12 Dec 2017

سماوی، انسانی، شیطانی آفات اور تحفظ کے فطری طریقے تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی


سماوی، انسانی، شیطانی آفات اور تحفظ کے فطری طریقے
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی
رابطہ: 9871552408
Defence، حفاظت اور بچاو تمام مخلوقات کا نیچر ہے۔ ہر ایک مخلوق خواہ وہ انسان ہو یا جانور؛اپنا بچاو اور دفاع کے ہنر سے واقف ہوتی ہے، کوئی بھی خطرہ درپیش ہو، اس سے اپنے آپ کو بچانے اور محفوظ کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ آپ نے یہ منظر بارہا دیکھا ہوگا کہ چوہے بلی کی آہٹ سن کر ہی جان بچانے کے لیے بلوں میں چھپ جاتے ہیں۔ کبھی آپ کا اور سانپ کا آمنا سامنا ہوجائے، تو جس طرح سانپ اپنی جان بچانے کے لیے راہ فرار تلاش کرتا ہے، اسی طرح آپ بھی اس کے خوف سے سر پر پاوں رکھ کر بھاگتے ہیں۔ المختصر اپنی جان کی حفاظت کرنا، ہر ایک مخلوق کا نیچر ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی حفاظت کے آلات خود انھیں کے جسم کا ایک حصہ اور جز بنادیا ہے۔ آپ ہاتھی کو دیکھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی حفاظت کے لیے طاقت اور سونڈ دے دیا ہے ، شیر کو خوں خوار پنجہ ، کتے کو نوکیلے دانت، سانپ اور بچھو کو زہر آلود ڈنک،گائے، بیل ، بھینس کو سینگ ، پرندوں کو بے قید ہوا میں اڑبھاگنے کی صلاحیت وغیرہ وغیرہ۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ ایک ہی مخلوق میں الگ الگ مقامات کے سرد و گرم موسم کے اعتبار سے جسم و جثہ میں جزوی تبدیلی ۔ اس کے بالمقابل انسان کو قدرت کاملہ نے اس طرح کا کوئی بھی ہتھیار اس کے جسم کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ انسان کے بدن پر پنکھ یا روئی دار کھال نہیں ہوتے کہ جسے وہ سردی سے حفاظت کے لیے استعمال کرے۔ اس کے پاس خوں خوار پنجے اور نوکیلے دانت بھی نہیں ہیں کہ ان سے اپنے تحفظ کا کام لے اور نہ ہی ہاتھی کی طرح سونڈ، گائے کی طرح سینگ ہیں کہ انھیں بطور اوزار کام میں لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کے مقابلے میں انسان کو عقلی سلیم عنایت فرمادی ہے ، جسے وہ استعمال کرکے ہاتھی سے زیادہ طاقت ور، خوں خوار پنجوں سے زیادہ تیز، نوکیلے دانت سے زیادہ نوکیلے ہتھیار اور زہر آلود ڈنک سے زیادہ خطرناک زہر تیار کرکے اپنی حفاظت کا سامان بہم پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں اور دیگر مخلوقات کے تحفظ کا طریقہ کار یکسر مختلف ہوتا ہے۔
آفتیں تین طرح کی ہوتی ہیں: (۱) آفات سماوی۔ (۲) آفات انسانی۔ (۳) آفات شیطانی۔ انسانوں کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں، وہ صرف پہلی دونوں آفتوں کی شکار ہوتی ہیں۔ تیسری قسم یعنی آفات شیطانی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اسی لیے آپ نے کبھی یہ نہیں سنا ہوگا کہ کسی کتے ، بلی یا گائے بیل پر بھوت سوار ہوگیا ہے ۔ آفت شیطانی کی زد میں صرف حضرت انسان ہی آتے ہیں، ساتھ ہی انسان آفات سماوی اور آفات انسانی سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ 
تینوں آفتوں سے بچنے بچانے اور تحفظ فراہم کرنے کے طریقے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور ہتھیار بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک آفت و مصیبت سے تحفظ کے وقت دوسری آفت سے بچاو کے ہتھیار کام آجاتے ہیں، لیکن کچھ آفتیں ایسی بھی ہیں، جہاں دوسرے ہتھیاربالکل بھی کام نہیں آتے، اس سے بچاو کے لیے مخصوص ہتھیار ہی استعمال کرنے ہوں گے۔ آئیے ذیل کی سطروں میں یہ دیکھتے ہیں کہ تینوں قسم کی آفتوں کے لیے کیا کیا ہتھیار ہیں۔
طوفان، آندھی، سیلاب، زلزلہ؛ آفات سماوی ہیں، ان سے بلا استثنا سبھی مخلوقات متاثر ہوتی ہیں۔ زہریلے بم پھوڑ دینا، فسادات برپا کرنا، ایک قوم کا دوسری قوم سے برسرپیکار ہونا، ناحق کسی کو مار ڈالنا، چوری ، گالم گلوچ اور اس قسم کی دیگر حرکتیں آفات انسانی کی مثالیں ہیں۔ ان آفتوں میں سے بعض سے تو انسان جانور سمیت سبھی مخلوقات متاثر ہوتی ہیں، جس کی مثالیں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بم ہیں۔ اس بم کے گرانے کے بیسیوں سال بعد بھی نئی نسل اس کے مہلک اثرات سے متاثر ہوتی رہی اور وہ گونگے، بہرے اور لنگڑے پیدا ہوتی رہی۔ درج بالا دونوں آفتوں سے حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سلیم کا استعمال کرے اور ان آفتوں کے اسباب پر غور کرکے، اپنے اور دیگر مخلوقات کے تحفظ کا سامان فراہم کرے۔ مثال کے طور پر بار بار سیلاب آجاتا ہے ، تو اس سے تحفظ کے لیے پانی کے سرچشمہ پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرے، وہاں باندھ لگائے اور اس قسم کی جو بھی تدبیریں ہیں وہ اختیار کی جائیں۔ اسی طرح آفات انسانی کے طور پر بار بار دو ملکوں میں جنگ کے خطرات منڈلاتے ہیں، تو دونوں ملکوں کو معاہدہ امن پر مجبور کیا جائے۔ المختصر انسانی حکمت عملی کے ذریعے اس قسم کی مصیبتوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔البتہ تیسری قسم کی جو آفت ہے، اس سے بچنے کے لیے کوئی بھی انسان کا مصنوعی ہتھیار کارگر نہیں ہوتا۔ اس سے حفاظت کے لیے ایک دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اگر کسی پر شیطان سوار ہوجاتا ہے، تو آپ یہ بتائیے کہ اسے چاقو، ڈنڈا یا ایٹم بم دکھانے سے وہ بھاگ جاتا ہے؟ ۔ بالکل نہیں بھاگتا؛ بلکہ اسے بھگانے کے لیے دوسری تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ وہ تدابیر پیش خدمت ہیں۔
کلام پاک میں ہے کہ 
لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونہُ مِنْ أَمْرِ اللَّہِ ( سورۃ الرعد، آیۃ: ۱۱)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو بحکم الٰہی اس کی نگہبانی کرتے رہتے ہیں۔ 
جس طرح بندوں کے اعمال پر نگہبانی کے لیے دو فرشتے مقرر ہیں؛ ایک دائیں، دوسرا بائیں۔ دایاں والا نیکیاں لکھتا ہے اور بایاں والا برے اعمال رقم کرتا ہے، اسی طرح انسانوں کو ہر قسم کی آفتوں سے بچانے کے لیے ہر وقت دو فرشتے ان کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ ایک فرشتہ سامنے ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ اس کے پیچھے۔ اس طرح گویاہمہ وقت چار فرشتے انسان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اگر یہ فرشتے انسانوں کی حفاظت نہ کریں، تو شیطان انسان کا اس قدر دشمن ہیں کہ فوری طور پر اس کو ہلاک کردیں۔ 
آج حادثات اور آفتوں کا دور دورہ ہے۔ اگر ایک شخص صبح کا گھر سے نکلا ہوا، شام کو صحیح سلامت گھر واپس آجائے، تو اسے سجدہ شکر بجالانا چاہیے۔ ان میں جہاں آفات سماوی اور آفات انسانی ہمہ وقت گردش کرتی رہتی ہیں، وہیں آفات شیطانی بھی تعاقب کرتی رہتی ہیں، اول الذکر دونوں آفتوں سے تحفظ کا طریقہ آپ نے پڑھ لیا ، شیطانی آفتوں سے حفاظت کا طریقہ چوں کہ ان طریقوں سے مختلف ہے ، اس لیے یہاں پر احادیث کی روشنی میں چند تدبیریں لکھی جارہی ہیں۔
یوں تو احادیث میں آفتوں اور شیطانی اثرات سے بچنے کے لیے بہت سے دعائیں موجود ہیں، لیکن بہت ہی مختصر اور جامع دو تین دعائیں یہ ہیں:
۱۔ ہر صبح و شام فجر اور مغرب کی نماز کے بعد تین تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں کہ 
بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء ، وھو السمیع العلیم۔
۲۔ تین تین مرتبہ سورہ اخلاص اور سورہ معوذتین۔
پابندی کے ساتھ اگر یہی دونوں اعمال کیے جائیں، تو نبی اکرم ﷺ کی زبانی یہ وعدہ ہے کہ اسے جہاں آفات سماوی و انسانی سے نجات مل جائے گی، وہیں شیطان بھی اس کا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دعا فرمائیں کہ اللہ پاک ہمیں سرور کائنات کے ارشادات پر عمل کی توفیق دے اور ہمیں ہر قسم کی آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے، آمین۔

