے ، تاکہ قیامت کے دن اس کو پوری سزا دی جائے۔
قربان جائیے ارحم الراحمین پر ، وہ ہماری تطہیر کا ارادہ رکھتا ہے اور ہم نادان بچے کی طرح واویلا مچاتے ہیں ، روتے ہیں، چیختے ہیں، چلاتے ہیں۔ ہائے افسوس! یہ تھوڑی سی تکلیف برداشت نہیں ہوتی، تو دوزخ کا عذاب کیسے برداشت ہوگا۔ اس لیے ہمیں شوق سے یہیں پاک صاف ہوجانا چاہیے۔اور اپنی مغفرت حاصل کرلینی چاہیے۔ اور اس کی صورت یہی ہے کہ ہر آنے والی مصیبت پر صبر کریں اور خندہ پیشانی سے اس کا مقابلہ کریں۔ اسی میں ہماری مغفرت پوشیدہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پاک پروردگار فرماتا ہے کہ میری عزت و جلال کی قسم ! میں دنیا سے کسی کو نہیں نکالوں گا ، جس کی مجھے مغفرت کرنی ہے، یہاں تک کہ میں ان تمام گناہوں کا بدلہ نہ لے لوں، جو اس کی گردن پر ہے۔ اس کے بدن میں بیماری کے ذریعے سے، یا اس کی روزی میں تنگی کے ذریعے سے ۔ (رزین)
اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ: 
مَا یَزالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤمِنِ وَالْمُؤمِنَۃِ فِيْ نَفْسِہِ وَوَلَدِہِ وَمَالِہِ حَتَّيٰ یَلْقَی الْلّٰہُ تَعَالَیٰ وَمَا عَلَیْہِ مِن خَطِیْءَۃٍ۔ 
( رواہ الترمذی، و قال ھذا حدیث حسن صحیح)
ایمان دار مرد یا عورت کے ساتھ اس کی جان مال اور اولاد میں بلائیں ہمیشہ رہتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہ جاتا۔
یعنی گناہوں سے پاک صاف ہوکر مرتا ہے ۔ بخاری مسلم کی روایت میں ہے کہ مسلمان کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے، خواہ دکھ درد ہو، بیماری ہو ، حزن و ملال ہو، تکلیف و اذیت ہو، حتیٰ کہ اس کے ایک کانٹا بھی چبھے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کی خطائیں معاف کردیتا ہے۔ یعنی معمولی سے معمولی اذیت بھی گناہوں کے کفارہ کا کام دیتی ہے ، اس لیے کسی بھی تکلیف دہ چیز کو برا نہ کہے؛ بلکہ اس کو اپنے لیے باعث رحمت سمجھے ۔ ایک عورت نے بخار کو برا کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَسُبِّیْ الْحُمّیٰ، فَانَّھَا تُذْھِبُ خَطَایَا بَنِیْ اٰدَمَ کَمَا یَذْھَبُ الْکِیْرُ خُبْثَ الْحَدِیْدِ (رواہ مسلم)
بخار کو برا مت کہو، اس لیے کہ وہ اولاد اآدم کے گناہوں کو دور کرتا ہے، جیسا کہ بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے ۔
معلوم ہوا کہ ہر قسم کی تکلیف خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، گناہوں کو دور کرتی ہے ۔ درجات کو بلند کرتی ہے ۔بے انتہا ثواب کا حق دار بنادیتی ہے ۔ 
لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ آپ خواہ مخواہ دکھ تکلیف کو دعوت دیں اور اس کے لیے خدا سے دعا کریں ۔ ایسا کرنا شرعا جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کی عیادت کی جو کمزور چوزے کے مثل ہوگیا تھا۔ تو اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تونے خدا سے کچھ دعا کی تھی؟ اس نے کہا : ہاں میں کہتا تھا: ائے اللہ! جس گناہ کی سزا تو آخرت میں دے گا، اس گناہ کی سزا تو دنیا ہی میں مجھے جلد دیدے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو اس کی طاقت اور استطاعت نہیں رکھتا، تونے کیوں نہیں کہا کہ: 
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْأخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا وَ عَذَابَ النَّارِ۔ 
ائے اللہ تو دنیا میں بھی بھلی زندگی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر ۔ اور دوزخ کے عذاب سے بچا ۔
راوی کا بیان ہے کہ اس نے اسی دعا کے ساتھ اللہ سے دعا کی ، تو اللہ نے اسے شفا دی۔ (مسلم)
معلوم ہوا خدا سے مصیبت کی خواہش کرنااچھی نہیں، البتہ اگر خدا ہی کی طرف سے بلاء آجائے، تو اس پر صبر کرے اور شکوہ و شکایت نہ کرے۔
الصَّبْرُ مِفْتَاحُ الْفَرْجِ۔
صبر کشادگی کی کنجی ہے ۔
عیادت مریض
جو شخص چاہے کہ محنت مشقت کے بغیر بیماروں کے ساتھ ہمدردی کر کے ثواب حاصل کرے، تو اس کو مریض کی عیادت کرنی چاہیے۔ یعنی اس کے پاس جاکر اس کا مزاج پوچھے ۔ اس سے دل خوش کن باتیں کرے۔ اس کو تسلی دے۔ اس کے حق میں دعا کرے ۔ اور اپنے لیے اس سے دعا کرائے۔ مریض کی دعا فرشتوں کی سی دعا ہوتی ہے۔ (ابن ماجہ)
اس لیے کہ وہ دکھ تکلیف اٹھاکر گناہوں سے پاک ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کی حالت زار قابل رحم ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی دعا میں خاص اثر ہوتا ہے ، اس لیے اس سے اپنے لیے دعا کرائے۔
بیمار کے پاس اتنا ہی بیٹھے ، جس سے وہ ملول نہ ہوجائے۔ اگر ہوسکے تو کچھ دعائیں پڑھ کر اس پر دم کردے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کرے اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھے: 
أسْءَلُ الْلّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ أنْ یَّشْفِیَکَ۔
تو وہ مریض ضرور شفا پائے گا۔ہاں اگر موت مقدر ہوچکی ہے ، تو دوسری بات ہے ۔( ابو داود، ترمذی)
یعنی موت کے حق میں تو نہ دوا ہے اور نہ دعا؛ لیکن اگر موت مقدر نہیں ہے، تو یہ دعا مرض کو دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب نبی کریم ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی:
بِسْمِ الْلّٰہِ أرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ دَاءٍ یُوْذِیْکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ أوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، الْلّٰہُ یَشْفِیْکَ بِسْمِ الْلّٰہِ أرْقِیْکَ (مسلم)
عیادت مریض کی بڑی فضیلت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص عیادت کرتا ہے ، تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا کہ تو خوب ہے ، تیراچلنا خوب ہے، تونے جنت میں اپنا ٹھکانا کرلیا۔ (ابن ماجہ)
دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور اپنے مسلمان بھائی کی ثواب کی نیت سے عیادت کرے، تو وہ دوزخ سے ساٹھ سال کی مسافت کی مقدار دور ہوجاتا ہے۔ (ابو داود)
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ عَادَ مَرِیْضَاً لَمْ یَزَلْ یَخُوْضُ الرَّحْمَۃَ حَتّیٰ فَاذَا جَلَسَ اِغْتَمَسَ فِیْھَا (رواہ مالک و احمد) 
جو شخص عیادت کے لیے جاتا ہے ، وہ رحمت میں گھستا ہوا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے ۔ پھر جب بیٹھ جاتا ہے ، تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔
یعنی رحمت اس کو ہر طرف سے گھیر لیتی ہے ۔ یہ دوزخ سے دوری اور رحمت کی فراوانی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم ہر کس و ناکس کی عیادت کریں اوراس کا دل خوش کریں۔ دعائیں دیں اور ان سے دعائیں لیں ۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا، تو کل قیامت میں ہم سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا: ائے آدم کے بیٹو! میں بیمار ہوا، تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا : ائے پروردگار! میں کیسے تیری عیادت کرتا ، حالاں کہ تو سارے جہاں کا پالنہار ہے۔ خدا کہے گا: کیا تونے نہ جانا کہ میر افلاں بندہ بیمار ہوا، تو نے اس کی عیادت نہ کی، کیا تونے نہیں جانا، اگر تو اس کی عیادت کرتا، تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)
قسط نمبر (8) کے لیے کلک کریں

قسط نمبر (6) اوقات مباشرت

اوقات مباشرت
قسط نمبر (6) 
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وصایا میں لکھا ہے کہ دو شنبہ کو جماع کرنے سے فرزند قاری پیدا ہوتا ہے۔ اور سہ شنبہ کی رات میں جماع کرنے سے سخی ، اور پنچ شنبہ کی رات میں جماع کرنے سے عالم اور متقی پیدا ہوتا ہے ۔ اور پنج شنبہ کے دن دوپہر سے پہلے جماع کرنے سے عالم اور حکیم پیدا ہوتا ہے اور شیطان اس سے بھاگتا ہے۔ اور جمعہ کے دن نماز جمعہ سے پہلے جماع کرنے سے فرزند سعید ہوتا ہے اور شہادت پر موت ہوتی ہے ۔ اور جمعہ کی رات میں صحبت کرنے سے فرزند مخلص پیدا ہوتا ہے۔ 
اور جب صحبت سے فارغ ہو تو عورت سے جلد جدا نہ ہو؛ بلکہ اتنی دیر توقف کرے کہ عورت بھی فارغ ہوجائے، ورنہ عورت دشمن ہوجائے گی۔
پھر جب دونوں فراغت پاچکیں، تو دونوں علاحدہ کپڑوں سے اپنے اندام کو پاک صاف کریں۔ دونوں کا ایک ہی کپڑے سے صاف کرنے میں جدائی کا خوف ہے ۔ اور وطی کے بعد مرد پیشاب ضرور کرلیں، ورنہ درد لادوا عارض ہوگا۔ اور عضو تناسل کو نیم گرم پانی سے دھونے سے بدن کو صحیح اور آفات سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اگر نیم گرم نہ ہو، تو تھوڑی دیر کے بعد سرد پانی سے دھونے میں کچھ حرج نہیں۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ اور پچھلی اور درمیان کی رات میں صحبت کرنا مکرو ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان راتوں میں شیاطین حاضر ہوکر مباشرت میں شریک ہوتے ہیں ۔ (رفاہ المسلمین)
اور مباشرت کی حالت میں زیادہ باتیں نہ کریں کہ اولاد گونگی پیدا ہوتی ہے۔
نگاہ بر عورات
حتیٰ المقدور ایک دوسرے کی شرم گاہ کو نہ دیکھیں، اگر چہ دیکھنا جائز ہے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں 
مَا رَأیْتُ مِنْہُ وَ لَا أرَیٰ مِنِّیْ 
نہ میں نے حضور کی شرم گاہ دیکھی اور نہ حضور نے میری دیکھی۔
ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ 
مَا رَأیْتُ فَرْجَ رَسُوْلِ الْلّٰہِ ﷺ قَطُّ۔ 
میں نے رسول اللہ ﷺ کی شرم گاہ کبھی نہیں دیکھی۔
اور ہدایہ میں ہے کہ بہتر یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی کسی کی شرم گاہ کو نہ دیکھے ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: تم میں سے جوکوئی اپنی عورت کے پاس آئے، تو جہاں تک ممکن ہو پردہ ڈالے اور اونٹ کی طرح بالکل ننگا نہ ہوجائے۔
اور یہ بھی حدیث میں آتا ہے کہ یہ نسیان پیدا کرتا ہے ۔ (رد محتار)
لیکن دیکھنا جائز ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے کہ: 
اِحْفَظْ عَوْرَتَکَ الَّا مِنْ زَوْجَتِکَ۔ 
(ترمذی، ابن ماجہ، ابو داود)
اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو، مگر اپنی بیوی سے ، یعنی میاں بیوی میں کوئی پردہ نہیں۔
درمختار میں ہے کہ مرد اپنی بیوی کی شرم گاہ کی طرف شہوت اور بغیر شہوت کے ساتھ دیکھ سکتا ہے ، مگر بہتر یہ ہے کہ نہ دیکھے ، اس لیے کہ نسیان پیدا کرتا ہے۔
تارتارخانیہ میں ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مرد اپنی عورت کی شرم گاہ کو شہوت برانگیختہ کرنے کے لیے ہاتھ لگائے ، یا عورت اپنے مرد کی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے۔
اور کفایہ شعبی میں لکھا ہے کہ جس عورت کی دونوں راہیں ایک ہوجائیں، تو ان سے جماع کرنا جائز نہیں ؛ البتہ اگر خاوند کو یہ معلوم ہوجائے کہ جماع قبل( فرج) میں ہوگا تو درست ہے۔
نوعیت جماع
یوں تو فرج کے اندر ہر طرح سے جماع کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
