15 Sept 2018

Moharram ki Jharni

محرم کی جھرنی
محمد یاسین قاسمی جہازی
قسط (۱)


جہاز قطعہ و اطراف کے علاقوں میں ماہ محرم کی شروعات سے یوم عاشورہ تک عورتوں میں دس روز ہ کھیل کھیلنے کی قدیم رسم چلی آرہی ہے، جس کو وہاں کے عرف میں جھرنی کہاجاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مراہق بچیاں شام کو کچھ اندھیرا پھیلنے کے بعدایک جگہ جمع ہوتی ہیں اور گول دائرہ کا گروپ بناکر مخصوص گیت گاتی ہیں۔ گیت کے ساتھ بانس سے بنی جھرنیوں سے تال ملایا جاتا ہے۔ گیت کے ترنم ، جھرنی کی تان ،بدن کے تھرکنے اورصوتی ہم آہنگی میں اس قدر تناسب و توازن ہوتا ہے کہ دیکھنے سننے کے بعد ایک انجان شخص یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہ پائے گا کہ یہ کوئی گھریلو ، دیہاتی لڑکیاں نہیں؛ بلکہ یہ اس فن میں پروفیشنل ہیں، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی نیچرل مہارت ہے، جو از خود سیکھ لیتی ہیں اور ہر سال اس موقع پر اس کا مظاہرہ کرنا اپنا فریضہ سمجھتی ہیں۔ 
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ لڑکیاں، ماہ محرم کے اس دس روزہ کھیل میں اپنے کن جذبات کا اظہار کرتی ہیں اور ان کے گیتوں کا کیا پیغام ہوتا ہے۔ 
ناچیز نے اب تک جن گیتوں پر تحقیق کی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا موضوع بالعموم واقعہ کربلا اور اس کے متعلقات ہیں، البتہ ان گیتوں میں حقیقت کم اور سراسر جہالت کے مضامین بھرے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ بعض مضامین کفریہ معانی پر بھی مشتمل ہیں۔ آئیے پہلے کچھ گیت پڑھ لیتے ہیں۔ 
۱۔ گامو کے پیچھے ہو سید، ایکے بانسو بیربا
وہی سے بانسو رو بیربا، جھانری کنواں را با
ماہی رے انربا، دولہنیا بھرے پانی
کتھی کے گھَیلیا ہے دولہنیا، کتھی کے گے ڑولیا (نیٹھوا)
کتھی لاگے دولہنیا بھرے پانی
سونو کے گھیلیا ہے دولہنیا، روپا کے جڑولیا
ریشم لاگل دولہنیا بھرے پانی
ایکے کوسے گیلے ہے دولہنیا، دوہی کو سے گیلے
تیسری رے کوسے جھایاری رے اِنربا
ریشم لاگل دولہنیا بھرے پانی
پانی یے بھری یے دولہنیا، دیکھے رے لاگلے چاروں دس برنائے
گھوڑیاں چڑھالو آبے حسن حسین بھیا
دے ہو بھیا گھیلیا الَگائے
گھیلیا الگاؤنی کیے دے بھو دینما
تبّے دے بھوں گھیلیا الگائے
گھیلیا الگاؤنی ہو سید کانوں دونوں سونما
آرو رے دے بو گلے ہرمَل ہار
ادیا لگابو کانو دونوں سونما ہے دولہنیا
بجڑا کھسابو دولہنیا گلے ہرمل ہار
غصہ تیری مار لی ہے دولہنیا، گھیلیا لے لی الگائے
چلی رے گیلے اپنو حویلیا
ایکے کوسے گیلے دولہنیا، دوہی کوسے گیلے
تیسری رے کوسے اپنو حویلیا
گھیلیا دھرے ہے دولہنیا ماہی گھلَ سریا
گے ڑولیا پھیک لے مایے (ماں) اینگنیا
اینگنا بولیے بولی ساسو پڑھے گریا
بھائی با کھوکی گے ڑولیا دوکھے دیل کے
جانھو گاری پڑھیو ہے ساسو، بھئی با کھوکی بھتیج با
مورو رے بھیا، سورجو دیو کے مانگ لو
باپے بھٹائے گیلے بٹوہیا
لے لے ہو جاھیے ہمرو سمودبا
ہمرو سمودبا ہو بھیا بابا آگو چلی بولیھے
باباں رے سنتے، دسے لوگیں بیٹھاتے
ہمرو سمودبا ہو بھیا میو آگو چلی بولیھے
میو رے سنتے، دھرتی رے لوٹاتے
ہمرو سمودبا ہو بھیا بھوجو آگو چلی بولیھے
بھوجو رے سنتے ، او لیھے نو پہنچاتے
ہمرو سمودبا ہو بھیا آگو چلی بولیھے
بھیا رے سنتے گھوڑیا دوڑاتے 
نامی نامی کوڑیا ہو بھیا، بانھیو پھسڑیا(لنگی کا چیرا) ہو بھیا
چلی رے گیلے حاجی پور ہٹیا
ایکے کوسے گیلے دوہی کوسے گیلے
تیسری رے کوسے حاجی پورے ہٹیا
پیشابے رے لاگلے بھیا، رانگے چھنگے جڑولیا
کہاں مائی دھربے گے ڑولی بریا
کہاں مائی دھربے جیٹھو بھیا
بنگلہ دھربے ساسو ، گے ڑولی کبھریا
اچَراں بیٹھابے ہے ساسو جیٹھو بھیا
کیے کیے کھلابے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
کیے کیے کھلابے ہے ساسو جیٹھو بھیا
وہی چوڑا کھلابے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
کھوا کھلابے ہے ساسو جیٹھو بھیا
کیے کیے سموکھ بے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
کیے کیے سموکھ بے ہے ساسو جیٹھو بھیا
پانے پھولے سموکھ بے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
چھوٹکو نندو سموکھ بے ہے ساسو جیٹھو بھیا
ہانسل کھیلل جاتے ہے ساسو گے ڑولی کبھریا
کانل کھینچل جاتے ہے ساسو چھوٹکو نندیا جیٹھو بھیا
۲۔ جو جنگل میں دادا، ربھے، وی جنگل گھمسان ہے
دادا نے پوکھریا کھنابے، دادی روبے جھارے جھار
ہیگے دادی تم پیاری، ناکو بے سوریا اتار
ناکو کے بے سوریا ناکھ بے راجے
کٹ گیو ،رے ہائے رے ہائے
۳۔ سیتا ھو کا سنوریا، جھاڑے ہے رے جھاڑے دُھر مے رو نہ ہو
کہاں میں دنیا ہے رے زیادہ، غم کرو رے ستم کرو
آبے گا رے ساری دنیاکے لوگیں، غم کرو رے ستم کرو
جس کا دل میں مکناں (کینہ) ہے رے مکناں
آبے گا رے ساری دنیاکے لوگیں، غم کرو رے ستم کرو
غم کرو رے مہا غم کرو، غم کرو رے ستم کرو
۴۔ گھوڑے پرسے قاسم اترے، ہاتھ میں قرآن ہے
بھور(صبح) بکت میں زینت اترے، ہاتھ میں اورمال ہے
قرآن پڑھتی ہے سکینہ، شادی کو ارمان ہے
لے چلو ندیا کنار، یاج رَینی رات ہے
رات ہے ، بے رات ہے، بڑی قتل کی رات ہے
سب حسینا کے مل کے رہیو، یاج رینی رات ہے
۵۔ بیچ رے میدان میں دونوں بھائی جوبَنَما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
گھیرل یابے گھیرل جائے ساتو بھائے شیطنما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
آبے رے جاتے جانو تورے پرنما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
پہلے پکارے چھے، اللہ رسولنا ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
دوسری پکارے چھے پیرے پیغمبر ہو ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
آبے رے جاتے جانو تورے پرنما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
جیسن کاٹے چھے کیلا تورے بگنما ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
ویسن کاٹے چھے دونوں بھائے رے ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
جیسن چلے چھے آکھر ماسے ندیا، ویسن چلے چھے خونو رو دھربا 
ہائے رے اللہ ہائے رے ہائے
۶۔ کاہے کی درگھا ہو میاں، کاہے کی نی پا، لاگی
کاہے کی اورمال چھتیا، بیچ رین میں ہے کھڑی
اینٹا کی درگھا ہو میاں، دودھ کی نی پا ،لاگی
ریشم کی اورمال چھتیا، بیچ رین میں ہے کھڑی
کاہے کی لسان ہو میاں، کاہے کی دھوجا (جھنڈا)میاں
بانسے کے لسان ہو میاں، کپڑا کی دھوجا لاگی
بیچ رین میں ہے کھڑی
۷۔ کہاں سوبھے چوڑی لاری، کہاں سوبھے سورما ہے
کہاں سوبے سر پہ اوڑھنی، سید میرا رین چلو
ہاتھے سوبھے چوڑی لاری، نینا سوبھے سورما ہے
بدن سوبھے سر پہ اوڑھنی سید میرا رین چلو
پلنگ سوبھے سجنی، اچھا گھرو میں پھول بچھونا
نماز پڑھ بھے تے پڑھی لے
گیتوں پر ایک نظر
مشتے نمونے از خروارے کے طور پر یہ چند گیت یہاں پیش کیے گئے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ ان گیتوں کا میں کیا کہا گیا ہے۔ 
گیت نمبر ایک میں کئی الگ الگ کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ قصہ کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ گاؤں کے پچھلے حصے میں بانس بٹا کے پاس ایک کنواں ہے۔ ایک دولہن جس کے پاس سونے کا گھڑا اور روپا کمپنی کا نیٹھوا (کوئی چیز سر پر رکھنے کے لیے رکھی جانے والی چیز) ہے، وہ ریشمی صفت اس کنویں سے پانی بھر رہی ہے۔ پانی بھرتے ہوئے وہ چاروں طرف دیکھتی ہے، تو اسے حسن حسین دونوں بھائی گھوڑے پر سوار آتے دکھتے ہیں اور کنویں پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ دولہن ان سے گھڑا سر پر رکھ دینے کی درخواست کرتی ہے، جس پر دونوں بھائی دولہن سے پوچھتے ہیں کہ اس کے بدلے میں وہ کیا دے گی۔ وہ کہتی ہے کہ دونوں کان کے سونا اور گلے کا ہار دوں گی۔ لیکن پھر بھی دونوں بھائی گھڑا سرپر نہیں رکھتے، جس سے وہ غصہ ہوجاتی ہے اور خود سے گھڑا اٹھاکر سر پر رکھتی ہے اورتین کوس کے فاصلہ پر واقع اپنی حویلی پہنچ جاتی ہے۔ حویلی میں گھلساری( گھڑا رکھنے کی جگہ) پر گھڑا رکھتی ہے، لیکن نیٹھوا آنگن میں پھینک دیتی ہے، جسے دیکھ کر اس کی ساس دولہن کو گالی دینے لگتی ہے۔گالی سن کر دولہن ساس کہتی ہے کہ راستے میں بٹوہیا ملا تھا، اس کے ذریعہ ہم نے اپنے والد کو یہ قصہ کہلا بھیجا ہے، وہ عن قریب آئیں گے اور دس لوگوں کو میٹنگ میں اس کا فیصلہ کریں گے اور میرا بھائی سورج بھگوان سے مانگا ہوا ہے، اس لیے یہ خبر سنتے ہی میرا بھائی کوڑی (پیسوں) کی گٹھری باندھ کر تین کوس پر واقع حاجی پور بازار جائیں گے اور نیا نیٹھوا لے کر آئیں گے۔ کہانی اور آگے تک جاتی ہے جس میں بھائی اور دوسرے رشتہ دار کے آنے پر انھیں کہاں ٹھہرائیں گے اور کیا کیا کھلائیں گے وغیرہ جیسی باتیں ہیں۔ 
گیت نمبر دو میں کہا گیا ہے کہ دادا جس جنگل میں رہتے ہیں، وہ بہت گھنا جنگل ہے، اس جنگل میں دادا ایک تالاب کھودوا رہے ہیں اور دادی وہیں پر پودے لگا رہی ہے ۔ دادی کی ناک میں بیسر ہے، گیت میں کہاجارہا ہے کہ وہ بیسر اتار کر دیدو دادی اسے راجا (حسین ) کو دیدیا جائے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ راجا میدان جنگ میں گئے اور کٹ گئے۔ 
نمبر تین کے گیت کا مضمون ہے کہ سر کے بالوں کی سیت درست کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ، لیکن دنیا کی زندگی تو بہت کم ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ غم کرنا چاہیے۔ اس غم گیری میں تنہا آپ نہیں رہیں گے؛ بلکہ پوری دنیا غم حسین میں شرکت کرے گی، اس لیے بہت زیادہ غموں کا اظہار کرو۔ 