7 Dec 2017

گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج

گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی

عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادھا، چیزوں کی شناخت ان کی ضد والی چیز سے ہوتی ہے۔ شناخت میں اس کی اہمیت و افادیت اور قدروقیمت بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے مد مقابل کی چیز سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر ہمیں روشنی کی صحیح قدروقیمت اس وقت معلوم ہوتی ہے، جب ہم کبھی کسی سخت تاریکی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس اصول سے ایک اور اصول وابستہ ہے، جسے ہم کہتے ہیں کہ علاج بالضد، یعنی کسی چیز کا علاج اس کے اپوزٹ والی چیز سے کیا جاتا ہے، مثلا یہ اگر آپ کو سردی لگتی ہے تو گرمی پیدا کرنے والے سامان کا استعمال کرتے ہیں ، جب گرمی کا موسم آتا ہے، تو اس کے علاج کے لیے اے سی، کولر، فرج وغیرہ کو زیر استعمال لاتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ اصول فطری تقاضوں کی ترجمانی پر قائم ہے، اور مذہب اسلام چوں کہ دین فطرت کہلاتا ہے، اس لیے اس اصول کی کرشمہ سازیاں ہمیں وہاں بھی نظر آتی ہیں۔ درج ذیل سطور میں اس کی مثا لیں پیش کی جارہی ہیں۔
انسان کے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک اچھے اور ثواب پیدا کرنے والے اعمال۔ دوسرے برے اور گناہ والے اعمال۔ ان دونوں عملوں کی اپنے اپنے مزاج کے اعتبارسے الگ الگ خصوصیات ہیں۔ نیک اعمال کا مزاج نرم اور سرد ہے ، جب کہ برے اعمال کا مزاج گرم اور ہیجان خیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ان اعمال کا تذہ کرتے وقت ایسا انداز بیان اختیار کیا گیا ہے،جن سے ان کے مزاج کی طرف واضح اشارہ ہوجاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْ کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا(النساء، آیۃ: ۱۰، پ۴)
جو لوگ ناحق طریقے سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ درحقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جہنم میں جلیں گے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مال حرام گرچہ دنیا میں کتنا ہی ٹھنڈا کیوں نہ ہو، عالم آخرت میں اس کی تاثیر اور اس کا مزاج گرم ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ صبر کا مزاج اس دنیا میں بہت کڑوا ہے، لیکن آخرت میں یہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ 
وَالصَّدَقَۃ تُطْفیءُ الْخَطیءۃکمَا یُطْفیءُ الْمَاءُ النَّارَ(مسند الشھاب القضاعی،ص۹۵) صدقہ گناہ کو ایسے ٹھندا کردیتا ہے جیسے کہ پانی آگو کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ 
إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّیطَانِ، وَإِنَّ الشَّیْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ،فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے۔ اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے،لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وضو کرلے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آگ میں دو خاص وصف ہیں : ایک گرمی اور دوسرا علو، یعنی اوپر چڑھنا۔ اس حدیث شریف کی رو سے غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے، شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے، اس لیے غصہ کا مزاج آگ ہے۔ اسی لیے غصہ ہونے کو محاورہ میں آگ بگولہ ہونا بولا جاتا ہے ۔ تو جس طرح آگ کی دو خاص وصف ہیں اسی طرح اس مزاج کے حامل غصہ میں بھی یہ دونوں وصف ہوں گے، یعنی گرمی اور علو۔ گرمی کے لحاظ سے نبی اکرم ﷺ نے یہ علاج تجویز فرمایا کہ فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ۔ اور علو کے لیے یہ فرمایا کہ إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَھُوَ قَاءِمٌ فَلْیَجْلِسْ، فَإِنْ ذَھَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْیَضْطَجِعْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے، تو اگر وہ کھڑا تھا تو بیٹھ جائے، غصہ ختم ہوجائے گا، لیکن اگر بیٹھنے سے غصہ ختم نہ ہو تو لیٹ جائے۔ اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کے معمول میں یہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ نماز میں ثنا کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اللھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَایَا، کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ( صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار،باب التعوذ من شر الفتن و غیرھا)
ائے اللہ ہمارے گناہوں کو برف اور پانی سے اور میرے دل کو گناہوں سے اس طرح دھو دے جس طرح کہ میلے سپید کپڑے کو دھویا جاتا ہے۔
جس طرح اعمال کی یہ دو خاصیتیں ہیں، اسی طرح اعمال کے درجے بھی دو ہیں: ایک ہے کبیرہ،دوسرا ہے صغیرہ۔ کبیرہ کے معنی ہے بڑا۔ اور صغیرہ کے معنی ہے چھوٹا۔ اس کو اعمال کے ساتھ جوڑ کر یہ کہاجاتا ہے کہ یہ اعمال صغیرہ ہیں اور یہ اعمال کبیرہ ہیں۔ اسی طرح گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ بھی بولا جاتا ہے۔ 
صغیرہ گناہ نیک اعمال کرنے سے خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پرآپ نے ظہر کی نماز پڑھی، اس کے بعد دنیوی کاموں میں مصروف ہوگئے، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، بات چیت ہوئی، اس دوران کچھ بھول چوک ہوگئی، اور صغیرہ گناہ سرزد ہوگیا۔ پھر عصر کا وقت آیا، تو آپ نے مسجد کا رخ کیا، اچھی طرح سے وضو کرکے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی، تو اس دوران جتنے بھی چھوٹے چھوٹے گناہ ہوئے تھے ، وہ سب معاف ہوگئے۔ لیکن اگر کبیرہ گناہ ہوجائے، تو پھروہ آٹومیٹک معاف نہیں ہوتے، اس کی معافی کے لیے توبہ ضروری ہے۔ اور توبہ بھی اس عزم و عمل کے ساتھ مشروط ہے کہ اسے دوبارہ نہ کرنے کا عہد شامل ہو۔ کیوں کہ اگر دل میں یہ چور چھپا ہے کہ پھر کبیرہ گناہ ہوجائے گا، تو پھر توبہ کر کے معاف کرالیں گے، تو اس کا نام توبہ نہیں ہے۔ گرچہ دوبارہ کبیرہ گناہ سرزد ہوجائے، تو دوبارہ توبہ کرنے سے معافی مل جاتی ہے۔
المختصر برے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں : گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ۔ شریعت مطہرہ کی یہ تقسیم گناہوں کی کیفیت پر مبنی ہے ، لیکن اس کے بالمقابل گناہوں کی ایک تقسیم ہم نے بھی کر رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مولوی سے صغیرہ گناہ بھی ہوجائے، تو وہ ہماری نگاہ میں گناہ کبیرہ سے بڑا گناہ ہوجاتا ہے ۔ اور اس کی وجہ سے وہ اتنا زیادہ سماجی لعن طعن کا شکار ہوتا ہے جیسے کہ کوئی فساد برپر کردینے والا اجتماعی جرم کردیا ہے۔ گرچہ حقیقت یہ ہے کہ گناہ بے شک گناہ ہے، اور اس سے اجتناب بہرحال لازم ہے، لیکن اگر سماج اور عام طبقہ بڑے بڑے گناہ کے اعمال کریں، تو وہ اپنے لیے بھی اور سماج کی نگاہ میں بھی کوئی گناہ تک نہیں سمجھا جاتا، کیوں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اگر سماج کا ایک عام فرد سینما ہال سے نکلے ، تو کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا، فلم کے اثرات کو اپنی زندگی میں اتار لے، تو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا، لیکن اگر ایک مولوی محض سینماہال کے پاس بس کے انتظار میں کھڑا رہے، تو یہی شخص یا اس جیسا شخص یہ ٹوکنے کا سماجی حق رکھتا ہے کہ مولوی صاحب! آپ اور سینما گھر کے پاس؟۔ عام افراد سنت نبوی ﷺ کو ہر روز چہرے سے مٹانے کی کوشش کریں، تو کوئی عیب نہیں؛ لیکن ایک مولوی اگر تزئین کاری کرلے، تو پورے سماج کے چہرے پر قیامت برپا ہوجاتی ہے۔
بے شک ہم عوام اور امت کے اس نیک جذبے کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ وہ اپنے دینی قائد علمائے کرام کو منہج نبوی اور سنت طریقہ سے ایک انچ بھی ہٹا ہوا دیکھنا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم ہٹ جائیں ، تو وہ گناہ ، گناہ ہی نہیں ہوگا!۔ اسے توفیق الٰہی سے محرومی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟؟؟!!!۔

