اسلام دین فطرت اور عقل و بصیرت پر مبنی ایک آفاقی مذہب ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علماء ہند
اسلام ایک دین فطرت ہے اور فطری زندگی گذرانے کے لیے جتنی رہ نمائی اور جس طرح کی ہدایات و احکام کی ضرورت تھی، خالق فطرت نے وہ تمام ہدایتیں بندوں کو عطا فرمادیں، یہ ہدایتیں اور ضابطے چوں کہ خالق فطرت کے بنائے ہوئے ہیں، اس لیے وہ ضابطے اور قوانین ہرزمانے اور ہر دور کے لوگوں کے لیے ایک ضرورت اور ان کے تقاضوں کو پورے کرنے کے لیے کافی ووافی ہیں اور جب تک یہ دنیا قائم ہے تب تک یہ کافی رہیں گے۔ ان کے حوالے سے یہ کبھی بھی نہیں کہاجاسکتا کہ ان میں زمانے کے ساتھ چلنے کا حوصلہ نہیں ہے اور وہ فرسودہ ہوچکے ہیں ۔ اسی وجہ سے ہمارا یہ دعویٰ اور یقین کامل ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی اور ضابطہ حیات ہے۔
اسلام ایک دین ہے، ایک مذہب کا نام اسلام ہے اور دین و مذہب کے حوالے سے یہ عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ماننے یا نہ ماننے اور اس کے ردوقبول کرنے کا سارا دارو مدار صرف اور صرف حسن عقیدت پر ہوتا ہے ۔ یہ محاورہ اسی فکر کی دین ہے کہ ’’ مانو تو بھگوان ہے، نہ مانو تو پتھر ہے‘‘۔ جس کو جس مذہب سے عقیدت ہوجاتی ہے ، وہ اس مذہب کو قبول کرلیتا ہے۔ قبول کرلینے کے بعد اسے یہ سوچنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی کہ’’ یہ کیوں ہے؟‘‘ کا سوال کرے ۔ اگر کسی مذہب نے آپ کو یہ سکھایا ہے کہ بھگوان سیکڑوں ہیں: بارش کا الگ ہے، دھوپ کی ذمہ داری کسی اور بھگوان کی ہے ، انسانوں کی فریاد کے لیے کوئی تیسرا بھگوان ماننا ضروری ہے اور جانوروں کی پرورش کے لیے ان سب بھگوانوں میں طاقت نہیں ہے، بلکہ اس ڈپارٹمنٹ کے لیے مستقل ایک بھگوان ہے ، تو اس عقیدے کو تسلیم کرلینے کے بعد آپ کو یہ سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ بھگوان اتنے کیوں ہیں ؟ اور ایک ہی سارا کام کیوں نہیں کرپاتا؟ وغیر وغیرہ۔ لیکن تمام مذاہب و ادیان کے برخلاف اسلام کا یہ اعلان ہے کہ آپ اسلام کے تعلق سے جو بھی عقیدہ رکھیں، اس کی بنیاد ان اذعان و یقین پر ہو، جو دلائل و براہین سے محقق و مدلل ہوں۔
اسلام کی دو اہم اصطلاحیں ہیں(۱) اسلام۔ (۲) ایمان۔ مجموعۂ عقائد کا نام ایمان ہے اور مجموعۂ عمل کو اسلام کہاجاتا ہے اور عقائد و اعمال یعنی ایمان و اسلام کے مجموعے کا نام مذہب ہے۔ حدیث نبوی میں ہے کہ الایمان سر والاسلام علانیۃ۔ ایمان دل میں چھپی ہوئی چیز ہے اور اسلام کھلی چیز کا نام ہے ۔ ایمانی عقائد اعمال کے رد وقبول کا معیار بھی ہیں اور کسی مذہب کے حق و باطل کے پہچاننے کا ذریعہ بھی۔
اگر عقائد درست ہیں ، تو تمام عمال درست ہوں گے اور عقائد غلط ہوں گے ، تو تمام اعمال ناقابل قبول اور اکارت ہوجائیں گے۔ اس لیے عقائد کے حوالے سے محققین اسلام کے درمیان یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے کہ حجۃ و برہان اور دلیل و عقل سے خالی ، محض باپ داد سے سنی سنائی تقلیدی ایمان معتبر ہے یا نہیں۔ ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ دلائل و براہین سے خالی محض تقلیدی ایمان معتبر نہیں ہے۔ اسی بنا پر قرآن حکیم نے دین و ایمان کے بارے میں بارہا تدبر و تفکر کی دعوت ہے ۔ اور اس فکر کی تردید کی ہے کہ ہم نے باپ داداوں کو ایسے ہی کرتے پایا ہے۔
