19 May 2018

قسط نمبر (8) موت کا بیان

موت کا بیان
قسط نمبر (8)
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
ہم دام غم سے موت کے بعد مرکر
روتے ہیں کیوں احیا موقع ہے یہ خوشی کا 
مومن کی موت
جیل خانہ سے باہر نکلنے کا وقت ہے۔ دنیا کی کلفتوں سے ، اس کے رنج و غم سے نجات پانے کی اولین فرصت ہے۔
الْعَبْدُ المؤمِنُ یَسْتَرِیْحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْیَا وَ اٰذَاھَا ا8لٰی رَحْمَۃِ الْلّٰہِ (متفق علیہ)
ایمان والا بندہ اللہ کی رحمت کی طرف چلتے ہوئے دنیا کے دکھ تکلیف سے نجات پاتا ہے۔ ؂
تن زیر خاک چھپ گیا جاں خلد کو گئی
بحر فنا میں ڈوب کے ہم پار ہوگئے
خدا کی رضامندی اور اس کی کرامت کی خوش خبری سنائی جاتی ہے ، جس سے وہ خدا کی ملاقات کو دوست رکھتا ہے، اور خدا اس کی ملاقات کو دوست رکھتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
ملک الموت خدا کا پیغام سلام پہنچاتا ہے اور کہتا ہے کہ السلام علیکم یا ولی اللہ ، اس خالی گھر سے آباد گھر کی طرف چلو۔ائے جان! جس کو خدا کے حکموں پر اطمئنان تھا، اللہ کی مغفرت اور رضامندی کی طرف چل۔
اس خوش خبری اور خوش کن باتوں کو سن کر روح آسانی سے نکل آتی ہے، جیسے مشک سے پانی کا قطرہ ڈھلک آتا ہے یا آٹے سے بال۔ چنانچہ براء ابن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک انصاری مرد کے جنازہ میں نکلے اور قبر تک پہنچے۔ ابھی تک قبر کی کھدائی پوری نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم لوگ نہایت خاموشی کے ساتھ آپ ﷺ کے چاروں طرف بیٹھ گئے۔ حضورﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، اس سے زمین کریدنے لگے ۔ پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ قبر کے عذاب سے پناہ مانگو۔ اس طرح آپ ﷺ نے تین بار فرمایا۔ پھر فرمایا : جب ایمان دار بندہ دنیا سے تعلق توڑنے لگتا ہے اور آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، تو آسمان سے روشن چہرے والے فرشتے اس کی طرف اترتے ہیں ، جن کے چہرے سورج کی طرح چمکتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ میں جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن اور جنت کی خوشبوؤں میں سے خوشبو ہوتی ہے۔ اور منتہائے نظر پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ پھر ملک الموت آتا ہے اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ائے پاکیزہ روح! اللہ کی مغفرت اور اس کی رضامندی کی طرف چل۔تو وہ روح نہایت آسانی کے ساتھ نکل پڑتی ہے ، جیسے مشک سے پانی کا قطرہ ڈھلک پڑتا ہے ۔ اس کو ملک الموت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ، لیکن پلک جھپکنے کی دیر نہیں لگتی کہ اس کے ہاتھ سے وہ فرشتے لے لیتے ہیں اور اس کو کفن اور خوشبو میں رکھ لیتے ہیں۔ پھر اس سے بہترین مشک کی خوشبو آنے لگتی ہے ۔ پھر اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں ۔ اور جب کسی فرشتوں کی جماعت کے پاس سے گذرتے ہیں ، تو وہ پوچھتے ہیں کہ یہ پاکیزہ روح کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں : فلاں کا بیٹا ہے ، یعنی دنیا میں جس اچھے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا، وہی نام بتاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آسمان دنیا تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھلواتے ہیں ، وہ دروازہ کھولتا ہے ۔ پھر ہر آسمان کے مقربین دوسرے آسمان تک ساتھ چلتے ہیں اور اسی جلوس کے ساتھ ساتویں آسمان تک جا پہنچتے ہیں۔ اللہ بزرگ برتر حکم دیتا ہے کہ میرے بندہ کی کتاب علیین میں لکھ لو۔ اور اس کو لوٹا کر زمین پر لے جاؤ، اس لیے کہ میں نے اسی سے پید اکیا ہے اور اسی میں لوٹاتا ہوں اور دوبارہ اسی سے نکالوں گا۔ پس اس کی روح اس کے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ پھر وہ فرشتے آتے ہیں اور اس کو بیٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تمھارا پروردگار کون ہے؟ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ تمھارا دین کیا ہے؟ کہتا ہے کہ میرادین اسلام ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ تمھارے اندر جو یہ شخص مبعوث ہوئے تھے، وہ کون ہیں؟ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ کہتے ہیں کہ تجھے کس نے بتایا؟ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور میں نے اس کی تصدیق کی ۔ اس پر آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے کہ میرے بندہ نے سچ کہا ۔ اس کے لیے جنت کا فرش بچھادو۔ اس کو جنت کا لباس پہناؤ اور جنت کی طرف اس کا دروازہ کھول دو۔ پھر جنت کی ہوا اور خوشبو آنے لگتی ہے ۔ اور اس کی قبر تاحد نگاہ کشادہ کردی جاتی ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : پھر ایک شخص خوش لباس خوشبو دار اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کچھ تجھ کو میسر ہوا، اس پر خوش ہوجا۔ یہی وہ دن ہے ، جس کا تجھ سے وعدہ ہوا تھا ۔ وہ کہے گا کہ تم کون ہو؟ تمھارا چہرہ حقیقت میں چہرہ کہنے کے لائق ہے اور اس لائق ہے کہ اچھی خبر لائے ۔ وہ کہے گا کہ میں تیرا عمل صالح ہوں۔اس کے بعد وہ خوشی میں کہے گا: ائے رب ! قیامت قائم فرما، ائے رب! قیامت قائم فرما، تاکہ میں اپنے اہل و عیال اور مال میں پہنچ جاؤں۔
کافر کی موت
اور جب کافر بندہ دنیا سے تعلق توڑنے لگتا ہے اور آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو سیاہ چہرے والے فرشتے اس کی طرف اترتے ہیں ، ان کے ہاتھ میں ٹاٹ ہوتے ہیں اور منتہائے نظر پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ پھر ملک الموت آتا ہے اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ائے خبیث جان! اللہ کی ناراضگی کی طرف چل۔ ملک الموت کا یہ حکم سن کر روح اس کے جسم میں ادھر ادھر بھاگنے لگتی ہے ، تو ملک الموت اس کی روح کو سختی کے ساتھ کھینچ لیتا ہے ، جیسے سیخ کو بھیگے ہوئے اون سے صاف کیا جاتا ہے ، پھر ملک الموت اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ، لیکن پلک جھپکنے کی دیر نہیں لگتی کہ اس کے ہاتھ سے وہ فرشتے لے لیتے ہیں اور ٹاٹوں میں لپیٹ لیتے ہیں، جو ان کے پاس ہوتے ہیں ۔ ان ٹاٹوں سے سڑی ہوئی نعش کی بدبو آتی ہے ۔ پھر اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں ۔ اور جب کسی فرشتوں کی جماعت کے پاس سے گذرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ یہ خبیث روح کون ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے ، یعنی دنیا میں جس برے سے برے نام سے پکارا جاتا ہے، وہی نام بتاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آسمان دنیا تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں ، مگر دروازہ نہیں کھولا جاتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: 
لَا تُفَتَّحُ أبْوَابُ السَّماءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّیٰ یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخَیَاطِ(الأعراف،آیۃ ۴۰)
ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں نہ گھس جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اس کو کتاب سجین میں لکھ لو، جو سب سے نیچی زمین میں ہے ۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: 
مَنْ یُّشْرِکْ بِالْلّٰہِ فَکَأنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أوْ تَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیقٍ۔ (الحج،آیۃ۳۱)
اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر پڑاہو،پھر پرندوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں یا اس کو ہوا نے دور دراز جگہ میں لے جاکر پھینک دیا۔
پس اس کی روح اس کے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے ۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو بیٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : تمھارا پروردگار کون ہے؟ وہ کہتا ہے : ہائے ہائے ، مجھے پتہ نہیں۔ پھر کہتے ہیں : تمھارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے : ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں۔ اس کے بعد آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے کہ اس شخص نے جھوٹ کہا ، اس کے لیے آگ کا فرش بچھاؤ اور دوزخ کا دروازہ کھول دو۔ دوزخ کی تپش اور سخت گرم لو آتی رہتی ہے ۔ اور اس پر قبر تنگ کردی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں ۔ پھر ایک شخص بد صورت برے کپڑے والا بدبودار اس کے پاس آتا ہے ۔ اور وہ کہتا ہے کہ بری خبر سن لے۔ یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ ہوا تھا ۔ وہ کہے گا : تو کون ہے؟ تیری صورت بری خبر سنانے کے لائق ہے۔ وہ کہے گا : میں تیرا عمل ہوں ۔ یہ سن کر وہ کہے گا: ائے اللہ قیامت قائم نہ کر۔ (مرقاۃ) 
مرض الموت کا بیان
جب انسان انتہائی بیمارے ہوجائے اور اندازہ یہ ہو کہ یہ آخری وقت ہے ، تو اس کے پاس بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے تاکہ اللہ کا ذکر سن کر اس کا دل بھی ذکر اللہ کی طرف مائل ہوجائے ۔ اور وہ بھی ذکر کرنے لگے، تاکہ اگر انتقال ہوجائے ، تو اس کا خاتمہ خیر پر ہو، چوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ: 