نِسَاؤُکُمْ حَرْثُ لَّکُمْ فَأتُوْا حَرْثَکُمْ أنّیٰ شِءْتُمْ 
( البقرۃ، آیۃ:۲۲۳ )
تمھاری بیویاں تمھارے لیے کھیت کی مانند ہیں، پس تم اپنے کھیت میں جس طرح چاہو آؤ۔ 
مگر بے ضرر وہی طریقہ ہے جس کا عام رواج ہے۔ دوسرے طریقوں میں کچھ نہ کچھ ضرر ضرور ہے۔ اور مناسب یہ ہے کہ شروع رات میں جماع نہ کرے ؛ بلکہ باوضو سوئے اور اٹھ کر صحبت کرے ، اس لیے کہ باوضو سونے میں بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص باوضو سوئے اور اسی رات میں مرے تو درجہ شہادت کا پائے۔
صحبت میں اعتدال
ز اندازہ پیروں مرو پیش زن
نہ دیوانۂ خویشتن را مزن
خزانہ جلالی میں لکھا ہے کہ جماع حلال تصفیہ دل ہے ، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے یہ کام کیا ہے اور غم اور وسوسہ کو دور کرتا ہے۔ غصہ کو ساکن کرتا ہے۔ گرمی سے پیدا ہونے والے زخموں کو مفید ہے، لیکن بدن افزودگی کو کمزور کرتا ہے۔
حالت حیض و نفاس میں صحبت
حیض ونفاس کی حالت میں عورت سے صحبت کرنا حرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: 
فَاْعْتَزِلُوْ النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ ( البقرۃ، آیۃ۲۲۲)
حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے حائضہ سے صحبت کی، یا عورت کی دبر (پاخانہ کے مقام) میں آیا، یا کسی کا ہن کے پاس آیا، تو جو کچھ محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے ، اس نے اس کا انکار کیا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نفاس والی عورتیں چالیس دن تک انتظار کرے، مگر یہ کہ اس سے پہلے پاکی دیکھے ۔ اگر چالیس روز پہنچنے پر بھی خون بند نہ ہو، تو پھر غسل کرے اور وہ مستحاضہ کی مانند ہوگی ۔(ابن عدی و ابن عساکر)
یعنی نفاس والی عورت حالت نفاس میں نماز ، روزہ چھوڑ دے ۔شوہر اس سے ہمبستر نہ ہو۔ اگر چالیس روز کے اندر ہی خون بند ہوجائے، تو عورت غسل کرے ۔ اب اس کے لیے نماز و روزہ اور صحبت سب جائز ہے ۔ اور اگر چالیس روز گذر جانے پر بھی خون بند نہ ہو، تو وہ غسل کرے۔ اور مستحاضہ کی طرح وہ نماز و روزہ ادا کرے۔ اور مرد اس سے ہمبستر ہو۔
ولیمہ
ولیمہ کرنا سنت ہے۔آں حضرت ﷺ کے قول و فعل سے ولیمہ کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أوْلِمْ وَلَوْ بِشأۃٍ (متفق علیہ)
ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری سے ہو۔
خود رسول اللہ ﷺ نے ولیمہ کیا۔ اور جس موقع پر جیسا میسر ہوا، اسی طرح کا ولیمہ کیا۔ حضرت زینبؓ کے ولیمہ میں لوگوں کو آسودہ کرکے گوشت روٹی کھلائی۔(بخاری)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں ستو اور کھجور کھلایا۔(احمد، ترمذی) ۔ بعض بیویوں کا ولیمہ دو مد جو سے کیا۔
عالمگیری میں ہے کہ شادی کا ولیمہ سنت ہے اور اس میں بڑا ثواب ہے۔ اور ولیمہ یہ ہے کہ جب عورت سے پہلی مرتبہ قربت حاصل کرے، تو اس کے بعد پڑوسیوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کی دعوت کرے ۔ اور کھانا تیار کرے اور سب کو کھلائے۔
اور عین العلم میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ کے قول و فعل سے ولیمہ کرنا ثابت ہے ، چاہیے کہ نکاح کے بعد پہلے ہی دن ولیمہ کرے اور اگر دوسرے دن ہو تو وہ بھی درست ہے، لیکن تیسرے دن ریا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اول روز کا طعام حق ہے اور دوسرے دن کا سنت اور تیسرے دن کا ریا ۔ اور جو شخص ریا کاری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ریاکاری کی سزا دے گا۔ (ترمذی)
اور رزین العرب نے مشکوٰۃ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد مسنون ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نکاح کے وقت اور بعض کے نزدیک دونوں وقت مسنون ہے ۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے یا نکاح کے بعد ادائے شکر کے طور پر تیار کیا جائے۔
لیکن ایسا ولیمہ کہ مال داروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے، سب سے بد ترین ولیمہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: بد ترین طعام وہ طعام ولیمہ ہے ، جس میں مال داروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اور جس نے دعوت قبول نہ کی ، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ (بخاری و مسلم)
دعوت ولیمہ
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے ۔ اور رد محتار میں ہے کہ واجب کے قریب ہے۔ اور رحمۃ الامہ میں ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مستحب ہے ۔ اور امام مالکؒ کے نزدیک واجب ہے ۔ اور امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا ایک قول وجوب کا ہے ۔ اور بنایہ میں ہے کہ دعوت کا قبول کرنا سنت ہے ، اگر قبول نہ کرے گا تو گناہ گار ہوگا ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
مَنْ تَرَکَ الدَّعْوَۃَ، فَقَدْ عَصٰی الْلّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ 
(بخاری و مسلم)
جس نے دعوت قبول نہ کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
لیکن دعوت میں شرکت اس وقت درست ہے ، جب کہ وہ مجلس منکرات سے خالی ہو، نہ گانا باجا ہو، نہ ریڈیو، مونوگرام ہو، نہ ڈھول و تاشا ہو، نہ کوئی دوسری چیز شریعت کے خلاف وہاں ہورہی ہو۔ اگر وہاں کوئی چیز شریعت کے خلاف ہو تو ہر گز دعوت میں شریک نہ ہو۔ شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ اگر پہلے سے یہ معلوم ہو کہ وہاں شریعت کے خلاف چیزیں جمع ہیں، تو وہاں ہرگز کھانے کے لیے نہ جائے ۔ جان بوجھ کر ایسی جگہ جانا گناہ ہے ۔ اور اگر پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں شریعت کے خلاف ہورہا ہے ، تو اگر وہ مقتدا ہے، یعنی لوگ اس کی باتوں کو سند پکڑتے ہیں اور شریعت کے بارے میں اس کی پیروی کرتے ہیں، تو اس پر لازم ہے کہ اس خلاف شرع چیز کو اپنے ہاتھ سے دور کرے، یا زبان سے منع کرکے دور کرے ۔ پھر وہاں بیٹھے۔ لیکن اگر وہ مقتدا نہیں ہے، لوگ اس کی باتوں کو سند نہیں پکڑتے ہیں اور اس کے روکنے پر وہ قدرت بھی نہیں رکھتا ہے، تو دل سے برا جانے اور ناچاری کو مجبوراً کھالے۔ عامی کو بدعت کی وجہ سے سنت کا چھوڑنا اولیٰ نہیں۔
لیکن اس عامی پر واجب ہے کہ ایسے مقام پر حاضر ہونے کو دل سے برا جانے۔ اگر خوشی سے اس مجلس میں بیٹھے گا اور دل سے اس فعل بد کو برا نہ سمجھے گا، تو اس کے ایمان برباد ہونے کا ڈر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرَاً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ، فَبِلِسَانِہِ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ،فَبِقَلْبِہِ، ذالِکَ أضْعَفُ الْایْمَانِ۔
(رواہ مسلم)
تم سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے مٹانا چاہیے ۔ اگر کوئی اس کی طاقت نہ رکھتا ہو،تو زبان سے مٹانا چاہیے ۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو، تو دل سے برا سمجھنا چاہیے۔ اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔
ناجائز دعوت
کچھ لوگ ایسے ہیں ، جن کی دعوت قبول کرنا درست نہیں، جیسے فاسق کی دعوت، شہرت چاہنے والے کی دعوت، مال کا اکثر یا کل حصہ حرام رکھنے والے کی دعوت۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور فرمایا : ایسے دو آدمیوں کی دعوت قبول نہ کی جائے۔ اور نہ ان کا کھانا کھایا جائے جو فخر ونمود کے لیے دعوت کرتے ہیں۔ (بیہقی)
عالمگیری میں ہے کہ جس کا اکثر مال حرام ہے، تو اس کی دعوت قبول نہ کرے، جب تک کہ وہ یہ نہ بتادے کہ میں یہ دعوت اپنے پاکیزہ مال سے کرتا ہوں۔ اور اگر اس کا اکثر مال حلال ہے، تو اس کی دعوت قبول کرے۔ البتہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دعوت اپنے حرام مال سے کر رہا ہے، تو اس وقت اس کی دعوت قبول نہ کرے۔ 
اور ملتقط میں ہے کہ جس کا اکثر مال حلال ہو ، اس کا ہدیہ قبول کرنے اور کھانے میں کچھ حرج نہیں ، اس لیے کہ لوگوں کا مال تھوڑے حرام سے خالی نہیں رہتا ہے ، اس لیے اعتبار اکثر کا ہے۔لیکن خواہ مخواہ لوگوں پر شبہ کرنا اور پوچھ گچھ کرنا درست نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب کسی مسلمان بھائی کے پاس جائے تو اس کا کھانا کھائے اور اس سے نہ پوچھے (حلال کا ہے یا حرام کا ) اور اس کے پینے کی چیز پیے اور نہ پوچھے (کیسا ہے)۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
اس لیے کہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان حلال ہی کھلاتا پلاتا ہے، البتہ اگر ظاہر ہوجائے کہ اس کے پاس حرام مال ہے اور اسی سے کھلاتا ہے، تو پھر ہرگز نہ کھائے، لیکن اگر وہ کہے کہ میں نے دعوت کے لیے یہ خاص طور پر حلال طریقے سے جمع کیا ہے اور تمھارا گمان غالب ہے کہ وہ اس بات میں سچا ہے تو اس کی دعوت قبول کرو۔ ورنہ رد کردو۔ لیکن اس شخص پر تعجب ہے جسے دعوت نہ دی جائے، مگر زبردستی دسترخوان پر جا بیٹھے۔ ایسے کے بارے میں حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: جو شخص بغیر دعوت کے کھانے کی مجلس میں گھستے ہیں ، وہ چور بن کر گھستے ہیں اور لٹیرے بن کر نکلتے ہیں۔ (ابو داود)
مرد کا حق عورت پر
اللہ تعالیٰ نے کچھ مردوں کا حق عورتوں پر رکھا ہے ۔ اور کچھ عورتوں کا حق مردوں پر رکھا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: 
وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ، وَالْلّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔(البقرۃ، آیۃ:۲۲۸ )
جس طرح مردوں کا حق عورتوں پر ہے اسی طرح عورتوں کا حق مردوں پر ہے، شرعی قاعدے کے موافق۔ اور مردوں کا عورتوں کے اوپر درجہ ہے ۔ اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کا حق ایک دوسرے کے اوپر ہے؛ مگر مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، اس لیے دونوں پر لازم ہے کہ باہم حقوق پہچانیں اور اس کے ادا کرنے کی کوشش فرمائیں۔ ان حقوق کے ادا کرنے ہی سے میاں بیوی کے تعلقات مضبوط رہ سکتے ہیں ۔ اور دونوں کی زندگی پر لطف گذر سکتی ہے ، اس لیے میں یہاں پر اختصار کے ساتھ دونوں کے حقوق بیان کرتا ہوں ۔ اول مردوں کے حقوق کا ذکر کرتا ہوں۔
مرد کا حق عورت پر یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کی خدمت کرے۔ ان کا ادب کرے ۔ نام لے کر نہ پکارے۔ ان کو تکلیف نہ دے۔ ان کی باتوں پر بیجا اعتراض نہ کرے۔کوئی امر خلاف شرع دیکھے، تو میاں کو ادب سے منع کرے۔ اس کے رو برو زبان درازی نہ کرے۔ اس کے رشتہ داروں سے تکرار نہ کرے۔ افلاس یا بد صورتی کی وجہ سے خاوند کو حقیر نہ سمجھے۔ ان کی اطاعت اور فرماں برداری کرے۔ شوہر کا بڑا درجہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَوْ کُنْتُ اٰمُرُ أحَدَاً أنْ یَّسْجُدَ لِأحَدٍ، لَأمَرْتُ الْمَرْأۃَ أنْ یَّسَجُدَ لِزَوْجِھَا (ترمذی)
اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو میں البتہ عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