14 Sept 2018

Bharti musalmano min shiat ke asarat

بھارتی سنی مسلمانوں میں شیعیت کے اثرات
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

بھارت میں اکثر مسلم حکمراں اہل سنت والجماعۃ تھے؛ البتہ کچھ ریاستوں میں شیعہ کی حکمرانی قائم تھی۔ مغلیہ حکومتوں کے تقریبا سبھی بادشاہ بھی اہل سنت والجماعۃ تھے؛ لیکن جب ایران کے شیعی صفوی حکومت کا شاہ دوم طہما سپ اول (1524- 1576)نے ہمایوں بادشاہ کو پناہ دی اور اسے سوری بادشاہ کو شکست دینے اور اس کی حکومت کو دوبارہ بحال کرنے میں بھرپور تعاون کیا، تبھی سے شاہانِ مغلیہ کے ایران کے ساتھ اچھے مراسم قائم ہوئے اور اس کی وجہ سے شیعی عناصر حکومت کے کاموں میں دخیل ہوئے۔بطور خاص اورنگ زیب عالم گیر کے انتقال کے بعد جب مغلیہ حکومت کمزور پڑنے لگی تو ان شیعی عناصر نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور بادشاہ ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہے۔لال قلعہ میں تعزیہ داری اور شہزادوں کا اس میں پوری دل چسپی سے حصہ لینا یہ سب کچھ شیعی اثرات کا ثمرہ تھا۔
سلطنتِ مغلیہ میں ان کے گہرے اثرات کی وجہ سے ان کے مذہبی عقائد کی چھاپ پورے ہندستان پر پڑ گئی تھی۔ پورے ہندستان میں شیعی عقائد اور ان کے مشرکانہ رسوم اس طرح غیر شیعہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں رچ بس گئے تھے کہ اگر ان کو صحیح طور پر کلمہ شہادت بھی ادا کرنا نہ آتا ہو؛ مگر وہ تعزیہ داری اور اس کے ساتھ عقیدت مندی کا والہانہ جذبہ سینوں میں موج زن رکھتے تھے اور اس کو اپنے مسلمان ہونے کی سند سمجھتے تھے۔ سنی مسلمانوں کی مسجدوں میں تعزیے رکھے رہتے تھے اور ان کے محلوں میں چبوترے بنے ہوتے۔ محرم کے مہینے میں سنی مسلمان بڑی عقیدت سے تعزیہ اٹھاتے۔ حیرت ناک بات یہ تھی کہ شیعہ اتنے بڑے ملک میں سنیوں کے مقابل میں مٹھی بھر تھے؛ لیکن کروڑوں اہل السنۃوالجماعۃ مسلمانوں کے دلوں میں شیعوں نے اپنے سارے عقائد و مراسم، جذبات و خیالات کی چھاپ ڈال دی تھی اور پورے ہندستان کو شیعیت کے رنگ میں رنگ دیا تھا۔(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند،دارالعلوم دیوبند اور رد شیعیت، شمارہ۱۲، جلد۹۷،دسمبر۲۰۱۳ء تھوڑی ترمیم و اضافہ کے ساتھ)
مشاہدات اور واقعات اس اقتباس کی صداقت پر گواہ ہیں کہ آج بھارت کے اکثر سنی مسلمانوں کے معاشرے میں محرم آتے ہی شیعوں کے یہ تہوار بھی جنون کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، حالاں کہ ان میں سے اکثر بالخصوص دیہاتی سماج کے افراد اس چیز سے بھی واقف نہیں ہیں کہ شیعہ کس چڑیا کا نام ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلاکر دھوکہ دیا اور نواسہ رسول ﷺ کے لیے قتل و غارت گیری میں شرکت کی۔ پھر شہادت حسین کی خوشی میں ڈھول تاشوں کی تان پر فتح کے فخرو غرور کے پھریرے اڑائے اور جشن مناتے ہوئے خود بھی ناچے اور اپنی عورتوں کو بھی نچایا اور نچا رہے ہیں، ایسے لوگ ہرگز ہرگز محب حسین نہیں ہیں، یہ قاتلان حسین ہیں، جو اپنی شرمندگی اور ذلت کو چھپانے کے لیے نسل در نسل ناٹک رچ رہے ہیں۔
اس لیے۔۔۔ اس لیے سنی مسلمانوں سے دردمندانہ گذارش ہے کہ یہ جس فرقہ و مذہب کا جشن یا ماتم یا پھر جشن ماتم ہے، انھیں ہی منانے دیا جائے۔ماضی کی ان کی حرکتوں کا بوجھ اپنے کاندھے پر محسوس نہ کریں اور ایک محترم مہینے میں غیر اسلامی خرافات کا شکار نہ ہوں؛ بلکہ اس کی نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھ کر صبر حسینی کا عملی پیکر پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے ، آمین۔ 

11 Sept 2018

Maulana Margubor Rahman Bijnori

مولانا مرغوب الرحمان صاحب کا انتقال ملتِ اسلامیہ کا عظیم خسارہ 
یکم محرم الحرام یوم وفات کی مناسبت سے  ایک خصوصی پیش کش
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
موت ایک ایسی تلخ حقیقت ہے، جس سے نہ تو انکار ممکن ہے اور نہ ہی اس سے نجات و فرار کا کوئی راستہ ہے ۔ دنیا میں جو بھی آیا ہے ، وہ سب جانے ہی کے لیے آیا ہے ۔ یہاں بقا و دوام کسی کو حاصل نہیں ۔ خود اس کائنات ہی کو ثبات و استقلال نہیں ہے ، تو اس میں بسنے والی مختلف و متنوع مخلوقات کو بقاودوام و کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے ۔ ؂

سکوں محال ہے قدرت کے کار خانے میں 
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں 
ہاں یہ ایک الگ بات ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جن کے مرنے کی صبح وشام تمنائیں کی جاتی ہیں ، جب کہ کچھ حضرات وہ ہوتے ہیں ، جب وہ داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور ایک مرتبہ مر کر پھر کبھی موت نہ آنے والی زندگی کی شروعات کرتے ہیں ، تو نہ صرف ان کے متعلقین ؛ بلکہ ایک عالم سوگوار ہوجاتا ہے ، ان کی کمی کی کسک درد کا سراپا بن کر سینکڑوں آنکھوں کو نم ناک کر جاتی ہے ۔قافلۂ ملت کے بے باک سالار ، ہندی مسلمانوں کے دین و ایمان کا امین و محافظ ادارہ ، ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحب کے سانحۂ ارتحال کی خبر دامنِ قاسمی سے وابستہ حضرات اور نظریاتی اختلافات سے قطعِ نظر فیضانِ دارالعلوم کے احسان شناس افراد کے دلوں پر ایک بجلی بن کر گری اور پوری ملت اسلامیہ سوگوار ہوگئی ۔ ؂
رکی رکی سی نظر آرہی ہے نبض حیات 
یہ کون اٹھ کے گیا ہے میرے سرہانے سے 
مولانا مرحومؒ ، شمالی ہند کے ایک مردم خیز شہر بجنور کے ایک بڑے زمین دار اور علم دوست، فاضلِ دارالعلوم دیوبند ،شیخ الہند ؒ کے تلمیذِ خاص حضرت مولانا مشیت اللہ صاحب کے یہاں ۱۳۳۲ھ مطابق 1914ء میں پیدا ہوئے ۔شرح جامی تک کی ابتدائی تعلیم اپنے شہر بجنور کے مدرسہ رحیمیہ میں حاصل کی ۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ نے ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا ، جہاں آپ نے ۱۳۴۷ھ مطابق 1929ء میں داخلہ لیااور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب ؒ ، حضرت العلامہ مولانا محمد ابراہیم صاحب ؒ ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ اور دیگر اکابر اساتذۂ دارالعلوم کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے ۱۳۵۲ھ مطابق 1933ء میں سندِ فراغت حاصل کی ۔ فراغت کے بعد کچھ ایسے بیمار پڑ گئے کہ دو تین سال کا عرصہ آپ کو اپنے گھر پرہی گذارنا پڑ گیا ۔ لیکن علم کی طلب اور جستجو کے شوق نے چین سے بیٹھے نہیں دیا اور دوبارہ علم کی پیاس بجھانے کے لیے آپ نے دیوبند کا رخ کیا اور تکمیلِ افتا میں داخلہ لیا ۔ مفتی سہول صاحب بھاگل پوریؒ اور دیگر اصحابِ فتاویٰ کی نگرانی میں افتا کی تکمیل کی ۔ 
دارالعلوم دیوبند سے آں جناب کا پشتینی تعلق تھا۔ خود مولانا مرحوم ؒ کے والد ماجد مرحوم ؒ یہاں کے فارغ التحصیل تھے ۔ فراغت کے بعد اپنی زمین داری کی نگرانی کے ساتھ ساتھ مادرِ علمی کے انتظامی امور میں بھی معاونت فرمایا کرتے تھے ۔ اپنے والد محترم کی طرح مولانا مرحوم ؒ بھی دارالعلوم کے لیے ہر طرح کے تعاون میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے تھے ۔مولانا مرحومؒ کا دارالعلوم سے اسی لگاؤ اور جذبۂ و خلوص کو دیکھ کر ارباب حل و عقد نے 1962ء میں مجلسِ شوریٰ کا رکن منتخب کیا ۔ آپ جرأت وہمت اور رائے کی پختگی کے لیے مشہور تھے ۔ انھوں نے کبھی دارالعلوم کے مفاد سے سودا نہیں کیا ۔ وہ جب بھی فیصلہ لیتے ، انتہائی غور و خوض کے بعد لیتے ۔ دارالعلوم کی محبت آپ کی رگوں میں خون کی طرح رچی بسی ہوئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ شوری کی کسی بھی مٹینگ کو مِس نہیں کرتے تھے ۔ سو سالہ اجلاس کے بعد جب دارالعلوم کے حالات خراب ہوئے اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے ایک معاون مہتمم کی درخواست کی ، تو تما م لوگوں کی نظرِ انتخاب آپ مرحوم ؒ پر پڑی اور آپ کو معاون مہتمم بنایا گیا ۔ پھر اختلاف کا قضیہ نامرضیہ پیش آنے کے بعد ایک انتہائی نازک موقع پر جب کیمپ دارالعلوم قائم ہوا تو اس دوران مجلسِ شوریٰ نے متفقہ طور پر آپ کو مہتمم بنایا ۔ چنانچہ آپ نے اپنی انتظامی صلاحیت ، دور بینی اور فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے 1962ء کے بعد منصبِ اہتمام کے لیے اختلاف کے تناظر میں پیدہ شدہ سخت ترین حالات سے دوچار ہونے سے نہ صرف دارالعلوم کو بچایا ؛ بلکہ اسے سنبھالا دیتے ہوئے تعلیمی و تعمیری ہر طرح کی ترقی کی راہ پر گامزن کردیا ۔ آپ کے دورِ اہتمام میں جہاں ایک طرف تعلمی میدان میں عصرِ حاضر کے نئے چیلنجوں کو قبول کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ردودِ مذاہبِ باطلہ ، تحفظِ شریعت و ختم نبوت ، کمپیوٹر اور صحافت جیسے شعبوں کا قیام عمل میں آیا ، وہیں دوسری طرف تعمیری میدان میں بھی امورِ حفظانِ صحت کا خیال رکھتے ہوئے جدید سہولیات سے لیس ہاسٹل تعمیر کرائے گئے ۔پورے ایشیا میں سب سے منفرد اور دل کش مسجد ’’ مسجدِ رشید‘‘ بھی آپ ہی کے دورِ اہتمام کی یاد گار ہے ۔مولانا مرحومؒ 29 سال تک منصبِ اہتمام پر فائز رہے ۔ اس طویل عرصے میں آپ نے ان جملہ خدمات کا کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیا ؛ بلکہ خود اپنے جیبِ خاص سے مختلف طرح کی ضروریات و اخراجات کے لیے خطیر رقم عنایت فرماتے رہے ۔
آپ ؒ کی دینی و ملی خدمات صرف دارالعلوم تک محدود نہیں تھی ؛ بلکہ ملک وملت کے مسائل سے بھی گہری دل چسپی رکھتے تھے ۔ آں جناب مرحوم ؒ ہی نے سب سے پہلے جارج ڈبلیو بش کے ظالمانہ پالیسیاں اختیار کرنے کے باعث پوری دنیا میں بد امنی اور ظلم و دہشت پھیل جانے کی وجہ سے امریکہ کو سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا ۔ ۲۰۰۶ء میں فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنیؒ کے انتقال کے بعد آپ کو ’’امیر الہند‘‘ کے منصبِ جلیل پر فائز کیا گیا ، تاہم انھوں نے نہ تو کبھی دارالعلوم کو سیاست سے جوڑا اور نہ ہی اس کے نام سے کسی کو سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ۔ 
امیرالہند حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحبؒ کا سانحۂ ارتحال ملتِ اسلامیہ کا ایک عظیم خسارہ ہے ۔ 8؍دسمبر 2010ء مطابق یکم محرم الحرام بروز بدھ صبح ساڑھے دس بجے آپ نے اپنے شہر بجنور میں اپنی آخری سانس لی ۔ یہ خبر فورا جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی ۔جگہ جگہ مدرسوں اور مسجدوں میں اعلان ہونے لگا ۔ دعائے مغفرت کی اپیلیں کی جانے لگیں اور ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیا جانے لگا۔ آنا فانا علماو عوام کا ایک ہجوم بجنور اور دیوبند کی طرف روانہ ہوگیا ۔ پہلے بجنور میں چار بجے نمازِ جنازہ ادا کی گئی ۔پھر جنازہ دیوبند لایا گیا ، جہاں پر اساتذہ و طلبہ اور دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں نے حضرت کی جسدِ خاکی کی زیارت کی ۔ رات گیارہ بجے دوسری نمازِ جنازہ پرھی گئی اور قبرستان قاسمی میں تدفین عمل میں آئی ۔ جنازے کی نماز آپ کے والا تبار صاحب زادہ حضرت مولانا انوارلرحمان صاحب نے پڑھائی ۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے ۔ ان کے متعلقین کو صبرِ جمیل اور دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین ، ثم آمین ۔
القصہ مختصر مولانا اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ وہ اپنے نیک کاموں کا صلہ پانے کے لیے معبود حقیقی سے کے پاس جا چکے ہیں ۔ اب ہم ان کے لیے دعائے مغفرت ، ایصالِ ثواب اور ان کی یاد میں حسرت و افسوس کے چند قطرے آنسو بہانے کے سوا اور کر ہی کیا سکتے ہیں ؛ لیکن انھوں نے اپنے تجربے کے بعد مفید پاکر جو علمی وعملی نقوش چھوڑے ہیں ، وہ نہ صرف آنے والی نسلوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کے لیے نمونہ اور مشعلِ راہ ثابت ہوں گے اور قدم قدم پر رہ نمائی کا ذریعہ بنیں گے ؛ بلکہ دائمی نیک نامی اور اہل دل کے دلوں میں ہمیشہ زندہ و پایندہ رہنے کا سبب بھی ہوں گے ۔ 
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے 