3 Dec 2017

رحلت نبوی ﷺ


رحلت نبوی ﷺ 
بارہ وفات نبوی ؑ پر ایک خصوصی تحریر
تحریر: محمد یاسین قاسمی گڈاوی دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
آج قلم کی روح بے چین و مضطرب ہے، کاغذ کا دل گریہ کناں و ماتم آسا ہے ، فکر کی لہریں درماندہ و افسردہ ہیں اور خامہ فرسانمدیدہ و دل گرفتہ ہے، اس کے آئینہ و فکر و خیال میں ماضی کے کچھ نقوش ابھرتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں ،عشق محو حیرت ہے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے اور کیوں کر ہے؟ قلم کی روح کیا اس لیے بے چین ہے کہ وہ افسانۂ ہجرو وفراق کی خامہ فرسائی کر رہا ہے ، دل قرطاس کیا اس لیے ماتم زار ہے کہ حکایت برق و خرمن کے کرب و کسک سے بے چین ہو اٹھا ہے؟یا پھر تاریخ کے سینے میں محفوظ کچھ قیمتی جاں گسل یادیں اسے گریہ و بکا پر مجبور کر رہی ہیں؟ جی ہاں اس کی وجہ وہی تاریخ کی قیمتی یادیں ہیں، جو ہر صاحب خردو ذی شعور اور مدعی حب آں حضور کو بلک بلک کر رونے پر مجبور کر رہی ہیں۔
راجح تاریخ کے مطابق سرکار دو جہاں نبی اکرم ﷺ کی تاریخ پیدائش ۹؍ ربیع الاول ہے ، جب کہ رحلت نبوی علیہ السلام کی تاریخ ۱۲ ؍ ربیع الاول ہے ۔خود امام اہل سنت فاضل بریلوی اعلیٰ حضرت نور اللہ مرقدہ نے نطق الہلال بارخ ولادۃ الحبیب والوصال میں صفحہ نمبر ۴ پر دلائل کے ساتھ تاریخ پیدائش ۸؍ ربیع الاول اور یوم وفات ۱۲؍ ربیع الاول تحریر فرمایا ہے۔ اور ہمارے یہاں ۱۲؍ تاریخ ، بارہ وفات سے ہی مشہور و معروف ہے۔ آئیے تاریخ سے معلوم کرتے ہیں کہ اس ۱۲؍ تاریخ کو اس کائنات رنگ و بو میں کونسا حادثہ دلدوز پیش آیا تھا کہ اس کی کسک و اضطراب سے دنیا آج بھی آہ فغا کر رہی ہے۔ 
جب سورہ فتح نازل ہوئی تو سرکار دوجہاں ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پالیا کہ اب رحلت قریب آگئی ہے۔اس کا اشارہ خود سرکار نے حجۃ الوداع میں کئی مرتبہ دیا ،چنانچہ میدان عرفات کے خطبہ حج میں حمد و صلاۃ کے بعد پہلا درد انگیز یہی جملہ ارشادفرمایا کہ ائے لوگو! میں خیال کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں اور تم اس اجتماع میں دوبارہ کبھی جمع نہیں ہوں گے۔ حج سے واپسی کے بعد خداوند متعال کے دیدار کے شوق میں روز بروزاضافہ اور صبح و شام تسبیح و تحمید اور ذکرو اذکار میں انہماک بڑھتا گیا ۔ ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو ان سے ارشاد فرمایا کہ بیٹی ! اب میری رحلت کا وقت قریب معلوم ہوتا ہے۔ایک دن شہدائے احد کی مردانہ وارقربانیوں کا خیال آیا تو گنج شہیداں تشریف لے گئے اور ان کے لیے بڑے درد و گداز سے دعائیں کیں اور انھیں اس طر ح الوداع کہا جس طرح کہ آخری ملاقات پر الوداع کہاجاتا ہے۔ان ایام میں خیال زیادہ تر گزرے ہوئے نیازمندوں کی طرف مائل رہتا تھا ،چنانچہ ایک رات آسودگان بقیع کا خیال آگیا ،تو آدھی رات کو اٹھ کر وہاں تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا کہ انا بکم سلاحقون کہ اب جلد تمھارے ساتھ شامل ہورہا ہوں۔
بیماری کی ابتدا
۲۹؍ صفر بروز سوموار ایک جنازے سے تشریف لا رہے تھے کہ راستے میں ہی سر کے درد سے بیماری کا آغاز ہوگیا ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ سر مبارک پر رومال باندھا ہوا تھا وہ اس قدر جل رہا رتھا کہ ہاتھ کو برداشت نہ ہوتی تھی۔ مرض بڑھتا گیا اس واسطے ازواج مطہرات نے مرضی سرکار کے مطابق آپ کا مستقل قیام حجرہ عائشہ میں کردیا ۔ ضعف اس قدر طاری تھا کہ حجرہ عائشہ تک خود قدموں سے چل کر نہ جاسکے ۔ حضرت علی اور حضرت فضل ابن عباسؓ نے آپ کے دونوں بازو تھام کر بڑی مشکل سے حجرہ عائشہ تک پہنچایا۔حضرت عائشہؓ نے دعا پڑھ کر جسم اطہر پر ہاتھ پھیرنے کا ارادہ کیا تو حضور اقدس ﷺ نے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اللھم اغفرلی والحقنی بالرفیق الاعلیٰ ائے اللہ معافی اور اپنی رفاقت عطا فرما۔
وفات سے پانچ رو ز پہلے
وفات اقدس کے پانچ روز قبل بروز بدھ پتھر کے ایک ٹب میں بیٹھ گئے اور سر اقدس پر پانی کی سات مشکیں ڈالوائیں ۔ جس سے مزاج اقدس میں تھوڑی خنکی اور تسکین ہوئی تو مسجد نبوی تشریف لے گئے اور ایک مختصر تقریر فرمائی جس میں آپ نے یہود و نصاریٰ کی طرح انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ۔ پھر ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا و ما فیہا کو قبول کرے یا آخرت کو ترجیح دے، مگر اس نے آخرت کو قبول کیا۔ یہ سن کر رمز شناس نبوت حضرت ابو بکر صدیق ؓ زاروقطار رونے لگے، جس پر حاضرین نے انھیں تعجب سے دیکھتے ہوئے کہا کہ سرکار ایک شخص کا واقعہ بیان کر رہے ہیں، اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ حضرت ابوبکر کی یہ حالت دیکھ کرخیال اشرف سے ارشاد ہوا کہ میں سب سے زیادہ جس شخص کی دولت اور رفاقت کا مشکور ہوں وہ ابوبکر ہیں۔اگر میں کسی شخص کو اپنی دوستی کے لیے منتخب کرتا تو وہ ابوبکر ہوتے، لیکن اب رشتہ اسلام میرے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد مسجد کے رخ پر سوائے دریچہ ابوبکر کے سب کو بند کرنے کا حکم دیا۔علالت نبوی پر انصار کو روتے ہوئے دیکھا تو انصار کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنے کی وصیت فرمائی۔پھر حضرت اسامہ بن زید کو شام پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ پھر فرمایا کہ حلال وحرام کے تعین کو میری طرف منسوب نہ کرنا میں نے وہی چیز حلال یا حرام کیا ہے جسے قرآن اور خدا نے حلال یا حرام قرار دیا ہے۔پھر اپنے اہل بیت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ائے رسول کی بیٹی فاطمہ اور ائے پیغمبر خدا کی پھوپھی صفیہ ! خدا کے ہاں کے لیے کچھ کرلو میں تمھیں خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتا ۔
وفات سے چار روز پہلے
بروز جمعرات حضرت عائشہؓ سے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد ابوبکر اور بھائی عبدالرحمان کو بلا لیجیے اور دوات کاغذ لے آئیے میں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوں گے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے سرور کائنات کی شدت مرض کو دیکھ کر یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی حالت میں تکلیف دینا مناسب نہیں ہے ،اب تکمیل دین کا کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں رہا جس میں قرآن کافی نہ ہو۔ بعض دوسرے صحابہ نے اس رائے سے اتفاق نہ کیا اور شور شرابہ ہونے لگا جس پرحضور نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو ، میں جس مقام میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو۔پھر تین وصیتیں فرمائیں کہ کوئی مشرک عرب میں نہ رہے،سفیروں اور وفود کی بدستور عزت و مہمانی کی جائے اور تیسری قرآن کے بارے میں کچھ تھا جو راوی کو یاد نہ رہا۔
وفات سے تین روز پہلے
جمعہ کے دن مغرب کی نماز پڑھائی ۔ پھر غنودگی طاری ہوگئی ۔ عشا کے وقت آنکھ کھلی تو دریافت فرمایا کہ کیا نماز ہوچکی؟صحابہ نے عرض کیا کہ سب لوگ حضور ﷺ کے منتظر ہیں۔ لگن میں پانی بھرواکر غسل فرمایا اور ہمت کرکے اٹھے مگر غش آگیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر آنکھ کھلی تو ارشاد فرمایا کہ کیا نماز ہوچکی ہے ؟ صحابہ نے وہی جواب دیا کہ لوگ سرور کونین کی امامت کے منتظر ہیں۔اس مرتبہ اٹھنے کی کوشش کی مگر بے ہوش ہوگئے۔ جب تیسری مرتبہ جسم مبارک پر پانی ڈالا گیا اور اٹھنے پر غشی آگئی ، تو افاقہ ہونے پر ارشاد فرمایا کہ ابوبکر نماز پڑھادیں۔حضرت ابوبکر بہت رقیق القلب تھے، اس لیے انھوں نے حضرت عمرؓ کو آگے بڑھادیا ۔ مگر حضور نے تین مرتبہ منع فرمایا اور فرمایا کہ نماز ابوبکر ہی پڑھائیں۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حیات نبوی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔
وفات سے دو روز پہلے
بروز سنیچر حضرت صدیقؓ ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ سرور کائنات حضرات علی وعباسؓ کے سہارے مسجد تشریف لائے ۔ نمازی نہایت بے قراری سے حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت صدیق بھی مصلیٰ سے پیچھے ہٹے ، مگر حضور نے دست اقدس سے اشارہ کیا کہ پیچھے مت ہٹو ، پھر حضور ، حضرت صدیق کے برابر بیٹھ گئے ، اب حضرت صدیق سرکار کی اقتدا کررہے تھے اور مسلمان صدیق اکبر کی اقتدا میں تھے۔ یہ پاک نماز اسی طرح مکمل ہوئی ۔ بعد ازاں حضور حجرہ حضرت عائشہ میں تشریف لے آئے۔
وفات سے ایک روز پہلے
اتوار کے دن صبح بیدار ہوئے تو پہلا کام یہ کیا کہ سب غلاموں کو آزاد کردیا جو ۴۰ کی تعداد میں تھے۔ پھر اثاث البیت کا جائزہ لیا تو صرف سات دینار تھے، جنھیں غریبوں میں تقسیم کرادیایہاں تک کہ آخری رات کو کاشانہ نبوی میں چراغ جلانے کے لیے تیل تک موجود نہیں تھا۔ گھر میں کچھ ہتھیار تھے ، انھیں مسلمانوں کو ہبہ کردیا گیا ۔کمزوری لمحہ لمحہ بڑھ رہی تھی، حتی کہ غشی آگئی جس پر دردمندوں نے آپ کو دوا پلادی، افاقہ کے بعد جب احساس ہوا تو فرمایا اب یہی دوا ان پلانے والوں کو پلائی جائے، کیوں کہ دیدار خداوندی کا اشتیاق اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اب اس میں نہ دعا کی گنجائش تھی اور نہ ہی دوا کی۔
یوم رحلت
۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار مطابق مئی یا جون ۶۲۳ ء مزاج اقدس میں کسی قدر سکون تھا نماز فجر ادا کی جارہی تھی کہ سرکار نے مسجد اور کمرہ کا درمیانی پردہ سرکادیا، چشم اقدس نے دیکھا کہ لوگ رکوع و سجود میں مصروف ہیں، اس پاک منظر کو دیکھ کر جوش مسرت سے ہنس پڑے۔ لوگوں کو خیال ہوا کہ آں حضور مسجد میں تشریف لارہے ہیں ، نمازی بے اختیار ہونے لگے اور نمازیں ٹوٹنے لگیں۔ حضرت صدیق امامت کررہے تھے وہ پیچھے ہٹنے لگے، مگر حضور نے اشارہ اقدس سے سب کو تسکین دی اور چہرہ انور کی ایک جھلک دکھلاکر پھر کمرے کا پردہ ڈال دیا۔ طبیعت کا حال یہ تھا کہ غشی کے ایک بادل آتے تھے اور جاتے تھے ۔ ان تکلیفوں کو دیکھ حضرت فاطمہ رونے لگیں ۔ بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ بیٹی مت رو۔میں دنیا سے رخصت ہوجاوں تو انا للہ و انا الیہ راجعون کہنا ۔ پھر آپ نے ان کے کان میں کہا کہ بیٹی میں اس دنیا کو چھوڑ کر جارہا ہوں ، جس پر حضرت فاطمہ بے اختیار رونے لگیں۔ پھر فرمایا کہ فاطمہ!میرے اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگی، جس پر فاطمہؓ بے اختیار ہنس دیں۔حضرت حسن و حسین بہت غمگین ہورہے تھے انھیں پاس بلایا ، دونوں کو چوما اور ان کے احترام کی وصیت فرمائی ۔ پھر ازواج مطہرات کو طلب فرمایا اور انھیں بھی نصیحتیں کیں۔ پھر حضرت علی کو بلوایا اور انھیں بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ الصلاۃ الصلاۃ و ما ملکت ایمانکم، نماز، نماز اور غلام باندی۔رفتہ رفتہ حالت نازک ہوتی جارہی تھی کہ زبان اقدس سے ارشاد ہوا کہ لاالٰہ الا اللہ ان للموت سکرات۔کبھی ارشاد ہو تا کہ اللھم بالرفیق الاعلیٰ۔ آپ کبھی چادر اقدس چہرے پر ڈالتے تھے اور کبھی ہٹا دیتے تھے کہ دفعۃ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہود نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء اور ولیوں کی قبروں کو سجد گاہ بنالیا ۔ اسی دوران حضرت عبدالرحمان بن ابوبکر ایک تازہ مسواک لے کر آئے ، جسے دیکھ کر حضور نے مسواک پر نظر جمادی ، جس سے حضرت صدیقہ نے اشارہ سمجھ لیا اور دانتوں میں نرم کرکے مسواک پیش کی ۔ آپ نے بالکل تندرست کی طرح مسواک فرمایا ۔ پھریک لخت ہاتھ اونچا کیا گویا کہ کہیں تشریف لے جائیں گے اور زبان اقدس سے نکلا کہ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ اب اور کوئی نہیں صرف اسی کی رفاقت منظور ہے۔ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ تیسری آواز پر ہاتھ لٹک آئے ، پتلی اوپر کو اٹھ گئی اور روح شریف عالم قدس کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
یہ ربیع الاول کی ۱۲ کی تاریخ سوموار کا دن اور چاشت کا وقت تھا عمر مبارک قمری تاریخ کے اعتبار سے ۶۳؍ سال ہوئی ۔
تجہیز و تکفین
منگل کو تجہیز و تکفین کا کام شروع ہوافضل بن عباس اور اسامہ بن زید پردہ تان کر کھڑے ہوئے۔ اوس بن خولی انصاریؓ پانی کا گھڑا بھر کر لائے ۔ حضرت عباس اور ان کے صاحبزدے جسم مبارک کی کروٹیں بدلتے تھے اورحضرت اسامہ اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور حضرت علی غسل دے رہے تھے۔تین سوتی کپڑوں کا کفن دیا گیا ۔ حضرت صدیق اکبر کی رائے کے مطابق حجرہ عائشہ میں قبر کھودی گئی۔ حضرت طلحہ نے لحدی قبر کھودی ۔ زمین میں نمی تھی اس لیے بستر نبوی کو قبر میں بچھا دیا گیا ۔ جب جنازہ تیار ہوگیا تو اہل ایمان نماز کے لیے ٹوٹ پڑے اور سب نے الگ الگ نماز پڑھی۔ جنازہ چوں کہ کمرے میں تھا اس لیے نماز کا سلسلہ تقریبا ۳۲؍ گھنٹہ جاری رہا۔ اس لیے تدفین بروز بدھ رات کو عمل میں آئی ۔ جسم اطہر کو حضرات علی، فضل بن عباس، اسامہ بن زید اور حضرت عبدالرحمان بن عوف نے قبر میں اتارا اور اس باعث کون و مکاں ہستی کو ہمیشہ کے لیے اہل دنیا کی نگاہ سے اوجھل کردیا گیا ۔