لیکن چوں کہ شریعت میں خدا کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے ، اس لیے سجدہ کا حکم نہیں دیا۔ اگر سجدہ کرنا جائز ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ، کیوں کہ خاوند کا بڑا مرتبہ ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اگر خاوند کا تمام بدن زخمی ہواور عورت اپنے شوہر کے زخمی جسم کو زبان سے چاٹے، تب بھی اس کا حق ادا نہ ہو۔ (احمد) مطلب یہ ہے کہ شوہر کی ایسی خدمت کرنا، جس سے طبیعت گھن کرے، جیسے بیماری میں پیشاب پاخانہ کرانا، طہارت کرانا، زخم کو دھونا اور صاف کرنا وغیرہ، ایسی خدمت کے اداکرنے سے بھی عورت اپنے شوہر کے حقوق سے سبکدوش نہیں ہوسکتی ہے ، لہذا عورت کو چاہیے کہ ہر حال میں اپنے میاں کی فرماں برداری کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أیَّمَا اِمْرَأۃٍ مَاتَتْ وَ زَوْجُھَا عَنْھَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ
(ترمذی)
جو عورت ایسی حالت میں مری کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہے، تو جنت میں داخل ہوگی۔
اور آپ ﷺنے فرمایا:
اَلْمَرْأۃُ ا8ذَا صَلَّتْ خَمْسَھَا، وَصَامَتْ شَھْرَھَا، وَأحْسَنَتْ فَرْجَھَا، وَ أطَاعَتْ بَعْلَھَا، فَتَدْخُلُ مِنْ أیِّ أبْوَابِ الْجَنَّۃِ شَاءَتْ (رواہ ابو نعیم فی الحلیۃ)
جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کا روزہ رکھا، شرم گاہ کی حفاظت کی، اور اپنے شوہر کی فرماں برداری کی، تو جنت کے جس دروازے سے چاہے گی داخل ہوگی۔
یعنی عبادت گذار ، اطاعت شعار عورتوں کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھلے رہیں گے، جس سے چاہے گی جنت میں داخل ہوگی۔ لیکن اگر شوہر کی اطاعت میں کوتاہی کی، تو اس کے لیے خیر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ جو عورت بھی دنیا میں اپنے خاوند کو تکلیف دیتی ہے ، تو اس کی جنت کی بیویاں یعنی حوریں کہتی ہیں : خدا تجھے ہلاک کرے ، وہ تو تیرے پاس چند روز کا مہمان ہے ۔ بہت جلد وہ تجھ سے جدا ہوکر ہمارے پاس آنے والا ہے۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)
اور بھی آپ نے فرمایا کہ: تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے اور نہ اس کی نیکیاں اوپر چڑھتی ہیں : 
(۱) بھاگا ہوا غلام، یہاں تک کہ اپنے مالک کے پاس آجائے۔ اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیدے۔
(۲) عورت جس سے اس کا شوہر ناراض ہے، یہاں تک کہ وہ اس سے راضی ہوجائے۔
(۳) نشہ والا یہاں تک کہ اس کا نشہ ٹوٹ جائے۔ (بیہقی)
مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر ناراض ہے، تو نہ عورت کی نماز قبول ہے، نہ کوئی دوسری نیکی ، یہاں تک کہ اپنے شوہر کو راضی کرلے، اس لیے عورت پر دنیا میں سب سے زیادہ حق شوہر کا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أعْظَمُ النَّاسِ حَقَّاً عَلیٰ المَرْأۃِ زَوجُھَا، و أعْظَمُ النَّاسِ حَقَّاً عَلَیٰ الرَّجُلِ أمُّہُ۔ (رواہ الحاکم و صححہ)
سب سے بڑا حق عورت پر اس کے شوہر کا ہے ۔ اور سب سے بڑا حق مرد پر اس کی ماں کا ہے۔
اسی لیے حضور پر نور ﷺ نے فرمایا کہ: اگر مرد عورت کو حکم کرے کہ زرد پہاڑ کے پتھر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ کے پتھر سفید پہاڑ پر لے جائے ،تو عورت کو مناسب ہے کہ ایسا کرے۔ (احمد)
مطلب یہ ہے کہ مشکل کام پر بھی نافرمانی کی جرات نہ کرے۔ اور کام کے لیے ہر حال میں تیا ررہے ، چاہے کام بن پڑے یا نہ بن پڑے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :جب مرد اپنی عورت کو کسی حاجت کے لیے بلائے ، تو فورا حاضر ہوجائے، گرچہ تندور پر ہو۔ (ترمذی)
لیکن گناہ کی باتوں میں فرماں برداری درست نہیں۔ حدیث میں ہے کہ 
لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ 
کسی کی ایسی طاعت جس سے اللہ کی نافرمانی ہو، درست نہیں ہے۔
یعنی گناہ کی باتوں میں کسی کی اطاعت جائز نہیں: نہ شوہر کی، نہ پیر و استاذ کی۔ باقی دوسری باتوں میں اطاعت سے کوتاہی نہ کرے۔
اگر شوہر ہمبستر ہونا چاہے اور کوئی شرعی عذر نہ ہو تو ہرگز منع نہ کرے۔ حدیث میں ہے کہ: 
اذَا دَعَا الرَّجُلُ اِمْرَأتَہُ الَیٰ فِرَاشِہِ، فَأبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ ، لَعَنَتْھَا الْمَلَاءِکَۃُ حَتّیٰ تُصْبِحَ۔ (متفق علیہ)
جب شوہر اپنی عورت کو بستر پر بلائے اور عورت انکار کردے۔ پھر غصہ میں خاوند رات گذارے، تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے ہیں۔
لیکن اگر صحبت عورت کو مضر ہو بیماری وغیرہ کی وجہ سے، تو پھر مرد کے لیے صحبت کرنا جائز نہیں۔ (تحفۃ الزوجین)
بعضوں نے لکھا ہے کہ میاں کے بیوی پر دس حقوق ہیں:
(۱) پہلا یہ کہ جس وقت خاوند ہمبستر ہونا چاہے، جس حال میں ہو منع نہ کرے؛ مگر حیض و نفاس میں، یعنی عذر شرعی اور طبعی کے علاوہ مانع نہ ہو۔ بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، ایسا کوئی مرد نہیں، جو اپنی عورت کو بچھونے پر بلائے ، پھر وہ انکار کرے، مگر وہ ذات کہ آسمان پر ہے، اس عورت سے ناراض ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ خاوند اس سے راضی ہوجائے۔
(۲) دوسرا یہ کہ خاوند کے گھر سے کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر نہ دے۔ قرآن مجید میں ہے کہ: 
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ الْلّٰہُ 
(النساء، آیۃ:۳۴)
سو جو عورتیں نیک ہیں، اطاعت کرتی ہیں۔ اللہ کی حفاظت میں شوہر کے پیچھے عزت و آبرو اور مال کی حفاظت کرنے والی ہیں۔
یعنی نیک عورتیں سامنے اطاعت اور پیٹھ پیچھے مال کی حفاظت کرتی ہیں۔ 
(۳) تیسرا یہ کہ نفلی روزہ اس کے حکم کے بغیر نہ رکھے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔ (ابو داود، ابن ماجہ)
(۴) چوتھا یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے۔ 
(۵) پانچواں یہ کہ خاوند کا عیب کسی کے آگے بیان نہ کرے۔
(۶) چھٹا یہ کہ حاجت سے زیادہ اس سے کوئی چیز نہ مانگے۔
(۷) ساتواں یہ کہ اس کی خوشی پر خوش اور اس کے رنج پر غمگین ہوجائے۔
(۸) اٹھواں یہ کہ خاوند کو کسی بات پر غیرت نہ دلائے۔
(۹) نواں یہ کہ ہمیشہ اپنے کو پاکیزہ رکھے اور جو کام خاوند کو ناپسند ہو، نہ کرے۔
(۱۰) دسواں یہ کہ اولاد کو بد دعا نہ دے۔ (رفاہ المسلمین)
اور بعضوں نے اس سے بھی زیادہ بیان کیے ہیں ۔ چنانچہ انیس الواعظین میں مرد کے اکیس حق عورت پر اور اسی قدر عورت کے حقوق مردوں پر لکھے ہیں۔ مردوں کے ان اکیس حقوق میں سے دس تو وہ ہیں، جن کا اوپر تذکرہ ہوا۔ اور باقی گیارہ یہ ہیں:
(۱۱) اگر خاوند کسی سے سوال کرے، تو عورت منع کرے کہ سوال کرنے میں بے عزتی ہے ۔
(۱۲) غصہ کے وقت عورت سخت جواب نہ دے۔
(۱۳) فقرو فاقہ کی حالت میں اس کی حقارت نہ کرے؛ بلکہ تھوڑے پر قناعت کرے اور اس کا شکر ادا کرے۔
(۱۴) خاوند بیمار ہو تو اس کی خدمت گذاری میں کوتاہی نہ کرے۔
(۱۵) اگر خاوند کمزوری کی وجہ سے محنت و مزدوری کے لائق نہ رہے، تو خود محنت مزدوری کرے، اور اس کے واسطے کھانا حاضر کرے۔
(۱۶) اس کے واسطے ہمیشہ خیرو برکت کی دعا کرتی رہے۔
(۱۷) ذکر الٰہی میں مشغول رہے۔
(۱۸) دہلیز کے پاس نہ بیٹھے۔
(۱۹) بالا خانہ پر چڑھ کر ادھر ادھر نہ دیکھے اور نہ باہر جھانکے۔
(۲۰) شوہر کے مرنے کے بعد چار مہینے دس روز سوگ کرے یعنی بناو سنگار چھوڑ دے۔مہندی نہ لگائے۔ سرخ چوڑی نہ پہنے۔ زعفرانی رنگ کا کپڑا استعمال نہ کرے۔ سر میں تیل اور آنکھوں میں کاجل نہ لگائے۔ خاوند کے گھر سے باہر نہ جائے۔صبرو سکون سے وہیں رہے۔ چلاکر رونا، چھاتی کوٹنا، کپڑے کو پھاڑنا حرام ہے، ان سے پرہیز کرے۔ 
(۲۱) جب چار ماہ دس روز پورے ہوجائیں، تو سوگ کو ختم کرے۔ رنگین کپڑے اور چوڑیاں وغیرہ جو سوگ میں حرام تھیں، وہ اب حلال ہوگئیں۔ اب اپنے استعمال میں لائے۔
ان حقوق کو ادا کرنے میں عورتیں کوتاہی کریں، تو اول مرد عورت کو سمجھائے کہ اپنی ناشائستہ حرکت سے باز آجاؤ۔ اگر وہ مان جائے تو بہت بہتر۔ ورنہ اس سے الگ سوئے ۔ ناراضگی کا اظہار کرے ۔اور اس پر متنبہ ہوکر مان جائے تو بہت خوب؛ ورنہ پھر اس کو مارے، دھمکائے اور اس طرح سے اس کو راہ راست پر لائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَاللَّاتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوھُنَّ ، فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً،إِنَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلِیَّاً کَبِیْرَاً۔ (النساء آیۃ: ۳۴)
اور ایسی عورتیں جن کی نافرمانی کا تم کو ڈر ہے ، پس انھیں سمجھاؤ۔ اور ان سے الگ سوؤ۔ اور انھیں مارو۔ پس اگر وہ تمھاری اطاعت کرنے لگیں، تو (انھیں ایذا دینے کے لیے ) پھر کوئی راستہ مت ڈھنڈو۔ بے شک اللہ بہت بلند عظیم مرتبہ والا ہے ۔ 
فتاویٰ قاضی خاں میں ہے کہ مرد اپنی عورت کو چار باتوں کے لیے مار سکتا ہے:
(۱) شوہر عورت سے زینت چاہتا ہے اور وہ زینت نہیں کرتی ہے۔
(۲) عورت حیض و نفاس سے پاک و صاف ہے اور مرد ہمبستر ہونا چاہتا ہے اور عورت منع کرتی ہے۔
(۳) عورت نماز نہیں پڑھتی ہے۔
(۴) عورت بے اجازت گھر سے باہر نکلتی ہے۔
اور خازن میں ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مارنا مباح ہے اور نہ مارنا افضل ہے۔
اگر سمجھانے بجھانے ، ڈرانے دھمکانے اور مارنے پیٹنے پر بھی راہ پر نہیں آتی اور نافرمانی کی راہ چلتی ہے، تو طرفین سے پنچ مقرر کرو، تاکہ وہ دونوں کے حق میں بہتر فیصلہ کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے کہ: 
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوا حَکَمَاً مِّنْ أھْلِہِ وحَکَمَاً مِّنْ أھْلِھَا انْ یُّرِیْدَا إِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ الْلّٰہُ بَیْنَھُمَا انَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلِیْمَاً خَبِیْرَاً( النساء، آیۃ ۳۵)
اگر زن و شوہر کے درمیان کشا کشی کا اندیشہ ہو، تو ایک آدمی خاوند کے اہل سے اور ایک آدمی عورت کے خاند ان سے بھیجو۔ اگر دونوں اصلاح کا ارادہ رکھتے ہیں، تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ جاننے والا خبر دار ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب مرد و عورت میں جھگڑا ہو، تو اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے جانبین سے پنچ مقرر ہو۔ اگر نیت اصلاح کی ہے ، تو اللہ اصلاح کرے گا۔ اور آپس کے اختلاف کو دور کرے گا۔
اگر نیت اصلاح کی نہیں ہے، توپھر تفریق ہوگی۔ بہرحال جو کچھ ہوگا ٹھنڈے دل سے ہوگا۔ اور یہ دونوں کے حق میں بہتر ہوگا۔ مگر آج اس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ جہاں عورت نے مرضی کے خلاف کیا ، شوہر کا مزاج رنگین ہوا اور طلاق دی۔ اور ایک دم ایک سے تین طلاق پوری کردی۔ جب غصہ فرو ہوا اور نتیجہ پر غور کیا، خون کے آنسو رونے لگے۔ کسی نے مغلظہ کے بعد بھی عورت کو نہ چھوڑا اور زن و شوہر کا تعلق باقی رکھا اور ساری عمر حرام کاری میں مبتلا رہا اور اولاد حرام ہوتی رہی۔ 