10 Sept 2018

Sharae Shadi Aur Hamri Rasmen

شرعی شادی اور ہماری رسمیں
محمد یاسین قاسمی جہازی
واٹس ایپ: 9871552408

آپ حضرات اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ’’شادی‘‘ ہمارے سرورکونین ﷺ کی سنت ہے، جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ رشتہ پسند آنے کے بعد لڑکا لڑکی کے گارجین کسی مسجد میں باہم مل بیٹھ کر نکاح پڑھوادیں۔ اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کھجور لٹوادیں۔ یہ ہے شرعی شادی کا مکمل نقشہ۔ 
چوں کہ لڑکی کو حدیث شریف میں رحمت سے تعبیر کی گئی ہے، اس لیے لڑکی والوں کے لیے مسرت کا نہیں، بلکہ غم کا دن ہے۔ اور چوں کہ لڑکے والوں کے یہاں ایک رحمت گھر میں آرہی ہے ، اس لیے ان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر گنجائش ہو تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ’’ولیمہ‘‘ کریں۔ اگر وسعت نہیں ہے، تو کوئی بات نہیں۔ 
آج ہندوانہ رسوم و رواج کی نقالی میں مسلمان بھی شادی کو ایک بوجھ اور رسم سمجھتے ہیں ۔ ہندوانہ عقیدے کے مطابق لڑکی کو ’’دان‘‘ یعنی بطور چندہ لڑکے والوں کو دے دی جاتی ہے، جس کا صاف مطلب یہی ہوتا ہے کہ اب والدین کے گھر سے لڑکی کا رشتہ ختم ہوگیا، کیوں کہ وہ دان میں چلی گئی۔ اور دان کی چیز واپس نہیں لی جاتی۔ اور چوں کہ یہ ختمیت دائمی طور پر سمجھی جاتی ہے، اس لیے ماں باپ دان کے ساتھ کچھ دہیز (جہیز) کا بھی سامان کردیتے ہیں، تاکہ سسرال والے طعنہ نہ دیں۔ اور لڑکی کو بوجھ سمجھ کر ’’کنیہ دان‘‘ کیا جاتا ہے، اس لیے بوجھ اترنے کی وجہ سے خوشی منانا ان کے اپنے عقیدے کے مطابق ان کا حق ہے، لہذا اگر غیر مسلم اپنی شادیوں میں ناچیں، نچائیں، گائیں بجائیں، تو یہ اچھنبے کی بات نہیں، لیکن اگر کوئی مسلمان ایسا کرے ، تو یہ یقیناًنبی اکرم ﷺ کی سنت کے ساتھ ایک بھدا مذاق ہے، کیوں کہ سنت کی ادائیگی کے لیے ڈھول نہیں بجائے جاتے، سنت کی تکمیل کے لیے عورتوں کو بے پردہ اور تاشے کی تھاپ پر بے آبرو نہیں کی جاتی۔ کیا آپ کبھی ظہر کی سنت ادا کرتے وقت ناچتے ہیں؟ کیا آپ عصر کی سنت ادا کرتے وقت ڈھول بجواتے ہیں؟ کیا آپ مغرب کی نماز کے لیے جاتے وقت عورتوں سے کہتے ہیں کہ تم ناچو، کیوں کہ میں ایک فرض اور سنت ادا کرنے جارہا ہوں؟ اگر ان سب سوالات کے جواب نہیں میں ہے، تو پھر ’’شادی کی سنت‘‘ میں یہ حرام کام کیوں؟؟؟؟؟؟
اس لیے تمام علمائے کرام سے گذارش ہے کہ جہاں کہیں بھی رسم کی شادی ہو، جس شادی میں ڈی جے بجائے جائیں، جس تقریب میں دولہا گھوڑے پر سوار دیکھیں، جس نکاح میں رسول اکرم ﷺ کی سنت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہوں۔ اس کا مکمل بائکاٹ کریں۔ 
اسی طرح کلام پاک کے حکم کے مطابق : مردوں کو عورتوں پر حاکمیت دو وجہ سے دو گئی ہے: (۱) نظام کائنات کو چلانے کے حاکم ومحکوم کا تسلسل ضروری ہے، اس لیے اللہ نے جسے چاہا، اسے دوسروں پر حاکم بنادیا۔ اسے نظام کو چلانے کے لیے مرد کو عورت کا قوام یعنی نگہبان بنادیا۔ (۲) مرد چوں کہ مال خرچ کرتا ہے، اس لیے نگہبانی کا حق مرد کو ہی حاصل ہے، لہذا جو کوئی لڑکی سے مال لے، جہیز کے سازو سامان لے، تو اسے مرد نہیں، خود کو عورت سمجھنا چاہیے۔ اور اگر وہ خود کو عورت نہ سمجھ پائے ، تو علمائے کرام کو چاہیے کہ اس کی اس عورت والی حرکت پر اس کی نکیر کرے ۔ اور ایسی جہیز والی شادیوں میں قطعی شرکت نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنا آسان فرمائے اور سنت نبوی پر مکمل عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔

5 Sept 2018

USTAZ

استاذ
5/ ستمبر یعنی یوم اساتذہ کی مناسبت پر بچی کے لیے لکھی گئی ایک تقریر

محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

ناظرین و سامعین! میں جناب ۔۔۔کی نور نظر بی بی۔۔۔ ، کلاس ۔۔۔ کی طالبہ سب سے پہلے آپ تمام حضرات کادل کی اتھاہ گہرائیوں سے استقبال کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں سلام کی سوغات پیش کرتی ہوں : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میری پیاری پیاری سہیلیواور سامعین! جب گھڑی کی تینوں سوئیاں اپنی اپنی رفتار سے گھومتی ہوئی چوبیس کے علامتی دائرے کو مکمل کر لیتی ہیں ، تو ہماری زندگی سے ایک ’دن ‘نکل چکا ہوتا ہے اور ایک دوسرا’ڈے‘ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ زندگی کے یہ ایام یوں ہی گذرتے رہتے ہیں۔ کچھ ڈے تو یوں ہی آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ، ان میں نہ تو تذکرۂ سرورو مستی ہوتا ہے اور نہ ہی وہ لمحات رنج وغم فراہم کرتے ہیں، بس آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن کچھ ڈے ایسے بھی آتے ہیں ، جو ہماری زندگی کے لیے خوشیوں کی بہار کا نویدفرحت ہوتے ہیں ، پھر وہ دن ہماری زندگی کا ایک یادگار اور مسرت آمیز دن ہوتا ہے، جس کے ایک ایک لمحہ کو قیمتی جانتے ہوئے اپنے دامن میں خوشیاں سمیٹنے اور باٹنے کا کام کرتے ہیں ۔ یہ سال میں صرف ایک ہی دن، اور ایک ہی ڈے نہیں ہوتا، بلکہ ہماری شعبہ ہائے حیات سے وابستگی جس نوعیت کی ہوتی ہے، اس کے اعتبار سے یہ ایام بار بار ہمیں یہ موقع فراہم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب ایک سال میں اتنے ڈے آنے لگے ہیں کہ کبھی ہم خود کنفیوز ہوجاتے ہیں کہ سال کے ایام زیادہ ہوتے ہیں یا پھر یہ ڈے۔ 
چنانچہ 
کبھی فادرس ڈے آتا ہے ، تو کبھی مدرس ڈے
کبھی واٹر ڈے آ دھمکتا ہے ، تو کبھی گڈ فرائڈے
کبھی فرینڈ شپ ڈے کی رنگینیاں آتی ہیں تو کبھی میرج ڈے
کبھی بینک ہولی ڈے ہوتا ہے، تو کبھی کرسمس ڈے 
مزدور ڈے، گاندھی ڈے، گرو نانک ڈے،شب معراج ڈے، آزادی دے ، برتھ ڈے اور خدا جانے کتنے ڈے ڈے ڈے۔ المختصر سلیبریشن اور جشن کے اتنے ڈے آتے ہیں کہ ہمارے ممی ڈیڈی، ان ڈیڈوں کے اخراجات اور فنکشن سے بس ڈیڈ ہوتے ہوتے ہی بچتے ہیں۔
میری ہم نفسو! ہوائیں ہر موسم میں چلتی ہیں، لیکن ساون کے مہینے کی باد نسیم کی خنکی کچھ اور ہی پیام لے کر آتی ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ، لیکن کوئلوں کی کوں کوں اور پپیہوں کی پیہوں پیہوں کی صدائے نشاط سے کون جھومنے پر مجبور نہیں ہوتا،کھیتوں کی ہریالی، باغوں کی لہلہاہٹ ہمیں ضرور دعوت نظارہ دیتی ہے ، پر جو بات یاسمین و نسترن کی رنگت اور چمپاو چمیلی کی مہک میں ہوتی ہے ، اس کی بات ہی الگ ہے۔ اسی طرح سورج ہر دن نکلتا ہے ، شام ہر روز آتی ہے، لیکن جو بات ’یوم اساتذہ‘ میں ہے، وہ کسی اور ڈے میں نہیں۔ 
کیوں کہ جب ہم ان سلیبریشن ایام کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان میں کچھ ڈے تو وہ ہیں ، جو صرف ہماری ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے :برتھ ڈے ، اور کچھ وہ ہوتے ہیں، جو ہماری عشق و شیفتگی اور الفت وارفتگی کا مظہر ہوتے ہیں جیسے شادی ڈے ، فرینڈشپ ڈے۔ کچھ ڈے ایسے ہوتے ہیں ، جو ہمیں ماضی کے سہانے ایام کی یاد دلاتے ہیں ، آزادی ڈے، کرسمس ڈے اس کی مثالیں ہیں۔ اور کچھ زندگی کے تلخ و کڑوی حقیقت سے روشناس کراتے ہیں ، مزدور ڈے اور وفات ڈے کی یہی خصوصیات ہوتی ہیں۔ یعنی یہ ڈیز یا تو ہمیں ماضی کی خوشیاں فراہم کرتے ہیں یا پھر اس کی کسی تاریخی سچائی سے روشناس کراتے ہیں ، ان میں ہمارے حال اور مستقبل کے لیے کوئی لائحۂ عمل یا درس عبرت نہیں ہوتا
لیکن 
میری باتمکین و شگفتین سہیلیوں اور معزز سماعتیں! یہ ٹیچرس ڈے، یہ یوم اساتذہ ، یہ گرو اتسو، یہ یوم المعلمین ہمیں کبھی ماضی میں بھی لے جاتا ہے اور جب کبھی ہمیں اپنا ماضی یاد آنے لگتا ہے تو ہمارے پہلے کے اساتذہ کی شفقتیں اور عنایتیں آنکھوں میں آنسو بن کرامتنان و تشکر کی سوغات پیش کرتی ہیں اور ہم بہ زبان قال نہ سہی، بہ زبان حال یہ ترانہ سنجی کرتی ہیں کہ ؂
کتنی حسین صبح ، حسیں شام آئے گی 
لیکن تمھاری یاد بھلائی نہ جائے گی
یہی ہمارے ماضی کے دھندلکے خواب ہمارے حال کے لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے روشنی کا کام کرتے ہیں، اگر ہمارے سابقہ اساتذہ ہمیں تعلیم و تربیت کی شکل میں وہ خواب نہ دکھاتے ، تو آج حال کے اس پردے پر یہ تعبیر ہاں ہاں یہی تعبیر،جو آپ ہیں ،آپ ہیں اور آپ ہیں اور ہم سب ہیں،اسی’ ہم‘ میں سے ایک ۔۔۔ بیگم ،آپ کے سامنے کھڑی ہوکر ہمت و حوصلے سے الفاظ کے یہ موتی بکھیرنے کی قابل نہیں ہوتی ۔ آج میں بول رہی ہوں ، آپ بول رہے ہیں اور ہم سب بول رہے ہیں ، تو یہ انھیں اساتذہ کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔ انھوں نے ہمیں زندگی کی تلخ راہوں میں چلنے کا شعور بخشتے ہوئے سکھایا کہ 
تیرے بال و پر کا مقصد ہے بلندیوں پہ جانا 
نہ سکوں نہ سیر گلشن نہ تلاش آب و دانہ
انھوں نے ہمیں حوصلہ دیا کہ ؂ 
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا 
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے
چنانچہ ان اساتذہ کی ہدایات و ارشادات کی روشنی میں حال سے گذرتے ہوئے ہم مستقبل کو تلاش کرنے کے سفر پر نکلے ہوئے ہیں اور جب تک ہمیں اپنے مستقبل میں محفوظ منزل نہیں مل جاتی 
ہم چلتے ہی رہیں گے 
ہم بڑھتے ہی رہیں گے
اور قدم بڑھاتے ہی رہیں گے
لہذمیں اپنی طرف سے اور تمام سہیلیوں و ساتھیوں کی طرف سے 
زندگی کے اس موڑ پر 
شب و روز کی اس گردش پر
کلینڈرکی اس تاریخ پر 
میرا مطلب
’’یوم اساتذہ‘‘ کے اس حسین و خوب صورت جشن پر 
ٹیچرس ڈے کے اس سلیبریشن پر
اپنے ماضی وحال کے اساتذہ کے حضور، ممنونیت و مشکوریت کے پھول نچھاور کرتی ہوں اور رنگ ہائے رنگ سے آراستہ و پیراستہ گل دستۂ سلام و محبت پیش کرتی ہوں۔ اس جذباتی لمحات میں ان کی یاد نے میرے دل کے اندر وہ ہلچل پیدا کردی ہے کہ میں یہ کہنے پر پر مجبور ہوئی جارہی ہوں کہ 
ڈھونڈتا ہوں جہاں در جہاں
کھوگیا میرا بچپن کہاں
جی ہاں، وہ بچپن، بچپن کی وہ یادیں، میں ننھی منھی، میرے ننھے مننھے دوست، ہماری معصوم ذہانت، معصومیت و بے شعوری کی شوخی، کبھی ہنسنا، کبھی رونا، کبھی گڈے گڑیے کی لڑائی، کبھی ساتھیوں و ہم جولیوں کی محفل اور ان تمام کیفیتوں میں ہمارے ماں باپ اور اساتذہ کی شفقتیں و عنایتیں، جب کبھی مجھے یاد بن کر ستاتی ہیں ، تو میرا دل اس تمنا سے مچل مچل اٹھتا ہے کہ ؂
ہاں دکھادے ائے تصور ، پھر وہ صبح و شام تو 
لوٹ پیچھے کی طرف ائے گردش ایام تو
لہذاجشن یوم اساتذہ اس کے سلیبریٹی پر چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے، ماضی کی حسین یادوں کو ، جن کو دہرانے سے ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے، اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ ؂
یہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
اوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹانا کھیل نہیں
لیکن ؂
لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاؤ رہنے دو
میرے ہم صفیرو! ہندی کاایک مشہور محاورہ ہے کہ پیدا کرنے والے سے ، پالنے والا کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے ۔ ہمارے والدین ہماری زندگی کا سبب ہوتے ہیں،ہماری دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں، لیکن اساتذہ ہمارے حال اور مستقبل کو سجانے اور سنوارنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرتے ہیں ، یہ کردار کوئی معمولی کردار نہیں ہوتا۔ اگر والدین کی عنایتوں کے علاوہ اساتذہ کی رہنمائی ہمارے شامل حال نہ ہو ، تو یقین جانیے کہ ہماری زندگی لاحاصل اور بے مقصد ہوسکتی ہے، ہماری ترقی کے تمام راستے مسدود ہوجائیں گے ، ہمارے اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا، گویا ہمیں صف انسان میں شامل ہونے کا شعور اساتذہ کی مرہون منت ہے، اس لیے آج اس یوم اساتذہ کے موقع پر اپنے تمام اساتذہ کے ادب و احترام کے عزم کا اعلان کرتے ہوئے یہ استدعا کرتی ہوں کہ جس طرح آپ نے اب تک ہماری بے لوث رہ نمائی فرمائی، ہم نے اپنی زندگی کے حسین لمحات آپ کے حوالے کیے۔
آپ نے ہمیں زیور تعلیم وتربیت سے مزین کیا، اس کے لیے آپ کا شکریہ۔ 
ہم کردار سے خالی تھے ، آپ نے ہمارے کرداروں میں اخلاق حسنہ کے پھولوں کے ہار پہنادیے، اس کے لیے بھی شکریہ ۔
ہم آداب گفتگو سے عاری تھے ،ہماری گفتارمیں شیرینی اور مٹھاس پیدا کی، اس کے لیے بھی شکریہ۔ 
ہم کردار سے نابلد تھے ،ہمارے کردار کوآپ نے معیار بخشا،اس کے لیے بھی شکریہ
راہ حیات کی پر خار وادی میں چلنے کا سلیقہ عطا کیا ،اس کے لیے بھی شکریہ
زمانے کی سرد و گرم ہواوں سے حفاظت کا طریقہ بتلایا،اس کے لیے بھی شکریہ
فکرو فن کا شعور دیا، اس کے لیے بھی شکریہ
اخوت و محبت کے درس دیے، اس کے لیے بھی شکریہ
فلسف�ۂ خیر وشرسمجھایا،اس کے لیے بھی شکریہ
حسن و عشق کے منطقی انجام سے آگاہ کیا،اس کے لیے بھی شکریہ
مستقبل کے حسین خواب دیکھنے کی حوصلہ افزائی کی،اس کے لیے بھی شکریہ
خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا گر بتایا،اس کے لیے بھی شکریہ
المختصر ہر وہ اس عمل کے لیے شکریہ، جوآپ نے ہمارے لیے کیا اور آئندہ آپ کا ہمارے تئیں جو بھی رول پلے ہوگا، ان کے لیے بھی شکریہ ،شکریہ، شکریہ۔
آخر میں سمع خراشی کی معذرت چاہتے ہوئے اپنے اساتذہ کے لیے دعا گو ہوں کہ ؂
تم سلامت رہو ہزاربرس
ہربرس کے دن ہو پچاس ہزار
اور 
آپ سلامت رہیں قیامت تک 
اور قیامت نہ آئے قیامت تک
اور آپ سے اس وعدے کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں کہ ؂
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

4 Sept 2018

Palestine se hame Mohabbat kiu hin

فلسطین سے ہمیں محبت کیوں ہے؟

محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552480

پوری دنیا کے مسلمانوں کا فلسطین سے مضبوط رشتے کی تین بنیادی وجوہات ہیں: (۱) انسانیت۔ (۲) وحدت امت۔ (۳) قبلہ اول۔

ہمیں فلسطین سے محبت اس لیے ہے کہ وہاں پر رہ رہے انسانوں پر ظلم و بربریت انسانیت پر ظلم و سفاکیت ہے اور ظلم و بربریت پوری دنیائے انسانیت پر کہیں بھی ہو ، ہماری نگاہ میں وہ قابل مذمت و نفریں ہے۔ فلسطینی باشندگان یہودیوں کی چیرہ دستیوں کی اسیر ہیں۔ اور ان کی سفاکیت و خوں آشام فطرت کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں و پیچاں ہیں، اس لیے ہمارا انسانی فریضہ ہے کہ ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کے پنجے کو مروڑ کر رکھ دیں۔ اگر ہم اپنے اندر اس جذبے کو محسوس نہیں کرتے ہیں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہم زندہ قوم نہیں ہیں۔
اسلام وحدت امت کی تعلیم دیتا ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ اگر دنیا کے آخری کونے پر بسنے کسی مسلم بھائی کے پیر میں کانٹا چبھے، تو دنیا کے دوسرے کونے پر بسنے مسلم فرد کے دل میں اس کی چبھن محسوس ہونی چاہیے۔ اگر ہمارا دل اس درد کی لذت سے نا آشنا ہے، تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مردہ قوم ہیں۔ زندگی ہمارے اوپر لعنت بھیج چکی ہے۔
ہمارا قبلہ اول مسجد اقصیٰ ہے اوریہاں کی سرزمین انبیائے کرام کے ورود بامسعود سے زعفران زار رہی ہے ، اس لیے اس جگہ سے محبت ہمارا وفور ایمان کا حصہ ہے۔ اگر کوئی مسلم شخص اس جذبے سے محروم ہے، تو یقین مانیے کہ اسے اپنے آپ کو زندہ سمجھنے کا حق نہیں ہے۔ 
لیکن ۔۔۔آج ہمارا مظلوم فسلطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا، ان کے حال زار پر رحم و کرم کے لیے بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہونا اور جگہ جگہ پر امن احتجاج اور یوم دعا منانا اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔ ہمارے اندر ابھی بھی وہی خون رواں دواں ہے، جو صلاح الدین ایوبی کے وارثین کی شناخت ہے۔ ہم اس وراثت کے امین ہے ، جس نے سمندروں کے سینے چیر کر فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑے تھے۔ ہمارے گھوڑے خشکیوں کی رہین منت نہیں تھے، دشت ،و جبل اور ارض و فلک ہمارے اقبال مندی کی پیشانی چومنے کے لیے بے چین و مضطرب رہا کرتے تھے۔ 
مسلمانوں کے دو قبلے اور دستور الٰہی
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے دو جگہوں کو قبلہ بنایا ہے : ایک بیت اللہ اور دوسرا بیت المقدس۔ ان دونوں قبلوں کے تعلق سے خدا تعالیٰ کا دستور الگ ہے۔ بیت اللہ پر کفار و مشرکین کبھی بھی غالب نہیں آسکتے ، کیوں کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اس سلسلے میں واقعہ فیل مشہور ہے۔ دوسرا قبلہ بیت المقدس ہے۔ اس کے متعلق قانون قدرت یہ ہے کہ جب مسلمان معاصی اور گمراہی میں مبتلا ہوں گے، تو سزا کے طور پر ان سے یہ قبلہ چھین لیا جائے گا ، جو اس بات کی علامت ہوگی کہ امت مسلمہ ہر اعبتار سے پس روی کی شکار ہوگئی ہے، نہ تو اس کے اندر اسلام کی عملی روح باقی ہے اور نہ ہی فکر اسلامی سے اس کا ذہن و دماغ روشن و منور ہے۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ پوری دنیا میں اتنے مسلم ممالک ہونے کے باوجود امت مسلمہ نظریاتی و عملی دونوں اعتبار سے اپاہج ہوچکی ہے ، جو ہم سب کے لیے سوچنے اور کچھ کرگزرنے کی دعوت دے رہا ہے ، لیکن ہم ہیں کہ بہرے سے بھی زیادہ بے حس، گونگے سے بھی زیادہ خاموش اور لنگڑے سے بھی زیادہ پاوں توڑ کر بیٹھ چکے ہیں۔ 
اگر ہم بیت المقدس کو دوبارہ واپس لینا چاہتے ہیں، تو اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ اور رجوع الیٰ اللہ کے ساتھ ساتھ سیاست و معاشرت میں اسلامی حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے کھل کر فلسطین کی حمایت و نصرت کا اعلان کریں۔
۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۷ کو جمعیۃ علماء ہند نے پورے ملک میں تقریبا ایک ہزار سے زائد مقامات پر رجوع الیٰ اللہ اور اسلامی فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے پرامن احتجاج کیا اور بعد نماز جمعہ ’’یوم دعا ‘‘ مناتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دعائیں کی گئیں۔ اس دور بیں اور اسلامی حکمت عملی پر مبنی فکر کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران و کارکنان یقیناًمبارک بادی کے مستحق ہیں۔دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے کی گئی کوششوں کو کامیاب و کامران کرے۔ آمین۔