الْعِبْرَۃُ لِلْخَوَاتِیْمِ 
خاتمہ کا اعتبارہے ۔
اور اگر مرض کا اضافہ دیکھے اور موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں، تو پھر زور سے کلمہ پڑھے، تاکہ وہ بھی کلمہ پڑھ لے ، تاکہ اس کا آخری کلام لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ کَانَ اٰخِرُ کَلَامِہِ لَا الَہَ الَّا الْلّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ۔(ابو داود)
جس کا آخری کلام لا الٰہ الا اللہ ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔
اور یہ بھی فرمایا :
مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ ، ثُمَّ مَاتَ عَلَیٰ ذٰالِکَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (متفق علیہ)
جس بندہ نے بھی لا الٰہ اللہ کہا پھر اسی کلمہ پر موت ہوئی ، تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ 
اس لیے مرنے والے کا آخری کلام یہی کلمہ ہونا چاہیے ۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ لَا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ (مسلم)
اپنے مرنے والوں کو لا الٰہ اللہ کی تلقین کرو۔
لیکن اس کلمہ کو کہنے کے لیے اسے تنگ نہ کیا جائے ، اور اس طرح نہ کہا جائے کہ کہو لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ؛ بلکہ اس کے سامنے کلمہ پڑھے ، تاکہ سن کر وہ بھی پڑھنے لگے۔ زیادہ تنگ کرنے سے ممکن ہے کہ وہ انکار کردے ، کیوں کہ وہ حالت بہت سخت ہوتی ہے ۔ اور سختی میں تنگ کرنا درست نہیں۔ تمھارے پڑھنے پر وہ نہ پڑھے اور مرجائے تو اس کو کافرنہ سمجھو، اس لیے کہ وہ ایمان کا اقرار اپنی زندگی میں کرچکا ہے۔ اور اس وقت کلمہ پڑھنا ضروری نہیں ہے ؛ بلکہ مستحب ہے ۔ ضروری صرف خدا کی وحدانیت وغیرہ جو ضروریات دین میں ہے ، اس پر ایمان رکھنا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ ماتَ وَھُوَ یَعْلَمُ أنَّہُ لَا الٰہَ الَّا الْلّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ (مسلم)
جو شخص ایسی حالت میں مرے کہ وہ جانتاہے ہو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ 
اور اس کے پاس سورہ یٰسٓ پڑھے، تاکہ اس کی برکت سے موت آسان ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے مرنے والے کے پاس سورہ یٰسٓ پڑھو۔ (رواہ احمد و ابو داود وابن ماجہ و صححہ ابن حبان) اور مراقی الفلاح میں ایک حدیث ہے کہ :
مَامِنْ مَرِیْضٍ یُقْرَأُ عِنْدَہُ یٰسٓ الَّا ماتَ رَیَّانَ و اُدْخِلَ فی قَبْرِہِ رَیَّانَ 
جس مریض کے پاس یٰسٓ پڑھا جاتا ہے، وہ سیراب ہوکر مرتا ہے اور سیراب ہی قبر میں داخل کیا جاتا ہے۔
مرنے کے بعد جب تک اس کو غسل نہ دیا جائے ، اس کے پاس قرآن مجید پڑھنا درست نہیں ہے۔ (عالمگیری)
مرنے والے کے بال بچوں کو یا جس سے اس کو زیادہ محبت ہو، اس کے سامنے نہ لاؤ تاکہ دنیا کی طرف مائل نہ ، کیوں کہ یہ وقت دنیا سے جدائی اور اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں حاضری کا وقت ہے ۔ اس کے پاس ایسی باتیں کرو، کہ دل دنیا سے پھر کر اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہوجائے۔ اللہ کی رحمت اور مومن کی موت کی فضیلت اس کے سامنے بیان کرو تاکہ وہ خد اسے پر امید ہوکر مرے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی موت سے تین روز قبل فرمایا تھا:
لَایَمُوْتَنَّ أحَدُکُمْ الَّا وھُوَ یُحْسِنُ الظَّنَ بِاللّٰہِ۔ (رواہ مسلم)
اللہ سے اچھے گمان رکھتے ہوئے جان دو۔
رسول اللہ ﷺ ایک جوان کے پاس پہنچے، جو نزع کی حالت میں تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے کو کیسے پاتے ہو؟ اس جوان نے کہا : یا رسول اللہ ! میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں۔ حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: ایسے موقع پر جس بندہ کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوں گی، اللہ اس کی امید کو پوری کرے گا۔ اور اس کو خوف سے مامون رکھے گا۔ (ترمذی)
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تم کو خبر دوں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے اللہ تعالیٰ بندوں سے کیا کہے گا اور بندے پہلے کیا جواب دیں گے۔صحابہ کرام نے عرض کیا : ہاں یا رسول اللہ ﷺ فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ مومن سے کہے گا کہ :
ھَلْ اَحْبَبتُمْ لِقائی؟
تونے میری ملاقات کو محبوب سمجھا تھا؟ بندے کہیں گے : 
نَعَمْ یَا رَبَّنَا
ہاں ائے ہمارے پروردگار۔
اللہ تعالیٰ کہے گا : کیوں؟ بندے کہیں گے : ہم آپ کی معافی اور مغفرت کی امید رکھتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : تمھارے لیے میری مغفرت واجب ہوگئی ۔ (ابو نعیم فی الحلیۃ)۔ایک حدیث میں ہے کہ: 
أنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ 
میں اپنے بندوں کے گمان کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں۔
اس قسم کی باتوں سے اس کو پرامید کرے ، تاکہ اچھے گمان خدا سے رکھ کر جان جاں آفریں کے سپرد کرے۔ 
آتی ہیں ٹھہر ٹھہر کے سانسیں
اب موت سے لو لگارہا ہوں
منزل ہے قریب ، خوف غالب
رک رک کے قدم اٹھارہا ہوں
بہر حال جب سانس اکھڑ جائے اور جلدی جلدی چلنے لگے ، اور ٹانگیں ڈھیلی پڑ جائیں اور کھڑی نہ ہوسکیں، اور ناک ٹیڑھی ہوجائے اور کنپٹیاں بیٹھ جائیں، تو سمجھو کہ اس کی موت آگئی۔ اس وقت کلمہ زور زور سے پڑھنے لگو ۔ جب مرجائے تو سب عضو درست کردو۔ ہاتھ پہلو میں سیدھا کرکے رکھو ۔ سینے پر نہ رکھو۔ ایک کپڑے سے تھوڑی کو سر سے باندھ دو، تاکہ منہ کھلا نہ رہ جائے ۔ اور آنکھیں بند کردو ۔ اور پیر کے دونوں انگوٹھوں کو ملاکر باندھ دو، تاکہ ٹانگیں پھیلنے نہ پائیں۔ آنکھ بند کرتے ہوئے کہو:
بِسْمِ اللّٰہِ وَ عَلٰیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ 
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کی آنکھیں پھٹی ہوئی ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی آنکھیں بند کردیں اور فرمایا کہ جب روح قبض کی جاتی ہے ، تو آنکھیں اس کا پیچھا کرتی ہیں ۔ (مسلم)
پھر کوئی چادر اڑھادو۔ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، تو آپ ﷺ کو ایک دھاری دار یمنی چادر سے ڈھانک دیا گیا تھا ۔ (بخاری و مسلم)
اور اس کے پاس لوبان وغیرہ کی خوشبو سلگادی جائے۔ ناپاک آدمی وہاں نہ جائے اور نہلانے ، کفنانے میں جلدی کرو۔ ؂
پہلو سے دو گھڑی جو سرکتے نہ تھے کبھی 
گھبرا گئے وہ دفن میں تاخیر دیکھ کر
غسل و کفن کا بیان
ہائے کل سب آشنا میرے مریض عش کے
تھے علاج ضعف دل اور ضعف تن کی فکر میں
آج گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں با چشم پر آب 
گاہ تدبیر لحد میں گہ کفن کی فکر میں
غسل و کفن کا سامان
سب سے پہلے قبر کا سامان کرو۔ اور کفن دفن کے لیے سامان ذیل کی فراہمی کرلو، جس کو اپنے اپنے موقع پر صرف کرو: 
(۱) گھڑے دوعدد(اگر گھر میں برتن ہوں تو کورے کی حاجت نہیں)
(۲) لوٹا۔ (۳) غسل کا تختہ۔ (۴) لوبان۔ (۵) روئی۔ (۶) گل خیرو (صابن)۔ (۷) کافور۔ (۸) قبر پاٹنے کے لیے تختہ یا لکڑی ، قبر کی پیمائش کے مطابق۔ (۹) چٹائی ایک عدد قبر کی مقدار کے برابر۔ (۱۰) کفن ، جس کی ترکیب مرد کے لیے یہ ہے کہ مردہ کی قد کے برابر ایک لکڑی لو اور اس میں ایک نشان کندھے کے مطابق لگالو۔ اور ایک تاگا سینے کے مقابل رکھ کر جسم کی گولائی میں کو نکال لو کہ اس تاگے کے دونوں سرے ، دونوں پسلیوں پر پہنچ جائیں۔ اور اس کو وہاں سے توڑ لو۔ پھر ایک کپڑا لو، جس کا عرض اسی تاگے کے برابر یا اس کے قریب ہو۔ اگر اس قدر عرض نہ ہو تو اس میں جوڑ لگاکر پورا کرلو۔ اور اس لکڑی کے برابر ایک چادر پھاڑ لو۔ اس کو ازار کہتے ہیں ۔ اسی طرح دوسری چادر پھاڑو، جو عرض میں تو اسی قدر ہو؛ البتہ طول میں ازار سے چار گرہ زیادہ ہو۔ اس کو لفافہ کہتے ہیں ۔ پھر ایک کپڑا لو، جس کا عرض بقدر چوڑائی جسم مردہ کے ہو۔ اور لکڑی کے نشان سے اخیر تک جس قدر طول ہو، اس کا دوگنا پھاڑ لو۔ اور دونوں سرے کپڑے کے ملاکر بیچ سے اتنا چاک کھولوکہ سر کی طرف سے گلے میں آجائے ۔ ا س کو قمیص یا کفنی کہتے ہیں۔ یہ تین کپڑے مرد کے لیے مسنون کفن ہیں۔
اور عورت کے لیے ان تین کپڑوں کے علاوہ اور دو کپڑے ہیں: ایک سینہ بند۔ دوسرا سربند ، جس کو اوڑھنی کہتے ہیں ۔ سینہ بند بغل کے نیچے سے گھٹنے تک اور تاگے مذکور کے بقدر چوڑائی۔ سربند نصف ازارسے تین گرہ زیادہ لمبائی اور بارہ گرہ چوڑائی ۔ یہ پانچ کپڑے عورت کے لیے کفن مسنون ہیں۔ اور بعض چیزیں کفن کے متعلقات ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے : 
(۱) تہ بند: جو غسل دیتے وقت ستر چھپانے کا کام دیتا ہے ۔ بدن کی موٹائی سے تین گرہ زیادہ، بڑے آدمی کے لیے سوا گز لمبائی کافی ہے ۔ اور عرض میں ناف سے پنڈلی تک، چودہ گرہ عرض کافی ہے ۔ یہ دو ہونے چاہیے: ایک غسل میں ۔ دوسرا غسل کے بعد کفن سے پہلے استعمال ہوتا ہے۔ 
(۲) دستانہ: چھ گرہ طول اور تین گرہ عرض ہو۔ بقدر پنجۂ دست بنالیں۔ یہ بھی دو عدد ہوں ۔
(۳) چادر: عورت کے گہوارہ کی جو بڑی عورت کے لیے ساڑھے تین گز طول اور دو گز عرض کافی ہے۔ 
تنبیہہ: تخمینا مرد کے کفن مسنون میں ایک گز عرض کا کپڑا دس گز صرف ہوتا ہے اور عورت کے لیے مع چادر گہوارہ ساڑھے اکیس گز ۔ اور تہ بند اور دستانہ اس سے جدا ہیں اور بچہ کا کفن اس کے حال کے مناسب لو۔