یہ ساری خرابی اسی لیے آئی کہ خدا کے بتائے ہوئے طریقہ پر اختلاف کو دور نہ کیااور نفسانیت میں آکر فورا طلاق دے بیٹھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مرد بنایا تھا، عورتوں پر حاکم، تحمل سے کام لینا چاہیے۔ شیخ سعدی نے فرمایا ہے : ؂
سر پُر غرور از تحمل تہی
حرامش بود تاج شاہنشہی
جو سر غرور سے بھرا ہوا اور برداشت سے خالی ہو، اس پر بادشاہی تاج حرام ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں کے بارے میں تم میری بہتر وصیت قبول کرو۔ عورتیں ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر کی پسلی ہے( اس لیے خلقۃ عورتیں ٹیڑھے مزاج کی ہوتی ہیں )۔ اگر تم اس کو سیدھی کروگے، تو وہ ٹوٹ جائے گی ( یعنی نوبت طلاق کو پہنچے گی) اور اگر تم نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا، تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی ، پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت قبول کرو۔ (بخاری و مسلم)
یعنی اس کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے اس کو سیدھی کرنے کی کوشش کرو۔ اس کو سمجھاؤ بجھاؤ، ڈانٹو ڈپٹو، ہلکا مار بھی دو۔ اور اس کے ساتھ اس سے فائدہ بھی اٹھاؤ۔ اچھے سلوک سے اپنی طرف مائل کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہے۔ (ترمذی)
(طلاق کا بیان)
بہر حال طلاق ایک آخری چیز ہے۔ جب کسی طرح سے بن نہ پڑے، تو اس کو پاکی کے اندر صرف ایک طلاق دے کر چھوڑ دو۔ یہ سب سے بہتر طلا ق ہے۔ ممکن ہے عورت اپنی ناشائستہ حرکت پر نادم ہو اور اپنے گناہوں پر معافی مانگے اور فرماں برداری کا وعدہ کرے، تو ایک طلاق کی صورت میں جب کہ رجعی ہو، تو اس سے رجعت کرسکتا ہے ۔ اور پھر اس کو بیوی بناکر بغیر نکاح کے رکھ سکتا ہے ، یعنی عدت کے اندر اور عدت کے بعد اس سے نکاح کرسکتا ہے ۔ اور اگر اس طلاق پر بھی نادم نہ ہو، اور اس کا چھوڑنا ہی ضروری ہو تو اس کو چھوڑ دے اور عدت پوری ہونے کے بعد اپنے گھر سے باہر کردے ۔ اب وہ بیوی نہیں رہی۔ یہ فائدے ایک یا دو طلاق رجعی میں حاصل ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ: 
اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ، فَامْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أوْ تَسْرِیْحٌ بِاحْسَانٍ (البقرۃ، آیۃ:۲۲۹) 
(وہ طلاق جس میں رجوع کرنا درست ہے) وہ دو طلاق ہیں (صریح)۔ پھر قاعدے کے موافق روک رکھنا ہے، یا خوش عنوانی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔
لیکن اگر ایک ہی مرتبہ میں تین طلاقیں دیدی جائیں ،تو پھر رجعت کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں گناہ بھی ہے۔ چنانچہ حضرت عبدا للہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا :یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی کیا رائے ہے اگر میں انھیں تین طلاق دیدوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
اذَاً قَدْ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَ بَانَتْ مِنْکَ اِمْرَأتُکَ 
(دار قطنی ابن ابی شیبہ)
اس وقت تو اپنے پروردگار کا نافرمان ہوگا اور تیری عورت تجھ سے جدا ہوجائے گی۔
ایک روایت میں ہے کہ کسی شخص نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ ایک شخص نے اکٹھے اپنی عورت کو تین طلاقیں دیں، تو آپ ﷺ غصہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا : کیا وہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کرتا ہے ، حالاں کہ میں ابھی تمھارے درمیان میں ہوں ۔ اس پر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟ (نسائی)
معلوم ہوا کہ تین طلاق اکٹھے دینا قبیح ہے ۔ تین طلاق واقع تو ہوجاتی ہیں ، لیکن ساتھ ہی وہ گناہ گار بھی ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے درجۂ مجبوری میں طلاق کو جائز رکھا ہے۔ حدیث میں ہے کہ :
أبْغَضُ الْحَلَالِ الَیٰ الْلّٰہِ الطَّلَاقُ
( رواہ ابو داود، وابن ماجہ و صححہ الحاکم)
اللہ کے نزدیک طلاق حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے وقت تک طلا ق جائز ہے ، مگر بلا حاجت بہت بری بات ہے، اس لیے کہ نکاح باہم الفت اور محبت کے لیے ہوتا ہے ۔ اور طلاق سے محبت ٹوٹتی ہے اور خدا کی نعمت کی ناشکری ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نکاح کرو، طلاق نہ دو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بہت مزہ چکھنے والے مرد اور بہت زیادہ مزہ چکھنے والی عورت کو دوست نہیں رکھتا۔ 
یعنی خواہ مخواہ بیوی کو چھوڑ کر بیوی کرنے والا اور شوہر کو چھوڑ کر شوہر کرنے والی کو خدا ناپسند کرتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ عورتوں کو طلاق نہ دی جائے ، مگر بدچلنی کی وجہ سے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بہت مزہ چکھنے والے مرد اور بہت مزہ چکھنے والی عورت کو دوست نہیں رکھتا۔ 
معلوم ہوا کہ بد چلنی پر طلاق دینا درست ہے ، ویسے طلاق دینا ٹھیک نہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نکاح کرو، طلاق نہ دو، اس لیے کہ طلاق دینے سے عرش ہلتا ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اپنے عرش کو پانی پر رکھتا ہے ۔ پھر اپنے لشکروں کو (بہکانے کے لیے) بھیجتا ہے۔ اور جو جتنا بڑا فتنہ برپا کرتا ہے ، وہ اتنا ہی شیطان کے قریب ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک کہتا ہے کہ ہم نے یہ کیا، اور یہ کیا ، تو شیطان کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا۔ اور ان میں سے ایک آکرکہتا ہے کہ میں نے فلاں کو پکڑا اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال کر ہی چھوڑا، تو اس کو اپنے گلے سے لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بہت بڑا کام کیا ۔
واقعی بہت بڑا کام کیا کہ جس متاع سے ایمان کی حفاظت ہوتی تھی، اس کو لوٹ لیا ۔ حدیث میں نکاح کو نصف ایمان کہا ہے ۔ اس طرح اس نے آدھا ایمان برباد کردیا ۔ ائے وائے انسان کے حال پر !کہ طلاق دے کر آدھا ایمان برباد کرلیتا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ: 
أیَّمَا امْرَأۃٍ سَئلَتْ زَوْجَھَا طَلَاقَاً فِیْ غَیْرِ مَا بَاسَ، فَحَرَامٌ عَلَیْھَا رَاءِحَۃُ الجَنَّۃِ ۔
(رواہ احمد والترمذی و ابو داود وابن ماجہ والدارمی)
جو عورت بغیر سخت مجبوری کے طلا ق طلب کرے ، تو جنت کی خوشبو اس پر حرام ہے۔
اس لیے نہ مرد کے لیے روا ہے کہ وہ اپنی عورت کو بغیر مجبوری طلاق دے ۔ اور نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ بغیر سخت مجبوری کے وہ طلاق لے اور خلع کرائے؛ بلک ناگوار باتوں کو برداشت کرے اور اچھی باتوں سے فائدہ اٹھائے ۔ ہر ایک کے اندر کچھ نہ کچھ خوبیاں ہیں اور کچھ نہ کچھ برائیاں ، جہاں پھول ہے ، وہاں کانٹا بھی ہے ، جہاں دولت ہے، وہاں اژدہا بھی ہے۔ ؂
خیال اس کا رہے دیکھو گلے جلدی سے مل جانا
اگر آپس میں ہوجائے کبھی تکرار تھوڑی سی 
عورت کا حق مرد پر
عورت کا حق ہے کہ جب وہ شوہر کے گھر رہنے لگے، تو شوہر اس کو کھانا، کپڑا، رہنے کے لیے ایک کمرہ دے۔ اس کو دین اسلام کی باتیں سکھائے ۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا عورت کا کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :جب تم کھاؤ تو انھیں بھی کھلاؤ ،اور جب پہنو تو انھیں بھی پہناؤ۔ منہ پر نہ مارو۔ انھیں رسوا نہ کرو۔ گھر کے اندر ان سے علاحدگی اختیار نہ کرو۔ (احمد ، ابو داود، ابن ماجہ)
عالمگیری کے اندر ہے کہ عورت کا نفقہ واجب ہے ، خواہ مسلمہ ہو یا ذمیہ، غریب ہو یا امیر، اس کے ساتھ دخول کیا ہو ، یا نہیں، چھوٹی ہو یا بڑی۔
اور تحفۃ الزوجین میں ہے کہ جب کہ عورت قابل جماع ہو اور وہ اپنے کو خاوند کے حوالہ کردے۔ اگرچہ شوہر چھوٹا ناقابل جماع ہو، تو اس عورت کا کپڑا اور رہنے کے لیے ایک مکان علاحدہ جس میں کوئی دوسرا نہ رہتا ہے ، دینا واجب ہے۔اور کھانا ،کپڑا دونوں کے حال کے مناسب ہوگا۔ اور اگر خاوند مالدار ہو، تو ایک خادم بھی دینا ہوگا ۔ لیکن اگر عورت نافرمان ہے، یا صغیرہ ناقابل جماع ، تو اس صورت میں عورت کا نان ونفقہ واجب نہیں۔
اور رفاہ المسلمین میں ہے کہ غسل کے سامان جیسے کھلی، تیل پانی وغیرہ ہر ہفتہ میں فراغت کے ساتھ مہیا کرے ۔ مقدور ہو، تو سونا چاندی کے زیور بھی دے۔ اگر اس کو زیاد ہ جہیز نہ ملا ہے، تو دوسری عورتوں کا جہیز بیان کرکے شرمندہ نہ کرے۔اس کے ماں باپ ، بھائی بہن کے ساتھ احسان و سلوک کرے ۔ ان کو گالی نہ دے ، ورنہ فرشتہ اس پر لعنت کریں گے۔ جب سفر سے واپس آئے، تو اپنی عورت کے لیے کچھ تحفے تحائف بھی ساتھ لائے اور تلطف اور مہربانی سے دل خوش رکھے۔ 
مولانا تھانوی ؒ امداد الفتاویٰ جلد دوم میں فرماتے ہیں کہ
زوج پر زوجہ کے یہ حقوق ہیں:(۱) حسن خلق۔ (۲) برداشت کرنا ایذا کا مگر باعتدال۔ (۳)اعتدال کرنا غیرت میں، یعنی نہ بدگمانی کرے نہ بالکل غافل ہوجائے۔ (۴) اعتدال خرچ میں، یعنی نہ تنگی کرے نہ فضول خرچی کی اجازت دے۔ (۵) احکام حیض وغیرہ کے سیکھ کر اس کو سکھانا اور نماز اور دین کی تاکید رکھنا اور بدعات اور منہیات سے منع کرنا۔ (۶) اگر کئی عورتیں ہوں ، ان کو برابر رکھنا حقوق میں۔ (۷) بقدر حاجت اس سے وطی کرنا۔ (۸) بدون اجازت عزل نہ کرنا۔ (۹) بدون ضرورت طلاق نہ دینا۔ (۱۰) بقدر کفایت رہنے کو گھر دینا۔ (۱۱) اس کے محارم اقارب سے اس کو ملنے دینا۔ (۱۲) اس کا راز ظاہر نہ کرنا جماع وغیرہ کا ۔ (۱۳) حد سے زیادہ نہ مارنا اور مثل ان کے۔
دو بیویوں کا حق
اگر دو یا دو سے زیادہ بیویاں ہوں، تو ان بیویوں کے درمیان عدل (برابری) کرنا واجب ہے۔ہر ایک کو علاحدہ مکان میں رکھے۔ اور ہر ایک کے پاس رات قیام میں مساوات برتے۔ اگر کسی ایک کے پاس ایک رات گذارے، تو دوسری کے پاس بھی ایک رات گذارے۔ اور اگر ایک کے پاس دو رات گذارے، یا دو سے زیادہ، تو دوسری کے پاس بھی دو رات، یا دو سے زیادہ رات گذارے۔ دونوں کو ایک کوٹھری میں رکھنا، یا شب باشی میں کم و بیش کرنا، یا کھانے ، کپڑے میں کم و بیش کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: 
اذَا کَانَتْ عِندَ الرَّجُلِ اِمَرْأتَانِ ، فَلَمْ یَعْدِلْ بَیْنَھُمَا جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ شِقُّہُ سَاقِطٌ۔ 
(رواہ الترمذی و ابو داود و نسائی و ابن ماجہ)
جب کسی مرد کے پاس دو بیویاں ہوں ، پھر ان دونوں کے درمیان عدل نہ کرے، تو قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا بدن گرا ہوا ہوگا۔
اور در مختار میں ہے کہ بیویوں کے پاس رات کے رہنے میں اور کھلانے، پلانے، پہنانے اور صحبت میں برابری کرنا واجب ہے۔ محبت اور جماع کرنے میں واجب نہیں ؛ بلکہ مستحب ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ 
وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْا أنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْ کُلَّ الْمَیْلِ(النساء، آیۃ: ۱۲۹)
عورتوں کے درمیان تم عدل کرنے کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے ہو اگر چہ تم اس کی خواہش کرو، پس کسی ایک طرف بالکل نہ جھک پڑو۔
یعنی محبت، بے اختیاری چیز ہے۔ اس کے اندر تو عدل نہیں ہوسکتا، لیکن اس محبت کی وجہ سے تم دوسری چیزوں میں بھی عدل کرنا چھوڑ دو اور کسی ایک کی ہورہو، ایسا بھی نہ کرو؛ بلکہ دوسرے معاملات میں انصاف کرو۔ اور برابر کا برتاؤ کرو؛ ورنہ قیامت کے دن حدیث کے مطابق برا حال ہوگا۔
قسط نمبر (7) کے لیے کلک کریں

قسط نمبر (5) نکاح کا بیان

نکاح کا بیان
قسط نمبر (5) 

(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
نکاح کرنا سنت ہے
نکاح کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ نکاح انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی سنت ہے ۔ نکاح ایسی چیز ہے، جو آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر اب تک برابر سنت چلی آتی ہے۔ ترمذی)
جو شخص نکاح کے حقوق کو ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور شہوت کا غلبہ بھی نہیں ہے ، اس کے لیے نکاح کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ 
مَنْ کَانَ عَلَیٰ دِیْنِیْ أوْ دِینِ دَاؤدَ وَ سُلَیْمَانَ وَ ابْرَاھِیْمَ فَلْیَتَزَوَّجْ انْ وَجَدَ الیٰ النِّکَاحِ سَبِیْلاً (کنز العمال)
جو شخص میرے دین اور داود وسلیمان وابراہیم علیہم السلام کے دین پر ہو ، وہ نکاح کرے، اگر نکاح کرنے کی راہ پائے۔
یعنی اگر نکاح کے حقوق ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو وہ نکاح کرے۔
نکاح کرنا واجب ہے
اگر شہوت غالب ہو اور نفس طالب زنا میں مبتلا ہونے کا خوف ہو، نکاح کے حقوق ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہو، اس صور ت میں اس پر نکاح کرنا واجب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنکُمُ الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہُ اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَ اَحْصَنُ لِلْفَرَجِ وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَانَّہُ لَہُ وِجَاءٌ (متفق علیہ)
ائے نوجوانوں کے گروہ! تم سے جو نان و نفقہ کی قدرت رکھتا ہے، وہ نکاح کرے کہ یہ آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کا صحیح علاج ہے ۔ اور جو طاقت نہیں رکھتا ہے، وہ اپنے اوپر روزہ کو لازم سمجھ لے اور یہ ایسا ہے، جیسے کوئی اپنے کو خصی کرالے۔
مطلب یہ ہے کہ بیوی کو روٹی کپڑا اور مہر دینے کی طاقت نہ ہو، تو روزوں سے اپنی شہوانی قوت کا علاج کرے۔
ایمان کی حفاظت
نکاح کا سب سے بڑا فائدہ ایمان کی حفاظت ہے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا :
اذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الاِیْمَانِ، فَلْیَتَّقِ الْلّٰہَ فِیْ نِصْفِ الْباقِیْ (بیھقی فی شعب الایمان)
جب بچہ نے نکاح کرلیا تو اس کا نصف دین محفوظ ہوگیا۔ باقی نصف کو بچانے کے لیے خدا سے تقویٰ اختیار کرے۔
معلوم ہوا کہ نکاح سے بہت سے ظاہری اور باطنی فوائد حاصل ہوتے ہیں، اور دین و دنیا کے سنورنے کا بڑا ذریعہ ہے ۔ اسی کے ذریعہ سے نسل باقی رہتی ہے ۔ اسی کے ذریعے سے صنف نازک کی حفاظت اور پرورش ہوتی ہے ۔ نکاح حصول تقویٰ میں بڑا مدد گار ہے۔
کیسی عورت سے نکاح کرے
سرکار دوجہاں ﷺ نے عورت کو دنیا کا بہترین سرمایہ کہا ہے۔ ارشا د ہے کہ: 
اَلدُّنْیَا کُلُّھَا مَتَاعٌ وَ خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرْأۃُ الصَّالِحَۃ.ُ(مسلم)
پوری دنیا ایک سرمایہ ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر عورت ہے ، لیکن ہر عورت نہیں؛ بلکہ وہ عورت جو نیک ہو۔ صالحہ ایک ایسی صفت ہے، جو تمام خوبیوں کو اپنے اندر داخل کرلیتی ہے ۔ زنِ صالحہ وہی ہوسکتی ہے، جو خدا کی فرماں بردار ہو۔ نماز روزے کی پابند ہو۔ اخلاق جمیلہ سے آراستہ ہو۔ شوہر کی تابعدار ہو۔ بچوں کی شفیق ماں ہو۔ گھر کی منتظمہ ہو۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت رکھتی ہو۔ زبان اس کے قابو میں ہو۔ کسی کو ایذا و تکلیف نہ دیتی ہو۔ اپنے پر دوسروں کے آرام کو مقدم رکھتی ہو۔ پاک دامن ہو۔ عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والی ہو۔ اور بھی دوسری اچھی باتوں سے آراستہ ہو۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں نیک عورت کی یہ تعریف آئی ہے کہ جب اس کو حکم دیا جائے، تو اس کی تعمیل کرے ۔ جب خاوند اس کی طرف دیکھے، تو اس کو خوش کردے۔ اور اگر کبھی اس کو قسم دی جائے، تو اس کو پوری کردے۔ اگر خاوند کہیں چلا جائے، تو خاوند کے پیچھے اپنی عصمت اور خاوند کے مال کی حفاظت کرے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’ نیک عورت رات کا تارا اورصبح کا ہیرا ہے‘۔ ؂
عورت اگر ہے نیک تو جنت میں ہے مقیم
کونین کی دولت لیے رہتی ہے وہ نعیم
اگر نیک کے ساتھ حسین بھی ہو تو اور بھی بہتر ہے۔ ؂
زنِ خوب فرماں برو پارسا
کند مرد درویش را بادشاہ
صلاحِ دنیا و دین ست صحبت زنِ نیک
زہے سعادت آں کس کہ زن حسین دارد
نیک عورت کی صحبت دین و دنیا کی بناؤ ہے ۔ اس شخص کی کیا ہی نیک بختی ہے جو حسین عورت رکھتا ہے۔ یعنی نیک عورت سے دین و دنیا دونوں بنتی ہے ۔ اگر اس پر حسین ہو، تو اس شخص کی خوش قسمتی کا کیا کہنا۔ ؂
ز ہمنیشنِ نکو کام دل تواند یافت
کسیکہ طالع فرخندہ ہم چنیں دارد
جوشخص مبارک قسمت رکھتا ہے ، وہی اچھی عورت سے دلی مقصد حاصل کرسکتا ہے ؛ لیکن اگر عورت نیک نہیں، بد خصلت و نافرمان ہے، تو موذی مار آستین ہے ۔ گو وہ کتنی ہی حسین کیو ں نہ ہو، مرد کے لیے وبال جان ہے ۔ ؂
بری عورت بھلے انسان کے گھر
سزا دوزخ کی ہے دنیا کے اندر
بچا ائے رب بری عورت سے ہم کو
ہمیں کر تو عطا اک نیک ہمسر
اس لیے نکاح کے اندر اس کا بڑا خیال رہے کہ عورت نیک، خوش اخلاق ہو، پاکدامن ، سمجھد ار ہو، گو حسن و جمال میں یکتائے روزگار نہ ہو۔ ؂
سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا
باپ سے کہیں زیادہ ماں کے اخلاق و کردار کا بچوں کے اندر اثر ہوتا ہے ، اس لیے دھن دولت کا قطعا خیال نہ کریں، جیسا کہ اس زمانہ میں کیا جاتا ہے ؛ بلکہ سیرت اور کردار کا پُتلا تلاش کریں ، چاہے جہاں ملے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں میں چار باتیں تلاش کی جاتی ہیں : 
مال ۔ نسب۔ جمال اور دین۔لیکن ائے مخاطب! 
فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ۔ (بخاری و مسلم)
تو دین والی کو اختیار کر۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ 
اذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَہُ وَ خُلُقَہُ فَزَوَّجُوْہُ۔
(ترمذی)
جب تم کو نکاح کا پیغام ایسا آدمی دے، جس کی دینداری اور عادت تم کو پسند ہو تو اس سے نکاح کرلو۔
اس لیے کہ نکاح سے جو مقصد ہے ، ایسی عورت سے بحسن و خوبی انجام پاسکتا ہے۔ شوہر کی اطاعت، بچوں کی خدمت ، عزت و آبرو کی حفاظت ، حسن معاشرت، مال کی حفاظت، دکھ تکلیف پر صبر ایسی ہی عورت کرسکتی ہے۔
اگر دینداری اور خوب سیرتی نہیں تو مال کا غرور، حسن کا غرور، خاندانی غرور آئے دن جنگ برپا کرے گا اور خادم مخدوم بننے کی کوشش کرے گا ، جس سے مرد، یا تو غلام بن کر رہے گا، یا پھر نفاق کی خندق اس قدر وسیع ہوگی کہ پھر اسے پاٹ نہ سکے گااور تفرقہ کی نوبت آئے گی ۔ اسی لیے حضور پر نور ﷺ نے فرمایا :
ایک کالی نکمی مگر دین دار عورت زیادہ بہتر ہے بد دین خوب صورت عورت سے ۔ (ابن ماجہ)
کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ؂
سیرت نہیں ہے جس میں وہ صورت فضول ہے 
جس گل میں بو نہیں ہے وہ کاغذ کا پھول ہے
حسن صورت چند روزہ حسن سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں، اس سے خوش ہوتا ہے دل
البتہ اگر یہ خوبیاں کسی شریف خاندان کی عورت میں ہوں، تو بہت خوب۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ 
تَخَیَّرُوْا لِنُطَفِکُم، فَا8نَّ النِّسَاءَ یَلِدْنَ أشْبَاہَ ا8خْوَانِھِنَّ وَ أخْوَاتِھِنَّ (ابن عدی وابن عساکر)
اپنے نطفوں کے لیے عمدہ محل پسند کرو، اس لیے کہ عورتیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے مانند بچے جنتی ہیں۔
یعنی خاندانی اثرات بچوں میں ہوتے ہیں، اس لیے اچھے خاندان کے اچھے اثرات بچوں میں آئیں گے۔ اچھے خاندان وہی ہیں، جس میں دینداری اور اخلاق مندی ہیں۔
نکاح سے جہاں مقصد تعلقات کی خوشگواری کے ساتھ اپنے دین اور شرمگاہ کی حفاظت اور گھر کا انتظام ہے ، وہاں نکاح سے اہم مقصد حصول اولاد بھی ہے ۔ اس لیے اس خاندان کی عورت سے نکاح کرنا چاہیے، جس خاندان کی عورتیں اولاد کثیر جنتی ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
دوست رکھنے والی، کثیر اولاد جننے والی عورت سے نکاح کرو۔ میں امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔ (ابو داود و نسائی)
کیسے مرد سے نکاح کرے
اسی طرح اگر کوئی اپنی لڑکی کا نکاح کسی لڑکے سے کرنا چاہے، تو اس لڑکے کے اندر بھی دیند اری، خوش اخلاقی اور فیاضی کا لحاظ رکھے۔ اس لیے کہ نیک مرد ہی عورتوں کے حقوق کو خوش اسلوبی سے ادا کرسکتا ہے۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حقیقت میں اچھے اخلاق کے وہ لوگ ہیں، جن کے تعلقات اپنی بیویوں سے اچھے ہیں۔ (ترمذی)
اس زمانہ میں اکثر لوگ ایسے لڑکے کو پسند کرتے ہیں جو مالدار کی اولاد ہوتی ہے۔ زمین جائداد کا مالک ہوتا ہے ۔ اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے اندر دین داری ہے یا بد دینی کا پتلا ہے ۔ اخلاق اچھے ہیں، یا بد خلقی کا مجسمہ ہے ۔ اسی لیے اس بے اعتدالی کا نتیجہ فوراً سامنے آتا ہے۔ لڑکا اپنی بد دینی کی وجہ سے غیر عورت سے آشنائی پیدا کرتا ہے اور اپنی منکوحہ کو یا تو چھوڑ دیتا ہے، یا انتہائی اذیت میں رکھتا ہے ۔ اس بے راہ روی کی وجہ سے کچھ دنوں کے بعد مفلس ابن مفلس ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے ، جس کا آئے دن تجربہ ہوتا رہتا ہے ۔ اس لیے نکاح کے اندر ہر دو جانب دینداری اور خوش اخلاقی اور خاندانی خوبیوں کا بڑا خیال رکھنا چاہیے۔ ان خوبیوں کے ساتھ اگر دھن دولت کی کثرت ہو، جاہ و مرتبہ ہو، بڑی اچھی بات ہے ۔ اور اگر اصل جوہر نہ ہو، تو دولت کی ٹپ ٹاپ بیکار؛ بلکہ وہ ایک زہریلا ناگ ہے ۔ اس کو لات مارنا چاہیے۔ ؂
برے ہو اچھی صورت پربھی گر اچھے نہیں خو میں
وہی اچھا ہے گل، جو ہو رنگت میں اور بو میں
دن تاریخ
بہر کیف جب جانبین سے نکاح کا پیغام منظور ہوجائے، تو عقد نکاح کے لیے ایک تاریخ مقرر کی جائے ۔ اور اس تاریخ کے اندر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مدعو کیا جائے ، تاکہ نکاح کی پوری شہرت ہوجائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