20 Aug 2018

Ibne Yateem

ابن یتیم
پیدائش اور تاریخ پیدائش
آج ہم جسے ناچیز کہتے اور سمجھتے ہیں، کل وہی قدر و قیمت والی چیز بن جاتی ہے۔ اس نظریہ کا پہلا حصہ ہمیں بے رخی اور بے اعتنائی کا سبق دیتا ہے، لیکن دوسرا حصہ ہمیں حال کو ماضی کے نظریے سے دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ بس یہی نظریہ درج ذیل چند سطروں کا محرک ہے۔ 
بھارت میں انسان سرکاری کاغذوں اور تعلیم گاہوں کے سرٹیفکٹ میں اتنے ہی بار پیدا ہوتا ہے، جتنے اس کے پاس سرکاری کاغذات ہوتے ہیں۔ یہ حادثہ ناچیز کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ تعلیمی اداروں کی سند میں کچھ اور ہے، جب کہ دیگر سرکاری کاغذات میں کچھ اور؛ لیکن والد صاحب کی ڈائری میں لکھی تاریخ پیدائش ہی اصل جنم تاریخ ہے۔مقام پیدائش کا نام جہاز قطعہ ہے  جو بھارت کے مشرقی کنارے ضلع گڈا جھارکھنڈ میں واقع ہے  8 جنوری 1984بروز اتور بوقت صبح صادق اصلی تاریخ پیدائش ہے۔والد محترم کا نام محمد مظفر ابن نصیر الدین ابن تاج علی ابن شیخ پھیکو ابن شیخ لوری ہے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب محفوظ نہیں ہے۔ 
بچپن
گھر میں پہلے ایک گائے تھی جو دودھ کے مقصد سے زیر پرورش رہتی تھی۔ بعد میں اس کی جگہ بکریوں نے لے لی۔ ناچیزنے دونوں کی نگہبانی کا فریضہ انجام دیا۔ اور اس طرح لاشعوری عمر میں ایک نبوی سنت ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ دن بھر کھیتوں میں بکریاں چراتا تھا اور رات کو دروازے پر بے نام مکتب میں تعلیم بھی حاصل کرتا تھا۔
مکتب کی تعلیم
جب سے حصول تعلیم کا سلسلہ یاد ہے، وہ یہ ہے کہ گھر کے دروازے پر بعد نماز مغرب جناب اختر صاحب بنیادی اردو، ہندی اور حساب پڑھایا کرتے تھے، جس میں محلہ کے درجنوں بچے پڑھتے تھے۔ ناچیز کی تعلیم کا پہلا مکتب یہی بے ترتیب سلسلہ ہے، جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ اس میں بنیادی حروف تہجی، اکچھر بودھ اور الفابیٹ سیکھے۔ اس تعلیم کا سلسلہ غالبا ایک ڈیڑھ سال چلا۔ 
ایک ڈیڑھ سال کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا ، تو محلہ کا سرکاری مدرسہ : مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ اسکول جامع مسجد میں اور کبھی مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں تعلیمی سلسلہ چلا۔ بچوں کی فطرت کے مطابق کبھی اس مدرسہ میں چلا گیا اور کبھی ادھر کا رخ کرلیا۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۳ء تک جاری رہا۔یہاں کے اساتذہ میں مولانا حضرت علی صاحب، پنڈت صاحب اور دیگر تھے، جن کے نام بالکل بھی یاد نہیں آرہے ہیں۔
تعلیمی سفر
جب والدین نے یہ محسوس کیا کہ گاوں کے مکتب و مدرسہ میں جہاں تک اور جتنی تعلیم تھی،وہ سب سمیٹ چکا ہوں، تو اس سے آگے کی تعلیم کے لیے دوسرے مدرسہ کی تلاش شروع ہوئی۔ چنانچہ گاوں کے ماحول کے مطابق ۱۹۹۴ء میں ناچیز کو بھی علاقہ کا مشہور تعلیمی ادارہ مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر بھاگلپور میں داخلہ کرادیا گیا، جہاں ناظرہ کی تکمیل کی اور ساتھ ہی فارسی کی پہلی کتاب بھی پڑھی۔ 
چمپانگر کی زندگی
گاوں کے نیک طینت عالم دین مولانا محمد نعمان صاحب مد ظلہ العالی،استاذ مدرسہ اصلاح المسلمین ہمارے مربی اور سرپرست تھے۔ چمپانگر کی سبھی تعلیم حضرت سے ہی وابستہ تھی ۔ اس لاشعوری دور میں شعور پیدا کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوں گے، وہ بالیقین انھوں نے ہمیں سکھائے ہوں گے، جو صغر سنی کی وجہ سے مجھے یاد نہیں ہے. البتہ یہ زمانہ بہار لوٹنے کا زمانہ ہوتا ہے، اس لیے اس میں کبھی بھی کمی آنے نہیں دی۔ یہاں کے نہر میں نہانا ہو، چمپانگر لوہے والے پل سے کودنا ہویا مدنی نگر کی درگاہ کا چکر لگانا ہو، اس کا تسلسل کبھی بھی ٹوٹنے نہیں دیا گیا۔ 
چمپانگر سے متصل مدنی نگر ہے۔ یہاں ایک صاحب تھے، جن کے نام سے واقف نہیں ہوں، البتہ وہ پیدل حاجی سے مشہور تھے، ان کا ایک لڑکا تھا، جن کا نام عبداللہ تھا۔ یہ صاحب ہمارے بڑے بھائی جناب فاروق اعظم صاحب کے زمانہ طالب علمی میں دوست ہوا کرتے تھے۔ بھائی کے بعد جب ناچیز یہاں آیا، تو دوستی کا یہ رشتہ ادھر منتقل ہوگیا۔ عبداللہ صاحب واقعی دلدار آدمی تھے، خود انھوں نے اور ان کے والدین نے اس غریب الدیار میں ہمیں غریبی کا احساس ہونے نہیں دیا؛ لیکن رونا اس بات کا ہے کہ یہ احساس اس وقت نہیں ہوا، آج جب کہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں، تو ان کی رواداریاں ذہن میں گردش کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے والدین کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین۔
علاقے کے والدین اس عقیدے کیپختے ہیں کہ وہی بچہ کامیاب تعلیم پاسکتا ہے، جسے باہر بھیج دیا جائے۔ چنانچہ اس عقیدے کی زد میں ناچیز بھی تھا۔ والدین باہر بھیجنے کی کوشش میں تھے ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ محلے کے جناب حافظ الیاس صاحب پوہانہ روڑکی ، ہریدوار کے ایک مدرسہ میں استاذ تھے۔ ان کے یہاں اقامت پذیر بچوں کی تلاش رہتی تھی، یہ صاحب اپنے گاوں سے بچوں کی ٹولی لے جایا کرتا تھے۔ چنانچہ جب اس ٹولی کی روانگی کا وقت آیا، تو میرے والد بزرگوار نے بھی ان سے ٹولی میں شامل کرنے کی گذارش کی؛ لیکن انھوں نے میرے متعلق انکار کرتے ہوئے کہا کہ امسال کسی کو نہیں لے جارہے ہیں۔ لیکن روانگی کے وقت دیکھا گیا کہ محلے کے تقریبا سبھی ذی حیثیت کے بچے شریک سفر تھے۔ کچھ دنوں بعد انھیں کے الفاظ میرے والد تک پہنچے کہ ’’ان کے بچے کو لے جاتے، تو پورا سال ہمیں کچھ نہیں ملتا‘‘۔ بہر کیف رضائے مولیٰ برہمہ اولیٰ کے پیش اس بات کو نظر انداز کردیا گیا۔ اور کسی دوسرے رہبر کی تلاش شروع ہوئی۔ چنانچہ جھپنیاں کے جناب جہاں گیر صاحب نے میرا انٹرویو لیا اور کہا کہ اگر اسے لے جائیں گے، تو ہمیں داخلہ کرانے میں پریشانی نہیں ہوگی۔ چنانچہ انھوں نے ہمیں اپنا شریک سفر بنایا اور ہمیں ویٹ غازی آباد میں لاکر مدرسہ اعزازالعلوم میں داخلہ کرادیا۔ اللہ تعالیٰ جناب جہاں گیر صاحب کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔ 
ویٹ کی زندگی
۱۹۹۵ء میں یہاں درجہ فارسی میں داخلہ لیا۔ یہ زندگی کچھ شعور اور کچھ لاشعور پر مبنی تھی۔ اس زمانے کے دو یادگار واقعے تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلا واقعہ تو یہ ہے کہ جب یہاں کی پہلی آمد تھی، تو دہلی سے بس پر سوار ہوئے ۔ اس سفر میں ہمارے کچھ ساتھی ہاپوڑ بھی اترنے والے تھے۔ بس میں سبھی کا سامان ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔ رات ہوگئی تھی، جب ہاپوڑ والے ساتھی بس سے اترنے لگے تو میرا بکسہ بھی انھوں نے اتار لیا۔ جب ہم اپنی منزل پر اترنے لگے تو بکسہ ندارد تھا۔ یہ جان کر ایسا لگا کہ میرا تو سب سامان ہی چوری ہوگیا ، اب آگے کی زندگی کا نقشہ کیا ہوگا۔ بہر کیف ہمارے مشفق جناب جہاں گیر صاحب اگلی صبح ہی ہاپوڑ گئے اور میرا سامان لے آئے۔ اس طرح بے چین دل کو تسلی ملی۔ یہ تو شروع کا واقعہ تھا اور آخر سال کا واقعہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ میں ایک استاذ محترم جناب ۔۔۔ صاحب بھی تھے۔ ان سے مالابد منہ متعلق تھی۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ متن کے معانی کو زبانی سنتے تھے، جس میں کبھی کبھار سنانے سے قاصر رہتے تھے، تو سخت پٹائی کرتے تھے، حتیٰ کہ اکثر پٹائی میں ہاتھ سوجھ جاتا تھا۔ یہ سلسلہ آخری سال تک جاری رہا؛ بالآخر رجب میں ایک دن ایسا آیا کہ تاب شدت نہ لاسکا اور ناچیز ویٹ سے بھاگ گیا۔ اور اس گاوں سے پورب کچھ کلو میٹر پر واقع ایک گاوں ہے، جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ہے، وہاں کے مدرسہ میں میرے گاوں کے جناب مولانا شمیم صاحب زیر تعلیم تھے، ان کو سارا ماجرا بتایا۔ بھاگنے کا خوف اس قدر تھا کہ وہاں بھی ڈر پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا، کیوں کہ طلبہ میں یہ مشہور تھا کہ جو لوگ بھاگ جاتے ہیں اور پھر پکڑے جاتے ہیں، تو انھیں سخت اذیت ناک سزا دی جاتی ہے۔ چنانچہ اس نظریے نے خوف ستایا اور تقریبا تین ہفتے نظربند جیسی زندگی گذاری۔ پھر جب چھٹی ہوگئی، تو گاوں کے ہی ویٹ کے مدرسہ میں زیر تعلیم جناب مولانا اساعد الاسلام قاسمی صاحب کے توسط سے اپنا سامان اسٹیشن منگوایا اور وہاں سے وطن مالوف کے لیے روانہ ہوا۔ہمارے فارسی کے اساتذہ میں سے مولانا مرغوب الرحمان صاحب، مولانا اعزاز صاحب، مولانا کلیم صاحب اور دیگر حضرات کرام تھے۔ 