قرآن و احادیث کے اولین مخاطب حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایمان ، اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ ان کے تحقیقی ایمان کی تصدیق کرتے ہوئے قرآن حکیم خود گواہی دیتا ہے کہ
ادعو الیٰ اللہ علیٰ بصیرۃ انا و من اتبعنی و سبحان اللہ وما انا من المشرکین (سورہ یوسف(۱۰۸)
میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی دعوت دیتا ہوں اور وہ لوگ بھی جو میرے ساتھ ہیں اور اللہ کی ذات پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔
پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اولیت کے ساتھ اور ان کے بعد کے لوگوں کے بارے میں تبعیت کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ
والذین اذا ذکروا بایات ربھم لم یخروا علیھا صما و عمیانا (الفرقان (۷۳)
اور وہ لوگ جب ان کے سامنے پروردگار کی نشانیوں کی باتیں کی جائیں، تو وہ ان پر اندھے بہرے ہوکر نہیں گرتے۔
اس کلام خداوندی سے ظاہر ہے کہ ایمان خواہ اجمالی ہو یا تفصیلی، اس کی بنیاد بصیرت و تحقیق پر ہوتی ہے ۔ اور یہی وہ قوت یقین اور تحقیقی ایمان ہوتا ، جس کے ہوتے ہوئے انسان اس ایمان کی راہوں میں آنے والے تمام ریب و شک اور ضلالت و گمراہی سے مامون و محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کے اندر ایک ایسی طاقت پیدا ہوجاتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی سے طاقت و قوت بھی اس یقین و ایمان کو متزلزل نہیں کرپاتی، جس کے عملی نمونہ صحابہ کرام کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔تاریخ آپ کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام کو کیسی کیس ایذائیں اور تکلیفیں دی گئیں، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ایمان پر ڈٹے رہے ۔ اس سلسلے میں خود قرآن گواہ ہے کہ وما ضعفوا ومااستکانوا واللہ یحب الصابرین۔ (آل عمران ۱۴۶)
اور وہ نہ سست ہوئے اور نہ دب گئے اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا تھی کہ ان کا ایمان محض تقلیدی یا سنی سنائی باتوں پر نہ تھا؛ بلکہ علیٰ وجہ البصیرت دلائل و براہین پر قائم تھا۔
یہ تو اصول دین اور عقائد کی بات تھی، جس کے تعلق اسلام یہ دعوت دیتا ہے کہ ان کا قبول وتسلیم علیٰ وجہ البصیرت ہونی چاہیے، کیوں کہ عقل و تدبر کا یہی تقاضا ہے۔ اور جب عقل و تدبر کے بعد اسلام کے ان عقائد کو آپ نے تسلیم کرلیا ہے، تواس کے بعد جو احکام و عبادات لازم و واجب ہوتے ہیں، وہ بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتے؛ بلکہ ان پر تدبر و تفکر کے بعد یہ راز کھلتا ہے کہ جہاں وہ شرعی حکم ہیں، وہیں عقلی معیارپر بھی پورے اترتے ہیں اور جب ان پر کوئی غوروفکر کرتا ہے کہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ حکم ایسے ہی ہونا چاہیے۔ اور یہی دین اسلام کی فطرت سے ہم آہنگ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ہم اختصار کے پیش نظر یہاں صرف دو تین مثالیں پیش کرتے ہیں۔