اعْلَنُوْا النِّکَاحَ ۔ (رواہ احمد و صححہ الحاکم)
نکاح کا اعلان کرو۔
اس اعلان کے لیے جمعہ کا دن اور جامع مسجد اختیار کیا جائے، تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ 
وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ۔ 
مسجدوں میں عقد نکاح باندھو۔
ابن ہمام نے فرمایا کہ نکاح مسجدوں میں کرنا مستحب ہے، اس لیے نکاح عبادت ہے ۔ اگر جمعہ کا دن ہو تو اور بہتر ہے۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ)
مہینے کے اعتبار سے ماہ شوال میں نکاح کرنا مستحب ہے ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ماہ شوال میں نکاح کیا اور رخصتی بھی شوال ہی میں ہوئی اور میں حضور ﷺ کی سب سے زیادہ چہیتی ہوئی۔
(مسلم)
دف کا بجانا
اعلان کے لیے بغیر سُر و تال کے دف کا بجانا جائز ہے ، مسنون نہیں۔ اگر سنت ہوتا تو صحابۂ کرام نہ چھوڑتے اور نہ ہی حضور اکرم ﷺ کے کسی نکاح میں دف کا بجانا ثابت ہے ؛ البتہ حضور ﷺ نے اعلان کے لیے بجانے کی اجازت دی ہے ۔ مگر تال و سر سے بجانا درست نہیں۔ چنانچہ فتاویٰ حمادیہ میں لکھا ہے کہ حضرت معلی نے بیان کیا کہ ابوالمہاجر نے فرمایا کہ ابان ابن ایاس نے حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے تمھارے واسطے شراب اور جوا اور بانسری اور ڈھول اور دف مکروہ اور حرام کیا ۔ حضرت معلی کہتے ہیں کہ میں نے ابوالمہاجر سے پوچھا کہ ( جب دف بجانا حرام ہے تو ) آں حضرت ﷺ کے عہد شریف میں دف کو کس طرح بجاتے تھے ؟ ابوالمہاجر نے فرمایا کہ ایک عورت تھی ، جس کسی کی شادی ہوتی، تو وہ عورت ایک چھلنی اور چوب لے کر ایک اونچے مکان پر چڑھ کر چوب کو چھلنی پر مارتی، تاکہ لوگ اس کی آواز سن کر جانیں کہ یہ شادی ہے۔
اس طرح دف بجانے کو اب بھی فقہا جائز کہتے ہیں ۔ چنانچہ تنبیہ الانام میں فتاویٰ سراجیہ سے نقل کیا ہے کہ نکاح کی رات کو نکاح کے اعلان کے واسطے صرف دف بجانا مضائقہ نہیں؛ بشرطیکہ دف میں جلاجل یعنی جھانجھ نہ لگے ہوں۔ اور اس کا بجانا کھیل اور خوشی کی نیت سے بھی نہ ہو، اس لیے کہ کھیل اور راگ دونوں ممنوع اور مکروہ ہیں ۔ اور مالابدمنہ میں لکھا ہے کہ ملاہی، مزامیر، طنبور، ڈھول اور نقارہ اور دف وغیرہ سب بالاتفاق حرام ہیں؛ مگر غازیوں کا نقارہ اور اعلان نکاح کے واسطے دف مباح ہے۔
اور ہدایہ میں لکھا ہے کہ جہاد میں نقارہ بجانا اور نکاح کو مشہور کرنے کے لیے دف بجانا؛ یہ دونوں بالاتفاق مباح ہیں۔ اگر کوئی شخص غازی کے نقارہ کو، یا نکاح کے دف کو ضائع کرے، تو اس پر بالاتفاق تاوان ہے۔
اور یہ اسی وقت تک جائز ہے جب کہ اعلان کی ضرورت سے بجایا جائے۔اگر کھیل اور خوشی کی نیت سے، یا تال و سر سے، یا جھانجھ وغیرہ لگا کر بجایا جائے، تو پھر حرام ہوگا۔ اس لیے کہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ 
نَھَیٰ رَسُوْلُ الْلّٰہِ ﷺ عَنْ ضَرْبِ الدُّفِّ و لَعْبِ الصَّنْجِ وَ ضَرْبِ الزَّمَّارِ (رواہ الخطیب)
رسول اللہ ﷺ نے دف بجانے، اور چنگ سے کھیلنے، اور بانسری کے بجانے سے منع فرمایا ہے۔
اسی طرح دوسرے باجوں کے بجانے سے بھی منع فرمایا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: 
اَلْجَرْسُ مَزامِیْرُ الشَّیْطَانِ (رواہ مسلم)
گھنٹیال شیطان کا باجا ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
انَّ الْلّٰہَ تَعَالَیٰ حَرَّمَ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوْبَۃَ وَ قَالَ کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ ۔ قِیْل:َ اَلْکُوْبَۃُ الطِّبْلُ۔ (رواہ البیھقی)
اللہ تعالیٰ نے شراب، جوا اور نقارہ کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
حضرت مکحول بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اِسْتِماعُ الْمَلاھِیْ مَعْصِیَۃٌ، وَالْجُلُوْسُ عَلَیْھَا فِسْقٌ وَ التَّلَذُّذُ بِھَا مِنَ الکُفْرِ (قاضی خاں)
باجوں کا سننا گناہ ہے اور اس پر بیٹھنا (یعنی بیٹھ کر باجا سننا) فسق ہے اور اس سے لذت لینا کفر ہے۔
اسی لیے رسول اللہ ﷺ راہ چلتے بھی باجوں کا سننا پسند نہ کرتے تھے ۔ کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔ چنانچہ حضرت نافعؓ فرماتے ہیں کہ
میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ راستے میں تھا ، تو آپ ﷺ نے باجے کی آواز سنی۔ آپ ﷺ نے فوراً انگلیاں دونوں کانوں میں کرلیں اور اس راستہ سے دوسری طرف ہٹ گئے ۔ پھر جب دور نکل گئے تو مجھ سے فرمایا ائے نافع! کچھ آواز سنائی دیتی ہے؟ میں نے کہا نہیں، تو انھوں نے انگلیاں کانوں سے اٹھائیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ ﷺ نے بانسری کی آواز سنی، تو حضور ﷺ نے اسی طرح کانوں میں انگلیاں دے لیں، جس طرح میں نے دیں۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں اس وقت چھوٹا تھا۔
(ابو داود)
سماع کا بیان
موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت، جب کہ اشعار نہ پڑھے جائیں اور اس میں کوئی برا مضمون نہ ہو اور پڑھنے والا نہ مرد ہو نہ عورت، تو ایسے اشعار کا سننا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا تھانویؒ فرماتے ہیں کہ
رہا حضرت شارع علیہ الصلاۃ والسلام کا فعل ، سو ہر چند کہ مدعیان جواز قصہ عروسی ربیع بنت معوذ اور قصۂ غناء جاریتین فی یوم الفطر و قصۂ نذر وقت رجوع غزوہ کو اثبات مدعا کے لیے پیش کرتے ہیں اور اہل ظاہر سرسری نظر میں اس کو جواز کی دلیل بھی مان لیتے ہیں ؛ مگر انصاف یہ ہے کہ ان روایات میں غناء لغوی مذکور ہے اور اس میں کہ گفتگوہورہی ہے، وہ صرف اس کا نام نہیں کہ کوئی شعر ذرا آواز بناکر پڑھ دیا ؛ بلکہ خاص نغمات و تحریک صوت برعایت قواعد موسیقی کا نام ہے ۔ اور ان روایات میں کہیں اس کا نام و نشاں بھی نہیں۔ (حق السماع، ص؍ ۷)
مطلب یہ ہوا کہ احادیث میں جو حضور ﷺ کے گانا سننے کا ثبوت ہے وہ غناء لغوی ہے ۔ غناء لغوی یہ ہے کہ اشعار موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت نہ پڑھے جائیں۔ اگرچہ بلند آواز سے قدرے آواز بناکر پڑھا جائے، ایسے غناء کے سننے میں کوئی کلام نہیں، یہ بالاتفاق جائز ہے۔کلام اس غناء میں ہے، جو موسیقی کے اصول و قواعد کے ماتحت ہو ، یہی اصطلاحی غناء ہے ۔ اسی غناء کے بارے میں احادیث میں مذمت آئی ہے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلْغِنَاءُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ۔ 
(رواہ البیھقی)
گانا دل میں نفاق اسی طرح پیدا کرتا ہے، جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔ 
ایک دوسری روایت حضرت انسؓ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اَلْغِِنَاءُ وَالْلَّھْوُ یُنْبِتانِ النِّفاقَ کَمَا یُنْبِتُُ الْمَاءُ الْعُشْبَ۔ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ أنَّ الْقُرْآنَ وَالذِّکْرَ یُنْبِتَانِ الا8یْمَانَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الْعُشْبَ۔ (دیلمی)
گانا اور باجا نفاق پیدا کرتے ہیں ، جیسا کہ پانی گھاس اگاتا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، قرآن اور ذکر دل میں ایمان پیدا کرتے ہیں جیسا کہ پانی گھاس اگاتا ہے۔ 
اور بھی ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
قسم ہے اس ذات پاک کی، جس نے مجھ کو دین حق دے کر بھیجا، نہیں بلند کیا کسی شخص نے اپنی آواز کو گانے میں ، مگر مسلط فرماتا ہے اس پراللہ تعالیٰ دو شیطانوں کو ، کہ سوار ہوتے ہیں ان کے کندھوں پر اور پھر اس کے سینے پر لاتیں مارتے ہیں ، جب تک وہ خاموش نہ ہوجائے۔
(ابن ابی الدنیا، طبرانی، ابن مردویہ)۔ 
’’رسالہ نصیحت‘‘ میں مبسوط سے نقل کیا ہے کہ ملاہی کا سننا اور گانا؛ سب حرام ہے۔ اور محیط سے لکھا ہے کہ گانا اور تالیاں بجانا اور ان چیزوں کو سننا سب حرام ہے۔ مضمرات میں ہے کہ جس شخص نے مباح کیا غناء کو ، وہ فاسق ہوگیا۔ معلوم ہوا یہ اصطلاحی غناء امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اور ان کے متبعین کے نزدیک حرام ہے۔ 
رہا غنا ء ساز کے ساتھ اس کے حرام ہونے میں، تو کسی امام کا اختلاف نہیں ہے ۔ رسالہ ابطال میں حرمت آلات کو جمہور کا مذہب قرار دیا ہے ۔اوربوارق میں مزمار( بانسری) کو حرام لکھا ہے۔ ان دونوں رسالوں کے مصنف حنبلی و شافعی ہیں ۔ امام غزالی جو شافعی مذہب ہیں، احیاء العلوم میں مزامیر اور اوتاد جس میں ستار وغیرہ بھی داخل ہیں، اور طبل کو جو ڈھولک کو بھی شامل ہے ، ان سب کو حرام فرماتے ہیں ۔ احادیث کے اندر بھی اس کی بڑی مذمت آئی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے، جو خز (ریشم) اور حریر اور شراب اور معازف (باجے) کو حلال سمجھیں گے۔ (بخاری) 
اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ
بعضے لوگ شراب کا نام بدل کر پئیں گے ۔ اور ان کے سروں پر معازف (گانے بجانے کے آلے) اور گانے والیوں سے ، گو ریاءً بجایا جائے گا، اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسا دے گا اور بندر اور سور بنا دے گا۔
(ابن ماجہ)
اور فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:
ایک قوم اس امت کی آخر زمانہ میں بندر اور خنزیر بن جائے گی ۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا وہ لوگ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل نہ ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، وہ لوگ نماز ، روزہ و حج سب کچھ کریں گے ۔ کسی نے عرض کیا کہ پھر اس سزا کی کیا وجہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھوں نے باجے اور گانے والیوں کا مشغلہ اختیار کیا ہوگا۔ (مسند ابن ابی الدنیا)
اسی قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں ، جن سے گانے بجانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، لہذا شادی کے موقعوں پر اس کی جرأت نہ کریں۔
مَہَر کا بیان
جب جانبین کے لوگ اکٹھے ہوجائیں، تو اس کے بعد مہر طے کرلینا چاہیے ۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں مہر دس درہم سے کم درست نہیں ، جس کا وزن اکتیس ماشے چار رتی چاندی ہوتا ہے ۔ حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
لَا مَھْرَ أقَلُّ مِنْ عَشْرَۃِ دَرَاھِمَ (رواہ ابن ابی حاتم و قال الحافظ بن حجر انہ بھذا الاسناد حسن) 
دس درہم سے کم مہر نہیں ہے۔
اور مہر کی زیادتی کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جس قدر بھی طے ہوجائے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو زیادہ مہر مقرر کرنے سے روکا، تو ایک قریشی عورت نے کہا کہ:
ائے امیر المؤمنین ! اللہ کی کتاب اتباع کی زیادہ مستحق ہے، یا آپ کی بات؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب۔ اس عورت نے کہا کہ ابھی آپ نے عورتوں کے مہر میں غلو کرنے سے منع فرمایا ، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ: 
وَ اٰتَیْتُمْ احْدٰھُنَّ قِنْطَاراً فَلَا تَأخُذُوْا مِنْہُ شَیْءَاً