10 Nov 2017

ماحولیات کے تحفظ کے لیے اسلامی فارمولے

ماحولیات کے تحفظ کے لیے اسلامی فارمولے
تحریر: محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
(آج دہلی سمیت متعدد میٹرو سیٹی زہریلی ہوا  کی زد میں ہے۔ ایک طرف آسمان دھنواں دھنواں ہوچکا ہے،تو وہی دوسری طرف ہمہ وقت دوڑتی پھرتی گاڑیوں کی وجہ سے زمین کثافت سے بھر چکی ہے۔ گویا زمین اور فضا دونوں خطرناک حد تک پولیوٹیڈ ہوچکے ہیں۔ جس سے سانس، دمہ اور آنکھ میں جلن جیسی بیماریاں  بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں، اس سلسلے میں اسلام نے کیا ہدایات دی ہیں، آئیے دیکھتے ہیں اس تحریر میں)
صنعتی ترقیات اور ٹکنالوجی کی نت نئی ایجادات  نے جہاں ایک طرف وسائل حیات کی فراوانی اور انسانی زندگی کے لیے سہولیات و تعیش  فراہم  کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں دوسری طرف ان کے کارخانوں سے  خارج ہونے والے مضر مواد  اور فضلات نے  طبعی آب وہوا ، فطری حیاتیاتی نظاموں اور عوامل کو  بری طرح سے متاثر کردیا ہے ، جس سے  ماحولیات  میں کثافت اور آلودگیاں پیدا ہوگئی ہیں ، جنھیں درج ذیل پانچ قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:(1) فضائی آلودگیاں۔ (2) آبی آلودگیاں۔ (3) صوتی آلودگیاں۔ (4) زمینی آلودگیاں۔ (5) شعاعی آلودگیاں۔
بڑی بڑی کمپنیوں سے خارج ہونے والے گرین ہاوس گیس ، کثیر مقدار میں  فضا میں جلے ہوئے ٹھوس اور سیال اجزا جیسے دھول ، دھنویں اور اسپرے کی آمیزش بہت ہی خطرناک طریقے سے فضا کی کثافت میں اضافہ کررہی ہے۔جس سے سانس ، کینسر، وضع حمل اور سقوط حمل جیسی مہلک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ نامیاتی اور غیر نامیاتی صنعتی فضلات ،  فیکٹریوں سے  نکلنے والی ردیوں اور گرم پانی، پلاسٹک ، ربر، کیمیکل سے بنی چیزیں اورنالیوں کے   گندی پانی کو  دریاوں اور بڑے بڑے آبی ذخائر میں ڈالنے سے آبی آلودگیاں پیدا ہورہی ہیں۔جن سے نہ صرف انسان؛ بلکہ چرند، پرند ؛ حتیٰ کہ نباتات  اور سمندری مخلوقات  بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔  پٹرول کی ریفائنری، صابن  سازی کے فضلاتی مادے، نمک، تیزاب، نقصان دہ کمیکل اور صنعتی کوڑا کرکٹ  زمینی آلودگیوں  کے بڑے اسباب ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے ، تو آسمان کا صاف شفاف پانی بھی زمینی آلودگیوں کی کثافت کو دھونے  میں ناکام رہتا ہے۔ جس سے  زمین بڑی تیزی سے ناقابل استعمال ہوتی جارہی ہے۔صوتی آلودگی کے بڑے اسباب میں سے صنعتی و تعمیراتی سرگرمیاں، ہمہ وقت چلنے والی مشینیں، جنریٹر، گاڑی اور گانے بجانے کے آلات ہیں،  جوفلک شگاف شورو ہنگامہ کا تسلسل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ 38 ڈسیمل سے زائد شور ہونے پر چڑچڑاپن، غصہ، ذہنی تناو، حرکت قلب، بلڈ پریشراور بہرے پن کی بیماریاں عام ہوتی جارہی ہیں۔ذرائع مواصلات: ریڈیو، ٹی وی اور موبائل نیٹ ورکنگ سسٹم میں  استعمال ہونے والی  برقی لہریں بڑی مقدار میں ریڈیشین خارج کر رہی ہیں، جو حرکت قلب اور سمعی قوتوں کو کمزور کرتی رہتی ہیں۔
درج بالا آلودگیاں خود انفرادی حیثیت سے بہت مضر ہیں، لیکن یہ سب آلودگیاں ایک ساتھ خارج ہورہی ہیں، جس کی وجہ سے ماحولیات خطرناک حد تک مسموم ہوتی جارہی ہیں چنانچہ فضائی و آبی آلودگیوں کی وجہ سے زمین کی حدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس سے بڑی تیزی سےگلیشیر پگھل رہے ہیں  اور سطح سمندر بلند ہوتی جارہی ہے۔ جس سے زمین کے قابل رہائش حصے  ڈوبتے جارہے ہیں۔کیمیائی کھادوں ،  پٹرول، گیس اور ایٹمی توانائی کا بے جا استعمال زمینی و  آبی  آلودگیوں  میں اضافہ کا سبب بنتا جارہا ہے، جس سے ہریالی اور پیڑ پودے  متاثر ہورہے ہیں علاوہ ازیں بڑی بڑی کمپنیوں اور نو آبادیات کے پھیلاو کے سبب جنگلات کی کٹائی سے گلوبل وارمنگ کی  خطرناک صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ مختصر یہ کہ قدرتی وسائل  کے غیر منصفانہ استعمال کی وجہ سے  تری ، خشکی؛ حتیٰ کہ فضا میں  بھی فساد برپا ہوگیا ہے ، جس سے پوری دنیا  کے سامنے ماحولیات کا مسئلہ ایک چیلنج بنتا جارہا ہے۔ اس تعلق سے بیداری پیدا کرنے کے لیے ہر سال 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات منایا جاتا ہے، اس کے مضر اثرات پر قابو پانے کے لیے نیشنل اور نٹرنیشنل سطح پر بڑے بڑے اجلاس اور کانفرنسیں کی جارہی ہیں، لیکن یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید سنگین حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔اور آج کا حال یہ ہے کہ دنیا  تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
اسلام ایک دین فطرت ہے ۔ یہ انسانوں کے سامنے ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے، اس لیے یہ دعویٰ بجا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اسلام نے اس  سلسلے  میں کوئی ہدایت نہ دی ہو، چنانچہ اسلام نے اس وقت ماحولیات کے ان مسائل کا حل پیش کردیا تھا، جبکہ یہ مسئلہ انسان کے حاشیہ خیال میں بھی تھا۔ اس لیے آئیے ذیل کی سطروں میں ماحولیاتی کثافتوں کی ہر قسم کے تعلق سے  اسلام کی ہدایات و رہنمائی کا مطالعہ کرتے ہیں۔
(1) فضائی آلودگیوں سے تحفظ پر اسلامی ہدایت
(1) اسلام انسانوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر کوئی انسان مرجائے ، تو اسے پہلے غسل دو، پھر کفن بھی دو اور بعد ازاں قبر میں رکھ دو۔  ارشاد خداوندی ہے کہ  ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ (پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچا دیا۔) (سورہ عبس، آیت 21، پارہ 30)۔ انعام و اکرام والی آیتوں کےضمن میں یہ آیت وارد ہوئی ہے،لہذااس کا جہاں ایک مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی تکریم ہو، اور اس کی لاشوں کو درندے اور پرندے نہ نوچ کھائیں،  وہیں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مردہ جسموں سے پیدا ہونے والے تعفن سے فضا مسموم نہ ہو۔
بین ٹلی یونیورسٹی کے پروفیسرسوسن ڈوب سچا کا کہنا ہے کہ  جلتی لاش کے دھنویں سے  کاربن مونو آکسائیڈ، کالک، سلفر ڈی  آکسائیڈ اور خطرناک بدبو ہوا میں تحلیل ہوتی ہے، جس سے فضا مکدر ہوجاتی ہے ، اسی طرح اس کی راکھ کو پانی میں ڈالنے سے  یہ سب زہریلی اثرات پانی کو متاثر کرتے ہیں اور آبی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے بالمقابل اگر لاش کو زمین میں دفن کردیا جائے، تو زمین لاش کو خود میں جذب کرکے مٹی بنالیتی ہے اور اس سے نیوٹرینٹ حاصل کرتی ہے۔ جس سے اس کی قوت افزائش میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
(2) ہرے بھرے پیڑ پودے اور سرسبز شادابی نہ صرف منظر کو حسین بناتے ہیں؛ بلکہ اس سے فضائی آلودگیاں بھی ختم ہوتی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق  انسان جب سانس باہر نکالتا ہے ، تو مضر کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتا ہے اور سانس لیتے وقت آکسیجن کھینچتا ہے ، پیڑ پودے اپنے عمل تنفس میں کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن چھوڑتے ہیں، اس اعتبار سے پیڑے پودے انسانوں کو فریش اور تازہ ہوا مہیا کراتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے مضر کاربن کو ہضم کرکے ہوا میں توازن پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں درخت لگانے کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے.۔
اسلام میں شجر کاری کی اہمیت
اسلام نے شجر کاری کی خصوصی ہدایات دی ہیں اور اسے ثواب اور صدقہ جاریہ کا ذریعہ بتایا ہے۔ اور بلاضرورت درخت کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ (صحیح البخاری، کتاب المزارعة، بَاب فَضْلِ الزَّرْعِ وَالْغَرْسِ إِذَا أُكِلَ مِنْهُ)
" مسلمان جو بھی میوہ دار درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس سے پرندے ، آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں اس کا ثواب اس کو ملتا ہے"۔
درخت لگانے کے ساتھ ساتھ اسلام نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جو کارآمد درخت ہے اسے نہ کاٹا جائے، چنانچہ ارشاد گرامی ہے کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَطَعَ سِدْرَةً صَوَّبَ اللَّهُ رَأْسَهُ فِي النَّارِ( سنن ابی داود، کتاب الادب، باب قطع السدر)
جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔
اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ اگر کوئی زمین بے آب وگیاہ پڑی ہے، اور صاحب زمین خود سے کچھ نہیں کرپاتا، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کو دیدے تاکہ وہ اسے قابل کاشت اور قابل استعمال بنائے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ لَمْ يَزْرَعْهَا، فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب البیوع، بَابُ كِرَاءِ الْأَرْضِ)