مدرسہ مظہر العلوم کانپور میں
چوں کہ ویٹ سے بھاگ کر نکلے تھے اور بھاگنے والوں کے لیے عبرت ناک سزا سے بھی واقف تھے، اس لیے وہاں لوٹنے کا کوئی مطلب نہیں تھا، اس لیے امی کی ننہالی رشتے سے ماموں مولانا مجیب الحق صاحب موکل چک کی سرپرستی میں مدرسہ مظہر العلوم دادا میاں چوراہا بیگم گنج کانپور پہنچا اور عربی اول میں داخلہ لیا۔ یہ ۱۹۹۶ء کا سن تھا۔ عربی اول کے اساتذہ میں سے مولانا شفیع الدین صاحب، مولانا ابوبکر صاحب، مولانا قمر الحسن صاحب، مفتی اقبال صاحب اور دیگر حضرات تھے۔ 
دادامیاں چوراہا سے کچھ فاصلہ پر جاجمو واقع ہے۔ یہاں ہمارے درج بالا رشتے سے ماموں مولانا ریاض الحسن قاسمی و ندوی صاحب مدرسہ دارالتعلیم والصنعۃ جاجمو میں استاذ تھے۔ لاشعوری دور تھا ، اس لیے ایسی کچھ حرکتیں سرزد ہونا ضروری تھا، چنانچہ ناچیز ہر جمعہ کی چھٹی میں دو روپیے گھنٹے کے کرایہ پر سائکل لیتا تھا اور ماموں کے پاس ملنے جاتا تھا۔ یہاں ممانی بھی رہتی تھیں۔ جب وہاں پہنچتاتو ممانی کھلانے پلانے کا کافی اہتمام کیا کرتیں۔ پہلی مرتبہ کا واقعہ ہے کہ سائکل لے کر گیا اور کھانے پینے کی مصروفیت کی وجہ سے بہت دیر ہوگئی اور سائکل والے کا بل بہت زیادہ ہوگیا۔ بہرکیف اس وقت جو ہمارے پاس تھا، وہ اور ساتھ میں عذر پیش کیا، تو بچہ اور طالب علم سمجھ کر اور سمجھا کر معاف کردیا۔ اس واقعہ کے عملی تجربے کے باوجود سائکل سے ہی ممانی کے پاس جاتا تھا ؛ لیکن اس کے بعد جاتے ہی ممانی پوچھتیں کہ سائکل لے کر آئے ہو، اگر ہاں میں جواب آتا، تو فورا ماحضر کھلاکر واپس بھیج دیتیں اور کہتیں کہ سائکل لے کر مت آیا کرو؛ لیکن لاشعوری شوق کی تکمیل کا جذبہ بھی کسی نصیحت سے باز رکھ سکتا ہے! جو کبھی نہیں ہوا اور جب بھی جاتا سائکل سے ہی جاتا۔ حالاں کہ اس سے عام سواری سے کرایا بھی زیادہ ہوجاتا تھا اور محنت الگ سے ۔ المختصر تعلیم اور لاشعوری حرکتوں سے لبریز یہ پورا سال گذر گیا اور پھر چھٹی کے بعد مادر وطن لوٹ آیا۔ 
روڑکی
محلے کے کچھ لڑکے روڑکی میں زیر تعلیم تھے۔ چنانچہ ان لوگوں کے ہمراہ ناچیز بھی روڑکی آیا اور مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ روڑکی میں داخل ہوا۔ داخلہ امتحان میں کامیابی کے بعد عربی دوم میں داخلہ ہوا۔ یہ سن ۱۹۹۷ء کا واقعہ ہے۔ یہاں ناچیز نے جن اساتذہ کے سامنے زانو تلمذ طے کیا، ان میں مولانا اظہر الحق جہازی صاحب، مولانا محمد ارشد صاحب، مولانا محبوب الحق صاحب، مولانا اسحق صاحب، مفتی سلیم الدین صاحب اور دیگر حضرات تھے۔ الحمد اللہ سبھی اساتذہ بہت محنتی تھے اور انتہائی شفقت و محبت سے تعلیم دیتے تھے۔ 
اس شہر کے بیچوں بیچ ایک صاف شفاف نہر بہتی ہے ، طالب علمانہ ترنگ کا یہ جلوہ ہمیشہ دکھاتا رہا کہ نہر میں خوب نہاتاتھا۔ حتیٰ کہ گرمیوں میں رات کو بھی نہانے جاتا تھا۔ نہر کی پٹی پر ایک سڑک گذرتی ہے، جو کلیر جاتی ہے۔ چنانچہ کلیر کی گلیوں کا سیر بھی طالب علمانہ شوق کی تکمیل میں شامل رہا۔ اور برابر وہاں جانا ہوتا رہا۔ 
۱۹۹۸ء میں آگرہ میں
ناچیز کی طالب علمانہ زندگی کا ایک اتفاق یہ رہا کہ جس مدرسہ میں بھی رہا، ایک سال سے زائد نہیں رہا، اس کی کئی وجوہات تھیں اور سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ صغر سنی کی وجہ سے تنہا آمدو رفت دشوار تھی، اس لیے عید کے بعد جو بھی رہبر ملتا، اس کے ہمراہ طلب علم کے سفر پر نکل پڑتا۔ چنانچہ اس سے اگلے سال ۱۹۹۸ء میں دیوبند آیا۔ چوں کہ فارم بھرنے کا وقت نکل چکا تھا، اس لیے جناب کاتب مظفر صاحب کی رہبری میں دیوبند سے دارالعلوم آگرہ پیر جیلانی آگرہ آگیا۔ اور داخلہ امتحان دیا۔ داخلہ امتحان میں پاس نہ ہوسکنے کی وجہ سے سوم کے بجائے دوبارہ عربی دوم ہی میں داخلہ منظور کیا گیا۔ چنانچہ بوجہ مجبوری مجھے بھی منظور کرنا پڑا اور درجہ دوم کو دوبارہ پڑھا۔ یہاں کے اساتذہ میں مفتی عبدالقدوس صاحب، مولانا صلاح الدین صاحب، مفتی عبدالمجید صاحب، مولانا علی صاحب، مولانا کاتب مظفر حسین صاحب، مولانا بسم اللہ صاحب و دیگر صاحبان تھے۔ 
دارالعلوم دیوبند میں
علوم نبویہ کے طالب علموں کی سب سے بڑی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اس کی آخری تعلیمی منزل دارالعلوم دیوبند ہو۔ یہی تمنا مجھے بھی دارالعلوم دیوبند لے آئی اور داخلہ امتحان دیا۔الحمد للہ اس میں کامیابی ملی اور ۱۹۹۹ء میں درجہ عربی سوم میں داخلہ ہوگیا۔اس درجے کی درسیات میں،شرح شذور الذہب اور شرح تہذیب مولانا مزمل صاحب مظفر نگری، ترجمہ قرآن کریم اورنفحۃ الادب مولانا مصلح الدین صاحب سدھارتھ نگری، القراۃ الواضحہ مولانا سعد حصیری اور دیگر کتابیں دیگر موقر اساتذہ کرام سے متعلق تھیں۔ درجہ چہارم میں شرح وقایہ مولانا بلال اصغر صاحب، قطبی مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب، دوروس البلاغۃ مولانا خضر کشمیری صاحب، ترجمہ قرآن مولانا مزمل صاحب مظفر نگری اور اصول الشاشی مولانا جمال صاحب سے پڑھی۔ پنجم میں نور الانوار امام المنطق والفلسفہ مولانا عبدالرحیم صاحب، سلم العلوم مولانا عثمان صاحب، مختصر المعانی مولانا خضر کشمیری صاحب، مقامات مولانا محمد جمال صاحب، ہدایہ مولانا نسیم صاحب بارہ بنکوی پڑھاتے تھے۔ عربی ششم میں جلالین مولانا شوکت صاحب بستوی، دیوان متنبی مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سے وابستہ تھی۔ ہفتم میں ہدایہ مولانا محمد احمد صاحب و مولانا مجیب الحق گوونڈی صاحب، مشکوۃ مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری سے پڑھی۔ دورہ حدیث میں بخاری اول مولانا نصیر احمد خاں صاحبؒ ، بخاری ثانی مولانا عبدالحق صاحبؒ ، مسلم مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی (جلد اول) و مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری (جلد ثانی) ،طحاوی و ترمذی مولانا سعید صاحب پالنپوری (جلد اول) و مولانا سید ارشد مدنی صاحب (جلد ثانی)، سنن ابی داود مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی و مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی،سنن ابن ماجہ مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوریؒ ،موطا امام مالک مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری،موطا امام محمد مفتی محمد امین صاحب پالن پوری، شمائل ترمذی مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی ، سنن نسائی مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری سے پڑھی۔ 
فراغت و تدریس
۲۰۰۵ء میں دورہ حدیث شریف سے فراغت ہوئی اور۲۰۰۶ء میں تکمیل ادب عربی میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں ۲۰۰۷ء میں تکمیل علوم کیا۔ اور پھر دیوبند کو الوداع کہتے ہوئے اسی سال اور ۲۰۰۸ء کے آواخر تک مکمل دو سال جامعہ عربیہ بیت العلوم جعفرآباد دہلی میں تدریسی خدمات سے وابستہ رہا۔
ملی خدمات سے وابستگی
اسی دوران ملی خدمات کا شوق پیدا ہوا، جس کے لیے مولانا عبدالحمیدنعمانی صاحب مد ظلہ سے رابطہ کیا، انھوں نے تحریری ذوق کی بنیاد پر جمعیۃ علماء ہند سے وابستگی کی پیش کش کی، جسے ناچیز نے مولانا کے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ جمعیۃ سے ناچیز کی وابستگی حضرت کی مرہون منت ہے اور اس کے لیے ہمیشہ مشکور و ممنون رہے گا۔ ۲۰۰۹ء سے تادم تحریر جمعیۃ علماء ہند کے مختلف شعبوں کے توسط سے ملی خدمات انجام دے رہا ہے۔ ابتدائی دور میں شعبہ میڈیا میں مولانا نعمانی صاحب کا معاون کار رہا۔ بعد ازاں مباحثہ فقہیہ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ دم تحریر مرکز دعوت اسلام کا انچارج ہے۔ اور اس کا تسلسل باقی ہے۔ 
فاصلاتی تعلیمات
بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے وسطانیہ، فوقانیہ، مولوی، عالم اور فاضل کی سند حاصل کی۔ اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے بی اے اور ایم اے اردوکی ڈگری لی۔ اسی دوران قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے ڈی ٹی پی اور ڈپلوما ان عربک کی سرٹفیکٹ حاصل کی۔بعد ازاں دہلی یونی ورسیٹی سے ٹرانسلیشن اور ماس میڈیا کا کورس مکمل کیا۔ تعلیم کا یہ سلسلہ تا ہنوز جاری و ساری ہے دعا فرمائیں طلب علم کا یہ سفر جاری و ساری رہے۔