(النساء آیۃ:۲۰ ) 
اور تم ان میں سے ایک کو ڈھیر کا ڈھیر مال دے چکے ہو ، تو تم اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو۔
اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا : عمر سے ہر شخص زیادہ سمجھ دار ہے ۔ اور پھر ممبر پر چڑھے اور فرمایا: میں نے زیادہ مہر باندھنے سے منع کیا تھا، اب ہر شخص اپنے مال میں جو چاہے کرے۔ (بیہقی) ۔
لیکن زیادہ مہر مقرر کرنا استحباب کے خلاف ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
انَّ أعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَۃً أیْسَرُ مَؤُنَۃً (بیھقی)
سب سے زیادہ بابرکت وہ نکاح ہے، جس میں کم خرچ ہو۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ :
خَیْرُ الصِّداقِ أیْسَرُہُ۔ (اخرجہ ابو داود، و صححہ الحاکم)
بہترین مہر آسان مہر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
خبردار عورتوں کا زیادہ مہر مقرر مت کرو، اس لیے کہ زیادہ مہر مقرر کرنا اگر دنیا میں کوئی کرامت کی چیز ہوتی، اور خدا کے نزدیک کوئی تقویٰ کی بات ہوتی، تو مہر کی زیادتی میں اللہ کے نبی ﷺ تم سے زیادہ لائق تھے۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر کسی عورت سے نکاح کیا ہو، یا کسی لڑکی کا نکاح کیا ہو۔ 
(ترمذی، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ، یعنی چار سو اسی درہم ۔ اور حضرت عائشہؓ کی روایت میں ساڑھے بارہ اوقیہ آیا ہے، یعنی پانچ سو درہم۔ چنانچہ حضرت ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی عورتوں کا مہر کیا مقرر کیا تھا؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بارہ اوقیہ اور نُش۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہونُش کیا ہے؟ حضرت ابو سلمہ نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا آدھا اوقیہ، پس یہ پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ (مسلم)
مہروں میں اولیٰ اور مسنون پانچ سو درہم ہیں، یعنی ایک سو اکتیس تولے تین ماشہ چاندی، جیسا کہ ازواج مطہراتؓ کا تھا ۔ یا چار سو مثقال چاندی، یعنی ڈیڑھ سو روپیے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کی صاحبزادیوں کا مہر تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی چار سو مثقال چاندی تھا، یعنی ایک سو پچاس تولے، کیوں کہ ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو دینار تھا، یعنی ایک ہزار پچاس روپیے، جو شاہ حبش نجاشی نے آں حضور ﷺ کی طرف سے نکاح کے وقت مقرر کرکے اسی وقت ادا کردیا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مہر پانچ سو درہم، یا اس قیمت کے اونٹ تھے، جو ابو طالب نے اپنے ذمہ رکھے۔ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مہر کوئی برتنے کی چیز تھی جو دس درہم کی تھی۔ اور حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو درہم تھا۔ اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو درہم تھا۔
مہر مثل میں باپ کی قوم کا اعتبار ہوتا ہے اور اس میں عمر، حسن، مال، عقل و دین ، نکاح کا وقت اور زمانہ اور شہر ایک ہو۔ 
(نور الہدایہ، ج؍ ۲، ص؍۲۴)

نکاح کا خطبہ
ایجاب و قبول سے پہلے خطبہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔ چنانچہ ابو داود کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امامہ بنت عبدالمطلب کا نکاح بنی سلیم کے ایک شخص سے کیا ؛ مگر آپ ﷺ نے خطبہ نہیں پڑھا؛ البتہ خطبہ پڑھنا مسنون ہے ۔ اگر منکوحہ کا ولی خود پڑھا لکھا ہو تو اس کو چاہیے کہ خود خطبہ پڑھے اور اس کے بعد ایجاب کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدۃ النساء فاطمہ الزہرا کا کیا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں بزرگوں نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اپنے لیے نکاح کی درخواست کی، تو رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اور کسی کو کچھ جواب نہیں دیا۔ پھر ان دونوں بزرگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اپنے لیے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں درخواست کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حضرات کے اشارہ سے میں اپنی چادر گھسیٹتا ہوارسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! فاطمہ کو میرے نکاح میں دیدیجیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیرے پاس کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا گھوڑا اور زرہ موجود ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا : تجھ کو گھوڑے کی ہر وقت حاجت رہتی ہے۔ زرہ کو بیچ ڈال۔ تو میں نے چار سو اسی درہم میں زرہ کو بیچ کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے وہ درہم گود میں لے لیے۔ پھر ان میں سے ایک مٹھی بھر درہم اٹھاکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دے کر فرمایا کہ ہمارے واسطے خوشبو لاؤ ۔ اور اہل بیت کو اشارہ کیا کہ فاطمہ کے واسطے جہیز تیار کر۔ تب ان کے واسطے ایک چار پائی کھجور کی رسیوں سے تیار کی اور کھجور کی چھال بھر کر توشک تیار ہوئی ۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ جب فاطمہ تمھارے پاس آئے، تو جب تک کہ میں تمھارے پاس نہ پہنچوں، تم فاطمہ سے کلام نہ کیجیو۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ اندر آئیں اور گھر کے ایک کنارہ میں بیٹھیں۔ اور میں علاحدہ دوسرے کنارے میں بیٹھا۔ اسی عرصہ میں جناب سرکار دو عالم ﷺ نے تشریف لاکر فرمایاکہ یہاں میرا بھائی ہے؟ حضرت ام ایمنؓ نے کہا کہ آپ کا بھائی موجود ہے ؟ کیا آپ ﷺ نے اپنی بیٹی اس کے ساتھ بیاہ دی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یقینا۔ پھر آپ ﷺ اندر تشریف لائے ۔ اور فاطمہ سے کہا تھوڑا پانی لاؤ۔ فاطمہ اٹھ کر گئیں اور گھر سے لکڑی کے پیالہ میں پانی لائیں۔ آں حضرت ﷺ نے وہ پانی لے کر تھوڑا لعاب دہن مبارک اس میں ڈال کر فاطمہ کو اپنے پاس بلایا۔ جب فاطمہ پاس آئیں، تو آپ ﷺ نے تھوڑا پانی اپنے ہاتھ میں لے کر فاطمہ کے سینے اور سر پر چھڑکا اور فرمایا: الٰہی میں اس کو اور اس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، شیطان مردود سے۔ پھر فاطمہ سے فرمایا کہ اپنی پیٹھ میری طرف کر۔ فاطمہ نے اپنی پیٹھ آپﷺ کی طرف پھیرد ی۔ آپ ﷺ نے تھوڑا پانی ان کے دونوں مونڈھوں کے درمیان میں چھڑکا۔ پھر یہی معاملہ میرے ساتھ کیا۔ پھر مجھ سے فرمایا: اب تو اپنی بیوی کے پاس اللہ تعالیٰ کا پاک نام لے کر اور اس کی برکت کے ساتھ داخل ہو۔ (ابو حاتم و احمد بحوالہ مواہب لدنیہ)
دوسری روایت بھی حضرت انسؓ ہی سے اس طرح ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی درخواست کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیغمبر خدا ﷺ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام اپنے واسطے دیا، تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا: میرے رب نے بھی مجھے یہی حکم دیا ہے ۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر مجھ کو آں حضرت ﷺ نے کئی روز بعد بلاکر فرمایا: ائے انس! تم ابوبکر، عمر، عثمان، عبدالرحمان اور کچھ لوگ انصار میں سے بلا لاؤ۔ پھر جب یہ حضرات تشریف لائے اور اپنے اپنے مقام پر بیٹھے اور حضرت علیؓ وہاں موجود نہ تھے ، تو آں حضرت ﷺ نے یہ خطبہ پڑھا:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَحْمُودِ بِنِعْمَتِہِ، الْمَعْبُودِ بِقُدْرَتِہِ، الْبَالِغِ سُلْطَانُہُ، الْمَرْھُوبِ مِنْ عَذَابِہِ، الْمَرْغُوبِ إِلَيِ فِیْمَا عِنْدَہُ، النَّافِذِ أَمْرُہُ فِي سَمَاۂِ وَأَرْضِہِ، الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِہِ، وَمَیَّزَھُمْ بِأَحْکَامِہِ، وَأَحْکَمَھُمْ بِعِزَّتِہِ، وَأَعَزَّھُمْ بِدِیْنِہِ، وَأکْرَمَھُمْ بِنَبِیِّہِ مُحَمَّدﷺ، ثُمَّ إِنَّ الْلّٰہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الْمُصَاھَرَۃَ نَسَبَاً لَاحِقَاً وَأَمْرَاً مُفْتَرَضَاً، وَشَبَّحَ بِہِ الأَرْحَامَ، وَأَلْزَمَ الأَنَامَ، فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: وَھُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرَاً فَجَعَلَہُُ نَسَبَاً وَصِھْرَاً وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیْرَاً ۔ فَأَمْرُ الْلّٰہِ تَعَالَیٰ یَجْرِي إِلَیٰ قَضَاءِہِ، وَقَضَاؤُہُ یَجْرِیْ إِلیٰ قَدَرِہِ، وَقَدَرُہُ یَجْرِيْ إِلیٰ أَجَلِہِ، وَ لِکُلِّ قَضَاءٍ قَدَرٌ، وَ لِکُلِّ قَدَرٍ أَجَلٌ، وَلِکُلِّ أَجََلٍ کِتَابٌ، یَمْحُوالْلّٰہُ مَا یَشَاءُ وَ یُثْبِتُ، وَعِنْدَہُ أُمُّ الْکِتَابِ۔ (الرعد آیۃ۳۹) 
اس کے بعد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو فاطمہ کا نکاح علی کے ساتھ کردینے کا حکم دیا ہے ، سو تم لوگ اس بات پر گواہ رہو کہ میں نے اس کا نکاح علی کے ساتھ کردیا ۔ اور چار سو مثقال چاندی اس کا مہر ٹھہرایا۔ بشرطیکہ علی بھی اس پر راضی ہو۔ اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے ایک طباق بھر کر خشک چھوہارے منگوائے اور حاضرین مجلس سے فرمایا کہ ان کو لوٹ لو۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے آں حضرت ﷺ کے ارشاد کی وجہ سے وہ چھوہارے لوٹ لیے۔ اتنے میں حضرت علیؓ بھی آ پہنچے ، تو آں حضرت ﷺ علیؓ کے روبرو مسکرائے ، پھر فرمایا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے حکم بھیجا ہے کہ فاطمہ کا نکاح تمھارے ساتھ چار سو مثقال چاندی کے مقابلہ میں کردوں، کیا علی تم اس پر راضی ہو؟انھوں نے کہا کہ بے شک یا رسو ل اللہ ، میں اس پر راضی ہوں۔ پھر آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
جَمَعَ الْلّٰہُ شَمْلَکُمَا وَ أعَزَّ جَدَّکُمَا، وَ بَارَکَ عَلَیْکُمَا وَ اَخْرَجَ مِنْکُمَا کَثِیْرَاً طَیِّبَاً 
اللہ تم دونوں کی پراگندگی دور کرے۔ اور تمھاری کوشش کو عزیز کرے اور تم پر برکت نازل کرے اور تم کو اچھی پاکیزہ اولاد دے۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم ان دونوں سے اللہ تعالیٰ نے بہت پاکیزہ اور بہتر اولاد پیدا کیں۔ (ابوالخیر قزوینی حاکمی بحوالہ مواھب لدنیہ)
اگر ولی پڑھا لکھا نہ ہو تو اس کا وکیل یا قاضی جس کو ایجاب و قبول کی اجازت ملی ہو ، وہ خطبہ مسنونہ پڑھے ، پھر ایجاب و قبول کرے ۔ نکاح کا وکیل وہ شخص ہے ، جس کو دوسرے کے نکاح کرانے کا اختیار ملا ہو۔ نکاح میں وکیل بنانا درست ہے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے شاہ حبش نجاشیؓ کو اپنا وکیل ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا بنایا تھا۔چنانچہ مواہب لدنیہ میں اس کے احوال بھی مفصل منقول ہیں۔ یہاں پر اس کا خلاصہ لکھا جاتا ہے: 