حوالے اور بھی ہیں، جنھیں اختصار کے پیش نظر ترک کیا جاتا ہے، ان تمام تعلیمات و ارشادات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف شجرکاری کو فروغ دینے کے احکامات جاری کیے ہیں؛ بلکہ اسے صدقہ جاریہ کا ایک بہترین ذریعہ قرار دیا ہے، جس کا فائدہ صرف اس دنیاوی زندگی تک محدود نہیں رہ جاتا؛ بلکہ  آخروی زندگی کے لیے بھی مفید تر قرار پاتا ہے۔ اور اسلامی تعلیمات کی یہی معنویت اسے آفاقی، دائمی اور فطری ہونے کا امتیاز بخشتی ہے ۔  
فضائی کثافت سے بچنے کے لیے اسلام کی یہ خوبصورت تجاویزہیں اگر ان پر عمل کرلیا جائے، تو ایک حد تک فضائی آلودگی سے نجات مل سکتی ہے۔
(2) آبی آلودگیوں کا اسلامی تحفظ
اسلامی نظریہ کے مطابق پانی ہر چیز کی روح حیات ہے، اس لیے اسے  گندہ کرنے سے ممانعت وارد ہوئی ہے ۔ اور اس کے تحفظ کے لیے کئی اہم طریقے بتلائے گئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(1) اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ ( سنن ابی داود، كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَابُ الْمَوَاضِعِ الَّتِي نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبَوْلِ فِيهَا ) ’’تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو (۱پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (۲راستہ میں پاخانہ کرنے سے (۳سایہ دارجگہوں میں پاخانہ کرنے سے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص نہر، نالہ، یا  تالاب وغیرہ  کے کنارے بول وبراز کرے گا، تو وہ گندگی پانی میں پہنچ جائے گی اور پانی کو آلودہ   و ناقابل استعمال بنا دے گی۔
(2) لاَ يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي المَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لاَ يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ( صحیح البخاری،کتاب الوضوء، بَابُ البَوْلِ فِي المَاءِ الدَّائِمِ)
تم میں سے کوئی اس پانی میں پیشاب نہ کرے جو ٹھہرا ہو، پھر اس میں غسل کرے۔
آبی آلودگی کے تحفظ کے لیے ہر اس طریقہ پر اسلام نے قدغن لگایا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ پانی آلودہ ہوتا ہے ؛ بلکہ ناپاک ، حتی کہ طبیعت پر اس کے استعمال سے تنفر بھی پیدا ہوتا ہے، چنانچہ بڑے برتن میں منھ لگاکر پانی پینا، پانی کے برتن میں سانس لینا، یا اس میں پھونک مارنا، برتن کو ڈھک کر نہ رکھنا  اور حالت جنابت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرنا شامل ہے۔اختصار کے پیش نظر ان کے حوالوں کو ترک کیا جارہا ہے۔
(3) صوتی آلودگی پر کنٹرول کی اسلامی تدابیر 
اسلامی عبادات اور تعلیمات میں صوتی آلودگی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اسلا م نقطہ نظر یہ ہے کہ آواز نہ تو بہت زیادہ بلند ہو کہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور نہ ہی اتنی پست ہو کہ جس مقصد کے لیے آواز نکالی جارہی ہے، وہ مقصد بھی پورا نہ ہو۔ اس تعلق سے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آوازسے پڑھیے، نہ بالکل پست آواز سے، بلکہ ان کے درمیان اوسط درجہ کا لہجہ اختیار کیجیے۔
(2) أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِينَةِ كَبَّرَ النَّاسُ، وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا (سنن ابی داود، باب تفاریع ابواب الوتر، باب الاستغفار)
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے  جب مدینہ سے قریب ہوئے تو لوگوں  نے بلند آواز میں اللہ ہو اکبر کا نعرہ لگایا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے کہا (اپنی آواز دھیمی رکھو) تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔
ان کے علاوہ بھی حوالے موجود ہیں، جن میں صوتی آلودگی کو ناپسند کیا گیا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق موقع و محل کی مناسبت سے بقدر ضرورت آواز استعمال کرکے انسان اپنے مقصد کو پورا کرے، تو صوتی آلودگی کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
(4) زمینی آلودگی سے حفاظت کے لیے اسلام کا فارمولہ
انسان و حیوانات کے ساتھ ساتھ نباتات کی بقا کا دارو مدار اچھی زمین پر ہے، اسی لیے اسلام نے اس کے برباد کرنے کو سختی سے ناپسند کیا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے کہ
وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205 سورة البقرة، آیة: 205)
اور جب وہ آپ کے پاس سے واپس جاتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ زمین کی صلاح و فلاح اوراس  کی صلاحیت کو غارت کرنا مذموم حرکت ہے، اس لیے وہ تمام کام، جن سے زمین کی فطری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اسلام ان سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس ہدایت کے پیش نظر اگر قدرتی وسائل کو اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے ، اور اس کو نقصان پہنچنے والے عوامل کو نظر انداز نہ کیا جائے، تو زمینی کثافت رفتہ رفتہ ختم ہوجائے گی ۔
(5) شعاعی آلودگی کی روک تھام کے لیے اسلامی اشارات
(1)سن 8 ہجری کا واقعہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت ملک شام کی جنگ موتہ میں ہے۔ آپ مسجد نبوی کے ممبر پر جلوہ افروز ہیں، صحابہ کا ایک گروہ آپ کے ارشاد گرامی قدر کے منتظر ہیں ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں  سے آنسو جاری  ہیں اور ارشاد فرمارہے ہیں کہ زید شہید ہوگئے ۔ پھر تھوڑی دیر بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ اب جعفر بھی جنت سدھار گئے۔ پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ عبد اللہ ابن رواحہ بھی اپنی آخری سانس لے چکے۔ پھر آخر میں ارشاد فرمایا کہ اب اسلامی جھنڈا سیف من سیوف اللہ کے ہاتھ میں آچکا ہے ۔ پھر فتح کی بشارت سنائی۔
لما التقى الناس بمؤتة جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر وكشف الله له ما بينه وبين الشام، فهو ينظر إلى معتركهم، فقال أخذ الراية زيد بن حارثة (البدایة والنهایة،ج، 4، ص281)
(2) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  23 ہجری میں فارس کےمیدان جنگ میں صرف اپنے آگے کا منظر دیکھ رہے ہیں، پہاڑ کے پیچھے سے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے بالکل بے خبر ہیں، وہاں سے سیکڑوں کلو میٹر دور مدینے کی مسجد نبوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کا خطبہ دے رہے ہیں کہ اچانک بیچ میں ایک جملہ  ارشاد فرماتے ہیں کہ یا ساریۃ ! الجبل!۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو! دشمن نے تمھیں پیچھے سے گھیر لیا ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یہ آواز سن کر پلٹتے ہیں اور دشمن پر پلٹ وار کرکے میدان جنگ جیت لیتے ہیں۔
وكان من قصته أن عمر رضى الله عنه أمره على جيش وسيره إلى فارس سنة ثلاث وعشرين، فوقع في خاطر سيدنا عمر وهو يخطب يوم الجمعة أن الجيش المذكور لاقى العدو وهم في بطن واد وقد هموا بالهزيمة، وبالقرب منهم جبل، فقال في أثناء خطبته: يا سارية، الجبل الجبل ! ورفع صوته، فألقاه الله في سمع سارية فانحار بالناس إلى الجبل وقاتلوا العدو من جانب واحد، ففتح الله عليهم. (تفسیر القرطبی، ج 12، ص79)
شرعی اصطلاح میں وسائل کے بغیر اس قسم کے مواصلات کو فراست ایمانی کہاجاتا ہے۔ درج بالا واقعات گرچہ اس عنوان کے لیے عبارۃ النص کے حوالے نہیں ہیں، تاہم اشارۃ النص اور  اسلام کی دوسری ہدایات  جیسے کہ   وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ (سورۃ النساء، آیت 29) اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو کے پیش نظر یہ کہاجاسکتا ہے کہ جہاں تک ہلاکت خیز اشیا کے بغیر کام چل سکتا ہو، کام چلانا چاہیے، لیکن اگر اس کے بغیر چارہ کار نہ ہو، تو بقدر ضرورت ہی اس کا استعمال کیا جائے۔ نیز  ریڈیشن خارج کرنے والے آلات جدید سائنس کا کارنامہ ہے، تو سائنس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کھوج جاری رکھے اور ایسی ایجاد لائے، جس سےاس خطرہ پر قابو پایا جاسکے۔
اسلامی ہدایات میں یہ کہا گیا ہے کہ انسان ایسی جگہ نہ بیٹھے کہ آدھا جسم تو سایہ میں ہو اور آدھے حصے پر دھوپ پڑ رہی ہو ۔ اسی طرح براہ راست سورج کی تپش سے گرم ہونے والے پانی سے بھی وضو اور غسل کرنے کو استحباب کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ  لا تَغْتَسِلُوا بِالْمَاءِ الْمُشَمَّسِ فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَصَ۔ (سنن الدار قطنی،کتاب الطهارة، باب الماء المسخن) دھوپ سے گرم ہونے والے پانی سے وضو نہ کرو، کیوں کہ اس سے برص کی بیماری ہوتی ہے۔ یہ ارشاد ہماری رہ نمائی کرتا ہے کہ شعاعیں نقصان دہ ہیں اور ان سے تحفظ کا طریقہ اختیار کرنا ایک انسانی ضرورت ہے، اس لیے جدید سائنسی ایجادات کے نتیجے میں جو نئی نئی شعاعیں اور ریڈیشن وجود میں آئے ہیں، ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے حل ڈھونڈھنا اسلامی مزاج کے منافی نہیں، بلکہ اس کی ہمنوائی ہے