کفن کو دھونی دینے کا بیان
کفن جب تیار ہوجائے، تو اس کو اولالوبان وغیرہ خوشبو دار چیز جلاکر اس کا دھواں تین بار یا پانچ بار کفن کو پہنچائے ، یہ مستحب ہے۔ 
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ : أجْمِرُوْا کَفَنَ الْمَیِّتِ ثَلَاثَاً 
(رواہ البیھقی)
میت کے کفنوں کو تین بار دھونی دو۔
نور الہدایہ میں ہے کہ اس کی سند صحیح ہے ۔
غسل اور کفنانے کا طریقہ
ایک گھڑے میں دو میٹھی بیری کے پتے ڈال کر پانی کو ابالو اور اس کے دو گھڑے بنالو۔ اور ایک گڑھا اتر دکھن کھود لو۔ اگر پہلے سے کوئی نالی وغیرہ پانی بہنے کے لیے ہے، تو پھر گڑھا کھودنے کی ضرورت نہیں ۔ اب اس نالی پر تختہ رکھو اور اس تختے کو تین مرتبہ لوبان کی دھونی دے لو۔ پھر مردہ کو اس تختہ پر لٹاؤ۔ اور کرتا وغیرہ کو چاک کرکے نکال لو اور تہ بند ستر پر ڈال کر استعمالی کپڑے نکال لو۔ اور پیٹ پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرو۔ نجاست نکلے تو اس کو دھو دو۔ پھر سر اور داڑھی کو گل خیرو یا صابون سے دھوؤ۔ پھر دستانہ پہن کر وضو کے ارادے سے اول دونوں ہاتھ پہنچوں تک دھوؤ ۔ پھر روئی کا پھایا تر کرکے ہونٹوں اور دانتوں پر پھیر کر پھینک دو۔ اس طرح تین دفعہ کرو۔ اسی طرح تین دفعہ ناک اور رخساروں پر پھیرو۔ اور منہ اور ناک اور کان میں روئی لگا دو کہ پانی نہ جائے ۔ پھر کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کو دھوؤ ۔ پھر سر کا مسح ، پھر دونوں پاؤں دھو دو۔ پھر سارے بدن پر پانی بہاؤ۔ پھر بائیں کروٹ لٹا کر پانی بہاؤ۔ پھر داہنی کروٹ پر ایسا ہی کرو۔ پھر دوسرا دستانہ پہن کر بدن کو صاف کرو۔ اور دوسرا تہ بند بدل دو۔پھر چار پائی بچھاکر اس پر اول لفافہ ، اس پر ازار ، پھر اس پر کفنی کا نچلا حصہ بچھاکر باقی حصہ اوپر والا سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دو۔ پھر مردے کو تختہ سے آہستہ سے اٹھاکر اس پر رکھ دو۔اور کفنی کے حصہ کے سر کی طرف سے الٹ دو تاکہ گلے میں آجائے اور پیروں کی طرف بڑھادو۔ اور تہ بند نکال دو اور کافور سر اور داڑھی اور سجدہ کے موقعوں پر ، یعنی پیشانی ، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں کہنیوں، دونوں پنجوں پر مل دو۔ پھر ازار کا بایاں پلہ لوٹ کر اس پر دایاں پلہ لوٹ دو۔ اور لفافہ کو بھی اسی طرح لپیٹو۔ اور ایک کتر لے کر سرہانے اور پائنتی چادر کے گوشہ کو چن کر باندھ دو اور ایک بند سے کمر کے پاس بھی باندھ دو تاکہ راستہ میں کھل نہ جائے۔
اگر میت عورت ہے تو کفنی یعنی قمیص پہناکر اس کے بالوں کے دو حصے کرو: ایک حصۃ داہنی طرف اور ایک حصہ بائیں طرف قمیص کے اوپر سینہ پر ڈال دو۔ اس کے بعد سر بند سر پر اور بالوں پر ڈال دو ۔ اس کو نہ باندھو اور نہ لپیٹو۔ پھر ازار لپیٹو ۔ پہلے بائیں طرف سے ، پھر دائیں طرف سے ۔ پھر اس پر سینہ بند لپیٹ دو۔ پھر چادر لپیٹو ۔ پہلے بائیں طرف ، پھر دائیں طرف سے ۔ (عالمگیری)
غسل کے لیے بیری کے پتے ڈال کر پانی کو گرم کرلینا مستحب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینت رضی اللہ عنہا کے غسل کے موقع پر فرمایا تھا: 
اغْسِلْھَا ثَلَاثاً أوْ خَمْساً أوْ أکْثَرَ مِنْ ذالِکَ انْ رَأیْتُنَّ ذالِکَ بِمَاءٍ و سِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِی الْاٰخِرَۃِ کَافُوْرَاً أوْ شَیْءَاً مِنْ کَافُوْرٍ
(متفق علیہ)
تین یا پانچ بار یا اس سے زیادہ ۔ اگر ضرورت سمجھو تو پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو اور اخیر میں کافور یا کچھ نہ کچھ کافو رمیں سے ہو۔
اگر بیری کے پتے میسر نہ ہوں تو خالص پانی ہی گرم کرلو اور نیم گرم پانی سے غسل دو۔ (ہدایہ)
کفن کا کپڑا اسی حیثیت کا ہونا چاہیے ، جیسا کہ مردہ اپنی زندگی میں استعمال کیا کرتا تھا۔ زیادہ تکلفات فضول ہیں ۔ سرکار دو جہاں ﷺ نے فرمایا کہ :
لَا تَغَالُوْا فِی الْکَفَنِ فَانَّہُ یُسْلَبُ سَلْبَاً سَرِیْعَاً (ابو داود)
کفن میں مبالغہ مت کرو۔ اس لیے کہ وہ بہت جلد چھین لیا جاتا ہے ۔
یعنی زیادہ بیش قیمت کفن دینے کی حاجت نہیں ، وہ باقی رہنے والا نہیں ہے۔
مادر جسے عریاں نہیں کرتی تہہ افلاک
وہ قبر میں سوتا ہے دھری رہتی ہے پوشاک
لیکن اس کے باوجود کفن اچھا ہونا چاہیے ۔ مسلم کی روایت میں ہے :
فَلْیُحْسِنْ کَفْنَہُ
اس کو اچھا کفن دینا چاہیے کہ اس میں میت کی تعظیم ہے ۔ 
یوں تو ہر رنگ کا کفن دینا جائز ہے ، لیکن سفید کپڑا کفن میں دینا مسنون ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ألْبِسُوْا مِنْ ثِیَابِکُمُ الْبَیَاضَ فَانَّھَا مِنْ خَیْرِ ثِیَابِکُمْ وَ کَفِّنُوْا فِیْھَا مَوْتَاکُمْ ۔
(رواہ الخمسۃ الا النسائی و صححہ الترمزی) 
تم سفید کپڑے پہنو، اس لیے کہ سب کپڑوں میں اچھا ہے ۔ اور اسی رنگ کے کپڑے میں اپنے مردوں کو دفن کرو۔ 
کفن میں تین کپڑے مسنون ہے۔
کُفِّنَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فِیْ ثَلاثۃِ أثْوابٍ قَمِیْصٍ وَ ا8زَارٍ و لِفَافَۃٍ ۔(رواہ ابن عدی فی الکامل)
رسول اللہ ﷺ تین کپٹروں میں کفنائے گئے : (۱) قمیص(۲) ازار (۳) لفافہ۔
اگر تین نہ ہوں تو دو ، ورنہ ایک کفن بنالے ، جس سے اس کا بدن ڈھک جائے فرض ہے ۔ (عالمگیری، ص۵۳۳)۔ لیکن یہ مجبوری کی حالت میں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
خَیْرُ الْکَفَنِ الْحُلَّۃُ ( ابو داود)
بہتر کفن جوڑا ہے ، یعنی ازار اور لفافہ۔ 
جنگ احد کے اندر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہما شہید ہوئے تو ان کے کفن کے لیے ایک چادر کے سوا کچھ نہ پایا گیا ۔ اور وہ چادر بھی ایسی کہ اگر سر چھپائیں تو پیر کھل جائے اور پیر ڈھانپیں تو سر کھل جائے ۔ آخر حضور پر نور ﷺ نے فرمایا : ان کا سر چھپاؤ اور پیر پر گھاس رکھ دو۔ 

قسط نمبر (7) مرض اور عیادت مریض کا بیان

مرض اور عیادت مریض کا بیان

قسط نمبر (7) 
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)

بیماری کیا ہے؟ یہ مسلمان کے لیے ایک بڑی نعمت ہے ۔ یہ کوئی معمولی نعمت نہیں ہے، جو سب کو ملے۔ یہ دولت خدا کے خاص بندوں کو ہی ملتی ہے ۔ جس کا رتبہ جس قدر بلند ہوتا ہے، اس کے مطابق اس کو دکھ تکلیف پہنچائی جاتی ہے ۔ ؂
زمانہ رنج دیتا ہے بقدر حال انساں کو 
گدا کو فکر ناں اندیشۂ عالم ہے سلطاں کو
سب سے بڑا مرتبہ سرکار دوجہاں احمد مجتبیٰ محمد مصظفیٰ ﷺ کا ہے، تو آپ کو ایذائیں بھی اسی طرح سب سے زیادہ پہنچائی گئیں۔ چنانچہ پوچھنے پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جس قدر مجھے دین کے بارے میں تکلیفیں پہنچائی گئیں ہیں، اتنی تکلیفیں کسی کو نہیں پہنچائی گئی ہیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ سے پوچھا کہ 
أیُّ النَّاسِ أشَدُّبَلاءً؟
سب سے شدید ترین بلا کس پر آئی؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ فَیُبْتَلَیٰ الرَّجُلُ عَلیٰ حَسَبِ دِیْنِہِ فَإِنْ کَانَ دِیْنُہُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلاؤُہُ، وَإِنْ کَانَ فِي دِیْنِہِ رِقَّۃٌ ھَوَّنَ عَلَیْہِ فَمَا زَالَ کَذٰالِکَ حَتّٰی یَمْشِیْ عَلَیٰ الْأرْضِ مَا لَہُ ذَنْبٌ۔
(رواہ الترمذی، و قال ھذا حدیث حسن صحیح، رواہ ابن ماجہ والدارمی)
یعنی پیغمبر پر ، پھر جو ان کے مثل ہیں، پھر جو ان کے مثل ہیں۔ انسان اپنے دین کے مطابق مصائب میں مبتلا ہوتا ہے ۔ پس اگر وہ اپنے دین میں سخت ہے، تو اس پر بلاء بھی سخت ہے اور اگر وہ دین میں نرم ہے، تو اس پر مصائب بھی آسا ن ہیں۔ اور وہ برابر اسی طرح مصائب پر رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ بے گناہ زمین پر چلنے لگتا ہے ۔
اس لیے ہم کو چاہیے کہ بلاؤں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کریں۔ اور چہرہ مہرہ پر شکن نہ آنے دیں۔ اور یہ سمجھیں کہ ہم خدا کے محبوب بندے ہیں ، جب ہی تو یہ مصائب آئے ہیں ۔ خدا ہم کو بہت بڑے ثواب کا حق دار بنانا چاہتا ہے۔ پھر ہم ان بلاؤں پر کیوں نہ صبر کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
إنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاء وَإنَّ الْلّٰہَ إذَا أحَبَّ قَوْمَاً ابْتَلاہُمْ فَمَنْ رَضِيَ فَلَہُ الرَّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَہُ السُّخْطُ۔
(ترمذی، وابن ماجہ)
بڑی مصیبت کے ساتھ بڑا ثواب ہے۔ لا ریب جب اللہ جل شانہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کومصیبت میں مبتلا کرتا ہے ۔ پس جو شخص خوش رہا اس کے لیے خدا کی رضا مندی ہے ، اور جو ناخوش ہوا اس کے لیے خدا کی ناراضگی ہے۔ ؂
شکوہ اچھا ہے کسی سے نہ شکایت اچھی 
صبر کی خو ہے بھلی، شکر کی عادت اچھی
اس لیے ہم کو مقدورات الٰہی پر راضی ہونا چاہیے ۔ اور یہ سوچنا چاہیے کہ شاید اللہ نے ہمارے لیے عظیم الشان مرتبہ مقدر کر رکھا ہے اور ہم اس کو اپنے عمل سے حاصل نہیں کرسکتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ اس دکھ اور تکلیف کے ساتھ ہم کو اس بلندی پر پہنچانا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَہُُ مِنَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃٌ، لَمْ یَبْلُغْھَا بِعَمَلِہِ، ابْتَلَاہ اللَّہُ فِيْ جَسَدِہِِ، أَوْ فِي مَالِہِ، أَوْ فِيْ وَلَدِہِ،ثُمَّ صَبَّرَہُ عَلَیٰ ذَلِکَ، حَتَّیٰ یُبْلِغَہُ الْمَنْزِلَۃَ الَّتِي سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللَّہِ تَعَالَیٰ۔ ( رواہ احمد و ابو داود)