تالیفات
دارالعلوم دیوبند کی زندگی میں قلم پکڑنے کی کوشش کی۔ طلبہ ضلع گڈا کی انجمن آئینہ اسلاف کا ماہانہ پرچہ ’’پرواز‘‘ سے اس سفر کی شروعات کی۔ بعد ازاں بزم سجاد کے ہفت روزہ’’ آئینہ ایام‘‘ کی ادارت سنبھالی۔تحریری سفر کا سلسلہ جاری ہے، جس میں کچھ کاوشیں اشاعت پذیر ہوچکی ہیں، جب کہ کچھ ابھی زیر اشاعت اور زیر تکمیل ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تذکرہ پیش ہے: 
(۱) رہ نمائے اردو ادب: اس میں اردو ادب کی مختلف اصناف کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور تحریر کے مختلف اسلوب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں مشہور اسلامی اہل قلم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ 
(۲) رہ نمائے خطابت: یہ کتاب تقریر کے اسرار و رموز اور فن خطابت کے مضامین پر مشتمل ہے اور شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ 
(۳) نظامت ، خطابت اور مکالمہ نگاری: اس کتاب میں ان تینوں موضوعات پر معلومات پیش کی گئی ہیں۔ سردست یہ کتاب اشاعت کے مراحل میں ہے۔
(۴) آسان عربی قواعد: یہ کتاب تدریسی تجربات کا ماحصل ہے، جس میں مبتدی طلبہ کو ان کے نفسیات کے مطابق انتہائی آسان انداز میں عربی زبان سکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ 
(۵)آسان انگریزی قواعد: اردو اور عربک بیک گراونڈ والے طلبہ کے لیے اردو قواعد کے طرز پر آسان انداز میں انگریزی گرامر کو پیش کیا گیا ہے۔ الحمد للہ یہ کتاب شائع ہوتے ہی مقبول ہوگئی اور کچھ ہی مہینے میں پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا۔ اب اضافہ کے ساتھ دوسرا ایڈیشن شائع ہوا چاہتا ہے۔ مختلف مکاتب و مدارس اور تعلیم گاہوں میں یہ کتاب داخل درس ہے۔ 
(۶) حق اطلاعات: آر ٹی آئی کے متن کا ترجمہ اور اس ایکٹ سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ سپریم کورٹ کے چار وکیلوں سے نظر ثانی کرائی گئی ہے، جن کے اصلاحات کے ساتھ یہ کتاب اشاعت پذیر ہونے والی ہے۔ 
(۷) فلسفہ اسلام: مسائل و احکام کے اسرار و رموز پر یہ کتاب مشتمل ہے، جو ابھی زیر ترتیب ہے۔ 
(۸) مقالات جہازی جلد اول: ناچیز کے مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ سب وہ مضامین ہیں، جو کسی ضرورت، یا کسی کی طلب پر لکھے گئے ہیں اور بیشتر مضامین روزنامہ، سہ روزہ، ہفت روزہ ،ماہانہ جرائد و رسائل اور ویب پر شائع ہوچکے ہیں۔ دوسری جلد کا سفر جاری ہے۔ 
تعلیقات و تصحیحات
جمعیۃ علماء ہند کے شعبہ مرکز دعوت اسلام سے وابستگی کے بعد ، مختلف کتابوں پر تعلیقات و تصحیحات کا کام کرنے کا موقع ملا جس کی فہرست پیش ہے: 
(۱) مرکزی دینی تعلیمی بورڈ: اس کتاب میں سید الملت حضرت مولانا محمد میاں صاحب کی تین نایاب کتابوں: مسئلہ تعلیم اور طریقہ تعلیم، دینی تعلیمی تحریک اور دستور العمل، طریقہ تقریر جلد اول کو ایک ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ 
(۲) شریعت الٰہیہ اور انسانی قوانین۔ (۳) اسلام اور دعوت عمل۔ (۴) ہماری دعا کیسے قبول ہو۔ (۵) انجام گداگری۔ (۶) اخلاق نبوی۔ (۷) اسلام کا تصور امانت پر تعلیقات و اصلاحات کے کام کیے گئے ہیں اور اشاعت پذیر ہوچکی ہیں۔ 
(۸) تاریخ جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ: سنتھال پرگنہ کی کمشنری میں واقع: دیوگھر، دمکا، گڈا، صاحب گنج، پاکوڑ اور جامتاڑا کی ضلعی جمعیۃ کی تاریخ پیش کی گئی ہے۔ اس میں ناچیز نے مختلف دستیاب دستاویزات کو مرتب کرنے کا کام کیا ہے۔ 
(۹) رہ نمائے مسلم: پیدائش سے موت تک کے ضروری مسائل پر مشتمل حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی یہ نایاب تصنیف تھی، جس پر نظر ثانی کا کام کیا گیا ہے اور شائع ہوچکی ہے۔ اسی طرح مولانا مرحوم کی دو دیگر تصنیفات: (۱۰) مسائل حج۔ اور (۱۱) مسائل نماز پر تحقیق و تخریج کا کام جاری ہے۔ 
ابن یتیم
اب تک آپ نے ’’ابن یتیم‘‘ کے بارے میں یہ سب معلومات حاصل کیں، لیکن ایک سوال آپ کے ذہن میں ضرور گردش کر رہا ہوگا کہ یہ ابن یتیم ہے کون ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یتیم کا نام جناب محمد مظفر صاحب ہیں۔ ان کے والد محترم جناب نصیر الدین صاحب کا سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے اسی وقت انتقال ہوگیا تھا، جب یہ چودہ سال کے تھے۔ اور مدرسہ کاشف العلوم چھٹمل پور میں زیر تعلیم تھے۔ والد کا انتقال صاعقہ الٰہی سے کم نہیں ہوتا۔ اس احساس کا صحیح ادراک وہی کرسکتا ہے، جو بنفس نفیس اس حادثہ سے گذرا ہو۔چنانچہ اس حادثہ فاجعہ نے جناب محمد مظفر صاحب کو ہلاکر رکھ دیا۔ خبر وفات سن کر گھر کا رخ کیا۔ گھر پہنچے تو گھریلو حالات کی وجہ سے پھر دوبارہ تعلیم کی طرف رخ نہ کرسکے، کیوں کہ والد محترم کی وراثت میں ایک چار سال کی معصوم بہن، کچھ مہینے کا ایک بھائی اور گاوں کے مکھیا کے دجل و فریب کی وجہ سے والد صاحب کے نام پر بینک کا بھاری لون کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ علاوہ ازیں بینک لون کی وجہ سے گھر کی قرقی و ضبطی نے بقیہ سرمایہ حیات بھی چھین لیا۔پھر گھر کی وہ حالت ہوگئی کہ صبح کو یہ معلوم نہیں رہتا تھا کہ شام کو بھی کچھ پک سکے گا بھی یا نہیں۔ گویا ان کی زندگی شکیل بدایونی کے الفاظ میں
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
ناچیز کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ گاوں میں ایک صاحب چاول فروشی کا کام کرتے تھے، انھیں کے یہاں سے ماہانہ چاول آیا کرتا تھا۔ دادی صاحبہ مرحومہ ان کے یہاں جب چاول لانے جاتیں، تو پہلے دینے سے انکار کرتے اور یہ کہتے کہ سابقہ بقیہ جمع کرو، تب دیں گے۔ دادی مرحومہ کہتیں کہ بیٹا ابھی میرا گھر حالات سے دوچار ہے،ہم اللہ کی آزمائش سے گذر رہے ہیں ۔ ایک دن بالیقین وسعت ہوگی اور آپ کا سارا بقیہ بے باق کردیا جائے گا۔
گر گر کر مصیبت میں سنبھلتے ہی رہیں گے
جل جائے مگر آگ پہ چلتے ہی رہیں گے
غم جس نے دیے ہیں وہی دور کرے گا 
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
المختصر کچھ کہا سنی کے بعد وہ بھی خودکو نہیں روک پاتے تھے اور کچھ نہ کچھ چاول دے دیا کرتے تھے۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ اس قسم کے درجنوں واقعات ناچیز کی لاشعوری آنکھوں نے دیکھا اور محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اس ’’یتیم‘‘ کی وکوہ کن کی کہانی ان شاء اللہ کبھی ضرور لکھیں گے، جن کی ہمت و حوصلہ اور زندگی کے لیے جہد مسلسل ایک مثالی اور تقلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ 
المختصر ان حالات کے باوجود یہ ’’یتیم‘‘ کبھی بھی ہمت نہیں ہارتے اور مسلسل زندگی سے جنگ لڑتے رہے۔ گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اپنے بھائی بہن کے ساتھ ساتھ اپنی چھ اولاد کی پرورش و پرداخت کی پوری کوشش کی اور ان میں سے دو اولاد کو قاسمی النسبت دلانے میں بھی کامیاب رہے۔
زندہ ہے جو عزت سے وہ عزت سے مرے گا
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
مالک ہے تیرے ساتھ نہ ڈر غم سے تو اے دل
محنت کرے انسان تو کیا کام ہے مُشکل
جیسا جو کرے گا یہاں ویسا ہی بھرے گا 
دُنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
درج بالا سطریں اسی یتیم کے ایک لڑکے کی داستان بے ستون ہے۔ جب یہاں تک آپ نے پڑھ لیا ہے تو اس ابن یتیم کا نام بھی پڑھتے چلیے۔ 
نام
تاریخ پیدائش کی طرح نام بھی اختلافی حادثہ کا شکار ہوگیا ہے۔ کہیں پر محمد سابقہ ہے تو کسی جگہ عالم لاحقہ ہے، کسی کاغذمیں محمداور عالم سابقہ لاحقہ دونوں ہیں، تو کسی میں صرف لاحقہ احمد ہے ، جب کہ بعض جگہ سابقہ محمد بھی ہے اور لاحقہ احمد بھی وغیرہ وغیرہ۔ پھر انگریزی میں اس پیلنگ کا بھی لمبا جھگڑا ہے۔ ان اختلافات سے بچنے کے لیے ناچیز نے اس کی تعیین کرتے ہوئے سابقہ میں’ محمد‘رکھاہے، جو نام کا جزو ہے، اور اسی کے مطابق سرکاری کاغذات میں بھی اصلاح کرائی گئی ہے۔ لاحقہ میں علمی و وطنی نسبت شامل کیا ہے ،جس کے پیش نظرقاسمی النسبت کی وجہ سے قاسمی لکھتا ہے اور جہاز قطعہ گاوں کا نام ہے جس کی نسبت سے جہازی لاحقہ لگاتا ہے۔ نام اور دونوں نسبتوں کے بعد اس ابن یتیم کا پورا نام ہوتا ہے: محمد یاسین قاسمی جہازی۔ 