مختصر یہ کہ شجری کاری اور درج بالا اسلامی تعلیمات  پر عمل کرلیا جائے، تو ماحولیاتی کثافت پر کنٹرول ہوسکتا ہے۔ اور دنیا پھر قدرتی آب و ہوا میں سانس لینے کی قابل بن سکتی ہے۔

4 Nov 2017

اسلام دین فطرت اور عقل و بصیرت پر مبنی ایک آفاقی مذہب ہے

اسلام  دین فطرت اور عقل و بصیرت پر مبنی ایک آفاقی مذہب ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
اسلام ایک دین فطرت ہے اور فطری زندگی گذرانے کے لیے جتنی رہ نمائی اور جس طرح کی ہدایات و احکام کی ضرورت تھی، خالق فطرت نے وہ تمام ہدایتیں بندوں کو عطا فرمادیں، یہ ہدایتیں اور ضابطے چوں کہ خالق فطرت کے بنائے ہوئے ہیں، اس لیے وہ ضابطے اور قوانین ہرزمانے اور ہر دور کے لوگوں کے لیے ایک ضرورت اور ان کے تقاضوں کو پورے کرنے کے لیے کافی ووافی ہیں اور جب تک یہ دنیا قائم ہے تب تک یہ کافی رہیں گے۔ ان کے حوالے سے یہ کبھی بھی نہیں کہاجاسکتا کہ ان میں زمانے کے ساتھ چلنے کا حوصلہ نہیں ہے اور وہ فرسودہ ہوچکے ہیں ۔ اسی وجہ سے ہمارا یہ دعویٰ اور یقین کامل ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی اور ضابطہ حیات ہے۔ 
اسلام ایک دین ہے، ایک مذہب کا نام اسلام ہے اور دین و مذہب کے حوالے سے یہ عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ماننے یا نہ ماننے اور اس کے ردوقبول کرنے کا سارا دارو مدار صرف اور صرف حسن عقیدت پر ہوتا ہے ۔ یہ محاورہ اسی فکر کی دین ہے کہ ’’ مانو تو بھگوان ہے، نہ مانو تو پتھر ہے‘‘۔ جس کو جس مذہب سے عقیدت ہوجاتی ہے ، وہ اس مذہب کو قبول کرلیتا ہے۔ قبول کرلینے کے بعد اسے یہ سوچنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی کہ’’ یہ کیوں ہے؟‘‘ کا سوال کرے ۔ اگر کسی مذہب نے آپ کو یہ سکھایا ہے کہ بھگوان سیکڑوں ہیں: بارش کا الگ ہے، دھوپ کی ذمہ داری کسی اور بھگوان کی ہے ، انسانوں کی فریاد کے لیے کوئی تیسرا بھگوان ماننا ضروری ہے اور جانوروں کی پرورش کے لیے ان سب بھگوانوں میں طاقت نہیں ہے، بلکہ اس ڈپارٹمنٹ کے لیے مستقل ایک بھگوان ہے ، تو اس عقیدے کو تسلیم کرلینے کے بعد آپ کو یہ سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ بھگوان اتنے کیوں ہیں ؟ اور ایک ہی سارا کام کیوں نہیں کرپاتا؟ وغیر وغیرہ۔ لیکن تمام مذاہب و ادیان کے برخلاف اسلام کا یہ اعلان ہے کہ آپ اسلام کے تعلق سے جو بھی عقیدہ رکھیں، اس کی بنیاد ان اذعان و یقین پر ہو، جو دلائل و براہین سے محقق و مدلل ہوں۔
اسلام کی دو اہم اصطلاحیں ہیں(۱) اسلام۔ (۲) ایمان۔ مجموعۂ عقائد کا نام ایمان ہے اور مجموعۂ عمل کو اسلام کہاجاتا ہے اور عقائد و اعمال یعنی ایمان و اسلام کے مجموعے کا نام مذہب ہے۔ حدیث نبوی میں ہے کہ الایمان سر والاسلام علانیۃ۔ ایمان دل میں چھپی ہوئی چیز ہے اور اسلام کھلی چیز کا نام ہے ۔ ایمانی عقائد اعمال کے رد وقبول کا معیار بھی ہیں اور کسی مذہب کے حق و باطل کے پہچاننے کا ذریعہ بھی۔ 
اگر عقائد درست ہیں ، تو تمام عمال درست ہوں گے اور عقائد غلط ہوں گے ، تو تمام اعمال ناقابل قبول اور اکارت ہوجائیں گے۔ اس لیے عقائد کے حوالے سے محققین اسلام کے درمیان یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے کہ حجۃ و برہان اور دلیل و عقل سے خالی ، محض باپ داد سے سنی سنائی تقلیدی ایمان معتبر ہے یا نہیں۔ ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ دلائل و براہین سے خالی محض تقلیدی ایمان معتبر نہیں ہے۔ اسی بنا پر قرآن حکیم نے دین و ایمان کے بارے میں بارہا تدبر و تفکر کی دعوت ہے ۔ اور اس فکر کی تردید کی ہے کہ ہم نے باپ داداوں کو ایسے ہی کرتے پایا ہے۔ 
قرآن و احادیث کے اولین مخاطب حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایمان ، اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ ان کے تحقیقی ایمان کی تصدیق کرتے ہوئے قرآن حکیم خود گواہی دیتا ہے کہ 
ادعو الیٰ اللہ علیٰ بصیرۃ انا و من اتبعنی و سبحان اللہ وما انا من المشرکین (سورہ یوسف(۱۰۸)
میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی دعوت دیتا ہوں اور وہ لوگ بھی جو میرے ساتھ ہیں اور اللہ کی ذات پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ 
پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اولیت کے ساتھ اور ان کے بعد کے لوگوں کے بارے میں تبعیت کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
والذین اذا ذکروا بایات ربھم لم یخروا علیھا صما و عمیانا (الفرقان (۷۳)
اور وہ لوگ جب ان کے سامنے پروردگار کی نشانیوں کی باتیں کی جائیں، تو وہ ان پر اندھے بہرے ہوکر نہیں گرتے۔
اس کلام خداوندی سے ظاہر ہے کہ ایمان خواہ اجمالی ہو یا تفصیلی، اس کی بنیاد بصیرت و تحقیق پر ہوتی ہے ۔ اور یہی وہ قوت یقین اور تحقیقی ایمان ہوتا ، جس کے ہوتے ہوئے انسان اس ایمان کی راہوں میں آنے والے تمام ریب و شک اور ضلالت و گمراہی سے مامون و محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کے اندر ایک ایسی طاقت پیدا ہوجاتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی سے طاقت و قوت بھی اس یقین و ایمان کو متزلزل نہیں کرپاتی، جس کے عملی نمونہ صحابہ کرام کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔تاریخ آپ کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام کو کیسی کیس ایذائیں اور تکلیفیں دی گئیں، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ایمان پر ڈٹے رہے ۔ اس سلسلے میں خود قرآن گواہ ہے کہ وما ضعفوا ومااستکانوا واللہ یحب الصابرین۔ (آل عمران ۱۴۶) 
اور وہ نہ سست ہوئے اور نہ دب گئے اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا تھی کہ ان کا ایمان محض تقلیدی یا سنی سنائی باتوں پر نہ تھا؛ بلکہ علیٰ وجہ البصیرت دلائل و براہین پر قائم تھا۔
یہ تو اصول دین اور عقائد کی بات تھی، جس کے تعلق اسلام یہ دعوت دیتا ہے کہ ان کا قبول وتسلیم علیٰ وجہ البصیرت ہونی چاہیے، کیوں کہ عقل و تدبر کا یہی تقاضا ہے۔ اور جب عقل و تدبر کے بعد اسلام کے ان عقائد کو آپ نے تسلیم کرلیا ہے، تواس کے بعد جو احکام و عبادات لازم و واجب ہوتے ہیں، وہ بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتے؛ بلکہ ان پر تدبر و تفکر کے بعد یہ راز کھلتا ہے کہ جہاں وہ شرعی حکم ہیں، وہیں عقلی معیارپر بھی پورے اترتے ہیں اور جب ان پر کوئی غوروفکر کرتا ہے کہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ حکم ایسے ہی ہونا چاہیے۔ اور یہی دین اسلام کی فطرت سے ہم آہنگ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ہم اختصار کے پیش نظر یہاں صرف دو تین مثالیں پیش کرتے ہیں۔
(۱) شریعت کے مطابق مردوں کو چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے، جب کہ عورت صرف ایک ہی مرد سے شادی کرسکتی ہے۔اسلام کے اس فیصلے پر غیر مسلموں کو سخت اعتراض ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ انسانوں میں مساوات کے خلاف ایک جرم ہے۔ اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عقل بھی اسے مساوات کی راہ میں رکاوٹ گردانتی ہے؛ لیکن تدبر و تفکر سے کام لیا جائے، تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ یہ حکم خلاف عقل و مساوات نہیں ہے؛ بلکہ سراسر حکمت و مصلحت اور عقل و بصیرت کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت سے اٹیچ فیصلہ ہے، جس کی وضاحت یہ ہے کہ شادی کا اصل مفہوم یہ نہیں ہے کہ وہ ایک مرد اور ایک عورت کا مل جل کر رہنے کا ایک سماجی معاہدہ ہے؛ بلکہ شادی کی حقیقت یہ ہے کہ عورت اپنی جان(ذات) کو مرد کے حوالے اس لیے کرتی ہے کہ وہ اس جان کے عوض مرد سے مکان اور نان ونفقہ حاصل کرتی ہے۔ اب سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہر ایک شخص کے پاس کتنی جان ہے؟ ظاہر ہے کہ ہر شخص کے پاس صرف ایک ہی جان ہے اور جب وہ ایک جان کسی کے حوالے کردیا ، تو اب دوسروں کو دینے کے لیے اس کے پاس کوئی جان نہیں بچی ؛ بلکہ اب عورت کی اپنی جان بھی اپنی نہیں رہی؛ بلکہ وہ اس کے شوہر کی ہوگئی۔ جب اس کی جان خود اس کی پاس نہیں رہی، تو دوسرے ، تیسرے مرد سے شادی کرنے کے بعد عورت کون سی جان اس کے حوالے کرے گی۔ اس کے برخلاف مرد اس جان کے بدلے نان و نفقہ اور مہر کا ذمہ دار ہوتا ہے اور ایک شخص کئی کئی لوگوں کی رہائش اور نان و نقفہ کا بندوبست کرسکتا ہے، لہذا وہ کئی کئی عورتوں سے شادی بھی کرسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت نے مردوں کو کثرت ازدواج کی اجازت دی ہے اور عورتوں کو یہ حق نہیں دیا ہے۔