بے شک بندہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی سے کوئی ایسا مرتبہ مقدر ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم میں، یا اس کے مال میں آفت ڈالتا ہے ۔ پھر اس پر صبر دلاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے پہلے سے مقدر کر رکھا ہے۔ ؂
مقام شکر ہے غافل مصیبت دنیا
اسی بہانے سے رتبہ بلند ہوتا ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجر کا انحصار صبر پر ہے ۔ اگر ہم نے صبر کے حصول میں کامیابی حاصل کرلی، تو ہم بے شمار اجر کے حق دار ہوں گے ، جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآ ن میں وعدہ فرمایا ہے ۔ سورہ زمر میں ہے رکوع ۲ میں ہے کہ 
انَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
(آیۃ: ۱۰)
بلاشبہ صبر کرنے والوں ہی کو اجر بے شمار ملے گا۔
اس بے شمار اجرکو دیکھ کر دنیا میں آرام و چین سے زندگی گذارنے والے کہیں گے : ائے کاش! ہماری کھال قینچیوں سے کاٹی جاتی ، تو ہم بھی اس اجر کے حق دار ہوتے۔ (ترمذی)
پھر ہم آج اس دکھ تکلیف پر حرف شکایت کیوں لائیں اور اس نعمت عظمیٰ کی بے قدری کیوں کریں؟ سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ہر طرح کی بھلائی کا ارادہ کیا اور ہم کو اسی دنیا میں پاک صاف کر رہا ہے ، تاکہ دوزخ کی بھٹی میں ہم کو تپانے کی نوبت نہ آئے اور اس معمولی تکلیف کے بہانے اس بڑی مصیبت سے بچ جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: 
إِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِعَبْدِہِ الْخَیْرَ عَجَّلَ لَہُ الْعُقُوْبَۃَ فِي الدُّنْیَا وَإِذَا أَرَادَ الْلَّہُ بِعَبْدِہِ الشَّرَّ أَمْسَکَ عَنْہُ بِذَنْبِہِ حَتَّیٰ یُوَافِيَ بِہِ یَوْمَ الْقِیامَۃِ۔ (ترمذی)
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے ، تو اس کو دنیا میں جلدی سے عذاب دے دیتا ہے ۔ اور جب اپنے بندہ کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھتا ہے، تو اس گناہ کی سزا اس سے روک لیتا ہے ، تاکہ قیامت کے دن اس کو پوری سزا دی جائے۔
قربان جائیے ارحم الراحمین پر ، وہ ہماری تطہیر کا ارادہ رکھتا ہے اور ہم نادان بچے کی طرح واویلا مچاتے ہیں ، روتے ہیں، چیختے ہیں، چلاتے ہیں۔ ہائے افسوس! یہ تھوڑی سی تکلیف برداشت نہیں ہوتی، تو دوزخ کا عذاب کیسے برداشت ہوگا۔ اس لیے ہمیں شوق سے یہیں پاک صاف ہوجانا چاہیے۔اور اپنی مغفرت حاصل کرلینی چاہیے۔ اور اس کی صورت یہی ہے کہ ہر آنے والی مصیبت پر صبر کریں اور خندہ پیشانی سے اس کا مقابلہ کریں۔ اسی میں ہماری مغفرت پوشیدہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پاک پروردگار فرماتا ہے کہ میری عزت و جلال کی قسم ! میں دنیا سے کسی کو نہیں نکالوں گا ، جس کی مجھے مغفرت کرنی ہے، یہاں تک کہ میں ان تمام گناہوں کا بدلہ نہ لے لوں، جو اس کی گردن پر ہے۔ اس کے بدن میں بیماری کے ذریعے سے، یا اس کی روزی میں تنگی کے ذریعے سے ۔ (رزین)
اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ: 
مَا یَزالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤمِنِ وَالْمُؤمِنَۃِ فِيْ نَفْسِہِ وَوَلَدِہِ وَمَالِہِ حَتَّيٰ یَلْقَی الْلّٰہُ تَعَالَیٰ وَمَا عَلَیْہِ مِن خَطِیْءَۃٍ۔ 
( رواہ الترمذی، و قال ھذا حدیث حسن صحیح)
ایمان دار مرد یا عورت کے ساتھ اس کی جان مال اور اولاد میں بلائیں ہمیشہ رہتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہ جاتا۔
یعنی گناہوں سے پاک صاف ہوکر مرتا ہے ۔ بخاری مسلم کی روایت میں ہے کہ مسلمان کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے، خواہ دکھ درد ہو، بیماری ہو ، حزن و ملال ہو، تکلیف و اذیت ہو، حتیٰ کہ اس کے ایک کانٹا بھی چبھے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کی خطائیں معاف کردیتا ہے۔ یعنی معمولی سے معمولی اذیت بھی گناہوں کے کفارہ کا کام دیتی ہے ، اس لیے کسی بھی تکلیف دہ چیز کو برا نہ کہے؛ بلکہ اس کو اپنے لیے باعث رحمت سمجھے ۔ ایک عورت نے بخار کو برا کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَسُبِّیْ الْحُمّیٰ، فَانَّھَا تُذْھِبُ خَطَایَا بَنِیْ اٰدَمَ کَمَا یَذْھَبُ الْکِیْرُ خُبْثَ الْحَدِیْدِ (رواہ مسلم)
بخار کو برا مت کہو، اس لیے کہ وہ اولاد اآدم کے گناہوں کو دور کرتا ہے، جیسا کہ بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے ۔
معلوم ہوا کہ ہر قسم کی تکلیف خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، گناہوں کو دور کرتی ہے ۔ درجات کو بلند کرتی ہے ۔بے انتہا ثواب کا حق دار بنادیتی ہے ۔ 
لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ آپ خواہ مخواہ دکھ تکلیف کو دعوت دیں اور اس کے لیے خدا سے دعا کریں ۔ ایسا کرنا شرعا جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کی عیادت کی جو کمزور چوزے کے مثل ہوگیا تھا۔ تو اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تونے خدا سے کچھ دعا کی تھی؟ اس نے کہا : ہاں میں کہتا تھا: ائے اللہ! جس گناہ کی سزا تو آخرت میں دے گا، اس گناہ کی سزا تو دنیا ہی میں مجھے جلد دیدے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو اس کی طاقت اور استطاعت نہیں رکھتا، تونے کیوں نہیں کہا کہ: 
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْأخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا وَ عَذَابَ النَّارِ۔ 
ائے اللہ تو دنیا میں بھی بھلی زندگی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر ۔ اور دوزخ کے عذاب سے بچا ۔
راوی کا بیان ہے کہ اس نے اسی دعا کے ساتھ اللہ سے دعا کی ، تو اللہ نے اسے شفا دی۔ (مسلم)
معلوم ہوا خدا سے مصیبت کی خواہش کرنااچھی نہیں، البتہ اگر خدا ہی کی طرف سے بلاء آجائے، تو اس پر صبر کرے اور شکوہ و شکایت نہ کرے۔
الصَّبْرُ مِفْتَاحُ الْفَرْجِ۔
صبر کشادگی کی کنجی ہے ۔
عیادت مریض
جو شخص چاہے کہ محنت مشقت کے بغیر بیماروں کے ساتھ ہمدردی کر کے ثواب حاصل کرے، تو اس کو مریض کی عیادت کرنی چاہیے۔ یعنی اس کے پاس جاکر اس کا مزاج پوچھے ۔ اس سے دل خوش کن باتیں کرے۔ اس کو تسلی دے۔ اس کے حق میں دعا کرے ۔ اور اپنے لیے اس سے دعا کرائے۔ مریض کی دعا فرشتوں کی سی دعا ہوتی ہے۔ (ابن ماجہ)
اس لیے کہ وہ دکھ تکلیف اٹھاکر گناہوں سے پاک ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کی حالت زار قابل رحم ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی دعا میں خاص اثر ہوتا ہے ، اس لیے اس سے اپنے لیے دعا کرائے۔
بیمار کے پاس اتنا ہی بیٹھے ، جس سے وہ ملول نہ ہوجائے۔ اگر ہوسکے تو کچھ دعائیں پڑھ کر اس پر دم کردے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کرے اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھے: 
أسْءَلُ الْلّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ أنْ یَّشْفِیَکَ۔
تو وہ مریض ضرور شفا پائے گا۔ہاں اگر موت مقدر ہوچکی ہے ، تو دوسری بات ہے ۔( ابو داود، ترمذی)
یعنی موت کے حق میں تو نہ دوا ہے اور نہ دعا؛ لیکن اگر موت مقدر نہیں ہے، تو یہ دعا مرض کو دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب نبی کریم ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی:
بِسْمِ الْلّٰہِ أرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ دَاءٍ یُوْذِیْکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ أوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، الْلّٰہُ یَشْفِیْکَ بِسْمِ الْلّٰہِ أرْقِیْکَ (مسلم)
عیادت مریض کی بڑی فضیلت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص عیادت کرتا ہے ، تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا کہ تو خوب ہے ، تیراچلنا خوب ہے، تونے جنت میں اپنا ٹھکانا کرلیا۔ (ابن ماجہ)
دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور اپنے مسلمان بھائی کی ثواب کی نیت سے عیادت کرے، تو وہ دوزخ سے ساٹھ سال کی مسافت کی مقدار دور ہوجاتا ہے۔ (ابو داود)
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ عَادَ مَرِیْضَاً لَمْ یَزَلْ یَخُوْضُ الرَّحْمَۃَ حَتّیٰ فَاذَا جَلَسَ اِغْتَمَسَ فِیْھَا (رواہ مالک و احمد) 
جو شخص عیادت کے لیے جاتا ہے ، وہ رحمت میں گھستا ہوا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے ۔ پھر جب بیٹھ جاتا ہے ، تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔
یعنی رحمت اس کو ہر طرف سے گھیر لیتی ہے ۔ یہ دوزخ سے دوری اور رحمت کی فراوانی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم ہر کس و ناکس کی عیادت کریں اوراس کا دل خوش کریں۔ دعائیں دیں اور ان سے دعائیں لیں ۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا، تو کل قیامت میں ہم سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا: ائے آدم کے بیٹو! میں بیمار ہوا، تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا : ائے پروردگار! میں کیسے تیری عیادت کرتا ، حالاں کہ تو سارے جہاں کا پالنہار ہے۔ خدا کہے گا: کیا تونے نہ جانا کہ میر افلاں بندہ بیمار ہوا، تو نے اس کی عیادت نہ کی، کیا تونے نہیں جانا، اگر تو اس کی عیادت کرتا، تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)