(۱) شریعت کے مطابق مردوں کو چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے، جب کہ عورت صرف ایک ہی مرد سے شادی کرسکتی ہے۔اسلام کے اس فیصلے پر غیر مسلموں کو سخت اعتراض ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ انسانوں میں مساوات کے خلاف ایک جرم ہے۔ اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عقل بھی اسے مساوات کی راہ میں رکاوٹ گردانتی ہے؛ لیکن تدبر و تفکر سے کام لیا جائے، تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ یہ حکم خلاف عقل و مساوات نہیں ہے؛ بلکہ سراسر حکمت و مصلحت اور عقل و بصیرت کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت سے اٹیچ فیصلہ ہے، جس کی وضاحت یہ ہے کہ شادی کا اصل مفہوم یہ نہیں ہے کہ وہ ایک مرد اور ایک عورت کا مل جل کر رہنے کا ایک سماجی معاہدہ ہے؛ بلکہ شادی کی حقیقت یہ ہے کہ عورت اپنی جان(ذات) کو مرد کے حوالے اس لیے کرتی ہے کہ وہ اس جان کے عوض مرد سے مکان اور نان ونفقہ حاصل کرتی ہے۔ اب سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہر ایک شخص کے پاس کتنی جان ہے؟ ظاہر ہے کہ ہر شخص کے پاس صرف ایک ہی جان ہے اور جب وہ ایک جان کسی کے حوالے کردیا ، تو اب دوسروں کو دینے کے لیے اس کے پاس کوئی جان نہیں بچی ؛ بلکہ اب عورت کی اپنی جان بھی اپنی نہیں رہی؛ بلکہ وہ اس کے شوہر کی ہوگئی۔ جب اس کی جان خود اس کی پاس نہیں رہی، تو دوسرے ، تیسرے مرد سے شادی کرنے کے بعد عورت کون سی جان اس کے حوالے کرے گی۔ اس کے برخلاف مرد اس جان کے بدلے نان و نفقہ اور مہر کا ذمہ دار ہوتا ہے اور ایک شخص کئی کئی لوگوں کی رہائش اور نان و نقفہ کا بندوبست کرسکتا ہے، لہذا وہ کئی کئی عورتوں سے شادی بھی کرسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت نے مردوں کو کثرت ازدواج کی اجازت دی ہے اور عورتوں کو یہ حق نہیں دیا ہے۔
(۲) اسی طرح شریعت کا حکم یہ ہے کہ مرد صرف چار عورتوں سے ہی شادی کرسکتا ہے، اس سے زیادہ سے نہیں کرسکتا۔ یہ حکم بھی عقلی بنیادوں پر قائم ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک عورت حاملہ ہونے کے بعد صرف تین مہینے تک جنسی عمل کا ساتھ دے سکتی ہے ۔ اگر اس کے بعد جنسی عمل میں شریک ہوتی ہے، تو زچہ بچہ دونوں کی صحت کے لیے خطرہ کا امکان رہتا ہے۔ اب غور کیجیے کہ ایک شوہر ہے، وہ اپنی عورت کے ساتھ پہلی مرتبہ کے جنسی عمل میں خوشخبری پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ،تو اس کے بعد تین مہینے تک کسی نقصان کے بغیر اس کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کرسکتا ہے، اس کے بعد نقصان کا اندیشہ ہے، لہذا اس نقصان سے بچنے کے لیے دوسری بیوی کی ضرورت پڑے گی، کیوں کہ بیوی ہی ایک جائز طریقہ ہے ۔ اب دوسری بیوی کے ساتھ بھی وہی اتفاق ہوجاتا ہے کہ پہلی کوشش میں کامیابی مل جاتی ہے ، تو اس کے بعد تین مہینے تک وہ قابل استعمال رہتی ہے۔ اسی طرح تیسری اور چوتھی کے ساتھ بھی یہی اتفاق مان لیجیے۔ پھر جب چوتھی بیوی کے تین مہینے پورے ہوں گے تو پہلی بیوی نو مہینے میں وضع حمل کے بعد تین ماہ گذار چکی ہوگی، جو مدت نفاس چالیس ایام سے کہیں زیادہ مدت ہے۔ اور بچے کی پیدائش کے تین مہینے بعد ملنے سے ، نہ بچے کی صحت کے لیے بھی کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی زچہ کے لیے۔ اس لحاظ سے چار بیویاں پورے سال کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے شریعت نے اسی مصلحت کے پیش نظر اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دی۔ درج بالا حقیقت شاہد عدل ہے کہ شریعت کا یہ حکم خلاف عقل نہیں ہے؛ بلکہ انسانی فطرت و ضرورت کے عین مطابق ہے۔
(۳) اسی طرح شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے ، تو اسے نماز کی تاکید کیجیے ۔ جب دس سال کا ہوجائے، تو نماز کا اہتمام کرائیے۔ اگر سستی کرے، تو پٹائی بھی کیجیے۔ اور پھر جب بالغ ہوجائے، تو اس پر نماز فرض ہوجائے گی، اسے ہر حال میں پڑھنی ہی ہوگی۔
یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ شریعت نے بالغ ہونے پر ہی مکلف کیوں بنایا؟ اس سے قبل کیوں نہیں بنایا۔ تو اس کا جواب سمجھنے سے پہلے اس تمہید پر گفتگو کی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں احکام و شرائع کا ذمہ دار صرف وہی مخلوق ہوتی ہے، جس میں تین صفتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ تین صفتیں جس درجہ جس مخلوق میں پائی جائیں گی، وہ اتنی ہی زیادہ ذمہ دار ہوگی، اور جس میں جتنی کم پائی جائیں گی، وہ اسی اعتبار سے فرائض و واجبات سے مستثنیٰ ہوتی چلی جائے گی۔ وہ تین صفتیں ہیں :احساس، ادراک اور ارادہ۔ان صفتوں کے اعتبار سے تمام مخلوقات کی بھی تین ہی قسمیں ہیں: جمادات، نباتات اور حیوانات۔
صانع عالم کی پہلی مخلوق جمادات کو لے لیجیے، یہ تینوں صفتوں سے محروم ہے اس میں نہ احساس ہے نہ ادراک ہے اور نہ ہی ارادہ ہے ، لہذا اس پر کوئی بھی خدائی حکم لاگو نہیں ہے۔ آپ نے یہ کبھی بھی نہیں سنا یا دیکھا ہوگا کہ کسی پتھر پر بھی نماز یا روزہ وغیر فرض ہے ، حتی کہ جینے مرنے کے فرائض سے بھی وہ مستثنیٰ ہے۔ دوسری مخلوق نباتات ہے، اس کے اندر تین صفتوں میں سے صرف ایک صفت : صفت احساس پائی جاتی ہے، اس لیے یہ جمادات کے مقابلے میں کسی قدر خدائی حکم کا پابند ہے ۔ اسی وجہ سے ہمارا یہ مشاہد ہ ہے کہ درخت پودے، پھول مرنے جینے، ہرا ہونے اور سوکھ جانے جیسے خدائی حکم کا پابند ہے۔ تیسری مخلوق حیوانات ہے، اس کی دو بڑی تقسیم ہے : ایک انسان اور دوسرا جانور۔ جانوروں میں احساس اور ارادے کی دو صفتیں پائی جاتی ہیں، ادراک نہیں پایا جاتا، اس لیے نباتات کے مقابلے میں اس کے فرائض و واجبات زیادہ ہوجاتی ہیں، چنانچہ جانور مرنے جینے کے ساتھ ساتھ سردی گرمی اور دکھ تکلیف کا احساس بھی کرتے ہیں۔ حیوانات کی دوسری قسم میں انسان آتا ہے۔ انسان کے اندر یہ تینوں صفتیں پائی جاتی ہیں، اس لیے انسان خدائی حکم کے تمام تر ذمہ داریوں کا مستحق قرار پاتا ہے۔پھر انسان کے حالات پر غور کیجیے، تو ان تینوں صفتوں کے تفاوت کے اعتبار سے بے شمار قسمیں نکلیں گی، کسی میں یہ تینوں صفت بدرجہ اتم موجود ہوں گی، تو کسی میں بہت ہی کم۔ اور کوئی شخص درمیانہ صفات کا حامل ہوگا۔