(۲) اسی طرح شریعت کا حکم یہ ہے کہ مرد صرف چار عورتوں سے ہی شادی کرسکتا ہے، اس سے زیادہ سے نہیں کرسکتا۔ یہ حکم بھی عقلی بنیادوں پر قائم ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک عورت حاملہ ہونے کے بعد صرف تین مہینے تک جنسی عمل کا ساتھ دے سکتی ہے ۔ اگر اس کے بعد جنسی عمل میں شریک ہوتی ہے، تو زچہ بچہ دونوں کی صحت کے لیے خطرہ کا امکان رہتا ہے۔ اب غور کیجیے کہ ایک شوہر ہے، وہ اپنی عورت کے ساتھ پہلی مرتبہ کے جنسی عمل میں خوشخبری پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ،تو اس کے بعد تین مہینے تک کسی نقصان کے بغیر اس کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کرسکتا ہے، اس کے بعد نقصان کا اندیشہ ہے، لہذا اس نقصان سے بچنے کے لیے دوسری بیوی کی ضرورت پڑے گی، کیوں کہ بیوی ہی ایک جائز طریقہ ہے ۔ اب دوسری بیوی کے ساتھ بھی وہی اتفاق ہوجاتا ہے کہ پہلی کوشش میں کامیابی مل جاتی ہے ، تو اس کے بعد تین مہینے تک وہ قابل استعمال رہتی ہے۔ اسی طرح تیسری اور چوتھی کے ساتھ بھی یہی اتفاق مان لیجیے۔ پھر جب چوتھی بیوی کے تین مہینے پورے ہوں گے تو پہلی بیوی نو مہینے میں وضع حمل کے بعد تین ماہ گذار چکی ہوگی، جو مدت نفاس چالیس ایام سے کہیں زیادہ مدت ہے۔ اور بچے کی پیدائش کے تین مہینے بعد ملنے سے ، نہ بچے کی صحت کے لیے بھی کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی زچہ کے لیے۔ اس لحاظ سے چار بیویاں پورے سال کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے شریعت نے اسی مصلحت کے پیش نظر اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دی۔ درج بالا حقیقت شاہد عدل ہے کہ شریعت کا یہ حکم خلاف عقل نہیں ہے؛ بلکہ انسانی فطرت و ضرورت کے عین مطابق ہے۔
(۳) اسی طرح شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے ، تو اسے نماز کی تاکید کیجیے ۔ جب دس سال کا ہوجائے، تو نماز کا اہتمام کرائیے۔ اگر سستی کرے، تو پٹائی بھی کیجیے۔ اور پھر جب بالغ ہوجائے، تو اس پر نماز فرض ہوجائے گی، اسے ہر حال میں پڑھنی ہی ہوگی۔
یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ شریعت نے بالغ ہونے پر ہی مکلف کیوں بنایا؟ اس سے قبل کیوں نہیں بنایا۔ تو اس کا جواب سمجھنے سے پہلے اس تمہید پر گفتگو کی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں احکام و شرائع کا ذمہ دار صرف وہی مخلوق ہوتی ہے، جس میں تین صفتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ تین صفتیں جس درجہ جس مخلوق میں پائی جائیں گی، وہ اتنی ہی زیادہ ذمہ دار ہوگی، اور جس میں جتنی کم پائی جائیں گی، وہ اسی اعتبار سے فرائض و واجبات سے مستثنیٰ ہوتی چلی جائے گی۔ وہ تین صفتیں ہیں :احساس، ادراک اور ارادہ۔ان صفتوں کے اعتبار سے تمام مخلوقات کی بھی تین ہی قسمیں ہیں: جمادات، نباتات اور حیوانات۔
صانع عالم کی پہلی مخلوق جمادات کو لے لیجیے، یہ تینوں صفتوں سے محروم ہے اس میں نہ احساس ہے نہ ادراک ہے اور نہ ہی ارادہ ہے ، لہذا اس پر کوئی بھی خدائی حکم لاگو نہیں ہے۔ آپ نے یہ کبھی بھی نہیں سنا یا دیکھا ہوگا کہ کسی پتھر پر بھی نماز یا روزہ وغیر فرض ہے ، حتی کہ جینے مرنے کے فرائض سے بھی وہ مستثنیٰ ہے۔ دوسری مخلوق نباتات ہے، اس کے اندر تین صفتوں میں سے صرف ایک صفت : صفت احساس پائی جاتی ہے، اس لیے یہ جمادات کے مقابلے میں کسی قدر خدائی حکم کا پابند ہے ۔ اسی وجہ سے ہمارا یہ مشاہد ہ ہے کہ درخت پودے، پھول مرنے جینے، ہرا ہونے اور سوکھ جانے جیسے خدائی حکم کا پابند ہے۔ تیسری مخلوق حیوانات ہے، اس کی دو بڑی تقسیم ہے : ایک انسان اور دوسرا جانور۔ جانوروں میں احساس اور ارادے کی دو صفتیں پائی جاتی ہیں، ادراک نہیں پایا جاتا، اس لیے نباتات کے مقابلے میں اس کے فرائض و واجبات زیادہ ہوجاتی ہیں، چنانچہ جانور مرنے جینے کے ساتھ ساتھ سردی گرمی اور دکھ تکلیف کا احساس بھی کرتے ہیں۔ حیوانات کی دوسری قسم میں انسان آتا ہے۔ انسان کے اندر یہ تینوں صفتیں پائی جاتی ہیں، اس لیے انسان خدائی حکم کے تمام تر ذمہ داریوں کا مستحق قرار پاتا ہے۔پھر انسان کے حالات پر غور کیجیے، تو ان تینوں صفتوں کے تفاوت کے اعتبار سے بے شمار قسمیں نکلیں گی، کسی میں یہ تینوں صفت بدرجہ اتم موجود ہوں گی، تو کسی میں بہت ہی کم۔ اور کوئی شخص درمیانہ صفات کا حامل ہوگا۔
پاگل و مجنون تینوں صفتوں سے عاری ہوتے ہیں، لہذا وہ شریعت کی نگاہ میں مرفوع القلم ہیں۔ لیکن ایک عالم اور دانش مند کے اندر یہ تینوں صفتیں پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں، اس لیے وہ تمام فرائض کا ذمہ دارہوتا ہے ، حتیٰ کہ اگر کوئی مسئلہ مستحب درجے کا بھی ہوتا ہے ، تو ان حضرات کے حوالے سے لزوم سمجھا جاتا ہے اور اس کے ترک کرنے پر ملامت کے مستحق ہوتے ہیں۔ 
اس تمہید کے بعد اصل موضوع پرآتے ہیں۔ پیدائش کے فوری بعد سے لے کر سات سال کی عمر تک لاشعوری کا دور ہوتا ہے، نہ اس کا احساس بالغ ہوتا ہے اور نہ ہی ادراک کی پوری قوت پائی جاتی ہے، اس لیے سات سال تک اسے حکم الٰہی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ دس سال کی عمر تک احساس و شعور میں بالیدگی پیدا ہونے لگتی ہے، اس لیے پہلے کے مقابلے میں تنبیہ کے لیے پٹائی تک کی اجازت دی گئی ہے، لیکن جب بالغ ہوجاتا ہے، تو تینوں صفتوں کے تمام مراحل پورے جاتے ہیں، اس لیے خدائی حکم بھی پوری قوت کے ساتھ نافذ ہوتا ہے اور اس پر فرض قرار دے دیا جاتا ہے۔
اب فرض کیجیے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تمام احکام الٰہی نماز روزہ وغیرہ کا مکلف بنادیا جاتا، توکیا وہ بچہ اسے انجام دے پاتا؟ اور کیا کوئی عقل سلیم اسے فطرت سے ہم آہنگ فیصلہ تسلیم کرتی؟ یقیناًسب کا جواب یہی ہوگا کہ بالکل نہیں، اس لیے اسلام نے پہلے تدریب کا طریقہ اختیار کیا پھر فرائض کے بوجھ ڈالے،جو سراسر عقل و بصیرت پر مبنی فیصلہ ہے۔ اور ان طریقوں پر غور کرنے والا بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ ائے ذات قدرت ! تیری شان نرالی ہے اور تیرا کوئی کام حکمت و فطرت سے خالی نہیں ہے۔
طوالت کے پیش نظر انھیں تین مثالوں پر مضمون مکمل کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ شریعت الٰہی کا کوئی بھی فیصلہ کوئی بھی مسئلہ فطرت کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا ، کیوں کہ یہ خود خالق فطرت کی تخلیق کردہ آئین ہے۔ اور چوں کہ یہ آئین فطری ضروریات پر مبنی ہے ، لہذا ہر زمانے کی فطرت سے ہم آہنگ ہوجانا اس کی سب سے بڑی خصوصیت ہے، لہذا یہ دعویٰ خلاف واقعہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اسلام ہر دور اور ہرزمانے کے لیے ہے ، اس میں آفاقیت بھی ہے اور عالم گیریت بھی۔اور یہی وہ واحد مذہب ہے جس میں پوری کائنات کے لیے رہبری اور رہ نمائی موجود ہے۔جس کی بنیادمحض تقلیدی عقیدت پر نہیں، بلکہ ہر حکم و ارشاد عقل و بصیرت پر مبنی ہے۔اور جس پر تدبر و تفکر کے لیے بارہا دعوت دی گئی ہے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہماری ناقص عقلیں کسی کا ادارک کرپاتی ہیں اور کسی کا نہیں۔ بھلا حکیم و خبیر کے ہر راز کا انکشاف انسان کر بھی کیسے سکتا ہے!!!!۔