جب ام حبیبہ کا شوہر عبدا للہ بن جحش ان کو لے کر ملک حبش کو ہجرت کرگیا اور وہاں پہنچ کر بد قسمتی سے نصرانی ہوگیا اور اسی حالت میں مرگیا، تو رسول اللہ ﷺ کو کسی صحابی نے خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے ایمان اور اسلام پر بدستور قائم ہیں۔ آں حضرت ﷺ نے یہ بات سن کر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اپنا نکاح کا پیغام نجاشی کے پاس عمرو بن امیہ کے ہاتھ بھیجا ۔ نجاشی نے اسی وقت اپنی باندی ابرھ کو ام حبیبہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ ان سے کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے تمھارے ساتھ اپنا نکاح کرنے کا پیغام بھیجا ہے ، اگر تم کو منظور ہو تو تمھارا نکاح آں حضرت ﷺ کے ساتھ پڑھ دوں؟ یہ خبر سنتے ہی وہ بہت خوش ہوئیں اور اپنے ہاتھ کے دونوں کنگن اور ایک انگوٹھی اس خوش خبری کے انعام میں ابرھ کو دیے اور نکاح کے معاملہ میں خالد بن سعید کو اپنی طرف سے وکیل کرکے نجاشی کے پاس بھیجا۔ اس نے شام کے وقت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت مہاجرین رضی اللہ عنہم سمیت بلواکر حقیقت حال بیان کی پھر یہ خطبہ پڑھا:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ السَّلَامِ الْمُؤمِنِ الْمُھّیْمِنِ الْعَزِیْزِ الْجَبَّارِ، أشْھَدُ أنْ لَّا الٰہَ الَّا اللّٰہُ وَ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ أرْسَلَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ۔
اس خطبہ کے بعد نجاشی رضی اللہ عنہ نے کہاکہ سننا چاہیے کہ جس کام کا رسول کریم ﷺ نے مجھ کو پیغام بھیجا تھا ، سو میں نے اس کو قبول کیا۔ پھر چار سو اشرفی سونے کے سکے ان حضرات کے آگے ڈال دیے۔ اور فرمایا: اس قدر مہر میں نے مقرر کیا۔ اس کے بعد خالد بن سعید رضی اللہ عنہ ام حبیبہؓ کے وکیل نے کہا :
الْحَمْدُ لِلّٰہِ أحْمَدُہُ وَ اَسْتَعِینُہُ وَ اسْتَغْفِرُہُ ، أشْھَدُ أنْ لَّا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ أرْسَلَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ،أمَّا بعدُ۔
میں نے اس امر کو قبول کیا، جس کو پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے ۔ اور میں نے پیغمبر خدا ﷺ کا نکاح ام حبیبہ بنت ابی سفیان کے ساتھ کردیا۔ اللہ تعالیٰ یہ نکاح پیغمبر خدا ﷺ کو مبارک کرے ۔ اس کے بعد نجاشی رضی اللہ عنہ نے وہ سب دینار حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیے۔ حضرت خالد نے لے کر گانٹھ باندھ لی ۔ اب لوگوں نے چاہا کہ اٹھ کر اپنے اپنے مکان کو جائیں، تو نجاشی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ حضرات ذرا دیر اور تشریف رکھیے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ اور ان کی سنت یہ ہے کہ نکاح کے بعد کچھ کھانا دوستوں کو کھلاتے ہیں ۔ پھر کھانا منگواکر سب حضرات کو کھلایا اور رخصت کیا۔ پھر نجاشی رضی اللہ عنہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکو شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیغمبر خدا ﷺ کی خدمتِ مبارک میں روانہ کیا۔
ایک خطبہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کو عام طور پر حضرات علمائے کرام پڑھتے ہیں ، وہ یہ ہے:
اِن اَلحَمدَ لِلّٰہِ نَحمَدُہٗ وَ نَستَعِینُہٗ وَ نَستَغفِرہٗ وَ نَعَوذُ بِالْلّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سِیَّءَاتِ أعْمَالِنَا، مَنْ یَھْدِ ہِ الْلّٰہُ فَلا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہُ، وَأشْھَدُ أنْ لَّا اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، وَ أشْھَدُ أنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ یَاایُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا الْلّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُمْ مُّسْلِمُونَ۔یَااَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّن نَّفْسٍ وَّاحِدۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْراً وَّ نِسَاءً ۔ وَاتَّقُوْا الْلّٰہَ الَّذِيْ تَسَاءَلُوْنَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ، إِنَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبَاً، یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا الْلّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدَاً، یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ الْلّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظیْمَاً ۔ (مشکوٰۃ)

ایجاب و قبول
خطبہ کے بعد قاضی یا جو شخص عقد نکاح کے واسطے مقرر ہو حاضرین کے سامنے دولہا سے کہ: فلاں کی بیٹی فلانی کو میں نے اس قدر مہر کے عوض میں تیرے نکاح میں دی ۔ دولہا اس کے جواب میں کہے : میں نے قبول کیا۔ اس طرح ایجاب و قبول سے نکاح ہوجاتا ہے ۔ پہلی بات کو ایجاب اور دوسری بات کو قبول کہتے ہیں ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ دولہن ہی کی طرف سے ایجاب ہو اور دولہا کی طرف سے قبول؛ بلکہ اس کا برعکس بھی ہوسکتا ہے ، یعنی دولہا کی طرف سے ایجاب اور دولہن کی طرف سے قبول، بہر صورت جائز ہے ، لیکن پہلی صورت مستحب ہے۔ 
ایجاب و قبول نکاح کا رکن ہے ۔ اور دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہوں میں ہونا شرط ہے ۔ یعنی کم از کم دو مسلمان بالغ عاقل کے سامنے اتنی آواز سے ایجاب و قبول ہونا چاہیے کہ وہ دونوں گواہ ایک مرتبہ میں سن لیں۔ اگر ایک نے سنا اور دوسرے نے نہیں سنا تو پھر نکاح نہ ہوگا۔ صرف عورتوں کی یا نابالغ بچوں کی یا کافر کی گواہی معتبر نہیں۔ اور ایجاب و قبول میں سے کسی ایک کا لفظ ماضی کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اس یجاب و قبول کی چند صورتیں ہیں:
پہلی صورت یہ ہے کہ ایجاب و قبول دونوں بالاصالت ہو۔ یعنی دلہن ایجاب کرے اور دولہا قبول کرے ، یا دولہا ایجاب کرے اور دولہن قبول کرے۔ یوں کہے کہ میں نے اتنے روپیے مہر کے عوض اپنا نکاح تم سے کیا اور دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ دولہن کی طرف سے ولی یا وکیل ہو اور دولہا اصیل ہو اور اسی کا زیادہ رواج ہے۔ اس میں اس طرح کہے: میں نے اپنی لڑکی یا فلاں کی فلانی لڑکی کا نکاح اتنے مہر میں تم سے کیا ۔ دولہاکہے کہ: میں نے قبول کیا۔مثلا زید کی لڑکی بی بی زینب کا نکاح ڈیڑھ سو روپیے مہر فاطمی میں تم سے کیا۔ دولہا نے کہا : قبول کیا۔
تیسیری صورت یہ ہے کہ دولہن اصیل ہو اور دولہا کی طرف سے ولی یا وکیل ہو، تو وکیل کہے : میں نے اپنے لڑکے کا۔ اور وکیل کہے : میں نے فلاں کے لڑکے فلاں کا نکاح اتنے مہر میں تم سے کیا۔ اور دولہن کہے : میں نے قبول کیا۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے ولی یا وکیل ہو۔ یا ایک طرف سے ولی اور دوسری طرف سے وکیل ہو۔ ولی کہے : میں نے اپنی لڑکی فلانی کا نکاح فلاں کی لڑکی فلانی سے اتنے دین مہر میں کیا۔ دوسرا کہے: میں نے اپنے لڑکے یا اپنے مؤکل کی طرف سے قبول کیا۔اور وکیل کہے کہ میں نے فلاں کی لڑکی فلانی کا نکاح تمھارے لڑکے فلاں سے ، یا فلاں کے لڑکے فلاں سے اتنے مہر میں کیا۔ دوسرا کہے اپنے لڑکے فلاں کی طرف سے ۔ اور وکیل کہے: فلاں کے لڑکے فلاں کی طرف سے قبول کیا، نکاح ہوگیا۔ 
پانچویں صورت یہ ہے کہ ایک ہی شخص دولہا دولہن؛ دونوں طرف سے ولی یا وکیل ہو، یا ایک طرف سے ولی اور دوسری طرف سے وکیل ہو، تو اس صورت میں ایک ہی کلمہ ایجاب و قبول کا قائم مقام ہوگا۔ الگ الگ ایجاب وقبول نہ ہوگا۔ صرف اتنا کہنا کافی ہوگا: میں نے اپنی لڑکی فلانی کا نکاح ، یا فلاں کی لڑکی فلانی کا نکاح، اتنے مہر میں فلاں کے لڑکے فلاں سے کیا، بس نکاح ہوگیا۔
جب ایجاب و قبول ہوجائے تو زوجین کے لیے دعا کرے کہ :
بَارَکَ الْلّٰہُ لَکَ وَ فِیْکَ وَ عَلَیْکَ وَ جَمَعَ شَمْلَکُمَا عَلٰی خَیْرٍ۔ 
اللہ تعالیٰ اس نکاح کو بابرکت کرے اور دونوں کی پراگندگی کو خیر پر جمع کرے۔
اس کے بعد چھوہارے، بادام، کشمش وغیرہ جو کچھ شیرنی ہو، لٹائے اور حاضرین مجلس میں تقسیم کردے۔
رفاہ المسلمین میں لکھا ہے کہ اگر اس وقت نکاح کے اعلان کے واسطے دف بغیر جھانجھ کے بجایا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اور خوشی کو ظاہر کرنے کے واسطے اگر گانا بغیر مزامیر (باجے) کے واقع ہو، بشرطیکہ امرد یا جوان مشتہات عورت کی زبان سے نہ ہو، اور کسی مسلم یا ذمی کی برائی نہ ہو، اور نماز کے حضور کا وقت بھی نہ ہو، اور غناء کی اجرت بھی مشروط نہ ہوتو بالاتفاق جائز ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک انصاری لڑکی تھی، جس کا میں نے نکاح کرادیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: 
ألَّا تُغَنِّیَنَّ، فَانَّ ھَذَا الْحَیَّ مِنَ الْأنْصَارِ یُحِبُّوْنَ الْغِنَاءَ 
( رواہ ابن حبان فی صحیحہ) 
کیا تم گاتی نہیں ہو، انصار کا یہ قبیلہ گانے کو پسند کرتا ہے۔
اور ابن عباس کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ کسی ایسے آدمی کو بھیج دیتے جو کہتا کہ :
اَتَیْنَاکُمْ اَتَیْنَاکُمْ فَحَیَّانَا وَ حَیَّاکُمْ (ابن ماجہ)
مطلب یہ ہے کہ مبارک بادی کے کچھ اشعار موسیقی کے اصول و قواعد کی رعایت کے بغیر سنا دیے جائیں، تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اور باجے کے ساتھ گانا بالاتفاق حرام ہے۔ اس کی مفصل تحقیق پہلے گذر چکی ہے۔
جہیز کا بیان
جہیز میں ضرورت کی چیز دینا مناسب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ چیزیں دی تھیں: د ویمنی چادریں، جو سوسی کی طرح ہوتی تھیں۔ دو نہالی، جس میں اسی کی چھال بھری تھی اور دو گدے، دو چاندی کے بازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ، ایک گھڑا، اور بعض روایت میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ (ازالۃ الخفا)
رخصتی
جب دولہن کو گھر لائے تو اس کی پیشانی کا بال پکڑکر یہ دعا پڑھے:
ألْلّٰھُمَّ انِّیْ أسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ ۔
(زاد المعاد بحوالہ امداد الفتاوٰیٰ، ج؍ ۲)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نکاح کرو یا خادم خریدو تو اس کی پیشانی کا بال پکڑ کر دعائے برکت کرو اور کہو:
ألْلّٰھُمَّ انِّیْ أسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا وَ أعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ (رواہ ابو داود وابن ماجہ)
دعائے مباشرت
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنی بیوی کے پاس آؤ اور یہ دعا پڑھو:
بِسْمِ الْلّٰہِ ألْلّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا
تو اگر اس صحبت سے کوئی بچہ مقدر ہوا تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم)
شیخ عبدالحقؒ فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ اگر جماع کے وقت یہ دعا نہ پڑھے، تو شیطان اپنا دخل جماتا ہے ، جس کی وجہ سے اولاد کے اندر خرابی آتی ہے۔
قسط نمبر(6) کے لیے کلک کریں