قسط نمبر (8) کے لیے کلک کریں

قسط نمبر (6) اوقات مباشرت

اوقات مباشرت
قسط نمبر (6) 
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وصایا میں لکھا ہے کہ دو شنبہ کو جماع کرنے سے فرزند قاری پیدا ہوتا ہے۔ اور سہ شنبہ کی رات میں جماع کرنے سے سخی ، اور پنچ شنبہ کی رات میں جماع کرنے سے عالم اور متقی پیدا ہوتا ہے ۔ اور پنج شنبہ کے دن دوپہر سے پہلے جماع کرنے سے عالم اور حکیم پیدا ہوتا ہے اور شیطان اس سے بھاگتا ہے۔ اور جمعہ کے دن نماز جمعہ سے پہلے جماع کرنے سے فرزند سعید ہوتا ہے اور شہادت پر موت ہوتی ہے ۔ اور جمعہ کی رات میں صحبت کرنے سے فرزند مخلص پیدا ہوتا ہے۔ 
اور جب صحبت سے فارغ ہو تو عورت سے جلد جدا نہ ہو؛ بلکہ اتنی دیر توقف کرے کہ عورت بھی فارغ ہوجائے، ورنہ عورت دشمن ہوجائے گی۔
پھر جب دونوں فراغت پاچکیں، تو دونوں علاحدہ کپڑوں سے اپنے اندام کو پاک صاف کریں۔ دونوں کا ایک ہی کپڑے سے صاف کرنے میں جدائی کا خوف ہے ۔ اور وطی کے بعد مرد پیشاب ضرور کرلیں، ورنہ درد لادوا عارض ہوگا۔ اور عضو تناسل کو نیم گرم پانی سے دھونے سے بدن کو صحیح اور آفات سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اگر نیم گرم نہ ہو، تو تھوڑی دیر کے بعد سرد پانی سے دھونے میں کچھ حرج نہیں۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ اور پچھلی اور درمیان کی رات میں صحبت کرنا مکرو ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان راتوں میں شیاطین حاضر ہوکر مباشرت میں شریک ہوتے ہیں ۔ (رفاہ المسلمین)
اور مباشرت کی حالت میں زیادہ باتیں نہ کریں کہ اولاد گونگی پیدا ہوتی ہے۔
نگاہ بر عورات
حتیٰ المقدور ایک دوسرے کی شرم گاہ کو نہ دیکھیں، اگر چہ دیکھنا جائز ہے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں 
مَا رَأیْتُ مِنْہُ وَ لَا أرَیٰ مِنِّیْ 
نہ میں نے حضور کی شرم گاہ دیکھی اور نہ حضور نے میری دیکھی۔
ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ 
مَا رَأیْتُ فَرْجَ رَسُوْلِ الْلّٰہِ ﷺ قَطُّ۔ 
میں نے رسول اللہ ﷺ کی شرم گاہ کبھی نہیں دیکھی۔
اور ہدایہ میں ہے کہ بہتر یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی کسی کی شرم گاہ کو نہ دیکھے ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: تم میں سے جوکوئی اپنی عورت کے پاس آئے، تو جہاں تک ممکن ہو پردہ ڈالے اور اونٹ کی طرح بالکل ننگا نہ ہوجائے۔
اور یہ بھی حدیث میں آتا ہے کہ یہ نسیان پیدا کرتا ہے ۔ (رد محتار)
لیکن دیکھنا جائز ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے کہ: 
اِحْفَظْ عَوْرَتَکَ الَّا مِنْ زَوْجَتِکَ۔ 
(ترمذی، ابن ماجہ، ابو داود)
اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو، مگر اپنی بیوی سے ، یعنی میاں بیوی میں کوئی پردہ نہیں۔
درمختار میں ہے کہ مرد اپنی بیوی کی شرم گاہ کی طرف شہوت اور بغیر شہوت کے ساتھ دیکھ سکتا ہے ، مگر بہتر یہ ہے کہ نہ دیکھے ، اس لیے کہ نسیان پیدا کرتا ہے۔
تارتارخانیہ میں ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مرد اپنی عورت کی شرم گاہ کو شہوت برانگیختہ کرنے کے لیے ہاتھ لگائے ، یا عورت اپنے مرد کی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے۔
اور کفایہ شعبی میں لکھا ہے کہ جس عورت کی دونوں راہیں ایک ہوجائیں، تو ان سے جماع کرنا جائز نہیں ؛ البتہ اگر خاوند کو یہ معلوم ہوجائے کہ جماع قبل( فرج) میں ہوگا تو درست ہے۔
نوعیت جماع
یوں تو فرج کے اندر ہر طرح سے جماع کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
نِسَاؤُکُمْ حَرْثُ لَّکُمْ فَأتُوْا حَرْثَکُمْ أنّیٰ شِءْتُمْ 
( البقرۃ، آیۃ:۲۲۳ )
تمھاری بیویاں تمھارے لیے کھیت کی مانند ہیں، پس تم اپنے کھیت میں جس طرح چاہو آؤ۔ 
مگر بے ضرر وہی طریقہ ہے جس کا عام رواج ہے۔ دوسرے طریقوں میں کچھ نہ کچھ ضرر ضرور ہے۔ اور مناسب یہ ہے کہ شروع رات میں جماع نہ کرے ؛ بلکہ باوضو سوئے اور اٹھ کر صحبت کرے ، اس لیے کہ باوضو سونے میں بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص باوضو سوئے اور اسی رات میں مرے تو درجہ شہادت کا پائے۔
صحبت میں اعتدال
ز اندازہ پیروں مرو پیش زن
نہ دیوانۂ خویشتن را مزن
خزانہ جلالی میں لکھا ہے کہ جماع حلال تصفیہ دل ہے ، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے یہ کام کیا ہے اور غم اور وسوسہ کو دور کرتا ہے۔ غصہ کو ساکن کرتا ہے۔ گرمی سے پیدا ہونے والے زخموں کو مفید ہے، لیکن بدن افزودگی کو کمزور کرتا ہے۔
حالت حیض و نفاس میں صحبت
حیض ونفاس کی حالت میں عورت سے صحبت کرنا حرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: 
فَاْعْتَزِلُوْ النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ ( البقرۃ، آیۃ۲۲۲)
حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے حائضہ سے صحبت کی، یا عورت کی دبر (پاخانہ کے مقام) میں آیا، یا کسی کا ہن کے پاس آیا، تو جو کچھ محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے ، اس نے اس کا انکار کیا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نفاس والی عورتیں چالیس دن تک انتظار کرے، مگر یہ کہ اس سے پہلے پاکی دیکھے ۔ اگر چالیس روز پہنچنے پر بھی خون بند نہ ہو، تو پھر غسل کرے اور وہ مستحاضہ کی مانند ہوگی ۔(ابن عدی و ابن عساکر)
یعنی نفاس والی عورت حالت نفاس میں نماز ، روزہ چھوڑ دے ۔شوہر اس سے ہمبستر نہ ہو۔ اگر چالیس روز کے اندر ہی خون بند ہوجائے، تو عورت غسل کرے ۔ اب اس کے لیے نماز و روزہ اور صحبت سب جائز ہے ۔ اور اگر چالیس روز گذر جانے پر بھی خون بند نہ ہو، تو وہ غسل کرے۔ اور مستحاضہ کی طرح وہ نماز و روزہ ادا کرے۔ اور مرد اس سے ہمبستر ہو۔
ولیمہ
ولیمہ کرنا سنت ہے۔آں حضرت ﷺ کے قول و فعل سے ولیمہ کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أوْلِمْ وَلَوْ بِشأۃٍ (متفق علیہ)
ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری سے ہو۔
خود رسول اللہ ﷺ نے ولیمہ کیا۔ اور جس موقع پر جیسا میسر ہوا، اسی طرح کا ولیمہ کیا۔ حضرت زینبؓ کے ولیمہ میں لوگوں کو آسودہ کرکے گوشت روٹی کھلائی۔(بخاری)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں ستو اور کھجور کھلایا۔(احمد، ترمذی) ۔ بعض بیویوں کا ولیمہ دو مد جو سے کیا۔
عالمگیری میں ہے کہ شادی کا ولیمہ سنت ہے اور اس میں بڑا ثواب ہے۔ اور ولیمہ یہ ہے کہ جب عورت سے پہلی مرتبہ قربت حاصل کرے، تو اس کے بعد پڑوسیوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کی دعوت کرے ۔ اور کھانا تیار کرے اور سب کو کھلائے۔
اور عین العلم میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ کے قول و فعل سے ولیمہ کرنا ثابت ہے ، چاہیے کہ نکاح کے بعد پہلے ہی دن ولیمہ کرے اور اگر دوسرے دن ہو تو وہ بھی درست ہے، لیکن تیسرے دن ریا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اول روز کا طعام حق ہے اور دوسرے دن کا سنت اور تیسرے دن کا ریا ۔ اور جو شخص ریا کاری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ریاکاری کی سزا دے گا۔ (ترمذی)
اور رزین العرب نے مشکوٰۃ کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ ولیمہ دخول کے بعد مسنون ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نکاح کے وقت اور بعض کے نزدیک دونوں وقت مسنون ہے ۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے یا نکاح کے بعد ادائے شکر کے طور پر تیار کیا جائے۔
لیکن ایسا ولیمہ کہ مال داروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے، سب سے بد ترین ولیمہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: بد ترین طعام وہ طعام ولیمہ ہے ، جس میں مال داروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اور جس نے دعوت قبول نہ کی ، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ (بخاری و مسلم)
دعوت ولیمہ
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے ۔ اور رد محتار میں ہے کہ واجب کے قریب ہے۔ اور رحمۃ الامہ میں ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مستحب ہے ۔ اور امام مالکؒ کے نزدیک واجب ہے ۔ اور امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا ایک قول وجوب کا ہے ۔ اور بنایہ میں ہے کہ دعوت کا قبول کرنا سنت ہے ، اگر قبول نہ کرے گا تو گناہ گار ہوگا ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
مَنْ تَرَکَ الدَّعْوَۃَ، فَقَدْ عَصٰی الْلّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ 
(بخاری و مسلم)
جس نے دعوت قبول نہ کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