27 Oct 2017

ہندستانیوں کے درمیان امن و ایکتاپیدا کرنے کا مدنی فارمولہ

مضمون نگار کا عندیہ ے کہ ہندستان جیسے کثیر مذہبی و تہذیبی ملک  کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے  دینی، سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کا  واحد طریقہ نبوی و مدنی فارمولہ میں مضمر ہے۔ اور جمعیۃ علماء ہند کا امن و ایکتا سمیلن اسی فارمولہ کی تجدید کا اعلان عام ہے۔
محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کفار قریش کی مسلسل سازش اور ظلم و ستم کے بعد نبی اکرم ﷺ کو  مدینہ ہجرت کا حکم  الٰہی ملا، تو مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ یا صحابہ کرام یا پھر مذہب اسلام محفوظ نہیں ہوگیا تھا؛ بلکہ مکہ کے مقابلے میں یہاں تین گنے خطرات بڑھ گئے تھے۔ ایک طرف یہودی تھے، تو دوسری طرف مدینہ کے ارد گرد آباد دوسرے قبائل ۔ اور تیسری طرف خود مکہ کے لوگ ۔ یہ سب مسلمانوں کے لیے مشکلات کھڑی کر رہے تھے۔ غور سے دیکھیے تو آج ہندستان میں مسلمانوں کے سامنے حالات کا نقشہ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ایک طرف غیر مسلم برادری کے کچھ شرپسند عناصر کی ریشہ دوانیاں ہیں، تو دوسری طرف مسلکی تشدد و تفرقہ بازی ۔ اور تیسری طرف کچھ مسلمانوں کا اپنے ہی معاملات و مسائل کے تئیں منافقانہ کردار۔  ایسے حالات میں مسلمانوں کے دینی اور سیاسی مسائل کے حل اور سماج کی کثرت میں وحدت کا رنگ پیدا کرنے کا صرف اور صرف وہی ایک طریقہ ہے،جو آج سے چودہ سو سال قبل سرورکائنات نبی اکرم ﷺ نے ایجاد فرمایا تھا، جسے میثاق مدینہ کہاجاتا ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالاں کہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جب کہ  میگنا کارٹا   600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔ بہر کیف آئیے دیکھتے ہیں کہ ہندستان کے موجودہ حالات کیا ہیں اور میثاق مدینہ کی کونسی کونسی دفعات ہماری رہ نمائی کے لیے مکمل فریضہ ادا کرتی ہیں۔
ہندستان کے مذاہب کی بات کریں، تو یہ دنیا کا منفرد ملک ہے جہاں لاتعداد مذاہب پائے جاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب کے اپنے طریقے اور رواجات ہیں، جو قطعی طور پر ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور کہیں کہیں ہم آہنگ بھی، اس لیے بعض مواقع پر ہم آہنگی کے پہلو سے اتحاد و ایکتا کی فضا قائم کی جاسکتی ہے، لیکن اختلافی پہلو بھی ہونے کی وجہ سے اختلاف و عداوت کا پیدا ہوجانا بعید از امکان نہیں ہے۔  امن و اتحاد کو پارہ کرنے والی ایک وجہ تو یہی تھی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب سیاست مفادات  کا چولا اوڑھ لیتی ہے ، اور حصول مقصد کے لیے اخلاق کی آخری گراوٹ تک گرجانا معیوب سمجھنا صرف ایک شریف والوں بات بن کر رہ جاتی ہے،  تو ایک سماج میں بسنے والے مختلف مذہب و کلچر کے لوگ ایک دوسرے کے لیے مشکوک ہوجاتے ہیں ، جس سے امن و ایکتا کا دامن تار تار ہونے لگتا ہے۔ ایسے پرفتن حالات میں بعض لوگوں کا منافقانہ کردار اور ایک دوسرے کے خلاف سازشی ذہن آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتا ہے، جس کے نتیجے میں فسادات کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں ۔ انسانیت چیخ اٹھتی ہے اور جان و مال تباہ و برباد ہوتا چلا جاتا ہے۔
اگر کہیں پر امن و ایکتا کی فضا مسموم ہوتی ہے، تو بالعموم اس کی یہی درج بالا دو وجہیں ہوتی ہیں۔ آج دنیا امن و ایکتا قائم کرنے کے لیے بڑے بڑے منشور ترتیب دے رہی ہے، لمبے چوڑے منصوبے بنارہی ہے، لیکن نتیجہ دیکھا جائے تو ، صفر سے آگے کچھ نہیں نکلتا، حالاں کہ اسلام نے اس کا بہترین طریقہ آج سے صدیوں پہلے بتا دیا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی صداقت و حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی بالا دستی کو قبول کیا جائے اور اس کے طریقے کو اپنانے میں تعصب سے کام نہ لیا جائے۔
امن کی فضا مکدر ہونے کی پہلی وجہ کے تعلق سے میثاق مدینہ کا یہ فارمولہ ہے کہ ایک کثیر تہذیبی و مذہبی ملک میں ہر ایک شخص کو مکمل طور پر مذہب کی آزادی حاصل رہے، کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے مذہب پر نہ اعتراض کرے اور نہ اس میں عیب جوئی کرکے لڑائی کی ذہنیت کو فروغ دے ۔ چنانچہ اس تعلق سے دفعہ 25 میں ہے کہ '' ۔  یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہے خواہ وہ موالی ہوں یا اصل''۔
اس سے پہلے کی دفعا ت میں ریاست مدینہ میں آباد یہودیوں کے دیگر قبائل، بشمول بنی نجار، بنی الحارث، بنی ساعدہ، بنی جشم، بنی الاوس، بنی ثعلبہ، بنی شطیبہ کا فرداً فرداً تذکرہ کیا گیا  ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ خواہ وہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ ہو ، انھیں مذہبی آزادی کا آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔صرف اتنا ہی نہیں ؛ بلکہ یہ اصل قبیلے اگر کسی دوسرے کو اپنا دوست اور موالی بناتے ہیں، تو مذہبی آزادی کا یہ قانونی تحفظ اس کو بھی حاصل ہوگا۔ اگر میثاق مدینہ کے اس فلسفہ پر عمل کر لیا جائے تو بالیقین یہ کہاجاسکتا ہے کہ ہندستان میں کبھی بھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوں گے ۔
امن کی فضا مکدر ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ  جب سیاست  اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اپنے بنیادی مقصد خدمت سے غافل ہوکر محض مفادات کی غلام ہوجاتی ہے، تو اس میں چنگیزیت کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ پھر اس کا پورا زور اسی پر صرف ہوتا ہے کہ کس طرح تفرقہ ڈالیں اور اپنا الو سیدھا کرتے رہیں۔ اس میں اسے نہ اخلاق کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ انسانیت کی ۔ اس کے سامنے محض مفادات ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک جیسی شکل و صورت والا انسان اپنے ہی نوع انسان کا دشمن و قاتل بن جاتا ہے اور خشکی و تری میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔
ایسے حالات میں دنیا کے بڑے بڑے روشن خیالوں کا ماننا ہے کہ اس کا حل یہ ہے کہ قومیت کا تصور مذہب سے وابستہ ہے ، لہذا اتحاد و اتفاق کے لیے ضروری ہے کہ پورے ملک کا مذہب ایک ہو، تاکہ مذہب کو گندی سیاست کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے اور ملک کا امن و امان برقرار رہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ نظریہ کسی بھی طرح سے کامیاب نہیں ہوا، جس کی مثال موجودہ پاکستان کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں، کہ جو ملک خالص مذہب کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور جسے سلطنت خداداد کہا جاتا ہے، آج وہاں امن و امان کی کیا صورت حال ہے۔ ایک ہی مذہب اور مسلک کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ جو لوگ ہندستان میں ایک خاص نظریے کو پورے ملک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہندستان امن کا راشٹر بن جائے گا، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ایسے لوگوں کو پاکستان سے سبق لینا چاہیے۔
ہندستان کے موجودہ حالات میں امن قائم کرنے کا وہی طریقہ سب سے کارگر ہوگا، جو سرورکائنات ﷺ آج سے چودہ سو سال قبل ہمیں عملی طور پر سکھلا گئے تھے کہ وطنیت کا تصور مذہب پر نہیں؛ بلکہ قومیت پر مبنی ہونا چاہیے اور قومیں وطن سے تشکیل پاتی ہیں، اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے ، چنانچہ دفعہ 2 میں صراحت موجود ہے کہ  '' تمام (دنیا کے دیگر ) لوگوں کے بالمقابل ان(اہل مدینہ: یہود، انصار، مہاجرین و دیگر قبائل) کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (قومیت) ہوگی''۔
یہ دفعہ مختلف مذاہب کے بیچ سیاسی وحدت کا دائرہ کار متعین کرتی ہے اور مذہب کے بجائے جغرافیائی حدود میں منقسم قومیت پر سیاسی وحدت کی نیو رکھتی ہے ۔آج ہندستان میں اگر وحدت کی بنیاد اسی دفعہ کو قرار دیا جائے ، تو ناچیز کا عندیہ ہے کہ پورا ہندستان پھر سے امن کا گہوارہ اور ایکتا کا گلدستہ بن جائے گا۔
جمعیۃ علماء ہند جو ہندستان میں سرمایہ ملت کی نگہبان اور محافظ ہے ۔ یہ امن اور ایکتا دونوں کے قیام کے لیے روز اول سے مدنی و مکی فارمولہ کی ترجمانی کرتی رہی ہے اور آج بھی اس کا نظریہ یہی ہے کہ امن و ایکتا کا قیام تبھی ممکن ہے کہ جب کہ ہندستان میں ہر شخص     ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرے۔ دین و تشخص کی بات آئے تو سب لوگ اپنے اپنے طریقے کو اختیار کرلے اور ایک دوسرے کے لیے تکلیف یا رکاوٹ کا سبب نہ بنے۔  اور قوم و ملت کے مشترکہ مسائل میں اجتماعی مفادات کو ترجیح دے، تاکہ سیاست میں گندی و مفادی ذہنیت کو فروغ نہ مل سکے۔ اور جو لوگ مذہب یا سیاست کا سہارا لے کر مشترکہ کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، اس کے کردار پر منافقانہ روش اختیار کرنے کا جرم عائد کرکے ہر طرح کا بائکاٹ کر کے بالکل الگ تھلگ ڈال دے۔
جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام 29 / اکتوبر 2017 کو دہلی میں ہونے  ہونے والے امن و ایکتا سمیلن اسی میثاق مدینہ کی تجدید کا اعلان ہے ۔ اور قوی امید ہے کہ  یہ سمیلن اپنے مقاصد میں پورے طور پر کامیاب ہوگا اور ان شاء اللہ ہندستان میں امن و ایکتا کی ایک لہر دوڑ جائے گی۔
ذیل میں میثاق مدینہ کا پورا متن دیا جارہا ہے تاکہ شائقین اس سے پورا پورا فائدہ اٹھاسکیں۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
هذا کتاب من محمد النبي رسول الله بين المؤمنين و المسلمين من قريش و أهل يثرب، و من تبعهم فلحق بهم و جاهد معهم.
أنهم امة واحدة من دون الناس. [ صفحه 102]
المهاجرون من قريش علي ربعتهم ، يتعاقلون بينهم و هم يفدون عانيهم بالمعروف، و القسط بين المؤمنين.
 و بنوعوف علي ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوالحارث من الخزرج علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوساعدةعلي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنو جشم علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوالنجار علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوعمرو بن عوف علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
و بنوالنبيت علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و لک طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
 و بنوالأوس علي ربعتهم، يتعاقلون معاقلهم الاولي، و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين. [ صفحه 103]
 و ان المؤمنين لايترکون مفرحا  بينهم أن يعطوه بالمعروف في فداء أو عقل و ان لايحالف مؤمن مولي مؤمن دونه.
 و ان المؤمنين المتقين ايديهم علي من بغي منهم أو ابتغي دسيعة  ظلم او اثما او عدوانا أو فسادا بين المؤمنين، و أن أيديهم عليه جميعا و لو کان ولد أحدهم.
 و لايقتل مؤمن مؤمنا في کافر و لاينصر کافرا علي مؤمن.
 و ان ذمة الله واحدة يجير عليهم أدناهم، و ان المؤمنين بعضهم موالي بعض دون الناس.
 و ان من تبعنا من يهود فان له النصر و الاسوة غير مظلومين و لامتناصرين عليهم.
 و ان سلم المؤمنين واحدة، لايسالم مؤمن دون مؤمن في قتال في سبيل الله الا علي سواء و عدل بينهم.
 وان کل غازية غزت معنا يعقب بعضها بعضا.
 وان المؤمنين يبي‏ء بعضهم علي بعض بما نال دماءهم في سبيل الله تعالي.
 و ان المؤمنين المتقين علي أحسن هدي وأقومه.. و انه لايجير مشرک مالا لقريش و لا نفسا و لايحول دونه علي مؤمن.
 و انه من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة فانه قود به الا أن يرضي ولي المقتول بالعقل، و ان المؤمنين عليه کافة، و لايحل لهم الا قيام عليه.
 و انه لايحل لمؤمن أقر بما في هذه الصحيفة، و آمن بالله و اليوم الآخر أن‏ [صفحه 104] ينصر محدثا.و يؤويه، و انه من نصره أو آواه فان عليه لعنة الله و غضبه يوم القيامة، و لايؤخذ منه صرف و لا عدل.
 و انکم مهما اختلفتم فيه من شي‏ء فان مرده الي الله عزوجل و الي محمد صلي الله عليه و آله و سلم.
 و ان اليهود ينفقون مع المؤمنين ماداموا محاربين.
 و ان يهود بني‏عوف امة مع المؤمنين، لليهود دينهم، و للمسلمين دينهم و مواليهم و أنفسهم الا من ظلم أو أثم فانه لايوتغ الا نفسه وأهل بيته.
 و ان ليهود بني‏النجار مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏الحارث مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏ساعدة مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏جشم مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏الاوس مثل ما ليهود بني‏عوف.
 و ان ليهود بني‏ثعلبة ملث ما ليهود بني‏عوف الا من ظلم و أثم فانه لايوتغ الا نفسه و أهل بيته.
 و ان جفنة بطن من ثعلبة کأنفسهم.
 و ان لبني‏الشطيبة مثل ما ليهود بني‏عوف و أن البر دون الاثم.
  و ان موالي ثعلبة کأنفسهم  .
  و ان بطانة اليهود کأنفسهم. [ صفحه 105]
و انه لايخرج أحد الا باذن محمد صلي الله عليه و آله و سلم و أنه لاينحجز علي ثار جرح و انه من فتک فبنفسه فتک و أهل بيته، ألا من ظلم، و ان الله علي أبر من هذا .
  و ان علي اليهود نفقتهم و ان بينهم النصر علي من حارب أهل هذه الصحيفة.. وان بينهم النصح و النصيحة و البر دون الاثم، و أنه لم يأثم امرؤ بحليفه، و ان النصر للمظلوم.
 و ان اليهود ينفقون مع المؤمنين ماداموا محاربين.
 و ان يثرب حرام جوفها لأهل هذه الصحيفة.
 و ان الجار کالنفس غير مضار و لا آثم.
 و انه لا تجار حرمه الا باذن أهلها.
 و انه ما کان بين أهل هذه الصحيفة من حدث أو اشتجار يخاف فساده فان مرده الي الله عزوجل و الي محمد رسول الله صلي الله عليه و آله و سلم.
 و انه لا تجار قريش و لا من نصرها.
 و ان بينهم النصر علي من دهم يثرب.
 و اذا دعوا الي صلح يصالحونه و يلبسونه فانهم يصالحونه و يلبسونه، و انهم اذا دعوا الي مثل ذلک فانه لهم علي المؤمنين الا من حارب في الدين..علي کل اناس حصتهم من جانبهم الذي قبلهم.
 و ان يهود الأوس، مواليهم وأنفسهم، علي مثل ما لأهل هذه الصحيفة مع البر المخض من أهل هذه الصحيفة، و ان البر دون الاثم، لايکسب کاسب الا علي نفسه و ان الله علي أصدق ما في هذه الصحيفة و أبره.

 و انه لايحول هذا الکتاب دون ظالم أو آثم، و أنه من خرج آمن و من قعد [ صفحه 106] آمن بالمدينة، الا من ظلم أو أثم، و ان الله جاز لمن بر واتقي، و محمد رسول الله۔( سیرۃ ابن ھشام،ج 2، صفحات اوپر درج ہیں) و تاریخ ابن کثیرج3، از صفحہ224-226)