پاگل و مجنون تینوں صفتوں سے عاری ہوتے ہیں، لہذا وہ شریعت کی نگاہ میں مرفوع القلم ہیں۔ لیکن ایک عالم اور دانش مند کے اندر یہ تینوں صفتیں پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں، اس لیے وہ تمام فرائض کا ذمہ دارہوتا ہے ، حتیٰ کہ اگر کوئی مسئلہ مستحب درجے کا بھی ہوتا ہے ، تو ان حضرات کے حوالے سے لزوم سمجھا جاتا ہے اور اس کے ترک کرنے پر ملامت کے مستحق ہوتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد اصل موضوع پرآتے ہیں۔ پیدائش کے فوری بعد سے لے کر سات سال کی عمر تک لاشعوری کا دور ہوتا ہے، نہ اس کا احساس بالغ ہوتا ہے اور نہ ہی ادراک کی پوری قوت پائی جاتی ہے، اس لیے سات سال تک اسے حکم الٰہی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ دس سال کی عمر تک احساس و شعور میں بالیدگی پیدا ہونے لگتی ہے، اس لیے پہلے کے مقابلے میں تنبیہ کے لیے پٹائی تک کی اجازت دی گئی ہے، لیکن جب بالغ ہوجاتا ہے، تو تینوں صفتوں کے تمام مراحل پورے جاتے ہیں، اس لیے خدائی حکم بھی پوری قوت کے ساتھ نافذ ہوتا ہے اور اس پر فرض قرار دے دیا جاتا ہے۔
اب فرض کیجیے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تمام احکام الٰہی نماز روزہ وغیرہ کا مکلف بنادیا جاتا، توکیا وہ بچہ اسے انجام دے پاتا؟ اور کیا کوئی عقل سلیم اسے فطرت سے ہم آہنگ فیصلہ تسلیم کرتی؟ یقیناًسب کا جواب یہی ہوگا کہ بالکل نہیں، اس لیے اسلام نے پہلے تدریب کا طریقہ اختیار کیا پھر فرائض کے بوجھ ڈالے،جو سراسر عقل و بصیرت پر مبنی فیصلہ ہے۔ اور ان طریقوں پر غور کرنے والا بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ ائے ذات قدرت ! تیری شان نرالی ہے اور تیرا کوئی کام حکمت و فطرت سے خالی نہیں ہے۔
طوالت کے پیش نظر انھیں تین مثالوں پر مضمون مکمل کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ شریعت الٰہی کا کوئی بھی فیصلہ کوئی بھی مسئلہ فطرت کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا ، کیوں کہ یہ خود خالق فطرت کی تخلیق کردہ آئین ہے۔ اور چوں کہ یہ آئین فطری ضروریات پر مبنی ہے ، لہذا ہر زمانے کی فطرت سے ہم آہنگ ہوجانا اس کی سب سے بڑی خصوصیت ہے، لہذا یہ دعویٰ خلاف واقعہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اسلام ہر دور اور ہرزمانے کے لیے ہے ، اس میں آفاقیت بھی ہے اور عالم گیریت بھی۔اور یہی وہ واحد مذہب ہے جس میں پوری کائنات کے لیے رہبری اور رہ نمائی موجود ہے۔جس کی بنیادمحض تقلیدی عقیدت پر نہیں، بلکہ ہر حکم و ارشاد عقل و بصیرت پر مبنی ہے۔اور جس پر تدبر و تفکر کے لیے بارہا دعوت دی گئی ہے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہماری ناقص عقلیں کسی کا ادارک کرپاتی ہیں اور کسی کا نہیں۔ بھلا حکیم و خبیر کے ہر راز کا انکشاف انسان کر بھی کیسے سکتا ہے!!!!۔