لیکن دعوت میں شرکت اس وقت درست ہے ، جب کہ وہ مجلس منکرات سے خالی ہو، نہ گانا باجا ہو، نہ ریڈیو، مونوگرام ہو، نہ ڈھول و تاشا ہو، نہ کوئی دوسری چیز شریعت کے خلاف وہاں ہورہی ہو۔ اگر وہاں کوئی چیز شریعت کے خلاف ہو تو ہر گز دعوت میں شریک نہ ہو۔ شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ اگر پہلے سے یہ معلوم ہو کہ وہاں شریعت کے خلاف چیزیں جمع ہیں، تو وہاں ہرگز کھانے کے لیے نہ جائے ۔ جان بوجھ کر ایسی جگہ جانا گناہ ہے ۔ اور اگر پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں شریعت کے خلاف ہورہا ہے ، تو اگر وہ مقتدا ہے، یعنی لوگ اس کی باتوں کو سند پکڑتے ہیں اور شریعت کے بارے میں اس کی پیروی کرتے ہیں، تو اس پر لازم ہے کہ اس خلاف شرع چیز کو اپنے ہاتھ سے دور کرے، یا زبان سے منع کرکے دور کرے ۔ پھر وہاں بیٹھے۔ لیکن اگر وہ مقتدا نہیں ہے، لوگ اس کی باتوں کو سند نہیں پکڑتے ہیں اور اس کے روکنے پر وہ قدرت بھی نہیں رکھتا ہے، تو دل سے برا جانے اور ناچاری کو مجبوراً کھالے۔ عامی کو بدعت کی وجہ سے سنت کا چھوڑنا اولیٰ نہیں۔
لیکن اس عامی پر واجب ہے کہ ایسے مقام پر حاضر ہونے کو دل سے برا جانے۔ اگر خوشی سے اس مجلس میں بیٹھے گا اور دل سے اس فعل بد کو برا نہ سمجھے گا، تو اس کے ایمان برباد ہونے کا ڈر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرَاً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ، فَبِلِسَانِہِ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ،فَبِقَلْبِہِ، ذالِکَ أضْعَفُ الْایْمَانِ۔
(رواہ مسلم)
تم سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے مٹانا چاہیے ۔ اگر کوئی اس کی طاقت نہ رکھتا ہو،تو زبان سے مٹانا چاہیے ۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو، تو دل سے برا سمجھنا چاہیے۔ اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔
ناجائز دعوت
کچھ لوگ ایسے ہیں ، جن کی دعوت قبول کرنا درست نہیں، جیسے فاسق کی دعوت، شہرت چاہنے والے کی دعوت، مال کا اکثر یا کل حصہ حرام رکھنے والے کی دعوت۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور فرمایا : ایسے دو آدمیوں کی دعوت قبول نہ کی جائے۔ اور نہ ان کا کھانا کھایا جائے جو فخر ونمود کے لیے دعوت کرتے ہیں۔ (بیہقی)
عالمگیری میں ہے کہ جس کا اکثر مال حرام ہے، تو اس کی دعوت قبول نہ کرے، جب تک کہ وہ یہ نہ بتادے کہ میں یہ دعوت اپنے پاکیزہ مال سے کرتا ہوں۔ اور اگر اس کا اکثر مال حلال ہے، تو اس کی دعوت قبول کرے۔ البتہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دعوت اپنے حرام مال سے کر رہا ہے، تو اس وقت اس کی دعوت قبول نہ کرے۔ 
اور ملتقط میں ہے کہ جس کا اکثر مال حلال ہو ، اس کا ہدیہ قبول کرنے اور کھانے میں کچھ حرج نہیں ، اس لیے کہ لوگوں کا مال تھوڑے حرام سے خالی نہیں رہتا ہے ، اس لیے اعتبار اکثر کا ہے۔لیکن خواہ مخواہ لوگوں پر شبہ کرنا اور پوچھ گچھ کرنا درست نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب کسی مسلمان بھائی کے پاس جائے تو اس کا کھانا کھائے اور اس سے نہ پوچھے (حلال کا ہے یا حرام کا ) اور اس کے پینے کی چیز پیے اور نہ پوچھے (کیسا ہے)۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
اس لیے کہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان حلال ہی کھلاتا پلاتا ہے، البتہ اگر ظاہر ہوجائے کہ اس کے پاس حرام مال ہے اور اسی سے کھلاتا ہے، تو پھر ہرگز نہ کھائے، لیکن اگر وہ کہے کہ میں نے دعوت کے لیے یہ خاص طور پر حلال طریقے سے جمع کیا ہے اور تمھارا گمان غالب ہے کہ وہ اس بات میں سچا ہے تو اس کی دعوت قبول کرو۔ ورنہ رد کردو۔ لیکن اس شخص پر تعجب ہے جسے دعوت نہ دی جائے، مگر زبردستی دسترخوان پر جا بیٹھے۔ ایسے کے بارے میں حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: جو شخص بغیر دعوت کے کھانے کی مجلس میں گھستے ہیں ، وہ چور بن کر گھستے ہیں اور لٹیرے بن کر نکلتے ہیں۔ (ابو داود)
مرد کا حق عورت پر
اللہ تعالیٰ نے کچھ مردوں کا حق عورتوں پر رکھا ہے ۔ اور کچھ عورتوں کا حق مردوں پر رکھا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: 
وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ، وَالْلّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔(البقرۃ، آیۃ:۲۲۸ )
جس طرح مردوں کا حق عورتوں پر ہے اسی طرح عورتوں کا حق مردوں پر ہے، شرعی قاعدے کے موافق۔ اور مردوں کا عورتوں کے اوپر درجہ ہے ۔ اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کا حق ایک دوسرے کے اوپر ہے؛ مگر مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، اس لیے دونوں پر لازم ہے کہ باہم حقوق پہچانیں اور اس کے ادا کرنے کی کوشش فرمائیں۔ ان حقوق کے ادا کرنے ہی سے میاں بیوی کے تعلقات مضبوط رہ سکتے ہیں ۔ اور دونوں کی زندگی پر لطف گذر سکتی ہے ، اس لیے میں یہاں پر اختصار کے ساتھ دونوں کے حقوق بیان کرتا ہوں ۔ اول مردوں کے حقوق کا ذکر کرتا ہوں۔
مرد کا حق عورت پر یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کی خدمت کرے۔ ان کا ادب کرے ۔ نام لے کر نہ پکارے۔ ان کو تکلیف نہ دے۔ ان کی باتوں پر بیجا اعتراض نہ کرے۔کوئی امر خلاف شرع دیکھے، تو میاں کو ادب سے منع کرے۔ اس کے رو برو زبان درازی نہ کرے۔ اس کے رشتہ داروں سے تکرار نہ کرے۔ افلاس یا بد صورتی کی وجہ سے خاوند کو حقیر نہ سمجھے۔ ان کی اطاعت اور فرماں برداری کرے۔ شوہر کا بڑا درجہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَوْ کُنْتُ اٰمُرُ أحَدَاً أنْ یَّسْجُدَ لِأحَدٍ، لَأمَرْتُ الْمَرْأۃَ أنْ یَّسَجُدَ لِزَوْجِھَا (ترمذی)
اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو میں البتہ عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
لیکن چوں کہ شریعت میں خدا کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے ، اس لیے سجدہ کا حکم نہیں دیا۔ اگر سجدہ کرنا جائز ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ، کیوں کہ خاوند کا بڑا مرتبہ ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اگر خاوند کا تمام بدن زخمی ہواور عورت اپنے شوہر کے زخمی جسم کو زبان سے چاٹے، تب بھی اس کا حق ادا نہ ہو۔ (احمد) مطلب یہ ہے کہ شوہر کی ایسی خدمت کرنا، جس سے طبیعت گھن کرے، جیسے بیماری میں پیشاب پاخانہ کرانا، طہارت کرانا، زخم کو دھونا اور صاف کرنا وغیرہ، ایسی خدمت کے اداکرنے سے بھی عورت اپنے شوہر کے حقوق سے سبکدوش نہیں ہوسکتی ہے ، لہذا عورت کو چاہیے کہ ہر حال میں اپنے میاں کی فرماں برداری کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أیَّمَا اِمْرَأۃٍ مَاتَتْ وَ زَوْجُھَا عَنْھَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ
(ترمذی)
جو عورت ایسی حالت میں مری کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہے، تو جنت میں داخل ہوگی۔
اور آپ ﷺنے فرمایا:
اَلْمَرْأۃُ ا8ذَا صَلَّتْ خَمْسَھَا، وَصَامَتْ شَھْرَھَا، وَأحْسَنَتْ فَرْجَھَا، وَ أطَاعَتْ بَعْلَھَا، فَتَدْخُلُ مِنْ أیِّ أبْوَابِ الْجَنَّۃِ شَاءَتْ (رواہ ابو نعیم فی الحلیۃ)
جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کا روزہ رکھا، شرم گاہ کی حفاظت کی، اور اپنے شوہر کی فرماں برداری کی، تو جنت کے جس دروازے سے چاہے گی داخل ہوگی۔
یعنی عبادت گذار ، اطاعت شعار عورتوں کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھلے رہیں گے، جس سے چاہے گی جنت میں داخل ہوگی۔ لیکن اگر شوہر کی اطاعت میں کوتاہی کی، تو اس کے لیے خیر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ جو عورت بھی دنیا میں اپنے خاوند کو تکلیف دیتی ہے ، تو اس کی جنت کی بیویاں یعنی حوریں کہتی ہیں : خدا تجھے ہلاک کرے ، وہ تو تیرے پاس چند روز کا مہمان ہے ۔ بہت جلد وہ تجھ سے جدا ہوکر ہمارے پاس آنے والا ہے۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)
اور بھی آپ نے فرمایا کہ: تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے اور نہ اس کی نیکیاں اوپر چڑھتی ہیں : 
(۱) بھاگا ہوا غلام، یہاں تک کہ اپنے مالک کے پاس آجائے۔ اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیدے۔
(۲) عورت جس سے اس کا شوہر ناراض ہے، یہاں تک کہ وہ اس سے راضی ہوجائے۔
(۳) نشہ والا یہاں تک کہ اس کا نشہ ٹوٹ جائے۔ (بیہقی)
مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر ناراض ہے، تو نہ عورت کی نماز قبول ہے، نہ کوئی دوسری نیکی ، یہاں تک کہ اپنے شوہر کو راضی کرلے، اس لیے عورت پر دنیا میں سب سے زیادہ حق شوہر کا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أعْظَمُ النَّاسِ حَقَّاً عَلیٰ المَرْأۃِ زَوجُھَا، و أعْظَمُ النَّاسِ حَقَّاً عَلَیٰ الرَّجُلِ أمُّہُ۔ (رواہ الحاکم و صححہ)
سب سے بڑا حق عورت پر اس کے شوہر کا ہے ۔ اور سب سے بڑا حق مرد پر اس کی ماں کا ہے۔
اسی لیے حضور پر نور ﷺ نے فرمایا کہ: اگر مرد عورت کو حکم کرے کہ زرد پہاڑ کے پتھر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ کے پتھر سفید پہاڑ پر لے جائے ،تو عورت کو مناسب ہے کہ ایسا کرے۔ (احمد)
مطلب یہ ہے کہ مشکل کام پر بھی نافرمانی کی جرات نہ کرے۔ اور کام کے لیے ہر حال میں تیا ررہے ، چاہے کام بن پڑے یا نہ بن پڑے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :جب مرد اپنی عورت کو کسی حاجت کے لیے بلائے ، تو فورا حاضر ہوجائے، گرچہ تندور پر ہو۔ (ترمذی)
لیکن گناہ کی باتوں میں فرماں برداری درست نہیں۔ حدیث میں ہے کہ 
لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ 
کسی کی ایسی طاعت جس سے اللہ کی نافرمانی ہو، درست نہیں ہے۔
یعنی گناہ کی باتوں میں کسی کی اطاعت جائز نہیں: نہ شوہر کی، نہ پیر و استاذ کی۔ باقی دوسری باتوں میں اطاعت سے کوتاہی نہ کرے۔
اگر شوہر ہمبستر ہونا چاہے اور کوئی شرعی عذر نہ ہو تو ہرگز منع نہ کرے۔ حدیث میں ہے کہ: 
اذَا دَعَا الرَّجُلُ اِمْرَأتَہُ الَیٰ فِرَاشِہِ، فَأبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ ، لَعَنَتْھَا الْمَلَاءِکَۃُ حَتّیٰ تُصْبِحَ۔ (متفق علیہ)
جب شوہر اپنی عورت کو بستر پر بلائے اور عورت انکار کردے۔ پھر غصہ میں خاوند رات گذارے، تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے ہیں۔
لیکن اگر صحبت عورت کو مضر ہو بیماری وغیرہ کی وجہ سے، تو پھر مرد کے لیے صحبت کرنا جائز نہیں۔ (تحفۃ الزوجین)
بعضوں نے لکھا ہے کہ میاں کے بیوی پر دس حقوق ہیں:
(۱) پہلا یہ کہ جس وقت خاوند ہمبستر ہونا چاہے، جس حال میں ہو منع نہ کرے؛ مگر حیض و نفاس میں، یعنی عذر شرعی اور طبعی کے علاوہ مانع نہ ہو۔ بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، ایسا کوئی مرد نہیں، جو اپنی عورت کو بچھونے پر بلائے ، پھر وہ انکار کرے، مگر وہ ذات کہ آسمان پر ہے، اس عورت سے ناراض ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ خاوند اس سے راضی ہوجائے۔
(۲) دوسرا یہ کہ خاوند کے گھر سے کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر نہ دے۔ قرآن مجید میں ہے کہ: 
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ الْلّٰہُ 
(النساء، آیۃ:۳۴)
سو جو عورتیں نیک ہیں، اطاعت کرتی ہیں۔ اللہ کی حفاظت میں شوہر کے پیچھے عزت و آبرو اور مال کی حفاظت کرنے والی ہیں۔
یعنی نیک عورتیں سامنے اطاعت اور پیٹھ پیچھے مال کی حفاظت کرتی ہیں۔ 
(۳) تیسرا یہ کہ نفلی روزہ اس کے حکم کے بغیر نہ رکھے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔ (ابو داود، ابن ماجہ)
(۴) چوتھا یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے۔ 
(۵) پانچواں یہ کہ خاوند کا عیب کسی کے آگے بیان نہ کرے۔
(۶) چھٹا یہ کہ حاجت سے زیادہ اس سے کوئی چیز نہ مانگے۔
(۷) ساتواں یہ کہ اس کی خوشی پر خوش اور اس کے رنج پر غمگین ہوجائے۔
(۸) اٹھواں یہ کہ خاوند کو کسی بات پر غیرت نہ دلائے۔
(۹) نواں یہ کہ ہمیشہ اپنے کو پاکیزہ رکھے اور جو کام خاوند کو ناپسند ہو، نہ کرے۔
(۱۰) دسواں یہ کہ اولاد کو بد دعا نہ دے۔ (رفاہ المسلمین)
اور بعضوں نے اس سے بھی زیادہ بیان کیے ہیں ۔ چنانچہ انیس الواعظین میں مرد کے اکیس حق عورت پر اور اسی قدر عورت کے حقوق مردوں پر لکھے ہیں۔ مردوں کے ان اکیس حقوق میں سے دس تو وہ ہیں، جن کا اوپر تذکرہ ہوا۔ اور باقی گیارہ یہ ہیں:
(۱۱) اگر خاوند کسی سے سوال کرے، تو عورت منع کرے کہ سوال کرنے میں بے عزتی ہے ۔
(۱۲) غصہ کے وقت عورت سخت جواب نہ دے۔
(۱۳) فقرو فاقہ کی حالت میں اس کی حقارت نہ کرے؛ بلکہ تھوڑے پر قناعت کرے اور اس کا شکر ادا کرے۔
(۱۴) خاوند بیمار ہو تو اس کی خدمت گذاری میں کوتاہی نہ کرے۔
(۱۵) اگر خاوند کمزوری کی وجہ سے محنت و مزدوری کے لائق نہ رہے، تو خود محنت مزدوری کرے، اور اس کے واسطے کھانا حاضر کرے۔
(۱۶) اس کے واسطے ہمیشہ خیرو برکت کی دعا کرتی رہے۔
(۱۷) ذکر الٰہی میں مشغول رہے۔
(۱۸) دہلیز کے پاس نہ بیٹھے۔
(۱۹) بالا خانہ پر چڑھ کر ادھر ادھر نہ دیکھے اور نہ باہر جھانکے۔
(۲۰) شوہر کے مرنے کے بعد چار مہینے دس روز سوگ کرے یعنی بناو سنگار چھوڑ دے۔مہندی نہ لگائے۔ سرخ چوڑی نہ پہنے۔ زعفرانی رنگ کا کپڑا استعمال نہ کرے۔ سر میں تیل اور آنکھوں میں کاجل نہ لگائے۔ خاوند کے گھر سے باہر نہ جائے۔صبرو سکون سے وہیں رہے۔ چلاکر رونا، چھاتی کوٹنا، کپڑے کو پھاڑنا حرام ہے، ان سے پرہیز کرے۔ 
(۲۱) جب چار ماہ دس روز پورے ہوجائیں، تو سوگ کو ختم کرے۔ رنگین کپڑے اور چوڑیاں وغیرہ جو سوگ میں حرام تھیں، وہ اب حلال ہوگئیں۔ اب اپنے استعمال میں لائے۔
ان حقوق کو ادا کرنے میں عورتیں کوتاہی کریں، تو اول مرد عورت کو سمجھائے کہ اپنی ناشائستہ حرکت سے باز آجاؤ۔ اگر وہ مان جائے تو بہت بہتر۔ ورنہ اس سے الگ سوئے ۔ ناراضگی کا اظہار کرے ۔اور اس پر متنبہ ہوکر مان جائے تو بہت خوب؛ ورنہ پھر اس کو مارے، دھمکائے اور اس طرح سے اس کو راہ راست پر لائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَاللَّاتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوھُنَّ ، فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً،إِنَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلِیَّاً کَبِیْرَاً۔ (النساء آیۃ: ۳۴)
اور ایسی عورتیں جن کی نافرمانی کا تم کو ڈر ہے ، پس انھیں سمجھاؤ۔ اور ان سے الگ سوؤ۔ اور انھیں مارو۔ پس اگر وہ تمھاری اطاعت کرنے لگیں، تو (انھیں ایذا دینے کے لیے ) پھر کوئی راستہ مت ڈھنڈو۔ بے شک اللہ بہت بلند عظیم مرتبہ والا ہے ۔ 
فتاویٰ قاضی خاں میں ہے کہ مرد اپنی عورت کو چار باتوں کے لیے مار سکتا ہے:
(۱) شوہر عورت سے زینت چاہتا ہے اور وہ زینت نہیں کرتی ہے۔
(۲) عورت حیض و نفاس سے پاک و صاف ہے اور مرد ہمبستر ہونا چاہتا ہے اور عورت منع کرتی ہے۔
(۳) عورت نماز نہیں پڑھتی ہے۔
(۴) عورت بے اجازت گھر سے باہر نکلتی ہے۔
اور خازن میں ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مارنا مباح ہے اور نہ مارنا افضل ہے۔
اگر سمجھانے بجھانے ، ڈرانے دھمکانے اور مارنے پیٹنے پر بھی راہ پر نہیں آتی اور نافرمانی کی راہ چلتی ہے، تو طرفین سے پنچ مقرر کرو، تاکہ وہ دونوں کے حق میں بہتر فیصلہ کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے کہ: 
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوا حَکَمَاً مِّنْ أھْلِہِ وحَکَمَاً مِّنْ أھْلِھَا انْ یُّرِیْدَا إِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ الْلّٰہُ بَیْنَھُمَا انَّ الْلّٰہَ کَانَ عَلِیْمَاً خَبِیْرَاً( النساء، آیۃ ۳۵)
اگر زن و شوہر کے درمیان کشا کشی کا اندیشہ ہو، تو ایک آدمی خاوند کے اہل سے اور ایک آدمی عورت کے خاند ان سے بھیجو۔ اگر دونوں اصلاح کا ارادہ رکھتے ہیں، تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ جاننے والا خبر دار ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جب مرد و عورت میں جھگڑا ہو، تو اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے جانبین سے پنچ مقرر ہو۔ اگر نیت اصلاح کی ہے ، تو اللہ اصلاح کرے گا۔ اور آپس کے اختلاف کو دور کرے گا۔
اگر نیت اصلاح کی نہیں ہے، توپھر تفریق ہوگی۔ بہرحال جو کچھ ہوگا ٹھنڈے دل سے ہوگا۔ اور یہ دونوں کے حق میں بہتر ہوگا۔ مگر آج اس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ جہاں عورت نے مرضی کے خلاف کیا ، شوہر کا مزاج رنگین ہوا اور طلاق دی۔ اور ایک دم ایک سے تین طلاق پوری کردی۔ جب غصہ فرو ہوا اور نتیجہ پر غور کیا، خون کے آنسو رونے لگے۔ کسی نے مغلظہ کے بعد بھی عورت کو نہ چھوڑا اور زن و شوہر کا تعلق باقی رکھا اور ساری عمر حرام کاری میں مبتلا رہا اور اولاد حرام ہوتی رہی۔ 
یہ ساری خرابی اسی لیے آئی کہ خدا کے بتائے ہوئے طریقہ پر اختلاف کو دور نہ کیااور نفسانیت میں آکر فورا طلاق دے بیٹھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مرد بنایا تھا، عورتوں پر حاکم، تحمل سے کام لینا چاہیے۔ شیخ سعدی نے فرمایا ہے : ؂
سر پُر غرور از تحمل تہی
حرامش بود تاج شاہنشہی
جو سر غرور سے بھرا ہوا اور برداشت سے خالی ہو، اس پر بادشاہی تاج حرام ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں کے بارے میں تم میری بہتر وصیت قبول کرو۔ عورتیں ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر کی پسلی ہے( اس لیے خلقۃ عورتیں ٹیڑھے مزاج کی ہوتی ہیں )۔ اگر تم اس کو سیدھی کروگے، تو وہ ٹوٹ جائے گی ( یعنی نوبت طلاق کو پہنچے گی) اور اگر تم نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا، تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی ، پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت قبول کرو۔ (بخاری و مسلم)
یعنی اس کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے اس کو سیدھی کرنے کی کوشش کرو۔ اس کو سمجھاؤ بجھاؤ، ڈانٹو ڈپٹو، ہلکا مار بھی دو۔ اور اس کے ساتھ اس سے فائدہ بھی اٹھاؤ۔ اچھے سلوک سے اپنی طرف مائل کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہے۔ (ترمذی)
(طلاق کا بیان)
بہر حال طلاق ایک آخری چیز ہے۔ جب کسی طرح سے بن نہ پڑے، تو اس کو پاکی کے اندر صرف ایک طلاق دے کر چھوڑ دو۔ یہ سب سے بہتر طلا ق ہے۔ ممکن ہے عورت اپنی ناشائستہ حرکت پر نادم ہو اور اپنے گناہوں پر معافی مانگے اور فرماں برداری کا وعدہ کرے، تو ایک طلاق کی صورت میں جب کہ رجعی ہو، تو اس سے رجعت کرسکتا ہے ۔ اور پھر اس کو بیوی بناکر بغیر نکاح کے رکھ سکتا ہے ، یعنی عدت کے اندر اور عدت کے بعد اس سے نکاح کرسکتا ہے ۔ اور اگر اس طلاق پر بھی نادم نہ ہو، اور اس کا چھوڑنا ہی ضروری ہو تو اس کو چھوڑ دے اور عدت پوری ہونے کے بعد اپنے گھر سے باہر کردے ۔ اب وہ بیوی نہیں رہی۔ یہ فائدے ایک یا دو طلاق رجعی میں حاصل ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ: 
اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ، فَامْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أوْ تَسْرِیْحٌ بِاحْسَانٍ (البقرۃ، آیۃ:۲۲۹) 
(وہ طلاق جس میں رجوع کرنا درست ہے) وہ دو طلاق ہیں (صریح)۔ پھر قاعدے کے موافق روک رکھنا ہے، یا خوش عنوانی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔
لیکن اگر ایک ہی مرتبہ میں تین طلاقیں دیدی جائیں ،تو پھر رجعت کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں گناہ بھی ہے۔ چنانچہ حضرت عبدا للہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا :یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی کیا رائے ہے اگر میں انھیں تین طلاق دیدوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
اذَاً قَدْ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَ بَانَتْ مِنْکَ اِمْرَأتُکَ 
(دار قطنی ابن ابی شیبہ)
اس وقت تو اپنے پروردگار کا نافرمان ہوگا اور تیری عورت تجھ سے جدا ہوجائے گی۔
ایک روایت میں ہے کہ کسی شخص نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ ایک شخص نے اکٹھے اپنی عورت کو تین طلاقیں دیں، تو آپ ﷺ غصہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا : کیا وہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کرتا ہے ، حالاں کہ میں ابھی تمھارے درمیان میں ہوں ۔ اس پر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟ (نسائی)
معلوم ہوا کہ تین طلاق اکٹھے دینا قبیح ہے ۔ تین طلاق واقع تو ہوجاتی ہیں ، لیکن ساتھ ہی وہ گناہ گار بھی ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے درجۂ مجبوری میں طلاق کو جائز رکھا ہے۔ حدیث میں ہے کہ :
أبْغَضُ الْحَلَالِ الَیٰ الْلّٰہِ الطَّلَاقُ
( رواہ ابو داود، وابن ماجہ و صححہ الحاکم)
اللہ کے نزدیک طلاق حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے وقت تک طلا ق جائز ہے ، مگر بلا حاجت بہت بری بات ہے، اس لیے کہ نکاح باہم الفت اور محبت کے لیے ہوتا ہے ۔ اور طلاق سے محبت ٹوٹتی ہے اور خدا کی نعمت کی ناشکری ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نکاح کرو، طلاق نہ دو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بہت مزہ چکھنے والے مرد اور بہت زیادہ مزہ چکھنے والی عورت کو دوست نہیں رکھتا۔ 
یعنی خواہ مخواہ بیوی کو چھوڑ کر بیوی کرنے والا اور شوہر کو چھوڑ کر شوہر کرنے والی کو خدا ناپسند کرتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ عورتوں کو طلاق نہ دی جائے ، مگر بدچلنی کی وجہ سے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بہت مزہ چکھنے والے مرد اور بہت مزہ چکھنے والی عورت کو دوست نہیں رکھتا۔ 
معلوم ہوا کہ بد چلنی پر طلاق دینا درست ہے ، ویسے طلاق دینا ٹھیک نہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نکاح کرو، طلاق نہ دو، اس لیے کہ طلاق دینے سے عرش ہلتا ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اپنے عرش کو پانی پر رکھتا ہے ۔ پھر اپنے لشکروں کو (بہکانے کے لیے) بھیجتا ہے۔ اور جو جتنا بڑا فتنہ برپا کرتا ہے ، وہ اتنا ہی شیطان کے قریب ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک کہتا ہے کہ ہم نے یہ کیا، اور یہ کیا ، تو شیطان کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا۔ اور ان میں سے ایک آکرکہتا ہے کہ میں نے فلاں کو پکڑا اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال کر ہی چھوڑا، تو اس کو اپنے گلے سے لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بہت بڑا کام کیا ۔
واقعی بہت بڑا کام کیا کہ جس متاع سے ایمان کی حفاظت ہوتی تھی، اس کو لوٹ لیا ۔ حدیث میں نکاح کو نصف ایمان کہا ہے ۔ اس طرح اس نے آدھا ایمان برباد کردیا ۔ ائے وائے انسان کے حال پر !کہ طلاق دے کر آدھا ایمان برباد کرلیتا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ: 
أیَّمَا امْرَأۃٍ سَئلَتْ زَوْجَھَا طَلَاقَاً فِیْ غَیْرِ مَا بَاسَ، فَحَرَامٌ عَلَیْھَا رَاءِحَۃُ الجَنَّۃِ ۔
(رواہ احمد والترمذی و ابو داود وابن ماجہ والدارمی)
جو عورت بغیر سخت مجبوری کے طلا ق طلب کرے ، تو جنت کی خوشبو اس پر حرام ہے۔
اس لیے نہ مرد کے لیے روا ہے کہ وہ اپنی عورت کو بغیر مجبوری طلاق دے ۔ اور نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ بغیر سخت مجبوری کے وہ طلاق لے اور خلع کرائے؛ بلک ناگوار باتوں کو برداشت کرے اور اچھی باتوں سے فائدہ اٹھائے ۔ ہر ایک کے اندر کچھ نہ کچھ خوبیاں ہیں اور کچھ نہ کچھ برائیاں ، جہاں پھول ہے ، وہاں کانٹا بھی ہے ، جہاں دولت ہے، وہاں اژدہا بھی ہے۔ ؂
خیال اس کا رہے دیکھو گلے جلدی سے مل جانا
اگر آپس میں ہوجائے کبھی تکرار تھوڑی سی 
عورت کا حق مرد پر
عورت کا حق ہے کہ جب وہ شوہر کے گھر رہنے لگے، تو شوہر اس کو کھانا، کپڑا، رہنے کے لیے ایک کمرہ دے۔ اس کو دین اسلام کی باتیں سکھائے ۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا عورت کا کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :جب تم کھاؤ تو انھیں بھی کھلاؤ ،اور جب پہنو تو انھیں بھی پہناؤ۔ منہ پر نہ مارو۔ انھیں رسوا نہ کرو۔ گھر کے اندر ان سے علاحدگی اختیار نہ کرو۔ (احمد ، ابو داود، ابن ماجہ)
عالمگیری کے اندر ہے کہ عورت کا نفقہ واجب ہے ، خواہ مسلمہ ہو یا ذمیہ، غریب ہو یا امیر، اس کے ساتھ دخول کیا ہو ، یا نہیں، چھوٹی ہو یا بڑی۔
اور تحفۃ الزوجین میں ہے کہ جب کہ عورت قابل جماع ہو اور وہ اپنے کو خاوند کے حوالہ کردے۔ اگرچہ شوہر چھوٹا ناقابل جماع ہو، تو اس عورت کا کپڑا اور رہنے کے لیے ایک مکان علاحدہ جس میں کوئی دوسرا نہ رہتا ہے ، دینا واجب ہے۔اور کھانا ،کپڑا دونوں کے حال کے مناسب ہوگا۔ اور اگر خاوند مالدار ہو، تو ایک خادم بھی دینا ہوگا ۔ لیکن اگر عورت نافرمان ہے، یا صغیرہ ناقابل جماع ، تو اس صورت میں عورت کا نان ونفقہ واجب نہیں۔
اور رفاہ المسلمین میں ہے کہ غسل کے سامان جیسے کھلی، تیل پانی وغیرہ ہر ہفتہ میں فراغت کے ساتھ مہیا کرے ۔ مقدور ہو، تو سونا چاندی کے زیور بھی دے۔ اگر اس کو زیاد ہ جہیز نہ ملا ہے، تو دوسری عورتوں کا جہیز بیان کرکے شرمندہ نہ کرے۔اس کے ماں باپ ، بھائی بہن کے ساتھ احسان و سلوک کرے ۔ ان کو گالی نہ دے ، ورنہ فرشتہ اس پر لعنت کریں گے۔ جب سفر سے واپس آئے، تو اپنی عورت کے لیے کچھ تحفے تحائف بھی ساتھ لائے اور تلطف اور مہربانی سے دل خوش رکھے۔ 
مولانا تھانوی ؒ امداد الفتاویٰ جلد دوم میں فرماتے ہیں کہ
زوج پر زوجہ کے یہ حقوق ہیں:(۱) حسن خلق۔ (۲) برداشت کرنا ایذا کا مگر باعتدال۔ (۳)اعتدال کرنا غیرت میں، یعنی نہ بدگمانی کرے نہ بالکل غافل ہوجائے۔ (۴) اعتدال خرچ میں، یعنی نہ تنگی کرے نہ فضول خرچی کی اجازت دے۔ (۵) احکام حیض وغیرہ کے سیکھ کر اس کو سکھانا اور نماز اور دین کی تاکید رکھنا اور بدعات اور منہیات سے منع کرنا۔ (۶) اگر کئی عورتیں ہوں ، ان کو برابر رکھنا حقوق میں۔ (۷) بقدر حاجت اس سے وطی کرنا۔ (۸) بدون اجازت عزل نہ کرنا۔ (۹) بدون ضرورت طلاق نہ دینا۔ (۱۰) بقدر کفایت رہنے کو گھر دینا۔ (۱۱) اس کے محارم اقارب سے اس کو ملنے دینا۔ (۱۲) اس کا راز ظاہر نہ کرنا جماع وغیرہ کا ۔ (۱۳) حد سے زیادہ نہ مارنا اور مثل ان کے۔
دو بیویوں کا حق
اگر دو یا دو سے زیادہ بیویاں ہوں، تو ان بیویوں کے درمیان عدل (برابری) کرنا واجب ہے۔ہر ایک کو علاحدہ مکان میں رکھے۔ اور ہر ایک کے پاس رات قیام میں مساوات برتے۔ اگر کسی ایک کے پاس ایک رات گذارے، تو دوسری کے پاس بھی ایک رات گذارے۔ اور اگر ایک کے پاس دو رات گذارے، یا دو سے زیادہ، تو دوسری کے پاس بھی دو رات، یا دو سے زیادہ رات گذارے۔ دونوں کو ایک کوٹھری میں رکھنا، یا شب باشی میں کم و بیش کرنا، یا کھانے ، کپڑے میں کم و بیش کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: 
اذَا کَانَتْ عِندَ الرَّجُلِ اِمَرْأتَانِ ، فَلَمْ یَعْدِلْ بَیْنَھُمَا جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ شِقُّہُ سَاقِطٌ۔ 
(رواہ الترمذی و ابو داود و نسائی و ابن ماجہ)
جب کسی مرد کے پاس دو بیویاں ہوں ، پھر ان دونوں کے درمیان عدل نہ کرے، تو قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا بدن گرا ہوا ہوگا۔
اور در مختار میں ہے کہ بیویوں کے پاس رات کے رہنے میں اور کھلانے، پلانے، پہنانے اور صحبت میں برابری کرنا واجب ہے۔ محبت اور جماع کرنے میں واجب نہیں ؛ بلکہ مستحب ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ 
وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْا أنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْ کُلَّ الْمَیْلِ(النساء، آیۃ: ۱۲۹)
عورتوں کے درمیان تم عدل کرنے کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے ہو اگر چہ تم اس کی خواہش کرو، پس کسی ایک طرف بالکل نہ جھک پڑو۔
یعنی محبت، بے اختیاری چیز ہے۔ اس کے اندر تو عدل نہیں ہوسکتا، لیکن اس محبت کی وجہ سے تم دوسری چیزوں میں بھی عدل کرنا چھوڑ دو اور کسی ایک کی ہورہو، ایسا بھی نہ کرو؛ بلکہ دوسرے معاملات میں انصاف کرو۔ اور برابر کا برتاؤ کرو؛ ورنہ قیامت کے دن حدیث کے مطابق برا حال ہوگا۔
قسط نمبر (7) کے لیے کلک کریں