18 Aug 2018

zamzam pene ka tareeqa

زمزم کے پانی پینے کا طریقہ


قسط نمبر (29)  

تصنیف: 

 حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

طواف کی نماز کے بعد آب زمزم پر آئے اور اپنے ہاتھ سے پانی کھینچے۔ اگر سہولت سے پانی کھینچنا ممکن نہ ہو تو دوسرے کا کھینچا ہوا پانی لے اور بسم اللہ پڑھ کر کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر قبلہ رو ہوکر یہ دعا پڑھ کر پیے اور خوب ڈٹ کر پیے۔ 
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ عِلْمَاً نَافِعَاً وَ رِزْقَاً واسِعَاً و شِفَا ءً مِنْ کُلِّ داءٍ
اور تین مرتبہ سانس لے کر پیے اور پھر خدا کی حمد کرے اور سر اور منھ کو بھی پانی ملے اور باقی بدن پر ڈالے ۔ اور جو پانی بچ رہے اس کو کنویں میں ڈال دے یا بدن پر ڈال لے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عباسؓ سے زمزم کا پانی طلب کیا ۔ انھوں نے عرض کیا کہ اس پانی میں (جس میں پانی کا رکھا ہوا تھا) سب لوگ ہاتھ ڈال دیتے ہیں، گھر میں صاف پانی رکھا ہوا ہے ، اس میں سے لاؤں؟ حضورﷺ نے فرمایا: نہیں، جس میں سے سب پیتے ہیں، اسی میں سے لاؤ۔ انھوں نے پیش کیا۔ حضورﷺ نے پیا اور آنکھوں پر ڈالا، پھر دوبارہ لے کر پیا اور اپنے اوپر دوبارہ ڈالا۔ (کنز)
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ ہم میں اور منافقین میں یہ فرق ہے کہ وہ زمزم کے پانی خوب سیراب ہوکر نہیں پیتے۔ (اتحاف)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ ڈول بھرنے کا حکم فرمایا۔ ڈول بھر کر کنویں کے کنارے پر رکھا گیا ۔ حضور ﷺ نے اس ڈول کو ہاتھ سے پکڑ کر بسم اللہ کہہ کر دیر تک پیا ، پھر فرمایا: الحمد للہ اس کے بعد پھر بسم اللہ کہہ کر دیر تک پیا ، پھر فرمایا: الحمد للہ،پھر ارشاد فرمایا کہ ہم میں اور منافقوں میں یہی فرق ہے کہ وہ خوب سیر ہوکر اس کو نہیں پیتے۔ (اتحاف)
مسائل متفرقہ
مسئلہ: مریض معذور کو طواف کرانے کے لیے اجرت پر اٹھانا جائز ہے ۔ 
مسئلہ: اگر اٹھانے والے نے طواف کی نیت نہیں کی اور معذور بے ہوش نہیں تھا ، اس نے خود طواف کی نیت کرلی تو طواف ہوگیا ۔ اور اگر بیہوش تھا تو طواف نہیں ہوا۔ 
مسئلہ: طواف میں اگر عورت مرد کے ساتھ ہوجائے تو طواف فاسد نہیں ہوتا، نہ مرد کا نہ عورت کا ۔ 
مسئلہ: معذور جس کا وضو نہیں ٹھہرتا، چوں کہ اس کا وضو وقت تک رہتا ہے اور وقت کے نکلنے کے بعد وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اس لیے ایسے آدمی کا اگر چار شوط کے بعد وقت نکل جائے تو دوبارہ وضو کرکے طواف پورا کرے اور اگر چار شوط سے کم ہی کیے تھے کہ وقت نکل گیا ، جب بھی وضو کرکے باقی شوط پورے کرسکتا ہے ، لیکن از سر نو طواف کرنا افضل ہے۔ 
مسئلہ: طواف کی جگہ جس کو مطاف کہتے ہیں ، خانہ کعبہ کے چاروں طرف اور مسجد حرام کے اندر اندر ہے، چاہے بیت اللہ سے قریب ہو یا بعید، اور چاہے ستون اور زمزم وغیرہ کو درمیان میں لے کر طواف کرے ، طواف ہوجائے گا۔ 
مسئلہ: اگر کوئی مسجد کی چھت پر چڑھ کر طواف کرے ، اگرچہ بیت اللہ سے اونچا ہوجائے، تب بھی طواف ہوجائے گا۔ 
مسئلہ: مسجد حرام سے باہر نکل کر اگر طواف کرے گا تو طواف نہ ہوگا۔ 
مسئلہ: اگر کوئی طواف میں حطیم کی دیوار پر چڑھ کر طواف کرے، تو طواف ہوجائے گا، لیکن مکروہ ہے۔ 
مسئلہ: طواف میں بالکل خاموش رہنا اور کچھ نہ پڑھنا بھی جائز ہے۔ 
مسئلہ: طواف میں دعا پڑھنا قرآن پڑھنے سے افضل ہے، لیکن دعا میں ہاتھ نہ اٹھائے۔ 
مسئلہ: طواف میں ناجائز امور سے نہایت اہتمام سے بچنا چاہیے ۔ لڑکوں اور عورتوں کی طرف نہ دیکھے اور فضول بات بھی نہ کرے۔ 
مسئلہ: اگر کوئی مسئلہ سے ناواقف ہو تو اس کو حقیر مت سمجھو ، اس کو نرمی سے مسئلہ بتادو۔ 
مسئلہ: عورتوں کو مردوں کے ساتھ مل کے طواف کرنا اور خوب دھکم دھکا کرنا جیسا کہ اکثر عورتیں آج کل کرتی ہیں ، حرام ہے۔ عورتوں کو رات یا دن کو ایسے وقت طواف کرنا چاہیے کہ مردوں کا ہجوم نہ ہو اور طواف میں مردوں سے جہاں تک ہوسکے علاحدہ رہنا چاہیے۔ 
مسئلہ: بادشاہ ، امرااور بڑے لوگ جب طواف کے لیے آتے ہیں، تو ان کے خدام اور ملازمین عام مسلمانوں کو روکتے ہیں اور مطاف سے باہر نکال دیتے ہیں، یہ ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔
طواف کی دعائیں
طواف کی نیت دل سے کرے اور زبان سے یہ کہے:
اَلْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ طَوافَ بَیْتِکَ الْحَرامِ، فَیَسِّرْہُ لِیْ وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ۔ 
جس وقت ملتزم کے سامنے آئے تو یہ پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَ تَصْدِیْقَاً بِکِتَابِکَ وَ وَفَاء اً بِِعَھْدِکَ وَ اِتِّباعَاً لِسُنَّۃِ نَبِیِّکَ محمَّدٍ ﷺ ۔
اور جب حجر اسود سے آگے بڑھے اور دروازہ کے سامنے آئے تو یہ دعا پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اِنَّ ھذا البیتَ بیتُک والحَرَمَ حرَمُکَ والامنَ اَمَنُکَ و ھذا مقامُ العاءِذِ بکَ مِنَ النَّارِ فاَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
اور جب رکن شامی(شمالی مشرقی گوشہ) کے برابر آئے تو یہ دعا پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُ بِکَ من الشَّکِّ وا لشرْکِ والشِّقاقِ والنِّفاقِ و سُوءِ الاخلاقِ و سُوءِ المُنْقَلَبِ فی الاھْلِ والمالِ والوَلَدِ
اور جب میزاب رحمت (بیت اللہ کے پرنالے) کے برابر آئے تو یہ پڑھے:
الْلّٰھُمَّ اَظِلِّنِی تحتَ ظِلِّ عرْشِکَ یومَ لا ظِلَّ الَّا ظِلُّکَ ولا باقی الا وجْھُکَ و اسْقِنِیْ مِنْ حَوْضٍ نَبِِیََّکَ ﷺ شُرْبَۃً ھَنِیْءَۃً لا اَظْمَاُ بَعْدَھَا اَبَدَاً۔ 
اور جب رکن یمانی سے نکل جائے تو یہ دعا پڑھے:
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
یہ سب دعائیں سلف سے مروی ہیں جناب رسول اللہ ﷺ سے کوئی خاص دعا ثابت نہیں ہے کہ وہی دعا پڑھے اور دوسری نہ پڑھے۔ طواف کرتے ہوئے تلبیہ نہ کہے۔ جو دعا یاد ہو، وہی پڑھے اور جو ذکر چاہے، کرے۔ 
عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال: من طافَ بالبیتِ سبعاً لایتکلمُ الا ب سبحان اللّٰہ، والحمدُ للّٰہِ، ولا الٰہ الا اللّٰہُ، واللّٰہ اکبرُ، ولا حولَ ولا قوۃَ الا باللّٰہِ مُحِیتْ عنہ عشَرُ سیئاتٍ و کُتبَ لہ عشرُ حسناتٍ و رُفع لہ عشرُ درجات۔ (روہ ابن ماجہ)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص خانہ کعبہ کا سات پھیرا طواف کرے اور اس میں سبحان اللہ، والحمدُ للہ، ولا الٰہ الا اللہ، واللہ اکبر، ولا حولَ ولا قوۃَ الا باللہ کے سوا کو ئی کلام نہ کرے، تو اس کے دس گناہ مٹائے جائیں گے۔ اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے۔ 
اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان رسول اللہ ﷺ پڑھا کرتے تھے: 
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال: و کل بہ سبعون ملکا یعنی الرکن الیمانی فمن قال: اللھم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا والاٰخرۃ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِقالوا آمین۔ (رواہ ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رکن یمانی پر ستر فرشتے متعین ہیں، جو شخص اَلْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّار کہتا ہے، تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ 
اور رسول اللہ ﷺ سے یہ پڑھنا بھی طواف میں ثابت ہے : 
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الرَّاحَۃَ عِنْدَ الْمَوتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الحِسَابِ۔ 
اور رکن یمانی پر پہنچ کر یہ پڑھنا بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے:
الْلّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الُکُفْرِ والْفَاقَۃِ وَ مَواقِفِ الْخِزْیِ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ۔ 
اور ملتزم پر کھڑے ہوکر جو دعا چاہے مانگے، اس جگہ دعا قبول ہوتی ہے اور یہ دعا پڑھے:
الْلّٰھُمَّ رَبَّ ھَذَا البیْتِ العَتیقِ اَْعتِقْ رِقابَنا مِنَ النارِ و اَعِدْنَا مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجِیْمِ وَ بارِکْ لنا فیما اعْطَیْنَا الْلّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ اَکْرِمِ وَفْدِکَ عَلَیْکَ، الْلّٰھُمَّ لَکَ الْحَمدُ علیٰ نِعْماءِکَ وَ أفْضَلَ صَلَوتِکَ عَلٰی سَیِّدِ اَنْبِیَاءِکَ وَ جَمِیْعِ رُسُلِکَ وَ أصْفِیَاءِکَ وَ عَلیٰ اٰلِہ وَ صَحْبِہِ و اَوْلِیَاءِکَ۔ 
طواف قدوم کے احکام
مسئلہ: طواف قدوم آفاقی کے لیے جو صرف حج کا احرام باندھے ہوئے ہو یا قران کا اس کے لیے سنت ہے ۔ متمتع مکی اور حلی کے لیے مسنون نہیں ہے۔ البتہ اگر مکی اور حلی میقات سے باہر جاکر مکہ آئے تو اس کے لیے بھی مسنون ہے ، جب کہ مفرد یا قارن ہو۔ عمرہ کرنے والوں پر طواف قدوم نہیں ہے۔ 
مسئلہ: طواف قدوم کا وقت مکہ میں داخل ہونے کے وقت سے وقوف عرفہ تک ہے۔ اگر وقوف عرفہ کرلیا اور طواف نہیں کیا تو اس کا وقت ختم ہوگیا۔ اس کے بعد طواف قدوم ساقط ہوگیا ۔ 
مسئلہ: آفاقی سیدھا عرفہ چلا جائے اور وقوف عرفہ کے بعد مکہ آئے تو اس سے طواف قدوم ساقط ہوجاتا ہے۔ 
مسئلہ: طواف قدوم پر قدرت کے باوجود طواف چھوڑ کرعرفات چلا گیا اور وہاں جاکر طواف قدوم کا خیال ہوا۔ اگر نویں کے زوال سے پہلے لوٹ کر طواف کرلیا تو طواف قدوم ہوگیا ، ورنہ طواف قدوم نہیں ہوا۔ 
مسئلہ: طواف قدوم کے بعد اگر صفا و مروہ کے درمیان سعی کا بھی ارادہ ہو تو اس طواف میں اضطباع اور تین شوط میں رمل بھی کرے ، ورنہ اضطباع و رمل نہ کرے۔ 
مسئلہ: مفرد کے لیے سعی طواف زیارت کے بعد افضل ہے اور قارن کے لیے طواف قدوم کے ساتھ سعی کرنا افضل ہے۔ اور جو شخص طواف زیارت سے پہلے حج کی سعی کرلے وہ طواف زیارت کے بعد نہ کرے۔
مسئلہ: وقوف عرفہ سے پہلے اگر کوئی نفلی طواف کرلیا اور طواف قدوم کی نیت نہیں کی، تو بھی طواف قدوم ہوگیا ۔ طواف قدوم کی خاص طور سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ 
صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا بیان
صفا و مروہ کے درمیان مخصوص طریقے سے سات چکر لگانے کا نام سعی ہے۔ سعی کے معنی دوڑنے کے ہیں۔ 
صفا ومروہ دو پہاڑیاں ہیں، جو مسجد حرام سے متصل ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 
اِنَّ الصَّفا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِ اللّٰہِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ أنْ یَّطُوَّفَ بِھِمَا و مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرَاً فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ۔ 
بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ (کے دین) کی یادگاروں میں سے ہیں، سو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ تو اس پر ذرا بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرنے پر۔
تمت بالخیر